4 اکتوبر, 2022
شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سبجیکٹ ایسوسی ایشن ”بزمِ جامعہ“ کی تشکیلِ نو
نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سبجیکٹ ایسوسی ایشن کے دستور کے مطابق ہر شعبے کی ایک طلبا تنظیم ہوتی ہے، جس کا مقصد تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیاں انجام دینا ہے۔ شعبہ اردو کے طلبا کی ادبی و ثقافتی تنظیم ”بزمِ جامعہ“ سیشن 2022-23 کی تشکیلِ نو عمل میں آئی۔ رواں میقات میں بزمِ جامعہ کے صدر خود صدرِ شعبہ پروفیسر احمد محفوظ ہیں۔ انھوں نے ڈاکٹر خالد مبشر کو ایڈوائزر مقرر کیا اور ان کے ساتھ اساتذہ میں پروفیسر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ، ڈاکٹر خوشتر زریں ملک اور ڈاکٹر راحین شمع کو بزمِ جامعہ کا رکن نامزد کیا۔
طلبا میں سے بزمِ جامعہ کے عہدہ داران اور اراکین باضابطہ الیکشن کے ذریعے منتخب کیے جاتے ہیں۔ چناں چہ سفیر صدیقی (ایم۔ اے۔ سمسٹر سوم) نائب صدر، عبدالرحمٰن عابد (ایم۔ اے۔ سمسٹر اول) جنرل سکریٹری، داؤد احمد (بی۔ اے۔ سمسٹر پنجم) جوائنٹ سکریٹری اور زاہد اقبال (بی۔ اے۔ سمسٹر سوم) خازن منتخب ہوئے۔
اس کے علاوہ ہر کلاس سے ایک طالب علم اور ایک طالبہ کو بزمِ جامعہ کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا۔ جن میں ایم۔ اے۔ سمسٹر سوم سے محمد مہتاب عالم اور مسکان، ایم۔ اے۔ سمسٹر اول سے محمد ثاقب اور نازنین خاتون، پی جی ڈپلوما ماس میڈیا سے عبدالواحد رحمانی اور اقرا خاتون، بی۔ اے۔ سمسٹر پنجم سے محمد جیلانی اور سعدیہ احمد، بی۔ اے۔ سمسٹر سوم سے محمد اظہر شمشاد اور نبیلہ کوثر اور بی۔ اے۔ سمسٹر اول سے محمد رضاء الرحمٰن اور صدف معین بزمِ جامعہ کے اراکین منتخب ہوئے۔
صدرِ شعبہ پروفیسر احمد محفوظ نے بزمِ جامعہ کے نومنتخب عہدے داران اور اراکین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ نوتشکیل شدہ بزمِ جامعہ شعبہ اردو میں صحت مند علمی اور ادبی فضا قائم کرنے میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے طلبا کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوشش کرے گی۔
بات اسی کی دہائی کی ہے۔اس وقت میں والدین کے ساتھ دھنباد ،جھارکھنڈ میں رہا کرتا تھا۔ابا مرحوم ایک اُردو اخبار ضرور گھر پر منگواتے تھے۔اُنھیں اخبار بینی کا شوق تھا جو آخری وقت تک رہا۔دھنباد سے کوئی اُردو روزنامہ شائع نہیں ہوتا تھا اس لئے کلکتہ سے شائع ہونے والا اردو اخبار آزاد ہند میرے گھر آتا تھا ۔حالانکہ اخبار مشرق بھی دھنباد میں فروخت ہوتا تھا لیکن اس کی تعداد مختصر ہوا کرتی تھی ۔ دھنباد میں آزاد ہند زیادہ تعداد میں پڑھا جاتا تھا۔صرف دھنباد میں ہی نہیں پورے چھوٹا ناگپور میں جو اب جھارکھنڈ بن چکا ہے وہاں آزاد ہند سب سے زیادہ فروخت ہونے والا اردو اخبار تھا۔اخبار کا ایڈیٹوریل یقیناً مجھے متاثر کرتا تھا ۔سیاست اور کھیل میرا پسندیدہ موضوع ہوا کرتا تھا اس لئے سیاست اور کھیل کے صفحات کو بڑے انہماک سے پڑھتا تھا ۔مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے غالباً نوّے کا آغاز تھا ۔بہار میں اسمبلی کا چناؤ ہو رہا تھا ۔میرا جس گجواتنڈ میں گھر ہے اس کے بغل کے محلّہ منائی تاند کے رہنے والے کھنڈیوال نامی ایک بزنس مین نے دھنباد اسمبلی حلقہ سے چناؤ میں آزاد امیدوار کھڑے ہوئے تھے ۔کھنڈیوال کا چھوٹا بھائی میرے ساتھ اسکول میں میٹرک تک پڑھا تھا ۔اس نے اپنے بھائی سے ملایا اور کہا کہ اُردو اخبار میں کچھ لکھانا ہوگا تو یہ لکھ دے گا۔تب تک میں نے اپنی پڑھائی پوری نہیں کی تھی اور مختلف مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کیا کرتا تھا ۔ اسی چناؤ کے درمیان ایک دن ایک شخص میرے گھر آیا اور کہا رات دس بجے کے قریب khandelwal صاحب سے اُن کی رہائش گاہ پر مل لیں اُنھیں آپ سے کچھ کام ہے ۔دس بجے رات کے قریب میں اُن کے گھر پہنچا جہاں باہر کی جانب بڑی آفس تھی ۔وہاں لوگوں کا ہجوم جمع تھا ۔تھوڑی دیر رکنے کے بعد khandelwal صاحب کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ مجھے ساتھ لے کر ایک کمرے میں پہنچے تاکہ چناؤ کی تیاری پر کچھ بات ہو سکے ۔میں اس کمرے کی صوفے پر جیسے ہی بیٹھا khandelwal نے کہا کہ اُردو اخبار آزاد ہند میں میرا اشتہار شائع کرا سکتے ہیں ؟ مجھے اس بابت کوئی جانکاری نہیں تھی لیکن میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد ہاں کہہ دیا ۔khandelwal صاحب نے کہا کہ پیسے کی فکر مت کرنا لیکن کام کسی بھی طرح ہونا چاہیے ۔مجھے یہ پتہ تھا کہ دھنباد میں آزاد ہند کا کوئی نامہ نگار نہیں تھا تو وہاں کس سے رابطہ کروں ۔میں نے پھر کہا کہ اس اشتہار کو شائع کرانے مجھے کلکتہ جانا پڑےگا۔دھنباد اور کلکتہ کی دوری ٹرین سے صرف ساڑھے تین سے چار گھنٹے کی ہے ۔khandelwal صاحب نے اشتہار کا کاغذ تھماتے ہوئے مجھے کہا کہ ٹھیک ہے کل چلے جائیں۔میں کلکتہ اس لئے بھی جانے کے لئے تیار ہو گیا کہ اس اخبار کا ایڈیٹوریل لکھنے والی شخصیت سے رو برو ہو سکوں ۔صبح چھ بجے کول فیلڈ ایکسپریس دھنباد سے کلکتہ کے لیے کھلتی تھی ۔میرا کلکتہ کا دوسرا سفر تھا ۔رات بھر سو نہیں سکا اور آزاد ہند کے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی سے ملاقات کا خیال آتا رہا ۔صبح وقت سے پہلے اسٹیشن پہنچ گیا ۔کولڈ فیلڈ ایکسپریس وقت پر یعنی ساڑھے دس بجے ہورہ پہنچ گئی۔میں راستے میں ناشتہ کر کے پونے بارہ بجے کے قریب آزاد ہند کے دفتر جو بڑا بازار سے کچھ آگے تھا مجھے محلّہ یاد نہیں آ رہا ہے۔پوری بلڈنگ آزاد ہند کی تھی۔آزاد ہند کے دفتر میں اندر جاتے ہوئے میں نے کہا کہ میں دھنباد سے آیا ہوں مجھے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی صاحب سے ملنا ہے۔وہاں موجود ایک صاحب نے کہا کہ سعید صاحب تو تین بجے آئیں گے ۔لیکن آپ کو کیا کام ہے بتائیں۔میں نے کہا کہ اُن سے ہی کام ہے اور یہ کہہ کر دفتر سے نکل گیا ۔تین گھنٹے کہاں گزاروں ایک انجان شہر میں وہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔خیر دھرم تلہ میں کچھ وقت گزارا اور پھر بڑا بازار میں امینیہ ہوٹل میں کھانا کھانے آ گیا۔کھانا کھانے کے بعد گھڑی میں وقت دیکھا تو ڈھائی بج چکے تھے ۔پندرہ بیس منٹ پیدل چل کر میں تین بجے سے پہلے آزاد ہند کے دفتر میں پہنچ چکا تھا ۔اس وقت تک سعید صاحب دفتر نہیں پہنچے تھے لیکن تھوڑی دیر میں ہی احمد سعید ملیح آبادی صاحب دفتر آ گئے۔تھوڑی دیر بعد وہاں موجود ایک صاحب سے کہا کہ کیبن میں اطلاع کر دیں ۔جیسے ہی اس شخص نے اندر پیغام دیا مجھے اندر آنے کہا گیا ۔ سلام کرکے کیبن کے اندر گیا مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا میں کیا بولوں ۔کچھ دیر خاموشی کے بعد میں نے کہا کہ سر میں دھنباد سے آیا ہوں۔میرا مقصد تو ایک اشتہار شائع کرانا ہے جو آپ سے ملے بنا ہی ہو سکتا تھا لیکن میرا مقصد آپ سے ملنا ہے ۔وہ خاموشی سے میری بات سنتے رہے ۔پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ ابھی کیا کرتے ہیں ۔میں نے کہا کہ میرا ایم اے فائنل ہے اور مقابلہ جاتی امتحانات دے رہا ہوں ۔سعید صاحب نے اس وقت کہا تھا کہ اگر اُردو صحافت میں قسمت آزمائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ فیلڈ کافی جدّو جہد بھرا ہے۔دور سے سب کچھ اچھا نظر آ رہا ہے لیکن اس فیلڈ میں پیسے نہیں ہیں۔میں نے پھر کہا کچھ لکھ کر بھیجوں گا تو شائع ہوگا۔اُنہوں نے کہا ضرور بھیجیں بلکہ جب دھنباد میں رہیں تو نیوز بھی بھیجیں ۔تقریباً دس مِنٹ وہ مجھ سے بات کرتے رہے ۔مجھے وہاں سے اٹھنے کا دل نہیں کر رہا تھا ۔تب اُنہوں نے کہا کہ بات چیت میں جس کام کے لیے آپ آئے ہیں وہ نہ رہ جائے۔اُنہوں نے بیل دبایا اور کہا کہ فلاں صاحب کے پاس لے جائیں اخبار میں اشتہار انہیں دینا ہے۔پھر میں نے محکمہ اشتہار میں اشتہار کے مضمون اور پیسے دیے ۔پیسے دینے کی رسید لے کر میں ایک بار پھر سعید صاحب کی کیبن میں اُنھیں سلام کر کے دفتر سے نکل گیا۔سعید صاحب بھلے ہی کمیونسٹ اور کانگریس کی مدد سے راجیہ سبھا میں گئے تھے لیکن ان کا رحجان کانگریس کی جانب تھا۔اکثر ان کا اخبار کمیونسٹ سرکار کے خلاف لکھتا رہتا تھا ۔رات میں ٹرین پکڑ کر میں دھنباد آ گیا۔دوسرے دن اشتہار بھی شائع ہو گیا ۔سعید صاحب سے ملاقات کے بعد میں نے کئی مضمون کھیل اور سیاست پر آزاد ہند کو بھیجے جو نمایاں کر کے شائع ہوتے رہے۔یہاں تک کہ کوئی نیوز بھی بھیج دیتا تھا تو میرے نام سے شائع ہو جاتا تھا ۔لیکن اس ملاقات کے بعد سعید صاحب سے پھر ملاقات نہیں ہوئی۔حتٰی کہ کل جب اُن کی موت کی خبر سوشل میڈیا پر دیکھی تو پتہ چلا کہ وہ اب تک حیات سے تھے۔احمد سعید ملیح آبادی صاحب نے زندگی میں جو مقام حاصل کیا شاید ہی کسی صحافی خاص کر اُردو صحافی کو حاصل ہوا ہوگا ۔اللہ اُنھیں آخرت میں بھی وہی مقام دے، آمین۔