پرنسپل:اسلامیہ کالج،سیکر(راجستھان)
تعلیم کی اہمیت،افادیت اور ضرورت و حاجت پر ہرمذہب، دھرم، رواج اور ازم نے خصوصی زور دیا ہے اور اپنے اپنے انداز، نہج اور طریقے سے اس کے حصول کی تلقین کی ہے نیز اسے عبادتوں کی طرح مقدس پیشہ گردانا ہے، مذہب اسلام نے تواسے فرض قرار دیا ہے چنانچہ اس کا حصول اور ادائیگی اسی طرح لازم ہے جیسے اس کے دیگر فریضے ہیں اور ان کی ادائیگی واجب ہے ———— یہ سب اس لیے ہے کہ ”تعلیم“ و ”تعلم“ کے بغیر نہ انسان خود کو پہچان سکتا ہے اور نہ اپنے پیدا کرنے والے۔نہ مقصد زندگی کو جان سکتا ہے،نہ انجام سے خبردار ہوسکتاہے، نہ اسے حق و انصاف کی تمیز و طلب ہوتی ہے، نہ جینے کا ہی سلیقہ اسے آتا ہے اسی طرح نہ وہ کسی قسم کی تہذیب اور تمدن سے ہی واقف ہوتاہے،سچ تو یہ ہے کہ اس کے بغیر نہ دنیا بس سکتی ہے اور نہ اس کا نظام چل سکتا ہے، نہ ہی مذہب اور جماعتوں کے اصول و منشورپر عمل آوری اور ضابطوں کی پابندی ممکن ہے اور نہ ہی ان کی تلقین و ارشاد کافریضہ ادا ہوتاہے۔اسلام میں چوں کہ آخرت کا تصور بھی ہے اس لیے تعلیم کے بغیر کسی کی آخرت بھی نہیں سنور سکتی۔قطع نظر اس کے، یہ تو حق ہے کہ عقل و دانش مندوں نے یہ باور کرلیا کہ نور ِتعلیم کے بغیرمنزل پانا یا کسی درست راہ تک پہنچنا ہرگزممکن نہیں ہے،جنھوں نے اس کے بغیر یہ مہم جوئی کی وہ بھٹکتے ہی رہ گئے۔
تعلیم کی اسی آفاقیت اور قدر و منزلت کا احساس کرتے ہوئے ہردور کی حکومتوں، مذہبی پیشواؤں اورقوم کے سرکردہ افراد نے تعلیم گاہیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔چنانچہ یونان و روما،عرب و افریقہ اور یورپ وایشیا غرض دنیا کے ہر خطے میں رواج تعلیم کے لیے جدو جہد،تعلیم گاہوں کے قیام، ان کے فیوض و برکات اور معاشروں و سماجوں پر مرتب ہونے والے نیک اثرات کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ہر چند کہ ابتدا میں وہ ادارے مخالفتوں، اندیشوں، اعتراضات اوربے یقینی کی فضا میں قائم ہوئے مگر چند برس میں طلبا کو دی جانے والی موافقت، وفاداری، تعمیری، فکری اور اطمینان نیز یقین و اعتبارکی تعلیمات کے سبب ملتوں کا اثاثہ اور سرمایہ بن گئے۔
”اسلامیہ(پی جی) کالج،سیکر“ہمارے سامنے ایک ایسی ہی مثال ہے، جس کا قیام عالم بے سروسامانی میں مسلمانانِ سیکر کی فلاح وبہبود کی غرض سے عمل میں آیا تھا مگر آج وہ دہائیوں پر مشتمل اپنی زریں خدمات اور اپنی پرشکوہ’لال رنگ‘ کی عمارت میں کسی قلعہ کی حیثیت رکھتی ہے،اسی لیے اسے عرف عام میں ”سیکر کا لال قلعہ“کہاجاتا ہے،اس کی مثال پورے شیخاواٹی علاقے میں ناپیدہے۔
یوں تو شہر سیکر اور آس پاس متعدد نجی تعلیمی ادارے اور درس گاہیں موجود ہیں جو اپنا فریضہ تندہی اور فکر مندی سے انجام دے رہی ہیں مگر ان سب کے درمیاں ”اسلامیہ(پی جی) کالج“ نمایاں مقام رکھتی ہے، یہ بات ہم نہیں، بلکہ اس سے فیض یاب ہونے والے طلبا و طالبات اور ان کے سرپرستان کہتے ہیں۔شہر کے قلب میں واقع اسلامی اقدار و روایات کا امین اور جدید عصری علوم و فنون کا مرکز یہ ادارہ اپنے شعبہ جات، تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کے سبب شہرسیکر کی شان اور آن ہے،بلکہ ایک لازوال اعتماد ہے، جس کا سلسلہ ہر گزرتے دن دراز ہوتا جارہا ہے جو باعث تشکرو اطمینان ہے۔
جب ہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں اور اس کالج کے قیام کے محرکات، مصور اول،بانین اور اس کے مخلصین کی جدوجہد کا سراغ لگاتے ہیں تواس کا حال تاریخ کے اوراق سال بہ سال یوں بیان کرتے ہیں:
آزادیِ ہند سے 21سال قبل 1926میں اسلامیہ اسکول کے نام سے سیکر شہر کے قلب میں اس ادارے کی بنیاد ڈالی گئی۔اس وقت، آج کا راجستھان 21دیسی ریاستوں میں تقسیم تھا اور ’راجپوتانہ‘ کے نام سے ہندستان بھر میں معروف تھا۔اس وقت ملک بھر میں جدوجہد آزادی عروج پر تھی۔ریاست جے پور و اطراف میں تحریک آزادی کے ساتھ ساتھ’تحریک تعلیم‘کی شمع بھی روشن تھی،اس فضائے نورانی اور ضیائے علمی کو قوم و ملت کے ہمدرد علیم خاں قائم خانی نے ایک ادارے کی شکل دے کر اسے قومی اثاثہ اور سرمایہئ ملت بنادیا۔مزید ابتدا سے ہی اس ادارے کو سیکر کے راؤ، شری کلیان سنگھ اور جے پور اسٹیٹ کے پرائم منسٹر مرزا اسماعیل کی نوازشات بھی حاصل رہی۔اس طرح آغاز سے ہی اسے فکرمند اور قوم کے غم خوار افراد و درمند نیز صلح جوہستیوں کی قیادت اور سرپرستی حاصل رہی ہے،جنھوں نے شہر سیکر کے مسلمانوں کے اس محبوب و قابل فخر ادارے کو پروان چڑھانے میں اپنی بھرپور قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار اس شجر علمی کو تناور اور سایہ دار بنادیا،چنانچہ آج اس کی شاخیں شہر سیکر کی تہذیبی اور تعلیمی کائنات پر سایہ فگن ہیں۔
کتاب ماضی گویا ہے کہ صبح آزادی طلوع ہوتے ہوتے یہ ادارہ پانچویں جماعت تک شہر سیکر میں اردو اور مذہبی تعلیم کا مرکز بن چکا تھاجس سے مسلمانانِ سیکر کے نونہالان فیض یاب ہورہے تھے۔
یکم جولائی 1950میں اسلامیہ اسکول کو مڈل اسکول کا درجہ حاصل ہوا،اس کے اگلے ہی سال اس کی اولین شاخ محلہ قریشیان میں قائم کی گئی نیز 1952میں اسے حکومت ِ راجستھان کی گرانٹ ایڈ حاصل ہونے لگی۔پھر 13اکتوبر 1956کو اسے حکومت ِ راجستھان سے منظور کرالیا گیا۔ ادارہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہا،یہاں تک کہ 21ستمبر 1965کو ادارے کو سینئر سکنڈری اسکول کا درجہ حاصل ہوگیا۔ یہ اس ادارہ کا نقطہئ ارتقا تھا،اب یہ ادارہ اپنی متعدد شاخوں اور ذیلی اداروں کے باعث راجستھان کے بہترین اسکولس میں شمار ہونے لگا اور کشاں کشاں مسلمانان ِ شیخاواٹی کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔
اب تک یہ ادارہ ایک مشن بن چکا تھا،اس کی کامیابی کے چرچے محفلوں میں ہونے لگے؛اس کے طلبا و طالبات صوبائی،قومی اور بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں حصے لینے اور کامیابیاں حاصل کرنے لگے۔اس طرح اس کی نمائندگی بیرون ممالک میں بھی ہونے لگی۔ان مسلسل کامیابیوں اور علمی کاوشوں نے ادارے کو بامِ عروج پر پہنچادیا، چنانچہ اب مرحلہ تھا اسے ہائر سیکنڈری اسکول بنانے کا؛یہ مرحلہ بھی طے ہوا۔
سال 2010اس ادارے کی تاریخ کا زرین اور یادگار سال ہے۔ اسی سال اس ادارے کو اسکول سے ’کالج‘بنادیا گیا اور حسب دستور مقامی یونیورسٹی ’شیخاواٹی یونیورسٹی‘(پنڈت دین دیال یونیورسٹی،سیکر)سے مربوط کردیاگیا۔ اب یہ ادارہ ”اسلامیہ (پی جی)کالج“کی شکل میں اپنے شان دار ماضی،روایات،خدمات اور تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات و کارناموں کی بدولت ملت اسلامیہ بالخصوص مسلمانان ِ سیکربشمول شیخاواٹی کا اثاثہ اور قابلِ فخر سرمایہ ہے۔جو ترقی پذیر اور عروج و ارتقا کی منازل طے کررہا ہے۔
تادمِ تحریر اسلامیہ (پی جی) کالج میں رواں کورس حسب ذیل ہیں،جنھیں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن،نئی دہلی کی منظوری بھی حاصل ہے۔
آرٹس/کامرس:
1۔ اردو (بی اے۔ایم اے)
2۔ انگلش (بی اے۔ایم اے)
3۔ ہندی (بی اے)
4۔ ہسٹری (بی اے۔ایم اے)
5۔ پولیٹکل سائنس (بی اے، ایم اے)
6۔ جغرافیہ (بی اے۔ایم اے)
7۔ ہوم سائنس (بی اے۔ایم اے)
8۔ سوشیالوجی
9۔ پبلک ایڈمن
10۔ بی۔کام ایم۔ کام
سائنس:
بی ایس سی ایم ایس سی
کالج میں یہ کورسز نہایت قابل اور ماہر اساتذہ کی خصوصی توجہ اور تندہی سے رواں دواں ہیں اور بہ لحاظِ ضرورت مزید کورسز کی شمولیت اور اضافے کا بھی امکان ہے۔
مذکورہ بالا حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ فکر تعلیم و اصلاح قوم کا ان سرخیلوں اور میران کارواں نے جو بیڑا اٹھایا تھا آج وہ مہیب طوفانوں کا جگر چیرتا ہوا ساحل سے ہم کنار ہو چکا ہے۔ اسلامیہ (پی جی) کالج ان کی فکر جمیل کا مظہر و نشان ہے۔ نیزاس خوش رنگ گلستاں کی حنا بندی ان کے ہی جگر لالہ سے ہورہی ہے۔ ہمارے دلوں سے ان کے لیے یہی دعا نکلتی ہے:
”خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را!“
اور:
”آسماں ’ان‘کی لحد پر شبنم افشانی کرے!“
21 فروری, 2023
سنبھل:سنبھل ایک تعلیمی وتاریخی شہر ہے، اس میں بے شمار علماء کرام پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے جہاں قرآن وحدیث کی خدمات پیش کی وہیں سنبھل کا نام بھی روشن کیا۔ ان ہی علماء میں سے عصر حاضر میں ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی بھی ہیں جن کے قلم سے اب تک ۵۶ کتابیں تحریر ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی کی تین کتابوں کا اجراء سنبھل کے علماء کرام ودانشورانِ قوم کے بدست القلم پبلک اسکول، نخاسہ میں ہوا۔ ان تین کتابوں میں سے ایک کتاب ’’دروسِ قرآن‘‘ ہے، جس میں قرآن کریم کی آخری ۱۹ سورتوں کی آسان زبان میں تفسیر بیان کی گئی ہے تاکہ ہر عام وخاص ان سورتوں کو اچھی طرح سمجھ کر پنچ وقتہ نمازوں میں پڑھے تاکہ جہاں نمازوں میں خشوع وخضوع پیدا ہوا وہیں دین کی ضروری معلومات بھی سب کو حاصل ہوجائے۔ دوسری کتاب ’’دروس حدیث‘‘ ہے، جس میں نبی اکرم ﷺ کے فرمان کی آسان شرح بیان فرمائی ہے۔ پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن وحدیث شریعت اسلامیہ کے دو اہم مآخذ ہیں۔ تیسری کتاب ’’سیرت النبی ﷺ کے چند پہلو‘‘ ہے، جس میں آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ پر مختصر مگر جامع بحث کی گئی ہے۔ دروس قرآن ودروس حدیث ہندی اور انگریزی زبان میں بھی مہیا ہے۔ پروگرام کی نظامت مولانا مزمل حسین مرادآبادی نے کی۔ مفتی احسان قاسمی نے مصنف کی ۵۶ کتابوں کا مختصر تعارف پیش کیا۔ مفتی محمد جنید قاسمی نے دروس قرآن، مفتی راشد قاسمی نے دروس حدیث اور مفتی محمد جنید سنبھلی نے ’’سیرت النبی ﷺ کے چند پہلو‘‘ پر اپنا قیمتی تبصرہ وتجزیہ پیش کیا۔ پروگرام کی صدارت مولانا عبدالمعید سنبھلی نے کی۔ مولانا عمران ذاکر قاسمی کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔ پروگرام کے اختتام کے بعد تینوں کتابوں کا ایک ایک نسخہ حاضرین جلسہ کو پیش کیا گیا۔ شہر سنبھل کے علاوہ بجنور، مرادآباد اور امروہہ ودیگر علاقوں سے علماء کرام ودانشورانِ قوم کی کثیر تعداد نے شرکت کی جن میں مولانا میاں قاسمی، مفتی فرقان سنبھلی، مفتی مہر الٰہی قاسمی، مفتی عثمان قاسمی، ڈاکٹر جمال عبدالناصر، حکیم محمد ریان، پروفیسر عابد حسین حیدری، وقار رومانی، ماسٹر مقصود حسن، ڈاکٹر انظار حسین، محمد سہیم، محمد کمال، ڈاکٹر مجیب، مولانا محمد مکرم قاسمی، محمد حسیب، محمد مغیث، نظر الاسلام، محمد فینان، محمد کاظم، حاجی یامین برکاتی، محمد قمر، مولانا تنظیم قاسمی، مولانا حماد رسول، مولانا سبحان آصف، ڈاکٹر حفیظ الرحمن فلاحی، ڈاکٹر شہزاد علیگ، بدر جمال ساحل، مولانا شمشاد ندوی، عبدالرحمن ایڈووکیٹ، مولانا شاکر قاسمی، مولانا محب الرحمن قاسمی، حافظ شاہنواز، مولانا نور الاسلام، شانِ رب، جنید ابراہیم، ریحان فلاحی، محمد عظیم فلاحی، مولانا زکریا قاسمی، مفتی مجیب الرحمن قاسمی، مولانا طیب قاسمی، تنویر ایڈووکیٹ، قاری عبدالرحمن، قاری محمد اکرم، حافظ فخر عالم، شاہویز دانش ندوی اور محمد شاہویز کے نام قابل ذکر ہیں۔ خواتین نے بھی پروگرام میں شرکت کی جن میں ثمرین جمال، صوبیہ تنویر، انجم آرا، نازک نسرین، آفیہ سیف الاسلام، شاذیہ نواز اور ثنا انور کے نام قابل ذکر ہیں۔