دسمبر 2022
امیرشریعت سابع مفکراسلام حضرت مولانامحمدولی رحمانی علیہ الرحمہ کے خطبات ومقالات پرمشتمل کتاب بعنوان’مدارس اسلامیہ اورہماری ذمہ داریاں‘ منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں امیرشریعت سابع ؒ کے سات مقالات شامل ہیں۔یہ مقالات عصرحاضرمیں مدارس کو درپیش چیلنجزکی روشنی میں چشم کشابھی ہیں اور رہنما بھی۔ یہ مجموعہ دارالاشاعت خانقاہ رحمانی میں (پچاس روپیے میں) دستیاب ہے جوقاضی عمران قاسمی سیتامڑھی کی توجہ سے شائع ہوا۔’اپنی بات ‘کے تحت مرتب کتاب حافظ محمدامتیازرحمانی نے سبھی مقالات کے پس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔کتاب 80صفحات پرمشتمل ہے۔ اخیرمیںامیرشریعت سابع مولانامحمدولی رحمانیؒ کے دواقتباسات بعنوان’آپ کابچہ کوہ نورسے زیادہ قیمتی ہے‘ اور’اپنے بچوں کی دینی تعلیم کاانتظام کیجیے،‘شامل کیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں امیرشریعت رابع مولانامنت اللہ رحمانیؒ کااہم اور مختصر پیغام بعنوان’علماء و مدارس اسلامیہ کی کفالت اولین ضرورت ہے،‘ درج کیاگیا ہے۔ اس اقتباس میں مولانامنت اللہ رحمانیؒ نے نہایت اہم امر کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے تقریباََسبھی ذمہ داران مدارس ’تجاہل عارفانہ‘ برتے ہوئے ہیں۔ مولانافرماتے ہیں:
’’ہماری یہ اولین ضرورت ہے کہ قرآن وسنت اورعلوم دین کے اس خزانہ عامرہ کی حفاظت وصیانت پرمامورعلماء اورمدارس اسلامیہ کے طلبہ واساتذہ کی ضروریات کی کفالت پوری وسیع النظری اورفراخ حوصلگی کے ساتھ کریں،تاکہ یہ علماء وطلبہ بے نیازویکسوہوکراپنے کاموں میں مشغول رہیں،یہ ا سی وقت ممکن ہوگاجب کہ ہم اس کام کی صحیح عظمت کوپہچان سکیں اورعلماء اورمدارس اسلامیہ جس کام میں مشغول ہیں اس کی صحیح قدروقیمت ہماری نگاہوں میں ہو۔اگرایسانہیں کیا جاسکاتوہم ان علماء ومدارس کوان کی غیرت اوران کی خودداری کوایسی آزمائش میں ڈالنے کے مرتکب ہوں گے جس کے برداشت کرنے کی استطاعت عام طورپرلوگوں میں نہیں ہے اوراس کے نتیجے میں دین کاعلم ذلیل ہوگا،جرأت وحق گوئی،خودداری اوریکسوئی کے ساتھ کاردین انجام دینے والے افرادکی کمی ہوتی جائے گی اورعلوم نبوت اوراعمال نبوت دونوں ہی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں گے جوہماری تاریخ کابہت بڑاحادثہ ہوگا۔‘‘(کتاب ہذا،ص80)
مولانامنت اللہ رحمانی کے یہ الفاظ صورت حال کی بھرپورترجمانی کرتے ہیں،آپ نے جس امرکی طرف اشارہ کیاہے اس پرتوجہ کی ضرورت ایسے وقت میں بڑھ گئی ہے جب مدارس کومختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ کیا اس حقیقت سے فرارممکن ہے کہ مدارس میں کم تنخواہوں کی وجہ سے باصلاحیت فارغین دوسری راہ اختیارکررہے ہیں جس سے ایک طرف صلاحیتوں کاضیاع ہورہاہے ،دوسری طرف خودمدارس میں باصلاحیت اساتذہ کابحران ہے۔ اگرمدارس کے ذمہ داران، تنخواہوں کامعیاردرست کرلیں تو صلاحیتوں کی حفاظت اوران کاصحیح استعمال ہوسکے گا۔جس طرح اشتہارات،اجلاس ،کیمروں،غیرضروری تام جھام پربے دریغ اخراجات ہوتے ہیں،وہی اخراجات معیاری تنخواہ پرکیے جائیں توافرادی بحران پرقابوپایاجاسکتاہے۔یہی نہیں،توکل اوراخلاص کی ساری نصیحتیں صرف اساتذہ مدارس کے لیے ہیں ،یوں لگتاہے کہ ذمہ داران مدارس اس سے مستثنیٰ ہیں۔یہ بھی قابل غورہے کہ سرکاری قانون کے مطابق ’کم از کم اجرت‘ کے طے شدہ معیارپرکتنے مدارس اسلامیہ کی تنخواہیں پوری اتررہی ہیں؟اگرکبھی سرکارنے کم تنخواہ پرگردن پکڑلی توچھٹکارے کی راہ نہیں نکل سکے گی۔ضروری ہے کہ وقت رہتے ان امورکودرست کرلیاجائے جن سے مستقبل میں قانونی گرفت کاخدشہ ہے۔ ذمہ داران مدارس کبھی اس طرف گفتگوکی زحمت نہیں فرماتے۔اب جب کہ مدارس سے متعلق امور زیر بحث ہیں توتنخواہ کے معیار پر ضرور توجہ دینی چاہیے اوریہی امرائمہ مساجدکے تئیں عوام پر لاگو ہوتا ہے۔
کتاب میں شامل مولانامحمدولی رحمانی علیہ الرحمہ کے مقالات میں متعددضروری امورکی طرف عوام وخواص کومتوجہ کیاگیاہے۔مدارس میں عصری تعلیم پرخوب گفتگو ہو رہی ہے۔لوگ ہوامیں تیرچلارہے ہیں۔جتنی منہ اتنی باتیں۔خلط مبحث کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پیش نظرقیام مدارس کا مقصدواضح نہیں ہے۔ مولانامحمدولی رحمانی ؒکا نظریہ اس سلسلے میں دن اوررات کے فرق کی طرح واضح ہے کہ مدارس کامقصدڈاکٹر،انجینئربنانانہیں ہے بلکہ دین کاخادم اور داعی بناناہے۔مسلم طلبہ کو دوسرے میدانوں میں آگے بڑھنے اور معاشی طورپرمضبوط ہونے سے کس نے روکاہے،اس کے لیے متعددادارے خدمات انجام دے رہے ہیں،لیکن مدارس کامقصدبالکل الگ ہے۔ مولاناعصری تعلیم کے مخالف نہیں بلکہ پیروکار رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم طلبہ آئی آئی ٹی، میڈیکل، سول سروسز،سی اے سمیت تمام اہم مقابلہ جاتی امتحان میں نمایاں ہوں،اوراسی لیے انھوں نے رحمانی تھرٹی کاقیام عمل میں لایااورکوشاں رہے کہ دینی مزاج کے اسکولوں کی توسیع بڑے پیمانے پرکی جائے، لیکن نصاب مدارس پر انھوں نے واضح لکیرکھینچی ہے۔کتاب میں درج مقالات میں آپ نے اسے موضوع بنایاہے کہ طلبہ مدار س کی منزل متعین ہے ، مدرسہ کامقصدبالکل صاف ہے ،مدراس کواس لکیرسے ہرگزنہیں بھٹکنا چاہیے۔مولاناکہتے ہیں:
’’ہمدردی کی باتیںکرکے آپ کولیکھ سے ہٹاناچاہتے ہیں،سمجھدارمسافروہی ہے ،جواپنی راہ سیدھی چلتارہے،جوراہ چھوڑدیاکرتاہے،وہ منزل ناآشنا ہوجایا کرتا ہے، اورکامیابی سے سرفرازوہی ہواکرتاہے جوراہ کی دشواریوں اورپریشانیوں کوجھیلتاہوامنزل تک جاپہونچتاہے۔ہمارے بزرگوں نے بہت پہلے ایک بات کہہ رکھی ہے’من طلب الکل فات الکل‘جوسب کچھ پانااورحاصل کرناچاہتاہے ،وہ سب کچھ کھودیاکرتاہے،اس لیے آپ بھی کچھ اِس گھڑے سے ،کچھ اُس گھڑے سے لینے کے چکرمیں رہے تویادرکھیے،کچھ نہیں ملے گا۔‘‘(کتاب ہذا،ص32)
مندرجہ ذیل اقتباس سے یہ واضح ہوتاہے کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب پر مولانا کا نقطۂ نظرکیاتھا،اسے غورسے بلکہ باربارپڑھناچاہیے اور اصلاح نصاب کی کوششوں کے درمیان اسے ضرورمطمح نظر رکھنا چاہیے:
’’لوگ کہتے ہیں مدرسہ میں فزکس بھی ہو،کمسٹری بھی ہو،اوردنیاکاساراعلم ہو۔اس طرح کی باتیں اس لیے کہی جاتی ہیں کہ آپ کے پاس کچھ نہ ہو۔ یاد رکھیے، یہ دور اسپسلائزیشن کاہے،تخصص کاہے،ایک شخص اگرتاریخ کاماہرہے تواسے جغرافیہ کی خبرنہیں ہوتی،ڈاکٹرصاحب سے پوچھیے کہ صاحب، لنکا کدھر ہے تووہ سیدھا کہیں گے یہ میراسبجیکٹ نہیں ہے۔ایک آنکھ کے یاروں نے تین حصے کررکھے ہیں، اورہرایک کے لیے ڈاکٹرالگ ہے، ڈاکٹروں نے آنکھ کی طرح دل کے بھی حصے بخرے کر دیے ہیں اورلطف یہ ہے کہ ایک حصے کے ڈاکٹرکودوسرے حصے کی خبرنہیں لیکن یہ جہالت نہیں سمجھی جاتی اور کوئی یہ کہتے ہوئے اپنی جہالت نہیں سمجھتاکہ وہ آنکھ کامکمل علاج نہیں کرسکتا۔اس نارسائی کے باوجودنہ ڈاکٹراپنے اندرکوئی کمی محسوس کرتاہے اورنہ دوسرے لوگ اس کے ادھورے علم پرکچھ تبصرہ کرتے ہیں۔
وہی لوگ جوزندگی کے مختلف امورمیں تخصص کے قائل ہیں،بات جب مولوی اورمدرسہ کی ان کے سامنے آتی ہے تواپنے تخصص کوبھول جاتے ہیں اور کہتے ہیں،مولاناصاحب آپ یہ نہیں جانتے،وہ نہیں جانتے،اگرایک دل کاڈاکٹردل کے تین حصوں میں سے دوکے بارے میں نہیں جانتا اوراس کی وجہ سے جاہل نہیں ٹھہرتا،اسی طرح اگرایک ماہرلسانیات لنکاکونہیں جانتاکہ وہ کدھرہے اوراس کے لیے یہ بات باعث شرم نہیں ہے توکسی دوسرے کے لیے یہ بات کہاں سے باعث شرم ہوسکتی ہے کہ وہ میتھ میٹکس،فزکس،بائیلوجی اورانگریزی نہیں جانتا۔ہم کواورآ ُپ کوپوری مضبوطی کے ساتھ کہناچاہیے کہ کچھ میدان ہیں جہاں آپ جاہل ہیں اورکچھ میدان ہے جہاں ہم جاہل ہیں۔ہاں اتنافرق ضرور ہے کہ میری جہالت کادائرہ کم ہے اورآپ کی جہالت کادائرہ پھیلا ہوا ہے، کہیے اور جم کرکہیے کہ میں صَرف بھی جانتاہوں،نحوبھی جانتاہوں،فقہ بھی جانتاہوں،تفسیر،منطق،فلسفہ،بلاغت،بدیع،معانی،بیان،اصول تفسیر،اصول فقہ، اصول حدیث سب جانتاہوں۔سترہ فن ایک سانس میں شمارکرادیجیے۔‘‘(کتاب ہذا،ص33،34)
ایسانہیں ہے کہ مولانا،مدارس کے نصاب میں جموداورتعطل کے قائل ہیں،بلکہ اہم یہ ہے کہ تبدیلی کاطریقۂ کاردرست ہوناچاہیے ۔یہی وجہ ہے کہ مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے جب تبدیلی نصاب کی کوشش کی تویک لخت نہیں کی،بلکہ مولاناعبدالصمدرحمانیؒ کے زیرنگرانی نصاب تعلیم کا خاکہ تیار کیا،نیز علمی شخصیات پرمبنی گیارہ رکنی کمیٹی بنائی جس کی سرپرستی ممتازعالم دین مولانامناظراحسن گیلانیؒ کے سپردکی،پھرگراں قدر تمہیدی نوٹ لکھ کراتفاق رائے اور غوروفکرکے لیے 60علماء و ذمے داران مدارس کوبھیجا۔دوماہ کے وقفہ اورغوروفکرکے بعد23 اپریل1954ء کو خانقاہ رحمانی میں ماہرین تعلیم،علماء ودانشوران کی میٹنگ طلب کی جس میں مسود ہ پر وسیع بحث وتمحیص کے بعدنئے نصاب تعلیم کاخاکہ تیار ہوا۔اسی لیے مولاناولی رحمانیؒ نے اعتراف کیاہے کہ بوقت ضرورت نصاب مدارس میں ترمیم ہوتی رہی ہے،مدارس کانصاب جامدنہیں بلکہ متحرک ہے،اس پرروشنی ڈالنے کے بعد مولانا مشورہ دیتے ہیں جس سے سمجھ میں آتاہے کہ مدارس کے تئیں ان کانقطۂ نظر کتناواضح تھا:
’’آپ کوصاف صاف کہناچاہیے کہ ہم ایک مخصوص ارادے کے ساتھ مخصوص منزل کونگاہ میںرکھ کرعلم حاصل کررہے ہیں،ہمیں کسی مشورہ کی ضرورت نہیں ہے اورکسی کومشورے دینے کاحق بھی نہیں ہے،ہمیں مشورہ دیں گے توہمارے علماء،اساتذہ،اکابر،ہمارے بڑے۔آپ کے اندریہ کہنے کی جرأت ہونی چاہیے تاکہ آپ یہ محسوس کراسکیں کہ طلبہ دارالعلوم اپنے علوم پر،اپنی درسگاہ کے دیئے ہوئے فیض پراوراپنے اساتذہ کے فیضان نظرپرمطمئن ہیں اوریادرکھیے،جس وقت اس اطمینان کااظہارہوگا،ایک سوبلائیں ختم ہوجائیں گی۔‘‘(کتاب ہذا36)
سروے کے دوران بعض چینلوں نے ہنگامہ شروع کیاکہ مدارس میں فلاں زبان اورمضامین کی تعلیم نہیں ہوتی،ان کے لیے مولاناکے مذکورہ بالااقتباس سے بہتر ’خوراک‘کیاہوسکتی ہے۔مسلمانوں کا ایک طبقہ پیروپیگنڈے سے متاثرہوا،بعض ذمے داران مدارس احساس کمتری کے شکار نظر آئے،وہ صرف اس وجہ سے کہ مدارس کے قیام کامقصداورنصب العین مطمح نظرنہیں رہا۔باربارمولاناکے مذکورہ بالااقتباس کوپڑھیے جوعقلی بھی ہے اورفطری بھی ،توسمجھ میں آجائے گا کہ مدارس کے قیام کا مقصدعصری علوم کاماہربناناہے ہی نہیں ۔بلکہ صرف اور صرف،علوم اسلامیہ کاماہر، دین کا خادم اور اسلام کاداعی بنانا ہے۔ اسی طرح مدارس کاہدف انشاء پردازبنانابھی نہیں ہے ۔زبان کی حیثیت آلہ کی ہے ،مقصدکی نہیں،جن بزرگوں نے عربی انشاء کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کے پیش نظر یہی رہاہے ۔عربی زبان کی مہار ت مدرسہ کا مقصدہوتو’ ایام جاہلیت‘کے خطیب و شعراء(جوعربی زبان دانی اورانشا پردازی میں مُسلّم ہیں)کوکیاکہیں گے؟ قرآن مجیدمیں امت میںایک ایسی جماعت کا مطالبہ کیاگیاہے جوتفقہ فی الدین رکھے،مدارس اسلامیہ اسی مطالبے کی تکمیل کرتے ہیں(دوسری ضروریات کی تکمیل کے لیے عصری ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں)،اوراس طرح کی درس گاہوں کی اجازت آئین نے دے رکھی ہے پھرکسی کوحق نہیں پہونچتا کہ کسی مدرسہ کوغیرقانونی اور غیرآئینی کہہ دے۔ اس لیے مرعوب ہونے کی بجائے یہ موقف بہت مضبوطی کے ساتھ اختیارکرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں انگریزی اورعصری تعلیم کی تلاش نری حماقت ہے ۔ہم آئین کے دیئے ہوئے اختیاراورحق کی روشنی میں صرف مذہبی تعلیم دیتے ہیں۔اصل مقصدسے انحراف جہاں مدارس کے لیے خطرناک ہوگاوہیں شرانگیزی کی راہیں کھلیں گی۔ارباب فکرونظرکو اس پرسنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔
یوں نہ سمجھاجائے کہ مولانارحمانی ؒطلبہ مدارس کے لیے عصری تعلیم کے مخالف رہے ہیں بلکہ وہ چاہتے تھے کہ فراغت کے بعدفضلائے مدارس کے لیے ضروری عصری تعلیم کا انتظام کیاجائے،لیکن مدارس کے نصاب میں دیگرعلوم عصریہ کی شمولیت کومناسب نہیں سمجھتے کیوں کہ اس سے اصل دینی نصاب متاثر ہوگا۔ہاں اگرکہیں تجرباتی طورپرامتزاجی نصاب کی کوشش کی گئی ہے تواسے ضمنی طورپرتجربہ کی حدتک رکھناچاہیے اوریہ تسلیم شدہ امرہے کہ تجربہ کم افرادیاکم چیزوں پر کیا جاتا ہے،تاکہ ناکامی کی صورت میں نقصان کم ہو۔(کیوں کہ تجربے میں دونوں امکانات ہوتے ہیں)ساری دنیامیں ہرشے کے تجربہ کایہی طریقہ کارطے ہے ۔متوازی اورمکمل نظام قائم کرکے تجربہ مفیدنہیں،مضرہوگا۔اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ دو ادارے ساتھ چل رہے ہوں،ایک میں عصری و دینی تعلیم کاامتزاج ہودوسری طرف خالص دینی نصاب،ایک طرف نوجوان اورنو عمرا ساتذہ کی ٹیم ہو،دوسری طرف کہنہ مشق ،سنیئراساتذہ، لیکن تنخواہوں کاایساتفاوت کہ علم تفسیر،حدیث و فقہ میں پوری زندگی صرف کر دینے والے اساتذہ اپنی سبکی محسوس کریںاوردوسری طرف ’ہمچنیں دیگرے نیست‘ کامزاج ہو۔
بات کہیں اورنکل گئی،کہناصرف یہ تھاکہ مولانامحمدولی رحمانی علیہ الرحمہ نے نہ توعصری تعلیم کی مخالفت کی ،نہ طلبہ مدارس کے لیے عصری تعلیم کوغلط سمجھابلکہ وہ اس کے محرک رہے لیکن ان کاصاف نقطۂ نظرتھاکہ مدارس کے نصاب میں عصری تعلیم کی شمولیت مفیدنہیں ،مضرہوگی ،اس سے مدارس کامقصدمتاثرہوگا۔ الغرض زیر تبصرہ کتاب میں شامل مضامین سے مولانامحمدولی رحمانیؒ کے تعلیمی نظریات کوسمجھنے میں جہاں آسانی ہوگی وہاں مدارس کودرپیش چیلنجز اوران کے حل سے واقفیت ہوسکے گی۔اس موضوع پر’مرکزی مدرسہ بورڈ‘مولاناکی بہترین کتاب ہے جسے تمام ذمہ داران مدارس کوضرورپڑھناچاہیے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں’’ گوشۂ خالد جاوید‘‘ پر مشتمل سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز کے نئے شمارے کا اجرا
نئی دہلی :خالد جاوید اردو ہی نہیں بلکہ دیگر بڑی زبانوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔یہ ان کے متن کی قوت ہی ہے کہ ان کی تخلیق فرانسیسی،انگریزی اور ہندی وغیرہ میں بھی اپنی عظمت قائم کر چکی ہے۔ان خیالات کا اظہار’’ گوشۂ خالدجاوید‘‘پر مشتمل سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز(اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۲)کا اجرا کرتے ہوئے معروف نقاد پروفیسر کوثر مظہری نے کیا۔پروفیسر ندیم احمدنے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں خالدجاوید کا رفیقِ کارہوں اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ میرے وطن دربھنگہ نے خالد جاوید کی پذیرائی کی۔مشہور ادیب و شاعر خورشید حیات نے کہا کہ خالد جاوید نے اردو فکشن کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔خصوصاََ ان کا بیانیہ اردو فکشن کی تاریخ میں بیش قیمت اضافہ ہے۔مشہور افسانہ نگار عشرت ظہیر نے کہا کہ خالد جاوید جیسے پیچیدہ تخلیقی ذہن کو منصور خوشتر نے ان کے شایانِ شان خراج پیش کیا ہے۔مشہور ادیب وشاعر ڈاکٹر خالد مبشر نے منصور خوشتر اور خالد جاوید کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ خالد جاوید کا جو تخلیقی چہرہ دنیا کے سامنے ہے، اسی کا ایک نہایت توانا اظہاران کے کلاس روم میں اس وقت ہوتا ہے، جب دورانِ لیکچر کلاس روم کی پوری فضاوجودیت کے فلسفے میں سرشار ہو جاتی ہے۔
اس موقع پر اقبال حسین،آصفہ زینب،نعیم فاطمہ،طارق الزماں،فیضان الحق ،ذیشان مصطفی،عبدالرحمن،منزہ قیوم،عامر مظفر بٹ اوراطہر محبوب کے سمیت بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرز اور طلبہ و طالبات بھی موجودتھے۔
آج کل 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں پی ٹی وی نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر (جو کبھی ماہ پارہ زیدی تھیں) کی خودنوشت میرے زیرمطالعہ ہے۔
وہ 1990 میں ptv کا جاب چھوڑ کر پاکستان سے لندن بی بی سی چلی گئیں اور اب وہیں مستقل مقیم ہیں۔
ہماری آج کی نوجوان نسل شاید ان سے زیادہ آشنا نہ ہو کہ وہ اس دور میں برسوں تک ہر گھر کا لازمی حصہ سمجھی جاتی تھیں جب صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے۔ یہ وہ دور تھا جب ریڈیو پاکستان بھی اتنا اہم تھا جتنا آج ٹوئٹر ، فیس بک یا ٹک ٹاک ہوچکا۔
عمومی طور پر کسی بھی پروفیشن سے جڑی خواتین بہت کم ہی اپنی خودنوشت لکھتی ہیں۔ فوری طور پر ذہن میں کشور ناہید اور ادا جعفری آرہی ہیں جنہوں نے لکھا اور شاندار لکھا۔ لیکن اگر خواتین لکھیں بھی تو انہیں بہت کچھ اپنے بارے میں بتانے سے زیادہ نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔
جب گگن شاہد اور امر شاہد کے ادارے بک کارنر سے چھپی ماہ پارہ صفدر کی خودنوشت ہاتھوں میں آئی تو 1980کی دہائی سے ptv سے جڑی پرانی یادیں لوٹ آئیں۔ اگرچہ وہ خود اس بات کو کچھ زیادہ پسند نہیں کرتیں کہ ہر کوئی انہیں مل کر یہی کہتا ہے کہ وہ بچپن سے انہیں دیکھتا آیا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ سب چھوٹے ہیں اور وہ بہت بڑی عمر کی ہوگئی ہیں۔ بات بھی ان کی ٹھیک ہے کہ اگر ان سے بڑی عمر کے لوگ بھی یہ کہنا شروع کر دیں تو اعتراض بنتا ہے۔
خیر جب بھی پی ٹی وی کے بارے میں کوئی بھی کتاب چھپی تو لوگوں نے دلچسپی سے پڑھی کیونکہ یہ وہ سب کردار تھے جنہیں آپ نے برسوں اپنے گھروں میں سکرین پر دیکھا تھا اور سب تجسس کاشکار رہتے ہیں کہ اندر خانے کیا چل رہا تھا۔
یقینا جو لوگ ٹی وی پر مسلسل نمودار ہوتے ہیں انہیں خود احساس نہیں ہوتا کہ وہ جن گھروں میں دیکھے جاتے ہیں آپ ان کے فیملی ممبرز بن جاتے ہیں۔ اس لیے جب بھی عام لوگ کسی اداکار، یا اینکر یا نیوزکاسٹر سے ملتے ہیں تو انہیں لگتا ہے وہ تو برسوں سے انہیں جانتے ہیں لیکن آگے سے اکثر ان مشہور لوگوں کے چہروں پر حیرانی یا اجنبیت دیکھ کر مایوس ہوتے ہیں کہ یہ ہمیں کیوں نہیں جانتے؟
ماہ پارہ صفدر کا یہ کتاب لکھنا یقینا ایک مشکل فیصلہ ہوگا کہ گزرے برسوں کی کہانی لکھی جائے جسے پڑھنے میں آج کی نئی نسل کو دلچسپی نہ ہو (لیکن میری جیسی نسل کو اس میں بہت دلچسپی ہے)۔ اپنی جوانی اور اس سے جڑے کرداروں کو دوبارہ بیٹھ کر یاد کیا جائے۔ پھر یہ فیصلہ کرنا کہ اس کتاب میں اپنی ذاتی اور پروفینشل زندگی کو کتنا قارئین کے ساتھ شئیر کیا جائے، کیا بتایا جائے اور کیا نہ بتایا جائے؟
ویسے بھی اگر آپ کے اندر سب باتیں شئیر کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو پھر خودنوشت نہیں لکھنی چاہیے۔ لیکن مجھے کہنے دیں کہ ماہ پارہ صفدر نے مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کے تقریبا سب پہلووں پر لکھا اور خوب لکھا۔ اپنی منگنی، شادی یا اپنے کردار پر اٹھنے والی انگلیاں یا سرگوشیاں جو کسی بھی خاتون کے حوالے سے دفتروں میں معمول سمجھی جاتی ہیں ان سب کے بارے میں لکھا۔ وہ کہیں نہیں گھبرائیں خصوصا جو واقعہ انہوں نے سابق ڈی جی آئی بی نور لغاری سے ملاقات کا لکھا کہ کیسے انہیں آخری لحموں پر لندن بی بی سی جانے سے پہلے ای سی ایل پر ایک معمولی اہلکار کی رپورٹ پر ڈال دیا گیا کہ تمہارا کسی پیپلز پارٹی وزیر سے ملنا جلنا تھا۔ اگرچہ ماہ پارہ صفدر نےان چند غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی خاتون کو کسی بھی پاکستانی دفتر میں کام کرتے ہوئے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ چاہتیں تو کچھ واقعات کو اس کتاب کا حصہ نہ بناتیں لیکن انہوں نے ضروری سمجھا اور ان ایشوز پر لکھا۔
جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ماہ پارہ صفدر کی 1970 کے بعد کی پاکستانی سیاست پر گرفت ہے۔ عمومی طور پر نیوز کاسٹرز صرف خبریں پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو انہیں لکھ کر دے دی جاتی ہیں۔ اس طرح ایکٹرز بھی اکثر کسی دوسرے کے لکھے کے ڈائیلاگز یاد رکھنے کی حد تک کسی ٹاپک میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ ان میں depth نہیں ہوتی۔
لیکن ماہ پارہ صفدر نے بڑی خوبصورتی سے ان دو اہم دہائیوں کا احاطہ کیا ہے اور کسی سے رعایت نہیں رکھی اور بڑا میچور لکھا۔ انہوں نے ان واقعات کے ساتھ ساتھ اپنی کمنڑی بھی لکھی۔ انہوں نے اگر جنرل ضیا دور کی منافقتیں اور گمراہ کن باتوں کا پوسٹ مارٹم کیا ہے تو بھٹو کے ساتھ بھی رعایت نہیں رکھی کہ وہ کیسے عوامی لیڈر سے فوجی جرنیلوں کے کندھوں کے محتاج ہوگئے تھے اور جرنیلوں نے بہت جلد انہیں اتار پھینکا۔
ماہ پارہ صفدر کو آج تک اس بات کا دکھ ہے کہ انہیں جنرل ضیا کے طیارے میں ہلاک ہونے کی خبر پی ٹی وی پر نہ پڑھنے دی گئی حالانکہ وہ وہیں اسٹوڈیو میں موجود تھیں۔ وجہ یہ تھی وہ “خاتون” تھیں، اگرچہ بھٹو کی پھانسی کی خبر انہوں نے ہی پڑھی تھی۔ لہذا وہ جنرل ضیا کی موت کی خبر بھی پڑھنا چاہتی تھیں۔
جنرل ضیا کی پی ٹی وی کی خواتین نیوزکاسٹر سے حیران کن obsession کو بھی بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے وہ ان خواتین کے میک اپ سے لے کر بال،کپڑوں اور دوپٹے اور رنگوں تک کا بھی فیصلہ خود کرتے تھے۔لگتا ہے جنرل ضیا کی زندگی میں چوبیس گھنٹوں میں سے سب سے اہم صرف وہ ایک گھنٹہ ہوتا تھا جب پی ٹی وی کا خبرنامہ چلتا تھا۔ اس وقت جنرل ضیا سب کچھ بھول جاتے اور خواتین کے میک اپ، رنگوں، دوپٹوں اور کپڑوں پر توجہ رکھتے تھے۔
ابھی میں نے کتاب مکمل نہیں کی لیکن یہ متاثر کن خودنوشت ہے۔ جسے ہر اس انسان کو پڑھنی چاہیے جسے سیاست اور میڈیا سے دلچسپی ہے۔ یہ ایک خودنوشت بھی ہے اور پاکستانی تاریخ بھی۔ ماہ پارہ صفدر کے پاکستانی سیاست پر بڑے میچور اور ہارڈ ہٹنگ تبصرے بھی اپنی جگہ اہم ہیں۔
ایک بات تو بڑی اہم لکھی ہے کہ ایران میں خواتین نے شاہ کے اقتدار کے خلاف احتجاجا سکارف یا پردہ کرنا شروع کیا تھا جسے انقلاب کے بعد فورا قانون کا درجہ دے کر سزائیں رکھ دی گئیں کہ جو سکارف نہیں لے گا سزا کا حق دار ہوگا۔
یہ پڑھ کر میں نے سوچا وقت کیسے بدلتا ہے آج اس ملک میں خواتین اسی سکارف کے خلاف مظاہرے کررہی ہیں اور اپنے سکارف جلا رہی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ 40 سال پہلے سکارف پہننا شاہ ایران کے خلاف احتجاج اور آزادی کا نشان تھا تو آج وہی سکارف اتارنا موجودہ حکمرانوں خلاف ایک نئی احتجاجی تحریک کا سمبل بن چکا اور غلامی سے چھٹکارا۔
ہم انسان بھی ویسے کیا چیز ہیں۔ بہت جلد بور ہوجاتے ہیں یا پھر ایک نسل جسے اپنی آزادی سمجھتی ہے اگلی نسل اسی عمل کو غلامی سمجھتی ہے۔
فن شاعری کو رکھ رکھاؤ، وضع داری ، خوش خلقی ، محاکات نگاری اور منظر آفرینی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اعلی شاعری خوبصورت قرینے، دلکش اسلوب اور کیفیاتی آمیزش سے جذب و کشش کا ایسا آٗئینہ پیش کرتی ہے جو عکس در عکس خوشگوار حیرت میں مبتلا کرتی رہتی ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ شریعت اور شعریت دونوں اپنا جواز آپ فراہم کرتی ہیں اور ذہنی و روحانی سطح پر ربط و انسلاک کے ایک سلسلے کودراز کرتی چلی جاتی ہیں ۔ فی الوقت میں بھی ایسے ہی ایک سلسلے سے مرید ہوں اور صابر کے شعری صحیفے ’’قسط ‘‘ کے طفیل احساس جمال کی سیرابی کا سامان کر رہا ہوں ۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’’ قسط ‘‘ پر گفتگو کے آغاز سے قبل ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی کا ایک اقتباس نقل کردیا جائے، چنانچہ وہ رقم طراز ہیں :
’’ ہم جانتے ہیں کہ ہر دور میں شاعری کے معتبر اور اہم ناموں کے ساتھ کچھ نہ کچھ ناانصافی ضرور ہوتی ہے۔ یعنی ان کا نام اور کلام دونوں ذرا دیر سے عام شعری ذوق تک رسائی حاصل کرپاتا ہے ۔ بہ نسبت ان ناموں کے جو رفقائی تعریف و توصیف کی رال ٹپکاتی تنقیدی چاشنی سے شرابور ہو کر نعمت غیر مترقبہ کہلاتی ہے۔ مگر بعد ازاں کسی کونے کھدڑے میں کیڑے مکوڑوں کی خوراک بنتی ہے ۔ یہ معاملہ ان دنوں کچھ زیادہ ہی سنگین ہو گیا ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ نے بنی نوع انسانی کی رہنمائی کا منصب سنھبال لیا ہے۔ اور یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ بھی ان دنوں شاہی دربار میں مجرا کرنے پر مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ شہرت کی فاحشہ کے تلوے چاٹنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ لوگ اپنی تخلیقی کاوش کے ابتدائی زمانے میں ہی ذرائع ابلاغ کے اسیر ہوجاتے ہیں اور اس کی رہبری میں اپنا مذاق شعر طے کرتے کہتے ہیں ۔ یہ موقع ایک سچے شاعر کے لئے صبر آزما ہوتا ہے ۔‘‘
محولہ بالا اقتباس کی رو سے دیکھا جائے تو صابر حقیقی معنوں میں اپنے نام کی مکمل اور سچی تصویر نظر آتے ہیں ۔ ہم جیسے لوگ جن کو شاعری کم اور خود فریبی زیادہ عزیز ہے، جو خود ستائی کے ہاتھوں مجبور ہوکر کچے پکے اشعار کی نمائش کا بازار لگائے پھرتے ہیں ان کی درویشانہ روش اور تخلیقی ریاضت کے قریب بھی نہیں ٹھہرتے ۔ معاملہ یوں ہے کہ تقریباً پندرہ سالوں سے میرا ان سے سماجی ارتباط قائم ہے اور اس پورے عرصے میں شاید ہی میں نے ان کی دس سے زائد غزلوں کی قرآت کی ہو ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھار دور دراز علاقوں سے ’’دال دلیا‘‘ کے توسط سے ان کی خوش ذائقہ تخلیقات کی اشہتا انگیز خوشبوئیں ہم تک پہنچتی رہیں ، جو عروق شامہ کو بر انگیختہ کرکے یہ جا وہ جا ہو جاتیں۔
خدا جانے وہ کب سے معبد شعر میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں ۔ سچائی یہی ہے کہ ’’ قسط ‘‘ کی اشاعت سے قبل ادبی دنیا صابر کو شاعر سے زیادہ ایک ناقد کے طور پر جانتی اور مانتی رہی ہے ۔ ایسی صورت میں ان کی یک مشت ۱۴۶شعری تخلیقات کی قرآت ہمارے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے ۔
شاعر فطرتا ماوارئے حسیات پیکر اور اشیا کو ردائے اظہار پر منقش کرنے کا تمنائی ہوتا ہے جس کے لئے وہ ظاہری حواس کے ساتھ ساتھ متخیلہ کو بھی حد درجہ فعال کر لیتا ہے ۔ یہ عمل اسے اطراف و اکناف کے مشاہدے ، کائنات کے منطقوں کی سیر اور ورائی و ماورائی کیفیات کے جذب و انجذاب پر مامور کردیتا ہے ۔ اور پھر وہ اپنے داخلی وجدان کی انگلی تھام کر حرف و لفظ کو تمام تر فنی مہارت سے یوں پروتا چلاجاتا ہے کہ سطر در سطر معنوی تکثیریت کا ایک جہان آباد ہوجاتا ہے ۔ گویا کہ شاعری محض لفظیاتی کاریگری نہیں ہے بلکہ یہ جذبے کی شدت، احساس کی صداقت، فکرکی رفعت، تہذینی پرداخت، ادبی توارث اور جملہ جمالیاتی اقدار کی ترسیل کو اپنی بساط کا حصہ بناتی ہے۔ یہ تمام چیزیں جتنی توانانی کا ساتھ شعر کا جزء ہوتی ہیں شاعری بھی اعتبار کے ویسے ہی مدارج طے کرتی ہے۔ چنانچہ ’’قسط ‘‘ کا بالاستیعاب کا مطالعہ ہم پر یہ منکشف کرتا ہے کہ صابر کی شعری عبادت گزاریاں بھی انھیں مراحل سے اپنی منزل کو پہونچ کر اتمام حجت کرتی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
کچھ ذرا اور بڑھے شور کا بے معنی پن
میری خاموشی بہت صاف سنائی دے گی
کتنی تصویروں کو رکھتی ہے اجالے ہر دم
دل کی قندیل جو لٹکی ہے دیار جاں میں
پھر خاک میری بیٹھ گئی ہے زمین پر
اندیشے سارے دور ہوئے آسمان کے
صحنِ جاں میں تھی شے کوئی خوش ذائقہ
اک گلہری دبے پائوں آ لے گئی
ٹھنڈ بہت ہے، برف صفت کا قصہ چھیڑو
آتش دان میں اک انگارہ خوش ہوتا ہے
وہ خالی ہاتھ پلٹ جائے اس لئے خود کو
خزاں سے پہلے ہی بے برگ و بار کر لیا ہے
ہم پر نہیں پڑے گی نظر خاکروب کی
ہم اک عجیب قسم کی بے رنگ خاک ہیں
سیاہی ختم ہوئی ، خشک ہوگئے اوراق
دعا کے چاک پہ پھرتی ہے آس کی مٹی
ہوا سے ہار جاتی ہیں طنابیں
بدن میں خیمہ زن ہونا برا ہے
ہوئے پشیماں اگر عاصیان شہر تو کیا
اذاں سے پہلے بھی مسجد کہاں کشادہ تھی
ہم اس کی خاطر بچا نہ پائیں گے عمر اپنی
فضول خرچی کی ہم کو عادت سی ہوگئی ہے
مذکورہ اشعار میں دم تخلیق صابر کے متخیلہ پر جو پر بہار فضا طاری ہے اسے بس محسوس کیا جا سکتا ہے۔
صابر کے اولین مجموعہ کلام ’’ قسط‘‘ کی سطر بینی ہمیں قدم قدم ایسے اجالوں سے روشناس کراتی ہے جن کی تجلی میں ان کا پورا کلام جگ مگ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ تازہ کار اسلوب، دلکش استعارے، نپے تلے مصرعے اور خیالات کی مکمل ترسیل کرتا ہوا شعری بیانیہ ان کی غزلوں کے وہ اہم عناصر ہیں جن کو انھوں نے بصد اہتمام برتا ہے۔ ان کے یہاں خیال، لفظیات اور تراکیب آپس میں اس قدر مربوط ہوتے ہیں اور ایسے بے پناہ تخلیقی وفور کے ساتھ تشکیل پاتے ہیں کہ وہ ورق سے سیدھے دل کی طرف مرتکز ہوجاتے ہیں ۔ ان کے لہجے کی سبک روی مدھم سروں والے نغموں کا ایسا آبشار ٹھہرتی ہے جو پتھریلی وادیوں سے گزر کر بھی صرف محبت کے سرگم چھیڑتی رہتی ہے:
میری نظروں کے داغ ہیں تجھ پر
لمس کے پانیوں سے دھونے دے
ترے تصور کی دھوپ اوڑھے کھڑا ہوں چھت پر
مرے لئے سردیوں کا موسم ذرا الگ ہے
اب بھی پیمان وفا دونوں نبھاتے خوب ہیں
بس ذرا اک حیلۂ کم فرصتی ہے درمیاں
مجھ سے مل کر وہ ہوگیا مجھ سا
میں نے پایا کہ کھو دیا ہے اسے
کنارہ چھوڑ کے موجوں کے ساتھ بہتا رہا
عجیب پیڑ تھا کیا سوچتا رہا برسوں
جیسے کچے گھر پہ برسے قہر بارش کا
سچ بتاؤ ٹوٹ کر ہم سے ملے کیوں ہو
اسی اک پل میں ساری عمر جی لوں
وہ دستک دیتے دیتے رک گیا ہے
شاعری دراصل وہ تخلیقی اظہاریہ ہے جو موجود و ناموجود کے درمیان ربط کی ایک ایسی خوبصورت توضیح پیش کرتا ہے جس سے حسیات عالم سرشاری سے دوچار ہو جاتی ہیں ۔ شاعری میں وہ بات کم اہم ہوتی ہے جو کہہ دی گئی ہوتی ہے بلکہ زیادہ اہم وہ دوسری بات ہوتی ہے جسے چھپا لیا گیا ہوتا ہے ۔ صابر کہی جانے والی بات کو جس قدر سلیقے سے لفظوں کا پیراہن عطا کرتے ہیں اسی قدر اہتمام کے ساتھ ان کہی کو بھی درون متن پرو دیتے ہیں ۔ ان کی غزلوں کے بیشتر اشعار ایسے چلتے پھرتے واقعاتی اسلوب کے حامل ہوتے ہیں جو پس واقعہ بھی اور بہت کچھ کہتے ہیں:
جانے پھر کس موڑ پر مل جائے کوئی آشنا
گھر سے ہم نکلے تو ہیں لیکن بہت سہمے ہوئے
یہی نا! تالیاں پیٹے گی دنیا
مجھے پتھرا کے تم کو کیا ملے گا
تمہارے خواب کی قسطیں ہیں باقی
ابھی ہم جاگنے والے نہیں ہیں
اس کی آنکھوں کی چمک کہتی ہے
وہ مجھے دھونڈ رہا تھا اب تک
عام حالات میں کسی مانوس چہرے سے ملاقات مسرت کا باعث ہوتی ہے لیکن ایسی حالت جب آدمی کسی آشنا سے ملنے خوف سے ہی لرز اٹھے، جس آزار اور دکھ کی غمازی کرتی ہے اس کے پیچھے انسانیت سوزی کی ایک اذیت ناک داستان چھپی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ اب دوسرے شعر کو ہی لے لیں اس میں بھی تالیاں پیٹنے اور پتھرانے سے شعبدہ گری کا منظر سامنے آتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شعر میں پتھرا جانے کی اذیت کا جس پر سوز انداز میں اظہار کیا گیا ہے اسے مشکلوں سے بیان کیا جا سکتا ہے ۔ باقی کے دونوں اشعار بھی کہی اور ان کہی کی ایسی ہی کیفیات کا اظہار کرتے ہیں۔
انتظار حیسن نے کسی مقام پر یوں تحریر کیا ہے:
’’ہر متروک لفظ ایک گم شدہ شہر ہے اور ہر متروک اسلوبِ بیان ایک چھوڑا ہوا علاقہ۔ لفظ جب ڈوبتا ہے تو اپنے ساتھ کسی احساس یا کسی تصور کو لے کر ڈوبتا ہے۔ اور جب کوئی اسلوبِ بیان تقریر اور تحریر کے محاذ پر پٹ جاتا ہے تو وہ تصویروں، اشاروں، کنایوں، تلازموں اور کیفیتوں کے ایک لشکر کے ساتھ پسپا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ موجودہ برّ اعظموں کے منجملہ پہلے ایک اور برّ اعظم تھا جو سمندر میں غرق ہوگیا۔ اردو کی پرانی داستانوں اور پرانی شاعری میں جو رنگا رنگ اسالیبِ بیان اور ان گنت الفاظ نظر آتے ہیں وہ پتا دیتے ہیں کہ اردو زبان بھی ایک پورا برّ اعظم غرق کیے بیٹھی ہے۔ یہ گم شدہ زبان اب اس کا لاشعور ہے۔ اس کی بازیافت احساسات کے گم شدہ سانچوں کی بازیافت ہوگی اور اگر احساسات کے گم شدہ سانچوں کو ہم پاسکے تو گویا اپنی ذات کے کھوئے ہوئے حصوں کو ہم نے ڈھونڈ لیا‘‘۔
صابر نے اپنی شاعری میں لفظوں کو ان کی پوری حرمت کے ساتھ برتنے کا جو قرینہ پیش کیا ہے اس کی مثالیں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں ۔ انھوں نے جہاں بعض نو تراشیدہ تراکیب کو پوری معنوی وسعت کے ساتھ استعمال کیا ہے وہیں وہ متروک ہوتے الفاظ ( نگوڑی ، سانکل، ملانی، بسترے، کاگے، لوٹن کبوتر وغیرہ ) کو تمام تر زرخیزی کے ساتھ استعمال کرکے احساسات کے گم شدہ سانچوں کی بازیافت میں بھی منہمک نظر آئے ہیں۔ کہیں کہیں انھوں نے زبان کو برتنے میں تجرباتی اسلوب بھی اختیار کیا ہے لیکن پھر ان سے یہ کہہ کر تائب ہوگئے ہیں کہ :
حرف و صدا کے ذائقے بدلیں کہاں تلک
بڑھتے ہی جارہے ہیں تقاضے زبان کے
صابر کے شعری رویّوں اور فنی انفراد پر روشنی ڈالنا نسبتاً مشکل امر ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ غزل کے دامن کی طرح ان کے فکر و خیال کی پہنائیاں بھی کسی خاص علاقے تک محدود نہیں ہیں۔ اپنی تخلیقات میں وہ طرح طرح کے رنگوں کے اظہار پر قادر نظر آتے ہیں۔ وہ ہر طرح کے مضمون کو برتائو کی حسن کاری سے دل آویز بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کا شعری گلستان نیرنگیوں سے عبارت ہے جس میں گلہائے فکر پر منڈرانے والی تتلیاں کسی خاص رنگ کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں۔ وہ جہاں ایک طرف نئے آفاق کے متلاشی دکھتے ہیں وہیں ان کے بعض اشعار میں غزل کی تہذیب قدیم کی طرف مراجعت بھی نظر آتی ہے۔ لیکن ان سب باوجود وہ غیر معمولی عصری حسیت، شاعرانہ وجدان، تخلیقی تنائو، اظہار کی جولانی، اسلوب کی لالہ کاری، الفاظ کے ماہرانہ استعمال اور فکر و تخیل کے ارتفاع کے سبب ممتاز نظر آتے ہیں ۔ وہ علامات اور استعاروں کو بروئے کار لاکر لایعنی کو بامعنی بنانے پر بخوبی قادر ہیں۔ وہ اجنبی لفظیات کو بھی ایسے قرینے سے استعمال کرتے ہیں کہ اس میں مانوسیت کی فضا در آتی ہے اور قاری ایک فکر انگیز انبساط سے دوچار ہوجاتا ہے۔ ان کی غزلوں میں مخصوص الفاط کے تنگنائے سے نکلنے اورد یگر زبانوں کی لفظیات کو شاعری میں پرونے کی جد و جہد کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس شعوری کوشش میں کہیں کہیں ان کا لہجہ ایک طرح کے کھردرے پن کا بھی شکار ہوگیا ہے ۔
اردو شاعری کے عصری تناظر میں جبکہ غزل کے میدان میں ہر چہار جانب بے ہنگم و بے معنی آوازوں کا اک شور سنائی دیتا ہے، ’’قسط‘‘ کی شعری جمالیات اور لسانی اقدار سے سے مملو شاعری یقیناً ہمارے لئے ایک بیش بہا تحفہ ہے ۔ قویطامید ہے کہ اردو دنیا شاعری کے اس نئے مصحف کو ہاتھوں ہاتھ لے گی ۔ ان شاء اللہ
رمضان کا آخری عشرہ چل رہا تھا، اوکھلا میں صاف صفائی کا نام و نشان نہ تھا، میں لکشمی نگر دہلی میں واقع روزنامہ صحافت کے آفس میں بیٹھا ، خبر لکھنے میں مصروف تھا کہ ایک شرارت سوجھی۔ میں نے علاقہ میں ایم سی ڈی کی اندیکھی اور تجاہل عارفانہ پر ایک خبر بناکر عاطف بھائی (محمد عاطف ، اِن دنوں روزنامہ انقلاب گورکھپور سے وابستہ ہیں) کو تھما دیا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ خبر نہیں چھپے گی، مگر عاطف بھائی نے جو اُن دنوں روزنامہ صحافت کے چیف رپورٹر ہوا کرتے تھے، اس خبر کو نواب علی اختر، جو دہلی کا صفحہ دیکھا کرتے تھے(نواب صاحب اب بھی روزنامہ صحافت میں ہی ہیں) کی جانب مسکراتے ہوئے بڑھا دیا۔ نواب بھائی نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور اسے اپنے سامنے میز پر رکھ لیا۔
میں پھر سے کام میں لگ گیا، شام کو جب نکلنے لگا تو نواب بھائی نے کہا، ارے بھائی ! سرخی تو رہ ہی گئی، میں نے مسکراتے ہوئے کہا، لکھ دیجیے۔ ”کیا انجینئر جمال الدین اعتکاف میں ہیں۔؟۔“ ان دنوں انجینئر جمال الدین کاؤنسلر ہوا کرتے تھے۔ ذیلی سرخی کیا تھی اب یاد نہیں رہا۔
دوسرے دن آفس پہنچا تو نواب بھائی نے بتایا کہ ایک سینئر صحافی آپ سے ملنے آئے ہیں۔ دیکھا تو ایک صاحب لمبے تڑنگے، مڑے تڑے جرسی میں ملبوس، آنکھوں میں چشمہ لگائے، ایک ہاتھ میں ہیلمیٹ پکڑے، دوسرے میں ڈائری ، بانہیں پھیلائے قہقہہ زار ہیں۔ مجھے دیکھتے ہیں؛ اچھا تو آپ ہی علم اللہ ہیں، کہتے ہوئےاپنی بانہوں میں بھر لیا اور کہنے لگے، آفس جانے سے پہلے (چند فرلانگ پر ہی روزنامہ ہمارا سماج کی آفس تھی) سوچا مل لوں کہ کون ہیں آخر یہ علم اللہ، اور پھر بار بار دہراتے رہے۔ “ارے بھائی، آپ نے واقعی غضب کی سرخی لگائی، میں تو سمجھ رہا تھا یہ نقوی صاحب(سید ظفر نقوی مرحوم ) نے لگائی ہوگی، انہیں فون کیا تو معلوم ہوا کہ یہ، ان کا نہیں ،آپ کا کمال ہے، ارے بھائی جواب نہیں ہے”۔
یہ قہقہہ زار شخصیت عامر سلیم خان کی تھی جن کا 12 دسمبر 2022 کو حرکت قلب بند ہو جانے سے دہلی میں انتقال ہو گیا۔ بعد کے دنوں میں بھی جب کبھی عامر بھائی سے ملاقات ہوتی تو بے پناہ اپنائیت سے ملتے۔ اس سرخی کا ذکر ضرور کرتے ، مجھے احساس ہے ، یہ کوئی ایسی سرخی نہ تھی جس پر اتنی شاباشی دی جاتی ، لیکن خدا جانے یہ سرخی عامر بھائی کے ذہن میں کیوں چپک سی گئی تھی، دوستوں سے بھی ملتے تو اس کا ذکر ضرور کرتے۔ یہ ان کا ایک انداز تھا ، اپنوں سے ملنے کا۔ انھیں خوش کرنے کا۔
آج ان کے انتقال کے بعد جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو یقین نہیں ہو رہا ہے کہ عامر سلیم خان اب واقعی ہمارے درمیان نہیں رہے۔ وہ اپنے کام کے دھنی، بہادر اور بے باک صحافی تھے۔ مسلم مسائل پر ان کی تحریروں اور اداریوں کو دیر تک یاد رکھا جائے گا۔ وہ دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والے انسان تھے، جس کا عکس ان کی تحریروں میں بھی نظر آتا تھا۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے، میں نے جامعہ نگر میں واقع نور نگر سرکاری اسکول کی بد انتظامی اور کسمپرسی پر ایک خبر روزنامہ صحافت میں چھاپ دی۔ خبر کا چھپنا تھا کہ ہنگامہ مچ گیا۔ اس واقعہ کو ابھی زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا، میں اسکول کے پاس سے گذر رہا تھا کہ اس کے پرنسپل نے اپنے غنڈوں سے مجھ پر حملہ کروا دیا، اللہ کے شکر سے مجھے کچھ ہوا نہیں کیونکہ اسی وقت سامنے کی باب العلم مسجد سے نمازی نکل رہے تھے ، ان میں سے کئی مجھے پہچانتے تھے ۔ انھوں نے فورا مجھے گھیر لیا اور مسجد لے گئے ، بات آئی گئی ، گذر گئی ، لیکن عامر بھائی بڑے بے چین ہوئے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے تا آنکہ انہوں نے اس پرنسپل کو اُس اسکول سے باہر کا راستہ نہیں دکھوا دیا۔ انہوں نے ہفتوں اس پر خبریں چھاپیں، دوسرے صحافیوں کو متوجہ کیا اور اخیر تک فالو اپ کرتے رہے کہ دہلی حکومت کو ایکشن لینا ہی پڑا۔
ایسا نہیں تھا کہ عامر بھائی نے صرف میرے معاملہ میں ایسا کیا تھا بلکہ دیگر گڑبڑیوں اور نا انصافیوں پر بھی وہ کھل کر لکھا کرتے تھے۔ اردو کے ساتھ نا انصافی کا معاملہ ہو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ، دارا لعلوم دیوبند میں وستانوی صاحب کی بات ہو یا پھر مسلم مجلس مشاورت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا۔ حج سبسڈی کا قصہ، بابری مسجد یا مسجد اکبری دلی کی کہانی ہو، سی اے اے این آر سی کا معاملہ ہو یا اپنی قوم کی بد معاشیوں کا وہ سب پر کھل کر لکھتے مگر اجتماعی مسائل کو ہمیشہ مقدم رکھتے، اس میں خواہ اپنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے، انھیں ان کی پروا نہ تھی۔
میں جب کبھی ملی مسائل پر کچھ سخت سست لکھ دیتا تو بہت سارے احباب مجھے اس سے باز رہنے کی تلقین کرتے ،مگر عامر بھائی ہمیشہ کہتے ، آپ نے بہت اچھا لکھا، صحافت میں اگر مزاحمتی آہنگ باقی نہ رہے تو وہ نِری کلرکی بن کر رہ جاتی ہے۔ مزاحمت کا مطلب یہ ہے کہ ہر اس شخص یا گروہ پر سوال اٹھایا جائے ، جس پر سوال اٹھانا کسی بھی حوالے سے مفاد عامہ کے لیے ضروری ہو اور لوگ اس پر سوال اٹھاتے ہوئے ہچکچاتے ہوں۔ ہمارے یہاں اہل صحافت میں ایک عجیب سا چلن فروغ پا رہا ہے۔ حکومت، اس کے ماتحت محکموں اور اداروں وغیرہ کی ترجمانی بھی کچھ لوگ صحافت کی آڑ میں کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ حکومت اور ملی اداروں نے اس کام کے لیے اپنے تعلقات عامہ کے شعبے قائم کر رکھے ہیں۔ صحافی کسی کا بھی ترجمان نہیں ہوتا ۔ اگر ترجمانی ہی مقدر ہے تو اسے عوام کی جانب کھڑے ہونا زیب دیتا ہے۔
ملی مسائل پر ان کی بڑی گہری نظر رہتی اور سات پرتوں میں چھپی خبر کو بھی وہ نکال لاتے۔ ان کی انہیں خوبیوں کی وجہ سے ان کے مخالفین بھی ان کا احترام کرتے اور ان کے ساتھ عزت سے پیش آتے۔ اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے کہ عامر سلیم خان بنیادی طور پر عالم دین تھے اور اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے مشہور دینی درس گا ہ جامعہ سنابل دہلی سے فضیلت کیا تھا، لیکن ان کے احباب اور چاہنے والوں میں ہر مسلک و مشرب کے لوگ تھے، بلکہ ان کی خبریں اور مضامین اس بات کی گواہ ہیں کہ انھوں نے بہت سارے معاملوں میں مکتبِ اہل حدیث کی گڑبڑیوں پر جم کر لکھا۔ انھوں نے خبر کے معاملے میں مسلک کو کبھی بھی سامنے آنے نہیں دیا۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے اور اسی دہلی میں بہت سارے نام نہاد صحافیوں نے ان کے بعد کریر شروع کیا اور اونچے اونچے مکانوں اور فلیٹوں کے مالک بنے مگر عامر سلیم خان جس طرح بستی کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے کنگال آئے تھے، کنگال ہی رہے۔
وہ صحافتی مصروفیتوں کے علاوہ مہدیان میں واقع ایک مدرسہ میں پڑھاتے اور وہیں قیام کرتے۔ حالیہ دنوں میں اردو کے وہ واحد صحافی تھے جو ملت اسلامیہ ہند کے مسائل پر بیباکی کے ساتھ لکھ رہے تھے۔ ملی تنظیموں اور مسلم لیڈروں کے تعلق سے وہ ہمیشہ مثبت رخ اختیار کرتے۔ وہ کئی اخبارات کے عروج کا حصہ بنے لیکن انہیں عروج کبھی نصیب نہ ہوا۔ معمولی تنخواہ اور سادہ زندگی ان کا مقدر ٹھہری لیکن عزت خوب ملی۔ ایسی عزت ہر باعزت کو نہیں ملتی۔
جب روزنامہ ہندوستان ایکسپریس کا بٹوارہ ہوا اور اس سے ٹوٹ کر ہمارا سماج نکلا تو ان دنوں ہمارا سماج اور ہندوستان ایکسپریس دونوں اخباروں کی قلمی لڑائی دیکھنے لائق تھی۔ ایک طرف شاہد الاسلام اور اور احمد جاوید صاحبان مورچہ سنبھالے ہوئے تھے تو دوسری جانب عامر سلیم خان اور خالد انور۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اردو صحافت کے عروج کا دور تھا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی بساط لپیٹ لی۔
عامر سلیم خان اور اس قبیل کے لوگوں کو صحافت کے آخری قبیلہ کے کارواں کے طور پر دیکھا جائے گا۔ ان کی وفات سے اردو صحافت کے ایک دور کا خاتمہ ہو گیا۔ وہ صحافیوں کے اس کارواں کے ہدی خاں تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں ان مسائل پر سچائی اور غیر جانبداری سے رپورٹنگ کے لیے وقف کر دی تھیں جن سے ان کی برادریوں کے لوگ متاثر تھے۔ عامر سلیم خان کی صحافت کو ان کی لاجواب سرخیوں، نفیس زبان اور بہترین تلمیحات اور کلاسک محاوروں نیز منفرد انداز بیان کے لیے بھی دیر تک یاد رکھا جائے گا۔
عامر سلیم، آپ قلم کے مجاہد تھے۔ صحافت اور انشاء کے آدمی، آپ کی کہانیاں متاثر کن تھیں، آپ کے الفاظ حوصلہ افزا اور آپ کی ہمت بے مثال تھی۔ آپ نے غریبوں کو اٹھانے، اور بے آوازوں کو آواز دینے کے لیے لکھا۔آپ ایک دیانت دار آدمی تھے، جو حرف کے تقدس کو سمجھتے تھے۔آپ قلم ہاتھ میں لے کر جیتے اور مرتے رہے۔ اب، آپ اپنے سفر کی آخری منزل پر پہنچ چکے ہیں، یقینا وہ جا جنت ہوگی، جہاں بہت سے عظیم قلم کاروں نے آپ کا استقبال کیا ہوگا، جن کے پاس صرف ایک ہی جذبہ ہوگا، احساس کا، دکھ کا، درد کا۔ وہاں آپ کو کسی بات کی وضاحت کی ضرورت کے بغیر دل و دماغ کو معطر کر دینے والے قلم کے بادشاہ ہوں گے۔وہاں، کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں، کوئی شکایت نہیں کرے گا کہ آپ ان کے بارے میں کیوں لکھ رہے ہیں۔
الوداع قلم کے سپاہی ، الوداع !
عامر سلیم کو رخصت کرکے ابھی واپس لوٹا ہوں ۔ ایک خلق خدا اس بے نیاز اور قلندر صفت صحافی کو مِٹّی دینے پہنچی تھی ۔
ایسے موقع پر دشمن بھی شریک ہوجاتے ہیں ۔ لیکن عامر سلیم کا کوئی دشمن تھا ہی نہیں ۔ شاید کوئی مخالف بھی نہ ہو۔ اس بندہ خدا نے کبھی کسی سے اختلاف کیا بھی نہیں۔نہ مسلکی نہ پیشہ ورانہ ۔
اپنی زندہ دلی اور خندہ پیشانی سے کسی کو محسوس تک نہ ہونے دیا کہ عامر سلیم اتنا بڑا عارضہ قلب و جاں لیے گھوم رہے ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ عامر سلیم کا دل بہت کمزور تھا اور محض 35 فیصد کام کرتا تھا ۔ لیکن ہم نے تو عامر سلیم کو ہمیشہ بڑے اور مضبوط دل کا پایا۔
دہلی میں نامہ نگاروں کی ایک جوڑی تھی۔ میں ان دونوں کو "سلیمین” کہا کرتا تھا ۔۔ سلیم صدیقی (مرحوم) اور عامر سلیم۔ دونوں دو مختلف اخبارات کی نمائندگی کرتے تھے ۔ دونوں کے مزاج مختلف تھے۔ دونوں کی عمروں میں بھی فرق تھا۔ مگر دونوں ایک دوسرے کےلیے لازم و ملزوم سے ہوگئے تھے ۔
جب کبھی لودھی روڈ آتے تو دونوں میرے پاس بھی آتے۔ چائے کہہ کر منگواتے۔ جتنے وقفہ میں چائے آتی دونوں کی فرینڈلی "تکرار” شروع ہوجاتی۔ ابتدا سینئر سلیم یعنی سلیم صدیقی کرتے۔ کچھ چھیڑ چھاڑ کرتے۔ عامر سلیم سنجیدگی کے ساتھ جواب الجواب میں "ملوث” ہوجاتے۔
سلیم صدیقی بیچ بیچ میں کنکھیوں سے ظاہر بھی کرتے کہ وہ مذاق کر رہے ہیں لیکن عامر سلیم مزید سنجیدہ ہوجاتے۔ مگر ایک بڑا فرق بھی تھا۔ یہ کہ سلیم صدیقی کا لہجہ مذاق کرتے ہوئے بھی سخت اور تند ہوجاتا جبکہ عامر سلیم سنجیدہ ہوکر بھی مسکراتے رہتے۔ کبھی آپے سے باہر نہ ہوتے۔ جب محفل برخاست ہوتی تو دونوں اس طرح ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اٹھتے جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
عامر سلیم دوستوں کی مشکلات دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے۔ مگر انہوں نے کبھی اپنی مشکل کا اظہار کیا ہی نہیں ۔ وہ بہت فدویانہ اور مہذب مزاج رکھتے تھے ۔ وہ ہر محفل میں میرا تعارف اپنا سینئر اور صحافت میں اپنا استاذ کہہ کر کراتے تھے ۔ میں نے انہیں کچھ نہیں سکھایا۔ وہ صحافتی عناصر کا خداداد مجموعہ تھے ۔
راشٹریہ سہارا میں رہتے ہوئے ایک بار جب مجھے رپورٹنگ سیکشن کا انچارج بناکر کناٹ پلیس پر واقع بیورو کے دفتر بھیجا گیا تو عامر سلیم کو جز وقتی نامہ نگار کے طور پر وہیں پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ کسی پروگرام یا پریس کانفرنس سے آکر مجھے روداد سناتے اور پوچھتے کہ سر کہاں سے ابتداء کروں ۔
آج جب وہ اپنی حیات مستعار کی انتہا کر گئے ہیں تو اندازہ ہوا کہ ان کے اتنے دنوں تک چلتے پھرتے رہنے کا راز کیا تھا۔ انہیں ہر مکتب فکر کی محبت اور شفقت حاصل تھی۔ ان کے چاہنے والوں میں کوئی ہوگا جو ان کی تدفین میں نہ آیا ہو۔ انہوں نے اپنی عمر کی نصف صدی بھی مکمل نہیں کی تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کے بچے ابھی چھوٹے ہیں ۔ انہوں نے جس صبر و قناعت سے زندگی گزاری اس کی روشنی میں نہیں لگتا کہ کچھ پس انداز بھی کیا ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ انہیں قبر تک پہنچاکر آنے والی اتنی بڑی جماعت کچھ اس طرف بھی توجہ دے۔
ہاں آج جب میں نے ان کا چہرہ دیکھا تو وہی تبسم تھا جو زندگی میں بکھرا رہتا تھا ۔۔ الله تعالیٰ مرحوم کو جوار رحمت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل۔ انا للہ واناالیہ راجعون
جلگاؤں ،مہاراشٹر
انور مرزا عصر حاضر کے ایک پختہ قلم کار ہیں ـ حالاں کہ فلم اور سنیما ان کا سب سے بڑا حوالہ ہے ـ انھوں نے کئی ٹی وی سیریلز، ٹیلی فلم اور بڑے پردے کی کئی فلموں کی اسکرپٹ رائٹنگ کی ہے ـ ‘الف لیلہ ‘، ‘ٹمبا روچا’ اور الہ دین وغیرہ بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں ـ البتہ انھوں نے اردو کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی بھی کی ہے ـ انور مرزا کی شناخت اردو ادب میں بطور شاعر، مترجم، صحافی اور مضمون نگار کی ہے ـ پچھلے دو برسوں میں انھوں نے افسانے بھی لکھے ـ بطور افسانہ نگار انھوں نے کب سے ادب میں اپنی شناخت بنانی شروع کی یہ امر تحقیق طلب ہے، تاہم ان کے حالیہ افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ ان کا قلم کڑے تجربات اور بلیغ مشاہدات کا حامل ہے ـ انھیں افسانہ لکھنے پر ملکہ حاصل ہے ـ انور مرزا افسانہ کے فن سے خصوصی واقفیت رکھتے ہیں ـ موضوع کا انتخاب، زبان و بیان اور کردار نگاری پر خاص توجہ دیتے ہیں ـ اسلوب کے حوالے سے انور مرزا بالکل یکتا قلم رکھتے ہیں ـ ان کا اسلوبِ تحریر عصری افسانہ میں بلا مبالغہ کہیں میل نہیں کھاتا نہ کسی پیش رو افسانہ نگار سے مشابہ نظر آتا ہے ـ
ذیل میں انور مرزا کے چند افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے ـ
موصوف کا پہلا افسانہ "کچھ بولوگے نہیں” ہے ـ جیسا کہ ذکر کیا گیا انور مرزا کا تعلق سنیما اور فلموں سے رہا ہے، موصوف نے اس افسانے میں اپنے فلمی تجربے سے جا بہ جا استفادہ کیا ہے ـ بنیادی طور پر افسانے کی زبان ، کردار اور پلاٹ؛ فلمی انداز کا ہے ـ ہمارے یہاں افسانے کے پیش کش کی کئی صورتیں ہیں، اسلوب و تکنیک کی نئی مثالیں بھی آئے دن رسائل و جرائد میں نظر آتی ہیں ـ لیکن افسانے کی پیش کش کی سب سے بہتر صورت وہ ہے جس میں قاری اور کہانی کی ترسیل کے درمیان ذہنی مشقت مانع نہ ہو اور افسانہ اپنے مرکزی خیال کے ساتھ اسلوب و انداز کی سطح پر بھی قاری کو متاثر کر سکے ـ انور مرزا کا افسانہ ‘کچھ بولو گے نہیں’ موضوع کے اعتبار سے اہم ہے ہی ساتھ ہی پیش کش اور طرز و انداز کے لحاظ سے بھی قاری کو متاثر کرتا ہے ـ
اس افسانے کا فکری سرمایہ جدید دور ہے جس میں وسائل کے بے شمار ہونے کے باوجود انسان انسان سے دور بہت دور ہوگیا ہے ـ اسی جدید دور کا ایک ذمہ دار انسان اور اس کی بھاگ دوڑ بھی افسانے کا فکری پہلو ہے جس میں الجھ کر مجبوراً وہ اپنے حقیقی اور روحانی رشتوں کو پائمال کر دینے یا ان سے آزاد ہوجانے پر آمادہ نظر آتا ہے ـ یقیناً وہ اپنی دنیا بھول کر دنیا نہیں کمانا چاہتا ہے نہ اسے اتنی عمر کو پہنچ کر بھی کچھ حاصل ہوا ہے ، وہ تو اب تک رکشا ، بس اور ٹرین وغیرہ سے سفر کرتا ہے ـ یہاں نہ صرف متوسط طبقے کے ایک فرد کی ناکام زندگی کا قضیہ سنایا گیا ہے بلکہ فلم انڈسٹری میں تگ و دو کر رہے ناکام لوگوں کے انجام کی طرف بھی شعوری طور پر اشارہ کیا گیا ہے ـ
افسانہ نگار نے افسانے میں جگہ جگہ رمزیہ انداز اپنایا ہے اور یہ رمز کیسے کیسے پہلوؤں کے ساتھ منکشف ہوتے ہیں وہ حیران کن ہیں ـ افسانہ نگار نے جدید ٹکنالوجی ، موبائل فون، کمپیوٹر، ڈاؤنلوڈ، اسکرین وغیرہ الفاظ کی توسط بڑی ہی ہنر مندی سے آن لائن زندگی ، کہ جس کا جذبات و احساسات سے کوئی تعلق نہیں ہے، پر کراری ضرب کی ہے ـ مرکزی کردار اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث اپنی بیوی سے وہ سب کچھ کہنے سے ایک طرح سے معذور ہے لیکن اس کی بیوی منتظر ہے اور وہ چاہتی ہے کہ کسی طور اس کا شوہر زندگی کے جھمیلوں سے نکل کر اس سے دلی رشتہ قائم کرے اور اس کا اظہار بھی کرے ـ عصری حوالے سے دیکھیں تو ایک پوری دنیا اپنی دنیاؤں سے بے خبر ہوچکی ہے جس کی وجہ سماجی و معاشی ذمہ داریاں ہیں مگر دیکھا جائے تو نہ کے برابر، لیکن افسانہ نگار کے نزدیک جدید ٹیکنالوجی کی لایعنیت اور لا حاصلی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ـ
کہانی کے دونوں ہی اہم کرداروں کو افسانہ نگار نے کمال ہنر مندی سے پینٹ کیا ہے ـ دونوں کے دلی جذبات، محبت کی حلاوت اور ایک دوسرے کی دلی کیفیت کا نقشہ قاری کو پوری قوت سے اپنی طرف کھینچ لینے میں کامیاب ہے ـ قاری دونوں کے غم میں برابر کا شریک ہے ـ
اسی طرح افسانہ ‘صبح صادق’ بھی کئی حوالوں سے متاثر کرتا ہے ـ اول تو اس افسانے کا کرافٹ سب سے خاصے کی چیز ہے ـ زبان و بیان کا کیا کہنا، چھوٹے چھوٹے جملے، الفاظ کی در و بست اور بین السطور کہانی ، کل ملا کر فن پارے کو بلا کی خوبصورتی عطا کرتے ہیں ـ افسانے کا بیانیہ بالکل تازہ اور حالات حاضرہ کی کامیاب نمائندگی کرتا ہے ـ اس میں بظاہر ایک کہانی تو پہلی پرت میں نظر آتی ہے تاہم اس کے درون میں کئی کہانیاں سانس لے رہی ہیں، جو ہمیں یہ باور کراتی ہیں کہ کورونا صرف ایک بیماری نہیں بلکہ ایک ‘بلا’ ہے، بالکل حمیرا کی طرح ـ کردار نگاری میں بھی موصوف نے کمال دکھایا ہے ـ اسی طرح بڑی بڑی منظر نگاریاں، اور لمبے لمبے جملوں میں کیریکٹر کی حالات زیست سے اجتناب برتتے ہوئے بڑے فصاحت اور بلاغت سے پر چھوٹے چھوٹے عام فہم سے جملوں میں پورے کرداروں کو اس طرح نکھارا ہے کہ ان کی پوری شبیہ ہمارے آنکھوں میں اتر آتی ہے ـ یوں لگتا ہے وہ ہمارے قریب ہی ہیں ـ
افسانہ چھوٹے پردے (ٹیلی ویژن) کی فلمی صنعت کی صرف ایک جھلک دکھاتا ہے لیکن اس سے کئی چمکیلے اور جھل جھلاتے پردے ہٹ جاتے ہیں اور اس دنیا کی ایک مکروہ صورت سامنے لاتے ہیں ـ دراصل عوام تو عوام خواص کا بھی یہی خیال ہے کہ فلمی دنیا کی جگمگاہٹ، دولت، شہرت عورت سب کچھ بس یونہی میسر ہوجاتی ہوں گی، بس کسی طرح اس نگری میں داخلہ مل جائے، البتہ اس افسانے کی رو سے دیکھیں تو حقیقت یکسر اس کے الٹ ہے ـ اس لحاظ سے افسانہ ایک طرح سے حقیقت نگاری کا عمدہ نمونہ بھی بن جاتا ہے ـ افسانے کی بلاغت یہ بھی ہے کہ افسانہ جس پس منظر کی عکاسی کرتا ہے اس پر الفاظ کا تصرف نہ کے برابر ہے ـ جو کچھ ہورہا ہے یا ہو گیا ہے وہ سب بین السطور سے محسوس ہوتا ہے ـ یہی وجہ ہے کہ یہ افسانہ اپنے اندر بڑا کینوس رکھتے ہوئے بھی مختصر ہے ـ
اس کہانی کے عنوان سے متعلق چند باتیں غور طلب ہیں ـ اول تو صبح صادق (DAWN ) کا لفظی معنی صبح کی روشنی ہے جو سورج نکلنے سے پہلے مشرقی کنارے سے پھوٹتی ہے اور جو انسانوں کے لیے زندگی کی تگ و دو جاری کرنے کا اعلان ہوتی ہے ـ اسی طرح دوسرا معنی جدید دور، یا نئے دور کا آغاز ہے ـ ان دونوں مفہوم کے مطابق کہانی کی فضا جو فلمی پس منظر میں ہے کو دیکھیں اور اس کا مرکزی کردار جو مستقل جدو جہد کر رہا ہے، کو سامنے رکھیں تو ان پر عنوان کی موزونیت واضح ہوجاتی ہے ـ البتہ کہانی کا یہ پہلو غور طلب ہے کہ وہ یعنی راوی صادق کے متعلق بد گمان ہے لیکن صادق مرنے کے بعد بھی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے ـ واضح رہے صادق کا معنی ‘سچا’ کا ہوتا ہے ـ اس حوالے سے افسانے کا عنوان "صبح صادق” کہ صادق راوی کے گمان کے برعکس سچا ثابت ہوا ـ
افسانہ ‘آئی کانٹیکٹ’ بھی انور مرزا کے ذریعے دیکھے گئے مختلف زندگیوں کے حوادث و شواہد کا عمدہ بیان ہے ـ اب کہ جو موضوع سامنے ہے وہ بھی شہری زندگی کا ترجمان ہے جسے موصوف قلم کار نے ایک محبت کی روایتی کہانی سے پینٹ کر کے اپنے مشاہدات اور تجربات سے لازوال بنا دیا ہے ـ
انور مرزا کا افسانہ ‘آئی کانٹیکٹ’ موضوع کے اعتبار سے شہر آفاق فکشن نگار قرۃالعین حیدر کے افسانے "نظارہ درمیان ہے” سے مشابہ نظر آتا ہے ـ بس یہاں ایک کردار کو بیٹی کے کردار سے تبدیل کر دیا گیا ہے ـ جب پہلی بار ‘نظارہ درمیاں ہے‘ پڑھا تھا تو اس کے سائنسی نکتے پر تامل محسوس ہوا تھا جو اب تک قائم تھا ـ اور اب انور مرزا کے اس افسانے کے حوالے سے بھی راقم اسی کیفیت سے دوچار تھا ـ لیکن جب اس افسانے کی نفسیاتی پرتیں وا ہوئیں اور یہاں تک کہ افسانے کی تہہ داریاں مختلف نفسیاتی حوالوں سے منکشف ہوگئیں تو یہ اعتراف واجب محسوس ہوا کہ افسانہ نگار کچھ چیزوں سے مستثنیٰ رہ سکتا ہے ـ ان سب کے علاوہ یہ بھی اہم کہ ‘ آنکھیں چار ہونا‘ محاورے کو ایک مختلف زاویہ عطا کرنے میں انور مرزا کامیاب ہیں ـ اس افسانے کی پیش کش عمدہ، زبان و بیان اعلی درجے کا، مکالمے بہت چست اور کردار و ماحول کے عین مطابق ہیں ـ
معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق اس افسانے (آئی کانٹیکٹ ) سے متعلق لکھتے ہیں کہ :
"انور مرزا کی صحافیانہ صلاحیتوں، اور فلمی رائٹنگ سے تو میں واقف تھا لیکن انکی افسانہ نگاری سے زیادہ واقفیت نہیں تھی ۔لیکن آئی کانٹیکٹ پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ افسانہ پر ان کی گرفت کس قدر مضبوط ہے ۔ ان کے پاس ایسی زبان ہے جو کسی بھی موضوع کا پنجہ مروڑسکتی ہے ـ دوسری خوبی ان کے افسانے کی خوبصورت ٹیکنک ہے جو معمولی سے معمولی بات کو افسانے کے سانچے میں ڈھال کر اسے غیر معمولی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ”
(بزمِ افسانہ)
انور مرزا کا چوتھا افسانہ "کائنات کا ایک منظر ” ہے جو ایک رومانی انداز کا افسانہ ہے ـ اسی طرح یہ افسانہ موصوف کے دیگر افسانوں سے قدرے مختصر بھی ہے ـ افسانے کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے، ملاحظہ فرمائیں :
” خفیہ مِشن خطرناک موڑ پر تھا…
موت جب اُس کے بالکل سامنے آگئی تو زندگی کا خیال آیا…
کائنات آنکھوں میں سِمٹ آئی ـ
ہاں…یہی تو نام تھا اُس کی بیوی کا…”
(کائنات کا ایک منظر)
افسانے کے آغاز ہی سے کہانی کھلنے لگتی ہے ـ بہت سوں کے خیال میں یہ امر فن کی ایک کمزوری سمجھا جاتا ہے ـ لیکن یہ بھی تصور درست معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگار اپنے افسانے میں جو کہانی بیان کرنا چاہتا ہے یا افسانے میں جو درد، جو خیال، جو خلش، جو واقعہ یا جو حقیقت اس کا فکری سرمایہ ہوتی ہے، اگر وہ تمام تر ادبی حظ کے ساتھ قارئین تک پہنچ جائے تو ضروری نہیں کہ اختتام تک کہانی کھلنی نہیں چاہیے، یا اس کا کلائمکس چونکانے والا ہونا چاہیے ـ ہمارے سامنے اساتذہ کے افسانے بطور مثال موجود ہیں ـ اسی طرح عالمی ادب کے افسانے بھی ہیں جو اس طرح کی فنی پابندیوں سے عاری ہیں ـ بہر حال اس افسانے کے شروعات ہی میں قارئین اگر اندازہ لگا لیں کہ کہانی کا کلائمکس کیا ہوگا تب بھی ان کی دلچسپی کی تمام چیزیں افسانے میں بہ درجہ اتم موجود ہیں ـ
کلائمیکس ملاحظہ فرمائیں :
…پھر …پتہ نہیں کیا ہوا…
کائنات کا منظر ہی بدل گیا، دُشمن ناکام ہوگیا…یا دُعائیں قبول ہوگئیں…
کوئی نیکی کام آ گئی…یا … محبّتیں اثر کر گئیں، یاپھر…ستی ساوِتری کی طرح کائنات اپنے منظر کو واپس لے آئی…
خفیہ مِشن کامیاب ہوا…
اگلی صبح …
بیجِنگ میں کائنات مُسکرا رہی تھی….
اور پھر اگلی صبح…
اُس کی کائنات رقص کر رہی تھی…!
(کائنات کا ایک منظر)
انور مرزا کے اکثر افسانوں میں اسی طرح کی ہیپی اینڈنگ ہوتی ہے ـ لیکن ابتدا تا انتہا افسانہ پر تجسس اور سحر انگیز فضا سے مملو ہوتا ہے ـ
علاوہ ازیں درج بالا اقتباس میں انور مرزا کے اسلوب کی جھلک بھی دیکھی سکتی ہے ـ جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ انور مرزا کی سبھی کہانیوں میں مشترک چیز ان کا اپنا منفرد اسلوبِ تحریر ہے ـ حالانکہ موصوف نے ابھی چند ہی کہانیاں لکھیں تاہم انھیں صاحب اسلوب افسانہ نگار تسلیم کرنے میں کوئی تردد نہیں ـ انور مرزا کا اسلوب اگرچہ م ناگ کی یاد تازہ کرتا ہے مگر اس میں م ناگ سے شباہت بالکل نہیں ہے ، بلکہ اس لیے م ناگ یاد آتے ہیں کہ ان کے بعد کم از کم مہاراشٹر سے کوئی صاحب اسلوب افسانہ نگار ابھر کر سامنے نہیں آیا، سوائے انور مرزا کے ـ
اس افسانے کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو ایک طویل کینوس کے افسانے کو پوری فن کاری کے ساتھ مختصر اور بہت جامع انداز میں تحریر کیا گیا ہے ـ ایسی کہانیاں فن کے اعتبار سے طوالت چاہتی ہیں، نیز ماہرانہ انداز میں برتی گئی جزیات کا تقاضا کرتی ہیں ـ لیکن انور مرزا نے اسے بہت ہی عمدگی سے اختصاری صورت بخشی ـ انٹیلیجنس ایجنسییز کے پس منظر میں محبت کی یہ کہانی اپنی ابتدا ہی میں ابن صفی کی یاد تازہ کرتی ہے ـ کہانی کی رفتار کے ساتھ زبان و بیان کی روانی موزوں و مناسب ہے ـ اتنے کم لفظوں میں منظر نگاری ایسی کہ کہانی کے کردار اپنے اور ان کے آس پاس کا منظر نامہ لیے ایک ریل کی طرح چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ـ اتنے ہی کم لفظوں میں کردار نگاری میں بھی افسانہ نگار نے اپنے فن کا عمدہ مظاہرہ کیا ہے ـ
آخری افسانہ "ہجرت” ہجرت کے موضوع پر لکھا گیا ایک فکر انگیز افسانہ ہے جو بنیادی طور پر ہجرت کے اسباب اور وطن سے محبت کے بیچ حالات و کیفیات کا صاف ستھرا بیانیہ ہے ـ موضوع کے لحاظ اس میں کچھ خاص نیا پن نہیں ہے لیکن اسلوب اور ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے افسانہ قدرے منفرد اور پر اثر نظر آتا ہے ـ اسی طرح افسانے کا پلاٹ کسی طور افسانے کا پلاٹ نہیں لگتا، اس کا کینوس سن 47 سے این آر سی تک پھیلا ہوا ہے، جو بہت آسانی سے کسی ناول میں سمویا جا سکتا ہے ـ بہر حال انور مرزا نے اس پھیلے ہوئے پلاٹ کو بڑی چابکدستی سے افسانہ کے قالب ڈھالا ہے اور پوری جامعیت کے ساتھ اپنا مطمع نظر بیان کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ـ
انور مرزا نے کے مطابق ہندوستانی مسلمان خود پر ہو رہے ظلم و تشدد کے سبب ہجرت کرنے کے لیے آمادہ تو ہو سکتا ہے ، لیکن اس کے دل میں اپنے وطن اور اپنے وطن کے لوگوں سے محبت و اپنائیت کے جذبات بھی موجزن ہیں، جو اس کے ارادے کو تبدیل کر سکتے ہیں، لیکن اگر وہ وطن کی محبت میں ہجرت کا ارادہ ترک کر دے تو حالات اس قدر آن پڑے ہیں کہ یقینی طور پر اسے اپنے ہی ملک کے شہری ہونے کا کاغذی ثبوت دینا پڑے گا ـ
افسانے میں تاریخی حوالے بھی درج ہیں ـ ان کا سرا سن 47 سے شروع ہوتا ہے ـ یہاں تقسیم کا المیہ درشانے میں بھی انور مرزا کامیاب ہیں ـ انھوں نے بڑے ہی دو ٹوک انداز میں سے کہہ دیا کیا کہ :
"چچا جان 47 میں بچ گئے تھے ـ ـ ـ ”
اس کے بعد افسانے کے اگلے ہی جملے میں بابری مسجد کے انہدام اور اس کی وجہ سے برپا ہونے والے فسادات پر بھی کھلے لفظوں میں کلام کیا گیا ہے ـ اسی ضمن میں 92 کے ممبئی فسادات کا تذکرہ بھی ہے کہ یہ کس کا لہو ہے کون مرا ـ اس سے کچھ پہلے افسانہ نگار نے صدام حسین کے کویت حملے کی طرف توجہ مرکوز کروائی اور اس سے پوری دنیا میں پھیلنے والی دہشت کو نظر انداز نہیں کیا ـ کہانی کا مرکزی کردار کہیں سن لیتا ہے کہ اب صدام حسین اسی طرح کا حملہ سعودی عرب پر بھی کرے گا ـ تو وہ بے طرح خوف کھاتا ہے ـ یہاں افسانہ نگار نے بڑی فن کاری سے کہانی کا رخ موڑ کر اسے وطن کی محبت سے جوڑ دیا ہے ـ کہنا چاہیے کہ افسانہ نگار نے کس خوبصورت انداز میں حب وطن کو ترجیحی طور پر پیش کیا ہے ـ وہ فون پر اپنی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ تم اپنے مرنے کی خبر کسی طرح یہاں پہنچا دو تو یہ لوگ مجھے اپنے وطن آنے کی اجازت دے دیں گے ـ یہاں افسانہ نگار نے ایک اور بار قاری کو متوجہ کیا ہے کہ غریب الوطنی کی زندگی میں جب حالات سنگین صورت اختیار کر لیتے ہیں تو آدمی اپنے وطن کو اپنے ماں باپ کی طرح یاد کرتا ہے ـ
دوسری طرف، کیا افسانہ نگار شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ کہنا چاہتا ہے کہ بین الاقوامی سطح کے موجودہ اور اب سے کچھ دس بارہ برس میں واقع ہونے والے گمبھیر حالات، جنھیں افسانہ نگار نے افسانے میں بلترتیب بیان کیا، ان کے اسباب مسلم قیادتوں کی ملوکییت ہے ؟ اس لیے کہ 9/11 سے قبل پوری دنیا میں مسلم اقتدار ہی مسلم دشمنی کا اہم جواز یا ‘کی ورڈ’ ہوا کرتا تھا ـ بعد ازاں 9/11 اس میں بلا شبہ تبدیلی ہوئی اور ایک نیا مسلم دشمن نظریہ سامنے آیا جس کی رو سے اسلام کے ماننے والے تشدد پسند ٹھہرائے گئے ـ
اس کے علاوہ افسانہ نگار نے ہندوستان میں برپا ہونے والے انسان کش فسادات کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا، کہ ماضی کے یہ سارے حادثے یا فسادات موجودہ حالات کا شاخسانہ ثابت ہو رہے ہیں ـ اب ملک میں اقلیت کو اپنے بنیادی شہری ہونے کا پختہ ثبوت درکار ہے ـ افسانے کا مرکزی کردار اس کے بعد اور کیا کیا جھیلنے والا ہے؟ وہ 90 کے کویت حملے سے خوف کھایا ہوا ہے ، 92 میں اپنے سبھی اہل خانہ کو گنوا چکا ہے اور اب تک اپنے ہی ملک میں سوتیلے ہونے کا داغ دامن پر لیے پھرتا ہے ـ پھر تنگ آ کر ہجرت کا قصد کر لیتا ہے ـ وہ پڑوسی ملک میں ہجرت کر کے بسنا چاہتا ہے، وہاں دولت کی فراوانی ہے ، والد کا جاری کردہ اخبار ہے، فردوس کی شکل میں خوبصورت ترین بیوی بھی ہے اور سب سے بڑ کر اپنے ہم مذہب لوگ ہیں، جن سے اس کے جان و مال، عزت و آبرو کو کوئی خطرہ نہیں ـ لیکن اس کے دل میں اپنے وطن کی محبت بھی ہے ، اسے اپنے گھر، گلی محلے، دکانیں، لائبریریوں سے بے پناہ انسیت و اپنائیت ہے ـ اپنے ملک کے کھلاڑیوں اور فن کاروں پر وہ فخر کرتا ہے ـ یہاں تک کہ قبرستان میں پڑے مردے بھی اس کی یاد بسیرے کے ساکن ہیں ـ لہذا یہی تمام تر شعبہ ہائے وطن اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں، اور اس کے ہجرت کے ارادے پر وطن کی محبت غالب آجاتی ہے ـ لیکن اخیر میں کیا، اسے اپنے ہی گھر میں رہنے کے لیے پروانہ چاہیے؟ اور اسے اس کے لیے کاغذی ثبوت پیش کرنے ہوں گے …..!
انور مرزا کے کردار بڑے معصوم ہوتے ہیں، وہ مروت میں سب کچھ لٹا کر بھی اخیر میں اپنا سر پیش کرنے کے لیے بڑی سعادت مندی کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ـ انور مرزا کے پچھلے چار افسانے اور یہ ایک افسانہ ‘ہجرت’ ، کل ملا کر پانچوں افسانوں کے کرداروں میں یہی یکسانیت مشترک ہے ـ اسی افسانے کے کردار کو دیکھیے ، کویت حملے کے وقت بیوی کو مضحکہ خیز انداز میں اس کی موت کی خبر پہنچانے کی تجویز دیتا ہے، اپنے ہی ملک میں سوتیلے ہونے کا کرب جھیل رہا ہے، فسادات میں اپنے پورے خاندان کو کھو دیتا ہے ـ لیکن تب بھی اسے اپنے ملک اپنے وطن سے اس قدر محبت و انسیت ہے کہ وہ تحفظ ، دولت اور فردوس جیسی خوبصورت خاتون کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنے کا ارادہ ترک کر دیتا ہے ـ یہ دراصل سچے قلم سے کھینچی ہوئی وہ مظلوم تصویر ہے جو ہندوستانی مسلمان کا استعارہ پیش کرتی ہے ـ
یاد آتا ہے کہ ٹی کے عبد اللہ صاحب مرحوم ؒ کا نام پہلی بار میں نے 1992 میں ایس آئی او کے ایک تربیتی کیمپ میں سنا تھا۔ تحریک کےکسی ملیالی رہنما سے ملاقات کا بھی یہ پہلا موقع تھا۔ مرحوم ؒ نے تقریر شروع کی تو اُن کی ملیالی لہجے والی اردو بڑی عجیب محسوس ہوئی۔ اندازہ ہوا کہ موصوف اردو نہیں جانتے۔زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی ایک کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ علم و دانش کو زبان اور لہجے کی کسوٹی سے پرکھنے لگتے ہیں۔ نامانوس لب و لہجے اور کہیں کہیں عجیب وغریب عربی آمیز لفظیات و ترکیبات کی وجہ سے ابتداء میں تقریر بڑی بوجھل محسوس ہونےلگی لیکن یہ تاثر چند ہی منٹوں بعد اُس وقت ختم ہوگیا جب ان کی تقریر سےمتاثر کن آئیڈیاز وخیالات کے چشمے، بلند پہاڑوں کے آبشاروں کی مانند بہنے لگے۔ کبھی مولانا مودودی ؒکے افکار و نظریات میں گہری غوطہ زنی تو کبھی علامہ اقبال کے اردو و فارسی اشعار سے حکمت کے خزانوں کی رونمائی، کبھی جدید و قدیم عربی شاعری کی خوشہ چینی تو کبھی معاصر ملکی و مغربی مفکرین کے تازہ ترین افکار کی تنقیح ۔۔ان کی تقریرایک رواں دریا کی مانند کبھی نشیب سے کبھی فراز سے، کبھی تند و تیز اور کبھی سبک رو، جاری رہی اور ہم حیران و مبہوت،اس کے ریلے میں ، ایسے بہتے گئے کہ لہجہ بالکل یاد نہیں رہا۔ یہ اُن سے پہلا تعارف تھا۔
اس کے بعد کئی اجلاسوں میں ان کی تقریریں سنیں۔ وہ جماعت کی صف اول کے اُن قائدین میں سے ایک تھے جن سے ہم نوجوانوں کو اپنے دل کی بات کہنے میں کبھی کوئی تکلف نہیں ہوتا۔ یہ بزرگ بھی ، تحریک کے نوجوانوں سے بات کرتے تو اپنی ذمے دارانہ حیثیتوں اور تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر نہایت اپنائیت اور بے تکلفی سے گفتگو کرتے۔ اپنی آراء کا بلاتکلف اظہار کرتے۔ فکری و نظریاتی معاملات میں نظریاتی دیانت و نظریاتی شفافیت سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا کہ حساس معاملات میں بھی وہ نوجوانوں پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ ان بزرگوں میں بعض دیگر اہم شخصیتوں کے ساتھ ایک نمایاں نام مرحوم ٹی کے عبد اللہ صاحبؒ کا تھا۔ ان بزرگوں کے ہم پر اعتماد اور ان کی صاف گوئی نے ہم جیسے بہت سے نوجوانوں کو آزادانہ غور و فکر کی صلاحیت سے آراستہ کیا۔
بعد میں حلقہ مہاراشٹر کی ایس آئی او کی ذمے داری کے دوران ہم نے ان بزرگوں سے استفادے کا خصوصی پروگرام بنایا۔ دیگر بزرگ بھی مختلف پروگراموں میں مدعو کیے گئے لیکن ٹی کے صاحب مرحوم کے ساتھ تو ایک اجلاس اس طرح منعقد کیا گیا کہ اس میں کوئی اور پروگرام نہیں تھا ، بس ٹی کے صاحب سے استفادہ اس کا ایک نکاتی ایجنڈا تھا۔ دو دن تک صرف ان کے ساتھ نشستیں ہوتی رہیں۔ انہوں نے اس پروگرام میں کئی کئی گھنٹے تقریریں کیں اور ہم ان سے بے تکلف بحثیں کرتے رہے۔ تند و تیز سوالات بھی کیے۔ برملا ان کی بعض باتوں سے اختلاف بھی کیا۔ ان کے خیالات کو شوخ تنقیدوں کا موضوع بھی بنایا۔ وہ بھی کبھی پیار سے سمجھاتے رہے۔ کبھی ڈانٹ بھی پلائی۔ دقیانوسیت کے طعنے بھی دیئے۔ اپنی مخصوص ظرافت کا نشانہ بھی بنایا۔ ہمت افزائی بھی کی۔ذہن کے دریچے کھولے۔ خیالات کو مہمیز لگائی۔ ان دو دنوں کے بعد جب ہم لوٹے تو ہمارے دامن بھرے ہوئے تھے اور اس کے باوجود تہی دامنی کا احساس تھا اور پہلی بار اس شعر کا مطلب بھی سمجھ میں آیا تھا کہ
توہی نادان چند کلیوں پر قناعت کرگیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی دام
اور ہماری تنگی داماں کا علاج تو وہ زندگی بھر کرتے رہے۔
علمی وسعت، گہرائی و تازگی
ٹی کے صاحب مرحوم کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ ان کا علم وسعت، گہرائی اور تازگی ان تینوں خصوصیات کا حامل تھا۔ بعض اہل علم، دنیا جہاں کی معلومات رکھتے ہیں اور بھانت بھانت کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں لیکن علم کے سمندر میں وسیع و عریض سفر کے باوجود، سطحِ آب سے نیچے گہرائیوں میں نہیں اتر پاتے۔ کتابوں اور مصنفین کے نام، اور فہرستِ مضامین سے آگے اگر کوئی بات ان کےذہن میں اتر بھی جائے تو ٹِک نہیں پاتی۔وہ علم کے سوتوں سے حکمت و دانش کی بجائے صرف سطحی معلومات یا ڈاٹا و انفارمیشن ہی کشید کرپاتے ہیں۔ اس سطحی لیکن و سیع علم کے علی الرغم ، بعض لوگوں کا علم گہرا ضرور ہوتا ہے لیکن بہت محدود ہوتا ہے۔ دینی علوم میں تعلیم یافتہ ہیں تو اردو و عربی کی کلاسیکی کتابوں تک محدود ہیں۔ یونیورسٹی کے فارغ ہیں تو اپنے شعبہ علم کے باہر کسی بات کا کوئی پتہ نہیں۔ ایسا علم ،مخصوص شعبوں کے محققین کے لیے تو مفید ہوسکتا ہے لیکن تحریکوں کے فکری و عملی رہنماوں کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ قوموں کے لیے راہوں کی تلاش اور رہنمائی کا کام تو ہمہ تخصصی Multidisciplinaryکام ہے۔ اس کے لیے علم میں گہرائی بھی درکار ہے اور وسعت بھی۔ تیسری قسم اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو عمر کے کسی مرحلے میں گہرا اور وسیع علم حاصل کرلیتے ہیں اور اُس پر ایسے قانع ہوجاتے ہیں کہ زندگی کے ایک مرحلے میں،تکرار و نوسٹلجیا Nostalgia کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں رہتا۔ لذید کھانوں کی باسی بو زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک بااثر آدمی کا علم و فہم ، ازکارِ رفتہ ہوجائے تو اُس کے باسی علم و دانش کا بوجھ پورے سماج کے پیروں کی بیڑیاں بن جاتا ہے۔
میرے نزدیک، ٹی کے صاحب مرحوم کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ ان کا علم وسیع بھی تھا، گہرا بھی تھا اور تازہ بھی۔ تحریکی لٹریچر، معاصر اسلامی افکار، فقہ، حدیث،تفسیر، کلام ، تصوف وغیرہ سے متعلق کلاسیکی اسلامی لٹریچر، معاصر غیر اسلامی افکار، اردو و ملیالم ادب، جدید و قدیم عربی شاعری، ملکی ومغربی مصنفین کے تازہ ترین سیاسی، سماجی، معاشی و فلسفیانہ افکار، معاصر ریاستی، قومی، عرب و مغربی صحافت، ان سب سے ان کی گہری دلچسپی تھی۔موضوعات کی یہ وسعت محض سطحی و سرسری معلومات کی وسعت نہیں تھی بلکہ ان سب کا گہرا، تجزیاتی، تنقیدی و تخلیقی مطالعہ ان کی عادت تھی۔ اس وسعت و گہرائی کے ساتھ تازگی کا یہ عالم تھا کہ بیانوے سال کی عمر میں بھی ایک طالب علم کی طرح انہیں نئی کتابوں اور نئے افکار کی تلاش و جستجو رہتی۔ میں آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان بیس بائیس برسوں میں جتنی بار مرحومؒ سے فون پر بات ہوئی وہ یا تو ملاقات کے کسی پروگرام کے سلسلے میں ہوئی یا نئی کتابوں و مضامین کی طلب، فرمائش یا ان کی ترسیل کی لاجسٹک کے سلسلے میں ہوئی۔کتاب یا مضمون کے تعین کے ساتھ اُن کی جانب سے مطالبہ آتا کہ فوکویاما کی فلاں تازہ کتاب کیا تم فراہم کرسکتے ہو؟ یا نیویارک ٹائمز میں سنا ہے کہ اس طرح کا کوئی مضمون آیا ہے؟ کیا تم اس کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟ کیا غنوشی نے اس طرح کی کوئی بات کہیں لکھی ہے؟
اسی وسعت، عمق اور تازگی نے ان کے اندر وہ اجتہادی شان پیدا کی تھی جس کے لیے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔کسی بڑے سے بڑے مفکر و دینی رہنما کے وہ کبھی جامد مقلد نہیں رہے۔ مولانا مودودیؒ کے وہ عاشق تھے۔ جب بھی ذکر کرتے، صدی کے مجدد کے طور پر ہی ان کا تذکرہ کرتے اور یہ بھی کہتے کہ اب ایک اور یعنی اگلے مجدد کی عالم اسلام کو شدید ضرورت ہے۔مولانا مودودیؒ کی کتابیں اور مضامین ہی نہیں بلکہ ان کے خطوط، بیانات وغیرہ کا بھی جس گہرائی سے انہوں نے مطالعہ کررکھا تھا اور جس کثرت و برجستگی سے، ان سے حوالے دیتے رہتے، اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ اس قدر گہری وابستگی اورعقیدت کے باوجود جس کثرت سے اور جس جراء ت سے وہ مولانا مرحومؒ کے بعض خیالات سے بلکہ اساسی افکار سے بھی اختلاف کرتے تھے اُس کے لحاظ سے بھی وہ ہماری صفوں میں بے مثل تھے۔ اُن کے آئیڈیاز ہمیشہ اوریجنل ہوتے۔ وقتی اور جزوی تبدیلیوں پر وہ کبھی بات نہیں کرتے۔ ان کی باتوں کا تعلق ہمیشہ پیراڈائم تبدیلیوں سے ہوتا۔
سوزِ دروں، تب و تاب اور سچا تحریکی جذبہ
انقلابی تحریکوں سے ہر فرد انقلابی جذبے سے ہی وابستہ ہوتا ہے۔ لیکن تحریکوں سے طویل وابستگی اور تحریک کو چلانے کے تنظیمی تقاضے، دھیرے دھیرے اس وابستگی کو رسمی تعلق میں بدل دیتے ہیں۔ مقصد سے زیادہ تنظیم اور اس کی تنظیمی کاروائیاں ذہن و فکر پر غالب ہونے لگتی ہیں۔ میرے نزدیک ٹی کے صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ جماعت اسلامی ہند سے سات دہوں کی طویل وابستگی ، پانچ دہوں پر محیط مرکزی قائدانہ حیثیت اور اس تنظیم کی خاطر بے شمار قربانیوں کے باوجود اُن کے اندر نہ تنظیمی عصبیت کا کسی درجے میں بھی کوئی شائبہ نظر آتا تھا اور نہ تنظیمی رسمیت کا۔ ہمیشہ ان کے ذہن و دماغ پر تحریک کا مقصد چھایا رہا۔ شوریٰ کے مباحث ہوں یا غیر رسمی گفتگو ہو، ہر جگہ ان کے موضوعات کا تعلق تحریکی فکر کی توسیع، نئے تقاضے اور چیلنج، ان چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کی تدابیر، نئی راہیں اور نئے ممکنہ حل و غیرہ سے ہی ہوتا تھا۔ تنظیمی مسائل اور تنظیمی سیاست سے انہوں نے کبھی کوئی دلچسپی لی بھی تو اُسی حد تک جس حد تک تحریک کے مقاصد، اس کے شدت سے متقاضی ہوئے ہوں۔
تحریک کے مقاصد کو انہوں نے اپنا دردِ دل اور دردِ جگر بنالیا تھا۔ایک تمثیل وہ کثرت سے بیان کرتے تھے بلکہ ۱۹۹۲ کی پہلی ملاقات سے آخر دم تک، اس کا ذکر میں نے ان سے تقریباً ہر ملاقات میں سنا ہے۔۔۔ ایک ایسی گاڑی کی تمثیل جس کے پہیے بھرپور تیزی سے گھوم رہے ہوں، انجن پوری قوت سے کام کررہا ہو، پٹرول بھی خرچ ہورہا ہو لیکن گاڑی اپنی جگہ سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ پارہی ہو۔ اس تمثیل سے وہ خبردار کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ یہ عین ممکن ہے کہ تنظیم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کام کررہی ہو اور تمام تنظیمی اعمال انجام پارہے ہوں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی جگہ ساکت و جامد ہو۔ بلاشبہ ایسی صورت حال کسی بھی تحریک کے لیے سب سے زیادہ مہلک صورت حال ہے۔ اس صورت حال سے ہم سب کو ، ہر سطح پر ہوشیار رہنا چاہیے۔
اس لیے ،ان کے غور و فکر اور بحث و گفتگو میں یہ عنصر بہت کم ہوتا تھا کہ گاڑی کیسی ہو اور کیسے چلے؟ ان کی اصل دلچسپی یہ تھی کہ گاڑی کے ساتھ یا گاڑی کے بغیر، ہم کیسے آگے بڑھیں اور منزل سے قریب تر ہوں۔اس کے لیے وہ طرح طرح کے جتن کرتے۔ جاہلی افکار کی تازہ ترین شکلوں سے واقف اور باخبر رہتے۔ اُن کے مناسب اسلامی ریسپانس کے سلسلے میں فکر مند رہتے۔ نوجوانوں میں کیا نظریاتی رجحانات چل رہے ہیں، اُن کی خبر رکھتے۔ ملک اور دنیا کی سیاست کا رخ کیا ہے؟ مسلم امت کس حالت میں ہے؟ آگے بڑھنے کے راستے کیا ہیں؟ ان سب موضوعات پر خود بھی مسلسل سوچتے رہتے اور ہر ملنے والے کے سامنے یہ سوالات کھڑے کرتے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ ٹی کے صاحبؒ کا پیغام ملا کہ وہ ‘ارجنٹ اور ضروری’ ملاقات چاہتے ہیں۔ ہم طویل سفر کرکے تعمیل حکم میں ،ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور وہ کئی کئی گھنٹے بات کرتے۔ اپنی باتیں بھی کہتے اور سوالات کرکرکے ہمیں بھی کہنے پر مجبور کرتے اورہماری باتیں بھی سنتے۔ یہ بھی کہتے کہ چند گھنٹے کافی نہیں ہیں، دودن یا تین دن کا وقت چاہیے۔ پالیسی پروگرام کی تدوین کے وقت، کسی بڑے ملکی یا بین الاقوامی واقعے کے بعد، کسی نئے فکری چیلنج کے سامنے آنے پر، ان کی تڑپ دیدنی ہوتی۔ جس فرد سے بھی ان کو توقع ہوتی کہ وہ کسی بہتر تدبیر کی تلاش میں مددگار ہوسکتا ہے، اس سے رابطہ کرتے۔ کیرلہ کے نوجوان کبھی گلوبلائزیشن کے حوالے سے، کبھی تکثیریت کے حوالے سے، کبھی مابعد جدیدیت کے حوالےسے، اپنے سوالات اور الجھنیں ان کے سامنے رکھتے اور وہ ان الجھنوں کو رفع کرنے کے لیے کمر کس لیتے۔ مجھے یاد ہے کہ، بیس برس پہلے، مرحوم صدیق حسن صاحبؒ اور ٹی کے عبد اللہ صاحبؒ نے اصرار کرکے میرا دس بارہ دن کا کیرلہ کا دورہ صرف اس مقصد کے لیے کرایا تھا کہ بعض فکری الجھنوں کے شکار نوجوانوں سے باتیں کی جائیں اور ان کی الجھنوں کو رفع کیا جائے۔مختلف مسائل پر نوجوانوں کے ساتھ ایسی نشستیں وہ بعد میں بھی منعقد کرتے رہے۔ لوگوں کی سوچ کے رخ پر ایسی گہری نظر اور اصلاح کی ایسی سچی تڑپ میں نے بہت کم قائدوں میں دیکھی ہے۔یہ تڑپ، یہ سوزِ دروں اور یہ تب و تاب ہی ایک تحریکی شخصیت کی اصل پہچان ہونی چاہیے۔ ٹی کے صاحب مرحوم ؒ کی شخصیت اس کا بہترین نمونہ تھی۔
کیرلہ کی تحریک اور تحریکی نوجوان بڑی اور عظیم شخصیات کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی عبقریت اُن کی ذات تک محدود ہوتی ہے بلکہ وہ برگد کا ایسا پیڑ بن جاتے ہیں جس کا گھنا سایہ کسی اور پودے کی افزائش کے لیے کوئی موقع و امکان باقی نہیں رہتا۔ اس کے بالمقابل بعض شخصیات اُس آفتاب کے مانند ہوتی ہیں جس کی ضیا پاشیاں ہزاروں سیاروں کو روشن کردیتی ہیں۔ اپنے علم و صلاحیت کے بیج وہ اس طرح بکھرادیتے ہیں کہ اُن کے مرجھانے سے پہلے دسیوں نئے پودوں کی کونپلیں کھل اٹھتی ہیں۔ٹی کے صاحب ؒبھی ایسی ہی مردم خیز شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے کئی نسلوں کو متاثر کیا اور خصوصاً کیرلہ کے تحریکی ماحول پر ان کی چھاپ صاف دکھائی دیتی ہے۔ وہی بے تابی و بے چینی، وہی سرگرمی و حرکیت، وہی ندرت و اختراع، جو ٹی کے صاحب کی شخصیت کی پہچان تھی، آج کیرلہ کے پورے تحریکی ماحول پر اس کا اثر نمایاں محسوس ہوتا ہے اور آئندہ بھی محسوس ہوتا رہے گا۔
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
یہ ٹی کے صاحب کی زندگی کا ایک بڑا اہم سبق ہے کہ ہماری شخصیت کی خوبیاں اوراچھی باتیں ہماری ذات تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ انہیں متعدی بن جانا چاہیے۔ بڑے آدمی کی اصل بڑائی یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بڑے لوگ پیدا کرے۔ آج مختلف میدانوں میں تحریک اسلامی کو ایسے ہی بڑے آدمیوں کی ضرورت ہے۔
افکار و خیالات
ہماری، یعنی امت مسلمہ کی تاریخ میں جن الجھنوں نے ہم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ، ان میں ایک اہم الجھن الہامی کلام اور اس کی انسانی تعبیر کے درمیان فرق کے حوالے سے پیدا ہونے والی الجھن ہے۔ امت کے اندر ساری فرقہ بندیاں اسی الجھن کی پیداوارہیں۔ ہر مخلص دینی رہنما نے اللہ کے دین کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی۔ہر ایک کا کلام اور ہر ایک کی علمی، فقہی ، کلامی تعبیرات اللہ کے دین اور شارع کے منشا ہی کو سمجھنے و سمجھانے کی کوشش تھی لیکن جب ان کے متبعین اور غالی عقیدت مند، ان کی تعبیرات ہی کو اصل دین سمجھ لیتے ہیں اور ان تعبیرات کے دائرے کے باہر، ہر چیز کو گمراہی باور کرنے لگتے ہیں اور اللہ کے اور اس کےنبی کے کلام اور ان کی انسانی تعبیرات میں فرق کو ختم کردیتے ہیں تو وہ بہت بڑا فتنہ پیدا کردیتے ہیں۔ الحمد للہ تحریک اسلامی نے اول روز سے،اس شعور کےا حیا کی سنجیدہ کوشش کی ہے ۔ اس کے پہلے امیر مولانا مودودیؒ نے اپنی پہلی تقریر میں خدا کا واسطہ دے کر اپنے ارکان کو ہدایت دی تھی کہ ان کی کسی رائے کو حجت بناکر پیش نہ کیا جائے اورواضح کردیا تھا کہ ان کی کسی فقہی و کلامی رائے کا کوئی رکن جماعت پابند نہیں ہے۔
ٹی کے صاحب ؒ کے یہاں یہ فرق بہت نمایاں، بہت واضح اور بہت روشن تھا۔ کلام اللہ اور سنت رسول کے سوا کسی چیز کو ان کے یہاں کسی درجے میں بھی تقدس کا مقام حاصل نہیں تھا۔ جماعت سے وابستگی بھی ان کے لیےمحض ایک ذریعہ تھی۔ جماعت میں، جماعت کے دستور میں، لٹریچر میں، تحریک کے بزرگوں یا اکابر کے فرمودات میں، کسی چیز میں کسی بات کو بھی وہ عقیدت ،تقدس یا حجت کے مقام تک لے جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوتے۔ کسی بھی جانب سے ایسی کسی غیر شعوری کوشش کا شائبہ نظر آتا تو وہ اپنی مخصوص ظرافت کی تلوار سے اسے سر اٹھانے سے پہلے ڈھیر کردیتے۔
تحریک کے اساسی افکار کو وہ زمان و مکان کے سیاق میں دیکھتے اور انہی بنیادوں پر ان کا تجزیہ بھی کرتے اور انہی حوالوں سے ارتقا کی واضح تجاویز بھی پیش کرتے۔مثلاً ٹی کے صاحب مرحوم کا خیال تھا کہ مولانا مودودیؒ نے جس طرح اپنے زمانے میں حاکمیتِ الہ کو اپنی کوششوں کا محور و مرکز بنایا، اسی طرح موجودہ دور میں اللہ کی مالکیت کو موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودی ؒکے زمانے کا اصل طاغوت مغربی سیکولر نیشن اسٹیٹ تھا اور آج کا اصل طاغوت سرمایہ دارانہ استعمار ہے، جس نے سارے وسائلِ حیات پر قبضہ کرکے انسانوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ وہ یہ بات بار بار مختلف پیرایوں میں بیان کرتے۔ خطابات میں بھی یہ ان کا اہم موضوع رہتا اور مرکزی مجلس شوریٰ جیسی مجالس میں بھی۔ یہ میں نے محض ایک مثال پیش کی ہے ورنہ ایسے کئی موضوعات تھے جن میں وہ بالکل نئے اسلوب ، نئی زبان اور نئے موقف کے قائل تھے۔
ٹی کے صاحب ؒ سے جہاں ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے وہیں بہت سی باتوں میں ان سے بھرپور اختلاف بھی کیا ہے۔ خیالات کا اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ، لیکن ان کے اصول، ان کا طریقہ کار، ان کا علمی مزاج و منہج ، اور عملی میدان میں ان کی تڑپ اور ان کا دردِ دل، اور ان خصوصیات کی حامل ان کی دلآویز شخصیت کی یادیں برسوں ہم سب تحریکی کارکنوں کو انسپائر کرتی رہیں گی اور یہ انسپریشن ان کے لیے صدقہ جاریہ بنے گا۔ ان شاء اللہ العزیز۔
مرحوم کی وفات کے کچھ عرصہ بعد تعزیت کے لیے ان کے گھر پہنچا تو ان کے صاحب زادگان نے میرے ایک پسندیدہ عربی عطر کی وہ شیشیاں پیش کیں جو مرحوم نے مجھے تحفہ دینے کے لیے خرید رکھی تھیں۔ بتایا کہ انہیں میرا بہت شدت سے انتظار تھا اور اس عطر کو ایک مخصوص دکان سے خود خریدنے کے لیے بیماری کی حالت میں باصرار انہوں نے کالی کٹ کا سفر کیا تھا۔ ان کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ جب بھی میں ٹی کے صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوتا وہ کچن میں گھنٹوں کھڑے رہ کر خود اپنی نگرانی میں (میرے ذوق کا لحاظ رکھتے ہوئے)کھانا پکواتے۔ نوے بیانوے سال کے کسی بزرگ اور قدآور عالم و رہنما کی اپنے ایک معمولی شاگرد کے لیے شفقت و محبت کی ایسی نظیریں کہاں ملتی ہیں؟
ٹی کے صاحب ؒ کو یاد کرتے ہوئے آج وہ اشعار یاد آرہے ہیں جو سکندر علی وجد نے علامہ اقبال کے لیے کہے تھے۔
تونے اے اقبال پائی عاشقِ شیدا کی موت
جاں نثارو غم گسارِ ملتِ بیضا کی موت
موت ہے تری زبان و قوم کی آقا کی موت
سوز و ساز وداغ و عشق بے پروا کی موت
کون اب عقل و جنوں کی گتھیاں سلجھائے گا کون سوزِ دل سے قلب وروح گرمائے گا
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔قبر کو نور سے بھردے اور کروٹ کروٹ جنت کا سکون و آرام نصیب فرمائے آمین۔
سینئر جرنلسٹ روزنامہ ہمارا سماج کے ایڈیٹرعامر سلیم خان اب ہمارے درمیان سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے ،12 دسمبر کو جی بی پنت اسپتال دہلی میں دوران علاج انتقال ہوگیا ۔ اللہ عامر بھائی کو جنت الفردوس میں اعلٰیٰ مقام عطا کرے آمین ۔
عامر بھائی سے میرا پہلی باررابطہ 25 مئی 2006 کو دریا گنج واقع روزنامہ ہندوستان ایکسپریس کے دفترمیں ہوا تھا جب اخبار کے بانی ایڈیٹر خالد انور نے میرا بطوررپورٹرسلیکشن کرنے کے بعد عامر سلیم خان صاحب سے یہ کہتے ملوایا تھا ” یہ عامر سلیم خان آپ کے چیف رپورٹر ہیں جائیے ان کے ساتھ ملکر کام کیجیے” اس روز سے جو تعلق بنا وہ اسی طرح برقرار رہا اورآخری باررابطہ ایک خبرکی اشاعت کے سلسلے میں 9 دسمبر 2022 کی شام 6 بجے بذریعہ واٹس ایپ چیٹ ہوا،انہوں نے مجھے لکھا ‘ اوکے بھائی ‘۔ اگلی صبح اخبارات کی آن لائن مانیٹرنگ کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ تبھی فیس بک پر نظر پڑی کہ عامربھائی کو رات دیرگئے دل کا دوسرا دورہ پڑا اورانہیں جی بی پنت میں انتہائی نگہداشت والی یونٹ میں داخل کرایا گیا ہے ۔ اسی لمحے سے عامر بھائی کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد ان کی صحتیابی کی دعائیں کررہی تھی ۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ عامر بھائی کا تعلق سدھارتھ نگر سے تھا۔ پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹے ہیں ۔ ابھی ایک ماہ قبل مرحوم کے والد محترم کا بھی دوران علاج دہلی میں انتقال ہوگیا تھا ۔
عامربھائی کے ساتھ کام کرنے کی مدت تو بہت کم رہی کیونکہ تین ماہ ہی گزرے تھے کہ میرا سلیکشن سہ روزہ دعوت میں ہوگیا اور میں جامعہ نگر شفٹ ہوگیا تھا لیکن ان سے سیکھنے کا عمل آخرتک جاری رہا ۔ البتہ اب ملاقاتیں کم ہوتیں لیکن جب ہوتیں بھر پور ہوتیں اور میری کسی نا کسی تحریر یا ویڈیو رپورٹ کے حوالے سے بات شروع کرتے دل کھول کرحوصلہ افزائی کرتے ۔ آج بھی مجھے پیارسے بستی والا کہہ کر پکارتے ، ہندوستان ایکسپریس میں میرا قلمی نام اشرف بستی والا تھا جو انہیں بہت پسند تھا ۔
ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے جو تجربات ہوئے اس میں سے ایک واقعہ اس وقت ذہن میں آرہا ۔ جولائی 2006 کی کوئی شام تھی، میں دوپہرکی رپورٹرس میٹنگ میں شریک ہوا اور شاپم ہوتے ہوتے دیے گئے ڈے پلان کے مطابق اپنے حصے کی دو خبریں ڈیسک کو دیکر تیسری خبر کی کوریج کے لیے شام سات بجے آ ئی ٹی او واقع پیارے لال بھون پہونچا وہاں ایک کلچرل پروگرام تھا جس میں قوالی بھی تھی ۔ محفل کچھ اس طرح جمی کہ کافی دیرہوگئی اورذہن میں آیا کہ کیا ہوا دو خبریں تو دے ہی دیا ہے اب اس کی رپورٹ کل دے دوں گا ۔ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی ” پیج جانے کا وقت ہوگیا ہے بھائی خبر کہاں ہے” ؟ میں نے کہا سر، یہاں قوالی ہورہی ہے ،دوسری طرف سے عامر بھائی بولے یہاں خالد صاحب مجھے قوالی سنا رہے ہیں، جلدی کریں ۔ خیر گھبراہٹ میں کسی طرح دفتر پہونچا اور جلدی جلدی رپورٹ فائل کیا اتنے میں پیچھے سے آئے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے ہی نرم لہجے میں بولے ” بھائی بستی والا ایسا نہ کریں آپ کوآج تین رپورٹ دینی تھی رپورٹنگ کرتے وقت اپنا اور اپنے وقت کا خیال رکھیں ” ۔ ابھی ایک ماہ قبل ایک موقع پر ملاقات ہوئی تھی ہمارا سماج کے نئے نئے یوٹیوب چینل کے بارے چرچا کی اسے مزید فعال کیسے بنایا جائے اس پر بات ہوئی ۔ کہنے لگے بھائی قارئین اب ناظرین میں جس تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اس تبدیلی کو ہمیں سمجھنا ہوگا ۔
عامر بھائی پریس کلب آف انڈیا کے رکن تھے ، ورکنگ جرنلسٹ کلب کے صدر تھے ملی ایشوز پرلکھنے کا ملکہ رکھتے تھے ، ذرائع کا خوب استعمال کرتے لیکن مکمل رازداری رکھتے ۔ کبھی کبھار جب کوئی اہم اسپیشل رپورٹ لکھ رہے ہوں تو فون کرکے ضروری معلومات اپڈیٹ کرتے ،خاص طور سے ملی ایشوزپرلکھتے وقت ضرور یاد کرتے ۔ ہندوستان ایکسپریس نےاولین دنوں میں کئی ایسی خبریں دیں جو صرف اسی اخبارمیں دیکھی گئیں ۔ عامرسلیم خان اپنی رپورٹوں کی دلچسپ سرخییوں اور خبر وں کی ترتیب و پیشکش کے لیے ہمیشہ یاد کیے جائیں گئے ۔ مجھ جیسے صحافت کے طالب علم کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ایک سرخی ان جیسی لگا پاتا ۔ اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
مظفرپور(پریس ریلیز):نتیشورکالج مظفرپور میں گولڈن جبلی تقریبات دھوم دھام سے منائی گئیں۔ افتتاحی سیشن میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے بہار یونیورسٹی مظفرپور کے پرووائس چانسلر پروفیسر روندر کمار نے آنجہانی نتیشور سنگھ کی شخصیت اور خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی تعلیمی خدمات کی ستائش کی۔ انہوں نے کہا کہ نتیشور کالج کے فارغین ملک و بیرون ملک میں اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔پراکٹر پروفیسر اجیت کمار نے کالج کی حصولیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اگلے سال تک آنجہانی نتیشور سنگھ پر ایک مبسوط تحقیقی کام، کتابی صورت میں منظر عام پر آئے گا۔ مہمان خصوصی محمد اسرائیل منصوری (وزیر اطلاعات و تعلقات عامہ حکومت بہار) نے کہا کہ جس کالج سے میں نے تعلیم حاصل کی اس کی گولڈن جبلی تقریب میں شرکت کر کے بے انتہا خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کالج کے پرنسپل پروفیسر منوج کمار نے کالج کی تاریخ پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ تقریب سے سابق ایم ایل سی نریندر پرساد سنگھ، سابق وزیر سریش ورما، پروفیسر ہریندر کمار، پروفیسر اوم پرکاش رائے، پروفیسر ممتا رانی اور پروفیسر او پی رائے وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر کالج سوینیر کا اجرا بھی ہوا۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت پروفیسر نکھل رنجن پرکاش نے کی۔ دوسرے سیشن میں کالج کے طلبہ و طالبات نے مختلف ثقافتی پروگرام پیش کیے۔ اس سیشن کی نظامت کے فرائض صدر شعبۂ اردو کامران غنی صبا اور ڈاکٹر رینا جھا شعبۂ تاریخ نے مشترکہ طور پر انجام دئیے۔ دیر رات تک چلے اس پروگرام میں طلبہ و طالبات نے غزلیں، لوک گیت، نغمے اور ڈرامے وغیرہ پیش کیے ، جنہیں خوب پسند کیا گیا۔ گولڈن جبلی تقریب میں پروفیسر توقیر عالم سابق پرووائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی پٹنہ، پروفیسر سید ابوذر کمال الدین سابق چیئر مین انٹرمیڈیٹ کاؤنسل، مختلف کالجوں کے پرنسپل، اساتذہ ، ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات کے علاوہ شرکا کثیر تعداد میں موجود تھے۔ پروفیسر نبھا شرما صدر شعبہ سنسکرت کے شکریہ کے ساتھ گولڈن جبلی تقریب ختم ہوئی۔ پروگرام کو کامیاب بنانے میں کالج کے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین پیش پیش رہے۔
ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام ’ساحر لدھیانوی : حیات اور خدمات‘ موضوع پر یک روزہ سمپوزیم
ساحر امن و آشتی کے علمبردار تھے : شین کاف نظام
نئی دہلی(پریس ریلیز): ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام آج اکادمی آڈیٹوریم، رویندر بھون، نئی دہلی میں ’ساحر لدھیانوی : حیات اور خدمات‘ موضوع پر یک روزہ سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت اردو کے ممتاز شاعر، ادیب و نقاد جناب شین کاف نظام (کنوینر، اردو مشاورتی بورڈ) نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ساحر وہ شاعر ہیں جو جنگ کی مخالفت کرتے ہیں، وہ مایوسی کے نہیں بلکہ اُداسی کے شاعر ہیں، وہ لڑتے ہیں ہار نہیں مانتے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ساحر امن و آشتی کے طرفدار ہیں۔ فیض اور ساحر کا موازنہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ساحر اظہار میں ہر چیز کو عیاں کردیتے ہیں جبکہ فیض چھپا کر بیان کرتے ہیں۔ سمپوزیم کا افتتاح کرتے ہوئے اردو کے ممتاز شاعر و مترجم پروفیسر بھوپندر عزیز پریہار نے کہا کہ شعر ساحر کی گھٹّی میں پڑا تھا۔ وہ ابتدا سے ہی ترقی پسند خیال کے تھے۔ اپنے باغیانہ تیور کی وجہ سے کالج میں بھی وہ کافی مقبول ہوگئے تھے۔ انھوں نے پہلا شعر کب کہا، انھیں یاد نہیں۔ پروفیسر پریہار نے اپنے مخصوص خطبہ میں کہا کہ ساحر نئی دنیا کی خواب دیکھا کرتے تھے۔ ساحر نے کبھی اپنی فکر کو نظریاتی نقطے سے نہیں باندھا۔ انھوں نے فلاح و ترقی کے گیت گائے۔ استحصال، لوٹ کھسوٹ کے خلاف انھوں نے آواز اٹھائی۔ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے ساحر کے ترقی پسند عناصر میں تصوف کی تلاش کرتے ہوئے ساحر کی فلمی گانوں کے حوالوں سے یہ ثابت کیا کہ انھوں نے فلم میں سیچوئیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیشہ قدیم اقدار اور بھکتی کے معاملات سے استفادہ کیا۔ انھوں نے تصوف اور بھکتی دونوں کا جو اظہار فلموں کے حوالے سے کیا ہے وہ ایک دم کلاسیکل ہے لیکن مشکل خیال کو آسان زبان میں اور وہ بھی فلم کے منظرنامے کے مطابق پیش کرنے کا ہنر کسی اور فلمی شاعر کو حاصل نہیں ہوا۔ اس اجلاس کے ابتدا میں ساہتیہ اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے شرکا اور مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور اس سمپوزیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی، ساتھ ہی انھوں شاعر لدھیانوی کی حیات و خدمات پر سرسری نظر ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ ساحر کا رنگ اپنے عہد کے شاعروں سے الگ تھا۔ ان کو تمام بڑے شاعروں کے کلام یاد تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ساحر نے 113 فلموں میں گیت لکھے نیز فلمی اور غیرفلمی شاعری میں اپنی انمٹ چھاپ چھوڑی۔
افتتاحی اجلاس کے بعد پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ممتاز نقاد و صحافی جناب شمیم طارق نے کہا کہ ساحر اپنا محاسبہ بھی خود کرتا ہے۔ وہ ایک بہتر انسانی معاشرے کا خواب دیکھتے تھے۔ وہ اپنے فن میں ماہر تھے اور انھیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس اجلاس میں کوثر مظہری نے اپنا مقالہ بعنوان ’ساحر لدھیانوی کی نظم ’چکلے‘ کی آزاد قرأت‘ پیش کی اور کہا کہ ساحر نے ’چکلے‘ کی جو تصویرکشی کی ہے دراصل وہ ایک تانیثی تصور ہی کی ایک جہت ہے۔ ساحر کی یہ نظم اپنے زمانے اور ماحول کے اعتبار سے اپنا ایک افادی پہلو تو رکھتی ہی ہے، ساتھ ہی اس میں اثرانگیزی اور فنی رموز کی کارفرمائی بھی ہے۔ دوسرا مقالہ خالد اشرف نے ’ساحر اور بین الاقوامیت‘ کے عنوان سے پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ ساحر کی شاعری میں بین الاقوامی انسانی نظریہ اور ان کے سوشلسٹ تصورات صاف جھلکتے ہیں۔ سمپوزیم کے آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر شہزاد انجم نے کی جبکہ شرد دتّ، حقانی القاسمی اور ڈاکٹر عالیہ نے اپنے مقالے پیش کیے۔ اس پروگرام میں دہلی و اطراف کی متقدر شخصیات نے شرکت کی جن میں خالد علوی، چندربھان خیال، عازم کوہلی، فریاد آزر، احمد علوی، جانکی پرشاد شرما، فرحت عثمانی، نارنگ ساقی، ابوظہیر ربانی، اسد رضا کے علاوہ طلبہ و طالبات شامل تھے۔
نئی دہلی : معروف صحافی اور روزنامہ ‘ہمارا سماج’ کے ایڈیٹر عامر سلیم خان کا انتقال ہوگیا۔ دو تین دن قبل اچانک دل کا دورہ پڑنے کے بعد انہیں دہلی کے جی بی پنتھ اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا، مگر وہ جاں بر نہ ہوسکے اور آج ان کا انتقال ہوگیا۔ عامر سلیم خان اردو کے معروف صحافی اور ان دنوں روزنامہ ‘ہمارا سماج’ کے ایڈیٹر تھے۔ مشہور صحافی احمد جاوید کی ایک تحریر کے مطابق وہ بیس بائیس برسوں سے دہلی میں اردو صحافت کی خدمات انجام دے رہے تھے اور اس میدان میں منفرد پہچان رکھتے تھے، خوش مزاجی، شرافت اور سادگی مرحوم کی پہچان تھی۔ وہ اپنے کام کے تعلق سے بڑے سنجیدہ اور ذمے دار تھے۔
مرحوم عامر سلیم نے ٢٠٠٠ء کے آس پاس روزنامہ ‘راشٹر یہ سہارا’ سے صحافت میں قدم رکھا، ٢٠٠٦ء میں روزنامہ ‘ہندوستان ایکسپریس ‘ کی تاسیسی ٹیم میں شامل تھے۔ ٢٠٠٨ء میں ‘ہمارا سماج’ کی ادارتی ٹیم میں شامل ہوئے، نامہ نگار اور ایڈیٹر دونوں حیثیت سے اس اخبار کی پہچان تھے۔ ان کی وفات سے دہلی کے صحافتی حلقوں میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی ہے ، متعدد اہل علم و قلم نے تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔
گجرات وہماچل میں اسمبلی اور ایم سی ڈی کے ساتھ کچھ اہم ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔ گجرات میں جہاں 27برسوں سے قایم اقتدار کو بی جے پی نے برقرار رکھا ہے تو وہیں ہماچل پردیش اور دہلی میں اس کی شکست ہوئی ہے۔ لیکن گودی میڈیا نے گجرات کی کامیابی کو اتنا بڑھا چڑھاکر پیش کیا ہے کہ ہماچل میں کانگریس اور ایم سی ڈی میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی پس منظر میں چلی گئی ہے۔ حالانکہ دہلی ایم سی ڈی (میونسپل کا رپوریشن آف دہلی)پر پچھلے پندرہ سال سے بی جے پی کا ہی راج تھا،جہاں عام آدمی پارٹی نے اسے شکست سے دوچار کردیا ہے۔دہلی اور پنجاب اسمبلی کے بعد یہ عام آدمی پارٹی کی بڑی کامیابی قرار دی جارہی ہے اوراس نے اپنا نام قومی پارٹی کی صف میں شامل کرلیا ہے، لیکن دہلی میں جن مسلمانوں نے پچھلے دواسمبلی چناؤ کے دوران عام آدمی پارٹی کو اپنے سارے ووٹ منتقل کردئیے تھے، وہ اب اس سے دور ہوگئے ہیں۔ اس کے اسباب پر ہم آگے چل کر روشنی ڈالیں گے،آئیے پہلے گجرات اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات اور کچھ اہم ضمنی چناؤ کا جائزہ لیتے ہیں۔
گجرات کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ پچھلے 27سال سے ہندتو کی لیبارٹری بنا ہوا ہے۔یہاں بی جے پی ہمیشہ ہندتو کے سوال پر ہی الیکشن لڑتی ہے۔اس بار بھی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ نے کامیابی کے اسی نسخے کو آزمایا۔ امت شاہ نے تو مسلمانوں کا نام لیے بغیر یہاں تک کہا کہ ہم نے 2002 میں فسادیوں کو ایسا سبق سکھادیا کہ وہ اب کبھی اس بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جن نوجوانوں نے گجرات میں کرفیو نہیں دیکھا، ہم انھیں بم دھماکوں سے بچائیں گے۔انتخابی میدان میں ایسے بیانات کا مقصد کیا ہوتا، سبھی جانتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گجرات کے عوام نے بی جے پی کو ہی اپنا مسیحا سمجھ کر ہی اسے ریکارڈ کامیابی دلائی ہے۔182نشستوں والی اسمبلی میں اس کے 165امیدورا کامیاب ہوئے ہیں جو اب تک کا سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ بی جے پی نے سب سے زیادہ سیٹیں 1985 میں مادھوسنگھ سولنکی کی قیادت میں جیتی تھیں،جن کی تعداد 149 تھی۔ اس بار گجرات میں کانگریس کی بری ہار ہوئی ہے۔ پچھلے چناؤ میں ۷۷ نشستیں جیتنے والی پارٹی اب محض 17سیٹیوں پر سمٹ گئی ہے اور وہ گجرات میں اپوزیشن لیڈر کا رعہدہ حاصل کرنے سے بھی محروم رہے گی۔ کانگریس کو بڑی کامیابی ہماچل پردیش میں ملی ہے جہاں اس نے 68رکنی اسمبلی میں چالیس سیٹوں پر قبضہ کرلیا ہے۔بی جے پی کو یہاں 25 سیٹیں ملی ہیں۔
ان اسمبلی انتخابات کے ساتھ یوپی میں ہونے والے دوضمنی انتخابات پر سب کی نظریں مرکوز تھیں۔ ان میں پہلا چناؤ سماجودای پارٹی کے بانی آنجہانی ملایم سنگھ یادو کے انتقال سے خالی ہوئی لوک سبھا نشست مین پوری پر ان کی بہو اور اکھلیش یادو کی اہلیہ ڈمپل یادو چناؤ میدان میں تھیں، انھوں نے بی جے پی امیدوار کو دولاکھ88 ہزار ووٹوں سے ہرادیا ہے، لیکن رامپور اسمبلی کے ضمنیچناؤ میں سماجوادی پارٹی کو بری ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ سیٹ اعظم خاں کو نااہل قرار دینے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ رامپور کی اسمبلی نشست پر 70فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں اور یہاں پہلی بار بی جے پی امیدوار آکاش سکسینہ کو کامیابی ملی ہے۔اعظم خاں اس نشست سے دس بار چنے گئے اور ا س سال کے شروع میں ہوئے اسمبلی چناؤ میں انھوں نے آکاش سکسینہ کو 56ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی، لیکن اس ضمنی چناؤ میں ان کے امیدوار عاصم راجہ34ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست کھاگئے۔ اعظم خاں کا سیاسی کیریر ختم کرنے کے مقصد سے یوگی سرکار نے جو منصوبہ بندی کی تھی، اس میں وہ پوری طرح کامیاب رہی۔یہاں سے بی جے پی امیدوار کی کامیابی میں جہاں اعظم خاں کے کچھ پرانے ساتھیوں کا ہاتھ ہے، وہیں الزام یہ بھی ہے کہ ضلع انتظامیہ نے ان کے حامیوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا اور طرح طرح کی رخنہ اندازی کی،جس کے خلاف سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی بھی داخل کئی گئی ہے۔
ادھر دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی ہے۔ اسمبلی چناؤ جیتنے کے بعد یہ دہلی میں اس کی دوسری بڑی کامیابی ہے مگر اس الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو ایسی یک طرفہ کامیابی نہیں ملی ہے، جیسی پچھلے دواسمبلی انتخابات میں مل چکی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے2015 کے چناؤ میں دہلی اسمبلی کی 70 نشستوں میں سے 67پر قبضہ کرلیا تھا اور اپوزیشن کے نام پر بی جے پی کے محض تین ممبرکامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد2020کے چناؤ میں اس کے 62/امیدوار کامیاب ہوئے، لیکن ایم سی ڈی چناؤ میں بی جے پی کی کارکردگی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ رائے دہندگان پر عام آدمی پارٹی کی گرفت کمزور ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دہلیکے مسلم حلقوں میں عام آدمی پارٹی شکست فاش سے دوچار ہوئی ہے۔یہاں مسلمانوں نے کانگریس پر زیادہ بھروسہ کیا ہے۔ایم سی ڈی میں کانگریس کے جو 9 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، ان میں سات مسلمان ہیں۔
جو لوگ ایم سی ڈی چناؤ کو چھوٹا موٹا الیکشن سمجھتے ہیں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دہلی میونسپل کارپوریشن کا بجٹ بعض صوبوں سے بھی زیادہ ہے۔اسی لیییہاں ایم سی ڈی الیکشن اسمبلی چناؤ کی طرح ہی لڑا جاتا ہے۔پندرہ ہزار کروڑ روپے کے بجٹ والی یہ میونسپل کارپوریشن دہلی میں شہری سہولتوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ 2017کے میونسپل چناؤ میں بی جے پی نے 272سیٹیوں میں سے181 سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔وہ اس الیکشن میں بھی اس کامیابی کو دوہرانا چاہتی تھی۔بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کو ہرانے کے لیے ساری طاقت جھونک دی تھی جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ وہ ’آپ‘ کی طاقت کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ دوسرا سبق اسے ان مسلم علاقوں میں ملا ہے، جہاں شاہین باغ اور نارتھ ایسٹ فسادات کااثر تھا۔ ’آپ‘ کو صرف پرانی دہلی کے مسلم حلقوں میں کامیابی ملی ہے اور وہ بھی اس لیے کہیہاں کے امیدوار اپنے ممبران اسمبلی کی عوامی طاقت پرجیتے ہیں۔ جبکہ اوکھلا میں اس کا ایک مضبوط مسلم ایم ایل اے ہونے کے باوجود چار امیدوار ہارگئے ہیں۔
آپ کو یادہوگا کہ 2020میں جس وقت نارتھ ایسٹ دہلی میں بھیانک فسادات ہوئے تو اس میں عام آدمی پارٹی نے فسادزدگان کی کوئی دادرسی نہیں کی۔خود وزیراعلیٰ کجریوال نے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔اتنا ہی نہیں جب ان کی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کو دہلی پولیس نے فساد کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تو عام آدمی پارٹی نے اسے فوراً برخاست کردیااور اس کی بات سننے تک کی کوشش نہیں کی۔ طاہر حسین آج بھی سلاخوں کے پیچھے ہے اور اس پر درجنوں مقدمے قایم کردئیے گئے ہیں۔اس کے بعد جب کورونا کے دور میں تبلیغی جماعت کے مرکز کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تو اس معاملے میں کجریوال سرکار نے پولیس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
دہلی سرکار کے تحت کام کرنے والے مسلم اداروں کے ساتھ بھی کجریوال نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ اردو اکیڈمی، اقلیتی کمیشن، حج کمیٹی اور وقف بورڈ جیسے اداروں کی کمان نااہل اور ناکارہ لوگوں کو سونپ کر ان کی اہمیت ختم کردی گئی۔ وقف بورڈ کے تحت مسجدوں کے اماموں کی تنخواہیں تقریباً ڈیڑھ سال سے نہیں ملی ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔بے راہ روی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حج کمیٹی سے عازمین حج کی خدمت کرنے کی بجائے مشاعرے منعقد کروائے گئے۔ عام آدمی پاٹی کی ہندتو نوازی کے سبب ہی مسلمان اس سے بیزار ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس ان کا اعتماد کس حدتک قایم رکھتی ہے کیونکہ ’نرم ہندتو‘ اورفرقہ وارانہ فسادات کے معاملے میں کانگریس کا دامن بھی صاف نہیں ہے۔
کہاں گئے وہ کتب فروش، کیا ہوئے وہ خریدار ؟۔ مولانا محمود احمد خاں دریابادی
اب تو ہر قسم کی کتاب پڑھنے کا رواج ہی تقریبا ختم ہوچکا ہے، پہلے ممبئی کے فٹ پاتھوں پر جگہ جگہ پرانی کتابوں کی دوکانیں لگتی تھیں، وہاں ہر قسم کی اچھی بُری کتابیں بہت کم قیمت پر مل جایا کرتی تھیں، جاسوسی، رومانی اور سماجی ناول ہوں یا فلمی رسائل، ادبی، تحقیقی کتابیں، ادبی رسائل، ڈائجسٹ اور نوجوانوں کی پسند رات کی تنہائیوں میں پڑھی جانے والی ” زٹلیات ” کی کتابیں بھی ملتی تھیں، کبھی کبھی بیش قیمت، نایاب اور دستاویزی حیثیت رکھنے والے رسائل اور کتابیں بھی مٹی کے مول مل جاتی تھیں ـ
بیشتر دوکندار بس معمولی حرف شناش ہوتے تھے اس لئے وہ کتابوں کی قیمت اُن ضخامت اور ظاہری شکل و صورت دیکھ کر لگاتے تھے، چنانچہ میں نے وہاں سے نیاز فتحپوری کے رسالے ” نگار ” کے کئی سال کے پرچے چار آنہ فی شمارہ کے حساب سے خریدے تھے، مولانا آزاد کے ” الہلال ” کے پرچے، جو بالکل بوسیدہ ہوچکے تھے، حسرت موہانی کے رسالے ” اردو معلے ” اور تجلی دیوبند کے درجنوں شمارے، شرح اسباب، کلیات قانون، جیسی طبی کتابیں تقریبا مفت کی قیمت پر خریدی ہیں ـ
کچھ عرصے کے بعد کئی بیچنے والے سمجھ گئے تھے کہ یہ ” موٹا آدمی ” ہمیشہ وہی کتابیں خریدتا ہے جو نایاب اور بیش قیمت ہوتی ہیں، اس لئے میں جس کتاب کو خریدنے کا ادارہ ظاہر کرتا اُس کی قیمت بڑھا کر بتایا کرتے تھے، چنانچہ اکثر ” توریہ ” سے کام لینا پڑتا ( تقیہ سے نہیں) اگر دائیں طرف کی کتاب خریدنی ہوتی تو بائیں طرف رکھی ہوئی کتابوں کی قیمت معلوم کرتا، اُنھیں اُٹھا کر الٹ پلٹ کر دیکھتا، اسی دوران مطلوبہ کتاب غیر محسوس طریقے سے اُٹھا کر سرسری انداز میں قیمت معلوم کرتا پھر تھوڑی دیر بعد غیر مطلوبہ کتابیں رکھ کر اپنی پسندیدہ کتاب کی قیمت ادا کردیتا تھا ـ کبھی ایسا بھی کرتا کہ کسی دوسرے شخص کو کتاب کا نام اور دوکان کے جس گوشے میں وہ کتاب رکھی ہوئی ہے بتاکر بھیج دیتا تھا ـ
لطیفے کے طور اپنے لڑکپن کی ایک ” شریر چالاکی ” یاد آتی ہے اُس کا ذکر کرنا شاید میرے لئے اِس بُڑھاپے میں مناسب نہ ہو مگر یہ دکھانے کے لئے بتاتا ہوں کہ ناقدرے صرف آج ہی نہیں بلکہ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں ـ
میں نے مشہور ادیب اور نقاد مرحوم ڈاکٹر محی الدین زور کی اردو لسانیات پر کتاب فٹ پاتھ سے پچھتر پیسے میں خریدی، اُس کتاب پر ڈاکٹر صاحب کے دستخط تھے، ظاہر ہے اُنھوں نے یہ کتاب دستخط کرکے کسی قدر داں کو پیش کی ہوگی، بس اُس شخص کا نام اوپر نہیں تھا، پتہ نہیں اِس کی وجہ کیا تھی ؟ بہر حال جن صاحب کو یہ کتاب عطا ہوئی تھی اُنھوں نے یا اُن کے نااہل پسماندگان نےوہ کتاب ردی میں بیچ کر اپنا کاندھے ہلکے کرلئے تھے ـ
میں نے وہی کتاب پچھتر نئے پیسے میں خرید کر ٹھیک اُن کی دستخط کے اوپر لکھ دیا
” برائے مطالعہ محمود احمد خاں دریابادی سلمہ ”
وہ کتاب اب بھی میرے خزینہ کتب میں موجود ہے، پہلے اپنے دوستوں کو بڑے فخر سے وہ کتاب دکھا کر اُنھیں حسد یا کم از کم رشک پر مجبور کردیا کرتا تھا ـ
مگر اب یہ سب کہاں، اب تو بس ” حضرت موبائل قبلہ ” ہیں، ہر چھوٹا، بڑا، موٹا، جھوٹا، سب اس کے رخِ زیبا کے سحر میں گرفتار نظر آتے ہیں:
لوگ رکھتے ہیں اب نظر اُس پر
بس فرشتو حساب رہنے دو
نعمان شوق اردو شاعری کا ایک مقبول اور توانا نام ہے۔ نعمان شوق کو غزل اور نظم دونوں صنفوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ جب میں ان کی شاعری کا مطالعہ کرتا ہوں تو میرے لئے یہ طے کر پانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ غزل کے اچھے شاعر ہیں یا نظم کے، مشرف عالم ذوقی، تبسم فاطمہ، عالم خورشید ،صغیر رحمانی وغیرہ کی طرح نعمان شوق کا تعلق بھی دبستان آرہ سے ہے۔ ان کے تخلیقی سفر کا آغاز مشہور شاعر اور ناقد تاج پیامی کی سرپرستی میں آرہ شہر سے ہی ہوا۔ آل انڈیا ریڈیو، دہلی سے وابستگی سے پہلے وہ آرہ شہر کے الحفیظ کالج میں انگریزی کے استاد تھے جہاں مجھے بھی ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ یہی سبب ہے کہ نعمان شوق کو مجھے بہت قریب سے جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ” فریزر میں رکھی شام” نعمان شوق کی نظموں کا مجموعہ ہے جس میں 91 نظمیں ہیں ، اس کتاب کو انہوں نے اپنے دو دیرینہ دوست مشرف عالم ذوقی اور خورشید اکرم کے نام منسوب کیا ہے جن کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا ہے۔ "فریزر میں رکھی شام” کے پیش لفظ میں اپنی شاعری کے حوالے سے وہ رقمطراز ہیں کہ:
"لکھنا میرا شوق نہیں میری مجبوری ہے۔ مزاجا تنہائی پسند ہوں۔ خاص طور سے رات مجھے تخلیقی حرارت سے لبریز کر دیتی ہے۔ تخلیق کے لمحے میں بالکل ہی اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔ اتنا اکیلا کہ کبھی اپنی موجودگی بھی گراں گزرنے لگتی ہے. ہر نظم کے بعد شاعر کا نیا جنم ہوتاہے۔ نظم مکمل ہو جانے کے بعد میں بھی خود کو ہلکا محسوس کرتا ہوں، بادلوں کے بیچ تیرتا ہوا، سرشاری کی یہ کیفیت کبھی کبھی اتنی شدید ہوتی ہے کہ گنگنانے لگتا ہوں اپنی بے سری آواز کی پروا کئے بغیر۔ اپنی ہی نظم کی انگلی پکڑ کر پہروں سیر کرتا ہوں اور حیران نظروں سے دیکھتا ہوں اس دنیا کو۔ ”
اس اقتباس کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نعمان شوق ایک حساس دل شاعر ہیں۔ وہ عام آدمی کے درد کو سمجھنے کے لئے قاری کو اپنے تخلیقی سفر میں ساتھ لے کر چلتے ہیں، وہ جب بھی لکھتے ہیں تو پوری شدت اور انہماک کے ساتھ لکھتے ہیں تاکہ وہ اپنی بات آسانی سے قاری تک پہچا سکے۔ ان کی ایک نظم "ہنستے رہو” ملاحظہ کریں:
ہنسو
ہنسو کہ ہنسنے کے لئے
بہت کم وقت ہوتا ہے زندگی میں
ہنسو
کبھی دنیا پر
کبھی خود پر
ویسے خود پر ہنسنے کے لئے
روکنی پڑتی ہے سانس
کبھی کبھی دل کی دھڑکن بھی
ہنسو
تب تک ہنسو
جب تک تمہاری ہنسی
بہانہ نہ بن جائے تمہاری اچانک موت کا
ہنستے رہو!!
نعمان شوق ایک حقیقت پسند شاعر ہیں۔ اس لئے اپنی نظموں میں حقیقتوں کا اظہار اپنے مخصوص انداز میں کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انسان اپنی اعلیٰ قدروں کو کھو چکا ہے. انسانیت نام کی اب کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔ ان کی ایک نظم "کدھر ہے اندھیرا” دیکھیں:
رگوں میں دوڑتے خون کے بہاؤ سے
پیدا ہوئی ہے بجلی
بہتا ہے سڑک پر یہی خون
جب شریانوں سے باہر
تو پھیلتا ہے اندھیرا
لیکن کبھی کبھی فرق کرنا مشکل ہوتا ہے
اندھیرے اور اجالے میں
سنسان سڑک
ٹھٹھرتے لیمپ پوسٹ کا مذاق اڑاتی
کار کی ہیڈ لائٹس پوچھتی ہیں
کدھر ہے اندھیرا!!
اداسی اور تنہائی زندگی کی علامت بن چکی ہیں. کچھ پانے اور آگے بڑھنے کی تمنا میں لوگ ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑتے چلے جا رہے ہیں. اس احساس تنہائی کو نعمان شوق نے اپنی نظموں میں ایک مخصوص انداز میں پیش کیا ہے..نظم "تنہائی” دیکھیں:
ابھی ابھی وہ اٹھ کر کمرے سے گیا ہے
مگر ہر ایک شئے پر
خاموشی کی دھول کی
ایک موٹی تہہ جمی ہے
جیسے صدیوں سے یہاں
کوئی آیا ہی نہیں !!
ان کے نزدیک آج کے دور میں شاعری کرنا کسی چیلینج سے کم نہیں ہے.. وہ اپنی شاعری میں ان مسائل کو پیش کرتے ہیں جو ہماری نظروں کے سامنے ہیں اور ہم چاہ کر بھی اسے نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ ہم اسی سماج کا حصہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نعمان شوق اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھانا جانتے ہیں. انہیں پتہ ہے کہ آج کا انسان خطرے میں ہے اور ایک پل یا ایک دھماکے میں سب کچھ تباہ ہونے کو ہے. نظم "صرف انسان” کا آخری حصہ ملاحظہ فرمائیں:
بڑے سے بڑے دھماکے کے باوجود
زمین سے بالکل غائب نہیں ہوں گے
انا کونڈا، بھیڑیے اور مگر مچھ
ہرے بھرے رہیں گے
جارج بش، دہشت گرد اور طالبان
خطرے میں ہے
صرف اور صرف انسان !!
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی نظموں میں موجودہ دور کی صداقتوں کا اظہار ملتا ہے جہاں وہ بہت آسانی سے اپنے دل کی بات کہہ دیتے ہیں. نعمان شوق کی شاعری کے حوالے سے مشرف عالم ذوقی نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ:
"اس کی شاعری موسیقیت سے خالی ہے اور آپ زیادہ کشش محسوس نہیں کر سکتے مگر اسکے مدھم مدھم لہجے کی آنچ کو جب آپ محسوس کریں گے تو اس کے سحر سے نکلنا آسان نہیں ہوگا .اس کی کی شاعری میں جو تشبیہیں اور استعارے استعمال ہوتے ہیں، اس کے لئے نعمان کو ریگستان کی گرم ریت سے گزرنا نہیں پڑتا ، یہ اسکا مخصوص اور منفرد لب و لہجہ ہے کہ وہ خوشی یا درد کے اظہار کو آسانی سے جگ بیتی بنا لیتا ہے۔ اس کی شاعری کہیں سے بھی اجنبی نہیں لگتی۔ اس کی سادگی میں بلاغت بھی ہے سوز و گداز بھی۔ عام احساسات اور جذبات کی ترجمانی بھی وہ اس خاموشی سے کرتا ہے کہ نہ آہنگ پیدا ہوتا ہے اور نہ شور ،اس لئے بھی وہ دوسروں سے مختلف ہے . وہ ایک لکیر کھینچتا ہے اور اس کے چاروں طرف برف کی سلیاں رکھ دیتا ہے۔ ”
نعمان شوق کی نظمیہ شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات کو اہم بنا دیتے ہیں اور بہت آسانی سے اسے اپنی نظموں میں پیش بھی کر دیتے ہیں اور ان نظموں کو پڑھتے ہوئے ایک الگ طرح کی کیفیت کا احساس ہوتا ہے…!!
مؤلف کتاب: مولانا امدادالحق بختیار
اس کتاب میں قدیم متھلا (بہار) کی مفصل تاریخ بیان کرتے ہوئے، اس کے صدر مقام ضلع مدھوبنی کی تاریخ، تہذیب، ثقافت، وہاں کی پینٹنگس، مذہبی مقدس مقامات، مدھوبنی کا علمی وادبی مقام، علماء مدھوبنی اور یہاں کے چند دینی مدارس کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر بسفی بلاک (ضلع مدھوبنی) میں واقع علما اور حفاظ کی بستی ــ’’پروہی‘‘ کا مفصل تعارف، یہاں مسلمانوں کی آمد، برادریاں، اقتصاد اور معاش کی بنیاد، یہاں کے علماء اور صلحاء، یہاں کے مدارس،مساجدو عیدگاہ، عصری درس گاہیں، یہاں کے کھیت کھلیان، باغات، ندی، تالاب، قبرستان، اہل پروہی کی دینی اور مذہبی صورت حال اور دیگر عناوین پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیز اس کتاب میں امروہہ اور جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ کی تاریخ اور شخصیات پر بھی بھرپور کلام کیا گیا ہے۔
یہ کتاب مولانا محب الحق رحمہ اللہ (تلمیذ رشید حضرت مفتی نسیم احمد فریدی امروہی وسابق استاذ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ) کی سوانح حیات ہے، جس میں ان کے خاندان اور زندگی کے مختلف ادوار پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اساتذہ، تدریسی وتربیتی خدمات، دعوتی، ملی وسماجی خدمات، تصنیفات وتالیفات کے تعارف کے ساتھ، ان کی حیات مستعار کے روشن نقوش اور اخلاق واصاف کے اعلی نمونے قارئین کی خدمت میں پیش کیے گئے ہیں۔
حضرت مولانا محب الحق ؒ کی ذات وصفات اور خدمات وکارنامے کے حوالے سے لکھے گئے مشاہیر اور معاصرعلماء، ادباء اور دانشوران کی تحریریں بھی زینت کتاب ہیں۔ مولانا محب الحق ؒ مشاہیر کی نگاہ میں ، نیز وہ اہل علم اور دانشوران جن سے مولانا رحمہ اللہ کے قریبی تعلقات اور خط وکتابت رہی ، ان پر قلم پوری توانائی کے ساتھ دور تک چلا ہے۔ اخیر میں مرثیہ جات اور منظوم کلام کے ذریعہ محبین نے حضرت مولانا رحمہ اللہ کو خوبصورت خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
کتاب پر نمونہ اسلاف حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب ؒ منصورپوری (سابق استاذ حدیث ونائب مہتمم دار العلوم دیوبند وصدر جمعیۃ علماء ہند)، حضرت مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری مد ظلہ (استاذ حدیث دار العلوم دیوبند)کی تقریظات اور جناب مولانا ضیاء الحق خیر آبادی صاحب (مدیر مجلہ رشد وہدایت)کا بہترین تعارف ہے، جس سے اس کتاب کی استنادی حیثیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی (1979م) کی حیات و خدمات پر کتابیں ان کی زندگی ہی میں لکھی جانے لگی تھیں ۔ اس کا سلسلہ اب تک برابر جاری ہے۔ کچھ عرصہ قبل جناب احمد ابو سعید (حیدر آباد) نے ایک ضخیم کتاب تیار کی تھی ، جس میں تاریخی ترتیب سے مولانا کے حالاتِ زندگی اور خدمات کا تذکرہ کیا تھا۔ اب حیدر آباد ہی کے ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی کے قلم سے ایک نئی کتاب ‘ مولانا مودودی : شخصیت اور فکر’ کے نام سے منظرِ عام پر آئی ہے۔
ڈاکٹر فاروقی نے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ، عثمانیہ یونی ورسٹی حیدر آباد سے مولانا مودودی پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ہے۔ انہوں نے مولانا کی ابتدائی تحریروں کو مدوّن کیا ہے ، جو اخبار مسلم(1921 تا 1923) اور الجمعیة (1925 تا 1928)میں شائع ہوئی تھیں۔ اسی طرح مولانا کے ترجمہ ‘اسفار اربعہ’ کو تلاش بسیار کے بعد شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامیات کے مختلف موضوعات پر ان کی متعدد کتابیں طبع ہوئی ہیں۔
یہ کتاب 7 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں مولانا مودودی کی زندگی کو تاریخی ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو ان کے اہل خانہ ، قریبی رفقاء اور دیگر حضرات کے بیانات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے ۔ تیسرے باب میں واضح کیا گیا ہے کہ مولانا نے اپنے دور کے فتنوں ، جیسے مغربی تہذیب ، قوم پرستی ، قادیانیت ، انکارِ حدیث ، سرمایہ داری ، اشتراکیت ، مستشرقین وغیرہ سے کس طرح مقابلہ کیا ۔ چوتھے باب میں پاکستان کو ایک اسلامی جمہوریہ بنانے کے لیے مولانا کی پُرامن طویل جمہوری ، سیاسی اور دستوری جدّوجہد کو پیش کیا گیا ہے – پانچواں باب عصر حاضر میں مولانا کے ذریعے فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید پر ہے ۔ چھٹے باب میں کچھ استفسارات اور ان پر مولانا کے جوابات جمع کردیے گئے ہیں ۔ ساتویں اور آخری باب میں مولانا کی تفسیر ‘تفہیم القرآن’ کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔ آخری میں کچھ ضمیمے ہیں جن میں مولانا پر کیے جانے والے بعض اعتراضات ، ان کی فکر کے عالمی اثرات اور ان کے بارے میں بعض مستشرقین کے اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔
مولانا مودودی کی شخصیت اور فکر جاننے کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے – امید ہے ، اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جائے گا ۔
نام کتاب : مولانا مودودی : شخصیت اور فکر
مصنف : ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی
ناشر : شان پبلی کیشنز ، طاہر ولا، یوسف گوڑا، حیدرآباد – 45
صفحات : 448 ، قیمت 370
رابطہ نمبر :
9885544687
قسط (6)
(١١) کلیم اللہ کلیم دوست پوری
اردو دوست ، شاعر ، سماجی خدمتگار
نام کلیم اللہ ، تخلص کلیم ۔ 2 جولائی 1947عیسوی میں دوست پور میں پیدا ہوئے ، مکتبی تعلیم گاؤں ہی میں ہوئی ، کلواہی ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا ، مزید عصری تعلیم کے لیے پٹنے کا رخت سفر باندھا ، پٹنہ کالج سے بی اے اور مگدھ یونیورسٹی پٹنہ سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔
1967ء میں ملازمت میں آگئے پٹنہ میڈیکل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے بحال ہوئے اور 2007ء میں بحیثیت آفس سپریٹنڈنٹ ریٹائر ہوئے ۔ الحمدللہ تین مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہوچکے ہیں ۔ ان دنوں پٹنہ میں ہی مقیم ہیں اور وہاں کی سماجی اور رفاہی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں ، انھوں نے وہاں ایک مسجد بھی تعمیر کرائی ہے ، الحمدللہ متشرع ہیں ، صوم و صلوۃ کے پابند ہیں۔
شعروشاعری سے مناسبت شروع ہی سے رہی ہے ، پہلے دوسرے شعراء کے اشعار گنگناتے تھے ، بعد میں خود شعر کہنے لگے، شاعری اپنی تسکین خاطر کے لئے کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہ وقت کا ضیاع ہے اور اس سے عبادت و ریاضت میں خلل پڑتا ہے ؛ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ جب کسی چیز کی لت پڑ جاتی ہے تو چھٹتی نہیں۔ بقول ذوق:
اےذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کی لگی ہوئی
وہ اپنی اس عادت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔
2017 میں "گلدستۂ کلیم” کے نام سے ایک شعری مجموعہ منظر عام پر لا چکے ہیں اور دوسرا شعری مجموعہ بھی ابھی چند ماہ قبل بہ عنوان ” سخنہائے کلیم ” شائع ہوچکا ہے ، شعری سفر ابھی جاری ہے۔
کلیم اللہ کلیم دوست پوری صاحب ادب دوست اور اردو سے بے پناہ محبت کرنے والی شخصیت ہیں ، انہوں نے اردو کے فروغ و ترقی کے لیے 2017ء میں ایک کمیٹی قائم کی ، جس کے تحت وہ ہر سال شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کو ان کی حوصلہ افزائی کے لئے خطیر رقم، انعامات اور اعزازات سے نواز تے ہیں ، نیز اردو کی گراں قدر خدمات کے لیے خواہ وہ کسی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں کمیٹی کی جانب سے ایک رقم مختص کی جاتی ہے ۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی اس مخلصانہ کوشش و کاوش کو قبول فرمائے اور انہیں لمبی عمر عطا فرمائے ۔آمین ۔
اب تک کئی بڑی شخصیات کلیم اللٰہ کلیم دوست پوری ایوارڈ سے نوازے جا چکے ہیں جن میں جناب امتیاز کریمی سابق ڈائریکٹر اردو ڈائریکٹوریٹ پروفیسر علیم اللہ حالی اور پروفیسر مشتاق احمد نوری صاحبان وغیرہ شامل ہیں ۔
نمونہ کلام
جو بیت گیا سو بیت گیا کیوں بیتے دن یاد دلاؤ ہو
رہ رہ کے وہ یاد ستائے کیوں دل کو میرے تڑپاؤ ہو
زیب و زینت کر نہ اتنی دل ہی تو ہے کوئی سنگ نہیں
یہ دل ہے میرا ناداں بہت کیوں عشق کی آگ لگاؤ ہو
مانا مجھ سے پیار نہیں ہے دل سے پوچھو پھر یہ بتاؤ
زلفوں کو رخسار پہ اپنے اتنا کیوں لہراؤ ہو
چھپ چھپ کے کیوں جھانکو ہو تم ملنا ہے تو سامنے آؤ
جب تم کو محبت ہو ہی گئی تو پھر کا ہے شرماؤ ہو
حسن کی اپنی کیا ہے حقیقت یہ ان کو بتلاؤ کلیم
آئی ضعیفی گئی جوانی اس حسن پہ کیوں اتراؤ ہو
رنجور دل بہت ہے دلاسا تو دیجئے
کب تک رہوں اداس بھروسہ مت دیجئے
طوفاں کی کیا مجال سفینہ نہ پار ہو
اک ناخدا ہیں آپ سہارا تو دیجئے
حضرت بتا بھی دیجئے کیا ہے علاج عشق
عشق بتاں ہو ترک وہ نسخہ تو دیجئے
اپنی بھی شہریت ہے اسی ملک کی حضور
سینچا ہے اپنے خون سے حصہ تو دیجئے
جو چاہتے ہیں ملک میں امن و اماں رہے
دنگائیوں کو قید میں پہنچا تو دیجئے
یہ آپ کا کلیم رہے کیوں نا مراد اب
طالب کو اپنے حسن کا صدقہ تو دیجئے
(١٢) *قاصر مکرم پوری*
شاعر اور ادیب
اصل نام عبد القدوس ، قلمی نام قاصر مکرم پوری ، والد کا نام حافظ محمد عثمان ۔ 5 ستمبر 1947ء میں مکرم پور مدہوبنی میں ان کی ولادت ہوئی ۔
ایم اے اردو اور بی ایڈ کرنے کے بعد بہ سلسلہءملازمت 1975ء میں کلکتہ چلے گئے۔ شروع میں تیس پینتیس سال تک اپنے گاؤں مکرم پور میں ہی رہے۔
شعری سفر کا آغاز ایک اندازے کے مطابق 1962ء میں ہوا ، مرحوم مہر شکروی سے شرف تلمذ حاصل ہے ۔
چھپنے چھپانے سے ان کی طبیعت ہمیشہ ابا کرتی رہی ؛ اس لئے بہت کم غزلیں اخبار و رسائل کی زینت بن سکیں۔
قاصر مکرم پوری نے تقریبا ہر مشہور روایتی اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے ؛ لیکن ان کا مذاق سخن غزل سے فطری طور پر ہم آہنگ ہے ۔ یہ غزل کے اچھے اور کامیاب شاعر ہیں ۔
دوست ، احباب اور مخلصین کے بے حد اصرار کے بعد ان کا ایک مجموعہءکلام "تمنا کا دوسرا قدم” 2002ء میں منظر عام پر میں آیا ۔
٢٨ کارل مارکس سرائی کلکتہ میں مقیم ہیں ۔ درس و تدریس کے مشغلہ سے وابستہ رہے ۔
سالک لکھنوی "قاصر مکرم پوری کی غزل” کے عنوان سےان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ۔
"قاصر مکرم پوری کے اشعار آپ کے پیش نظر ہیں ، سلجھا ہوا انداز ہے، اشعار کو معمہ نہیں بنایا ہے ، خود ستائی سے کام نہیں لیا ہے ، مذموم خیالات نہیں ملتے ، ان کی شاعری ان کی فطرت کی غماز ہے، شرافت آمیز اور پسندیدہ ۔
(تمنا کا دوسرا قدم.ص: ١٥)
پروفیسر اعزاز افضل صاحب لکھتے ہیں۔
"قاصر کی زبان رواں اور بے عیب ہے ، وہ لفظوں کے تخلیقی استعمال کا گر جانتے ہیں ، ان کی جائے استعمال کا ادراک رکھتے ہیں ، ان کا ذہن الجھاؤ سے پاک ہے ؛ اس لئے ان کے اشعار میں گنجلک آنے نہیں پاتی ، ان کو اپنی بات خوبصورت انداز میں پیش کرنے کا سلیقہ آتا ہے ، خوش گلو ہیں ، شعر ترنم سے پڑھتے ہیں ، غزل کہنے کے لئے مترنم بحروں کا انتخاب کرتے ہیں ، یہی خوش سلیقگی سٹھیا اور سپاٹ ہونے سے صاف بچا لیتی ہے۔
( حوالہ سابق ص: ١٨)
نمونہ کلام
دل گرفتہ ہو گرفتار انا ہو کیا ہو
کچھ کہو بھی کہ زمانے کو پتا ہو کیا ہو
کیوں پڑے رہتے ہو دن رات خموشی اوڑھے
خود سے ناراض ہو دنیا سے خفا ہو کیا ہو
دل ہی دل میں یہ سلگنے کی تمہاری عادت
موت ہو اپنی کہ اپنوں کی فضا ہو کیا ہو
ایسا لگتا ہے سفر ختم کیے بیٹھے ہو
یا کوئی ہارے ہوئے آبلہ پا ہوں کیا ہو
اپنے مہمان سے کیسے کوئی پوچھے قاصر
غم کے بادل ہو مسرت کی گھٹا ہو کیا ہو
سکوت لب پہ نہ جا اضطراب دل میں ہے
ہر اک سوال کا تیرے جواب دل میں ہے
مکان پاک ہوا جب وجود سے اس کے
پتہ چلا کہ وہ خانہ خراب دل میں ہے
اسی خلش کے سہارے تو جی رہا ہوں میں
نگاہ شوق تیرا انتخاب دل میں ہے
مصالحت نے کیے ختم فاصلے لیکن
ملے تو علم ہوا اجتناب دل میں ہے
ابھی سے ہوگئیں آنکھیں نہ جانے کیوں محتاط
ابھی تو دولت غم بے حساب دل میں ہے
مودی سرکار نے اقلیتی طلبہ و طالبات کو دیا جانے والا مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ بند کردیا،طلبا تنظیموں کا احتجاج
نئی دہلی: مودی سرکار نے مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ (MANF) کو اِس تعلیمی سال سے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ اقلیتی طبقوں کے طلبا کے لیے مختص فیلوشپ تھا، جسے UPA کے دور حکومت میں سچر کمیٹی کی سفارشات کو نافذ کرنے کے ایک حصے کے طور پر شروع کیا گیا تھا ۔
انگریزی اخبار ’دی ہندو ‘ کی رپورٹ کے مطابق اقلیتی امور کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے جمعرات کو لوک سبھا کو بتایا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ MANF مختلف دیگر اسکیموں کے ساتھ اوورلیپ ہورہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ”چونکہ MANF اسکیم اعلیٰ تعلیم کے لیے حکومت کی طرف سے پہلے سے جاری اس طرح کی فیلو شب اسکیموں کے ساتھ اوورلیپ کرتا ہے، اس لیے حکومت نے 2022-23 سے MANF اسکیم کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس کے تحت 2014-15 اور 2021-22 کے درمیان تقریباً 6,722 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا اور اس دوران 738.85 کروڑ روپے کی فیلو شپس تقسیم کی گئیں۔
کانگریس ایم پی ٹی این پرتھاپن نے سرکار کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے اور کہاہے کہ وہ پارلیمنٹ میں MANF کو روکنے کا مسئلہ اٹھائیں گے، یہ ناانصافی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے طلبہ مزید تعلیم کے حصول کا موقع کھو دیں گے۔
اس دوران نیشنل اسٹوڈنٹس یونین کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر این ایس عبدالحمید نے کہا کہ سرکار کا یہ فیصلہ بہت سے ان اقلیتی طلبا کو متاثر کرے گا، جنہیں او بی سی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اقلیتوں، او بی سی، دلت اور آدیواسیوں کے لیے مختص اسکالرشپ بعض دفعہ اس لیے اوورلیپ کرجاتا تھا کہ درخواست دہندگان ایک ہی قسم کے سماجی یا مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے۔ ہم مرکز سے بے ضابطگیوں کو دور کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ مگر انہوں نے بے ضابطگیوں کو درست کرنے کے بجائے اسکالرشپ کو یکسر ختم کردیا ،جس سے بہت سے مسلم، سکھ اور عیسائی طلبا متاثر ہوں گے جنہیں مختلف ریاستوں میں او بی سی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ مودی سرکار کے اس فیصلے کے خلاف جے این یو کی طلبا تنظیمیں بھی سرگرمِ احتجاج ہو گئی ہیں،وہیں متعدد سماجی و تعلیمی اداروں نے بھی اس فیصلے پر شدید اعتراض کیا ہے۔
مصفاۃ الینابیع شرح مشکوٰۃ المصابیح (جلد اول)- ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی
نئی دہلی : آج انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی (IOS) کی جانب سے اس کے مرکزی کانفرنس ہال میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی علمی و دینی خدمات کے عنوان پر سمینار منعقد ہوا – افتتاحی اجلاس کا انعقاد پروفیسر محسن عثمانی کی صدارت میں ہوا – افتتاحی خطاب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے آن لائن فرمایا اور کلیدی خطاب مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی بانی حضرت مفتی الٰہی بخش اکیڈمی کاندھلہ کا ہوا – انھوں نے شاہ صاحب کی خدمات پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی اور بہت قیمتی اور نادر معلومات پیش کیں –
اجلاس میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ناظم ندوۃ العلماء ، مولانا کاکا سعید احمد ناظم جامعہ دار السلام عمر آباد ، مولانا شاہ ہلال احمد قادری سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف بہار اور مولانا تقی الدین ندوی (ابو ظبی) کے پیغامات پیش کیے گئے – مولانا اصغر علی امام مہدی امیر جمعیت اہل حدیث ہند اور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ و سکریٹری جماعت اسلامی ہند نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اظہارِ خیال کیا –
ان حضرات نے شاہ عبد العزیز کی علمی و دینی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ، مثلاً درسِ قرآن کی مجلسوں کا انعقاد اور عوام کو قرآن سے جوڑنے کی کوشش ، تفسیر قرآن کی تالیف ، کتبِ حدیث کی تدریس اور و اجازۃ کا اہتمام ، فتاویٰ ، خاص طور سے ہندوستان کو دار الحرب قرار دینے کا فتویٰ ، ردِّ رفض و تشیّع میں ان کی تالیفات ، خاص طور پر تحفہ اثنا عشریہ ، وغیرہ – اس موقع پر تین کتابوں کا اجرا بھی عمل میں آیا :
1- دکن میں اسلامی علوم کی خدمات ، مرتبین : ڈاکٹر محمد فہیم أختر ندوی ، ذیشان سارہ ، صفحات : 478 ، قیمت : 495 روپے –
2 – جامع مسجد گیان واپی اور بنارس کی دیگر تاریخی مساجد ، مولانا عبد الحمید نعمانی ، صفحات : 166 ، قیمت : 195 روپے
3 – آئی او ایس کا ترجمان شش ماہی مطالعات نئی دہلی (شمارہ 60 ,61) حدیث نمبر –
افتتاحی اجلاس کے کنوینر شاہ اجمل فاروق ندوی انچارج علمی امور آئی او ایس تھے تھے۔ مقالات کے اجلاس آج اور کل آن لائن ہوں گے – اختتامی اجلاس کل سہ پہر میں ہوگا ، ان شاء اللہ
آٹھ ارب انسانی آبادی والی یہ دنیا ایک انسانی سمندر ہے جس میں سوا تین لاکھ قطری شہریوں سمیت تیس لاکھ آبادی والا قطر اپنے رقبے اور آبادی کے اعتبار سے تو فقط ایک ‘قطرۂ آب’ ہے مگر سیاسی اور معاشی حیثیت سے وہ ایک ایسا ‘کوزہ’ ثابت ہو چکا ہے جس نے ‘سمندروں’ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اس کے دور اندیش حکمرانوں نے اسٹیبلش کر دیا ہے کہ اگر دولت ہاتھ میں ہو اور فراست ایمانی ساتھ میں ہو تو تمدن کی چلتی ہوئی ٹرین اور تہذیبوں کے اڑتے ہوئے جہاز کا بھی رخ موڑا جا سکتا ہے۔ کھان پان سے لیکر پہناوے تک میں اپنے اصولوں اور اپنی تہذیبی شناخت کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے اپنی مہمان نوازی سے دلوں کو نہ صرف مسخر کیا جا سکتا ہے بلکہ ان معاشروں کو اپنی شرائط پر مہمان بنایا جا سکتا ہے جن کے پنکھ چھو کر تیسری دنیا کی ‘دیہاتی قومیں’ اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھنے لگتی ہیں۔
دنیا کے نقشے پر بظاہر ایک ‘قطرہ’ دکھائی دینے والے قطر نے اس وقت فٹبال کے عالمی مقابلے فیفا ورلڈ کپ 2022 کے حوالے سے پوری دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ اپنی زمین پر ہم جنس پرستی کی بدبودار تشہیر اور شراب کے بیہودہ استعمال پر پابندی لگا کر قطر نے مغرب کو گویا باالفعل سمجھا دیا کہ تمہاری ‘آزادی’ وہیں پہ ختم ہو جاتی ہے جہاں سے ہماری ناک شروع ہوتی ہے۔
اس فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی میں قطر نے اپنی دولت کو پانی کی طرح بہایا ہے لیکن یہ بات معاشی ماہرین ہی زیادہ سمجھتے ہیں کہ قطر نے چند ‘قطرے’ بہا کر اپنے سمندر میں دولت کے کتنے نئے ‘دریا’ گرا لئے ہیں۔ ہمارا سیدھا سادہ مذہبی طبقہ جو صرف دولت کے کھلے خرچ کو ‘عیاشی’ سمجھتا ہے وہ اپنی جیبیں ٹٹولے بغیر قطر کو دن رات تنقید کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔ ہم ایسی محفلوں میں بس ایک ہلکے سے تبسم پر اکتفا کر لیتے ہیں۔
آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی فیفا ورلڈ کپ کی شاندار میزبانی سے قطر نے اگر دنیا کو حیران و ششدر کر دیا ہے تو ہمارے خیال سے اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال تقریباً تمام عرب ممالک اپنے معیار زندگی میں اس وقت باقی دنیا سے بہت آگے ہیں۔
وہ عام طور پر فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ انکی میزبانی کل بھی مثالی تھی اور آج بھی مثالی ہے۔ اللہ نے ایک طرف انھیں تیل کی دولت سے مالامال کیا ہے تو دوسری جانب انھیں فراخ دستی بھی عطا کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی سرمایہ کاری کے لئے اس وقت یہ عرب ممالک تمام عالم کے لئے مرکز نگاہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ بھی اپنی دولت کو مختلف سیکٹرز میں لگانا چاہتے ہیں۔ کاش ہمارے درمیان ایسے لوگ ہوتے جو مٹھی بھر چندوں کے لیے ہاتھ پھیلانے کے بجاۓ ملک و قوم کی معاشی ترقی اور استحکام کے لیے پر کشش تجارتی پروجیکٹس اور منصوبوں کے ساتھ انہیں ایپروچ کرتے مگر افسوس کہ قومی اور ملی افلاس کے خاتمے کے لئے کسی ایسی منظم معاشی جد و جہد کا خیال تک نہیں آتا جو اس ملک میں مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی ترقی کا واحد راستہ ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہر طرح کی غربت اور قومی بے مائیگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
مادی وسائل کاصحیح استعمال انسانی معاشروں پر کس قدر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے، قطر اسکی ایک بہترین مثال ہے۔ فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی سے اس چھوٹے سے ملک نے دنیا کو بہت متاثر کیا ہے۔ ایک طرف دوحہ شہر کی اپنی چکا چوندھ، دوسری طرف آنکھوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دینے والے عظیم الشان اسٹیٹ آف دی آرٹ اسٹیڈیمس، تیسری طرف شائقین کی میزبانی کے انتہائی دلکش اور دل پذیر انتظام و انصرام اور ان سب کو اپنے پاکیزہ اور روحانی دائروں میں سمیٹتی ہوئی اسلامی تعلیم و تہذیب کی ہمہ جہت اور پر کشش دعوت مغرب کے دیسوں سے آنے والے شائقین کو حیرت انگیز اور ‘عقیدہ شکن’ تجربات سے آشنا کر رہی ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ ورلڈ کپ کے آغاز میں ہی صرف ایک یا دو دنوں میں سینکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ایک طرف سڑکوں، عمارتوں، بازاروں اور ایوانوں کی ظاہری چمک دمک اور دوسری جانب حسن اخلاق کے چلتے پھرتے، ہنستے اور بولتے انسانی پیکر قطر سے باہر بھی ان کروڑہا لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں جو سوشل میڈیا پر ان مناظر کو دیکھ رہے ہیں۔ اور تاثیر کی اس گرفت میں نرم اور گرم سب ہم مزاج ہو رہے ہیں۔ ہندوستان میں موجود ان آنکھوں میں بھی ہم نے مرعوبیت کی دبیز لکیریں دیکھی ہیں جو ہماری قومی مظلومیت اور کسمپرسی کو بڑی رعونت سے دیکھنے کی عادی رہی ہیں۔
قطر کی یہ خوبیاں صرف فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی تک محدود نہیں ہیں۔ قطر کا اصل کمال اسکی وہ کامیاب سفارت کاری ہے جس نے عالمی سیاست کو ایک نئی جہت دیکر امن اور استحکام کی راہوں کو ہموار کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ اس چھوٹے سے ملک نے دنیا کی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کے درمیان توازن قائم کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر ایک چھوٹا سا ملک بھی چاہے تو وہ اپنی سالمیت کو بنیاد بناتے ہوئے ایک اہم بین الاقوامی اور علاقائی کھلاڑی بن سکتا ہے۔
اسے ایمانی فراست ہی کہا جا سکتا ہے کہ قطر نے اسٹیٹ ایکٹرز اور نان اسٹیٹ ایکٹرز یعنی ہمیشہ ریاست اور اسکے باغیوں کو گفتگو کی میز پر لا بٹھا دینے کی کامیاب حکمت عملی اختیار کی اور دونوں متحارب گروہوں کے درمیان ثالثی کا ثمر آور کردار ادا کرتے ہوئے ایسے کئی معرکے سر کئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قطر نے 2008 میں یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا۔ گو کہ ‘جنگ’ ابھی بھی جاری ہے مگر امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ قطر نے 2008 میں لبنان کے متحارب گروہوں کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کی جس کے بعد 2009 میں اتحادی حکومت قائم ہوئی۔ 2009 میں ہی سوڈان اور چاڈ کے درمیان باغیوں کے مسئلے پر مذاکرات میں حصہ لیا، جبوتی اور اریٹیریا کے درمیان سرحد پر مسلح جھڑپوں کے بعد سنہ 2010 میں قطر نے ان کے درمیان بھی ثالثی کا کردار ادا کیا جس کی تعریف افریقی اتحاد نے بھی کی۔
اتنا ہی نہیں بلکہ 2011 میں سوڈانی حکومت اور باغی گروہ لبریشن اینڈ جسٹس موومنٹ کے درمیان بھی دارفور معاہدہ کرایا جسے دوحہ معاہدہ بھی کہا جاتا ہے اور سال 2012 میں حماس اور فتح گروہوں کے درمیان بھی صلح اور عبوری حکومت کے ڈھانچے پر معاہدہ کرانے میں قطر نے اپنا رول ادا کیا۔ قطر کے جس رول کی ابھی حالیہ عرصے میں جم کر تعریف ہوئی اور جس نے ایک تاریخ رقم کر دی ہے وہ طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان سے انخلا کا معاہدہ ہے۔
دنیا میں امن اور استحکام کے لئے قطر کی ان کامیاب کوششوں میں قطر کی جو اصل پالیسی نظر آتی ہے وہ ‘ہارڈ پاور’ اور ‘سافٹ پاور’ کے بیچ ‘سمارٹ پاور’ کے استعمال کی بہترین مثال ہے۔ اپنے اور مخالفین کے درمیان ‘ونڈو آف اپرچونیٹی’ یعنی بات چیت اور مصالحت کے لیے ایک کھڑکی کھلی رکھنے کی حکمت عملی ہر دور میں کارگر رہی ہے۔ قطرنے اسی حکمت عملی کو بروے کار لا کر زمین پر امن کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ بنیادی طور پر قطر نے اپنے آپ کو اس پوزیشن پر لانے کے لیے ایک طرف عالمی معیار کے اپنے نیوز چینل الجزیرہ کو اور دوسری طرف مغرب و مشرق میں سرمایہ کاری کو اپنی حکمت عملی کا خاص حصہ بنایا۔
قصہ مختصر، عالمی کھیل کود کی تقریبات کو میزبانی کے بہانے دعوت توحید کا ایک عظیم الشان ذریعہ بنانے سے لیکر سرمایہ کاری تک اور سرمایہ کاری سے لیکر کامیاب سفارت کاری تک قطر تمام مسلم ممالک کے لیے ایک مشعل راہ بن گیا ہے۔ اس نے یہ نظیر قائم کر دی ہے کہ دولت اگر ہاتھ میں ہو اور ایمان و حکمت بھی ساتھ میں ہو تو بڑی بڑی سیاسی طاقتوں کو بھی اپنی شرطوں پر خوش دلی کے ساتھ جھکایا جا سکتا ہے۔ قطر کی اس شاندار کہانی میں ہمارے ملک کی مسلمان ‘قیادتوں’ کے لیے بھی بہت کچھ ہے کہ وہ اپنے اس ملک میں کیا کیا کر سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ وہ اس طرف توجہ دیں !
مصنف : عبد الباری قاسمی
ضخامت : 268
قیمت : 200 روپے
ناشر : مرکزی پبلیکیشنز
عبد الباری صدیقی قاسمی کا نام عہد حاضر کے ان چند فعال اسکالرس میں شمار کیا جاتا ہے جن کی موجودگی قومی و بین الاقوامی سطح کے مستند و معتبر رسائل و جرائد اور اخبارات میں نظر آتی رہتی ہے۔ آپ کا تعلق صوبہ بہار کے سمستی پور ضلع سے ہے تاہم گزشتہ ایک دہائی سے تعلیم کے سلسلے میں دہلی و اطراف دہلی میں مقیم رہتے ہوئے علمی، سماجی اور صحافتی خدمات بحسن و خوبی انجام دیتے آ رہے ہیں۔ موصوف کی شخصیت ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہے یہ باتیں میں قطعی طور پر کسی بھی طرح کی خوش فہمی کا شکار ہوۓ بنا کہہ رہا ہوں، یہ حقیقت پر مبنی باتیں ہیں۔ کیونکہ بیک وقت آپ ایک عالم دین، طبیب، صحافی اور ادب کے شناور کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کی ابتدائی اور حفظ تک کی تعلیم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد یو پی سے ہوئی ، مزید تعلیم کے لیے ازہر ہند دار العلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں سے آپ نے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی ۔ اس کے بعد دہلی یونیورسٹی دہلی کو مرکز نگاہ بنایا۔ یہیں سے آپ کو قلمی تحریک ملی جس کا آج یہ نتیجہ ہے کہ اتنی کم عمری میں تادمِ تحریر اب تک آپ کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔
زیرِ مطالعہ کتاب بعنوان ‘تفہیم و تعبیر’ 24 مضامین کا ایک جامع مجموعہ ہے جو سات الگ الگ ابواب کے تحت ضبط تحریر لائے گئے ہیں، خیال رہے کہ ان میں بیشتر وہ مضامین ہیں جو وقتاً فوقتاً نہ صرف رسائل و جرائد میں شائع ہوۓ ہیں بلکہ صاحب کتاب کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی سطح کی سیمینارز اور کانفرنسز میں پڑھے بھی گئے ہیں۔ یعنی کہ تمام ہی مشمولات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔کتاب کے ابتدائی تین صفحات مصنف کا پیش لفظ ہے جس میں آپ نے تمام ابواب کے حوالے سے مختصراً معلوماتی بات کرتے ہوئے اس کتاب کی تکمیل میں جتنے بھی دوست احباب اور اساتذہ کی معاونت شامل رہی ان کا خلوص دل سے شکریہ ادا کیا ہے۔ علاوہ ازیں پانچ صفحات پر نامور ادیب، محقق اور صحافی حقانی القاسمی کا مختصر اور جامع مقدمہ شامل کتاب ہے جس میں آپ نے عبد الباری صدیقی قاسمی کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے تمام مشمولات اور دوران مطالعہ جن چیزوں کی آپ نے کمی محسوس کی ان سب پر کھلے دل سے سیر حاصل گفتگو کی ہے حالانکہ حرف آخر تو کسی کی بات کو نہیں کہا جا سکتا مگر یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ موجودہ دور میں حقانی القاسمی کی رائے قابلِ لحاظ اور قابلِ احترام ضرور ہے اسی لیے متعلقہ کتاب پر ان کا قلم اٹھانا ہر طرح سے سند کا درجہ رکھتا ہے۔
باب اول سلسلۂ نثر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ جس کے تحت چار مضامین قلم بند کیے گئے ہیں۔ پہلا مضمون بعنوان اٹھارویں صدی میں اردو نثر تحریر کیا گیا ہے جس میں آپ نے اٹھارویں صدی کے ہندوستان کی سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی تبدیلیوں کے حوالے سے بحث کی ہے کہ کس طرح نئی زبان، نئی فکر، نئے نئے علوم اور نئے جذبات اور احساسات پروان چڑھ رہے تھے کیونکہ یہ زمانہ بہت ہی اتھل پتھل کا زمانہ رہا ہے، جہاں یہ انگریز حکمرانوں کی آمد کی گواہی دے رہا ہے وہیں مغل حکومت کے خاتمے کا الارم بھی بجاتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی مضمون میں اول اول ان تمام مذہبی کتب پر بالترتیب مدلل انداز میں بات کی گئی ہے جن پر تادمِ تحریر نہ جانے کتنی جامعات کے مختلف شعبہ جات میں ضخیم مقالات لکھے جا چکے ہیں ان میں کربل کتھا، تفسیر مرادیہ، تفسیر رفیعی اور موضح قرآن کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ افسانوی تصانیف میں قصہ مہر افروز و دلبر، نوطرز مرصع، نو آئین ہندی، عجائب القصص، جذب عشق اور انشاء اللہ خاں انشا کی سلک گہر کو مطمح نظر بنایا گیا ہے جس میں آپ نے مذکورہ بالا تمام کتب کی اردو زبان و ادب میں اہمیت و افادیت کے حوالے سے سلسلے وار اہم گفتگو کی ہے۔ نثری دیباچہ اور تاریخی نثر پر بات کرتے ہوئے اس مضمون کا اختتام کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے تیسرے مضمون میں فسانہ آزاد کی ادبی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے جس میں رتن ناتھ سرشار کے مختصر تعارف سے لے کر فسانہ آزاد کی وجہ تخلیق، پلاٹ و کردار، زبان، اسلوب، مزاح، مکالمہ، لکھنوی معاشرت کی عکاسی اورحقیقت جیسے تمام پہلوؤں پر حوالہ جات کے ساتھ تفصیلی بحث سپرد قرطاس کی گئی ہے۔ چوتھا مضمون امراؤ جان ادا : ایک مطالعہ کے نام سے سپرد قلم کیا گیا ہے جس میں جناب عبد الباری صدیقی قاسمی نے ابتدا میں امراؤ جان ادا کی علمی و ادبی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مرزا ہادی رسوا کے حالات زندگی کا مختصر نوٹ لیا ہے، اس کے بعد سن تصنیف، موضوع، مختصر قصہ، پلاٹ، تکنیک، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، لکھنؤ کی معاشرت اور تہذیبی منظرکشی، تجسس و جستجو، واقعیت، اسلوب، ناول کا پیغام اور حرف آخر پیش کرتے ہوئے بھرپور معلوماتی جامع مضمون شامل کتاب کیا ہے۔
باب دوم ‘اسالیب’ کے نام سے معنون کیا گیا ہے جس کے تحت پہلے باب ہی کی طرح چار مضامین ہیں, سب سے پہلے ‘نوطرز مرصع کے اسلوب کی انفرادیت ‘ میں صاحب کتاب نے متعلقہ کتاب کے تخلیقی پس منظر پر بات کرتے ہوئے مصنف کے حالات زندگی کی مختصر روداد بیان کی ہے، نوطرز مرصع کے عہد تصنیف، سبب تالیف، نوطرز مرصع کا ماخذ، اسلوب اور اخیر میں مختصر قصہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بات جامع الفاظ میں مکمل کرنے کی ہر ممکن سعی کی ہے۔ دوسرا مضمون ‘سر سید احمد خان کا نثری اسلوب’ کے نام سے لکھا گیا ہے جس میں جدید نثر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سر سید کے اسلوب ان کی شاہکار تصانیف، سنجیدگی، تعقل پسندی، تمثیلی انداز اور خطیبانہ اسلوب پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ تیسرا مضمون ‘مولوی عبد الحق کا نثری اسلوب’ میں آپ نے بابائے اردو کی تحریری خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی اہم ترین تصانیف کے ناموں، سادگی و سلاست، اثر آفرینی، حقیقت پسندی، خاکہ نگاری، مقدمہ نگاری اور زبان کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ چوتھا مضمون ‘غبار خاطر کا اسلوب’ کے نام سے سپرد قرطاس کیا گیا ہے جس میں آپ نے غبار خاطر کی اردو ادب میں اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سن تصنیف سے لے کر سن اشاعت تک بالترتیب ذکر تو کیا ہی ہے اس پر مستزاد یہ کہ آپ نے مولانا آزاد کے تصنیفی ادوار، آزاد کا اسلوب نگارش، غبار خاطر کی زبان، اشعار کا بر محل استعمال، عربی الفاظ و تراکیب کی کثرت، طنز و مزاح، قلمی مصوری، مناظر فطرت کی عکاسی اور آزاد کے انانیت پسند انداز پر تفصیلی بات کی ہے۔
باب سوم سلسلۂ شعر و سخن کے نام سے مخصوص کیا گیا ہے جس کے تحت 6 مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون’ زہر عشق کی ادبی اہمیت’ کے نام سے ہے، جس کی شروعات میں زہر عشق کی وجہ تخلیق اور اس کا مختصر قصہ بیان کیا گیا ہے۔ بعد ازاں مرزا شوق لکھنوی کے حالات زندگی ، ان کا شعری سرمایہ، مثنویات شوق، فریب عشق، بہار عشق، زہر عشق، مثنویات شوق کا ماخذ، زبان و بیان، زہر عشق کے کردار، جذبات نگاری، لکھنؤ کی تہذیبی جھلکیاں اور زہر عشق کی ادبی اہمیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ دوسرا ‘جدید اردو غزل : ابتدا و ارتقا’ کے نام سے لکھا گیا ہے جس میں جدید غزل کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کے ساتھ جدید غزل کے معرض وجود میں آنے کے اسباب و عوامل اور جدید غزل سے وابستہ ان تمام غزل گو شعرا اور ان کے نمونہ کلام پر مدلل بحث کی ہے جن میں خاص طور سے شاد عظیم آبادی، حسرت موہانی، فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، جگر مراد آبادی، یاس یگانہ چنگیزی، فراق گورکھپوری، فیض احمد فیض اور مجروح سلطانپوری کے نام شامل ہیں۔ تیسرا مضمون ‘ مسدس حالی: تعارف اور امتیاز’ کے نام سے سپرد قرطاس کیا گیا ہے جس میں حالی کے تخلیقی پس منظر اور مولانا الطاف حسین حالی کا شاعری کی طرف رجحان، حالی کا شاعرانہ قد، مسدس حالی کا مع اشعار بھرپور تعارف اور مسدس حالی کی امتیازی و انفرادی خصوصیات کو اپنے نوک قلم کا محور و مرکز بنایا گیا ہے۔ چوتھا مضمون’ فراق گورکھپوری کی شاعری کے امتیازات’ کے نام سے لکھا گیا ہے اس میں موصوف نے فراق کی شعری کائنات کے امتیازی پہلوؤں کا بڑی ہی دل جمعی اور عرق ریزی سے نہ صرف جائزہ پیش کیا ہے بلکہ کچھ ایسے پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا ہے جن تک عام قارئین کی پہنچ نہیں تھی۔ پانچواں مضمون ‘ابوالحیات حضرت مولانا قاری فخر الدین فخر گیاوی’ کے نام سے ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔ جس میں موصوف نے فخر گیاوی کی مختلف الجہات شخصیت کا بھرپور احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے سب سے پہلے آپ نے فخر گیاوی کے ذریعے علمی میدان میں کیے گئے کارہائے نمایاں کا ذکر کیا ہے۔ بعد ازاں ان کی پیدائش، تعلیم، اصلاحی تعلق، فراغت کے بعد میدان عمل میں قدم، سجاد لائبریری، شاعری کی طرف رغبت جہاں آپ نے موصوف کے ذریعے تمام اصناف سخن میں کی گئی قلم فرسائی، نثر نگاری اور آپ کی مطبوعہ تحریروں کا بغائر جائزہ پیش کیا ہے۔ چھٹا مضمون ‘مولانا احمد سعید دہلوی کی شاعری:ایک مطالعہ’ کے نام سے قلم بند کیا گیا ہے۔ جسے اہلِ علم اور ادب دوست حضرات نے "سحبان الہند” کے لقب سے نوازا تھا۔ آپ بیک وقت ایک عالم دین اور پایہ کے شاعر تھے۔ اس مضمون میں جہاں آپ کے علمی و ادبی پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے وہیں اردو شعر و ادب میں آپ کا کیا مقام و مرتبہ تھا اس پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ جس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ آزادی ہند کے بعد لال قلعہ میں جو سب سے پہلا مشاعرہ منعقد کیا گیا اس کی صدارت کے لیے آپ جیسی نابغہ روزگار شخصیت کا انتخاب کیا گیا تھا۔ کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ واقعی اس وقت یہ ذمہ داری آپ کے شایانِ شان بھی تھی۔
باب چہارم سلسلۂ نقد و تحقیق کے نام سے ہے، جس کے تحت دو مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون ‘مشرقی تنقید : آغاز و ارتقا’ کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں صاحب کتاب نے جہاں ایک طرف خطۂ مشرق سے تعلق رکھنے والی تمام زبانوں میں پاۓ جانے والے تنقیدی پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی قابل اعتراف کوشش کی ہے ، جس میں چینی زبان میں تنقید، جاپانی زبان میں تنقید، سنسکرت میں تنقید، عربی زبان میں تنقید اور فارسی زبان میں تنقید سر فہرست نظر آتی ہیں، وہیں دوسری طرف اردو زبان میں تنقیدی نقوش کا پا جانا جس میں شاعری میں تنقید، مشاعروں میں تنقید، اساتذہ کی اصلاح میں تنقید، تقریظ میں تنقید، خطوط میں تنقید ، تذکروں میں تنقید اور ساتھ ہی ساتھ اردو زبان کے دو بڑے نقادوں کی اردو ادب میں مسلم اہمیت کے حوالے سے خلوص دل سے بات کی گئی ہے جن میں مولانا محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کے نام لائق اعتبار ہیں۔دوسرا مضمون ‘خواجہ احمد فاروقی ایک محقق اور نقاد گر ادیب’ کے نام سے لکھا گیا ہے۔ اس میں صاحب کتاب نے فاروقی صاحب کی اپنے دور کے علمی و ادبی حلقوں مسلم شخصیت پر تو گفتگو کی ہی ہے مگر میرے نزدیک آپ کا سب سے مستحسن کام وہ ہے جو فاروقی صاحب کا شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کی ترقی و فلاح کے لیے جنون کی حد تک پہنچا ہوا جذبہ رہا اور اس کو آپ نے اپنا مطمح نظر بناتے ہوئے ان کی شخصیت کے چھپے ہوئے گوشوں سے ہم سب کو روبرو کرایا ہے ۔جو دور فاروقی صاحب کا تھا وہ ایسا ناسازگار تھا کہ نہ اردو کے لیے بہتر تھا نہ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کےلیے موزوں۔ مگر آپ نے اپنی علمی صلاحیت اور حسن سلوک سے اسی شعبے میں صدر جمہوریہ سے لے کر وزیر اعظم تک کو بلوا لیا۔ جس سے یونیورسٹی اور ارد گرد کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور طلبہ و طالبات انگشت بد نداں رہ گئے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ فرمائیں ایک صفحے سے چند سطور:
"مَیں اردو کی خدمت اپنا نہیں بلکہ خدا کا کام سمجھ کر کرتا ہوں۔ ” ( ص نمبر 174 )
اس کے علاوہ اس کتاب میں ہندوستانی زبانوں پر فارسی زبان کے اثرات، کلام اقبال میں قرآنی علوم و افکار کی ترجمانی، ذکر اقبال کا تنقیدی جائزہ، ادب اطفال : اہمیت و افادیت اور اردو کا وسیع ہوتا دائرہ اور تلفظ کی بڑھتی غلطیاں کے عنوان سے شامل مضامین قابل ذکر ہیں۔ کتاب کی پشت پر استاد محترم پروفیسر ابو بکر عباد کی قیمتی آرا اور نیک خواہشات یقیناً کتاب اور صاحب کتاب کے لیے باعث افتخار ہیں۔
کہیں کہیں کتاب میں تذکیر و تانیث کی غلطیاں ضرور در آئیں ہیں ، جنھیں امید ہے کہ
آنے والے ایڈیشن میں دور کرلیا جائے گا ۔ مگر مجموعی طور پر علمی و ادبی اعتبار سے اس کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، جس کے لیے برادرم عبد الباری صدیقی قاسمی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ قوی امکانات ہیں کہ آنے والے وقت میں موصوف کی اس کاوش کو علمی و ادبی حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اللہ کرے کی زور قلم اور زیادہ۔ باذوق قارئین اس کتاب کو مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کرکے حاصل کر سکتے ہیں : 9871523432
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
شاہ فیصل اور شاہ ولی اللہ ایوارڈ یافتہ، ماہر معاشیات، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور شاہ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے سابق استاذ، اردو اور انگریزی میں درجنوں کتابوں کے مصنف ، مقاصد شریعت پر گہری نظر رکھنے والے نامور مفکر اور صف اول کے قائد مسلم مشاورت کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا ۲۱ نومبر ۲۲۰۲ءکو امریکہ میں انتقال ہو گیا، تدفین وہیں عمل میں آئی۔
ڈاکٹر محمد نجات اللہ کا آبائی وطن اور جائے پیدائش گورکھپور ہے، ۱۳۹۱ءمیں ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد مرکز جماعت اسلامی رام پور یوپی تشریف لے گیے ، عربی کی تعلیم یہیں پائی، وہاں کے بعد مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ کا رخ کیا اور وہاں کے جلیل القدر علماءواساتذہ سے کسب فیض کیا اور اسلامی معاشیات واقتصادیات کے رموز ونکات میں درک پیدا کیا، اعلیٰ عصری تعلیم کے حصول کے لیے علی گڈھ میں داخلہ لیا اور ۶۶۹۱ءمیں معاشیات میں پی اچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،جب آپ ۱۶۹۱ءمیں شعبہ ¿ معاشیات میں لکچرر اور ریڈر مقرر ہوچکے تھے ، چند سال بعد ۸۷۹۱ءمیں شاہ عبد العزیز یونیورسیٹی جدہ میں اسلامی معاشیات کے شعبہ میں تقرری عمل میں آئی، ۱۰۰۲ءمیں سبکدوشی کے بعد وہ کیلوفورنیا چلے گئے اورکیلی فورنیا یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے لگے ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کئی زبانوں کے ماہر اور مختلف فنون پر گہری نگاہ رکھتے تھے، لیکن ان کے مطالعہ وتحقیق کا اصل میدان، مقاصد شریعة اور اسلامی معاشیات ہی رہا ، انہوں نے اسلامی غیر سودی بینک کاری پر زبر دست کام کیا،ا ن کی کتابوں کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے اور ”ہوٹ کیک“ کی طرح ہاتھوں ہاتھ بکے، ان کتابوں میں انہوں نے اسلامی اقتصادیات سودی بینک کاری کی بہ نسبت زیادہ مفید اور انسانوں کے لیے نفع بخش قرار دیا ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو تصنیف وتالیف کی جو صلاحیت اللہ نے بخشی تھی اس کی وجہ سے پوری دنیا خصوصا عالم اسلام وعرب میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور مطالعات اسلامی کے شعبہ میں گراں قدر خدمات پر شاہ فیصل ایوارڈ سے ۲۸۹۱ءمیں نوازے گیے، ان کی تصنیفات میں اسلام کا معاشی نظام، اسلام کا نظریہ، ملکیت، غیر سودی بینک کاری، تحریک اسلامی عصر حاضر میں، اسلامی نشا ¿ة ثانیہ کی راہ اکیسویں صدی میں، اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی، معاصر اسلامی فکر ، مقاصد شریعت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انہوں نے امام ابو یوسف کی کتاب الخراج اور سید قطب کی کتاب اسلام کے عدل اجتماعی کا ترجمہ بھی دوسری زبان میں کیا، مختلف جرائد ورسائل میں سینکڑوں علمی مضامین ومقالات لکھے، ان کی انگریزی کتابیں بھی ایک درجن سے زائد ہیں۔
ڈاکٹر صدیقی کا مطالعہ وسیع اور گہرا تھا، وہ سر سری طور پر بات کرنے اور کچھ لکھنے کے عادی نہیں تھے، آج کل جو ہم لوگوں کا مزاج بن گیا ہے کہ” کاتا اور لے دوڑے“، وہ ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا، وہ علمی اختلافات کا بُرا نہیں مانتے تھے، دوسروں کی رائے کا احترام کرتے تھے، اور اگر کسی کی دلیل مضبوط ہوتی تو رجوع کرنے میں عار نہیں محسوس کرتے،ان کا اخلاقی مقام بھی بلند تھا، ان کے بعض آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے علمی خلوص پر شبہ نہیں کیا جا سکتا، وہ مزاجا متحمل ، بردبار اور صابر وشاکر تھے۔
ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کی تلافی بہت آسان نہیں ہے، لیکن قادر مطلق کچھ بھی کر سکتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے ان کے نعم البدل اور مرحوم کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔
وفیات اطبّاء ہند و پاک : حکیم وسیم احمد اعظمی کی آئندہ نسلوں تک میراث منتقل کرنے کی ایک لاجواب کوشش-شکیل رشید
ایک بار موبائل پر ، کسی کتاب کے بارے میں مختصر سی گفتگو کے سوا ، حکیم وسیم احمد اعظمی سے میری نہ کبھی ملاقات ہوئی ہے نہ بات ، لیکن میں ان سے اسی طرح واقف تھا جیسے ایک دنیا انہیں جانتی ہے ۔ حکیم وسیم احمد اعظمی کا نام ’ طب یونانی ‘ کے حوالے سے ایک ’ لیجنڈ ‘ ہے ۔ حکیم صاحب کی طبّی اور علمی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے ۔ علمِ طب پر ان کی کتابیں داخلِ نصاب ہیں ، موصوف سینٹرل کونسل فار ریسرچ اِن یونانی میڈیسن کے کلینیکل اور لٹریری شعبہ سے وابستہ رہے ہیں ۔ اور کونسل کے ترجمان سہ ماہی ’ جہانِ طب ‘ کی ادارت کی ہے ۔ لیکن یہ تعارف ان کی شخصیت کا ادھورا تعارف ہے ۔ ان کی شخصیت کا مکمل تعارف اسی وقت ممکن ہے ، جب انہیں علمِ طب ، اور طب کے لیل و نہار کے ایک مورخ کے طور پر یاد یا پیش کیا جائے ۔ طب کوئی ایسا موضوع نہیں ہے کہ قلم اٹھایا اور لکھ مارا ! یہ موضوع تحقیق چاہتا ہے ، اور تحقیق کے لیے محنت درکار ہوتی ہے ،حقائق اور کِذب کو ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑتا ہے ، اور جنہیں واقعی کسی تعصب یا کسی طرح کے کَد کی بنا پر نظرانداز کیا گیا ہے ، لیکن وہ ایسے لوگ نہیں تھے ، جنہیں نظرانداز کیا جانا چاہیے تھا ، ان سب کو ان کا جائز مقام دینا ہوتا ہے ، اور جو ناجائز طور پر مسند پر بیٹھ گیے ہیں ، یا جن کے نام کسی اور کا کام کردیا گیا ہے ، انہیں باہر کا راستہ دکھانا پڑتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام وہی کرسکتا ہے جسے تحقیق کے فن پر بھی کمال حاصل ہو اور جو تاریخ کے فن میں بھی طاق ہو ، ساتھ اْسے اپنے کام سے شدید لگاؤ ہو ، جنون کی حد تک ۔ وسیم احمد اعظمی کو طب کے موضوع سے کچھ ایسا ہی لگاؤ ہے ، اسی لیے اس موضوع پر انہوں نے اعلیٰ ترین معیار کی تحقیقی ، علمی اور تاریخی کتابیں لکھی ہیں ۔ گذشتہ دنوں بہت ہی پیارے ادیب اویس سنبھلی نے ، جنہیں میں علم دوست بھی مانتا ہوں اور کتاب دوست بھی ، مجھے حکیم صاحب کی چار کتابیں ایک ساتھ بھیج دیں ، وہ بھی حکیم صاحب کے دستخط کے ساتھ ۔ ان کتابوں میں تین جلدیں ’وفیات اطبّاء ہند و پاک ‘ کی ہیں ۔ آج میں ان تینوں جلدوں کا ایک مختصر سا تعارف پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، حالانکہ طب میرا موضوع نہیں ہے ۔ جلد اول، حصہ اول – حرف الف ممدودہ و الف ، کی اشاعت 2019 ء میں ہوئی تھی ۔ یہ جلد 320 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت 194 روپیہ ہے ۔ اس جلد کے ، اور باقی کی دو جلدوں کے بھی ، ناشر ’ اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن ، نئی دہلی ‘ ہیں ۔ اس کتاب کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں اٹھ سکتا ہے کہ ، آخر اس کتاب کی آج کے دور میں ، جب کہ طب یونانی کی سانسیں ہندوستان میں اکھڑ رہی ہیں ، کیا ضرورت تھی ؟ کتاب کے ’ پیش نامہ ‘ میں حکیم صاحب نے اس سوال کا تشفی بخش جواب دے دیا ہے ۔ حکیم صاحب نے وفیات نگاری کو فنِ اسماء الرجال کا رہینِ منت قرار دیتے ہوئے بہت اہم نکتہ پیش کیا ہے کہ غالباً مسلمانوں کے ’’ شعور یا تحت الشعور میں اپنی میراث کو صحت اور صالحیت کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا جذبہ رہا ہوگا ۔ اس طرزِ فکر نے مسلمانوں کی ہر طرح کی فکری ، علمی اور عملی جدوجہد کو محفوظ کر دیا ہے ۔‘‘ یہ جملہ اس کتاب کی ضرورت کو اجاگر کر دیتا ہے کہ ’یہ کام میراث کو صحت اور صالحیت کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے جذبے کے تحت کیا گیا ہے ۔‘ حکیم صاحب کا ’ پیش نامہ ‘ اپنے آپ میں اطبّاء و حکما ء کی وفیات کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ہے ، یا یہ بھی کہا جا سکتا ہےکہ یہ ’ پیش نامہ ‘ چند صفحات میں وفیاتِ اطبّاء کی مکمل تاریخ ہے ۔ اس میں اطبّاء کی وفیات پر عربی کی چند کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے حکیم صاحب نے اس موضوع پر اردو زبان میں ہند و پاک میں جو کام ہوا ہے ، اسے یوں سامنے رکھ دیا ہے جیسے کہ ’ کوزہ میں سمندر ‘۔ حکیم صاحب اس کتاب کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ میرے مطالعے میں اطبّاء ہند و پاک کی وفیات پر اب تک کوئی مستقل کتاب نہیں رہی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ اس موضوع پر یہ پہلی مستقل کتاب ہو اور نقش اوّل کی حیثیت رکھتی ہو ۔ ‘‘ جلد اول میں 296 اطبّاء کا تذکرہ ہے ۔ میں نے اس کتاب میں سب سے پہلے حکیم محمد افہام اللہ کا نام تلاش کرنے کی کوشش کی تھی ، ایک جگہ یہ نام ملا ، لیکن مجھ پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ ’ انہونہ ‘ والے ہی حکیم محمد افہام اللہ کا تذکرہ ہے یا کسی اور حکیم افہام اللہ کا ،لیکن یہ نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ایک بار حکیم صاحب نے ، جب وہ بہت ضعیف ہوچکے تھے ، میرا علاج کیا تھا ، اور پتھری ، جو دوسرے ڈاکٹر نہیں نکال سکے تھے ، نکال دی تھی ۔ اس کتاب کا ، اور بعد کی جلدوں کا بھی ، مطالعہ کرتے ہوئے یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی ہے کہ اس میں ہندو اطبّاء کے نام بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ، جیسے کہ حکیم آتما پرکاش گرجی سنیاسی ، بلکہ یہ کتاب کی فہرست میں سب سے پہلا نام ہے ۔ پہلی جلد میں ہندو اطبّا کے 23 نام شامل ہیں ۔ یہ نام دو طرح کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لیے کافی ہیں ، ایک تو یہ کہ یونانی طب یا حکمت میں بھلے مسلمان اطبّاء کی تعداد زیادہ رہی ہو لیکن یہ طریقۂ علاج صرف مسلمانوں سے ہی منسوب یا صرف مسلمانوں ہی تک محدود نہیں تھا ۔ دوسرا یہ کہ یونانی طب سے حکومت کا سوتیلا سلوک ،تعصب اور جانبداری اس پیتھی کے ہندو اطبّا کی خدمات سے بھی تعصب ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت حکمت سے ہندو اطبّا ء اور حکماء کا جو تعلق رہا ہے ،اس پر ریسرچ کرائے ، اور یونانی طب کو ترقی دینے کا کام کرے ،یہ کتاب اس کام میں حوالے کی کتاب بن سکتی ہے ۔
کتاب کی دوسری جلد ( جلد دوم ، حصہ اوّل – حرف ب تا ظ ) 368 صفحات پر مشتمل ہے ، اس کی اشاعت کا سنہ 2022ء ہے ۔ اس جلد کی قیمت 400 روپیے ہے ، جو پہلی جلد کے مقابلے کچھ زیادہ ہے ۔ اسے پہلی جلد کی طرح قومی اردو کونسل سے مالی تعاون تو نہیں ملا ہے لیکن اتر پردیش اردو اکادمی کے مالی اشتراک سے ممکن ہو سکی ہے ۔ اس جِلد میں 338 مسلمان اور ہندو اطبّا کا تذکرہ شامل ہے ۔ ہندو اطبّا کی تعداد 15ہے ، اِن میں سے اکثرشاعری بھی کرتے تھے ۔ کتاب میں ایک خاتون طبیبہ ستی النساء بیگم کا بھی تذکرہ ہے ، یہ شہنشاہ شاہجہاں کی بیٹی شاہزادی جہاں آراء بیگم کی اتالیق تھیں اور ممتاز محل کی سکریٹری ۔ علاج معالجہ میں مہارت رکھتی تھیں ۔ ان کے بارے میں ایک عجیب بات یہ لکھی ہے کہ اِن کا انتقال لاہور میں ہوا اور وہیں کوئی ایک سال تک ان کے جسدِ خاکی کو محفوظ رکھا گیا پھر اسے آگرہ لا کر تاج محل سے متصل ایک شاندار مقبرہ میں دفن کیا گیا ۔ اس جِلد میں تین عیسائی اطبّا حکیم بتیس ڈسلوا ، حکیم پیڈروڈسلوا عبرتؔ اور حکیم جوزف ڈسلوایوسفؔ کا بھی تذکرہ ہے ۔ اِن تینوں کے تذکرہ میں ان کے والد کے نام بالترتیب یوں دیے گیے ہیں ، حکیم لوئس ڈسلوا ، حکیم جان ڈسلوا اور حکیم ایلیس ڈسلوا مفتوںؔ ۔ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِن اطبّا کے یہاں حکمت خاندانی تھی ، اور انہیں شعر و سخن سے بھی شغف تھا ۔ حکیم وسیم احمد اعظمی نے اِس جِلد کے ’ پیش نامہ ‘ میں اطبّا ء و حکماء کی حیات و خدمات کے بارے میں اردو میں کیے گیے مزید کاموں کی تفصیلات پیش کی ہیں ، یعنی پہلے کی دستاویز میں مزید اضافہ کیا ہے ۔
تیسری جِلد ( جلد سوم ، حصہ اوّل – حرف عین )کی اشاعت 2021ء میں ہوئی ، یعنی دوسری جِلد سے ایک سال قبل ! حکیم صاحب نے ’ پیش نامہ ‘ میں ، جو پہلی جِلد کے ’ پیش نامہ ‘ ہی کی طرح وقیع ہے ، اس تعلق سے لکھا ہے ، ’’ وفیات کے لوازمے کتابوں اور مجلّات ، جرائد اور اخبارات میں بھی بکھرے ہوئے ہیں ۔ ان کی تلاش اور تحقیق بے حد ارتکاز اور عرق ریزی کا کام ہے ، مگر ہے بہت ہی پُر لطف اور پر کیف ۔ جب ہم نے ’ وفیات اطبّاء ہند و پاک ‘ پر کام شروع کیا تو ہمیں اس امر کا اندازہ تھا اور بس اللہ تعالٰی کا نام لے کر کام شروع کیا ۔ اس کی پہلی جلد کا پہلا حصہ ( حرف الف ممدودہ و الف) قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے 2019ء میں طبع ہوا تھا ۔ اس کے ’ پیش نامہ ‘ میں ہم نے تحریر کیا تھا کہ وفیات پر جس قدر لوازمے مرتب ہوتے جائیں گے ، ہم انہیں طبع کرتے جائیں گے ۔ چنانچہ ’ وفیات اطباء ہند و پاک ‘ کی جلد دوم ابھی مبیضہ کے مرحلے میں ہی ہے کہ اس کی جلد سوم کا حصہ اوّل حرف عین ، آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ ہم ان شاء اللہ اس کی دیگر جلدیں بھی عنقریب پیش کر سکیں گے ۔ وما توفیقی الا بالله ۔‘‘ یہ جِلد 336 صفحات پر مشتمل ہے ، اس کی قیمت 400 روپیے ہے ، اور اس میں 278 اطبّا کے تذکرے شامل ہیں ۔ یہ کتاب ’ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی ، لکھنئو ، حکومت اتر پردیش ‘ کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے ۔ تحقیقی کتابوں کی اشاعت کے لیے سرکاری مالی تعاون بہت ضروری ہے کیونکہ یہ کام وقت بھی چاہتا ہے اور تحقیق کے لیے سفر اور کتابوں تک رسائی بھی ، اس کے لیے نقدی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام اداروں کے ہی کرنے کا ہے نہ کہ کسی فردِ واحد کے ۔ خیر حکیم صاحب یہ کام کیے جا رہے ہیں ، اللہ انہیں صحت اور اسقلال عطا کرے ، آمین ۔ اس جِلد میں حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی اور ڈاکٹر سیّد شاہد اقبال ، گیا ( بہار ) کی آراء شامل ہیں ، اِن میں سے اوالذّکر کا کہنا ہے ، ’’ معاملے کی گہرائی و گیرائی تک پہنچنا حکیم وسیم احمد اعظمی کے فکر و فن کا خاصہ ہے ۔‘‘ اور ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ، ’’ قاری اس کتاب کو صرف ایک کتاب سمجھتا ہے لیکن راقم کے نزدیک مذکورہ کتاب ، دو کتابوں کا مجموعہ ہے ۔ ایک تو اطبّاء اور حکما کی وفیات نگاری ہے اور دوسرے مذکورہ بالا اطبّاء اور حکما کے حالاتِ زندگی اور کارنامے سے لبریز ہے ۔‘‘ تینوں ہی جِلدوں میں حوالے کے لیے مصادر و مراجع دے دیے گیے ہیں ، جن سے نایاب اور کمیاب کتابوں کا پتہ چلتا ہے ۔ یہ اطبّاء کے حالات اور خدمات کو سامنے لانے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے ، اس طرح حکیم صاحب آئندہ نسلوں تک ، صحت اور صالحیت کے ساتھ ، بزرگوں کی میراث منتقل کر رہے ہیں ۔ اس کام میں انہیں جن افراد سے تعاون ملا ہے ، اپنے ’ پیش نامہ ‘ میں ان سب کا ذکر کیا ہے ، جیسے مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی ، ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی ، حکیم نازش احتشام اعظمی ، ڈاکٹر عمیر منظر ، اویس سنبھلی وغیرہ ۔ یہ تینوں جِلدیں موبائل نمبر 9451970477 پر رابطہ کر کے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔