ملبورن :ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ کے پہلے میچ میں ہی اپ سیٹ ہو گیا، نمیبیا نے سری لنکا کو 55 رنز سے شکست دے دی۔سری لنکا کی ٹیم 164 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 108رنز بنا سکی۔سری لنکا کی جانب سے کپتان ڈاسن شناکا نے 29 اور بھانوکا راجا پاکسے نے 20 رنز بنائے۔نمیبیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 163 رنز بنائے تھے۔نمیبیا کی طرف سے جان فرائیلنک اور جے جے سمٹ نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کیا۔جے جے سمٹ نے ناقابل شکست 31 رنز کی اننگز کھیلی جبکہ جان فرائیلنک نے 44 رنز بنائے۔واضح رہے کہ سری لنکا نے نمیبیا کے خلاف ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ کیا تھا۔آسٹریلیا میں کھیلے جا رہے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے میچز 2 مرحلوں میں ہوں گے، پہلے مرحلے میں آج 2 میچز ہو رہے ہیں۔ایونٹ کا پہلا میچ سری لنکا اور نمیبیا کے درمیان اس وقت کھیلا گیا جبکہ دوسرا میچ نیدر لینڈ اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے درمیان کھیلا جائے گا۔پہلے مرحلے میں 2 گروپس میں تقسیم 8 ٹیمیں سپر 12 راؤنڈ میں جگہ بنانے کے لیے مقابلہ کریں گی جہاں 8 ٹیمیں اپنی رینکنگ کی بنیاد پر پہلے ہی موجود ہیں۔
16 اکتوبر, 2022
تہران :انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود ایران میں مشتعل مظاہرین سڑکوں پر حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد احتجاجی تحریک پانچویں ہفتے میں داخل ہوگئی ہے۔مہسا امینی کو حجاب مناسب طریقے سے نہ اوڑھنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ تین دن دن کوما میں رہنے کے بعد 16 ستمبر کو ان کی موت واقع ہوئی جس کے بعد ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔سنیچر کو نوجوان خواتین نے بغیر حجاب کے احتجاج کیا اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔احتجاج کرنے والی خواتین تہران کے شریعتی ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل کالج میں جمع ہوئیں۔انہوں نے نعرے لگائے کہ ’بندوق، ٹینک اورآگ نامنظور: ملا اقتدار چھوڑیں۔‘ اس احتجاجی مظاہرے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہے۔احتجاجی مظاہروں اور پولیس کی قوانین کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے ایک سوشل میڈیا چینل کے مطابق مہسا امینی کے آبائی علاقے سقز اور مھاآباد میں دکانداروں نے ہڑتال کی۔ سنیچر کو انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے ملک گیر احتجاج کی کال دی گئی تھی۔مظاہروں کے جواب میں ایران کے ایک اہم ادارے تبلیغات اسلامی نے عوام پر زور دیا کہ ’شر پسندوں اور انتشار پھیلانے والوں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کریں۔خواتین کی قیادت میں ہونے والے ان مظاہروں کو امریکی صدر نے بھی سراہا ہے۔اوسلو کی میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ ایران میں اب تک مظاہروں میں کم از کم 108 افراد اور صرف سیستان بلوچستان میں جھڑپوں کے دوران کم از کم 93 افراد مارے گئے۔ایران کے سپریم لیڈر نے امریکہ اور اسرائیل سمیت ملک کے دشمنوں پر اتنشار پھیلانے‘ کا الزام لگایا ہے۔ایرانی سکیورٹی فورسز بڑے پیمانے پر فنکاروں، مخالفین، صحافیوں اور کھلاڑیوں کو گرفتار کر رہے ہیں۔
مظفرپور: ایم ڈی ڈی ایم کالج میں امتحان دینے آئیں مسلم طالبات کو حجاب اتارنے پر مجبور کیا گیا، طالبات کا احتجاج
موبائل: 9894604606
جب سے دنیا میں انسانی آبادی کا وجود ظاہر ہوا تب سے یہ آبادی یہاں گونا گوں مسائل کا شکار ہوتی رہی ہے۔ ان مسائل میں بھوک اور فاقہ کشی کا مسئلہ ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔ کبھی قدرتی آفات کی وجہ سے تو کبھی آپسی جنگ و جدل کے سبب اور کبھی قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں ایسے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ انسان ایک ایک دانےکو ترس گیا، بڑی بڑی آبادیاں بھوک اور فاقہ کشی میں مبتلا ہوکے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حالانکہ دنیا آج ترقی کی جس منزل پر پہنچ چکی ہے اس کا تصور بھی کچھ دہائیوں پہلے محال تھا۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں عقل کو حیران کرنے والے سائنسی ایجادات نے انسانی آبادیوں پر آرام و آسائش کے ایسے ایسے دروازے وا کردئے ہیں کہ اس دنیا پر جنت کا گمان ہونے لگا ہے، اس کے باوجود کئی انسانی مسائل جوں کے توں آج بھی حل طلب نظر آرہے ہیں۔ ان میں بھوک اور فاقہ کشی کا مسئلہ ہمیشہ کی طرح سر فہرست ہے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ
The State of Food Security and Nutrition in the World (SOFI)2021
کے مطابق دنیا بھر میں سن 2020 میں 768 ملین افراد غذائی قلت اور دائمی بھوک کے شکار ہوئے۔ 2021 میں دنیا بھر کے 702 سے 828 ملین لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مزید برآں، دنیا بھرمیں تقریباً تین میں سے ایک شخص، یعنی تقریباً 2.31 بلین لوگ، 2021 میں اعتدال سے یا شدید طور پر غذائی عدم تحفظ کا شکار پائے گئے۔ اس رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر اس مسئلے کو حل کرنے کے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو 2030 تک دائمی بھوک کے شکار لوگوں کی تعداد 150 ملین سے بڑھ جائے گی۔
قرآن مجید دنیا بھر میں پائے جانے مذہبی کتابوں میں ایک نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ رب العالمین کی جانب سے بنی نوع انسانی کی طرف بھیجی گئی آخری وحی کے طور پر خود کو متعارف کرانے والی یہ کتاب اول سے آخر تک صرف انسان اور انسانی مسائل سے ہی گفتگو کرتی نظر آتی ہے اور وہ بھی ایسے انوکھے انداز اور لہجے میں کہ جس کی مثال اس زمین پر ملنی ناممکن ہے۔ اگر انسان کھلے قلب و نظر کے ساتھ ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر اس کتاب کو مشعل راہ بنائے تو نہ صرف اس کے تمام مسائل آسانی کے ساتھ حل ہوسکتے ہیں بلکہ اس کی زندگی دنیا کے لئے امن و امان کی وجہ بن سکتی ہے۔ بھوک اور فاقہ کشی کے مسئلے کا حل قرآن مجید ایک منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ وہ اس کے لئے راست ان انسانوں کو حکم دینے کے بجائے جو اس مسئلے کو حل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تمام انسانوں کو اس کام پر لگاتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے آگے آئیں کیونکہ یہ ان کی ایسی ذمہ داری ہے جس سے کوئی
استثنا نہیں اور اگر وہ اس کام میں پیچھے ہٹیں گے تو وہ سخت خسارے میں رہیں گے۔
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ (1) فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ (2)وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ (3)
(الماعون3-1) تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ۔ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔
خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ (30) ثُـمَّ الْجَحِـيْمَ صَلُّوْهُ (31) ثُـمَّ فِىْ سِلْسِلَـةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ (32) اِنَّهٝ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّـٰهِ الْعَظِـيْ (33) وَلَا يَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِـيْنِ (34)
(حکم ہو گا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو پھر اسے جہنم میں جھونک دو پھر اس کو ستر ہا تھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ (الحاقہ 34-30)۔
سورۃ الماعون کی آیت 3-1 اس بات کی دلیل ہےکہ جو لوگ مسکین کو کھانا نہیں دیتے ان کی بات کہہ کر نہیں، بلکہ جو لوگ کھانا دینے پر اُکساتے نہیں ان کی بات کہہ کر قرآن مجید یہ واضح کر رہا ہے اس کے نزدیک فاقہ کشی اور بھوک کے مسئلے کو حل کرنے کا ذمہ دار معاشرے کا ہر فرد ہےاور اگر کوئی اپنے اس فرض سے غفلت برت رہا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ بظاہر کتنا بھی اپنے آپ کو پارسا اور ایمان والا کہتا رہے اس کا شمار آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلانے والوں میں ہی ہوگا۔
سورۃ الحاقہ کی آیت سورۃ الماعون کی آیت سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس آیت میں یہ بات با لکل واضح کر دی گئی ہے کہ جو، انسانی آبادی میں پائی جانے والے بھوک اور فاقہ کشی جیسے سر فہرست مسئلے کو حل کرنے کے لئے رب کائنات کی جانب سے تفویض کردہ فرائض منصبی سے رو گردانی کرے گا، دوسروں کوبھوکوں اور مسکینوں کو کھانے کھلانے کی ترغیب نہیں دے گا، اس کا ایمان اللہ پر بالکل نہیں مانا جائے گا اور اس کے ساتھ بروز آخرت بد ترین مجرموں کی طرح سلوک کیا جائے گا۔ ستر ہاتھ لمبی زنجیروں میں اسے جکڑ کر اس کے گردن میں طوق ڈال کر اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا جو یقینا اس کے لئے بدترین ٹھکانہ ہوگا اور اس طرح وہ سخت خسارے میں رہے گا۔
اتنی واضح قرآنی ہدایت کے باوجود حیرت ہےامت مسلمہ اس فرض کو ادا کرنے میں مسلسل کوتاہی برتتی آرہی ہے۔ ھل من مزید کے دوڑ میں الجھ کر وہ نفسی نفسی تو چلا رہی ہے پر اپنے اطراف میں بلکتے اور سسکتے انسانوں کی کراہیں اسے سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ وہ یہ سبق بھول چکی ہے کہ اس کا منصب رب العامین اور رحمت العالمین کے واسطے سے اما م العالمین کا ہے اور بحیثیت امام و رہبر اس کا فرض ہے کہ وہ انسانوں کے ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھے، امن عالم کے لئے کوشاں رہیں، انسانی آبادی کی بھوک اور فاقہ کشی جیسی عفریت سے آہنی دیوار بن کر حفاظت کرے، اس مسئلے کے حل کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے لیکن افسوس ایسا نہیں ہورہا ہے۔
آج وطن عزیز میں ملت کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امت نے یہاں صدیوں حکومت کے مزے لوٹنے کے باوجود اپنے منصب اور فرض کو نہیں پہچانا اور اس کی ادائیگی میں انکار کے حد تک غفلت برتا۔ اپنے مسجدوں اور مقبروں کو سجانے سنوارنے کے لئے تو اس کے پاس بے تحاشا مال نکل آتا ہے لیکن اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے کے لئے انہیں بھوک اور فاقہ کشی کی اذیت سے بچانے کے لئے اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ غیروں کے عبادت گاہوں میں صبح و شام بلا تفریق مذہب وملت لنگر لگتے ہیں اور ہماری عبادت گاہیں فانوسوں اور قالینوں کی حفاظت کے لئے سوائے عبادت کے اوقات کے بند پڑےر ہتے ہیں۔ نہ کسی بھوکے کو کھانا کھلانے کی نہ کسی پیاسے کو پانی پلانے کی ہمیں توفیق ہوتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر ہم نے کھلانے اور پلانے کی دوسروں کو اگر ترغیب بھی نہیں دی تو بروز آخرت کس عظیم خسارے سے دو چار ہوسکتے ہیں، ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے دوسروں کی ترقی پر حسد کرتے اپنے خالق سے گلہ کرتے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ کچھ برسوں قبل کی بات ہے، ایک ریاست میں برپا ہوئے بدترین فسادات کے بعد جب وہاں کے کچھ طبقوں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کیوں اپنے آس پاس بسنے والے انسانوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیا تو وہ یہی گلہ کرتے نظر آئے کہ جب وہ اناج کے ایک ایک دانے کو ترس رہے تھے اس وقت ان کے مطبخوں سے اشتہا انگیز انواع قسم کے کھانے کی خوشبوئیں انہیں تڑپاتی تھیں۔
آج وطن عزیز میں بھوک اور فاقہ کشی ایک وبائی بیماری کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ بھوک اور فاقہ کشی سے جوجھنے والے 116 ممالک کی فہرست میں بھارت 101 ویں مقام پر ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی لگ بھگ پندرہ سے پچیس فیصد آبادی غذائی قلت کی شکار ہے۔ ایسے میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم فورا اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے حل کے لئے راستے تلاش کریں۔ اپنے مسائل کو اللہ کے حوالے کر کے اس کے بندے جس مسئلہ کا شکار ہیں انہیں اس کرب اور آفت سے چھٹکارا دلانے کی سبیل ڈھونڈے تو امید ہے اللہ ہمارے مسائل غیب سے حل کرادے۔بلا تفریق مذہب وملت اپنی عبادت گاہیں اپنے مدرسے اپنی خانقاہیں ہر ایک کے لئے وا کر کے وہاں بھوکوں کے لئےلنگر چلا کر پیاسوں کے لئے ٹھنڈا پانی مہیا کراکر انہیں اس بات کا احساس دلائیں کہ انسانیت کی خدمت ہمارا اولین فرض ہے اور ہم اس فرض کو بحسن و خوبی آج بھی ادا کر رہے ہیں۔ دلوں کو پلٹنے پر اللہ پوری طرح قادر ہے وہ عرب کے بدوؤں کو وحشی تاتریوں کو کعبے کا پاسبان بنا سکتا ہے اور آج بھی وہ اس پر پوری طرح قادر ہے، اس کی قدرت کو کبھی زوال نہیں ہے۔ بس ہمیں اتنا کرنا ہے کہ اس کے مسکین، بھوک و پیاس سے سسکتے بندوں کے چہروں پر مسکان سجانا ہے بغیر کسی نام و نمود اور شہرت کی خواہش کے صرف اس کی رضا کی خاطر، اگر ہم اس کار خیر کے ساتھ مکمل جڑ گئے تو یقین رکھئے بروز آخرت ہمیں جو انعام ملے گا وہ تو حق ہے لیکن اس فانی دنیا میں بھی قدم قدم پر اللہ کی مدد ہمیں میسر رہے گی۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
لیجیے جناب !حجاب معاملے پر سپریم کورٹ بٹ گیا ! ویسے بٹنے کا یہ عمل باعثِ حیرت نہیں ہے کہ ان دنوں سارے بھارت میں لوگ بٹے ہوئے ہیں ۔ نفرت کی ایک آندھی چل رہی ہے ، اور لوگوں کو ایک دوسرے سے مخالف سمت میں اڑاتی چلی جا رہی ہے ۔ کچھ دائیں جانب ، تو کچھ بائیں جانب ، اور کچھ درمیان میں ۔ نفرت کی بات پھر کبھی ، آج حجاب معاملہ کی بات ہو جائے ۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ گذشتہ سال جولائی میں اس وقت شروع ہوا تھا جب کرناٹک کے اڈوپی ضلع کے ایک جونیئر کالج نے طالبات کو حجاب پہن کر اسکول جانے سے روک دیا تھا ۔ یکم جولائی ۲۰۲۱ء کو گورنمنٹ پی یو کالج فار گرلز کی انتظامیہ نے کالج یونیفارم پر فیصلہ لیا تھا کہ کس قسم کے لباس کو قبول کیا جائے گا اور کون سے قسم کا لباس ممنوع ہوگا ۔ انتظامیہ نے کہا تھا کہ طالبات کے لیے ان ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے ۔ جب کووڈ لاک ڈاؤن کے بعد کالج دوبارہ کھلا تو کچھ طالبات کو معلوم ہوا کہ سنیئر طالبات حجاب پہن کر آتی تھیں ۔ ان طالبات نے اس بنیاد پر کالج انتظامیہ سے حجاب پہننے کی اجازت مانگی تھی ۔ واضح رہے کہ اڈوپی ضلع میں جو کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی سرکاری جونیئر کالجوں کے یونیفارم کا فیصلہ کرتی ہے اس کی سربراہی مقامی رکن اسمبلی کرتے ہیں ۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی رگھویر بھٹ نے مسلم طالبات کا مطالبہ قبول نہیں کیا اور انھیں کلاس کے اندر حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جب دسمبر ۲۰۲۱ءمیں طالبات نے حجاب پہن کر کیمپس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انھیں باہر ہی روک دیا گیا ۔ ان لڑکیوں نے اس کے بعد ہی کالج انتظامیہ کے خلاف احتجاج شروع کیا ۔ فروری ۲۰۲۰ء میں اڈوپی کے پری یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مسلمان خواتین کالج کی حدود میں تو حجاب کا استعمال کر سکتی ہیں لیکن کلاس کے دوران نہیں ۔ اس اعلان کے بعد ، کالج کی انتظامیہ کی جانب سے حجاب کے خلاف سخت اقدام کی وجہ سے کالج کی آٹھ طالبات کئی ہفتوں سے کلاسوں میں نہیں جا سکی تھیں ۔ کالج میں ہزار طالبات میں سے صرف ۷۵ مسلمان تھیں ، ان میں بھی کوئی ایک درجن لڑکیاں ہی حجاب یا برقعہ پہنتی تھیں ۔ کالج انتظامیہ کی جانب سے کارروائی ، اور طالبات کے حجاب نہ اتارنے پر مصر رہنے کی بات ، دیکھتے ہی دیکھتے آگ کی طرح سارے ملک میں پھیل گئی ۔ اس کا ایک ردعمل یہ سامنے آیا کہ اڈوپی کے کالج سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر چکمنگلور میں کوپا کے ایک کو – ایڈ کالج میں بہت سی طالبات نے بھگوا رنگ کا اسکارف پہننا شروع کر دیا ۔ اور پھر کرناٹک کے تقریباً سارے تعلیمی اداروں میں باحجاب طالبات کو حجاب اتارنے پر مجبور کیا جانے لگا ، اس تعلق سے اُس دور میں سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیو اَپ لوڈ کی گئی تھیں ، انہیں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں سنا اور دیکھاجا سکتا ہے کہ ایک طالبہ انتظامیہ سے درخواست کر رہی ہے کہ اسے امتحانات کی تیاری کے لیے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے ، لیکن کالج کے پرنسپل اسے حجاب کے ساتھ داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر رہے ہیں ۔ یہی نہیں وہ ویڈیو آج بھی دیکھی جاسکتی ہے جو اس معاملہ میں ہندوتووادیوں کی منصوبہ بندی کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ ویڈیو حجاب کے واقعے سے ایک دن قبل کی ہے ، بھگوا دھاری نوجوانوں کے ایک گروہ نے اسی کالج میں آکر مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر احتجاج کیا تھا ۔ بعد میں کرناٹک میں کم از کم تین دیگر کالجوں میں بھی ایسے ہی احتجاج کیے گئے ۔ اس وقت کرناٹک کے وزیرتعلیم نگیش بی سی نے کہا تھا کہ بھگوا رنگ کے اسکارف اور حجاب دونوں پر ہی پابندی لگنی چاہیے ۔ حجاب کا معاملہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے بیچ دوریوں کو بڑھانے کے لیے مزید گرمایا گیا ۔ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے حجابی طالبات پر شرم ناک بہتان لگائے گیے ۔ اتر پردیش میں ۱۰، فروری ۲۰۲۲ء سے اسمبلی کے الیکشن تھے ، اس الیکشن کی انتخابی مہم میں بی جے پی نے ، اور آدتیہ ناتھ یوگی نے حجاب کے معاملہ کو شامل کر لیا ۔ کرناٹک میں جو سیاسی اتھل پتھل مچی ہوئی تھی ، اس میں بھی حجاب معاملہ کو خوب ہوا دی گئی ۔ افسوس کہ کسی کو بھی اُن مسلم بچیوں کی ، جو باپردہ بھی رہنا چاہتی تھیں اور پڑھنا بھی چاہتی تھیں ، کوئی خیال نہیں رہا ۔ جنوری ۲۰۲۰ء میں حجاب پر پابندی کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ، اور مارچ کے مہینے میں کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب پر پابندی کو درست قرار دے دیا ۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ’’ اسلام کے مطابق حجاب لازمی نہیں ہے ۔‘‘ ہائی کورٹ نے اپنے ۱۲۹ صفحات پر مشتمل فیصلے میں قرآن کی آیات اور متعدد اسلامی تحریروں کا حوالہ دیا تھا ۔ طالبات کی جانب سے ، کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ، جس پر جمعرات ۱۳ ، اکتوبر کو ، ایک لمبی سماعت کے بعد ، فیصلہ سنایا گیا ، جو بٹا ہوا تھا ۔ یہ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس ہیمنت گپتا کی ڈیویژن بنچ تھی ، یعنی دو ججوں پر مشتمل بنچ ۔ جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست ، جائز اور صحیح قرار دیا ، اور فیصلے کے خلاف جو ۲۶ اپیلیں دائر کی گئی تھیں انہیں خارج کر دیا ۔ اس فیصلے کے دوسرے ہی دن وہ ریٹائرڈ ہو گیے ۔ جسٹس سدھانشو دھولیا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ، حجاب پر پابندی کی برقراری کے ٖفیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے تمام دائر اپیلوں کے حق میں ٖفیصلہ دیا ۔ چونکہ دو ججوں پر مشتمل بنچ کا فیصلہ بٹا ہوا ہے اس لیے اب ملک کے چیف جسٹس یو یو للت اسے بڑی بنچ کے سپرد کریں گے ، ایک ایسی بنچ جو پانچ یا سات ججوں پر مشتمل ہوگی ، تاکہ جو بھی فیصلہ آئے وہ بھلے بٹا ہوا ہو ، لیکن طاق عدد ہونے کی بِنا پر ، کوئی فیصلہ ، حجاب کے حق یا اس کی مخالفت میں کرنا ممکن ہو سکے ۔
جسٹس ہیمنت گپتا کے حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے پر مجھے ملک کے ایک سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی یاد آ گیے ۔ اپنے ریٹائرہونے سے ایک روز پہلے ، انہوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے سونپنے کا فیصلہ سنایا تھا ۔ لہٰذا اگر مسلمانوں اور ہندوؤں سے متعلق کوئی حساس معاملہ عدالت میں ہوتا ہے ، اور مجھے پتہ چلتا ہے کہ فیصلہ سنانے کے ایک دن بعد جج صاحب ریٹائر ہونے والے ہیں ، تو دل یہ کہنے لگتا ہے کہ فیصلہ یکطرفہ ہوگا ۔ یہ سننے کے بعد کہ معاملہ اب ایک لارجر بنچ یعنی بڑی بنچ کے سامنے پیش ہوگا ، مجھے طلاق ثلاثہ کا مقدمہ یاد آگیا ہے ۔ بات ۲۰۱۷ء کی ہے ، سپریم کورٹ کی پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ ایک ۳۵ سالہ خاتون سائرہ بانو کے طلاق کے مقدمہ پر سماعت کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ کے جائز یا نا جائز ہونے پر فیصلہ دینے والی تھی ۔ پانچ ججوں میں سے تین نے یہ فیصلہ دیا کہ طلاق ثلاثہ غیر اسلامی ہے ۔ اس کے بعد پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ کے خلاف ایک قانون منظور کرا لیا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ مودی سرکار نے مسلم خواتین کی حالتِ زار دیکھ کر طلاق ثلاثہ پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے ۔ مجھے طلاق ثلاثہ کے فیصلے پر کوئی بات نہیں کرنی ہے سوائے اس کے کہ جس مودی سرکار کو مسلم خواتین کی طلاقوں سے نیند نہیں آتی تھی ، اس مودی سرکار کو کیسے مسلم بچیوں کو تعلیم سے محروم کر کے نیند آئے گی ۔ خیر بات چل رہی تھی بڑی بنچ کی ، تو ہمارے سامنے بڑی بنچ کی ایک مثال موجود ہے ، کہیں پھر اسی طرح کا کوئی فیصلہ نہ آجائے کہ پھر سارے ملک کے تعلیمی اداروں میں ان مسلم طالبات کا ، جو حجاب پہننا چاہتی ہیں ، باحجاب ہونا دشوار ہوجائے ۔ ایک اطلاع کے مطابق ۱۷ ہزار مسلم طالبات نے تعلیمی سلسلہ اس لیے منقطع کر لیا ہے کہ وہ حجاب اتارنا نہیں چاہتیں ۔ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ اگر کوئی ’ مسکان ‘ حجاب پہننا چاہتی ہے تو کیا یہ اس کا حق نہیں ہے ؟ سوال کیا جاتا ہے کہ ایک سیکولر ملک میں کیوں کسی تعلیمی ادارے میں حجاب پہن کر آیا جائے ، یہ تو ایک مذہبی شعار ہے ؟ اس سوال کا جواب اس سوال سے بھی دیا جا سکتا ہے کہ کیا کسی سرکاری دفتر میں دیوی دیوتاؤں کی تصاویر کا لگانا ، ان پر پھول ہار چڑھانا یا کسی اسکول میں صلیب کا نصب کرنا یا سکھ فرقے کے افراد کو پگڑی پہننے کی اور کرپان رکھنے کی اجازت دینا ، یا بہت سے ہندوؤں کا اپنے ماتھے پر تلک اور ٹیکہ لگا کر سرکاری دفاتر میں آنا ، کیا مذہبی حقوق نہیں ہیں ؟ بلاشبہ یہ سب مذہبی حقوق ہی ہیں ، لیکن قابلِ اعتراض نہیں ہیں ، کیونکہ یہ آئینی حقوق ہیں ، ان سے روکنا آئین کی توہین کرنا ہوگا ۔ کیا لوگ نہیں جانتے کہ اس سیکولر ملک کی ایک ریاست اترپردیش میں ایک یوگی بھگوئے لباس میں وزیرِ اعلیٰ کی گدی پر بیٹھتا ہے ، ایک سادھوی ، جو مالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ ہے ، بھگوئے لباس میں پارلیمنٹ میں جاتی ہے؟سب جانتے ہیں ۔ لیکن ہر ایک کو اپنی مرضی کا لباس ، چاہے وہ لباس مذہبی شناخت ہی کیوں نہ ظاہر کرتا ہو ، پہننے کی اجازت ہے ، کیونکہ یہ آئینی حق ہے ، اسی طرح انہیں بھی ، جو برقعہ پہننا چاہتی ہیں ، حق حاصل ہے کہ وہ برقعہ پہنیں ۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگ کہیں کہ برقعہ مذہبی حق نہیں ہے ، لیکن سچ یہی ہے کہ برقعہ مذہبی حق ہے اور اسلامی شریعت میں برقعہ پہننے کی تاکید ہے ۔ اب کوئی برقعہ پہنے نہ پہنے اس کی اپنی مرضی ، نہ کسی کے پہننے سے شریعت بدل جائے گی نہ کسی کے نہ پہننے سے شریعت کے اصول تبدیل ہو جائیں گے ۔ یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ برقعہ یا حجاب سے روکنے کا معاملہ مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ آئینی بھی ہے ۔
بھلے ایک جسٹس نے باحجاب طالبات کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کو ماننے سے انکار کردیا ہے ، لیکن یہ ایک حق بہرحال ہے ۔ جسٹس دھولیا نے ایک بہت ہی اچھی بات کہی ہے کہ ’’ اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ نے ’ مذہب کا لازمی جزو ‘ کے جس نظریہ کو بنیاد بنا کر پابندی کا فیصلہ سنایا وہ غیر ضروری ہے ۔ ہائی کورٹ نے غلط راستہ اختیار کیا ، یہ دراصل آئین کے آرٹیکل ۱۹(۱) (اے )اور ۲۵(۱) کی رو سے شخصی آزادی اور پسند سے زیادہ کا معاملہ نہیں ہے ۔ میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ کیا ہم پابندی کے ذریعے ان کی زندگی بہتر بنا رہے ہیں ؟ اسی سوال کی بنیاد پر میں نے ۵ ، جنوری کے حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا ۔‘‘ اور سچ یہی ہے کہ سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ کے بٹے ہوئے فیصلے کے بعد سب سے بڑا سوال ہم سب کے سامنے یہی ہے کہ کیا ہم لوگ ان باحجاب طالبات کی زندگیوں میں کوئی بہتری لا رہے ہیں ؟
قومی تعلیمی پالیسی 2020: ایک تجزیاتی مطالعہ-مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
موبائل: 9835059987
۲۰۱۹ء میں’’ نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۱۹ء‘‘ کے نام سے مرکزی حکومت نے ایک تعلیمی پالیسی کامسودہ جاری کیا تھا اور اس پر مشورے طلب کئے گئے تھے، اس وقت میں نے اس تعلیمی پالیسی کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا تھا۔ اب مرکزی حکومت نے قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کے نام سے اس کو منظور کرکے نافذکردیا ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۱۹ء کا مسودہ جن پر مشورے طلب کئے گئے تھے اور مشورے ارسال کئے گئے تھے،اس میں معمولی سی تبدیلی نظر آرہی ہے۔۲۰۱۹ء کے مسودہ میں اقلیتوں کی تعلیم کے سلسلے میں کچھ ذکر تھا،اس کا ذکر ’’قومی تعلیمی ۲۰۲۰ء ‘‘ میں نہیں ہے۔ویسے بھی یہ قومی تعلیمی پالیسی نصاب تعلیم کے سلسلے میں ہے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے تعلیم کے سلسلے میں دو قوانین جاری کئے گئے ہیں۔ ایک لازمی تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ء ہے ،اس میں پورے طور پر حکومت نے اپنی تعلیمی پالیسی کو واضح کیا ہے اور دوسرا قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء ہے، اس میں تعلیم کے نصاب کو بیان کیا گیا ہے۔ میں نے اس قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کا مطالعہ کیا ،اس کا مختصر جائزہ پیش ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کی ابتدا تعارف سے ہوتی ہے۔ اس میں اس پالیسی کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس میں تعلیم کی اہمیت اور اس کے بڑھتے تقاضے کو واضح کرتے ہوئےیہ بیان کیا گیا ہے کہ طلبہ کی ہمت جہت تعلیمی ترقی اور نشو ونما کے لئے نصاب میں ریاضی کے ساتھ بنیادی فنون دست کاری، ادب، تاریخ، فلسفہ، لسانیات، کھیل کود، زبان ،ثقافت اور اقدار کو لازمی طور پر شامل کیا جائے۔ ساتھ ہی تعلیم کے ساتھ کردار کی تعلیم بھی ضروری ہے، اس جانب بھی توجہ دی گئی ہے۔اس قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کے سلسلے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ اکیسویں صدی کی پہلی تعلیمی پالیسی ہے جس کا ہدف ہمارے ملک کی ترقی کے لئے لازمی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے۔ یہ قومی تعلیمی پالیسی ہرفرد میں موجود تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ پر خصوصی زور دیتا ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی کے وژن کو بیان کرتے ہوئےتعارف میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس قومی تعلیمی پالیسی کا وژن ہندوستانی اقدار سے مربوط نظام تعلیم ہے، جو سبھی کو اعلیٰ ترین معیار کی تعلیم مہیا کراکر ہندوستان کو عالمی پیمانے پر علم کا سپرپاور بناکر ہندوستان کو ایک زندہ دل اور منصف علمی معاشرہ میں بڑھنے کے لئے ظاہری طور پر حصہ لے گا۔ اس پالیسی میں متصور ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کا نصاب اور طریقۂ تعلیم طلبہ میں اپنی بنیادی ذمہ داریوں اور آئینی اقدار ،دیش کے ساتھ تعلق اور بڑھتی ہوئی دنیا میں شہری کے کردار اور ذمہ داریوں کے تئیں بیداری پیدا کرے۔ اس پالیسی کا وژن ہے کہ طلبہ میں ہندوستانی ہونے کا فخر نہ صرف افکار میں بلکہ رویوں ، عقل وحکمت اور کامو ںمیں بھی پیدا ہو ، ساتھ ہی یہ ہندوستانی ہونے کا فخر ،علم وہنر ، اقدار اور سوچ میں بھی نمایاں ہونا چاہئے، جس کے نتیجے میں طلبہ حقوق انسانی، پائیدار ترقی اور زندگی گزارنے نیز عالمی فلاح وبہبود کے لئے پرعزم ہوں، تاکہ وہ صحیح معنوں میں عالمی شہری بن سکیں۔
اسی تعارف نامہ میں قومی تعلیم کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
(۱) تعلیم کی ابتدا نرسری اور کے جی سے ہوگی اور یہ تین سال پر مشتمل ہوگا۔ اس کے درجہ اول اور دوم ہوگا۔اس طرح دونوں مل کر ۵؍سال بنیادی تعلیم کہلائیں گے۔
(۲) بنیادی تعلیم کے بعد ۳؍ سے ۵؍ درجات تک یعنی ۳؍ سال پری مڈل کہلائیں گے۔ پھر اس کے بعد درجہ ۶؍ سے ۸؍ تک یعنی ۳؍ سال مڈل کہلائیں گے۔ اس کے بعد درجہ ۹؍ سے ۱۲؍ تک یعنی ۴؍ سال سکنڈری کہلائیں گے۔ اس کی ترتیب اس طرح ہوگی۔۵+۳+۳برابر۱۵یعنی ۱۴؍ سے ۱۸سال کی عمر میں طلبا سکنڈری امتحان پاس کریں گے۔ درجات اس طرح ہوں گے۔
(۱) بنیادی تعلیم :۵؍سال یعنی نرسی ۱؍ سال اور کے جی ۲؍سال یعنی کل ۳؍ سال، پھر درجہ ۱؍اور ۲؍ یعنی ۳+۲کل ۵؍ سال
(۲) ماقبل مڈلـ: درجہ ۳؍درجہ ۴؍ اور درجہ ۵؍ یعنی ۳؍سال
(۳) مڈل :درجہ ۶، ۷،۸ ؍یعنی ۳؍سال
(۴) سکنڈری:درجہ ۹، ۱۰، ۱۱؍ اور ۱۲؍ یعنی ۴؍ سال
اس کے بعد نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کی وضاحت ۴؍ حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول اسکولی تعلیم سے متعلق ہے۔اس میں ابتدائی تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں بنیادی خواندگی اور اعداد کے علم پر زور دیا گیا ہے۔ بچوں کے ڈراپ آئوٹ کو کم کرنے اور ہر سطح پر تعلیم کو عام کرنےکی ضرورت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس میں اسکولوں میں نصاب، درس وتدریس کو دلچسپ اور مربوط بنانے کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ اسی حصہ میں اساتذہ کی اہمیت ،ضرورت اور ان کے معیاری ہونے پر بھی بحث کی گئی ہے۔اسی طرح اس پر بھی زور دیا گیا ہے کہ مساوی اور جامع تعلیم سب کے لئے میسر ہو۔ اس میں تعلیم کو مختلف وسائل کے ذریعہ موثر بنانے کے لئے اساتذہ کی ذمہ داریوں پر بھی بحث کی گئی ہے۔ غرض اسکول کی تعلیم کو معیاری اور مرتب بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ اس قومی تعلیمی پالیسی میں اس کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ اسکولوں کے نصاب، درس وتدریس اور تعلیم کو جامع ،مربوط ومکمل خوشگوار اور دلچسپ ہونا چاہئے۔ اس میں دلچسپ اور موثر بنانے کے طریقوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس قومی پالیسی میں مادری زبان کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اس پر زور دیا گیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو کم سے کم درجہ پنجم تک لیکن بہتر ہوگا کہ درجہ ہشتم تک اور اس سے بھی آگے تک ذریعۂ تعلیم گھر کی زبان ؍مادری زبان؍ مقامی زبان؍ علاقی زبان ہو، اس کے بعد گھر کی زبان ؍مقامی زبان کو جہاں تک ممکن ہو، زبان کے طورپر پڑھایا جاتا رہے۔ عوامی اور نجی دونوں طرح کے اسکولوں میں اس کی پابندی کی جائے۔
اس حصہ میں اس کی بھی وضاحت موجود ہے کہ ابتدائی درجات کا انتظام آنگن باڑی کے ملازمین اور این سی آر ٹی کےذریعہ نصاب تعلیم کے ذریعہ کیا جائے۔ دھیرے دھیرے بچوں کو پیشہ وارانہ تعلیم کی طرف متوجہ کیا جائے۔
اس حصہ میں اس کا بھی ذکر ہے کہ نصاب تیار کرانے اور طریقۂ تعلیم کی ذمہ داری وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی ہوگی۔بچو ںکی دیکھ بھال اور تعلیمی نصاب کی منصوبہ بندی اور عمل آوری وزارت برائے فروغ انسانی وسائل ،وومن اور چائلڈ ڈیولپمنٹ اور وزارت برائے ترقیات خواتین واطفال، ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر کے ذریعہ مشترکہ طور پر کی جائے گی۔ اسکولی تعلیم میں بچپن کی ابتدائی دیکھ ریکھ اور تعلیم کے سہل انتظام اور ہمہ جہت رہنمائی کے لئے ایک خصوصی مشترکہ ٹاسک فورس کی تشکیل کی جائے گی۔
حصہ دو م میں اعلیٰ تعلیم کا بیان ہے۔ اس میں معیاری یونیورسٹیاں اور کالج بنانے اور ہندوستان کے ہائر ایجوکیشن سسٹم کے لئے ایک نیانظریہ پیش کیا گیا ہے،جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ نیا اور دور رس نظریۂ تعلیم ہے، اس میں موجودہ اعلیٰ تعلیمی نظام کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اس کے مقابلے میں قومی تعلیمی پالیسیوں کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کےلئے حوصلہ مند، فعال اور قابل فیکلٹی، اعلیٰ تعلیم میں جامعیت و مساوات اور جدید نیشنل ریسرچ فائونڈیشن کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ نیز اعلیٰ تعلیمی اداروں کےلئے موثر انتظامیہ اور قیادت سے بھی بحث کی گئی ہے۔
حصہ سوم میں دیگر قابل غور بنیادی معاملات کے تحت پیشہ وارانہ تعلیم ، تعلیم بزرگاں، ہندوستانی زبان، فنون وثقافت کے تحفظ سے بھی بحث کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ٹیکنالوجی کے استعمال اور آن لائن تعلیم کی اہمیت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔
باب چہارم کا عنوان ہے عمل درآمد کی حکمت عملی۔اس کے تحت درج کیا گیا ہے کہ اس ہدف کو سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن اور وزارت برائے فروغ انسانی وسائل اور ریاستی سطح پر مشہور اکائیوں اور اداروں کے ساتھ مل کر پورا کیاجائے گا۔
یہ ہے قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کا مختصر تجزیاتی مطالعہ۔ اب اس سلسلے میں چند خصوصی نکات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
(۱) ہمارے ملک میں دو طرح کے ادارے چل رہے ہیں۔ ایک اسکول، کالج یعنی عصری ادارے اور دوسرے مدارس ، پاٹھ شالے، گروکل غیرہ یعنی روایتی ادارے۔میرے مطالعہ کے مطابق اسکول، کالج یعنی عصری اداروں کے لئے قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء جامع اور مفید ہے۔اس پالیسی کو صحیح انداز سےنافذ کیا جائے تو مثبت نتائج سامنے آئیں گے، میرے خیال سے مسلم طلبہ کو ایجوکیشن کے مین اسٹریم سے الگ کرنا نقصان دہ ہوگا۔ نیز متبادل انتظام بھی بہت مشکل ہے، جس کا تجربہ کیا جاچکا ہے۔ ویسے کوشش کرکے پھر سے تجربہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
(۲)اس نصاب تعلیم کو نافذکر نے کا اختیار مرکزی اور ریاستی حکومت دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی۔
(۳) قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق نصاب اور نظام چلانے کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی بھی ہوگی، البتہ اس کی نگرانی سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن کے ذریعہ کی جائے گی۔
(۴) قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کی ابتدا میں ہندوستان کی قدیم روایات کا ذکر ضرورہے، یہ ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس پر نظر رکھے کہ وہ اپنے اسٹیٹ میں دیومالائی نصاب تعلیم رائج کرتی ہے یاسیکولر جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔اگر اسکول ،کالج یعنی عصری اداروں میں کوئی ایسے قوانین نافذ کئے جاتےہیں جو کسی کے مذہبی عقائد سے متصادم ہوتو اس کو ریاستی حکومت سے مل کر اس پر گفتگو کرکے درست کرایا جاسکتا ہے۔
(۵)جہاں تک مدارس، پاٹھ شالے، گروکل وغیرہ کی بات ہے تو اس قومی تعلیمی پالیسی میں مدارس، سنسکرت، پاٹھ شالے، گروکل، اقلیتی اسکول وغیرہ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ حالانکہ ملک کے آئین میں مذہبی اقلیتوں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے پسند اور اپنی تہذیب وثقافت کی حفاظت کے لئے اپنے ادارے قائم کرے۔ اس قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء میں خاموشی سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ ادارے حسب سابق چلتے رہیں گے، چونکہ یہ رائٹ ٹو ایجوکیشن سے بھی مستثنیٰ قرار دیئے گئے ہیں اور مرکزی حکومت نے اس کو جاری رکھنے کے لئے رائٹ ٹو ایجوکیشن کے لئے گائڈلائن بھی جاری کیا ہے۔جب تک اس سلسلے میں کوئی دوسرا گائیڈ لائن جاری نہ ہو، ان اداروں کو حسب سابق جاری رکھنا چاہئے، البتہ دھیرے دھیرے ان کو معیاری بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں، مثلاً مدار س کے نصاب تعلیم میں ابتدائی درجات میں اضافہ کرکے میٹرک تک کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ این آئی او ایس سے پرائیویٹ طور پر امتحان کا انتظام کیا جائے، درجات کی تعیین کی جائے، تعلیم کے معیار کو بلند کیا جائے، ہاسٹل اور قیام وطعام کے معیار کو درست کیا جائے، زمین کو مدرسہ کے نام رجسٹرڈ کیا جائے،ساتھ ہی مدارس کو بھی کسی این جی او ز سے مربوط کرکے رجسٹرڈ کرایا جائےوغیرہ۔
(۶) رائٹ ٹو ایجوکیشن ،مدارس اور اقلیتوں کو مستثنیٰ قرار دیئے جانے والے ٹوٹیفکیشن اور قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء پر ماہرین وکلا سے قانونی مشورہ کی ضرورت ہے کہ ان قوانین کی موجودگی میں مدارس اور اقلیتی ادارے وغیرہ چلانے کی اجازت ہے کہ نہیں؟ میرے مطالعہ کے مطابق رائٹ ٹو ایجوکیشن سے مدارس ،سنسکرت، پاٹھ شالے وغیرہ مستثنیٰ قرار دے دیئے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء میں ان اداروں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔البتہ اس سلسلے میں قانونی مشیر کی رائے ضرور حاصل کی جائے۔
(صدر ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی ، علی گڑھ)
گزشتہ شب ایک بجے اچانک آنکھ کھلی۔ موبائل چارجنگ کے لیے لگا رہ گیا تھا۔ اسے اٹھایا ، دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا کہ مختلف گروپس اور سائٹس پر شیخ محمد عزیر شمس کی وفات کی خبر گردش کررہی تھی . انا للہ وانا الیہ راجعون
شیخ عزیر شمس کی ولادت 1957ء میں مغربی بنگال میں ہوئی تھی. 1976 میں انھوں نے جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت پائی. پھر سعودی عرب چلے گئے ، جہاں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے 1981 میں گریجویشن اور جامعہ ام القریٰ سے 1986 میں پوسٹ گریجویشن کیا. پی ایچ ڈی بھی کی. ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان ‘الشعر العربي في الهند :دراسة نقدية’ تھا۔
شیخ عزیر شمس سے میرا تعارف تقریباً دو دہائیوں پر مشتمل ہے۔ علی گڑھ میں مولانا رفیق احمد رئیس سلفی اور دہلی میں مولانا ارشد سراج الدین مکّی ، جو میرے قریبی دوستوں میں سے ہیں ، ان سے ملاقات کا واسطہ بنتے تھے۔ شیخ سے بارہا ملاقاتیں رہیں۔ دہلی میں وہ جماعت اسلامی ہند کے مرکز بھی تشریف لائے اور ملاقات کا شرف بخشا۔ وہ ‘ تراث اسلامی’ پر معلومات کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ عرب و عجم کی بڑی لائبریریوں میں محفوظ مخطوطات سے وہ خوب آگاہ تھے۔ کسی موضوع پر بھی وہ بات کرتے تو چلتا پھرتا کتب خانہ معلوم ہوتے تھے ۔ ادھر وہ کچھ عرصہ سے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ اور ان کے شاگردِ رشید علامہ ابن القیم رحمہما اللہ کی کتابوں کی تحقیق و تدوین کے پروجکٹس سے وابستہ تھے۔ اس سلسلے کی بہت سی کتابیں ان کی تحقیق کے ساتھ زیورِ طبع سے آراستہ ہوئیں ۔ وہ تواضع ، سادگی اور انکساری کا اعلیٰ نمونہ تھے – کوئی اجنبی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ سادہ سا نظر آنے والا یہ شخص علم و تحقيق کے اتنے بلند مرتبے پر فائز ہے۔
شیخ عزیر سے میری کئی یادیں وابستہ ہیں۔ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ (م1930ء) کے بعض افکار کے نقد و جائزہ پر مبنی میری کتاب ‘ نقدِ فراہی’ طبع ہوئی تو میں نے اسے برائے تبصرہ دو ماہی ‘اردو بک ریویو ‘ نئی دہلی میں بھیج دیا۔ ان دنوں برادر مکرّم مولانا ارشد سراج الدین مکی اس کی مجلسِ ادارت سے وابستہ تھے – انھوں نے اس کتاب کو تبصرہ کے لیے شیخ کے پاس بھیج دیا۔ انھوں نے اس پر بہت عمدہ تبصرہ لکھا _ بعد میں یہ تبصرہ ان کے مجموعۂ مقالات میں بھی شامل ہوا۔’ نقدِ فراہی’ میں شامل ایک مضمون میں میں نے مولانا فراہی کی تفسیر سورۂ فیل کا جائزہ لیا تھا۔ شیخ عزیر نے ایک ملاقات میں بتایا کہ وہ ان دنوں ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی ندوی کے ساتھ مل کر شیخ علامہ عبد الرحمٰن بن یحیی معلّمی یمانی (م1966ء) کی تصانیف کی تحقیق و تدوین و طباعت کے ایک پروجکٹ پر کام کررہے ہیں۔ ( شیخ معلمی نے کافی عرصہ دائرۃ المعارف العثمانیة حیدر آباد سے وابستہ رہ کر حدیث و تاریخ کی کتابوں کی تحقیق وتصحیح کا کام کیا ہے۔ ان کی متعدد طبع زاد تصانیف بھی ہیں) ان میں سے ایک کتاب ‘رسالة في التعقيب على تفسير سورة الفيل للمعلم عبدالحميد الفراھی کے نام سے ہے ، جس کی تحقیق کی خدمت ڈاکٹر محمد اجمل اصلاحی نے انجام دی ہے ۔ میں نے خواہش کی کہ مجھے یہ کتاب فراہم کردیں تو میں اس کا خلاصہ کرکے سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ میں شائع کروادوں گا۔ انھوں نے مجھے یہ کتاب بھیج دی ۔ اس کا خلاصہ تحقیقات اسلامی جنوری۔ مارچ 2015 کے شمارے میں طبع ہوا۔
28 جولائی 2018 کو اسلامک فقہ اکیڈمی نئی دہلی میں ترکی کے نام ور محقق ڈاکٹر فؤاد سزگین پر ( جن کا کچھ ہی دنوں قبل 30 جون 2018 انتقال ہوا تھا ) ایک مجلسِ مذاکرہ رکھی گئی۔ اس میں ڈاکٹر وارث مظہری ، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز ، جامعہ ہمدرد نئی دہلی اور ڈاکٹر محمد مشتاق تجاروی ، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے مقالات پیش کیے گئے۔ میری صدارت تھی۔ اس دن شیخ عزیر دہلی میں موجود تھے ، چنانچہ انھیں بھی دعوت دی گئی _ وہ تشریف لائے تو ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاکر ان سے بھی کچھ اظہارِ خیال کرنے کی خواہش کی گئی _ انھوں نے ڈاکٹر فؤاد سزگین سے اپنی ملاقاتوں کے بعض احوال ، ان کے علمی و تحقیقی کاموں کی اہمیت اور اندازِ تحقیق کے بارے میں بڑی قیمتی باتیں بتائیں ۔ ان کی بعض تحقیقات پر نقد بھی کیا۔
شیخ عزیر نے عربی کتابوں کی تحقیق و تدوین کے میدان میں غیر معمولی کام کیا ہے _ اردو زبان میں ان کی تحریریں کم ہیں _ ان کا مجموعہ ‘مقالات مولانا عزیر شمس’ کے نام سے شائع کردیا گیا ہے۔ ایک برس قبل برادر مکرم مولانا ارشد سراج الدین مکی نے اس کا ایک نسخہ مجھے فراہم کیا تھا _ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اس پر تعارف و تبصرہ اپنے فیس بک پیج پر لکھ دوں گا ، لیکن مختلف اسباب سے یہ کام ٹلتا رہا اور اب حسرت باقی رہ گئی کہ ان کی حیات میں میں اس کتاب پر کچھ نہ لکھ سکا۔ اس مجموعۂ مقالات میں بعض اکابر ملت کی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے ، برصغیر میں عربی زبان اور ادب کی تعلیم کا جائزہ ، قصیدہ ‘بانت سُعاد’ کی استنادی حیثیت ، ذخیرۂ احادیث کی تدوین ، انگلیوں پر گننے کا پرانا طریقہ وغیرہ جیسے وقیع مقالات ہیں ۔ اس میں ان کی بعض وہ تحریریں بھی شامل ہیں جو انھوں نے مختلف کتابوں پر بطور مقدمہ لکھی ہیں اور چند مضامین بعض علمی شخصیات کی وفات پر ان کے بارے میں تاثرات اور ان کی خدمات کے تذکرے پر مشتمل ہیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے ، ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے ، آمین یا رب العالمین !
نیو ہورائزن پبلک اسکول میں سیرت النبی پروگرام منعقد کیا گیاجس میں مہمان خصوصی جناب ڈاکٹر محمداسلم پرویز صاحب ،چیئر مین نیو ہورائزن پبلک اسکول رہے، دیگر شرکاء میں محترم جناب شبیہ احمد صاحب ، صدر ویڈو ، پروفیسر محمد نقی صاحب مینیجر اسکول کا نام اہم ِہے ۔پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا اس کے بعد الوینہ نے خطبۂ استقبالیہ کے ذریعہ تمام مہمانوں کا استقبال کیا۔ پھر محمد حسین مجتنیٰ نے بارگاہِ رِسالت میں نعتیہ کلام کا گلدستہ پیش کیا۔پروگرام کے دوران بچوں نے حضورِ پاک ؐ کی سیرت پر مشتمل احادیث اور تقاریر پیش کرکے سامعین سے جہاں دادِ تحسین حاصل کی وہیں اجتماعی نعت خوانی کے ذریعہ پروگرام میں نورانی فضا کی کیفیت قائم رہی۔ منتخب طلباء کی ٹیم نے حضور کی سیرت ِطیبہ پر مشتمل سوال و جواب کی شکل میں مکالمہ پیش کیا۔ پروگرام کے آخر میں جماعت پنجم کی طا لبہ سمیہ یاسمین نے مناجات پیش کرکے محفل کا ماحول روحانی بنادیا۔اخیر میں مہمانِ خصوصی جنا ب ڈ اکٹرمحمد اسلم پرویز صاحب (چیئرمین نیو ہورائزن پبلک اسکول) نے اپنے خطاب کے اندر قرآن فہمی کے اوپر زور دیتے ہوئے بچوںکی کارکردگی کو کھلے دل سے سراہا۔ اور یہ میسج عام کیاکہ قرآن صرف تلاوت کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ سمجھ کر اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔آخر میں پروفیسر نقی صاحب نے مہمانان ، اساتذہ اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔
کرناٹک: تبدیلی مذہب ایکٹ کے تحت گرفتاری شروع،معین نامی نوجوان کو جیل رسید کیا گیا
بنگلورو :کرناٹک پولس نے جبری تبدیلی ٔ مذہب کے معاملے میں شہر میں پہلی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ پولیس نے ہفتے کے روز کہا کہ ملزم نے اپنی بیوی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا تھا۔پولیس کے مطابق 26 سالہ سید معین پر ایک ہندو لڑکی کو زبردستی اسلام قبول کرنے کا الزام ہے۔ملزم اتر پردیش کے گورکھپور کی ایک 18 سالہ لڑکی سے محبت کرتا تھا جو اپنے خاندان کے ساتھ سلیکن ویلی میں رہتی تھی۔ ملزم نے مبینہ طور پر لڑکی پر شادی کی خواہش رکھتے ہوئے مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔پولیس نے بتایا کہ لڑکی نے مسجد میں جا کر اسلام قبول کر لیا تھا۔ لڑکی کے والد جو کہ پیشے کے اعتبار سے پینٹر ہیں۔لڑکی کی والدہ نے اس سے کہا کہ وہ جلد بازی میں فیصلہ نہ کرے۔5 اکتوبر کو لڑکی گھر واپس نہیں آئی۔ ایک ہفتے بعد وہ پولیس کے سامنے پیش ہوئی۔ والدین نے بنگلورو کے یشونت پور پولیس اسٹیشن میں تبدیلی مذہب مخالف ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرایا۔پولیس نے تفتیش شروع کرنے کے بعد لڑکی کو زبردستی مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں ملزم کو گرفتار کرلیا۔ وزیر داخلہ اراگا گیانندرا نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی مکمل تفصیلات لیں گے۔
سماجوادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو گزشتہ 10 اکتوبر کو 82سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔وہ تین بارملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ اور ایک بار ملک کے وزیردفاع رہے۔1997میں وہ کمیونسٹ لیڈر کامریڈ ہرکشن سنگھ سرجیت کی مدد سے وزیراعظم کی کرسی کے بہت قریب پہنچ گئے تھے، لیکن سابق وزیراعظم وی پی سنگھ اور لالو پرساد یادو نے ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی ۔
ایک معمولی اسکول ٹیچر کی حیثیت سے اپنی زندگی شروع کرنے والے ملائم سنگھ سیاست کے شکھر تک کیسے پہنچے، اس کی داستان دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ لمحہ وہ تھا،جب ان کے بیٹے اکھلیش یادو نے انھیں بے دست وپا کرکے سماجوادی پارٹی کی صدارت ہتھیالی تھی۔اس صورتحال سے حددرجہ پریشان ہوکر انھوں نے اپنے ایک قریبی کارکن سے کہا تھا ”کیا میں اب خودکشی کرلوں؟“ انھوں نے سماجوادی پارٹی کو بڑی محنت اور جدوجہد سے سینچا تھا اور یو پی کے مسلمان ان کی سب سے بڑی سیاسی پونجی تھے۔مسلم ووٹ کی بدولت ہی وہ تین بار وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچے اور 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں انھیں 22 سیٹوں پر کامیابی ملی۔میں نے ایک صحافی کے طورپر جن سیاست دانوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، ان میں ملائم سنگھ کا نام سرفہرست ہے۔
یہ غالباً1994کا واقعہ ہے۔دہلی میں ملائم سنگھ یادو کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی، جو اردو زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ خوش خط بھی ہو۔دراصل اس وقت کے شاہی امام سیدعبداللہ بخاری نے انھیں مسلم مسائل پر اردو میں ایک خط لکھا تھا، جس کا جواب وہ اردو میں ہی دینا چاہتے تھے۔ کسی نے اس کام کے لیے خاکسار کا نام تجویز کیا۔ایک روز صبح صبح سماجودای پارٹی کے دفتر سے میرے پاس فون آیا۔ ”ملائم سنگھ جی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ گیارہ بجے نارتھ ایونیو پہنچ سکتے ہیں۔“ میں وقت مقررہ پر پہنچا تو ملائم سنگھ وہاں موجود تھے۔ انھوں نے شاہی امام کا خط میری طرف بڑھاتے ہوئے کہاکہ”ذرا پڑھئے تو اس میں کیا لکھا ہے؟“میں نے اس خط کی عبارت انھیں سنائی۔بعض اردو الفاظ ان کی سمجھ میں نہیں آئے تو انھوں ان کے معنی پوچھے۔پھرمجھ سے کہا کہ آپ ایسے ہی خوشخط الفاظ میں میری طرف سے انھیں جواب لکھ دیجئے۔ میں نے ان کا جواب خوبصورت الفاظ کا جامہ پہناکر خو ش خطی میں تحریرکر دیا۔ یہاں میرا خوشنویسی کا فن زیادہ کام آیا۔اپنے خط کی خوبصورت تحریر دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ ہم چند لائن لکھتے ہیں تو عبارت کہاں سے کہاں پہنچتی ہے،آپ نے اتنی لائنوں کو بڑے سلیقے سے لکھ دیا۔یہ ملایم سنگھ یادو سے میرا پہلا براہ راست تعارف تھا جو بعد کو ایک رشتے میں تبدیل ہوا۔
ملائم سنگھ مشہور سوشلسٹ لیڈر رام منوہرلوہیا کے سب سے بڑے پیروکار تھے اور انھوں نے ہی لوہیا کے نام کو زندہ رکھا۔ یہاں تک کہ لکھنؤ میں لوہیا ٹرسٹ کی داغ بیل ڈالی۔ ملائم سنگھ نے لوہیا کی سماجوادی تحریک سے متاثر ہوکر ہی اپنی پارٹی کا نام سماجوادی پارٹی رکھا تھا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے سماجواد کو نئے معنی پہنائے، جس کی وجہ سے ان کی پارٹی میں امرسنگھ کو عروج حاصل ہوا،جو بعد کو ان کی پارٹی پر آسیب کی طرح چھا گئے۔ امرسنگھ نے سماجوادی پارٹی کوپوری طرح کارپوریٹ کلچر میں ڈھالا۔ درحقیقت ملائم سنگھ دوراندیشی کے مقابلے میں ہمیشہ وقتی فائدے کو اہمیت دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیکولر سیاست کا پیروکار ہونے کے باوجود سنگھی حلقوں میں بھی رسائی رکھتے تھے۔ حالانکہ آرایس ایس نے ہی انھیں ’مولانا ملائم‘ کا خطاب دیا تھا۔ 2019کے عام انتخابات سے پہلے جب انھوں نے بھری پارلیمنٹ میں سونیا گاندھی کی بغل میں بیٹھ کر نریندر مودی کو دوبارہ وزیراعظم بننے کا ’آشیرواد‘دیا تو سیکولر حلقوں میں انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔شاید یہی وجہ ہے کہ2019 میں لوک سبھا میں ان کے ممبران کی تعداد گھٹ کر پانچ رہ گئی اور اب محض دوممبر ڈاکٹرشفیق الرحمن برق اور ڈاکٹر ایس ٹی حسن ہی لوک سبھا میں سماجوادی کے نام لیوا بچے ہیں۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ملائم سنگھ کی سیاست کا محور ومرکزمسلمان تھے۔مسلمانوں کے بل پرہی انھوں نے تین بار یوپی میں وزیراعلیٰ کا تاج پہنا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ ان کی سیاست مسلمانوں کے لیے مضر تھی یا مفید، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ وہ کھل کر مسلمانوں کے حق میں بولتے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کے جب90 کی دہائی میں جب وشو ہندو پریشد کا رام جنم بھومی آندولن عروج پر تھا تو وہ واحد سیاست داں تھے جو بابری مسجد کے حق میں بیان دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے دوراقتدار میں بابری مسجد کے گنبدوں پر چڑھنے والے نام نہاد کارسیوکوں پر گولی چلوائی اور شدت پسند ہندوؤں میں ولن کے طور پر مشہور ہوئے۔درحقیقت بابری مسجد تنازعہ پر ان کے دوٹوک موقف نے ہی انھیں مسلمانوں کا ’مسیحا‘ بنایا تھا۔الہ آباد ہائی کورٹ نے جب بابری مسجد کی اراضی تین حصوں میں تقسیم کرنے کا عجیب وغریب فیصلہ سنایا تو یہ ملائم سنگھ ہی تھے جنھوں نے کہاتھا کہ ”مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں“۔وہ مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنا جانتے تھے اور اس کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ بھی انھوں نے اٹھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے بابری مسجد کے بدترین مخالف کلیان سنگھ اورساکشی مہاراج کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کا کام بھی کیا۔بہرحال مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے ان کے انتقال کو سیکولر سیاست کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو نے جا نہ ہوگا کہ بابری مسجد تنازعہ کا عروج دراصل ان کی سیاسی طاقت کے عرو ج کا زمانہ تھا۔جیسے جیسے اس مسئلہ نے زور پکڑا ویسے ویسے ان کی سیاسی طاقت بھی بڑھتی چلی گئی۔2012 کے یوپی اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد انھوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا تھا کہ مسلمانوں نے اپنے سارے ووٹ سماجوادی پارٹی کی جھولی میں ڈال دئیے ہیں، لہٰذا سماجوادی کارکنوں کو ان کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ایک سال بعد جب مظفر نگر میں بھیانک مسلم کش فساد ہوا تو ان کی سرکار اسے روکنے میں قطعی ناکام رہی۔یہیں سے مسلمانوں کے ذہن میں ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی کے تعلق سے کچھ سوالات پیدا ہونے شروع ہوئے اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ 2017کے اسمبلی انتخابات میں ان کے ممبران اسمبلی کی تعداد 30 پرسمٹ گئی ۔فروری 2022 کے اسمبلی چناؤ میں ملائم سنگھ کا نعرہ بالکل بدل چکا تھا۔ انھوں نے پارٹی دفتر میں کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے کسانوں، نوجوانوں اور تاجروں کے لیے کام کرنے کا نعرہ دیا اور مسلمانوں کا نام تک نہیں لیا، ورنہ وہ اپنی ہر تقریر میں مسلمانوں کا نام ضرور لیتے تھے، لیکن اس کے باوجود سماجوادی پارٹی اس الیکشن میں بھی مسلمانوں کی پہلی پسند رہی۔
سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے بعد ملائم سنگھ یادو نے ان کی فلاح وبہبود کے لیے کیا کام کیا؟ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ انھوں نے اس پورے عرصہ میں مسلمانوں کی جذباتی تسکین کا کام کیا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ انھوں نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اردو اساتذہ اور مترجمین کی بھرتی کے ذریعہ کچھ مسلمانوں کو روزگار فراہم کیا اور یوپی میں تمام سرکاری محکموں کے نام اردو میں لکھوائے، لیکن دیگر سیکولر سیاست دانوں کی طرح انھوں نے بھی مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے کوئی ٹھوس کام کرنے کی بجائے جذباتی نعروں کا سہارا لیا۔ مسلم ووٹوں کے سہارے اقتدار حاصل کرنے کے باوجود وہ یادوؤں کو ہی آگے بڑھاتے رہے۔
خاکسار کی ملائم سنگھ کے ساتھ یہ تصویر تقریباًپچیس برس پرانی ہے۔