23 اکتوبر, 2022
ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ’’علم وفن کے نیرتاباں‘‘کا ملی کونسل کے دفترمیں اجرا
اسلاف کے کارناموں کو آنے والی نسلوں تک پہنچانااہل قلم کی ذمہ داری:انیس الرحمن قاسمی /امتیاز احمدکریمی
پھلواری شریف (پریس ریلیز):ملک کے ممتاز عالم دین، مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ کے سابق صدر مدرس اورجامع اسلامیہ انکلیشور گجرات کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا ہارون الرشید ؒ کی حیات وخدمات پر مشتمل معروف اہل قلم ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ’’علم وفن کے نیرتاباں ‘‘کا اجراء آج آل انڈیا ملی کونسل بہار کے ریاستی دفتر پھلواری شریف،پٹنہ میں ہوا۔ اس پر وقارعلمی تقریب کی صدارت آل انڈیاملی کونسل کے قومی نائب صدرحضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی نے کی ۔تقریب کے مہمان خصوصی بہار پبلک سروس کمیشن کے رکن اورصف اول کے افسر جناب امتیاز احمد کریمی صاحب اورمہمان اعزازی کے طورپرڈاکٹر پروفیسر سرورعالم ندوی صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیور سٹی ،ڈاکٹر مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل بہار اورمولاناڈاکٹر شکیل احمد قاسمی اورینٹل کالج ،پٹنہ نے شرکت کی۔اس پر وقارعلمی،ادبی تقریب کا آغاز مولانا جمال الدین قاسمی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔اپنے صدارتی کلمات میں مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کتاب کے مؤلف ڈاکٹرنورالسلام ندوی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مولاناہارون الرشید قاسمی ؒ ریاست کے گنے چنے علمامیں تھے ،جنہوں نے گوشہ گمنامی رہ کر علم وادب اوررجال سازی کی قابل قدر خدمت انجام دی، میرا مولاناسے پیتیس چالیس سالوں کا گہرا ربط وتعلق رہا ،وہ علم وعمل اورعمرمیں مجھ سے بڑے تھے، لیکن جب ملاقات ہوتی تو انتہائی محبت وشفقت اورحترام کا سلوک فرمایاکرتے،وہ اچھا لکھتے تھے اورخوبصورت ودل کش اندازمیں تقریربھی کیاکرتے تھے۔انہوں نے تعلیم نسواں پر خاص توجہ دی اورلڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے مدرسہ رحمانیہ نسواں جمال پور میں قائم کیا۔ یہ ادارہ آج بھی خد مت انجام دے رہا ہے۔مولاناقاسمی نے مؤلف کتاب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پورے علاقہ اورحضرت مولاناکے شاگردوں پر ایک قرض تھا ،جو مولانانورالسلام ندوی کی کوششوں سے اداہوگیا۔ مولانا ندوی صالح فکرکے حامل نوجوان عالم دین اورمصنف ہیں۔میں امید کرتاہوں کہ ان کا قلم ہمیشہ تازہ دم رہے گااوراسی طرح کی چیزیں ان کے قلم سے آتی رہیں گے۔اللہ سے دعاہے کہ یہ کتاب ہر خواص وعام تک پہنچے اورنئی نسل کے لیے مشعل راہ بنے ۔تقریب کے مہمان خصوصی امتیازاحمد کریمی نے کتاب کی تالیف اوراشاعت پر ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نورالسلام ندوی کا قلم زندہ اورتابندہ ہے، ان کی یہ تیسری باضابطہ تصنیف ہے،ویسے تو ان کے سینکڑوں مضامین ومقالات اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں، لیکن مضمون لکھنا اورمستقل کتاب لکھنا دونوں میں بڑا فرق ہے۔ایک مصنف میں جو خوبیاں اصولی طورپر ہونی چاہئے وہ تمام اوصاف وکمالات مولانا نورالسلا م ندوی نے کم عمری میں حاصل کر لیے ہیں۔میں ان سے اکثر کہتا ہوں کہ اپنے قلم کو کبھی آرام نہ دیں۔ ضرورت ہے کہ ایسے مصنفین پیدا ہوں جو اسلاف کے کارناموں کو اگلی نسل کے لیے محفوظ کر دیں۔ مولاناڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی نے کہا کہ اسلاف کے کارناموں کو جمع کر کے اگلی نسلوں تک پہونچاناہماری ملی ذمہ دار ی ہے۔قابل مبارک باد ہیں ہمارے عزیر مولاناڈاکٹرنورالسلام ندوی جہنوں نے حضرت مولاناہارون الرشدی قاسمی ؒ کی سوانح مرتب کر کے علمی دنیا کو بیش قیمت تحفہ دیا ہے۔ کتابوں کی تالیف کتنی دشوار ہے ،اس کا احساس ہر اس شخص کو ہے جس نے اس راہ کی آبلا پائی کی ہے۔ مولانا نورالسلام ندوی ابھی نوجوان ہیں ،سنجیدہ فکر کے حامل ہیں، ان کی اس کاوش میں ان کی فکر جھلکتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی نے کہا کہ کتاب پر صحیح تبصرہ توکتاب کے مطالعہ کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے، ابھی جب کہ یہ کتاب ریلیز ہوئی ہے ،اس کی فہرست کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مؤلف نے صاحب سوانح کی شخصیت کا پورے طورپر ان کی زندگی کے ہر گوشہ پر کتاب روشنی ڈالتی ہے، میں دل کی گہرائیوں سے مؤلف کتاب ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو ان کی اس گراں قدر علمی خدمت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔رسم اجراء کے اس تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے صدر ڈاکٹر سرور عالم ندوی نے کہا کہ مولانا ہارون الرشید جیسی شخصیت اگر یوروپ میں پیدا ہوتی تو ان کا نام علم وفن کے آسمان پر چاند وسورج کی طرح چمکتا نظرآتا ،بزرگوں اوراسلاف کی خدمات کو یادکرنے اوران کو سراہنے کا حکم خود اللہ کے رسول ؐ نے دیا۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ،ہمارے برادر عزیزڈاکٹر نورالسلام ندوی نے بڑی عرق ریزی اورجانفشانی کے ساتھ اس کتاب کو مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کی تالیف پر میں انہیں اورآل انڈیا ملی کونسل کو جس نے یہ تقریب منعقد کی دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں ۔آل انڈیا ملی کونسل اس لیے بھی مبارک باد کے لائق ہے کہ وہ ہر علمی ،ادبی کاموں کونہ صرف یہ کہ سراہتی ہے، بلکہ علم کی اشاعت میں اہم رول اداکررہی ہے۔ مصنف کی حوصلہ افزائی کے لیے اس طرح کی تقریبات منعقد کرتی رہتی ہے۔ آل انڈیا ملی کونسل بہارکے کارگزارجنرل سکریٹری مفتی محمدنافع عارفی نے نظامت کرتے ہوئے اپنی ابتدائی گفتگومیں کہا کہ صاحب سوانح حضرت مولاناہارون الرشید قاسمیؒ میرے بچپن کے استاذ تھے ،وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے ،اس وجہ سے وہ مجھے بہت عزیزرکھتے رتھے اورہمیشہ محبت وشفقت فرمایاکرتے تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلندکرے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے عزیزدوست ڈاکٹر نورالسلام ندوی ذاتی طورپرمیرے شکریہ کے مستحق اورقابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے استاذمحترم کی سوانح مرتب فرمائی ۔ان کا قلم بڑا سیال اوررواں ہے ،اللہ ان کے قلم کی طاقت کمال فن عطا کرے۔ تقریب میں شریک دیگر مہمانوں نے بھی کتاب کی تالیف اوراشاعت پر ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو اپنے اپنے الفاظ میں دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی ۔ اس موقع پر مولانا صدرعالم ندوی نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ کتاب کے مؤلف ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی علمی خدمات پر مستقبل قریب میں کوئی باذوق قلم اٹھائے گا۔مولانا ہارون الرشید کے صاحبزادے جناب مولاناسفیان احمدنے اس موقع پر والد گرامی کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ ابا نے ہمارے بڑے بھائی ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تربیت کی تھی اورانہوں نے اپنے استاذ کا حق اداکیا،وہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں ۔مولانا مرحوم کے نواسے جناب مولاناامیر معاویہ قاسمی نے اپنے ناناجان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب کے مؤلف مولاناڈاکٹر نورالسلام کا شکریہ اداکیا اورانہیں مبارک باد پیش کی۔جناب نجم الحسن نجمی ڈائرکٹرنجم فاؤنڈیشن پھلواری شریف نے ڈاکٹر نورالسلام ندوی کوکتاب کی تالیف پر مبارک باد دی۔اس موقع پرجناب عقیل احمد ہاشمی ،جناب خالدعبادی، جناب جاوید احمد جمال پوری،جناب مسرور عالم دربھنگہ،جناب ریحان احمد،جناب محمد توفیق ندوی،جناب اثرفریدی ،جناب محمد نورعالم رحمانی ارریہ،جناب جاویداختر،جناب حافظ محمد عارف ،جناب نعمت اللہ ندوی،مولاناجاویدجمالی،جناب رضاء اللہ قاسمی ،جناب نسیم احمد قاسمی،جناب محمد جمال الدین قاسمی اورابونصرہاشم وغیرہ کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ابھی بھی یہ اصرار ہے کہ وہ مسلمانوں کا سب سے معتبر و معزز نیز باوقار ادارہ ہے ۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے ؟ اس طرح کے دعووں پر اصرار ان حالات میں کیا جارہا ہے جب کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اور جنرل سکریٹری سمیت جملہ اکابر ملت اور ملی تنظیموں کے ذمہ داروں سے ملت کے حساس افراد اور نئی نسل کے تعلیم یافتہ لوگ بالعموم مایوس اور ناراض ہیں ، ان کے تعلق سے ایک عام بے اعتمادی کا ماحول ہے ۔ مدارس سے تعلیم یافتہ نوجوان اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں میں ان پر تنقید کرتے ہیں ، ان کے طور طریقوں پر بھپتیاں کستے ہیں، ان کے بیانوں اور موقف کا مذاق اڑاتے ہیں، جب کہ اخباروں کے اداریوں اور مفکرین و دانشوروں کی تحریروں میں ان پر نا اہلی ، حکومت کی چاپلوسی اور ملت کے مسائل پر خاموشی کے لئے تنقید کی جاتی ہے ۔
اس کھوئے ہوئے اعتماد و عزت کے ماحول میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی خواتین ونگ کو تحلیل کردئے جانے کی خبر آئی اور ونگ کی کنوینر صاحب کا ایک تحریری اور صوٹی میسج سوشل میڈیا پر سرکولیٹ ہوا جس سے پرسنل لاء بورڈ کو چلانے والے افراد پریشان ہیں اور وضاحت نامے جاری کئے جارہے ہیں ۔ 27مارچ کو مجلس عاملہ کی میٹنگ سے یہ معلومات باہر آگئی تھیں کہ اس میٹنگ میں وومن ونگ کی سرگرمیوں کو لے کر کچھ لوگوں نے بہت ہڑبونگ کی اور وومن ونگ پر "لگام لگانے” (محاورے کی زبان میں) کے لئے خوب شور مچایا گیا۔ اس ہڑبونگ میں دو فاروقی برادران کا خاص رول تھا جو آپس میں رشتے دار ہیں اور جن کا راست تعلق مولوی محمود مدنی سے ہے اور محمود مدنی کی سرگرمیوں سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ان کے تار کہاں سے جڑے ہوئے ہیں ۔ مجلس عاملہ میں وومن ونگ کی آزادانہ حیثیت کو ختم کرنے کا مطالبہ ہوا اور مسئلہ کے تصفیے کے لئے کمیٹی بنادی گئی ۔یہ بات اگرچہ ہمارے علم میں بھی آگئی تھی اور ہم نے اس کا اشارہ بھی بورڈ کے ایک متحرک ذمہ دار کو دیا تھا لیکن اسے منظر عام پر لانا ہمیں پسند نہ تھا ۔ پر اب جبکہ سب کچھ منظر عام پر ہے تو اسے اپنے صحافتی کالم کا موضوع بنانا کسی بھی طرح نامناسب نہیں ہے بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے ۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ میں خواتین کی شمولیت اور سرگرمی کوئی نئی بات نہیں ہے متعدد اہل خواتین بورڈ میں خواتین کی نمائندگی کرتی رہی ہیں ۔ لیکن محترمہ اسماء زہرہ صاحبہ کو ایک ایسے وقت میں مسلم خواتین کی آواز بننے کا موقع ملا جو شرعی اور ملی معاملوں میں مسلم خواتین کے ایمانی موقف کے اظہار کا شدید متقاضی تھا ۔ ایسے وقت میں پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے باقاعدہ خواتین ونگ بنانے کافیصلہ بھی بہت مناسب تھا اور اس ونگ کی کنوینر شپ کے لئے ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ کا انتخاب بھی بہت صائب تھا ۔ ان کی لیاقت و صلاحیت اوردین و شریعت کے لئے ان کی وارفتگی کا اعتراف ہر وہ شخص کرے گا جس کو اعتراف حق سے کوئی بخل اور تعصب نہ روکے۔ ڈاکٹر اسماء کی قیادت میں پورے ملک میں خواتین سرگرم ہوئیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ سے لیکر متوسط تعلیم پانے والی خواتین بھی ان سرگرمیوں کا حصہ بنیں اور دینی اداروں سے وابستہ خواتین سے لیکر یونیورسٹی اور کالج کے لادین ماحول میں پڑھنے والی آزاد خیال عورتوں تک بھی دین و شریعت کا فہم پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا نام بھی پہنچا ۔ بہت سے ناواقف اور بے خبر لوگوں کو بھی معلوم ہوا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی کو ئی چیز ہے ۔ ملت اور ملی معاملات کا فہم ہر مسلمان کی اہم ضرورت ہے اور اس سمت میں ڈاکٹر اسماء زہرہ کی کاوشوں سے پرسنل لاء بورڈ کے تحت ایک خاصا موثر و مفید کام پچھلے دنوں میں ہوتا رہا ہے ۔
البتہ ، این آر سی مخالف تحریک کے دوران محترمہ اسماء صاحبہ نے دارلعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی صاحب کی جو کلاس لی تھی وہ بڑی حیرت اور جرآت مندی والی بات لگی تھی اور ہم نے سوچا کہ "یا رب ایسی چنگاری بھی اپنے خاکستر میں ہے”. یہ چنگاری بھڑکے گی تو آگ لگ جائے گی۔ ہوا یہ تھا کہ دیوبند میں بھی ایک "شاہین باغ” عورتوں نے بسا رکھا تھا. آزاد بھارت میں مسلم خواتین کی ایسی جرآت مندانہ تحریک سے جہاں مسلمانوں کو کچلنے والے حکمران طبقے کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے وہیں مسلمانوں کی گردن اپنے ہاتھ میں دباکر رکھنے والا حکومت کاحاشیہ بردار طبقہ قائدین بھی ڈرا ہوا تھا کہ اب ہمارا کیا کام رہ گیا ہے ۔ اسی وحشت میں دارالعلوم کے مہتمم صاحب حکومت کے ایلچی بن کر دھرنے کے مقام پر پہنچے اور خواتین سے اپیل کی کہ دھرنا ختم کریں اور اپنے گھروں کو واپس جائیں ۔ لیکن مولانا صاحب کا یہ ایلچی پن مسلمانوں کے عام موڈ کے خلاف اور تحریک شاہین باغ کو نقصان پہنچانے والا ایک عمل تھا اس لیے اس پر سخت ردعمل آیا، اور محترمہ اسماء زہرہ صاحبہ کا بھی ایک آڈیو میسج خوب وائرل ہوا ۔ اس میں کہی گئی باتیں غلط نہ تھیں لیکن لب ولہجے اور الفاظ کی شدت سے اس ذہنی کیفیت کی عکاسی ہو رہی تھی جو اس وقت ہر حساس مسلم مرد اور عورت کے ذہن کی تھی۔ ایک منصب بردار خاتون کی حیثیت سے انہیں اپنا پیغام ذرا مصلحت اور نزاکت کے غلاف میں لپیٹ کر دینا چاہیے تھا جیسا کہ ہمارے یہاں عام وتیرہ ہے ۔ چنانچہ ہمارے خیال میں یہ ان کا ایسا فالٹ تھا جو ان سے رقابت رکھنے والوں کے لئے مخالفت کا پہلا بہانہ بن سکتا تھا ۔
خواتین ونگ کی کنوینر کا قصور یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ خواتین کو ایک تنظیم کی صورت میں منظم کرنے لگی تھیں، بغیر رائے مشورے کے کام کر رہی تھیں، میڈیا میں بورڈ کی ترجمان بن رہی تھیں، اپنے دائرہ کار سے باہر جاکر سرگرمیاں انجام دے رہی تھیں۔ وغیرہ وغیرہ. اس کے علاوہ ان کے ذاتی ٹویٹس پر غصہ جتایا گیا جب کہ یہ غصہ جتانے والےخود اس کے لئے آزاد ہیں کہ جو چاہیں کہتے پھریں، جو چاہیں کرتے رہیں۔
سوال یہ ہے کہ وومن ونگ بنائے جانے کے وقت کیا کوئی اسٹیٹمینٹ آف مینڈٹ جاری کیا گیا تھا؟ اگر ایسا ہوتا تو مینڈیٹ کے خلاف ورذی کاالزام تسلیم کیا جاتا ۔ چوں کہ ایسا نہیں تھا اس لیے وہ بورڈ کے صدر و جنرل سکریٹری کو اعتماد میں لے کر پروگرام چلا رہی تھیں، اور جیسا کہ ان کا کہنا ہے، انہوں نے ذمہ داروں کے علم میں لاکر یا انہیں آمادہ کرکے میڈیا اور سیاسی شخصیات کے سامنے شریعت سے متعلق معاملات کو پیش کیا۔ اس طرح کی خود اعتمادی اور صلاحیت ہمارے یہاں بہت کم ہے اور عورتوں میں تو اور بھی کم ہے۔ ان کے پاس نہ صرف اظہار کی صلاحیت ہے بلکہ ان کی اسلامی فکر واضح اور بے جھول ہے، آئیں بائیں شائیں نہیں ہے، کتمان حق نہیں ہے، مرعوبیت و بزدلی نہیں ہے۔ یہ ان کے وہ اوصاف ہیں جو انہیں ایک قیمتی اور قابل قدر خاتون بناتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ایسی خاتون کی قدر اور ہمت افزائی کرنے کے بجائے، پرسنل لاء بورڈ کو اپنی مرضی سے چلانے کا دبدبہ رکھنے والے لوگوں کے دباؤ میں بورڈ کی مجلس عاملہ نے وومن ونگ کی کنوینر کے پر کترنے سے اتفاق کرلیا اور پوری وومن ونگ کو تحلیل کرنے کا فرمان جاری کردیا گیا۔
بودڈ کے صدر اور جنرل سکریٹری صاحب میں اگر خود اعتمادی ہوتی اور بڑبولے لوگوں کے دباؤ میں آنے کے بجائے وہ اپنی صواب دید سے کام لے سکتے تو ان کا صحیح موقف یہ ہوتا کہ ایک بیٹی سمجھ کر شفقت آمیز انداز میں مخلصانہ طریقے سے کچھ ہدایات کی پابندی کی تلقین کردیتے۔ ڈاکٹر اسماء صاحبہ کو ہم نے جتنا سمجھا ہے اس کے اعتبار سے ہمیں یقین ہے کہ وہ صدر اور جنرل سکریٹری صاحب کو مایوس نہ کرتیں، اور بالفرض ایسا ہوتا تو ان کے خلاف تادیبی کاروائی کا اخلاقی حق بورڈ کی مجلسِ عاملہ کو حاصل ہوتا۔ اس لئے مجلس عاملہ کی کارروائی, کارکردگی اور فیصلہ لائق اعتبار نہیں ہے۔ ہماری نظر میں یہ ایک سیاسی انداز کی کارروائی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں سیاست کاری کا عمل دخل پرانا ہے، جس کسی کو حاوی ہونے کا موقع ملا ہے اس نے امانت و دیانت کی باریک دھار پر چلنے کے بجائے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق بورڈ کو چلانے کے لئے سیاسی ڈھنگ اپنانے کو ترجیح دی ہے۔ لیکن مرحوم علی میاں رحمتہ اللہ علیہ کا اپنا ایک رعب تھا، اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کا اپنا ایک دبدبہ تھا، عبدالرحیم قریشی صاحب اپنی ایک آزادانہ رائے اور حتمی موقف رکھتے تھے اور مرحوم مولانا ولی رحمانی صاحب بھی کسی کے رعب میں نہ آتے تھے۔ یہ لوگ جب تک تھے پرسنل لاء بورڈ اوپر تھا اور مدنی خاندان کی جمیعت اس کے سامنے بونی تھی۔ مگر اب ایسا نہیں ہے۔ موجودہ صدر اور جنرل سکریٹری خاموش موقف اور کمزور آواز رکھنے والے بزرگ ہیں۔ اب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مدنی خاندان کے سامنے بہت کمزور پڑ چکا ہے۔
27 مارچ ، 2022 کی میٹنگ میں جب وومن ونگ اور اس کی کنوینر کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں تو جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کو بھی اپنی گھٹن دور کرنے کا موقع ملا۔ جماعت اسلامی کے افراد کی یہ ایک پرانی کمزوری ہے کہ یہ اسلامی تحریکی فکر کی کسی دوسری جماعت کو اپنے متوازی دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ اسی اجارہ داری والے رویے کی وجہ سے ان لوگوں نے ایک آزاد طلبہ تنظیم کو اپنا اخلاقی تعاون جاری رکھنے کے بجائے خود اپنی ایک طلبہ تنظیم کھڑی کی جس کے افراد کی ذہن سازی دوسری تنظیم کے تئیں رقیبانہ اور حریفانہ انداز سے ہوئی۔ اسی رقابت میں اس تنظیم کو بدنام کرنے میں جماعت کے بعض افراد بھی معاون بنے اور تنظیم پر پابندی کو اپنے لئے راحت کے طور پر محسوس کیا گیا اور سب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ان نالائقوں کی حرکتیں ہی ایسی تھیں۔
اسی رقابت کے جذبے میں جماعت نے پی ایف آئی کو کبھی پسند نہیں کیا۔ پی ایف آئی اور اس کے افراد کے تعلق سے اپنے حلقہ اثر میں ہمیشہ ناگواری ظاہر کی اور ایک منفی تاثر کو ہوا دی۔ جماعت کا طریقہ یہ رہا ہے کہ کفر اور دہریت پھیلانے والی تنظیموں سے تو روابط رکھے گی، مشترکہ ایشوز پر اتحاد کرے گی، لیکن تحریکی فکر کی کسی دوسری جماعت کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرے گی۔ جماعت اسلامی کو ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے کہ تنظیموں کا کوئی وفاق خود اپنے آپ میں ایک تنظیم بن کر کام نہ کرے اور خود اس کے متوازی کھڑا نہ ہو۔ آل انڈیا ملی کونسل سے بھی جماعت اس اندیشے میں مبتلا رہی، مشاورت کو بھی اسی احتیاط کے ساتھ برتا گیا اور پرسنل لاء بورڈ میں بھی جماعت اسلامی اس چیز پر پورا زور لگاتی ہے۔
جماعت اور دوسری مسلم تنظیموں کے اسی بخل اور اڑیل پن کی وجہ سے، نیز مسلکی و سیاسی اختلافات کے پیش نظر یہ پالیسی بنائی گئی تھی کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا دائرہ کار صرف شریعت کے تحفظ تک محدود رہے گا۔ لیکن اس پالیسی کو ایک حکم وحی کی طرح پرسنل لاء بورڈ پر نافذ کرایا جاتا ہے۔ مگر منتشر مسلمانوں کے ایک مشترک پلیٹ فارم کی وجہ سے اسے ملت کا اعتماد حاصل ہوا اور حکومت و اعدائے اسلام کے لئے یہ ایک دیوار بن کر کھڑا ہوا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اعتبار اور وقار اس وجہ سے قائم ہوا تھا کہ اس نے شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے ایک شریعت مخالف فیصلے کو پارلیمنٹ کے ذریعے بے اثر کرانے کے لئے جہاد کیا۔ مسلمانوں کی دینی وحدت اور جذبہ جاں نثاری کو اربابِ اقتدار کے سامنے ظاہر کیا۔
اس کے بعد بابری مسجد کی قانونی لڑائی پورے تسلسل اور عزم کے ساتھ لڑی اور تمام تر دباؤ کے باوجود اپنے موقف پر آخر تک قائم رہا۔ عدالت کا فیصلہ ہر حال میں ماننے والی بات سے بہت سے دین دار مسلمان متفق نہیں تھے، لیکن ایک منطقی موقف اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا تھا اس لئے بورڈ کے اس موقف کے ساتھ ملت کھڑی رہی۔ اور جب ایک مقبول عام مولانا نے کفر کے جھانسے میں آکر ایک متکبرانہ طرز عمل اختیار کیا اور بورڈ سے بغاوت کی تو ملت نے انہیں ریجکٹ کردیا۔
اس لئے آج جو لوگ اس کی مثال میں اسماء زہرہ صاحبہ کے خلاف اسی طرح کی تادیبی کاروائی کی خواہش ظاہر کررہے ہیں وہ یہ سمجھ لیں کہ ملت کسی فرد یا کمیٹی کے ساتھ نہیں ہے، ملت کی تائید صحیح مؤقف کو حاصل ہوگی چاہے وہ موقف فرد کا ہو یا بورڈ کی عاملہ کا۔
ملت کے عام افراد کے لئے یہ جاننا مفید ہوگا کہ بورڈ کی مجلس عاملہ کس طرح کام کرتی ہے۔ عاملہ کے اکثر وبیشتر ارکان دہلی سے دور رہتے ہیں اور معاملات سے بہت زیادہ دل چسپی نہیں رکھتے ہیں۔ اصل کار پردار چند افراد ہیں جو الگ الگ وجوہات سے بہت عمل دخل رکھتے ہیں۔ یہ افراد میٹنگ کا ایجنڈا بنانے میں جنرل سکریٹری کی مدد کرتے ہیں، کبھی کسی معاملے میں جنرل سکریٹری کو آمادہ کرتے ہیں، کبھی صدر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کا اعتماد حاصل کرتے ہیں۔ اپنی عمر سے تھکے ہوئے اور اپنے مزاج کی وجہ سے بے رغبتی رکھنے والے صدر صاحب بھی، اور اپنے گوناگون مشاغل میں مصروف رہنے والے جنرل سکریٹری صاحب بھی اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ کسی پالیسی یا فیصلے، بیان یا خط کا ڈرافٹ لکھنے والے ڈرافٹ دے دیں، وہ ایک نظر دیکھ کر اس پر صاد کردیں اور دفتر سے ان کے نام سے وہ جاری ہوجائے۔
یہی لوگ آپس میں ایشوز پر بات کرتے ہیں، جنرل سکریٹری صاحب سے مشاورت کرتے ہیں، میٹنگ کی تاریخ اور ایجنڈے پر اتفاق کرکے صدر صاحب کی اجازت سے میٹنگ کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ میٹنگ کے شرکاء کے سامنے مسئلے کو بیان کیا جاتا ہے، یہ شرکاء اپنی عقلوں کا بہت زیادہ استعمال نہیں کرتے، کوئی جرح نہیں کرتے، ذمہ داران کا موڈ دیکھتے ہوئے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ بعض اوقات تکنیکی یا قانونی مسائل سے متعلق کمیٹی کے کنوینر کی رپورٹ سنی جاتی ہے اور عموماً اس کو تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ اس طر ح کچھ افراد کے نجی جذبات یا افکار ایک اجتماعی فیصلے کا روپ لے لیتے ہیں۔ میٹنگ میں افراد کی شرکت بھی متاثر رہتی ہے البتہ میٹنگ بلانے والے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کورم پورا ہوجائے۔ اس کے لئے اپنے خاص تعلق والوں کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ ضرور شرکت کریں۔ وہ آتے ہیں اور ووٹ دے کر چلے جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پرسنل لاء بورڈ اب چند افراد کے ہاتھ میں ہے۔ یہ لوگ مختلف الخیال ہوتے ہوئے بھی باہمی مفادات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اور یہی معاملہ وومن ونگ کے ساتھ ہوا ہے۔ فاروقی برادران اور جماعت اسلامی کے افراد نے مل کر وومن ونگ کو ختم کرانے کا فیصلہ مجلسِ عاملہ سے کرادیا ہے۔
اس پر مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسماء زہرہ صاحبہ کے خلاف بورڈ کے فیصلے کو حمایت دینے کے لئے بورڈ کی دیگر خواتین کے بیانات جاری کرائے جا رہے ہیں۔ اس طرح یہ معاملہ نسوانی قضئے کی شکل لے رہا ہے۔ لیکن ایسی تمام خواتین کو ہم مشورہ دینا چاہیں گے کہ اس معاملے میں آلہ کار نہ بنیں اور رقیبانہ جذبات سے خود کو بچائیں ۔ اس کے بجائے بورڈ کے ذمہ داروں کو یہ پیش کش کریں کہ ہم کنوینر صاحبہ کی مشیر بنیں گی، ان کی مدد کریں گی، بورڈ کے صدر اور سکریٹری صاحب کو اعتماد میں لے کر خواتین کی اس نئی بیداری کو آگے لے جائیں گی، براہ کرم تربیت کریں، پر کترنے کا فیصلہ نہ کریں۔ ان خواتین کو یہ حقیقت تسلیم کرنا چاہیے کہ صلاحیت و استعداد بھی اللہ کی ایک دین ہے، جس کو جتنی چاہتا ہے دیتا ہے۔ آپ کی کسی بہن کو اللہ نے قیادت کی بہترین صلاحیت دی ہے تو آپ بھی اپنی صلاحیتوں سے ان کو مزید تقویت پہنچائیں۔
آخری بات یہ ہے کہ یہ پورا معاملہ دو رجحانوں کے بیچ کشمکش کی ایک علامت ہے۔ ایک رجحان یا موقف حکومت کی پالیسیوں اور اکثریت کے جذبات سے موافقت قائم رکھنے کا ہے تاکہ زندگی آرام سے گزرجائے، اور دوسرا موقف ملٹ کو سنبھالنے، بچانے، جگانے اور دشمن سے مزاحمت کا ہے۔ پہلا موقف مبینہ قائدین اور جماعتوں نے اپنایا ہوا ہے، جب کہ محترمہ اسماء زہرہ دوسرے رجحان کی ایک علامت بن کر ابھری ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ موافقت ، بے عملی اور ریت میں سر چھپانے والا موقف ملت کے لئے موت ہے، جب کہ مزاحمت کا موقف ملت کے اندر زندگی اور عزت نفس کی ایک علامت ہے۔ چنانچہ ہم اسی مزاحمت والے موقف کے ساتھ ہیں۔
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
آئے دن اخبارات کے صفحات مختصر یا شاہ سرخیوں سے اِس بات کے لیے گراں بار ہوتے ہیں کہ کسی گانو یا شہر یا مخصوص علاقے میں کسی شخص نے مذہبی یا نسلی اعتبار سے کوئی نفرت انگیز بیان دیا اور اُس کے بعد وہاں فساد برپا ہو گیاجس میں دو چار دس سے لے کر سینکڑوں جانوں کا ہدف بننا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔دہلی شہر کے ۲۰۲۰ء کے فسادات کی پشت پر بھی ایسی ہی نفرت انگیزی کی بات کہی جاتی رہی ہے۔ہندستان کے آئین اور انتظامیہ کے لیے بنے ہوئے قوانین ایسی نفرت انگیزی سے مقابلہ کرنے اور اُسے پورے طور پر ختم کرنے کے لیے پابندِ عہد ہیں مگر مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں اور اُن کے زیرِ انتظام پولیس اور سوِل انتظامیہ مفاد کے ٹکراؤ یا مفاد میں ملوث ہونے کی وجہ سے کار گر اقدام نہیں کر پاتے۔اِس کے نتیجے میں ہزاروں معصوم لوگوں کی جانیں جاتی رہی ہیں اور ستم یہ ہے کہ تھوڑے وقفے کے ہنگامے کے بعد لوگ قصور واروں کو بھول بھی جاتے ہیں اور دنیا ایسے ہی چلتی رہتی ہے۔
یہ سمجھنا درست نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہی نفرت انگیز سیاسی وسماجی تقریروں کا دور شروع ہوا۔تاریخ کے ایک طالب علم کو جنگِ آزادی کے دوران کیسے کیسے فرقہ پرستوں کے بیانات یاد ہیں۔آزادی کے بعد پروشوتم داس ٹنڈن کی نفرت انگیز تقریروں کو صوبائی اور مرکزی ایوانوں سے لے کر سڑکوں تک لوگوں نے ملاحظہ کیا ہے مگر وہ دور سیاسی ڈسپلین کا بھی تھا۔حکومت کے سارے اعضا کام کررہے تھے جس کے سبب ایک کی نفرت انگیزی پر ہزاروں کی محبت داریاں اُبھر کر سامنے آ جاتی تھیں۔اکثر یہ دیکھا گیا کہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے مقامی سطح پہ ایسی نفرت انگیزی کسی نے پیدا کی اور کبھی کبھار وہ مقامی سے لے کر اسمبلی اور پارلیامنٹ تک میں فتح یابی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ مگر یہ بات اتنی عام نہ تھی کہ اس سے پورا ہندستان متاثر ہوجائے، یہ نفرت انگیزی بھی مقامی اور وقتی اثر یا فائدہ حاصل کرنے کے لیے کی جاتی تھی۔ اصحابِ دانش میں اس کے خلاف بھی حکومت اور انتظامیہ کو موردالزام ٹھہرانے کا ایک طور رہا مگر سب کچھ سیاست کے حاشیے پر ہی چلتا رہا۔
۱۹۸۴ء کے آس پاس بھارتیہ جنتا پارٹی نے جب جارحانہ انداز میں اپنے الیکشن کا نعرہ پیش کیا: ’’مندر وہیں بنائیں گے‘‘۔ اس وقت ایک طبقے کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ سیاسی زبان اور اس کی لفظیات میں واضح تبدیلی سامنے آرہی ہے۔ کمال تو یہ تھا کہ یہ تبدیلیاں جمہوری تقاضوں کے برخلاف سامنے آرہی تھیں مگر کم لوگوں کو اس بات کا دھیان رہا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد عام انتخاب میں کانگریس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو سب سے بری شکست تک بھلے پہنچا دیا مگر سیاسی زبان میں جو کڑواہٹ اور نفرت انگیزی شامل ہوگئی تھی، اس کی واضح کاٹ تیار نہیں کی گئی ۔ ۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۰ء تک اور پھر ۱۹۹۲ء کے دورانیے کو نظر میں رکھیے تو سب کچھ واضح ہو جاتا ہے کہ بھلے مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی مگر سماجی اعتبار سے پورے ملک میں عوامی سطح پر نفرت کا ایک ایسا ماحول تیار کردیا گیا تھا کہ پارلیامنٹ کی دو سیٹوں سے بڑھ کر دیکھتے دیکھتے بھارتیہ جنتا پارٹی مرکز میں اپنی طاقت ور موجودگی ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی۔ مہنت اویدیہ ناتھ ، اوٗما بھارتی، سادھوی ریتمبھرا، ونَے کٹیار ، اشوک سنگھل، پروین توگڑیا جیسے سینکڑوں نام اس دوران سامنے آئے جن کی تقریروں پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومت اور انتظامیہ نے کارروائی کی ہوتی تو ہر روز ایک مقدمہ ہوتا اور انھیں مستقل طور پر جیل کی دیواروں کے سائے میں ہی اپنی زندگی گزارنی پڑتی مگر کانگریسی دورِ حکومت میں ایک چھپی ہوئی فرقہ پرستی ہمیشہ کام کرتی رہی جس کا سب سے خطرناک نمونہ بابری مسجد کا انہدام تھا۔ جب مرکزی حکومت کے پاس واضح طور پر صحیح اقدام اٹھانے کا شعور ثابت نہیں ہوسکا تھا۔
ہندستان کا آئین سیکولر بنیادوں پر قائم و دائم ہے۔ جمہوری اقدار اور مساوات کے ساتھ ایک دوسرے کے لیے تعظیم کے جذبے کو پسند کرتا ہے۔ مذہبی اور سماجی اعتبار سے کسی بھید بھائو کے لیے یہاں گنجایش نہیں ہے۔ دشواری یہ ہے کہ آئین کی قسم کھاکر بھی آئین کی حفاظت کرنے والوں کو بعض باتیں یاد نہیں رہتی ہیں اور چھوٹے بڑے مفاد کے چکر میں یہ لوگ اس کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سماجی شیرازہ بندی کو بکھیرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بار بار مقامی عدالتوں سے لے کر عدالتِ عالیہ اور سپریم کورٹ تک لوگوں نے اپنی گزارشات پہنچائیں۔ کئی بار فوری ضرورت اور جان و مال کے نقصان کو بچانے کے لیے بھی لوگ بڑی عدالتوں کے دروازے پر گئے مگر جس موثر اقدام کی ضرورت تھی، نہ حکومتوں نے کیے اور نہ ہی انتظامیہ میں کوئی سگبگاہٹ آئی۔ دہلی شہر میں آگ بھڑکتی رہی مگر وہاں بھی کوئی فوری طور پر چارہ گر ثابت نہ ہوا۔ آئین کے مطابق انتظامیہ اور قانون سازیہ جب اپنے فرائض سے غفلت برتنے لگیں تو عوام کے پاس عدلیہ ہی ایک راستہ ہے اور لوگ بار بار بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ پہنچتے رہے مگر واضح ہدایات کے فقدان میں نفرت پھیلانے والے عناصر کی مناسب سرزنش ہنوز نہیں ہوئی۔
گذشتہ روز سپریم کورٹ کے دو ججز کے۔ ایم۔ جوزف اور ریشی کیش رائے کی مشترکہ بینچ نے تین صوبوں کے تعلق سے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اپنے جو تاثرات پیش کیے، وہ نہ صرف یہ کہ حیرت انگیز تھے بلکہ سپریم کورٹ کے آئین کے محافظ ہونے کے ثبوت کے طور پر اسے لیا جاسکتا ہے۔ دونوں ججوں نے انتظامیہ اور خاص طور سے پولیس انتظامیہ کو سخت ہدایتیں دیں۔ انھوںنے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ اتنے حساس معاملوں پر پولیس کی کارروائی میں سستی اور کاہلی کیوں رہتی ہے۔ انھوںنے براہِ راست پولیس کو ذمے داری سونپتے ہوئے اس بات کے لیے متنبہ بھی کیا کہ اگر ایسی نفرت انگیزی کہیں بھی نظر آرہی ہے اور پولیس فوری طور پر سخت سے سخت ترین کارروائی نہیں کرتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی قرار دی جائے گی۔
عدالت نے پولیس کو صاف صاف یہ بات بتائی کہ انھیں کسی درخواست کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ۔ نفرت انگیز تقاریر پر فوری طور پر انھیں کارروائی کرنی چاہیے ۔ دونوں ججوں نے اس بات پر افسوس اور حیرت کا اظہار کیا کہ ایک سائنسی مزاج کی جدید سوسائٹی میں رہنے والے ہم لوگوں کی آنکھوںکے سامنے جو بیانات آرہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہم نے مذہب کو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا ہے جہاں سے چند لوگ صرف نفرت کی کھیتی ہی کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات اور فاضل ججوں کے بیانات سے ان لوگوں کو حوصلہ ملا ہے جو گذشتہ دنوں ایسی نفرت انگیزیوں کے سبب خود کو بے بس اور لاچار سمجھنے پر مجبور تھے۔ پولیس طرف داری میں ملوث نظر آرہی تھی اور حکومتیں اپنے سیاسی ایجنڈے پر کام کرتی نظر آتی رہی ہیں۔ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے اعلا عہدے دار بھی کہیں نہ کہیں ان نفرت انگیزیوں میں براہِ راست یا پوشیدہ طور پر شامل مانے جاتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے پورے ملک میں رہ رہ کر مٹھی بھر لوگ نفرت کا ننگا ناچ کھیلنے کے لیے موجود رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ شاید الگ الگ صوبوں میں پولیس انتظامیہ کو مفاد پرستی سے اوپر اٹھنے کا موقع فراہم کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سیاسی مفاد کے باوجود مرکز سے لے کر صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں عدم توجہی کو گھٹانا پڑے۔ آج کے سیاسی ماحول میں ایسے فیصلوں کا استقبال کیا جانا چاہیے ۔ ہر چند گذشتہ برسوں سے اعلاعدالتوں پر بھی سیاہ پرچھائیاں پھیلتی ہوئیں نظر آتی ہیں مگر ہندستان کے آئین اور اس آئین کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھانے والے سپریم کورٹ میں بار بار ایسے مواقع آتے رہتے ہیں جب عوام کی حفاظت اور ان کے امن و سکون کے لیے کچھ بنیادی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ خدا کرے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو پورے ملک کی حکومتیں صاف صاف سمجھ سکیں اور اس کے مطابق آیندہ اقدام کے لیے پابندِ عہد ہوں۔
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
بات ’ ہیٹ اسپیچ ‘ اور سپریم کورٹ کی کریں گے ، اور بلقیس بانو کی بھی ۔
ادب میں مابعد جدیدیت کی ہوا چلی تھی تو لفظوں کے معنی بدلنے لگے تھے ، لیکن فکری اور نظری اختلاف کے اِس دور میں لفظوں کے معنی بدلے ہی نہیں جا رہے ہیں ، لوگوں پر نئے معنیٰ ، جو پہلے معنی کی تقریباً ضد ہوتے ہیں ، تھوپے جا رہے ہیں ! اب یہی دیکھ لیں کہ وہ جو زانی ہیں ، ریپسٹ ہیں ، قاتل ہیں ، اور مذہب کی بنیاد پر ایک حاملہ خاتون کے ساتھ بدترین فعل ، اور اس کی تین سال کی بیٹی کو ، پتھر پر جیسے کپڑا پٹکا جاتا ہے ، اس طرح پٹک پٹک کر قتل کرنے ، اور پیٹ سے جنین نکال کر ترشولوں پر اچھالنے کے مجرم ہیں ’’ اچھے چال چلن ‘‘ کی سند پا رہے ہیں ۔ اور سند ہی نہیں پا رہے ہیں باقاعدہ جیل کی سلاخوں سے باہر آ رہے ہیں ، بری کیئے جا رہے ہیں ، ہار اور پھول سے لادے جا رہے اور مٹھائیاں کھا کر خوشیاں منا رہے ہیں ! ذکر مظلوم خاتون بلقیس بانو کا ہے کہ ایک لمبی اذیت سے گذرنے ، اور طویل مدت کے بعد انصاف پانے کے بعد اب وہ پھر سے ڈری اور سہمی ہوئی ہے ، اس لیے کہ اس کے مجرم آزاد کر دیے گیے ہیں ۔ یقیناً اس کی آنکھوں کے سامنے گجرات ۲۰۰۲ء کا وہ خونی منظر کسی فلم کی طرح گھوم رہا ہوگا ، جس میں یہ گیارہ مجرمین جو ’’ اچھے چال چلن ‘‘ کی سند پا کر رہا ہوئے ہیں ، خوف ناک کردار ہیں ، ایسے کردار جن کا بلقیس بانو کی دنیا کو اجاڑنے میں گھناؤنا ہاتھ ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ۱۵، اگست کے روز ، آزادی کے امرت مہوتسو پر ، گجرات کی سرکار نے بلقیس بانو کے مجرموں کو ’’ اچھے چال چلن ‘‘ کی سند دے کر رہا کر دیا تھا ، لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ فیصلہ گجرات سرکار کا تنہا لیا گیا فیصلہ نہیں تھا ، اُسے مرکزی وزارتِ داخلہ کی اجازت یا منظوری حاصل تھی ۔ آسان لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ گجرات کی حکومت نے مرکزی حکومت کی مرضی سے بلقیس بانو کے مجرموں کو رہا کیا تھا ۔ ۱۵، اگست سے لے کر ۱۸، اکتوبر تک مرکزی سرکار اپنے ہونٹ سیئے ہوئے تھی ، بلقیس بانو معاملہ میں اس کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا ، اور نہ ہی اس معاملہ میں اس کا ہاتھ ظاہر ہوا تھا ، لیکن جب بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی کے خلاف ، سپریم کورٹ میں ترنمول کانگریس کی رکن راجیہ سبھا مہوا موئترا ، سی پی ایم کی شبھاسنی علی ، سماج سیویکا ووکھین ورما اور سرفروشی فاؤنڈیشن سے وابستہ و گجرات فسادات پر آنکھیں کھولنے والی کتاب ’’ اناٹومی آف ہیٹ ‘‘ کی مصنفہ ریوتی لال کی درخواست پر شنوائی ہوئی تو پتہ چلا کہ مرکزی وزارتِ داخلہ ، مطلب مرکز کی نریندر مودی کی سرکار ، ان مجرموں کی رہائی کے پیچھے ہے ! گجرات حکومت نے اور خود مرکزی سرکار کی طرف سے اس کے ایک افسر نے ، سپریم کورٹ میں جو حلف نامے داخل کیے ، ان سے جہاں مرکزی حکومت کا کردار سامنے آیا ، وہیں اِ ن مجرموں کے ’’ اچھے چال چلن ‘‘ کا سچ بھی جگ ظاہر ہوگیا ، اور اس سوال کا جواب بھی سامنے آ گیا کہ کیا یہ واقعی میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے ؟ اس سوال کا جواب آپ کے سامنے رکھیں گے ، لیکن اس سے پہلے سپریم کورٹ کے اُن سخت ریمارکس پر ایک نظر ڈال لی جائے ، جو اس نے ’’ ہیٹ اسپیچ ‘‘ یعنی ’’ نفرت کی بولی ‘‘ کے تعلق سے ، جمعہ کے روز دیئے ہیں ۔
یہ بتا دیں کہ جب سے مودی اقتدار میں آئے ہیں ، یعنی ۲۰۱۴ء ، تب سے ملک بھر میں اشتعال انگیزی زوروں پر ہے ، سیاست داں ، دھرم گرو اور پرچارک ’’ نفرت کی بولی ‘‘ بولنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ میرا یہ ماننا ہے کہ ’’ نفرت کی بولی ‘‘ سارے تشدد کی ، چاہے وہ گروہی ہو ، فرقہ وارانہ ہو یا ذات پات کی بنیاد پر ہو ، جڑ ہے ۔ تشدد خبیث کاموں میں سے ایک ہے ، اس لیے ’’ نفرت کی بولی ‘‘ کو ’’ اُم الخبائث ‘‘ کہا جا سکتا ہے ۔ گودھرا میں ۲۷ ، فروری ۲۰۰۲ء کے روز سابرمتی ایکسپریسس کی بوگی نمبر ایس – 6 میں آگ لگی یا لگائی گئی تھی ، جس میں ایودھیا سے آنے والے ۵۹ کارسیوک جل کر مر گئے تھے ۔ الزام گودھرا کے مسلمانوں پر لگایا گیا تھا ، اور ’’ نفرت کی بولی ‘‘ بولی جانے لگی تھی ۔ مرنے والوں کی ’’ شو یاترا ‘‘ نکالی گئی تھی ، اور اشتعال انگیز باتیں کہی گئیں اور نعرے لگائے گئے تھے ۔ اگر یہ نعرے نہ لگتے ، اشتعال انگیز باتیں نہ کہی جاتیں ، نفرت کو فروغ نہ دیا جاتا ، تو نہ گجرات کے فسادات ہوتے اور نہ ہی بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کی جاتی ، اور نہ ہی اس کے گھر کے چودہ افراد ، جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے ، قتل کیے جاتے ۔ لہٰذا بلقیس بانو کا معاملہ ’’ ہیٹ اسپیچ ‘‘ سے ہی پیوست ہے ۔ گیارہ مجرمین جو بری کیے گیئے ہیں ، نفرت کی باتیں سن کر ہی قتل و غارت گری پر اتارو ہوئے تھے ۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ’’ ہیٹ اسپیچ ‘‘ اور ’’ تشدد ‘‘ میں چولی اور دامن کا ساتھ ہے ۔ دہلی فسادات کی مثال لے لیں ، اگر انوراگ ٹھاکر ، پرویش ورما اور خود امیت شاہ اور نریندر مودی نے الیکشن مہم میں اشتعال انگیز بیانات نہ دیئے ہوتے ، اگر ’’ دیش کے غداروں کو ، گولی مارو سالوں کو ‘‘ جیسے نعرے نہ لگتے اور یوگی آدتیہ ناتھ ’ گن اور گولی ‘ کی باتیں نہ کرتے ، تو یقیناً دہلی میں تشدد نہ ہوتا ۔ اب تو ’’ نفرت کی بولی ‘‘ یوں بولی جا رہی ہے جیسے کہ اس کی پوری چھوٹ ہو ۔ دہلی میں ایک ’’ ہندو سبھا ‘‘ میں پرویش ورما نے ، جو مودی حکومت میں وزیر ہیں ، مسلمانوں کے ’’ معاشی بائیکاٹ ‘‘ کا باقاعدہ اعلان کیا اور وہاں موجود لوگوں سےحلف دلوایا ۔ اسی ’’ ہندو سبھا ‘‘ میں دو دھرم گرو بھی شریک تھے ، ان کی زبان نفرت سے بھری ہوئی تھی ۔بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نند کشور گرجر نے کھلے عام کہا ’’ ہم جہادیوں کو قتل کر دیں گے ‘‘، جہادی سے ان کی مراد مسلمان تھے ۔ ایک دھرم گرو جگت آچاریہ یوگیشور نے کہا ، ’’ ضرورت پڑنے پر ان کے ہاتھ کاٹ لو ، سر تن سے اتار لو ‘‘، ایک مہنت نول کشور داس نے کہا کہ ہندو اپنے گھروں میں بندوقیں رکھیں چاہے بغیر لائسنسس کی ہوں ۔ یہ نفرت بھرے بیانات ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کر رہے ہیں ۔ اور اس کے بد نتائج سامنے آئے ہیں ۔ مساجد کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی ہے ، پیشاب کیا گیا ہے ۔ مدھیہ پردیش میں گربا کے بہانے مسلم نوجوانوں کو وحشیوں کی طرح پیٹا گیا ہے ، گجرات میں تو مسلم نوجوانوں کو کھمبے سے باندھ کر ، لوگوں کے ساتھ مل کر پولیس نے پیٹا ہے ۔ اور ابھی کل جمعہ ۲۱ ، اکتوبر کے روز ، بنگلورو میں سنگھی ٹولے نے دو مسلم نوجوانوں کو بری طرح پیٹا اور یہ سمجھ کر کہ دونوں مر گئے ہیں ، انہیں راستے پر چھوڑ گئے ۔ دونوں مسلم نوجوان گھر گھر جا کر بیڈ شیٹ فرخت کرتے تھے ، انہیں روکا گیا اور کہا گیا کہ یہ ہندوؤں کا علاقہ ہے یہاں مسلم کاروبار نہیں کر سکتے ۔ کیا یہ پرویش ورما کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ نہیں ہے ، جس نے کہا تھا کہ نہ مسلمانوں کو کچھ بیچا جائے اور نہ ان سے کچھ خریدا جائے ؟ بالکل ہے ، لہٰذا اس معاملے کا مقدمہ ورما پر بھی بننا چاہیے ۔ پِٹائی کا جواز دیا جاتا ہے کہ گربا میں آئے یہ مسلمان جھگڑا کریں گے ، عورتوں کو بہکائیں گے ، اور تمہارا جینا اجیرن بنادیں گے ۔ یہ ہندوؤں کو تشدد کے لیے اکسانے کا ایک بھیانک طریقہ ہے ، اور ادھر مسلمان اپنوں کی پِٹائی سے مشتعل ہوں گے ۔ اس کے بعد یہ دونوں آمنے سامنے آ جائیں گے ۔ جھگڑے میں مریں گے عام لوگ ، اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر مزے اڑائیں گے یہ ’’نفرت کی بولی ‘‘ بولنے والے سیاست دان ۔
گجرات کی عدالت نے کھمبے سے مسلمانوں کو باندھ کر پیٹے جانے کا سخت نوٹس لیا ہے اور پولیس کے خلاف نوٹس جاری کر دیے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے کئی ہدایتیں دی ہیں : ریاستی حکومتیں کسی بھی نفرت آمیز بیان کے خلاف ازخود نوٹس لیں اور کارروائی کریں ، کارروائی کے لیے افسران حکومت یا عدالت کی ہدایت کا انتظار نہ کریں ، شکایت کے اندراج کا انتظار کیے بغیر کارروائی شروع کر دیں ، اشتعال انگیزی کرنے والوں کا مذہب نہ دیکھیں اس پر کارروائی کریں ۔ اور یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ اگر افسران اور حکومتیں ہدایات کے مطابق کارروائی نہیں کرتی ہیں تو سپریم کورٹ اسے توہینِ عدالت سمجھ کر کارروائی کرے گی ۔ سپریم کورٹ کے ’’ نفرت بازوں ‘‘ کے خلاف سخت ریمارکس ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ ، کیا مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں اس سرزنش پر کان دھریں گی ؟ بلقیس بانو کے معاملے میں مرکز اور گجرات کی سرکاریں ہی ہیں جو آنکھوں پر پٹّی باندھ کر مجرموں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ حیرت انگیز امر ہے کہ بلقیس کے جو مجرم ہیں وہ آج بھی لوگوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں ، اسی لیے بلقیس اور اس کا خاندان خوف کے سائے میں جی رہا ہے ۔ جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلا ہے کہ یہ جو مجرم رہا کیے گئے ہیں ایک ایک ہزار دن سے پیرول اور فرلو پر باہر تھے ، اور یہ لوگوں کو دھمکیاں دیتے پھرتے تھے ، ان میں سے کئی ہیں جن کے خلاف پولیس میں شکائتیں درج ہوئی ہیں ، دست درازی کی بھی شکایت درج ہے ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان مجرموں کا ’’ چال چلن ‘‘ کسی بھی پہلو سے ’’ اچھا ‘‘ نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ تمام باتیں خود گجرات سرکار کے حلف نامہ سے ظاہر ہوئی ہیں ، اس کے باوجود ’’ اچھا چال چلن ‘‘ کہہ کر رہا کیا گیا ! تو سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد کیا ان سے امید باندھی جا سکتی ہے کہ یہ ’’ نفرت بازوں ‘‘ پر ایکشن لیں گے ؟ ایک اچھی بات ، ’’ واقعی اچھی بات ‘‘ یہ ہوئی ہے کہ ملک کی ہندو خواتین بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی کے خلاف سرگرم ہوئی ہیں ، ان کے نام اوپر دیے گئے ہیں ۔ خواتین کی ایک اور تنظیم نے مجرموں کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ، جگہ جگہ لوگ اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھا رہے ہیں ۔ ہاں ! کچھ سیاست داں خاموش ہیں ۔ کانگریس اور راہل گاندھی نے آواز اٹھائی ہے ، شردپوار نے آواز اٹھائی ہے ، ادھو ٹھاکرے رہائی کے خلاف بولے ہیں ، لیکن ’ چھوٹے مودی ‘ اروند کیجریوال نے اب تک کسی بھی طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے ۔ وہ گجرات کا الیکشن لڑ رہے ہیں اور متمنی ہیں کہ مسلمانوں کے ووٹ انہیں ملیں ۔ جناب ! مسلمان آپ کو ووٹ دے سکتا ہے ، مگر آپ اس کے لیے اپنی زبان تو کھولیں ۔ بغیر زبان کھولے اس سے ووٹ مانگنا ’ بے شرمی ‘ اور نری ’ بے حسی ‘ ہے ۔
مسلمانوں کی زبوں حالی دور کرنے کے لیے جب بھی سرکاری سطح پر کوئی قدم اٹھایاگیا تو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بی جے پی نے یہ کہہ کرکھڑی کی کہ مسلمانوں کی ’منہ بھرائی‘ کی جارہی ہے،لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب خود بی جے پی ہی مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کی ’منہ بھرائی‘کے راستے پرچل پڑی ہے۔اس کا آغاز ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش سے ہوا ہے۔اطلاعات ہیں کہ رواں سال کے آخر میں وہاں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی بڑی تعداد میں پسماندہ مسلمانوں کو امیدوار بنائے گی تاکہ ان کا ووٹ حاصل کیا جاسکے۔بی جے پی اقلیتی مورچہ نے پورے صوبے میں ایسے 44ہزار پولنگ بوتھوں کی نشاندہی کی ہے جہاں پسماندہ مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے۔بی جے پی نے مسلمانوں میں ایسی متعدد برادریوں کو نشان زد کیا ہے جو سماجی، معاشی اورتعلیمی طورپر دیگر برادریوں کے مقابلے میں پسماندہ ہیں۔ ان میں انصاری، منصوری،راعین، گوجر، گھوسی، قریشی، ادریسی، نائک، فقیر، سیفی، علوی اور سلمانی وغیرہ شامل ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت مسلمان اس ملک کی سب سے زیادہ پسماندہ قوم ہیں اور یہ پسماندگی سب سے زیادہ ان برادریوں میں ہے،جو ابتداء سے محرومی کی زندگی گزارتی رہی ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے ان مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے نام پر ہمیشہ اپنا الّو سیدھا کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جو مسلمان تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طورپر پسماندہ ہیں ان کی حالت روز بروز بگڑتی چلی جارہی ہے۔ اب تک کسی بھی سیاسی جماعت نے مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ سبھی پارٹیاں انھیں دل فریب نعروں میں الجھاکر ان کا سیاسی استحصال کرتی رہی ہیں۔
اس ملک میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی ناپنے کا سب سے بڑا پیمانہ سچر کمیٹی کی وہ رپورٹ ہے، جوسابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں تیار کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ مسلمانوں کی دردناک تصویرپیش کرتی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس آنجہانی راجندر سچر کی قیادت میں ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی زبوں حالی کا جائزہ لے کر اس رپورٹ جو کچھ کہا گیاہے، وہ ایسی تلخ حقیقت ہے جس کے آئینے میں اس ملک کے حکمرانوں کو اپنا چہرہ ضرور دیکھنا چاہئے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اس معاملے میں خودکو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے قصور ایک دوسرے کے سر ڈالتی رہی ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں بی جے پی کے پرچم تلے ہوئے پسماندہ مسلمانوں کے اجلاس میں ہوا۔ اس اجلاس میں یوپی کے نائب وزیراعلیٰ برجیش پاٹھک نے کہا کہ”اب تک سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو بریانی میں تیزپات کی طرح استعمال کیا۔ بریانی تو خود کھا گئے اور تیزپات کو نکال کر باہر پھینک دیا۔“ اس اجلاس کے کرتا دھرتا یوپی کے اکلوتے مسلم وزیردانش انصاری تھے۔ دانش انصاری کا جغرافیہ ہمیں معلوم نہیں ہے، اس لیے ہم ان کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرپائیں گے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جنھیں بی جے پی مختلف مواقع پر مختلف عنوانات کے تحت تیزپات کی طرح ہی استعمال کرتی رہی ہے۔مسلمانوں کی محفل میں جب تک بریانی کا ذکر نہ ہو اس وقت تک بات مکمل نہیں ہوتی، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے بریانی میں استعمال ہونے والے تیزپات کا ذکر کیا ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں پسماندہ مسلمانوں کی سیاست نئی نہیں ہے۔ کانگریس کے دور اقتدار میں اس کے سب سے زیادہ جلوے تھے۔ ہرپسماندہ برادری کا ایک ’لیڈر‘کانگریس میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن اس قسم کے لیڈروں نے اپنی برادری کو فیض پہنچانے کی بجائے ہمیشہ اپنی ذات کو پیش نظر رکھا۔ان کی معراج وزارت کی کرسی،راجیہ سبھایا مختلف سرکاری محکموں کی چیئرمین شپ رہی۔ کانگریس کے دور اقتدار میں ’مومن کانفرنس‘ اس کا ایک ثبوت تھی، جس کے سربراہ کو سرکاری عہدہ ملتا تھا اور وہ اس عہدے پر براجمان ہوکر سب کچھ بھول جاتا تھا۔ وزارت وصدارت کے اس شوق میں اتنی زیادہ مومن کانفرنسیں بن گئی تھیں کہ یہ پہچاننا ہی دشوار تھا کہ اصل کون ہے اور نقل کون؟اس کے بعد جب یوپی کے مسلمان کانگریس سے ٹوٹ کر سماجوادی پارٹی میں چلے گئے تو وہاں بھی یہی سلسلہ شروع ہوگیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب اس بی جے پی نے بھی یہی روش اختیار کرلی ہے،جس کے ایجنڈے میں مسلمان کہیں نہیں ہیں۔اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی پسماندہ برادریوں نے کبھی فرقہ پرست طاقتوں سے ہاتھ نہیں ملایا اور وہ ہمیشہ سیکولر پارٹیوں پر ہی تکیہ کرتی رہیں، لیکن جب سے بی جے پی نے پسماندہ ذاتوں کا راگ چھیڑا ہے تو کچھ مفاد پرست عناصر اس کی طرف راغب ہونے لگے ہیں۔ حقیقت میں بی جے پی کا بنیادی مقصد پسماندہ مسلمانوں کی خیرخواہی سے زیادہ مسلمانوں میں ذات برادری کا انتشار پھیلانا ہے۔حال ہی میں پسماندہ ذاتوں کی نمائندگی کے سوال پرمسلمانوں کی نصف صدی سے زیادہ پرانی ایک وفاقی تنظیم کا تیا پانچہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ کسی مسلم تنظیم کونامعلوم عناصر کے اشارے پر ذات برادری کے نام پر قربان کیا جارہاہے۔
دراصل وزیراعظم نریندر مودی نے تین ماہ قبل اپنی پارٹی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کہا تھا کہ پارٹی کارکنوں کو ہندوؤں کے علاوہ ہر فرقہ کے محروم اور پسماندہ لوگوں تک اپنی رسائی بڑھانی چاہئے۔ سیاسی حلقوں میں اس کا مطلب پسماندہ مسلمانوں سے لیا گیا تھا۔گزشتہ اتوار کولکھنؤ میں منعقدہ ’پسماندہ دانشوروں کا اجلاس‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، جس میں نائب وزیراعلیٰ برجیش پاٹھک مہمان خصوصی کے طورپر شریک ہوئے اور انھوں نے بریانی سے تیزپات کے رشتے کی وضاحت کی۔ بی جے پی کی یہ پرانی ادا ہے کہ اس کے کیڈر کے لوگ ایسے کسی پروگرام میں شریک نہیں ہوتے جہاں ان کی کوئی جواب دہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس اجلاس میں برجیش پاٹھک کو بھیجا گیا جو بہوجن سماج پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔اگر واقعی بی جے پی اس معاملے میں سنجیدہ ہوتی تو اس اجلاس کا افتتاح وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو کرنا چاہئے تھا۔
جہاں تک مسلمانوں کو نمائندگی دینے کا سوال ہے توہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اس وقت مرکز کی بی جے پی سرکار میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں ہے۔یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ مرکزی حکومت نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے کسی نمائندے کو نمائشی نمائندگی کے قابل بھی نہیں سمجھا ہے۔ اتنا ہی نہیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی بی جے پی کا کوئی مسلمان نہیں ہے۔ ہاں پچھلے دنوں سخت تنقیدوں کے بعد جموں وکشمیر سے کسی غلام علی کھٹانہ کو راجیہ سبھا میں نامزدکیا گیا ہے، جو لکھنؤ کے پسماندہ اجلاس میں شریک تھے۔ اس اجلاس میں شریک بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ایک عہدیدار نے ’انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ ہم یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ بی جے پی کی مرکزی اور صوبائی حکومت نے کس طرح چارکروڑ پچاس لاکھ مسلمانوں کو مختلف سرکاری اسکیموں سے فائدہ پہنچایا ہے۔ انھوں نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ”یوپی میں تین کروڑپسماندہ مسلمانوں نے حکومت کی مفت راشن اسکیم کا فائدہ اٹھایا۔ ان میں سے سوالاکھ پسماندہ مسلمانوں کو آیوش مان اسکیم کے تحت طبی سہولتیں ملیں۔75لاکھ کو وزیراعظم کی کسان سمان ندھی کے تحت فیض پہنچا۔چالیس لاکھ سے زیادہ پسماندہ مسلمانوں کو بجلی کنکشن ملے اور بیس لاکھ مسلمانوں کو مکان ملے۔“اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے نزدیک مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کا پیمانہ کیا ہے۔وہ دراصل بحیثیت شہری مسلمانوں کو ملنے والی مراعات کو بھی ان کے اوپر احسان کے طور پر لادنا چاہتی ہے۔جبکہ مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے حکومت کو ایسے ہی اقدامات کرنے چاہئیں جیسا کہ دلتوں کے لیے کئے گئے ہیں، کیونکہ مسلمان فی الوقت دلتوں سے زیادہ پسماندہ ہیں۔
ہندو مہا سبھا کی مانگ : کرنسی پر گاندھی جی کے بجائے نیتا جی کی تصویر لگائی جائے
نئی دہلی :اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا (اے بی ایچ ایم) نے ہندوستانی کرنسی پر مہاتما گاندھی کے بجائے نیتا جی سبھاش چندر بوس کی تصویر چھاپنے کا مطالبہ کیا ہے۔ہندو مہاسبھا کا استدلال ہے کہ جدوجہد آزادی میں نیتا جی کا تعاون بابائے قوم سے کم نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق مغربی بنگال میں ہندو مہاسبھا کے ورکنگ صدر چندر چوڑ گوسوامی نے جمعہ کو یہ باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کو عزت دینے کا بہترین طریقہ ہے۔ گوسوامی کے مطابق ہندوستانی کرنسی پر گاندھی جی کی تصویر کو نیتا جی کی تصویر سے بدلنا چاہیے۔اس پر ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) اور کانگریس قائدین کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان پارٹیوں کا ماننا ہے کہ اس سب کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ ہے۔ بی جے پی کو بنگال میں تقسیم کی سیاست بند کرنی چاہیے۔ کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ ملک کی آزادی میں گاندھی جی کا اہم رول تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بابائے قوم کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی جی کے آدرشوں کو روز مارا جا رہا ہے۔گوسوامی نے مغربی بنگال میں ہونے والے پنچایتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں روزانہ ہندو بنگالیوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ نہ ٹی ایم سی اور نہ ہی بی جے پی ان کی حفاظت کرنے کے قابل ہے۔ ہم ان کے حقوق کے لیے لڑیں گے۔ خیال رہے کہ ہند و مہا سبھا اپنے تنگ اور تشدد آمیز نظریات کے لیے بدنام ہے ۔