گذشتہ ڈیڑھ صدی سےتعلیم وتعلّم اور سیاست ومعاشرت کےشعبے میں چمن سرسید کے فرزندان اَپنی سرگرمیوں اور کارناموں کی عطربیز خوشبوؤں سےپوری عالمی برادری کومہکائےہوئےہیں اور اَپنی کامیابیوں کا عَلم کم وبیش دنیا کے کونے کونے میں نصب کرچکے ہیں۔جدیدتعلیم وتعلّم کے لحاظ سے دیکھاجائے تو تقریباً دنیاکے تمام چھوٹے بڑے اداروں میں کسی نہ کسی سطح پرعلیگ برادران پائے جاتےہیں۔ معاشیات واقتصادیات اورصنعت وتجارت کےشعبے میں اعلیٰ سے اعلیٰ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ایوان ِسیاست سے لے کرمیدانِ سیاست تک ہرجگہ اعلی سے اعلی مناصب پر فائز نظرآتے ہیں۔سائنس اورمیڈیکل کی دنیا میں اپنے منفرد ومثالی کارناموںکی وجہ سے متعارف ہیں۔سماج ومعاشرت کی ترقی اور فلاحی ورِفاہی معاملات میں ہمیشہ پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔کھیل کود کے گراونڈ پربھی ملک وملت کا نام برابر روشن رکھے ہوئے ہیں، اوراِن تمام ترکامیابیوں کا سہرا براہِ راست اگر کسی کے سربندھتا ہے ،تو وہ تن تنہا سرسیداحمد خان ہیں۔
سرسید نے جن ناگفتہ بہ حالات میںاپنے انقلابی مشن کو لانچ کیا ، بظاہر اُس کا منزل مقصود تک پہنچنا بڑا ہی مشکل امر دیکھائی پڑتا تھا۔ کیوں کہ اُن کے اِس انقلابی مشن پر نہ صرف بیگانے اور مخالفین چیں بہ جبیں تھے بلکہ بعض اپنے بھی بباطن ناخوش تھے۔ لیکن اُن کی لگن اور محنت شاقہ نے اُن تمام خدشات اور مانعات کو دُورکردیا جو اُن کے مشن کو لے کرظاہر ہورہےتھے۔تاریخ شاہد ہےکہ جس قدر غیرانسانی وغیراخلاقی مغلظات سرسید کو سننے پڑے تھےاُس کی مثال اُن کے معاصرین سےلے کر اَب تک کے عہد میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔مگر چوںکہ سرسید اَپنے مشن میں مخلص تھے اور جنون کی حد تک اپنے مشن سے عشق بھی کرتےتھے اِس لیے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے محض چندہ پر مدار نہ کرتے ہوئے اپنے خاص پاکٹ سے مشن کی ضروریات کو پورا کرنے میں یقین رکھتے تھےاور اپنے دست وبازوپر اعتماد کے ساتھ اِس بات کا بھی اُنھیں یقین تھا کہ اُن کا مالک اُن کی محنت کو ضائع نہیں کرےگا۔ کیوں کہ اُس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہرکیے کا بدلہ تمھیں دیا جائےگا،یعنی وہ اپنے بندوں میں سے کسی کی محنت کوکبھی رائیگاں نہیں ہونے دیتاہے،لہٰذاکسی بھی نوع کے نامساعد حالات کے سامنے سرسید کے قدم ڈگمگانہ سکے اور آج دنیا اُن کی کامیابیوں کو اَپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، اور مخالفین کی نسلیں بھی چمن سرسید سے فیضیاب ہورہی ہیں اور آج وہ بھی اُس کی تعمیروترقی میں ہرممکن سطح پر کوششیں کررہی ہیں۔ بلکہ اکبر الہ آبادی جیسےعظیم ومستند ناقد اور پُرمزاح وپُرمذاق شاعر جنھوںنے سرسید کی مخالفت بڑے ہی اُوپن انداز میں کی تھی اور ایک عرصے تک ہرمحاذ اور ہرموڑ پر سرسیدپر طنزوتضحیک کے تیر برساتے رہےتھے لیکن اُنھوں نےبھی جب سرسید کے ہمالہ نما عزم مصمم کو محسوس کرلیا تووہ اپنے نظریےپر اَزسر نو غور کیے بغیر نہ رہ سکے اور اُنھیں بھی اپنے نظریے سے تائب ہوناپڑااورپھروہ یہ کہتے نظرآئےکہ’’اکبر محض باتیں کرتا ہے اورسید کام کرتا ہے۔‘‘
اِس اقرار کے ساتھ کہ سرسید سے دینی معاملات میں کچھ تسامحات ہوئے ہیں لیکن جدید طرز پراَور حالات حاضرہ کے پیش نظر اُن کی دینی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہےکہ اُنھوں نے دینیات سےمتعلق باضابطہ ایک شعبہ قائم کیاجس کی اہمیت وافادیت ہرزمانے میں اِس قدر رہی کہ تقریباً تمام مکاتب فکر کے ماہرین اِس شعبے سے منسلک ومتعلق رہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔پھرجو شخص عصمت نبوی کے تحفظ کے لیے اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے گئے اعتراـضات کے دفاع کےلیے اپنا سارا سازوسامان فروخت کردے اور اُف بھی نہ کرےاُسےیکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔زبان وادب میںجدت طرازی اور سہل نگاری جیسے نئے رنگ وآہنگ کے فروغ میں بھی اُن کا کردار بےنظیرہے۔ اخلاقیات کے اصلاح آمیز اِسباق کو جس سلیقے سے سرسید نے پیش کیا ہے ، یہ اُنھیں کا حصہ تھا جو اُنھیں کے ساتھ چلاگیا۔البتہ!اُس کی ضیابار کرنیں تاہنوز زبان وادب کےایوان کو روشن کی ہوئی ہیں اوراِس کی اعلی ترین مثال’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔القصہ! آج کے عہد میں بھی چمن سرسید کےبالمقابل کوئی ایسا علمی ادبی اور تہذیبی وثقافتی چمن ہمیں دکھائی نہیں دیتا جسے ہم فخریہ طورپردنیا کے سامنے پیش کرسکے۔بلکہ چمن سرسیدنےجس اعلیٰ پیمانےپرہماری چوطرفہ ساکھ کو بحال اور برقراررکھا ہے،وہ ہم سب کے لیے انتہائی قابل رشک ہےاور اس کا حسان چکانا مشکل لگ رہا ہے۔
اِن تمام باتوں سے قطع نظر جب ہم سرسید کے عہد کا موازنہ آج کے عہد سے کرتے ہیں تو علمی وادبی،تہذیبی وثقافتی اور دینی ومذہبی امور کے لحاظ سے کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا ہے۔بلکہ موجودہ عہد میں کچھ زیادہ ہی تاریکی نظر آتی ہے۔یعنی جس طرح سرسید کے زمانے میںسیاسی وسماجی،دینی ومذہبی اورعلمی ادبی سطح پر ایک سنگین مسئلہ ہمیں درپیش تھا، آج بھی کم وبیش ہمارے سامنے اُسی قدرمسائل درپیش ہیںکہ سیاست وسماج،دین ومذہب اور علم وادب کے میدان میں ہمارے حالات ناقابل بیان ہوگئےہیں، تو اَیسے میں ہمارے خیال سے ضرورت اِس بات کی ہے کہ جس نہج پرسرسید نے ایک پالیسی اور حکمت عملی کے تحت اپناقدم بڑھایاتھا اور جس راستےاورڈگر پر چلتے ہوئے ملک وملت، سیاست ومعاشرت اور دین ومذہب کے حق میں مفید ترثابت ہونے کی کوششیں کی تھیں اور ہوئے بھی ، آج ہم بھی وہی حکمت عملی اور پالیسی اختیار کریں، اور پھرملک وملت ،سیاست ومعاشرت اور دین ومذہب کے حق میں مفید سے مفیدتر ثابت ہونے کی کوششیں کریں۔ ایساکرنا مشکل ضرورہے لیکن ناممکن نہیں، اور یہ بھی صد فیصد ممکن ہے کہ سرسید والی راہ میںکانٹے بہت ہیںاورپھر اَپنے- بیگانے سبھی ناخوش اور ناراض ہوںگے لیکن اِن تمام باتوں سےاُوپر اُٹھتے ہوئےاخلاص کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کہ
میںکہاں رکتاہوں عرش وفرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے
22 اکتوبر, 2022
یوپی میں مدارس کا سروے مکمل،7500 مدارس غیر منظور شدہ، دارالعلوم دیوبند کے سلسلے میں مفتی ابوالقاسم نعمانی کی وضاحت
دیوبند(سمیر چودھری): اترپردیش کی یوگی حکومت کے ذریعہ کرائے جارہے غیر سرکاری مدارس کے سروے کا کام 20اکتوبر کو پورا ہوگیا ہے۔ سروے میں ریاست بھر کے ساڑھے سات ہزار کے قریب مدارس غیرامدادی سامنے آئے ہیں ۔ جنہیں غیر منظور شدہ بھی کہا جارہا ہے، حالانکہ سروے کی پوری رپورٹ 15نومبر تک ضلع مجسٹریٹ کے ذریعہ ریاستی حکومت کو ارسال کی جائے گی۔ وہیں حکومت کی جانب سے یہ بھی صاف کردیا گیا ہے کہ سروے کا مقصد صرف ڈاٹا جمع کرنا ہے ، ان کی کوئی جانچ نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی مدرسہ غیرقانونی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ سروے میں عالمی شہرت یافتہ ادارے دارالعلوم دیوبند اور سہارنپور میں واقع مظاہر العلوم جیسے بڑے مدارس جو حکومت سے کوئی چندہ نہیں لیتے ہیں انہیں بھی غیرمنظور شدہ بتایاگیا ہے، حالاں کہ یہ غیرقانونی نہیںہے۔ سروے کو لے کر ریاست اترپردیش کے مدرسہ تعلیمی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نے کہا کہ سروے کا کسی بھی طریقہ سے کسی جانچ سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیںہے، سروے سے متعلق اعداد وشمار کی بنیاد پر بچوں کے لئے اچھی تعلیم کا نظم کرتے ہوئے ان کے بہتر مستقبل اور انہیں ملک وسماج کی مین اسٹریم میںلانے کی کوشش کی جائے گی ۔ وہیں ضلع سہارنپور کے محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کے آفیسر بھرت لال گوڑ نے بتایا کہ ضلع سہارنپور کے سبھی مدارس کا سروے کا کام مکمل کرلیا گیا ہے جس کی رپورٹ ضلع مجسٹریٹ کو سونپ دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ضلع سہارنپور میں دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور سمیت کل 306مدارس غیرمنظور شدہ ہیں جو حکومت سے کوئی مددنہیں لیتے ہیں ۔ انہو ںنے بتایا کہ یہ مدارس غیرقانونی نہیں ہیں ، بلکہ یہ حکومت کی جانب سے منظور شدہ نہیں ہے اور سوسائٹی وغیرہ میں رجسٹرڈ ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ سروے کے دوران مدارس انتظامیہ نے بھرپور تعاون کیا ہے اورکہیں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہے۔ انہوںنے بتایا کہ ضلع سہارنپور میں 754مدارس محکمہ اقلیت میں رجسٹرڈ ہیں ان میں پانچویں سطح کے 664، آٹھویں سطح کے 80اور دسویں سطح کے 10مدرسے شامل ہیں، جب کہ 306مدارس غیرسرکاری امداد سے چل رہے ہیں۔ ان مدارس میں بچے دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں ، ان میں دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور بھی شامل ہیں، حالانکہ ان مدارس کو غیرقانونی نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ حکومت سے کسی طرح کا تعاون یا چندہ نہیں لیتے ہیں ،یہاں حکومت کی جانب سے جاری نصاب بھی نہیں پڑھایا جاتا ہے۔ وہیں اس معاملہ میں دارالعلوم دیوبند کا کہنا ہے کہ ادارہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے اور ہندوستانی قانون میں دی گئی مذہبی آزادی کے تحت یہاں پر مذہبی اور جدید تعلیم دی جاتی ہے ۔ بتایا کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ چل رہے ادارہ نے کبھی حکومت کی جانب سے کسی طرح کی کوئی مدد یا چندہ نہیں لیا ہے ،اس کا سارا خرچ عوام کے ذریعہ دیئے گئے چندہ سے چلتا ہے۔
اس سلسلہ میں ضلع مجسٹریٹ سہارنپور اکھلیش سنگھ نے بتایا کہ اب تک 247ایسے مدارس کا پتہ چلا ہے جو حکومت سے کوئی مدد نہیں لیتے ۔ دارالعلوم دیوبندبھی حکومت سے کوئی مدد نہیں لیتا ہے اور یہ سوسائٹی ایکٹ میں رجسٹرڈ ہے اور یہ غیرقانونی ہے ایسا نہیں کہا جاسکتا۔ سروے کو لے کر لوگوں میں کچھ بھرم ہے ، سروے میں یہ معلوم کرنا ہے کہ کتنے مدارس سرکار سے مدد حاصل کررہے ہیں جو مدارس حکومت سے مدد حاصل کررہے ہیں ان کا محکمہ اقلیت میں رجسٹریشن ضروری ہے ، لیکن جو مدارس حکومت سے کوئی مدد نہیں لے رہے ہیں ان کو غیرقانونی نہیں کہہ سکتے۔ اترپردیش میں غیر سرکاری مدارس کا سروے مکمل ہونے کے بعد میڈیا میں عظیم دینی دانش گاہ دارالعلوم دیوبند کے حوالہ سے یہ خبر آرہی ہے کہ دارالعلوم دیوبند ایک غیر منظور شدہ تعلیمی ادارہ ہے، اس سلسلہ میں نامہ نگار سے گفتگو کے دوران دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ یہ صحیح ہے ہمارا مدرسہ کسی بورڈسے ملحق نہیں ہے لیکن یہ ایک آزاد قانونی تعلیمی ادارہ ہے ،جو دستور کی دفعہ 25؍ کے تحت مذہبی تعلیم دیتاہے، انہوں نے کہاکہ دارالعلوم دیوبند اگرچہ کسی بورڈ سے ملحق نہیں ہے لیکن وہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ تعلیمی ادارہ ہے جو کسی بھی طرح کی سرکاری امداد نہیں لیتاہے۔ مفتی ابوالقاسم نعمانی نے بتایا کہ دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے اور اسی کے تحت دارالعلوم دیوبند چلتاہے، جو دستور ہند کے مطابق دی گئی مذہب آزادی کے تحت دینی تعلیم دیتاہے، انہوں کہاکہ سوسائٹی ایکٹ تعلیمی ادارے چلانے کا اختیار دیتاہے اور جو ادارے اس ایکٹ کے تحت ہیں وہ کسی بورڈ سے ملحق نہ ہونے کے سبب غیر منظور شدہ کہے جاسکتے ہیں لیکن غیر قانونی نہیں ہیں۔ انہوں واضح الفاظ میں کہاکہ دارالعلوم دیوبند گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے عوامی چندہ پر چل رہاہے اور اس نے کبھی بھی کسی بھی سرکار سے کسی طرح کی کوئی امداد نہیں لی ہے،دارالعلوم دیوبند دستور کے ہند کے مطابق قائم ہے اور دستور میں دی گئی مذہبی آزاد ی کے تحت تعلیمی سرگرمیاں انجام دیتاہے، دارالعلوم دیوبند ایک آزاد قانونی تعلیمی ادارہ ہے۔ادھر اس سلسلہ میں سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ اکھلیش سنگھ نے بھی وضاحت کی ہے کہ غیر تسلیم شدہ مدارس غیر قانونی نہیں ہیں بلکہ حکومت کی غیر امداد یافتہ ہیں، جوکسی بورڈ یا محکمہ کے تحت نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ یوپی میں مدارس کا سروے مکمل ہوگیاہے اور رپورٹ میں دعویٰ کیاگیاہے کہ صوبہ میں سات ہزار پانچسو مدارس جبکہ ضلع سہارنپور میں دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور سمیت 306؍ مدارس غیر منظور شدہ بتائے گئے ہیں،وہیں سرکار کی طرف سے بھی یہ صاف کیا گیا ہے کہ سروے کامقصد جانچ نہیں ہے بلکہ ڈاٹا جمع کرناہے۔
اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام ’’شاہجہان آباد: گزشتہ اور حال‘‘ کے عنوان سے توسیعی خطبہ
نئی دہلی: اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے ’’دہلی کی تاریخ و ثقافت‘‘ کے عنوان سے دس خطبات پر مشتمل توسیعی خطبات کی ایک سیریز کا سلسلہ جاری ہے، جس میں مختلف ذرائع جیسے دہلی کے تاریخی واقعات اور دہلی کی تہذیب و ثقافت کو ظاہر کرنے والے خطبات پیش کیے جاتے ہیں۔ اسی سریز کے تحت 21؍اکتوبر کو چوتھا توسیعی خطبہ بہ عنوان’’ شاجہاں آباد:گزشتہ اور حال‘‘ کا اہتمام اردو اکادمی دہلی کے قمر رئیس سلور جوبلی آڈیٹوریم ، کشمیری گیٹ میں کیا گیا۔ جس میںاردو و فارسی ادب کے ممتاز اسکالر اور دہلوی تہذیب و تمدن کی نمائندہ شخصیت پروفیسر شریف حسین قاسمی نے توسیعی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ موضوع اپنے آپ میں بہت بڑا ہے ، اس مختصر وقت میں اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا ہے۔دراصل کئی جلدوں میں کتاب کا یہ موضوع ہے۔میں نے کوشش کی ہے کہ جو میری نگاہ میں دہلی کی اہم جگہیں ہیں، ان پر مختصراً گفتگو کروں۔ عالم میںانتخاب شاہجہاں آباد ہے، اس طویل عرصے میں کافی تبدیلیاں رو نما ہوئیں۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی شاہجہاں آباد کی یادیں آج بھی باقی ہیں۔ شاہجہاں آباد محض ایک شہر یا آبادی کا نام نہیں ہے، یہ ایک تہذیب، ایک تمدن اور شاندار تاریخ کا نام ہے۔اگر یہ محض ایک شہر ہوتا تو قرون وسطی میں کئی بار اسے لوٹا گیا، برباد کیا گیا تو اس کے نتیجے میں اسے صفحۂ ہستی سے مٹ جانا چاہیے تھا۔پروفیسر قاسمی نے لال قلعہ اور دیگر عمارتوں کے تعلق سے سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اورنگزیب پچیس برسوں تک لڑتا رہا، اسے خطرہ لاحق تھا کہ کوئی دہلی پہ حملہ کرسکتا ہے۔اس خوف سے اس نے سوچا لال قلعہ کو محفوظ کیا جانا چاہیے۔تو اس نے لال قلعہ کے دونوں مرکزی دروازوں کے سامنے دو عمارتیں تعمیر کرا دیں۔ہمارے وزیر اعظم یوم آزادی پر جہاں سے تقریر کرتے ہیں ، وہ اورنگزیب کی عمارت پر کھڑے ہوکر تقریر کرتے ہیں۔وہ شاہ جہاں کی بنائی عمارت نہیں ہے۔جب شاہجہاں کو اس اوٹ کی تعمیر کا علم ہوا تو اس نے کہا میں نے قلعہ کے روپ میں دلہن بنائی تھی ، اورنگزیب نے اسے گھنگھٹ پہنا دیا۔لال قلعہ کی تعمیر کے دس برس بعد 1648میں شاہجہاں آباد کو باقائدہ بڑے پیمانے پر بسانے کا کام شروع ہوا۔ فصیل بند اس شہر کو نصف دائرے کی شکل میں بنایا گیا۔ اس فصیل میں چھوٹے بڑے 14دروازے اور 14کھڑکیاں تھیں۔یہ فصیل اب کہیں کہیں باقی ہے۔آپ آج بھی شاہجہاں آباد پر نظر ڈالیے تو احساس ہوگا کہ یہ شہر بنیادی طور پر مسجدوں، مندروں، گرجا گھروں اور گرو دواروں کا شہر ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ وقت کے ساتھ ساتھ نام تبدیل کیے جاتے ہیں اور آج تک یہ ہو رہا ہے، یہ کوئی عیب نہیں ہے۔انگریز آئے تو کئی بازاروں کے نام بدل دیے۔ دیکھئے مغلوں نے کبھی نام تبدیل نہیںکیا، بلکہ انہوں نے نئے شہر بسائے۔انہیں کوئی نام رکھنا ہوتا تھا تو نیا شہر بسا دیتے تھے، شاہجہاں آباد نیا شہر تھا اور یہاں ہر مذہب کے ماننے والے رہتے تھے۔ ہمایوں نیا شہر بنانا چاہتا تھا۔ اندر پرستھ وہ بدلا نہیں گیا وہ آج بھی موجود ہے۔ شاہجہاں آباد میں باغات کی بھرمار تھی۔مورخ نے دہلی میں 41باغات کا ذکر کیا ہے۔19ویں صدی ہمہ گیر زوال کا دور ہے، انگریز روپے دیتے تھے اور وہ کھاتے تھے، خود بہادر شاہ سامان بیچ کر زندگی گزار رہے تھے۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جن بازاروں میں جن چیزوں کی پہلے دکانیں تھیں، انہی چیزوں کی دکانیں آج بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔
شعبۂ تاریخ، دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر سید ظہیر حسین جعفری نے اپنے صدارتی خطبے میں کہاکہ 19ویں صدی کی کتابوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ چیزیں بھی دیکھنے کی ہیں کہ جو زوال کی داستان ہے ، اسے نظر انداز کیا گیا ہے۔ عروج کی داستان ہمیں معلوم ہے۔ جنرل ویلیم کے اور مڈسن کی کتابوں میں دہلی کی تباہی کی داستان بھی موجود ہے۔ لال قلعہ صرف مغلوں کے لیے نہیں بلکہ ہندوستان کے لیے ایک امیج کے طور پرابھی بھی قائم ہے۔لال قلعہ کو جو مرکزیت حاصل ہے، جو اہمیت حاصل ہے،وہ ہندوستانیوں کے مزاج میں ہے۔دہلی میں کتنی عمارتیں ہیں لیکن پرچم وہیں پھہرایا جاتا ہے۔ دراصل اسے مرکزیت حاصل ہے اور ذہنوں پر ایک طرح کی حکومت ہے۔
اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے کہاکہ دہلی کی تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے سیریز کا سلسلہ جاری ہے ، میں ظہیر حسین جعفری اور شریف حسین قاسمی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے استقبال کرتا ہوں ۔ میں وزیر اعلی اروند کیجریوال اور نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی کوششوں کے سبب ہی اردو اکادمی دہلی متحرک و فعال ہے۔ اردو اکادمی دہلی کے سکریٹری محمد احسن عابد نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ کچھ عرصے قبل یہ سلسلہ شروع ہوا، کیوں کہ دہلی کے پس منظر کے حوالے سے نئی نسل کو معلومات ہونی چاہئے اور یہ بات ہمارے لیے باعث اعزاز رہی ہے کہ دہلی کی اہم شخصیت شریف حسین قاسمی نے ہماری دعوت کو قبول کیا۔ میں اس موقع پر تمام مدعوئین کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کو خوش آمدید کہنا چاہتا ہوں۔
اختتامی گفتگو کرتے ہوئے محمد احسن عابد نے کہاکہ قاسمی صاحب نے شاہجہاں آباد کے تعلق سے پرمغز اور سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اردو اکادمی دہلی نے کیا کام کیا ہے، مستقبل میں اس کابھی احاطہ کیا جائے گا، جس میں خصوصاً یہاں کی اشاعت اور پروگرام پر توجہ دی جائے گی۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شاہنواز ہاشمی نے انجام دیے۔
پروگرام میں اردو اکادمی کے ممبران اسرار قریشی اور نکہت پروین نے شرکت کی جب کہ شرکا میں ڈاکٹرریاض عمر،شعیب رضا فاطمی،ڈاکٹر عقیل احمد، ڈاکٹر جاوید حسن،فرید وارثی، خان رضوان، امیر حمزہ ، فرحان بیگ ، صغیر اختر،محمدساجد ، ابوسفیان وغیرہ شامل تھے۔
ٹرینوں میں وضو اور نماز:ذلت اُٹھاتی قوم اور عدیم البصیرت علما-ناصر رامپوری مصباحی
ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز
علامہ شبلی نعمانی کی عظمت کی بنیادیں بہت گہری ہیں ۔ علمی ، ادبی ، تعلیمی اور مذہبی کتابوں کا ایک بڑاذخیرہ ، اعظم گڑھ میں اسکول کا قیام ، دارالمصنفین کی خدمت ، علی گڑھ تحریک کی سرگرمی ، ندوۃ العلما کو بلندیوں تک لے جانے کی جدوجہد ، اور انجمن ترقی اردو کو آگے ہی آگے بڑھانے کے لیے سخت محنت ، یہ سارے کام علامہ کی عظمت کا منھ بولتا ثبوت ہیں ۔ اس کے باوجود اگر کوئی علامہ کی عظمت کو ماننے سے انکار کر دے تو ، ہائے کر کے رہ جانے کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ علامہ کے ساتھ یہ ہوتا رہا ہے ، لیکن اس پر پھر کبھی بات ہو گی ، آج بات ’’ علامہ شبلی اور انجمن ترقی ‘‘ کی کرنی ہے ، جو ماہرِ شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کی ، علامہ کی حیات اور خدمات کے سلسلے کی تازہ ترین کتاب ہے ۔ شبلی کے سلسلے کی ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کی صحیح تعداد میں نہیں بتا سکوں گا ، کیونکہ ابھی ایک کتاب پڑھ کر مکمل بھی نہیں ہوتی کہ اس سلسلہ کی دوسری کتاب چھپ کر پریس سے آجاتی ہے ۔ اس سے یہ اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ ، ڈاکٹر صاحب نے ، علامہ شبلی نعمانی کی حیات کے الگ الگ گوشوں اور مختلف میدانوں میں ان کی خدمات کو تلاش کرنے ، اور تلاش کرکے انہیں لوگوں تک پہنچانے کے کام کو ، اپنی زندگی کا مشن بنا لیا ہے ۔ اور کوئی کسی کام کو مشن اسی وقت بناتا ہے جب اسے اس کام سے لگاؤ یا یوں کہہ لیں کہ محبت ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو علامہ شبلی نعمانی سے شدید قسم کا لگاؤ ہے ۔ اور یہ اچھا ہی ہے کہ اس لگاؤ کے سبب ہم سب تک ، علامہ کی زندگی کے وہ گوشے بھی ، جن پر پردے پڑے ہوئے تھے ، پہنچ سکے ہیں ۔ علامہ شبلی سے مجھے بھی لگاؤ ہے ، مجھے علی گڑھ اور انجمن ترقی اردو سے بھی لگاؤ ہے ۔ علامہ سے اس لیے کہ انہوں نے ’’ سیرت النبیﷺ ‘‘ اور ’’ الفاروق ‘‘ جیسی کتابیں لکھیں اور تعلیم کے میدان میں مسلم بچوں کو آگے بڑھنے اور بڑھانے کے لیے عملی قدم اٹھایا ، علی گڑھ سے اس لیے کہ وہاں ’’ مسلم یونیورسٹی ‘‘ ہے ، اور سرسید احمد خان کی یادیں ہیں اور ’ انجمن ترقی اردو ‘ سے اس لیے کہ اس نے اردو کی ترقی کے بڑے بڑے کام کیے ہیں ۔ اس کتاب میں علی گڑھ کا بھی تذکرہ ہے کہ ’ انجمن ترقی اردو ‘ کی بنیاد سرسید اور ان کے رفقا کی تعلیمی تحریک ’ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس ‘ کے دہلی اجلاس میں ، اس کے ادبی شعبہ کے طور پر پڑی تھی ۔ علامہ ۵ ، جنوری ۱۹۰۳ ء سے لے کر ۱۹۰۵ء کے آواخر تک انجمن کے سکریٹری رہے ، اور بقول ڈاکٹر صاحب ’’ انجمن کو ایک فعال ادارہ انہیں کی سعی و کوشش نے بنایا ۔‘‘ اگر یہ دعویٰ درست ہے( اور درست نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے ) تو ایک بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ، علامہ انجمن کو اپنی زندگی کے صرف تین سال ہی کیوں دے سکے ؟ ایک دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ انجمن کی جب بات چلتی ہے تو علامہ کے کاموں کا کیوں کوئی ذکر نہیں کیا جاتا یا اگر ذکر کیا بھی جاتا ہے تو سرسری ، ایسا کیوں ؟ کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ سوالوں کے جواب دیے ہیں ۔
کتاب کے ’ دیباچہ ‘ میں اس کتاب کو تحریر کرنے کی وجوہ بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ، ’’ اس دور میں انجمن ترقی اردو کو جو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی وہ علامہ شبلی ہی کی بدولت حاصل ہوئی ۔ یہی داستان اس کتاب میں پہلی بار سپردِ قلم کی گئی ہے ۔ ‘‘ دیباچے میں علامہ اور انجمن کے بارے میں ، ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کی لکھی ہوئی تین باتیں بہت ہی اہم ہیں ۔۱ )’’ انجمن ترقی اردو پر جن اہلِ قلم نے کتابیں یا تحقیقی مقالات سپردِ قلم کیے ہیں انہوں نے علامہ شبلی کی گراں قدر خدمات کا اعتراف تو دور کی بات ہے ، ان کا مناسب انداز میں ذکر بھی ضروری نہیں سمجھا ہے ۔‘‘ ۲) ’’ مقالہ لکھنے والوں نے یہی ستم نہیں کیا کہ علامہ شبلی کی گراں قدر خدمات کا عتراف نہیں کیا یا ان کی کاوشوں کو کم کر کے دکھایا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ بعض اہلِ قلم نے ان پر بےجا اعتراضات بھی وارد کیے ۔‘‘ ۳) ’’ اراکین انجمن سے مایوس اور دل برداشتہ ہو کر ۱۹۰۵ء میں ( شبلی ) مستعفی ہو گیے ۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ مذکورہ وجوہ سے یہ ’’ ضروری تھا کہ انجمن ترقی اردو کے بنیاد گذار کی حیثیت سے علامہ شبلی نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اس کو تٖفصیل سے ضبطِ تحریر میں لایا جائے اور دکھایا جائے کہ انجمن کو انجمن بنانے میں ان کا کس قدر نمایاں حصہ ہے ۔ اور انہوں نے کون کون سی خدمات انجام دیں اور کن علمی و ادبی سلسلوں کی بنیاد ڈالی ، جن پر بعد میں انجمن ترقی اردو کی فلک نما عمارت تعمیر ہوئی ۔‘‘
کتاب تین ابواب میں منقسم ہے ۔ پہلا باب ، جو پندرہ صفحات پر مشتمل ہے ’’ علامہ شبلی پر ایک نظر ‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ یہ علامہ کی مختصر سوانح ہے ، اس میں ۱۸۵۷ء یعنی علامہ کی پیدائش سے لے کر ۱۹۱۴ء میں ان کی موت تک کے حالاتِ زندگی مختصراً بیان کر دیے گیے ہیں ، اس سے قارئین کو ، اس کتاب کو سمجھنے کا پس منظر مل جاتا ہے ۔ دوسرا باب ’’ علامہ شبلی بحیثیت مؤسس ‘‘ کے عنوان سے ہے ، اس باب میں ۴۰ ضمنی عنوانات کے تحت انجمن ترقی اردو کے قیام سے لے کر علامہ شبلی کے استعفے تک کے واقعات پیش کر دیے گئے ہیں ، گویا یہ کہ اس باب کو انجمن کی ابتدائی تاریخ کہا جا سکتا ہے ۔ اس باب کا خلاصہ یہ ہے کہ انجمن کے قیام کے دوران چونکہ اس کے سکریٹری ، علامہ شبلی حیدرآباد میں ریاست کے ملازم تھے ، اس لیے انجمن کا مرکز ایک طرح سے حیدرآباد ہی بنا ۔ انجمن کے مقاصد علامہ شبلی کے وضع کردہ تھے ، بنیادی مقصد معیاری ادب کی تصنیف و تالیف اور ادیبوں کی فلاح تھی ، وہ غیر معیاری اور پست ادب کا خاتمہ چاہتے تھے ۔ ایک مقصد ملک بھر کے اہلِ قلم اور شائع تصنیفات کی فہرستوں کی تیاری بھی تھا ۔ ایک بڑا مقصد ان اہلِ قلم کو دریافت کرنا تھا جو کم توجہی کے شکار تھے یا مسائل کی وجہ سے گوشۂ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے ۔ قاری کے مسائل کے حل بھی پیشِ نظر تھے ۔ ایک بڑا مقصد ایسے افراد کا رجسٹر تیار کرنا تھا جو وہ کتابیں ، جن کی انجمن سفارش کرے ، خرید لیں ۔ جو دستور العمل تیار کیا گیا اس میں اراکین ِ انجمن ، ارکان انتظامی ، ارکان اعزازی اور ارکان اعانتی رکھے گیے ، انجمن کو وسعت اور ترقی دینے کے لیے منصوبے بنائے گیے اور جدوجہد کی گئی ۔ پہلا کام جو تکمیل کو پہنچا وہ ’’ الفہرست ‘‘ تھا ، جس میں اُس وقت تک کی تصنیف و تالیف ہو چکی کتابوں کی مکمل فہرست دی گئی تھی ۔ انگریزی ، عربی اور فارسی کی اعلیٰ کتابوں کے ترجموں پر توجہ دی گئی ۔ اس باب میں ترجمہ کی گئیں کتابوں کا تعارف بھی کرایا گیا ہے ، جیسے کہ عربی زبان سے ’ طبقات الاطباء ‘ ، ’ المراۃ المسلمہ ‘ ، ’ مقدمہ ابنِ خلدون ‘ وغیرہ ، اور فارسی سے ’ نامہ دانشوراں ‘ و ’ قدیم فارس ‘ ۔ انگریزی زبان سے عہدِ شبلی میں ترجمہ کے لیے ۱۷ کتابیں منتخب ہوئی تھیں جن میں سے کچھ کے نام ہیں ، ’ رہنمایانِ ہند ‘ ، ’ ایجوکیشن ‘ ، ’ طبقات الارض ‘ اور ’ کتاب الروح ‘ ۔ تراجم کا معاوضہ دیا جاتا تھا ، تراجم کو دیکھنے کے لیے ممتحن موجود تھے ۔ غرضیکہ کتابوں کی صحت کا پورا خیال رکھا جاتا تھا ۔ علامہ نے تراجم کے علاوہ موضوعات دے کر انجمن کے لیے کتابیں لکھوائیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کتابوں کی تفصیل بھی اس کتاب میں دے دی ہے ۔ اصطلاحات علمی کی ڈکشنری ، شعرا کے تذکرے اور گریمر کی کتابوں کا تعارف بھی کرا دیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے مرزا لطف علی خاں لطف کے ’’ تذکرۂ گلشنِ ہند ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اس تذکرہ کی متنی تدوین کا کام علامہ شبلی نے کیا تھا ، اور یہ اردو میں متنی تدوین کا آغاز تھا ، لیکن یہ تذکرہ انجمن سے شائع نہیں ہو سکا ، اور پھر جب بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اسے رفاۂ عام پریس لاہور سے شائع کروایا تو علامہ شبلی کا مقدمہ نکال کر دوسرا مقدمہ لکھا ، ایسا کیوں کیا ؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ متنی تدوین کے آغاز کا سہرا ، جو علامہ کے سر بندھنے والا تھا ، کسی اور کے سر بندھ گیا ۔ اس کتاب میں کتابوں کی اشاعت کے بارے میں علامہ اور انجمن کی ساری کوششیں چونکہ تفصیل کے ساتھ پیش کر دی گئی ہیں ، اس لیے اسے ایک اہم دستاویز کہا جا سکتا ہے ۔ اس باب میں ایک دلچسپ تذکرہ بعض ہندو ادیبوں کے اعتراض کا ہے کہ انہیں انجمن سے دور رکھا گیا ہے ۔ علامہ نے بحیثیت سکریٹری اس الزام کی تردید کرتے ہوئے ہندو ادیبوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی کہ سب سے پہلا انعام ایک ہندو ادیب کو اس کی کتاب ’’ پیغمبرانِ ہند ‘‘ پر دیا گیا تھا ۔ علامہ کے دور میں اربابِ کمال انجمن سے وابستہ ہوئے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی عمر پندرہ سال تھی اور وہ کلکتہ سے ’ لسان الصدق ‘ نکال رہے تھے ، علامہ نے انہیں انجمن کا رُکن بنایا اور ’ لسان الصدق ‘ کو ’ انجمن ترقی اردو ‘ کا آرگن قرار دیا ۔ اس کتاب کا اسی لیے انتساب مولانا ابوالکلام آزاد کے نام ہے ۔
انجمن کے لیے علامہ شبلی نعمانی کی جدوجہد ۱۹۰۵ء میں اس وقت ختم ہو گئی جب انہوں نے استعفیٰ دے دیا ، اور مولوی حبیب الرحمٰن خان شروانی نے ان کی خالی جگہ سنبھال لی ۔ شبلی کیوں مستعفی ہوئے ، اس پر ڈاکٹر صاحب نے تفصیلی بحث کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ لوگوں نے شبلی کی شخصیت کو مجروح کرنے میں نہ کوئی کمی چھوڑی ، اور نہ انجمن کے لیے شبلی کی خدمات کا کوئی اعتراف ہی کیا ۔ یہ ہے ہماری قوم کا اپنے اکابر سے کیا جانے والا سلوک ۔ کتاب کا تیسرا باب ’’ داستان انجمن ترقی اردو علامہ شبلی کے قلم سے ‘‘ ہے ۔ اس باب میں ، علامہ شبلی نے انجمن ترقی اردو کی جو رودادیں ، رپورٹیں ، اشتہارات ، اعلانات اور خطوط تحریر کیے تھے ، انہیں اس طرح جمع کر دیا گیا ہے کہ ساری تفصیلات ، انجمن کے آغاز و ارتقاء اور دورِ تاسیس اور علامہ شبلی کی مؤسسانہ حیثیت اور جدوجہد مرتب صورت میں سامنے آجاتی ہیں ۔ کُل تحریریں ۱۹ ہیں ۔ یہ قیمتی تحریریں ہیں ، انہیں بڑی کوشش سے ڈاکٹر صاحب نے جمع کیا ہے ، اور محنت سے حواشی لکھے ہیں ۔ اس کتاب کو لکھنے کے لیے ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے یقیناً بڑی محنت کی ہوگی ، لیکن محنت کے نتیجے میں ایک لاجواب تحقیقی کتاب تیار ہو گئی ہے ۔ اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جانا چاہیے ۔ اسے مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے سفید کاغذ پر خوب صورت انداز میں شائع کیا ہے ، ۲۳۲ صفحات ہیں اور قیمت محض ۱۴۰/ روپیہ ہے ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی کوچنگ اکیڈمی کے 16 امیدوار یو پی سول سروس امتحان میں کامیاب
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مشہور ومعروف رہائشی کوچنگ اکیڈمی (آرسی اے) سینٹر فار کوچنگ اینڈ کیئریر پلاننگ کے سولہ امیدواروں نے اتر پردیش پبلک سروس کمیشن (یو پی پی ایس سی) 2021 کا امتحان پا س کرلیا ہے۔ ان کے علاوہ اکیڈمی کے دو امیدواریوپی ایس سی سی ایس ای 2021 میں ریزرویشن کوٹے سے منتخب ہوئے ہیں اور ایک امیدوار اڈیشہ سول سروسز امتحان میں کامیاب ہوا ہے۔ جامعہ رہائشی کوچنگ کے طلبہ کی اس شاندار کامیابی پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر نے مسرت کا اظہا رکرتے ہوئے کامیاب امیدواروں کو مبارک باد دی اور امید ظاہر کی کہ مستقبل میں کامیابی کی شرح اور بھی بہتر ہوگی ۔
سپریم کورٹ نے نفرت آمیز تقریر کو لے کر سخت رخ اختیار کیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے ہیٹ اسپیچ دینے والوں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ نفرت کا ماحول ملک پر حاوی ہوگیا ہے ، مذہب کی پروا کئے بغیر فوری کارروائی کی جانی چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اشتعال انگیز بیانات پریشان کرنے والے ہیں ، ایسے بیانات کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس کے ایم جوزیف کی بینچ نے کہا کہ اکیسویں صدی میں بھی یہ ہورہا ہے؟ مذہب کے نام پر ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟ ہم نے ایشور کو کتنا چھوٹا بنا دیا ہے۔ ہندوستان کا آئین سائنسی سوچ ڈیولپ کرنے کی بات کرتا ہے ۔
نئی دہلی:’’ڈیئر !ایچ ڈی ایف سی صارف، آج آپ کا ایف ڈی ایف سی اکاؤنٹ آج بلاک کر دیا جائے گا۔ براہ کرم فوری طور پر اپنا پین کارڈ اپ ڈیٹ کریں۔ یہاں کلک کریں۔‘‘ آپ کو ایسے بہت سے پیغامات موصول ہوئے ہوں گے، اگر آپ اس طرح کے پیغام کے باوجود ٹھگی کا شکار ہونے سے بچ گئے تو آپ خوش قسمت ہیں کیونکہ ایسے ہی کسی پغام کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ سائبر فراڈ کا شکار ہو رہے ہیں۔بہت سے سائبر متاثرین کی طرح دہلی کے سنیل اروڑہ (58) بھی اپنے موبائل فون پر اس طرح کا ایک انتباہی پیغام دیکھ کر حیران رہ گئے۔ گھبرائے ہوئے اروڑہ نے جیسے ہی لنک پر کلک کیا، ان کے اکاؤنٹ سے تیزی سے 20000 روپے کاٹ لیے گئے۔ اروڑہ کو بعد میں معلوم چلا کہ وہ سائبر فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کے بینک کھاتہ میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اروڑہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتے ہیں اور اپنی ریٹائرمنٹ سے صرف دو سال دور ہیں، انہوں نے پولیس میں شکایت درج کرائی لیکن ان کی محنت سے کمائی ہوئی رقم واپس نہیں مل سکی۔سائبر فراڈ کرنے والے ملک میں ڈیجیٹل تبدیلی کی رفتار کے ساتھ بھی تال میل بیٹھا رہے ہیں اور بینک اکاؤنٹس کو بلاک کرنے یا گھروں، دفاتر اور دکانوں پر بجلی کے کنکشن منقطع کرنے کے پیغامات بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لوگوں کو آن لائن خریداری پر اضافی یا رعایت کی لالچ دیتے ہیں۔ نیشنل سائبر کرائم رپورٹنگ پورٹل (این سی آر پی) کے مطابق رجدھانی میں ’بی ایس ای ایس‘ فراڈ سے متعلق 200 سے زیادہ شکایات درج کی گئی ہیں۔ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ سائبر کرائم کے شعبہ میں ایک نیا طریقہ دیکھا گیا ہے جہاں دھوکہ باز لوگوں کو بے ترتیب پیغامات بھیجتے ہیں کہ ‘اپنا پین کارڈ اپ ڈیٹ کریں ورنہ آپ کا بینک اکاؤنٹ بلاک کر دیا جائے گا۔ بجلی کے بلوں کے حوالے سے بھیجے گئے پیغامات میں بھی اسی طرح کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پیغام میں کہا گیا ہے کہ بجلی کا بل اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا اور آج رات تک بجلی کاٹ دی جائے گی۔اہلکار نے کہا کہ اگر کوئی لنک پر کلک کرتا ہے تو دھوکہ باز متاثرہ کے اکاؤنٹ سے رقم کو جعلی/دھوکہ دہی سے موصول ہونے والے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کے لیے ریموٹ ایکسیس سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ گھوٹالہ مہینوں سے جاری ہیں اور ہیکرز ملک بھر میں بہت سے لوگوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔سائبر ٹھگ اب لوگوں کو ویڈیوز بنا کر بھی بلیک میل کرنے لگے ہیں۔ اس طرح کی بھتہ خوری’ میں دھوکہ دہی کرنے والے دھمکی دیتے ہیں کہ اگر وہ ویڈیو کالنگ کے کے بعد رقم ادا نہیں کرتے تو وہ گندی ویڈیوز کو منظر عام پر لے آئیں گے۔حال ہی میں ایک 28 سالہ شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر آئی اے این ایس کو بتایا کہ اسے کچھ دن پہلے واٹس ایپ پر ایک ویڈیو کال موصول ہوئی۔ جیسے ہی اس نے کال اٹھائی ایک لڑکی نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیئے! تاہم، اس نے ایک منٹ میں کال منقطع کر دی۔ ایک دن بعد مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی جس نے کہا کہ انہوں نے میری ویڈیو ریکارڈ کی ہے اور اس میں میرا چہرہ نظر آ رہا ہے۔ پھر اس شخص نے مجھ سے 25 ہزار روپے ادا کرنے کو کہا ورنہ وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دے گا۔ایک اور سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ اکتوبر کے اوائل میں پولیس نے ہریانہ میں مقیم سائبر ٹھگوں کے ایک گروہ کے سرغنہ کو پکڑا تھا جو آن لائن شاپنگ کے بہانے لوگوں کو دھوکہ دیتا تھا۔ گروہ کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے افسر نے کہا کہ پورا گینگ تین گروپوں میں تقسیم تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک گروہ کال کرنے کے لیے جعلی سم کارڈ اور موبائل سیٹ فراہم کرتا تھا، دوسرا گروہ رقمی لین دین کے لیے جعلی کریڈٹ کارڈ فراہم کرتا تھا، جبکہ تیسرا گروہ آن لائن خریداری کے بہانے لوگوں سے رابطہ کرتا تھا اور بعد میں رقم منتقل کرنے کے بہانے ٹھگی کرتا تھا۔ پولیس نے کہا کہ انہوں نے ملک بھر سے سائبر فراڈ میں ملوث متعدد ملزمان کو گرفتار کیا ہے اور زیادہ تر کا تعلق جھارکھنڈ کے جامتاڑا سے ہے جو سائبر فراڈ کا مرکز ہے۔
ایلن مسک کے منصوبہ سے ’ٹوئٹر‘ میں افرا تفری کا ماحول، 75 فیصد ملازمین کی چھٹنی کا اندیشہ
نیویارک :ایلن مسک مبینہ طور پر مائیکروبلاگنگ سائٹ ٹوئٹر کے ملازمین کا تقریباً 75 فیصد حصہ کی چھنٹنی کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ’دی گارجین‘ نے واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں ملازمت میں تخفیف کی امید ہے، چاہے کمپنی کا مالک کوئی بھی ہو۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر کا حصول کمپنی کے لیے ایک مشکل بھرا لمحہ ہے۔کمپنی کا کہنا ہے کہ جولائی میں ٹیک انڈسٹری میں وسیع معاشی بحران کے درمیان ہائرنگ پروسیس کو بہت دھیما کر دیا گیا تھا، جہاں کئی کمپنیوں نے حال ہی میں فریز اور چھنٹنی کا اعلان کیا ہے۔ رپورٹ کے طمابق سوشل میڈیا کمپنی کے ہیومن ریسورسز اسٹاف نے ملازمین سے کہا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر چھنٹنی کا کوئی منصوبہ نہیں بنا رہے تھے، لیکن دستاویزوں نے ملازمین کو باہر نکالنے کے وسیع منصوبے کو ظاہر کیا ہے اور مسک کے ذریعہ کمپنی کو خریدنے کی پیشکش سے پہلے ہی بنیادی ڈھانچے کی لاگت میں تخفیف کی گئی تھی۔ٹوئٹر کے موجودہ مینجمنٹ نے آئندہ سال کے آخر تک 25 فیصد ملازمین کی چھنٹنی کرنے کا منصوبہ بنایا، تو نئی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ مسک کمپنی کے 7500 ملازمین میں سے تقریباً 2000 ملازمین کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس سلسلے میں فی الحال کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔ لیکن اس طرح کی خبروں سے ٹوئٹر میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔
بلقیس بانو کیس: ’مجرموں‘ کو معافی دینے کیخلاف داخل عرضی پر عدالت عظمیٰ سماعت کے لئے تیار
نئی دہلی :بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری معاملہ میں قصوروار 11 افراد کی رِہائی کے خلاف داخل عرضی پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ تیار ہو گیا ہے۔ یہ خبر بلقیس بانو کے لیے راحت بھری ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ نے سال 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور ان کے کنبہ کے کئی اراکین کے قتل معاملے میں قصوروار افراد کو معافی دینے کے خلاف ایک خاتون تنظیم کے ذریعہ نئے سرے سے داخل عرضی پر سماعت کے لیے جمعہ کو رضامندی ظاہر کی۔ جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے نئی عرضی کو اصل معاملے سے منسلک کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس پر اصل عرضی کے ساتھ سماعت کرے گی۔عدالت عظمیٰ نیشنل فیڈریشن آف انڈین وومن کی عرضی پر سماعت کر رہا تھا جس میں بلقیس بانو معاملے کے قصورواروں کی سزا معاف کرنے کے فیصلے کو چیلنج پیش کیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ عدالت نے 18 اکتوبر کو کہا تھا کہ معافی کو چیلنج پیش کرنے کے لیے داخل عرضیوں پر گجرات حکومت کا جواب ’بہت طویل‘ ہے جس میں فیصلوں کی سیریز کو شامل کیا گیا ہے لیکن مدلل بیان ندارد ہے۔ عدالت نے عرضی دہندگان کو گجرات حکومت کے حلف نامے پر جواب دینے کے لیے وقت دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے پر 29 نومبر کو سماعت کرے گی۔واضح رہے کہ بلقیس بانو کے ساتھ جب اجتماعی عصمت دری کا معاملہ پیش آیا تھا تب ان کی عمر 21 سال تھی اور وہ پانچ ماہ کی حاملہ بھی تھیں۔ بلقیس بانو کے ساتھ اس شرمناک جرم کا واقعہ اس وقت انجام دیا گیا تھا جب گودھرا میں کارسیوکوں سے بھری ٹرین کو جلانے کے بعد گجرات میں فسادات کا دور شروع ہو گیا تھا۔ فسادات کے دوران بلقیس بانو کے کنبہ کے کئی اراکین کا قتل بھی کر دیا گیا تھا جس میں بلقیس کی ایک 3 سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔ اس معاملے میں 11 افراد کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا جنھیں گجرات حکومت کی ’معافی پالیسی‘ کے تحت گزشتہ 15 اگست کو گودھرا سَب-جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ قصورواروں نے 15 سال کی سزا پوری کر لی ہے اور گجرات حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے اچھے سلوک کو دیکھتے ہوئے انھیں رِہا کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔
اردو کے ممتاز فکشن نگار خالد جاوید باوقار جے سی بی ادبی انعام سے نوازے گئے
نئی دہلی: دہلی میں منعقد ایک پروگرام میں آج جے سی بی انعام برائے ادب کا اعلان کردیا گیاہے اور یہ ایوارڈ اردو کے معروف فکشن نگار خالد جاوید کے مشہور ناول’نعمت خانہ‘ کے انگریزی ترجمہ ’دی پیراڈائس آف فوڈ‘ کو ملا ہے۔ خالد جاوید کے اس ناول کا ترجمہ باراں فاروقی نے کیا ہے۔ ان کا یہ ناول اردو میں 2014 میں منظر عام پر آیا تھا جسے شائقین و ناقدین ادب کے درمیان بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ اس کا انگریزی ترجمہ اسی سال Juggernaut Publication سے شائع ہوا اور اسے بھی انگریزی قارئین کے درمیان غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ خالد جاوید اردو کے نامور فکشن نگار اور جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی میں اردو کے پروفیسر ہیں، بحیثیت فکشن نگار ان کی شناخت نہایت مستحکم ہے، زبان و بیان پر بھرپور دست رس، کہانی نگاری کی بے پناہ صلاحیت، مطالعہ و مشاہدہ کی وسعت و تعمق ،مختلف زبانوں اور ان کے ادب سے گہری واقفیت کی وجہ سے ان کا فن معاصرادیبوں اور تخلیق کاروں کے درمیان ایک خاص امتیاز کا حامل مانا جاتا ہے۔ انھیں اس باوقار ایوارڈ سے نوازے جانے پر اردو حلقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ اس سے معاصر اردو فکشن کی وسیع پیمانے پر تحسین و پذیرائی کا قابل قدر سلسلہ شروع ہوگا۔ قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل جے سی بی ایوارڈ جیوری کے ذریعے پانچ ناولوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا، جو سارے مختلف زبانوں کی تخلیقات کے تراجم تھے اور ان میں’نعمت خانہ‘(کے ترجمے) کے علاوہ منورنجن بیاپاری کا ’ایمان‘(بنگالی سے انگریزی ترجمہ) ، شیلا ٹومی کا’ویلی‘ (ملیالم سے انگریزی ترجمہ)، گیتانجلی شری کا ’ٹومب آف سینڈ‘(ہندی سے انگریزی ترجمہ) ،چوڈن کمیبو کا ’سونگ آف دی سوائل‘ (نیپالی سے انگریزی ترجمہ) شامل تھے،جبکہ ستمبر 2022 کے آغاز میں اس ایوارڈ کے لیے لانگ لسٹ کیے گئے دس ناولوں کا اعلان کیا گیا تھا، جن کا انتخاب 16 ریاستوں کے مصنفین کے ذریعے 1 اگست 2021 سے 31 جولائی 2022 کے درمیان آٹھ زبانوں کی تخلیقات؍تراجم سے کیا گیا تھا۔
یہ جے سی بی ایوارڈ کا پانچواں ایڈیشن تھا،جس میں پہلی بار اردو، ہندی اور نیپالی زبانوں کے ناولوں (کے تراجم) کو لانگ لسٹ اور پھر شارٹ لسٹ میں شامل کیا تھا۔ لانگ لسٹ میں رحمن عباس کے ناول ’روحزن‘ کا انگریزی ترجمہ بھی شامل تھا۔ JCB پرائز کے فاتح کو پچیس لاکھ روپے کی انعامی رقم دی جائے گی، جبکہ مترجم کو دس لاکھ روپے بطور انعام دیے جائیں گے۔