نئی دہلی :مہنگائی دن بہ دن آسمان چھو رہی ہے اور اس سے پریشان عوام کو ’امول‘ کمپنی نے ایک بار پھر دودھ کی قیمت میں اضافہ کا اعلان کرتے ہوئے جھٹکا دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امول ڈیری نے دودھ کی قیمت میں 2 روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امول نے فل کریم دودھ کی قیمت 61 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر اب 63 روپے فی لیٹر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد عوام کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی ہیں جو پہلے ہی مہنگائی سے بے حال ہیں۔امول ڈیری کے منیجنگ ڈائریکٹر آر ایس سوڈھی کا بیان اس سلسلے میں سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ملک کے کچھ حصوں میں امول گولڈ اور بھینس کے دودھ کی قیمت 2 روپے فی لیٹر بڑھی ہے۔ امول کے مطابق موجودہ اضافے کی وجہ ’Fat‘ کی قیمت میں اضافہ ہونا ہے۔
15 اکتوبر, 2022
امیرشریعت مفکراسلام حضرت مولانامحمدولی رحمانی علیہ الرحمہ کی شخصیت ہمہ جہت خدمات کاسرچشمہ اورمتنوع صلاحیتوں کامجموعہ رہی ہے۔ان کی خدمات کی مختلف جہتوں اورصلاحیتوں کے الگ الگ پہلوئوںپرگفتگوہوتی رہے گی ۔ان شاء اللہ ۔یہاں ہم صرف آپ کی صحافتی خدمات کے حوالہ سے چند سطور پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
دوران طالب علمی صحافتی کاوش:
ایامِ طالب علمی میں ہی آپ کی تحریرمنظرعام پرآئی۔پہلی تحریرجامعہ رحمانی کے عہد طالب علمی میںحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ پر1959ء میں سامنے آئی جس کی علمی حلقوں میں تحسین کی گئی۔ دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی میں 1963ء میں آپ نے عربی زبان میں قلمی ماہنامہ ’النہضہ‘ جاری کیا،جوپہلی صحافتی کاوش تھی۔مضمون نگاری کاسلسلہ بڑھاتوآپ نے’دارالعلوم کا کتب خانہ اور اس کا دارالمطالعہ‘نامی رسالہ تحریرکیا۔ دارالعلوم دیوبند کے طالب علمی کے زمانہ میںہی ’ربط آیات قرآنی اور شاہ ولی اللہؒ ‘ کے موضوع پر ایک تفصیلی مضمون لکھا، اس سلسلہ کی تیسری کڑی آپ کی معروف تحریر’تصوف اورحضرت شاہ ولی اللہ ‘ ہے۔ تصوف سے متعلق یہ مضمون ،فکرولی اللہی کی بہترین ترجمانی کے ساتھ ساتھ زبان وادب کااعلیٰ نمونہ بھی ہے۔ مختلف اخبارات و رسائل میں مضامین لکھنے کاسلسلہ طالب علمی کے دور سے لے کر 1974ء تک مسلسل جاری رہا۔
نقیب اورامیرشریعت:
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے ساتھ ہی آپ’ ہفت روزہ نقیب‘ کے ذمہ داربنائے گئے۔ آپ کے بعض تجزیوں پر’نقیب ‘کے اس وقت کے ایڈیٹراصغرامام فلسفی کو محکمہ خبر رسانی کی طرف سے دشواری کاسامناکرناپڑا۔ فلسفی صاحب نے حضرت امیرشریعت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے صورت حال پیش کرکے آپؒ کے نام کوہٹا نے کی درخواست کی۔امیرشریعت رابعؒ نے مولانا محمد ولی رحمانی سے فرمایا’’ اب ’نقیب ‘کی نگرانی اورہر ہفتہ اس پر تحریری تبصرہ بھی آپ کا کام رہے گااور جامعہ رحمانی میںتدریسی خدمت بھی آپ کی ذمہ داری ہوگی‘‘۔حسب حکم مولانارحمانی، تواترکے ساتھ نقیب کے تازہ شمارہ پر’م،و،ر‘کے قلمی نام سے تجزیے لکھتے رہے۔پھرآپ ہی کے مشورہ کے مطابق مرحوم شاہد رام نگری جو اس وقت روزنامہ ’ساتھی‘ میں کام کررہے تھے اور ہفت روزہ ’الکلام‘کی ادارت کرچکے تھے، کونقیب کامدیراعلیٰ بنایاگیااوراصغر امام فلسفی حسب سابق مدیررہے۔اس کے بعدبھی طویل مدت تک آپ ’نقیب ‘ کے معیار و اعتبار کو بڑھاتے رہے ۔امیرشریعت منتخب ہونے کے بعدانھوں نے دوسرے شعبوں کی طرح ’نقیب ‘کی طرف پوری توجہ دی۔مضامین میں تنوع پیدا کیا، معیارکوبلندکیا، ظاہری حسن کے ساتھ مشمولات کوبھی مفیدبنایا۔
’صحیفہ‘کی ادارت :
’نقیب ‘کے علاوہ آپ نے’ایثار‘اور’صحیفہ‘ کی ادارت کی ذمے داری انجام دی ۔ان کے ذریعہ آپ نے خوب لکھا،اُس زمانے میںآپؒ کے تقریباََتین سو مضامین شائع ہوئے۔’صحیفہ ‘کی خاص بات آسان زبان اورمختصرمضامین ہیں۔اس رسالہ کوملک بھرمیں مقبولیت ملی۔سارے ا نتظامات آپ خو د دیکھتے ۔ایڈیٹر کی حیثیت سے سرورق پر جناب حافظ رضی احمد صاحب رحمانی استاذدرجہ حفظ جامعہ رحمانی کا نام ہوتا تھا۔جب آپ کی مصروفیت زیادہ ہوئی تویہ سلسلہ رک گیا اور اخباربھی۔’صحیفہ‘ کا پہلا شمارہ 1391ھ میںجاری ہوا اور آخری شمارہ 1394ھ میں نکلا۔ مولانا کی خواہش تھی کہ ’صحیفہ‘ کودوبارہ جاری کیا جائے۔ چنانچہ راقم سے آپ سے اس سلسلے میں متعددبارگفتگو ہوئی،آپؒ نے اس کاروڈمیپ بتایا،یہ بھی رہنمائی کی کہ مضامین ایک صفحہ سے زائدنہیں ہوں گے،موضوعات اورذمے داران متعین کرلیجیے ،رجسٹریشن کا مسئلہ دیکھ لیجیے،کوشش جاری تھی کہ لاک ڈائون لگ گیااور منصوبہ پورانہیں ہوسکا۔کاش ان کی اس خواہش کی تکمیل ہوپاتی۔
’صحیفہ ‘میں شائع آپ کے اہم مضامین ’سوچنے کاغلط انداز‘،’سماجی روگ‘،’کام کی ابتداء کاوقت‘،’خریداہوابگاڑ‘،’انجام‘،’تجربے سے فائدہ اٹھایئے‘،’روپیے کا مصرف‘، ’سماجی روگ‘،’عیدکاایک رخ‘،’کوئی جوڑنہیں‘ اور’نئی نسل میں دینی تعلیم‘ دستیاب ہیں۔ ان کے علاوہ سینکڑوں مضامین کی فہرست ہے جو آسان زبان کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی سے لبریزہیں۔ایسالگتاہے کہ دل چسپ پیرایے میں لڑیاں پرودی گئی ہیں۔چنانچہ’خریداگیابگاڑ‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’بگڑنے کی دواخریدکرہم بچوں کوپلاتے ہیں اورہمیں احساس تک نہیں ہوتاکہ ہم کیاکررہے ہیں۔آپ نے سمجھا،یہ دواکیاہے۔یہ سنیمابینی ہے جوہمارے سماج میں پورے طورپرآچکی ہے۔
بہت سے گھرانے بال بچوں سمیت اس گھرکارخ کرتے ہیں جہاں پیسہ کے بدلے ’بگاڑ‘ملاکرتاہے۔ہم گاڑھی کمائی خرچ کرتے ہیں اور بچوں کو نامناسب مناظرسے مانوس کرتے ہیں۔ٹھنڈے دل سے غورکیجیے گاکہ ان گانوں سے گونجاہواذہن بڑاہوکرکیابنے گا۔ان کااخلاق،ان کی طبیعت اوران کامزاج کس رُخ پرکام کرے گا۔‘‘ (صحیفہ، ص10،خریداہوابگاڑ)
’کوئی جوڑنہیں ‘کے عنوان کے تحت رقمطرازہیں:
’’آپ اگرکسی آبادی میں پہونچ کرمسلمانوں کی آبادی کے پھیلائوکااندازہ لگاناچاہیں تواس کی ایک علامت بہت آسان ہے جہاں آپ کو گندگی کاڈھیرنظرآئے،بے ترتیبی اوربدسلیقگی کازیادہ ا حساس ہو،میلے کچیلے کپڑوں میں بچوں کی ٹولیاں سڑک پربھٹکتی نظرآئیں،صفائی سے کسی قسم کی دل چسپی محسوس نہ ہو،سمجھ لیجیے کہ یہ مسلم آبادی ہے۔
سمجھ میں نہیں آتاکہ مسلم قوم جسے نظم وضبط ،سلیقہ،صفائی کانمونہ ہوناچاہیے تھا،اس نے یہ رخ کیوں اپنالیاہے۔اسے توقدم قدم پرصفائی کی تعلیم دی گئی،اسے ہمیشہ پاک رہنے کی تلقین کی گئی،روزانہ پانچ باروضواورنمازکے ذریعہ جسم اوردل کوصاف رکھنے کاحکم دیاگیا،مگران احکام کے باوجودگندگی ان کا نشان بن گئی ہے۔ان کے طرزِعمل اوراسلامی احکام میں کوئی جوڑنظرنہیں آتا۔‘‘(صحیفہ، ص4،کوئی جوڑنہیں)
’نئی نسل میں دینی تعلیم‘کے عنوان کے تحت انہوں نے اسکول کے طلبہ کے دینی امورسے عدم واقفیت کے دوواقعے بیان کرنے کے بعداپنے دردکوالفاظ کاجامہ یوںپہنایاہے :
’’نئی نسل کی یہ تکلیف دہ معلومات،والد اورسرپرستوں کے لیے ایک حادثہ ہے اوریہ حادثہ اس لیے پیش آرہاہے کہ نئی نسل کی دینی تعلیم کانظم نہیں کیا جاتا، گھریلو ماحول میں انہیں دین کی باتیں سننے کونہیں ملتی ہیں۔اگرہمیں اپنی آئندہ نسل کومسلمان رکھناہے توپھرگھریلوماحول میں اتنی تبدیلی کرناہوگی کہ بچوں کے کان شروع ہی سے دینی باتوں سے آشنارہیں اوردینی معلومات ان کے مزاج میں گھرکرلیں۔‘‘(صحیفہ، ص12،نئی نسل میں دینی تعلیم)
سیاسی صورت حال پراپنے مضمون’کام کی ابتداء کاوقت‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’ہم اپنے آ پ کویہ کہہ کرمطمئن کرلیتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں ہم سے جھوٹے وعدے کرکے وقت پرہمیں خوش کردیتی ہیں اوربعدمیں ہمیں دغادے دیتی ہیں۔اس میں ہماراکیاقصور؟۔اتناسونچ کرپھرآرام کرتے ہیں اورہماری بیداری کاوقت وہ ہوتاہے جب دوسراالیکشن سرپر آجاتاہے۔ہمیں سونچناچاہیے کہ سیاسی پارٹیوں کوہم سے جھوٹ بولنے کی ہمت کیوں ہوتی ہے؟
وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعدسے بدلے ہوئے حالات میں جووقت ہمارے کام کاہوتاہے اس وقت ہم آرام کرتے ہیں اورجب فصل کاٹنے اورنفع اٹھانے کاموسم آتاہے توہم بھی بیدارہوکرآگے بڑھتے ہیں۔ایسی صورت میں جھوٹے وعدوں یالہلہاتی کھیتی کے نظارہ کے سوااورکیاہاتھ آسکتاہے؟ہم کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ کھیتی کاکچھ حصہ ہمیں بھی حق کے طورپرملے گا؟۔‘‘(صحیفہ، ص12،کام کی ابتداء کاوقت)
یہ ہیں مولانارحمانیؒ کی اس دورکی تحریرکی سرسری جھلکیاں۔لفظ بلفظ غورکیجیے ،ایک ایک جملہ دردسے معمورہے ۔سلاست وروانی اورزبان کی آسانی میں سرسید کا اسلوب محسوس ہوتاہے۔ چونکہ آپ کامقصدبھی سرسیدکی طرح اصلاح معاشرہ تھا بلکہ زندگی کامشن یہی رہا۔اسی لیے ہمدردی کاجذبہ صاف صاف جھلکتا ہے۔ سماجی نوعیت کے مضامین میں یہ رنگ اورنمایاں ہے۔
’صحیفہ‘ میں کم تحریریں’مولانامحمدولی رحمانی استاذجامعہ رحمانی مونگیر‘کے نام سے شائع ہوئیں،بیشترمضامین دوسرے ناموں سے لکھے۔مثلاسماجی مسائل پر’ہماراسماج‘ نامی کالم’اصغررحمانی‘نام سے لکھاکرتے ۔جس طرح1927میں حضرت مونگیریؒ کی حیات میں جامعہ رحمانی کے ترجمان کی حیثیت سے شائع ہونے والے رسالہ’الجامعہ‘ (جس کے ایڈیٹرمولاناعبدالصمدرحمانیؒ اورمولانامنت اللہ رحمانی ؒ تھے،جامعہ رحمانی کا دیواری پرچہ ’الجامعہ‘ اسی کی ایک کڑی ہے جو انجمن نادیۃ الادب کے تحت شائع ہوتاہے۔)میںآپ کے والدامیرشریعت ؒمولانامنت اللہ رحمانیؒ،’سیدابوالفضل رحمانی‘ کے نام سے لکھتے بلکہ ’الجامعہ‘ کے سرورق پریہی نام درج ہوتا۔اس سے واضح ہو تاہے کہ نام نہیں،کام مقصدتھا۔اسی طرزپرخلف رشیدمولانامحمدولی رحمانیؒ گامزن تھے اورآپ نے بھی بیشترتحریریں دیگرنام سے لکھیں۔
روزنامہ ایثارکااجراء:
1980ء کی دہائی میں ’قومی آواز‘بہار کا سب سے اہم اردو اخبار تھا۔’ سنگم‘،’ صدائے عام‘ اور’ ساتھی‘ جیسے اخبارات توتھے مگران کی اشاعت بہت کم تھی،’قومی تنظیم‘ کی اشاعت بھی ہفت روزہ تھی۔’ قومی آواز‘ ،صحافتی اقدارکی کسوٹی پرپورانہیں اتررہاتھا۔ان حالات میں عوام کی ایک مضبوط آوازکی شدیدضرورت محسوس کی جارہی تھی ،چنانچہ مولانا رحمانیؒ نے اس ضرورت کومحسوس کرتے ہوئے روزنامہ’ایثار‘ جاری کیا۔مولانارحمانی ،شاہین محسن اورشاہدرام نگری کی انتھک کوشش سے اس اخبارکی مقبولیت کایہ عالم ہواکہ مہینہ بھرمیں اس کی اشاعت تیرہ ہزار تک پہونچ گئی،اردو داں طبقہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا،حکومت نے بھی دبائومحسوس کیا۔ رفتہ رفتہ ’قومی آواز‘ کا سرکولیشن کم ہوتاگیایہاں تک کہ چندمہینوںمیں ’قومی آواز‘کا پٹنہ ایڈیشن بندہوگیا۔ ’ ایثار‘ ہندوستان کاواحد اخبار تھا، جس کی لیڈ نیوز پر اردو کاکوئی بر محل شعر یا مصرعہ دیا جاتا تھا،اس نے اردوصحافت کی نئی تاریخ رقم کی۔یہ بہارکاپہلااردوآفسیٹ روزنامہ تھا۔مختلف موضوعات پرمشتمل اداریے اور مضامین سنجیدہ اورتجزیاتی ہواکرتے،عالمی حالات، معاشی اور تہذیبی صورتحال پیش کی جاتی نیزحکومت کے منصوبوں سے واقف کرایاجاتا۔یہ ساری ذمہ داریاں مولانا رحمانیؒ کی ہواکرتیں ۔ کامیابی کے ساتھ تین سال سے زیادہ عرصہ تک یہ اخبار جاری رہا۔اس دوران’ ایثار‘نے صحافتی ذمہ داریوں کو بھر پور نبھایا۔یہ مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی صحافتی خدمات کااہم باب ہے۔بعض نامساعدحالات کی بنیاد پر ’ایثار‘ بند ہوگیاجس کے بعدمولانا رحمانی بھی صحافتی سرگرمی سے عملاََالگ ہوگئے۔لیکن زندگی کے آخری برس تک خاص موضوع پر، خاص حالت میں،آپ کی زرخیز تحریریں سامنے آتی رہیں۔ ’مولاناآزاد:کئی دماغوں کاایک انسان‘،آپ کی شاندارتحریرہے جس میں مولاناآزادؒ کی زندگی کی مختلف جہتوں کو اچھوتے اورادبی اسلوب میں بیان کیاگیا ہے کہ قاری محظو ظ ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔حالیہ برسوں میںآپ کے کئی مضامین اخبارات میں شائع ہوئے۔ جن میں ’ قومی تعلیمی پالیسی‘پرآپ کی تفصیلی تحریر یقینا چشم کشاہے۔اس پالیسی کے مندرجات اوراس کے مضمرات پرجس طرح آسان لفظوں میں روشنی ڈالی، یہ آپ کاہی حصہ تھا۔
لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی:
آپؒ نئے لکھنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کرتے،نئے نام پرنظرپڑتی ،ان سے بات کرکے حوصلہ افزائی کرتے اورترغیب دیتے کہ لکھنے کاسلسلہ جاری رکھیے۔ کئی نئے نام اخبارمیں دیکھے تومجھ سے ان کے نمبرات طلب کیے اورفون کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی۔یہ خوبی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ متعدد بار آپ ؒ کواپنامضمون اصلاح کے لیے کبھی ای میل کے ذریعہ توکبھی براہِ راست بھیجایادکھایاتوکافی توجہ فرمائی اورغلطیوں کی نشان دہی کی۔بہارالیکشن کے وقت اخبارات میں میراایک مضمون شائع ہواجس میں ایک دوجملے ان کے نظریات سے میل نہیں کھاتے تھے ۔اگلی صبح آپؒ کافون آیاتوخیال آیاکہ شایداس پرکچھ فرمائیں گے۔آپ نے مبارک باد دی،اورفرمایا کہ’’ میں نے مکمل پڑھا،لکھتے رہیے،بہت فاصلہ ہوجاتاہے،ہرہفتہ لکھیے،یاکم ازکم پندرہ روزپرضرورلکھیے۔‘‘کوئی اورہوتاتواپنی ناراضگی ضرورظاہرکرتایاکم ازکم دل پرلے لیتا۔یہ آپ کی وسعت ذہنی اورآزادی اظہار رائے کے احترام کی واضح دلیل ہے۔دہلی کی ملاقات میںکئی امورسے اختلاف کیا،اوراعتراض کیا،آپ پہلے پوری رائے سنتے پھرتفصیل سے سمجھاتے۔ہرمسئلے کے جزئیات کی بھرپورتفصیل معلوم ہوتی۔حیرت تویہ ہوتی کہ اتنا مصروف شخص ،ہرکام کے لیے وقت کیسے نکال لیتاہے ۔
سہل مت لکھیے،آسان لکھیے:
مضبوط دلائل،آسان زبان میں بیان کردینامستقل فن ہے ،آپ اس فن میں درک رکھتے تھے۔قانونی موشگافیاں ہوں یاعلمی مباحث،بہت آسانی کے ساتھ ان کے نکات بیان فرمادیتے۔جن لوگوں کوامیرشریعت ؒ کی مجلس میں فیضیاب ہونے کاتجربہ ہے،وہ شہادت دے سکتے ہیں۔یہ سادگی تحریرمیں نمایاں ہے۔امیرشریعت سابعؒ کاطریقہ ہمیشہ آسان لکھنے کا رہاہے اوراس کی ترغیب دیتے ہوئے اپناواقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت امیرشریعت رابعؒنے نصیحت کی’’سہل مت لکھو، آسان لکھو۔‘‘ والد صاحب کی یہی نصیحت آپ کی تحریروں میں صاف نظرآتی ہے ۔ آپؒ نے راقم الحروف کے ایک مضمون کی اصلاح کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’سہل مت لکھیے ،آسان لکھیے ۔عربی کے فلاں فلاں لفظ عام طورپرلوگ نہیں سمجھ پاتے،جملے مختصرہوں،کلمات حصرکااستعمال کم سے کم ہونا چاہیے،جوکچھ آپ لکھیں ،ان کے اعدادوشمارواضح لکھیں،سینکڑوں،ہزاروں کی بات نہ ہو،بلکہ اگرمکمل اعدادکے ساتھ بات لکھی جائے گی تو مستند ہوگی۔‘‘
الحاصل مولانامحمدولی رحمانی ؒ نہ صرف ماہرقانون،زبردست عالم دین اورصاحب اسلوب خطیب اورادیب تھے بلکہ ان کی ایک حیثیت صحافی کی بھی ہے اوراس حیثیت سے انھوں نے وسیع خدمات انجام دی ہیں۔بلکہ کہناچاہیے کہ بہارکی صحافتی تاریخ امیرشریعت مولانامحمدولی رحمانیؒ کے بغیرمکمل نہیں ہوگی۔
تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھیں کیا خبر یا اخی-عرفان صدیقی
تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھیں کیا خبر یا اخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی
شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمہارا نہ تھا
خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر بام و در یا اخی
جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر میرے دل کی کمیں گاہ میں کون ہے
اک شقی کاٹتا ہے طنابیں مرے خیمۂ خواب کی رات بھر یا اخی
یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سرسبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی
نہر اس شہر کی بھی بہت مہرباں ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا
ہجرتوں کے مقدر میں باقی نہیں اب کوئی قریۂ معتبر یا اخی
زرد پتوں کے ٹھنڈے بدن اپنے ہاتھوں پہ لے کر ہوا نے شجر سے کہا
اگلے موسم میں تجھ پر نئے برگ و بار آئیں گے تب تلک صبر کر یا اخی
مسجد جانے اور نماز ادا کرنے کا مطلب کہیں بھی یہ نہیں کہ عورت ہر نماز کے وقت کیل کانٹوں سے لیس ہوکر اداؤں کے نشتر لگانے مسجد پہنچ جاتی ہے اور مسجد پہنچ کر فورا اپنے محارم اور خوف خدا سے عاری ہوکر مردوں میں موجود ایروں غیروں سے یاری دوستی شروع کرکے جبرا مردوں میں فتنے پیدا کرکے ان کو بھگا لے جاتی ہے اور کسی عورت کے مسجد میں نماز کی ادائیگی نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے گھروالوں نے اس کی حد بندی کررکھی ہو اور اسے منع کیا جاتا ہو۔یہاں خالصتا عورت کی مرضی اور اس کے نیک جذبے کا معاملہ ہوتا ہے۔افراد خانہ اگر تعاون کرتے ہیں تو خاتون بآسانی مسجد تک جاتی ہے اگر اس کے حالات سازگار نہ ہوں تو اس پر کوئی جبر نہیں ہوتا۔
اور یہی مطلوب وممدوح امر ہے کہ سیکھنے والوں کا راستہ نہ روکا جائے۔
میں نے تقریبا گزشتہ چھ ماہ سے مسجد میں قدم نہیں رکھا۔ جمعہ کے بابرکت خطبات اور نماز سے بھی محروم ہوں ، لیکن میرے گھر کا کوئی فرد مجھ پر جبر نہیں کرتا کہ میری نماز مسجد میں ہی ادا ہوگی۔گھر پر نہیں اور اس کے لئے کوئی ایشو نہیں بنایا جاتا۔ تو یہ بات سمجھیے کہ عورت کے لیے پانچ وقت کی نمازیں مساجد میں یونہی امر محال ہے۔ رہ گئی عیدین اور جمعہ کی نمازیں تو ان سب کی فرضیت وفضیلت بلا کسی تمیز کے مردوعورت دونوں کے لیے متعدد احادیث سے ثابت شدہ ہے اس تکرار کی قطعی حاجت نہیں۔
تو اگر عورت جانا چاہے تو روکا نہ جائے ۔نہ جانا چاہے تو زبردستی نہ کی جائے۔ البتہ اہلحدیث خواتین پر بھدی بھپتیاں کسنے والے ایک بار ہمیں اپنی بہنیں سمجھ کر بلا تعصب بات کو سمجھیں۔ سال میں ایک دو بار مساجد میں جانے یا عقبی راستے سے تراویح میں قرآن مکمل سننے کی غرض سے کون سا فتنہ برپا ہورہا ہے۔
بقیہ اچھائی اور برائی تو ہر جگہ موجود ہوتی ہے ۔یہ صرف خاص مساجد سے مختص تھوڑے ہی ہیں۔دوسری جگہوں کے واقعات وحادثات کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔
ایک دس سالہ بچی مدرسے میں بوڑھے استاد کے ہاتھوں اس سطح پر جنسی ہراسانی کی شکار ہوجاتی ہے کہ اسے طبی مدد لینی پڑتی ہے اور معاملہ پولیس تک جاتا ہے۔ ایک جوان حافظ جی نابالغ طالب علم کے ساتھ جبرا زیادتی کرتے ہیں۔
کچھ لڑکوں کو بہلا پھسلاکر اس غلاظت بھرے عمل میں جناب جی نے شریک کیا ہوتا ہے۔
دعا تعویذ کروانے والی کنواری عورت چار مہینے بعد گھر پر آنے والے اسی عامل کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔
اولاد کے لیے دو سال سے عمل کرواکر پینے پلانے والی عورت کو دو سال بعد اسی عامل سے جائز اولاد مل گئی ۔
اصل فتنے تو ادھر ہیں جناب والا ! جو سارے کے سارے مساجد ، امام ، بانگی ، قاری ، عامل اور راقیوں سے منسلک ہیں۔
تو کیا ایسے مواقع پر مساجد ، بچے ، بچیاں اساتذہ شر وشرارت سے محفوظ رہ پاتے ہیں؟پھر سارے فتنے ، مسلمان خاتون کی بے حیائی کے سڑے ہوئے بدبودار لطیفے ہماری خواتین پر کیوں ؟
تراویح اور جمعہ میں جانے والی عورت ہی آفت کی پرکالا کیوں ہے ؟
سب سے آخری بات یہ ہے کہ ہمیں ہمارے محرم اپنے ساتھ مساجد لے جاتے ہیں ۔کبھی باپ تو کبھی بھائی تو کبھی شوہر تو کبھی بیٹا۔ تو پھر ان کی معیت میں دنیا کی پاک جگہ پر جانا فتنہ ٹھہرا اور غیر مردوں سے دھاگے بندھوانا ، دم پڑھوانا، قبروں پر جانا اور جھاڑوؤں کی مار کھانا یہ کون سے خیر کے کام ہیں ؟
آپ کو اختلاف ہے، آپ بے شک نہ مانیں ۔اور نہ ہی عمل کریں، لیکن جانے والوں پر فحش پھبتیاں کس کر آپ اپنی ذہنی پستی کا ثبوت فراہم نہ کریں۔
اور افسوس تو یہ ہے کہ اچھے خاصے لوگ یہ کام کررہے ہیں۔
طالبان علوم نبوت کی مناز ل ومقاصد بہت اوپر ہے اس سطح سے نیچے مت گریے جس پر آپ کھڑے ہیں۔ ایک مختلف فیہ امر میں محض دوسروں کے کسی عمل کے لیے خود کو گناہ میں ملوث نہ کریں۔
سابق ڈائریکٹر، اردو اکادمی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
سرسیداحمدخاں(1817-1898) محض دانش گاہ علی گڑھ کے بانی ہی نہیں تھے بلکہ وہ جدید فکر کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم رہنمابھی تھے، جنھوں نے مسلم معاشرے کے متوسط طبقہ کوایک نیا تاریخی موڑ دینے کا فریضہ انجام دیااور اپنی ۸۰ سالہ ہنگامہ خیز زندگی میں تعلیمی،سیاسی،مذہبی،سماجی، ادبی، تخلیقی غرض ہر قسم کے علمی، ملّی اور قومی مشاغل میں نمایاں حصہ لیااور زندگی کے ہر میدان میں اپنا نقش بٹھایا اور ہر جگہ دیرپا اثرات چھوڑے…خاص کر تعلیمی معاملات میں ان کے افکار و نظریات نے علی گڑھ کی تعلیمی تحریک کی صورت اختیار کی، اس تحریک نے مسلمانوں کوایک نئی فکر اور مستقبل شناسی کی طرف گامزن کیااور آج پوری دنیا کے ہر گوشہ میں سرسید کے قائم کردہ ادارے کے ’’سرسید زادے‘‘ پھیلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سرسیدکاشمار جدید ہندوستان کے معماروں میں کیاجاتاہے اور ان کی قائم کردہ درس گاہ کو ممتاز مستشرق ہملٹن گب (Hamilton Gibb) ’’اسلام کا جدید ادارہ‘‘ قرار دیتاہے۔ وہیں سرسید کی جدوجہدکواسلامی تاریخ کے وسیع عالمی تناظر میں پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ان کے قول کے مطابق :
’’اس طرح سرسیدکے کارنامے ترکی کے مدحت پاشااور فوادپاشا، ایران کے حجت الاسلام شیخ ہادی، مصر کے مصطفیٰ کامل، تیونس کے امیرالدین پاشا، الجیریا کے امیرالقادر، طرابلس کے امام محمد مسنوسی، افغانستان کے سیدجمال الدین افغانی اور روس کے مفتی عالم جان کے کارناموں کے برابر ہیں‘‘۔
۱۸۵۷ء کے انقلاب کے نتیجہ میں سرسید ایک سیاسی مفکر کے طور پر ابھر کرسامنے آتے ہیں۔ غدر سے پہلے سرسید جامِ جم، جلاء ا لقلوب بذکرالمحبوب، آثار الصنادید کے سرسیدتھے، غدر کے بعد تاریخ سرکشیٔ بجنور، اسباب بغاوتِ ہند، رسالہ خیرخواہانِ مسلمانان اور تبیّن الکلام کے سرسید بن گئے جنھوں نے تصادم، یا مناظرے کے بجائے افہام و تفہیم اور مکالمہ کواپنا وسیلہ بنایا۔ وہ ملک و ملّت کی تعمیرکے خواہاں اور تخریب سے گریزاں تھے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد جوکچھ انہوں نے لکھا، کہا یا کیا اس کا بہت بڑا حصہ مسلمانوں کے پولیٹکل اصلاح سے تعلق رکھتاہے۔ سرسید تعلیم کوسیاسی بازیافت کا ایک وسیلہ اور ذریعہ تصور کرتے تھے۔
۱۸۵۷ء کے حالات، حادثات اور واقعات سے متاثر ہوکر ہی سرسیدنے اپنی زندگی کو وقف کردیااور ملک و قوم کی ضرورت کے لئے ایک سیاسی حکمتِ عملی وضع کی جس کی وجہ سے ہندوستان کومسلم اسپین بننے سے روکنے میں کلیدی کردار اداکیا۔ میرے نزدیک ملتِ اسلامیہ کے لیے یہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس پر سرسیدکے محققین نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ البتہ ’’سرسیدکی بصیرت ’’کے مصنف اسرارعالم نے سرسیدکی شخصیت اور ان کاکارناموں پر سیرحاصل بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’ہندوستان میں سرسید جیسا عبقری باستثنائے غالب شاید ہی ملّتِ اسلامیہ میں پیداہو، اندلس صرف اس لئے اسپین بن گیا کہ وہاں پندرھویں صدی میںکوئی سرسید پیدانہ ہوا۔ سرسید کایہ کارنامہ تاریخ میں زندہ و جاویدرہے گاکہ انھوں نے علی گڑھ بنایا۔ سرسید کے جانشین سرسید کی عبقریت کوکہاں پاسکے‘‘۔
اس موضوع پر وہ مزیدلکھتے ہیں کہ ’’کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج پورا عالمِ اسلام اسپین صرف اس لئے نہ بنایاجاسکاکہ انیسویں صدی کے ہندوستان میں سرسیدپیداہوگیا؟‘‘
پروفیسر رشیداحمدصدیقی نے اپنے ایک مضمون ’علی گڑھ تحریک‘ میں سرسیدکے ناقدین کے بارے میں کہا ہے کہ:
’’سرسید کے نکتہ چینوں نے اس پر غور نہیں کیاکہ غدر مسلمانوں کے حق میں کیسا ہولناک حادثہ تھا اور مسلمان کن تاریخی حوادث سے دوچار تھے۔ سرسید نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کاوہ انجام ہوجواسپین میں ہوا۔ سرسیدنے ہندوستان میں دوسرا اسپین اسٹیج ہونے کا سدباب کیا۔‘‘
سرسیدنے اپنے رسالہ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے یکم جنوری ۱۸۷۸ء کے شمارے میں مصائب اندلس پرسید یحیٰ قرطبی کے مرثیے کا اردو ترجمہ شائع اس لیے کرایاکہ اگرمسلمانوں نے وقت کے تقاضوں کونہیں سمجھااور اپنی اصلاح نہیں کی تو دوسرا اسپین ہوسکتاہے۔سرسیدنے اس رسالہ میں لکھاکہ ’’سید یحیٰ قرطبی اندلسی اپنے مرثیے میں اپنے ہم عصروں کوروتاتھا، ہم اس زمانے میں اپنی قوم پر روتے ہیں، ہم میں اور اس میں یہ فرق ہے کہ وہ اس بات کو روتاتھاکہ جو ہوچکی تھی اور ہم اس بات پر روتے ہیں جو ہماری قوم پر ہونے والی ہے۔ وہ مردوںپر روتاتھا،ہم ان لاشوںپر مرثیہ پڑھتے ہیں جو جاندار ہوکر بے جان ہیں۔‘‘
تحریک ِ آزادی کی پہلی جنگ کے بعد سرسید کی چشمِ بیدار نے احیائے ملّی کاجو خواب دیکھااس کی تعبیر کاسامان اسی آب وگیاہ بستی میں میسر آیا۔ پروفیسراشتیاق احمد ظلّی نے ۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو یومِ سرسید تقریبات کوخطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ :
’’جب سیاسی اقتدارہاتھوں سے جاتارہاتو سرسید نے علم ودانش کی ایک نئی مملکت کی بنیادرکھی۔ یہ صرف درسگاہ نہیں تھی جہاں سرکاری ملازمتوں کے لئے درکار اسنادفراہم کی جاتی تھیں بلکہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی تہذیبی اور نفسیاتی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہوتی تھی۔ سرسیدکواپنی شکست خوردہ قوم کی ان ضرورتوں کاادراک بھی تھا اور ان کی تکمیل کے لئے جووسائل درکاتھے ان کاشعوربھی۔ مدرسۃ العلوم کی خوبصورت اور پرشکوہ عمارتوںکی تعمیر بھی اسی منصوبہ کا حصہ تھی۔ملک کاکوئی اور ادارہ ملّی امیدوں، آرزوؤں اور عقیدت و محبت کاایسا مرکز نہیں بن سکا جب کہ سرسیدکایہ ادارہ‘‘۔
خودبانی درسگاہ سرسیداحمدخاں نے ’مدرسۃ العلوم مسلمانان‘ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں مستقبل کی مسلم یونیورسٹی کے طالب علموں سے کیا توقعات وابستہ کی تھیں۔ اس پر بھی ہماری نظرہونی چاہیے:
’’قدیم مسلمانوں کی تاریخ دیکھنے سے ثابت ہوتاہے کہ جب ان کے پاس اسپین میں تعلیم کی ترقی تھی تو قرطبہ اور غرناطہ کی یونیورسٹیوںمیں تمام قوموں ومذہبوں کے طالب علم بلاتفرقہ وغیرہ کے نہایت خوشی سے تعلیم دی جاتی تھی اور ہر قوم ومذہب کے لوگ اس میں پڑھتے۔ ہم کو خداسے امیدہے کہ یہ مدرسۃ العلوم بھی پھر وہی پرانی کھوئی ہوئی عزت و نیک نامی ہر ایک قوم کوتعلیم دینے سے حاصل کرے گا۔‘‘
سرسید کی تصنیف’اسباب سرکشی ہندوستان کا جواب مضمون‘ کے مترجم سرآکلینڈ کولون (Aucknand Colvin) نے سرسید کی زندگی میں ہی اترپردیش گورنر کی حیثیت سے اس ادارے کا دورہ کرتے ہوئے طلباء کو خطاب کرتے ہوئے ۱۰؍مارچ ۱۸۸۸ء کو یہ تسلیم کرناپڑا کہ ’’علی گڑھ کالج کاتعلیم یافتہ ہوناہر ایک آدمی کے لئے انگریزوںاور ہندوستانیوںکی نظروںمیںمعزز ہونے کی ایک سندہے۔ وہ (طالبِ علم) اپنے ساتھ وہاں کی تعلیم و تربیت کی مہراوراس کے عقل و دماغ کانقش لے جاتے ہیں جس کی نگرانی میں ان کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے‘‘۔
سرسیدکے تعلیمی مشن کوآگے بڑھانے میں ان کے وہ رفقاء جوان کے دست و بازوتھے مگر سرسید کے مذہبی افکارو نظریات پر علماء اور دانشوروں نے سب سے زیادہ تنقیدکی ہے ۔ خود سرسیدکے رفقاء میں مولوی محمدسمیع اللہ خاں، خواجہ محمدیوسف، محسن الملک، وقارالملک، ڈپٹی نذیراحمداورعلامہ شبلی نعمانی بھی اختلاف رکھتے تھے۔ مگر آج کے علماء سرسید کوعلیہ رحمہ قرار دے رہے ہیں اور سرسیدکی عظمت کاسورج آج بھی نصف النہار پر ہے۔ سرسیدنے شیخ عبدالقادر جیلانی، امام غزالی اور امام ربانی مجددالف ثانی کی مثالوں کواپنے سامنے رکھااور ان سے فیضان حاصل کیا۔ ان بزرگانِ دین کوبھی اپنی مصلحانہ کوششوںمیں شدید مخالفت کاسامنا کرناپڑاتھا۔ سرسیداس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ہر نئی تحریک اختلافات کی آغوش میں ہی پرورش پاتی ہیں۔
سرسید در حقیقت مسلمانوں میں ایک نئی فکری تحریک کے بانی تھے اور اجتہاداور تنقیدِ مذہب کی تحریک کے علمبردارتھے۔جدید ہندوستان کے وہ پہلے ایسے شخص تھے جنھوں نے اصولِ مذہب کی از سرنوچھان بین کی اور مدافعت مذہب کے لئے جدید علم کلام کے اصول قائم کئے۔ اس سلسلے میں خودمولاناابوالکلام آزاد سرسیدکے سیاسی نظریات کے سخت مخالف تھے مگر سرسیدکے جدید علم الکلام کے حامی تھے۔ بقول ان کے :
’’سرسیدہی دنیا میں پہلاشخص ہے جس نے پہلے پہل ضرورت محسوس کی کہ جدید فلسفہ کے مقابلہ میں جدید علم الکلام کی ضرورت ہے۔‘‘ (وکیل)
ڈاکٹر بشیراحمد ڈار ان دانشوروں میں شامل ہیں جنھوں نے سرسید کے مذہبی افکار کواپنی تحقیق و تصنیف کا موضوع بنایا۔ ڈاکٹر ڈار کے مطابق :
’’سرسید عہدِ جدیدکے پہلے شخص تھے جنھوں نے اسلام کی نئی تعبیر کی ضرورت محسوس کی جو وسیع المشرب، جدیداور ترقی پسندہے‘‘۔
سرسیدکی فکر پر اسلام کی تعمیرِ نو میں نئے علم الکلام کے موضوع پر جن دانشوروں نے تحقیقی نوعیت کے کام کئے ہیں، ان میں ایک اہم معتبر نام کرسچین ولیم ٹرال کاہے۔ ان کے مطابق :
’’سرسید کااصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہم مذہبوںکومغرب کی نفرت سے باز رکھااور انھیں بتایاکہ جدید مغربی علوم ان کے مذہب کے لئے نقصان دہ نہیں ہیں‘‘۔
سرسیداحمدخاں کے دوسوسالہ جشنِ ولادت اور مسلم یونیورسٹی کے قیام کے صدسالہ جشن کے موقعوں پر سرسیدکے عقیدت مندوںاور مسلم یونیورسٹی کے سابق طالبِ علموں کی طرف سے دنیابھرمیںجشن برپاکیاگیااور بہت سی نئی مطبوعات سے سرسیدشناسی میں اضافہ بھی ہواہے مگر ہمیں اپنااحتساب کرتے رہناچاہیے۔
خواجہ الطاف حسین حالی کی حیاتِ جاویدجوسرسیدکی سوانح عمری ہے، اس کواردوزبان میں مستندکتاب تصور کیاجاتاہے اور اس کتاب کی نوعیت حوالہ جاتی ہے۔ حالی کی شاندار خدمات اپنی جگہ مگر اس کتاب میں بہت سی غلطیاں پائی گئی ہیں۔ ممتاز محقق پروفیسر شافع قداوئی نے ’’سرسید بازیافت‘‘ میں حیاتِ جاویدکی غلطیوںکی نشان دہی کردی ہے۔ خود راقم الحروف نے بھی اپنی حالیہ کتاب ’’سرسیداحمدخاں اور۱۸۵۷ء میں سرسید کی ۱۸۵۹ء میں شائع کردہ کتاب ’’اسباب سرکشی ہندوستان کاجواب مضمون‘‘ کوحیاتِ جاوید کے ضمیمہ میں’اسبات بغاوتِ ہند‘ کردیااور تبھی سے سیکڑوں کتابیں اس عنوان سے شائع ہوگئیں۔
سرسیدپر ایک بڑا اور اہم کام اسماعیل پانی پتی کی جانب سے ’’مقالات سرسید‘‘ کی سولہ جلدوںکی اشاعت ہے جو مجلسِ ترقی ادب، لاہورسے شائع ہوئی ہیں اور ان مقالات کوبھی حوالہ جاتی حیثیت حاصل ہے مگر جولوگ سرسید کی اصل تحریر کامطالعہ کرتے ہیں انھیں اس بات کااندازہ ہوجاتاہے کہ مقالات میں سرسیدکے حوالے سے جو کچھ لکھا گیاہے وہ سرسیدکے اصل متن سے مختلف ہے۔ اس سلسلے میں سرسیداکادمی نے اب مقالات سرسیدکوتصحیح کرکے شائع کرنے کا فیصلہ کیاہے اور کئی جلدیں شائع بھی ہوچکی ہیں۔
اسی طرح مسلم یونیورسٹی روڈ پر انجینئرنگ کالج کے صدر دروازے کے قریب ڈک پوائنٹ پر انگریزی میں The last message of Sir Syed بہت بڑے پتھر پر کنداں ہے۔ سرسید نے یہ آخری پیغام کہاںاور کب دیا؟۔ شافع قدوائی صاحب ، خود راقم اور سرسید پر کام کرنے والے نوجوان محقق اسعدفیصل فاروقی نے بہت ہی تحقیق و جستجوسے اس پیغام کو تلاش کیا مگر کہیں بھی دستیاب نہیں ہوا۔ہمیںسرسیداور علی گڑھ تحریک سے متعلق اصل متن پرہی توجہ دینی چاہیے اور علی گڑھ کی تاریخ پر ضرب کاری نہیں لگانی چاہیے۔
ادائے حسن نہیں سادگی کی بات کرو
جو بھا رہا ہے مجھے بس اسی کی بات کرو
پڑا ہے جسم مرا سلوٹوں کے دامن میں
ہوس کا راگ سنو راگنی کی بات کرو
وصالِ یار کی خوشبو ہمیں ستاتی ہے
سکھی کرو تو ہمارے ہی پی کی بات کرو
یہ خواہشوں کا سمندر ہمیں ڈبو دے گا
ہر اک امید پہ آتی نمی کی بات کرو
یہ چاہتا ہے چمکتا ہوا ترا چہرا
نئے زمانے میں بھی آرسی کی بات کرو
سخن سرائے میں امکان ڈھونڈنا ہے ہمیں
ہے تنگ قافیہ حرفِ روی کی بات کرو
جو کامیاب ہے سب اس کو پوجتے ہیں عبیر
کبھی تو ہارے ہوئے آدمی کی بات کرو
تزئین و ترجمہ : حامد عتیق سرور
قبانی کی بظاہر سات یا نو بند کی یہ طویل نظم عاشق کی اسی بے بسی کی تصویر ہے جسے حافظ نے مجبوری و دعوائے گرفتاریِ الفت کہا تھا ۔ دست تہ سنگ آمدہ کی یہ تصویر دیکھیں ۔ ہر چند کہ کہاں نزار قبانی ، کہاں عربی زبان ، کہاں ہم اور کہاں کی ہماری سمجھ ۔ کچھ کا کچھ بن گیا ہے ۔
(1)
بھلا یہ کیسے ممکن ہے
کہ کوئی بھی مجھے دیکھے
مگر پھر بھی تمہیں پہچان نہ پائے
مرے ہاتھوں کی ریکھاوں میں تیرے نام کے سارے کے سارے حرف دکھتے ہیں
کئی باتوں کی شاید جانجاں تردید ممکن ہے
مگر دل میں بسے محبوب کی خوشبو نہیں چھپتی
وہ پیاری موہنی لڑکی
جو میرے اندروں میں رقص کرتی ہے
تو اس کے قدو قامت ، عارض ولب کو
اور اس کی تال کو اور ساز کو
لوگوں سے نہاں ، خاموش سا رکھا نہیں جاتا
مری جاناں
تمہارا حسن وہ ازلی حقیقت ہے
کہ جس پہ کوئی بھی دو رائے اور تمحیص مہمل ہے
(2)
مری جاناں
تمہیں کیسے چھپاوں میں
کہ میری اور تمہاری
یہ جو جیتی جاگتی اور گنگناتی سی محبت ہے
زمانے پر عیاں ہے
عیاں ہے یوں کہ جیسے
آگ سے جلتا ہوا جنگل
جسے کچھ بیسیوں چینل
مسلسل اپنے ٹی وی پر دکھاتے ہوں
(یہاں کے سب صحافی بس
تمہارے خوبرو پیکر سے اخبارات کا ٹائٹل بنانا چاہتے ہیں
مجھے یونان کا ہیرو بتا کر اور تمہیں دیوی بنالیں گے
تمہارا اور میرا عشق اسکینڈل بنا کر
نوٹ چھاپیں گے)
(3)
یہ ہم تم، جائیں تو جائیں کہاں آخر
سبھی چائے کے کھوکھوں کو زبانی یاد ہیں ہم تم
سبھی ہوٹل کے بیروں کو ہماری صورتیں ازبر
سبھی فٹ پاتھ کے پتھر
تمہارے اور مرے اک ساتھ چلتے
پاوں کی آہٹ سے واقف ہیں
یہ ہم تم جائیں تو جائیں کہاں آخر
ہمارا عشق دنیا پر عیاں ایسے
کہ جیسے ریتلے ساحل پہ گھر کی بالکونی ہو
کہ جیسے آبگینے میں سنہری ، تیرتی مچھلی
(4)
یہ میری بے بسی دیکھو
کہ میری شاعری میں لوگ تم کو ڈھونڈ لیتے ہیں
جو میری نظم پڑھ لے
وہ تمہاری آنکھ کی گہرائیوں کو جانچ لیتا ہے
مرے گھر کے پتے سے لوگ تیرے سرخ ہونٹوں کی
ضیا کو جان جاتے ہیں
درازوں میں مری الماریوں جب کوئی جھانکے
تمہیں سویا ہوا پائے
مرے کمرےکے کاغذ
کہ جن پر نامکمل شعر لکھے ہیں
کوئی پڑھ لے تو
تمہاری عادتوں کو جان جائے گا
یہ میری بے بسی دیکھو
(5)
خدا کا واسطہ، مجھ کو سکھا دو
تمہیں کیسے میں اپنے دائرے کی قید میں رکھوں
(رہائی کی جہاں ،صورت بھی عنقا ہو)
تمہارے جسم پر میں اک بنفشی مارکر لے کر
کہو تو دستخط کر دوں؟
(کہ تم اب صرف میری ہو)
خدا کا واسطہ مجھ کو سکھا دو
تمہیں کیسے میں اپنے عشق کی تحویل میں رکھوں
(کہ جیسے کوئی جملہ آخری نقطے میں ہر دم قید رہتا ہے )
پھر اس کے بعد سمجھا دو
تمہاری آنکھ کی بارش میں بھیگوں – ڈوب نہ جاوں
تمہارے مشک و عنبر میں بسے قالب سے لپٹوں -ہوش میں رہ لوں
فراز_ تن سے لڑھکوں – منتشر ہونے سے بچ جاوں
(6)
اے میری دلبریں جاناں
مری ان روزمرہ عادتوں سے یوں نہ جھلکو
قلم سے اور کاغذ سے
مری چابی کے گچھے سے
مری کافی سے ، چائے سے
مرے کپڑوں سے ، ٹائی سے
مری ہر بات میں تم ہو
کہ یوں اچھا نہیں لگتا
(مجھے ایسے ہی لگتا ہے)
کہ جیسے میں تمہاری انگلیوں سے شعر لکھتا ہوں
تمہاری آکسیجن سے میں جیسے سانس لیتا ہوں
تمہارے نیم وا ہونٹوں سے جیسے مسکراتا ہوں
یہ میں ہوں یا کہ تم ہو، سوچ کر آنسو بہاتا ہوں
(7)
اے دل میں جاگزیں لڑکی
ادھر آو
ذرا سی دیر کو بیٹھو
کہ اب ہم پیار کی اس جنگ کے نقشے کو دیکھیں گے
وہ نقشہ جو کہ تم نے خود پرستانہ
کسی منگول کی صورت بنایا ہے
(کہ جس،میں فتح کا امکان سو فیصد تمہارا ہے)
خدا وندوں کی طرح کے، اختیار _ کن سے باز آو
چلو آپس میں بیٹھیں
عشق کا آئین _ نو لکھیں
چلو یہ فیصلہ کر لیں
تمہاری چشم _ نازاں کی حکومت تا بہ کے ہے ؟
کہاں تک ، شہر_ غم میرا؟
سمندر ، پانیوں میں کس جگہ تک تم ہی حاکم ہو ؟
کہاں تک جوئے خوں میری ؟
بدن پر میرے ، تیری حکمرانی کس گھڑی تک ہے؟
(اور شب میں کس گھڑی اک بار پھر سے حکمرانی ابتدا ہوگی )
ہمارے پاس بیٹھو
جنگ کے کچھ ضابطے لکھیں
اگر میں جیت جاوں تو
(اگر چہ غیر ممکن ہے!)
تمہیں باندی نہیں بننا
اگر تم جیت جاو تو
(حقیقت – جس کو ہونا ہے )
تمہارے بیسیوں مفتوحہ ملکوں میں
مجھے چھوٹی سی آبادی نہیں ہونا
کہ پچھلی تین صدیوں سے
میں استعمار کی طاقت کا باغی ہوں
تمہارے حسن کی اس سامراجی قید سے آزادی کی خواہش ہے۔
محبت میں مجھے شاید کسی عزت کی خواہش ہے
مگر تم ہو کہ میری بات کو سنتی نہیں ہو
مگر تم ہو کہ میری ذات کی سنتی نہیں ہو
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی
انسان کے جسم کی تنظیم اور نشو ونما میں جو حیثیت قلب و دماغ کو حاصل ہے تقریبا یہی حیثیت اسلامی معاشرہ کی تنظیم و اصلاح اور تعلیم و تربیت میں مساجد کو حاصل ہے، دور نبوت اور بعد کے ادوار میں مساجد کا یہ کردار اس قدر مسلم تھا کہ اس کے بارے میں کسی کو کچھ بتانا تحصیل حاصل تھا، لیکن جوں جوں زمانے کی نیرنگیاں بڑھتی گئیں اور نظام تعلیم و تربیت کو مسجد سے باہر کرنے کی کوشش ہوتی گئی یہ چیز قصۂ پارینہ بنتی گئی، وہ دور ایک مثالی دور تھا، اس میں مرد و خواتین دونوں صنفیں مسجد کے فیض سے مستفیض اور اور اس کی ضیاپاشیوں سے مستنیر تھیں، فقہی نقطہ نظر سے خواتین کی مسجد میں آمد یہ دور نبوت سے آج تک کے تمام فقہاء و محدثین کے نزدیک بالاتفاق جائز رہا ہے، البتہ طبعی اور فطری نقطۂ نظر سے دور نبوت اور زمانۂ صحابہ میں بھی بعض لوگوں کو یہ بات بہت زیادہ ہضم نہیں ہوتی تھی جس کی مثالیں کتب حدیث میں موجود ہیں، فقہاء احناف کے یہاں قدیم قول کے مطابق خواتین کی مسجد میں آمد رخصت پر مبنی ہے اور نہ آنا عزیمت پر مبنی ہے، یہی نقطہ نظر آج کے بہت سے دار الافتاوں کا بھی ہے، متاخرین احناف میں سے بعض حضرات نے خواتین کی مسجد آمد کو مکروہ تحریمی بھی قرار دیا ہے، یہ تمام تفصیلات متعدد کتابوں میں دستیاب ہیں۔
لیکن پیش نظر جو کتاب ہے وہ اپنی تحقیق و تنقیح اور سلبی و ایجابی دونوں نقطۂ نظر سے بے مثال کتاب ہے، مصنف نے پہلے اس کتاب میں خواتین کی مسجد آمد کا تاریخی جائزہ لیا ہے اور ہر دور سے مثالیں پیش کرکے ثابت کیا کہ خواتین کا ہمیشہ سے مسجد سے رشتہ استوار رہا ہے اور ان کی تعلیم وتربیت میں بہت اہم کردار مساجد کا رہا ہے، نیز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جانب ممانعت کی جو بات منسوب ہے تاریخی دلائل سے اس کا غلط ہونا ثابت کیا ہے، دوسرے حصے میں فقہی نقطہ نظر سے اس کا جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسجد میں خواتین کی آمد ہی اس وقت بہترین اور موثر ترین ذریعہ ہے انکی اصلاح و تربیت کا، اور فتنے کے اندیشہ کو کم کرنے کے لئے اس طریقۂ کار کو اپنانے کی بھرپور وکالت کی ہے جو آج بہت سے ملکوں اور شہروں میں رائج ہے یعنی مسجد کا ایک حصہ ان کے لئے مخصوص کردینا۔
بر صغیر کے علماء کی اکثریت اس چیز کو زیادہ مناسب نہیں سمجھتی اور دار الافتاء وغیرہ سے اس کی حوصلہ افزائی بھی نہیں ہوتی خود راقم الحروف کو بھی اس موضوع پر بہت زیادہ شرح صدر نہیں تھا؛ لیکن اس کتاب کو تین مرتبہ بالاستیعاب پڑھنے، دیگر تحریروں کو دیکھنے اور معاشرہ کی مجموعی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ رجحان بنا کہ پارٹیشن کے ساتھ خواتین کی نماز کا انتظام مساجد میں ہونا چاہیے بطورِ خاص شہر اور بازار کی مساجد میں کہ وہاں اس کی زیادہ ضرورت ہے، اس لیے اس کتاب کے بارے میں میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ یہ کتاب "ایک رجحان ساز اور ذہن ساز کتاب” ہے، علماء اور مفتیان کرام کو ضرور یہ کتاب پڑھنی چاہیے اور اپنے قدیم نقطۂ نظر پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ کتاب کے مصنف چونکہ احقر کے استاذ محترم ہیں اور مجھے چار سال تک مدرسہ سیدنا بلال ڈالیگنج لکھنؤ میں آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے؛ اس لیے مزید کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا، چنانچہ بمصداق مشک آنست کہ خود ببوید ناکہ عطار بگوید آپ خود کتاب پڑھیے اور فیصلہ کیجیے، بس دعاء ہےکہ اللہ تعالیٰ استاذ محترم کی اس کتاب نایاب کو قبولیتِ عامہ و دائمہ عطاء فرمائے۔
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کو ملی راحت،بامبے ہائی کورٹ نے جیل سے فوراً رِہا کرنے کا حکم دیا
ممبئی :بامبے ہائی کورٹ نے دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کو مبینہ ماؤوادی لنک معاملے میں بڑی راحت دی ہے۔ بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے سائی بابا کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔ عدالت نے انھیں فوراً جیل سے رِہا کرنے کا حکم بھی صادر کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے اس معاملے میں دیگر 5 افراد کو بھی رِہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ان سبھی لوگوں کے خلاف اگر کوئی کیس درج نہیں ہو تو انھیں فوراً جیل سے بری کر دیا جائے۔ واضح رہے کہ ملزمین میں ایک شخص کی پہلے ہی موت ہو چکی ہے۔جسٹس روہت دیو اور انل پانسرے کی بنچ نے جی این سائی بابا کے ذریعہ ذیلی عدالت کے 2017 کے حکم کو چیلنج دینے اور انھیں تاحیات جیل کی سزا دینے کی اپیل کی بھی اجازت دے دی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جی این سائی بابا معذور ہیں۔ وہ ہیل چیئر کا سہارا لے کر چلتے ہیں اور ناگپور سنٹرل جیل میں بند ہیں۔واضح رہے کہ مہاراشٹر کے گڑھ چرولی ضلع کی ایک سیشن عدالت نے مارچ 2017 میں جی این سائی بابا، ایک صحافی اور جے این یو کے ایک طالب علم سمیت دیگر کو ماو?وادی لنک اور ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سرگرمیوں سے جڑنے کے معاملے میں قصوروار قرار دیا تھا۔ عدالت نے یو اے پی اے اور تعزیرات ہند کے الگ الگ دفعات کے تحت قصوروار ٹھہرایا تھا۔اس سے قبل جی این سائی بابا نے جیل میں بھوک ہڑتال کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جیل کی کوٹھری کے اندر سی سی ٹی وی کیمرہ لگانے کی انھوں نے مخالفت کی تھی اور غیر معینہ بھوک ہڑتال پر جانے کی دھمکی دی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ سی سی ٹی وی کیمرہ بیت الخلاء کے فوٹیج ریکارڈ کرے گا۔ اس کے بعد ان کی بیوی اور بھائی نے مہاراشٹر کے وزیر داخلہ دیویندر فڈنویس کو خط لکھ کر جیل کی کوٹھری سے سی سی ٹی وی کیمرے کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
وارانسی: وارانسی کی عدالت کا فیصلہ آگیا ہے۔ عدالت نے گیان واپی مسجد کے وضوخانہ سے دریافت کئے گئے مبینہ شیولنگ کی کاربن ڈیٹنگ کے مطالبے کو خارج کردیا ہے۔ضلعی عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ مسجد میں پائے جانے والے شیولنگ کی کاربن ڈیٹنگ کرنے سے اس کی عمر سے متعلق سائنسی ثبوت حاصل نہیں کیے جائیں گے۔ ہندو فریق اس شیولنگ کو قدیم وشویشور مہادیو کہہ رہا ہے۔ جبکہ مسلم فریق کاربن ڈیٹنگ کی مخالفت کر رہا ہے اور اسے مسلسل چشمہ قرار دے رہا ہے۔عدالت کے فیصلے سے ایک بار پھر گیان واپی معاملہ گرم ہو گیا ہے۔ وارانسی کی عدالت نے کاربن ڈیٹنگ کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔وارانسی کی ضلعی عدالت میں گیان واپی کیس کی سماعت جاری ہے۔ گیان واپی کیس میں بڑا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے پوجا سے متعلق عرضی کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔اس کے بعد ہندو فریق کاربن ڈیٹنگ کے حق میں فیصلے کی توقع کر رہا تھا۔ اس سے قبل مفروضہ شرینگر گوری کی روزانہ پوجا کرنے کا مطالبہ کرنے والی پانچ خواتین کی درخواست پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ ہندو فریق نے کیس کی برقراری کے حوالے سے سماعت جیت لی۔ اب مسلم فریق کاربن ڈیٹنگ کے حق میں فیصلے کو اپنی بڑی فتح سمجھ رہا ہے۔وارانسی کی عدالت میں دونوں طرف کے لوگ موجود تھے۔ ہندو فریق نے عدالت جاتے ہوئے مذہبی نعرے لگائے۔ اس کے علاوہ حق میں فیصلہ آنے کی امید ظاہر کی۔ عدالت میں فریقین کے 62 افراد موجود تھے۔ ڈسٹرکٹ جج اجے کمار وشویش کی عدالت نے جمعہ کو فیصلہ سنایا، جو 11 اکتوبر2022 کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔