حیدرآباد (پریس نوٹ) :مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے جشن سیمیں کے سلسلے میں اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات کے زیر اہتمام ”داراشکوہ کی ادبی و تاریخی شخصیت اور عصری معنویت“ کے زیر عنوان قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے قومی کانفرنس منعقد ہوئی۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر، مانو نے افتتاحی اجلاس کی صدارت کی۔ پروفیسر شیخ عقیل احمد ، ڈائرکٹر ، قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان مہمانِ خصوصی تھے۔ کل (26 جولائی) کو دارا شکوہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز ہوگا جس میں سابق مرکزی وزیر جناب مختار عباس نقوی مہمانِ خصوصی ہوں گے۔
پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے کہا کہ جب ہم اپنے آپ کو پہچانتے ہیں تو اپنے خدا کو بھی پہچانتے ہیں۔ یہی فلسفہ داراشکوہ نے بھی پیش کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ مہمان پروفیسر نرگس جابری نصب نے اپنی پی ایچ ڈی فارسی شاعری میں ہندو شاعروں کی خدمات پر کی تھی۔
ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ ہندوستان کی خوبی یہ ہے کہ ہمارے درمیان جو بھی اختلاف ہوتا ہے اسے مکالمہ کے ذریعہ ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داراشکوہ نے عربی، فارسی، سنسکرت کی تعلیم حاصل کی۔ اپنشد کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ بعد میں بہت ساری زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا جس سے دنیا کو اپنشد کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ این سی پی یو ایل ، داراشکوہ کی کتابوں کا اُردو ترجمہ کر رہی ہے۔ ڈاکٹر فخر عالم اعظمی، صدر شعبہ اردو، خواجہ معین الدین چشتیؒ یونیورسٹی، لکھنو ¿ نے کلیدی خطبہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اقبال نے جو بات کہی وہی بات دارا شکوہ نے کہی۔ لوگوں نے اقبال کو تو مقام دیا لیکن داراشکوہ کو پھانسی دی گئی۔ دارا شکوہ اپنی کتاب لکھنے کے لیے قرآن سے فال نکالتے اور انہوں نے اپنی کتابوں میں جابجا احادیث کے حوالے دیئے ہیں۔ دارا شکوہ کی تصنیفات میں کئی جگہوں پر قرآنی تشریح نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر میر اصغر حسین، ای ڈی/ ای پی ایس، ڈائرکٹر ، یونیسکو ؛ محترمہ راجکماری اندرا دیوی دھنراج گیر جی، ڈاکٹر نرگس جابری نصب، تہران ، ایران نے بھی خطاب کیا۔ پروفیسر عزیز بانو، ڈین اسکول آف لینگویجس نے خیر مقدمی خطاب کیا۔ پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار بھی موجود تھے۔ پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، صدر شعبہ فارسی و ایشین اسٹڈیز نے کاروائی چلائی اور شکریہ ادا کیا۔ تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ انسٹرکشنل میڈیا سنٹر نے افتتاحی اجلاس کا لائیو ٹیلی کاسٹ کیا۔ اس موقع پر مختلف کتابوں کا اجراءعمل میں آیاجو محترمہ دھنراج گیرجی کے عطیات سے شعبہ فارسی نے شائع کیں۔
اسی دوران شعبہ فارسی و سنٹرل ایشین اسٹڈیز اور این سی پی یو ایل کی جانب سے ”مجمع البحرین دارا شکوہ :مذہبی اور روحانی نظریہ صلح کل کی مشعل راہ“ کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا کل 11بجے دن ، سی پی ڈی یو ایم ٹی آڈیٹوریم میں افتتاح عمل میں آئے گا۔ پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، صدر شعبہ ¿ فارسی و ڈائرکٹر کانفرنس کے بموجب جناب ممتاز علی، چانسلر کلیدی خطبہ پیش کریں گے ۔ ڈاکٹر کرشنا گوپال، ممتاز اسکالر، دارا شکوہ اسٹڈیز 27 جولائی کو اختتامی اجلاس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی کلیدی خطبہ دیں گے۔پروفیسر طارق منصور، وائس چانسلر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جناب مہدی شاہرخی، قونصل جنرل آف اسلامی جمہوریہ ایران ،حیدرآباد؛ شام کے ممتاز اسکالر جناب امر حسن؛ حاجی سید سلمان چشتی، گدی نشین، درگاہ اجمیر شریف؛ پروفیسر شیخ عقیل احمد، ڈائرکٹر، این سی پی یو ایل، نئی دہلی؛ ڈاکٹر میر اصغر حسین،پروفیسر فیضان مصطفی، وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی آف لائ، پروفیسر بی جے راﺅ، وائس چانسلر ، یونیورسٹی آف حیدرآباد؛ پروفیسر ای سریش، وائس چانسلر، ایفلو، پروفیسر ٹی وی کٹی منی، وائس چانسلر، سنٹر یونیورسٹی آف آندھرا پردیش اور جناب سراج الدین قریشی ، صدر، انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر، نئی دہلی کانفرنس کے مدعو مقررین ہوں گے۔ اس کانفرنس کے شرکاءکے لیے بزمِ قوالی کا 26 جولائی کو شام 6:30 بجے آغا حشر کاشمیری آڈیٹوریم، ڈی ڈی ای میں اہتمام کیا جائے گا، جبکہ 27 جولائی کو 6:30 بجے شام اوپر ایئر تھیئٹر میں دارا شکوہ پر ڈرامہ پیش کیا جائے گا۔
25 جولائی, 2022
یوپی:مسلم نوجوان پر کانوڑ پر تھوکنے کا الزام، کانوڑیوں نے شاہراہ بند کر دی، پولیس چوکی میں بھی کی توڑ پھوڑ
میرٹھ: کانوڑیوں نے کانوڑ کی توہین کا الزام لگاتے ہوئے نیشنل ہائی وے-58 کے ایک حصے کو بلاک کر دیا۔ پولیس نے کنور کی توہین کرنے پر ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ تذلیل سے ناراض کنواڑیوں نے کنکرکھیڑا علاقہ میں پولیس چوکی میں توڑ پھوڑ بھی کی۔ ہائی وے کی بندش کے باعث وہاں سے گزرنے والی گاڑیاں کئی کلومیٹر پہلے ہی روک دی گئیں۔ پولیس اور انتظامی افسران کی کئی گھنٹوں کی منت سماجت کے بعد کنواڑیوں کا غصہ ٹھنڈا ہوا کنکرکھیڑا پولیس اسٹیشن کے انچارج سبودھ کمار نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ واقعہ کے سلسلے میں رضوان نامی نوجوان کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ کاونڑیوں نے اس نوجوان پر کووند پر تھوکنے کا الزام لگایا ہے۔ اسٹیشن انچارج نے کہا کہ یہ سب غلط فہمی ہے اس نے بتایا کہ رضوان کاونڑیوں کے لیے لگائے گئے کیمپ میں پچھلے ایک یا دو دنوں سے کھانا کھا رہا تھا۔ ہفتہ کے روز بھی وہ وہاں کھانے کے لیے آیا تھا، اس دوران اس نے تھوک دیا، جس کا چھینٹا پاس ہی رکھے کاونڑ پر گرا اس نے بتایا کہ کاونڑیوں نے اسے اس شبہ میں مارا کہ اس نے جان بوجھ کر تھوکا۔ اسٹیشن انچارج کے مطابق فی الحال معاملہ مکمل طور پر پرسکون ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کووند کے کنواڑیوں کو جن پر تھوک پڑا ہے گنگا کا پانی بھرنے کے لیے لے جائے گی۔
نئی دہلی: دہلی کی کڑکڑڈوما عدالت نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر شرجیل امام کے خلاف 2019 میں درج کے گئے ایک معاملے میں ضمانت عرضی کو خارج کر دی ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے یہ فیصلہ سنایا۔ کورٹ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، 30 مئی کو کورٹ نے دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا تھا۔دراصل دہلی ہائی کورٹ نے شرجیل امام کو ٹرائل کورٹ میں جا کر ضمانت کی درخواست دائر کرنے کی اجازت دی تھی۔ درخواست میں ملک مخالف سرگرمیوں کے معاملے میں سُپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو بنیاد بنایا گیا ہے، جس میں سُپریم کورٹ نے بغاوت کے معاملے میں مقدمات درج نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ جب تک مرکزی حکومت غداری کے معاملے پر دوبارہ غور نہیں کرتی، اس معاملے میں کوئی نئی ایف آئی آر درج نہیں کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جو لوگ غداری کیس میں ملزم ہیں وہ ضمانت کے لیے عدالتوں میں عرضی دائر کر سکتے ہیں۔
جی!جمہوریت کے چوتھے ستون ’صحافت‘ کا محافظ، اخبار نویس، جرنلسٹ، مدیر، رئیس التحریر، ایڈیٹر، سمپادک، قلم کار، اہل قلم، صاحب قلم، لکھاری، رائٹر، رپورٹر، جریدہ نگار، نامہ نگار، کالم نگار، مضمون نگار، تجزیہ نگار، مبصر، نمائندہ ، محرر، سب ایڈیٹر، بیورو چیف، نیوز ایڈیٹر، چیف ایڈیٹر، منیجنگ ایڈیٹر، ایسوایٹ ایڈیٹر، فیچر ایڈیٹر خبروں کی جانچ پڑتال کرنے والا، جھوٹ کو بے نقاب کرنے والا فیکٹ چیکر، سچ کو آشکار کرنے والاسچا صحافی، حکومت کی دلالی کرنے والا دلال صحافی، گودی میڈیا کے ذریعے اپنی گود بھرائی کروانے والا،غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کے ذریعہ سماج کو باخبر رکھنے والا، جانبداری سے کام لیتے ہوئے سماج کو ورغلانے والا، سچ کو سچ لکھنے ، بولنے والا بے باک صحافی، جھوٹ کی پردہ پوشی کرنے والا جھوٹا اور صحافت سے غداری کرنے والا غدار صحافی، حقائق کو واضح کرکے آئینہ دکھانے والا، حقائق چھپا کر آئینہ پر گرد وغبار ڈالنے والا ، میدان جنگ سے جان کی بازی لگاتے ہوئے رپورٹنگ کرنے والا جانباز صحافی،گائوں کھیڑے سے رپورٹنگ کرنے والا ، ضلعی نمائندہ، شہری نمائندہ، علاقائی نمائندہ، شہروں اور گلیوں کی خاک چھاننے والا آبلہ پا صحافی، پارلیمنٹ کی خبروں پرنظر رکھنے والا، ایوان اسمبلی کی خبریں نشر کرنے والا، پنچایت، کارپوریشن ، الیکشن، ووٹنگ، نتائج کی خبریں دکھانےوالا سیاسی خبروں کو کوریج کرنے والا، ، سیاسی لیڈروں، سماجی رہنمائوں، ماہرین تعلیم کے انٹرویو شائع کرنے والا، اپنی خبروں سے غریبوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا، امیروں کو سماج کے فلاح بہبود کےلیے بہتر کام پر ابھارنے والا، غریبوں کی کمر توڑنے والا، امیروں کا ہمدرد، بلیک میلر، خوب ترقیات حاصل کرکے نیچے سے اوپر پہنچنے والا، عالیشان بنگلوں میں رہنے والا، پوری زندگی صحافت کی نذر کرنے کے باوجود چھ بائی چھ کے کمروں میں کمر تک سیدھی نہ کرپانے والا، کئی کئی مہینوں تک بغیر تنخواہ کے کام کرنے والا، پائی پائی کو محتاج صحافی، فساد زدہ علاقوں کی خبریں نشر کرنے والا، عوام دوست، پولس دوست، لیڈر پرست، حکومت سے سوال کرنے والا نڈر رپورٹر، حکومت کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرنے والا صاف گو ، بے خوف، دلیر، بہادر، جری، جرات مندرائٹر، حکومت کی غلط پالیسیوں پر نقد کرنے والا نقاد صحافی، غلط پالیسیوں کا حامی دلال ، ایجنٹ، کمیشن خور، پٹھو،تابعدار پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والا، سوشل میڈیا پر خبریں چلانے والا، اردو میڈیا کا صحافی، انگریزی میڈیا کا جرنلسٹ، ہندی میڈیا کا سمپادک ہوں، عربی ، فارسی، ترکش، فرینچ سمیت دنیا کی دیگر تمام زبانوں میں خبریں نشر کرنے، پڑھنے، لکھنے، بولنے والا صحافی ہوں ۔
جی سچا، حق گو، حقیقت شناس، خبروں کو انصاف سے نشر کرنے والا منصف مزاج صحافی ، خبروں میں مرچ مصالحہ لگا کر قوم میں بدامنی، انتشار، فرقہ پرستی، جھوٹ و دروغ گوئی کا سہارا لے کر امن وامان میں خلل ڈالنے والا، جعلی خبریں نشر کرنے والاکذاب، فرضی خبروں کو چلانے والا لپاڑیہ، بددیانت، عیار، مکار، فریبی، خادع، خائن ، بے ایمان، قزاق ، نوسر باز، شعبدہ باز، پاکھنڈی جھوٹ کا سہارا لے کر ترقی کرنے والا سیاسی لیڈروں کی آنکھوں کا تارا اور سچ کی پاداش میں جیل جانے والا، لیڈروں کی آنکھوں میں کھٹکنے والا، حکومت کی چالبازیوں کا شکار ، اپنے مضامین ، تجزیوں اور تبصروں سے حقیقت واشگاف کرنے والا فرضی واڑہ کوبے نقاب کرنے والا اعلیٰ درجے کا بلند پایہ صحافی ہوں ۔ ہاں میں وہی سچا صحافی ہوں، جس پر سماج کو، عوام کو، بھروسہ ہے، فخر ہے جس کی وجہ سے ہمیں سماج میں عزت، محبت اور الفت سے نوازا جاتا ہے، ہمارا مشن خبروں کو عوام تک سچائی کے ساتھ پہنچانا ہوتا ہے؛ تاکہ وہ باخبر رہ کر افواہوں سے بچیں،حقائق پر نظر رکھیں، ملک میں امن وامان کی فضا قائم رہے؛ لیکن ہمارے ہی صحافت سے وابستہ کچھ افراد کا کام دلالی کرنا ہوتا ہے وہ خبروں میں مرچ مصالحہ لگا کر، جھوٹی اور افواہوں پر مبنی خبروں کو ذیابیطش زدہ زبان سے میٹھا کر آپس میں نفرت و دشمنی کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں، دو کمیونٹی کے اندر خلیج پیدا کرکے ٹی آر پی کے چکر میں ملک میں فساد و بدامنی کا سبب بنتے ہیں، دوہزار کے نوٹ میں چِپ ہونے کی باتیں کرتے ہیں۔
ہاں میں وہی صحافی ہوں جو دلال میڈیا ہا ئوس کے ذریعے پھیلائے گئے جھوٹ کو فیکٹ چیکنگ کے ذریعے بے نقاب کرتا ہوں، انتہائی عرق ریزی اور باریک بینی سی ان کے ذریعہ پھیلائے گئے جھوٹ کا پوسٹ مارٹم کرکے عوام کو سچ سے آگاہ کرتا ہوں، فتنہ پرور صحافیوں کی فتنہ پروری عوام کو بتاتا ہوں،جس کی وجہ سے ہمیں پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہیں، کبھی حکومت مخالف قرار دیاجاتا ہوں، تو کبھی ملک مخالف، ہمیں سچ بولنے، لکھنے، اورکہنے کی وجہ سے جیلوں میں ڈال دیاجاتا ہے،طرح طرح سے پریشان کرنے کے ہتکھنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، وہیں دوسری طرف ان گودی میڈیا کے دلالوں پر عنایت و بخشش کی بارش کی جاتی ہے، ان کے جھوٹ کو سراہا جاتا ہے، ان کے ذریعہ پھیلائے گئے افواہ کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھاجاتا ہے جو جمہوریت کے چوتھے ستون کےلیے خطرناک ہے۔ ملک میں انگلی پر ہی گنے چنے سچے صحافی ہیں جو جمہوریت کی بقاء کےلیے ، ملک کی سالمیت کے لیے کام کررہے ہیں ، دوسری طرف دلالوں کا ایک بڑا ٹولہ ہے اور اس ٹولےکو ہر طرح کے جھوٹ ، فریب، مکر، دغابازی، جعل سازی پر ہرطرح کا تعاون اور عوام کے ایک بہت بڑے طبقے کی حمایت بھی حاصل ہے وہ ایسی ہی خبروں کو دیکھنا، پڑھنا، اور سنناچاہتے ہیں ۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں ہندو مسلم کی خبریں نشر کی جائیں، مسجد مندر کا جھگڑا صبح وشام اسکرین پر چلتا رہے، لوجہاد کی خبریں اخبارات ورسائل اور سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہیں، گئو کشی کی خبریں ہائی لائٹ کی جاتی رہیں، انہیں ملک میں پھیلی بدامنی، بھکمری ، تعلیمی انحطاط اور بیروزگاری سے کوئی سروکار نہیں ان کے نزدیک ملک کی ترقی فتنہ وفساد میں ہی مضمر ہے، یہ حکومت کے رٹّو طوطے ہیں وہی بولتے ہیں جو حکومت نے رٹایا ہوتا ہے، یہ ’پالتو ‘ہیں جہاں سے ’کچھ ‘ ملتا ہے اسی کے حق میں چیختے اور بھونکتے ہیں، صحافت جیسے مقدس پیشے کو ان حکومتی دلالوں نے بدنام اور بے اعتبار کردیا ہے۔ صحافیوں کو بے اعتبار بنانے میں ان ضمیر فروشوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، ہاں اب بھی صحافت کی لاج رکھنے والے کچھ ایماندار صحافی ہیں جو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اپنا فریضہ بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں، جو حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر رہے ہیں جس کی بنا پر کبھی ان کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے تو کبھی دھمکی دی جاتی ہے، کبھی ٹویٹ پر روک لگانے کی مانگ عدالت عظمیٰ سے کی جاتی ہے، کبھی ان ایماندار، نڈر اور بیباک صحافیوں کو صحافی ماننے سے ہی انکار کیا جاتا ہے ؛ لیکن یہ دیوانے سب کچھ برداشت کرکے جمہوریت کے چوتھے ستون کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اور انتہائی کم تعداد میں ہونے کے باوجود بھی اپنے مشن میں کامیاب ہیں۔
’’نئے پرانے چراغ‘‘ کا تیسرا دن:تحقیقی و تخلیقی اجلاسوں میں درجنوں اسکالرز اور تخلیق کاروں کی شرکت
نئی دہلی:اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے دہلی کے بزرگ اور جواں عمر قلمکاروں کامقبول ترین پانچ روزہ ادبی اجتماع ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کا سلسلہ جاری ہے۔آج بروز اتوار مورخہ 24جولائی کو ’’تحقیقی وتنقیدی ‘‘کے پہلے اجلاس میں دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز نے منتخب موضوعات پر تحقیقی و تنقیدی مقالات پیش کیے۔ ان موضوعات میں ’’دکن کی قدیم اردو شاعری اور اہم شعراء‘‘، ’’غزل کے بدلتے رجحانات‘‘ ، ’’اردو تحقیق اور اہم محققین‘‘، ’’قدیم اردو نثر اور اہم تصانیف‘‘، ’’اردو صحافت:ماضی، حال اور مستقبل کے امکانات‘‘ شامل ہیں۔ اس اجلاس کی مجلسِ صدارت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر شعبۂ اردو پروفیسراحمد محفوظ ، ڈاکٹر ریاض عمر اور مفتی عطاء الرحمن قاسمی شامل تھے۔ جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شہنواز فیاض نے انجام دیے۔اس اجلاس میں دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد فیصل نے ’’فسانۂ عجائب اور رشید حسن خاں کی تحقیقی موشگافیاں‘‘، دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر عبدالمجیدنے ’’رشید حسن خاں کے تحقیقی و تدوینی اصول و ضوابط ‘‘،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر صائمہ ثمرین نے ’’ساجدہ زیدی کی غزل گوئی قدیم و جدید کا التزام ‘‘،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرذیشان نے ’’دکن کا مشہورشاعرسراج اورنگ آبادی غزلیہ شاعری کے تناظر میں‘ ‘، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالرفیضان الحق نے ’’ش۔ اختر کی تصنیف تحقیق کے طریقہ کار : ایک جائزہ‘‘،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالرعظمیٰ نے ’’قدیم اردو نثر اور اہم تصانیف‘‘،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر نور الاسلام نے ’’نکڑ ناٹک: فن اور اہمیت‘‘،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالرسیمیں فلک نے ’’مسعود حسین خان کی تحقیق‘‘، دہلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالررفعت اختر نے ’’مشرقی تحقیق اور ظفر احمد صدیقی کا طریقۂ کار‘‘،کے عنوانات پر اپنے مقالات پیش کیے۔
مقالات کے بعداظہارِ خیال کرتے ہوئے مفتی عطاء الرحمن قاسمی نے کہاکہ اردو اکادمی کا سب سے کامیاب ترین پروگرام نئے پرانے چراغ ہوتا ہے اور پیش کیے گئے تمام مقالات اچھے تھے۔ جب میں تحقیقی کام کرتا تھا تو نئے پرانے چراغ میں پیش کیے گیے مقالات سے استفادہ کیا کرتا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ تحقیق میں سب سے اہم کام استقلال مزاجی ہے۔ ہماری یونیورسٹی اور کالج کے طلباء غنیمت ہیں کہ وہ لکھتے پڑھتے ہیں لیکن مدارس میں خاموشی ہے۔ یہاں نئی نسل کی تربیت ہو رہی ہے اور اگر آج یہ تیار ہوگئے تو یہی نسل ہمارا سرمایہ ہے۔
پروفیسراحمد محفوظ نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہاکہ افادیت کے اعتبار سے اس اجتماع کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ یہ پروگرام جس کا مرکز طلباء کی تربیت ہے، اس لحاظ سے یہ پروگرام کافی اہم ہے۔ میں نے تمام مقالات بغور سنے ہیں، تمام مقالات کے موضوعات بھی منفرد تھے۔ یہ سبھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔بیشتر مقالات میں ایک بات یکساں تھی کہ جو باتیں پہلے کہی جا چکی ہیں انہی پر تکیہ کیا گیا ہے، جب کہ اپنے افکار و نظریات بھی رکھے جاسکتے ہیںاور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب آپ غور وفکر کریں گے۔غلطی ہونے کے اندیشے کے سبب کام نہ کیا جائے یہ بھی تو مناسب نہیں۔ تمام مقالات محنت سے لکھے گئے ہیں بس اپنے خیالات بھی پیش کرتے تو بہتر ہوتا اورہمیں چاہئے کہ علمی نثر میں عبارت آرائی سے بچیں کیوں کہ وہ تاویل کی جانب لے جاتی ہے۔ پروفیسر احمد محفوظ نے فرداً فرداً سبھی مقالات پر مختصراً گفتگو کرتے ہوئے ریسرچ اسکالرز کی تحقیق اور لسانیات کے حوالے سے اصلاح بھی فرمائی۔
ڈاکٹر ریاض عمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ تمام مقالات کافی محنت سے لکھے گئے اور یہ قابل تعریف ہیں۔مجھے یقین نہیں امید ہے کہ آپ پی ایچ ڈی کے بعد اچھے مقالہ نگاروں کی صف میں شامل ہوں گے۔
ظہرانیکے بعد ’’تخلیقی اجلاس‘‘ کا انعقاد ہوا جس کی صدارت پروفیسرجی آر سید اوراسد رضا نے کی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ثاقب عمران نے انجام دیے۔اس سیشن میں افسانہ/انشائیہ/ خاکہ وغیرہ پیش کیے گئے۔اس موقع پر عذرا نقوی نے ’’آسماں میں کھڑکی‘‘، رخشندہ روحی نے ’’کتنے جھوٹے تھے ہم‘‘، چشمہ فاروقی نے’’ ہمراہی اور منزل‘‘، غزالہ قمر اعجازنے ’’ٹیشو پیپر‘‘، طاہرہ منظور نے ’’چھوت کون‘‘، ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے’’بلڈوزر‘‘،محمد انصر نے’’ کش مکش حیات‘‘، شہباز عالم نے ’’بدلہ‘‘ کے عنوانات سے افسانے افسانے پیش کیے جب کہ محمدتوصیف خاں نے اپنا انشائیہ ’’نامعلوم مسافر‘‘، پیش کیا۔
پروفیسرجی آر سید نے صدارتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ تمام افسانے بہت اچھے تھے، ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ افسانہ اور کہانی ایک ہے جب کہ ایسانہیں ۔ دراصل افسانے میں کہانی ہوتی ہے، بنیادی طور پر افسانہ فن ہے اور افسانہ ایک ایسا فن ہے جس کی پیش کش بہترین ہونی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہاکہ کہانی اچھی ہو یا بری ہو اگر پیش کش بہترین ہوتو کہانی ہمارے دلوں تک پہنچتی ہے۔ جی آر سید نے فرداً فرداً سبھی افسانوں پر گفتگو کی۔ اسد رضا نے اپنی صدارتی گفتگو میں تمام افسانوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ نئے لکھنے والوں کو چاہئے کہ وہ پیش کش پر توجہ دیںکیوں کہ افسانوں میں ڈرامائی انداز متاثر کن ہوتا ہے۔ اہم شرکاء میں اشفاق عارفی، شعیب رضا فاطمی،سہیل انجم ،انس فیضی ،اسرار قریشی وغیرہ شامل تھے۔ تحقیقی و تنقیدی اور تخلیقی اجلاس کے فوراً بعد ’’محفل شعر وسخن‘‘ کا آغاز ہوا۔