ریاض :صدارت عامہ برائے امور حرمین شریفین کے ذیلی شعبے ہدایات و رہنمائی نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اپنی خدمات کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ان خدمات میں الیکٹرانک مقراۃالحرمین الشریفین بھی شامل ہے،جس کی آواز دنیا کے کونے کونے میں گونج رہی ہے۔ مقراۃ الحرمین سروس کا مقصد قرآن پاک سمجھنا اوراس کی درست طریقے سے تلاوت سیکھنا ہے۔ مقراۃ الحرمین کے ذریعے ماہر سند یافتہ اساتذہ کے ہاتھوں قرآن پاک سیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔صدارت عامہ کے شعبہ قرآن و کتب کے ڈائریکٹر جنرل غازی الذبیانی نے کہا کہ مقراۃ الحرمین سروس صوتی اور بصری رابطے کے ذریعے قرآن پاک کی تلاوت اور اس کی تعلیم کے لیے فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی سے تیار کی گئی ایک منفرد سروس ہے جو چوبیس گھنٹے دنیا کے تمام حصوں تک لاکھوں مردو خواتین کو اور قرآن سیکھنے والوں کی مدد کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مقرا ۃ کے قرا حضرات کا انتخاب مقامی باشندوں سے کیا جاتا ہے۔ ان کے چناؤ کے لیے ان کی کتاب اللہ کی تدریس کی اہلیت جانچی جاتی ہے۔ اس وقت حرم شریف میں ’29‘ قاری اور قاریات یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔
10 اپریل, 2022
ریاض :سعودی عرب کی کبار علما کونسل نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی طرف سے تاریخی مسجد قبا کی غیر معمولی توسیع کے حوالے سے اعلان کردہ پروجیکٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ علما کونسل کے صدر دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ولی عہد کا مسجد قبا کی توسیع کا اعلان قابل تحسین ہے۔ اس اعلان کے مطابق توسیع کے بعد مسجد قبا میں 66 ہزار افراد نماز ادا کر سکیں گے۔ یہ توسیع موجودہ جگہ سے دس گنا زیادہ رقبے پر ہو گی۔ بیان میں کہا کہ شاہ سلمان کا مسجد قبا کی توسیع کا منصوبہ ایک بابرکت منصوبہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کی امید ہے۔ مساجد کی دیکھ بھال، تعمیر، توسیع ، فرنشننگ بڑے اجر وثواب کا کام ہے۔مسجد قبا اپنی فضیلت رکھتی ہے کیونکہ یہ پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے پیدل یا سواری پر اس مسجد میں جاتے اور دو رکعتیں نماز ادا فرماتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے گھر میں طہارت حاصل کرے، پھر مسجد قبا میں جائے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھے تو یہ عمرہ کے برابر ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مملکت، خادم الحرمین الشریفین اور اس کے قابل اعتماد ولی عہد کی قیادت میں سعودی عرب اور دنیا بھر میں اللہ کے گھروں کی دیکھ بھال کی غیر معمولی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے۔خیال رہے کہ گذشتہ روز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مدینہ منورہ کے دورے کے دوران مسجد قبا میں نماز ادا کی اور اس موقعے پر انہوں نے مسجد قبا کے شاہ سلمان توسیعی منصوبے کا اعلان کیا۔
لندن:ناروے کے وزیر دفاع ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ خفیہ معاشقے کی معلومات منظرعام پر آنے کے بعد عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیر دفاع اوڈ روجر ایناکسن کا اپنے سے خاصی کم عمر لڑکی کے ساتھ طویل عرصے سے معاشقہ چل رہا تھا۔ ناروے کے وزیراعظم جوناس گاہر سٹور نے پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ ’انہوں نے وزیر دفاع کا استعفیٰ قبول کرلیا ہے اور یہ ایک ضروری فیصلہ تھا۔اوڈ روجر ایناکسن نے اپنے رومانوی تعلق کے حوالے سے کہا کہ ’انہوں نے کئی برے فیصلے کیے اور وہ اپنے فعل پر معافی مانگتے ہیں جن کی وجہ سے دوسروں کی زندگی مشکل ہوئی۔وزیر دفاع کا عشق ایک 18 سالہ ہائی سکول کی طالبہ کے ساتھ سال 2005 میں شروع ہوا تھا جب ایناکسن خود 50 برس کے تھے۔ناروے کے اخبار وی جی نے لکھا کہ طالبہ سکول ٹرپ پر ناروے کی پارلیمنٹ کے دورے پر آئی تھیں جب ان کی ملاقات سینٹر پارٹی کے رکن ایناکسن سے ہوئی۔اخبار کے مطابق سکول ٹرپ کے بعد طالبہ اور ایناکسن کے درمیان انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ایک رومانوی تعلق قائم ہوا۔مذکورہ خاتون کی عمر اب تیس سال سے زائد ہے۔ انہوں نے اخبار کو اپنے تعلق کے بارے میں بتایا کہ ’وہ سیاست میں دلچسپی کے باعث ایناکسن سے بہت زیادہ متاثر ہوگئی تھیں اور سیاست دان نے اپنی طاقت کا فائدہ اٹھایا۔دوسری جانب ایناکسن نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ رومانوی تعلق میں ان کی ایسی پوزیشن نہیں تھی کہ وہ خاتون پر اثر انداز ہوسکیں۔خاتون کے مطابق سال 2006 سے 2007 کے درمیان وہ ایناکسن سے 12 مرتبہ ان کے دفتر میں ملی تھیں جب وہ وزیر توانائی تھے۔ایناکسن کے مطابق جب تک وہ حکومت میں تھے تب تک ان کا تعلق جنسی نوعیت کا نہیں تھا ،تاہم خاتون نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ناروے کے وزیراعظم نے صحافیوں کو بتایا کہ ایناکسن نے عہدہ سنبھالنے سے پہلے اپنے رومانوی تعلق کے بارے میں آگاہ نہیں کیا تھا۔
اقبال اک عہد شناس اور عہد ساز شاعر تھے۔ ان کی شاعری اک مخصوص نظام فکر سے روشنی حاصل کرتی ہے، جو انھوں نے مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد حاصل کیا تھا اور محسوس کیا تھا کہ اعلیٰ انسانی قدروں کا جو زوال دونوں جگہ مختلف انداز میں انسانیت کو جکڑے ہوئے ہے اس کا حل ضروری ہے۔ خصوصاً مشرق کی بدحالی ان کو مضطرب رکھتی تھی اور وہ اس کے اسباب سے بھی واقف تھے لہٰذا انھوں نے انسانی زندگی کو سدھارنے اور اسے ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے اپنی شاعری کو وسیلہ بنایا۔
فلسفی شاعر:
اقبال ایک فلسفی شاعر ہیں اس ضمن میں تاریخ ادب اردو کے مرتب پروفیسر نوارالحسن نقوی اپنے عالمانہ انداز میں رقمطراز ہیں کہ:-
”اقبال ہماری زبان کے فسلفی شاعر ہیں۔انہوں نے اپنے فلسفے سے ملت اسلام کےدرد کی دواکی۔ وہ مسلمانوں کی قعر مذلّت سے نکالنا چاہتے تھے۔ان کی بربادی کےاسباب پر غور کیاتو معلوم ہوا کہ وہ بےعملی کا شکار ہیں اورترک دنیا کونجات کاذریعہ سمجھتے ہیں۔یہ تعلیم انہیں فلسفہ وحدت الوجود نےدی تھی۔اقبال نے اس کا ازالہ کرنے کے لئے فسلفۂ خودی پیش کیا۔خودی کا مفہوم ہے خود شناسی اور خودآگہی یعنی اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کاپتا لگانا اور انھیں نکھارنا۔“(تاریخ ادب اردو،ص:162)
خودی: خودی ایک وسیع المعانی لفظ ہے ،جو کلام اقبال میں جابجا استعمال ہوا ہے۔خودی سے اقبال کی مراد اردو، فارسی کے مروجہ معنوں میں تکبر و غرور نہیں ،بلکہ اقبال کے نزدیک خودی ،احساس،جرأت مندی،غیرت، جذبہ خود داری، اپنی ذات و صفات کا ادراک رکھتے ہوئے اپنی انا کو شکست وریخت سے محفوظ اپنی دنیا اپنے زور بازو سے پیدا کرنے کا نام ہے۔خودی کے فیضان کا شمار ممکن نہیں اور اس کی وسعتوں اور بلندیوں کا احاطہ ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نت نئے انداز سے کیا ہے۔چند مثالیں اشعارکے طورپر دیکھیں:
خودی کیا ہے راز درون حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کے دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کی سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
ذہنی ارتقا:
آل احمد سرور نے اقبال کے ذہنی ارتقاء کاجا ئزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:
”کشمیریوں کی ذہانت اور ذوق جمال کے ساتھ گھریلو ماحول سے انہیں گہری مذہبیت ملی جس میں ایک درویشانہ شان بھی تھی۔اپنے استاد میر حسن سے انہوں نے فارسی سیکھی لاہور آکر آرنلڈ کےفیض سےوہ فلسفہ کےاسرارورموزسے آشناہوئے،اور انگریزی کےرومانی شعراء کے مطالعے نےان کی روح کو متاثر کیا۔ان کی ابتدائی شاعری میں تلاش، اضطراب، جستجوکی گرمی ہے۔مگراس پرایک رومانی فضا چھائی ہوئی یے۔اس رومانیت نے انہیں غالب کی شوخی فکر تک پہنچایا۔اس نے سرسید کی تحریک اور نئی مشرقیت کےسہارے ان کے یہاں وطن کاایک عشق بیدار کیا۔بعد میں فلسفے کی وجہ سے کچھ شاہنی نظر۔لیکن پھر ارضیت نےاپنا اثر دکھایا اوراس میں اپنے دور کےحقائق کا عرفان پیدا کیا۔اس کے ارتقاء کی داستان، اس جوئے کوہستان کی داستان ہےجو طفلی میں پرشور ہےکہ پہاڑوں کےدل سمندر کی جستجو میں برابر بڑھتی ہی جاتی ہے‘‘۔(بحوالہ،اقبال ایک تجزیاتی مطالعہ، ص:26)
شاعری کاآغاز:
اقبال کی شاعری کا آغاز سیالکوٹ میں دوران طالب علم میں ہوا خداداد شاعرانہ صلاحیتیں گورنمنٹ کالج لاہور سے ظاہر ہوئیں۔1894ء میں جب آپ بی۔اے کے طالب علم تھے۔آپ کی شہرت لاہور کی گردو نواح میں پھیل چکی تھی۔اسی عہد کی ایک رباعی یہ ہے:
سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر
چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر
در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں
مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر
ابتدائی کلام میں غزلیں زیادہ ملتی ہیں،بانگ درا جوان کاپہلا مجموعہ ہے،لیکن اس میں انہوں نے غزلیں کم ہی شامل کی ہیں۔اقبال پیامی شاعر ہیں لیکن اس حقیقت سےبخوبی واقف ہیں کہ پیرائہ اظہار میں دلکشی نہ ہوتو فلسفہ وپیغام کی طرف کوئی متوجہ ہوتاہی نہیں۔آپ کی اسی خصوصیت کا نتیجہ ہےکہ جب آپ نے انجمن حمایت الاسلام لاہور کےایک مشاعرے میں غزل پڑھی تو آپ کی غزل کی شعر کو سن کر مرزاارشد گورگانی بےاخختیار ہوکر سبحان اللہ کہہ اٹھے تھے۔اور فرمایا تھا۔میاں اقبال اس عمر میں یہ شعر:
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرہ جو تھے مرے عرق انفعال کے
قوم کی اصلاح اوروطن پروری:
1899ء سے پہلے آپ کی شاعری قوم کی اصلاح اور وطن پروری کےجذبات سےپر ہونے لگی 1900ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسہ میں ”نالہ یتیم“پڑھی اس نظم کے تاثر کانقشہ عنایت اللہ صاحب نے ان الفاظ میں کھینچا ہے:
”شاعر نے یتیموں کی مصیبتوں کانقشہ کچھ ایسے درد بھرے الفاظ میں کھینچا تھاکہ سننے والوں کےدل بےچین ہوگئے اور آنکھوں سے بےاختیار آنسو ٹپک پڑے جلسہ ختم ہوتو لوگوں نے شاعر کوگھیر لیا وہ اس سے ہاتھ ملانے کےلئے ایک دوسرے پرگر پڑے تھے“۔(بحوالہ، اقبال ایک تجزیاتی مطالعہ ،ص:28)
نظم نالہ یتیم سے چند مثالیں اشعارکے طورپر دیکھیں:
جس طرح مجھ کو شہیدِ کربلا سے پیار ہے
حق تعالیٰ کو یتیموں کی دعا سے پیار ہے
جوش میں اپنی رگِ ہمّت کو لانا چاہیے
احمدی غیرت زمانے کو دکھانا چاہیے
بندشِ غم سے یتیموں کو چھڑانا چاہیے
مل کے اک دریا سخاوت کا بہانا چاہیے
کام بے دولت تہِ چرخ کُہن چلتا نہیں
نخلِ مقصد غیرِ آب زر کَہیں پھلتا نہیں
وطن دوستی:
اقبال کی وطن دوستی اور ہندوستان سے بے پناہ پیار اور عقیدت کا اظہار نظم ”ہمالہ“(1901ء)سے ہوتا ہے۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کادل اپنے ملک کی محبت میں سرشار اور اس کے نشے میں چور تھا۔وہ ایک وسیع دل کےمالک تھے۔یہ نظم شروع سے آخر تک ان کی محبت، عقیدت اور پیار کی غمازی کرتی ہے۔اس نظم میں ایرانی اور یوروپی شعراء کا اثر بھی نمایاں طورپر ملتا ہے۔اگرچہ یہ نظم محاکات کا ایک دلچسپ نمونہ پیش کرتی ہے لیکن اس کےساتھ ہندوستان کی قدیمی تہذیب کی نقشہ کشی بھی کرتی ہے۔نظم ہمالہ کے چند اشعار اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے
تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے
امتحان دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
پاسباں اپنا ہے تو دیوار ہندستاں ہے تو
مطلع اول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو
سوئے خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے تو
اقبال یوروپ کےقیام کےزمانے میں بھی اعلانیہ وطن دوستی کا اظہار کرتے رہے اس زمانے میں انہوں نے بڑی موثر اور پرتاثیر نظمیں کہی ہیں اور مشرقی تہذیب و تمدن مشرقی فلسفہ اور مشرقی ثقافت کا خاص خیال رکھا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہو:
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میراوطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
اقبال نے اپنے ایک دوسرے بہت ہی مقبول نظم ”ہندوستان ہمارا“ میں اپنے جذبات کا یوں اظہار کیا ہے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہم سایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا
اے آب رود گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
اقبالؔ کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا
فکر اقبال اور مغرب کی تمدنی واستعماری یلغار:
اقبال نے شعور کی آنکھ کھولی تو ”مغرب “ان کے وطن ہندوستان میں حاکم وحکمران کی حیثیت سے موجود وملسط تھا۔برطانیہ جو مغربی غلبہ واستیلا کی علامت تھا۔اپنی پوری سیاسی وتہذیبی، عملی وفکر اور فوجی قوت کے ساتھ برّاعظم پرقابص ومتصرف تھا اقبال کی شخصیت داخلی طورپر تربیت وتہذیب یافتہ، منظم اور تواناتھی،انھیں یورپی تمدن کاظاہری طمطراق، مادّی آسائشیں اور چمک دمک متاثر نہ کرسکی۔شخصی حیثیت میں وہ مغرب کے جس قدر قریب ہوئے،ان کے ذہن میں اس کے خلاف ایک ناقدانہ ردعمل پیدا ہوتا گیا۔سید ابو الاعلی مودودی نے اس صورتحال کو ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
”مغربی تعلیم و تہذیب کےسمندر میں قدم رکھتے ہوئے وہ جتنا مسلمان تھا۔اس کے منجدھار میں پہنچ کراس سے زیادہ مسلمان پایاگیا۔اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتاگیا،اتناہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔یہاں تک کہ اس کی تہ میں جب پہنچا تودنیا نےدیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکاہے۔اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی ہی نہیں رہا۔“ (بحوالہ، اقبالیات:تفہیم وتجزیہ، ص:64)
قیام یورپ کے مشاہدات نے اقبال کو 1907ء ہی میں یہ کہنے پر مجبور کردیا:
تمہاری تہذیب، اپنے خنجر سےآپ ہی خودکشی کرگی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنےگا،ناپایدار ہوگا
اقبال کی فکرمندی:
اقبال کا عہد حیات ایک نوآبادیاتی دور میں بسرہوا۔نہ صرف ان کا وطن ہندوستان، بلکہ پورا مشرق اور پورا افریقہ، مغربی استعمار کے خو نیں پنجوں میں جکڑا، کراہ راہاتھا۔انگریزوں کے عہد تسلط میں، اقبال خودکو غلامانہ ماحول سے کبھی ہم آہنگ نہ کرپائے اور کائنات کے بارے میں ان کا انداز نظر عام لوگوں سے مختلف بلکہ منفرد تھا۔اپنے ماحول اور احوال وظروف نے انہیں ہمیشہ بےچین اور مضطرب رکھا۔چنانچہ یہ بالکل فطری ہےکہ وہ اپنے معاشرے، اپنے ہم وطنوں کی حالت زار پر ان کی فکر مندی ملاحظہ ہو:
نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
یہ خاموشی کہاں تک لذت فریاد پیدا کر
زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
وہ ہندی مسلمانوں کی حالت زار پر بہت فکرمند تھے جو جدید تعلیم، ملازمتوں اور مادّی وسائل کے لحاظ سے ،ہندو اکثریت کے مقابلے میں کہیں پیچھے تھے۔مسلم دنیا کی صورتحال اور بھی ابتر تھی۔اقبال ان صورتحال پر افسردہ ورنجیدہ رہتے۔اگرچہ ان کی شخصیت باطنی اعتبار سے بہت توانا تھی اور بدترین حالات میں بھی وہ سپرانداز ہوئے نہ کبھی مایوس، تاہم ایک شاعرکی طبعی رومانویت بعض اوقات انھیں مغموم کردیتی۔بحیثیت مجموعی وہ بہت رجائیت پسند انسان تھےاور کائنات میں انسان کی حیثیت، اس کے مستقبل اور دنیا جہان کےبارے میں ہمیشہ پر امید رہے۔ان کا فلسفہ خودی اور تصور عشق انسان کو اس کی خلیفۃ الارض کی حیثیت یاد دلاکر اسے حوصلہ عطا کرتا اور تگ وتاز حیات میں جدوجہد پرابھارتا ہے۔ہم عصر سیاسی وتہذیبی اور تمدنی ومعاشرتی صورتحال کاوہ برابر مطالعہ کرتے رہے۔سوچتے رہے اور غور وفکر کرتے ہوئے اپنے ذہن میں مستقبل کے نقشے بناتے رہے۔ان کی سوچ کا محور ومرکرز انسان تھا۔وہ سوچتے تھے،انسانی فوز و فلاح کے لئے بہتر مستقبل کےلئے، انسانیت اور عالم انسانیت کی تعمیر نو کے لئے ظاہر ہے۔یہ اسی وقت ممکن تھااور ہے جب نظام عالم کی تشکیل، نئی بنیادوں پرکی جائے۔سنجیدہ علمی وفکری معاملات پر، علامہ اقبال اپنے بعض فاضل دوستوں سے تبادلہ خیالات بھی کیا کرتےتھے،کبھی بالمشافہ اور کبھی بذریعہ خط کتابت ان کے خطوط اور گفتگو ؤں میں یہ موضوع بھی زیر بحث آیا ہے۔15/جنوری 1935ء کو سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں لکھا:
”دنیا اس وقت عجیب کش مکش میں ہے۔جمہوریت فناہورہی ہے،اور اس کی جگہ ڈکٹیٹرشپ قائم ہورہی ہے۔جرمنی میں مادّی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جارہی ہے۔سرمایہ داری کے خلاف پھر ایک جہاد عظیم ہورہا ہے۔تہذیب و تمدن (بالخصوص یوروپ میں )بھی حالت نزع ہے۔غرض نظام عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہوسکتا ہے؟ اس مبحث پر اپنے خیالات سے مستفیض فرمائیے۔( بحوالہ، اقبالیات:تفہیم وتجزیہ ص،83)
اقبال جب فروری 1933ء میں یورپ کےسفر سےلوٹے تو مشاہدات یورپ ان کے ذہن میں تازہ تھے۔ان کی شہرۂ آفاق نظم ”مسجد قرطبہ“ میں اس مشاہدے کے اثرات اور ردعمل کو واضح طورپر محسوس کیا جاسکتا ہے۔اندلس کے تاریخی شہر قرطبہ میں، جب وہ اپنے آدرشوں کو تازہ کررہے تھے۔تو ان کا ذہن جست لگاکر صدیوں پیچھے چلاگیا۔مگر ان کی چشم بصیرت آگے دیکھ رہی تھی۔ماضی کے تناظر میں مستقبل مرکزنگاہ تھا۔وہ عالم بیداری میں کسی اور زمانے کا خواب دیکھنے لگے:-
آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
نظم کے سیاق وسباق کو دیکھیں تو بالکل واضح ہےکہ یہ خواب بہ یک وقت امت مسلمہ کی بیداری، انسانیت کی فوز و فلاح اور نظام عالم کی تشکیل نو کا خواب تھا۔
اسلامی نشات ثانیہ اور اقبال:
مسلم معاشروں میں اسلامی نشات ثانیہ کے لئے ایک احساس و آرزو اور اس کے حصول کی تمنا ہمیشہ ایک دیرنیہ اور سہانے خواب کی صورت میں موجود رہی ہے۔اس ضمن میں ہماری ملی تاریخ کے اوراق داعیان دین اور مصلحین و مجددین امت کی پرجوش اور مخلصانہ کاوشوں سے جگمگا رہے ہیں اور ان کاوشوں کا سلسلہ صدیوں پیچھے، انبیائے کرام کی سعی و جدوجہد تک پہنچتا ہے۔ بیسویں صدی میں اسلامی نشات ثانیہ کے لئے جن اکابر نےتگ ودود کی ان میں علامہ اقبال کا نام بہت نمایاں ہے۔
اسلام کی سربلندی کے لئے ان کے بےتاب جذبوں اور مضطرب تمناؤں کا راز اس امر میں پوشیدہ ہےکہ انھیں اسلام کی حقانیت کےساتھ اسلام کے روشن مستقبل پربھی کامل یقیں تھا۔بیسویں صدی کے آغاز میں عالم اسلام ایک مایوس کن منظر پیش کررہا تھا۔ایسے میں اقبال کی طرف سے غلبہ اسلام کی یہ نوید:
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظُلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہوگی ترنّم آفریں بادِ بہار
نگہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
اقبال کے نزدیک انسانی کردار کی تعمیر میں بھی قرآن حکیم اساسی حیثیت رکھتا ہے:
قرآن ميں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
تجدید واحیا دین کے لئے اقبال کی ساری تگ ودود اور جدوجہد کا مقصد سنت رسول کی پیروی ہے۔بایں ہمہ علامہ کی عمر بھی کی جدوجہد وکاوش کی تشکیل ہونا باقی ہے۔شائد وہ ہمارے لئے ہی کہہ گئے ہیں:
وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے۔
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
یوں تو اللہ بتارک وتعالیٰ نے امت مسلمہ پر نماز روزہ ، حج، زکوٰۃ ، وغیرہ جیسی بہت سی عبادتیں عطافرمائی ہیں ، جن کے ذریعہ بندہ اپنے رب کی بڑائی بیان کرتاہے ، اپنی نیاز خم کرکے عبدیت کا اظہارکرتاہے ، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے یا اللہ توہی میرارب ہے میں تیرا بندہ ہوں ۔ الغرض عبادت کی جتنی شکلیں اللہ تعالیٰ نے سکھلائی ہیں ان کو اختیار کرکے بندہ حق بندگی ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتاہے ۔ کیوںکہ اللہ نے اس کوپیدااسی مقصد کے لئے کیاہے ۔ جیسا خود اللہ نے اس کی وضاحت کی ’’وماخلقت الانس والجن الا لیعبدون‘‘ میں نے جنوں اور انسانوںکو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے ۔(الذاریات:۵۶)۔
بندگی کیاہے ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی کے لئے پیدا کیاہے ،اس کا کیامطلب ؟ کیا اس کا مطلب صرف یہ ہیکہ بندہ دن میں پانچ وقت کی نماز اداکرلیا، رمضان کے مہینے میں تیس دن روزے رکھ لیا اوراگر اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو سال میںزکوٰۃ اداکردی اسی طرح زندگی میں ایک مرتبہ حج کرلیاتو کیااس سے حق بندگی ادا ہوگئی؟ اور اب انسان اس کے بعد آزاد ہوگیا ہے؟ جو چاہے کرے؟ بندگی کا مقصدیہ نہیں ہے ۔بلکہ بندگی کا مقصد یہ ہے کہ ان عبادتوں کے ذریعہ انسان کی تربیت ہواور اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے ، خواہ جس کی حالت میںہو، اسے ہروقت یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کا مالک اسے دیکھ رہاہے ، اور مالک کے حکموں کے بنازندگی گزارنااپنے کو ہلاکت میںڈالناہے۔
مذکورہ بالامیں عبادت کی جتنی شکلیں بیان کی گئی ہیں ان تمام شکلوں میں روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا حال خدااور بندے کے سوا کوئی نہیں جانتاہے، شاید اسی لئے حدیث قدسی میں روزہ کے انعام کے سلسلے میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ آدمی کا ہرعمل خداکے یہاں کچھ نہ کچھ بڑھتاہے ایک نیکی دس گنی سے سات سو گنی تک پھلتی پھولتی ہے ۔ مگراللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ اس سے مستثنی ہے ۔ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں اس کاجتنا چاہتاہوں بدلہ دیتاہوں‘‘۔ (مسلم :۱۱۵۱ )
اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ارشادہے ’’ جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہاجاتاہے ، روزہ دار قیامت کے دن اسی سے جنت میں داخل ہونگے ، کوئی اور ان کے ساتھ داخل نہ ہوسکے گا، پوچھاجائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ پھر اس سے داخل ہونگے اور جب آخری شخص داخل ہوجائے گا تواسے بند کردیاجائے گا اور پھر کوئی اس دروازہ سے داخل نہ ہوسکے گاــ‘‘(مسلم : ۲۷۱۰)
اس کے علاوہ جتنی عبادتیں ہیں کوئی عبادت کسی سے مخفی اور ڈھکی چھپی نہیں ہے ، نماز کو عماد الدین کہاگیاہے، لیکن دل کی حضوری کے ساتھ جسم کے ایسے اعمال واظہار پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے جماعت ہی میںنہیں گھر کی چہار دیواری میں بھی اداکی جانے والی نماز کسی سے مخفی نہیں، ہر شخص اس کی عبادت سے واقف ہوتاہے ۔
اسی طرح حج میں بندہ ایک لمبا سفر کرتاہے ہزاروں لاکھوں کے ساتھ ہوتاہے ، گاؤں اور محلہ کا ہرشخص واقف ہوتاہے کہ فلاں صاحب حج کو تشریف لے جارہاہے اورجب فریضہ ٔـحج اداکرکے اپنے وطن واپس آتاہے تو ہر خاص وعام اسے ’حاجی صاحب‘ نام سے جانتے ہیں۔ گویا یہ عبادت چھپانے سے بھی نہیں چھپ سکتی ۔
اسی طرح صاحب نصاب مالدار اپنی زکوٰۃ کو کتناہی چھپا کراداکرے کم از کم لینے والا تو جانتاہے کہ فلاں شخص نے دیاہے چنانچہ یہ سب عبادتیں ایسی ہے کہ چھپائے بھی چھپ نہیں سکتی اگر آپ اداکرتے ہیں پھربھی لوگوںکو معلوم ہوجائے گا اور ادانہ کریں تب بھی لوگوں کوخبر ہوہی جائے گی۔اس کے برخلاف روزہ ہے جس کا گواہ صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہوتاہے اس کے سوا کسی کے سامنے اس کی حقیقت نہیں کھل سکتی ۔ ایک شخص سب کے ساتھ مل بیٹھکر سحری کھاتاہے اور افطارتک ظاہر ی طور پر کچھ نہ کھائے مگر چھپ چھپا کر پانی پی لے، یا کچھ کھا لے تو اللہ کے سوا کسی کو اسکی خبر نہیں ہوسکتی ، سارے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ فلاں صاحب روزہ سے ہے، لیکن حقیقت میں وہ روزہ سے نہیں ہوتا۔ روزہ دارکو اللہ پر اور آخرت پر اس قدر یقین ہوتاہے کہ سخت گرمی میں بھی جب حلق خشک ہو جاتاہے ، پیاس کی شدت اسے بے چین کرتی ہے ، بھوک سے وہ تڑپتاہے اسی حالت میں اس کے سامنے انواع و اقسام کی چیزیں ہوتی ہیں اگر کھابھی لے تو کون اسے دیکھ رہاہے ؟ لیکن اس کے باوجود وہ ان کو ہاتھ نہیں لگاتااور دل میں یہ کہتاہے کہ اگر مجھے اس بندکوٹھری میں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے ، ہم اوروں کی نظروں سے اوجھل ہوسکتے ہیں لیکن اس کی نظروں سے کیسے بچ پائیں گے جو باریک بیں ہے، جس کی نگاہیں ہرچیز کو گھیرے ہوئی ہیں ،اسی یقین کی بنیادپر اللہ کی حکموں کو بجالاتاہے سحرسے لیکر سورج کے ڈوبنے تک کھانے پینے اور خواہشات سے اپنے آپ کو روکتاہے صرف اس بنیاد پرکہ اس کا رب اس سے یہی چاہتاہے ۔
روزہ کا مقصد تقوی کی صفت سے اپنے آپ کو آراستہ کرناہے اور اللہ کا بندہ بننے او ر اس کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے لئے بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت کرنا ،جائز خواہشات سے اجتناب کرناانسان کوتقویٰ کی نعمت سے مالامال کرتاہے، جو دنیا اورآخرت کی بھلائی کا ذریعہ ہے اور انسان کے اندراس کے ذریعہ ایسی صلاحتیں پیداہوتی ہیں جو انسان کو ہدایت سے فیض یاب ہونے میں معاون ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے سب سے پہلی شرط جو بیان کی ہے وہ تقویٰ ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ھدی للمتقین‘‘ ہدایت متقیوں کے لئے ہے (البقرہ:۲) اور روزہ انسان کے اندروہ تقوی پیداکرتاہے جو ہدایت ربانی کے لئے مطلوب ہے ۔ یہی وجہ ہیکہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ’’لعلکم تتقون ‘‘ تم پر روزہ فرض کیاگیا تاکہ تم متقی وپرہیز گار بن جاؤ(البقرہ:۱۸۳)۔
چنانچہ جو روزہ کے مقصدکو سمجھے گا اور اس کے ذریعہ سے اصل مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تووہ تھوڑا یا بہت متقی ضرور بن جائے گا۔ لیکن جو مقصد کو نہ سمجھے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اس کے لئے بھوک پیاس رہنے کے سواکچھ بھی حاصل نہ ہوگا ۔
لہذاہمیں چاہئے کہ روزہ کے مقاصد کوسامنے رکھتے ہوئے روزہ رکھیں ،اللہ سے قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں ، روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنے ، غیبت اور چغل خوری سے اجتناب کریں ، نیکیوں میں کثرت کریں نوافل اور قرآن کریم کی تلاوت کواپنامعمول بنائیں ۔ اللہ ہمیں رمضان سے صحیح طور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطافرمائے۔
مروجہ قلیل المدت تراویح: عوامی پس منظر اور ہماری ذمے داریاں- پروفیسر ڈاکٹر عبدالحليم قاسمی
ابتداء دنیا سے لیکر انتہاء دنیا تک باقی رہنے والی آسمانی کتاب قرآن پاک واحد ایک ایسا معجزہ ہے جس کی ذمہ داری رہتی دنیاں تک خالق کائنات نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے،ماہ رمضان اور نزول قرآن کا تصور ایک دوسرے کے بغیر نا ممکن نا مکمل اور ادھورا ہے، روزوں کی حقیقت و معنویت قیام لیل اور تراویح کے بغیر ناقص اور ادھوری ہے۔
مروجہ تراویح اور زمینی حقائق
ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش میں ماہ رمضان المبارک میں تراویح کی مختلف صورتیں رائج ہیں، تین دن، پانچ دن، سات دن، دس دن بارہ دن وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ پندرہ دن، بیس دن، اور آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ختم شبینہ تراویح بھی ملک ہندوستان میں کثرت سے رائج ہے۔
کم مدت و دورانیہ پر مشتمل ختم تراویح کی توجیہات
کم سے کم دنوں میں ختم تراویح کی مختلف توجہات بیان کی جاتی ہیں:
( 1 )غیر مقامی حفاظ کرام کا اپنے گھروں سے دور مقیم رہ کر زیادہ دنوں فکر کے ساتھ قیام کرنے کی پریشانیوں کی وجہ سے عجلت پیش نظر ہوا کرتی ہے۔
( 2 )بعض تاجروں اور اور مسافرین کی ضرورتوں کے پیش نظر اس قسم کے اقدامات کئے جاتے ہیں تاکہ کم وقت میں تکمیل قرآن کی سنت پوری کر کے آزادانہ تجارت و اسفار کر سکیں۔
( 3 )بعض اوقات حفاظ کی کثرت کے پیش نظر ایک ہی مسجد میں متعد ختم تراویح متعدد حفاظ کرام کے لئے مواقع فراہم کرنے کے لیے انتظامات کئے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ حفاظ ختم تراویح کرکے قرآنی یادداشت کو باقی رکھ سکیں۔
( 4 )بعض اوقات ذہنی تناؤ اور اس بات کی فکر پیش نظر رہتی ہے کہ جلد از جلد ایک قرآن مکمل تراویح میں سننے کی سنت پوری ہوجائے باقی پورے ماہ تراویح پڑھنے کی سنت آزادی کے ساتھ کہیں بھی رہ کر ادا کرتے رہیں گے۔
شکلیں و ذاتی مقاصد اور بھی ہو سکتی ہیں، صورتحال کے اختلاف سے شکلیں مختلف ہوا کرتی ہیں۔
عوامی پس منظر، رجحانات
تحدیث نعت کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ تقریباً 1988 سے لے کر تا دم تحریر بحیثیت حافظ قرآن تسلسل کے ساتھ تراویح سنانے اور تقریباً 33 سال کے مکمل عوامی تجربہ کی بنیاد پر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ خواص سے کہیں زیادہ عام لوگ حفاظ کرام کی فضیلت، عظمت، قدر و منزلت کے نہ صرف قائل بلکہ عملی برتاؤ اور حسنِ سلوک پر یقین رکھتے ہیں، لہذاٰ تراویح، نوعیت تراویح، عظمت تراویح، غلط روش و مروجہ روایت کے بارے میں عمومی طور پر عوام کو ذمے دار ٹھہرانا بعید از قیاس اور غیر مناسب ہے۔
کم مدت و دورانیہ پر مشتمل تراویح کے نقصانات
گزشتہ دنوں رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی بے شمار تراویح کے تعلق سے مستند و متبحر اہل علم کے بیانات سماعت سے ایسے گزرے جن میں عوامی طور پر قرآن خوانی میں آداب قرات کی صریحی پامالی، عجلت، بعض اوقات کم وقت میں زیادہ پڑھنے کی تیزرفتاری اور بھی بہت ساری خامیوں کا ذمہ دار عوام کو ٹھہرایا گیا،اہل علم کی جانب سے اس طرف توجہ و بیداری اس وقت نمودار ہوئی جب تیزرفتار تراویح کی ویڈیو، آئڈیوز کی کلپس سوشل میڈیا پر گزشتہ سالوں میں تیزی سے گردشیں کرنے لگیں۔
غلط روایت و نقصانات
( 1 ) کم دورانیہ پر مشتمل تراویح کی جستجو اور ڈیمانڈ لوگوں میں پیدا ہونے لگی۔
( 2 )رمضان المبارک سے قبل نماز جمعہ میں بطورِ خاص آسانیوں کے پیش نظر کم دنوں کے تعین کے ساتھ اعلانات ہونے لگے۔
( 3 ) بڑے بڑے شہروں میں شائع ہونے والے اخبارات کے صفحہ اول پر مساجد اور ائمہ کے نام کے ساتھ پانچ دن، سات دن، دس دن ختم تراویح کے اشتہار شائع ہونے لگے۔
( 4 )بعض مقامات پر کم دنوں کے تعین کے ساتھ ساتھ کم وقت مثلاً روزانہ پانچ پارے وہ بھی فرض نماز، تراویح اور وتر ملا کر صرف دو گھنٹوں میں مکمل کرنے کے دعوے بھی چرچوں میں آنے لگے۔
( 5 )شہروں کی بعض مساجد کم دنوں اور کم وقت کی تراویح میں اتنی شہرت یافتہ ہو گئیں کہ وہاں مقتدیوں کی بھیڑ سڑکوں پر امڈنے کے باعث عام آمد و رفت تک متاثر ہونے لگی۔
مشاہدات و آبزرویشن
جب بہت قریب سے ایسے تمام مقامات کا مشاہدہ کیا گیا جہاں جہاں جن مساجد، پرائیویٹ مقامات، فیکٹریز،گھروں کے ہال، اسپتال وغیرہ میں کم دنوں اور کم وقت پر مشتمل تراویح کے انتظامات کئے جاتے ہیں ایسی سبھی جگہوں پر تراویح کی خدمات انجام دینے والے بہرحال حفاظ کرام، قرا حضرات ، اور بعض مقامات پر مستند اہل علم ائمہ حضرات سے ملاقات ہوئی جبکہ بعض مقامات پر تراویح پڑھانے والے، پڑھنے والے، انتظام کرنے والے سبھی اہل علم نظر آئے۔
ذمہ داری و جواب دہی
سوال یہ ہے یہ روایت کس نے ڈالی؟ سوال یہ بھی ہے کہ شبینہ کا موجد کون ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ تراویح پڑھانے والے کون عام لوگ ہیں جو آداب تلاوت کی رعایت ملحوظ نہیں رکھتے؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب کوئی ایسی خامی وہ بھی رہتی دنیا تک آسمانی کتاب کے ساتھ ایسے لوگ کریں جو قوم کی امامت فرما رہے ہوں تو ایسی صورتحال میں ذمہ داری کس کی ہوگی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک سنت پر عمل کرنے اور تکمیل قرآن تراویح میں سننے کے لئے کم دنوں، کم وقت پر مشتمل قرآن پڑھنے کے اصولوں سے سمجھوتہ کرکے تیزرفتار تراویح کے انتظامات کرنے کی اجازت یا چشم پوشی درست ہے؟ مجھے اگر کسی کی عزت نفس کا خدشہ نہ ہوتا تو میں یقیناً ایسے مقامات کا ذکر ضرور کرتا کہ جہاں ان خامیوں کے ذمے دار اہل علم ہیں وہیں دوسری طرف بعض مقامات پر اہل علم کا اعتماد بھی حاصل ہے، بصورت دیگر یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن کے ساتھ قرآن فہمی والے افراد وہ بھی منصب امامت پر نعوذباللہ قرآن کے ساتھ کھلواڑ کریں۔
آخری عشرہ اور شبینہ تراویح
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شبینہ تراویح کی روایت، ترتیل و تجوید کی پامالی کے مشاہدات فیس بک لائیو، اشتہارات، اعلانات کے مشاہدات عنقریب کئے جا سکتے ہیں، تشویش ناک صورت حال اس وقت زیادہ ہوا کرتی ہے جب غلط روش پر عمل ثواب سمجھ کر ہوتا ہے۔
آدابِ تلاوت کی خلاف ورزی اور وعید
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ ، يُحَدِّثُ ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَيَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ فِيهِ حَتَّى يَعُودَ السَّهْمُ إِلَى فُوقِهِ قِيلَ مَا سِيمَاهُمْ ؟ ، قَالَ : سِيمَاهُمُ التَّحْلِيقُ ، أَوْ قَالَ التَّسْبِيدُ .
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کچھ لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے اور قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح دور پھینک دیے جائیں گے جیسے تیر پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ کبھی دین میں نہیں واپس آ سکتے، یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ ( خود ) واپس آ جائے، پوچھا گیا کہ ان کی علامت کیا ہو گی؟ تو فرمایا کہ ان کی علامت سر منڈوانا ہو گی۔“
خدشات اور عذاب الہی
قرآن پاک کی کھلم کھلا سر عام دین کے نام پر ثواب سمجھتے ہوئے بے حرمتی وہ بھی ماہ نزول میں نعوذباللہ۔ مجموعی طور پر حسبِ مراتب سبھی لوگ ذمہ دار ہیں،
تین دنوں ، پانچ دنوں سات دنوں میں تکمیلِ تراویح، دو گھنٹوں میں قیام کے ساتھ پانچ پانچ پاروں کی تلاوت آداب تلاوت تو کجا آواز تلاوت بھی سماعت کو گراں گزرتی ہے،
اس سلسلے میں احادیث نبوی میں موجود وعیدیں فکروں میں اضافہ کا باعث ہیں۔
سد باب، تدارک ، خفاظتی تدابیر
( 1 )رمضان المبارک سے قبل جسلہ دستار بندی کے پروگراموں میں بوقت دستار طلبا حفاظ کرام کو بسلسلہ تراویح ہدایات جاری کی جائیں۔
( 2 )معمر تجربہ کار با اثر حفاظ کرام بہر صورت پندرہ یوم سے قبل ختم تراویح کی امامت پر عدم رضامندی کا اظہار فرمائیں۔ با اثر ائمہ کرام کے ایسا کرنے دوسرے ائمہ کرام کو تقویت ملے گی۔
( 3 )مرکزی درس گاہوں کے ذمے داران اپنے لیٹر ہیڈ پر تراویح سے متعلق قبل از رمضان پیغامات و ہدایات ضرور جاری فرمائیں۔
( 4 )تمام ایسے مذہبی امور جن کی انجام دہی خالص مذہبی پیشواؤں کے ذریعہ ہوا کرتی ہے، وہاں عوامی جواب دہی کے بجائے سنجیدگی و متانت کے ساتھ باہمی ذمے داری کا تعین ، لائحہ عمل اور مرکزی گائیڈ لائن ناگزیر ہوا کرتی ہیں۔
( 5 ) قرین قیاس اور موزوں ترین توجیہ یہی ہے کہ جس شعبہ کی قیادت و سیادت اور پیشوائی کی ذمہ داری جس پر ہوا کرتی ہے اس شعبہ کے متعلق اچھے برے نتائج کا سارا کریڈٹ بھی اسی کو جاتا ہے۔
( 6 ) حقیقت پسندانہ تجزیہ، احتساب عمل، جوابدہی و ذمہ داریوں کے تعین کے بغیر اچھے نتائج، عوامی اعتبار و اعتماد اور مقصد عمل اور قابلِ قبول بجا آوری ممکن نہیں،
غلط فہمیوں کا ازالہ
ماہ رمضان و ماہ قرآن میں آسمانی معجزہ کے ساتھ ہونے والے سلوک کا حقیقت پسندی کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، تحریر کا مقصد خدانخواستہ تخریب کاری، بدگمانی بالکل نہیں البتہ فوری طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی پر چہار جانب سے روک تھام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے بصورت دیگر آخری عشرہ میں خدانخواستہ دس دس پاروں کی تیز رفتار والی شبینہ تراویح کے واقعات مزید رونما ہوں گے۔
پاکستان: قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب، عمران خان وزیراعظم نہیں رہے
اسلام آباد:پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی ہے اور وہ وزیراعظم پاکستان نہیں رہے ۔ اس سے قبل سپیکر اسد قیصر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور اجلاس کی صدارت ایاز صادق نے کی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر ڈپٹی سپیکر کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد کو مسترد کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تھا- سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ وفاقی حکومت کسی بھی رکنِ قومی اسمبلی کو عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ ڈالنے سے کسی بھی انداز میں نہ روکے اور نہ ہی کسی قسم کی مداخلت کرے۔
اتوار کے روز دوپہر دو بجے تک نئے قائدِ ایوان کے امیدوار کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائیں گے اور گیارہ اپریل کو ملک کے23ویں وزیراعظم کا انتخاب ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ تین اپریل کو قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس میں فوج کی رضامندی نہیں تھی اور اس کا فوج سے کوئی تعلق نہیں۔ پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے بلایا جانے والا اجلاس ووٹنگ کے بغیر 16 اپریل تک کے لیے ملتوی کیا گیا تاہم اپوزیشن نے ایک علامتی اجلاس میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا۔
(بہ شکریہ بی بی سی اردو)
ستر فیصد سے زیادہ گوشت خوروں کے ملک کو سبزی خور نہیں بنایا جاسکتا!-شتاپا پال
ترجمہ:نایاب حسن
اگر آپ گوشت چھوڑنے کے لیے صحت سے متعلق وجوہات کا حوالہ دیتے ہیں، تو یہ قابل فہم ہے۔ اگر آپ گوشت سے دوری کی وجہ گلوبل وارمنگ کو بتاتے ہیں، تو میں تعریف کروں گی۔ جانوروں کے قتل سے بچنے کو بتاتے ہیں، تو میں ہمدردی ظاہر کروں گی؛ لیکن لوگوں کو گوشت سے دور رکھنے کے لیے مذہب کا حوالہ دینا محض ایک تفریقی اور واضح طور پر مضحکہ خیزعمل ہے، مگر جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن (SDMC) کے میئر مکیش سوریان یہی کرنا چاہتے ہیں۔ ایس ڈی ایم سی کمشنر کو لکھے خط میں انھوں نے ہدایت دی کہ علاقے میں تمام گوشت کی دکانیں نوراتری کے دوران بند رہیں۔ اگرچہ ایسا کوئی حکم منظور نہیں کیا گیا اور اب تنازعہ عام ہونے کے بعد اس کا بہت زیادہ امکان بھی نظر نہیں آتا؛ لیکن اس سوچ پر بھی گرفت ہونی چاہیے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسی ہدایات آئین کی طرف سے ہمیں دی گئی تمام آزادیوں اور حقوق پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان پابندیوں سے لوگوں کی تجارت، پیشے اور روزی روٹی کو بھی خطرہ ہے۔ جن مقدمات میں عدالتوں نے مخصوص ایام میں گوشت ذبح کرنے یا فروخت کرنے کا حکم دیا ہے، وہاں معاوضے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ اسی طرح اگر ایس ڈی ایم سی میئر گوشت کی دکانیں بند کرنا چاہتے ہیں، تو وہ دکان داروں اور مزدوروں کے کاروبار اور اجرت کے نقصان کی تلافی بھی کریں۔ ہم کیا کھاتے ہیں یا نہیں، ہمارا ذاتی معاملہ رہنا چاہیے؛ لیکن اس ملک میں وقتاً فوقتاً کھانا بھی سیاسی رنگ اختیار کر لیتا ہے۔
بعض اوقات ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہمیں کون سا گوشت کھانا چاہیے اور اب یہ کہ بالکل بھی نہیں کھانا ہے۔ گروگرام میں منگل کو گوشت فروخت نہیں ہوتا ہے، احمد آباد میں سڑک کے کنارے سٹالوں پر نان ویجیٹیرین کھانا نہیں بیچا جا سکتا، جب کہ راج کوٹ اور وڑودرہ میں کھانے بیچنے والوں کو نان ویجیٹیرین کھانا ڈھانک کر رکھنا پڑتا ہے۔ کیا گوشت کھانا ایک مجرمانہ عمل ہے؟ SDMC میئر کے خط میں کہا گیا ہے کہ گوشت کو کھلے عام فروخت ہوتے دیکھ کر لوگ ذہنی انتشار کے شکار ہوں گےاوراس سے ان کے "مذہبی عقائد اور جذبات کو ٹھیس پہنچے گی‘‘۔ کیا ہمارا ایمان (اور یہ بھی ہمارا ذاتی معاملہ ہے) اتنا مضبوط نہیں ہونا چاہیے کہ گوشت کی طرف ہماری توجہ ہی نہ جائے؟ ان لوگوں کے لیے جو نوراتری پر عمل کرتے ہیں یا کوئی بھی ایسا مذہبی عمل جو گوشت اور شراب سے روکتا ہے، اس کی انجام دہی کے دوران گوشت اور شراب کی دکانوں سے دور رہنا اور ان کے استعمال سے رکنا کافی ہونا چاہیے۔ اس طرح کی پابندیاں عائد کرنا اس صورت حال کی بھی ترجمانی کرتا ہے کہ ہمارا ملک اب ہر مذہب و نظریے کے ماننے والوں کے لیے یکساں نہیں رہا۔ ہم ملک کے دارالحکومت میں ایسے آمرانہ فیصلوں کی اجازت نہیں دے سکتے، جہاں کبھی ایسا رواج نہیں رہا۔ کسی بھی انتظامیہ کو آئین کے ذریعے دی گئی آزادیوں کو چھیننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا افراد کے حقوق کے بارے میں بھی زیادہ باشعور اور باخبر ہے، ہندوستان کی ایک غالب طاقت کے طور پر کمزور اور رجعت پسندانہ شبیہ پیش کی جارہی ہے۔ گوشت پر پابندی یا اسے چھپانے کے مطالبات اس حقیقت کو بھی نظر انداز کرتے ہیں کہ ہندوستان زیادہ تر گوشت کھانے والوں کا ملک ہے۔
ہمارے ملک کے زیادہ تر لوگ سبزی خور نہیں ہیں؛بلکہ اگر غذائی عادات کی بات کی جائے تو مؤخر الذکر قسم کے لوگ اقلیت میں ہیں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق ہندوستان میں 78 فیصد مرد اور 70 فیصد خواتین نان ویجیٹیرین ہیں، یعنی وہ انڈا، مچھلی یا گوشت کھاتے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان کا زیادہ تر حصہ کسی نہ کسی قسم کا نان ویجیٹیرین کھانا کھاتا ہے، مگر مشرقی اور جنوبی ریاستیں اس کے استعمال میں میں سب سے آگے ہیں۔ 97 فیصد سے زیادہ نان ویج کھانے والوں کے ساتھ بنگال سب سے اوپر ہے، اس کے بعد آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور کیرالہ کا نمبر آتا ہے۔ راجستھان، گجرات، پنجاب اور ہریانہ 40 فیصد سے کم کے ساتھ سب سے کم ویجیٹیرین ریاستیں ہیں۔ اعداد و شمار کو قریب سے دیکھنے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی شہری پھلوں کی طرح انڈے، مچھلی اور گوشت کھاتے ہیں اور تقریباً نصف ہندوستانی آبادی ہفتے میں ایک بار نان ویج کھاتی ہے۔ میں یہاں تک کہوں گی کہ اگر لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوجائے ، تو پروٹین کھانے والوں کی تعداد اور بڑھ جائے گی۔ ہمارے یہاں بہت سے لوگ روزانہ انڈے اور گوشت کھانے کے متحمل نہیں ہیں۔ خبروں کے مطابق آج ہم پچھلے کچھ سالوں سے زیادہ گوشت کھا رہے ہیں۔ یہ تعداد 2014 سے مسلسل بڑھ رہی ہے اور 2020 میں ہم نے 6 ملین ٹن گوشت کھایا، ہم آج بھی زیادہ گوشت پیدا کر رہے ہیں اور فی الحال دنیا بھر میں سپلائی کیے جانے والے گوشت کا 2.18 فیصد ہم پیدا کرتے ہیں اور دنیا بھر کے ایسے ملکوں میں ہمارا نمبر چھٹاہے۔ تو ان حیران کن اعداد و شمار کے باوجود گوشت کی صنعت اور اس سے تعلق رکھنے والوں کو مجرم کیوں گردانا جاتا ہے؟ اس کی وجہ سیدھے طورپر سیاست ہے؛ ملک کو سبزی خور بنانے اور بہت سے لوگوں پر چند لوگوں کے کھانے کی عادات کو نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔چوں کہ ہمارے گوشت کھانے کے طریقے ایسی طاقتوں کے بیانیے کے مطابق نہیں ہیں ؛اس لیے وقتاً فوقتاً ان کی طرف سے غلط قسم کے نظریات سامنے آتے رہتے ہیں اور ہمیں انھیں ہر حال میں مسترد کرنا چاہیے۔
(شتاپا پال سرگرم انگریزی صحافی ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کر چکی ہیں۔ فی الحال وہ NewCrop کی بانی ایڈیٹر ہیں، جو کاروباری افراد کے اسٹارٹ اپس کے لیے ایک ویڈیو فرسٹ، ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ہے ،ساتھ ہی وہ ’دھرما میڈیا کنسلٹنٹس‘ کی بانی بھی ہیں۔ ممتا بنرجی کی سیاسی زندگی پر ان کی ایک کتاب Didi: The Untold Mamata Banerjee کے نام سے 2018 میں شائع ہوئی ہے۔ یہ مضمون ’ملینیم پوسٹ‘ میں 9 اپریل کو شائع ہوا ہے۔)
چہل کو 15ویں منزل سے لٹکانے والے شخص پر روی شاستری برہم،کہا- ایسے کھلاڑی پر تاحیات پابندی لگنی چاہیے
نئی دہلی :ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ روی شاستری نے سینئر لیگ اسپنر یوزویندر چہل کے اس انکشاف پر ردعمل ظاہر کیا ہے کہ آئی پی ایل 2013 کے دوران ایک غیر ملکی کھلاڑی نے انہیں ہوٹل کی 15ویں منزل کی بالکونی سے لٹکا دیا تھا۔ اس معاملے کی مذمت کرتے ہوئے روی شاستری نے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔واضح رہے کہ چہل نے بتایا تھا کہ وہ 2013 میں آئی پی ایل میچ کے بعد اس وقت بال بال بچ گئے تھے جب ایک نشے میں دھت کھلاڑی نے انہیں بنگلور ہوٹل کی 15ویں منزل کی بالکونی سے لٹکا دیا تھا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے روی شاستری نے کہا کہ یہ مذاق کی بات نہیں ہے۔روی شاستری نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ وہ شخص کون ہے، وہ اس وقت ہوش میں نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ بہت تشویشناک بات ہے۔ کسی کی جان کو خطرہ تھا، کچھ لوگوں کو یہ بات مضحکہ خیز لگ سکتی ہے لیکن یہ بالکل بھی مضحکہ خیز نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے ظاہر ہوا ہے کہ جس نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی وہ مناسب پوزیشن میں نہیں تھا۔ جب آپ ایسی حالت میں ہوتے ہیں اور ایسا کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلطی کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ ٹیم انڈیا کے ٹاپ لیگ اسپنروں میں سے ایک 31 سالہ چہل نے روی چندرن اشون کے ساتھ بات چیت کے دوران اس کا انکشاف کیا تھا۔ اس گفتگو کی ویڈیو ان کی نئی آئی پی ایل فرنچائز راجستھان رائلز نے جاری کی ہے۔شاستری نے کہا کہ میں اس طرح کی بات پہلی بار سن رہا ہوں، یہ بالکل بھی مضحکہ خیز نہیں ہے، اگر آج یہ واقعہ ہوتا ہے تو قصورواروں پر تاحیات پابندی لگائی جانی چاہیے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاحیات پابندی، بہتر ہے کہ وہ کرکٹ کے میدان کے قریب نہ آئیں، تب ہی پتہ چلے گا کہ یہ مضحکہ خیز ہے یا نہیں۔ چہل نے کہا تھا کہ بہت سے لوگ اس واقعے سے واقف نہیں تھے کیونکہ انہوں نے اسے اپنے پاس رکھا تھا۔روی شاستری نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ کھلاڑی ایسے واقعات کی جلد از جلد اطلاع دیں اور کسی سانحہ کا انتظار نہ کریں۔ اشون کے ساتھ بات چیت کے دوران چہل نے کہا تھاکہ کچھ لوگ میری کہانی جانتے ہیں۔ میں نے اس کے بارے میں کبھی بات نہیں کی، کبھی اس کا اشتراک نہیں کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 2013 میں میں ممبئی انڈینس کے ساتھ تھا۔ بنگلور میں ہمارا ایک میچ تھا۔ اس کے بعد کھلاڑی ایک دوسرے سے ملے۔ ایک کھلاڑی نشے میں تھا، میں اس کا نام نہیں لوں گا۔ چہل نے مزید کہاکہ وہ نشے میں تھا اور میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے مجھے بلایا۔ اس نے مجھے باہر نکالا اور بالکونی میں لٹکا دیا۔
اپوزیشن کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کا استعمال قابل مذمت ہے۔ اور اس کی چوطرفہ مذمت ہو بھی رہی ہے ،لیکن مرکزی حکومت ہے کہ نہ ای ڈی پر لگام کسنے کو تیار ہے، نہ انکم ٹیکس پر او رنہ ہی سی بی آئی اور دیگر ایجنسیوں پر۔ اور لگام کسے بھی کیوں؟ مرکز تو یہ چاہتا ہی ہے کہ ساری اپوزیشن ، سارے سیاست داں اور ساری سیاسی پارٹیاں اس کے آگے سر نگوں ہوجائیں اور بھارت پر صرف اور صرف بی جے پی یا دوسرے لفظوں میں صرف سنگھ کا راج رہے۔ آج بی جے پی کو اور سنگھ کو ’ہندو راشٹر‘ کا خواب حقیقت میں بدلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اور اب اس موقع پر وہ کسی کو بھی کسی طرح کی ڈھیل دینے کو تیار نہیں ہے۔ اپوزیشن کو اگر مرکز کا مقابلہ کرنا ہے تو اسے اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا پڑے گا۔ جیسے کہ این سی پی کے سپریمو شرد پوار ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی پوار نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی او ر اپوزیشن کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کے بیجا استعمال کی شکایت کی تھی۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پوار نے مودی سے اس معاملے میں ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ پہلے بھی شرد پوار ای ڈی کا سامنا کرچکے ہیں، مرکزی سرکار نے انہیں جھکانے کی کوشش کی تھی مگر بجائے جھکنے کے وہ ای ڈی کا سامنا کرنے کےلیے تیار تھے۔ پوار نے جو کیا اپوزیشن وہی کرے۔ شیوسینا یہ کررہی ہے۔ سنجے رائوت ای ڈی کا سامنا کررہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ شیوسینا اور بی جے پی کی جنگ ایک دلچسپ موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا کو آئی این ایس وکرانت گھوٹالے میں ملزم بناکر شیوسینا نے بی جے پی کوزبردست جھٹکا دیا ہے اور یہ جتلادیا ہے کہ اس کے لیڈر بھی زد میں آسکتے ہیں۔ بات شرد پوار کی ہورہی تھی، انہوں نے یہ کہہ کر کہ بی جے پی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا ہے اپوزیشن کو بی جے پی سے لڑنے کی ایک راہ دکھادی ہے۔ اب اپوزیشن کےلیے بی جے پی سے آر پار کی جنگ اس لیے ناگزیر ہے کہ اگر یہ جنگ نہ لڑی گئی تو بی جے پی ایک ایک کرکے کُل اپوزیشن کو ہڑپ کر لے گی۔ یہ جنگ اب بقاء کی جنگ بن گئی ہے۔ لڑائی یا ہتھیار ڈالنا ،اب بس دو ہی راستے بچے ہیں۔ ویسے اپوزیشن آج جس مصیبت میں ہے وہ اس کی اپنی ہی پیدا کردہ ہے۔ سیکولر کہلانے والی پارٹیوں نے بی جے پی کو بہت دودھ پلایا ہے اور بی جے پی دودھ پی کر اس قدر تواناہوچکی ہے کہ سب کو نگل لینے پر اتارو ہے۔ اگر این ڈی اے میں شامل سیکولر کہلانے والی پارٹیوں نے بہت پہلے اپنا سہارا کھینچ لیا ہوتا تو آج بی جے پی اس قدر مضبوط نہ ہوتی۔ شیوسینا تو خیر سیکولر نہیں تھی لیکن اس نے بی جے پی کو مہاراشٹر میں توانا کیا اور آج شیوسینا کا وجود خطرے میں آچکا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی خوب جانتی ہے کہ کیسے ہر طرح کے حالات سے فائدہ اُٹھایاجاسکتا ہے، اور وہ فائدہ اُٹھارہی ہے۔ خوب یاد ہے کہ گجرات فسادات کے بعد جب واجپئی کی قیادت میں بی جے پی نے عام الیکشن ہار دیا تھا اور یوپی اے کی حکومت بنی تھی تب مضبوط شواہد ہونے کے باوجود نہ مودی کے خلاف کارروائی کی گئی تھی او رنہ ہی گجرات فسادات کے دیگرملزمین کے خلاف۔ ایسی چھوٹ سنگھیوں کو ہر بار ملی ہے اور اس چھوٹ کا خوب فائدہ اُٹھایاگیا ہے۔ لیکن جنہو ںنے چھوٹ دی تھی انہیں بی جے پی چھوٹ دینے کےلیے قطعی تیار نہیں ہے۔ بی جے پی کو موقع ملا ہے وہ اس سے پورا فائدہ اُٹھانے کےلیے کوشاں ہے۔ کاش اب بھی اپوزیشن متحد ہوجائے کیو ںکہ ایک متحداپوزیشن ہی بی جے پی کا سامنا کرسکتی ہے۔ لیکن کیا اپوزیشن میں اتحاد ہوگا؟
عراق:عراق میں 103 سالہ شہری نے خود سے 66 سال چھوٹی خاتون سے شادی کرلی، دلہن کی عمر 37 سال ہے اور وہ بھی شادی شدہ تھی۔شادی کی تقریب میں ان کے پوتوں اور پڑپوتوں نے بھی شرکت کی۔عرب میڈیا کے مطابق عراق کے جنوبی علاقے’’ کمشنری الدیوانیہ‘‘ میں اس شادی کی وجہ سے جشن کا سما تھا۔ گاؤں کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا اور روایتی گیت گائے جا رہے تھے۔ اس شادی کے انتظامات جوڑے کے پوتوں اور پڑپوتوں نے کیے تھے۔ شادی کا جشن پانچ روز تک جاری رہا جبکہ مرکزی تقریب میں قریبی رشتہ داروں اور علاقہ مکینوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
معمر شخص کے بیٹے عبدالسلام نے بتایا کہ’’ان کے والد 1919 میں پیدا ہوئے تھے۔ پہلی اہلیہ کا انتقال 1999 میں ہوا تو دوسری شادی کی جن سے بچے بھی ہوئے تاہم جھگڑوں کے باعث یہ شادی ختم ہوگی جس کے بعد والد صاحب نے تیسری شادی کی خواہش کی۔‘‘
ریاض:سعودی حکام کے مطابق رواں برس 10 لاکھ مقامی اور غیر ملکی عازمین کو حج کی اجازت ہو گی۔ کرونا وائرس پر قابو پانے کے لیے گذشتہ دو برسوں میں حج کے موقع پر عازمین کی تعداد بہت کم تھی۔ سعودی حکام نے سنیچر کے روز بتایا کہ اس سال 65 سال سے کم عمر افراد حج کر سکیں گے۔ تمام عازمین کو مملکت روانگی سے 72 گھنٹے قبل کرونا کا نیگٹیو پی سی آر ٹیسٹ ہونا پیش کرنا ہو گا۔ عازمین کے پاس سعودی وزارت صحت سے منظور شدہ ویکسین سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے۔وزارت نے کہا ہے کہ اس فیصلے کے تحت عازمین کی بڑی تعداد کو حج کی اجازت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ عازمین کی تعداد میں اضافہ ممالک کے لیے مختص کوٹے کے مطابق ہوگا جبکہ اس کے ساتھ کرونا سے بچاؤ کی تدابیر کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ برس 58 ہزار 745 افراد نے فریضہ حج ادا کیا تھا۔ کرونا کی وبا سے قبل اکثر حجاج کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر جاتی تھی۔
سورۃ الأعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ٱدۡعُوا۟ رَبَّكُمۡ تَضَرُّعࣰا وَخُفۡیَةًۚ إِنَّهُۥ لَا یُحِبُّ ٱلۡمُعۡتَدِینَ. وَلَا تُفۡسِدُوا۟ فِی ٱلۡأَرۡضِ بَعۡدَ إِصۡلَـٰحِهَا وَٱدۡعُوهُ خَوۡفࣰا وَطَمَعًاۚ إِنَّ رَحۡمَتَ ٱللَّهِ قَرِیبࣱ مِّنَ ٱلۡمُحۡسِنِینَ (سورۂ اعراف : 55،56)
اپنے رب سے دعا کرو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے. بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا. اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ کرو اور اللہ سے دعا کرتے رہو خوف اور امید کے ساتھ. یقیناً اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے قریب ہے ۔
ان دو آیات میں دعا کے پانچ آداب بتائے گئے ہیں ـ آئیے دیکھتے ہیں
1. پہلی چیز یہ ہے کہ دعا میں تضرع ہو، بندہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر مانگے. اس کے مانگنے میں عاجزی اور خاکساری ہوـ ظاہر ہے بندہ اپنے رب کا محتاج ہے، رب کی بارگاہ میں دست دعا دراز کرنا اس کی محتاجگی کی علامت ہے، لہذا اس کی دعا کے انداز میں بھی وہ محتاجگی نظر آئے، وہ اپنے رب سے گڑگڑا کر مانگےـ تذلل اور انکساری کے ساتھ مانگےـ
2. دوسری چیز یہ ہے کہ دعا خوب زور زور سے نہ مانگے، بلکہ پست آواز میں چپکے چپکے اپنے رب سے سرگوشی کرے. اسی لیے جب بعض صحابہ جب بلند آواز میں دعا کرنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : أَيُّهَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ؛ فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أصمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ لوگو! خود پر ترس کھاؤ، تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو. بیشک تم جس سے دعا کرتے ہو وہ سب کچھ سننے والا اور قریب ہے. (صحیح بخاری : 2992 صحیح مسلم: 2704)
لہٰذا چلا چلا کر بلند آواز سے دعا کرنا دعا کے آداب کے منافی ہےـ
3. دعا میں حد سے تجاوز نہ کرے. حد سے تجاوز کی سب سے خطرناک شکل یہ ہے کہ انسان غیر اللہ سے دعا کرےـ تجاوز کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایسی چیز کی دعا کرے جس کا حصول ممکن نہیں جیسے کوئی انبیاء کے مقام کو پانے کی دعا کرنے لگے. یا دعا میں بلاوجہ کا تکلف کرے ،جب کہ اسے چاہیے کہ سیدھے سادے انداز میں اپنے رب سے اپنی مراد مانگےـ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا کوئی بیٹا اس طرح دعا کر رہا تھا : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَنَعِيمَهَا وَبَهْجَتَهَا، وَكَذَا وَكَذَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَسَلَاسِلِهَا وَأَغْلَالِهَا، وَكَذَا وَكَذَا اے اللہ ! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور اس کی نعمتوں کا اور اس کی رونقوں کا اور یہ اور یہ ۔ اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم سے اور اس کی زنجیروں اور طوقوں سے اور اس کی ایسی ایسی بلاؤں سے.. حضرت سعد نے یہ سنا تو فرمایا : میرے بچے! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’ عنقریب کچھ لوگ ہوں گے جو دعا میں مبالغہ کریں گے ۔‘‘ لہذا تو خیال رکھ کہ کہیں تو ان میں سے نہ ہو جانا ۔ اگر تجھے جنت مل گئی تو اس کی تمام بھلائیاں تمہیں مل جائیں گی ۔ اور اگر جہنم سے بچ گئے تو اس کی تمام آفتوں سے بھی بچ جاؤ گے ۔ (ابوداؤد : 1480)
4. چوتھی چیز یہ ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری دعا بارگاہِ الہی میں قبول ہو تو ہم گناہوں سے بچیں، زمین میں فساد برپا نہ کریں، کیونکہ زمین میں ہر شر کے پیچھے اصل سبب اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے. چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومن تدبر أحوال العالم وجد كل صلاح في الأرض فسببه توحيد الله، وعبادته، وطاعة رسوله -صلى الله عليه وسلم- وكل شر في العالم وفتنة وبلاء وقحط وتسليط عدو وغير ذلك فسببه مخالفة الرسول -صلى الله عليه وسلم- والدعوة إلى غير الله . [مجموع الفتاوى :3/170]
یعنی جو شخص دنیا کے احوال پر غور کرے گا وہ یہ پائے گا کہ روئے زمین میں ہر بھلائی کا سبب اللہ کی توحید، اس کی عبادت، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے اور دنیا میں ہر شر، فتنہ، بلا، قحط سالی، دشمنوں کا مسلط یونا وغیرہ ان سب کا سبب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور غیر اللہ کی طرف بلانا ہےـ
5. دعا کا پانچواں ادب یہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ہم دعا کریں تو ہمیں رب کی رحمتوں کا آسرا بھی ہو اور اس کے غضب کا ڈر بھی ہوـ خوف و رجا کی یہ ملی جلی کیفیت ہی مومن کی نشانی ہےـ وہ کبھی اللہ کی رحمتوں سے اتنا ہر امید نہیں ہوتا کہ اس کے عذاب سے بے خوف ہو جائے اور اس کے عذاب سے اتنا بھی نہیں ڈرتا کہ اس کی رحمتوں سے مایوس ہو جائےـ
آیت کریمہ کے آخر میں یہ تنبیہ بھی کر دی گئی کہ گناہوں کی دنیا آباد کر کے اللہ کی رحمتوں کی امید لگانا درست نہیں. اس کی رحمت نیکی کرنے والوں کو ہی ملتی ہےـ اللہم اجعلنا منھم
نئی دہلی :عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے ایم ایل اے امانت اللہ خان کو سینے میں درد کی شکایت کے بعد ہفتہ کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق اوکھلا سے عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان کو اپولو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ جہاں انہیں کارڈیک آئی سی یو میں ڈاکٹروں کی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ اے اے پی ایم ایل اے کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔ آپ کے ایم ایل اے امانت اللہ خان اوکھلا سے لگاتار دوسری بار ایم ایل اے بنے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ دہلی وقف بورڈ کے منتخب صدر بھی ہیں۔
پٹنہ:بہار قانون ساز کونسل انتخابات کے نتائج پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے بیان کے بعد اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے کہا ہے کہ نتیش کمار کا اپنی پارٹی پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس الیکشن میں جے ڈی یودوسری پارٹیوں سے لڑی، کئی باغی بھی ہوئے، لیکن نتیش کمار ایکشن نہیں لے سکے۔ وہیں آر جے ڈی میں باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے۔ شہنشاہ اشوکا کے معاملے پر بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان سیاست پر تیجسوی یادونے کہاہے کہ اس طرح کے معاملے پر کچھ بھی بولنا درست نہیں ہے۔ بوچن اسمبلی ضمنی انتخاب میں نتیش کمار کی جیت کے دعوے پر تیجسوی یادونے کہاہے کہ بی جے پی کیا کہہ کر ووٹ مانگتی ہے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ زمین پر کوئی کام نظر نہیں آتا۔ وہاں کے لوگ آر جے ڈی کے ساتھ ہیں۔
بیکانیر:راجستھان کے چیف منسٹر اشوک گہلوت نے ہفتہ کوکہاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پولرائزیشن کرکے انتخابات جیت رہی ہے اور لوگوں کو ان کے منصوبوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔اشوک گہلوت نے کہاہے کہ ملک میں کشیدگی اور تشدد کا ماحول ہے اور آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے ریاست کے کرولی شہر میں تشدد اور آتش زنی کے لئے بی جے پی لیڈروں کو بھی نشانہ بنایا۔دو روزہ پروگرام میں یہاں پہنچے اشوک گہلوت نے نامہ نگاروں سے کہاہے کہ آج بھی ہمارے سامنے چیلنج بہت بڑا ہے۔ آج ملک میں تناؤ کا ماحول ہے، تشدد کا ماحول ہے اور اس ماحول میں ملک چل رہا ہے، آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ میں یہ بات بار بار کہتا ہوں اور جمہوریت خطرے میں ہے۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مہنگائی بہت زیادہ متاثر ہے اور بے روزگاری نوجوانوں میں غم و غصہ کا باعث بن رہی ہے۔ یہ بی جے پی والے جانتے ہیں کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے باوجود ہم پولرائزیشن کرکے الیکشن جیت سکتے ہیں۔ انہیں یہ وہم ہو گیا ہے۔ میں نوجوانوں اور لوگوں سے اپیل کروں گا کہ وہ اپنے منصوبوں کو سنجیدگی سے لیں۔انہوں نے کہاہے کہ انتخابات صرف پولرائزیشن سے جیتے جا رہے ہیں، پالیسی یا کامیابی کی بات کرنے سے نہیں۔ اشوک گہلوت نے کہاہے کہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ ان کے قول اور فعل میں فرق ہے۔ خالی پولرائزیشن کر کے الیکشن جیتتے ہیں، کب تک جیتیں گے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں۔ریاست بھر میں اس سال کے بجٹ کو موصول ہونے والے ریاستی حکومت کے استقبال کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہاہے کہ اس سے خوفزدہ ہو کر، بی جے پی نے فیصلہ کیا ہے کہ راجستھان میں کیسے آگ لگائی جائے۔ کرولی میں آگ لگنے لگی ہے۔ قائدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ وہاں کچھ کریں ورنہ ہماری حکومت نہیں بنے گی۔ یہ کہاں کی جمہوریت ہے؟قابل ذکرہے کہ کرولی میں 2 اپریل کو نو سموتسر ریلی پر کچھ شرپسندوں نے پتھراؤ کیا تھا۔ اس کے بعد فرقہ وارانہ تصادم میں کئی گاڑیوں اور دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔اشوک گہلوت نے کہاہے کہ وزیر اعظم مودی کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے پرتشدد واقعات کی تنقید کرنی چاہئے اور ایسے لوگوں کی مذمت کرنی چاہئے اور کہنا چاہئے کہ حکومت تشدد کرنے والے شخص کو برداشت نہیں کرے گی۔