مترجم :ڈاکٹر خالد اختر علیگ
ناول نگار اور ڈرامہ نگار ایڈورڈ بلور لیٹن(Edward Bulwer-Lytton) نے ایک معمولی سے قلم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک کہاوت”قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے“لکھی تھی ،جو بہت مشہور ہے۔حقیقت میں قلم نہایت پسندیدہ اوردل سے لگاؤ کی شئے ہے، یہ ایک مصنف کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔لیکن دل سے اتنے قریب ہونے کے باوجودقلم کی فطرت ہے کہ وہ زیادہ مدت تک استعمال کرنے سے ٹوٹتے اور برباد ہو جاتے ہیں،حالاں کہ بہت سے لوگ انہیں پھینک دیتے ہیں۔لیکن کولکتہ میں ایک وقت تھا جب لوگ اپنے قلم کی مرمت کروانے کے لیے اسے ‘پین اسپتال'(Pen Hospital) لے جاتے تھے۔حالاں کہ یہ سننے میں کچھ عجیب لگتا ہے، لیکن ایک زمانے میں قلم اسپتال شہر کے منظر نامے کا مرکز تھے۔ اگرچہ اس طرح کے زیادہ تر اسپتال وقت کے ساتھ مٹ چکے ہیں، لیکن کولکتہ کے قلب میں ابھی بھی ایک اسپتال باقی ہے۔جیسے ہی آپ دھرمتلا میٹرو اسٹیشن کے گیٹ نمبر 4 سے باہر نکلیں گے، آپ کو فٹ پاتھ کے بائیں جانب ایک ‘پین اسپتال’ کا بورڈ لٹکا ہوا نظر آئے گا۔ تنگ گلی کے ایک طرف، ڈاکٹر محمد امتیاز ایک چھوٹی سی دکان میں بیٹھ کر پرانے اورشکستہ قلموں کا "علاج” کرتے ہیں۔بے ترتیبی سے بھری ہوئی ا ن کی اس دکان میں کئی قیمتی اور نایاب قلم موجودہیں۔
اس دکان کو امتیاز کے داداشمس الدین نے 1945ءمیں شروع کیا تھا، تو اس زمانے میں واٹر مین، شیفرڈ، پیئر کارڈا اور ولسن جیسے شاہی قلم کو بیرون ملک سے منگایاجاتا تھا،جن کو ٹھیک کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ امتیاز بتاتے ہیں کہ قلم اسپتال کا سفر قلم سے محبت کرنے والوں کے غم کو دور کرنے کے خیال سے شروع ہوا،اوریوں’ پین اسپتال‘ قائم ہوگیا۔امتیاز اور ان کے بھائی محمد ریاض اپنے والد محمد سلطان کا ہاتھ بٹانے کے لیے اس ہسپتال میں کام کرنے لگے۔ اپنے چھوٹے بھائی کی موت کے بعد، انہوںنے اسپتال کی ذمہ داری سنبھالی جس سے ہونے والی آمدنی پرہی ان کا خاندان انحصار کرتا ہے۔
اسپتال میں گاہک کا انتظار کرنے والے امتیاز نے کہا،”ہمارا کام سیاہی اور نب والے قلم کو ٹھیک کرنا ہے۔“حالاں کہ آج کل سیاہی والے قلم سے لکھنا تقریباًختم ہو گیا ہے۔ زیادہ تر لوگ قلم کو ایک باراستعمال کرکے اسے پھینک دیتے ہیں، اب کمپیوٹر کا دور ہے۔ ابھی بھی کچھ لوگ ہیں جو سیاہی سے لکھتے ہیں،وہ ٹوٹے ہوئے قلم کو ٹھیک کرنے آتے ہیں۔ کچھ لوگ منفرد اور انوکھے پرانے قلم بھی خریدتے ہیں۔پین اسپتال کے کلیکشن میں 20 روپے سے 20,000 روپے تک کے قلم موجود ہیں۔” ڈاکٹر امتیاز ٹوٹے ہوئے قلموں کومختلف سائز اور اشکال کے آلات کا استعمال کرتے ہوئے،انہیں ‘شفا’ دے کر اسے نئی زندگی عطا کرتے ہیں۔اس کی ایک طویل اور مثالی تاریخ ہے، اس قلم اسپتال میں کئی نامور پروفیسرز، ادیب اور صحافی اپنے پسندیدہ قلم کی بیماری کا علاج کرانے کے لیے آ چکے ہیں۔
ایک قلم کے’ آپریشن’کے دوران قلم اسپتال کے ڈاکٹر نے بتایا، "غیر ملکی قلم بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ 10,000سے12,000 روپے قیمت تک کے قلم لوگ مرمت کے لیے یہاں لاتے ہیں۔ ہر قلم میں نب سے سیاہی بھرنے کا نظام ایک دوسرے سے مختلف ہوتاہے۔ قلم کے تمام حصے ہمیشہ آسانی سے دستیاب بھی نہیں ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جیسے ہی پرانے قلم کی ٹیکنالوجی کو تبدیل کیا جاتا ہے، قلم کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے لکھنے والے کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل جاتی ہے جو مجھے بہت پسند ہے۔”
(اصل تحریر روزنامہ انڈین ایکسپریس میں 5 جون 2022 ءکو شائع ہوئی ہے)