حیدرآباد: (اسماء امروز)
’’داستان اپنے زمانے کی تہذیب اور کلچر کوسمجھنے کا سب سے اچھا ذریعہ ہے۔جس کی روشنی میں اس دور کے معاشرے کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ پہلے زمانے میں داستانیں تفریح کا ذریعہ تھی ۔شام کو چوپال پر بیٹھ کر وقت گزاری کیلئے داستانیں کہی اور سنی جاتی تھی بعد میں اسے تحریری شکل دیا گیا۔ جسے دور حاضر میں فلموں کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔
داستان کے واقعے عام طور سے بیرون ممالک کے ہوتے تھے مثلا روم،شام،ایران،عجم ،مصر وغیرہ اس کی وجہہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ محض یقین پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا تھا ‘‘۔پروفیسر ابن کنول نے شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد میں توسیعی خطبہ میں داستان پر گفتگو کرتے ہوئے موضوعات اور فنی اعتبار سے داستانوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی انہوں نے بتایا کی مثال کے طور پے اگر ہم حیدر آباد کے لوگوں کو چار مینار میں دیو دیکھنے کا واقعہ بیان کریں تو کوئی یقین نہیں کریگا اور اگر دور دراز کے شہروں کا واقعہ بیان کریں تو اس سے حیرت و استعبجاب پیدا کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید داستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ داستانوں میں ہمیشہ بادشاہوں، شہزادوںکے قصے ہوتے ہیں ۔جس میں قوت متخیلہ اور ذخیرہ الفاظ کے ذریعہ بات سے بات پیدا کی جاتی ہے۔مزیدانہوں نے ریسرچ اسکالرس کو تخلیق کی اہمیت سمجھاتے ہوئے کہا کہ تخلیق ہی انسان کو زندہ رکھتی ہے اسی لئے آپ تخلیق کریں۔
پانچواں ں توسیعی لیکچر بعنوان ’’داستان کا فن ‘‘بمقام کانفرنس ہال،شعبہ اردو،یونیورسٹی آف حیدر آباد میں عمل میں آیا۔ پروفیسرابن کنول نے اپنی تقریر کا آغاز میں کہا کہ لاک ڈاون میں بچے اکثر یہ سوال کیا کرتے تھے کہ ہم تحقیقی کام کیسے کریں لائبریریاں بند ہیں۔
ہمارے پاس کتابیں موجود نہیں ہیں لیکن یقین جانے کہ یہ کام کرنے کے لئے سب سے اچھا وقت تھا ۔ جہاں تک مواد کی بات رہی تو آن لائن ویب سائیٹس پرہزاروں کتابیں موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ میں نے خود لاک ڈاون میں زیادہ کام کیا میری کتاب’’ داستان کی جمالیات ‘‘لاک ڈاون میں ہی لکھی گئی انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے اکثر خاکے ، انشائیے،سفرنامے لاک ڈاون کے زمانے میں ہی تحریر کئے گئے ہیں ۔
یعنی ان کی پانچ کتابیں لاک ڈاون میں ہی شائع ہوئی انہوں نے کتابوں کی تصنیف کے حوالے سے اساتذہ کو اس بات کی ترغیب دلائی کہ وہ بھی کچھ کتابیں طالبے علموں کیلئے لکھے جس سے طالبے علم باآسانی استفادہ کر سکیں۔
پروفیسر فضل اللہ مکرم‘ صدر شعبہ اردو ‘یونیورسٹی آف حیدرآباد نے پروفیسر ابن کنول کا تعارف کرواتے ہوے بتایا کہ پروفیسر ابن کنول عالمی شہرت یافتہ ادیب ہیں انہوں نے کئی ممالک کا سفر کیا۔ وہ ایک بہترین نقاد، عمدہ محقق، خاکہ نگار، انشائیہ نگار اور باکمال افسانہ نگار بھی ہیں۔ غرض کے ان کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔ آپ نے بیشتر اصناف سخن کا احاطہ کیا بالخصوص داستانوں کی تنقید، تشریح و تفہیم کے حوالے سے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
اس موقع پر مہمان خصوصی پروفیسر فاروق بخشی (مانو) کا شکریہ ادا کرتے ہوے پروفیسرفضل اللہ مکرم نے کہا کہ فاروق بخشی صاحب کی سبکدوشی کے بعد حیدرآباد چھوڑنے پرافسوس کا اظہار کیا اور فرمایا کہ وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گے پھر ان کی تہنیت کی گئی ۔
پروفیسر فاروق بخشی نے اولا تو صدر شعبہ کا شکریہ ادا کیااور پھر اپنی بہت مختصرتقریر میں بڑے پتے کی باتیں کہیں۔ انہوں نے ابن کنول کے بارے میں ایک یادگار جملہ کہا ۔’’گیان چند جین کے بعد داستانوں کی تنقید پر اگر کسی کا سب سے اچھا کام ہے تو وہ ابن کنول کا ہے ‘‘پروفیسر فاروق بخشی نے پوری تقریر میں صرف طلباء کو ہی مخاطب کیا۔
انہیں ڈھیروں نصیحتیں کیں انہوں نے کہا کہ ایک طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ سوال کرے اور استاد پر فرض ہے کہ وہ بچوں کو سوال کرنے پر اکسائے اور وہ سوالوں کا جواب دے اور اگر کوئی استاد ایسا نہیں کرتا تووہ صحیح معنوں میں استاد نہیں۔
پروفیسرابن کنول کے اس پرمغز لیکچر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا طلبہ نے سوالات کیے جن کا ا بن کنول نے تشفی بخش جواب دیا جلسے کے اختتام پر پروفیسر فضل اللہ مکرم نے کہا کہ آج بھی داستان کا دور ہے۔ہماری زندگی پر داستان کے اثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ سائنس فکشن نے داستانوں کو فروغ دیا ہے۔آج داستانیں پڑھی اور دیکھی جاتی ہیں۔انہوں نے تمام مہمان گرامی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تمام حاضرین محفل کا بھی شکریہ ادا کیا ۔اس توسیعی خطبہ میں شعبہ اردو کے تمام اساتذہ اور طلبا و ریسرچ اسکالرز کے علاوہ مانو کے ڈاکٹر ابو شہیم خان اور ڈاکٹر ظفر گلزار بھی شریک تھے۔