کیا واقعی ہم باشعور اور دانش مند ہیں ؟ ویسے تو ہم اپنے آپ کو باشعور اور دانش مند سمجھتے ہیں لیکن کئی محاذوں پر اس سمپل ٹیسٹ میں فیل ثابت ہوئے ہیں :
١- ہندو مسلم منافرت
اس بابت اگر باشعور ہوتے تو یہ راگ نہیں الاپتے کہ انگریزوں نے ہندو مسلم تفرقہ کی بیج بوئی ہے !
اگر انہوں نے بیج بوئی بھی تھی تو ہم نے پچھتر سالوں تک ان پودوں کو کیوں پھلنے پھولنے دیا؟ کیوں نہیں اکھاڑ پھینکا ! آخر کب تک ہم divide and rule پالیسی کا رونا روتے رہیں گے۔۔۔۔ اب نوجوانوں کو سامنے آنا چاہیے اور کہنا چاہیے enough is enough.
ظاہر ہے یا تو ہمیں ان باتوں کو سمجھنے کے لیے مطلوبہ عقل نہیں ہے یا انگریزوں کے جانے کے بعد بھی شعوری طور پر ہم ذہنی غلام اور برطانوی حکومت کے زیر استعمار ہیں!
جس طرح گدھے کو کھونٹے سے روزانہ باندھا جاتا ہے اور جس روز نہ بھی باندھا جائے وہ اسی کھونٹے کے پاس رہتا ہے بھاگتا نہیں ہے اس لئے کہ ذہنی طور پر وہ سمجھتا ہے کہ وہ باندھا ہوا ہے۔
٢- دیوبندی – بریلوی – اہل حدیث
سو سال سے زائد عرصہ سے بعض جزئی مسائل پر دیوبندی – بریلوی اور اہل حدیث کا اختلاف ملت میں انتشار اور آپس میں منافرت کا سبب بنا ہوا ہے ۔
مانا کہ بااثر دینی طبقے اپنی دکانداری چلانے اور چمکانے کے لئے اپنے اپنے حلقہ اثر و رسوخ کو ایک دوسرے کے خلاف متنفر کرتے رہتے ہیں لیکن سو سال کا طویل عرصہ ، تعلیمی بیداری اور منٹوں میں بسہولت انٹرنیٹ پر ہر زبان میں معلومات کی فراہمی سے کیوں نہیں ہم اتنے بھی مستفیض نہیں ہو سکے کہ ایسے دیوبندی بریلوی فرقہ پرست مولویوں کے خلاف اپنی عقل کا استعمال کرتے اور کسی کلمہ گو سے بغض نہیں رکھتے کسی کو کافر اور مشرک نہیں سمجھتے ۔
یہ بھی ایک ذہنی غلامی ہے کہ ” مولانا صاحب نے کہا کہ فلاں فرقہ والوں کے پیچھے نماز ادا نہیں ہوتی ہے” ، فلاں فرقہ کے لوگوں کو سلام اور مصافحہ کرنے سے اسلام سے خارج ہو جاؤ گے ان کے کسی فرد کی نماز جنازہ میں شرکت سے نکاح ٹوٹ جائے گا!
نعوذ باللہ ۔۔۔۔۔ ایسے مولویوں نے یہ کیسا مکڑ جال پھیلا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور دوسری بڑی بڑی دانشگاہوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ایسے مولویوں ، من گھڑت باتوں اور ، دین کے نام پر خرافات اور رسم ورواج کے شکنجے سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں۔
آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر کسی کا احتکار ( مونوپولی) کاپی رائٹ نہیں ہے خواہ کوئی کتنے ہی اہل حدیث ہونے کا ٹریڈ مارک کی تشہیر کرے ۔
ہر مسلک کا ماخذ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ ہے ۔ اس لئے ہر مسلک کو حق ہے کہ اپنی ذہنی کاوش اور دیانت داری سے ان کی تشریح اور ان سے مسائل کی تخریج کریں ۔ لیکن اپنی سمجھ کے مطابق کسی نتیجے پر پہنچنے کو دوسروں پر نہیں تھوپیں ۔ دوسرے مسالک والے بھی اپنی عرق ریزی اور خالص دینی جذبے کو مقدم رکھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچے ہیں اگر مقررہ پیمانے پر اترتے ہیں تو جزئی مسائل میں ان کی نکیر کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنی تحقیق پر عمل کریں اور ان کو ان کی تحقیق پر عمل کرنے دیں ۔
اب ملت کے باشعور طبقے بالخصوص نوجوانوں کو سامنے آنا چاہیے اور کہنا چاہیے enough is enough یعنی ‘ بہت ہو چکا ‘ ۔
اب ملت کے حساس لوگوں کو اندھی عقیدت، شخصیت پرستی اور روایات کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کرنا چاہیے اور ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسے مولویوں سے کہہ دینا چاہیے کہ ہمیں مزید مسلکی منافرت نہ سکھائیں اگر آپ کو اپنی دکان چلانی ہے تو ملت کے افراد کے سماجی مسائل کے حل کی کوشش کریں ، ناخواندگی دور کرنے کے لئے تبلیغ کریں معیشت بہتر کرنے کے لئے طریقہ کار بتائیں۔
اور سب سے اہم یہ کہ ان سے نذرانے ، ہدیے اور تحفے وصول کرنے ‘ لینے کی بجائے دینے ‘ پر عمل کریں ضرورت مندوں کی خبرگیری کریں جو نان شبینہ کے محتاج ہیں انہیں کھانا کھلائیں جو پیسوں کی قلت کی وجہ سے دوا اور علاج نہیں کرا سکتے ان کا علاج کرائیں جو اسکول کی فیس ادا نہیں کر سکتے ان کی فیس ادا کریں اور یہ بھی کہ پچیس ہزار پچاس ہزار اور لاکھ دو لاکھ قرض دے کر ضرورت مندوں کو چھوٹی موٹی تجارت کے لئے کھڑا کریں۔ آنے والے دن خوفناک معاشی بحران کا ہے ابھی ہی متوسط درجہ والے ادنی درجہ میں آگئے ہیں۔ اس لئے خدا را اپنے حجروں سے باہر نکلیں اور ملت کے حقیقی خیرخواہ اور قائد بنیں۔