شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
(پہلی قسط)
ہندستان میں مغربی حکمرانوں کے توسط سے مختلف علمی وسائل ان کے سامراجی منصوبوں کا حصّہ بن کر کبھی اعلانیہ طور پر یا کبھی چپکے سے ہمارے سماج کا حصّہ بنائے گئے ۔اسکول ،کالج اور یونی ورسٹیوں کے متوازی پریس اور اخبارات و رسائل کی باضابطہ اشاعت اس متعین جدید کاری کا ایک حصّہ تھا جس کے زیرِ اثر نئے ہندستان کی تعمیر و تشکیل کے بعض پیمانے وضع ہوئے۔انگریزی مقاصد سامراجی نقطۂ نظر کے ساتھ واضح جبر اور استحصال کے حربوں سے لیس تھے جسے ہندستانی سماج کے فروغ کی بنیاد تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا مگر یہ سچائی بھی پیشِ نظر ہونی چاہیے کہ اس محدود فیضان سے بھی ہندستانی عوام وخواص کو تھوڑے بہت ایسے مواقع حاصل ہوئے جن سے وہ آزادانہ طور پر خود کو کھڑا کر سکتے تھے۔بے شک ان اشخاص میں اکثریت نے ذاتی استعداد کی بنیاد پر خود کو آراستہ کیاہوگیا۔مگر اس سے کیسے انکار کیا جائے کہ یوروپی قوم کے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے قایم کردہ اداروں سے ہی دیسیوں نے چنگاری چن کر ایک عالَم کو روشن کرنے میں کامیابی پائی۔
ہندستان میں صحافت کی بنیاد انگریزی حکمرانوں کی کوششوں سے پڑی۔جیمس اگسٹس ہکی نے ۲۹ جنوری ۱۸۷۰ ء کو’’ ہکیز بنگال گزٹ‘‘ کے عنوان سے جو چار صفحات کا ایک پرچہ شایع کیا،اسے اس ملک میں صحافت کا پہلا نمونہ تسلیم کیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ اس سے ڈیڑھ سو سال پہلے فرانس اور انگلینڈ سے اخبارات شایع ہونے لگے تھے جس سے اہالیانِ یورپ کی جدید تعلیمی سرگرمیوں میں اوّلیات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ہکّی کے گزٹ نے ہندستان میں صحافت کے بہت سارے اصول و ضوابط متعئن کر دیے ۔ہکی کے نقطۂ نظر کو اس کے ان جملوں سے واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے:
ــ’’میری پرورش بھی اس طرح کی نہیں ہوئی ہے کہ میں محنت و مشقت کی غلامانہ زندگی کا عادی بن سکوں لیکن ان سب باتوں کے باوجود روح و دماغ کی آزادی خریدنے کے لیے میں اپنے جسم کو بہ خوشی غلام بنا رہا ہوں۔‘‘
’’ یہ ہفتہ وار سیاسی وتجارتی اخبار ہے جس کے صفحات ہر پارٹی کے لیے کھلے ہیں لیکن اخبارکو کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہے۔‘‘
یہ دونوں اصول اس بات کے شاہد ہیں کہ ہندستانی سماج میں جو پہلا اخبار شایع ہوا، اس کے مدیرکے سامنے آزادیِ اظہار اور حکومتی نابستگی کے اصول واضح تھے۔ہندستان میں صحافت کے مورخین نے اس عہد کے یوروپین افراد کی زندگی اور کلکتے کے معاشرتی ماحول کے نشیب وفراز کو سمجھنے کے لییاس نقشِ اوّل واضح کی ہے۔ خاص طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کاروں کے سلسلے سے ایک تنقیدی رائے رکھنے کی وجہ سے اِس اخبار کو اُس سماج کا آئینہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ہکی کی صحافیانہ شخصیت میں ایک بے اعتدالی بھی تھی اور بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وارن ہیسٹنگز کے مخالفین کہیں نہ کہیں ہکی اور اس کے اخبار کو حسبِ ضرورت آلۂ کار بنا رہے تھے۔
ہکی کو حکومت کے عتاب در عتاب میں مبتلا رہنا پڑا ۔کئی بار جیل کی سزا ، اخبار اور پریس کی ضبطی اور ضمانت کے مسائل نے ایسا الجھا دیا کہ انھیں اپنی صحافتی زندگی کو سمیٹ لینا پڑا۔ہندستانی اخبار نویسی کا یہ پہلا سبق کچھ اس قدر باعثِ ترغیب رہا جیسے یہ لازم تسلیم کیا جائے کہ اخبار نویسی اور حکومت سے ٹکراؤ لازم ہے ۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ صحافت آزادیِ اظہار اور حکومتی جبر سے آزادی کااگر ذریعہ ہے تو اسے نباہنا بے حد مشکل ہے۔شاید اسی وجہ سے اُس دور کے متعدد اخبارات سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے رشتے اچھے نہیں تھے اور جب جب کمپنی کے لیے گنجائش ہوتی، وہ انھیں اپنا شکار بنانے کی کوشش کرتی۔ اس میں یورپ سے تعلق رکھنے والے ایڈیٹر اصحاب بھی شامل تھے جنھیں ہکی کے بعد سرکار مخالف صحافت کے عوض جیل جانا پڑا ۔اسی مرحلے میں اس بات کے امکانات روشن ہوئے کہ ہندستان میں صحافت عوام و خواص کے تصّورات کی ترجمان بن کر اپنا وجود قایم رکھنے کے لیے سامنے آ سکتی ہے۔
انگریزی کے ساتھ ہی ہندستان کی متعدد زبانوں میں صحافت کے امکانات بہ تدریج روشن ہوتے گئے۔ ہکی کے اخبار سے ’جامِ جہاں نما‘ تک ؛نصف صدی کا ایک مختصر عرصہ بھی گزرا تھا مگر ہندستان کے طول و عرض میں صحافت ایک باضابطہ پیشے کے طور پر اُٹھ کر سامنے آتی ہے۔ گجراتی، مراٹھی، فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کا سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ آزادیِ اظہار اور مافی الضمیر کی ادائیگی کے لیے مادری زبان اور دیگر کاروباری زبانوں کی جانب لوگوں نے ہاتھ بڑھائے۔ اسے یوں نیک شگون کہا جاسکتا ہے کہ بعد کے عہد میں صحافت نے بالعموم اور اردو صحافت نے بالخصوص اپنا جو قومی مزاج ثابت کیا؛ اس کے لیے یہ لازم تھا کہ انگریزی زبان سے اور اس کی تربیت سے ہمارا راستہ تبدیل ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ’ جامِ جہاں نما ‘بھی اولاً اردو اخبار نہیں تھااور فارسی زبان میں ہی اس کی اشاعت ہوتی تھی مگر بہت جلد اخبار نے اس عوامی ضرورت کو سمجھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جس کی شناخت ہم اردو جیسی عوامی زبان سے کر سکتے ہیں۔ اخبار نے اولاً ضمیمہ جات شایع کیے اور پھر یہ ایک مقصود بالذات اردو اخبار کے طور پر شایع ہوکر مقبول ہونے لگا۔ ابتدا میں اس اخبار پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا ٹھپہ بھی لگا رہاجس کی وجہ سے صحافت کے مورخین نے اس کی آزادانہ شناخت پر کہیں کہیں سوالات بھی قایم کیے مگر محض پانچ چھے برسوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بیڑیوں سے بھی یہ ادارہ آزاد ہوگیا۔ مختلف مورخین نے اس کے شماروں کے جو نمونے اور اندراجات کے جو اشاریے تیار کیے ہیں،اس کی روٗ سے عتیق صدیقی کے لفظوں میں کہیں تو یہ اخبار عمرِ نوح لے کر سامنے آیا تھا۔ ’’اخترِ شاہنشاہی‘‘کے مطابق اس کی تالیف کے وقت ۱۸۸۸ء میں یہ اخبار جاری تھا۔
’جامِ جہاں نما ‘سے ’دہلی اردو اخبار‘یعنی ۱۸۳۷-۱۸۳۶ء تک کا سفر یوں تو پندرہ برسوں کا ہے مگر اس دوران ہندستان کی صحافت کی پوری دنیا بدل چکی تھی۔ قومی قوانین کی تبدیلی اور دیسی زبانوں کے آزادانہ فروغ کے مواقع اپنے آپ پیدا ہورہے تھے۔ اس دوران یہ بھی ہوا کہ اردو صحافت بنگال سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں پھیلنے لگی تھی اور جغرافیائی اعتبار سے اس کا مزاج قومی ہونے لگا تھا۔ ان تمام تبدیلیوں کے لیے کسی ایک نمونے کی پہچان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت ہمیںدہلی اخباراوردہلی اردو اخبار کی طرف توجہ کرنی ہوتی ہے جسے مولوی محمد باقر نے تقریباً بیس برسوں تک شایع کیا۔ ابتدائی دور کی وہ تمام بحثیں جن میں اس اخبار کے لیے اردو کا سب سے پہلا نقش تسلیم کیا گیا تھا، متعدد شہادتوں کے بعد باطل ہوچکی ہیں۔ مولوی محمد باقر کے صاحب ز ادے محمد حسین آزاد کے اولیت کے سلسلے سے دعوے کا لعدم قرار دیے جاچکے ہیں۔ مگر ۱۸۵۷ء سے پہلے کے اردو اخبارات کی تاریخ اس ایک بات کی لازمی شہادت دیتی ہے کہ مدیر کی حیثیت سے ان دو ڈھائی دہائیوں میں اگر کوئی ایک شخصیت قدِ آدم شبیہہ کے ساتھ ہمارے پیشِ نظر ہوتی ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ مولوی محمد باقرہی ہیں۔ اردو کے طالب علم کے لیے مولوی محمد باقر کی شناخت کے دو اور واضح پیمانے ہیں۔ ایک تو یہی کہ وہ ہماری زبان کے صاحبِ طرز ادیب محمد حسین آزاد کے والد محترم ہیں ؛ اسی کے ساتھ وہ شیخ محمد ابراہیم ذوق کے ہم مشرب بھی ہیں۔ دہلی کالج سے بہ طور طالب علم اور استاد مولوی محمد باقر کا تعلق اہمیت کا حامل ضرور ہے مگر غدر میں ان کی زندگی کا انجام کچھ ایسے سامنے آیا جس نے نئے سرے سے باقر کو ، ان کی صحافت اور دیگر سرگرمیوں کو سمجھنے کا پس منظر عطا کیا۔ اب تاریخی اعتبار سے یہی حیثیت سب سے مقدّم ہے۔
مولوی محمد باقرکی مختصر سوانح حیات
محمد حسین آزاد نے کئی جگہوں پر اپنے خاندان کی تفصیلات بتانے کی کوشش کی ہے۔نبیرۂ آزاد آغا محمد باقر کے کتب خانے میں ایک کتاب کے حاشیے پر مولوی محمد باقر کے قلم سے ایک مختصر شجرہ مندرج ہے جس کی رو سے محققین نے عام طور پر مولوی محمد باقر کے اسلاف کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے مورثِ اعلا ایران سے کشمیر پہنچے اور پھر دہلی میں آکر مستقل طور پر آباد ہو گئے۔ بعد میں یہی خاندان محمد حسین آزاد کی وجہ سے غدر کے بعد لاہور پہنچا اور اب بھی اس خاندان کے بعض افراد وہیں مقیم ہیں۔ مولوی محمد باقرکے والد مولوی محمد اکبر اور دادا اخوند محمد اشرف سلمانی تھے۔ ان سے پہلے کی خاندانی کڑیوں میں محمد آشور ، محمد یوسف، محمد ابراہیم وغیرہ کے نام درج ہوئے ہیں۔ محمد باقر کے والدایک مجتہد تھے اور علوم ِدین کے سلسلے سے انھوں نے ایک مدرسہ قایم کر رکھا تھا ۔مولوی باقر نے اولاً اسی مدرسے سے فیض حاصل کیا ۔اس کے بعد میاں عبد الرزّاق کے ادارے میں آگے کی تعلیم کے لیے شامل ہوگئے۔بتایا جاتا ہے کہ وہاں شیخ محمد ابراہیم ذوق ان کے ہم درس تھے ۔یہ رشتہ ایک طویل رفاقت میں بدل کر دہلی کی تہذیبی زندگی کے لیے قابلِ توجہ بن گیا۔مولوی محمد باقر اپنے والد کے تنہا فرزند تھے ۔اس وجہ سے تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔انھوں نے مذہبی اور عصری دونوں تعلیم پائی ۔ دہلی کالج کے ابتدائی عہد کے طالب علموں میںان کا شمار ہوتا ہے ۔ایک مختصر مدّت تک سرکاری ملازمت میں شامل رہے ،پھر والد کے مشورے سے ملازمت سے علاحدہ ہو کر اردو صحافت سے باضابطہ طورپر منسلک ہونے سے پہلے وہ کار و بارسے بھی جڑ چکے تھے۔
مولوی محمد باقر کی تاریخِ پیدائش یا سالِ پیدائش میں محققین کے دوران اتّفاق رائے نہیں ہے۔خاندانی احوال اور دیگر اصحاب کی اطّلاعات کے مطابق ۱۷۷۰ ء ، ۱۷۸۰ء،۱۷۹۰ ء اور ۱۸۱۰ ء کے برس اس سلسلے سے سامنے آتے ہیں ۔چالس برس کے تخمینے کو شاید ہی کسی تحقیقی دائرۂ کار میں رکھ کر تولا جا سکتا ہے۔دو چار پانچ سال کے فرق کو قیاس کے حوالے سے فطری حیثیت دی جا سکتی ہے مگر چالس سال کا دورانیہ کسی بھی آدمی کو پریشانی میں ڈال سکتا ہے۔آغا محمد باقر نے غدر کے وقت ان کی عمر ۷۰ سال سے زائد بتائی ہے جس کی وجہ سے دوسرے قرائن سے مدد لے کر بعض محققین نے ۱۷۸۰ ء کو ان کا تخمیناً سالِ ولادت تسلیم کیا ہے۔مولوی محمدباقر سے شیخ محمد ابراہیم ذوق کے دوستانہ مراسم لڑکپن کے زمانے سے ہی بتائے جاتے ہیںجسے مقبول روایت کی حیثیت حاصل ہے۔ذوق ۱۷۸۲ ء میں پیدا ہوئے، اس اعتبار سے مولوی محمد باقر کا سالِ ولادت ۱۷۸۰ ء یا اس کے آس پاس معقول معلوم ہوتا ہے۔مگراسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ۱۸۲۸ ء میں مولوی محمد باقر دہلی کالج میں اپنی تعلیم مکّمل کر کے مدرّس بنا دیے جاتے ہیں ۔اگر ۱۷۸۰ ء میں ہی وہ پیدا ہوئے تو کیا وہ ۴۸ سال کی عمر تک تحصیلِ علم میں مبتلا رہنے کے بعد ملازمت میں آئے؟ یہ قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا ہے۔
سر سیّد احمد خاں کے ایک مکتوب سے یہ پتا چلتا ہے کہ محمد حسین آزاد کے والد سر سیّد کے بڑے بھائی کے ہم عمر تھے۔سر سیّد نے لکھا ہے :
’’مولوی محمد حسین آزاد صاحب سے اور میرے خاندان سے ایک ربطِ خاص ہے۔اُن کے دادا اور میرے والد میں ایسی دوستی تھی کہ لوگ بھائی بھائی سمجھتے تھے اور ان کے والد مولوی محمد باقر صاحب اور میرے بھائی مرحوم سے بہ سبب ہم عمری کے ایسا ہی ارتباط تھا۔‘‘
حیاتِ جاوید میں سر سیّد کے بڑے بھائی کے بارے میں یہ واضح اطلاع ملتی ہے کہ وہ سر سیّد سے چھے برس بڑے تھے۔اس اطلاع سے سر سیّد کے برادرِ بزرگ کی پیدائش کا سال ۱۸۱۱ء متعئن ہوتا ہے۔ڈاکٹر اسلم فرّخی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مولوی محمد باقر کا سنہ پیدائش ۱۸۱۰ء کے قریب متعئن کیا جاناچاہیے۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھی اسلم فرخی کے تعین کردہ سال کو اہمیت دی اور اپنی تاریخ میں ایسے ہی قبول کیا ہے۔یہاں اُن مضامین اور کتابوں کا حوالہ لازم نہیں ہے جن میں مولوی باقرکی پیدائش کے سلسلے سے بڑی حتمی گفتگو کی گئی ہے کیو ںکہ اکثر افراد نے کسی ایک ماخذ کو اعتبار کے قابل سمجھا اور نقل در نقل کے مرتکب رہے ۔ڈاکٹر صادق اور ڈاکٹر اکرام چغتائی نے بھی مولوی محمد باقر کے سلسلے سے بہت سارے تحقیقی گوشوں کو روشن کیا اور حیات و خدمات کے سلسلے کے بعض پیچیدہ مسائل کو سلجھانے میںوہ اصحاب کامیاب ہوئے ہیں مگر وہ مولوی محمد باقر کے سالِ ولادت کے سلسلے سے کوئی بنیادی اشارہ فراہم نہیں کرسکے جس سے یہ مسئلہ حل ہوسکے۔۱۸۱۰ ء کے سال کو قبول کرنے میں چند مسائل ہمیں نتیجے تک پہنچنے سے روکتے ہیں:
الف۔ مولوی محمد باقر ۱۸۲۸ ء میں محض اٹھارہ برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہو چکے تھے، یہ معقول نہیں معلوم ہوتا ۔
ب ۔ اٹھارہ برس کی عمر میں انھیں بہ طورِ مدرس منتخب کر لیا گیا اور وہ آیندہ چھے برسوں تک درس و تدریس کی ذمہّ داریاں ادا کرنے کے بعد ملازمت سے علاحدہ ہو گئے۔
ج۔ ذوق سے عمر میں ۱۸۱۰ ء کی پیدائش کے سبب مولوی محمد باقر ۲۸ برس چھوٹے ہیں۔ایسے میں دوستانہ تعلق بھی قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا اور مولوی عبد الرزاق کے مدرسے میں ابتدائی دور کی یکجا تعلیم کے بارے میں بھی کچھ یقین سے کہنا معقول معلوم نہیں ہوتا۔
ان تحقیقی اعداد و شمار اور سوال و جواب کی روشنی میں یہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر ۱۸۱۰ ء سے پہلے پیدا ہو چکے ہوں گے مگر یہ تاریخ کتنی پیچھے تک جائے گی اور ہم اسے تخمینے کے لیے بھی کہاں تک روک سکتے ہیں،یہ غیر معین ہے۔اب رہی بات جن لوگوں نے ۱۷۷۰ سے لے کر ۱۸۱۰ ء کے درمیان جتنے برس بھی اس کام کے لیے آزمائے ہیں ، وہ حتمی اور حقیقی تاریخیں کس طرح سے ہیں، اس کا ثبوت پیش کرنا ممکن نہیں ۔بس یہ یاد رہے کہ ۱۷۸۰ ء کی تاریخ سے بھی ذیل کے واقعات کی صداقت پہ کوئی حرف نہیں آتا ۔
i . محمد حسین آزاد کے سالِ پیدائش کے سلسلے سے بھی اچھے خاصے اختلافات موجود ہیں ۔۱۸۳۰ ء، ۱۸۳۳ ء اور ۱۸۳۵ ء کے سال جگہ جگہ ملتے ہیں۔ آغا محمد باقر نے تو دو جگہوں پر ۱۸۲۷ء اور ۱۸۲۹ ء بھی لکھا ہے۔آزاد کے پنشن کے معاملے میں ان کے سنہ ولادت کے سلسلے سے بعض اختلافات پنجاب کے اکاؤنٹنٹ جنرل کی نگاہ میں کھٹکے تھے اور انھوں نے ۱۸۹۲ء میں اس سلسلے سے وضاحت بھی طلب کی تھی۔محمد صادق نے محتلف شواہد کی بنیاد پر ان کی پیدایش کا سال۱۸۳۰ ء متعین کیا ہے ۔اگر باقر کی پیدائش ۱۸۱۰ ء بھی ہوتی ہے، تب بھی یہ قرینِ قیاس ہے کہ محمد حسین آزاد ۱۸۳۰ ء کے آس پاس پیدا ہوئے ہوں گے جب کہ ان کے والد کی عمر بیس برس ہو چکی تھی۔
.ii ۳۷۔ ۱۸۳۶ء میں دہلی اخبار شایع ہوا جب ان کی عمر۲۷۔ ۲۶سال تھی ،یہ بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے۔
.iii ۱۸۵۷ ء میں جب انھیں موت کی سزا دی گئی، اس وقت ۱۸۱۰ ء کی پیدائش کی رو سے وہ ۴۷برس کے ہوں گے جسے نادرست سمجھنا غیر ضروری ہے۔
مولوی محمدباقر کی تاریخ پیدائش میں جتنے بھی اختلاف رہے ہوں مگر ان کی زندگی کے آخری تیس برس ادبی مورخین کے لیے سب سے اہم ہیں۔ اس میں بھی آخری دو دہائیاں صحافت کے آغاز سے شہادت تک کے سفر کے دائرے میں قید ہیں۔اسی دوران وہ امتیازی حیثیت کے حامل شخص کے طور پر سامنے آتے ہیںاور مدرّس، صحافی، کاروباری اور بالآخر شہیدکے درجے تک پہنچتے ہیں۔اس اعتبار سے اس گفتگو میں مولوی محمد باقر کی زندگی کے اس دورانیے پر نگاہ رکھنے کی کوشش کی جائے گی جس کا نقطۂ آغاز ۱۸۲۸ ء مانا جا سکتا ہے اور ۱۶ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو اس کاانجام قرار دیا جا سکتا ہے۔انھی تین دہائیوں کے حوالے سے ہماری گفتگو جاری رہے گی۔
(جاری)
16 ستمبر, 2022
تعلیم و تربیت کے معاملے میں اکثریت کو دیکھا ہے کہ جب بچے تین سے چار سال کے ہوتے ہیں تو ان کی اس عمر سے فائدہ اٹھانے کی بجائے والدین مکمل طور سے نظر انداز کرتے ہیں۔’’ابھی تو چھوٹے ہیں سیکھتے سیکھتے ان کو سب آجایے گا۔اسکول جائیں گے تو سیکھ لیں گے۔بچہ ابھی پہلی دوسری میں ہے ابھی تو عمر پڑی ہے سیکھنے کو ‘‘ کچھ اس طرح کی باتیں ہمیشہ سننے میں آتی ہیں ۔پھر ہوتا یہ ہے کہ بچے بڑی جماعتوں میں چلے جاتے ہیں لیکن انہیں تب بھی کسی ایک زبان کو ہی پڑھنے، سنانے میں مہارت حاصل نہیں ہو پاتی ۔بلکہ بسا اوقات اپنے نصابی اسباق کو بھی ایسے بچے درست ڈھنگ سے نہ پڑھ پاتے نہ ہی یاد کر پاتے ہیں ۔
در اصل بچوں کی یہ بنیادی اشد کمزوری ایک دن یا کچھ مہینوں کی غفلت کا خمیازہ نہیں ہوتی ،بلکہ اوائل عمری میں موزوں طریقہ تدریس کا نہ ہونا ان بچوں کو پہلی جماعت سے لے کر اعلیٰ جماعتوں تک مسلسل کئی ایک سطحوں پر کمزور بناتا چلا جاتا ہے۔
آئیے سمجھ لیتے ہیں کس طرح چار سے ،چھ سال کی عمر ۔۔۔یہ عمر اپنے اندر ایک حیرت انگیز اور ناقابل تسخیر،جوش و ولولہ رکھتی ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کی کاشت کاری کے لیے یہ سب سے زر خیز وقت ہوتا ہے ۔آپ سکھاتے جائیں بچہ سیکھتا جائے گا ۔آپ سکھاتے سکھاتے تھک جائیں گے لیکن بچہ پھر بھی آپ سے ’’ھل من مزید‘‘ کا تقاضا کرتا رہے گا۔ہر پل بچہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا چاہتا ہے ۔
ایک صحت مند، اوسط ذہن کا بچہ بیک وقت پانچ الگ الگ زبانوں کو سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مگر والدین اور اساتذہ اس عمر کو نظر انداز کر جاتے ہیں ۔پھر شکوہ کناں بھی ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے کو READINGنہیں آتی اس لیے ہر امتحان میں اس کے نمبرات کم آتے ہیں ۔
اس سلسلے کی سب سے کامیاب ترکیب یہ ہے کہ پِری پرائمری یعنی ابتدائیہ میں بچے حروف تہجی بڑی تفصیل سے سیکھیں ۔اور پھر اول جماعت کے ختم ہوتے ہوتے یہ بچے آسان اسباق کو روانی سے پڑھنے کے قابل ہوجائیں ۔
بچے سیکھیں گے کیسے ؟آپ کو سکھانا ہوگا ،مسلسل بنا اکتائے ان بچوں پر سخت محنت اور توجہ دینی ہوگی ۔کیوں کہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بچوں کی حروف کے ساتھ شناسائی ہوتی ہے درست طریقہ کار سے بچوں کو حروف کی شکل کی شناخت ،مختلف و متفر ق صوتیات پر بھی توجہ دلائی جائے تو ایک الہام کی طرح یہ سارے حروف بچوں کے دل و دماغ پر ثبت ہوجاتے ہیں ۔اور بچے پھر پڑھنے کی کوشش کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
ان کے ساتھ لگ کر دن بھر ان کے اردگرد کی چیزوں کے نام انہی سے پڑھوانا بھی ایک بہترین طریقہ ہے ۔جو زبان بچے کو سکھائی جارہی ہو کوشش کی جائے کہ اسی زبان کا زیادہ استعمال ہو ۔ اور بیک وقت اگر دو لسانی مشقیں ہوں تو پھر ہر نئی چیز کا معنیٰ دونوں زبانوں میں بتایا جائے ۔
یہ ایمان رکھنے والی بات ہے کہ آپ کی یہ چھ مہینے اور سال بھر کی محنت ان شا ء اللہ آپ کے بچے کو زندگی بھر کی روانی دیتا ہے۔اور آپ کی یہ مسلسل کوشش ہی ان کی کامیابی کی کلید ہے۔
بچے ان حروف و الفاظ سے کھیلتے ہیں ،ان کی دلچسپی عروج پر ہوتی ہے کہ اس قدر کہ نہاتا ہوا بچہ بھی آکر پوچھنے لگتا ہے کہ صابن ’’ص‘‘ سے آتا ہے یا ’’س‘‘
سے چونکہ ہر وقت حروف تہجی ان کے دل و دماغ میں رقص کررہے ہوتے ہیں ۔یعنی کچھ نہ کچھ سیکھنا اور بولتے رہنا اور الگ الگ آوازوں میں فرق کرنا ۔
ایک المیہ یہ ہے کہ اتنے اہم موڑ پر والدین نے نرسریز اور اسکولوں پر تکیہ کیا ہوتا ہے ۔جب کہ یہ آرام کا نہیں کام کا وقت ہوتا ہے ۔آج اسکولوں میں تعلیم نہیں فقط نصاب تھمایا جاتا ہے ۔اور اسی نصاب کی آپ سے منہ مانگی قیمت وصولی جاتی ہے۔اس لیے خود اپنے بچوں کی فکر کریں ۔ان کے ان بیش قیمت ایام کو کسی قیمت ضائع نہ ہونے دیں ۔
میرے خیال سے اس عمر میں پڑھنا ،سیکھنا اور سکھانا ایک چیلنج ہے۔والدین کو احساس کمتری سے باہر نکل کر خود اپنے بچوں کا معاون بننا چاہئے اور اس چیلنج کو قبول کرنا چاہیے۔
یہاں لکھنے سے پہلے اس تکنیک کومیں سالوں سے بروئے کار لارہی ہوں ۔کبھی طلباء کے ساتھ تو کبھی خود اپنے بچوں کے ساتھ۔ ابتدائیہ میں زیر تعلیم میری بچی بیک وقت چار زبانیں سیکھ رہی ہے الحمدللہ۔عربی اور انگریزی میں روانی ہے کیونکہ دن بھر ان کا استعمال زیادہ ہوتا ہے ۔اردو اور ہندی کی مشقوں میں سلسلہ جوڑ حروف تک پہنچا ہے۔
لہٰذا چھوٹے بچوں کے سر پرست اس عمر کے بچوں کو ہر گز بھی کم نہ سمجھیں ۔موبائل اور ٹی وی کی دنیا سے باہر لاکر ان کے ساتھ عملی مشق کریں کروائیں ۔انہیں چھوٹا بچہ سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کریں ۔ ان کے ان قیمتی ایام کو ضائع کرنے اور ہونے سے بچائیں ۔اور اپنے بچوں کے سنہرے مستقبل کی راہیں ہموار کریں ۔اپنے بچوں سے باربار بات کریں ،بلکہ دن بھر ان سے کسی نہ کسی موضوع پر بات کرتے رہیں ۔تاکہ وہ نئے لفظوں کو بھی روز مرہ کی بول چال میں سیاق و سباق کے ساتھ آسانی سے سمجھ سکیں ۔کچھ الفاظ لے کر ان کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ذہن میں مرتب کرلی جائیں ۔اور بچوں کو باتوں ہی باتوں میں یہی کہانیاں سنائی جائیں ۔ پھر آپ ان شاء اللہ ان سب کے نتائج دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ۔بچہ الفاظ پہچانے گا بھی ،پڑھے گا بھی،سمجھے گا بھی اور عبارت پر بھی اس کی اچھی گرفت ہوجائے گی۔
در اصل حروف اور ہمارے بچے ،دونوں ہی ناتواں سے ہوتے ہیں ۔انہیں ساتھ کردیا جائے تو ایک بڑی طاقت تیار ہوسکتی ہے ۔
زندگی میں غم کا ہونا فطری ہے۔ اس سے کوئی بھی بشر آزاد نہیں کہیں نہ کہیں یہ غم ہماری ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہوئے خوشیوں کی لذت کو دوچند کر دیتے ہیں لیکن کبھی کبھی اس غم کی شدت انسان کو خوف اور مایوسی کے دلدل میں دھکیل دیتی ہے اس طرح انسانی زندگی پہ اس کے شدید ترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سائنس نے انسانی زندگی میں بےشمار آسائشوں کے دروازے کھول دئیے ہیں لیکن یہ انسان کو ایک جزوی خوشی فراہم کرتے لیکن اس غم، خوف اور مایوسی کی اذیت سے مکمل طور سے نجات نہیں دلا سکی ہے۔ یہ ذہنی کیفیت بےشمار نفسیاتی و جسمانی امراض کے پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتی ہے جب خوف اور مایوسی کی وجہ سے لوگ خودکشی جیسے حرام عمل کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ عام مفہوم میں خودکشی کا مطلب اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں ختم کر دینا ہے۔ خودکشی کی ذہنیت کسی وبا کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیلتی جا رہی ہے جو کہ لمحہء فکریہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر چالیس سیکنڈ کے بعد ایک شخص دنیا میں خودکشی کرتا ہے اور ہر سال تقریبا دو کروڑ لوگ خودکشی کی کوشش کرتے ہیں اس رپورٹ سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خودکشی کا مسئلہ دنیا کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے جس پہ کام کرنے کے لئے تمام ممالک کو باقاعدہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ایسا بالکل نہیں ہے کہ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے امریکہ میں ہر سال خودکشی کے رویے سے ہونے والی اموات اور زخموں پہ پچیس بلین ڈالر خرچ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس ضمن مین کام ہو رہا ہے کچھ اداروں نے 24 گھنٹوں کی ہیلپ لائن بھی جاری کی ہوئی ہے تاکہ کسی کو بھی کوئ پریشانی لاحق ہو تو ہیلپ لائن پہ فوری فون کر کے دوسری طرف موجود تجربہ کار اور قابل ماہر نفسیات سے بات کر کے اپنے اندر کے ہیجانات پر قابو پا سکے اور یہ ساری کالز بالکل فری ہوتی ہیں اس کا مقصد عوام کی مدد کرنا ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود خودکشی کے بڑھتے تناسب کو ابھی بھی کم نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم اپنی پریشانیوں کا ذکر کسی سے نہیں کرتے پریشانیوں کا ذکر کرنا ہمیں اپنی ناکامی کا اعتراف محسوس ہوتا ہے۔
ہر سال 10 ستمبر کو خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خودکشی سے بچاؤ کے لئے لوگوں میں بیداری پیدا کرنی ہے اور انھیں زندگی سے محبت کرنا سکھانا ہے عالمی تنظیم ایسوسی ایشن فار سوسائڈ پریونشن آئی اے ایس پی کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہر سال دس لاکھ لوگ سے زیادہ خودکشی کرتے ہیں جب کہ دہشت گردی، جنگ اور قتل میں مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں کم ہوتی ہے۔
اس صورت حال میں ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہی ہے کہ خودکشی کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں جدید طبی نقطہء نظر کے مطابق دخودکشی کی سب سے بڑی وجہ ذہنی بیماری ہے 90 فیصد خودکشی کے پیچھے ڈپریشن جیسی علامات نظر آتی ہیں۔ ذہنی دباؤ سے کئی قسم کے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے یہ ہر انسان کو الگ الگ طریقے سے متاثر کرتی ہے ابتدا میں یہ مرض رویوں میں معمولی تبدیلی کی صورت میں نظر آتا ہے چوں کہ ہمارے یہاں ذہنی بیماری کے حوالے سے کوئ خاص آگاہی نہیں پائی جاتی اس وجہ سے وہ اس تبدیلی پہ کوئی خاص توجہ نہیں دیتے خیال کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا لیکن ایسا ہوتا نہیں جب ذہن مسلسل دباؤ کی حالت میں رہتا ہے تو ہمارا اندرونی دفاعی نظام کمزور ہونے لگتا ہے پہلے اعصاب ڈھیلے ہو جاتے ہیں پھر بلڈ پریشر شوگر اور ہارٹ ایشوز جیسی پرابلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے کئی طرح کے نفسیاتی عوارض جیسے ڈپریشن، اینگزائٹی، شیزوفرنیا، بائی پولر ڈس آرڈر وغیرہ پیدا ہوتے ہیں ان ذہنی امراض کا شکار ہو کر انسان خود میں جینے کی امنگ کو کھونے لگتا ہے وہ اندر ہی اندر یہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ لوگ اسے سمجھیں اور اس کو بہتر محسوس کرانے میں تعاون کریں چوں کہ اس کی کیفیت خود اس کی اپنی سمجھ سے باہر ہوتی ہے اس لئے وہ دوسروں کو چاہ کے بھی سمجھا نہیں پاتا یوں وہ اندر ہی اندر اپنے مسائل کے سامنے بےدست و پا ہونا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ایک وقت کے بعد اسے لگنے لگتا ہے کہ اس کے اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے وہ یہ کہ خود کو اپنے ہی ہاتھوں ختم کر دے ۔ جب بھی کوئی خود کشی کرتا ہے تو لوگ عمومی طور پہ اسے جج کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ بزدل تھا حالات کا مقابلہ نہیں کر سکا ۔ ارے اس چھوٹی سی بات پہ اس نے اپنے آپ کو ہی ختم کر دیا، زندگی میں تو دکھ سکھ لگے رہتے ہیں ہمیں ہی دیکھ لو کہ ہم بھی حالات کا مقابلہ کر کے زندگی جی رہے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ کون بتائے کہ بیرونی مسائل سے زیادہ اس نے اپنے اندرونی خلفشار کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا ہے جب ہم میں مقابلے کی سکت باقی نہیں رہتی تو ہم پسپا ہو جاتے ہیں۔ خودکشی ایک بزدلی کا عمل نہیں بلکہ بہادری کا عمل ہے اب آپ یہ سوچیں گے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے تو سنئے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی سے پیار ہوتا ہے وہ چاہتا ہے کہ طویل عمر پائے اور اپنے اپنوں کے ساتھ ہر لمحے کا لطف لے کوئ بھی مرنا نہیں چاہتا یہاں تک کہ اس وقت بھی نہیں جب اس کی طبعی موت واقع ہوتی ہے ایسے میں اگر کوئ انسان اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو سوچئے کہ وہ اپنی خواہش کا گلا کیسے اپنے ہاتھوں گھونٹ دیتا ہے اور موت کو گلے لگا لیتا ہے۔
خدارا دوسروں کو جج کرنے سے گریز کریں کوئ خودکشی اس لئے نہیں کرتا کہ وہ بزدل ہوتا ہے وہ اس لئے ایسا کرتا ہے کہ اس کی ذہنی حالت نارمل نہیں ہوتی اس کی سوچیں عام انسانوں کی سوچوں سے کہیں مختلف ہو چکی ہوتی ہیں وہ اس مایوسی کی دلدل سے نکلنا تو چاہتا ہے لیکن اسے کوئی ہاتھ نہیں مل پاتا جو اس کو وہاں سے سہارا دے کر باہر نکال سکے ۔ اس کے اپنے ہی اس کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں اپنے ردعمل سے اس کی مایوسی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ cronic depression کا شکار ہو جاتے ہیں ان کے اندر چوں کہ خوش رہنے کی چاہ ختم ہو چکی ہوتی ہے اس لئے وہ ہارمون جو کہ خوشی پیدا کرتے ہیں ایکٹو نہیں رہتے ایسے لوگوں کو باقاعدہ نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوتی ہے دواؤں کے ذریعے ان کے ہارمونز کو اعتدال میں لایا جاتا ہے۔ان کے اندر زندہ رہنے کی خواہش پیدا کی جاتی ہے دواؤں اور تھیراپی کے ذریعے وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں پھر وہی سابقہ حالات ان کے لئے معمول کی بات لگنے لگتی ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق خودکشی کے عوامل میں مایوسی کا عمل دخل سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ انسان جتنا ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا جاتا ہے اس کے اندر مایوسی اور ناامیدی بڑھتی جاتی ہے جو کہ اسے خودکشی کی کگار پہ لا کھڑا کر دیتی ہے۔ خودکشی سے بچاؤ کے تحت بیداری پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں اس حوالے سے علم و آگہی کو فروغ دیا جائے اور ذہنی تکلیف کے حوالے سے لوگوں کے نظریات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے اور ان افراد کو باقاعدہ مدد فراہم کی جائے جو خودکشی کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ ہم ان پہ پہرے بٹھا کر بیڑیوں میں باندھ کر اس سے نہیں روک سکتے بلکہ انھیں باقاعدہ طبی مدد فراہم کرکے ہی اس آسیب زدہ خیال سے نجات دلانے سکتے ہیں۔
ماہرین کی رائے کے مطابق وہ لوگ جو خودکشی کے واقعات میں بچ جاتے ہیں اکثر نفسیاتی ٹروما کا شکار رہتے ہیں اس ٹروما میں خودکشی کا شکار افراد کا گنہگاری کا احساس، ناراضگی، ناامیدی، پریشانی اور بیگانگی جیسے جذبات شامل ہوتے ہیں ان پر قابو پانا اس لئے بھی مشکل ہوتا ہے کیوں کہ ایسے افراد کے بہت سارے سوالات کے جوابات نہیں دیے جاتے۔
ہمیں اپنی ذہنی صحت کی حفاظت خود کرنی چاہئے اور ذہنی دباؤ سے متاثر لوگوں کی مدد بھی کرنی چاہئے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں خود نہیں معلوم ہوتا کہ ہم کیوں پریشان ہیں لاشعوری طور پہ ہم رنج و الم کے بوجھ سے خود کو تھکا رہے ہوتے ہیں ذہنی دباؤ سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی پریشانیوں کی وجہ ڈھونڈیں نا کہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہنے کے لئے بےبنیاد دکھوں سے خود کو ہلکان کرتے رہیں جیسا کہ معروف فلاسفر نطشے نے بھی کہا ہے کہ ہر خیال کی وضاحت کرنی چاہئے کیوں کہ وضاحت کرنا ہی اصل سچائی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ دل کی جستجو میں عقل کو قیادت حاصل ہو جس طرح زندگی کو جذبات سے عاری ہو کر نہیں گذارا جا سکتا بالکل اسی طرح جذبات سے مغلوب ہو کر گذاری جانے والی زندگی مسائل کی آماجگاہ بن کر رہ جاتی ہے انسان عقل و جذبات کے ساتھ ہی متوازن زندگی گذار سکتا ہے۔
یوپی میں مدارس کا سروے جاری ہے لیکن سروے پر کیا لائحہ عمل ہو، یہ 24ستمبر کو طے کیا جائے گا، جب تک بیشتر مدارس سروے کراچکے ہوں گے، کیا ڈرامہ ہے ملت کے ٹھیکیداروں کا،کریڈیٹ خوروں کا؟ قوم کو اچھے سے بے وقوف بناتے ہیں تاکہ مسلمان خوش ہوجائیں کہ نشستن، گفتن،خوردن،برخاستن کا عمل ہو جائےاور کوئی فائدہ بھی نہ ہو-
یہ ایک مثال ہے بے بہرہ، بد مست قیادت کی بے حسی کی-ایسی درجن بھر مثالیں موجود ہیں، یہ لوگ یا تو وقت پر حکمت عملی بناتے ہیں یابعد میں،جو صرف ڈرامہ ہی ہوتاہے،نتیجہ صفر-حکمت عملی کس چڑیا کا نام ہے یہ ان بے چاروں کو بھی پتہ نھیں-
ایسے موقعہ پر یاد آتی ہے امیرشریعت سابع مولانا محمدولی رحمانی رح کی، مدارس پر وزارتی گروپ کی رپورٹ ہو یا مرکزی مدرسہ بورڈ کے تخیل میں بہلاکر مدارس کو نشانہ بنانے کی سازش ہو، اوقاف ترمیمی ایکٹ ہو، اقلیتی کمیشن ایکٹ ہو، اللہ کا یہ شیر کس طرح میدان میں کود گیا، مستقبل کے خطرات کو بھانپنے کی آپ میں جو بے پناہ صلاحیت تھی،آپ نے اسے استعمال کرکے دہلی سلطنت کی نیند حرام کردی، کیا آج وہ ہوتے تو اسی طرح، بلا استثناء،دہلی سے لے کر، وایا دیوبند،حیدرآباد، لکھنو،پٹنہ،مونگیر تک خاموشی ہوتی؟
یادرہے کہ مدارس کا سروے، میڈیا ٹرائل،صرف یوپی کا معاملہ نھیں ہے،اتراکھنڈ میں بھی تیاری ہورہی ہے، آنے والے دنوں میں یہ عمل ملک گیر ہوگاجس کے نتائج کا کاش ادراک ہوتا اور اس سے خطرناک چیز میڈیا ٹرائل ہے،کیا مجال کہ کچھ ہوش آئے-
سچ یہ ہے کہ اس نام نہاد، سرکارزدہ، چاپلوس ،بے حس قیادت کو قانونی باریکیوں کی بالکل جانکاری نھیں ہے، اور نہ مستقبل کے خطرات اور اثرات کا بالکل اندازہ ہے، سب اپنے عیش کدے میں بد مست ہیں، جب کسی نے ذرا جھنجھوڑا، ایک میٹنگ ہوگئی، پھر سو گئے، بہتر ہے، آپ سوئے ہی رہیں،قوم آپ سے تقریباً بیزار ہوچکی ہے،نوجوان نسل تو بالکل آپ سے ناامید ہے،کچھ بھکت باقی ہیں، ان کی بھی نیند ٹوٹ جائے گی، یہ آپ کی نسل کے لیے خطرناک ہے، قوم کی فکر نھیں، ذرا اپنی ہی نسل کی فکر کرلیجیے-کیوں کہ ملت کی رہنمائی آپ کے بس میں ہے بھی نھیں-جب آپ پر ملت کا اعتماد متزلزل ہوچکاہے، اور پوری طرح اعتماد کی یہ عمارت گر پڑے گی تو آپ کی نسل کا دھندا اور چندہ کیسے چلے گا؟خوب سوچ لیجیے-
کیا دار العلوم ندوۃ العلماء آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت چلتا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ہے "ہرگز نہیں”۔
مندرجہ بالا سوال اور جواب کی حاجت یوں پیش آئی کہ 14 ستمبر 2022 بروز جمعرات اتر پردیش سرکار کی ایک سروے ٹیم نے ندوہ کا دورہ کیا. انہوں نے وہاں کیا دیکھا، کس قسم کے سوالات کیے اور انہیں جوابات کیا ملے اس کا صحیح علم انہیں اور ندوہ کی انتظامیہ کو ہی ہوگا. کیسی رپورٹ تیار کی جائے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا.
اس معاملہ میں "ندوی” ہونے اور ندوہ کے احوال سے واقف ہونے کی وجہ سے میری بے چینی کا سبب روزنامہ منصف حیدر آباد مؤرخہ 15 ستمبر کی وہ خبر ہے جو ندوہ کے سروے سے متعلق ہے اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ "ندوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت چلتا ہے”۔ جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے. سچ یہ ہے کہ نہ ندوہ بورڈ کے تحت چلتا ہے اور نہ ہی بورڈ ندوہ کے تحت۔
بورڈ کا قیام 1972 میں ہوا اور ندوہ کا سنہء تاسیس 1898 ہے۔ دونوں کے قائم کنندگان مختلف ہیں اور ان کے مقاصد میں بھی بُعد المشرقین ہے. ایک کا مقصد محض تعلیم وتربیت ہے اور دوسرے کو مسلم عائلی قوانین کے تحفظ کے لیے جد وجہد سے غرض ہے. اہم بات یہ بھی ہے کہ ندوہ جیسا عظیم الشان ادارہ اپنے قیام کے چوہتر (74) سال بعد وجود پذیر ہونے والی تنظیم کے ماتحت ہو یہ نا قابلِ فہم ہے۔
ظاہر نظر میں یہ معاملہ جتنا سادہ نظر آتا ہے اتنا سادہ معلوم نہیں ہوتا. پسِ پردہ کسی بڑی سازش سے انکار نہیں کیا جا سکتا. شرارت بھی ہو سکتی ہے۔ بورڈ کے قیام سے اب تک اس کے چار صدور ہوئے ہیں۔ جن میں قاری محمد طیب اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کا تعلق دار العلوم دیوبند سے رہا ہے اور مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا محمد رابع حسنی ندوی کا تعلق ندوہ سے. کسی تعلیمی ادارہ کا ذمہ دار کسی دوسری غیر نفع بخش ملی تنظیم کا عہدہ دار بھی ہو تو اس کا مطلب کسی صورت یہ نہیں نکالا جا سکتا کہ ادارہ اس تنظیم کے تحت چلتا ہے۔ اس قسم کے شیطانی شگوفہ کو پہلی فرصت میں مَسل دینا چاہیے۔
بورڈ مسلم مسائل کو لے کر عدالت جاتا ہے، بسا اوقات اسے حکومت سے رو برو اور دو بدو ہونا پڑتا ہے، میٹنگ بلاتا ہے، جلسے منعقد کرتا ہے اور حکومت کے سامنے مطالبات رکھتا ہے جبکہ ندوہ کامل یکسوئی کے ساتھ طلبہ کی تعلیم وتربیت میں مسلسل مصروف ہے۔ اسے سرکار اور سیاست سے کوئی سروکار ہو یہ تو بہت دور کی بات ہے، وہ اپنے پلیٹ فارم پر ان مسلم مسائل کو بھی زیرِ بحث نہیں لاتا جس کا تعلق حکومت یا سیاست سے ہو۔
ادارہ، خواہ قدیم ہو یا جدید، چھوٹا ہو یا بڑا، اگر اپنے وجود اور سرگرمیوں کو کسی تنظیم کے ماتحت کرے تو اسے قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ معاہدہ ہوگا اور اس کی دستاویز بہر صورت موجود ہوگی. بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے اس قسم کی بے سر وپا باتیں شائع کرنا روزنامہ منصف جیسے بڑے اخبار کو ہرگز زیب نہیں دیتا. فورا سے پیشتر اسے معذرت کرنی چاہیے۔ ندوہ کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ تردیدی بیان شائع کرے اور "وجہ بتاؤ نوٹس” جاری کرے۔
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سرزمین بہار کے ایک ایسے عالم دین ہیں جو تصنیف و تالیف کے کام بہت ہی دلجمعی کے ساتھ لگے ہیں۔ مذہبی موضوعات کے ساتھ وہ ادبی موضوعات پر بھی قلم فرسائی کرتے ہیں۔ ان کے تصنیفات وتالیفات کی تعداد تقریباً چالیس (۰۴) ہے۔ پیش نظر کتاب ”آوازۂ لفظ و بیاں“ ۲۲۰۲ء میں منظر عا م پر آئی ہے۔ ۴۰۳ صفحات پر مشتمل کتاب کو مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے چار ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ وہ چار ابواب اس طرح ہیں:
باب اول: مذہبی
بام دوم: ادبی
باب سوم: تاریخی
باب چہارم: تعلیمی
چاروں ابواب کافی اہم ہیں۔یہ ابواب ۳۰۱ مضامین سے مزین ہیں۔
”آوازۂ لفظ وبیاں“ کے حوالے سے مفتی صاحب لکھتے ہیں:
”آوازۂ لفظ و بیاں“ میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے مختلف حضرات اور متنوع عنوانات پر لکھی گئی کتابوں پر تعارف،تبصرے، مقدمہ، پیش لفظ اور تنقید کے طور لکھے، یہ سارے مضامین امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب میں ”کتابوں کی دنیا“ کے ذیل میں اشاعت پذیر ہوئے، بعد میں مختلف اخبارات و رسائل میں بھی ان کو جگہ مل گئی۔“(ص:۸)
پروفیسر صفدر امام قادری نے ”مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی: مبصر کی حیثیت سے“ عنوان کے تحت بہت ہی جامع تاثرات بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:”گذشتہ برسوں میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی تصنیفات سلسلے وار طریقے سے سامنے آتی رہی ہیں۔ ادبی اور علمی موضوعات کو انہوں نے مذہبی امور کے شانہ بہ شانہ قائم رکھا۔ امار ت شرعیہ کے ترجمان ”نقیب“ کی ادارت سے بھی ان کے تصنیفی کاموں میں ایک باقاعدگی پیدا ہوئی۔ ان کی خدمات کے اعتراف کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف یونیورسٹیوں میں ان کے کارناموں کے حوالے سے تحقیقی مقالے لکھے گئے۔“
کتاب کے آغاز میں مفتی ثنا ء الہدیٰ قاسمی نے ۵۵/ مذہبی کتابوں پر تاثراتی مضامین شامل کئے ہیں۔ یہ مضامین مختصر لیکن جامع انداز میں تحریر کئے گئے ہیں۔ پہلی کتاب ”خیر السیرفی سیرۃ خیر البشر“ کے عنوان سے ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:”خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر“ والی اللہ عبدالسبحان ولی عظیم آبادی کی سیرت رسول پر منظوم کتاب ہے۔ جس کے ہر شعر سے ان کے قادر الکلامی اور محبت رسول کی جھلک ملتی ہے، ان کی یہ کتاب تاریخ اسلام میں حفیظ جالندھری کی ”شاہنامہ اسلام“ اورڈاکٹر عبدالمنان طرزی کی مشہور و معروف منظوم ”سیرت الرسول“ کے کام کو تسلسل عطا کرتی ہے۔
”مقام محمود“ مولانا مفتی اختر امام عادل صاحت کی کتاب ہے۔ اس کے سلسلہ میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”مقا م محمود سیرت نبی ﷺ کی امتیازات و خصوصیات پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ہے، جسے موضوع کی یکسانیت کی وجہ سے یک جا کتاب کی شکل دے دی گئی ہے۔ پوری کتاب سات ابواب ’اسوۂ انسانیت، عالمی نبوت بین الاقوامی پیغمبر، عالمی رحمت، بے مثال صبر و عزیمت، عالمی انقلاب، عالمی پناہ گاہ اور عالمی دعوت کے عنوان سے ہے۔“
اسی طرح کئی مذہبی کتاب مثلاً ”پیارے نبی کی سنتیں، تصوف کا اجمالی جائزہ، سجدہ سہو کے مسائل، اسلام کا قانون طلاق، موت سے قبر تک کے احکام و مسائل، اسلام ہی کیوں؟، درس حدیث، ایمان کے شعبے، رسول اللہ کی بیٹیاں، داماد اور نواسے، نواسیاں، حجاب کے فوائد اور بے حجابی کے نقصانات، خطبات جمعہ، خطبات سبحانی، شرح در مختار، شراب: ایک تجزیاتی مطالعہ، قرآن کریم کا تاریخی معجزہ، دین اسلام اور اس کے پیغامات، پیارے نبی کی پیاری باتیں، ازدواجی زندگی، عبادت کا آسان طریقہ اور تصویر کشی فتاویٰ کی روشنی میں“ پر مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے تاثراتی مضامین قلم بند کئے ہیں۔ ان مضامین میں کتاب کی جھلک قارئین کے سامنے پیش کر دی گئی ہیں۔
”آوازۂ لفظ و بیاں“ کا دوسرا باب ادبی کتابوں پر تاثراتی مضامین سے مزین ہے۔ اس باب کا پہلا مضمون ”سِیرَ الصالحین“سے تعلق رکھتا ہے۔ شمالی بہار میں سلسلہ نقشبندیہ کے بافیض بزرگ پیر طریقت حضرت مولانا حافظ الحاج شمس الہدیٰ دامت برکاتہم نے اس کتاب کو اپنے قلم سے سنورا ہے۔ اس کتاب کے سلسلہ میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”اس کتاب کا وہ حصہ سب سے دلچسپ لگا جہاں سے خود حضرت نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کا ذکر کیا ہے، یہ حصہ اصلاً حضرت کے اسلوب نگارش، قدرت کلام، الفاظ کے مناسب انتخاب و استعمال کا بہترین نمونہ ہے، بعض جملے اور تعبیرات اس قدر بلیغ ہیں اور معنی کی ترسیل میں اس قدر تیز بھی کہ بے اختار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔“(ص:۲۵۱)
”سرمایہ ملت کے نگہبان“ محتر م جناب مولانا عزیز الحسن صدیقی کی تخلیق ہے۔ وہ مشہور صاحب قلم ہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیت بھی مضبوط ہے۔ ان کے قلم سے نکلے مضامین، تجزیے، سوانحی خاکے پورے ملک میں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں شخصیتوں کے انتخاب میں اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ انہیں ہی موضوع بنائیں، جنہیں مولانا نے قریب سے دیکھا، برتا اور مختلف تحریکات میں ان حضرات کے ساتھ کام کرنے اور خدمت انجام دینے کاموقع ملا۔
”یادوں کے جھروکوں سے“ مولانا عبدالعلی فاروقی لکھنوی کی زندگی کے واقعات، حادثات اور تجربات پر مبنی تلخ و شیریں یادوں اور کم و بیش پچاس برسوں پر مشتمل یادوں پر مشتمل ایک کتاب ہے۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی مولانا عبدالعلی فاروقی اور ان کی کتاب کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ مولانا عبدالعلی فاروقی کو اللہ رب العزت نے تقریر و تحریر دونوں میں زبان وبیان پر بے پناہ قدرت بخشی ہے، وہ تقریر کرتے ہیں تو موتیاں رولتے ہیں اور لکھتے ہیں تو قاری پر ایسا سحر طاری کرتے ہیں کہ وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے انہوں نے مدرسہ اور یونیورسٹی دونوں سے کسب فیض کیا ہے۔ فاضل دیوبند بھی ہے اور ایم بھی۔
کتاب ”تخلیق کی دہلیز پر“ فاروق اعظم قاسمی کے تنقیدی مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں کہ فاروق صاحب کی یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے، انہوں نے ابواب کے عنوان کے بجائے ابجد و ہوز کے الف، با وغیرہ کا عنوان لگایا ہے۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ملا کہ وہ مختلف انداز کے مضامین کو ا س ضمن میں سمیٹ پائے۔
”پیام صباؔ“ کامران غنی صبا“ کا پہلا مجموعہئ کلام ہے۔ وہ فی الحال نتیشور کالج، مظفرپور میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ ان کی شعری اور نثری دونوں تخلیقات بہت ہی جامع ہوا کرتی ہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے کامران غنی صباؔ کی صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:”کامران غنی صباؔ نے اس کم عمری میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس سے ان کی اٹھان کا پتہ چلتا ہے، مشق، ریاضت اور تجربات کی وسعت سے فکر و نظر اور فن میں پائیداری آتی ہے۔“
مولانا احمد سجاد ساجدؔ قاسمی کا مجموعہ کلام ”غبار شوق“ پر اپنے خیالات کا اظہار مفتی صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے:
”غبار شوق ساجد قاسمی کا پہلا مجموعہئ کلام ہے جو زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آیا ہے۔ ساجد قاسمی دور طالب علمی سے شاعر کرتے رہے، لیکن انہوں نے اسے کبھی بھی ذریعہئ عزت نہیں بنایا اور نہیں سمجھا۔ انہوں نے پوری زندگی اس کش مکش میں گذار دیا کہ جو کچھ لکھا ہے اسے چھپوایا بھی جائے یا نہیں، ہم لوگوں کے پیہم اصرار پر انہوں نے یہ ہمت جٹائی کہ یہ متاع گراں مایہ قاری کے حوالے کر سکیں۔“(ص:۷۸۱)
”چہرہ بولتا ہے“ ظفر صدیقی کا شعری مجموعہ ہے جو ۰۴۲/ صفحات پر محیط ہے۔ ان کی کتاب کے تعلق سے مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”چہرہ بولتا ہے“ کی شاعری میں چہرہ بولے یا نہ بولے، زندگی بولتی، اچھلتی، کودتی، مچلتی نظر آتی ہے، اور زندگی کا یہ رخ کسے پسند نہیں ہے۔ اس لیے بجا طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ چہرہ بولتا ہے شعر وادب کی دنیا میں مقبول ہوگا۔“
فرد الحسن فرد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی تخلیق ”بے چار ے لوگ“ تحقیق، تنقید اور تاریخ کا مرقع بن چکی ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے تنقید کے اصولوں کو برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ فرد الحسن فرد صاحب کے ا س مجموعہ میں ۴۱/ مضامین شامل ہیں۔ وہ مضامین انجم عظیم آبادی، فریاد شیر گھاٹوی، نصیر الدین حسین نصیر، وصی بلگرامی، مولانا عبدالرحمن، عبدالکریم، شین منظر پوری، ناوک حمزہ پوری، شبنم کمالی، قمر شیرگھاٹوی، مسلم عظیم آبادی، صادق شیر گھاٹوی، قسیم الحق گیاوی، اسلم سعدی پوری جیسے شعر اء و ادبا پر ہیں۔
”ادبی میزان“ مغربی بنگال کی جانی پہچانی شخصیت عشرت بیتاب کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب کے تعلق سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”عشرت بیتاب صرف نقاد ہی نہیں، افسانہ نگار اورکہانی کار بھی ہیں، ادبی میزان میں انہوں نے پوری تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے، ان کی تنقیدیں عملی تنقید کا بہترین نمونہ ہیں، وہ شاعر بھی ہیں، اس لیے تنقید کرتے وقت فنی تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ انہیں الفاظ کی صوتی ہم آہنگی اور خیالات کی ترسیل کا بھی پورا پورا خیال رہتا ہے۔“
”سہرے کی ادبی معنویت“ ڈاکٹر امام اعظم کی تحقیق و ترتیب ہے۔ اس کتاب پر اپنے خیالات رقم کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر امام اعظم نے اپنے لیے ترتیب و تہذیب کا عنوان لگایا ہے، یہ ان کی خاکساری ہے ورنہ یہ کتاب سہرے کی تاریخ بھی ہے اور تحقیق بھی۔ آپ اسے سہر ہ نگاران کی جامع ڈائرکٹری کہہ سکتے ہیں۔ جامع ا س لیے کہ اس میں ایک دو سہرہ کہنے والے بھی ان کی نگاہ سے بچ نہیں پائے ہیں۔“(ص:۷۳۲)
پروفیسر عبدالمنان طرزی کا شمار ہندوستان کے قدآور اور زود گو شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شہرت عالمی پیمانے پر بھی ہے۔ صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز ہوچکے پروفیسر طرزی کی ایک کتاب ”دیدہ وران بہار“ پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”پانچ سو اکانوے صفحات پر مشتمل یہ ’دیدہ وران بہار‘ کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ پہلے اس کے مشمولات چار جلدوں کو محیط تھے، اب یہ چاروں جلدیں اس ایک جلد یں سماگئی ہیں۔ ان چاروں جلدوں کے مشمولات پر بھی اچھا خاصا اضافہ کیا ہے۔ پہلے ایڈیشن میں جن حضرات کا تذکرہ چاروں جلد میں سے کسی میں نہیں آسکا تھا، ان کے تذکرے کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس کتاب میں علماء، شعرا، ادبا، نقاد، صحافی، قائدین، محققین، نامور اور گمنام سبھی جگہ پاگئے ہیں۔“(ص:۱۴۲)
”دُردِتہ جام“ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر بی آر اے بہار یونیورسٹی مظفرپور کی تخلیق ہے۔ ان موصوف کی آخری کتاب ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی تخلیقی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ دونوں حصوں میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں صاحب کی تنقیدی بصیرت اور اصناف سخن پر گہری نظر کا عکس جمیل دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پوری زندگی صالح ادب برائے زندگی، بلکہ اسلامی ادب کو فروغ و پروان چڑھانے اور ان لوگوں کی قدردانی میں لگادی جو ا س کاز اور کام کے لیے سرگرم عمل رہے۔ انہوں نے چن چن کر ایسی شخصیات اور تصنیفات کو ہی بحث کا موضوع بنایا ہے جو ان کی اصلاحی اور اسلامی فکر سے قریب تر تھے۔“
باب سوم کے تحت دو مضامین ”درسگاہ اسلامی۔ فکر و نظر کی بستی“ (ڈاکٹر عبدالودود قاسمی) اور ”تاریخ جامعہ عربیہ اشرف العلو م کنہواں“ ہیں۔
باب چہارم میں تعلیمی مضامین ہیں۔ اس باب کا پہلا تاثراتی مضمون کتاب ”قرآنی حقائق اور سائنسی انکشافات“ سے متعلق ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر محامد عبدالحی کی تخلیق ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اپنے منفرد انداز میں رقم طراز ہیں:
”۲۵۱/ صفحات کی اس کتاب میں علم فلکیات، علم طب، علم الارضیات، علم الایجاد، علم حیوانات، قرآن اور نفسیات، قرآن اور نظریہ ارتقاء پر اکاسی عنوانات کے تحت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ سائنسی انکشافات قرآنی حقائق سے متصادم نہیں ہیں، بلکہ سائنس داں جہاں تک برسوں کے تحقیقات کے بعد آج پہونچے ہیں، قرآن نے ان حقائق کو چوہ سو انتالیس سال پہلے بیان کردیا تھا۔“(ص:۷۸۲)
اس باب کے دیگر مضامین ”تعلیم و تعلم۔ آداب و طریقے“، ”تحقیق و تحشیہ صفوۃ المصادر“، ”مدارس اسلامیہ اور جدید کاری کے تصورات“، ”شرح نایاب“ اور ”مسلم معاشرہ میں خواتین کا علمی وادبی ذوق“ کتابوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مفتی محمد ثنا ء الہدیٰ قاسمی صاحب کی تحریری صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے۔
اس طرح پیش نظر کتاب ”آوازۂ لفظ و بیاں“ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی مذہبی، ادبی، تعلیمی، تاریخی کتابوں کے پیش لفظ، تقاریظ، تاثرات، تبصرات اور عملی تنقید پر مشتمل ہیں۔ یہ کتاب اردو شائقین کے ذریعہ پسند کی جائے گی۔ اس کتاب کی اشاعت کے لئے مفتی صاحب کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
کیا نیٹ (NEET) کوالیفائی کرنے والا ہر طالب علم ڈاکٹر بن جاتا ہے؟ ۔ افروز عالم ساحل
سوشل میڈیا پر گزشتہ کچھ دنوں سے مسلسل مقابلہ جاتی امتحان نیٹ (NEET) کوالیفائی کرنے والے طلبا اور ان تنظیموں و کوچنگ سنٹروں کی خوب تعریف ہورہی ہے۔ ہر کوئی خوشی سے شرابور ہے۔ ہو بھی کیوں نہ بھلا؟ آخر اس بار ہزاروں کی تعداد میں ہماری قوم کے بچے ڈاکٹر جو بننے جا رہے ہیں۔ اب اکیلے مغربی بنگال کی الامین نامی تنظیم سے 3500 طلبا کامیاب ہوئے ہیں۔ دیگر تنظیموں کے اس سے بڑے دعوے ہیں۔ لیکن کیا سچ میں ایسا ہورہا ہے؟ آئیے گزشتہ سال کی ایک کہانی سے اس پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سال 2020 میں دلی کے جامعہ نگر کے ایک سرکاری اسکول سے ایک ساتھ 23 مسلم بچیوں نے NEET میں کامیابی حاصل کی۔ ان بچیوں کی اس نمایاں کامیابی کی ستائش ہر طرف خوب زور و شور سے ہوئی۔ دلی کے وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم نے تو باضابطہ ٹویٹ کرکے اس کا کریڈٹ لیا۔ سوشل میڈیا پر مہینوں اس کی چرچا ہوتی رہی۔ قوم کے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان مہینوں سوشل میڈیا پر جشن میں ڈوبے رہے؛ لیکن جب ہماری قوم اس جشن سے باہر نکلی تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس بات کی پڑتال کی جائے کہ یہ 23 مسلم بچیاں ہندوستان کے کس کس میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں؟ لیکن افسوس! میری تحقیق میں جو باتیں نکل کر آئیں وہ چونکا دینے والی تھیں۔ میری اس تحقیق و تفتیش میں اجاگر ہوا کہ ان لڑکیوں میں سے کوئی بھی دسمبر تک داخلہ نہیں لے پائی تھی۔
اس پر میں نے ایک تفصیلی رپورٹ ایک اردو اخبار کے لئے لکھی تھی ۔ اس رپورٹ میں میں نے ان بچیوں اور ان کے والدین سے بات کر کے داخلہ نہ لینے کی وجوہات کا پتہ لگانے کی کوشش کی تھی۔ میری اس رپورٹ کے بعد ’مسلمانوں کے کچھ نام نہاد صحافیوں‘ نے میری اس رپورٹ کے صرف ایک حصے کا ترجمہ کرکے لوگوں میں یہ بات پھیلا دی کہ NEET میں کوالیفائی ہونے کے باوجود پیسوں کی کمی کی وجہ سے ان بچیوں کا داخلہ نہیں ہو سکا ہے۔ قوم کے کچھ سماجی کارکن اچانک جاگ اٹھے۔ ایک کوچنگ سنٹر کے مالک نے یہ اعلان کردیا کہ میں ان تمام بچیوں کو اپنے کوچنگ سینٹر میں مفت میں پڑھاؤں گا۔ لوگوں نے انہیں دل کھول کر مبارکباد پیش کی۔ واٹس ایپ پر ان بچیوں کی مالی مدد کے لئے ایک گروپ بنا دیا گیا۔ تبھی معلوم ہوا کہ جامعہ نگر کے ایک کیفے میں اس کے متعلق میٹنگ رکھی گئی ہے۔ میں نے اس سے جڑے ایک بڑے بھائی کو کال کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس پورے معاملے کی ان کو کتنی جانکاری ہے۔ انہوں نے ایمانداری کا مظاہرہ کیا اور ایک ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جتنی اس رپورٹ میں لکھی ہوئی ہے، اتنی ہی جانکاری ہے۔ مطلب ان کے پاس آدھی ادھوری جانکاری تھی۔ جب میں نے تفصیل سے انہیں بتایا تو ان کی گزارش تھی کہ میں بھی اس میٹنگ میں پہنچوں۔ ان کی گزارش پر میں اس میٹنگ میں حاضر تھا۔
اس میٹنگ میں سب اپنی نیک نیتی کا اظہار کر رہے تھے؛ لیکن افسوس! کسی کو بھی اس معاملے کی پوری جانکاری نہیں تھی۔ ایسے میں میں نے بھی خاموش رہنا زیادہ پسند کیا۔ اس میٹنگ میں جب یہ طے ہوا کہ سب مل کر فنڈ جمع کریں گے تاکہ ان میں سے کچھ بچیوں کا داخلہ کرا سکیں۔ تب لگا کہ مجھے بھی اپنی بات رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ اگر ابھی چاہ بھی لیں تو بھی ان میں سے کسی بھی بچی کا داخلہ نہیں کرا پائیں گے، کیونکہ نیٹ کوالیفائی کرنے کے بعد کاؤنسلنگ کا فارم بھرنا ہوتا ہے، جو ان میں سے کسی بھی بچی نے نہیں بھرا ہے۔ دوسری بات سنٹرل کاؤنسلنگ کے لئے جتنے نمبر کی درکار ہے، وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ پوری تفصیل سے میں نے میٹنگ میں موجود لوگوں کو ایک ایک بچی کی کہانی بتائی۔ باوجود اس کے اگلے دن ایک جناب کا کال آیا اور انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں ان تمام لڑکیوں کے نمبر دے دیں۔ میں نے دینے سے صاف انکار کردیا، کیونکہ مجھے اس بات کا علم تھا کہ یہ تمام لوگ ان لڑکیوں اور ان کے والدین کو پریشان کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ ہاں! ان کے نام پر چندہ ضرور جمع ہوگا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ چندہ کو لے کر میں کسی پر بھی کوئی الزام نہیں لگا رہا ہوں، کیونکہ مجھے نہیں معلوم اس معاملے میں کس نے کتنا چندہ جمع کیا تھا۔
میں نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ جب ان بچیوں نے نیٹ کوالیفائی کیا تھا تب وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا تھا کہ ’ٹیلنٹ کا پیسوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کامیاب طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں رقم کی کمی کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی، کیوں کہ دہلی حکومت نے ان کے لیے اسکالرشپ اور قرض کی شکل میں دس لاکھ روپوں کی فراہمی کا انتظام کیا ہے۔‘ لیکن حقیقت اس کے خلاف تھی۔ ان کامیاب لڑکیوں کے والدین و سرپرستوں نے صاف طور پر بتایا تھا کہ یہ محض ایک اعلان تھا، کیوں کہ آج تک کسی بھی سرکاری اہلکار نے ان لڑکیوں کے اہل خانہ سے رابطہ نہیں کیا ہے نہ اسکول کے ذریعے ہی حکومت کی طرف سے کسی بھی مدد کی کوئی جانکاری دی گئی تھی۔ تب دہلی کے سماجی کارکنوں کو میں نے یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ بہتر ہوگا اگر آپ سماجی کارکنوں کا ایک ڈیلیگیشن وزیر اعلیٰ صاحب کے پاس جاکر ان کو ان کی باتیں یاد دلائیں تاکہ دہلی کا ہر غریب بچہ چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو، سرکار کی مدد سے فائدہ حاصل کر سکے اور ڈاکٹر بن کر اس بیمار سماج کا علاج بہتر طریقے سے کر سکے۔ لیکن افسوس! اب تک کی میری جانکاری میں شاید ایسا کوئی ڈیلیگیشن نہیں جا سکا ہے۔
اب آئیے! ذرا یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ NEET کوالیفائی کرنے کا مطلب کیا ہے۔ دراصل NEET کوالیفائی کرنا اب بہت آسان ہے۔ محض 50 پرسینٹائل نمبر حاصل کرکے اسے کوالیفائی کیا جا سکتا ہے۔ اور کوالیفائی کرنے والوں کو پورے بھارت میں پانچ میڈیکل کورسوں یعنی ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس، بی یو ایم ایس، بی اے ایم ایس اور بی ایچ ایم ایس میں داخلہ مل سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر NEET کوالیفائی کرنے والے کو میڈیکل میں داخلہ مل ہی جائے۔
بتا دیں کہ NEET کا یہ امتحان کل 720 نمبروں کا ہوتا ہے، لیکن اس بار جس نے بھی کم از کم 117 نمبر اسکور کیا ہے وہ بھی NEET کے لیے کوالیفائی مان لیا گیا ہے۔ لیکن اگر طلبہ سرکاری کالجوں میں داخلہ چاہتے ہیں تو انہیں 600 کے آس پاس نمبر حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ اس بار 2022 NEET کے لیے 18 لاکھ سے زائد امیدواروں نے رجسٹریشن کروایا تھا، جن میں سے 17 لاکھ سے زائد امیدواروں نے امتحان دیا اور9 لاکھ 93 ہزار 69 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اب ملک کے پرائیویٹ کالجوں میں کوئی گورنمنٹ کوٹا باقی نہیں بچا ہے۔ NEET متعارف کرانے کے بعد اسے ختم کر دیا گیا، جس کے بعد اب اُن طلبہ کو بھی جن کا نام میرٹ لسٹ میں شامل ہے اگر وہ کسی نجی تعلیمی ادارے میں پڑھنے کے خواہش مند ہیں، تو پوری فیس ادا کرنا پڑے گی۔
ملک میں میڈیکل کالجوں کی تعداد
وزیر مملکت برائے صحت و خاندانی بہبود، اشونی کمار چوبے کے ذریعے 18 ستمبر 2020 کو لوک سبھا کو دیے گئے تحریری جواب کے مطابق، اس وقت ملک میں 541 میڈیکل کالجز ہیں، جن میں سے 280 سرکاری میڈیکل کالج اور 261 پرائیویٹ میڈیکل کالج ہیں۔ ان 541 میڈیکل کالجوں میں صرف 80,312 ایم بی بی ایس داخلہ نشستیں ہیں۔
فیس کم کرنے کا تھا وعدہ، لیکن ہو رہا ہے اضافہ
سال 2020 تک کی جانکاری کے مطابق، دلی اور مہاراشٹر جیسی متعدد ریاستوں میں طلبا کو میڈیکل تعلیم کے لیے سالانہ 25 تا 30 لاکھ روپے فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔ موجودہ حکومت نے دسمبر 2019 میں وعدہ کیا تھا کہ ملک میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں فیس نصف تک کم کر دی جائے گی۔ لیکن اس کے برعکس بہت ساری ریاستیں، پرائیویٹ کالجوں کو تو چھوڑ دیجیے، سرکاری کالجوں کی فیس میں بھی اضافہ کر رہی ہیں۔
نومبر 2020 میں آنے والی خبروں کے مطابق، ہریانہ حکومت نے ریاست کے سرکاری میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کی فیس میں اضافے کے لیے ایک مسودہ تیار کیا ۔ اس کے تحت میڈیکل کی فیس 53 ہزار روپے سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی ۔ ایک دوسری خبر کے مطابق، اتر پردیش حکومت نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی من مانی پر لگام کستے ہوئے موجودہ تعلیمی سیشن کے لیے ایم بی بی ایس کی سالانہ فیس کم سے کم 10.40 لاکھ روپے سے لے کر زیادہ سے زیادہ 12.72 لاکھ روپے تک مقرر کی ہے۔ اس کے علاوہ طلبا کو ہاسٹل اور دیگر فیس الگ سے ادا کرنی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اس مہنگی تعلیم کا خوف ذہین و باصلاحیت لیکن مالی لحاظ سے کمزور طلبا کو پیشہ ورانہ تعلیم میں اپنا کریئر بنانے میں مانع بن رہا ہے، جو کہ ایک آئینی حق سے ایک طبقے کو محروم کرنے کا سبب ہے۔ واضح رہے کہ فیس سے متعلق یہ جانکاری 2020 کے آخر تک کی ہی ہے۔ اس کے بعد کئی ریاستوں میں میڈیکل ایجوکیشن کی فیس میں بھاری اضافہ کیا گیا ہے، اس پر الگ سے کبھی اپنی بات رکھنے کی کوشش کروں گا۔