تازہ ترین سلسلہ(24)
فضیل احمد ناصری
رکھّا تمہیں نے اس کو، جب بت بنا بنا کر
ہر زخم کھا لے دل پر، ہر غم کا سامنا کر
مومن ہوں، یا کہ گائیں، دونوں کو مار ڈالا
ان کو بڑھا بڑھا کر، ہم کو گھٹا گھٹا کر
مغرب نے یوں سنائی، جمہوریت کی لوری
ملت کو نیند آئی، گویا افیم کھا کر
کھلتی ہیں حادثوں پر، اہلِ وطن کی بانچھیں
کلموں کے ورد والے، روئیں جو بلبلا کر
یارب بنا ہے مقتل، اب گلستاں ہمارا
مالی بلا رہا ہے، نیزے دکھا دکھا کر
رو رو کے ہم نے کی تھی، تعمیرِ آشیانہ
ہنستا ہے وہ ستم گر، سب آشیاں جلا کر
کچھ اس ادا سے آئی، جلووں کی باڑھ توبہ!
ایمان رہ گیا ہے، لوگوں کا ڈگمگا کر
ڈر ہے، کہیں مسلماں مذہب سے پھر نہ جائیں
گزرے ہے عمرِ ساری، قشقہ لگا لگا کر
اردو بھی دہریت کے سانچے میں ڈھل رہی ہے
مذہب سے بھاگتی ہے، اب یہ بھی منہ چھپا کر
پہنی قباے حکمت، ملت کے قائدوں نے
کرتی ہے بت تراشی، امت بھی تنگ آ کر