علامہ یوسف القرضاویؒ بیسویں صدی کی ان شخصیات میں سے ہیں جو صدیوں بعد معدن انسانیت سے نکلا کرتی ہیں۔وہ ایک ہمہ گیر،ہمہ جہت،عہد ساز اور ایک صدی پر محیط شخصیت کے مالک تھے۔ان کی ذات علوم وفنون کا سرچشمہ اور نبوغ وکمال کی منتہا تھی۔ وہ بیک وقت مفکر، مفسر،محدث، فقیہ، اصولی،مجتہد، مجدد، معلم، داعی، مربی، مصلح، صحافی، مصنف، خطیب، انشا پرداز، شاعر، مجاہد، عابد وزاہد سب کچھ تھے۔ان کی شخصیت میں اللہ تعالی نے ان متضاد اوصاف وکمالات کو جس قدر خوب صورتی اور توازن کے ساتھ جمع کردیا تھا اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔سچ ہے کہ اس جیسا جینیس اور عبقری انسان ہرروز آسانی سے پیدا نہیں ہواکرتا۔’ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا’۔
ایک قلم کار جب ان کے کاموں اور کارناموں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہے،تووہ حیران وپریشان ہوجاتا ہے کہ ان کی ہمہ جہت زندگی کے کس پہلو سے اپنی گفتگو کا آغاز کرے؟ آیا ان کی فقیہانہ دعوت کا تذکرہ کرے یا داعیانہ فقاہت کا۔فقہ اسلامی میں ان کے کارناموں کا تذکرہ کرےیا فکر اسلامی میں ان کی نمایاں خدمات کا۔ان کی جرأت وبے باکی کا تذکرہ کرے،یان کی استقامت وپامردی کا۔ان کی حکمت وبصیرت،ان کی تحریر وتقریر،ان کی اسلامی حمیت اورملی غیرت کا تذکرہ کرے،یا ان کے اخلاق وتواضع، تعلق مع اللہ، استغنا وبے نیازی اور ان کی پیشانی پر ہویدا نور ایمان کا۔ان کی اجتہادی شان اور مجددانہ کام کا تذکرہ کرے،یا ان کی عالمانہ اورمحققانہ تصانیف کا۔غرض یہ کہ ان کے گوشہ ہائے حیات کا ہرگوشہ اتنا متنوع اور پرکشش ہے کہ ایک قلم کار کا قلم پکڑ کر اسے کہتا ہے: "جا ایں جا است”۔
علامہ قرضاوی کی خدمات کا دائرہ ،صرف مصر اور قطر نہیں تھا؛بلکہ پوری دنیا کو محیط تھا۔تمام عالمی ،دینی اور اسلامی تحریکات سے ان کا مضبوط اور قریبی رابطہ تھا،جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ان کو جو محبوبیت ومقبولیت حاصل ہوئی،وہ کم لوگوں کو حاصل ہوئی ۔اللہ تعالی نےان کو زندگی بھی طویل عطا فرمائی،اور کام بھی ان سے خوب لیا۔ان کے وقت میں بڑی برکت عطا ہوئی تھی۔ زندگی بھر قلم وقرطاس سے ان کا رشتہ مضبوط رہا،جس کے نتیجے میں ان کے قلم سے ۱۷۰/سے زائدکتابیں نکلیں، جن میں سے ہر ایک زبان کی شستگی،اسلوب کی شگفتگی،ادب کی چاشنی، فکروخیال کی رعنائی،علم وتحقیق کی گہرائی، استنباط واستدلال کے صبر آزما تقاضوں کی پاس داری،روایت کی پختگی، جدیدیت کی تازہ کاری، قلب ونظرکی وسعت اور اعتدال وتوازن کی خوب صورتی کی وجہ سے بصیرت افروز، فکر انگیز، چشم کشا،روح پرور اور سرمۂ چشم ہے۔علامہ کی کوئی تحریر فکرو دعوت سے خالی نہیں،ان کی فکر میں گہرائی بھی ہے اور تازگی بھی؛لیکن ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی تجدیدی اور فلسفیانہ فکر کو بھی ایسے شگفتہ اور دل نشیں اسلوب میں پیش کرتے ہیں کہ باذوق قاری بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ :’ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ‘۔
علامہ قرضاوی کی شخصیت اور ان کے افکار وآثار پر ان کی زندگی میں بھی گراں قدر کام ہوا،اور ان کی وفات کے بعد بھی سلسلہ جاری ہے۔اسی سلسلے کی تازہ ترین اشاعت زیر تعارف کتاب ہے،جس میں علامہ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر ہندوستان اور عرب دنیا کے متعدد نامور اصحاب قلم کے گراں قدر مضامین شامل ہیں۔
کتاب کے پہلے حصے میں علامہ محمد عمارہ، شیخ عوامہ،پروفیسر خورشید احمد،مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی،پروفیسر محمد محسن عثمانی ندوی،مولانا سید سلمان حسینی ندوی، شیخ احمد سامی الکومی، ڈاکٹر مسعود صبری،ڈاکٹر ہبہ رؤوف عزت،ڈاکٹر وارث مظہری، ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی،مولانا محمد نوشاد نوری قاسمی،مولانا اشتیاق عالم فلا حی،مولانا مجیب الرحمن عتیق ندوی، مفتی رحمت اللہ ندوی اور مولانا صابر حسین ندوی کے گراں قدر مضامین شامل ہیں۔جب کہ دوسرے حصے میں خود علامہ قرضاوی کی منتخب تحریروں کے اردو تراجم شامل کیے گئے ہیں۔
ان مضامین میں سے بعض براہ راست عربی میں لکھے گئے تھے جن کا ترجمہ اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ علامہ محمد عمارہ کے مضمون کی تلخیص وترجمانی:مولانا احمد الیاس نعمانی ندوی نے ’فقیہ امت شیخ القرضاوی‘ کے عنوان سے کی ہے ،جس میں ان پہلوؤں کا مختصراً تذکرہ کیا گیا ہے جو علامہ قرضاوی کو دور حاضر کا عظیم ترین فقیہ قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ علامہ قرضاوی زمانے کی ضرورتوں سے آگاہ فقیہ تھے،جس کی شہادت ان کے فتاوی کا وہ مجموعہ دیتا ہے جو تقریباً پندرہ سو صفحات پر مشتمل ” الفتاوی المعاصرۃ” کے نام سے شائع ہوا ہے۔اس مضمون میں علامہ کی فقیہانہ شان کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مفکرانہ مقام پر بھی اچھی روشنی ڈالی گئی ہے۔اخیر میں علامہ محمدعمارہ نے لکھا ہے کہ علامہ قرضاوی کے نزدیک عصر حاضر کے فقیہ کو فقہ کی درج ذیل قسموں پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے:فقہ مقاصد،فقہ سنن،صورت حال کا گہرا فہم،تہذیبی فقہ،ترجیحات اور اعمال وامور کے باہم مراتب کا گہرا علم،مصالح ومفاسد کے درمیان تقابل کا صحیح ملکہ،آداب اختلاف کا علم،فقہ اخلاق،وہ دور بینی جس کی بدولت انسان حال کی قید میں مقید نہ رہ کر مستقبل کے لیے صحیح منصوبہ بندی کرسکے۔(ان اقسام کی تفصیل کے لیے دیکھیے: کتاب ہذا،صفحہ:۵۹-۵۸)
شیخ محمد عوامہ کے مضمون کی ترجمانی مولانا محمد سہیل ندوی نے ’علامہ قرضاوی کی خصوصیات‘ کے عنوان سے کی ہے،جس میں علامہ قرضاوی کی ان صفات وامتیازات کا ذکر کیا گیا ہے جو بقول شیخ عوامہ صرف انھی کا حصہ تھیں۔جیسے:علوم شرعیہ میں ان کی مہارت،علمی تفوق اور گہرائی وگیرائی،وسعت قلبی،تصنیف وتالیف کی کثرت،علم وفکر کی جامعیت وغیرہ۔پھر ان خصوصیات کو ان کی بعض تحریروں کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا ایک مضمون بھی( جو درحقیقت علامہ قرضاوی کی جدوجہد سے بھرپور زندگی کی ۹۰/بہاریں مکمل ہونے پر ان کی زندگی ہی میں بہ زبان عربی لکھی گئی تھی) کتاب کی زینت ہے۔جسے مولانا محمد فرید حبیب ندوی نے ’شیخ قرضاوی:ایک عظیم مفکر اور جلیل القدر داعی‘ کے عنوان سے اردو کا قالب بخشا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی کے حوالے سے حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی کی یہ تحریر بڑی قدردانہ ہے، جس میں علامہ کے علمی قد اور ان کی دعوتی وفکری خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیاگیا ہے۔اس مضمون میں علامہ قرضاوی کو نئی نسل کے استاد کبیر اور پچھلی نسل کے عظیم الشان مفکرین وقائدین کے تلمیذ رشید کے طور پر بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ان سے اپنے اور حضرت مولاناعلی میاں ندویؒ کے تعلقات کی نوعیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
ایک مضمون شیخ احمد سامی الکومی کا ہے،جس کا ترجمہ مرتب کتاب ابوالاعلی سید سبحانی صاحب نے ’ایک زبردست مجاہد صفت امام‘ کے نام سے کیا ہے۔جس میں ان کاتعارف ایک وسیع النظر عالم دین،فکر اسلامی کے عظیم راہی،تحریک اسلامی اور معاصر اسلامی دنیا کے عظیم رہنما اور ایک زبردست مجاہد صفت امام کے طور پر کرایا گیا ہے۔
کتاب میں شامل مضامین میں ایک اہم مضمون ’سیاسی مسائل میں اجتہاد اور علامہ قرضاوی‘ کے عنوان سے ڈاکٹر مسعود صبری کا ہے۔اس کی تلخیص وترجمانی بھی مرتب کتاب کے قلم سے نکلی ہے۔جس میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ سیاسی مسائل پر غور وفکر کے سلسلے میں علامہ قرضاوی کا کیا انداز تھا۔مضمون میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ سیاسی مسائل پر غور وفکر کے کچھ اصول اور بنیادیں ہیں جو علامہ کے پیش نظر رہتی تھیں۔چند بنیادیں کچھ اس طرح ہیں:
۱۔ شریعت کے کلی مقاصد کی روشنی میں شریعت کے جزوی نصوص پر غور وفکر۔
۲۔زمانے کی سمجھ،اور اس بات کی سمجھ کہ زمانے کی تبدیلی سے فتوی میں بھی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔
۳۔ کسی بھی حکم کے نتیجے میں رونما ہونے والے مصالح اور مفاسد کے درمیان موازنہ۔
۴۔ترجیحات کاتعین۔اس حوالے سے علامہ قرضاوی کا جو موقف ہے وہ بڑا شاندار اور معتدل ہے۔
( تفصیل کے لیے دیکھیے: کتاب ہذا،صفحہ:۱۰۶-۱۰۵)
۵۔تبدیلی لانے والی فقہ۔
۶۔جس چیز کی حرمت کے تعلق سے نص وارد نہ ہو،وہ اصلاً حلال ہے۔سیاسی مسائل میں شرعی رہنمائی تلاش کرتے وقت اس اہم اصول کا بھی (علامہ قرضاوی کے نزدیک) خیال رکھنا ضروری ہے۔
۷۔ امت کے عمل اور سیاسی معاملات میں خلفائے راشدین کے اسوے پراعتماد۔
یہ وہ چند بنیادیں ہیں،جو علامہ قرضاوی کے سیاسی مسائل میں غور وفکر کی محور ہیں۔
ایک اہم مضمون ڈاکٹرہبہ رؤوف عزت کا ہے،جس کا ترجمہ مرتب نے ’خواتین سے متعلق علامہ قرضاوی کے افکار کامطالعہ‘ کے عنوان سے کیا ہے۔اس مضمون میں علامہ قرضاوی کے ان افکار وخیالات کو پیش کیا گیا ہے جو انھوں نے معاصر مسلم خواتین کے مسائل سے بحث کرتے ہوئے ظاہر کیے ہیں۔مضمون میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ علامہ قرضاوی جب خواتین کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں،تو سب سے پہلے وہ ایک انسان اور ایک خاتون کےطور پر خواتین کے مطلوبہ رول اور ان کے دائرۂ کار سے متعلق اسلامی تصور کی مختلف جہتوں کا تعین کرتے ہیں۔ پھر ان کے جو حقوق اور ان کی ذمے داریاں ہیں،ان پر بحث کرتے ہیں۔مضمون نگار کا ماننا ہے کہ خواتین کی شخصیت اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ اسی وقت تکمیل پاتی ہے ،جب وہ قرآنی آیات،احادیث نبوی،امہات المؤمنین اور صحابیات رسول کی زندگیوں سے میل کھاتی ہو۔اورعلامہ قرضاوی یہی کرتے ہیں کہ ان تمام دلائل کو تفصیل سے بیان کرکے اپنے مضبوط عقلی اصولوں کے ذریعے مقاصد شریعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عورت کی شخصیت کی ایک مثالی تصویر پیش کرتے ہیں، جس میں وہ عورت کے خاندانی کردار پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔
اسلامی حلقوں میں خواتین کے تعلق سے جو سخت گیر موقف پایا جاتا ہے،علامہ کے نزدیک بنیادی طور پر اس کے دو اسباب ہیں:یا تو اکثر لوگ ان شرعی نصوص سے ناواقف ہوتے ہیں جن نصوص میں مشکل کے مقابلے میں آسانی فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے،یا جن نصوص کو وہ جانتے ہیں ان کے سلسلے میں سوئے فہم کا شکار ہوتے ہیں،وہ ان سے بے محل استدلال کرتے ہیں۔اس لیے وہ خواتین سے متعلق افراط اور تفریط دونوں رویوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے عورتوں کو نہ تنگی ڈالنے کے حق میں ہیں،نہ ہی ان کو مغربی معاشرے کی طرح آزاد چھوڑ دینے کے قائل ہیں۔
ایک اہم مضمون ’فکر اسلامی کا نقیب،علم وتفقہ کا نشان امتیاز‘ کے عنوان سے مولانا مجیب الرحمن عتیق ندوی کا ہے۔ یہ مضمون اپنے طرز بیان اور حسن انشا کے لحاظ سے بڑا ممتاز ہے۔ اس میں علامہ قرضاوی کے اوصاف وکمالات کا قدرے تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے ان کے کام کے دومیدانوں: علم وتفقہ اور فکر اسلامی کو ان کا نشان امتیاز قراردیاگیا ہے۔سچی بات یہی ہے کہ فقہ اسلامی اور فکر اسلامی کی آبیاری میں شیخ قرضاوی نے اپنے خون جگر کا نذرانہ جس فیاضی سے پیش کیا ہے،وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔ مولانانے اپنے اس فاضلانہ مضمون میں علامہ کی حق گوئی وبے باکی کے نمونے بھی پیش کیے ہیں،ساتھ ہی وقت کے مشائخ ومعاصرین کی نگاہ میں ان کی جوقدر ومنزلت تھی،اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔مضمون کا وہ حصہ جو ان کی قید وبند کی صعوبتوں سے متعلق ہے، آنکھوں کو پرنم اور دلوں کو پر غم کردیتا ہے۔
’علامہ قرضاوی اور مسلم دنیا کے مسائل‘ کے عنوان سے شامل مضمون بھی بڑا جامع اور مفید ہے۔ مضمون نگار مولانا اشتیاق عالم فلاحی(مقیم دوحہ قطر) نے اپنے اس مضمون میں علامہ قرضاوی کی خدمات کے وسیع دائرے میں ایک ایسی خدمت کو موضوع بنایا ہے جو امت کے مسائل میں رہنمائی اور عالم اسلام کے متعدد مسائل میں ان کے اجتہادی اور مجاہدانہ کردار سے متعلق ہے۔ اسی ضمن میں انھوں نے علامہ قرضاوی کی جانب سے مسئلۂ فلسطین اور تحفظ مسجد اقصی کے سلسلے میں کی جانے والی مادی اور سیاسی کوششوں کے ساتھ ان کی قلمی ولسانی جدو جہد کا بھی تذکرہ کیا ہے۔مسلم دنیا کے مسائل کےذیل میں مضمون نگار نے عرب بہاریہ تحریک کے موقع پرعلامہ قرضاوی کے کردار کا بھی ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے کہ اس وقت جب کہ اچھے اچھے علما عوامی جد وجہد کی حوصلہ شکنی اور ظالم حکمرانوں کی تائید میں کھڑے تھے، علامہ پوری قوت کے ساتھ انقلاب پسند عوام کے ساتھ کھڑےتھے۔ مسلم دنیا کے یہی دو مسائل نہیں تھے جن سے علامہ نے دلچسپی لی؛بلکہ اس کے علاوہ عالم اسلام کے جملہ مسائل پر انھوں نے اپنی رائے پیش کی اور موقع بہ موقع اپنا کردار بھی ادا کیا۔
مولانا صابر حسین ندوی نے ’علامہ قرضاوی اور اخوان‘ کے عنوان سے ایک مختصر اور چشم کشا مضمون لکھا ہے،جس میں علامہ کی تحریکی زندگی کا اخوان المسلمون کے حوالے سے جائزہ لینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ابتدا ہی میں علامہ قرضاوی حسن البنا شہیدؒ کی شخصیت اور دعوت سے کس طرح متاثر ہوئے،اور پھر کس طرح ان کے دست وبازو بن کر کھڑے ہوگئے۔ان کے انتقال کے بعد ان کی فکر کے فروغ میں کسی طرح اپنی جدو جہدکا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر رکھ دیا ۔اور اس راہ میں آنے والی صعوبتوں کو کس طرح خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ مضمون کا وہ حصہ بڑا عبر ت انگیز ہے جس میں کبائر علما کونسل کے فتوی کی روشنی میں پاسبان حرم نے اخوان پر یہ الزام لگا یا کہ یہ تنظیم دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کی پناہ گاہ ہے؛اس لیے اس پر پابندی لگنی چاہیے۔
ایک بڑا دلچسپ،خوب صورت اور معلومات افزا مضمون وہ ہے جو مولانا محمد نوشاد نوری قاسمی کے قلم سے نکلا ہے،جس کا عنوان ہے: ’علامہ قرضاوی: مشاہیر امت کی نظر میں‘۔اس مضمون میں نے انھوں نے مشاہیر امت کے ان قیمتی تأثرات کو جمع کردیا ہے ، جن کا اظہارانھوں نے علامہ قرضاوی کے بارے میں مختلف وقتوں میں کیا ہے۔کسی شخصیت کی مرتبہ شناسی کا ایک اہم ذریعہ اس کے مشائخ، معاصرین اور اہل تعلق کے تأثرات بھی ہوا کرتے ہیں،جن سے شخصیت کے مختلف گوشوں پر اچھی روشنی پڑجاتی ہے۔ شیخ کے بارے میں جن مشاہیر نے اپنے تأثرات کا اظہار فرمایا ہے،ان میں شیخ عبدالفتاح ابو غدہ،شیخ مصطفی زرقاء،شیخ ابوالحسن علی حسنی ندوی،شیخ محمد غزالی مصری،مفتی محمد تقی عثمانی،مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی ندوی،شیخ عبداللہ بن عمر نصیف،شیخ عبداللہ العقیل قابل ذکر ہیں۔ ان علمی اور قد آور شخصیات کے نام سے ہی ان کے گراں قدر تاثرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
(ان حضرات کے تأثرات جاننے کے لیے دیکھیے:کتاب ہذا،صفحہ:۱۸۸-۱۶۷)
مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے ” اپنے دور کے مجتہدومجدد” کے عنوان سے ایک بڑا شاندار اور طاقت ور مضمون لکھا ہے، جس میں علامہ قرضاوی کے مجتہدانہ مقام اور مجددانہ شان کو ان کی ایک تحریر کی روشنی میں بڑی خوب صورتی سے واضح کیا گیا ہے۔مولانا نے علامہ سے اپنے دیرینہ تعلقات کا بھی تذکرہ کیا ہے،اور علامہ کے الطاف وعنایات سے بہرہ ور ہونے کی کہانی بھی سنائی ہے۔جس سے مولانا کے مقام ومرتبے اور ان کی عظمت وبلندی کا بھی پتہ چلتا ہے۔مولانا سید سلمان حسینی ندوی خود دور حاضر کے بڑے خطبا میں ہیں۔عربی اردو دونوں زبانوں میں ان کی طلاقت لسانی کا ان کے حریف بھی قائل ہیں؛لیکن انھوں نے علامہ قرضاوی کی فصاحت وبلاغت اوران کی ساحرانہ خطابت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کی خطابت کے روشن آفتاب کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔
علامہ قرضاوی کی تقریر وتحریر کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے امام حسن البنا کے دعوتی اخلاص،اعتماد اور ایمانی طاقت،مولانا مودودی کی علمی تحقیقات،مباحثے کی قوت،استدلال کی منطقیت اور اسلوب کی دل پذیری، اور مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کہ نگہ بلند،سخن دل نواز،جاں پرسوزکو اپنی علمی وادبی وجود کا پیکر بنالیا تھا،جس کے نتیجے میں ان کی کتابت وخطابت کو وہ شہرت ملی ،جو دوسروں کو نہ مل سکی۔
اس کتاب میں پروفیسر محسن عثمانی ندوی کا بھی ایک خوب صورت مضمون موجود ہے۔ عنوان ہے :” یوسف گم گشتہ:علامہ یوسف القرضاویؒ”۔اس مضمون میں علامہ قرضاوی کی جدوجہد سے بھرپور زندگی کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے۔اس میں علامہ قرضاوی کے کمالات کاپوری فراخ دلی سے اعتراف کیا گیا ہے۔صاحب مضمون کے بقول علامہ قرضاوی کا علم یک رخی اور یک فنی نہیں تھا،ان کی نگاہ پورے اسلامی ذخیرے پر تھی۔وہ ملکی اور عالمی حالات سے مکمل باخبر رہنے والے عالم تھے۔ وہ نہ شرقی تھے نہ غربی۔ان کی خدمات کا دائرہ عالمی تھا،یہی وجہ ہے کہ ان کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے درمیان جو محبوبیت ملی وہ شاہان کج کلاہ اور سلاطین عالم پناہ کو بھی نہ مل سکی۔
علامہ قرضاوی کی وسعت نظری،وسعت قلبی اور شان اجتہاد کے تذکرے کی ضمن میں ہندوستان کے علما اور اصحاب افتا پر ان کا قلم سخت اور لہجہ تند ہو گیا ہے،جو عقل کی بجائے صرف نقل سے کام لے کر مسلکی جمود سے سر مو انحراف گوارا نہیں کرتے ۔انھوں نے ان امرا اورعلما پر بھی شدید تنقید کی ہے جنھوں نے علامہ کو ذہنی اور جسمانی صعوبتوں اور اذیتوں سے دوچار کیا۔انھوں نے لکھا ہے کہ مستقبل میں جب کوئی مؤرخ علامہ قرضاوی کے حالات پر کتاب لکھے گا،ان کے کارناموں کو سامنے لائے گا،تو ان سیاہ بخت اور سیاہ رو اشخاص کا بھی تذکرہ کرے گا جنھیں یوسف القرضاوی سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ان کےمخالفین کو اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا جائے گا؛بلکہ ان کو حزب الشیطان سمجھا جائے گا۔
انھوں نے یوسف گم گشتہ کے پس منظر میں یہ بات لکھی کہ مصر میں سیاست کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں رہی جو حضرت موسی کے بجائے فرعون کے ہم فکر اور ہم خیال تھے،جس کی بنا پر انھیں مصر سے ہجرت کرنی پڑی۔
’علامہ یوسف القرضاوی کی یاد میں‘۔ا س عنوان سے مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کا ایک تأثراتی مضمون بھی شامل کتاب ہے،جس میں انھوں نے علامہ کی تحریکی اور دعوت وعزیمت سے بھرپور زندگی کا نقشہ کھینچا ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ شیخ قرضاوی کا امام حسن البنا شہید اور مولانا مودودی سے تعلق ایک مرشد ورہنما کا تھا۔یہی وجہ ہے کہ دونوں کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا شیخ قرضاوی کے لیے بڑا صبر آزما تھا۔مولانا نے علامہ قرضاوی کے امتیازات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا امتیاز صرف یہ نہیں ہے کہ وہ علمی اور فکری کتابوں کا ایک بیش بہا ذخیرہ چھوڑ گئے؛بلکہ ان کا امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پیچھے اپنے ارشد تلامذہ کی ایک بڑی فوج چھوڑگئے جو دنیا بھر میں علم کی قندیلیں روشن کیے ہوئے ہیں اور باطل افکار سے نبرد آزما ہیں۔
اس کتاب کا سب سے طویل، طاقت ور اور کلیدی مضمون وہ ہے جو ” امت مسلمہ کے لیے دھڑکنے والا دل خاموش ہوگیا” کے عنوان سے ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی کے قلم سے نکلا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس مضمون میں دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ علامہ قرضاوی کی علمی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر جس قدر شرح وبسط کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ علامہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے وہ کافی ہے۔مضمون میں ان سے اپنی محبت وعقیدت کا اظہار بھی ہے،اور ان کی وفات پر داغ یتیمی کا احساس بھی۔ان کی پرکشش اور کثیر الجہات شخصیت کے تعارف میں جو کچھ لکھا ہے،وہ ڈاکٹر صاحب ہی کا حصہ ہے۔ڈاکٹر صاحب نے علامہ کی زندگی کے مختلف مراحل ،ان کے امتیازی اوصاف،فکری توسع،ان کی جرأت وبے باکی،ان کی قلمی ولسانی جدوجہد، مسئلۂ فلسطین سے ان کے قلبی تعلق،ان کے فقہی منہج،اعتدال وتوازن، تصوف اور خواتین سے متعلق ان کے موقف،اور ان کے مجددانہ مقام اور مجتہدانہ شان کے حوالے سے جس طرح مفصل ومرتب گفتگو کی ہے،وہ ان کے تجزیاتی قلم کا شاندار نمونہ ہے۔
علامہ قرضاوی کی شخصیت کا حسن ان کی جامعیت میں پوشیدہ ہے۔ایسی جامع اور ہمہ جہت شخصیت متقدمین میں علامہ ابن تیمیہ ؒکی نظر آتی ہے۔حسن اتفاق کہ علامہ قرضاوی اور علامہ ابن تیمیہ:دونوں کی زندگیوں میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں انقلابی فکر کے حامل رہے۔ دونوں نے اپنے اپنے وقتوں میں فقہی وفکری جمود پر کاری ضرب لگائی۔دونوں نے فقہ المقاصد کے باب میں بنیادی کام کیا۔ دونوں نے دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا۔دونوں نظریاتی مخالفین کی چیرہ دستی کا شکار ہوئے اور قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں۔اسی طرح تبحر علمی،فکری وسعت اور اظہار حق کی جرأت دونوں کا نشان امتیاز تھی۔
علامہ قرضاوی کے فکر وفلسفہ،فقہ واستدلال،ملی شعور،معاصر حالات پر نظر،حق گوئی وبے باکی، اخلاص وللہیت، وسطیت واعتدال اور ان کی مجاہدانہ زندگی کو مختصر طور پر سمجھنے کے لیے یہ مضمون مرجع اور سند کا درجہ رکھتا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے کا عنوان ہے’منتخبات قرضاوی کے اردو تراجم‘۔ اس حصے میں شامل مضامین کے عناوین کچھ اس طرح ہیں:
علامہ قرضاوی کی علمائے امت کے نام آخری وصیت (ترجمہ:ابوالاعلی سید سبحانی)
اپنی مظلوم بیٹی کے نام علامہ قرضاوی کا خط (ترجمہ: محی الدین غازی)
قصیدۂ نونیہ کے منتخب اشعار کا ترجمہ (ترجمہ: مولانامحمد فرید حبیب ندوی)
بین مذہبی مذکرات کا قرآنی منہج اور گلو بلائزیشن کے دور میں دعوت کے تقاضے (ترجمہ: مولانا محمد اعظم ندوی)
وہ اصلاح جو ہمیں مطلوب ہے(ترجمہ: مولانا محمد خالد ضیا صدیقی ندوی)
ضعیف اور موضوع احادیث کا فتنہ (ماہنامہ الشریعہ،ستمبر2004)
تحریک اسلامی کے لیے انمول مشورے (ماہنامہ زندگی نو،نومبر2022)
تجدید واجتہاد سے گریز (ترجمہ: منیر احمد خلیلی)
اس طرح متنوع علمی حیثیوں اور مختلف انداز فکر کی حامل شخصیتوں کے گراں قدر مضامین سے مالا مال یہ مجموعہ علامہ قرضاوی کی پایہ شناسی کے حوالے سے ایک جامع ، قابل قدراور مفید مجموعہ بن گیا ہے۔ اس اہم مجموعے کی نفیس اور دیدہ زیب اشاعت پر مرتب کتاب ابوالاعلی سید سبحانی صاحب علم دوست حضرات کی طرف سے شکریے اور قدردانی کے مستحق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کتاب : علامہ یوسف القرضاویؒ
ترتیب : ابوالاعلی سید سبحانی
صفحات : ۲۷۲
اشاعت : ۲۰۲۲ء
قیمت : ۳۰۰
ناشر : ہدایت پبلشرز اینڈ
ای میل: [email protected]
فون: 09891051676
29 دسمبر, 2022
اس کہانی کا اختصار یہ ہے کہ ایک نوجوان نے اپنے ‘دیار شوق’ سے دیار غیر کی طرف ہجرت کی تھی۔ اس ترک سکونت کو ہوئے دو دہائیوں سے زیادہ بیت چکی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے دوحہ قطر پہنچا وہ نوجوان اب اپنے لئے ایک دلکش دنیا تعمیر کر چکا ہے لیکن۔۔۔ان سب کے باوجود نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ عزیز نبیل کی شاعری میں ان کی وہ ہجرت، وہ سفر ٹھہر گیا ہے۔ عزیز نبیل کے دوسرے شعری مجموعے ‘آواز کے پر کھلتے ہیں’ کو اگر میں اس ہجرت کی تفصیل کہوں تو شائد کچھ ایسا بے جا بھی نہ ہو۔
یہ کس زمیں کی کشش کھینچتی ہے میرے قدم
یہ کون لوگ بلاتے ہیں مجھ کو اپنی طرف
نئے جہانوں کے خواب آنکھوں میں پل رہے ہیں
نئے ستارے پرانے رستے بدل رہے ہیں
کچھ تو ایسا تھا کہ بنیاد سے ہجرت کر لی
خاک یونہی تو نہیں اپنے وطن سے نکلی
ہجر، ہجرت، سفر، مسافرت، سامان سفر، پردیس اور فرقت جیسے حوالے غزل کے لئے اجنبی نہیں ہیں لیکن عزیز نبیل نے انہیں کسی اور حادثے کا استعارہ بنانے کے بجائے ان کے اصل پس منظر کے ساتھ ہی اپنی شاعری کے لئے منتخب کر لیا ہے۔ اس طرح دونوں کام ہو گئے۔ دل پر جو کچھ گزرا اس کا بیان بھی ہو گیا اور غزل کا مخصوص لب و لہجہ بھی برقرار رہا۔
اک منظر حیرت میں فنا ہو گئیں آنکھیں
آئے تھے کسی موسم دیدار میں ہم لوگ
اٹھا کر لے گئی ہم کو روانی پانیوں کی
کناروں کی تھکن میں جذب تھی ہجرت ہماری
ہم جس ماحول کے پروردہ ہیں وہاں ہجرت اذیت بھی ہے اور ضرورت بھی۔ ہم دھان کی فصل کا پنیر نہیں کہ جہاں چاہا اگایا اور جس جگہ دل کیا، لے جاکر روپائی کر دی۔ ہم تو وہ پودھے ہیں جنہیں اگر اکھاڑا گیا تو، یا تو جڑوں کے بہت سے حصوں نے کٹ جانا قبول کر لیا، لیکن مٹی کی گود نہیں چھوڑی، یا پھر ہماری مٹی ہی جڑوں سے لپٹی لپٹی پودھے کے ساتھ آ گئی۔ ایسی روایتوں کے قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے کیا ہجرت سے بھی زیادہ صبر آزما کوئی منزل ہو سکتی ہے؟ آپ ہی فیصلہ کیجئے۔ اب اگر عزیز نبیل کی شاعری میں جڑوں سے لپٹی مٹی کی خوشبو جابجا ملے تو حیرانی کیسی؟
بہتا ہوں میں دریا کی روانی سے کہیں دور
اک پیاس مجھے لائی تھی پانی سے کہیں دور
بجھ چکے راستے، سناٹا ہوا، رات ڈھلی
لوٹ کر ہم بھی چلے جائیں مگر گھر بھی تو ہو
کہیں بھی جاتا ہوں گھر ساتھ ساتھ چلتا ہے
عجب طرح کا تعلق ہے گھر سے لپٹا ہوا
عزیز نبیل کو پڑھنا اوروں کے لئے کیسا تجربہ ہے، یہ وہ جانیں مگر میرے لئے ان کی شاعری سے گزرنا اس زخم کی ٹیس کی طرف دھیان دینے جیسا ہے، جس کی تکلیف سے بچنے کے لئے ہم بڑی مشکل سے اس کی طرف سے ذہن ہٹائے بیٹھے تھے۔ ابھی اذیتوں کا یہ ابر ذرا بہت سا چھٹا ہی تھا کہ عزیز نبیل کی شاعری کی آواز کے پر کھلے اور سب کچھ پھر سے جل تھل ہو گیا۔
ہم نے دیہات سے بڑے شہر کی طرف ہجرت کو اپنا مقدر بنتے دیکھا تو بہت سے ایسے بھی تھے جنہیں مسافرت کی آندھی سرحدوں اور سمندروں سے دور لے گئی۔ ہم سب کے سب آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجائے گھروں سے نکلے، ہم سب کی گٹھڑیوں میں اپنی زمین چھوڑنے کی ایک سی کسک بندھ کر ساتھ آ گئی تھی۔
موہوم ساحلوں کے تحیر میں گم نبیل
ہم رک گئے جہاں بھی کنارہ ہوا نصیب
میاں تم کیا خریدوگے ہمارے خواب، جاؤ!
لگا سکتے نہیں نیندوں کی بھی قیمت ہماری
نشان راہ نہ ہو، سایۂ شجر بھی نہ ہو
جنوں تمام نہ ہو، راہ مختصر بھی نہ ہو
‘آواز کے پر کھلتے ہیں’ کی رفاقت نے مجھے دیہات سے شہر کی طرف اپنی ہجرت کی یاد تو دلائی ہی، یادوں کی بستی کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پٹ بھی کھول دیئے۔ میں اپنے بچپن اور بستی میں جا نکلا، جہاں میں نے جوان ہوتی نسل کو پردیس روانہ ہوتے اور ادھیڑ ہوتی نسل کو پردیس چھوڑ کر آتے دیکھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی کوئی بدیس سدھارتا تو اس کا ایک بڑا تھیلہ تو ان خطوط سے بھر جاتا، جو پردیس میں پہلے سے رہ رہے لاڈلوں کے نام تھے۔ اشک آلود روشنائی سے لکھی ان چٹھیوں میں سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ یہ جملہ بار بار لکھا ملتا کہ ‘ہم سب تمہیں بہت یاد کرتے ہیں’۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ تو کہانی ایک حصہ ہوا، اس وقت کا کیا جب ان خطوں کو وصول کرنے والے، پردیس کے اپنے کمروں میں انہیں کھولا کرتے ہوں گے؟۔ کیا ان کی آنکھوں پر جھلملاتے آنسو انہیں آسانی سے پورا خط پڑھنے دیا کرتے ہوں گے؟۔
زندگی کی اس ‘ہجرت’ نامی واردات کو عزیز نبیل کی غزلوں کے آئینہ میں پڑھنا، ایک بے کلی کو مول لینے جیسا ہے۔ یہ شاعری اپنے قاری کو احساسات اور یادوں کے نگر میں جا چھوڑتی ہے۔ وہاں بیٹے کو قرآن کے نیچے سے گزارتی ماں ہے، بھائی سے فون پر بات کرتی بہن ہے، دھیمی آواز میں اپنے شوہر سے یاد آنے کی بات کہتی بیوی ہے، ہوائی اڈے پر بیٹے کو اچانک سامنے دیکھ کر بچوں کی طرح روتا بوڑھا باپ ہے، بھائی کو سلواکر بھیجنے کے لئے کپڑا خریدتا بھائی ہے۔ ان سب کے احساسات شعر کا فقط ایک مصرع ہیں، اس شعر کو مکمل کرنے کے لئے دوسرا مصرع بھی تو چاہئے۔ وہ مصرع چاہئے، جو ہجرت کرنے والے اس شخص کے احساسات سے عبارت ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ عزیز نبیل کی پوری شاعری شعر کو پورا کرنے والا وہی دوسرا مصرع ہے۔ اس موضوع پر کہنے کو میرے پاس بھی کئی باتیں ہے اور عزیز نبیل نے تو خیر اپنی شاعری میں اس عنوان کا حق ہی ادا کر دیا ہے، لیکن احساسات کے نازک تار زیادہ چھیڑے جائیں تو ان کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ بنا رہتا ہے، اس لئے عزیز نبیل کے دو شعر سناکر چپ ہو جانا ہی ٹھیک ہے۔
ہاتھ خالی نہ تھے جب گھر سے روانہ ہوا میں
سب نے جھولی میں مری اپنی ضرورت رکھ دی
نبیل ریت میں سکے تلاش کرتے ہوئے
میں اپنی پوری جوانی گنوائے بیٹھا ہوں
محسنہ قدوائی کا زندگی نامہ:آزاد ہندوستان کے چھ عشروں کی سیاسی روداد-نایاب حسن
ہندوستانی دانش ،ثقافت و سیاست کی تاریخ کے مختلف ادوار میں متعدد خاندانوں کی اہم خدمات رہی ہیں، انھی میں سے ایک بارہویں صدی میں ترکی سے ہندوستان ہجرت کرکے آنے والے قدوۃ العلما قاضی معزالدین کی اولاد و احفاد کا خانوادہ بھی ہے۔ان میں بے شمار اہلِ علم و فضل ہوئے،جنھوں نے گراں قدر علمی، ثقافتی و سیاسی کارنامے انجام دیے۔مفتی مظہر کریم (وفات:۱۸۷۲ء) اسی خاندان کے جید عالم و مفتی تھے، جو ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف فتواے جہاد دینے والے علما میں شامل تھے، جس کی پاداش میں دیگر بہت سی شخصیات کے ساتھ انھیں بھی کالاپانی کی سزا ہوئی تھی۔ممتاز مجاہد آزادی رفیع احمد قدوائی کا تعلق بھی اسی خانوادے سے تھا۔بعد کے دنوں میں بھی تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کے کئی روشن ستارے اس خاندان کی مختلف شاخوں سے چمکے ،آج بھی کئی قدوائی اشخاص علم و نظر اور فکر و فن کی قندیلیں جلائے ہوئے ہیں۔ سینئر کانگریسی لیڈر اور یوپی و مرکزی حکومت میں متعدد وزارتوں پر فائز رہ کر ملک کی خدمت کرنے والی محسنہ قدوائی کا تعلق اسی قدوائی خاندان سے ہے، ممتاز عالم دین،مفسر و انشاپرداز مولانا عبدالماجد دریابادی محسنہ قدوائی کے والد قطب الدین صاحب کے چچا تھے اور اس طرح وہ محسنہ صاحبہ کے دادا ہوتے تھے۔
محسنہ قدوائی ۱۹۶۰ سے اب تک کی ہندوستانی سیاست کا اہم ایکٹیو حصہ رہی ہیں ، کانگریس کے بزرگ ترین اور تجربہ کار لیڈروں میں ان کا شمار ہے، کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ممبر اور ان دنوں چھتیس گڑھ کے رائے پور سے راجیہ سبھا کی ممبر ہیں۔ کم و بیش نوے سال کی قد آور خاتون سیاست داں کی خود نوشت سوانح اکتوبر ۲۰۲۲ء میں انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب اپنے مواد کے اعتبار سے نہایت پر لطف ہے اور اس کے مطالعے سے نہ صرف محسنہ قدوائی کی تقریباً ساٹھ سالہ سرگرم سیاسی و سماجی زندگی کی رو داد سے آگاہی ہوتی ہے؛ بلکہ اس طویل عرصے میں یوپی اور مرکزی حکومتوں کی بہت ساری کارکردگیوں، اس دوران رونما ہونے والی سیاسی اتھل پتھل، بہت سے اہم اور تاریخی ،سیاسی و سماجی سانحات، اس دورانیے میں قومی سطح پر ابھرنے والے درجنوں لیڈروں اور دیگر شخصیات وواقعات کے ان پہلووں سے بھی ہمارا سامنا ہوتا ہے، جن کے بارے میں اب تک ہمیں یا تو بہت زیادہ علم نہیں تھا یا اس علم کا زاویہ کچھ اور تھا۔ محسنہ قدوائی نے ۱۹۶۰ء میں حادثاتی طور پر محض اٹھائیس سال کی عمر میں ریاستی قانون ساز کونسل کی ممبر کی حیثیت سے میدانِ سیاست میں قدم رکھا اور ۱۹۷۸ء میں اعظم گڑھ سے ۳۶۰۰۰ ووٹوں کے فرق سے لوک سبھاکے ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے نہ صرف ایمرجنسی کی مار جھیل رہی کانگریس کو یوپی میں نئی زندگی دی؛ بلکہ وہیں سے خود ان کا سیاسی قد بھی دراز ہونا شروع ہوا، جو بعد میں دراز تر ہوتا چلا گیا۔ انگریزی میں ان کی یہ دلچسپ خود نوشت My Life in Indian Politics کے نام سے ہارپر کالنز سے چھپی ہے، جبکہ اس کا اردو ترجمہ براؤن بک پبلی کیشنز علی گڑھ سے شائع ہوا ہے۔ اس کے راوی قدوائی خاندان ہی کے ایک نامور فرد ، سینئر صحافی ، سونیا گاندھی سمیت متعدد سیاسی شخصیات کے سوانح نگار، مشہور انگریزی اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ کے سابق ایسوسی ایٹ ایڈیٹراورکالم نگار و تجزیہ کار رشید قدوائی ہیں۔ انگریزی میں یہ طریقہ بہت دنوں سے رائج ہے کہ کوئی بڑی شخصیت اپنا زندگی نامہ کسی قابلِ اعتماد صاحبِ قلم کو نقل کرواتی ہے یا وہ اپنا احوال اسے سنادیتی ہے اور وہ صاحبِ قلم کتابی شکل میں اس کی جمع و ترتیب کا کام انجام دیتا ہے۔ اردو میں ایسی مثالیں شاذ ہیں، ایک مثال مولانا ابوالکلام آزاد کی پیش کی جاسکتی ہے، جنھوں نے اپنی رودادِ حیات جستہ جستہ اپنے ایک معتمد رفیق مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کو نقل کروائی تھی ، جو انھوں نے ’آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی‘ کے نام سے ۱۹۵۸ء میں مولانا کی وفات کے بعد شائع کروائی تھی۔
محسنہ قدوائی کی یہ خود نوشت اردو میں ’ ہندوستانی سیاست اور میری زندگی‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے سات سیکشنز /حصے ہیں، جن میں انھوں نے اپنی بیتی بیان کی ہے۔ پہلا حصہ ہے’کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے‘ ،اس میں انھوں نے اعظم گڑھ کے ضمنی انتخاب میں اپنی کامیابی اور اس کے پس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ دوسرا حصہ ہے’مستقبل کا فلیش بیک‘، اس میں انھوں نے ذرا تفصیل سے اپنی سیاسی وابستگی کی کہانی، جواہر لال نہرو سے پہلی ملاقات، یوپی کانگریس کی صدارت، ایمرجنسی کی وجہ سے کانگریس سرکار کے خاتمے کے بعد دوبارہ اندرا گاندھی کو اقتدار میں لانے کے لیے ان کی اور دیگر کانگریسی رہنماؤں کی کوشش وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ اس حصے میں اندرا گاندھی کے ایمرجنسی کے فیصلے کو انھوں درست قرار دیا ہے، حالاں کہ ان کا ماننا یہ بھی ہے کہ اسے ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں صحیح سے نافذ نہیں کیا گیا ، جس کا کانگریس کو نقصان ہوا۔ اسی طرح خاندانی منصوبہ بندی سکیم کانگریس کے دیگر متعدد ترقیاتی سکیموں کی ایک شق تھی، جسے ان کے مطابق سنجے گاندھی نے دور اندیشی سے کام لیے بغیر شہروں اور دیہاتوں میں یکساں طورپر آزمانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے کانگریس کو سخت عوامی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا اور سنگھ نے عوامی غم و غصے کو بڑی خوبی سے استعمال کرلیا۔ تیسرا حصہ ’یہ سب کیسے شروع ہوا؟‘ کے عنوان سے ہے، اس میں انھوں نے اپنا خاندانی بیک گراؤنڈ بتانے کے ساتھ اپنی سیاسی سرگرمیوں اور خصوصاً ستر کی دہائی میں کانگریس پارٹی میں ابھرنے والی گروہ بندیوں پر قدرے تفصیل سے لکھا ہے، اس میں انھوں نے متعدد صفِ اول کے کانگریسی رہنماؤں کی نفسیات، سیاسی توڑ جوڑ اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے مختلف غیر اخلاقی حربے اختیار کیے جانے کی جھلکیاں بھی پیش کی ہیں۔ چوتھا حصہ ہے’بیٹیاں اور دیگر یادیں‘ اس میں انھوں نے ایک ماں کی حیثیت سے اپنی بیٹیوں کی تربیت اور خود ان کے تعلق سے ان کے تاثرات وغیرہ کے ذکر کے ساتھ اپنی سیاسی زندگی کے اہم تجربات، غیر ملکی دوروں اور اندرا گاندھی کے قتل کیے جانے کے بعد راجیوگاندھی کی سرکار میں اپنی وزارت کے تجربات شیئر کیے ہیں۔ پانچواں حصہ ہے’ہندوستانی سیاست کا سفر‘ اس میں انھوں نے آزادی کے بعد سے لے کر عصرِ حاضر تک ہندوستانی سیاست میں رونما ہونے والے تغیرات، اتار چڑھاؤ، انقلابات اور اہم واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے خصوصاً فرقہ وارانہ سیاست کے ابھرنے اور پنپنے کے اسباب و وجوہات پر بھی گفتگو کی ہے۔ چھٹے حصے میں انھوں نے اپنے پارلیمانی حلقے میرٹھ میں اپنی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے اسی کی دہائی میں وہاں رونما ہونے والے بدترین فرقہ وارانہ فساد اور ہاشم پورہ و ملیانہ کے انسانیت کش سانحات پر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ان واقعات کو روکنے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو دور کرنے کی بے پناہ کوشش کی، مگر فرقہ پرست طاقتوں کے ساتھ خود مقامی کانگریسی لیڈران بھی اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ماحول کو زہر آلود کرنے میں ملوث تھے، جس کی وجہ سے میرٹھ میں پے درپے متعدد فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے۔ ہاشم پورہ سانحے پر سابق ڈی جی پی آف اترپردیش ، ہاشم پورہ سانحے کے زمانے میں غازی آباد کے پولیس کپتان اور بعد میں اس واقعے کو منظر عام پر لانے اور عدالت تک پہنچانے میں پیش پیش رہنے والے وبھوتی نارائن رائے کا ورژن بھی قابلِ توجہ ہے، جسے انھوں نے اپنی کتاب ’ہاشم پورہ: ۲۲ مئی‘ میں تفصیل سے پیش کیا ہے، جو انگریزی میں ۲۰۱۶ء میں اور اردو میں ۲۰۱۸ء میں شائع ہوئی ہے۔
محسنہ قدوائی نے اُن دنوں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کا قدرے احتیاط، مگر خاصی دیانت داری سے تجزیہ کیا ہے اور فرقہ وارانہ سیاست کے ابھرنے کی وجہ سے ان کی پارٹی یا خود ان کی اپنی سیاسی ساکھ کو جو نقصان پہنچا، اس کی طرف اشارے کیے ہیں۔ اسی حصے میں انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد کانگریس پارٹی میں تنظیم کی سطح پر اپنی سرگرمیوں کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے مختلف ریاستوں مثلاً پنجاب، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، منی پور، آسام، میگھالیہ، ہماچل پردیش، بہار اور ہریانہ وغیرہ میں پارٹی کی تنظیم و استحکام کے سلسلے میں اپنی کارکردگی کا احوال بیان کیا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں یوپی اے سرکار نے انھیں مرکزی حج کمیٹی کی سربراہ بنایا تھا، اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے حج کمیٹی کو کو فعال رکھنے اور حاجیوں کی سہولت وغیرہ کے لیے جو اقدامات کیے ، ان کا ذکر ایک مستقل عنوان کے تحت کیا ہے۔ کتاب کا آخری حصہ ’ساتھی اور مخالفین‘ کے عنوان سے ہے اور بہ ایں طور معنی خیز ہے کہ اس میں انھوں نے اپنی طویل سرگرم سیاسی زندگی کے کچھ اہم رفیقوں، راہِ عمل میں ملنے والے دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں اور سیاست دانوں کے تعلق سے اپنے تجربات شیئر کیے ہیں ۔ اس کے مطالعے سے ان سیاست دانوں کی شخصیت و کردار کی دلچسپ پرتیں سامنے آتی ہیں۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی تو سرکاروں میں وہ وزیر رہیں ؛اس لیے کتاب کے گزشتہ ابواب میں انھوں نے ان دونوں کے تئیں اپنے جذبات و احساسات اور تجربوں کا بھرپور اظہار کیا ہے، جبکہ اِس حصے میں سونیا گاندھی،ملائم سنگھ یادو،این ڈی تیواری،منموہن سنگھ،پرنب مکھرجی،احمد پٹیل، لالو پرساد یادو،ارجن سنگھ، مادھو راؤ سندھیا، راجیش و سچن پائلٹ،جتندرپرساد، وی پی سنگھ، چندر شیکھر، ایچ ڈی دیوے گوڑا، اندر کمار گجرال اور آخر میں اروند کیجریوال اور ان کی ’عام آدمی پارٹی‘ کے تعلق سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
الغرض مجموعی طورپر یہ کتاب خاصی دلچسپ ہے، اس میں نہ صرف خود محسنہ قدوائی کی سیاسی زندگی کے مناظر بکھرے ہوئے ہیں؛ بلکہ تقریباً چھ عشروں کی ہندوستانی سیاست/ سیاست دانوں کے بھی رنگارنگ چہروں سے بھی ہمارا تعارف ہوتا ہے۔ جتنے سیاست دانوں کا اس کتاب میں ذکر ہے، تقریباً سبھی ہمارے لیے جانے پہچانے ہیں، مگر ان کے بارے میں ہماری معلومات جو کچھ ہیں، اس کتاب کے مطالعے سے ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ واقعات کے تجزیے میں عموماًٰ انھوں نے خاصا محتاط رویہ اختیار کیا ہے اور شعوری طور پر یہ کوشش کی ہے کہ کانگریس پارٹی یا ہندوستانی سیاست میں انھوں نے ایک طویل عرصہ گزارنے اور تنظیمی و وزارتی عہدوں پر رہتے ہوئے اپنی کارکردگی وغیرہ کے ذریعے اپنی جو امیج بنائی ہے، وہ ہِلنے نہ پائے۔ متعدد سیاست دانوں کے طرزِ عمل سے اختلاف اور بہت سے سیاسی معاملات وواقعات کے تئیں انھوں نے اپنی ناراضی کا بھی کھل کر اظہار کیا ہے، مگر سنجیدہ و متین اسلوب اور وضع دارانہ انداز میں ، جو یقیناً ان کی شخصی خوبی اور جس وجیہ خاندانی پس منظر سے ان کا رشتہ ہے، اس کا اثر کہا جائے گا۔ کتاب کا ترجمہ بہت رواں دواں، سلیس اور شگفتہ ہے، کہیں کہیں کچھ اٹکاؤ سا محسوس ہوتا ہے، مگر من حیث المجموع ترجمے کی زبان بڑی پر لطف اور تخلیقیت آمیز ہے۔ کتاب کے شروع میں متعدد سینئر کانگریسی رہنماؤں: اے کے انٹونی، دگ وجے سنگھ، آنند شرما، بھوپیش بگھیل اور ششی تھرور وغیرہ کی اس کتاب اور محسنہ قدوائی کے تعلق سے رائیں شامل کی گئی ہیں۔ طباعت بہت دیدہ زیب اور خوب صورت ہے، یہ کتاب بڑے لوگوں کی سوانح /خود نوشت سوانح کے مطالعے کا شوق رکھنے والوں کے علاوہ ہندوستانی سیاست کو پڑھنے،جاننے اور سمجھنے کا ذوق رکھنے والوں کے لیے بھی خاصی دلچسپ ہے۔ حاصل کرنے کے لیے براؤن بک پبلی کیشنز علی گڑھ سے اس نمبر 9818897975پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ترجمہ: قیصر نذیر خاورؔ
میں اس مقام پر اکیلے نہیں کھڑی۔ میرے اردگرد آوازیں ہیں، سیکڑوں آوازیں۔ یہ میرے ساتھ بچپن سے ہمیشہ رہی ہیں۔ میں مضافات میں پلی بڑھی ہوں۔ہم جب بچے تھے تو گھر کے باہر کھیلنا ہمیں پسند تھا لیکن جیسے ہی شام ہوتی تو گاؤں کی ان عورتوں کی تھکی آوازیں ہمیں مقناطیس کی طرح کھینچ لیتیں جو اپنے جھونپڑوں کے پاس بینچوں پر اکٹھی ہوئی ہوتیں۔ ان میں سے کسی کا خاوند، باپ یا بھائی نہیں تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہمارے گاؤں میں مرد تھے، مجھے یاد نہیں۔ جنگ کے دوران ہر چار میں سے ایک بیلارسین یا تو محاذ پر یا پھر مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ لڑتے ہوئے مارا جا چکا تھا۔ جنگ کے بعد ہم بچے عورتوں کی دُنیا میں رہتے تھے۔ مجھے جو سب سے زیادہ یاد ہے وہ یہ ہے کہ عورتیں موت کے بارے میں نہیں بلکہ محبت کے بارے میں باتیں کیا کرتی تھیں۔ وہ اس بارے میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں کہ انہوں نے، جن سے وہ پیا ر کرتیں تھیں، کیسے، ان کے جنگ پر جانے سے ایک دن پہلے انہیں الوداع کہا تھا۔ وہ اس بارے میں باتیں کرتیں کہ انہوں نے ان کا انتظار کیسے کیا اور یہ کہ وہ ابھی بھی کیسے ان کی منتظر ہیں۔ سالوں بیت گئے تھے لیکن وہ پھر بھی ان کی منتظر تھیں۔ وہ کہا کرتیں: ”مجھے اس کی پرواہ نہیں، اگر اس نے اپنے بازو گنوا دئیے ہیں یا ٹانگیں کھو دی ہیں، میں اسے اٹھائے پھروں گی۔“ بازو نہیں، ٹانگیں نہیں۔ میرا خیال ہے مجھے بچپن سے ہی محبت کے بارے میں علم رہا ہے۔
میں یہاں اُس سرودگاہ سے اٹھنے والے کچھ المیہ گیت پیش کر رہی ہوں جو میں سنتی تھی۔
پہلی آواز:
”تم یہ سب کیوں سننا چاہتی ہو؟ یہ بہت ہی اداس کر دینے والا ہے۔ میں اپنے خاوند سے جنگ کے دوران ملی تھی۔ میں تب ایک ٹینک کے عملے میں تھی جس نے سیدھا برلن جانا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم رائکسٹاگ (Reichstag) کے نزدیک کھڑے تھے۔ وہ ابھی تک میرا خاوند نہیں بنا تھا اور اس نے مجھے کہا تھا: ”چلو شادی کر لیتے ہیں۔ مجھے تم سے پیار ہے۔“
میں تب بہت گھبرائی ہوئی اور پریشان تھی۔ ہم جنگ کے سارے عرصے میں کیچڑ، گند، گرد اور خون میں رہ رہے تھے اور میں نے بیہودہ، بے شرمی اور فحش باتوں کے سوا کچھ نہیں سنا تھا۔ میں نے جواب دیا:
”پہلے مجھے عورت تو بناؤ۔ مجھے پھول دو۔ میرے کانوں میں کچھ میٹھی میٹھی اَن کہیوں کی سرگوشیاں کرو۔ میں جب فوج سے فارغ ہو جاؤں گی تو اپنے لیے عروسی جوڑا بناؤں گی۔“
میں تب اتنی پریشان تھی کہ میں اسے تھپڑ مارنا چاہتی تھی۔ اس نے یہ سب سہا۔ اس کا ایک گال بری طرح جل چکا تھا اور اس پر زخموں کے نشان موجود تھے۔ میں نے دیکھا اس کے داغوں پر آنسو رواں تھے۔
”ٹھیک ہے، میں تم سے شادی کرلوں گی۔“، میں نے کہا تھا۔ بالکل ایسے ہی۔ میں خود پر یقین نہ کر سکی کہ میں نے یہ کہا تھا۔ہمارے اردگرد سوائے راکھ اور ٹوٹی ، چُورا ہوئی اینٹوں کے اور کچھ نہ تھا ، مختصر یہ کہ ہر طرف جنگ تھی۔“
دوسری آواز:
”ہم چرنوبل نیوکلیائی پلانٹ کے پاس رہتے تھے۔ میں ایک بیکری میں کام کرتی تھی اورسموسے بنایا کرتی تھی۔ میرا خاوندایک آگ بجھانے والا تھا۔ ہم نئے نئے بیاہے گئے تھے۔ ہم سٹور پر بھی جاتے تو ہاتھوں میں ہاتھ دئیے ہوتے۔ جس دن ری۔ ایکٹر پھٹا، میرا خاوند فائر سٹیشن پر ڈیوٹی پر تھا۔ انہوں نے عام کپڑے پہن رکھے تھے اور صرف قمیضوں میں ہی تھے۔ وہ اسی طرح اطلاع ملتے ہی دوڑ پڑے۔ جوہری توانائی کے سٹیشن میں دھماکہ ہوا تھا لیکن انہیں خصوصی لباس نہیں دئیے گئے تھے۔ ہم بس ایسے ہی رہتے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں۔ وہ ساری رات آگ بجھاتے رہے اور تابکاری کا ایسے شکار ہوتے رہے جو زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اگلی صبح انہیں ہوائی جہاز کے ذریعے سیدھا ماسکو پہنچایا گیا۔ وہ شدید تابکاری کی وجہ سے سخت علیل تھے۔ آپ ایسی حالت میں چند ہفتوں سے زیادہ جی نہیں پاتے۔ میرا خاوند تنومند تھا۔ وہ ایک کھلاڑی تھا۔ وہ سب سے آخر میں مرا۔ میں جب ماسکو گئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اسے خصوصی اور ایک الگ کمرے میں رکھا گیا ہے اور اس سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں۔ ” لیکن مجھے اس سے محبت ہے۔“، میں نے ان کی منت کی، ”فوجی اس کی نگہداشت کر رہے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ تم کہاں جا رہی ہو؟“،”میں اس سے محبت کرتی ہوں۔“ انہوں نے مجھ سے بحث کی: ”یہ اب وہ بندہ نہیں رہا جس سے تم محبت کرتی تھیں۔ وہ اب ایک ایسا جسم ہے جس کی معلومات کا اندراج کرنا ضروری ہے۔ کیا تمہیں سمجھ نہیں آتی؟“ میں لیکن بار بار خود کو ایک ہی بات سمجھاتی رہی: مجھے محبت ہے ۔ مجھے محبت ہے۔ رات میں، میں چمنی پر چڑھ جاتی تاکہ اسے دیکھ سکوں۔ یا پھر میں رات میں صفائی کرنے والوں سے پوچھتی۔ میں نے ان کو پیسے دئیے تاکہ وہ مجھے اندر جانے دیں۔ میں نے اس کو اکیلا نہیں چھوڑا تھا، میں اس کے انت تک اس کے ساتھ رہی۔ اس کی موت کے کچھ ماہ بعد ہی میں نے ایک ننھی بچی کو جنم دیا لیکن وہ کچھ ہی دن زندہ رہی۔ وہ۔ جس کے بارے میں ہم بہت پُر جوش تھے لیکن میں اسے زندہ نہ رکھ سکی۔ اس نے البتہ مجھے میری جان بچا لی۔ اس نے ساری تابکاری خود میں جذب کر لی تھی۔ وہ بہت ہی چھوٹی تھی۔ ننھی گڑیا جیسی، لیکن مجھے دونوں سے پیار تھا۔ کیا آپ پیار و محبت سے کسی کو مار سکتے ہیں؟ محبت اور موت کیوں ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں؟ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کیوں آتے ہیں۔ اس کی وضاحت کون کر سکتا ہے؟ میں ان کی قبروں پر اپنے گھٹنوں پر گر جاتی ہوں۔“
تیسری آواز
”میں نے پہلی دفعہ ایک جرمن کو مارا تھا۔ میں اس وقت دس سال کی تھی اور ہمارے مزاحمت کار/پارٹی کے جیالے مجھے مہم پر لے گئے تھے۔ یہ جرمن زخمی حالت میں زمین پر لیٹا ہواتھا۔ مجھے کہا گیا کہ میں اس کی پستول لے لوں۔ میں بھاگ کر گئی ، اس نے اپنا پستول دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور میرے چہرے کا نشانہ لیا لیکن وہ پہلے گولی نہ چلا سکا، میں نے چلا دی ۔
کسی کو ہلاک کرنے نے مجھے خوفزدہ نہیں کیا تھا۔ میں نے جنگ کے دوران اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ بہت سے لوگ مارے گئے تھے اور ہم ان مُردوں کے درمیان زندہ تھے۔ بہت سال بعد مجھے اچانک اس جرمن کے بارے میں ایک خواب آیا۔ یہ نجانے کہاں سے چلا آیا تھا۔ مجھے یہ خواب بار بار آتا رہا۔میں اڑ نا چاہ رہی ہوتی لیکن وہ مجھے ایسا نہ کرنے دیتا۔ میں اوپر اٹھتی۔اڑتی، اڑتی۔ وہ مجھے پکڑ لیتا اور میں اس کے ساتھ نیچے گر جاتی۔ میں کسی قسم کے گڑھے میں گرتی۔ یا میں اٹھنے کی کوشش کرتی۔ کھڑا ہونا چاہتی، لیکن وہ مجھے کھڑا نہ ہونے دیتا۔ اس کی وجہ سے میں اڑ کر دور نہ جا سکتی۔
یہی ایک خواب۔مجھے دہائیوں تک پریشان کرتا رہا۔
میں اس خواب کے بارے میں اپنے بیٹے کو نہ بتا سکی۔ وہ ابھی بچہ تھا۔ میں ایسا نہ کر سکی۔ میں اسے پریوں کی کہانیاں سناتی رہی۔ میرا بیٹا اب بڑا ہو چکا ہے، لیکن میں اسے اب بھی بتا نہیں پا رہی۔“
فلوبئیر نے خود کو انسانی قلم کہا تھا، میں یہ کہتی ہوں کہ میں ایک انسانی کان ہوں۔ میں جب گلیوں اور بازاروں میں نکلتی ہوں تو الفاظ، جملے اور فجائیے سنتی ہوں اور میں ہمیشہ سوچتی ہوں۔کتنی کہانیاں اور ناول اپنا نشان چھوڑے بِنا غائب ہو جاتے ہیں! تاریکی میں گم ہو جاتے ہیں۔ ہم ادب کے لیے انسانی زندگی کی اس مکالماتی سمت کا ادراک نہیں کر پاتے۔ ہم اسے داد نہیں دیتے، ہمیں حیرانی نہیں ہوتی یا ہم اس سے خوش نہیں ہوتے۔ یہ البتہ میرا دل موہ لیتی ہے اور مجھے اپنا بندی بنا لیتی ہے۔ مجھے انسانی گفتگو سے پیار ہے۔ مجھے انسان کی اپنی تنہا آواز سے پیار ہے۔ یہی میرا سب سے کھرا عشق اور حُب ہے۔
اس مقام تک پہنچنے والا راستہ طویل رہا ہے۔ ایک بندے سے دوسرے تک جانا اور ایک آواز سے دوسری تک پہنچنے کا یہ سفر لگ بھگ چالیس سال پر محیط ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں ہمیشہ اس راستے پر چلی ہوں۔ بہت دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ میں انسانوں سے خوفزدہ ہوئی ہوں اور مجھے ان سے صدمہ بھی پہنچا ہے۔ انہوں نے مجھے جھٹکے سے بھی دوچار کیا ہے ۔ مجھے فرحت، مسرت اور خوشی کے احساسات کے ساتھ ساتھ گِھن بھی آئی ہے۔ میں بعض اوقات یہ بھی چاہتی رہی ہوں کہ میں نے جو سنا ، اسے بھول جاؤں اور اس سمے میں لوٹ جاؤں جب میں لاعلم تھی ، بہرحال، میں نے ایک سے زیادہ بار لوگوں میں ارفعیت اور عالی ظرفی دیکھی ہے اور میرا دل رونے کو چاہا ہے۔
میں ایک ایسے ملک میں رہی ہوں جہاں مرنا، ہمیں بچپن سے ہی سکھایا گیا۔ ہمیں موت بارے تعلیم دی گئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ انسان زندہ ہی اس لیے رہتے ہیں کہ اپنا سب کچھ لٹا دیں، سب کچھ جلا ڈالیں اور خود کو بھی نثار کر دیں۔ ہمیں یہ سکھایا گیا کہ ہم ہتھیار بند لوگوں سے محبت کریں۔ میں اگر کسی دوسرے ملک میں پیداہوئی ہوتی تو میں نے اس راستے پر سفر نہ کیا ہوتا۔ کھوٹ، برائی اوربدی ظالم ہوتی ہے، آپ کو اس کے خلاف تیار کیا جاتا ہے۔ ہم گردن مارنے والوں اور بھینٹ چڑھنے والوں کے درمیان پلے بڑھے۔ اگر ہمارے والدین کو خوف میں بھی رہنا پڑا تو انہوں نے ہمیں سب کچھ نہ بتایا اور اکثر تو انہوں نے ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا۔ ہماری زندگیوں کی فضا زہر لود ہی رہی۔ بدی نے ہم پر کڑی نگاہ رکھی ہوئی تھی۔
میں نے پانچ کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ہی کتاب ہیں۔ ایک ایسی کتاب جو یوٹوپیا کی تاریخ کے بارے میں ہے۔
( روسی ادیب ) وارلم شالاموف (Varlam Shalamov) نے ایک بار لکھا تھا: ”میں ایک بڑی لڑائی میں شریک رہا ہوں۔ یہ انسانیت کی اصلی بحالی کے لیے لڑی جا رہی تھی لیکن ہم یہ جنگ ہار گئے تھے۔“
میں نے اس جنگ کی تاریخ، اس کی فتوحات اور اس کی شکستوں کومرتب کیا ہے۔ اس تاریخ کو، کہ لوگ کیسے اس دھرتی پر’فلکی سلطنت‘ تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ جنت! آفتابی شہر! اور آخر میں لاکھوں لوگوں کی تباہ حال زندگیاں اور خون کا ایک سمندر ہی بچا۔ تاہم ایک وقت وہ بھی تھا جب بیسویں صدی کے کسی بھی سیاسی نظریے کا کمیونزم سے مقابلہ نہیں تھا (یا اس کی علامت کے طور پر اکتوبر انقلاب)۔ یہ وہ وقت تھا جب مغربی دانشوروں اور دنیا بھر کے لوگوں کو اس کے علاوہ اور کچھ بھی، جذباتی سطح پر طاقتور اور موثر نظر نہیں آتا تھا۔ ( فرانسیسی ) ریمنڈ ایرن (Raymond Aron) نے روسی انقلاب کو ”دانشوروں کی افیون“ قرار دیا تھا، لیکن کمیونزم کا نظریہ کم سے کم دو ہزار سال پرانا ہے۔ ہم اسے افلاطون کی تعلیمات میں، ایک مثالی، کامل اور درست ریاست کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ ارسطوفینز کے ان خوابوں میں نظر آتا ہے جن میں وہ ایک ایسے وقت کو دیکھتا ہے جب ”ہر شے ہر کسی کے پاس ہو گی۔“۔۔۔ یہ ہمیں (برطانوی) ٹامس مور اور (اطالوی) توماسو کمپانیلا میں۔ بعد ازاں (فرانسیسی)سینٹ۔ سائمن، فوئیر اور (ویلیش)رابرٹ اوون میں بھی نظر آتا ہے۔ روسیوں کے جذبوں اور جذبوں میں کچھ ایسا سمایا ہوا ہے جس نے انہیں مجبور کیا کہ اِن خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکیں۔
بیس برس پہلے، ہم نے سوویتوں کی ’لال سلطنت‘ کو کوستے ہوئے اور روتے ہوئے رخصت کیا۔ اب ہم اپنے اس ماضی کو ایک تاریخی تجربے کے طور پر زیادہ سکون سے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اہم ہے کیونکہ سوشلزم کے بارے میں بحثیں ابھی مری نہیں ہیں۔ اس دوران ایک نئی نسل دُنیا کی ایک مختلف تصویر لیے پروان چڑھ چکی ہے لیکن بہت سے نوجوان مارکس اور لینن کو پھر سے پڑھ رہے ہیں۔ روسی شہروں میں سٹالن کی مداحی میں نئے عجائب گھر بن رہے ہیں اور اس کی خاطر نئی یادگاریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
’سرخ سلطنت‘جا چکی ہے لیکن ’لال آدمی‘ ہومو۔سوویتیکس ابھی بھی باقی ہے۔ وہ زندہ ہے۔
میرے والد حال ہی میں فوت ہوئے ہیں۔ وہ مرتے وقت تک کمیونزم پر یقین رکھتے رہے۔ انہوں نے اپنا پارٹی رکنیت کا کارڈ سنبھالے رکھا۔ میں خود کو کبھی بھی تیار نہ کر پائی کہ لفظ ’سوووک‘ (sovok)، سوویت ذہنیت کے لیے توہین آمیز خطاب، برت سکوں کیونکہ پھر مجھے اسے اپنے والد، قریبی عزیز و اقارب اور دوستوں کے لیے بھی استعمال کرنا پڑے گا۔ ان سب کا ایک ہی گڑھ، سوشلزم ہے۔ ان میں بہت سے عینت پسند ہیں، رومان پسند۔ انہیں آج کل بعض اوقات رومان پسندی کا غلام کہا جاتا ہے۔ یہ یوٹوپیا کے غلام ہیں۔میرا ماننا ہے کہ یہ سب بہت مختلف زندگیاں بسر کر سکتے تھے لیکن انہوں نے سوویت زندگیاں بسر کیں۔ کیوں؟ میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں بہت وقت صرف کیا ہے۔میں نے اس وسیع ملک کے ہر حصے میں سفر کیا جو کبھی یو ایس ایس آر ( USSR ) کہلاتا تھا اور میں نے ہزاروں ٹیپیں ریکارڈ کیں۔ یہ سوشلزم تھا اور سیدھے سیدھے ہماری زندگیاں تھیں۔ میں نے تھوڑی تھوڑی کرکے ’گھریلو‘ یا کہہ لیں ’گھروں کے اندر ‘ کے سوشلزم کی تاریخ مرتب کی۔ تاریخ کہ اس نے انسانی روح اور جذبات کے ساتھ کیسے کھیلا۔ میں نے اس چھوٹی ہیت پر توجہ کی جسے انسان کہا جاتا ہے۔تنہا ایک فرد۔ یہ فرد ہی وہ حقیقت ہے جس پر ہر واردات گزرتی ہے۔
جنگ کے فوراً بعد، (جرمن) تھیوڈور اڈورن(Theodor Adorno) نے صدمے کی حالت میں لکھا تھا: ”آشوہتس (Auschwitz) کے بعدشاعری کرنا جنگلی پن ہے۔“ میرے استاد، ایلس ایڈامووچ، جن کا نام میں آج یہاں ممنونیت کے طور پر لے رہی ہوں، نے یہ محسوس کیا تھا کہ بیسویں صدی نے جو ڈراؤنے خواب دکھائے ہیں ان پر نثر لکھنا، نثر کی توہین اور بے ادبی ہے۔ نثر کے لیے کچھ نیا نہیں گھڑا جا سکتا۔ آپ کو سچ لازماً ویسے ہی بیان کرنا پڑتا ہے جیسا کہ وہ ہے، ورنہ ایک ’سُپر۔ لٹریچر‘ درکار ہو گا۔ گواہ کو لازماً بولنا چاہیے۔ ایسے میں نطشے (Nietzsche) کے الفاظ یاد آتے ہیں۔کوئی بھی فنکار حقیقت کی برابری نہیں کر سکتا۔ وہ اس کا وزن نہیں اٹھا سکتا۔
مجھے ایک بات ہمیشہ تنگ کرتی رہی ہے کہ سچ ایک دل، ایک دماغ میں نہیں سما سکتا اور یہ کہ سچ کسی نہ کسی طور ٹکریوں میں بٹا ہوتا ہے۔ سچ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ متنوع ہوتا ہے اور یہ ساری دنیا میں پھیلا ہوتا ہے۔ دوستوفسکی کا خیال تھا کہ انسانیت اپنے بارے میں اس سے بھی کہیں زیادہ جانتی ہے جتنا اسے ادب میں ریکارڈ کیا گیا ہے، اس لیے یہ کیا ہے جو میں کر رہی ہوں؟ میں روزمرہ زندگی کے احساسات، خیالات اور الفاظ کو جمع کر رہی ہوں۔ میں اپنے وقت کی زندگی جمع کر رہی ہوں۔ میں روح کی تاریخ میں دلچسپی رکھتی ہوں۔ روح اور جذبوں کی روزمرہ کی زندگی، ان اشیاء کی جو تاریخ کی بڑی تصویر عام طور پر چھوڑ جاتی ہے یا جنہیں وہ حقیر جانتی ہے۔ میں لاپتہ اور گم کردہ تاریخ پر کام کرتی ہوں۔ مجھے اکثر بتایا جاتا ہے اور ایسا اب بھی ہوتا ہے کہ میں جو لکھ رہی ہوں، وہ ادب نہیں ہے، یہ ایک دستاویز ہے۔ آج ادب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب کون دے سکتا ہے؟ ہم جتنی تیزی سے جی رہے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں جئیے تھے۔ مواد ہیت کو پھاڑ دیتا ہے۔ اسے توڑ دیتا ہے اور اسے بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ہر چیز اس کے کناروں سے باہر امڈ پڑتی ہے۔ موسیقی، پینٹنگ۔ یہاں تک کہ دستاویزات میں لکھے الفاظ دستاویز کی سرحدوں سے نکل بھاگتے ہیں۔ حقیقت اور گھڑی گئی باتوں کے درمیان سرحدیں نہیں ہوتیں، یہ ایک دوسرے میں بہہ جاتی ہیں۔ گواہی دینے والے غیر جانب دار نہیں ہوتے۔ کہانی بیان کرتے ہوئے انسان ساتھ میں تخلیق بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ وقت کے ساتھ اسی طرح کُشتی کر رہے ہوتے ہیں جس طرح ایک مجسمہ ساز پتھر سے لڑ رہا ہوتا ہے۔ وہ بیک وقت اداکار اور تخلیق کار ہوتے ہیں۔
مجھے چھوٹے (عام) لوگوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ یہ چھوٹے، عظیم لوگ، جیسا کہ میں انہیں کہتی ہوں کیونکہ یہ لوگ دُکھ سہہ سہہ کر اور ابتلا میں رہ رہ کر پھیل جاتے ہیں۔ میری کتابوں میں یہ لوگ اپنی ننھی ننھی تاریخیں بیان کرتے ہیں اور بڑی تاریخ ان کے ساتھ از خود بیان ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے پاس وقت ہی نہیں تھا کہ سمجھ سکیں کہ ہمارے ساتھ پہلے ہی کیا ہو چکا ہے اور ابھی بھی ہو رہا ہے، ہمیں بس اسے کہہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ شروعات کرنے کے لیے، جو بیت چکا ہے، کم از کم، اس کا اظہار تو کرنا ہو گا۔ ہم ایسا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ہم اپنے ماضی کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ دوستوفسکی کے ناول ’بدروحیں‘ ( Demons ) میں شاتوف ، ستیوروجن سے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہتا ہے:
”ہم دو مخلوقات (جاندار) ہیں جو حدوں سے عاری ابد میں ملے ہیں اور ایسا دنیا میں آخری بار ہوا ہے اس لیے یہ انداز چھوڑو اور انسانوں کی طرح بات کرو۔ کم از کم ایک بار تو ایسا کرو کہ انسانی آواز میں بولو۔“
میری مرکزی کرداروں کے ساتھ گفتگو کم و بیش کچھ ایسے ہی شروع ہوتی ہے۔ لوگ اپنے اپنے ’وقت‘ کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی کھوہ سے تو نہیں بول رہے ہوتے لیکن پھر بھی انسانی روح تک پہنچنا مشکل ہے۔ اِس کے راستے پر ٹیلی ویژن اور اخبار بکھرے ہیں۔ صدی کے توہمات ہیں۔ اس کے تعصبات ہیں اور اس کی منافقتیں اور دھوکے ہیں۔
وقت کیسے حرکت کرتا ہے۔ ایک خیال کیسے مرتا ہے اور میں اس کے راستے پر کیسے چلتی ہوں، یہ دکھانے کے لیے، میں اپنی ڈائریوں کے کچھ صفحات پڑھنا چاہوں گی۔
1980۔ 1985
میں جنگ کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہی ہوں۔ جنگ کے بارے میں ہی کیوں؟ کیونکہ ہم جنگ کے ہی لوگ ہیں۔ ہم ہمیشہ سے ہی جنگ میں رہے ہیں یا جنگ کی تیاری کرتے رہے ہیں۔ اگر آپ نزدیک سے دیکھیں تو ہم سوچتے بھی جنگ کے حوالے سے ہیں ، چاہے گھر پر ہوں یا سڑکوں اور گلیوں میں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں انسانی زندگی ارزاں ہے۔ ہر چیز جنگی زمانے کی سی ہے۔
میں نے شکوک و شبہات کے ساتھ دوسری عالمی جنگ پر ایک اور کتاب شروع کی۔۔۔ کس لیے؟
میں ایک دورے کے دوران ایک عورت سے ملی۔ وہ جنگ کے دوران طبی عملے میں رہی تھی۔ اس نے مجھے ایک کہانی سنائی:
جیسے ہی انہوں نے سردیوں میں لاڈوگا جھیل عبور کی، ان کی حرکت دشمن کی نظر میں آئی۔ اس نے ان پر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ گھوڑے اور لوگ برف میں دب گئے۔ یہ سب رات میں ہوا۔ اس نے کسی کو پکڑا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ زخمی تھا اور اسے کنارے کی طرف کھینچنے لگی۔ ”میں نے اسے کھینچا، وہ گیلا اور ننگا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس کے کپڑے پھٹ چکے ہیں۔“، اس نے مجھے بتایا۔ ایک بار جب وہ کنارے پر پہنچ گئی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک زخمی سٹرجیون (sturgeon) مچھلی کو کھینچتی رہی تھی۔۔۔ اور اس نے جنگ کی شکار اس مچھلی کو چھوڑ دیا۔ لوگ تو اس ننگی بربریت کو سہہ ہی رہے تھے لیکن جانور، پرندے اور مچھلیاں۔ انہوں نے کیا کیا تھا؟
ایک اور دورے کے دوران میں نے گھڑ سوار سکواڈرن سے وابستہ طبی عملے کی ایک رکن کی کہانی سنی۔ وہ ایک لڑائی کے دوران ایک زخمی فوجی کو گھسیٹ کر بم کے دھماکے سے بنے ایک گڑھے میں گھسیٹ رہی تھی اور پھر اس نے دیکھا کہ وہ ایک جرمن تھا۔ اس کی ٹانگ ٹوٹ چکی تھی اور اس کا خون بہہ رہا تھا۔ وہ دشمن تھا! کیا کیا جائے؟ اوپر، اس کے اپنے ساتھی مر رہے تھے! اس نے لیکن جرمن کی مرہم پٹی کی اور رینگتے ہوئے باہر نکلی۔ اس نے ایک روسی فوجی کو گڑھے میں گھسیٹا۔ وہ بیہوش تھا۔ جب وہ ہوش میں آیا تو جرمن فوجی کو ماردینا چاہتا تھا۔ جب اس کا سامنا جرمن سے ہوا تو اس نے مشین گن تان لی۔ وہ روسی کو مارنا چاہتا تھا۔”میں نے پہلے ایک کو تھپڑ مارا اور پھر دوسرے کو۔ ہم سب کی ٹانگیں خون سے لت پت تھیں۔“ اس نے یاد کیا، ”ہمارا خون آپس میں رَل مِل گیا تھا۔“
یہ وہ جنگ تھی جس کے بارے میں، میں نے کبھی کچھ نہیں سنا تھا۔ یہ ایک عورت کی جنگ تھی۔ یہ ہیروؤں کے بارے میں نہیں تھی۔ یہ اس بارے میں نہیں تھی کہ لوگوں کے ایک گروہ نے بہادری سے لڑتے ہوئے انسانوں کے ایک دوسرے گروہ کو مار ڈالا تھا۔ مجھے وہ عورت یاد ہے جو اکثر نوحہ پڑھا کرتی تھی:
” لڑائی کے بعد جب ہم کھیتوں میں چہل قدمی کرتے تو وہ اپنی پشت پر لیٹے ہوتے۔ سارے جوان اور خوبرو تھے۔ وہ وہاں لیٹے ہوتے اور ان کی آنکھیں آسمان کو گھور رہی ہوتیں۔ ہمیں ان سب کے بارے میں افسوس ہوتا۔۔۔ یہ دونوں اطراف پر تھا ۔“، یہ رویہ تھا، ”سب کے بارے میں، دونوں اطراف پر۔“
اس سے مجھے یہ خیال آیا کہ میری کتاب کس بارے میں ہو گی۔ جنگ سوائے مرنے مارنے کے اور کچھ بھی نہیں۔ یہ اسی طرح عورتوں کی یادوں میں منقش ہوئی۔ ’ یہ بندہ ابھی ہنس کھیل رہا تھا اور سگریٹ پی رہا تھا اور اب یہ جا چکا ہے۔ یوں لاپتہ ہونا، منظر سے غائب ہو جانا ہی تھا جس کے بارے میں عورتیں سب سے زیادہ بات کرتی تھیں۔ جنگ میں، ہر شے کیسے تیزی سے، اچانک اور یکدم ’ لا شے‘ میں بدل جاتی ہے۔ دونوں ، انسان اور انسان کا سمے بھی۔ درست ہے کہ انہوں نے 17 یا 18 کو محاذ پر جانے کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا تھا لیکن وہ کسی کو مارنا نہیں چاہتے تھے اور پھر بھی مرنے کے لیے تیار تھے۔ اپنی مادر وطن کے لیے مرنے کو تیار تھے۔۔۔ اور سٹالن کے لیے مرنے کو تیار تھے۔ آپ ان الفاظ کو تاریخ سے کھرچ کر صاف نہیں کر سکتے۔
یہ کتاب پریسترویکا اور گورباچوف کے آنے سے پہلے دو سال تک چھپ نہ سکی۔” تمہاری کتاب پڑھنے کے بعد کوئی بھی نہیں لڑے گا۔“، سنسر والوں نے مجھے درس دیا۔ ” تمہاری جنگ بہت خوفناک ہے۔ تم ان میں ہیروؤں کو کیوں شامل نہیں کرتیں؟“
میں ہیروؤں کو دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔ میں جنگ میں شامل ایسے لوگوں اور اس کے گواہوں، جن کا کسی نے نوٹس نہیں لیا تھا، کی کہانیوں کے ذریعے تاریخ لکھ رہی تھی۔ ان سے کبھی کسی نے کچھ نہیں پوچھا تھا۔ لوگ کیا سوچتے ہیں؟ ہمیں واقعی میں یہ پتہ نہیں کہ لوگ عظیم خیالات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ایک جنگ کے فوراً بعد ایک بندہ اسی جنگ کی کہانی سنائے گا۔ کچھ دہائیوں کے بعد یہ یقیناً، ایک مختلف جنگ ہو گی۔ اس بندے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی آ چکی ہو گی کیونکہ اس نے اپنی ساری زندگی کو یادوں کی تہوں میں لپیٹ دیا ہو گا بلکہ اس نے اپنی ذات کو بھی ان میں تہہ کر دیا ہو گا۔ اس نے وہ تمام سال کیسے گزر بسر کی، اس نے کیا پڑھا، کیا دیکھا، کس کس سے ملا۔ وہ کس میں یقین رکھتا ہے۔۔۔ اور آخر، کیا وہ خوش ہے یا نہیں۔ دستاویزات زندہ مخلوق ہوتی ہیں۔ یہ اسی طرح بدلتی ہیں جس طرح ہم بدلتے ہیں۔
میں اس بات پر مکمل طور پر قائل ہوں کہ 1941 کے جنگی زمانے کی لڑکیاں اور جوان عورتیں پھر دوبارہ کبھی پیدا نہیں ہوں گی۔ یہ ”لال‘ نظریے کا نقطہ عروج تھا۔ یہ انقلاب اور لینن سے بھی بہت اونچا تھا۔ ان کی’فتح‘ ابھی بھی ’گولاگ‘ کو گہناتی ہے۔ میں ان عورتوں کو دل و جان سے پیار کرتی ہوں، لیکن آپ اُن سے سٹالن کے بارے میں باتیں نہیں کرتے یا اس حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں کہتے کہ جنگ کے فوراً بعد دلیر ترین اور سب سے زیادہ کھل کر بات کرنے والوں کو ریل گاڑی میں بھر کر سیدھا سائیبریا بھجوا دیا گیا تھا۔ باقی سب گھروں کو لوٹ گئے اور خاموش رہے۔ ایک بار میں نے سنا تھا:
” ایک ہی وقت ایسا تھا جب ہم آزاد تھے۔ یہ جنگ کا زمانہ تھا اور ہم محاذ پر تھے۔“
تکلیف سہنا ہمارا سرمایہ ہے، گیس اور تیل کی بجائے۔۔۔’دکھ برداشت کرنا‘ ہمارے قدرتی وسیلے ہیں۔ یہی کچھ ہے جسے ہم تواتر سے پیدا کرنے کے قابل ہیں۔ میں ہمیشہ اس سوال کا جواب تلاش کرتی رہتی ہوں کہ ہمارا دکھ جھیلنا کیوں آزادی میں ڈھل نہیں پاتا؟ کیا یہ سچ ہے کہ سب غارت گیا؟
( روسی ) چادایف (Chaadayev) صحیح کہتا تھا:
روس ایک ایسا ملک ہے جس کی کوئی یادداشت نہیں۔ یہ ایک ایسا خلاء ہے جس پر مکمل نسیانی کیفیت طاری ہے۔ اس کا ضمیر/شعور تنقید اور انعکاس کے لیے کورا ہے، لیکن عظیم کتابیں ہمارے ہی پیروں تلے ڈھیر پڑی ہیں۔
1989
میں کابل میں ہوں۔ میں اب جنگ کے بارے میں مزید نہیں لکھنا چاہتی لیکن میں یہاں ایک اصلی جنگ میں موجود ہوں۔ اخبار ’پراودا‘ کہتا ہے:
”ہم سوشلزم کی تعمیر میں برادر افغان عوام کی مدد کر رہے ہیں۔“
جنگ کرتے لوگ اور جنگی ساز و سامان ہر طرف پھیلا ہے۔ یہ جنگ کا زمانہ ہے۔
وہ کل مجھے میدان جنگ میں لے کر نہیں گئے تھے:
”جوان محترمہ، ہوٹل میں ہی رہو۔ ہمیں بعد میں تمہارے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا۔“
میں ہوٹل میں بیٹھی ہوں اور سوچ رہی ہوں:
یہ نامناسب بات ہے کہ دوسروں کے حوصلے اور خطرہ جو وہ مول لیتے ہیں، کو پرکھا جائے۔ میں یہاں دو ہفتے کے لیے ہوں اور میں اس احساس سے چھٹکارا نہیں پا سکتی کہ جنگ مردانہ نوعیت کی شے ہے۔ یہ میرے لیے ہضم کرنا مشکل ہے۔ لیکن جنگ کے روزمرہ کے لوازمات بڑے ہیں۔ میں نے اپنے لیے یہ دریافت کیا کہ ہتھیار، مشین گنیں، بارودی سرنگیں، ٹینک سب خوبصورت ہوتے ہیں۔ انسان نے اس پر بہت سوچ و بچار کی ہے کہ دوسرے انسانوں کو بہترین طریقے سے کیسے مارا جائے۔ یہ سچائی اور خوبصورتی کا ازلی جھگڑا ہے۔ انہوں نے مجھے ایک نئی اطالوی بارودی سرنگ دکھائی اور میرا نسوانی ردعمل تھا:
”یہ بہت خوبصورت ہے۔ یہ اتنی خوبصورت کیوں ہے؟“
انہوں نے مجھے بالکل فوجی معانوں میں سمجھایا:
اگر کوئی اس پر گاڑی چڑھائے یا اس پر ویسے ہی ایک خاص زاویے سے۔ اپنے قدم رکھ دے۔ تو اس کا کچھ نہیں بچے گا ، بس گوشت کی آدھی بالٹی ہی رہ جائے گی۔ یہاں لوگ غیر معمولی باتیں کرتے ہیں جیسے وہ خود نارمل ہوں اور انہیں درست بھی سمجھتے ہیں۔’ تمہیں تو پتہ ہی ہے۔ یہ جنگ ہے۔کوئی بھی بندہ ان تصویروں کو دیکھ کر حواس نہیں کھوتا۔ مثال کے طور پر اسے دیکھو۔ وہاں ایک بندہ مرا پڑا ہے، اس کو کسی اور نے نہیں مارا نہ ہی اس کی آئی ہوئی تھی، اسے ایک دوسرے بندے نے مارا ہے۔ ‘
میں نے ایک ”بلیک ٹیولپ“ (وہ جہاز جس میں مرے ہوؤں کو زنک کے تابوتوں میں رکھ کر گھر واپس بجھوایا جاتا ہے۔ ) کو بھرتے دیکھا۔ مرے ہوؤں کو عام طور پر چالیس کی دہائی کے قدیمی یونیفارم، برجس کے ساتھ پہنائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی کافی نہیں ہوتے کہ سب کو پہنائے جا سکیں۔ فوجی آپس میں باتیں کر رہے تھے:
” انہوں نے کچھ نئی سرد خانوں میں رکھی ہیں۔ یہ جنگلی سورؤں کی طرح باس مار رہی ہیں۔“
میں اس بارے میں لکھوں گی۔ مجھے خدشہ ہے کہ پیچھے گھر (وطن) میں میری بات پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔ ہمارے اخبار صرف دوستی کے ان راستوں اور پٹریوں کے بارے میں لکھتے ہیں جو سوویت فوجیوں نے بنائی ہوتی ہیں۔
میں فوجیوں سے بات کرتی ہوں۔ ان میں سے اکثر رضاکارانہ طور پر آئے ہیں۔ انہوں نے یہاں آنے پر خود ترجیح دی۔ میں نے نوٹ کیا کہ یہ پڑھے لکھے خاندانوں سے تھے۔ یہ دانشوروں میں سے تھے۔ استاد تھے۔ ڈاکٹر تھے۔ لائبریرین تھے۔۔۔ ایک لفظ میں بات کی جائے تو یہ کتابی لوگ تھے۔ وہ سب مخلصانہ طور پر یہ خواب دیکھتے تھے کہ افغانوں کو سوشلزم تعمیر کرنے میں مدد دیں۔ اب وہ خود پر ہنستے ہیں۔ مجھے ائیر پورٹ پر ایک جگہ دکھائی گئی جہاں سینکڑوں زنک کے تابوت دھوپ میں پراسرار طور پر چمک رہے تھے۔ وہ افسر جو میرے ساتھ تھا خود کو یہ کہنے سے باز نہ رکھ سکا:
” کون جانتا ہے۔ میرا تابوت بھی وہیں کہیں رکھا ہو۔ وہ مجھے اس میں ٹھونس دیں گے۔۔۔ میں یہاں کس لیے لڑ رہا ہوں؟“
وہ اپنے ہی لفظوں سے خوفزدہ ہو گیا اور اس نے مجھے فوراً کہا:
”اسے مت لکھنا۔“
رات میں مجھے مرے ہوئے خواب میں آتے رہے۔ ان سب کے چہروں پر حیرانی تھی:
’ کیا، تمہارا مطلب ہے، میں مارا جا چکا ہوں؟ کیا میں واقعی مار دیا گیا ہوں؟‘
میں نرسوں کے ایک گروپ کے ساتھ افغان شہریوں کے ایک ہسپتال میں گئی۔ ہم اپنے ساتھ بچوں کے لیے تحائف لے کر گئے تھے۔ کھلونے، بسکٹ، گولیاں اور ٹافیاں، میرے پاس پانچ ٹیڈی بئیر بھی تھے۔ ہم ہسپتال پہنچے۔ یہ ایک لمبی بیرک تھی۔ کسی کے پاس اوڑھنے کے لیے ایک کمبل کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ ایک جوان افغان عورت ایک بچہ گود میں اٹھائے میرے پاس آئی۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔۔ پچھلے دس سال کے عرصے میں تقریباً ہر کسی نے تھوڑی بہت روسی بولنا سیکھ لیا تھا۔ میں نے اس کے بچے کو ایک کھلونا دیا جو اس نے دانتوں سے دبوچ لیا۔
” اس نے دانتوں سے کیوں دبوچا ہے؟“، میں نے حیرانی سے پوچھا۔ اس نے اس کے ننھے جسم سے کمبل ہٹا دیا۔ ننھے لڑکے کے دونوں بازو نہیں تھے۔
” ایسا تب ہوا تھا جب تمہارے روسیوں نے بمباری کی تھی۔“
کسی نے مجھے سہارا دیا کیونکہ میں گرنے لگی تھی۔
میں نے اپنے ”گراڈ“ راکٹوں کو وہاں کے دیہاتوں کو ایسے کھیتوں میں بدلتے دیکھا جیسے ان میں ہل پھرا ہو۔ میں ایک افغان قبرستان میں گئی۔ یہ ان کے دیہاتوں میں سے ایک جتنا لمبا تھا۔ اس قبرستان کے درمیان کہیں ایک بوڑھی افغان عورت چیخ و پکار کر رہی تھی۔ منسک کے قریب ایک گاؤں میں جب وہ گھر میں زنک کا تابوت لیے داخل ہوئے تو مجھے ایک ماں کا واویلا یاد تھا۔ یہ کسی انسان یا جانور کی چیخ نہیں تھی۔۔۔ یہ کچھ ویسی ہی تھی جو میں نے کابل کے قبرستان میں سنی۔
مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ میں یک دم آزاد نہیں ہوئی۔ میں اپنے کام سے مخلص تھی اور انہیں مجھ پر اعتماد تھا۔ آزادی کے حوالے سے، ہم میں سے ہر کسی کا اپنا اپنا راستہ تھا۔ افغانستان سے پہلے، میں سوشلزم پر یقین رکھتی تھی کہ اس کا ایک انسانی چہرہ ہے لیکن جب میں افغانستان سے واپس آئی تو میں ساری خوش فہمیوں سے آزاد تھی۔
” ابا، مجھے معاف کرنا۔“، میں نے جب انہیں دیکھا تو کہا، ” آپ نے مجھے اس لیے بڑا کیا تھا کہ میں کمیونسٹ نظریات پر یقین رکھوں لیکن ان جوانوں کو، تازہ بنے سوویت ، سکول کے لڑکے، ویسے جنہیں آپ اور ماں نے بھی پڑھایا (میرے والدین ایک دیہاتی سکول میں استاد تھے) جب ان لوگوں کو مار رہے تھے جنہیں وہ جانتے تک نہ تھے اور وہ بھی بدیسی علاقے میں۔ یہ دیکھنا کافی تھا اور اس نے آپ کے سارے الفاظ راکھ میں بدل ڈالے۔ ابا ہم قاتل ہیں۔ آپ اس بات کو سمجھتے ہیں نا!؟ ‘‘
میرے والد یہ سن کر رو پڑے تھے۔
افغانستان سے پلٹنے والے بہت سے لوگ آزاد ہو گئے تھے لیکن دوسری مثالیں بھی موجود ہیں۔ افغانستان میں میرا ایک نوجوان ساتھی تھا جو مجھ پر چلایا تھا:
” تم ایک عورت ہو، تمہیں جنگ کی کیا سمجھ ہے؟ تم سمجھتی ہو کہ لوگ جنگ میں ویسی ہی سہانی موت مرتے ہیں جیسی کتابوں اور فلموں میں دکھائی جاتی ہے؟ کل میرا ایک دوست مارا گیا، اس نے اپنے سر میں گولی ماری اور اپنے پھٹتے بھیجے کو قابو میں رکھنے کی کوشش میں دس میٹر دور تک بھاگتا رہا۔“
سات سال بعد میرا وہی ساتھی ایک کامیاب بزنس مین ہے جو افغانستان کے بارے میں کہانیاں سنانا پسند کرتا ہے۔ اس نے مجھے فون کیا:
” آپ کی کتابیں کس کام کی ہیں؟ یہ بہت ہی خوفناک ہیں۔“
اب وہ ایک مختلف بندہ تھا، وہ اب وہ جوان نہیں تھا جسے میں موت کی وادی میں ملی تھی اور وہ بیس سال کی عمر میں مرنا نہیں چاہتا تھا۔
میں خود سے پوچھتی ہوں کہ میں جنگ کے بارے میں کس قسم کی کتاب لکھنا چاہتی ہوں۔ میں ایک ایسے بندے کے بارے میں کتاب لکھنا چاہتی ہوں جو گولی چلانا نہیں چاہتا، جو کسی دوسرے انسان پر فائر نہیں کھول سکتا، جسے جنگ کے خیال سے ہی اذیت کا احساس ہوتا ہو۔ وہ کہاں ہے؟ میں اس سے کبھی نہیں مل پائی۔
1990۔ 1997
روسی ادب دلچسپ ہے ، اس لحاظ سے کہ یہ وہ واحد ادب ہے جو ہمیں ایک ایسے تجربے کی داستان سناتا ہے جو ایک وسیع اور بڑے ملک پر کیا گیا۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے: آپ المیوں کے بارے میں کیوں لکھتی ہیں؟
میں ایسا اس لیے لکھتی ہوں کہ ہم ان میں ہی رہتے ہیں۔ اب ہم مختلف ملکوں میں رہتے ہیں لیکن ’لال‘ لوگ ہر جگہ ہیں۔ وہ اسی زندگی سے باہر آئے ہیں اور ان کے پاس اسی زندگی کی یادیں ہیں۔
میں نے چرنوبل پر لکھنے کے حوالے سے، لمبا عرصہ خود کو روکے رکھا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میں اس بارے میں کیسے لکھوں، کیا طریقہ اختیار کروں اور اس موضوع تک کیسے رسائی حاصل کروں۔ دنیا جس نے کبھی میرے ننھے سے ملک، جو یورپ کے ایک کونے میں ٹِکا ہے، کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا لیکن اب اس کا نام ہر زبان پر تھا۔ ہم بیلارسین چرنوبل کے لوگ بن گئے تھے۔ وہ جنہوں نے اِک ان ہونی، اِک انجانے سانحے کا سامنا کیا۔ تب یہ واضح ہو گیا تھا کہ کمیونسٹ، نسلی اور نئے مذہبی چیلنجوں کے علاوہ ہمارے لیے اور بھی خونی، درندہ صفت اور عالمی چیلنج موجود ہیں گو یہ فی الحال نظر نہیں آ رہے البتہ چرنوبل کے بعد کچھ تو، چاہے رتی برابر سہی، ہم پر آشکار ہوا ہے۔
مجھے ایک بوڑھا ٹیکسی ڈرائیور یاد ہے۔ اس کی وِنڈ شیلڈ سے جب ایک کبوتر ٹکرایا تھا اور اس نے مایوسی کے عالم میں قسمیہ کہا تھا:
”دوتین پرندے روز کار میں آ ٹکراتے ہیں لیکن اخبارات یہی کہتے ہیں کہ صورت حال قابو میں ہے۔“
شہر کے باغات کو پتوں سے خالی کر دیا گیا تھا۔ انہیں آبادی سے باہر لے جا کر گہری زمین میں دفن کیا گیا۔ آلودہ علاقوں کی مٹی کو بھی کھود ڈالا گیا اور اسے بھی لے جا کر دفنا دیا گیا۔ دھرتی کو دھرتی میں ہی دفن کیا گیا۔ جلانے کے کام آنے والی لکڑیاں اور گھاس بھی دفنائی گئی۔ پر بندہ کسی حد تک دیوانہ نظر آنے لگا تھا۔ شہد کی مکھیاں پالنے والے ایک بوڑھے نے مجھے بتایا:
” اس صبح میں باغ میں گیا تو کوئی شے۔ ایک مانوس آواز وہاں کم تھی۔ وہاں شہد کی مکھیاں نہیں تھیں۔ میں ایک مکھی کی آواز بھی نہ سن سکا۔ ایک کی بھی نہیں! کیوں؟ وہاں کیا ہو رہا تھا؟ وہ دوسرے روز بھی نہ اڑیں اور پھر تیسرے روز بھی۔ تب ہمیں بتایا گیا کہ نیوکلیائی سٹیشن پر ایک حادثہ پیش آ گیا ہے۔۔۔ اور یہ زیادہ دور نہیں ہے۔ لیکن ہمیں اس کے بارے میں عرصے تک کچھ بھی معلوم نہ ہوا۔ شہد کی مکھیوں کو پتہ تھا لیکن ہم بے خبر تھے۔ اخباروں میں چرننوبل کے بارے میں سب کچھ فوجی زبان میں تھا: ’ دھماکہ، ہیرو، فوجی، انخلا۔ کے جی بی ( KGB ) سٹیشن پر مصروف عمل تھی۔ وہ جاسوس اور تخریب کار تلاش کر رہی تھی۔ افواہیں پھیلیں کہ یہ حادثہ سوشلسٹ کیمپ کو کمزور کرنے کے لیے مغربی انٹیلی جنس اداروں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ فوجی ساز و سامان چرنوبل کی طرف رواں دواں تھا۔ وہاں فوجی آ رہے تھے۔ جیسا کہ معمول تھا ، نظام ایسے چل رہا تھا جیسے یہ جنگ کا زمانہ ہو لیکن اس نئی دنیا میں، ایک نئی چمکتی مشین گن لیے فوجی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ صرف ایک کام کر سکتا تھا کہ تابکاری کی بڑی مقدار اپنے اندر جذب کرتا رہے اور جب گھر واپس جائے تو مر جائے۔
میرے آنکھوں کے سامنے چرنوبل کے حادثے سے پہلے کے لوگ یکدم ’’ پیپل آف چرنوبل ‘‘ بن گئے۔
آپ تابکاری کو نہ تو دیکھ سکتے ہیں، نہ چھو سکتے ہیں اور نہ ہی سونگھ سکتے ہیں۔ ارد گرد کی دنیا مانوس تھی اور نامانوس بھی۔ میں نے جب اس زون میں سفر کیا تو مجھے فوراً ہی بتا دیا گیا:
پھولوں کو ہاتھ نہیں لگانا، گھاس پر نہیں بیٹھنا، کسی کنویں سے پانی نہیں پینا۔ ہر جگہ موت چھپی ہوئی تھی لیکن اس بار یہ مختلف قسم کی موت تھی۔ اس نے نیا مکھوٹا پہن رکھا تھا۔ یہ ایک اجنبی بھیس میں تھی۔ بوڑھے لوگ جو پہلے بھی جنگ جھیل چکے تھے، کا پھر سے انخلاء شروع ہو چکا تھا۔ وہ آسمان کی طرف دیکھتےاور کہتے:
” سورج چمک رہا ہے۔ کہیں دھواں نہیں، پٹرول کی بو نہیں۔ کوئی گولیاں اور گولے نہیں داغ رہا۔ یہ جنگ کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن ہمیں مہاجر بننا پڑ رہا ہے۔“
ہر صبح، ہر کوئی خبروں کے لالچ میں اخباروں پر جھپٹتا اور پھر ناامید ہو کر انہیں پٹخ دیتا۔ کوئی جاسوس نہ مِلا۔ کسی نے عوام کے دشمنوں کے بارے میں نہ لکھا۔ جاسوسوں اور عوام کے دشمنوں کے بغیر یہ دنیا بھی اجنبی اور نامانوس تھی۔ یہ بھی کسی نئی شے کی شروعات تھی۔ افغانستان میں ناکامی کے بعد جلد ہی چرنوبل نے ہمیں آزاد قوم بنا دیا۔
میرے لیے دنیا دو لخت ہو گئی۔ زون کے اندر مجھے بیلارسین یا روسی یا پھر یوکرینی ہونے کا احساس نہ ہوتا بلکہ میں ایک ایسی حیاتیاتی نوع کی نمائندہ تھی جسے تباہ کیا جا سکتا تھا۔ دو المیے، دو آفتیں، دو تباہیاں ایک ساتھ آ ملی تھیں۔ سماجی دائرے میں سوشلسٹ ’ اٹلانٹس ‘ ڈوب رہا تھا۔۔۔ اور سنسار کی سطح پر۔۔۔ چرنوبل تھا۔ سلطنت کے ڈھ جانے پر ہر کسی اور ہر شے کو الٹا پلٹا کر رکھ دیا۔ لوگ روزمرہ کی زندگی کے بارے میں پریشان ہونے لگے۔ اشیا کیسے، کیونکر اور کس سے خریدی جائیں؟ کیسے زندہ رہا جائے؟ کس پر یقین کیا جائے؟ اس بار کن نعروں کے پیچھے چلا جائے؟ یا ہمیں کسی بھی عظیم نظریے کے بغیر زندہ رہنے کے لیے سیکھنے کی ضرورت ہو گی؟ آخری بات بھی نامانوس تھی، اس لیے کہ اس طرح کی زندگی کسی نے نہ جی تھی۔’لال‘ آدمی کو سینکڑوں سوالات کا سامنا تھا لیکن وہ اپنے آپ میں تھا۔ آزادی کے اُن اولین دنوں میں وہ ایسا اکیلا بندہ تھا کہ کبھی پہلے تنہا نہ ہوا تھا۔ میں چاروں طرف سے ایسے لوگوں میں گھری ہوئی تھی جو صدمے کے عالم میں تھے۔ میں نے انہیں سنا۔
میں اپنی ڈائری بند کرتی ہوں۔۔۔
جب سلطنت ڈھ گئی تو ہم پر کیا بیتی؟ پہلے دنیا ظالموں اور مظلوموں میں منقسم تھی۔یہ گولاگ تھا۔ بھائی اور بہن تھے۔ یہ جنگ تھی۔ رائے دہندگان تھے۔ ٹیکنالوجی کا کچھ حصہ تھا اور ہمعصر دنیا تھی۔ ہماری دنیا ان میں منقسم تھی جو قید میں تھے اور جو انہیں قید کرنے والے تھے۔ آج یہاں سلاوک اورمغربیت پسندوں کی تقسیم ہے،”فاسشٹ ۔ غدار“ اور محب وطنوں کی تقسیم ہے اور ان کے بیچ وہ ہیں جو اشیا خرید سکتے ہیں اور وہ جو نہیں خرید سکتے۔ یہ آخری والے، میں کہوں گی، سب سے ظالم آزمائش میں ہیں اور سوشلزم کے پیچھے چلنا چاہتے ہیں کیونکہ زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ سب برابر تھے۔ ’لال‘ آدمی آزادی کی بادشاہت میں داخل ہونے کے قابل نہ رہا تھا کیونکہ اس کے خوابوں کی دنیا اس کے باورچی خانے کی میز کے گرد گھومتی تھی۔ روس نے اسے کچھ نہ دیا اور اس کے پاس کچھ نہ رہا۔ اس کی ہتک کی گئی اور اسے لوٹاگیا۔ وہ مشتعل اور خطرناک ہو گیا۔
یہاں میں کچھ تبصرے پیش کر رہی ہوں جو میں نے سوویت یونین ٹوننے کے بعد روس میں سفر کے دوران سنے۔
”یہاں جدیدیت صرف ’شاراشکس‘ (سائنس دانوں کے لیے بنائے گئے قید خانے اور ان کے لیے کھڑے کیے گئے فائرنگ سکواڈ) کے ذریعے ہی آ سکتی ہے ۔“
”یہاں ایماندار لوگ نہیں ہیں لیکن ایسے ضرور ہیں جنہیں ولی کہا جا سکتا ہے۔“
ہم کوئی ایسی نسل نہیں دیکھیں گے جسے کوڑے نہ مارے گئے ہوں۔ روسی آزادی کا مطلب نہیں سمجھتے، انہیں قازکوں اور کوڑوں کی ضرورت ہے۔“
”روس میں دو الفاظ سب سے اہم ہیں ۔ یہ’جنگ‘اور ’قید خانہ‘ ہیں، آپ کچھ چرائیں، کچھ موج مستی کریں، وہ آپ کو بند کر دیں گے۔ آپ باہر نکلیں گے اور دوبارہ جیل میں جا کر سڑیں گے۔“
”روسی زندگی کوفاسد اور گھناؤنا ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کی روح تبھی اوپر اٹھے گی اور اسے سمجھ آئے گی کہ وہ اس دنیا کے لیے نہیں بنی۔ چیزیں جتنی غلیظ اور خونیں ہوں گی روح کے لیے اتنی ہی زیادہ جگہ ہو گی۔“
”کسی کے پاس اتنی توانائی نہیں کہ ایک اور انقلاب لائے یا دیوانگی پھیلائے۔ اب حوصلے ہی نہیں رہے۔ روسیوں کو ایسے نظریے کی ضرورت ہے جو ان کی ریڑھ کی ہڈی تک میں کپکپی پیدا کر دے۔“
”اسی لیے ہماری زندگی افراتفری اور بیرکوں کے درمیان لٹکی ہوئی ہے۔ کمیونزم مرا نہیں ہے، اس کی لاش ابھی بھی زندہ ہے۔“
میں یہ کہنے کی جسارت کروں گی کہ ہم نے وہ موقع گنوا دیا ہے جو ہمیں 1990 کی دہائی میں ملا تھا۔ اس وقت یہ سوال کھڑا ہوا تھا کہ ہمارا ملک کس قسم کا ہونا چاہیے؟ ایک طاقتور ملک یا ایک ایسا ، جس میں لوگ نفاست سے رہ سکیں؟۔۔۔ ہم نے پہلا والا چُنا۔ ایک طاقتور ملک۔ ہم ایک بار پھر’طاقت‘ کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ روسی یوکرینیوں سے لڑ رہے ہیں جو ان کے بھائی ہیں، میرا باپ بیلارسین ہے، میری ماں یوکرینی ہے۔ ایسا بہت سے لوگوں کے ساتھ ہےاور روسی جہاز شام پر بمباری کر رہے ہیں۔
امید سے بھرا وقت پھر سے اُس وقت میں بدل گیا ہے جو خوف سے لدا ہے۔ زمانے نے الٹا رخ پھیر لیا ہے اور وقت میں پیچھے کی طرف رواں دواں ہے۔ ہم اب جس وقت میں رہ رہے ہیں یہ پرانا ہے اور پہلے سے برتا ہوا ہے۔
بعض اوقات مجھے یقین نہیں آتا کہ میں نے ”لال“ آدمی کی تاریخ لکھ لی ہے، اسے مکمل کر لیا ہے۔
میرے تین گھر ہیں۔ میری بیلارسین زمین جو میرے والد کا وطن ہے، جہاں میں نے اپنی ساری زندگی گزاری ہے۔ یوکرین، میری ماں کا وطن جہاں میں پیدا ہوئی اور روس کی عظیم تہذیب و تمدن جس کے بغیر میں اپنے وجود کے نہ ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ مجھے یہ سب پیارے ہیں لیکن آج کے دن اور اِس عمر میں میرے لیے پیار اور محبت کے بارے میں بات کرنا مشکل ہے۔
(بیلاروس کی سویٹلانا ایلکسیوچ (Svetlana Alexievich) نے اپنا یہ لیکچر 7 دسمبر 2015 کو سویڈش اکیڈمی، سٹاک ہوم، سویڈن میں، روسی زبان میں دیا تھا۔ اصل زبان میں یہ لیکچر nobelprize.org پر موجود ہے۔)
خدام العلما ویلفیئر فاؤنڈیشن کے چیئرمین کا دہلی کی ایک مینار جامع مسجد میں والہانہ استقبال کے دوران علما کے ایک وفد کو سفر عمرہ پرعنقریب بھیجنے کا اعلان
نئی (نامہ نگار): علمائے امت چوں کہ انبیاء کرام کے وارث ہیں، اس لیے ان سے سچی محبت اور ان کی خیر خواہی کے لیے عملی طور پر کام کرنا دراصل امت مسلمہ کے وجود وبقا کے لیے ناگزیر ہے اور جو لوگ اس مشن کو نئی سمت دینے کے لیے کوشاں ہیں،وہ دراصل امت کی فلاح وبہبود کی راہ میں رواں دواں ہیں؛ کہ امت کی عظمت اور ترقی کا مدار علما کی عظمت اور ان کی ترقی پر ہے اور جو لوگ علما کی تذلیل کے در پے رہتے ہیں اورمسلمانوں کو اپنے مذہبی رہنماؤں سے جدا کرنے کی دانستہ یا غیر دانستہ طور پرحرکت کرتے ہیں،وہ حقیقت میں مسلمانوں کے بد خواہ ہیں اور اپنی دنیا وآخرت دونوں کی تباہی کا سامان بہم پہنچارہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہارخدام العلما ویلفیئر فاؤنڈیشن کے چیئرمین محب العلما الحاج حفیظ اللہ شریف نے دہلی کے لکشمی نگر للیتا پارک ایک مینار جامع مسجد منعقد استقبالیہ پروگرام میں علما کی ایک بڑی تعداد کے درمیان کیا۔غور طلب ہے کہ فاؤنڈیشن کے چیئرمین حاجی حفیظ اللہ شریف نے اپنے تجارتی مشاغل کے باوجود علما کی عظمت واہمیت کی بازیابی کے لیے کئی پروگرام شروع کیے ہیں جن میں علماکی رازدارانہ مالی معاونت، کووڈ کے دور میں روزگار کھوچکے دینی علوم کے حامل افراد کے روزگار کا انتظام، ان کی فیملی کو ماہانہ راشن وروزمرہ کی ضروریات کے سامان کی فراہمی سمیت متعدد کام کررہے ہیں،ان کا ایک سب سے نمایاں کام ان علمائے کرام کو بیت اللہ کی زیارت کے لیے عمرہ کے سفر پر بھیجنا ہے جنھوں نے اب تک یہ مبارک سفر نہیں کیا ہے، دہلی میں اس سنہرے سلسلے کی اہم ذمہ داری ایک مینار جامع مسجد کے خطیب مفتی عبدالواحد قاسمی صدر ولی اللہی دارالافتاء اور ڈاکٹرمفتی آصف اقبال قاسمی چیئرمین اسلامک ریسرچ وویلفیئرفاؤنڈیشن کو دی گئی ہے اور اس تحریک سے تین سو علما اب تک وابستہ ہوچکے ہیں، عنقریب دہلی کے علما وائمہ کرام کا ایک وفدسفر عمرہ پر روانہ ہوگا۔دریں اثنا اس اہم مشن کے محرک وبانی حاجی عبدالحفیظ شریف کی مبارک تحریک کو علما کی خیرخواہی وخیر سگالی کا عملی نمونہ اور دوسرے صاحب ثروت مسلمانوں کے لیے باعث تحریک قرار دیتے ہوئے اسلامک ریسرچ وویلفیئرفاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مفتی آصف اقبال قاسمی نے جناب شریف صاحب کو علما دوستی پر سندِ اعزاز پیش کیا۔ پروگرام میں دہلی واین سی آر کے مختلف علاقوں کے سیکڑوں ائمہ وعلما کرام نے شرکت کی جن میں مفتی شاکر، مفتی خبیب قاسمی،مولانا ابو بکر قاسمی،مفتی عادل قاسمی،مفتی طاہر مظاہری،مفتی وسیم قاسمی، مفتی مشاہدقاسمی، مفتی مسعودقاسمی،مفتی اشرف امینی، مولانا ممتاز قاسمی،مفتی افشان قاسمی، مفتی صلاح الدین قاسمی،مولانا نظام الدین قاسمی،مولانا عبدالرازق قاسمی،مولانا عبدالرحمن قاسمی،غلام رسول قاسمی،قاری عمران قاسمی،قاری عبد اللہ،قاری شعیب،قاری سفیان،مولانا ضیاء الرحمن،حاجی یوسف سیٹھ، دور ِ جدید کے ایڈیٹرایس ٹی رضا،عرس کمیٹی دہلی سرکار کے چیئرمین ایف اے اسماعیلی،سید شاداب رضوی، ڈاکٹر عاصم،ڈاکٹر گلفام وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
رابطہ : 8493981240
لکھنؤ ابتدا سے ہی علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔اس علمی گہوارے سے متعدد رسائل وجرائد شائع ہوتے رہے ہیںجن کی چمک سے ادبی دنیا ایک عرصہ تک روشن رہی۔آج بھی اس ادب نگری سے ایک علمی رسالہ ادبی نشیمن کے نام سے ڈاکٹر سلیم احمد کی ادارت میں شائع ہورہا ہے۔یہ سہ ماہی رسالہ لکھنؤ کے ساتھ ساتھ پوری ادبی دنیا سے وابستہ قارئین کی ذہنی آبیاری کررہا ہے۔ اس کا تازہ شمارہ (دسمبر تا فروری ۲۰۲۳ ) چند روز قبل موصول ہوا، اس خوبصورت تحفےکے لیے میں رسالے کے ایڈیٹر اور منتظمین کا ممنون ہوں۔ سرورق پر حجاب اوڑھے ایک نو عمر لڑکی کی الوسٹریٹدتصویر ہے۔یہ لڑکی کون ہے ؟ رواں سال کے فروری ماہ میں کرناٹک کے کئی کالجوں میں حجاب کو لے کر طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان پیدا ہوئے اختلافات نے شدت اختیار کرلی اور ایک منصوبہ بند سازش کے تحت حجاب کا مقابلہ زعفرانی شالوں سے کیا جانے لگا۔ ۸/ فروری کو کرناٹک کے قصبہ ”منڈیا“ میں واقع پی ای ایس کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس کی طالبہ” مسکان خان بنت محمد حسین خان“ کالج کے احاطے میں برقع پہنے داخل ہوئی تواسے سینکڑوں ہندوتواوادی کارکنوں نے روکنے کی کوشش کی اور زعفرانی شالیں لہراتے ہوئے جے شری رام کے نعرے لگائے جس کے جواب میں مسکان خان نے ہمت جرات اور دینی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمنانِ اسلام کے نرغے میں ”اللہ اکبر“ کا جوابی نعرہ بلند کیا۔ اس کارنامے پر اس بہادر طالبہ کو ”شیرنی“ کا خطاب دیا گیا۔ادبی نشیمن نے اس کی ہمت و جرات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئےمشہور خطاط اور مصور عبدالکریم(کالی کٹ) کے ذریعے بنائی گئی اس کی الوسٹریٹد تصویر شمارے کے سرورق پر شائع کی اور ساتھ ہی ” جلال حسن “کے عنوان سے ”سفر نقوی“ کی لکھی نظم کو بھی سرورق کا حصہ بنایا۔ ہمت و بے باکی کی نمائندگی کرتا یہ سرورق دیدہ زیب بھی ہے اوربہادر بیٹی مسکان کے لیے ادبی برادری کی طرف سے خوبصورت سا خراج تحسین بھی ۔
چونکہ ادبی نشیمن نے اپنے سفر کے پانچ سال مکمل کر لیے ہیں ، اس مناسبت سے رسالے کو موصول مشاہیر ادب کے تہنیتی پیغامات میں سے چند (پروفیسر شارب ردولوی، پروفیسر شمس الہدیٰ، پروفیسر اسلم جمشیدپوری اور ڈاکٹر مشتاق صدف) کےتاثرات اس شمارے کی زینت ہیں جس سے اس رسالے کی مقبولیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ رسالے کے بیک کور میںدستاویز کے طور پر ڈاکٹر رضیہ حامد کی کتاب” نواب سلطان جہاں بیگم“ کی تصویر اور اس حوالے سے نواب صاحبہ کی علمی ، ادبی و رفاہی خدمات کے تعلق سے مفید معلومات درج ہیں۔اس کے علاوہ ادبی نشیمن کے دفتر میں موصول کتابوں میں سے بارہ کے سرورق کو بھی رسالے بیک کور کے اندر والے صفحے پرشائع کیا گیا ہے۔ اس سے اس کی افادیت بڑھ گئی ہے اورمتعلقہ کتب کے مصنفین کی حوصلہ افزائی کا سامان بھی ہوگیا ہے۔
تازہ شمارے کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ پہلے حصے میں ایک حمد(فرحانہ نازنین) اور ایک نعت شریف (محمد عثمان عازم)درج ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اداریہ میں ایڈیٹر صاحب نے علامہ اقبال کی یومِ ولادت سے بات شروع کرتے ہوئے ادبی نشیمن کے تازہ شمارے کے مشتملات پرگفتگو کی ہے اور ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں عالمی یوم اردو کے ساتھ ساتھ ۲۰ / مارچ کو” یوم تحفظ اردو“ بھی منانی چاہیے کہ اسی دن کانپور میں دو محبان اردو نے اردو کی بقاء کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کی تھی اور بعد میں یہ دونوں مجاہدین نے اردو کے لیے جانی قربانی بھی دے دی تھی۔دوسرے حصے میں نو تنقیدی و تحقیقی مضامین کو شامل ہیں۔ پہلا مضمون ”اردوکی نشو و نما میں فارسی اور تاجکی زبان کا رول “ پدم شری پروفیسر رجبوف حبیب اللہ کا ہے جس کو انگریزی سے اردو کا جامہ ڈاکٹر مشتاق صدف نے پہنایا ہے۔ مضمون میں فارسی اور تاجکی زبان نے اردو کی بالیدگی میں کیا رول نبھایا ہے ، اسے موضوع بنایا گیاہے۔فارسی حکمرانوں نےجو کردار اردو ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کے لیے نبھایا، اس کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔تاجکی زبان کےجو الفاظ اور کہاوتیں اردو میں مستعمل ہیں ، ان کی نشاندہی مثالوں کے ساتھ کی گئی ہے اور یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ارود کے تقریبا ساٹھ فیصد الفاظ فارسی اور تاجکی زبان سے مستعار ہیں۔دوسرا مضمون ”خطیب گلشن آبادی کی غزل گوئی “ ڈاکٹر نارائن پاٹیدار کے قلم سے ہے۔اس مضمون میں خطیب کی حالات زندگی ، چار شعری مجموعوں قطرہ قطرہ خون ( 1992) ، مشاہدہ (2001) ، نذرانہ (2002، حمد، نعت، منقبت اور سلام کا انتخاب ) اور محامد باری تعالی (2003) کے ذکر کے علاوہ خطیب کی عمومی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔خطیب کی غزل گوئی کے حوالے سے یہ ایک موثر مضمون ہے۔اس حصے کا تیسرا مضمون شبیر احمد کے ناول ہجورآما کے حوالے سے ہے۔مضمون ”ہجورآما : ایک تنقیدی جائزہ“ میں ڈاکٹر سفینہ بیگم نے اس ناول کے اختصاصات کا جائزہ لیا ہے ۔مضمون کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اس سماج کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو اس ناول کا محرک بنا۔ ناول کا موضوع ، کردار نگاری ، زبان و بیان اور پلاٹ پر بھی بات ہوئی ہے۔اس حصے کے بہترین مضامین میںسے ایک” رئیس المتغزلین حسرت موہانی کی غزل گوئی “ پر ہے۔ ڈاکٹر شبانہ نکہت انصاری نےاپنے اس مضمون میں حسرت کی غزل گوئی کا علمی انداز میں محاکمہ کیاہے اور اپنی بات کو موثر بناتے ہوئے آل احمد سرور اور ڈاکٹر سید عبداللہ کے اقوال پیش کئے ہیں۔حسرت موہانی نے جس انداز میں غزل کی نوک پلک سنواری ہے، اس کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ :
”حسرت نے جن ناموافق اور نازک حالات میں اردو غزل کو سنبھال کر رکھا ،وہ لائق ذکر کارنامہ ہے۔موصوف کے اس فنکارانہ سہارے سے کسی طور چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔غزل میں دہلی اور لکھنؤدبستانوں کی رنگارنگی ، حق گوئی ، صداقت پسندی ، چلتے پھرتے محبوب سے غزل کی روشناسی وغیرہ جیسی ان کی خدمات کے تحت یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ اردو غزل کے نئے دور کے محافظ ہیں۔“ (جدید اردو غزل کی آبرو : حسرت موہانی ، صفحہ: ۱۸ )۔
اس حصے کا ایک اہم مضمون” وفیات برہان : ایک قیمتی دستاویز “ہے۔ محمد اویس سنبھلی نے اس مضمون میں وفیات نگاری اور تعزیتی تحریروں کی مختصر تاریخ اور مولانا سعید احمد اکبر جو ماہنامہ برہان کا اداریہ لکھتے تھے کی ”وفیات برہان “کا جائزہ لیا ہے۔اس حصے کا چھٹا تحقیقی و تنقیدی مضمون” بہار میں اردو غزل : سمت و رفتار“ ڈاکٹر محمد شرف عالم کا ہے۔اس مضمون میں بہار سے تعلق رکھنے والے شعراء کی غزل گوئی کا جائزہ لیا گیا ہے۔اکبر الہ آبادی کی مزاحیہ شاعری سے کون واقف نہیں ۔ڈاکٹر ناظم حسین خان نے ” اکبر الہ آبادی کا نظریہ فکر اور شاعری “ نامی مضمون میں۔ اکبر کی فکر ، حساسیت ، زبان و بیان ، قومی شاعری کا تذکرہ ، ان کے کلام میں معاملہ بندی ، برجستگی ، کیف و سرور ، شائستگی اور ان کے نظریات کو موضوع بنایا گیاہے۔اس حصے کا ساتواں مضمون ” 1960 ء کے بعد خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں کا جائزہ “ ڈاکٹر شاہینہ عبید خان کے جنبش قلم کا نتیجہ ہے۔اس تحقیقی و تنقیدی مضمون میں عصمت چغتائی، جیلانی بانو ، ممتاز شیریں ، قرۃ العین حیدر ، نگار عظیم ، ذکیہ مشہدی ، ترنم ریاض ، ثروت خان وغیرہ کی افسانہ نگاری، ان کے افسانوں کے موضوعات ، ان کے یہاں نفسیاتی ، جنسیاتی، سیاسی اور معاشی مسائل کی عکاسی ، ان کے مخصوص اسالیب اور زبان و بیان کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس حصے کا آٹھواں مضمون”ڈاکٹر محمد اسد اللہ کی انشائیہ نگاری “ تبسم آرا کے قلم سے نکلا ہے۔یہ مختصر مضمون محمد اسد اللہ کی انشائیہ نگاری کے حوالے سے اہم ہے کہ اس میں ان کے انشائیوں کے مجموعوں کے علاوہ ان کے انشائیوں کی زبان اور عنوانات پر بھی بات ہوئی ہے۔اس حصے کا آخری مضمون سفیان احمد انصاری کا”غالب کاسفرِ کلکتہ اور اس کے محرکات : ایک جائزہ “ہے۔عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں مرزا غالب کے سفر کلکتہ کے حوالے سے کچھ چھپی معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔
تیسرے حصے کا عنوان” خراج عقیدت “رکھا گیا ہے اور اس میں مزید چار مضامین شامل ہیں۔اس حصے میں تین مرحوم فنکاروں کو یاد کرکے ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے گئے ہیں جن میں رباب رشیدی پر دو مضمون (بقلم احمد ابراہیم علوی اور رضوان احمد فاروقی) کے ساتھ ساتھ پروفیسر اصغر عباس(بقلم ڈاکٹر غلام حسین) اور رفعت عزمی( بقلم فرید بلگرامی) پر ایک ایک مضمون شامل ہیں۔مضمون نگاروںنے اپنے اپنے ممدوحین کی خوبیوں کو یاد کر تے ہوئے ان کے فکر و فن کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ چوتھے حصے میں پانچ افسانے ”ضرورت“ از رئیس صدیقی ، ”تجارت “ از اشفاق برادر ،” بھگوان کی دیوالی “ از تنویر اختر رومانی ، ”امید نو“ از فاکہہ قمر ( پاکستان ) اور” ایک جادو گر“ از عقبی حمید شامل ہیں۔ پانچویں حصے میں غزلیات کو شامل ہیں۔ دیپک روحانی کی مناجات اور صدام حسین نازاں کی نعت پاک کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اختر ریاض ، ڈاکٹر عرفان بالغ ، نوشاد اشہر ، شمیم احمد شمیم ،کوثر تسنیم کی غزلیات کے علاوہ جمیل اختر شفیق کی خوبصورت نظم” سجدے میں“ ، مشیر احمد مشیر کی نظم” سیلفی “اور شاد اعظمی ندوی کی مہجری نظم ” گمشد شناخت “ شامل ہیں۔رسالہ کا آخری حصہ تبصروں پر مشتمل ہے اور قارئین کے تاثرات کو بھی اس حصے میں جگہ دی گئی ہے۔اس حصے میں دو تبصروں ”کلیات آزور لکھنوی“ از ڈاکٹر اسرار الحق قریشی پر محسن عظیم انصاری کا تبصرہ اور ”رشید حسن خان کی ادبی جہات“ از ڈاکٹر ابراہیم افسرپرمحمد سعید اختر کا تبصرہ متعلقہ کتب کا بھرپور تعارف پیش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مراسلات کے کالم کے تحت ڈاکٹر عبدالحق امام، پروفیسر مقبول احمد مقبول ، جمال اظہر صدیقی اور اقراء قاضی کے چارتاثراتی خطوط بھی شامل ہیں۔
مجموعی طور پر رسالے کا مزاج تنقیدی ہے کہ اس میں تیرہ تنقیدی و تحقیقی مضامین اور دو تبصرے شائع ہوئے ہیں جبکہ تخلیقی ادب کو کم جگہ دی گئی ہے ۔ رسالے میں کل ایک حمد ، دو نعت پاک ، ایک مناجات ، پانچ افسانے ،پانچ غزلیں اور تین نظمیں شائع ہوئی ہیں۔ رسالہ مختصر سا ہے کل چونسٹھ صفحات پر مشتمل ۔ اگر چند صفحوں کا مزید اضافہ کیا جائے تو انشائیوں اور خاکوںجیسے اصناف کی بھی شمولیت ہو سکتی ہے۔ ان اصناف کا مطالعہ یقینا قارئین کی دلچسپی سے مبرا نہ ہوگا ۔ یہ ادبی نشیمن جیسے مقبول اور جدید ادب کا ترجمان رسالے کے لیے ضروری بھی ہے کہ ان اصناف کو کم وبیش تمام ہی رسالے نظر انداز کرتے آ رہے ہیں۔امید ہے رسالے کے وابستگان اس امر کی طرف خصوصی توجہ دیں گے۔