10 دسمبر, 2022
نئی دہلی : آج انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی (IOS) کی جانب سے اس کے مرکزی کانفرنس ہال میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی علمی و دینی خدمات کے عنوان پر سمینار منعقد ہوا – افتتاحی اجلاس کا انعقاد پروفیسر محسن عثمانی کی صدارت میں ہوا – افتتاحی خطاب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے آن لائن فرمایا اور کلیدی خطاب مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی بانی حضرت مفتی الٰہی بخش اکیڈمی کاندھلہ کا ہوا – انھوں نے شاہ صاحب کی خدمات پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی اور بہت قیمتی اور نادر معلومات پیش کیں –
اجلاس میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ناظم ندوۃ العلماء ، مولانا کاکا سعید احمد ناظم جامعہ دار السلام عمر آباد ، مولانا شاہ ہلال احمد قادری سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف بہار اور مولانا تقی الدین ندوی (ابو ظبی) کے پیغامات پیش کیے گئے – مولانا اصغر علی امام مہدی امیر جمعیت اہل حدیث ہند اور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ و سکریٹری جماعت اسلامی ہند نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اظہارِ خیال کیا –
ان حضرات نے شاہ عبد العزیز کی علمی و دینی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ، مثلاً درسِ قرآن کی مجلسوں کا انعقاد اور عوام کو قرآن سے جوڑنے کی کوشش ، تفسیر قرآن کی تالیف ، کتبِ حدیث کی تدریس اور و اجازۃ کا اہتمام ، فتاویٰ ، خاص طور سے ہندوستان کو دار الحرب قرار دینے کا فتویٰ ، ردِّ رفض و تشیّع میں ان کی تالیفات ، خاص طور پر تحفہ اثنا عشریہ ، وغیرہ – اس موقع پر تین کتابوں کا اجرا بھی عمل میں آیا :
1- دکن میں اسلامی علوم کی خدمات ، مرتبین : ڈاکٹر محمد فہیم أختر ندوی ، ذیشان سارہ ، صفحات : 478 ، قیمت : 495 روپے –
2 – جامع مسجد گیان واپی اور بنارس کی دیگر تاریخی مساجد ، مولانا عبد الحمید نعمانی ، صفحات : 166 ، قیمت : 195 روپے
3 – آئی او ایس کا ترجمان شش ماہی مطالعات نئی دہلی (شمارہ 60 ,61) حدیث نمبر –
افتتاحی اجلاس کے کنوینر شاہ اجمل فاروق ندوی انچارج علمی امور آئی او ایس تھے تھے۔ مقالات کے اجلاس آج اور کل آن لائن ہوں گے – اختتامی اجلاس کل سہ پہر میں ہوگا ، ان شاء اللہ
آٹھ ارب انسانی آبادی والی یہ دنیا ایک انسانی سمندر ہے جس میں سوا تین لاکھ قطری شہریوں سمیت تیس لاکھ آبادی والا قطر اپنے رقبے اور آبادی کے اعتبار سے تو فقط ایک ‘قطرۂ آب’ ہے مگر سیاسی اور معاشی حیثیت سے وہ ایک ایسا ‘کوزہ’ ثابت ہو چکا ہے جس نے ‘سمندروں’ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اس کے دور اندیش حکمرانوں نے اسٹیبلش کر دیا ہے کہ اگر دولت ہاتھ میں ہو اور فراست ایمانی ساتھ میں ہو تو تمدن کی چلتی ہوئی ٹرین اور تہذیبوں کے اڑتے ہوئے جہاز کا بھی رخ موڑا جا سکتا ہے۔ کھان پان سے لیکر پہناوے تک میں اپنے اصولوں اور اپنی تہذیبی شناخت کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے اپنی مہمان نوازی سے دلوں کو نہ صرف مسخر کیا جا سکتا ہے بلکہ ان معاشروں کو اپنی شرائط پر مہمان بنایا جا سکتا ہے جن کے پنکھ چھو کر تیسری دنیا کی ‘دیہاتی قومیں’ اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھنے لگتی ہیں۔
دنیا کے نقشے پر بظاہر ایک ‘قطرہ’ دکھائی دینے والے قطر نے اس وقت فٹبال کے عالمی مقابلے فیفا ورلڈ کپ 2022 کے حوالے سے پوری دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ اپنی زمین پر ہم جنس پرستی کی بدبودار تشہیر اور شراب کے بیہودہ استعمال پر پابندی لگا کر قطر نے مغرب کو گویا باالفعل سمجھا دیا کہ تمہاری ‘آزادی’ وہیں پہ ختم ہو جاتی ہے جہاں سے ہماری ناک شروع ہوتی ہے۔
اس فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی میں قطر نے اپنی دولت کو پانی کی طرح بہایا ہے لیکن یہ بات معاشی ماہرین ہی زیادہ سمجھتے ہیں کہ قطر نے چند ‘قطرے’ بہا کر اپنے سمندر میں دولت کے کتنے نئے ‘دریا’ گرا لئے ہیں۔ ہمارا سیدھا سادہ مذہبی طبقہ جو صرف دولت کے کھلے خرچ کو ‘عیاشی’ سمجھتا ہے وہ اپنی جیبیں ٹٹولے بغیر قطر کو دن رات تنقید کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔ ہم ایسی محفلوں میں بس ایک ہلکے سے تبسم پر اکتفا کر لیتے ہیں۔
آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی فیفا ورلڈ کپ کی شاندار میزبانی سے قطر نے اگر دنیا کو حیران و ششدر کر دیا ہے تو ہمارے خیال سے اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال تقریباً تمام عرب ممالک اپنے معیار زندگی میں اس وقت باقی دنیا سے بہت آگے ہیں۔
وہ عام طور پر فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ انکی میزبانی کل بھی مثالی تھی اور آج بھی مثالی ہے۔ اللہ نے ایک طرف انھیں تیل کی دولت سے مالامال کیا ہے تو دوسری جانب انھیں فراخ دستی بھی عطا کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی سرمایہ کاری کے لئے اس وقت یہ عرب ممالک تمام عالم کے لئے مرکز نگاہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ بھی اپنی دولت کو مختلف سیکٹرز میں لگانا چاہتے ہیں۔ کاش ہمارے درمیان ایسے لوگ ہوتے جو مٹھی بھر چندوں کے لیے ہاتھ پھیلانے کے بجاۓ ملک و قوم کی معاشی ترقی اور استحکام کے لیے پر کشش تجارتی پروجیکٹس اور منصوبوں کے ساتھ انہیں ایپروچ کرتے مگر افسوس کہ قومی اور ملی افلاس کے خاتمے کے لئے کسی ایسی منظم معاشی جد و جہد کا خیال تک نہیں آتا جو اس ملک میں مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی ترقی کا واحد راستہ ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہر طرح کی غربت اور قومی بے مائیگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
مادی وسائل کاصحیح استعمال انسانی معاشروں پر کس قدر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے، قطر اسکی ایک بہترین مثال ہے۔ فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی سے اس چھوٹے سے ملک نے دنیا کو بہت متاثر کیا ہے۔ ایک طرف دوحہ شہر کی اپنی چکا چوندھ، دوسری طرف آنکھوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دینے والے عظیم الشان اسٹیٹ آف دی آرٹ اسٹیڈیمس، تیسری طرف شائقین کی میزبانی کے انتہائی دلکش اور دل پذیر انتظام و انصرام اور ان سب کو اپنے پاکیزہ اور روحانی دائروں میں سمیٹتی ہوئی اسلامی تعلیم و تہذیب کی ہمہ جہت اور پر کشش دعوت مغرب کے دیسوں سے آنے والے شائقین کو حیرت انگیز اور ‘عقیدہ شکن’ تجربات سے آشنا کر رہی ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ ورلڈ کپ کے آغاز میں ہی صرف ایک یا دو دنوں میں سینکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ایک طرف سڑکوں، عمارتوں، بازاروں اور ایوانوں کی ظاہری چمک دمک اور دوسری جانب حسن اخلاق کے چلتے پھرتے، ہنستے اور بولتے انسانی پیکر قطر سے باہر بھی ان کروڑہا لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں جو سوشل میڈیا پر ان مناظر کو دیکھ رہے ہیں۔ اور تاثیر کی اس گرفت میں نرم اور گرم سب ہم مزاج ہو رہے ہیں۔ ہندوستان میں موجود ان آنکھوں میں بھی ہم نے مرعوبیت کی دبیز لکیریں دیکھی ہیں جو ہماری قومی مظلومیت اور کسمپرسی کو بڑی رعونت سے دیکھنے کی عادی رہی ہیں۔
قطر کی یہ خوبیاں صرف فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی تک محدود نہیں ہیں۔ قطر کا اصل کمال اسکی وہ کامیاب سفارت کاری ہے جس نے عالمی سیاست کو ایک نئی جہت دیکر امن اور استحکام کی راہوں کو ہموار کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ اس چھوٹے سے ملک نے دنیا کی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کے درمیان توازن قائم کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر ایک چھوٹا سا ملک بھی چاہے تو وہ اپنی سالمیت کو بنیاد بناتے ہوئے ایک اہم بین الاقوامی اور علاقائی کھلاڑی بن سکتا ہے۔
اسے ایمانی فراست ہی کہا جا سکتا ہے کہ قطر نے اسٹیٹ ایکٹرز اور نان اسٹیٹ ایکٹرز یعنی ہمیشہ ریاست اور اسکے باغیوں کو گفتگو کی میز پر لا بٹھا دینے کی کامیاب حکمت عملی اختیار کی اور دونوں متحارب گروہوں کے درمیان ثالثی کا ثمر آور کردار ادا کرتے ہوئے ایسے کئی معرکے سر کئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قطر نے 2008 میں یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا۔ گو کہ ‘جنگ’ ابھی بھی جاری ہے مگر امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ قطر نے 2008 میں لبنان کے متحارب گروہوں کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کی جس کے بعد 2009 میں اتحادی حکومت قائم ہوئی۔ 2009 میں ہی سوڈان اور چاڈ کے درمیان باغیوں کے مسئلے پر مذاکرات میں حصہ لیا، جبوتی اور اریٹیریا کے درمیان سرحد پر مسلح جھڑپوں کے بعد سنہ 2010 میں قطر نے ان کے درمیان بھی ثالثی کا کردار ادا کیا جس کی تعریف افریقی اتحاد نے بھی کی۔
اتنا ہی نہیں بلکہ 2011 میں سوڈانی حکومت اور باغی گروہ لبریشن اینڈ جسٹس موومنٹ کے درمیان بھی دارفور معاہدہ کرایا جسے دوحہ معاہدہ بھی کہا جاتا ہے اور سال 2012 میں حماس اور فتح گروہوں کے درمیان بھی صلح اور عبوری حکومت کے ڈھانچے پر معاہدہ کرانے میں قطر نے اپنا رول ادا کیا۔ قطر کے جس رول کی ابھی حالیہ عرصے میں جم کر تعریف ہوئی اور جس نے ایک تاریخ رقم کر دی ہے وہ طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان سے انخلا کا معاہدہ ہے۔
دنیا میں امن اور استحکام کے لئے قطر کی ان کامیاب کوششوں میں قطر کی جو اصل پالیسی نظر آتی ہے وہ ‘ہارڈ پاور’ اور ‘سافٹ پاور’ کے بیچ ‘سمارٹ پاور’ کے استعمال کی بہترین مثال ہے۔ اپنے اور مخالفین کے درمیان ‘ونڈو آف اپرچونیٹی’ یعنی بات چیت اور مصالحت کے لیے ایک کھڑکی کھلی رکھنے کی حکمت عملی ہر دور میں کارگر رہی ہے۔ قطرنے اسی حکمت عملی کو بروے کار لا کر زمین پر امن کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ بنیادی طور پر قطر نے اپنے آپ کو اس پوزیشن پر لانے کے لیے ایک طرف عالمی معیار کے اپنے نیوز چینل الجزیرہ کو اور دوسری طرف مغرب و مشرق میں سرمایہ کاری کو اپنی حکمت عملی کا خاص حصہ بنایا۔
قصہ مختصر، عالمی کھیل کود کی تقریبات کو میزبانی کے بہانے دعوت توحید کا ایک عظیم الشان ذریعہ بنانے سے لیکر سرمایہ کاری تک اور سرمایہ کاری سے لیکر کامیاب سفارت کاری تک قطر تمام مسلم ممالک کے لیے ایک مشعل راہ بن گیا ہے۔ اس نے یہ نظیر قائم کر دی ہے کہ دولت اگر ہاتھ میں ہو اور ایمان و حکمت بھی ساتھ میں ہو تو بڑی بڑی سیاسی طاقتوں کو بھی اپنی شرطوں پر خوش دلی کے ساتھ جھکایا جا سکتا ہے۔ قطر کی اس شاندار کہانی میں ہمارے ملک کی مسلمان ‘قیادتوں’ کے لیے بھی بہت کچھ ہے کہ وہ اپنے اس ملک میں کیا کیا کر سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ وہ اس طرف توجہ دیں !
مصنف : عبد الباری قاسمی
ضخامت : 268
قیمت : 200 روپے
ناشر : مرکزی پبلیکیشنز
عبد الباری صدیقی قاسمی کا نام عہد حاضر کے ان چند فعال اسکالرس میں شمار کیا جاتا ہے جن کی موجودگی قومی و بین الاقوامی سطح کے مستند و معتبر رسائل و جرائد اور اخبارات میں نظر آتی رہتی ہے۔ آپ کا تعلق صوبہ بہار کے سمستی پور ضلع سے ہے تاہم گزشتہ ایک دہائی سے تعلیم کے سلسلے میں دہلی و اطراف دہلی میں مقیم رہتے ہوئے علمی، سماجی اور صحافتی خدمات بحسن و خوبی انجام دیتے آ رہے ہیں۔ موصوف کی شخصیت ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہے یہ باتیں میں قطعی طور پر کسی بھی طرح کی خوش فہمی کا شکار ہوۓ بنا کہہ رہا ہوں، یہ حقیقت پر مبنی باتیں ہیں۔ کیونکہ بیک وقت آپ ایک عالم دین، طبیب، صحافی اور ادب کے شناور کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کی ابتدائی اور حفظ تک کی تعلیم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد یو پی سے ہوئی ، مزید تعلیم کے لیے ازہر ہند دار العلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں سے آپ نے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی ۔ اس کے بعد دہلی یونیورسٹی دہلی کو مرکز نگاہ بنایا۔ یہیں سے آپ کو قلمی تحریک ملی جس کا آج یہ نتیجہ ہے کہ اتنی کم عمری میں تادمِ تحریر اب تک آپ کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔
زیرِ مطالعہ کتاب بعنوان ‘تفہیم و تعبیر’ 24 مضامین کا ایک جامع مجموعہ ہے جو سات الگ الگ ابواب کے تحت ضبط تحریر لائے گئے ہیں، خیال رہے کہ ان میں بیشتر وہ مضامین ہیں جو وقتاً فوقتاً نہ صرف رسائل و جرائد میں شائع ہوۓ ہیں بلکہ صاحب کتاب کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی سطح کی سیمینارز اور کانفرنسز میں پڑھے بھی گئے ہیں۔ یعنی کہ تمام ہی مشمولات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔کتاب کے ابتدائی تین صفحات مصنف کا پیش لفظ ہے جس میں آپ نے تمام ابواب کے حوالے سے مختصراً معلوماتی بات کرتے ہوئے اس کتاب کی تکمیل میں جتنے بھی دوست احباب اور اساتذہ کی معاونت شامل رہی ان کا خلوص دل سے شکریہ ادا کیا ہے۔ علاوہ ازیں پانچ صفحات پر نامور ادیب، محقق اور صحافی حقانی القاسمی کا مختصر اور جامع مقدمہ شامل کتاب ہے جس میں آپ نے عبد الباری صدیقی قاسمی کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے تمام مشمولات اور دوران مطالعہ جن چیزوں کی آپ نے کمی محسوس کی ان سب پر کھلے دل سے سیر حاصل گفتگو کی ہے حالانکہ حرف آخر تو کسی کی بات کو نہیں کہا جا سکتا مگر یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ موجودہ دور میں حقانی القاسمی کی رائے قابلِ لحاظ اور قابلِ احترام ضرور ہے اسی لیے متعلقہ کتاب پر ان کا قلم اٹھانا ہر طرح سے سند کا درجہ رکھتا ہے۔
باب اول سلسلۂ نثر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ جس کے تحت چار مضامین قلم بند کیے گئے ہیں۔ پہلا مضمون بعنوان اٹھارویں صدی میں اردو نثر تحریر کیا گیا ہے جس میں آپ نے اٹھارویں صدی کے ہندوستان کی سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی تبدیلیوں کے حوالے سے بحث کی ہے کہ کس طرح نئی زبان، نئی فکر، نئے نئے علوم اور نئے جذبات اور احساسات پروان چڑھ رہے تھے کیونکہ یہ زمانہ بہت ہی اتھل پتھل کا زمانہ رہا ہے، جہاں یہ انگریز حکمرانوں کی آمد کی گواہی دے رہا ہے وہیں مغل حکومت کے خاتمے کا الارم بھی بجاتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی مضمون میں اول اول ان تمام مذہبی کتب پر بالترتیب مدلل انداز میں بات کی گئی ہے جن پر تادمِ تحریر نہ جانے کتنی جامعات کے مختلف شعبہ جات میں ضخیم مقالات لکھے جا چکے ہیں ان میں کربل کتھا، تفسیر مرادیہ، تفسیر رفیعی اور موضح قرآن کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ افسانوی تصانیف میں قصہ مہر افروز و دلبر، نوطرز مرصع، نو آئین ہندی، عجائب القصص، جذب عشق اور انشاء اللہ خاں انشا کی سلک گہر کو مطمح نظر بنایا گیا ہے جس میں آپ نے مذکورہ بالا تمام کتب کی اردو زبان و ادب میں اہمیت و افادیت کے حوالے سے سلسلے وار اہم گفتگو کی ہے۔ نثری دیباچہ اور تاریخی نثر پر بات کرتے ہوئے اس مضمون کا اختتام کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے تیسرے مضمون میں فسانہ آزاد کی ادبی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے جس میں رتن ناتھ سرشار کے مختصر تعارف سے لے کر فسانہ آزاد کی وجہ تخلیق، پلاٹ و کردار، زبان، اسلوب، مزاح، مکالمہ، لکھنوی معاشرت کی عکاسی اورحقیقت جیسے تمام پہلوؤں پر حوالہ جات کے ساتھ تفصیلی بحث سپرد قرطاس کی گئی ہے۔ چوتھا مضمون امراؤ جان ادا : ایک مطالعہ کے نام سے سپرد قلم کیا گیا ہے جس میں جناب عبد الباری صدیقی قاسمی نے ابتدا میں امراؤ جان ادا کی علمی و ادبی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مرزا ہادی رسوا کے حالات زندگی کا مختصر نوٹ لیا ہے، اس کے بعد سن تصنیف، موضوع، مختصر قصہ، پلاٹ، تکنیک، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، لکھنؤ کی معاشرت اور تہذیبی منظرکشی، تجسس و جستجو، واقعیت، اسلوب، ناول کا پیغام اور حرف آخر پیش کرتے ہوئے بھرپور معلوماتی جامع مضمون شامل کتاب کیا ہے۔
باب دوم ‘اسالیب’ کے نام سے معنون کیا گیا ہے جس کے تحت پہلے باب ہی کی طرح چار مضامین ہیں, سب سے پہلے ‘نوطرز مرصع کے اسلوب کی انفرادیت ‘ میں صاحب کتاب نے متعلقہ کتاب کے تخلیقی پس منظر پر بات کرتے ہوئے مصنف کے حالات زندگی کی مختصر روداد بیان کی ہے، نوطرز مرصع کے عہد تصنیف، سبب تالیف، نوطرز مرصع کا ماخذ، اسلوب اور اخیر میں مختصر قصہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بات جامع الفاظ میں مکمل کرنے کی ہر ممکن سعی کی ہے۔ دوسرا مضمون ‘سر سید احمد خان کا نثری اسلوب’ کے نام سے لکھا گیا ہے جس میں جدید نثر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سر سید کے اسلوب ان کی شاہکار تصانیف، سنجیدگی، تعقل پسندی، تمثیلی انداز اور خطیبانہ اسلوب پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ تیسرا مضمون ‘مولوی عبد الحق کا نثری اسلوب’ میں آپ نے بابائے اردو کی تحریری خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی اہم ترین تصانیف کے ناموں، سادگی و سلاست، اثر آفرینی، حقیقت پسندی، خاکہ نگاری، مقدمہ نگاری اور زبان کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ چوتھا مضمون ‘غبار خاطر کا اسلوب’ کے نام سے سپرد قرطاس کیا گیا ہے جس میں آپ نے غبار خاطر کی اردو ادب میں اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سن تصنیف سے لے کر سن اشاعت تک بالترتیب ذکر تو کیا ہی ہے اس پر مستزاد یہ کہ آپ نے مولانا آزاد کے تصنیفی ادوار، آزاد کا اسلوب نگارش، غبار خاطر کی زبان، اشعار کا بر محل استعمال، عربی الفاظ و تراکیب کی کثرت، طنز و مزاح، قلمی مصوری، مناظر فطرت کی عکاسی اور آزاد کے انانیت پسند انداز پر تفصیلی بات کی ہے۔
باب سوم سلسلۂ شعر و سخن کے نام سے مخصوص کیا گیا ہے جس کے تحت 6 مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون’ زہر عشق کی ادبی اہمیت’ کے نام سے ہے، جس کی شروعات میں زہر عشق کی وجہ تخلیق اور اس کا مختصر قصہ بیان کیا گیا ہے۔ بعد ازاں مرزا شوق لکھنوی کے حالات زندگی ، ان کا شعری سرمایہ، مثنویات شوق، فریب عشق، بہار عشق، زہر عشق، مثنویات شوق کا ماخذ، زبان و بیان، زہر عشق کے کردار، جذبات نگاری، لکھنؤ کی تہذیبی جھلکیاں اور زہر عشق کی ادبی اہمیت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ دوسرا ‘جدید اردو غزل : ابتدا و ارتقا’ کے نام سے لکھا گیا ہے جس میں جدید غزل کے آغاز و ارتقا کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کے ساتھ جدید غزل کے معرض وجود میں آنے کے اسباب و عوامل اور جدید غزل سے وابستہ ان تمام غزل گو شعرا اور ان کے نمونہ کلام پر مدلل بحث کی ہے جن میں خاص طور سے شاد عظیم آبادی، حسرت موہانی، فانی بدایونی، اصغر گونڈوی، جگر مراد آبادی، یاس یگانہ چنگیزی، فراق گورکھپوری، فیض احمد فیض اور مجروح سلطانپوری کے نام شامل ہیں۔ تیسرا مضمون ‘ مسدس حالی: تعارف اور امتیاز’ کے نام سے سپرد قرطاس کیا گیا ہے جس میں حالی کے تخلیقی پس منظر اور مولانا الطاف حسین حالی کا شاعری کی طرف رجحان، حالی کا شاعرانہ قد، مسدس حالی کا مع اشعار بھرپور تعارف اور مسدس حالی کی امتیازی و انفرادی خصوصیات کو اپنے نوک قلم کا محور و مرکز بنایا گیا ہے۔ چوتھا مضمون’ فراق گورکھپوری کی شاعری کے امتیازات’ کے نام سے لکھا گیا ہے اس میں موصوف نے فراق کی شعری کائنات کے امتیازی پہلوؤں کا بڑی ہی دل جمعی اور عرق ریزی سے نہ صرف جائزہ پیش کیا ہے بلکہ کچھ ایسے پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا ہے جن تک عام قارئین کی پہنچ نہیں تھی۔ پانچواں مضمون ‘ابوالحیات حضرت مولانا قاری فخر الدین فخر گیاوی’ کے نام سے ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔ جس میں موصوف نے فخر گیاوی کی مختلف الجہات شخصیت کا بھرپور احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے سب سے پہلے آپ نے فخر گیاوی کے ذریعے علمی میدان میں کیے گئے کارہائے نمایاں کا ذکر کیا ہے۔ بعد ازاں ان کی پیدائش، تعلیم، اصلاحی تعلق، فراغت کے بعد میدان عمل میں قدم، سجاد لائبریری، شاعری کی طرف رغبت جہاں آپ نے موصوف کے ذریعے تمام اصناف سخن میں کی گئی قلم فرسائی، نثر نگاری اور آپ کی مطبوعہ تحریروں کا بغائر جائزہ پیش کیا ہے۔ چھٹا مضمون ‘مولانا احمد سعید دہلوی کی شاعری:ایک مطالعہ’ کے نام سے قلم بند کیا گیا ہے۔ جسے اہلِ علم اور ادب دوست حضرات نے "سحبان الہند” کے لقب سے نوازا تھا۔ آپ بیک وقت ایک عالم دین اور پایہ کے شاعر تھے۔ اس مضمون میں جہاں آپ کے علمی و ادبی پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے وہیں اردو شعر و ادب میں آپ کا کیا مقام و مرتبہ تھا اس پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ جس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ آزادی ہند کے بعد لال قلعہ میں جو سب سے پہلا مشاعرہ منعقد کیا گیا اس کی صدارت کے لیے آپ جیسی نابغہ روزگار شخصیت کا انتخاب کیا گیا تھا۔ کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ واقعی اس وقت یہ ذمہ داری آپ کے شایانِ شان بھی تھی۔
باب چہارم سلسلۂ نقد و تحقیق کے نام سے ہے، جس کے تحت دو مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون ‘مشرقی تنقید : آغاز و ارتقا’ کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں صاحب کتاب نے جہاں ایک طرف خطۂ مشرق سے تعلق رکھنے والی تمام زبانوں میں پاۓ جانے والے تنقیدی پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی قابل اعتراف کوشش کی ہے ، جس میں چینی زبان میں تنقید، جاپانی زبان میں تنقید، سنسکرت میں تنقید، عربی زبان میں تنقید اور فارسی زبان میں تنقید سر فہرست نظر آتی ہیں، وہیں دوسری طرف اردو زبان میں تنقیدی نقوش کا پا جانا جس میں شاعری میں تنقید، مشاعروں میں تنقید، اساتذہ کی اصلاح میں تنقید، تقریظ میں تنقید، خطوط میں تنقید ، تذکروں میں تنقید اور ساتھ ہی ساتھ اردو زبان کے دو بڑے نقادوں کی اردو ادب میں مسلم اہمیت کے حوالے سے خلوص دل سے بات کی گئی ہے جن میں مولانا محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کے نام لائق اعتبار ہیں۔دوسرا مضمون ‘خواجہ احمد فاروقی ایک محقق اور نقاد گر ادیب’ کے نام سے لکھا گیا ہے۔ اس میں صاحب کتاب نے فاروقی صاحب کی اپنے دور کے علمی و ادبی حلقوں مسلم شخصیت پر تو گفتگو کی ہی ہے مگر میرے نزدیک آپ کا سب سے مستحسن کام وہ ہے جو فاروقی صاحب کا شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کی ترقی و فلاح کے لیے جنون کی حد تک پہنچا ہوا جذبہ رہا اور اس کو آپ نے اپنا مطمح نظر بناتے ہوئے ان کی شخصیت کے چھپے ہوئے گوشوں سے ہم سب کو روبرو کرایا ہے ۔جو دور فاروقی صاحب کا تھا وہ ایسا ناسازگار تھا کہ نہ اردو کے لیے بہتر تھا نہ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کےلیے موزوں۔ مگر آپ نے اپنی علمی صلاحیت اور حسن سلوک سے اسی شعبے میں صدر جمہوریہ سے لے کر وزیر اعظم تک کو بلوا لیا۔ جس سے یونیورسٹی اور ارد گرد کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور طلبہ و طالبات انگشت بد نداں رہ گئے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ فرمائیں ایک صفحے سے چند سطور:
"مَیں اردو کی خدمت اپنا نہیں بلکہ خدا کا کام سمجھ کر کرتا ہوں۔ ” ( ص نمبر 174 )
اس کے علاوہ اس کتاب میں ہندوستانی زبانوں پر فارسی زبان کے اثرات، کلام اقبال میں قرآنی علوم و افکار کی ترجمانی، ذکر اقبال کا تنقیدی جائزہ، ادب اطفال : اہمیت و افادیت اور اردو کا وسیع ہوتا دائرہ اور تلفظ کی بڑھتی غلطیاں کے عنوان سے شامل مضامین قابل ذکر ہیں۔ کتاب کی پشت پر استاد محترم پروفیسر ابو بکر عباد کی قیمتی آرا اور نیک خواہشات یقیناً کتاب اور صاحب کتاب کے لیے باعث افتخار ہیں۔
کہیں کہیں کتاب میں تذکیر و تانیث کی غلطیاں ضرور در آئیں ہیں ، جنھیں امید ہے کہ
آنے والے ایڈیشن میں دور کرلیا جائے گا ۔ مگر مجموعی طور پر علمی و ادبی اعتبار سے اس کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، جس کے لیے برادرم عبد الباری صدیقی قاسمی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ قوی امکانات ہیں کہ آنے والے وقت میں موصوف کی اس کاوش کو علمی و ادبی حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اللہ کرے کی زور قلم اور زیادہ۔ باذوق قارئین اس کتاب کو مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کرکے حاصل کر سکتے ہیں : 9871523432
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
شاہ فیصل اور شاہ ولی اللہ ایوارڈ یافتہ، ماہر معاشیات، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور شاہ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے سابق استاذ، اردو اور انگریزی میں درجنوں کتابوں کے مصنف ، مقاصد شریعت پر گہری نظر رکھنے والے نامور مفکر اور صف اول کے قائد مسلم مشاورت کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا ۲۱ نومبر ۲۲۰۲ءکو امریکہ میں انتقال ہو گیا، تدفین وہیں عمل میں آئی۔
ڈاکٹر محمد نجات اللہ کا آبائی وطن اور جائے پیدائش گورکھپور ہے، ۱۳۹۱ءمیں ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد مرکز جماعت اسلامی رام پور یوپی تشریف لے گیے ، عربی کی تعلیم یہیں پائی، وہاں کے بعد مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ کا رخ کیا اور وہاں کے جلیل القدر علماءواساتذہ سے کسب فیض کیا اور اسلامی معاشیات واقتصادیات کے رموز ونکات میں درک پیدا کیا، اعلیٰ عصری تعلیم کے حصول کے لیے علی گڈھ میں داخلہ لیا اور ۶۶۹۱ءمیں معاشیات میں پی اچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،جب آپ ۱۶۹۱ءمیں شعبہ ¿ معاشیات میں لکچرر اور ریڈر مقرر ہوچکے تھے ، چند سال بعد ۸۷۹۱ءمیں شاہ عبد العزیز یونیورسیٹی جدہ میں اسلامی معاشیات کے شعبہ میں تقرری عمل میں آئی، ۱۰۰۲ءمیں سبکدوشی کے بعد وہ کیلوفورنیا چلے گئے اورکیلی فورنیا یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے لگے ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کئی زبانوں کے ماہر اور مختلف فنون پر گہری نگاہ رکھتے تھے، لیکن ان کے مطالعہ وتحقیق کا اصل میدان، مقاصد شریعة اور اسلامی معاشیات ہی رہا ، انہوں نے اسلامی غیر سودی بینک کاری پر زبر دست کام کیا،ا ن کی کتابوں کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے اور ”ہوٹ کیک“ کی طرح ہاتھوں ہاتھ بکے، ان کتابوں میں انہوں نے اسلامی اقتصادیات سودی بینک کاری کی بہ نسبت زیادہ مفید اور انسانوں کے لیے نفع بخش قرار دیا ۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو تصنیف وتالیف کی جو صلاحیت اللہ نے بخشی تھی اس کی وجہ سے پوری دنیا خصوصا عالم اسلام وعرب میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور مطالعات اسلامی کے شعبہ میں گراں قدر خدمات پر شاہ فیصل ایوارڈ سے ۲۸۹۱ءمیں نوازے گیے، ان کی تصنیفات میں اسلام کا معاشی نظام، اسلام کا نظریہ، ملکیت، غیر سودی بینک کاری، تحریک اسلامی عصر حاضر میں، اسلامی نشا ¿ة ثانیہ کی راہ اکیسویں صدی میں، اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی، معاصر اسلامی فکر ، مقاصد شریعت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انہوں نے امام ابو یوسف کی کتاب الخراج اور سید قطب کی کتاب اسلام کے عدل اجتماعی کا ترجمہ بھی دوسری زبان میں کیا، مختلف جرائد ورسائل میں سینکڑوں علمی مضامین ومقالات لکھے، ان کی انگریزی کتابیں بھی ایک درجن سے زائد ہیں۔
ڈاکٹر صدیقی کا مطالعہ وسیع اور گہرا تھا، وہ سر سری طور پر بات کرنے اور کچھ لکھنے کے عادی نہیں تھے، آج کل جو ہم لوگوں کا مزاج بن گیا ہے کہ” کاتا اور لے دوڑے“، وہ ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا، وہ علمی اختلافات کا بُرا نہیں مانتے تھے، دوسروں کی رائے کا احترام کرتے تھے، اور اگر کسی کی دلیل مضبوط ہوتی تو رجوع کرنے میں عار نہیں محسوس کرتے،ان کا اخلاقی مقام بھی بلند تھا، ان کے بعض آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے علمی خلوص پر شبہ نہیں کیا جا سکتا، وہ مزاجا متحمل ، بردبار اور صابر وشاکر تھے۔
ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کی تلافی بہت آسان نہیں ہے، لیکن قادر مطلق کچھ بھی کر سکتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے ان کے نعم البدل اور مرحوم کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے۔
وفیات اطبّاء ہند و پاک : حکیم وسیم احمد اعظمی کی آئندہ نسلوں تک میراث منتقل کرنے کی ایک لاجواب کوشش-شکیل رشید
ایک بار موبائل پر ، کسی کتاب کے بارے میں مختصر سی گفتگو کے سوا ، حکیم وسیم احمد اعظمی سے میری نہ کبھی ملاقات ہوئی ہے نہ بات ، لیکن میں ان سے اسی طرح واقف تھا جیسے ایک دنیا انہیں جانتی ہے ۔ حکیم وسیم احمد اعظمی کا نام ’ طب یونانی ‘ کے حوالے سے ایک ’ لیجنڈ ‘ ہے ۔ حکیم صاحب کی طبّی اور علمی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے ۔ علمِ طب پر ان کی کتابیں داخلِ نصاب ہیں ، موصوف سینٹرل کونسل فار ریسرچ اِن یونانی میڈیسن کے کلینیکل اور لٹریری شعبہ سے وابستہ رہے ہیں ۔ اور کونسل کے ترجمان سہ ماہی ’ جہانِ طب ‘ کی ادارت کی ہے ۔ لیکن یہ تعارف ان کی شخصیت کا ادھورا تعارف ہے ۔ ان کی شخصیت کا مکمل تعارف اسی وقت ممکن ہے ، جب انہیں علمِ طب ، اور طب کے لیل و نہار کے ایک مورخ کے طور پر یاد یا پیش کیا جائے ۔ طب کوئی ایسا موضوع نہیں ہے کہ قلم اٹھایا اور لکھ مارا ! یہ موضوع تحقیق چاہتا ہے ، اور تحقیق کے لیے محنت درکار ہوتی ہے ،حقائق اور کِذب کو ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑتا ہے ، اور جنہیں واقعی کسی تعصب یا کسی طرح کے کَد کی بنا پر نظرانداز کیا گیا ہے ، لیکن وہ ایسے لوگ نہیں تھے ، جنہیں نظرانداز کیا جانا چاہیے تھا ، ان سب کو ان کا جائز مقام دینا ہوتا ہے ، اور جو ناجائز طور پر مسند پر بیٹھ گیے ہیں ، یا جن کے نام کسی اور کا کام کردیا گیا ہے ، انہیں باہر کا راستہ دکھانا پڑتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام وہی کرسکتا ہے جسے تحقیق کے فن پر بھی کمال حاصل ہو اور جو تاریخ کے فن میں بھی طاق ہو ، ساتھ اْسے اپنے کام سے شدید لگاؤ ہو ، جنون کی حد تک ۔ وسیم احمد اعظمی کو طب کے موضوع سے کچھ ایسا ہی لگاؤ ہے ، اسی لیے اس موضوع پر انہوں نے اعلیٰ ترین معیار کی تحقیقی ، علمی اور تاریخی کتابیں لکھی ہیں ۔ گذشتہ دنوں بہت ہی پیارے ادیب اویس سنبھلی نے ، جنہیں میں علم دوست بھی مانتا ہوں اور کتاب دوست بھی ، مجھے حکیم صاحب کی چار کتابیں ایک ساتھ بھیج دیں ، وہ بھی حکیم صاحب کے دستخط کے ساتھ ۔ ان کتابوں میں تین جلدیں ’وفیات اطبّاء ہند و پاک ‘ کی ہیں ۔ آج میں ان تینوں جلدوں کا ایک مختصر سا تعارف پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، حالانکہ طب میرا موضوع نہیں ہے ۔ جلد اول، حصہ اول – حرف الف ممدودہ و الف ، کی اشاعت 2019 ء میں ہوئی تھی ۔ یہ جلد 320 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت 194 روپیہ ہے ۔ اس جلد کے ، اور باقی کی دو جلدوں کے بھی ، ناشر ’ اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن ، نئی دہلی ‘ ہیں ۔ اس کتاب کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں اٹھ سکتا ہے کہ ، آخر اس کتاب کی آج کے دور میں ، جب کہ طب یونانی کی سانسیں ہندوستان میں اکھڑ رہی ہیں ، کیا ضرورت تھی ؟ کتاب کے ’ پیش نامہ ‘ میں حکیم صاحب نے اس سوال کا تشفی بخش جواب دے دیا ہے ۔ حکیم صاحب نے وفیات نگاری کو فنِ اسماء الرجال کا رہینِ منت قرار دیتے ہوئے بہت اہم نکتہ پیش کیا ہے کہ غالباً مسلمانوں کے ’’ شعور یا تحت الشعور میں اپنی میراث کو صحت اور صالحیت کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا جذبہ رہا ہوگا ۔ اس طرزِ فکر نے مسلمانوں کی ہر طرح کی فکری ، علمی اور عملی جدوجہد کو محفوظ کر دیا ہے ۔‘‘ یہ جملہ اس کتاب کی ضرورت کو اجاگر کر دیتا ہے کہ ’یہ کام میراث کو صحت اور صالحیت کے ساتھ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کے جذبے کے تحت کیا گیا ہے ۔‘ حکیم صاحب کا ’ پیش نامہ ‘ اپنے آپ میں اطبّاء و حکما ء کی وفیات کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ہے ، یا یہ بھی کہا جا سکتا ہےکہ یہ ’ پیش نامہ ‘ چند صفحات میں وفیاتِ اطبّاء کی مکمل تاریخ ہے ۔ اس میں اطبّاء کی وفیات پر عربی کی چند کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے حکیم صاحب نے اس موضوع پر اردو زبان میں ہند و پاک میں جو کام ہوا ہے ، اسے یوں سامنے رکھ دیا ہے جیسے کہ ’ کوزہ میں سمندر ‘۔ حکیم صاحب اس کتاب کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ میرے مطالعے میں اطبّاء ہند و پاک کی وفیات پر اب تک کوئی مستقل کتاب نہیں رہی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ اس موضوع پر یہ پہلی مستقل کتاب ہو اور نقش اوّل کی حیثیت رکھتی ہو ۔ ‘‘ جلد اول میں 296 اطبّاء کا تذکرہ ہے ۔ میں نے اس کتاب میں سب سے پہلے حکیم محمد افہام اللہ کا نام تلاش کرنے کی کوشش کی تھی ، ایک جگہ یہ نام ملا ، لیکن مجھ پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ ’ انہونہ ‘ والے ہی حکیم محمد افہام اللہ کا تذکرہ ہے یا کسی اور حکیم افہام اللہ کا ،لیکن یہ نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ایک بار حکیم صاحب نے ، جب وہ بہت ضعیف ہوچکے تھے ، میرا علاج کیا تھا ، اور پتھری ، جو دوسرے ڈاکٹر نہیں نکال سکے تھے ، نکال دی تھی ۔ اس کتاب کا ، اور بعد کی جلدوں کا بھی ، مطالعہ کرتے ہوئے یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی ہے کہ اس میں ہندو اطبّاء کے نام بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ، جیسے کہ حکیم آتما پرکاش گرجی سنیاسی ، بلکہ یہ کتاب کی فہرست میں سب سے پہلا نام ہے ۔ پہلی جلد میں ہندو اطبّا کے 23 نام شامل ہیں ۔ یہ نام دو طرح کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لیے کافی ہیں ، ایک تو یہ کہ یونانی طب یا حکمت میں بھلے مسلمان اطبّاء کی تعداد زیادہ رہی ہو لیکن یہ طریقۂ علاج صرف مسلمانوں سے ہی منسوب یا صرف مسلمانوں ہی تک محدود نہیں تھا ۔ دوسرا یہ کہ یونانی طب سے حکومت کا سوتیلا سلوک ،تعصب اور جانبداری اس پیتھی کے ہندو اطبّا کی خدمات سے بھی تعصب ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت حکمت سے ہندو اطبّا ء اور حکماء کا جو تعلق رہا ہے ،اس پر ریسرچ کرائے ، اور یونانی طب کو ترقی دینے کا کام کرے ،یہ کتاب اس کام میں حوالے کی کتاب بن سکتی ہے ۔
کتاب کی دوسری جلد ( جلد دوم ، حصہ اوّل – حرف ب تا ظ ) 368 صفحات پر مشتمل ہے ، اس کی اشاعت کا سنہ 2022ء ہے ۔ اس جلد کی قیمت 400 روپیے ہے ، جو پہلی جلد کے مقابلے کچھ زیادہ ہے ۔ اسے پہلی جلد کی طرح قومی اردو کونسل سے مالی تعاون تو نہیں ملا ہے لیکن اتر پردیش اردو اکادمی کے مالی اشتراک سے ممکن ہو سکی ہے ۔ اس جِلد میں 338 مسلمان اور ہندو اطبّا کا تذکرہ شامل ہے ۔ ہندو اطبّا کی تعداد 15ہے ، اِن میں سے اکثرشاعری بھی کرتے تھے ۔ کتاب میں ایک خاتون طبیبہ ستی النساء بیگم کا بھی تذکرہ ہے ، یہ شہنشاہ شاہجہاں کی بیٹی شاہزادی جہاں آراء بیگم کی اتالیق تھیں اور ممتاز محل کی سکریٹری ۔ علاج معالجہ میں مہارت رکھتی تھیں ۔ ان کے بارے میں ایک عجیب بات یہ لکھی ہے کہ اِن کا انتقال لاہور میں ہوا اور وہیں کوئی ایک سال تک ان کے جسدِ خاکی کو محفوظ رکھا گیا پھر اسے آگرہ لا کر تاج محل سے متصل ایک شاندار مقبرہ میں دفن کیا گیا ۔ اس جِلد میں تین عیسائی اطبّا حکیم بتیس ڈسلوا ، حکیم پیڈروڈسلوا عبرتؔ اور حکیم جوزف ڈسلوایوسفؔ کا بھی تذکرہ ہے ۔ اِن تینوں کے تذکرہ میں ان کے والد کے نام بالترتیب یوں دیے گیے ہیں ، حکیم لوئس ڈسلوا ، حکیم جان ڈسلوا اور حکیم ایلیس ڈسلوا مفتوںؔ ۔ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِن اطبّا کے یہاں حکمت خاندانی تھی ، اور انہیں شعر و سخن سے بھی شغف تھا ۔ حکیم وسیم احمد اعظمی نے اِس جِلد کے ’ پیش نامہ ‘ میں اطبّا ء و حکماء کی حیات و خدمات کے بارے میں اردو میں کیے گیے مزید کاموں کی تفصیلات پیش کی ہیں ، یعنی پہلے کی دستاویز میں مزید اضافہ کیا ہے ۔
تیسری جِلد ( جلد سوم ، حصہ اوّل – حرف عین )کی اشاعت 2021ء میں ہوئی ، یعنی دوسری جِلد سے ایک سال قبل ! حکیم صاحب نے ’ پیش نامہ ‘ میں ، جو پہلی جِلد کے ’ پیش نامہ ‘ ہی کی طرح وقیع ہے ، اس تعلق سے لکھا ہے ، ’’ وفیات کے لوازمے کتابوں اور مجلّات ، جرائد اور اخبارات میں بھی بکھرے ہوئے ہیں ۔ ان کی تلاش اور تحقیق بے حد ارتکاز اور عرق ریزی کا کام ہے ، مگر ہے بہت ہی پُر لطف اور پر کیف ۔ جب ہم نے ’ وفیات اطبّاء ہند و پاک ‘ پر کام شروع کیا تو ہمیں اس امر کا اندازہ تھا اور بس اللہ تعالٰی کا نام لے کر کام شروع کیا ۔ اس کی پہلی جلد کا پہلا حصہ ( حرف الف ممدودہ و الف) قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے 2019ء میں طبع ہوا تھا ۔ اس کے ’ پیش نامہ ‘ میں ہم نے تحریر کیا تھا کہ وفیات پر جس قدر لوازمے مرتب ہوتے جائیں گے ، ہم انہیں طبع کرتے جائیں گے ۔ چنانچہ ’ وفیات اطباء ہند و پاک ‘ کی جلد دوم ابھی مبیضہ کے مرحلے میں ہی ہے کہ اس کی جلد سوم کا حصہ اوّل حرف عین ، آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ ہم ان شاء اللہ اس کی دیگر جلدیں بھی عنقریب پیش کر سکیں گے ۔ وما توفیقی الا بالله ۔‘‘ یہ جِلد 336 صفحات پر مشتمل ہے ، اس کی قیمت 400 روپیے ہے ، اور اس میں 278 اطبّا کے تذکرے شامل ہیں ۔ یہ کتاب ’ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی ، لکھنئو ، حکومت اتر پردیش ‘ کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے ۔ تحقیقی کتابوں کی اشاعت کے لیے سرکاری مالی تعاون بہت ضروری ہے کیونکہ یہ کام وقت بھی چاہتا ہے اور تحقیق کے لیے سفر اور کتابوں تک رسائی بھی ، اس کے لیے نقدی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام اداروں کے ہی کرنے کا ہے نہ کہ کسی فردِ واحد کے ۔ خیر حکیم صاحب یہ کام کیے جا رہے ہیں ، اللہ انہیں صحت اور اسقلال عطا کرے ، آمین ۔ اس جِلد میں حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی اور ڈاکٹر سیّد شاہد اقبال ، گیا ( بہار ) کی آراء شامل ہیں ، اِن میں سے اوالذّکر کا کہنا ہے ، ’’ معاملے کی گہرائی و گیرائی تک پہنچنا حکیم وسیم احمد اعظمی کے فکر و فن کا خاصہ ہے ۔‘‘ اور ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ، ’’ قاری اس کتاب کو صرف ایک کتاب سمجھتا ہے لیکن راقم کے نزدیک مذکورہ کتاب ، دو کتابوں کا مجموعہ ہے ۔ ایک تو اطبّاء اور حکما کی وفیات نگاری ہے اور دوسرے مذکورہ بالا اطبّاء اور حکما کے حالاتِ زندگی اور کارنامے سے لبریز ہے ۔‘‘ تینوں ہی جِلدوں میں حوالے کے لیے مصادر و مراجع دے دیے گیے ہیں ، جن سے نایاب اور کمیاب کتابوں کا پتہ چلتا ہے ۔ یہ اطبّاء کے حالات اور خدمات کو سامنے لانے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے ، اس طرح حکیم صاحب آئندہ نسلوں تک ، صحت اور صالحیت کے ساتھ ، بزرگوں کی میراث منتقل کر رہے ہیں ۔ اس کام میں انہیں جن افراد سے تعاون ملا ہے ، اپنے ’ پیش نامہ ‘ میں ان سب کا ذکر کیا ہے ، جیسے مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی ، ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی ، حکیم نازش احتشام اعظمی ، ڈاکٹر عمیر منظر ، اویس سنبھلی وغیرہ ۔ یہ تینوں جِلدیں موبائل نمبر 9451970477 پر رابطہ کر کے حاصل کی جا سکتی ہیں ۔