نئی دہلی: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ اس وقت حکومت جس لاقانونیت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی ملزموں کے ساتھ مجرموں کا سا سلوک کر رہی ہے حد درجہ افسوس ناک اور خود دہشت گردی کی ایک صورت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمان اپنی جان اور ا پنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں؛ مگر ایک تو بر سر اقتدار پارٹی کے نمائندہ اور ترجمان نے گستاخی کر کے مسلمانوں کا دل زخمی کیا ہے اور پھر بجائے اس کے کہ اس بد زبان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں آتی، اُلٹے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے۔ جو لوگ اس ناشائستہ حرکت کے خلاف پُر امن طریقہ پر احتجاج کر رہے ہیں، ان کے خلاف کیس درج کیا جا رہا ہے، اُن پر لاٹھی چارج ہو رہا ہے، اور ان کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے، جب تک ایک شخص پر کورٹ کے ذریعہ جرم ثابت نہ ہو جائے، اس وقت تک وہ صرف ملزم ہے، اس کے ساتھ مجرموں کا سا سلوک کرنا لاقانونیت ہے اور جس گستاخ کا جرم طشت از بام ہے، میڈیا پر موجود ہے اوراس جرم کو تسلیم بھی کیا گیا ہے، اسی بنا پر پارٹی نے اس کو معطل کیا ہے، اس کے خلاف حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی نہ کرنا یقیناََ انصاف کا قتل ہے۔کیا قانون احتجاج کرنے اور پتھر پھینکنے کی وجہ سے کسی کا گھر گرا دینے اور ’’اسلام زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے کی وجہ سے کسی شخص کو گولی مار کر ہلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے؟
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مرکزی حکومت اور دیگر صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسی نامنصفانہ حرکت سے باز آئے، پتھر پھینکنے والے جو بھی ہوں، چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان، تحقیق کے بعد اُن کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے، پھر عدالت جو فیصلہ کرے، اس کو نافذ کیا جائے۔ ریاستی حکومت کا موجودہ رویہ قطعاََ ناقابل قبول اور اشتعال کو بڑھاوا دینے والا ہے۔ ایسی حرکتوں سے امن وامان کی فضا قائم ہونے کی بجائے شر وفساد اور نفرت کا ماحول پیدا ہوگا۔اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مطالبہ کرتا ہے کہ فوری طور پر اس معاملہ میں گرفتار لوگوں کو رہا کیا جائے، ان کے خلاف عدالت میں معاملہ پیش کیا جائے، جن لوگوں کی جانیں گئیں اور جو زخمی ہوئے ہیں ان کے پسماندگان کو اس کا بھرپور معاوضہ دیا جائے اور جن پولیس جوانوں نے قانون کی حد سے تجاوز کیا ہے،ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ بورڈ مسلمانوں سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ صبر سے کام لیں، گستاخ رسول کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے مقامی سرکاری عہدہ داروں کو میمورنڈم پیش کریں، پولیس مظالم کے شواہد جمع کرکے ملی تنظیموں کے سپرد کریں کہ وہ ایسے پولیس جوانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کراسکیں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ فرقہ پرست عناصر چاہتے ہی ہیں کہ آپ مشتعل ہوں اور پولیس اس کو ظلم وزیادتی کا بہانہ بنائے، ہمیں چاہئے کہ ان کو اس کا موقع نہ دیں۔
13 جون, 2022
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح ورخصتی کے وقت ان کی عمر کی تعیین کا معاملہ کوئی ایمان وعقیدے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ سرتاسر تاریخی نوعیت کا معاملہ ہے۔اس لیے اس معاملے میں امت کا متفقہ مطمح نظر یہ ہونا چاہیےکہ اگراحادیث کی کتابوں پر اور محدثین پرقلتِ حفظ وضبط کاکوئی الزام آتا ہے تو آئے مگر ناموسِ رسالت ﷺپر کوئی ایسا الزام نہیں آنا چاہیے جسے ہمیں چاروناچار برداشت کرنا پڑے۔
اس معاملے میں اگر ہم روایت کے ظاہر پر ہی بہت زیادہ مصر یا منحصر رہیں گے تو ہمارے سامنے ایسی باتیں بھی آئیں گی جنھیں ہمارے عقل ودل کسی بھی طرح ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ شیخ محمد صالح المنجدکی نگرانی میں چلنے والی ایک مشہور ومعروف ویب سائٹ پراسی حوالے سے ایک مضمون میں آپ کو یہ جملہ بھی لکھاہوا مل جائے گا:
’’ ….اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رخصتی بلوغت کے بعد یا بلوغت سے کچھ پہلے ہوئی ۔‘‘
حضرت عائشہؓ کو حضور ﷺ نے گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت دے رکھی تھی، اس کی علت ابن حجررحمہ اللہ کے مطابق خطابی رحمہ اللہ نے یہ بیان کی ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ چونکہ بالغ نہیں تھیں، اس لیے انہیں گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت تھی۔
’’حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "خطابی رحمہ اللہ کے مطابق: عائشہ رضی اللہ عنہا کو گڑیوں کے رکھنے کی اجازت اس لئے دی گئی کہ آپ اس وقت بالغ نہیں تھیں۔‘‘ (اسلام سوال وجواب، نگران اعلیٰ، شیخ محمد صالح المنجد، سوال نمبر 122534، تاریخ:27/2/2016)
اب آپ بتائیں کہ’’ بلوغت سے پہلے رخصتی ‘‘والی بات کو آپ برداشت کرسکتے ہیں؟ شاید نہیں۔ لیکن روایات کے ظاہر پر اصرار کرنے کے باعث ایسی ناقابل یقین باتیں بھی سامنے آتی ہیں۔پھر ایسی باتیں رکھنے والے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں سوچتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔بے شک ایسا نہیں ہے کہ انہیں ناموس رسالت کی پروا نہیں ہے مگر ایسا ضرور ہے کہ وہ روایات کے لیے بھی بہت زیادہ حساس ہیں۔حضرت عائشہ ؓ کے نکاح ورخصتی کے وقت۶ اور ۱۰ سے زیادہ ان کی عمر تسلیم کرنے میں غالبا سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ اگر اسے تسلیم کرلیں تو محدثین اوراحادیث کی کتابوں پر قلت حفظ وضبط کا الزام آئے گا ۔
بیشتر علما و محققین جو سیدہ عائشہؓ کی رخصتی کے وقت ۹ سال کی عمر ہی کو درست مانتے ہیں وہ اغیار کی الزام تراشیوں کے پس منظر میں یہ استدلال بھی رکھتے ہیں کہ رخصتی کے وقت سیدہ عائشہ ؓ کی عمر اس سے زیادہ تسلیم بھی کرلی جائے، حتی کہ بعض دوسرے محققین کے مطابق ۱۹ بھی مان لی جائے تب بھی تو اعتراض ختم نہیں ہوگا، کیونکہ۱۹ سال کی لڑکی کے ساتھ ۵۴،۵۳ سال کے شخص کے نکاح کو بھی لوگ قابل اعتراض ہی سمجھیں گے اور دونوں کے مابین عمر کے اتنے زیادہ تفاوت کے حوالے سے دشنام طرازیاں کریں گے ہی۔مگریہ استدلال زیادہ وزنی نہیں ہے، کیونکہ دونوں میں یعنی ۹ ؍اور ۱۹ ؍میں میں بہت فرق ہے ۔ جی ہاں ،زمین وآسمان جیسا فر ق ہے۔ عمر کے بہت فرق سے تو آج بھی شادیاں ہوتی ہیں، یعنی اکیسویں صدی میں بھی، آج بھی بہت سے اہل ثروت خود سے نصف عمر کی عورتوں سے شادیاں کرتے ہیں۔ ۱۹؍ اور۵۴ کے جوڑے پر اعتراض اُس نوعیت کا بالکل نہیں ہے جس نوعیت کا۹؍ اور۵۴؍کے جوڑ ےپر ہوسکتا ہے۔۹؍سال کی عمر میں عدم بلوغت کا سوال بھی آجاتا ہے جبکہ ۱۹؍ کی عمر میں عدم بلوغت کا سوال نہیں آتا اور نہ ہی یہ سوال آتا ہے کہ ۱۹؍ سال کی لڑکی گھر گرہستی سنبھالنے کے لیے اور ماں بننے کے لیے بہت چھوٹی ہوتی ہے۔۱۹؍ تسلیم کرلینے میں بیشتر اعتراضات خود بخود رفع ہوجاتے ہیں۔
نبی پاکﷺ جنہیں ساری کائنات کا ہادی ورہنما بناکر بھیجا گیا ہے ،بعض اختصاصات کے علاوہ ان کا ہر عمل امت کے لیے نمونہ ہے، ان سے یہ بات بعید از قیاس لگتی ہے کہ وہ کسی ۹؍سال کی کم سن بچی سے زن وشو والے تعلقات قائم کریں گے، گرچہ اس زمانے میں یہ بات کوئی معیوب نہ سمجھی جاتی ہو اور گرچہ ام المؤمنین ؓ ۹ ؍سال کی عمر میں ہی بالغ ہوچکی ہوں اور یہ کہ ان کی والدہ نے ان کو فربہ کرنے کے لیے خواہ کتنی بھی مقوی غذائیں کیوں نہ کھلاتی ہوں۔یہ بات بہر صورت بعید از قیاس لگتی ہےاور خود اہل ایمان کو بھی مضطرب رکھتی ہے۔
اب جبکہ اس واقعہ کو کم وبیش چودہ سو سال کا طویل عرصہ گزرچکا ہے اور اب اس حوالے سے جو بھی تحقیق پیش کی جائے گی وہ اندازوں اور قیاسات پر ہی مبنی ہوگی اور اس بات کے امکانات تقریبا مفقود ہوں گے کہ اس حوالے سے کوئی تحقیق سوفیصد یقین کے ساتھ پیش کی جاسکے۔تو ان احتمالات کے پیش نظر اس واضح موقف کی طرف آنا چاہیے جس سے دل زیادہ مطمئن ہوں اور شان پیغمبری کا امتیاز بھی قائم رہے،کہ ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ اغیار کے الزامات کا بہتر جواب ہوگا بلکہ ہر مؤمن کے خود کے تیقن کو پختہ تر کرنے میں معاون ہوگا۔کم از کم اتنا تو کرنا ہی چاہیے کہ اس معاملے کو بھی دوسرے بہت سے فقہی وتاریخی مسائل ومعاملات کی طرح اختلافی نوعیت کے ساتھ بیان کیا جائے۔ایسا کرنے سے ہمارے قومی بیانیے سے قطعیت جاتی رہے گی ۔
روایات پر بہت زیادہ انحصار کرنے والوں کی طرف سے یہ دلیل بھی رکھی جاتی ہے کہ دنیا کے بیشتر مذاہب و ادیان میں اور تہذیوں اورعلاقوں میں لڑکیوں کی آٹھ دس سال کی عمر میں شادی کرنے کا عام رواج رہا ہے۔یہ استدلال اپنی جگہ درست ہے اور اغیار کا منہ بند کرنے کے لیے یہ ایک اچھا استدلال ہے۔ ہندوتوا وادی لوگ جب معترض ہوں تو ان سے پوچھا جائے کہ سیتا جی کی شادی کتنی عمر میں ہوئی تھی اور عیسائی اگر بولیں تو ان سے سوال کیا جائے کہ عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کا نکاح کتنی عمر میں ہوا تھا اور ان کے شوہر جوسف کی عمر کتنی تھی؟کسی بھی بندۂ گستاخ کا منہ بند کرنے کا سب سے زیادہ کارگر نسخہ الزامی جواب ہی ہے۔تاہم بات وہی ہے کہ نبی ﷺ کی شان بہت بلند ہے۔نبیﷺ تو اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے اور ان کا ہر عمل بعد والوں کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ دوسروں کا عمل نبی ﷺ کے کسی عمل کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتا کہ ’چہ نسبت خاک را با عالم پاک‘۔اس لیے میری ذاتی رائے بلکہ گزارش یہی رہےگی کہ اگر آپ اپنی تحقیق کے اعتبار سےاسی کو ہی درست مانتے ہوں کہ سیدہ عائشہؓ کی رخصتی ۹؍سال کی عمر میں ہوئی تھی، تب بھی آپ اس کو قطعیت کے ساتھ بیان نہ کریں، بلکہ اختلافی اورقیاسی بات کے طورپر ہی بیان کریں۔کہ ہوسکتا ہے سیدہ عائشہؓ نے اپنی عمر کم بتانے میں مبالغہ سے کام لیا ہو۔
آپﷺ کے زمانے میں عرب کے لوگ کئی چیزوں میں بہت ممتاز تھے اور کئی دوسری چیزوں میں اتنےممتازنہ تھے۔ عرب نسب یاد رکھنے میں ممتاز تھے، یہاں تک کہ ان کو اپنے اونٹوں کے نسب بھی یاد رہ جاتے تھے، عرب فطری طورپر ذہین تھے اور ان کی یادداشت بہت اچھی تھی، وہ زبان وادب کے ماہر تھے ، وہ اچھے تاجر بھی تھے اور ان کی یادداشت ایسی تھی کہ وہ سیکڑوں ابیات پر مشتمل قصائد زبانی یاد کرلیا کرتے تھے۔ ان کی اسی ذہانت اور یادداشت نے قرآن وحدیث کو محفوظ رکھنے میں انہیں بہت مدد دی۔البتہ عرب تاریخیں یاد رکھنے کے معاملے میں ممتاز نہ تھے۔بلکہ وہ اندازوں سے بات کیا کرتے تھے۔خود ہمارے ملک (بھارت) کے دیہی علاقوں کی عورتیں چند سال پیشتر تک بھی اپنے بچوں کی عمریں اسی طرح بیان کرتی تھیں کہ فلاں کا بیٹافلاں کی بیٹی سے ایک سال چھوٹا ہے اور فلاں کی بیٹی فلاں کے بیٹے سے دو سال بڑی ہے۔بیٹا جب تمہا رے چچا کی شادی ہوئی تھی تو تم دو سال کے تھے، وغیرہ وغیرہ ۔آج بھی یعنی اکیسویں صدی میں بھی جو لوگ ساٹھ ستر سال کے ہیں اور ان کی ڈیٹ آف برتھ محفوظ نہیں ہے وہ اندازے سے اپنی عمر ٹھیک ٹھیک نہیں بتاسکتے۔جس طرح بھی حساب لگائیں گے دو تین سال کا فرق آئے ہی جائے گا۔ممکن ہے آپ اپنے آس پاس کے ایسے کئی لوگوں کو جانتے بھی ہوں ۔
عرب کی عورتیں بھی اپنی اور اپنے بچوں کی پیدائش، شادیاں اور وفات اسی طرح یاد رکھتی اور بیان کرتی تھیں۔ گرچہ رسول اللہ ﷺ سے پہلے عربوں میں قمری کلینڈر موجود تھا مگر اس کا عام رواج نہیں تھا، اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ وہ تاریخوں کو بڑے بڑے واقعات جیسے عام الحزن، عام الفیل، عام الجماعہ اورعام الہجرہ وغیرہ کے نام سے جانتے تھے۔وہ مہینوں کی تعیین تو پھر بھی کرلیتے تھے مگر سال کی تعیین مشکل سے کرپاتے تھے۔مائیں اپنے بچوں سے کہتی تھیں کہ تم عام الفیل سے ایک سال بعد پیدا ہوئی تھیں اور تم ایک سال پہلے۔ اوراسی لیے آپ دیکھیں گے کہ حضور رسالت مآب ﷺکے زمانے میں بھی جبکہ سن عیسوی کو رائج ہوئے پانچ سو سال گزرچکے تھے، بہت سی بزرگ شخصیات کی تاریخ پیدائش ووفات نہیں ملتیں، اور جو ملتی بھی ہیں ان میں اختلافات ہیں۔ خود رسول اللہ ﷺ کی تاریخ پیدائش میں بھی اختلاف ہے۔حضرت عائشہؓ کی تاریخ پیدائش کے حوالے سےجو کچھ بھی تاریخ وسیرت کی کتابوں ملتا ہے وہ سب اندازے اور قیاسات ہیں۔حتیٰ کہ حضرت عائشہؓ کی تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے۔وفات کے وقت ان کی عمرکیا تھی، اس میں بھی ۶۳ سے لے کر ۶۸ تک کئی اقوال مل تے ہیں ، پھر ان کی وفات کس سن میں ہوئی اس میں بھی کم از کم دو اقوال مل جاتے ہیں۔حضرت عائشہؓ اپنے نکاح اور رخصتی کی عمر 6/9 ضرور بتاتی ہیں مگروہ اپنی تاریخ پیدائش نہیں بتاتیں۔اس زمانے میں دیکھیں تو بنا اختلاف کے کوئی بات نہیں ہے۔حضرت عائشہؓ سے شادی کے وقت خود رسول اللہﷺ کی عمر کتنی تھی، یہ بھی قطعی طورپر معلوم نہیں ہے۔اس میں بھی کئی اقوال ہیں۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ جب حضرت عائشہؓ اپنی عمر 6/9 بتاتی ہیں تو اس کا مطلب حتمی طورپر 6/9 ہی ہو ، یہ کوئی لازمی بات نہیں ہے ۔اس میں مزید چند ماہ بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ بلکہ یہ عمر ۶ کے بجائے ۸ اور ۹ کے بجائے۱۰ بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے قیاسیاً اپنی عمر بتائی ہے۔مسلم کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ نے اپنی عمر ۷ سال بھی بتائی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس میں تطبیق دی گئی ہے۔اگر ہم ان کی روایتوں کو درست تسلیم کریں اور ان میں کسی قسم کی غلطی کے امکان کو حذف کردیں تب بھی ان کی بتائی ہوئی عمرمیں چند سالوں کے اضافے کی گنجائش نکلتی ہی ہے۔
پھرسیدہ عائشہؓ کے حوالے سے بعض متضاد باتیں بھی سامنے آتی ہیں، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کم سن تھیں اور گڑیوں سے کھیلتی تھیں اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنگوں میں شریک رہتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور پانی کے مشکیزے یا گھڑے اپنے سر اور کاندھوں پررکھ کر لاتی تھیں اورمجاہدین کو پلاتی تھیں۔
پھر حضرت عائشہؓ نے اپنی شادی کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے وہ صرف انہوں نے ہی بیان کیا ہے، رسول اللہﷺ کے خاندان اور اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کے خاندان والوں میں سے کسی کی طرف سے بھی کوئی بات منقول نہیں ہے۔حتیٰ کہ ہمیشہ آپﷺ کے ساتھ رہنے والے اور اٹھنے بیٹھنے والے جو صحابہ کرام تھے انہوں نےبھی حضرت عائشہؓ کی شادی ورخصتی کے حوالےسے کوئی بات نہیں کی ہے۔اس حوالے سےجو کچھ بھی سامنے آسکا ہے وہ صرف حضرت عائشہؓ کا اپنا بیان ہے اور بس ،پھر وہ بھی ایسا ہے کہ بعد کے زمانےمیں غالبا کسی کے استفسار پر ،یا یہ باور کرانے کے لیے کہ رسول اللہﷺ سے ان کی رفاقت کیسی رہی اورکب سے کب تک رہی ، وہ یہ سب باتیں بیان کررہی ہیں۔ روایتوں کا اگر تتبع کریں تو حضرت عائشہؓ کی منگنی،نکاح اور رخصتی کے مختلف مواقع پر ان کا نام باربارخود رسول اللہؐ، حضرت خولہؓ، ام رومان ؓاور حضرت ابوبکرؓ کی زبان پر آرہا ہے، مگرکہیں بھی ان کی عمر کا یاصغر سنی کا ذکر نہیں آرہا ہے۔جب مدینے پہنچ حضرت ابوبکر ؓاور خود عائشہؓ بیماری ہوئیں تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ سے فرمایا کہ آپ انہیں اپنے گھر کیوں نہیں لے جاتے، تو رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ ان کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے ۔ یہاں رسول اللہﷺ یہ فرما سکتے تھے کہ انہیں ابھی اور میچیور ہونے دیں۔ یا حضرت ابوبکر ؓ کہہ سکتے تھے کہ اب تو عائشہؓ بڑی ہوگئی ہیں اب آپ انہیں اپنے گھر لے جائیں، مگر اس طرح کا کوئی تذکرہ کہیں آہی نہیں رہا ہے۔تو بظاہر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ عمر کا کوئی مسئلہ سرے سے تھا ہی نہیں ۔شاید اسی لیے کہ اس وقت ان کی عمر اتنی تھی کہ ان کے نابالغ ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔جبکہ حضرت فاطمہ ؓ اور ان کی بیٹی ام کلثوم ؓ کی منگنی کے وقت ان کی کم سنی کا سوال اٹھا تھا۔
جو اہل علم روایات کے ظاہری الفاظ پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور رخصتی کے وقت ۹؍سال کی عمر پر ہی اصرار کرتے ہیں، ان کا معاملہ بھی یہ ہے کہ انہیں بھی اندازوں اور قیاسات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کیونکہ ۹؍ سال کی عمر بلوغت کا بہت ہی ارلی اسٹیج ہے،اسی لیے ایسا ہے کہ ۹؍ سال میں ساری لڑکیاں بالغ نہیں ہوتیں،بلکہ کچھ ہی بالغ ہوتی ہیں۔حضرت عائشہؓ کا ایک قول غالبا مرفوع ہے یہ ہے’’ إذا بلغت الجارية تسع سنين فهي امرأة ‘‘یعنی جب لڑکی ۹؍سال کی ہوجائے تو وہ پوری عورت ہے،(سنن ترمذی،2/409) عموم پر محمول نہیں کیا جاسکتا بلکہ خصوص پر ہی محمول کیا جاسکتا ہے، یعنی حضرت عائشہؓ کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ۹؍سال کی عمر میں بعض لڑکیاں بالغ ہوجاتی ہیں۔اسی لیے بلوغت کی ابتدائی عمرکے بارے میں فتاویٰ مختلف ہیں۔
لہذا 6/9 ماننے والوں کوبھی کئی طرح کی تاویلیں کرنی پڑتی ہیں، مثلا وہ کہتے ہیں کہ گرم علاقوں کی لڑکیاں جلد بالغ ہوجاتی ہیں بنسبت سرد علاقوں کے۔ دوسرے غذا کی وجہ سے بھی بلوغت کی حد میں جلدی یا تاخیر ہوجاتی ہے۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں بڑی حدتک حقیقت بھی ہے۔مگر ایسا بھی عموما نہیں ہوتا، یعنی گرم علاقوں کی ساری لڑکیا ارلی ایج میں بالغ نہیں ہوتیں اور صحت مند غذا بھی ساری لڑکیوں پر یکساں اثر نہیں کرتی کہ ان سب کو عمر کے ایک ہی مرحلے میں بالغ کردے۔
ایک بڑی تاویل یہ کرنی پڑتی ہے کہ ممکن ہے رسول اللہ ﷺ نے ۹؍ سال بعد رخصتی کے باوجود زن وشوہر کا تعلق قائم نہ فرمایا ہو بلکہ مزید انتظار کیا ہو۔مگر یہ بات کہیں بھی صراحتا مذکورہ نہیں ہوئی حتی کہ روایات کے اسلوب کا داخلی نظام بھی اس طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا۔
ان سب تاویلا کی ضرورت اسی لیے پیش آرہی ہے کہ ہم روایات کی بنیاد پر ایسی بات کو تسلیم کررہے ہیں جو عموما تسلیم کیے جانے کے لائق نہیں ہے اور نبی ﷺ کی نسبت سے تو اور بھی تسلیم کیے جانے کے لائق نہیں ہے۔مگر بعض محققین کو اس کی بھی پرواہ نہیں ، وہ سیدھے سیدھے یہی لکھ رہے ہیں کہ رخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ نابالغ تھیں۔ العیاذ باللہ
اس پوری بحث سے یہ تو بہر حال ثابت ہوتا ہے کہ ہم جب بھی حضرت عائشہؓ کی عمر بیان کریں تو کم از کم اختلاف کے ساتھ بیان کریں، روایات کے پیش نظر سیدھے سیدھے 6/9 نہ بتائیں۔بلکہ یوں کہیں کہ امی عائشہؓ کی رخصتی 9/10 سال کی عمر سے 18/19 کے درمیان ہوئی ہوگی۔احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے اور شان رسالت کو حرف گیری سے بچائے رکھنے کا تقاضہ بھی یہی ہے۔
پٹنہ(پریس ریلیز): امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے مرکزی دفتر پھلواری شریف، پٹنہ میں پرفیسر آفتاب عالم قاسمی کی کتاب مناسک حج و عمرہ مع چہل حدیث کا اجرا امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے ہاتھوں عمل میں آیا، حضرت نے کتاب کی ستائش کی مؤلف سے مبارکبادی کے الفاظ کہے۔تقریب میں مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی، نایب ناظم مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی مدیر ہفت روزہ نقیب مولانا فاروق رحمانی مونگیری، اور مولانا شمیم اکرم رحمانی نے بھی تقریب میں شرکت کی، مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نے فرمایا کہ مؤلف نے اس کتاب کی تالیف میں محنت اور عرق ریزی سے کام لیا ہے، نیز قرآن حکیم اور احادیث سے بھرپور استفادہ کیا ہے، کتاب کی زبان آسان اور سہل ہے اور یہ عوام و خواص سب کے لیے یکساں مفید ہے، امارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے فرمایا کہ یہ کتاب عازمین کی ضرورت پوری کرے گی، یہ نہ بہت طویل ہے اور نہ بہت ہی مختصر، مطالعہ آسان اور اس پر عمل آسان تر ہے، انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں حج سے متعلق آیات و احادیث کو جس طرح جمع کیا گیا ہے ایک نئی چیز ہے، اس ترتیب سے آیات اور موضوع سے متعلق چہل احادیث کا مجموعہ میری نظر سے نہیں گذرا، مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نے عازم سفر ہونے پر مولانا کو مبارکباد دیا اور اپنے لیے دعا کی درخواست کی ۔مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری استاد حدیث سبیل السلام حیدر آباد نے پروفیسر آفتاب عالم قاسمی کی باضابطہ اس پہلی تالیف کو اپنے موضوع پر مرتب دلنشین اور معلومات افزا قرار دیا ہے۔
اسٹوڈنٹ لیڈر آفرین فاطمہ پر ڈھایا جانے والا ظلم ناقابل برداشت، مودی یوگی حکومت اور جامعہ انتظامیہ کے خلاف جم کر نعرے بازی، کیمپس کے باہر سی آر پی ایف اور پولس کی نفری تعینات
نئی دہلی۔ ۱۳؍جون: (نمائندہ خصوصی) شان رسالت ﷺمیں گستاخی کے خلاف احتجاج کی پاداش میں بلڈوزر ٹیررزم سیریز کے تحت یوپی کے پریاگ راج میں جے این یو کی اسٹوڈنٹ لیڈر آفرین فاطمہ کے گھر کو ڈھائے جانے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ میں آج غم وغصے کی شدید لہر دیکھی گئی، ملک میں بلڈوزر ٹیرر اور مسلمانوں کے ساتھ انصافی اورحکومتی سرپرستی میں غنڈہ گردی کے خلاف طلبہ نے سینٹرل کینٹن کے پاس علی الصباح ایک احتجاج کا بھی اعلان کیا تھا، لیکن انتظامیہ نے اس سے نپٹنے کےلیے جامعہ کے تمام گیٹ صبح ہی بند کرادیے تھے؛ حالانکہ انتظامیہ کی جانب سے بند کی کوئی نوٹس نہیں دی گئی تھی۔صبح سے ہی جامعہ کے تمام دروازوں کے باہر سی آر پی ایف کی تعیناتی کے علاوہ دیگر سیکوریٹی فورسیز تعینات تھی تاکہ طلبہ احتجاج سے باز آجائیں لیکن جامعہ کے طلبہ آفرین فاطمہ پر ہونے والے ظلم اور اقلیتوں کے خلاف حکومت کی دوہری پالیسیوں کے خلاف تقریباً ایک بجے پرامن طریقے سے اپنا احتجاج درج کرایا، احتجاج کے دوران انہوں نے کہاکہ ایک طرف حکومت مسلمانوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہے تو دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ حکومت کے اشارے پر کام کرتے ہوئے طلبہ کو پڑھائی سے روک رہی ہے۔ طلبہ نے کہا کہ لائبریری کا بند کیاجانا، طلبہ کا اس میں داخلہ روکنا، جامعہ انتظامیہ اور وائس چانسلر کی نااہلی کا نتیجہ ہے جو اپنی ناکامیوں کو چھپانے کےلیے طلبہ کے ساتھ ناانصافی اور انہیں ہراساں کرنے کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔ طلبہ نے اس دوران آفرین فاطمہ کی حمایت کرتے ہوئے ان پر ہونے والے ظلم کو انتہائی افسوسناک قرار دیا۔ طلبہ نے حکومت کی غنڈہ گردی کے ساتھ ساتھ جامعہ انتظامیہ کی غیر قانونی حرکت کی بھی مخالفت کی اور وائس چانسلر، پرووست اور پراکٹر کی مخالفت میں نعرے لگائے۔ ادھر دوسری جانب جامعہ کیمپس میں واقع متعدد ریڈنگ روم سے طلبہ کو زبردستی باہر نکال دیاگیا، اورا نہیں پڑھنے نہیں دیاگیا۔ میڈیا سے بات کرتے ہویے متعدد طلباء نے بتایا کہ جامعہ گارڈس نے پی ایچ ڈی سیکشن میں بیٹھے طلبہ کو بھی لائبریری سے نکلنے کو کہا تھا لیکن طلباء کے شدید ہنگامہ اور اعتراض کے بعد سیکوریٹی کا عملہ واپس لوٹ گیا۔ ایک طالب علم نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر ممبئی اردونیوز کو بتایا کہ ہم صبح ہی لائبریری آگئے تھے، ابھی ہم نے اپنا کام شروع بھی نہیں کیا تھا کہ سیکوریٹی کا عملہ لائبریری بند کرانے آگیا، ہم ساتھیوں نے سختی سے منع کیا اور کہاکہ لائبریری خالی نہیں ہوگی، کافی ہنگامے کے بعد سیکوریٹی افسران کو واپس لوٹنا پڑا۔ ایک طالبہ نے بتایا کہ یہ جامعہ انتظامیہ کی انتہائی بدتمیزی اور غنڈہ گردی والا رویہ ہے، اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا تھا لیکن جب سے موجودہ وائس چانسلر آئی ہے سنگھ کےاشارے پر کام کررہی ہے اور اس نے مسلم طلبہ وطالبات کا جینا حرام کررکھا ہے۔ ادھر دوسری جانب مختلف گیٹوں اور لائبریریوں کے باہر بڑی تعداد میں طلبہ جھلسا دینے والی گرمی میں پریشان نظر آئے۔ ایک اور طالب علم نے بتایاکہ موجودہ انتظامیہ جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کرتی ہے جس سے طلبہ کو پریشانی ہو، ہم دور دراز سے یہاں آتے ہیں اور آنے کے بعد ریڈنگ روم کو بند کردیاجاتا ہے، تو ایسے میں ہم کہاں پڑھنے جائیں گے۔ واضح رہے کہ خبر لکھے جانے تک بڑی تعداد میں سی آر پی ایف اور پولس کی نفری کیمپس کے باہر تعینات تھی۔
انسانی فکر کے زاویے مختلف ہونا ایک فطری تقاضا ہے۔ لیکن اگر یہ فکری اختلاف مثبت راہ پر گامزن ہے تو بلاشبہ اس کے نتائج واثرات درست ثابت ہوں گے۔ اگر فکری اور نظریاتی اختلاف میں ذاتی مفاد یا پھر کہیں بھی کجی ہوگی تو اس کے نتائج لامحالہ مایوس کن اور معاشرے کے لیے مضر ثابت ہوں گے۔ اب متذکرہ اصول کو ذہن میں رکھ کر ہمیں اپنے سماج اور سماج میں رہ رہے مفکرین ومدبرین کا نہایت سنجیدگی اور دیانتداری سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں تو ہم ہر روز اخبارات، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے جدید افکار اور تخیلات سے مستفید ہوتے ہیں، لیکن ان میں کتنی باتیں اور مباحث ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے معاشرے کو صحیح فکر اور منطقی نظریہ سے ہم کنار کرتے ہیں۔ یہ سب مناظر پورے طور پر ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ٹی وی پر ہونے والے مباحثے اور سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے انفرادی یا اجتماعی افکار اب زیادہ تر نفرت و تشدد اور اور ذاتی مفادات کے عکاس نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو مثبت راہ اور صالح فکر معاشرے کو ملنی چاہیے تھی اب وہ نہیں مل رہی ہے۔ جانبداری پر مبنی خواہ کتابیں ہوں، فکری و نظریاتی مباحث ہوں ،یا پھر اخبارات اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی خبریں ہوں ،وہ ہمیشہ انسانی رشتوں اور سماجی رکھ رکھاؤ کے لیے نقصاندہ ثابت ہوتی ہیں۔ اسی طرح کسی بھی دھرم اور دین کے خلاف زبان درازی کرنا، نیز کسی بھی دھرم کی مقدس و محترم شخصیات پر انگشت نمائی کرنا بھی قانوناً، اخلاقاً جرم عظیم ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بد امنی اور بے چینی بڑھانے کا سبب ہے۔ معاشرہ کوئی بھی ہو اگر سماج میں انسانی رشتوں اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے تو ہمیں بنیادی طور پر ہر ایسے نظریہ، فکر، مضمون، خبر اور مباحثے سے گریز کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے جن کی وجہ سے معاشرے میں کسی بھی طرح نفرت بڑھنے کا اندیشہ ہو۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں آ ئے دن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں لوگ گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اگر اس مسئلہ ہر نگاہ تدبر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مستشرقین نے اسلام دشمنی اور تعصب کی وجہ سے جو کتابیں اور لٹریچر تیار کیا ہے اس سے بہت لوگ متاثر ہوئے اور اسی سے متاثر ہوکر گاہ بگاہ لوگ ایسا کرتے رہے ہیں۔ یاد ہوگا سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے لوگوں نے بالترتیب سنٹک ورسیز اور لجا جیسی کتابیں لکھ کر شان رسالت کو مجروح کرنے کی مذموم کوشش کی تھی۔ آج جو سب سے بنیادی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے متشرقین اور دیگر مخالفین اسلام کے اعتراضات یا شکوک وشبہات کے ضمن میں جو جوابات تیار کیے ہیں وہ کافی ہیں یا ایک بار پھر ہمیں اس حوالے سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے؟ راقم کا سوچنا یہ ہے کہ اسلام کے آ فاقی اور عالم گیر پیغام کو خود ہم نے اپنے وضع کردہ مسلکوں میں جکڑ رکھا ہے۔ ہمارے پاس ایسا نہیں کہ افراد نہیں ہیں لیکن جو مسلکی اور فکری حصار اپنے اپنے طور پر بنا رکھی ہے،ہم اس سے باہر نکلنے اور کسی بھی سنجیدہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ جو لٹریچر مغرب کی دانشگاہوں میں تیار ہوا ہے وہ تو ہوچکا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ سچائی یہ ہے آج بھی کتنے ادارہ اور افراد ہیں جن کا کام ہی یہی ہے کہ اسلام کے متعلق معاشرے یا کم پڑھے لکھے لوگوں میں شکوک وشبہات پیدا کریں اور اس طرح سے انہیں اسلام کی حقیقی تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے باوجود آج بھی کتنے لوگ ایسے ہیں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام ایک سچا اور پر امن مذہب ہے ۔ اب ان دونوں نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارا عام مزاج یہ بن چکا ہے کہ ہم صرف روایتی اور سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھانے یا پھر ان پر اعتقاد کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ تحقیق کرنا یا حالات کا صحیح تجزیہ کرنا شاید ہماری عادت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم کسی بھی مسئلہ کو سمجھنے اور اس کے مطابق کوئی فیصلہ یا رائے زنی یا تحریک چلانے سے قبل منظر،پس منظر اور اس کے عواقب و عوامل پر پوری طرح سے نظر ڈالنے ، غور و خوض کرنے کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی بھی، یا کہیں کا بھی فرد زبان درازی کرتا ہے، یا لکھ کر داغدار کرے گا ،تو اس کا یہ عمل لازمی طور پر قابل مذمت اور لائق تردید ہے۔ لیکن اب جو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کہیں اس طرح کا مذموم واقعہ رونما ہوتا ہے تو پھر اس کا تعاقب کیسے کیا جائے؟ یا اس کا حل کیا ہونا چاہئے؟عام طور پر اس طرح کی باتوں کا حل لوگ مظاہرے کرنے کو سمجھتے ہیں۔ کیا واقعی اس کا حل یہی ہے؟ یا پھر دوسرے عوامل پر بھی نظر کرنے کی ضرورت ہے؟ یعنی قانونی اور عدالتی چارہ جوئی وغیرہ وغیرہ۔
اس ضمن میں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا کہ جب مستشرق ولیم میور نے اپنی کتاب "لائف آف محمد ” لکھی اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو مجروح کیا تو اس کے جواب میں بانئی دانشگاہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سر سید احمد خاں نے خطبات احمدیہ لکھ کر دندان شکن جواب دیا۔ سر سید کا یہ عمل اس بات پر ناطق ثبوت ہے کہ ہمیں مظاہروں سے زیادہ ایسے لوگوں کے جواب علمی طور پر دینے کی ضرورت ہے۔ بناء بریں آج پھر شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر کینچڑ اچھالی گئ ہے اس لیے یہ موقع ہے کہ ہم اس طرح کے جتنے بھی اعتراضات ہیں ان کا علمی طور پر رد کریں اور ایسا جشم کشا تحقیقی کام ہو جو مخالفین کو بھی لاجواب کرسکے۔ ان کے شک و ریب کا علمی طور پر ازالہ کیا جا سکے۔ برادران وطن کی ایک بڑی تعداد آج اسلام کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہے اس کی کئی وجوہات ہیں ایک پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے کردار اور اخلاق جس طرح پراگندہ اور غیر معتبر ہیں وہ بھی سبب بن رہا ہے غلط فہمیوں کا۔ اسی طرح آپ یاد کیجیے اس وقت کو جب سوامی دیانند سرسوتی نے ایک کتاب "ستھیارتھ پرکاش” لکھی تھی تو اس کتاب میں اسلام کے علاوہ دیگر تمام مذاہب کو منفی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اس وجہ سے بھی لوگوں یعنی برادران وطن کے اندر اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق شکوک پیدا ہونے لگے۔ ان کے علاوہ آج ہندوستان میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے اثر نے بھی اسلام کے خلاف بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ ان تمام احوال کا نہایت دانشمندی سے محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے اور پھر اس تناظر میں جذباتیت سے بچ کر علمی اور تحقیقی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ ہندوستان جیسے تکثیری اور جمہوری معاشرے کی کہ جہاں تمام ادیان کا احترام کرنا ہندوستانی تہذیب کا اٹوٹ حصہ رہا ہے، اگر ایسے معاشرے میں کسی بھی دھرم پر بے جااور ناقابل قبول نکتہ چینی ہوتی ہے تو یہ رویہ نہ ہندوستانی سماج کے لیے ٹھیک ہے اور نہ ہی اس ملک کے اس طبقہ کے لیے جن کو سب وشتم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہندوستان میں اسلامو فوبیا کے اثرات کو فروغ دینے میں ان مباحثوں کا بھی گزشتہ کئی برسوں سے بڑا حصہ رہا ہے جو دھرم اور مسلمانوں کے نام پر کیے گیے ہیں۔ ان چینلوں نے ایسے ایسے پروگرام نشر کیے جن کی وجہ سے اکثریت کو مسلمانوں سے نفرت ہونے لگی۔ اس میں برابر کے شریک وہ نام نہاد مذہبی رہنما اور دانشور بھی ہیں جو ان مباحثوں کی زینت بنتے ہیں اور اسلامو فوبیا جیسے مرض کو عمدا یا انجانے میں بڑھاوا دیتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ آج جہاں ہمیں اپنے کردار وعمل اور اخلاق و اعمال کو نہایت باوقار اور پرامن بنانا ہے، تو وہیں ہمیں ان رویوں ، اعتراضات اور شکوک وشبہات پر بھی پوری طرح نظر رکھنی ہوگی ، ہاں اگر کہیں سے کوئی قابل اعتراض یا مشکوک عمل کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو اس کا جواب ہمیں علمی اور تحقیقی بنیادوں پر دینا ہوگا۔ اس کے لیے قانونی چارہ جوئی بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی ہماری روایت اور اخلاقیات کا امین ہے ۔ ہندوستان میں بڑھتے اسلامو فوبیا کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے مل کر تمام طبقات کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ اگر معاشرے میں اسلامو فوبیا کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں تو پھر اس کے اثرات یقیناً تشفی بخش نہیں ہونگے۔ جب پورا ہندوستانی معاشرہ بلاتفریق دین ومذہب ایسی تمام حرکتوں کا سدباب کرے گے جن سے ایک دوسرے کے تئیں خوف یا مایوسی پیدا ہوتی ہے ، تو یقیناً اس سے ہندوستانی سماج میں بقائے باہم اور قومی ہم آہنگی کی پر کیف فضا ہموار ہوگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
اردو غزل صدیوں کے سفر کے بعد اور شدید مخالفت کے باوجود اپنے دامن میں سینکڑوں تبدیلیاں اور مختلف جذباتی کیفیتیں لیکر آج بھی اسی طرح مقبول ہے جس طرح اپنی ابتدا میں تھی۔آج کی غزل مابعد جدید غزل ہے جس کے دامن میں روایت کی خوشبو بھی ہے ترقی پسندی اور سماجیات کے نعرے بھی ہیں معاشرے کا کرب بھی ہے زمانے کی بدلتی ہوئی تصویریں بھی ہیں اور جدیدیت کی نئی فضابھی ہے۔غرض آج کی غزل نکتے میں دریائے معنی سمیٹے ہوئے ہے ۔جو صاحبانِ نظر ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ آج کی غزل کے تقاضے کیا ہیں۔کس طرح دو مصرعوں کے چھوٹے سے ساغر میں بے کراں سمندر مقید کیا جاسکتا ہے اور کس طرح الفاظ کے صحیح اور متناسب استعمال سے شعر کو ماورائے زمان و مکان کیا جا سکتا ہے۔عصرِ حاضر میں اس سلسلے سے مختلف آوازیں ہماری سماعتوں تک پہنچتی ہیں لیکن کچھ آوازیں وقتی طور پر اپنا سحر قائم کرتی ہیں تو کچھ دیر تک ہمارے تجربات و احساسات کی عکاس ہوتی ہیں تو کچھ آوازیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے بارے میں وثوق سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ آوازیں وقتی نہیں بلکہ فضائے کائنات میں ہمیشہ گردش کرتی رہیں گی اور آنے والی نئی نسلوں کو متاثر کرتی رہیں گی۔ایسی ہی آوازوں میں ایک آواز ڈاکٹر معراج نقوی کی ہے۔جن کا تعلق نوریوں سرائے سنبھل کی علمی و ادبی سرزمین سے ہے جہاں سے علامہ معجز سنبھلی جیسے نابغہ روزگار نے اردو شاعری کے لئے جو خدمات انجام دیں ان کو ادب میں فراموش نہیں کیا جا سکتا خصوصاً رثائی اور منقبتی ادب میں علامہ معجز سنبھلی کی استاذی کا شہرہ تمام ادبی کائنات میں نظر آتا ہے۔ڈاکٹر معراج نقوی انھیں کے ادبی خانوادے سے وابستہ ہیں اور نوجوان نسل کے شعرا میں ان کی شاعرانہ واسعتیں قابلِ ستائش ہیں۔حال ہی میں ان کا پہلا مجموعہ کلام”شدت“ کے نام سے منظرِ عام پر آیا ہے۔جس کی ادبی حلقوں میں پزیرائی کی جارہی ہے۔
”شدت“ کے مطالعے سے ڈاکٹر معراج نقوی کی ادبی فکرو ذوق کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات و جذبات کا بخوبی علم ہوتا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عصرِ حاضر میں غزل کو کس صورت سے دیکھتے ہیں۔ وہ غزل میں کس مضمون کی اشد ضرورت سمجھتے ہیں اور ان کی غزل کا لہجہ کیسا ہے؟۔کیا وہ روایت کے پاسدار ہیں یا مابعد جدیدیت کے علمبردار۔اس سلسلے سے غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں روایت کے ساتھ ساتھ جدید لب و لہجہ بھی مدغم ہوگیا ہے ۔وہ محض نئی شاعری کے محب نہیں بلکہ گذرے زمانے کی شعری خصوصیات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔سب سے بڑی بات ہے کہ وہ غزل کے فن کو اور اس کی اصل کو بخوبی جانتے ہیں اس لئے غزل کو غزل کے رنگ میں ہی اکثر مقامات پر پیش کرتے ہیں۔غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا ہے تو پھر اس سلسلے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ غزل میں محبوب کی جنس واضح ہونی چاہئے اور بعض شعرا کے یہاں واضح بھی ہے کہ ان کا محبوب ان کا جنسِ مخالف ہے۔ڈاکٹر معراج نقوی اسی روش کے مسافر ہیں ۔ان کے یہاں صاف ظاہر ہے کہ ان کی محبوب کوئی دوشیزہ یا خاتون ہی ہے۔مثال کے لئے کچھ اشعار دیکھے جا سکتے ہیں:
پہنی پرانی چولی تو اس کو پتہ چلا
کتنا غموں کے دور میں ڈھیلا ہوا بدن
مہندی سے کبھی لکھتی تھی ہاتھوں پہ مرا نام
اب اشکوں سے سوکھے ہوئے پتوں پہ لکھا کر
وہ دور ہوگئی اب تک جو میرے پاس میں تھی
وہ جس کے جسم کی خوشبو مرے لباس میں تھی
ان تمام اشعار سے واضح ہے کہ ان کی محبوب کوئی صنفِ نازک ہی ہے جس کے عشق میں وہ اشعار رقم کرتے ہیں۔
کسی زمانے کی غزل ہو اس میںعشق کا جذبہ ہی غالب نظر آتا ہے۔ڈاکٹر معراج نقوی جذباتِ عشق کا شدت سے اظہار کرتے ہیں وہ انھیں پردہ اخفا میں نہیں رکھتے کہتے ہیں:
تیرا غم وحشت کا اکثر جب پہلو بن جاتا ہے
دل کا سارا درد امڑ کر تب آنسو بن جاتا ہے
یعنی وہ اظہار عشق اور عشق کی تکلیف کو پوشیدہ نہیں رکھتے بلکہ بغیر کسی جھجھک کے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کر دیتے ہیں۔
عشق وصال کا خواہاں ہوتا ہے اور وصال و ہجر کے چرچے غزل کی زینت بنتے رہتے ہیں لیکن جب ہم روایتی غزل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں زیادہ تر ہجر اور فراق کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن یہ جدید دور کا کرشمہ ہے کہ جہاں ناممکن بھی ممکن ہو چکا ہے اور اسی کا رنگ غزل میں بھی دکھائی دیتا ہے اب یہ مشکل نہیں کہ محبوب وصال کے لئے آمادہ نہ ہو۔جب ہم اس ضمن میں ڈاکٹر معراج نقوی کی غزل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ وصال کے شاعر ہیں فراق کے نہیں۔مثلاً:
ترے بدن کی مسافت کو طے کیا تو مگر
پڑا ہوا ہے ابھی تک مرا نڈھال بدن
اس نے بانہوں میں بھر لیا مجھ کو
میں بھی اس سے لپٹ کے بیٹھ گیا
ظاہر ہے کہ مندرجہ ذیل اشعار میں وصال کی داستان بیان کی گئی ہے ۔اور یہ ان کے خالص جذبات ہیں جو بلاجھجھک وہ بیان کرتے ہیں۔ان کے اظہارِ جذبات ہی کی وجہ ہے کہ ان کے یہاں اکثر ”بدن“ جیسا لفظ کئی مقامات پر ملتا ہے جس میں رومانیت کے ساتھ ساتھ جذبات کی شدت آشکار ہے۔مثلاً:
مرے وجود پہ غالب تھا رات ایک بدن
تمام رات میںانگڑائیوں سے لڑتا رہا
دیکھوں اسے تو آنکھوں میں گھلتا ہے شہد سا
اس کمسنی میں کتنا رسیلا ہوا بدن
پہلے بھی لاجواب تھا معراج وہ مگر
میں نے چھوا تو اور گٹھیلا ہوا بدن
ظاہر کہ مندرجہ بالا اشعار میں لفظ”بدن“ رومانی کیفیتوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر معراج نقوی کے عشقیہ جذبات کا منعکس بھی ہے لیکن ایسا نہیں کہ انھوں نے ”بدن“ کا استعال لذتِ وصال کے تحت ہی غزل میں پیش کیا ہو۔ان کے یہاں”بدن“موت و حیات کے تناظر میں بھی موجود ہے۔کہتے ہیں:
یہ کہہ کے روح نے اک شب بدن اتار دیا
اتار پھینکا کہ یہ پیرہن پرانا تھا
ظاہر ہے کہ وہ غزل کے دامن کو محدود نہیں رکھتے بلکہ وسعتیں پیدا کرنا ان کا شعار ہے۔
انسان پر ایک سا حال کبھی نہیں رہتا اگر وصال ہے تو ہجر بھی ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر معراج نقوی وصال کے شاعر ہونے کے باوجود کہیں کہیں ہجر کی تکلیف کا بھی ذکر کر جاتے ہیںجس کے سبب سے وہ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں ۔مثلاً:
مجھ سے تنہائی ہر اک شب یوں ملا کرتی ہے
اک پریشان ملے جیسے پریشان کے ساتھ
آخر کس سے مل کر روﺅں کس سے اپنا درد کہوں
پورے گھر میں ویرانی ہے اور بستر پر سناٹا
بن ترے نیند بھی نہیں آتی
کیسی عادت خراب ہوگئی ہے
قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہاں ”تنہائی“ صرف ہجرِ محبوب کی کیفیت کا مظہر ہی نہیں بلکہ یہاں”تنہائی“ ایک علامت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔بغور دیکھیں تو انسان ہر طرح سے اکیلا یا تنہائی کاشکار ہی ہے۔صبح سے شام تک متعدد لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیںلیکن یہ ضروری نہیں کہ جن سے ملاقات ہوتی ہو وہ پسندیدہ ہوں یا ایک دوسرے کا درد سمجھنے والے ہوں۔کیونکہ اکثر ملاقاتیں ضرورت کے تحت کی جاتی ہیں اور جب تھکا ماندہ انسان اپنے بستر پر اپنے دن بھر کے معمولات کے بارے میں سوچتا ہے تو اسے تنہائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
علامت نگاری ہر دور کی غزل میں قدم قدم پر اپنا جادو بکھیرتی ہوئی نظر آتی ہے اس سے جہاں شعر کا دائرہ وسعتیں حاصل کرتا ہے وہیں اس کے صحیح استعمال سے شاعر کی قادر الکلامی کا بھی احساس ہوتا ہے۔آج کے دور کی شاعری میں بھی علامت نگاری نظر آتی ہے لیکن بعض لوگوں نے اس کا بے جا اور غیر ضروری استعمال بھی کیا ہے جس سے شعر چیستان یا پہیلی بن کر رہ جاتا ہے اور شعر میں حد درجہ ابہام نظر آنے لگتا ہے۔ڈاکٹر معراج نقوی کوعلامت نگاری میں مہارت حاصل ہے وہ علامتوں کا بر وقت اور بر محل استعمال کرتے ہوئے اپنی شاعری کی انفرادیت قائم کرتے ہیں۔مثلاًان کے یہاں غزال، دیا، نہر، پیاس، سمندر، سورج،مہتاب،دھوپ،صحرا اور شجر وغیرہ جیسے الفاظ علامت نگاری کا حق ادا کرتے ہیں۔کچھ اشعار دیکھیں:
رکھا تصویر میں بھی پیاسے غزالوں کا خیال
میں نے دریا بھی بنایا ہے بیابان کے ساتھ
ہماری پیاس انھیں معتبر بناتی ہے
یہاں پہ آکے سمندر بھی خاک چھانتے ہیں
اپنی وسعت اپنی طغیانی کہاں لے جائے گی
نہر یہ سمٹی بھی تو پانی کہاں لے جائے گی
کبھی سورج کبھی مہتاب بنا لیتا ہوں
روشنی کے سبھی اسباب بنا لیتا ہوں
عمر بھر دھوپ سے لڑنے کی یوں تیاری کی
تپتے صحراﺅں میں کثرت سے شجر کاری کی
ظاہر ہے مندرجہ بالا اشعار کی قرات علامتوں کے تقاضے کے تحت کی جائے تب ان اشعار کے اسرار و رموز زیادہ واضح ہوسکیں گے اور ظاہر ہوگا کہ یہ اشعار کسی خاص موضوع یا وقت کے رہینِ منت نہیں بلکہ ان کی اشعار میں گہرائی و گیرائی کی لاکھوں وادیاں آباد ہیں۔
علامت کے ساتھ ساتھ غزل میں ہمیشہ سے بہترین تشبیہات کی بھی فراوانی رہی ہے۔آج کے دور میں بھی اس سے کوئی شاعر تہی دامن نہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کے برتنے کا سلیقہ ہر شاعر کے بس میں نہیں ہے۔ڈاکٹر معراج نقوی یہاں بھی کامیاب ہیں۔کہتے ہیں:
مثال اس کی ہے بالکل طوائفوں جیسی
حسین جتنی ہے اتنی خراب ہے دنیا
ظاہر ہے کہ دنیا کو طائف سے تشبیہ دی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کی موصوف کا مشاہدۂ کائنات نہایت عمیق ہے اور وہ دنیا کی حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں۔
تلمیح بھی ہمارے ادب کا حصہ رہی ہے شعراءنے اپنے اپنے انداز میں اس کو اپنی شاعری میں پیش کیا کہیں یہ واضح انداز میں ہوتی ہے تو کہیں شعر میں ایسے الفاظ لائے جاتے ہیں جس سے قاری کا ذہن لاکھوں پردوں کے باوجود اصل کہانی یا مقصد تک پہنچ جاتا ہے۔ڈاکٹر معراج نقوی تلمیح کے بیان کا بھی ہنر خوب جانتے ہیں۔مثال کے لئے دو اشعار دیکھیںجن میںواضح تلمیحات موجود ہیں:
خطائے حضرت ِ آدم فریب ِابلیسی
وہ کیا سوال تھا جس کا جواب ہے دنیا
دیوتاﺅں کی لڑائی میں یہ امرت کا کلش
ہے یہی ڈر نہ کہیں زہرِ ہلاہل ہوجائے
پہلا شعر حضرتِ آدم کی تخلیق اور ابلیس کی کارگذاری کا واقعہ بیان کرتا ہے تو دوسرا شعر ہندو دیومالائی تلمیح پر مشتمل ہے جس میں سمندر منتھن کے واقعے کا بیان ہے۔
اب کچھ ایسے اشعار دیکھیں جن میں ایسے الفاظ ہیں جو اصل واقعے کی طرف صرف اشارہ کرتے ہیں۔جیسے:
اس سے تو اچھا تھا کہ ہم بھی ستمگر ہوتے
کس قدر زخم ملے کارِ مسیحائی میں
شعر میں لفظ ”مسیحائی“ حضرت عیسیٰ مسیح کے واقعے کی طرف اشارہ ہے ۔ایک شعر اور دیکھیں:
طلسمِ کن فیکوں کس نے پڑھ کے پھونک دیا
ذرا سی خاک ہوئی کیسا باکمال بدن
ظاہر ہے شعر میں”کن فیکوں“خلقتِ کون و مکان اور تخلیقِ آدم کی طرف ذہن مبزول کرتا ہے۔اسی طرح ان کے یہاں اشعار میں” کربلا“کی تلمیح بھی نظر آتی ہے:
موجوں کے بل نکال روانی سے جنگ کر
اے شاہزادے پیاس کے پانی سے جنگ کر
بس ترے غم کو سمجھتا ہے عبادت اپنی
وہ جو اک تیرا عزادار چھپا ہے مجھ میں
ان اشعار میں پیاس،غم اور عزادار جیسے الفاظ سے ظاہر ہے کہ شاعر اشارے میں کربلا اور امام حسینؑ کی شہادت اور ان پر گریہ کرنے کی بات کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے یہاں منفرد اور خوبصورت تراکیب کا استعمال بھی اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔مثلاً:
بیت الصنم سا لگتا ہے سارا جہاں مجھے
پتھر کے سب بدن ہیں کہاں آدمی رہے
شعر میں ”بیت الصنم “ کی ترکیب شاعر کی انفرادیت اور ندرت کی ضمانت ہے۔
مابعد جدید غزل میں ندرت اور چونکانے کاعمل قدم قدم پر نظر آتا ہے۔بعض شعراءاس سلسلے سے سامنے کی بات کو ایساجاذب نظر بنا دیتے ہیں کہ قاری انھیں بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔بعض کے یہاں غیر شاعرانہ الفاظ کا بھی ایسا استعمال ہوتا ہے کہ تحسین کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔اس سلسلے سے ڈاکٹر معراج نقوی کے دو اشعار دیکھیں۔جن میں ان کا نیا ذہن کافرماءنظر آتا ہے۔کہتے ہیں:
بچا لیا مجھے لائٹ نے وقت پر آکر
اندھیرا ورنہ مجھے نوچ کھانے والاتھا
جو کل تلک بڑا ڈرتی تھی کاک روچوں سے
وہ آج چھپکلی پکڑے ہوئے پلاس میں تھی
ان اشعار میں لائٹ، کاک روچ،چھپکلی اور پلاس ظاہر ہے غیر شاعرانہ الفاظ ہیں لیکن کمال کی بات ہے کہ یہ الفاظ اس طرح اشعار میں پیوست ہوگئے ہیںکہ شاعر کا کلام منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ جاذبیت و جالبیت کا متحمل نظر آتا ہے اور کوئی بھی جدید ذہن بغیر تعریف کیے نہیں رہ سکتا۔
غرض کہ آج کی غزل کا کوئی ایک موڈ یا کوئی مخصوص مزاج نہیں یہ کسی ازم یا تحریک کی پابند نہیں،کسی محدود راستے کی مسافر نہیں ۔آج کی غزل جذبات کی شدت کا معقول اظہار ہے۔میں سمجھتا ہوں آج کے نئے لہجوں میں ڈاکٹر معراج نقوی کا لہجہ اپنی پہچان آپ ہے۔ان کے یہاں جہاں روایت کا احترام ہے وہیں جدید لہجے کا پھرپور استعمال بھی ہے ۔ان کے یہاں مایوسی نہیں حوصلہ پایا جاتا ہے۔وہ اداسی کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتے۔خوش رہنا اور خوشی بانٹنا ان کا شغل ہے۔ان کی غزلوں کے ردیف دلکش،انوکھے اور نرالے ہیں ۔مختصر طور پر ان کے مجموعۂ کلام”شدت“ کو پڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے اشعار میں اپنے جذبات و احساسات کو بغیر تردد و تبدل کے پیش کردیا ہے اور یہ ایک بڑی بات ہے ۔میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب ادب میں ان کی منفرد پہچان قائم کرنے کے لیے جہاں معاون ثابت ہوگی وہیں آنے والی نئی نسلیں ان کے کلام سے استفادہ کریں گی۔
دینی و ملی تنظیموں اور اہل علم کی تنقیص :مسلم سماج کا رستا ہوا ناسور- مولانا محمدعمرین محفوظ رحمانی
مسلم عوام کوعلماء اور داعیان دین سے کاٹنااور ان دونوں طبقات کے درمیان خلیج پیدا کرنا دشمنان دین کاپرانا ایجنڈا ہے اور وہ اپنے اس ایجنڈے پر بڑی محنت، اورکدوکاوش کے ساتھ عمل پیرا ہیں، ان پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جب تک عوام کارشتہ علماء سے کمزور نہیںہوگا اور ان دونوں طبقات کے درمیان فاصلے پیدا نہیں کیے جائیں گے،اس وقت تک اسلام اور مسلمانوںکے خلاف کی جانے والی کوششیں کامیاب نہیں ہو ں گی،اور دین کے نام پر پھیلائے جانے والے فتنے فروغ نہیں پا سکیں گے،دشمنان دین کی فکر، ان کی سونچ ، ان کاطرز عمل، اوران کی تگ ودو تو ہے ہی ناپسندیدہ مگر اسے کیا کہیے کہ خود مسلمانوں میں ایک ایساطبقہ پیداہو گیاہے جو نادانستگی میں اسی راہ کاراہی اور اسی دشت کاسیاح بنتاجارہاہے،ایک ایساطبقہ جس کی زبان سے ان کے اپنے اکابر علماء اور دین وملت کی بیش بہا اور بلند قامت شخصیا ت کی عزت محفوظ نہیں، اور جن کے قلم اپنے ہی بڑوں کے خلاف شمشیر برہنہ بنے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا پر لکھنے والے کچھ ایسے جیالے ہیں جو ’’صحت مند تنقید ‘‘کے نام پر کارگزارعلما ء سے نفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں اورعوا م کے ذہنوں کوخدام دین کے سلسلے میں برگشتہ کرنے کی مہم چلارہے ہیں، بظاہر ان کاسراپاعالمانہ ہے اوران کی زبان پر دین و ملت کی خدمت کے حسین نعرے ،لیکن خوش نما نعروں اوردعوؤں کے پیچھے جواصل حقیقت چھپی ہوئی ہے، وہ کچھ اور ہر عام مسلمانوں کو علماء وقائدین سے بدظن کرنا ، ملت کے خدمت گاراداروں پر کیچڑ اچھالنا ،خدام دین کی نیتوں اور ان کی خدمات پر سوالیہ نشان لگانا،اور اہل اللہ اور بزرگان دین پر الزام تراشی کرنا،خدمت دین کاکون سا شعبہ ہے ؟کیا اس سے ملت کابھلاہوگا یا ملت کوسخت نقصان پہو نچے گا؟ اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔
دین متین کی خدمت کرنے والے علماء،چراغ د ل جلا کر شاہراہ خدمت کو روشن کرنے والے اکابر ،اپنے آشیانوںکو پھونک کر زمانے کوروشنی بخشنے والے قائدین نہ تو معصوم ہیں اور نہ پیغمبر کی طرح لائق اتباع ،وہ بھی انسان ہیں ، خطا کرنے والے ، نفس وشیطان اور ماحول کے فتنوں سے متاثر ہوجانے والے ،کبھی ان کے قدم بھی غلط سمت میں اٹھ جاتے ہیں، کبھی رائے یاعمل کی غلطی ان سے بھی ہو جاتی ہے، لیکن کیا کسی ایک غلطی کی وجہ سے ساری زندگی کی خدمات کونظر انداز کر دیا جائے گا؟کیا رائے یا عمل کی خطا کے سبب ان کی تمام قربانیوں کو بھلا دیا جائے گا؟کیا کسی ایک غلطی کو بنیادبنا کر ان کی کردار کشی کی مہم چلائی جائے گی؟کانوں کوسننے کے لیے یہ بات بہت بھلی لگتی ہے کہ زندہ قوموں اورملتوں میں ’’صحت مند تنقید‘‘کا سلسلہ جاری رہناچاہئے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ’’صحت مند تنقید‘‘ کے نام پر الزامات کی بوچھاراورکسی مفروضہ غلطی پر سنان لسان و قلم کاوارجائز قرار دیا جاسکتاہے؟عجیب بات ہے کہ تنقید کے نام پر تنقیص اور سوال کے عنوان سے تذلیل و توہین کابازارگرم ہے اور اس کھلی ہوئی بے دینی پر یہ کہہ کر دینداری کاغلاف چڑھا دیاجاتاہے کہ’’ ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک ادنی مسلمان امیرالمؤمنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کو برسر منبر ٹوکتا ہے اوران کااحتساب کرتا ہے ‘‘کوئی شبہ نہیں کہ یہ تاریخ اسلامی کا زرین واقعہ ہے،اور بعد والوں کے لیے مشعل راہ اور مینارہ نور !مگر اس پر غور کیوں نہیں کیا جاتاکہ حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک ایسا عمل جو بظاہرعدل کے خلاف معلوم ہو رہاتھا ،پوچھنے والوں نے خودان سے اس عمل کے بارے میں سوال کیا اور جب جواب مل گیا تو فوراً پکار اٹھاکہ نسمعُ ونطیع (ہم سنیں گے ہم بات مانیں گے)کیا اس میں اس بات کی رہنمائی نہیں ہے کہ جب کسی معاملے میں شبہ پیدا ہو جائے توخود صاحب معاملہ سے پوچھ لیا جائے اور اگر جواب معقول اور اطمینان بخش ہو تو فوری طور پر اپنا شبہ دور کر لیاجائے،اور صاحب معاملہ کے شخصی احترام اوران سے محبت وعقیدت میں کوئی کمی نہ آنے دی جائے۔اس واقعہ سے استدلال کر کے ملت کے خدمت گذار اداروںاور دین متین کے بے لوث سپاہیوںکے خلاف زہرکی کاشت اور نفرت کا بیوپار کرنے والے ’’نام نہاد اسلامی اسکالرس‘‘غور فرما لیں کہ حضرت عمر سے سوال کرنے والے شخص اور خود ان کے طرز عمل میں کتنافرق ہے۔؟؟؟ وہاںصاحب معاملہ سے سوال کیا جارہاہے ، اور یہاں صاحب معاملہ کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں اور اس کے خلاف اخبارات کے صفحے کے صفحے سیاہ کیے جارہے ہیں، سوشل میڈیا پر زبان و قلم کا زور دکھایا جا رہا ہے، کسی نے ذاتی اغراض و مفادات یاحسد اور بغض کی بناء پر کسی صاحب علم ، صاحب بصیرت و فراست عالم دین پر ایسے الفاظ پر مشتمل مضمون لکھا جسے پڑھ کر ذوق سلیم کو اُبکائی آنے لگے اور ’’صحت مند تنقید کے علمبرداروں ‘‘اور’’نام نہاد اسلامی اسکالرس ‘‘نے اسے سوشل میڈیا کے مختلف اکاؤنٹس پر بلاتحقیق نشر کرکے ’’ثواب دارین ‘‘حاصل کرناشروع کر دیا، سونچیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر سونچئے کیا یہی دین کی تعلیم ہے؟کیا اسی کا نام دیانت ہے ؟ کیا یہی طر ز عمل دین و ملت کے حق میں مفید ہے؟؟؟
قرآن و حدیث میں جا بجااحترام مسلم کی تعلیم دی گئی ہے ،کینہ کپٹ ،بغض و حسد ،ریاکاری و منافقت ،عیب جوئی وبد گوئی سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے، ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑانا، رائی کاپربت بنانا،مسلمان کی عزت وناموس سے کھلواڑ کرنا،یہ سب ازروئے قرآن و سنت منع ہے،مسلمان کی عزت و نامو س اﷲ پاک کی نگاہ میںاتنی عزیز ہے کہ اس کی بے حرمتی کو سب سے بڑ ا سود قراردیاگیا ہے۔(اِنَّ اَرْبَی الرِّبَااَلاسْتِطَالَۃُفِیْ عِرْضِ الْمُؤمِنِ)اور اس عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے چاروں طرف سے حصار کھڑے کیے گئے کہ کسی مسلمان کے بارے میں بر ی بات نہ سونچی جائے، (ظَنُّوا بِالْمُؤمِنِیْنَ خَیْرًا)کسی کامذاق نہ اڑایا جائے، (لَایَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسیٰ اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْراً مِّنْھُمْ) کسی کوبرے لقب سے یا د نہ کیا جائے (لَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَاب )کسی پہ تہمت نہ لگائی جائے، کسی کو عار نہ دلائی جائے۔(لَاتُعَیِّرُوْھُمْ) اور نہ زبان سے کسی کے بارے میں کوئی براکلمہ نکالا جائے۔ ( لَایَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا)کسی کے عیب کی تلاش نہ کی جائے( لاَ تَتَّبِعُوْاعَوْرَاتَھُمْ )اورنہ کسی مسلمان کو اپنے طرز و اندازسے تکلیف پہنچائی جائے۔ (لَا تُوْذُوا الْمُسْلِمِیْنَ )اب ان تمام تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صر ف اپنی انانیت کی بنیا دپر ،یاحسد وبغض کے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے اگر کسی مسلمان کی عزت سے کھلواڑ کیاجاتاہے تو یہ دین نہیں بے دینی ہے،یہ اخلاق نہیں کھلی ہوئی بد اخلاقی ہے،یہ شرافت نہیں دناء ت ہے،یہ دین کی خدمت نہیں دنیاوآخرت کی بربادی کاسودا ہے،حضوراکرم ﷺ جب معراج کے سفر پرتشریف لے گئے تو آ پ کا گزر ایسے لوگوںپر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اوروہ اپنے ناخنوںسے اپنے چہروں اورسینوں کو نوچ رہے تھے حضور اکرمﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرئیل نے عرض کیا کہ یہ لوگ (دنیا میں)دوسروں کی آبروریزی کرتے تھے، اور ان کے عیب تلاش کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیاکرتے تھے،یہ توآخرت کی سزا ہے ،دنیا کی سزا کے بارے میں ترمذی شریف کی ایک حدیث میں نقل ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب کے پیچھے نہ لگو، اس لیے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب کے پیچھے لگتاہے ،اﷲ تعالیٰ اس کے عیب کے پیچھے لگ جاتا، اور جس کے عیب کے پیچھے اﷲ تعالیٰ لگ جاتاہے اسے گھر بیٹھے ذلیل و رسوا کر دیتاہے۔ (ترمذی شریف) عیب تلاش کرنے والے کے لیے تباہی اور بربادی کا ذکرخود قرآن پاک میں ہے،خرابی اورتباہی ہے عیب ٹٹولنے والے چغلی کھانے والے کے لیے (وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃ)
قرآ ن پاک میں حضرات صحابہ کی شان میں یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے نرم اور کافروںکے لیے بڑے سخت ہیں(اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ )یہ صرف صحابہ کی تعریف نہیں ہے بلکہ اہل ایمان کے لیے رہنمااصو ل ہے کہ ان کی سختی کافروں کے لیے ہواور آپس میں ایک دوسرے سے ان کارشتہ اخوت ، مروت، شرافت اوررحم دلی کاہو، وہ احترام اور اعتراف کی راہ پر چلیں نہ کہ تردید و تنقیص کے راستے پر،وہ دوسروں کو عزت دیناسیکھیں نہ کہ دوسروں کی آبروریزی اور کردار کشی کریں، ان کامزاج عفو درگذر کا ہو، عا ر دلانے اور شکست حوصلہ کرنے کانہیں ، انسانیت تویہی ہے کہ انسان کے اندردوسروں کااحترام ، اور ان کی خوبیوں اورخدمات کے اعتراف کاجذبہ ہو، اور وہ دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرے جوخود اپنے لیے پسند کرتاہے ؎
باخبر شو از مقام آدمی
آدمیت احترام آدمی
(انسان کے مقام سے آشنا ہو جاؤ ،انسانیت یہ ہے کہ انسان کا احترام کیا جائے)
زبان و قلم کی صلاحیت خدا تعالیٰ کی نعمت ہے ، بیش قیمت بھی بے بہا بھی!ان نعمتوں کا استعمال خیر کے کاموں میں ہو تو نورٌ علی نور بلکہ مجموعۂ انوار،اور اگر زبان و قلم کی نعمتوں کو خواہشات نفس کے تابع بنادیا گیا اور تخرب و تعصب کی راہ اپنائی گئی تو پھر یہ نعمتیں وبال جان،وجہ زوال و خسران!جنہیں یہ نعمت ملی ہے وہ احتساب کرتے رہیں کہ جادۂ حق پر ان کے قدم بڑھ رہے ہیں یا شر پر؟ ان کی منزل فانی دنیا ہے یا لازوال آخرت؟ان کا سفر خدمت ربانیت و للہیت کے زیر سایہ انجام پارہا ہے یا اغراض و سفلی جذبات کی سیاہ چادر اس پر تنی ہوئی ہے؟وہ رحمن کے بندے بن کر جی رہے ہیں یا شیطان کے ہرکارے اور نمائندے؟؟ زبان و قلم کی صلاحیت کامل جانا کمال نہیں ہے ان دونوں صلاحیتوں کا محتاط، متوازن اور مثبت استعمال کمال ہے، ان دونوں ہتھیاروں سے لیس ہوکر جب انسان قدم آگے بڑھاتا ہے تو ہاتفِ غیبی کی ندا اس کے کانوں میں آتی ہے ۔
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
دیوبند: آج دارالعلوم دیوبند میں افغانستان کی طالبان حکومت کا ایک وفد دارالعلوم دیوبند پہنچا تفصیلات کے مطابق ادارہ کے مہمان خانے میں دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران سے ملاقات کی اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین مولانا سید ارشد مدنی ادارہ کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نائب مہتمم مولانا عبد الخالق مدراسی وغیرہ سے ملاقات کی۔ وفد میں کچھ لوگ ایمبیسی سے تعلق رکھتے ہیں وفد میں سے فرید میمن ضعیف نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند روحانی کشش رکھتا ہے اس لئے ہماری کافی عرصہ سے یہاں آنے کی تمنا تھی۔ دارالعلوم دیوبند سے ہمارے آباء و اجداد کا پرانہ رشتہ رہا ہے، دارالعلوم دیوبند سے ہمارے ملک کے کافی نوجوانوں نے تعلیم حاصل کی ہے، شیخ الہند رحمۃاللہ علیہ کے زمانے سے ہی ہمارا دارالعلوم دیوبند سے ناطہ رہا ہے
دارالعلوم دیوبند میں آج بھی روحانیت کی خوشبو آتی ہے، انڈین حکومت کے ساتھ کافی عرصہ سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی اچھے تعلقات رہیں گے ۔ اس موقع پر ایمبیسی کے اہم ذمہ دار فرید میمن ضعیف، موسی نعیمی، آزاد، ہاشمی، ارباب ادریس اکمل افضل وغیرہ موجود تھے۔
ڈرون کیمرے میں بی جے پی لیڈر کی چھت پر رکھے اینٹ پتھر کی تصویر قید، مقامی لوگوں میں چہ میگوئیاں، کسی بڑی سازش کا شاخسانہ تو نہیں!
گونڈہ ( نامہ نگار): گونڈہ شہر کے چوک بازار واقع تمندار مسجد کے ٹھیک سامنے واقع ایک چھت کی تصویر ڈرون کیمرے میں قید ہوئی ہے جس پر اینٹ پتھر کے ڈھیر صاف طور پر دکھائی دے رہے ہیں جو شہر کے ماحول کو بگاڑنے کے لئے رچی جانے والی کسی غیر متوقع سازش کا انکشاف کرتی نظر آرہی ہے۔ غورطلب ہے کہ 10 جون جمعہ کی نماز کے بعد اہانت رسول کے خلاف شہر میں ایک احتجاجی جلوس نکلنے کی افواہ پھیلائی گئی تھی جس کی وجہ سے ضلع انتظامیہ نے سخت سیکیورٹی کے انتظامات کیے تھے۔ خود ایس پی سنتوش کمار مشرا مسلسل شہر بھر میں دورے پر دورہ کر رہے تھے۔ سبھی مسجدوں کے آس پاس بڑی پولیس فورس کی تعیناتی کی گئی تھی۔ ساتھ ہی ڈرون کیمرے سے بھی جمعہ کی نماز کی ریکارڈنگ کرائی جارہی تھی۔ جمعہ کی نماز کے بعد جب شہر میں کسی بھی قسم کا کوئی جلوس نہیں نکلا اور ہر طرف ماحول پر سکون نظر آنے لگا تو پولیس محکمہ کے میڈیا سیل کے ذریعہ جمعہ کے دوران کیے گئے سیکیورٹی انتظامات کی تصویریں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے وائرل کرنی شروع کیں۔ جن میں ڈرون کیمرے سے قید کی گئی تصویریں بھی وائرل کی گئیں۔
ڈرون کیمرے کی وائرل تصویر میں تمندار مسجد کے ٹھیک سامنے واقع گھر کی چھت پر اینٹ پتھر کے ڈھیر بھی صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ جب لوگوں نے اس گھر کے مالک کی تحقیق شروع کی تو لوگ یہ جان کر حیران وششدر ہوگئے کہ یہ چھت کسی عام آدمی کی نہیں، بلکہ بی جے پی لیڈر وارڈ ممبر اشیش مون وال کی ہے۔ جس پر ڈھیر سارے اینٹ اور پتھر جمع کر کے رکھے گئے ہیں۔ لوگ سوال اٹھارہے ہیں کہ آخر چھت پر اینٹ پتھر کیوں رکھے گئے ہیں؟ یہ بھی بتادیں کہ پھیلائی گئی افواہ کے مطابق احتجاجی جلوس کا جو راستہ طے تھا ڈپٹی مسجد سے مہراج گنج ہوتے ہوئے تمندار مسجد چوک سے عبدالحمید چوک کے راستے ہی فیض آباد روڈ واقع چھاؤنی مسجد تک جانا تھا۔ مانا جارہاہے کہ اگر جلوس نکالا جاتا تو یہاں سے سنگ باری بھی ہو سکتی تھی جس سے شہر کا ماحول ایک بار پھر بگڑ سکتا تھا۔ ڈرون کیمرے میں قید اینٹ پتھروں سے بھری چھت کے بارے میں جانکاری لینے کے لئے ایس پی کے نمبر پرفون کیا گیا تو انھوں نے ایک گھنٹی بجنے کے بعد فون کاٹ دیا جب کہ کوتوال شہر پنج کمارسنگھ سے بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ابھی مجھے معلوم نہیں ہے پھر بھی اس کی تفتیش کی جائےگی۔
نئی دہلی(پریس ریلیز): ”علماء کرام کے بارے میں قرآن و حدیث میں بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔انہوں نے ہر دور میں ملت کی قیادت کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔موجودہ دور میں ان کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔تحریک اسلامی میں ان کی اہمیت ہمیشہ سے مسلّم رہی ہے۔ ان کے سرگرم رول کے بغیر جماعت اسلامی یا کوئی بھی اسلامی تحریک مکمل کام یابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی۔ علماء کا کلیدی کردار معاشرے پر گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ خاص طور پر دینی معاملات میں ملت علماء پر ہی اعتماد کرتی ہے، اس لیے تحریکی پیغام کو مسلم عوام میں عام کرنے اور ان کی ذہن سازی میں وہ عظیم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ان سب باتوں کا تقاضا ہے کہ ہماری صفوں میں بلند پایہ علماء کرام موجود ہوں جو ہر طرح سے ملت کی قیادت و رہنمائی کریں“۔
ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے’ارکان علماء جماعت‘کے دورزہ ورکشاپ‘میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ یہ ورکشاپ شعبۂ اسلامی معاشرہ،جماعت اسلامی ہند کے تحت نئی دہلی میں منعقد کیا گیا تھا،جس میں ملک بھر سے ستّر (70) نمائندہ علماء کرام نے شرکت کی۔
اس موقع پر جماعت کے سکریٹری مولانا محمد رضی الاسلام ندوی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”جماعت اسلامی کی تاسیس سے لے کر اب تک علماء کرام کی ایک بڑی تعداد اس تحریک سے وابستہ رہی ہے۔البتہ پہلے کبھی صرف ’علماء ارکان جماعت‘پر مشتمل کسی مخصوص پروگرام کا انعقاد نہیں کیا گیا تھا۔یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام ہے۔ہم علماء کرام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے گرم ترین موسم میں جماعت کی دعوت پر سفر کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ ان شاء اللہ انہیں اس ورک شاپ میں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا“۔
شعبۂ تربیت کے سکریٹری مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی نے کہا کہ ”اللہ نے علماء کو جو نعمتِ علم دی ہے اس کی اہمیت اتنی ہے کہ قرآن میں علم کا حکم ایمان سے پہلے دیا گیا۔ معرفت الٰہی علماء کا امتیاز ہے، جس کے ذریعہ وہ امت کو راستہ دکھانے کا کام کرتے ہیں، اس لیے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حالات سے باخبر رہیں اور امت کو حالات کے مد نظر راستہ دکھانے کا کام کریں“۔
اس موقع پر ”تحریکی علماء: مطلوبہ رول کے لئے شخصیت سازی“ کے عنوان پر نائب امیر جماعت جناب ایس امین الحسن نے پروجیکٹر کے ذریعہ سامعین کو سمجھاتے ہوئے بتایا کہ علماء کرام کو دینی علوم میں مہارت کے ساتھ کسی قدر جدید علوم سے بھی واقفیت رکھنی چاہئے۔انہیں جذبات و اشتعال اور کسی کی اندھی تقلید اور عدم تحمل سے بچتے ہوئے،مکمل معلومات کی بنیاد پر دلائل کے ساتھ اپنی باتیں رکھنی چاہییں ـ
پہلے دن کی آخری نشست میں مولانا محمد رضی الاسلام ندوی نے ‘فقہ و افتا اور تحریکی علماء’ کے عنوان پر گفتگو کی۔ دوسرے دن کے اجلاس میں سکریٹری تصنیفی اکیڈمی ڈاکٹر محی الدین غازی نے ’تحریکی علماء کی علمی صلاحیتوں کا ارتقاء کیسے؟‘ کے عنوان پر اظہارِ خیال کیا ۔ ان کے علاوہ مولانا انعام اللہ فلاحی معاون مرکزی تعلیمی بورڈ اور ڈاکٹر حسن رضا چیرمین اسلامی اکیڈمی نے بھی خطاب کیا _ سکریٹری شعبہ تنظیم جناب شبیر عالم کے زیر نگرانی ذمہ داران حلقہ جات نے اپنے اپنے حلقوں میں تنظیم علماء کی کارکردگی بیان کی۔ آخر میں سکریٹری شعبۂ دعوت جناب محمد اقبال ملا، سکریٹری شعبۂ ملکی امور جناب محمد احمد ، سکریٹری تصنیفی اکیڈمی ڈاکٹر محی الدین غازی اور سکریٹری شعبۂ خواتین محترمہ رحمۃ النساء نے اپنے اپنے شعبوں میں ارکان علماء سے مطلوب تعاون پر اظہارِ خیال کیا ۔ ورک شاپ میں نظامت کے فرائض معاون شعبۂ اسلامی معاشرہ اسد فلاحی نے بحسن و خوبی انجام دیےـ