تازہ ترین سلسلہ(21)
فضیل احمد ناصری
دن نیا، صبح نئی، شام نئی، رات نئی
اہلِ مسند کی ہوا کرتی ہے ہر بات نئی
اس کے حلیے پہ نہ جاؤ، نہ کوئی بات سنو
روز ایجاد کرے ہے وہ خرافات نئی
بھیج کر خون میں لتھڑی ہوئی لاشیں بولے
پیش ہے آپ کی خدمت میں یہ سوغات نئی
مفتئ شاہ نشیں سے نہ مسائل پوچھو
لے کے آجائیں گے زنبیل سے آیات نئی
بلبلو آؤ مرے پاس کہ مل کر روئیں
درد تیرا بھی نیا ہے، مری آفات نئی
قتل کرتے ہیں، مگر تیغ، نہ خوں کے چھینٹے
اب کے دکھلانے لگے وہ بھی کرامات نئی
اب تو آنسو نہیں، آنکھوں سے لہو بہتے ہیں
آؤ، دیکھو، مرے ساون کی یہ برسات نئئ
پیار ہے تم کو وطن سے تو بتوں کو پوجو
کج کلاہوں نے تراشی ہیں علامات نئی
یاد برما کی جو آتی ہے تو دل پھٹتا ہے
کفر والوں نے دکھائی ہے مدارات نئی
ہم کو رونے دو کہ رونے سے سکوں ملتا ہے
درد والوں نے چلائی ہیں روایات نئی