انقرہ: ترکی میں یورپ اورایشیا کوملانے والے دنیا کے سب سے لمبے پل کا افتتاح کردیا گیا۔ترکی کا کیناکیلے پل 1915میں تعمیرکیا گیا تھا جسے ترکی اورجنوبی کوریا کی کمپنیوں نے دوبارہ بنایا ہے۔ترکی اورجنوبی کوریا کے وزرائے اعظم نے مشترکہ طورپرپل کا افتتاح کیا۔دنیا کے سب سے لمبے سسپینشن پل کی تعمیرپر2.8بلین ڈالرز کی لاگت آئی ہے۔کیناکیلے پل کی لمبائی 4.6 کلومیٹر ہے اوراس کی تعمیرکا کام 2017میں شروع کیا گیا تھا۔پل کی تعمیرمیں 5ہزارورکرزنے حصہ لیا۔پل کی تعمیرکے بعد اناطولیہ سے ترکی کے یورپ میں واقع علاقے گیلی پولی کا گھنٹوں پرمشتمل سفراب 6منٹ میں طے کیا جاسکے گا۔
19 مارچ, 2022
ہم بی جے پی کی بی ٹیم نہیں ہیں، این سی پی-کانگریس کے ساتھ اتحاد کے لیے تیار: امتیاز جلیل
ممبئی: شیوسینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رکن اسمبلی امتیاز جلیل کی اس تجویز کی کھل کر مخالفت کی ہے، جس میں جلیل نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی بی جے پی کی بی ٹیم نہیں ہے اور این سی پی کانگریس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ اتحاد پر سخت اعتراض کرتے ہوئے شیو سینا کے لیڈر سنجے راوت نے پھر کہاکہ بی جے پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے درمیان خفیہ اتحاد ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اے آئی ایم آئی ایم بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔ ہم اے آئی ایم آئی ایم کی تجویز کو مسترد کرتے ہیں۔ مہاراشٹر میں تین پارٹیوں کی حکومت ہے اور اس میں کوئی چوتھی نہیں آئے گی۔قبل ازیں اے آئی ایم آئی ایم ایم پی امتیاز جلیل نے این سی پی لیڈر اور مہاراشٹر حکومت میں کابینہ کے وزیر راجیش ٹوپے سے ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ ان کی پارٹی این سی پی اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے تیار ہے۔ انتخابات میں کانگریس اور این سی پی کے ووٹ کاٹنے کے معاملے پر امتیاز جلیل نے کہا کہ انہوں نے کانگریس اور این سی پی کو اتحاد کی تجویز دی ہے، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ کون کس کے ساتھ ہے۔جلیل جو اے آئی ایم آئی ایم کی مہاراشٹر یونٹ کے سربراہ ہیں،انہوں نے ہمیشہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ بی جے پی پارٹی ہماری وجہ سے جیتتی ہے۔ اس الزام کو غلط ثابت کرنے کے لیے میں نے ٹوپے کو تجویز پیش کی کہ ہم اتحاد کے لیے تیار ہیں۔ تاہم انہوںنے میری پیشکش کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
ہم تین کے درمیان چوتھا کوئی نہیں آئے گا،مہاراشٹر کے گٹھ بندھن میں شامل ہونے کی اے آئی ایم آئی ایم کی تجویز پر سنجے راوت برہم
ممبئی: شیوسینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی امتیاز جلیل کی اس تجویز کی کھل کر مخالفت کی ہے، جس میں جلیل نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی بی جے پی کی ’بی ٹیم‘ نہیں ہے اور این سی پی کانگریس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ اتحاد اس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے شیو سینا کے لیڈر سنجے راوت نے پھر کہاکہ بی جے پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے درمیان خفیہ اتحاد ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اے آئی ایم آئی ایم بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔ ہم اے آئی ایم آئی ایم کی تجویز کو مسترد کرتے ہیں۔ مہاراشٹر میں تین پارٹیوں کی حکومت ہے اور اس میں کوئی چوتھی نہیں آئے گی۔قبل ازیں اے آئی ایم آئی ایم ایم پی امتیاز جلیل نے این سی پی لیڈر اور مہاراشٹر حکومت میں کابینہ کے وزیر راجیش ٹوپے سے ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ ان کی پارٹی این سی پی اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے تیار ہے۔ انتخابات میں کانگریس اور این سی پی کے ووٹ کاٹنے کے معاملے پر امتیاز جلیل نے کہا کہ انہوں نے کانگریس اور این سی پی کو اتحاد کی تجویز دی ہے، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ کون کس کے ساتھ ہے۔جلیل جو اے آئی ایم آئی ایم کی مہاراشٹر یونٹ کے سربراہ ہیں، انہوںنے نامہ نگاروں کو بتایا کہ میری والدہ کی بیماری کی وجہ سے موت کے کچھ دن بعدوزیر ٹوپے نے مجھ سے ملاقات کی، ہمیشہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ بی جے پی پارٹی ہماری وجہ سے جیتتی ہے۔ (مسلم ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے)۔ اس الزام کو غلط ثابت کرنے کے لیے میں نے ٹوپے کو تجویز پیش کی کہ ہم اتحاد کے لیے تیار ہیں۔ تاہم انہوںنے میری پیشکش کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
چنڈی گڑھ:پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی حکومت بن چکی ہے۔ بھگونت مان نے وزیر اعلی کے عہدے کا حلف لے لیا ہے۔ حلف کے بعد اپنے اعلان کے مطابق انہوں نے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور بھگت سنگھ کی تصویریں ہر سرکاری دفتر میں لگوانے کا کام بھی شروع کر دیا ہے لیکن ان کے دفتر میں لگائی گئی بھگت سنگھ کی تصویر کو لے کر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ لوگ بھگونت مان کو گھیر رہے ہیں اور اس تصویر کی صداقت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔دراصل سی ایم بھگونت مان نے انتخابی نتائج آنے کے بعد ہی اعلان کیا تھا کہ اب بھگت سنگھ اور ڈاکٹر امبیڈکر کی تصویر ہر سرکاری دفتر میں لگائی جائے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے دفتر میں ان دونوں کی تصویر بھی لگائی لیکن ان کے دفتر میں بھگت سنگھ کی تصویر میں ان کی پگڑی پیلے رنگ (بسنتی رنگ) کی ہے۔ اس پر تنازع شروع ہو گیا ہے۔ محققین کے مطابق وزیراعلیٰ کے دفتر میں تصویر تخیل سے بنائی گئی ہے اور یہ مستند نہیں ہے۔ دہلی کے بھگت سنگھ ریسورس سینٹر سے وابستہ چمن لال کا کہنا ہے کہ بھگت سنگھ نے کبھی بسنتی یا کیسری پگڑی نہیں پہنی، یہ سب محض ایک خیالی بات ہے۔ بھگت سنگھ کی صرف 4 اصلی تصاویر ہیں۔ ایک تصویر میں وہ کھلے بالوں کے ساتھ جیل میں بیٹھے ہیں، دوسری تصویر میں وہ ٹوپی پہنے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری دو تصویروں میں بھگت سنگھ سفید پگڑی میں ہیں۔نیزہی اس تنازع پر بھگت سنگھ کے اہل خانہ نے اسے غیر ضروری قرار دیا۔ ان کی بہن امر کور کے بیٹے بھگت سنگھ کے 77 سالہ بھتیجے جگموہن سندھو کا کہنا ہے کہ یہ سارا تنازعہ غیر ضروری ہے۔ ان کی پگڑی کا رنگ کیسا ہے یہ معنی نہیں رکھتا بلکہ چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ پنجاب اور پورے ملک کے لیے ان کے نقطہ نظر کیا تھے۔
مقبوضہ بیت المقدس :ہیکرز نے سوشل نیٹ ورکس پر اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیلی موساد کے سربراہ کی اہلیہ دیدی برنیا کا فون ہیک کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور ان کی ذاتی زندگی کی تفصیلات نامعلوم ٹیلی گرام چینل پر شائع کی ہیں۔عبرانی 12 چینل نے اطلاع دی ہے کہ ہیکرز کے ایک گروپ نے برنیا کے خاندان کی شناختی تصاویر، یورپ کے سفر کے دوران ویڈیو کلپس اور انکم ٹیکس کے کاغذات شائع کیے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہیکرز نے موساد کے سربراہ کی اہلیہ کا پرانا فون ہیک کیا تھا۔چینل نے کہا کہ حملہ آوروں نے موساد کے سربراہ کے ذاتی کمپیوٹر تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن انہیں برنیا کی اہلیہ کا فون ہیک کرنے اور اس کی شرمناک تصاویر شائع کرنے کا سہرا جاتا ہے جس میں اس کے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنا اور اس کے گھر کی تصاویر بھی شامل ہیں۔جب کہ ٹیلی گرام چینل کی طرف سے اس خبر پر اسرائیلی ذرائع سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ یہ واقعہ ہیکرز کے ایک گروپ کی جانب سے درجنوں اسرائیلی سرکاری ویب سائٹس کے کام کو مفلوج کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد سامنے آیا۔
خوش رہنے والی اقوام میں فن لینڈ سرفہرست، افغانستان سب سے ناخوش ملک ،بھارت 136نمبر پر
ہیلسنکی: اقوام متحدہ کے زیر اہتمام سالانہ انڈیکس میں فن لینڈ کو مسلسل پانچویں سال دنیا کا سب سے خوش ملک قرار دیا گیا ہے اور افغانستان دنیا کا سب سے زیادہ ناخوش ملک ہے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ تازہ ترین فہرست یوکرین پر روسی حملے سے پہلے مکمل کی گئی تھی۔ بلغاریہ، رومانیہ اور سربیا کی رینکنگ میں نمایاں بہتری آئی ہے جبکہ جمعہ کو جاری ہونے والے ورلڈ ہیپی نیس ٹیبل میں لبنان، وینیزوئیلا اور افغانستان سب سے زیادہ تنزلی کا شکار ہوئے ہیں۔اقتصادی بحران سے دوچار لبنان زمبابوے سے بھی نیچے چلا گیا ہے اور 146 ممالک کی فہرست میں آخری نمبر پر موجود افغانستان سے محض ایک درجہ اوپر 145ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔پچھلے سال بھی سب سے نچلے درجے پر موجود جنگ زدہ ملک افغانستان اس سال بدترین انسانی بحران کی وجہ سے مزید تنزلی کا شکار ہو گیا ہے۔اس انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن میں بہتری آئی ہے اور خوش رہنے والے ملکوں میں پاکستان 103نمبر پر موجود ہے جبکہ بھارت اس فہرست میں 136ویں نمبر پر موجود ہے۔اس رپورٹ کے شریک مصنف جان ایمانوئل ڈی نیو نے کہا یہ انڈیکس جنگ سے متاثرین کو پہنچنے والے مادی اور غیر مادی نقصانات کی یاد دہانی کراتا ہے۔لگاتار 10ویں سال جاری ہونے والی ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ میں لوگوں کی خوشی کا پیمانہ معاشی اور سماجی ڈیٹا کو رکھا جاتا ہے، یہ تین سال کی مدت میں ڈیٹا کی اوسط کی بنیاد پر صفر سے 10 کے پیمانے پر خوشی کا اسکور مقرر کرتا ہے۔اس فہرست میں ایک مرتبہ پھر شمالی یورپ کا غلبہ رہا ہے جہاں فن لینڈ کے بعد ڈنمارک دوسرے، سوئٹزرلینڈ تیسرے، آئس لینڈ چوتھے، نیدرلینڈز پانچویں اور ناروے چھٹے نمبر پر موجود ہے۔امریکہ تین درجے بہتری کے بعد برطانیہ کو ایک درجہ پیچھے چھوڑتے ہوئے 16 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
لندن :امریکی صدر جوبائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ نے جمعے کو ویڈیو کال کے ذریعے یوکرین میں روس کی جارحیت کے معاملے پر گفتگو کی۔ وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق صدر بائیڈن نے اس گفتگو میں یوکرین کے معاملے پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا نکتہ نظر بیان کیا۔ اور اس تنازع کو جنم لینے سے روکنے اور پھر اس کا جواب دینے کی تفصیلی کوششوں کو ذکر کیا۔انہوں نے چینی صدر کو بتایا کہ اگر چین نے روس کی مدد کی تو اسے کن نتایج کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔وائٹ ہاوس کے بیان کے مطابق دونوں صدور نے رابطے کے ذرائع کھلے رکھنے کی اہمیت پر اتفاق کیا۔ چین کے ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر شی نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ایسے تنازعات کسی کے مفاد میں نہیں ہیں۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، یہ بات چیت دو گھنٹوں سے کچھ ہی دیر کم جاری رہی۔اس سے قبل، امریکہ کی نائب وزیر خارجہ، وینڈی شرمن نے امریکی ٹی وی چینل ایم ایس این بی سی کو بتایا کہ شی کو روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کو بتانا ہوگا کہ وہ یوکرین میںاپنی مرضی سے شروع کی گئی لڑائی اور قتل عام بند کریں۔انھوں نے سی این این کو بتایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ چین یہ یقینی بنائے کہ وہ مالی یا کسی اور اعتبار سے کسی ایسے گڑھے میں نہ جا گرے، جس طرح کی پابندیاں روس جھیل رہا ہے۔چینی میڈیا کے مطابق، شی نے بائیڈن سے کہا کہ یوکرین کی طرح کے تنازعات اور محاذ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ شی نے کہا کہ ایک ملک کے دوسرے ملک سے تعلقات محاذ آرائی کی سطح تک نہیں پہنچنے چاہئیں، چونکہ تنازعات اور محاذ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں ہوا کرتے۔اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ بائیڈن شی پریہ بات واضح کریں گے کہ اگر چین روسی جارحیت کی حمایت کرتا ہے تو اسے خمیازہ بھگتنا ہوگا، اور یہ کہ امریکہ چین پر پابندیاں عائد کرنے میں دیر نہیں لگائے گا۔
ترجمہ:نایاب حسن
کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعے طالبات کے حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ آنے سے دو دن پہلے ہندوستان کے چیف جسٹس ایک نئے آربٹریشن سینٹر کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کے لیے حیدرآباد میں تھے۔ تقریب کی تصاویر جن میں ہندو پجاری مذہبی رسوم ادا کر رہے ہیں، وہ ہماری سیکولر زندگی میں مذہب کے وسیع کردار کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے فیصلہ دیا کہ ’مسلم خواتین کا حجاب پہننا اسلامی عقیدے کے مطابق لازمی مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔‘
یہ بیان بہت سی طالبات کو درپیش زمینی حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے۔ مصنفہ اور تاریخ نگار رعنا صفوی کا کہنا ہے کہ مسلم بچے، خاص طور پر مسلم لڑکیاں”اپنے مذہبی طور طریقوں کی حفاظت میں” اسکول جانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’آئیڈیلی پردہ نہیں ہونا چاہیے؛ لیکن والدین اور لڑکیوں کا ماننا ہے کہ یہ ان کے مذہب کا حصہ ہے۔‘ لہذا اگر کوئی لڑکی سر پر اسکارف ڈال کر اسکول جانا چاہتی ہے، تو یہ اس کی مرضی ہے۔
فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے؛ لیکن کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد دو طرح کے رد عمل کا خطرہ ہے اور دونوں کے ثبوت پہلے سے موجود ہیں۔
پہلا: عوامی مقامات پر حجاب پوش مسلم خواتین پر حملے عام ہوں گے۔ ابھی 16 مارچ کو اس کا ایک نمونہ سامنے آیا ہے، ممبئی میں مقیم ایک ڈینٹسٹ نے ٹویٹ کیا کہ اس کی حجاب پوش بیوی لوکل ٹرین میں اپنے ہاتھوں میں ایک بچے کولیے کھڑی تھی ، جب اسے ایک شخص نے سیٹ کی پیش کش کی اور خود کھڑا ہوگیا، تو دوسرے مسافروں کا اصرار تھا کہ اس حجاب پوش خاتون کی بجاے کسی اور عورت کو وہ سیٹ ملنی چاہیے۔
دوسرا ردعمل: بڑی تعداد میں خواتین حجاب کو اپنائیں گی اور اپنا رہی ہیں، جو بڑھتی ہوئی اسلامو فوبیا اور اکثریت پرستی کے خلاف ان کی مزاحمت کی علامت ہے۔
ایک ایسے وقت میں، جب مسلمان خود کو روز بہ روز انتہا پسند دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی ہندوتوا تحریک کے ہاتھوں ستائے ہوئے محسوس کرتے ہیں، ان لڑکیوں کو حاشیے پر دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے،جن کے پاس مزاحمت کا واحد راستہ یہی بچے گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ حجاب اختیار کریں ،اسی طرح خواتین کی آزادی کا مقدمہ کمزور ہوگا، نیز اس فیصلے کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنے مذہب اور شناخت کی ظاہری علامتوں کو اپنانے کی طرف بڑھیں گے، جنھیں وہ خطرے میں دیکھ رہے ہیں۔
129 صفحات پر مشتمل فیصلہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسلم لڑکیوں کی ’برین واشنگ‘ کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ بلند بانگ الفاظ میں ’آزادی اور خصوصاً تعلیم تک رسائی کی سمت میں ایک قدم آگے‘ کی بات کرتا ہے۔ اس میں غیر ضروری طورپر پردے کی تاریخ کو چھیڑا گیا ہے اور حجاب سے متعلق گاڑھے گاڑھے علمی مضامین کے حوالے دیے گئے ہیں؛ لیکن طالبات کو برقعے اور اسکارف اتارنے پر مجبور کیے جانے والی اشتعال انگیز ویڈیوز کے بارے میں یہ فیصلہ کلیتاً خاموش ہے، جو بلا شبہ عوامی طورپر خواتین کی عزت اچھالنے جیسا عمل ہے۔
اس فیصلے میں ان لڑکیوں کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ نہیں کہا گیا،جن پر اسکول،کالجوں کے دروازے بند کردیے گئے یا جنھیں بھگوائی غنڈوں نے روکنے اور ہراساں کرنے کی کوشش کی اور ایک اکیلی لڑکی کو کلاس روم سے روکنے کے لیے اس کے سامنے اشتعال انگیز نعرے لگاتے رہے۔
اگر صرف اسکارف کی وجہ سے امن عامہ میں خلل پڑ سکتا ہے، تو اس کا ذمے دار کون ہے، اسے پہننے والی طالبہ یا قانون نافذ کرنے والے ادارے، جن کا کام ہی یہ ہے کہ وہ امنِ عامہ کو برقرار رکھیں ؟ بدقسمتی سے کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ اس اہم سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا۔
(اصل مضمون آج کے روزنامہ ’ہندوستان ٹائمس‘ میں شائع ہوا ہے)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
2002ء میں روم یونی ورسٹی کی اسکالر میرین کرلٹزکی نے اس موضوع پر ایک تحقیقی مضمون شائع کیا۔ اسی کا خلاصہ پیش ہے:
طیب جی کنبہ کے بانی، بھوئیمی طیب علی اٹھارہویں صدی کے دوسرے نصف میں گجرات کے کیمبے سے بمبئ ہجرت کر گئے۔ یہ اسماعیلی شیعہ مسلک کے سلیمانی بوہرہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ بہت پہلے ہندو سے مسلمان ہوئے تھے، اور گجراتی بولتے تھے۔ پارسی اور یورپی تاجروں کے ساتھ تجارت کے نتیجے میں انیسویں صدی کے نصف اوّل میں یہ کنبہ کافی امیر ہو گیا۔1859ء کے بعد اس کنبے نے اچانک اردو کو اپنی زبان اختیار کرنے کا ایک واضح اور شعوری فیصلہ لیا۔ ممکن ہے کہ یہ فیصلہ انہوں نے اس لئے لیا ہو کہ شمالی ہند میں یہی زبان ان کی تجارت میں معاون رہی ہوگی یا شمالی ہند کے مسلمانوں کے درمیان رتبہ اور وقار پانے کا ذریعہ رہی ہوگی۔ یہ وہ دور تھا جب پرنٹنگ ٹکنالوجی کا عروج ہو رہا تھا اور اردو میں رسائل و جرائد کی معرفت شمالی ہند کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے اور جدید کاری کا کام شروع ہو رہا تھا۔
بدرالدین طیب جی (1844-1906) اور قمرالدین طیب جی (1836-1889) دونوں بھائی قانون کی اعلی ڈگری حاصل کر چکے تھے اور سیاسی و سماجی اصلاح کا کام شروع کر چکے تھے۔ بمبئی میں انجمن اسلام کی بنیاد ڈالی جا چکی تھی۔ وہ لوگ اردو کو مسلمانوں کے اتحاد اور مسلمانوں کا راہ نما بننے کے لئے لازمی سمجھتے تھے۔ شمالی ہند کے کوئی خان بہادر حیدر قاسم نے ٹائمس آف انڈیا میں خط لکھ کر طیب جی کے تئیں حقارت کا اظہار کیا تھا۔ ان کی خاندانی ڈائری (جسے وہ لوگ ‘اخبار’ کہتے تھے) میں سنہ 1865ء میں ایک اندراج ہے جس میں اپنے کنبے کو دہلی اور لکھنؤ والی معیاری اردو بولنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اس زبان کو ‘ہندوستانی’ کہا ہے۔ 1882ء کی ایجوکیشن کمیشن کے سامنے یہ بیان دیا تھا کہ مسلمانوں کو اردو میڈیم اسکولوں کی معرفت انگریزی زبان سے واقف کرایا جائے۔
1876ء میں طیب جی کی انجمن اسلام نے جو اسکول قائم کئے وہ اردو میڈیم ہی تھے۔ تب تک اردو ناگری قضیہ اپنے عروج پر آچکا تھا۔ 1859ء کے بعد اس کنبے کے صرف ایک فرد حرمت طیب علی کی ماں نے اردو نہیں اپنایا تھا اور سلیمہ طیب جی کا ایک خط (بنام ان کے شوہر، فیض طیب جی، بتاریخ 26 نومبر 1900ء) گجراتی میں ہے۔ طیب علی نے خود ایک کتاب گجراتی میں لکھی تھی، لیکن اس کا رسم خط عربی ہے۔ سلیمانی بوہرہ آپس میں گجراتی ہی بولتے تھے، لیکن جلد ہی وہ لوگ اردو اپنا چکے تھے۔ سماجی سرگرمیوں اور رتبے کے لئے انگریزی ضروری تھی ، اس لئے ان لوگوں نے یہ زبان بھی خوب سیکھی۔ سلیمہ طیب جی جب 1937ء میں کونسل کی ممبر ہو گئی تھیں، تب تک ان کی انگریزی کافی بہتر ہو چکی تھی۔
بدرالدین طیب جی کے انتقال کے بعد عباس طیب جی (1854-1936) ہی اہم فرد تھے۔ گیارہ سال تک انگلینڈ میں رہ کر یہ خاصے فرنگی ہو چکے تھے۔ جلیان والا باغ حادثے کے بعد وہ گاندھی جی کے خاص معتقد بن گئے۔ عباس طیب جی نے یوں تو اپنی جیل ڈائری (1930ء) انگریزی میں لکھی اور انگریزی اخبار ہی پڑھتے رہے، لیکن نجی خطوط میں وہ اردو کو انگریزی کے مقابلے برتر زبان گردانتے تھے۔ ان کی بیگم امینہ طیب جی بھی کچھ اس طرح کی باتیں اپنے خطوط میں لکھتی ہیں۔ امینہ نے ایک خط میں انگریزی کو کافروں کی وحشی زبان کہا ہے اور اردو کو انگریزوں سے ملک کی آزادی،سوراج حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ قید کے زمانے میں عباس طیب جی نے شبلی کی سیرت النبی کا ہندی ترجمہ بھی کیا۔ ان کی بیٹی ریحانہ طیب جی (1900-1975) نے ہندی سیکھی اور دونوں باپ بیٹی نے گاندھی جی کو اردو سکھایا۔ (یہ معروف تاریخ داں عرفان حبیب کی خالہ تھیں)۔ ریحانہ نے رام اور کرشن پر کتابیں بھی لکھیں، جن کا جرمن ترجمہ بھی دستیاب ہے۔
اس کنبے کی ایک شاخ اکبر حیدری (وزیر اعظم، ریاست حیدر آباد) سے تعلق رکھتی ہے، اور ان کے ازدواجی رشتے بلگرامی کنبے سے قائم ہوئے۔ اس طرح یہ شاخ اردو سے منسلک ہوگئی۔ حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس کا 1915ء میں جو افتتاحی جلسہ ہوا، اس کی صدارت، اکبر حیدری نے ہی کی۔ اس کا مقصد تھا اردو یونیورسٹی قائم کرنا۔ ان خواص کے درمیان اردو کو انگریزی سے کم تر نہ سمجھا جانا لازمی تھا۔ اسی لئے رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی عثمانیہ یونی ورسٹی کے قیام کو، برطانوی راج سے روحانی decolonization کا ذریعہ قرار دیا۔
ان کے بعد ایک اہم فرد اس کنبے کی عطیہ فیضی (1876-1967) تھیں جو اردو جریدہ تہذیب نسواں میں بھی مضامین لکھتی رہتی تھیں۔ اپنا سفر نامۂ یورپ بھی اسی جریدہ میں شائع کیا۔ عطیہ کی دوستی اقبال سے تھی اور شمالی ہند کے اردو خواص سے ربط قائم رہا۔
تقسیم کے بعد طیب جی کنبہ کا بھارت میں بچا ہوا حصہ رفتہ رفتہ اردو سے دور ہوتا چلا گیا۔ عباس طیب جی کے پوتا حسین بدرالدین طیب جی، آئی سی ایس (وائس چانسلر، علی گڑھ یونی ورسٹی) نے اپنی آپ بیتی میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ بڑودہ اور بمبئی میں بسے اس کنبے کے افراد اب انگریزی زبان تک ہی محدود ہیں۔ گجراتی، مراٹھی، اردو، ہندی، وغیرہ سے بھی تعلق برائے نام ہی ہے۔ یہاں تک کہ اب تو انجمن اسلام سے بھی اس کنبے کا تعلق تقریباً منقطع ہو چکا ہے۔ حسین بدرالدین طیب جی نے تو 1977ء میں شائع اپنے ایک مضمون میں اردو کی تقریباً مخالفت کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلم سیاسی لیڈرشپ نے سیاسی مفاد میں اردو کو مذہبی رتبہ دلا دیا ہے۔ حالاں کہ اسی کنبے کے، شمالی ہند میں بسے دانیال لطیفی (1917-2000،جو کہ کمیونسٹ بھی تھے) نے اپنے ایک مضمون (ای پی ڈبلیو، 29 مئی 1999) میں اردو کی پرزور حمایت کی ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ طیب جی کنبے کی بمبئی میں بسی آبادی میں سے بیش تر نے سینٹ زیوئرس کالج، بمبئی اور برطانیہ سے تعلیم حاصل کی۔ اردو سیکھنے کے لئے ابتدائی سطح کی ہی تعلیم حاصل کی، وہ بھی انجمن اسلام کے اسکولوں سے نہیں۔
بہ حیثیت مجموعی تجارتی، پیشہ وارانہ، سیاسی و دیگر پبلک سرگرمیوں اور مفادات کے لئے اردو کا استعمال کیا۔ آزادی کے بعد اس کنبے کے جو لوگ شمالی ہند اور حیدرآباد میں تھے، انہوں نے تو اردو سے رجوع کیا، ورنہ اردو کو تقریباً ترک ہی کر دیا۔
بیرون ملک بڑھتے ہوئے کووڈ کے درمیان مرکز کا ریاستوں کو خط، 5 نکاتی حکمت عملی اپنا کر تیزی سے نگرانی کریں
نئی دہلی: جنوب مشرقی ایشیاء اور یورپ کے کچھ حصوں میں کورونا وائرس کے دوبارہ پھیلائو کا حوالہ دیتے ہوئے مرکزی حکومت نے ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ انفلوئنزا جیسی بیماری اور سانس کے شدید انفیکشن کے لیے نگرانی دوبارہ شروع کریں تاکہ کوئی بھی انفیکشن نہ پھیل سکے۔انفلوئنزا جیسی بیماری (ILI) اور شدید سانس کے انفیکشن (SARI) کے معاملات کی تحقیقات حکومت کے لیے کووڈ مینجمنٹ کے ستون رہے ہیں۔ تاہم اس کی تحقیقات کو حال ہی میں روک دیا گیا تھا، کیونکہ ہندوستان میں کووڈ-19 کے کیسز کم ہو رہے ہیں۔ بہتر نگرانی کے حصے کے طور پر، ILI اور SARI میں مبتلا اسپتال میں داخل مریضوں کی کووڈٹیسٹنگ کی جائے گی ۔مرکزی صحت کے سکریٹری راجیش بھوشن نے ایک خط میں تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے کہا ہے کہ کووڈ کی شکلوں کا بروقت پتہ لگانے کے لیے INSACOG نیٹ ورک کو کافی تعداد میں نمونے جمع کرائے جائیں۔ اپنے خط میں مرکزی صحت سکریٹری نے ریاستوں کو جانچ، ٹریکنگ، علاج، ویکسی نیشن اور کووڈ پروٹوکول پر عمل کرنے کے لیے پانچ نکاتی ہدایات دی ہیں۔انہوں نے پروٹوکول کے مطابق تحقیقات جاری رکھنے، تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے اور معاشی اور سماجی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرتے ہوئے بیداری پر بھی زور دیا۔ بھوشن نے خط میں کہا کہ اگر کیسوں کے نئے کلسٹر سامنے آرہے ہیں تو موثر نگرانی کی جانی چاہئے اور ILI اور SARI کیسوں کی جانچ پڑتال اور نگرانی قواعد کے مطابق کی جانی چاہئے تاکہ کسی بھی قسم کی ابتدائی علامات کو نظر انداز نہ کیا جائے اور کووڈ کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ انفیکشن کنٹرول میں رہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی مشینری ضروری بیداری پیدا کرے اور کووڈ مناسب طرز عمل کی پابندی کو یقینی بنائے۔
کشمیر فائلز پر سینئر اداکار نانا پاٹیکر کا ردِعمل ،کہا-معاشرے میں تفریق پیدا کرنا درست نہیں
پونے: بالی ووڈ کے سینئر اداکار نانا پاٹیکر نے کہا کہ ہندوستان ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا ملک ہے اور معاشرے میں تقسیم اور امتیاز درست نہیں ہے۔ نانا پاٹیکر نے یہ بات یہاں ایک تقریب کے موقع پر فلم دی کشمیر فائلز کے بارے میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہی۔1990 کی دہائی میں وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے اخراج کے معاملے سے متعلق فلم دی کشمیر فائلز پر ہونے والی بحث کے بارے میں پوچھے جانے پر اداکار نے کہا کہ یہ ملک ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا ہے اور ان کے لیے ایک ساتھ رہنا اور جینا ضروری ہے ،اگر دو برادریوں میں تقسیم ہو تو یہ اچھی بات نہیں۔تاہم پاٹیکر نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ابھی تک فلم نہیں دیکھی ہے اور وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکیں گے۔ لیکن کسی فلم پر تنازعہ کھڑا کرنا اچھی بات نہیں۔
نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کو کہا کہ میڈیا لوگوں کی زندگیوں کو بدلنے میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے سوچھ بھارت مشن، یوگا، صحت اور’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ جیسے حکومت کے اہم اقدامات کو فروغ دینے میں چوتھے ستون کے تعاون کی تعریف کی۔ آن لائن میڈیم کے ذریعہ معروف ملیالم روزنامہ ’متھرو بھومی‘ کی صد سالہ تقریبات کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہاکہ میں نے دیکھا ہے کہ میڈیا کا مثبت اثر ہو سکتا ہے۔ سوچھ بھارت مشن کی مثال سب کو معلوم ہے۔ ہر میڈیا ہاؤس نے اس مشن کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا نے یوگا، صحت اور ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ جیسے اقدامات کو مقبول بنانے میں بہت حوصلہ افزا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سیاست اور سیاسی جماعتوں کے دائرہ سے باہر کے موضوعات ہیں۔ مودی نے کہاکہ یہ اقدامات آنے والے سالوں میں ایک بہتر قوم کی تعمیر کے بارے میں ہیں۔ کیرالہ کے وزیر اعلی پنارائی وجین نے بھی آن لائن پروگرام میں حصہ لیا۔ ان کے علاوہ مرکزی وزیر وی مرلی دھرن اور ریاستی وزیر سیاحت پی اے محمد ریاض سمیت معززین نے اس میں شرکت کی۔نیز پی ایم مودی نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں UPI لین دین میں 70 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ مثبت تبدیلیوں کو اپنانے کے لیے لوگوں کی بے تابی کو ظاہر کرتا ہے۔ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ آج کے دور میں دنیا کو ہندوستان سے بہت سی توقعات ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جب کوویڈ 19 وبائی بیماری آئی تو یہ قیاس کیا گیا تھا کہ ہندوستان معاملات کو اچھی طرح سے نہیں سنبھال پائے گا، لیکن ہندوستان کے لوگوں نے ان ناقدین کو غلط ثابت کر دیا۔
موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ ازدواجی زندگی میں خوش گواری باقی نہیں رہ گئی ہےـ نکاح کے کچھ ہی دنوں کے بعد شکایات پیدا ہونے لگتی ہے ، تنازعات شروع ہوجاتے ہیں ، زوجین میں سے ہر ایک کو اپنے حقوق نہ ملنے کا شکوہ رہتا ہے ، لیکن اپنے فرائض پر نظر نہیں رہتی ، چنانچہ دلوں کی دوریاں بڑھتی رہتی ہیں ، یہاں تک کہ علیٰحدگی کی نوبت آجاتی ہے ـ حدیث میں آیا ہے کہ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ زوجین میں علیٰحدگی ہوجائے اور خاندان کا شیرازہ منتشر ہوجائے ـ (مسلم :2813) ضرورت ہے کہ اس سماجی کم زوری کی اصلاح کی کوشش کی جائے ، زوجین کو ایک دوسرے کے حقوق بتائے جائیں ، ان تدبیروں کی نشان دہی کی جائے جن سے ازدواجی زندگی میں خوش گواری آتی ہے اور ان اسباب کی وضاحت کی جائے جو زوجین اور دوسرے رشتے داروں کے درمیان تنازعات کا باعث بنتے ہیں ـ زیرِ نظر کتاب اس ضرورت کو بہ خوبی پوری کرتی ہےـ
اس کتاب کے مصنف مولانا بدر الدجی قاسمی صدر تنظیم علمائے اہل سنت و الجماعت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے دار القضاء گوونڈی ممبئی کے قاضی ہیں _ وہ عرصہ سے قضا کی خدمت بہ حسن و خوبی انجام دے رہے ہیں ـ شب و روز ان کے پاس ازدواجی تنازعات آتے رہتے ہیں ـ انہیں تجربہ ہے کہ ان تنازعات کے کیا اسباب ہوتے ہیں؟ انھوں نے بہت سے مسائل کو کام یابی کے ساتھ حل کیا ہے _ اپنے تجربات کا نچوڑ انھوں نے اس کتاب میں پیش کردیا ہےـ
اس کتاب کے آغاز میں نکاح کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ـ پھر بتایا گیا ہے کہ رشتوں کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ اس کے بعد تفصیل سے خوش گوار زندگی گزارنے کے اصول ذکر کیے گئے ہیں ـ شوہر پر بیوی کے حقوق اور بیوی پر شوہر کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ـ اس کے بعد زوجین کے رشتوں میں بگاڑ کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہےـ آخر میں بتایا گیا ہے کہ اگر زوجین میں اختلاف ہوجائے تو کیا کیا جائے؟ اس ضمن میں دار القضاء اور تنظیم علمائے اہل سنت و الجماعت کا تعارف کرایا گیا ہےـ
ازدواجی اختلافات کو دور کرنے کے لیے آج کل کونسلنگ پر بہت زور دیا جانے لگا ہے اور جا بجا کونسلنگ سینٹرس قائم کیے جارہے ہیں ـ یہ کتاب جہاں شادی شدہ جوڑوں کے لیے مفید ہے وہیں کونسلنگ کرنے والے بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ـ کتاب پر نظر ثانی کی خدمت مفتی حبیب الرحمٰن ندوی ، رفیق علمی شعبۂ تحقیق ادارہ دینیات ممبئی نے انجام دی ہے ـ میں انہیں اور مؤلف گرامی کو اس علمی خدمت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کا اچھا بدلہ عطا فرمائے، آمین ـ
ملنے کا پتہ : دار القضاء، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، گوونڈی، ممبئی
ای میل :
[email protected]
موبائل :9819619781
نئی دہلی :ہندوستان نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کو بتایا کہ اس نے یوکرین اور اس کے پڑوسیوں کو 90ٹن سے زیادہ انسانی بنیاد پر امداد پہلے ہی بھیج دی ہے ،جس میں دوائیں اور ضروری راحتی سامان شامل ہے۔ساتھ ہی اس طرح کی سپلائی کو جاری رکھا جائے گا۔اقوام متحدہ میں ہندستان کے مستقل نمائندے ٹی ایس ترومورتی نے جمعرات کو یو این ایس سی سے خطاب کرتے ہوئے جنگ سے متاثرہ یوکرین میں خراب ہوتی سلامتی صورتحال اور خراب ہوتے انسانی حالات کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔ہندوستان نے جنگ کو فوری طورپر ختم کرنے او ر بات چیت اور سفارتی راستے پر واپس آنے کی اپیل دہراتے ہوئے کہاکہ اس سے یوکرین سے تقریباً 22,500 ہندستانیوں کی بحفاظت واپسی یقینی بنائی گئی ہے اور اس عمل میں 18دیگر ممالک کے شہریوں کو وہاں سے نکالنے میں مدد کی ہے۔انہوں نے کہاکہ یوکرین میں انسانی صورتحال ابتر ہے۔انہوں نے کہاکہ متاثرہ آبادی کو انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی فوری طورپر ضرورت ہے۔اس سلسلہ میں ہم اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں کی پہل کی حمایت کرتے ہیں جنہوں نے کم از کم وقت میں جو بھی ممکن ہوسکا اسے کیا ہے۔انہوں نے ہندستانی شہریوں کوبحفاظت نکالنے کے عمل میں مدد کرنے کیلئے یوکرین اوراس کے پڑوسیوں کاشکریہ بھی ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر مسرور علی قریشی نے حج کمیٹی آف انڈیا کے ڈپٹی چیف ایکزیکٹیو آفیسر کا عہدہ سنبھالا
ممبئی: 17 مارچ کو ڈاکٹر مسرور علی قریشی نے حج کمیٹی آف انڈیا کے ڈپٹی چیف ایکزیکٹیو آفیسر کی حیثیت سے اپنی ڈیوٹی جوائن کرلی ہے ،عہدےکا چارج لینے کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ مفوضہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔جب وہ چارج لینے کے لیے حج کمیٹی کے دفتر پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے گلدستہ پیش کرکے ان کا استقبال کیا،اس موقع پر حج کمیٹی کے ملازمین نے آپس میں مٹھائیاں تقسیم کرکے ڈاکٹر مسرور علی قریشی کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا،ڈاکٹر مسرور علی قریشی ڈیوٹی جوائن کرنے کے بعد بہت سرگرم نظر آئے انہوں نے دفتر کے لوگوں سے مل کر وہاں کے کاموں اور مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی اور کہا کہ ہم سب کو مل کر ایک ٹیم کی صورت میں کام کرنا ہوگا۔واضح رہے کہ وزارت اقلیتی امور حکومت ہند نے ڈاکٹر مسرور علی قریشی کو حج کمیٹی آف انڈیا کے انتظامی معاملات کا ڈپٹی چیف ایکزیکٹیو آفیسر مقرر کیا ہے ،ساتھ ہی انہیں ممبئی پولیس کا آنریری کنسلٹنٹ فزیشن بھی بنایا گیاہے ۔اس خبر سے علیگ برادری و طبی حلقہ میں خوشی کا ماحول ہے اور بڑی تعداد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور سی سی آر یو ایم سے جڑے لوگوں نے ڈاکٹر مسرور علی قریشی کی تقرری پر اظہار مسرت کرتے ہوئے مبارکباد پیش کی ہے ۔ڈاکٹر مسرور علی قریشی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اجمل خاں طبیہ کالج کے فارغ التحصیل ہیں اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ،گزشتہ پچیس برس سے وہ وزارتِ آیوش کے ادارہ سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن میں ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔
حج کمیٹی آف انڈیا میں بطور ڈپٹی چیف ایکزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر مسرور علی قریشی کی تقرری سے امید کی جارہی ہے کہ حاجیوں کو بہتر سہولیات مل سکیں گی اور یہ بھی توقع کی جارہی ہے حج کے موقع پر حکومت ہند کی طرف سے ڈاکٹرز کا جو وفد بھیجا جاتا ہے اس میں یونانی طبیبوں کو بھی خدمت کا موقع فراہم ہوگا ۔طبی تنظیموں کی طرف سے ایک عرصے سے یہ مطالبہ رہا ہے،امید ہے ڈاکٹر مسرور علی قریشی کے توسط سے یونانی طبیبوں کا یہ دیرینہ مطالبہ پورا ہوسکے گا ۔
مغربی تہذیب جو اخلاق ، شرافت اور حیا سے بالکل آزاد ہو چکی ہے ، وہ بجائے اپنی بے حیائی پر شرمسار ہونے کے مشرقی اور مذہبی اقدار و روایات کو ہی نشانہ بنا رہی ہے ، جیسے پاگل خانہ میں ایک صحت مند آدمی پہنچ جائے ، تو وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگے گا اور سارے پاگل سمجھیں گے کہ یہی شخص بیمار ہے ، اسی طرح بے حیائی کے غلبہ کی اس فضا میں جو لوگ شرم و حیا اور مذہبی اور اخلاقی قدروں کی بات کرتے ہیں وہ اجنبیِ شہر نظر آنے لگتے ہیں ؛ لیکن اس سے سچائی بدل نہیں سکتی ، حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے لیے پردہ فطرت کی آواز ہے ، یہ مہذب معاشرہ کی علامت ہے ، یہ مذاہب کی مشترکہ تعلیمات کا حصہ ہے اور خود ہندو روایات خواتین کے لیے پردہ کی قائل رہی ہیں ، یہ عورتوں کی تحقیر یا اُن کی اہانت نہیں ہے اور نہ یہ تعلیم و ترقی میں رکاوٹ ہے ۔
خدا کا نظام یہ ہے کہ جو چیز اہم بھی ہوتی ہے اور نازک بھی ، اسے حفاظتی حصار میں رکھا جاتا ہے ، انسان کے ہاتھ پاؤں پر کوئی حصار نہیں رکھا گیا ، لیکن دماغ کو سخت ہڈیوں والی کھوپڑی کے اندر رکھا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اس کا تحفظ ہو سکے ، دل کی جگہ سینہ کی لچک دار ہڈیوں کے بیچ رکھی گئی ؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی حفاظت ہو سکے ، آنکھوں پر پلکوں کا پہرا بیٹھا یا گیا ، یہ ان اعضاء کی تحقیر ہے یا ان کی حفاظت ؛ بلکہ ان کا اعزاز ؟ نباتات ہی کو دیکھئے ، اگر آم پر دبیز چھلکوں کا لباس نہ ہوتا ، تو کیا مکھیوں اور بھڑوں سے بچ کر وہ انسانوں کے ہاتھ آسکتا ؟ اگر چاول اور گیہوں کے دانوں پر ان کی حفاظت کے لیے چھلکے نہ ہوتے ، تو انسان انہیں اپنی خوراک بنا بھی سکتا؟ خود انسانی معاشرہ میں دیکھئے ملک کا ایک عام شہری کھلے عام ہر جگہ آمد و رفت کرتا ہے ، نہ اس کے ساتھ سیکورٹی گارڈ ہے ، نہ اس کی رہائش گاہ پر پہرہ دار ہیں ۔
مردوں اور عورتوں میں عورتیں حفاظت کی زیادہ محتاج ہیں ، خدا نے ان کو مردوں کے لیے وجہ کشش بنایا ہے ، اسی لیے ان کی تراش و خراش میں حسن کاری اور لطافت کو قدم قدم پر ملحوظ رکھا گیا ہے ، اور لطافت ’’ نزاکت ‘‘ کو چاہتی ہیں ؛اسی لیے بھینس اور بیل تو لطافت سے خالی ہیں ، مگر خدا نے ہرن کو نازک اندام اور سبک خرام بنایا ہے ، عورتوں کے اس تخلیقی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے وہ حفاظت کی زیادہ محتاج ہوتی ہیں ، اگر کسی کا لڑکا شہر جائے ، اسے چار بجے شام کو آجانا چاہیے تھا ؛ لیکن وہ رات کے دس بجے لوٹے ، تو اس سے گھبراہٹ نہیں پیدا ہوتی ؛ لیکن اگر یہی واقعہ کسی لڑکی کے ساتھ پیش آئے ، تو دل کا قرار چھِن جاتا ہے ، اور ماں باپ کی کروٹیں بے سکون ہو جاتی ہیں ، اسی کو دیکھئے کہ پوری دنیا میں اور ہندوستان میں بھی مردوں اور عورتوں کے عددی تناسب میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے ، خدا نے ان دونوں صنفوں کو ایک توازن کے ساتھ پیدا فرمایا ہے ؛ تاکہ دونوں طبقات کی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور پوری دنیا میں سو سال سے زیادہ عرصہ سے جمہوریت سکۂ رائج الوقت بنی ہوئی ہے ، جس کا ایک نعرہ عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دینا بھی ہے ؛ لیکن اس کے باوجود آج بھی عورتیں حقوق مانگتی ہیں اور مرد انہیں حقوق و اختیارات دیتے ہیں ، یہ فرق کیوں ہے ؟ کیوں امریکہ و روس میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی اور یورپ میں مارگریٹ تھیچر کے علاوہ کوئی خاتون وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر نہیں پہنچ سکی ؟، یہ ظلم و حق تلفی کا معاملہ نہیں ہے ؛ بلکہ یہ قانونِ فطرت کا فیصلہ ہے ، قدرت نے خود دونوں کی صلاحیتوں میں فرق رکھا ہے اور صلاحیتوں کے لحاظ سے دائرۂ کار متعین کیا ہے ۔
پردہ بھی اسی فرق کا ایک حصہ ہے ، جانور بھی کھاتے پیتے ہیں ، اور شہوانی جذبات رکھتے ہیں ؛ لیکن ان کی فطرت لباس کے تصور سے عاری ہے ، انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عریانیت سے بچائے اور لباس زیب تن کرے ، وہی فطرت اس بات کا بھی مطالبہ کرتی ہے کہ مردوں کے مقابلہ عورتیں زیادہ ڈھکی چھپی ہوں ، فرض کیجئے دو لڑکیاں راستہ سے گذر رہی ہیں ، ایک لڑکی کا لباس چست اور شوخ ہو ، اس کا سر کھلا ہو ، اس کے بازو کھلے ہوں ، اس کا پیٹ نگاہِ ہوس کو دعوت نظارہ دیتا ہو اور اس کا کسا ہوا لباس جسم کے نشیب و فراز کو نمایاں کرتا ہو ، دوسری لڑکی سر تا پا نقاب میں ہو یا کم سے کم ڈھیلا ڈھالا لباس اور سر پر دو پٹہ ہو ، تو اوباش قسم کے لڑکے ان میں سے کس کو چھیڑنے کی کوشش کریں گے ، ہوس ناک نگاہوں کا تیرکس کی طرف متوجہ ہوگا ، برائی کے جذبات ان میں سے کس کے تیئں دلوں میں کروٹ لیں گے ؟ یقینا بے پردہ لڑکی اس کا نشانہ بنے گی ، کچھ سالوں پہلے جب دہلی میں لڑکیوں کو چھیڑنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی کثرت ہوگئی تو پولیس کمشنر نے ہدایت جاری کی کہ لڑکیاں چست اور نیم عریاں لباس پہن کر بازاروں اورتعلیم گاہوں میں نہ جائیں ؛ کیوں کہ اس سے جرم کی تحریک پیدا ہوتی ہے ، مگر افسوس کہ حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے اس معقول تجویز کے خلاف ایسا شور برپا کیا کہ تجویز واپس لینی پڑی ۔
پردہ کے بارے میں اسلامی تعلیمات تو نہایت واضح ہیں ہی ، قرآن مجید نے عورتوں کو پورے جسم کے علاوہ چہرہ پر بھی گھونگھٹ ڈالنے کا حکم دیا ہے ، ( الأحزاب : ۵۹) خواتین کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پیچھے کی صف رکھی اور یہ بھی فرمایا کہ ان کا مسجد میں نماز پڑھنے سے گھر میں نماز ادا کرنا بہتر ہے ، ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۵۷۰، ۶۷۸) ان سے بنیادی طور پر ایسی ذمہ داریاں متعلق کی گئیں جو اندرون خانہ کی ہیں ، اور انہیں شمعِ محفل بننے کے بجائے گھر کی ملکہ بنایا گیا ؛ لیکن اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب میں بھی پردہ کا تصور رہا ہے ،بائبل میں کئی خواتین کا ذکر ملتا ہے جو کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھیں ؛ بلکہ بعض وہ ہیں جو پردے کی وجہ سے پہچانی نہیں گئیں ، آج بھی چرچوں میں حضرت مریم علیہا الصلاۃ و السلام کا جو فرضی مجسمہ بنایا جاتا ہے ، اس میں چہرے کے علاوہ پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے ، حالانکہ رومن تہذیب اور اس کے بعد یورپ میں عورتوں کے عریاں مجسمے بنانے اور جسم کے ایک ایک نشیب و فراز اور خط وخال کو نمایاں کرنے کا رواج عام ہے ،گویا جو لوگ عریانیت اور بے پردگی کے مبلّغ ہیں وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عورتوں کا تقدس باپردہ رہنے ہی میں ہے ۔
ہندو مذہب میںبھی قدیم عہد سے پردہ کی روایت رہی ہے ، سیتاجی کا مشہور واقعہ ہے کہ جب راون نے انہیں اغوا کیا ، تو شری رام جی کے چھوٹے بھائی لکشمن جی انہیں پہچان بھی نہیں سکے ، اور انہوں نے کہا کہ ایک ہی جگہ رہنے کے باوجود ہم نے کبھی اپنی بھاوج کی صورت نہیں دیکھی اورجب شری رام جی نے سیتا کے لیے ہار بھیجے ، تو سیتاجی مختلف عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں ؛ اس لیے لکشمن انہیں پہچاننے سے قاصر رہے ، یہ واقعات جن کا برادرانِ وطن کی کتابوں میں آج بھی ذکر موجود ہے ، واضح کرتے ہیں کہ ہندو مذہب میں عورتوں کی عفت و عصمت ، شرم و حیا اور پردہ و غیرہ کو کتنی اہمیت حاصل تھی ، یہی وجہ ہے کہ ہندو سماج میں اکثر اونچی ذات کی عورتیں پردہ کیا کرتی تھیں ، اب بھی مارواڑیوں ، کائستوں اور پرانی وضع کے حامل برہمن خاندانوں میں عورتوں کے باپردہ رہنے کا رواج ہے ، گو ان کے ہاں برقعہ کا استعمال نہیں ہوتا ؛ لیکن گھونگھٹ لٹکا کر رکھنے کا رواج پایا جاتا ہے ۔
انگریزوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت پیدا کرنے اوراس اختلاف سے فائدہ اٹھا کر اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تاریخ میں غلط واقعات کو سمویا جائے اور ان کو ان دونوں قوموں کے درمیان فاصلہ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے ، انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’ خواتین کو مغل حملہ آوروں سے بچانے کے لیے پردہ کا رواج شروع ہوا ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے خاص کر عزت و آبرو کے معاملے میں زیادہ تر اخلاقی پہلو کو ملحوظ رکھا ہے ؛ کیوں کہ کسی بھی صورت میں غیر مسلم خواتین کی عزت و آبرو مسلمان کے لیے حلال نہیں ہو سکتی ، تقسیمِ ملک کے وقت مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کے اتنے واقعات پیش آئے کہ اگر آسمان خون کے آنسو بہاتا تب بھی بے جا نہ ہوتا ، مگر مسلم علاقوں میں غیر مسلم عورتوں کے ساتھ شاذ و نادر ہی ایسے واقعات پیش آئے ؛ اس لیے یہ سراسر تہمت ،بہتان ، اپنی تاریخ سے ناآگہی اور دشمنوں کی گڑھی ہوئی کہانیوں پر یقین کرتا ہے ۔
پردہ نہ ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور نہ اس سے ترقی کے مواقع ختم ہوتے ہیں ،اسلامی تاریخ میں بہت سی باکمال خواتین پیدا ہوئی ہیں ، جن کے حالات پر کئی کئی جلدیں لکھی گئی ہیں ، اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی علم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے ، وہ معلم ہو سکتی ہیں ، وہ طبیب ہو سکتی ہیں ، وہ شرعی اصولوں کے مطابق تجارت کرسکتی ہیں ، وہ کارِ افتاء انجام دے سکتی ہیں ، وہ حدود و قصاص کے علاوہ دوسرے مقدمات میں جج بن سکتی ہیں ، اگر مردوں اور عورتوں کے لیے جداگانہ ضروریات کا نظم کیا جائے ، الگ الگ اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہوں ، الگ الگ ہاسپٹل ہوں ، عورتوں کے لیے مخصوص مارکیٹ ہوں ، و غیرہ ، تو خواتین کے لیے معاشی تگ و دو کے بھی اتنے مواقع پیدا ہو جائیں گے جو انہیں اِس وقت میسر نہیں ہیں اور وہ آزادانہ ماحول میں بہتر طور پر کام کرسکیں گی ، اگر ٹرین میں خواتین کے لیے مخصوص کوچ ہو سکتے ہیں ، بسوں میں ان کے لیے محفوظ سیٹیں ہو سکتی ہیں ، ہسپتالوں میں ان کے وارڈ الگ رکھے جاسکتے ہیں ، تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں خواتین کے لیے علیحدہ اور مستقل انتظام ہو تو اس میں کیا دشواری یا برائی ہے ؟
پس ، پردہ خواتین کو مجرمانہ ذہن سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کا مقصد ان کی حفاظت ہے ، اگر معاشرہ میں پردہ کا رواج ہو جائے اور خواتین کے لیے ایسا نظم کیا جائے کہ وہ زندگی کے مختلف میدانوں میں مردوں سے الگ رہتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں ، تو یہ عورتوں کو بے پردہ کرنے ، مخلوط ماحول میں انہیں تناؤ کا شکار بنانے اور مردوں کی نگاہِ ہوس کو ٹھنڈی کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے سے کہیں بہتر ہوگا ۔
نئی دہلی: شب برات کے موقع پر بستی نظام الدین واقع تبلیغی مرکز واقع بنگلہ والی مسجد میں رونق لوٹ آئی ہے، جب تبلیغی جماعت کے مرکز کو دو دن کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا،ددو سال کے بعد نماز جمعہ ادا کی گئی۔اس کے ساتھ نمازی شب برات پر نماز ادا کرسکیں۔یاد رہے کہ مرکز 3 مارچ 2020 سے بند تھا۔شب برات کے موقع پر بنگلہ والی مسجد میں عدالت کی ہدایت کے مطابق تمام تر ضروری شرائط کو پورا کیا گیا تھا۔ نمازیوں کا داخلہ جسم کا درجہ حرارت چیک کرنے کے بعد ہاتھوں میں سینی ٹائزر لگا کر ہورہا تھا۔ مسجد کے اندر بھی سماجی فاصلہ رکھا گیا تھا۔ مرکز کے صدر دروازے پر ایک نوٹس چسپاں تھا جس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ غیر ملکی زائرین کا داخلہ ممنوع ہے اگر کسی غیر ملکی کو نماز ادا کرنی ہے تو پہلے مسجد انتظامیہ کے پاس اپنے سفری دستاویز جمع کرائے۔تبلیغی مرکز کے صدر دروازے پر پولیس بھی تعینات تھی،جبکہ مقامی رضا کار دیگر انتظامات میں مصروف تھے۔نماز ادا کرنے والوں کو رکنے نہیں دیا گیا اور سب سے یہی درخواست کی گئی کہ نماز ادا کرکے مرکز سے فورا واپس چلے جائیں۔تاکہ بھیڑ نہ لگ سکے۔بلاشبہ مقامی لوگوں میں دو روزہ رونق کے لیے خوشی تھی مگر یہ امید بھی تھی کہ بہت جلد عدالت تبلیغی مرکز کو مکمل طور پر کھولنے کی اجازت دیدے گی۔کچھ لوگوں نے عدالت کے فیصلہ پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اب اس معاملہ کی اگلی سماعت 31 مارچ کو ہوگی۔ لوگوں کو امید ہے کہ جب رمضان المبارک کے لیے بھی عدالت عبادت کی اجازت دے گی اور بہت ممکن ہے کہ اس کے بعد تمام پابندیاں ختم ہوجائیں۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دو سال کے بعد رونق کی واپسی بہت اہم ہے لیکن سوال مستقبل کا ہے،کیونکہ اب جب تمام ترپابندیاں اٹھالی گئی ہیں، تو پھر صرف تبلیغی جماعت کے مرکز پر ہی یہ پابندی کیوں ؟ایک اور مقامی شخص نے کہا کہ دہلی کے وزیر اعلی اروند کجریوال کی مہربانی ہے جو آج مرکز کو ان حالات کا سامنا ہے۔۔ایک جانب کجریوال کے نائب منیش سسودیا ہولی میں بغیر کسی محفوظ فاصلہ کے ہولی کھیل رہے ہیں اور مرکز میں نماز کی ادائیگی کے لیے شرائط کا اعلان ہورہا ہے۔ یاد رہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کے روز شب برات کے تہوار کے پیش نظر نظام الدین مرکز کی چار منزلوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دی تھی اور ساتھ ہی حکام سے کہا کہ وہ مرکز کے احاطے میں عبادت کرنے والوں پر عائد تمام پابندیوں کو ہٹا دیں، کیونکہ مرکز کی انتظامیہ نے تمام شرائط کو یقینی بنانے کا یقین دلایا ہے۔
‘دی کشمیر فائلز’ کے بعد ’گجرات فائلز‘ بنانے کے مطالبے ،گجرات فسادات پربن چکی ہیں یہ فلمیں
نئی دہلی: ‘دی کشمیر فائلز’ کی ریلیز کے بعد سے ہی سوشل میڈیا پر کافی ہنگامہ برپا ہے۔ کئی لوگوں نے گجرات میں ہونے والے فسادات پر فلم بنانے کا مطالبہ بھی اٹھایا ہے۔ دریں اثنا ’گجرات فائلز‘ ٹوئٹر پر مسلسل ٹرینڈ کر رہا ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ اس سے پہلے بھی گجرات فسادات پر متعدد فلمیں بن چکی ہیں، آئیے ان فلموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
کائی پوچے
سشانت سنگھ راجپوت کی فلم ‘کائی پو چے’ کی کہانی تین دوستوں کی زندگی پر مبنی ہے۔ اومی، گووند اور ایشان تینوں احمد آباد میں رہتے ہیں۔ وہ مل کر ایک اسپورٹس اکیڈمی شروع کرتے ہیں۔ سب کچھ اچھا چل رہا ہے، پھر گودھرا واقعہ کے بعد کچھ ایسا ہوتا ہے کہ دوستوں میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ کائی پو چے کے خلاف بھی ایک درخواست دائر کی گئی تھی جو 2013 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس دوران ایک وکیل نے الزام لگایا کہ فلم متعصبانہ ہے اور اس فلم میں ہندو طبقے کے لوگوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پرزانیہ
فلم پرزانیہ ایک پارسی لڑکے پرزان پٹھا والا کی کہانی ہے۔ پرزان 2002 کے فسادات کے بعد غائب ہو جاتا ہے۔ اس فلم میں ایک خاندان کی جدوجہد کو دکھایا گیا ہے۔ فلم پرزانیہ گجرات میں ریلیز نہیں ہونے دی گئی تھی ۔ وہاں کے سینما مالکان نے خطرات کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے پردوں پر دکھانے سے منع کردیا تھا۔ اس فلم میں نصیر الدین شاہ اور ساریکا مرکزی کردار میں نظر آئے تھے۔ پرزانیہ کو دیکھ کر لوگوں نے راہل ڈھولکیا پر ہندو مخالف فلم بنانے کا الزام لگایا تھا۔
فائنل سولیوشن
راکیش شرما کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم پر شروع میں بھارت میں طویل عرصے تک پابندی عائد تھی، جس کے لیے کئی مہمیں چلائی گئیں۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں 2003 میں گجرات فسادات پر بنائی گئی دستاویزی فلم کی، جس کا عنوان ’فائنل سولیوشن‘ تھا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ اکتوبر 2004 میں اس فلم پر سے پابندی ہٹا دی گئی تھی۔ اس دستاویزی فلم کو نیشنل فلم ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈز بھی ملے۔
فراق
2008 میں نندیتا داس نے گودھرا سانحے پر ’فراق‘ فلم بنائی۔ اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ گجرات فسادات کے ایک ماہ بعد عام لوگوں کی زندگیوں پر کیا اثر پڑا۔ اس فلم میں نصیر الدین شاہ، نواز الدین صدیقی، دیپتی نول، پریش راول اور ٹسکا چوپڑا جیسے اداکار شامل تھے۔