دہلی:غالب اکیڈمی کے زیر اہتمام آزادی کے بعد پچہتر سال میں غالب تنقید پر ایک نیشنل سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔پہلے اجلاس میں پروفیسر وہاج الدین علوی نے اپنے مقالے میں کہا کہ پچہتر سال میں غالب پر بہت کام ہوا ہے۔غالب نے کوئی فلسفہ نہیں پیش کیا وہ فلسفی دل کے مالک تھے۔ وہ معنی آفرینی کے شاعر تھے۔انھوں نے غالب کے شارحین اور ناقدین کا خصوصی ذکر کیا۔شمیم طارق نے اپنے مقالے پچہتر سال میں غالب تنقید کے رجحانات پر بولتے ہوئے کہا کہ غالب، تنقیدکا نقطہئ آغاز ہے۔ غالب نے اپنے بہت سے اشعار کو دیوان سے الگ کردیاتھا۔پچہتر سال میں غالب تنقید کے سب سے اہم نقاد شمس الرحمان فاروقی ہیں۔ دوسرے گوپی چند نارنگ کی کتاب بھی بہت اہم ہے۔ غالب نے سر سید اور شبلی دونوں کو متاثر کیا تھا۔پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ غالب کا اصل ماخذ بیدل ہے۔گوپی چند نارنگ غالب پر لکھتے ہوئے حالی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔پہلے اجلاس میں شاداب تبسم نے اسلوب احمد انصاری کی غالب تنقید پر مقالہ پڑھا۔خوسے مورالیس نے کہا کہ مغرب کے لوگ فارسی اصطلاحات اور تلمیحات کو نہیں سمجھتے ان کا ترجمہ اسپینش میں ممکن نہیں ہے جب کہ اسلامی اصطلاحات اور تلمیحات کو سمجھانے میں دشواری نہیں ہوتی۔پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر جی آر کنول نے کی۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی افضال حسین نے کی،انھوں نے کہا کہ غالب کا زور معنی کو چھپانے میں تھا۔ پروفیسر قاضی جمال حسین نے آل احمد سرور کی غالب تنقید پر بولتے ہوئے کہا کہ آل احمد سرور نے غالب پر پچیس مضامین لکھے۔ترجمے وتبصرے الگ ہیں۔اپنی تنقید میں انھوں نے حالی سے مکالمہ قائم کیا ہے۔ سرور صاحب کے مطابق غالب کی عظمت متروک کلام کی وجہ سے ہے۔سرور صاحب نے غالب کے متن پر گفتگو کی ہے۔ شعر میں پیچیدگی ہونی چا ہیے۔سرور صاحب کی تنقید امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔اس سے نئی راہیں کھلتی ہیں۔ دوسرے اجلاس میں حنا آفرین اور صالحہ عاصم نے شمیم حنفی کی غالب تنقید پر مضمون پڑھا،کیلاش وششٹھ سمیر نے ہندی میں غالب تنقیداور ڈاکٹر گیتانجلی کالا نے انگریزی میں غالب تنقید پر مقالہ پڑھااور ڈاکٹر خالد علوی نے غالب کے کم معروف ناقدین پر مقالہ پڑھا۔ پروفیسر ابو بکر عباد نے علی گڑھ کے غالب ناقدین کا ذکرکیا۔ڈاکٹرنفیس بانو نے محمد حسن کی غالب تنقید پر مضمون پڑھا۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر خالد اشرف نے ادا کئے۔
26 فروری, 2023
جماعت اسلامی ہند کی جانب سے جلسۂ عام کا انعقاد، ملک و ملت کی بہتری اور ترقی پر علما و دانشوران کا خطاب
نئی دہلی: "اس وقت کرنے کا جو کام ہے وہ یہ کہ ہم ملک عزیز کے گلی -کوچوں میں دلوں اور دماغوں کو جیتنے کی مہم چھیڑدیں ۔تاریخ کے ابواب میں قلعے فتح کرنے والے ہمارے ہیروز قرار پاتے ہیں، لیکن اس وقت ہم سب کو جن حالات کا سامنا ہے ان میں ہمارے ہیرو وہ لوگ ہوں گے جو دل اور دماغ فتح کریں گے۔دلوں کو اور دماغوں کو ہمیں فتح کرنا ہے اسی سے یہاں حالات بہتر ہوں گے۔ دماغ فتح ہوتے ہیں ربط و تعلق بحال کرنے سے ،غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے سے اور صحیح بات اور صحیح پیغام پہنچا کر جبکہ دل فتح ہوتے خدمت خلق اور بے لوث انسانوں کی خدمت کرکے، ان کےمسائل حل کرکے، ان کے کام آکر۔اس کرنے کا اہم کام یہی ہے کہ ہم اپنے اصولوں اور نظریہ جمے رہیں اور ملک عزیز کی عام آبادی سے رشتہ قائم کریں ، اس کے ذہنوں کو بدلیں ، نفرتوں کو مٹائیں اور ان کے دلوں اور دماغوں کو فتح کرنے کی مہم چلائیں۔” ان الٖاظ کے ذریعہ جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئےامیر جماعت جناب سید سعادت اللہ حسینی نے مزید کہا کہ” نوجوانوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ آئندہ پانچ برسوں میں اس ملک میں ایسی فضا بن جائے کہ یہاں عام برادران وطن کے لیے اسلام کو جاننے کا ذریعہ میڈیا نہ ہوبلکہ اس کا اپنا مسلمان دوست ہو۔اس کو میڈیا کے بجائے اپنے مسلمان دوست سے معلوم ہو کہ اسلام کیا ہے۔ ”
ملک میں مضطرب حالات پر انہوں نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہو کہا کہ”آج کے آزمائیشی حالات ہم سے متقاضی ہیں کہ ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہوگااور یہ یقین پیدا کرنا ہوگا کہ جوخدا ایک اندھے کنویں اور زندان کی شدید صعوبتوں کو حضرت یوسف کے لیے مصر کے تاج وتخت کے زینے کی سیڑھیاں بنا سکتا ہے وہی اللہ رب کائنات آج کی ان آزمائشوں کے ذریعہ ہمارے مستقبل کی بھی بہتر تدبیر ضرورکر رہا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "فرقہ پرست اور اسلام مخالف طاقتیں آپ کو ہمیشہ اپنے بنیادی نصب العین سے گمراہ کر نے کے تمام تر حیلے اور تدبیریں اختیار کر رہی ہیں لیکن ملک کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایمان پر قائم رہتے ہوئے اس ملک میں حق و انصاف کے علمبردار بنیں اور اسلام کے پیغام کی اشاعت کا فریضہ مسلسل انجام دیتے رہیں۔”
واضح رہے کہ جماعت اسلامی ہند 1948 میں اپنے قیام کے 75 برس پورے کر رہی ہے۔اس موقع پر ملک کے مختلف گوشوں میں مختلف پروگراموں اور سرگرمیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی ہند کے حلقہ دہلی نے ملّی ماڈل اسکول کے گراؤنڈ آج ایک جلسہ عام کا انعقاد کیا ۔ اس جلسہ امیر حلقہ جناب عبد الوحید صاحب نے جماعت کی تاریخ اور اس کے قیام کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور حلقہ کی گرانقدر سرگرمیوں سے عوام کو روشناس کرایا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ”جماعت نے اس ملک عزیز ہندوستان میں قرآن کے پیغام کی اشاعت کا گرانقدر و عظیم فریضہ اپنے قیام کے روز اول سے انجام دیا ہے۔ جماعت نے ملک کی تقریباً اہم ترین زبانوں میں قرآنی پیغام عام کے لیے قران کے ترجمہ کرائے تاکہ عوام اپنی زبان میں قرآن کو سمجھے اور اس پر عمل کر سکے۔”
اس موقع پر طلبہ تنظیم اسٹودنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا(SIO)کے جنرل سیکریٹری جناب سلمان خان نےبھی خطاب کیا اور کہا کہ”کسی بھی سماجی انقلاب کے روح رواں نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات آپ کو مایوسی کے دہانے پر لے جائیں گے لیکن آپ کو کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہونا ہے بلکہ نوجوانوں کو اللہ سے ویسی ہی امید رکھنی چاہیے جیسے حضرت محمد ﷺ نے آزمائیشوں ، مصویبتوں اور آلام کے وقت باندھی تھی لیکن شرط یہ ہے آپ اپنے اخلاق و کردار کو ہمیشہ بلند رکھیں اور طلبا برادری میں اسلام کے پیغام کی ترسیل مسلسل جاری رکھیں تو اللہ ویسی ہی مدد آپ کی بھی فرمائے گا کہ جس طرح وہ اپنے انبیاء، صدیقین و صالحین کی کرتا ہے۔”
ڈاکٹر قاسم رسول الیاس (رکن، مرکزی مجلس شوریٰ، جماعت اسلامی ہند) نے بھی اپنے خطاب میں مسلمانوں کو موجودہ حالات میں اسی اسوہ نبوی ﷺکو اختیار کرنا چاہیے کہ جس طرح صحابہ کرام نے اختیار کیا تھا اور کامیابیاں اپنے نام کی تھیں۔
اس کے علاوہ حلقہ دہلی کی سکریٹری ڈاکٹر تنویر فاطمہ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر مشہور شاعر جناب انتظار نعیم صاحب نے جماعت اسلامی ہند کے 75 برس پورے ہونے کو موقعے پر اپنا ایک منظوم کلام بھی پیش کیا۔ اس جلسہ میں دہلی کے مختلف گوگوشوں ہزاروں مرد وخواتین کے ساتھ طلبہ و طالبات نے بھی شرکت کی۔ اس جلسہ کی نظامت کے فرائض جماعت اسلامی ہند کے حلقہ دہلی کے سکریٹری جناب آصف اقبال صاحب نے انجام دیے۔ جناب عبد المنان صاحب کے کلمات تشکر و دعا پر اس جلسہ کا اختتام ہوا۔
مجھے سفر پر نکلنا تھا ، لیکن مولانا ظفر اقبال مدنی ، ناظم جامعۃ القاسم سوپول( بہار) کا کئی بار میسیج آیا اور برادر مکرم محمد خالد اعظمی کا بھی کہ میں شرکت کروں ، چاہے تھوڑی دیر کے لیے ہی – یہ نشست تھی کتاب ‘ ہندوستان اور کویت : تاریخی ، علمی اور ثقافتی رشتے’ کی تقریب اجرا کی ، جو مرکز جماعت اسلامی ہند سے متّصل ہوٹل ریور ویو میں منعقد ہورہی تھی –
اس تقریب کی صدارت پروفیسر اختر الواسع پروفیسر ایمیریٹس شعبۂ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے کی – مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر اقتدار محمد خان چیرمین شعبۂ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور مولانا اصغر علی امام سلفی امیر جمعیت اہل حدیث ہند شریک ہوئے ۔ کتاب پر اظہار خیال جناب سہیل انجم ، ڈاکٹر مفضل ، ڈاکٹر خالد مبشر ، مولانا منظر امام قاسمی ، جناب شمس تبریز قاسمی ، جناب سراج نقوی مولانا امتیاز احمد قاسمی ، ڈاکٹر اجمل قاسمی اور دیگر نے کیا – پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب نے کی –
میں نے اپنی گفتگو میں عرض کیا کہ کتاب میں یوں تو ہندوستان اور کویت کے درمیان مختلف رشتوں کی تفصیل پیش کی گئی ہے ، لیکن میری دل چسپی کی چیز یہ ہے کہ اس میں کویت میں تیار ہونے والی 45 جلدوں پر مشتمل الموسوعۃ الفقہیۃ کی تالیف اور ہندوستان میں اس کے ترجمہ کی تفصیل پیش کی گئی ہے – اس کتاب میں ہندوستان کی 14 دینی شخصیات کی 36 تصنیفات کا تعارف کرایا گیا ہے جو کویت کے اشاعتی اداروں سے طبع ہوئیں – میں نے عرض کیا کہ اسی طرح کویت کے جن اہل قلم کی تصانیف کے اردو تراجم ہندوستان میں طبع ہوئے ہیں ان کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے تھا –
یہ کتاب اصلاً ڈاکٹر عبد القادر شمس کا تحقیقی مقالہ ہے ، جو انھوں نے پروفیسر اختر الواسع کی نگرانی میں لکھا تھا اور اس پر انہیں 2012 میں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کی جانب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی تھی – اس کا عنوان تھا : "علوم اسلامی کی تحقیق و اشاعت میں وزارتِ اوقاف کویت کا کردار” – اس کی ترتیبِ نو اور اور کچھ حذف و اضافہ کے بعد جناب محمد خالد اعظمی نے اسے اپنے اشاعتی ادارہ ‘المنار پبلشنگ ہاؤس’ نئی دہلی سے چھاپا ہے –
صفحات : 480 ، قیمت : 500 روپے
رابطہ :
WhatsApp :+91-9667072147
Imo : +965-65948929
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
اردو کو زبان اور ادب سے بڑھ کر ایک طرزِ حیات اور تہذیب و ثقافت کے ترجمان کے طور پر جگہ حاصل رہی ہے۔ گذشتہ پانچ سو برس کی تاریخ آنکھوں کے سامنے ہے کہ کس طرح دکن سے لے کر دہلی تک یہ زبان بااثر حلقے میں نہ صرف یہ کہ مقبول تھی بلکہ سیاست اور سماج یا نظامِ حکومت اور تعلیم میں اپنے وقار کے ساتھ بحال رہی ہے۔ کبھی اس زبان کے بولنے اور لکھنے والوں میں ہر قوم اور طبقے کے افراد کی شمولیت ہوتی تھی مگر سیاست اور تاریخ کے جبر میں ہندستان میں اس صورت حال میں تبدیلی آئی اور کم و بیش شمالی ہندستان کے مسلم طبقے کے بیچ یہ زبان بیش از بیش رائج ہے جب کہ غیر مسلم حضرات نے تقسیمِ ملک کے بعد بڑے پیمانے پر اس زبان سے ایک خود اختیار کردہ دوری بنالی۔ حکومتِ وقت کے قوانین بھی اس مشکل گھڑی میں اردو کی معاونت نہ کرسکے ۔ اب مٹھی بھر غیر مسلم طبقے میں یہ زبان بولی جاتی ہے۔ اس وجہ سے مجموعی طور پر اردو کا حلقۂ اثر بہ تدریج کم ہوتا گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ بولنے اور سمجھنے کی حد تک ہندی زبان کے شامل اردو پورے ہندستان کے طول و عرض میں اب بھی سب سے بڑی اور بااثر زبان ہے۔
برطانوی عہدِ حکومت میں اردو کے تعلق سے پہلا مسئلہ فورٹ ولیم کالج کی لسانی پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوا جہاں اردو سے الگ ہندی کو باضابطہ ایک زبان کے طور پر پہچانے جانے کے لیے اصول گڑھے گئے۔ جس زبان میں عر بی فارسی کے الفاظ زیادہ ہوںگے ، وہ اردو کہی جائے گی اور جس میں سنسکرت اصل کے الفاظ زیادہ ہوںگے، وہ ہندی زبان قرار دی جائے گی۔ یہاں لسانیات کا وہ بنیادی اصول ہی نہیں آزمایا گیا کہ محض سرمایۂ الفاظ کی بنیاد پر کسی زبان کی شناخت نہیں کی جاسکتی ہے۔ حقیقت میں فورٹ ولیم کالج میں انگریزی سیاست کی بنیادیں استوار کرنے اور ہندو مسلم تفرقے کی لسانی بنیادیں تلاش کرنے کے لیے اس کام کو انجام دیا گیا تھا۔ عہدِ سرسید میں اردو اور ہندی یا ہندو اور مسلمان کے سوالات خوب خوب اٹھے ۔ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، سرسید کے مکاتیب اور تہذیب الاخلاق کے شمارے اس بات کے گواہ ہیں کہ سرسید نے مختلف افراد کے سوالوں کے جواب دیے اور ان مباحث میں اردو کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔
سرسید کی وفات کے بعد ۱۹۰۳ء میں جب انجمن ترقی اردو کی داغ بیل پڑی اور شبلی نعمانی، منشی ذکاء اللہ، مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی، الطاف حسین حالی، محسن الملک وغیرہ وغیرہ نے اس تنظیم کو مستحکم کرنے میں اپنی بڑی خدمات پیش کیں۔ اس وقت تک ہندستان کی سطح پر اردو ہندی کے تنازعات انگریزوں کی مشتبہہ لسانی پالیس اور عوام میں پھیلائی جارہی منافرت کو انجمن ترقی اردو نے نشانہ بنایا۔ بعد کے دور میں مولوی عبدالحق، حیات اللہ انصاری، آل احمد سرور، آنند نرائن ملا، سید حامد ، غلام سرور، عبدالمغنی اور بڑی تعداد میں ایسے لوگ سامنے آئے جو عوامی سطح پر ان تنازعات کا جواب پیش کرتے تھے اور اردو کے نئے مسائل سے حکومت اور سماج کو آگاہ کرتے تھے۔ شاید اسی کا نتیجہ نکلا کہ گجرال کمیٹی بنی، مختلف صوبوں میں اردو اکیڈمیاں قائم ہوئیں اور ایک مدت کے بعد یہ بھی ممکن ہوسکا کہ چند صوبوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا۔ قومی سطح پر قومی اردو کونسل جیسا ادارہ بھی اردو عوام کے اسی دبائو کا نتیجہ رہا ہے۔ اس زمانے میں صوبائی کانفرنسیں ہوتی تھیں او رالگ الگ علاقوں کے لوگ دوسری جگہوں پر پہنچ کر اپنے مسائل بیان کرتے تھے مگر یہ سلسلہ بہت سارے اسباب کی وجہ سے اب تقریبا بند ساہے۔
آج اگر کوئی طالب علم ، استاد یا اردو خواں آبادی سے تعلق رکھنے والا فرد اپنے مسائل کے لیے کچھ کہنا چاہے تو مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے کہ وہاں جاکر ہم اپنی بات کہہ سکیں اور ہر طبقے تک ہماری بات سنی جاسکے۔ اس کا یہ بھی نتیجہ ہے کہ اردو کے سینکڑوں مسائل صوبوں سے لے کر مرکزی حکومت تک حل نہیں کیے جارہے ہیں اور اردو عوام میں بے چینی اور مایوسی کا ماحول دیکھنے میں آرہا ہے۔ چند مثالوں سے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔
۱۔ قومی اردو کونسل میں دو برسوں سے زیادہ مدت سے اس کی انتظامی کمیٹی نہیں ہے اور کسی طرح کی مالی معاونت اردو عوام تک پہنچانے میں یہ ادارہ قاصر ہے۔ یہ تعطل اور کتنے دنوں تک قائم رہے گا، کہا نہیں جاسکتا۔
۲۔ بہار اردو اکادمی ساڑھے چار برسوں سے معطل پڑی ہوئی ہے اور کسی طرح کی سرگرمی سے وہ دور پڑی ہوئی ہے۔
۳۔ اردو مشاورتی کمیٹی، حکومتِ بہار بھی ساڑھے چار برسوں سے تعطل کا شکار ہے اور حکومت نے اس کے لیے افراد کی نامزدگی آج تک نہیں کی ہے۔
۴۔ دہلی اردو اکیڈمی کبھی ہندستان کی سب سے فعال اکادمی ہوتی تھی، وہاں غیر اردو داں آدمی کو عہدے دار بنا دیا گیا جس کے سبب وہاں سے اردو کے جو بڑے کام ہوسکتے تھے، وہ رک گئے۔
۵۔ اتر پردیش اردو اکادمی میں بھی غیر اردو داں اور واجبی واقفیت رکھنے والے اشخاص کی سرگراہی میں جو کوششیں ہورہی ہیں، وہ ہندستان کے سب سے بڑے صوبے اور کسی زمانے میں سب سے سرگرم اکادمی کی شان کے خلاف ہے۔
۶۔ مہاراشٹر اردو اکادمی تو دہائیوں سے معطل پڑی ہوئی ہے، گذشتہ دنوں اس نے مشاعرے کا پروگرام کیا مگر سارا کارڈ مراٹھی میں شائع کیا گیا تھا۔
۷۔ مغربی بنگال اردو اکادمی جلسے جلوس اور مختلف اداروں کو رقومات تقسیم کرنے میں بہت حد تک فیاضی کا مظاہرہ کرتی ہے مگر نقطۂ نظر علاقائی رہتا ہے اور قومی سطح پر ابھر نے والے اردو کے مسئلوں سے اس کی دلچسپی دیکھی نہیں گئی۔
۸۔ راجستھان ، گجرات، کرناٹک جیسے صوبوں میں کبھی کبھی اردو اکادمی کچھ پروگرام کرلیتی ہے اور پھر اپنے خول میں بند ہوجاتی ہے۔
اردو کا سب سے بڑا مسئلہ فی زمانہ یہ ہے کہ زبان و ادب کے مسائل کو حکومت تک پہنچا کر ان کے حل کے لیے لائحۂ عمل تیار کرانے کے لیے کوئی پریشر گروپ، کوئی انجمن اور کوئی اجتماعی طبقہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اردو کے لوگ دلی ، لکھنؤ ، کلکتہ اور پٹنہ میں الگ الگ آہ و بکا میں مبتلا ہیں اور غم و غصے میں اصحابِ اقتدار سے شکوہ سنج ہیں۔ تعلیم و تدریس میں اردو کی اسامیوںکے گھٹنے کا مسئلہ سب سے سنگین ہے۔ اس کے لیے کوئی آواز موثر انداز میں نہیں اٹھاتا ۔ پرائمری سے لے کر یونی ورسٹی تک رفتہ رفتہ اردو کے لیے متعین جگہیں انتظامی فرقہ واریت کے سبب ہر جگہ کم ہوتی چلی گئیں۔ اس کے لیے حسبِ توفیق حکومتِ وقت سے گفتگو کرنے اور لوہا لینے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ سب سے مشکل تو یہ ہے کہ یونی ورسٹی اور کالج کے اردو اساتذہ جنھیں آج کے دور میں اس ٹیم کی قیادت کرنی تھی، وہ بھی تنخواہ دار ملازم بنے بیٹھے ہیں اور قومی سطح پر ایسی کسی تحریک کی گنجایشیں تلاش کرنے کے لیے وہ سرگرم نظر نہیں آتے۔ پہلے ہر صوبے میں انجمن ترقی اردو ہوتی تھی، مرکزی سطح پر بھی یہ ادارہ موثر خدمات انجام دے رہا تھا، اردو ایڈیٹرس کانفرنس ہوتی تھی، اردو رابطہ کمیٹی اورایکشن کمیٹیاں ہوتی تھیں، نفاذ کمیٹیاں بنائی جاتی تھی؛ کہیں سے کوئی بااثر آواز سمجھ میں نہیں آتی۔ کسی کا مطمحِ نظر قومی نہیں ہے۔سب نے اپنی دیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنارکھی ہیں اور مسئلہ یہ ہے کہ سب اپنی اپنی انا میں کچھ ایسے مبتلا ہیں کہ ایک دوسرے سے مل کر کوئی بڑی پہل بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ہمارے سارے مسئلے قائم ہیں اور قومی سطح پر بہ تدریج پسپائی کا ماحول نظر آرہا ہے۔
اسکول سے لے کر یونی ورسٹی تک کے اردو اساتذہ کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کے مسئلوں کے حوالوں سے اردو عوام کو پلیٹ فارم مہیا کرائیں۔ درس و تدریس سے متعلق اساتذہ اور طلبا کے علاوہ بڑی تعداد میں شعرا، ادبا اور نقاد و محقق، صحافی اور اردو سے محبت کرنے والے تجارت پیشہ اور غیر مسلم افراد بھرے پڑے ہیں۔ تکنیکی علوم کے ماہر اور دوسرے مضامین میں کام کرنے والے ایسے افراد جن کی مادری زبان اردو ہے، ان سب کو جوڑ کر چھوٹی چھوٹی نشستوں سے بات شروع کرکے صوبائی سطح پر اگر ایک لچیلا نظام تیار کیا جائے تو ایسی کوئی مشکل نہیں آئے گی۔ ضلعوں سے صوبوں تک ایسی کانفرنسیں اور کنوینشن کیے جائیں اور دوسرے صوبوں میں جب ایسی نشست یا کانفرنس ہو تو وہاں اپنے نمایندوں کو بھیج کر ایک قومی رابطے کا ماحول تیار کریں۔ غیر اردو داں آبادی کو اردو سکھانے کے لیے ذاتی کوششوں سے ہر صوبے میں بیس پچیس اور پچاس مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں جہاں ایک اردو کتب خانہ بھی موجود رہے۔ رفتہ رفتہ یہ مرکز تنظیم کو سرگرم کرنے کے لیے کارآمد ہوسکتاہے۔ شرط یہ ہے کہ ذاتی مفاد، خود نمائی اور تھوڑے وقت کے جوش سے اوپر اٹھ کر ان کاموں کو مولوی عبدالحق کی طرح آج کے ماحول میں پھر سے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر صوبے میں کام کرنے والے اور حالات سے بے اطمینانی میں مبتلا افراد بھرے پڑے ہیں، صرف باہمی رابطے اور کو آرڈینیشن کی ضرورت ہے۔ اردو کے اخبارات اور رسائل اپنے آپ ایسی تحریک کا ترجمان بن جائیںگے اور دیکھتے دیکھتے ہماری باتیں عوام سے لے کر اقتدارِ عالیہ تک بہ خوشی سنی جائیں گی۔
صحابۂ کرام کے بارے میں مولانا مودودی کے نظریات پر مشتمل ایک کتاب چند ماہ پہلے پاکستان سے شائع ہوئی ہے۔ امید ہے ، ان شاء اللہ یہ ہندوستان میں منشورات نئی دہلی سے شائع ہوگی۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ اسے معروضی انداز میں مولانا مودودی کی تحریروں کے اقتباسات کی روشنی میں مرتّب کیا گیا ہے۔ اسے درج ذیل لنک پر پی ڈی ایف اور یونی کوڈ میں فراہم کردیا گیا ہے:
اس کتاب کو مولانا محمد فیصل مدنی اور مفتی محمد اویس اسماعیل نے مرتّب کیا ہے۔ مرتبین کی خواہش پر راقم نے بہ طور پیغام جو تحریر لکھی تھی اسے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے :
” صحابۂ کرامؓ وہ اوّلین گروہ ہیں جنھیں اللہ کے رسول خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی صحبت نصیب ہوئی۔ انھوں نے دین کو براہِ راست آپ ﷺ سے اخذ کیا، پھر اسے بے کم و کاست دوسروں تک پہنچایا۔ قرآن مجید میں انھیںرَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۰ۭ (المائدہ۵: ۱۱۹، التوبہ۹: ۱۰۰)’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے‘‘ کی بشارت سنائی گئی ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے بھی انھیں مطعون اورمتّہم کرنے پر سخت تنبیہ کی ہے۔
مولانامودودیؒ(م:۱۹۷۹ء) نے اپنی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ اور دوسری کتابوں میں صحابۂ کرامؓ کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے، ان کی دینی خدمات کو زبردست خراج ِ تحسین پیش کیا ہے اور انھیں بُرا بھلا کہنے والوں پر سخت نکیر کی ہے۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے: ’’صحابۂ کرامؓ کو بُرا بھلا کہنے والا میرے نزدیک صرف فاسق ہی نہیں، بلکہ اس کا ایمان بھی مشتبہ ہے۔‘‘
(رسائل و مسائل ، ۸۵۳)
دوسری طرف مولانا مودودیؒ اس بات کے قائل ہیں کہ صحابۂ کرام ؓکے مجموعی اقوال و افعال تو دین میں حجت ہیں، لیکن ہر صحابی کی ہر بات حجت نہیں ہے۔ صحابہؓ کے درمیان مختلف امور و معاملات میں اختلافات رہے ہیں۔ دین میں حجت کا مقام صرف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت کو حاصل ہے۔ ان پر صحابۂ کرام ؓکے اقوال و افعال کو جانچا اور پرکھا جائے گا اور ان میں سے جو کتاب و سنّت سے ہم آہنگ معلوم نہ ہوں ان پر نقد کیا جا سکتا ہے۔ نقد کرنے کا مطلب ان میں خامیاں نکالنا نہیں، بلکہ ان کا جائزہ لینا ہے۔ یہی مفہوم ہے مولانا مودودیؒ کی اس بات کا کہ صحابہ ؓمعیارِ حق نہیں ہیں۔انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے:’’معیارِ حق تو صرف اللہ کا کلام اور اس کے رسول ﷺ کی سنّت ہے۔ صحابہ معیارِ حق نہیں،بلکہ اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ کسوٹی سونا نہیں، لیکن سونے کا سونا ہونا کسوٹی پر کسنے سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘ (رسائل و مسائل، ۸۵۶)
مولانا مودودیؒ صحابۂ کرامؓ کے معاملے میں نقد اور اہانت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ کسی صحابی کی کوئی بات کتاب و سنت سے ہم آہنگ نہ معلوم ہوتی ہو تو اسے غلط کہا جا سکتا ہے، لیکن اس سے آگے بڑھ کر اس صحابی پر زبانِ طعن دراز کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ’معوّذتین‘ (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کو قرآن مجید کی سورتیں نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:’’یہاں آپ دیکھ رہے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جیسے جلیل القدر صحابی سے قرآن کی دوسورتوں کے بارے میں کتنی بڑی چوک ہوگئی۔ایسی چوک اگر اتنے عظیم مرتبہ کے صحابیؓ سے ہوسکتی ہے تو دوسروں سے بھی کوئی چوک ہوجانی ممکن ہے۔ ہم علمی تحقیق کے لیے اس کی چھان بین کر سکتے ہیں اور کسی صحابی کی کوئی بات یا چند باتیں غلط ہوں تو انھیں غلط بھی کہہ سکتے ہیں، البتہ سخت ظالم ہوگا وہ شخص جو غلط کو غلط کہنے سے آگے بڑھ کر ان پر زبان ِ طعن دراز کرے۔‘‘ (تفہیم القرآن،۶/۵۵۲)
کہا گیا ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے نظریات علمائے اہلِ سنت کے مطابق نہیں ہیں، حالاں کہ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو دونوں کے درمیان ذرا بھی فرق نہیں ہے۔ صحابۂ کرامؓ کو مولانابھی مرحوم و مغفور مانتے ہیں اور دیگر علما بھی۔ دونوں انھیں معصوم نہیں سمجھتے۔ ہر صحابیؓ کی زندگی میں خیر کا پہلو غالب ہے، دیگر علما کی طرح مولانا بھی اس کے قائل ہیں۔ صحابۂ کرامؓ کا اجماع اور مجموعی طرزِ عمل دیگر علما کے نزدیک حجت ہے اور مولانا بھی اسے حجت سمجھتے تھے۔ ہر صحابیؓ کے ہر فعل کو مولانا مطلقاً واجب التقلید اور معیارِ حق نہیں مانتے اور دیگر علما کی بھی یہی رائے ہے۔ صحابۂ کرام ؓکو بُرا بھلا کہنے کو دیگر علما ناجائز کہتے ہیں اور مولانا بھی اسے صراحتا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ پھر آخر مولانا مطعون کیوں؟ ایک جگہ مولانا نے لکھا ہے: ’’رہا اہلِ سنت کا عقیدہ جس کا آپ ذکر فرما رہے ہیں تو وہ صرف یہ ہے کہ صحابہؓ پر طعن کرنا اور ان کی مذمّت کرنا جائز نہیں ہے اور اس فعل کا ارتکاب خدا کے فضل سے میں نے کبھی اپنی کسی تحریر میں نہیں کیا ہے۔ دیگر تاریخی واقعات کو کسی علمی بحث میں بیان کرنا اہلِ سنت کے نزدیک کبھی ناجائز نہیں رہا ہے، نہ علمائے اہلِ سنت نے کبھی اس سے اجتناب کیا ہے۔‘‘(رسائل و مسائل،۱۰۹۱)
صحابۂ کرامؓ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے نظریات عموماً ان کی کتاب ’خلافت و ملوکیت‘ کے حوالے سے زیر بحث آئے ہیں۔ اس میں انھوں نے تاریخ ِ اسلام میں خلافت سے ملوکیت کی تبدیلی سے بحث کرتے ہوئے بعض صحابۂ کرامؓ، خاص طور پر حضرت معاویہ ؓ کے کچھ اقدامات پر نقد کیا ہے، لیکن یہاں بھی بات نقد سے آگے بڑھ کر اہانت تک ہرگز نہیں پہنچی ہے۔ مولانا نے ایک جگہ حضرت معاویہؓ کے بارے میں لکھا ہے:’’صحابی کی تعریف میں اگرچہ سلف میں اختلاف ہے، مگر حضرت معاویہؓ کو ہر تعریف کے لحاظ سے شرفِ صحابیت حاصل ہے۔ آپؓ کے بعض انفرادی افعال محلِّ نظر ہو سکتے ہیں، مگر بہ حیثیت مجموعی اسلام کے لیے آپؓ کی خدمات مسلّم اور ناقابل ِ انکار ہیں اور آپؓ کی مغفرت اور اجر یقینی امر ہے۔‘‘(خط بنام محمد سلیمان صاحب صدیقی ، مورخہ ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۴ء، بحوالہ مقامِ صحابہ،فروری، ۲۰۰۲، مکتبہ الحجاز ،پاکستان، ص ۱۶)
بہت پہلے مولانا مودودیؒ کی مختلف تصنیفات سے ان کی منتخب تحریروں کا ایک مجموعہ، جسے جناب عاصم نعمانی نے مرتب کیا تھا،ہندو پاک دونوں جگہوں سے شائع ہوا تھا، لیکن وہ بہت مختصر تھا۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ جناب مولانا محمد فیصل مدنی اور مفتی محمد اویس اسماعیل نے ایک زیادہ تفصیلی مجموعہ مرتّب کیا ہے۔ اس میں انھوں نے تفہیم القرآن کے علاوہ مولانا کی دیگر تصانیف سے بھی استفادہ کیا ہے۔اس مجموعہ کو انھوں نے تین ابواب کے تحت مرتّب کیا ہے: باب اوّل میں صحابۂ کرامؓ کے بارے میں فضائل و مناقب جمع کیے ہیں۔ باب دوم میں اصولی مباحث ہیں، جن میں معیارِ حق کا صحیح مفہوم، صحابہ کے ’عدول‘ ہونے کا مطلب،ان پر نقد کے حدود اوردیگر موضوعات آئے ہیں۔ باب سوم میں مولانا کی چند وہ تحریریں جمع کی گئی ہیں جن میں انھوں نے بعض صحابہؓ پر کیے جانے والے اعتراضات کا دفاع کیا ہے۔
امید ہے کہ یہ مجموعہ صحابۂ کرامؓ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے نظریات کی درست تفہیم میں معاون ثابت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ فاضل مرتّبین کو اس خدمت کا اچھا بدلہ عطا فرمائے اور اجر سے نوازے۔ آمین،یا ربّ العالمین۔
خسرو فاؤنڈیشن اور آئی آئی سی سی کے اشتراک سے ’غیر منقسم ہندوستان : ایک نقطۂ نظر ‘ کے عنوان سے کا نفرنس کا انعقاد
نئی دہلی:خسرو فاؤنڈیشن اور انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے اشتراک سے ’غیر منقسم ہندوستان : ایک نقطہ نظر ‘ کے عنوان سے ایک کا نفرنس کا انعقاد کیا گیا ، جس میں مہمان خصوصی کے طور پر شر کت کرتے ہوئے معروف متذکرہ مفکراورسینئر انسانی حقو ق کارکن ڈاکٹرخواجہ افتخار احمدنے اپنی گفتگو میں 1942سے اب تک کے ہندوستان کے حوالے سے اپنے تاثرات واضح طور پر پیش کیے اور خسرو فائونڈیشن کی خدمات کی ستائش کی ۔انہوں نے اپنے خصوصی لیکچر میں کہاکہ پورے مسلم اقتدارمیں دیکھیں توجنگیں تو بہت ہوئیں ، لیکن کبھی بھی ہندو -مسلم فساد نہیں ہوا۔خواجہ افتخار نے افسوس کے ساتھ کہاکہ جو ہزاروں کروڑوں روپئے ملک کی ترقی کےلیے لگنی چاہیے ، وہ آج کشمیر میں فوج پرخرچ کیے جارہے ہیں ۔انہوں نے اپنی پُراثرااندازتقریرمیں کہاکہ لوگوں کو جوڑنا میرا ہمیشہ مقصد رہا ہے ، میں کبھی بھی ہندو -مسلم نہیں کرتا ہوں ،آج سنگھ اقتدار میں ہیں اور میں پچھلے 10سالوں سے سنگھ کے ساتھ جڑ کر کام کررہا ہوں ۔انہوں نے کہاکہ یہ جونام ہم سب کے ہیں وہ لڑنے،جھگڑنے کے لیے قطعی نہیں ہیں ، بلکہ یہ پہچان کےلیے خدا نے بنائے ہیں۔ انہوں نے موجود نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہر قیمت پر محبت کا دامن نہیں چھوڑنا ہے اور جہاں چھوٹ رہا ہے اس کو مزید مضبوط کرنا ہے ۔خواجہ افتخار احمد نے پُرمغزخطاب میں کہاکہ کبھی بھی حالات خراب ہوجائیں تو جوش میں نہیں آناہے،کیونکہ جوش میں انسان ہوش کھو بیٹھتا ہے اور حکمت و دور اندیشی کے ساتھ قدم اٹھانا ہے نیز ملک کو خراب ہونے سے بچانا ہے ساتھ ہی ملک کو ترقی کی طرف لے جا نے کےلیےکوششیں کر نی چاہیے۔
قبل ازیں خسرو فاؤنڈیشن کے قومی صدراورپدم شری پروفیسر اختر الواسع نے سبھی مہمانوں کاگلدستہ سے استقبال کیا اور اپنی گفتگو میں خسرو فاؤنڈیشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ۔انہوں نے کہاکہ ہم جو یہاں جمع ہو ئے ہیں وہ ہم مسلمان ہندوکی بات کر نے نہیں آئے ہیں،بلکہ ہندوستان کی بات کر نے آئے ہیں ۔پروفیسر واسع نے مزید کہاکہ امن و اتحاد ہی میں ہماری طاقت ہے ،یہ ملک سبھی مذاہب کے افراد کا ہے ،ہمیں کسی بھی حال میں ملک کے حالات کو خراب نہیں ہو نے دینا ہے اور سبھی مذاہب کااحترام ہم سب کےلیے لازم ہے ۔ صدراتی خطبہ میں جا معہ ہمدرد کے وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر محمد افشار عالم نے اپنی تقریر میں کہاکہ آج کے حالات میں ڈائیلاگ بہت ضروری ہے ، کیو نکہ کسی بھی مسئلہ کا حل بات چیت کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔انہوں نے کہاکہ جو 3لاکھ بنگالی ہندوستان سے بنگلہ دیش گئے ہیں ،انہیں آج تک وہاں کی سٹیزن شپ نہیں ملی ہے ، اسی طرح جولوگ پاکستان گئے ہیں ،ان کے بھی حالت ڈھکے چھپے نہیں ہیں،ہمیں اپنے ملک پر بے پناہ فخر ہے ،ہمارے آباؤاجداد کی قربانیاںشامل ہیں وطن عزیز کیلئے ۔آخر میں سینٹر کے صدر فائونڈیشن کے ڈائریکرسراج الدین قریشی نے سبھی مہمانان کاشکریہ ادا کیا اوربتایا کہ آج اگر بنگلہ دیش و پاکستان ہندوستان کا حصہ ہوتے تو ہم مزید طاقتور ملک ہوتے۔انہوں نے مزید کہاکہ آج پاکستان کے حالات بہت زیادہ خراب ہیں وہ آج ہندوستان کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ سراج قریشی نے یہ بھی کہاکہ پیار ومحبت میں ہی ہندوستان کی طاقت ہے ،ہمیں بھائی چارگی و رواداری کے پیغام کو ہر حالت میں عام کرنا ہے ۔
اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام منعقدہ ’مشاعرہ جشن جمہوریت‘ کا سلسلہ اختتام پذیر
نئی دہلی: محکمۂ فن ، ثقافت و السنہ حکومت دہلی ، اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام جشن جمہوریت کی مناسبت سے چوتھا اور آخری ’مشاعرہ جشنِ جمہوریت‘ غالب اکیڈمی، بستی حضرت نظام الدین، نئی دہلی میںمنعقد ہوا،ساتھ ہی اس سال کا سلسلہ وار ’مشاعرہ جشنِ جمہوریت‘اختتام پذیر ہو گیاہے۔اس موقع پرمہمانوں اور شعرائے کرام کو گلدستہ پیش کرکے ان کا استقبال کیا گیا اور شمع روشن کرکے مشاعرے کا باضابطہ آغاز ہوا۔مشاعرے کی صدارت معروف شاعر وجیندر پرواز نے کی اورنظامت کے فرائض معروف شاعر افضل منگلوری نے انجام دیے۔
اردو اکادمی دہلی کے سکریٹری محمد احسن عابد نے تمام شرکا اور شعرائے کرام کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے استقبالیہ کلمات میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مشاعرہ جشن جمہوریت اردو اکادمی دہلی کی تاریخی روایت رہی ہے۔ یہ مشاعرہ تاریخی لال قلعے میں ہوا کرتا تھا،لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کے سبب یہ مشاعرہ وہاں منعقد نہیں ہوسکا۔ جشن جمہوریہ کا مشاعرہ دہلی کے مختلف علاقوں میں منعقد کیا گیا اورآج کا یہ مشاعرہ اس سلسلے کی آخری کڑی ہے۔ اس مشاعرے میں بہت ہی معروف اور مقبول شعرائے کرام تشریف فرما ہیں جن کے کلام کو سامعین یقیناپسند کریں گے اور محظوظ ہوںگے۔
مشاعرے کے مدعو شعرائے کرام میں منیر ہمدم، سریندر شجر، جاوید قمر، شریف شہباز، وارث وارثی، وفا اعظمی، چونچ گیاوی، سلیم کاشف، شہناز ہندوستانی اور نکہت امروہوی نے اپنا کلام پیش کیا۔ قارئین کے لیے شعرا کے منتخب اشعار پیش ہیں:
جس کے بدلے اک لڑکی نے سو ہیروں کا ہار دیا
میر کاکوئی شعر لکھا تھا اس کاغذ کے ٹکڑے پر
(وجیندر پرواز)
مری آنکھوں میں آتے ہی تارے ڈوب جاتے ہیں
سمندر شور کرتا ہے کنارے ڈوب جاتے ہیں
( منیر ہمدم)
سب کو تھا منظور اس کا فیصلہ
ایک میں ہی تھا جسے انکار تھا
( سریندر شجر)
سوچتا ہوں کہلکھوں ایک غزل اس کے نام
مسئلہ یہ ہے کہ الفاظ کہاں سے لاؤں
( جاوید قمر)
مرے سخن کے اجالے اسی کو ڈھنڈتے ہیں
جو چھپ گیا ہے کہیں آفتاب کرکے مجھے
( افضل منگلوری)
بعد میں کی گئی تخلیقمیری شخصیت
پہلے میں اپنے ہی گارے پہ چلایا گیا ہوں
(شریف شہباز)
اس نے آنکھوں سے کچھ کہا شاید
گنگناہٹ سی مرے کان میں ہے
(وارث وارثی)
واسطہ نہیں جن کو عاشقی کے منظر سے
زخمِ دل کی گہرائی ناپتے ہیں نشتر سے
( وفا اعظمی)
ہے حق پڑوسی کی چیزوں پہ ہر پڑوسی کا
کبھی خرید کے مرغا حلال مت کرنا
( چونچ گیاوی)
اپنا شجرہ بتا دوں آتجھ کو
میں محبت کے خاندان سے ہوں
( سلیم کاشف)
ایک مدت سے میں ہر کسی کے ظرف کا جائزہ لے رہی ہوں
سامنے کھل کے آتا ہے کوئی اور امداد کرتا ہے کوئی
( نکہت امروہوی)
میں اس مٹی کا ہوں مجھ میں بس اک یہ ہی خماری ہے
ذہن ہوسکتا ہے میرا مگر طاقت تمھاری ہے
شہناز ہندوستانی
اہم شرکا میں شمیم طارق،متین امروہوی، غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمداوراسرار قریشی وغیرہ نے شرکت کی۔
بنارس ہندویونیورسٹی میں ’قرۃ العین حیدر:شخصیت اورفن‘ پر یک روزہ قومی سمینار کا انعقاد
وارانسی: قرۃ العین حیدرنہ صرف ایک شخصیت ہیں بلکہ وہ ایک انسٹی ٹیوٹ کادرجہ رکھتی ہیں۔ ’آگ کادریا‘اورقرۃ العین حیدرلاز م وملزوم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ’آگ کادریا‘کو اس قدرمقبولیت اورشہرت ملی کہ قرۃ العین حیدر کی دوسری تخلیقات پس پشت چلی گئیں۔ان خیالات کااظہار آج منعقدہ یک روزہ قومی سمینار بعنوان ’قرۃ العین حیدر:شخصیت اورفن‘میں پروفیسرآفتاب احمدآفاقی صدرشعبہ اردو بنارس ہندویونیورسٹی نے اپنے صدارتی خطبہ کے دوران کیا۔ انھوں نے کہاکہ قرۃ العین حیدر نے دوسطحوں پر کام کیاہے۔ انھوں نے روایتوں کو توڑابھی ہے اورنئی روایتیں بھی قائم کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے قلم کارکی شکل میں دنیاکے سامنے آئیں کہ انھیں ایک طرح سے انسٹی ٹیوٹ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ انھوں نے زوردے کر کہاکہ جہاں تاریخ گونگی ہوجاتی ہے وہاں ادب بولتاہے۔ ادب کوسچے دستاویزکی حیثیت حاصل ہے۔ اس سمینار کا انعقاد بنارس ہندویونیورسٹی کے مہیلا مہاودیالیہ(ایم ایم وی) کے اردو سیکشن کے زیراہتمام کیاگیا۔ سمینارکاآغاز مالویہ جی کے مجسمے پرگلپوشی اور یونیورسٹی کا کل گیت پیش کرکے کیاگیا۔ اس موقع پر ہندی کے معروف ادیب پروفیسربلراج پانڈے نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔
انھوں نے اپنے خطبہ میں قرۃ العین حیدرکے ناول ’آگ کادریا‘ کے حوالے سے مختلف پہلوؤں، کرداروں، تہذیبی عناصر اور اسالیب کاتفصیلی جائزہ لیا اور اس کی ادبی حیثیت کوپیش کیا۔ انھوں نے کہاکہ بنارس ہندویونیورسٹی کے شعبہ ہندی میں آگ کادریااس وقت شامل نصاب کیاگیا؛جب پروفیسر نامور سنگھ نے یہاں ایک پروگرام میں اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ایم ایم وی ک پرنسپل پروفیسرانومہتاکی سرپرستی میں منعقداس سیمینارمیں افتتاحی خطبہ پروفیسر ریتاسنگھ سوشولوجی سیکشن، ایم ایم وی نے پیش کیا۔ انھوں نے اپنی گفتگوکے دوران مہمانوں کاتعارف بھی کرایااور موضوع کی افادیت پرروشنی بھی ڈالی۔ سیمینار کے کنوینرڈاکٹرافضل مصباحی انچارج اردو سیکشن، ایم ایم وی، بنارس ہندو یونیورسٹی نے قرۃ العین حیدر کی شخصیت اوران کے فن کا تعارف پیش کیا۔ انھوں نے یہاں اس موضوع پرسیمینارکے انعقاد اور اس کی اہمیت وافادیت سے بھی سامعین کوروشناس کرایا۔ چار اجلاس پرمشتمل اس یک روزہ قومی سیمینارمیں صدارت کے فرائض پروفیسررفعت جمال، پروفیسر تعبیرکلام اور ڈاکٹر شاہینہ رضوی نے انجام دیے اور ڈاکٹرمشرف علی، استاد شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی ، ڈاکٹر رشی کمارشرمااستاد شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی ، ڈاکٹراحسان حسن استاد شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی ، ڈاکٹرقاسم انصاری استاد شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی ، ڈاکٹر عبدالسمیع استاد شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی ، ڈاکٹرلئیق احمد استاد شعبہ اردو وسنتا کالج، وارانسی، ڈاکٹر شمس الدین ریجنل اسسٹنٹ ڈائریکٹر مولانا آزاد اردو یونیورسٹی وارانسی سینٹر، تسنیم قمر ریسرچ اسکالر شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی ، محمد شہنوازانصاری شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی ، ،ذبیح اللہ ریسرچ اسکالر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی ، محمد عامر اور آصف جمال ریسرچ اسکالر شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی نے الگ الگ موضوعات پرمقالے پیش کئے۔ اختتامی اجلاس میں خصوصی خطبہ ڈاکٹراروشی گہلوت نے پیش کیا، جب کہ چیرپرسن کے طور پر پروفیسرسمن جین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروفیسرسمن جین نے کہاکہ اردوہماری زبان ہے۔اس سے عشق کئے بغیربھارتیہ بھاشاؤں کی بات آگے نہیں بڑھی سکتی ہے۔ اس وقت شام پانچ بجے بھی سامعین میں جوتوانائی نظرآرہی ہے؛ سچائی یہ ہے کہ یہ ادب کی توانائی اورقرۃ العین حیدر کی تخلیقات کامنھ بولتاثبوت ہے
مختلف اجلاس میں نظامت کے فرائض شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹرمشرف علی، شعبہ اردوکے ریسرچ اسکالرزمحمداعظم اور کمال الدین نے انجام دئے جب کہ اظہارتشکرکے فرائض طبلہ وڈانس شعبہ کی پروفیسر لیلینابھٹ، پروفیسرریچاکمار، عائشہ پروین اور نسرین جہاں نے انجام دئے۔ یہ سیمینار مہیلا مہاودیالیہ کے سائنس بلاک کے کانفرنس ہال میں صبح 10بجے سے شروع ہوااور شام 6بجے تک جاری رہا۔ اس ادارے میں یہ اپنی نوعیت کامنفردپروگرام تھا؛جس سے مہیلامہاودیالیہ کی طالبات کے علاوہ بنارس ہندویونیورسٹی کے دیگرشعبہ جات کے طلبہ وطالبات بھی فیضیاب ہوئے۔
خاص طورپر شعبہ اردوبنارس ہندویونیورسٹی کے طلبہ وطالبات، ریسرچ اسکالرز اور شعبہ ہندی کے طلبہ وطالبات نے استفادہ کیا۔ اس پروگرام میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ شہربنارس کی علمی و ادبی شخصیتوں نے شرکت کی۔ جن میں شاد عباسی، حاجی رشید احمد،مولاناحسین احمدحبیبی، حافظ جاوید، زیب شمسی، خالدجمال، ڈاکٹر محمد عارف، اسد کما ل لاری، ڈاکٹرریاض احمد، ڈاکٹراودھیش، ڈاکٹرندھی اور فادرفلپ ڈینس وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ شامل ہیں۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے حقانی القاسمی کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب
پھلواری شریف (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم):حقانی القاسمی صاحب کا پٹنہ آنا ہم سب کے لیے عید کی طرح رہا۔ اُن کی آمد سے سارے شہر میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ محترم حقانی القاسمی اردو زبان وادب کے درخشندہ ستارہ کے مانند ہیں، آپ مشہور ومعروف وبیباک ادیب ناقد کے ساتھ ساتھ ایک نیک دل، ملنسار، بلند سوچ، مخلص، مربی، ہمدرد،وفا شعار، وفا شناس ہیں ۔آپ نے اپنے مخلصانہ عمل وخدمات اور علوم وفنون سے جو مقام ومرتبہ پیدا کیا ہے وہ خود میں ایک مثال ہے، آپ کی ظاہری شکل شباہت بھی سراپا محبت والفت کا سرچشمہ ہے، آپ کئی اہم کتابوں کے مصنف و مؤلف ٹھہرے،آپ کی تحریر تقریر اساتذہ طلبہ کے لیے لائحۂ عمل ہے،آپ کئی تنظیموں سے وابستہ ہیں، آپ سے ہر خاص وعام مشورہ طلب کر کے مثبت نتائج پاتے ہیں۔واضح رہے کہ حقانی القاسمی صاحب کی آمد پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کے استقبال میں فاؤنڈیشن کے ترجمان محمد ضیاء العظیم قاسمی نے ان سے خاص ملاقات کرکے دعائیں لیں، انہیں اعزاز کے طور پر سند سے نوازا گیا، ساتھ ساتھ کئی اہم ادبی شخصیات نے ملاقات کی ، اس موقع پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے محمد ضیاء العظیم قاسمی سے بات چیت کے درمیان حقانی القاسمی کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ حقانی القاسمی جیسی شخصیت کی توجہ ہماری جانب مرکوز ہے، یقیناً ان کی شخصیت اس وقت اردو زبان وادب کے لیے غنیمت ہے، صدیوں میں ایسی شخصیت جنم لیتی ہے، حقانی القاسمی بے لوث بے غرض محبت کرنے والے ہیں، ہماری بدقسمتی رہی کہ ہمارے لیے موقع نہ مل سکا کہ پٹنہ کا سفر کرکے سر سے ملاقات کرتی، میں دل کی گہرائیوں سے محمد ضیاء العظیم قاسمی کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے میری نمائندگی کی، حقانی القاسمی صاحب ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اہم رکن ہیں، اور فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں میں انہوں نے بہت مدد کی ہے، وہ ہمیشہ نیک مشورے سے ہمیں نوازتے رہتے ہیں، اس فاؤنڈیشن کو بام عروج پر پہنچانے میں حقانی القاسمی صاحب کا نام سر فہرست ہے،محمد ضیاء العظیم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حقانی القاسمی صاحب کی شخصیت ایک روحانی شخصیت ہے، تحریر وتقرر پڑھنے سننے کا موقع تو کئی دفعہ ملا مگر زندگی کی پہلی ملاقات تھی اور ایسا محسوس ہوا کہ برسوں کی شناسائی ہے، چند منٹ کی ملاقات نے مجھ پر جو اثر ہوا گویا میری طبیعت معطر ہو گئ، طبیعت نہیں چاہی کہ چھوڑ کر واپس جاؤں لیکن تھکاوٹ آپ کے چہرے سے نمایاں تھیں اسی وجہ سے چند منٹ ملاقات کے بعد واپس ہونا پڑا، یقیناً آپ کی شخصیت خود میں ایک دنیا ہے ،آپ سے مل کر طمانیت قلب حاصل ہوا ۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو بڑی خوبیوں سے نوازتے ہوئے اسے اس روئے زمین پر اپنا نائب بناکر بھیجا ہے، اور زمین آسمان کا اسے وارث بنایا ہے، انسانوں کی تمام ضروریات کی تکمیل فرماتے ہوئے اسے کئی اہم وصف عطا کئے ہیں، جن سے دیگر مخلوق محروم ہیں،انسان اپنی محنت رب العزت کے فضل اور جہد مسلسل سے اپنا مرتبہ اپنی اہمیت اور اپنی شناخت قائم کرتا ہے، پھر زمانہ اسے مبلغ، محدث، مؤرخ، محقق، مقرر، مصلح، مربی و محسن کے خطابات عطا کرتا ہے۔ ایسے شخص کی زندگی خالص علم و عمل، سراپا مجاہدہ اور عالم انسانیت کے لیے سرچشمہ ہوتی ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے تو محترم و مکرم ہو کر زندگی کے لمحات گزارتا ہےاور اس عالمِ فنا سے منہ موڑتا ہے تو اپنے پیچھے نہ بھلائے جانے والے کارناموں کی ایک تاریخ رقم کر جاتا ہے۔ ایک پورا زمانہ، ایک پورا عہد اس کی شخصیت سے منسوب ہو جاتا ہے۔ مستقبل کے محرر و مؤرخ اسے اوراقِ تاریخ میں یاد گار زمانہ قرار دیتے ہیں، اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خلق خدا جس سے محبت کرتی ہے یقینا خالق بھی اس سے محبت کرتا ہے، ایسی شخصیت سراپا رحمت برکت اور محبت کی علامات ہوتے ہیں ۔واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غربا وفقرا اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعرا وادبا کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔
جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کے زیر اہتمام "ہندوستان اور کویت : تاریخی،علمی اور ثقافتی رشتے” کا اجرا
نئی دہلی: نیت نیک ہو تو منزل تک پہنچنا آسان ہوجاتاہے، عبدالقادر شمس کی کوشش غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے،انہوں نے موضوع کے ساتھ انصاف کرتےہوئے ایک مضبوط نیوقائم کردی ہے اب محققین کی ذمہ داری ہے وہ اس کام کو آگے بڑھائیں،یہ کتاب حرف آخر نہیں ہے تاہم اپنی نوعیت کا یہ اولین کام ہے جس کی ترتیب و اشاعت کے لئے میں ڈاکٹر خالد اعظمی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ان خیالات کا اظہار ناموراسلامک اسکالر، دانشور پدم شری پروفیسراختر الواسع چیئر مین خسرو فاؤنڈیشن دہلی نےکیا۔وہ آج’’ ہندوستا ن اور کویت،تاریخی ،علمی اور تقافتی رشتے‘‘نامی کتاب کی جامعہ نگر کے ابوالفضل انکلیومیں واقع ہوٹل ریورویو میں اجرا کی تقریب کی صدارت کر رہے تھے۔ انہوں نے تقریب کے شاندار انعقاد پر جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہار اور اس کے بانی ڈاکٹر مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا اور کہاکہ ضرورت ہے کہ یہ کتاب کویت کے ہر کتب خانے اور علمی افراد کے ہاتھوں میں پہنچے ،اس کتاب کا اجرا جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کے بینر تلے ہورہا ہے ،یہ اس بات کی علامت ہے کہ مولانا عبد القادر شمس اور مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کے درمیان جو گہرا اور مضبوط رشتہ تھا وہ اب بھی باقی ہے۔اب دونوں کے صاحبزادوں کی ذمہ داری ہےکہ وہ ان کے مشن کو آگے بڑھائیں اور اپنے اسلاف کا نام روشن کریں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر امام مہدی سلفی نےکہاکہ کام کرنے والوں کی قدر ہونی چاہیے ،جیسےمغفرت اور درجات کے بلندی کی دعا کرنا بہترین ہدیہ اور تحفہ ہے،اسی طرح ان کی خوبیوں کو اجاگر کرنا بھی ہے۔آج کی اس انجمن کی پہلی اینٹ عبد القادر شمس ہیں ،جنہوں نے اتنا بڑا کام کیا ۔پروفیسر اقتدار محمد خان صدر شعبہ اسلامک اسٹیڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نےکہاکہ جب عبد القادر شمس یہ مقالہ تیار کررہے تھے تو بارہا ان سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال ہوا،وہ جس محبت وانکساری سے ملتے تھے اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ نوکری کے لئے نہیں بلکہ ریسرچ کے لیے اس عنوان پر کام کررہے ہیں ،جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ کام پروفیسر اختر الواسع جیسی علمی اور فکری شخصیت کے زیر نگرانی ہو رہا تھا۔ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے کہاکہ اس طرح کی مجلسیں روز ہوتی ہیں ،لیکن آج کی یہ مجلس اس اعتبار سے خاص ہے کہ یہاں ہر میدان کے ماہرین کا اجتماع ہے اور ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ کتاب ہندوستان اور کویت کے ہمہ جہت تعلقات پر بھرپورروشنی ڈالتی ہے،ڈاکٹر خالد اعظمی نے بہت محنت سے اس کی تہذیب و تدوین کی ہے اور قیمتی اضافے کیے ہیں۔
معروف صحافی سہیل انجم نےبہت ہی خوبصورت انداز میں اپنی بات رکھتےہوئے کہاکہ مرنے کے بعد جن تین صورتوں میں متوفی کو ثواب ملتا رہتا ہے ان میں ایک ذریعہ علم کا یا علمی کتاب کا چھوڑنا بھی ہے۔اس کتاب کا جب تک مطالعہ کیا جاتا رہےگا عبدالقادر شمس اور ڈاکٹر خالد اعظمی کو ثواب ملتا رہےگا۔ڈاکٹر وارث مظہری نےکہاکہ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔بنیادی اور ثانوی مصادر کو سامنے رکھ کر لکھی گئی یہ تحقیقی کتاب امید ہےکہ ہندوستان اور کویت کے درمیان علمی و ثقافتی رشتوں کے استحکام میں اہم کردار اداکرے گی ۔ مفتی محمد انصار قاسمی نےکہاکہ جیسے ایک کنبہ کے چند افراد ہوتے ہیں اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ فرحت ومسرت کے موقع پر جمع ہوں،ادارہ کی بھی حیثیت ایک کنبہ کی ہے،مفتی محفوظ الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اس طرح کی مجلسیں ہمیشہ منعقد کرتے تھے ،آج ان کے جانشین قاری ظفر اقبال مدنی مہتمم جامعۃ القاسم نے بھی یہی کام کیا ہے۔انہوں نے مولانا عبدالقادر شمس اور مفتی محفوظ الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے چاہنے اور محبت کرنے والوں کو ایک جگہ جمع کردیا۔ڈاکٹر اجمل قاسمی نے عبدالقادر شمس سے اپنے تعلقات کا ذکرکرتےہوئے کہاکہ مقالے کی تیاری میں انہوں نے بہت محنت کی تھی ،بلاشبہ یہ ان کی محنت اور خلوص کا ہی نتیجہ ہےکہ اتنی بڑی تعداد میں اہل علم یہاں موجود ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کررہےہیں۔ ڈاکٹر ابوالمفضل حسین نے اوقاف پر دلچسپ گفتگو کی اور کہا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اس موضوع پر مطالعہ کیا جائے بہت سارے لوگ ناواقفیت کی بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ جدید معاشی نظام میں اس ادارے کا کوئی مثبت رول نہیں ہے جب کہ حقیقت اس کے خلاف ہے۔تقریب کی نظامت ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی نےکی۔انہوں نےکہاکہ ڈاکٹر خالد اعظمی نے دو سال کی محنت شاقہ کے بعد اس کتاب کو شائع کیا ہے جس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یہ مو لانا عبدالقادر شمس کا خلوص اور محبت ہی نہیں بلکہ ان کی کرامت ہے، بہت ہی کم عرصے میں ان کی شخصیت پر تین کتابیں آچکی ہیں۔ڈاکٹر خالد مبشراسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نےبھی کتاب کے مشمولات پر روشنی ڈالی۔معروف صحافی سراج نقوی نےکہاکہ عبدالقادر شمس کی قلم پر مضبوط گرفت تھی یہی وجہ ہےکہ یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک اہم تحقیق ہے۔ کتاب میں جس طرح سے دونوں ممالک کے تعلقات پر اور دیگر موضوعات کا احاطہ کیاگیا ہےوہ قابل قدر ہے۔ پرورگرام کا آغاز قاری نیاز الدین ندوی کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔اس موقع پر مفتی امتیاز قاسمی فقہ اکیڈمی دہلی ،شمس تبریزقاسمی ملت ٹائمز،ڈاکٹر منظر امام،عمار جامی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ،جبکہ تقریب میں کثیر تعداد میں علما، اہل علم ،دانشور اور صحافی موجود تھے جن میں شاہ جہاں شاد سیکریٹری سمانچل ڈیولپمنٹ فرنٹ بہار، جاوید خان احساس پیس فاؤنڈیشن ،ڈاکٹر یامین انصاری،ریزیڈنٹ ایڈیٹر انقلاب ،شاہ عالم اصلاحی نیوز ایڈیٹر انقلاب، اے این شبلی چیف بیورو روزنامہ ہندوستان ایکسپریس، ڈاکٹر نعمان قیصر،اشرف علی بستوی ایشیا ٹائمز، یاوررحمن،نایاب حسن قاسمی، مولانا فیروز اختر قاسمی،مفتی راشد خان،مولانا ابو بکر قاسمی،الحاج بذل الرحمن،مولانا زکریا قمر قاسمی ممبئی،قاری عظیم الدین،توقیر راہی،انوارالوفا،سلام الدین خان،نوشاد عالم ندوی،مولانا نسیم مظاہری،انوار الحق ،مولانا ارشد عالم ندوی اورقاری اکبر علی عثمانی کے نام قابل ذکرہیں۔
( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
وویک اگنی ہوتری کہنے کو تو ایک فلمساز اور ہدایت کار ہیں ، لیکن ان کا حقیقی پیشہ مفاد پرستی ہے ۔ آج یہ بی جے پی کا گن گان کر رہے ہیں اور ہندوتوا کا جھنڈا لیے گھوم رہے ہیں ، لیکن کبھی یہ لبرل کہلانا پسند کرتے تھے اور بیف ان کی پسندیدہ ڈش ہوا کرتی تھی ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ پالا بدلنے میں بھلا ہے تو پالا بدل لیا ۔ آج یہ اپنی فلم دی کشمیر فائلز کو بھارتی فلم جگت کی ایسی فلم قرار دینے اور دلوانے کے لیے بے قرار رہتے ہیں ، جس نے وہ سچ دکھایا ہے جسے دکھانے کی کسی اور فلمساز اور ہدایت کار نے ہمت نہیں جتائی تھی ۔ لیکن کل تک یہ ہیٹ اسٹوری جیسی سافٹ پورن فلمیں بناتے اور بلیو فلموں کو سماج کے لیے ضروری بتاتے تھے ۔ خیر یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے ، وہ جو ٹھیک سمجھیں کریں ۔ انسان کے خیالات بدلتے ہی رہتے ہیں ، بس کبھی کبھی ہوتا یہ ہے کہ کچھ لوگ اچھے خیالات کو تج کر گندگی کو ذہن پر سوار کر لیتے ہیں ، اکثر ایسا مفادات کے حصول کے لیے یا یہ کہہ لیں کہ روپیے پیسے کے لیے ہوتا ہے ۔ وویک اگنی ہوتری کا ذکر ان کے ایک تازہ ٹوئٹ کی روشنی میں ہے ۔ ہوا یہ ہےکہ وویک اگنی ہوتری نے ڈینگ مارتے ہوئے یہ بیان داغا کہ ان کی فلم دی کشمیر فائلز کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ۔ جب فیکٹ چیکنگ کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ ایوارڈ کوئی نقلی ایوارڈ ہے ، یہ وہ اہم بلکہ سب سے اہم فلمی ایوارڈ نہیں ہے جو دادا صاحب پھالکے کے نام پر دیا جاتا ہے ۔ اندازہ کرلیں کہ وویک اگنی ہوتری کتنی صفائی سے جھوٹ بولتے اور دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ! کچھ پہلے انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی مذکورہ فلم آسکر ایوارڈ کے لیے فہرست میں ہے ، جو تفتیش کے بعد جھوٹ ثابت ہوا تھا۔ یہ ہر کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی فلم کو شاہکار مان لیا جائے اور بڑے بڑے ایوارڈ دیے جائیں ، مگر جھوٹ پر مبنی فلم کو بھلا کوئی ایوارڈ دیتا ہےط، اسے تو ایک اسرائیلی فلمساز نے گھناؤنے جھوٹ کا پلندہ تک قرار دے دیا تھا ۔ آلٹ نیوز کے محمد زبیر بھی فیکٹ چیک کرنے والوں میں تھے ۔ انہوں نے وویک اگنی ہوتری کو سچ کا آئینہ دکھاتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایوارڈ جسے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ کہا جا رہا ہے ، جعلی ایوارڈ ہے ۔ اس پر وویک اگنی ہوتری نے لکھا کہ فیکٹ چیکنگ ان دنوں کا سب سے بڑا وصولی مافیا ہے ، اسے پاگل ، جنونی دہشت گر تنظیمیں کنٹرول کرتی ہیں ۔ اس پر محمد زبیر نے یہ لکھا کہ اسی لیے وویک اگنی ہوتری فیکٹ چیکروں سے نفرت کرتے ہیں ۔ اتنا لکھنا تھا کہ وویک اگنی ہوتری کی مسلم دشمنی ابال پر آ گئی اور انہوں نے لکھا کہ نہیں مائی ڈیئر مجھے فیکٹ چیک کرنے والوں سے نفرت نہیں ، مجھے نفرت ہے کہ پنکچر بنانے والے فیکٹ چیک کرتے ہیں ۔ ویسے تم بھارت کے دشمنوں کے ایک جہادی فرد کے سوا کچھ نہیں ہو ، میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارے پیچھے کون ہے ، ہر جہادی کا وقت آتا ہے اور تیرا بہت جلدی آنے والا ہے ، سنبھل کے رہو ۔ یقیناً وویک اگنی ہوتری کا یہ ٹوئٹ جھوٹ کی بنیاد پر بُنا گیا ، اسلاموفوبیا کی گھناؤنی مثال ہے ۔ انہیں ہر مسلمان پنکچر بنانے والا اور جہادی نظر آتا ہے ۔ مان لیا کہ ہر مسلمان پنکچر بنانے والا ہے ، لیکن وویک وہ محنت کرتا ہے تمہاری طرح چاپلوسی نہیں کرتا ۔ تم تو انہیں جو تمہیں مانتے ہیں نفرت سے بھر رہے ہو اور انہیں انتہا پسند بنا رہے ہو ، اس کے لیے تمہیں بھارت کبھی معاف نہیں کر سکتا ۔ رہی بات جہادی کی تو مسلمان بھارت میں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف ، ظلم اور جبر اور برائی کے خلاف جہاد کرتا ہے ، ملک میں فرقہ پرستی پھیلانے والوں کے خلاف جہاد کرتا ہے ۔ ملک کو دشمنوں سے بچانے کے خلاف جہاد کرتا ہے، ملک کے استحکام اور ملک کی سالمیت کے لیے جہادِ کرتا ہے، ملک توڑنے کے لیے نہیں ۔ وویک اگنی ہوتری یہ جہاد نہ تم کرتے ہو اور نہ کبھی کر سکتے ہو ۔ تم جھوٹے ہو جھوٹ ہی پروسو گے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
کرناٹک میں بی جے پی کا غلیظ انتخابی کھیل : ٹیپو سلطان بمقابلہ ساورکر- شکیل رشید
( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
کرناٹک میں ٹیپو سلطان بمقابلہ ساورکر کی تیاری ہے ۔
کیوں نہ ہو ریاست کرناٹک کو ’ہندوتو ‘ کی نئی لیبارٹری جو کہا جاتا ہے ۔ اس دعویٰ کی بنیاد ، روزانہ کے اشتعال انگیز بیانات ، اور وہ سرگرمیاں ہیں ، جن میں ’ ہندوتوادی ‘ عناصر ، چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری ، ملوث ہیں ۔ مثال کے طور پر ، کرناٹک بی جے پی کے صدر نلن کمار کٹیل کے تازہ ترین بیان کو لے لیں ، جس میں انہوں نے شیرِ میسور ٹیپو سلطان کا ذکر کیا ہے ۔ بدھ ۱۵ ، فروری کو بنگلورو میں ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ ٹیپو سلطان کے حامیوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے ، ٹیپو سلطان کی اولادوں کو جنگلوں میں بھیج دیا جائے ۔‘‘ کوئی اگر یہ سوال کرے کہ ابھی تو ٹیپو سلطان کی یاد میں کوئی پروگرام یا تقریب تک نہیں منائی جا رہی ہے ، نہ ہی ٹیپو سلطان کی برسی یا جینتی ہے ، پھر بھلا نلن کمار کٹیل کو ٹیپو سلطان کی یاد کیسے آ گئی ، تو اس کا ایک ہی جواب ہے ، فرقہ پرستوں کو منافرت پھیلانے کے لیے کسی مقررہ وقت کی کیا ضرورت ، جب جی چاہے وہ ہذیان بکنے لگتے ہیں ۔ یہ نفرت کے سوداگر ہیں ، اور چونکہ کرناٹک کے اسمبلی الیکشن اپریل میں ہونا ہیں ، لہٰذا یہ فرقہ وارانہ منافرت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے ۔ نلن کمار کٹیل اسی لیے رام ، ہنومان اور ٹیپو سلطان کا بار بار ذکر کر رہے اور کہہ رہے ہیں کہ کرناٹک کا آنے والا اسمبلی الیکشن اس بار ’ ٹیپو بمقابلہ ساورکر ‘ لڑا جائے گا ۔ یعنی بی جے پی کی پوری تیاری ہے کہ ٹیپو سلطان کے نام پر ووٹروں میں اس قدر پھوٹ ڈال دی جائے کہ اُسے اقتدار کی کرسی حاصل کرنے میں کوئی دقت نہ ہو ۔ سچ کہیں تو ’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘ کا جو الزام انگریزوں پر لگایا جاتا ہے ، وہ بھاجپائیوں پر پوری طرح سے صادق آتا ہے ۔ بی جے پی کا مقصد ہر صورت میں ، ڈرا کر ، دھمکا کر اور برباد کر کے ، حکومت ہتھیانا اور عوام کو بے وقوف بنانا رہا ہے ۔ کرناٹک کو ’ ہندوتو ‘ کی نئی لیبارٹری کہا جا رہا ہو لیکن لوگ خوب جانتے ہیں کہ بی جے پی کو وہاں حکومت حاصل کرنے کے لیے پھوٹ ڈالنے کی پالیسی پر عمل کرنا پڑا ہے ، اور خزانے کا منھ کھولنا پڑا ہے ۔ الیکشن میں عوام نے اسے ٹھکرا دیا تھا ، لیکن گورنر نے کم سیٹیں ہونے کے باوجود بی جے پی کو حکومت سازی کی دعوت دی ، یدی یورپا نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا ، لیکن سپریم کورٹ نے انہیں اکثریت ثابت کرنے کے لیے صرف دو دن کا ہی وقت دیا ، اس لیے انہوں نے دو روز بعد ہی استعفیٰ دے دیا اور کانگریس و جنتا دل ( سیکولر ) ، جو پہلے ہی اکثریت میں تھے ، نے حکومت بنا لی ۔ عوام کی پہلی پسند یہی دونوں پارٹیاں تھیں ۔ لیکن پھر بی جے پی نے ’ آپریشن لوٹس ‘ شروع کیا ، توڑ پھوڑ کی سیاست کھیل گئی اور کانگریس میں سیندھ لگ گئی ، نتیجتاً بی جے پی پھر اقتدار میں آ گئی ۔ مطلب یہ کہ یہ جو بسوا راج بومئی کی حکومت ہے وہ چھل کپٹ کی بنیاد پر کھڑی ہے ، اور یہ بڑی کمزور بنیاد ہے ۔ بی جے پی کو لگ رہا ہے کہ اس بار اس کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں ، اسی لیے اس نے جم کر فرقہ پرستی پھیلانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ بومئی کی یہ حکومت ہندو – مسلمان کرانے میں خوب ماہر ہے ۔ لوگ جانتے ہیں کہ ’ حجاب کا مسٔلہ ‘ اسی حکومت میں اٹھا ہے ۔ آج کرناٹک کے تعلیمی اداروں کے دروازے باحجاب مسلم بچیوں پر بند ہیں ۔ تقریباً ایک لاکھ مسلم بچیوں نے تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیا ہے ۔ حجاب پر پابندی تو ایک وجہ ہے ہی تعلیمی سلسلہ بند کرنے کی ، لیکن ایک وجہ بچیوں کوستانا اور پریشان کیا جانا بھی ہے ۔ صرف یہی ایک ’ مسلم مخالف پالیسی ‘ نہیں ہے جس نے کرناٹک حکومت کی فرقہ پرستی کو جگ ظاہر کیا ہے ، اذان کو بھی ایک بڑا مسٔلہ بنایا گیا ہے ۔ کرناٹک میں ہندو تہواروں اور ہندو میلوں ٹھیلوں کے مواقع پر مسلم تاجروں پر پابندی بھی لگی ہے ، مسلمان تاجروں کا بائیکاٹ بھی سامنے آیا ہے اور حلال غذا کے خلاف یرقانیوں کی مہم بھی زوروں پر چلی ہے ۔ گویا یہ کہ تعلیم سے لے کر معاشی اور سماجی و مذہبی ، ہر سطح پر مسلمانوں کے لیے زندگی تنگ کرنے کی کوششیں بومئی راج میں کی گئیں یا کی جا رہی ہیں ۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک دن اسمبلی پر ’ بھگوا دھوج ‘ لہرائے گا ، گَرو کے ساتھ اسپیکر آر ایس ایس سے اپنی قربت یا چاہت کا اظہار کرتے ہیں ، وہ بھی ایوان میں ! لیکن ، جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے ، کرناٹک کے عوام کی پہلی پسند جنتا دل ( سیکولر ) اور کانگریس ہیں ، بی جے پی نہیں ۔
کچھ پہلےحیدرآباد کی ایک آزاد ایجنسی ایس اے ایس گروپ نے کرناٹک کی آئی پی پی ایس کی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک سروے کیا تھا ، سروے کے اعداد و شمار سے بلاشبہ بی جے پی کی نیند اڑ گئی ہو گی ۔ سروے کے مطابق اسمبلی الیکشن میں اس بار کانگریس کو 108 سے 114 سیٹوں پر جیت حاصل ہو سکتی ہے ، اور جنتا دل سیکولر کو 24 سے 34 سیٹوں پر ۔ سروے کے مطابق بی جے پی کے کھاتے میں 65 سے 75 سیٹیں جا سکتی ہیں ۔ حالانکہ خود بی جے پی کے خیمہ سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں ان کے مطابق بی جے پی کو 224 میں سے صرف 30 سیٹوں پر کامیابی کا یقین ہے ۔ سروے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کانگریس کو پچھٹرے طبقات ، ایس سی / ایس ٹی اور اقلیتوں کے ووٹ حاصل ہوں گے ۔ سروے کے مطابق اگر مجلس اتحاد المسلمین بھی الیکشن میں اترے ، تب بھی بمشکل ست یا آٹھ سیٹیں ہی متاثر ہوں گی ۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی کیوں ووٹروں کا بھروسہ نہیں جیت سکی ہے ؟ ایک وجہ بی جے پی کی اندرونی رسہ کشی ہے ۔ یدی یورپا کو نظرانداز کیا جانا بی جے پی کےلیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ کرپشن کے الزامات سے پارٹی جوجھ رہی ہے ، انتظامی معاملات کو لے کر عوام میں ناراضگی ہے ۔ ترقی کے کئی وعدے لٹکے پڑے ہیں ۔ چار سال کی بدانتظامی سامنے آ کھڑی ہوئی ہے ۔ سارا دارومدار وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ پر ہے ، لیکن اڈانی معاملہ سے مودی کی ساکھ خود متاثر ہوئی ہے ۔ اور رہے امیت شاہ ، تو ان کا ہندی زبان تھوپنے کا اعلان ، کرناٹک کے لوگوں کو ہضم نہیں ہو پا رہا ہے ۔ دوسری جانب کانگریس مضبوط ہوتی جا رہی ہے ، اور جنتا دل ( سیکولر ) سے اس کا گٹھ جوڑ الیکشن میں عوام کو اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چار سال سے یہ دونوں ہی پارٹیاں حکومت سے دور رہی ہیں اور ان کی ساری توجہ زمینی سطح پر خود کو لوگوں سے جوڑنے اور کیڈر مضبوط کرنے پر مرکوز رہی ہے ۔ یہ وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے ، بی جے پی ہندو – مسلمان کی سیاست کو مزید تیز کر رہی ہے ، اور اسی سبب اس بار کے اسمبلی الیکشن کو ’ ٹیپو سلطان بمقابلہ ساورکر ‘ بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے ۔ یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ ٹیپو سلطان کو چاہنے والے نہیں ، رام اور ہنومان کو چاہنے والوں کی ضرورت ہے ۔
ابھی حال ہی میں ، کرناٹک کے ایک دانشور دیون وُرا مہادیوا کے لکھے ایک 68 صفحات کے کتابچے کا انگریزی ترجمہ ’ RSS The Long And The Short Of It‘ پڑھ کر ختم کیا ہے ۔ مہادیوا کچھ عرصہ آر ایس ایس سے وابستہ تھے ، لیکن اُس کا مکروہ چہرہ دیکھ کر اسے چھوڑ دیا ہے ۔ مہادیوا کی کتاب کا بنیادی موضوع آر ایس ایس کے نظریات ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم اس ملک میں آئین کو ختم کر کے ’ منو سمرتی ‘ کو نافذ کرنا چاہتی ہے ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کے راج میں ’ ورن ویوستھا ‘ پر عمل کیا جائے گا ، یعنی ذات پات کا نظام ، اس نظام میں چند فیصد برہمنوں کا راج ہوگا اور باقی سب اس کے اشارے پر عمل کریں گے اور اس نظام میں دلت سب سے نچلے درجہ پر ہوں گے ۔ مہادیوا نے سنگھی چہرہ کو اجاگر کر کے لوگوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ آر ایس ایس اور اس کے سیاسی ونگ بی جے پی کو اب باہر کا راستہ دکھا دیں ۔ یہ کتابچہ شائع ہوتے ہی ایک لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں بِک گیا تھا ، اس کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ مہادیوا نے اپنی کتاب میں ٹیپو سلطان کا بھی مختصراً ذکر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں ِ ’’ ٹیپو سلطان کو بدنام کرنے کی مہم ، ایک اچھی مثال ہے کہ ، کیسے آر ایس ایس اور اس کی اولادیں جھوٹ گڑھتی ہیں ۔ ٹیپو نے ریاست میسور پر 1782 اور 1799 کے درمیان حکومت کی ۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ، کوڈاگو میں انہوں نے ( ٹیپو سلطان نے) 69 ہزار ہندوؤں کو اسلام مذہب قبول کرایا ۔ اگر آپ گزٹ میں آبادی کے اعداد وشمار دیکھیں ، اور چاہے آپ کیسا ہی حساب کتاب کریں ، پائیں گے کہ اُس وقت کوڈاگو کے صوبہ میں آبادی 69 ہزار سے کم تھی ۔ اگر آر ایس ایس کا دعویٰ درست ہوتا ، تو کیا آج کوڈاگو میں صرف مسلمانوں کی ہی اکثریت نہ ہوتی ؟ جبکہ کوڈاگو میں مسلمانوں کی
آبادی محض 15 فی صد ہے ۔ ہندوؤں سے ٹیپو کی نفرت کی کہانی پھیلایا گیا جھوٹ ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ یہ تنکا سا جھوٹ پھل پھول رہا ہے ، اور آر ایس ایس اور اس کے سنگھی اس کی فصل کاٹ رہے ہیں ۔ جب آپ اس پر غور کرتے ہیں ، تو صاف ہوجاتا ہے کہ ان کے بھیتر کوئی بھگوان نہیں ہے ، جھوٹ ان کی گھریلو دیوی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اِن جھوٹ گڑھنے والوں نے اپنے ضمیر کو ٹانگ دیا ہے ۔‘‘
مہادیوا نے ایک جگہ اور ٹیپو سلطان کا ذکر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ درسی کتابوں میں جھوٹ بھرا جارہا ہے ، ’’ اور درجہ چھ کی سوشل اسٹڈیز کی درسی کتاب میں ٹیپو سلطان کا ایک مجاہد آزادی کے طور پر جو ذکر ہے ، اسے یہ ہٹا رہے ہیں ، اسی طرح انہوں نے ٹیپو کے ، پیلہ پروری کے لیے ، ٹکسال کے قیام ، زمین کے تعلق سے اصلاحات اور کسانوں کو آسان قرضہ جات دینے وغیرہ کے اقدامات کو ہٹا دیا ہے ۔‘‘ اگر کرناٹک پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ، وہاں ٹیپو سلطان کے نام پر فرقہ پرست ، مطلب سنگھی ٹولہ ، عرصہ سے سرگرم ہے ۔ میسور میں آج بھی ٹیپو سلطان کو ایک ایسے حکمراں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ، جس نے بہادری کے ساتھ انگریزوں سے مقابلہ کیا تھا ۔ جنوبی کرناٹک میں آج بھی ہر گھر میں چھوٹے بچوں کو ٹیپو سلطان کہہ کر پکارا جاتا ہے ، کوڈاگو صوبہ میں ٹیپو سلطان کے تعلق سے کچھ غلط فہمیاں ہیں ، لیکن ٹیپو سلطان کے خلاف وہاں سڑکوں پر مظاہرے نہیں ہوئے ۔ کانگریس جب کرناٹک میں حکومت کر رہی تھی اور سدا رمیّا وزیراعلیٰ تھے ، تب انہوں نے ٹیپو سلطان کی جینتی منانے کا فیصلہ کیا ، بی جے پی اس فیصلہ کے خلاف متحد ہو کر سامنے آئی تھی ، تب سے ہی ٹیپو سلطان کے نام پر نفرت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے ، اور جھوٹ پھیلایا جا رہا پے ۔ اس بار اسمبلی الیکشن میں ٹیپو سلطان کے نام پر ووٹوں کو تقسیم کرانے کی کوشش کی جائے گی ۔ ظاہر ہے کہ کشیدگی پھیلے گی ، لیکن مسلم اقلیت کو چاہیے کہ وہ نہ مشتعل ہو اور نہ بی جے پی کے دَام میں آئے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں ، صبر کا مظاہرہ کرے اور اُسے اپنا ووٹ دے جو کرناٹک میں ان کے حقوق کی حفاظت کر سکے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)