بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے ایم ایل اے راجیشور سنگھ نے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ پر زور دیا کہ وہ دہلی کے مہرولی علاقے میں حال ہی میں ایک خاتون کے بہیمانہ قتل کے تناظر میں گھناؤنے جرائم اور ‘لو جہاد’ سے نمٹنے کے لیے ریاستی قوانین میں ترمیم کریں۔ اور سخت سزا کا بندوبست کریں۔ انہوں نے مختلف تبدیلیوں کی بھی سفارش کی جن میں تیز رفتار ٹرائل، ملزم کے لیے کوئی ضمانت نہیں، گواہوں کے لیے خصوصی تحفظ کے علاوہ عصمت دری اور قتل کے لیے سزائے موت، اور ایسے (لو جہاد) کے مقدمات میں عصمت دری کے لیے عمر قید کی سزا شامل ہے۔ ‘لو جہاد’ ایک اصطلاح ہے جو دائیں بازو کے گروہوں اور کارکنوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہندو خواتین کو شادی کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فوجداری طریقہ کار کے قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ ‘لو جہاد’ کے معاملات میں ‘لور’ کی تعریف کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے جس میں شادی یا شادی کا وعدہ یا ازدواجی رشتہ یا ‘لائیو ان ریلیشن شپ’ شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایم ایل اے کے خط کی ایک کاپی مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو کو بھی بھیجی گئی ہے۔
18 نومبر, 2022
سابق پرنسپل اردو میڈیم گورنمنٹ پرائمری ٹیچرس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ
پوسٹ: نالی کل۔712402 (مغربی بنگال)
ادب ایک اکائی ہے جس کی تقسیم ممکن نہیں ہے۔ادب ایک سمندر ہے جس کی وسعت کی پیمائش بھی ممکن نہیں ہے۔ادب سے ہی ایک آدمی اچھا انسان بنتا ہے،اچھا شہری بنتا ہے اور قومیں ترقی کر تی ہیں۔ادب کی پیدائش انسان کی پیدائش سے بہت پہلے ہوئی یہ الگ بات ہے انسان سے اس کی ملاقات میں قدرے تاخیر ہو ئی ہے۔ادب جب بچوں سے مخاطب ہو تا ہے تو بچوں کا ادب یا اطفا ل ادب کہلا تا ہے لیکن جب اس کے اندر سائنس کے تئیں دلچسپی پیدا کر تا ہے ، جستجووکھوج ا و رنئی د ریافت کاجذبہ ابھارتا ہے تو وہ سائنسی ادب کہلاتا ہے۔
بچوں کا ادب اور بچوں کا سائنسی ادب ایک ہی سکہ کے دورخ ہیں،مقناطیس کے دوقطب ہیں اور دریا کے دوپاٹ ہیںجسے ہر گز ہرگز الگ نہیںکئے جاسکتے ہیں۔بچوں کے اندر ہمہ جہت ترقی وشخصیت پیدا کر نے لئے دونوں کا ہونا ضروری ہی نہیں بلکہ عین ضروری ہے۔دراصل بچوں کے ادب کے ذریعہ ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو آشکارہ کیا جاتا ہے لیکن بچوں کے سائنسی ادب کے ذریعہ ان میں قوت تکیل، تدبر،ادراک،ذہانت،فکرودانش اور تلاش و جتجو اور نئی نئی دریافت کی صفات پیدا کی جاتی ہیں جس کی ضرورت فی زمانہ رہی ہے اور ہر زمانے میں رہے گی۔میرا تو ماننا ہے کہ بچوں کا ادب اور سائنسی ادب اتنا ہی ضروری ہے جتنا بچوں کے لئے غذا ضروری ہے۔
تاریخ تو یہ بھی بتاتی ہے کہ جب تک ہم نے سائنسی ادب کو سینے سے لگائے رکھا،ہماری حولیاں سائنس کے بالا خانوں میں تھیں اور اس سے ناآشنا اور منھ موڑنے والی قومیں ہماری چوکھٹ پر دستک دیتی تھیں اور ہمارے سامنے جانوئے ادب تہہ کر تی تھیں۔ہم سائنس کے امام تھے دیگر قومیں مقتدی تھیں۔ ہمارے ہی پاس بصریات کا امام،الجبرے کا موجد،علم مثلث کے اولین موجد اور با بائے کیمیا وغیرہ خطابات تھے۔ہماری ہی کتاب طب کا بائیبل کہلا تی تھی بلکہ ایک انگریزی مورخ نے تو یہاں لکھ دیا ’’مسلمانوں کے علوم(سائنسی علوم) سے اگر استفادہ نہ ہوتا تو یورپ کو مزید سو سال لگتے اس جگہ پہنچنے میں۔‘‘
آپ یہ بھی اچھی طرح جان لیں کہ سائنس اور ادب میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔اگر اطفال ادب بچے کی پوشیدہ صلاحیتوں کو آشکارا کر تا ہے تو بچوں کا سائنسی ادب ان میں قدرت کے سربستہ راز کو افشاں کر تا ہے جسے پاکر بچہ چاند پر پہنچتا ہے،مریخ پر کمندیں ڈالتا ہے،راکٹ و ہوائی جہاز بناتا ہے،موبائل، فیس بک،واٹس ایپ اور گوگل اور کمپیوٹرایجاد کر تا ہے،دل ،سرطان اور دوسری امراض کی تشخیص بھی کرتا ہے اور اور کامیاب علاج کرتا ہے حتٰی کہ مصنوئی اعضا بناکر انسان اور انسایت کو فیض بھی پہنچاتا ہے۔اگر آپ کہیں گے یہ سب سائنس کی بلند و بالا عمارتیں ہیں تو میں کہوں کہ ان کی خشت اول بچوں کا سائنسی ادب ہی ہے۔اب ہم ان عوامل کا ذکر کریں گے جن کے ذریعے بچوؓ کے سائنسی ادب میں پیش رفت ہو سکتی ہیں۔
1۔ علما ء ، خطیب اور واعظ حضرات اپنی تقریروں میں اس غلط فہمی کو دور کریں کہ سائنس مذہب کے خلاف ہے بلکہ یہ ثابت کر نے کی کوشش کریں کہ مذہب کے بہت سارے احکامات سائنس کی تعلیم کے ذریعہ اچھی طرح سمجھے جا سکتے ہیں۔
2۔بچوں کے سائنسی ادیب اپنی سائنسی تخلیق کو غیر اہم تصور نہ کریں۔
3۔ اردو جاننے والے سائنس داں، اردو میں سائنسی مضامین لکھنا اپنی کسر شان نہ سمجھیں بلکہ اس کی ضرورت سمجھ کر پا بندی سے ثواب سمجھ کر سائنسی مضامین لکھیں۔
4۔ سائنس کے استاد خود بھی سائنسی مضامین لکھیں اور بچوں کے اندر بھی دلچسپی پیدا کریں۔ استاد لکھنے کی شروعات نصابی کتاب سے شروع کریں۔
5۔ اسکول کے اردو دیواری رسالے (Urdu Wall Magazines) کے نصف حصہ سائنسی مضامین پر مشتمل ہوں۔
6۔ مختلف طرح کے تحریری مقابلوں کے لیے مسلمان سائنس داںایوارڈ شروع کیے جائیں مثلاً خوارزمی ایوارڈ، البیرونی ایوارڈ، ابن ا لہشیم ایوارڈ وغیرہ ۔
7۔جس طرح سرسید ڈے، اقبال ڈے، غالب ڈے، یوم مادری ڈے وغیرہ منائے جا تے ہیں اسی طرح مسلمان سائنسداں ڈے بھی منا ئے جا ئیں۔
8۔ اسکولوں میں پابندی سے سائنسی ڈرامے پیش کیے جائیں۔
9۔ اسکولوں کی تعطیل کلاں میں سائنسی ورک شاپ منعقد کیے جا ئیں۔
10۔ سائنس کے ذہین اور فطین طالب علموں کی نگرانی کی جا ئے اور انہیں پُر کشش وظیفے دیئے جا ئیں۔
11۔ مادھیامک اور ہائر سکنڈری امتحانات میں سائنسی مضامین میں اسٹار مارکس لا نے والے طالبعلموں کو بہترین انعامات سے نوازا جا ئے۔
12۔ سائنسی رسالے نکالے جا ئیں اور ا ن کی ترسیل اور نکاسی کے بھر پور کوشش کی جائے۔
13۔ اردو اکاڈمیاں سائنسی نصابی کتابیں اردو میں لکھوائیں اور لکھنے والوں کو معقول اور پُر کشش معاوضے پیش کریں۔
14۔ ریاستی سطح پر سائنسی مقابلے کے پروگرام منعقد کیے جا ئیں۔ اول، دوم اور سوم آنے والے بچوں اور بچیوں کو انعامات سے نوازا جا ئے۔
15۔ اسکولوں کے درمیان بھی سائنسی مقابلے کیے جا ئیں۔ اول ،دوم اور سوم آنے والے اسکولوں اور ان کے بچوں اور بچیوں کو انعامات سے نوازے جا ئیں۔
16۔ کل ہند اردو سائنس کمیٹی برائے فروغِ ِبچوں کے سائنس ادب قائم کی جا ئے۔
17۔ اردو اخبارات ہفتے میں کم از کم دو دن سائنسی صفحات شائع کریں۔
18۔ دینی رسالوں میں بھی سائنسی مضامین شامل ہوں تاکہ مدرسے کے بچے بھی سائنسی معلومات حاصل کر سکیں۔
19۔سائنسی ڈرامے منعقد کئے جائیں۔
20۔ ہر محلے میں سائنسی کلب قائم کیے جا ئیں۔
21۔ شاعر حضرات سائنسی نظمیں ، غزلیں اور ربا عیات لکھیں۔
22۔ ہر ماہ سائنسی مشاعرے منعقد کیے جا ئیں۔
23۔ مبصر بچوں کے سائنسی ادب پر لکھی کتابوں پر تبصرہ کرکے اسے عام کریں۔
24،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی اور ریاستوں کی اردو اکاڈمیاں بچوں کے سائنسی ادب پر لکھنے والی کتابیں زیادہ سے زیادہ شائع کریں۔
25۔بچوں کے سائنسی ادیبوں کی ایک تنظیم بنائی جائے اور ہر سال ان کی ایک ساتھ نشست ہو۔نئی نئی صنف تلاش کی جائیں۔
26۔گارجیں ہرماہ بچوں کے سائنسی رسالے خرید کر بچوں کو پڑھنے کی ترغیب دیں۔
27۔قومی کونسل برائے فروغ اردو ادب،نئی دہلی اور ریاست کی اکاڈمیاں ہر سال بچوں کے سائنسی ادب پر سیمینار کرائیں جن میں بچے بھی شامل ہوں۔
28۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی بچوں کے سائنسی ادب پر لکھی کتابوںکو اسٹاک میں نہ رکھیں بلکہ مسلسل اسے مشتہر کرتی رہے۔
29۔ڈاکٹر،پروفیسر،انجینیئراور سائنس داں بچوں کے لئے سائنسی مضامین لکھنے میں اپنی ہتک محسوس نہ کریں۔
30۔استاد اور سرپرست بچوں میں احساس دلاتے رہیں کہ تم بھی ایک وقت بہت بڑے سائنسی ادیب بن جاؤگے اگر برابر سائنسی رسالے پڑھتے رہو گے۔
یہ تھیں چند تراکیب راقم کی نظر میں جن کی تکمیل سے اردو میں سائنسی ادب کی جانب پیش رفت ہو سکتی ہے لیکن صرف لکھ دینے سے مسائل حل نہیں ہو تے بلکہ اس کے لیے عزم،حوصلہ، سنجیدگی اور عمل پیہم کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہو نے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے صرف ’’جہاں جاگو وہیں سویرا‘‘ کے پیش نظر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کامیابی ہمیں تحفہ میں نہیں مل سکتی بلکہ ہمیں ہی وہاں تک چل کر جانا ہو گا اور زندگی کے ہر لمحے کو نچھاور کر نا ہو گا۔ یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح ڈال لیجئے کہ ہماری ملت کے نوجوانوں میں ایسے ہونہار،ذہین اور غیر معمولی قوت ارادی کے مالک اور بے مثال عزم و حوصلہ والے ہیرے و جواہرات موجود ہیں جو اُٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کو زیر و زبر کر سکتے ہیں۔بقول اقبال:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنے کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
اور اگر ایسا نہ ہوا اور اب بھی ہم خواب خرگوش اور غفلت میں پڑے رہے ، ہوش کے بجائے صرف جوش سے کام لیتے رہے یا پدرم سائنس داں بود کہتے رہے تو پھر معاملہ جہاں سے شروع ہوا تھا وہیں پر منجمد ہو کر رہ جا ئے گا اور ایسا ہوا تو بقول حالی:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
”میں نے شدت سے اردو کو چاہا اور سیکھا، تاکہ میں اس نظریہ کو غلط ثابت کرسکوں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔“ ممبئی یونیورسٹی میں ایم اے اردو میں داخلہ لینے والی کرشنا راجن ساونت نے شستہ،سلیس، نرمی اور حلاوت سے بھرپور اردو لب و لہجہ کے ساتھ یہ بات کہی۔ ٹائمس آف انڈیا کے رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے غالب سے لے کر اقبال تک اور ہندوستانی کی لسانی ساخت اور مختلف زبانوں اور بولیوں پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ اردو زبان کی ہیئت انسان کو مہذب بنانے کے لٸے کافی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں اس زبان میں ہی پی ایچ ڈی کروں گی اور مراٹھی اور اردو کا موازنہ کرتے ہوئے اپنا مقالہ پیش کروں گی۔ ساونت ایک عام طالبہ نہیں ہیں، بلکہ ہمہ جہت شخصیت کی حامل ہیں۔ وہ پلئی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ ریسرچ میں مینجمنٹ کی پروفیسر ہیں اور یوگا کلاسز کی باقاعدہ پروفیشنل کوچ بھی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مارکیٹنگ میں مینجمنٹ بھی کیا ہے۔ لیبر اسٹڈیز میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کے علاوہ انڈین سوسائٹی فار اپلائڈ بی ہیوویئر (Indian Society for Applied Behaviour) میں کونسلر بھی ہیں۔ ان کی تعلیمی اہمیت اور عملی /علمی قابلیت سے صاف صاف اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اردو یا کسی بھی زبان و ادب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، مگر جب وہ کہتی ہیں کہ اردو سے ان کی وابستگی صرف اس لٸے ہے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ اردو کسی ایک فرقہ کی زبان نہیں ہے تو پھر ان کی اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہٸے۔
ملک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی پیمانہ پر ”یوم اردو“ کا شور کچھ دن قبل پورے زور و شور کے ساتھ سنائی دیا۔ ہر ادارے اور تنظیموں نے ایوارڈ و اسناد تقسیم کٸےاور اردو زبان کی اہمیت اور اردو ادب کی ضرورت کو سماج اور طلبا کے لٸے ضروری قرار دیا۔ کئی لوگوں نے اردو کے فروغ اور ترقی میں خود کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کام کی فہرست بھی گنوائی۔ اس بات کو قبول کرنے میں کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہے کہ اردو زبان و ادب نے ہندوستانی سماج کو بہت کچھ دیا ہے۔ خاص کر ادب کے رول سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ داغ، میر غالب، آتش ، نظیر اکبرآبادی، اکبرالٰہ آبادی، جوش، فیض، اقبال یہ سب ایسے نام ہیں، جس کے بغیر اردو کا کوئی مقالہ یا کتاب تشنہ ہے، لیکن یہاں پر کچھ پل ٹھہرکر سوچنا بھی ضروری ہے کہ کیا ہم ان سارے ناموں کے ساتھ ہی رہیں گے یا پھر اس کی توسیع بھی کرپائیں گے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زبان و ادب کے فروغ میں قارئین کا رول سب سے اہم ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جب نئی تعلیمی پالیسی بن چکی ہے۔ ٹیکنالوجی ہم پر حاوی ہوچکی ہے۔ پروفیشنل ازم کا دور دورہ ہے۔ مفادپرستی عروج پر ہے۔ تعلیمی ادارے پیسہ کمانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔یونیورسٹیوں سے زیادہ ہجوم کوچنگ سینٹر پر دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں ہم ”اردو“ کو کس طرح بچالے جائیں گے۔ اس کے لٸے ہمارے پاس کون سا لائحہ عمل ہے۔
ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہٸے کہ ”یوم اردو“کا جشن جو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے، کیا وہ اقبال کے نام پر منایا جانا درست ہے۔ یہ بات میں اس لٸے لکھ رہا ہوں کہ جس شاعر کو اردو برادری ”شاعر مشرق“ کا خطاب دے چکی ہے وہ ”شاعر عالم“ کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ سب کو یہ بھی بخوبی پتہ ہے کہ نوبل پراٸز معاملے میں رابندر ناتھ ٹیگور کو اقبال پر فوقیت دی گٸی تھی۔ اس کےپس پشت اقبال کاعالمی نہیں ملی نظریہ کارفرما تھا۔آج جب سیاست اور سماج پوری طرح تبدیلی کے دہانے پر ہے۔ سودیشی کا سیاسی جھنجھنا ہر کسی کے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے۔ اردو بھی سیاست کی زد میں ہے۔ ”لب پہ آتی ہے بن کے تمنا میری“ جیسی انسانیت سے بھرپور نظمیں بھی پابند کردی جاتی ہیں۔ اردو کو پاکستانی زبان قرار دیا جانے لگا ہے۔ ایسے میں ہم پاکستان کے قومی شاعر کو ”یوم اردو“ کا سدباب بناتے ہیں۔ سیاسی نقطہ نظر سے نہ بھی دیکھیں تو اقبال کے نام پر ”یوم اردو“ کا جشن کیوں؟ کیا ہمارے امیرخسرو یا کائنات کے ذہین ترین انسانوں میں سے ایک غالب سے کوٸی بھول ہو گٸی تھی۔
ہند و پاک کی تقسیم کے بعد پاکستانیوں کے لٸے اقبال معتبر ہوئے تو ہندوستان نے غالب کو سر چڑھایا۔ اس لٸے پاکستان میں ’اقبال‘ کے نام پر اکادمیاں اور ادارے قائم ہوتے گئے اور ہندوستان میں اقبال سے پرہیز کا رجحان بڑھا اور غالب کے نام پر اکادمیاں اور ادارے فروغ دٸے گئے۔ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ”شاعر“ کو بھی سیاست نے دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ مگرہمیں آج کے ”اردو“ کے ”پس منظر“ پر گہرائی سے غور کرنا چاہٸے اور یہ میں پہلی بار نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے جب ”یوم اردو“ کو امیر خسرو سے منسوب کرنے کی پہل کی تھی تب اردو دنیا میں ہلچل پیدا ہوئی لیکن کوئی ایسی دلیل سامنے نہیں آئی جس سے یہ ثابت ہو کہ ”اقبال“ ہی اردو ہیں۔
یوم اردو کے موقع پر ”دی وائر“ نے کرشن پرتاپ سنگھ کا ایک آرٹیکل ”علامہ اقبال: آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں“ شائع کیا۔ اس مضمون میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”سال 1904میں ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ جیسا شہرہ آفاق ترانہ پیش کر1905میں اسے سب سے پہلے لاہور کے ایک کالج میں سنانے والے محمد اقبال (جو بعد میں برصغیر میں علامہ اقبال کے نام سے معروف شاعروں میں شمار کٸے جاتے ہیں، جن کے نام پر ”یوم اردو“ منایا جاتا ہے) محض 25سال بعد مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کا مطالبہ اٹھاکر اپنی شخصیت کے تذبذب میں پھنس کر بے پردہ نہ ہوئے ہوتے تو کون کہہ سکتا ہے کہ آج کی تاریخ میں وہ اس کے ایک ٹکڑے(پاکستان) کے ہی قومی شاعر ہوکر نہ رہ گئے ہوتے۔ بہت ممکن ہے کہ تب وہ نوبل پرائز لینے والے گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور سے بھی زیادہ خوش قسمت ثابت ہوئے، جنہیں ہندوستان، بنگلہ دیش دونوں کا قومی ترانہ لکھنے کا فخر حاصل ہے۔ علامہ اقبال کے ذریعہ شاعری اور سیاسی لیڈر کے طور پر کیا گیا لمبا سفر انہیں ایسے مقام پر لے جاتا ہے جہاں بقول غالب ”یوں ہوتا تو کیا ہوتا“ کی کسک سناٸی دینے لگتی ہے۔ ان کی جو شخصیت ایک دور میں ”وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے“، تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں، نہ سنبھلو گے تو مٹ جاو گے اے ہندوستاں والو! تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں“ لکھ کر ہمیں مستقبل کے اندیشوں میں اندھیروں سے آگاہ کردیتی تھی، وہی آخرکار ہمیں اس کسک کے حوالہ کیوں کرگئی؟ خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے، شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے، دھرتی کے واسیوں کی مکتی پریت میں ہے، کا نیا شوالہ بنانے والے اقبال کو مسلم لیگ کے 29دسمبر1930کے کنونشن میں اسٹیج پر آکر دو قومی نظریہ کی وکالت کیوں کرنی پڑی، جسے بعد میں محمد علی جناح نے ہر قیمت پر انجام تک پہنچایا۔“ اس پیراگراف میں مضمون نگار علامہ اقبال کی بلند و جاہت، قومی شاعری اور انسانیت پر مبنی فلسفے کو ان کی سیاسی بصیرت پر چوٹ کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ علامہ اقبال بہترین فلاسفر، اعلیٰ پایہ کے شاعر ہونے کے باوجود اپنے دھرم سے ہارگئے۔ شاید ان کا یہی فلسفہ انہیں شاعر مشرق یا شاعر ملت کا خطاب دیتا ہے، مگر ان کی یہی بھول ان کے فلسفیانہ سوچ کو محدود کرکے پورے عالم کی وسیع دائرے سے نکال کر ”شاعر مشرق“ تک محدود کردیتی ہے۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ علامہ اقبال اعلیٰ معیار کے شاعر تھے، مگر وقت وقت پر وہ اپنے نظریہ میں تبدیلی لاتے رہے۔ ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ کے بعد وہ ”مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا“ تک گئے۔ قومی شاعری سے مارکسی شاعری تک اور پھر ملی شاعری پر اختتام یہ بات واضح کرتی ہے کہ علامہ اقبال دل سے سوچتے سوچتے دماغ سے بھی سوچ رہے تھے۔ ایک شاعر کے طور پر وہ مستند ہوسکتے ہیں، مگرایک شخص کے طور پر قطعی نہیں۔
چوں کہ اس مضمون میں بات اٹھادی گئی ہے اس لٸے ہم اردو والوں کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ”یوم اردو‘’ واقعی اقبال کے نام پر ہی منایا جانا چاہٸے یا علامہ اقبال کے موقف کی طرح ہمیں بھی اپنا رویہ بدلنا چاہٸے۔ ہمیں ”یوم اردو“ پر اقبال کو یاد کرنے کی ضرورت ہے، یا پھر اردو پر مسلمانوں کی زبان کا دھبہ ہٹانے والی کرشنا یا پھر ایسی دوسری شخصیت کو شاباشی دینے کی ضرورت ہے، جس سے اردو کا وقار قائم ہو۔
میانِ عرصۂ موت و حیات رقص میں ہے
اکیلا میں نہیں، کل کائنات رقص میں ہے
ہر ایک ذرہ، ہر اک پارۂ زمین و زمان
کسی کے حکم پہ، دن ہو کہ رات، رقص میں ہے
اُتاق ِکُنگرۂ عرش کے چراغ کی لو
کسی گلی کے فقیروں کے ساتھ رقص میں ہے
سنائیؔ ہوں کہ وہ عطّارؔ ہوں کہ رومی ؔہوں
ہر اک مقام پہ اِک خوش صفات رقص میں ہے
یہ جذب و شوق، یہ وارفتگی، یہ وجد ووفُور
میں رقص میں ہوں کہ کُل کائنات رقص میں ہے
کسے مجال کہ جنبش کرے رضا کے بغیر
جو رقص میں ہے، اجازت کے ساتھ رقص میں ہے
میں اپنے شمسؔ کی آمد کا منتظر تھا ،سو اب
مرے وجود میں رومیؔ کی ذات رقص میں ہے
وہ قونیہ ہو کہ بغداد ہوکہ سیہون ہو
زمین اپنے ستاروں کے ساتھ رقص میں ہے