19 ستمبر, 2022
مجھ سےبعض خیرخواہوں، متعلقین اور نادیدہ اہل تعلق تحریری سوال کرتے ہیں کہ میں دینی مدارس کو درپیش چیلنجز اور مشکلات کے تعلق سے کچھ لب کشائی یاگرہ کشائی کروں، آپ خود ہی بتائیں میں کیاکہوں اور کیانہ کہوں، کون ساعلاج تجویز کروں اور کون سا چھوڑدوں؟ کس درد کامداوا بیان کروں اورکس کوخوبی تصور کرلوں؟
تن ہمہ داغ داغ شدپنبہ کجاکجانہم
جس رسی کومضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنے اور تھامے رہنے کی تاکید خود خدائے لم یزل ولایزال نے فرمائی ہے ہم سے وہ رسی ہی چھوٹ گئی ہے ، جس اعتصامِ کتاب کی ہمیں تلقین کی گئی ہم اس میں غافل ہوگئے، جس تقویٰ اور تدین پرہمیں ڈالا گیاہم منحرف ہوگئے، جس شریعت کاہمیں خوگربنایا گیا ہم جادۂ اعتدال سے ہٹ گئے، جس اسوہ کوحسنہ فرمایا گیاہم نے اس کی طرف سے غفلت برتی، جس توکل کو ہمیں اختیار کرنا چاہئے تھاہم سے کوتاہی ہوئی، وہ زمانہ دوسراتھاجب علامہ اقبال نے کہاتھا:
’’ان مکتبوں اورمدرسوں کویوں ہی رہنے دو‘‘۔ آج نہ وہ مکتب ہیں،نہ وہ مدارس ہیں، نہ وہ حوصلے ہیں،نہ وہ تقویٰ ہے ، نہ وہ سادگی ہے، نہ وہ شفافیت ہے،نہ خوف خدا ہے نہ وہ ذکرالٰہی ہے،نہ وہ دعائیں ہیں نہ مناجات ہے،نہ شب بیداریاں ہیں نہ جگرسوزیاں ہیں،نہ منکرات پرنکیر ہے نہ مرفوعات پرعمل ہے،نہ دین سے عشق ہے نہ مسلک سے محبت ہے۔ہمارے دینی تعلق کایہ عالم ہے کہ اگرہمیں کوئی گالی دیدے تو ہم اس کا گلادبادیں گے ،ہماری طرف کوئی آنکھ اٹھاکر دیکھ لے توہم اس کی آنکھ پھوڑدیں گے، ہمیں کوئی طمانچہ ماردے توہم اس کاہاتھ توڑدیں گے،ہمیں کوئی کچھ کہہ دے توہم اس کی زبان کھینچ لیں لیکن ہمارے نبی کی شان میں گستاخیاں ہوتی رہتی ہیں،امہات المؤمنین کی شان میں نازیبا کلمات بکے جاتے رہے، صحابۂ کرام پرسب وشتم کیا جاتا رہا،قرآن کریم پر اعتراضات شروع ہوگئے، ہمارے دین پر انگلیاں اٹھنے لگیں ، ہمارے ائمہ کی توہین کی جانے لگی، ہمارے شعائرمقدسہ پرکیچڑ پھینکا جانے لگا، ہمارے نظام زندگی اورہمارے کردار پرتھوکا جانے لگا اورہم اتنے سردمہر،چکنے گھڑے، دیوث،بزدل، ناخواندہ، کندہ ناتراش، مصلحت پسند اور اتنے کھڑوس ہوگئے کہ ہمارے کانوں پرجوں نہیں رینگی، ہماری آنکھیں تر نہیں ہوئیں،ہمارے جسم پرلرزہ طاری نہیں ہوا،ہمارے اندرون میں کوئی اضطرابی کیفیت پیدا نہیں ہوئی ۔
کہتے ہیں کہ مدارس دین کے قلعے ہیں،پاورہاؤس ہیں،عقیدہ وعمل کی چھاؤنیاں ہیں ذرا پیچھے مڑکرتو دیکھئے کیاہورہاہے؟ مدارس چلانے کے لئے چندے کی ضرورت لابدی ہے چندے کے لئے سفرا اورمحصلین کی ضرورت ہے،تحصیل کے لئے اصحاب خیرکی ضرورت ہے۔تجارت اور صنعت ،زراعت اور ملازمت ہرجگہ کوتاہیوں پر کوتاہیاں ہورہی ہیں ،ملازمین کام چوری کرتے ہیں، انجینئر بددیانتی کرتے ہیں،تجار و کاشتکار سبھی نے تقویٰ کوخیربادکہہ دیاہے،حلال میں حرام مل چکاہے، بلکہ اب حلال پرحرام کی حکمرانی ہے،حرام کی کل آمدنی میں حلال کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے آٹے میں نمک کی ہوتی ہے ۔سودی کاروبار پر پورانظام چل رہاہے، گویا ہمارے سفراء چندہ کے نام پرجو کچھ لارہے ہیں اس میں حرام کی آمیزش سے انکارنہیں کیا جاسکتاہے دوسری طرف سفراء کی حالت دیکھئے اگر مدرسہ میں بچے سوہیں تو تعداد دوسو بتائی جاتی ہے،سالانہ خرچہ ایک لاکھ ہے تودو لاکھ بتایا جاتا ہے،مدرسین وملازمین دس ہیں تواس میں بھی جھوٹ بولاجاتا ہے اورتعداد بڑھا چڑھا کربتائی جاتی ہے کیونکہ چندہ دینے والو ں کوبھی شاید سچ پسندنہیں ہے اس لئے وہ خودمجبورکرتے ہیں کہ جھوٹ بولو،جھوٹ بولو، جھوٹ بولو۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہماری بنیاد ہی جھوٹ پرقائم ہوچکی ہے ،آج یہ عام ابتلا ہے، کتابیں ،کتابچے، پمفلٹ، رودادیں، اجمالی گوشوارے ہر جگہ یہی عمل کارفرماہے ،کسی بھی ادارے کے پمفلٹ دیکھ لیجئے، اچانک بلااطلاع تصدیق کے لئے پہنچ جائیے سچ اورجھوٹ واضح ہوجائے گا۔
حرام اوراورمشکوک مال کھاکر کون رازی اورغزالی بناہے، کون نانوتوی اورتھانوی بناہے؟ریت پرکون سی عمارتیں قائم اورمقیم رہی ہیں،کعبہ کے اندرسے کفرپرورش پارہاہے اورہم سمجھتے ہیں کہ سب کچھ اچھاہے۔
پڑھانے والے حضرات نے تنخواہوں کے لئے پڑھاناشروع کردیا ہے، توکل کہاں ہے مجھے نہیں معلوم؟درس گاہوں میں وقت پر حاضری خوف خدا کی وجہ سے نہیں کٹوتیٔ مشاہرہ کی وجہ سے ہورہی ہے یعنی ہماری نیت میں فتورپیدا ہوچکا ہے ، طلبہ کو دیکھئے گھروالے زکوۃ دے رہے ہیں اوران کابچہ یہاں مدرسہ میں زکوۃ کھا رہاہے،جیب میں مہنگاموبائل ہے، اے ٹی ایم ہے،فون پے اورپے ٹی ایم کی سہولت ہے، اب توآدھار کارڈ سے ہی بینک سے پیسے نکالنے کی آسانی ہے پھربھی امیرطالب علم مال کامیل کھاکرخوش ہے کہ وہ دینی تعلیم حاصل کررہاہے، اگرپتہ چل جائے کہ آج درسگاہ میں حاضری ہوگی توتمام درگاہیں طلبہ سے کھچاکھچ بھرجاتی ہیں کیوں؟تاکہ کھانانہ بند ہوجائے، اخراج نہ ہوجائے ۔
تعلیم میں محنت اور دلچسپی روزگار کے لئے نہیں اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت کی ترویج پیش نظررہنی چاہئے روزی تواللہ تعالیٰ دیتاہی ہے اس کاذمہ اسی نے لیاہواہے وہ ہر ایک کو روزی دیتاہے ،اٹھارہ ہزار مخلوق میں صرف انسان کماتا ہے باقی تمام کورزق کون دیتاہے ؟
دینی مدارس کے حالیہ سروے کی بات آئی توبے چینی پیدا ہوگئی حالانکہ یہ بے چینی تب پیداہونی چاہئے تھی جب فتنہ نے سرابھارنے کی پہلی بار کوشش کی تھی، شریعت میں مداخلت ہوتی رہی،مدارس پر قدغن لگتی رہی،عبادت گاہوں پر پابندیاں لگتی رہیں، عقائد پرشب خون ماراجاتارہا، آزادی کے بعدسے ہی ایسے ایسے قانون بنتے اورنافذ ہوتے رہے جن کا مقصد اور ہدف صرف اور صرف دین اورمسلمان تھے اور اب جب ہماری طاقتوں کا کفرنے خوب اندازہ کرلیا، ہمارے ایمان کوخوب پرکھ لیا،ہماری غیرت کو خوب جانچ لیا، ہماری بزدلی کاپورا یقین ہوگیا تواب وہ جوکچھ بھی کرے کرنے کاحوصلہ بھی ہے اورنفاذ کی قوت بھی ۔
کل قیامت کے دن مجرموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یعرف المجرمین بسیمٰہم فیؤخذبالنواصی والأقدام۔مجرم لوگ اپنے چہرے کے نشانات سے پہچانے جائیں گے پس پیشانی کے بالوں اورپاؤں سے پکڑے جائیں گے۔
یہ دھڑپکڑ توکل قیامت کی ہے دنیا بھی ایک امتحان گاہ ہے ، دارلامتحان میں رہ کربھی جب ہم جرم پرجرم کر رہے ہیں حال یہ ہے کہ ہمیں پتہ ہے کہ ہم اُس لائن اورقطارمیں کھڑے ہیں جورفتہ رفتہ حساب اور کتاب کی طرف بڑھ رہی ہے اورہم اِس قطارسے باہرجانہیں سکتے ،بھاگ نہیں سکتے۔
بے شک جن لوگوں نے جرم نہیں کیاہے ان کے قدم جج کے سامنے کانتے نہیں ہیں، لڑکھڑاتے نہیں ، ان کی نظریں احساس جرم کاشتکار نہیں ہوتیں، ان کی نظریں جھکتی نہیں ہیں ،ان کا سینہ تنا رہتاہے اور جن لوگوں کے دامن داغ دار ہوتے ہیں،جن کے حساب کتاب میں کمی ہوتی ہے ،جنہوں نے جرم کاارتکاب کیاہوتا ہے ،جن کے اعمال نامے میں سیاہیاں ہی سیاہیاں ہوتی ہیں تووہ کانپتے بھی ہیں ، خوف زدہ بھی ہوتے ہیں، لرزتے بھی ہیں اوران کی زبان لڑکھڑاتی بھی ہے۔شیخ سعدی نے کیاخوب کہاہے :
آں را کہ حساب پاک است ازمحاسبہ چہ باک است‘
جن لوگوں کاحساب وکتاب صاف وشفاف ہوتاہے انھیں محاسبہ کاکوئی خوف وخطرنہیں ہواکرتا۔
تالاب کی ساری ہی مچھلیاں خراب نہیں ہوتی ہیں لیکن بدنام سبھی ہوجاتی ہیں، سارے ہی مدارس کایہ حال نہیں ہے کچھ ہی مدارس ہیں جنھوں نے گڑبڑی پیدا کررکھی ہے لیکن جھیلناسبھی کوپڑرہا ہے ۔
یہ گھڑی محشرکی ہے توعرصۂ محشرمیں ہے
پیش کرغافل ،عمل کوئی اگردفترمیں ہے
حکمراں ہمارے اعمال کاعکس اور پرتوہوتے ہیں ہم خود کو تو کچھ نہیں کہتے اور حکمرانوں پرانگلی اٹھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔ابھی توسروے شروع ہواہے ، آگے کیاہوتاہے ہمیں خبرنہیں البتہ اتنا ضرورہے کہ یہاں کی رسوائی وہاں کی رسوائی سے بہت کم ہے ۔
خدارا! اپنی زندگی کے ہرحصہ میں دین کو لازم اور لازب کر لیجئے۔
ہندی مسلمانوں کے سکول اور مدارس اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی تعلیمی پالیسی! ۔ عاطف سہیل صدیقی
تقریبا ایک سال قبل ایک طویل مضمون راقم نے اہل علم کی توجہ مبذول کرانے کے لیے شیئر کیا تھا۔ آج اس کے آخری حصے کو شیئر کرنے کی پھر ضرورت محسوس ہوئی، ملاحظہ فرمائیں ۔
۔۔۔اس کے بعد مدارس کو لیکر نئی تعلیمی پالیسی کی متعلق کچھ کہنے کی جسارت کرتا ہوں ۔ مدارس کے تعلیمی نظام اور نصاب دونوں میں کچھ ترمیم کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اور اکثر مدارس کے نظام و نصاب کو ہدف تنقید بنایا جاتا ریا ہے ۔ بہرحال ایک نئی تعلیمی پالیسی بھی مدارس کی بقاء اور معاشرے میں انکی افادیت کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے۔ اس کے لیے ہم اپنے مدارس کو دو قسموں میں منقسم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ مدارس جو خالص اسی منہج پر قائم رہنے چاہیے جس پر وہ ایک صدی یا اس سے زیادہ وقت سے قائم ہیں اور مروجہ منہج پر قائم رہ کر انہوں نے دین کی عظیم خدمات انجام دی ہیں ۔ مثال کے طور پر دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء لکھنؤ، مظاہر علوم سہارنپور ، وغیرہ وہ مؤقر اور کلیدی مدارس ہیں جنہوں نے بقائے دین، ترویجِ دین اور علومِ دین کے تحفظ میں سب سے نمایاں کارنامہ انجام دے دیا ہے اور یہ ادارے عالمی شہرت کے حامل ہیں۔ ان اداروں میں تعلیمی نظام و نصاب میں کسی بھی قسم کی ترمیم کئے بغیر انہیں اسی منہج پر باقی رکھا جانا چاہیے، البتہ دورۂ حدیث کی تعلیم کے بعد طلبہ میں تحقیقی مزاج کو پروان چڑھانے کے لیے کچھ شعبۂ جات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان عالمی شہرت یافتہ اداروں میں مروجہ منہج پر تعلم و تعلیم کا سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیے۔
دوسری قسم ان مدارس کی ہونی چاہیے جو یا تو نو مولود ہیں یا پچھلے چند عشروں سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور معاشرے میں اپنی افادیت کو ثابت کرنا انکے لیے ایک مرحلہ ہے۔ یہی وہ ادارے اور مدارس ہیں جن کے پاس یہ سنہرا موقع آ پہنچا ہے کہ ان مدارس میں بانئ دارالعلوم دیوبند حجۃ اللہ فی الارض امام محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ العزیز کے تعلیمی نصب العین اور تعلمی پالیسی کو نافذ کیا جائے۔ یہ مدارس اپنے آپ کو تبھی مفید بنا سکتے ہیں اگر یہ امام نانوتویؒ کے تعلیمی نصب العین کو اپنا لیں۔ شاید اب وہ مناسب وقت آ چکا ہے جب امام رح کی تعلیمی پالیسی ہمارے مدارس میں نافذ ہوجانی چاہیے۔ بدقسمتی سے امام رح کی تعلیمی پالیسی انکے ہی قائم کردہ ادارے میں قائم نہ ہوسکی تھی۔ جسکی وجہ شاید امام رح کا اوائلِ تاسیسِ دارالعلوم میں ہی دنیا سے رخصت ہو جانا ہے اور انکے بعد کے افراد اس تعلیمی پالیسی کی ہمہ گیریت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہوں۔ اس تعلیمی پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے سوانح قاسمی کے مصنف اور شیخ الہندؒ کے مایہ ناز شاگرد حضرت مولانا سید مناظر حسن گیلانی رح رقم طراز ہیں:
"یہ عجیب بات ہے کہ سیدنا الامام الکبیر کے تعلیمی نصب العین یعنی خالص اسلامی، اور دانش مندی کے قدیم علوم سے فارغ ہونے کے بعد ، سرکاری مدارس میں داخل ہوکر جدید علوم و فنون کو حاصل کیا جائے اس نصب العین کے مطابق جیسا کہ عرض کرچکا ہوں، اپنی پوری تاریخ میں دارالعلوم دیوبند کسی "صحیح نمونہ” کو پیش کرنے سے اگر چہ اس وقت تک قاصر رہا ہے۔” (سوانح قاسمی ج۔ ۲، ص۔ ۲۹۴۔)
امام رح کی تعلیمی پالیسی کی وضاحت خود امام نانوتوی قدس سرہ العزیز کے ہی اُس جملے سے ہوتی ہے جو امام رح نے حکیم دائم علی صاحب کے سامنے فرمایا تھا، "دین پر قائم رہنا علم معقول حاصل کئے بغیر دشوار ہے” (ایضا ص۔ ۲۹۸)
اپنی اسی تعلیمی پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے امام قدس سرہ العزیز نے اس طرف توجہ مبذول فرمائی تھی جس کا تذکرہ انکے سوانح نگار نے مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے:
"پہلے دینی و اسلامی اصول کا نصاب دانش مندی کے فنون کے ساتھ ختم کرا لیا جائے ، جن کے بغیر خالص اسلامی علوم ، تفسیر، شروح احادیث و فقہ کی کتابوں کے نہ مطالعہ ہی کی صحیح قدرت پیدا ہو سکتی ہے، اور جیسا کہ چاہیے، ان کتابوں سے استفادہ بھی بآسانی ممکن نہیں، ” (ایضا۔ ص۔ ۲۸۴)
اس امر کی مزید توضیح کرتے ہوئے مولانا گیلانی رح رقم طراز ہیں:
"اسکے بعد جیسا کہ آپ دیکھ چکے صاف اور واضح لفظوں میں اپنی یہ تجویز پیش کی ہے ، کہ علوم جدیدہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سرکاری مدارس میں مسلمان بچوں کو داخل کیا جائے۔” (ایضا۔ ۲۸۵)
امام نانوتوی علیہ الرحمہ اس ترتیب پر تعلیم دینے کے قائل تھے ۔ اور اسکا فائدہ وہ اس انداز میں بیان کرتے ہیں:
"سرکار کو بھی معلوم ہو کہ استعداد اسے کہا کرتے ہیں” (ایضا)
بالائی سطور میں بندۂ حقیر نے امام نانوتوی علیہ الرحمہ کی تعلیمی پالیسی کو بہت اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تعلیمی پالیسی کو آج کے مدارس میں کس طرح نافذ کیا جائے؟
نانوتوی رح کی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے لیے ہمیں تاریخ کی طرف لوٹنا ہوگا اور حجۃ الاسلام امام غزالی رح ( م۔ ۱۱۱۱ء) کے ذریعے مرتب کی گئی علم کی درجہ بندی (Classification of Knowledge) کا جائزہ لینا ہوگا۔ امام غزالی رح نے آج کی مروجہ غلط اصطلاحات (جدید اور اسلامی علوم) سے اعراض کرتے ہوئے اس وقت علوم کی عظیم الشان درجہ بندی کی تھی اور اسے الہامی (یا بر مبنیء وحی) اور غیر الہامی علوم میں تقسیم کیا تھا۔ پھر الہامی اور غیر الہامی علم کے حصول کو فرضِ عین اور فرضِ کفایہ سے تعبیر کیا تھا۔ امام غزالی نے غیر الہامی علوم کو فرضِ کفایہ کا درجہ دیتے ہوئے ان چار سرگرمیوں سے مربوط کیا تھا جن کے بغیر انسانی سرگرمی من جملہ روحانی اعمال کو سرانجام دینا ناممکن ہے۔ وہ چار اعمال ہیں کاشت کاری، کپڑوں کی صنعت، تعمیرات اور سیاست ۔
امام غزالی رح نے علوم کی مزید درجہ بندی کی اور علوم کو علم نافع (قابل ستائش) اورعلم ضار (قابل مذمت) (Praiseworthy and Blameworthy) کی اضافی درجہ بندی کے ساتھ انکے حصول اور اجتناب کی طرف امت اسلام کو متوجہ فرمایا۔ امام غزالی رح نے علم نافع کو لازمی تو قرار نہیں دیا البتہ اسکی ستائش کی اور اسکے حصول کو قوم کے معیار کی بلندی کے لیے ایک فاضل اور مستحسن عمل قرار دیا جسکی مثال ریاضی کے پیچیدہ حساب کتاب اور مساوات (equations) ہیں یا طب میں جراحت اور مزید طبی تحقیقات وغیرہ ہیں، جبکہ علم ضار سے مکمل اعراض کا حکم دیا جن کا حصول گناہ بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر علمِ نجوم ، سحر یا آلاتِ موسیقی کا سیکھنا وغیرہ۔
بالائی سطور میں اختصار کے ساتھ غزالی رح کے تقسیمِ علم کا مطالعہ کرنے سے ہمیں موجودہ دور میں اس تقسیم کی افادیت کا ادراک ہوا چاہتا ہے۔ یہی وہ تقسیم ہے جو شاید نانوتوی علیہ الرحمہ کے مطمح نظر رہی ہو۔ اور اسی کو معیار بنا کر وہ فارغین مدارس کے لیے ایک ایسے نصاب کو ترتیب دینا چاہتے ہوں جو کہ بقول ان کے "سرکار کو بھی معلوم ہو کہ استعداد اسے کہا کرتے ہیں۔”
موجودہ دور میں نو مولود مدارس اور غیر معروف مدارس اس تعلیمی پالیسی پر عامل ہوکر ایک ایسا نصاب مرتب کرسکتے ہیں جو معاشرے میں انکی افادیت کو سکولوں کے مساوی کردے۔