لکھنؤ :لکھیم پور کھیری کے تکونیا تشدد کیس کے کلیدی ملزم اور مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کے بیٹے آشیش مشرا مونو کو چار ماہ سے زیادہ کے بعد منگل کی شام ضلع جیل سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ جیل انتظامیہ نے دوپہر کو رہائی کا حکم ملنے کے بعد قابل ضمانت کارروائی شروع کی، جس کے بعد دیر شام آشیش مشرا مونو کو تین لاکھ کے ذاتی مچلکے پر رہا کر دیا گیا۔ڈسٹرکٹ جیل میں آشیش مشرا کی ضمانت کے آرڈر کے سلسلے میں پیر کو درخواست داخل کی گئی، جس کی تصدیقی رپورٹ منگل کو ڈسٹرکٹ جج کورٹ میں موصول ہوئی، ڈسٹرکٹ جج مکیش مشرا نے آشیش مشرا مونو کے رہائی کا حکم نامہ جاری کیا،جس کی بنیاد پر آشیش مشرا کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔آشیش مشرا کے وکیل ان کی رہائی کے لیے جیل پہنچے تھے۔ آشیش مشرا کی رہائی کے پیش نظر میڈیا کی بڑی تعداد جیل کے باہر جمع تھی۔ دوسری طرف ضلع جیل سے تقریباً 500 میٹر کی دوری پر واقع مرکزی مملکتی وزیر داخلہ اجے مشرا ٹینی کے دفتر میں کافی ہنگامہ ہے،وہیںبھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت نے آشیش مشرا کی رہائی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ کسان مورچہ (ایس کے ایم) اس معاملہ کو لے کر سپریم کورٹ سے رجوع کرے گا۔ ٹکیت نے اسمبلی انتخابات کے درمیان بی جے پی کو بھی نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ تشدد میں چار کسانوں سمیت آٹھ افراد کی موت ہو گئی ہے۔ لکھیم پور کھیری کا واقعہ پورے ملک نے دیکھا،اس سفاکانہ جرم کے ارتکاب کے بعد بھی آشیش مشرا کو تین ماہ کے اندر ضمانت مل گئی۔ٹکیت نے کہا کہ سب اسے دیکھ رہے ہیں،وہ آج جیل سے باہر نکلا ہے ، لیکن ہم اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔
15 فروری, 2022
ریاض:اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھارت کی ریاست اتراکھنڈ میں ہری دوار میں مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق حالیہ عوامی مطالبات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس نے سوشل میڈیا سائٹس پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کے ساتھ ساتھ جنوبی ریاست کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عاید کرنے کی اطلاعات پر بھی تشویش کا اظہارکیا ہے۔جدہ میں اوآئی سی کے جنرل سیکریٹریٹ نے سوموار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اوران کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کے لیے مسلسل حملے، مختلف ریاستوں میں مسلم مخالف قانون سازی کا حالیہ رجحان اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اس ملک میں اسلاموفوبیا کے فروغ پذیررجحان کی نشان دہی کرتے ہیں۔او آئی سی نے عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کے میکانزم اورجنیوا میں قائم انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریق کارسے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرے۔تنظیم کے جنرل سیکرٹریٹ نے ایک بار پھر بھارت پرزور دیا ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے طرززندگی کا تحفظ کرتے ہوئے مسلم کمیونٹی کی حفاظت، سلامتی اور فلاح و بہبود کو یقینی بنائے اور ان کے خلاف تشدد اورنفرت انگیز جرائم کے مرتکب افراد،محرکین اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
عربی ایک زندہ و پائندہ زبان ہے ، دنیا کی ایک قدیم زبان ہونے کے باوجود تمام تر رعنائیوں اور جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہے اور عصر حاضر کے ادبی تقاضوں کو پورا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ، وقت کے ساتھ اس کا دائرہ اثر وسیع سے وسیع ہوتا جارہا ہے ، اس کی زلف کے کڑوروں اسیر ہیں ، اس کے دام سحر میں ملینوں دیوانے گرفتار ہیں اور فخریہ اپنی دیوانگی کا اظہار کرتے ہیں ۔
جب کوئی نووارد اس وادی عشق ومحبت میں قدم رکھتا ہے تو اسے طرح طرح کی دقتیں اور پریشانیاں پیش آتی ہیں ، اگر خضر راہ اور پیر طریق کی رہنمائی حاصل ہوجائے ، تو وہ بآسانی اس وادی الفت کو طے کرلیتا ہے ، اور منزل کو پالیتا ہے ، اگر خضر راہ کی رہنمائی حاصل نہ ہو، تو چند ماہ کی محنت ومشقت کے بعد الٹے پاؤں واپس ہوجاتا ہے ، آج ایک بڑی تعداد ایسی جو عربی زبان وادب میں مہارت حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن صحیح سمت میں محنت نہ کرنے کی وجہ سے اپنی مطلوبہ منزل حاصل نہیں کرپاتی ، زیر تبصرہ کتاب ان بنیادی سوالات کا جواب دیتی ہے جو ہر عربی سیکھنے والے طالب علم کے ذہن میں ابھرتے ہیں ۔
کتاب سولہ مرکزی عناوین پر مشتمل ہے ، مؤلف نے نہایت تفصیل سے عربی زبان کی ابتدا، عربی زبان کے مختف ادوار ، اور اس کے خصائص ومحاسن پر گفتگو کی ہے ، زبان اور دین کے مابین رشتہ کو بھی اجاگر کیا ہے ، قرآن وحدیث نے عربی زبان وادب پر جو مخلتف ناحیوں سے اثرات ڈالے ہیں، ان پر بھی سیر حاصل بحث کی ، تہذیب ، ثقافت اور ادب کے باہمی تعلقات کی نوعیت کو بھی واضح کیا ہے ۔
اسی طرح ادب قدیم اور ادب جدید ، اور ان کے مابین فروق وامتیازات کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے ، لگے ہاتھ عربی ادب کے مصادر (الأغاني ، البيان والتبين ، الكامل فى اللغة والأدب ، الأمالي ، أدب الكاتب اور العقد الفريد ) کے محاسن و خصائص پر بھی خوب خامہ فرسائی کی ہے ، ادب قدیم کے اساطین کے ساتھ عہد جدید کے معماران ادب کے کارناموں کو بھی اجاگر کیا ہے ۔
عربی کے مبتدی اور متوسط درجے کے طالب علم کو یہ سوال ہمیشہ پریشان کرتا ہے کہ وہ کیا پڑھے اور کیا نہ پڑھے ، مؤلف نے اس سوال کا جواب عنوان ” التعريف عن بعض الكتب الأدبية حسب سن المطالعة ” کے تحت دیا ہے ، اور یہ بتایا کہ کس عمر میں کیا اور کن ادبا کو پڑھنا چاہیے ۔
محاوراتی زبان ، فصیح تعبیرات اور خوبصورت زبان لکھنے اور بولنے کی صلاحیت کس طرح اپنے اندر پیدا کریں ، اس راز سے بھی پردہ اٹھایا ہے ۔
آخر کے دو عناوین ” الأدب العربي في شبه القارة الهندية ” و” حركة ندوة العلماء فى الأدب العربي وإسهاماتها ” کے تحت بر صغیر کے ادبا وفضلا کی ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کی ہے ۔
کتاب مجموعی طور پر عربی زبان کے شائقین کے لیے انمول تحفہ اور یونیورسٹیوں کے مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبہ کے لیے مفید ہے ، ہر انسانی کام کی طرح یہ کتاب بھی اغلاط سے پاک نہیں اور کتاب کے شایان شان کاغذ استعمال نہیں گیا ہے ۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
ماہنامہ الفرقان اور ندائے ملت کے سابق مدیر ، انڈین مسلم فیڈریشن یو کے کے سرگرم رکن، اسلامک ڈیفینس لیگ یوکے کے بانی، حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بن حضرت مولانا منظور احمد نعمانی بن صوفی احمد حسین (م رمضان ۱۳۶۸ھ) کا پنچانوے سال کی عمر میں دہلی میں مقیم ان کے صاحب زادہ مولانا عبید الرحمن سنبھلی کے گھر انتقال ہو گیا، انہوں نے ۲۳؍ جنوری ۲۰۲۲ء کو عشاء کی نماز سے قبل آٹھ بج کر دس منٹ پر آخری سانس لی، وہ کافی عرصہ سے بیمار چل رہے تھے، جنازہ ان کے آبائی شہرسنبھل لے جایا گیا، جہاں بعد نماز ظہر اگلے دن مفتی محمد سلمان منصور پوری استاذ حدیث مدرسہ شاہی مراد آباد نے جنازہ کی نماز مدرسہ انجمن سنبھل میں پڑھائی، اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں دو لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑا اہلیہ پہلے انتقال کر چکی تھیں۔
حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۶ء کو اتر پردیش کے قصبہ سنبھل میں آنکھیں کھولیں وہ مولانا منظور نعمانی علیہ الرحمہ کے سب سے بڑے فرزند تھے، ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا، وہاں وہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی اور حضرت مولانا محمد اسعد مدنی ؒ کے ہم درس رہے۔ ۱۹۵۰ء میں دار العلوم سے فراغت کے بعد اپنے والد کے مشہور رسالہ الفرقان سے وابستہ ہوئے ، ۱۹۵۳ء میں وہ الفرقان کے مدیر بنا دیے گیے، انہوں نے مضبوط انداز میں ملت اسلامیہ کا موقف الفرقان میں پیش کیا، یہ موقف بے باکانہ ہو اکرتا تھا، جس کی وجہ سے الفرقان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، ان کے الفرقان کے اداریوں کا مجموعہ’’ راستے کی تلاش‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے جو اہل علم میں مقبول ہے۔ ۱۹۶۲ء میں پندرہ روزہ ندائے ملت کا آغاز ہوا تو مولانا اپنے بھائی حفیظ نعمانی کے ساتھ اس کے دست وبازو بن گیے،ندائے ملت کے بے باکانہ اداریہ نے حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ حفیظ نعمانی نے نو ماہ کے لیے قید وبند کی صعوبت برداشت کی خود مولانا ڈیفنس آف انڈیا رول کے تحت چھ مقدمات میں ماخوذ ہوئے۔
مولانا مرحوم مسلم مجلس مشاورت کے بانیوں میں سے ایک تھے، مسلسل تحریکی زندگی کی وجہ سے ان کی صحت خراب رہنے لگی ، ۱۹۶۷ء میں مولانا بغرض علاج لندن گیے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گیے، سال میں ایک بار ہندوستان آنا ہوتا تھا، لیکن وہ مہمان بن کر ہی آتے تھے، لندن منتقلی کے بعد ان کا میدان عمل برطانیہ ہو گیا، او روہاں انہوں نے مختلف تحریکات میں بھر پور حصہ لیا، انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلامک ڈیفنس لیگ کی بنیاد ڈالی، انڈین مسلم فیڈریشن لندن کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوبیرون ہند میں مؤثر بنانے کے لیے جم کر کام کیا، ان کے مضامین فیڈریشن کے خبرنامہ ’’دی انڈین مسلم‘‘ میں اردو سے انگریزی ترجمہ کرکے چھپا کرتے تھے۔
مولانا عظیم صحافی تھے، ان کی انگلی زمانہ کے نبض پر ہوا کرتی تھی ، وہ سیاسی اتار چڑھاؤ اور رست وخیز پر گہری نظر رکھتے تھے، اس لیے ان کے اداریے اقدامات کی نشان دہی بھی کرتے تھے، ان کے اداریہ نویسی کی خصوصیات کو ان کے اداریہ کے مجموعے ’’راستے کی تلاش ‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے ، ان کے علاوہ جو کتابیں ان کی مقبول ہوئیں اور اہل علم کی نظر میں مباحثہ کا موضوع بنیں ان میں انقلاب ایران اور اس کی اسلامیت ، واقعۂ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر، طلاق ثلاثہ اور حافظ ابن القیم، مجھے ہے حکم اذاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان کی آخری تصنیف محفل قرآن ہے، جو چھ جلدوں میں ہے اور تفسیر قران ہے، یہ تفسیر عصر حاضر کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے ، اس لیے مشکل مقامات کے حل کے ساتھ قرآن کریم پر کیے جانے والے اعتراضات کا منطقی اور مسکت جواب بھی دیا گیاہے، یہ تفسیر اہل علم کے لیے بہترین تحفہ اور نئی نسل کے لیے ان کے شکوک وشبہات دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، مولانا کا جو اسلوب او ر تحقیق میں جو جزم واحتیاط تھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی عتیق احمد بستوی استاذ دار العلوم نے بجا لکھا ہے کہ
’’ حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی زود نویس نہیں تھے، اللہ نے ان کو جو طویل عمر عطا فرمائی اس کے اعتبار سے ان کی کتابیں اور ان کی تحریریں کم ہیں، لیکن وہ جو کچھ تحریر فرماتے تھے، طویل غور وفکر ، گہرے مطالعہ اور وسیع تجربات کا خلاصہ ہوتا تھا، ہر لفظ بہت ناپ تول کر لکھتے تھے، ان کا ہر جملہ اور فقرہ بہت محکم ہوتا تھا، ان کی تحریریں لفاظی عبارت آرائی سے پاک ہوتی تھی، ان کا اسلوب نگارش سشتہ ، سادہ اور بڑا عقلی ومنطقی ہوا کرتا تھا۔ آگے لکھتے ہیں: مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا مخصوص طرز نگارش ہے ، اس میں سادگی اورپرکاری کے ساتھ معقولیت کا حسین امتزاج ہے، مولانا سنبھلی کی کوئی بھی تحریر سرسری اور سطحی نہیں ہوتی، بہت غور وفکر کے بعد موضوع میں ڈوب کر لکھتے ہیں۔(مولانا عتیق الرحمن سنبھلی- نقوش وتاثرات)
یہ عجیب اتفاق ہے کہ مولانا سے میری کوئی ملاقات ہندوستان میں نہیں ہوئی ، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جب میرا ٓنا جانا لندن ہونے لگا تو کئی ملاقاتیں مختلف محفلوں میں وہیں ہوئیں، ایک دو دفعہ گھر بھی جانا یاد آتا ہے، میںنے ان ملاقاتوں میں مولانا کو متواضع ، خاموش طبع اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنے والا پایا، ممکن ہے دوستوں کی مجلس میں گھل مل جاتے رہے ہوں، لیکن میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں تھا، میں خود بھی بڑوں کی مجلس میں خاموش ہی رہا کرتا ہوں، مولانا بھی خاموش طبع تھے، ایسے میں گفتگو سے زیادہ اس ملاقات کا مطلب ایک دوسرے کو دیکھنا ہی ہوا کرتا تھا، کچھ عمر کا تفاوت بھی تھا جو بے تکلف ہونے سے ہر ملاقات میں مانع ہی رہا ۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
اویسی نے حجاب پہن کر ڈاکٹر، انجینیر، کلکٹر بننے کی بھی بات کی ہے؛ لیکن بات کا بتنگڑ صرف پی ایم والی بات پر بنایا جارہا ہےـ
اغیار سے کیا شکایت؟ ان کے پیٹ میں درد ہونا ہی چاہیے، مسئلہ اپنوں کا ہے، خصوصا مولویوں کا، منموہن اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ پی ایم بن سکتے ہیں، یوگی آدتیہ ناتھ اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ سی ایم بن سکتے ہیں؛ لیکن اویسی مذہبی تشخص کے ساتھ پی ایم بننے کی بات بھی کردے تو بھونچال آجائےـ
در اصل ہمارے یہاں ایجنٹ اور مسیحا کے بیچ میں کوئی ہوتا ہی نہیں ہےـ کچھ لوگوں نے انھیں مسیحائے قوم سمجھا ہوا ہے کہ ان کی ہر الٹی سیدھی حرکت پر الول جلول دلیل دیے جاتے ہیں اور کچھ لوگوں نے انھیں ایجنٹ یا بی ٹیم سے کم ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں؛ جنھیں لگتا ہے کہ ہندو اویسی کی وجہ سے یک جٹ ہو رہے ہیں۔
ارے بھئی! تم قومی یکجہتی اور سیکولرزم کے نام پر کتنے بھی چونچلے بازیاں کرلو، انھیں متحد ہونا ہے وہ ہوں گےـ اتحاد اور سیکولرزم کے نام پر ہم نے کروڑہا کروڑ روپے، لاکھوں مسلمانوں کا ایمان وایقان اور ہزاروں کی جان کر داؤ پر لگادیا، بدلے میں کیا ملا؟ ٹھینگہ!!
2014 میں پورا ملک؛ بی جے پی کے نام پر نہیں، مودی کے نام پر متحد ہوا تھا؛ چوں کہ انھیں پتہ تھا کہ مودی مسلمانوں کا قاتل اور سب سے بڑا نفرتی ہے. 2014 میں این ڈی اے کا ووٹ شیر 39 فیصد تھا اور 2019 میں 45 فیصدـ مطلب 2014 میں ہی ملک کے 39 فیصد ہندو متحد ہوچکے تھے اور 2019 میں 45 فیصد. پھر کون سا اتحاد بنانا چاہتے ہیں اور کون سی سیکولرزم باقی رکھنا چاہتے ہیں؟ آپ کہیں گے تب بھی تو 55 فیصد لوگ بچے نا! تو سنیے اس باقی پچپن فیصد میں بیس پچیس فیصد تو مسلمان ہیں، پانچ فیصد عیسائی اور سکھ ہیں. باقی جو بچے وہ برادریوں اور پارٹیوں کے بندھن کی وجہ سے اتحاد میں شام نہیں ہوسکے. لو کرلو قومی یکجہتی کے جلسے سے سیکولرزم قائم!!
نوٹ بدلی ابھی بھولے نہیں ہوں گے، نومبر 2016 میں نوٹ کا انتہائی خطرناک فیصلہ لیا گیا جس میں پورا ملک اتھل پتھل ہوگیا، سو سے زیادہ اموات ہوئے، غریب اور مزدوروں کے کھانے پر لالے پڑ گئے، بیوپاریوں اور تجارت پیشہ لوگوں کی کمر ٹوٹ گئی، جس طرح صبح صبح لوگ سولبھ شوچالئے کے باہر لائن میں کھڑے ہوتے ہیں ایسے ہی پورے ملک کو اے ٹی ایم اور بینکوں کے لائن میں لا کھڑا کیا؛ لیکن چند ہی ماہ بعد ہی 2017 میں یوپی الیکشن میں بی جے پی نے تقریبا 40 فیصد کے ووٹ شیر سے یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار بنائی ـ
دو سال پہلے کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگایا گیا. یوپی بہار کے مزدوں کی حالت کتوں سے بدتر تھی؛ لیکن آپ چھوٹے نیوز چینل اور یوٹیوبرز کے عوامی سروے دیکھ لیجیے، انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے، وہ تب بھی ووٹ صرف بی جے پی کو ہی کریں گے۔
ساؤتھ؛ خصوصا کیرالا کے ہندو کے بارے میں کہا جاسکتا ہے وہ انصاف پسند ہوتے ہیں، وہ پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہوتے ہیں، شاید اس لیے اب تک ان کے جھانسے میں نہیں آسکے. ورنہ یکجہتی اور سیکولرزم ڈھکوسلے بازی کے سوا کچھ نہیں ہے. یہ بڑے والے سیکولر سوامی ٹائپ لوگ جو ہیں یہ بھی ہمارے ہی جلسوں میں آکر ہمیں سیکولرزم کا پاٹھ پڑھا جاتے ہیں. انھیں کبھی دیکھا ہو ہندؤں کے اسٹیج سے سیکولرزم کی بات کرتے تو ہمیں ویڈیو کلپ بھجج دیجیے گاـ
بہرحال! بات بڑی طویل ہوگئی، خلاصہ یہ ہے کہ اویسی کوئی مسیحا وسیحا ہے نہیں، وہ بھی ایک سیاسی کھلاڑی ہے، وہ ہر وہ پینترے آزماتا ہے جس سے ان کا ووٹ فیصد بڑھ سکے. آپ کو حق ہے آپ سپورٹ کریں یا مخالفت، باقی اس کے بیان سے سیکولرزم اور بھائی چارہ جو ٹوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے تو بس ذہن نشیں کرلیں کہ یہ سب بہت پہلے کی بات ہے. ایسی کسی چیز کا اب وجود ہی نہیں. استثناءات کا ہم ویسے بھی اعتبار نہیں کرتےـ
اب مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دیجیے اور حقوق کی بات کیجیے. اس کے نتجہ میں ہوسکتا ہے کہ مادی خسارہ ہمیں برداشت کرنا پڑے (پہلے سے بھلا کون ہم سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، سول سروسز اور دیگر سرکاری اداروں میں بھرے پڑے ہیں) لیکن کم از کم مسلمان سیکولرزم کے چکر میں اپنے ایمان کا سودا نہیں کریں گے، جئیں گے تو اپنے حقوق کی بات کرتے ہوے اور مریں گے تو اسلامی احکام اور اسلامی شعار کے ساتھ ـ
9956779708
غضنفر اردو فکشن کا ایک معروف اور معتبر نام ہے۔اگر چہ انھوں نے شاعری بھی کی ،تنقید بھی لکھی اور خاکے بھی لکھے لیکن ان کااصل میدان فکشن ہی ہے۔وہ ناول بھی لکھتے ہیں اور افسانے بھی۔اردو میں ناول کی واپسی میں جس مثلث کا اہم کردار ہے اس میں بھی غضنفر کا ناول "پانی”شامل ہے۔ پانی کا اسلوب بڑی حد تک داستان کے قریب تھا اور بیان میں ایک تجسس اور سحر انگیز فضا تھی۔یہ غضنفر کا پہلا ناول تھا جس نےاردو قارئین کو چونکایا اور غضنفر کو ایک ناول نگار کے روپ میں نہ صرف متعارف کرایا بلکہ پہلے ہی ناول سے انھوں نے شہرتوں کی وہ بلندیاں طے کر لیں جنھیں کم از کم اتنی جلدی طے کرنا آسان نہیں تھا۔کچھ ہی دنوں بعد ان کا دوسرا ناول کینچلی منظر عام پر آیا ۔اس وقت غضنفر لکھنؤ کے اردو ٹیچنگ سینٹر ( مدن موہن مالویہ روڈ )میں بحیثیت پرنسپل اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔کینچلی اپنے موضوع کی بنیاد پر بہت دنوں تک موضوع بحث رہا تھا۔اس ناول میں انھوں نے ایک ایسا سوال قائم کیا تھا جس کی زد سےسماجی بندشیں اورشرعی قوانین بھی محفوظ نہیں رہے تھے۔ اسی دور میں ان کاتیسرا ناول "کہانی انکل” شائع ہوا، جس پر گفتگو کے لئے انھوں نے اپنے لکھنؤ کے دفتر میں ایک مخصوص نشست بھی رکھی تھی۔یہ ناول بھی اس لئے موضوع بحث رہا کہ اس میں نیا کچھ نہیں تھا بلکہ ایک کردار کہانی انکل کی تخلیق کر کے اس کی زبانی انھوں نے اپنے تمام شائع شدہ افسانے ہی پیش کئے تھے۔جس میں ظاہر ہے کہ ان کی ذہانت قابل داد تھی۔اس کے بعدناولوں میں دویہ بانی، فسوں، وش منتھن،مم،شوراب اورمانجھی شائع ہوئے،حیرت فروش اور پارکنگ ایریاکے نام سے دو افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔تنقید کے تعلق سے ان کی چھ کتابیں، تین شعری مجموعےاور ایک ڈراما کوئلے سے ہیرا بھی شائع ہوا،اس دوران انھوں نے دو مثنویاں کرب جاں او ر مثنوی قمر نامہ تخلیق کرکے نہ صرف اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ ایک مرتبہ پھر انھوں نے مثنوی کے فن کو زندہ کرنے کی کوشش کی۔
غضنفر زود نویس بھی ہیں اور بسیار نویس بھی،ن کا تخلیقی ذہن ہمیشہ کسی نئی منزل کے حصول کے لئے سرگرداں رہتا ہے۔حال ہی میں ان کی نئی کتاب (دیکھ لی دنیا ہم نے )منظر عام پر آئی ہے یہ غضنفر کی خود نوشت ہے۔جس میں انھوں نے اپنی زندگی کے ایک خاص دور ہی کا احاطہ کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں:
”میری زندگی کے ایک مخصوص دور میں جو کچھ ہوا اور جس طرح ہوا ،بغیر کسی عقلی جانچ پرکھ کے میں اسے لکھتا چلا گیا اور جب لکھ گیا تو لگاکہ کار جنوں کا سلسلہ آگے تک جاتا ہے اور اس جنوں کے دھاگے میں دوسروں کے سرے بھی جڑتے ہیں اس طرح کار جنوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا،اگر میں اسے استدلال کی کسوٹی پر چڑھاتا تو شاید کار جنوں میرے نوک قلم کی نوک تک نہ آ پاتا“ـ
آپ بیتی یا خود نوشت لکھنا کبھی آسان نہیں رہا اور مشہور خود نوشتوں پر بھی الزامات عائد ہوئے کہ یا تو حقائق پیش نہیں کئے گئے یا جانب داری سے کام لیا گیا۔غضنفر کی خود نوشت کی پہلی خصوصیت یا انفرادیت یہ ہے کہ یہ ایک قصہ کی شکل میں اس طرح آگے بڑھتی ہے کہ پہلی ہی سطر سے قاری تجسس کا شکار ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ ایک ایسی طلسمی فضا میں چلا جاتا ہے جہاں وہ نئے نئے عجائب خانوں سے روبرو ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ ان کرداروں سے واقف ہوتا جاتا ہے جو کسی نہ کسی طرح غضنفر کی زندگی سے وابستہ رہے ہیں یا ان کے ذہن پر اثر انداز ہوئے ہیں،ظاہر ہے اس میں ان کے والد ہیں ،والدہ ہیں چچا ہیں، اساتذہ ہیں، احباب ہیں۔اس میں ان کا عشق بھی ہے ،ازدواجی زندگی بھی ہے وہ شہر بھی ہیں جہاں غضنفر کی زندگی کے خاص حصے گزرے ہیں۔جن دنوں وہ لکھنو میں تھے ،میں ایم اے اردوکا طالب علم تھا ۔میرا ان کے سینٹر میں آنا جانا تھا ، بعد میں اس آمدو رفت کی سرحدیں بڑھ کر گھروں میں داخل ہو گئیں،وہ ان دنوں لکھنؤ کے بارے میں اچھاتاثر نہیں رکھتے تھے۔جس کا مرثیہ انھوں نے اپنی کتاب میں یوں پڑھا ہے:
”مجھے کہیں وہ لکھنؤ نہیں ملا جو میرے ذہن میں بسا ہوا تھا،حضرت گنج صرف گنج رہ گیا تھا،قیصر باغ کیسر باغ ہو گیا تھا۔امام باڑے گرد سے اٹ گئے تھے۔بھول بھلیوں کی سرنگیں بند ہو گئی تھیں اور اس میں ہونے والا کھیل رک گیا تھا،امین آباد کی شام اداس پڑی تھی،نشاط گنج سے انبساط غائب تھی،ڈالی گنج پھولوں سے خالی تھی ،مجھے بڑی مایوسی ہوئی“ـ
ظاہر ہے کہ اس میں ایک پوری تہذیب کے مٹنے کا کرب ہے لیکن ایسا صرف لکھنؤ کے ساتھ ہی نہیں ہے۔لکھنؤ میں اب بھی بہت کچھ ہے:
کمال فن میں ہنر گفتگو میں باقی ہے
سخن کا رمز ابھی لکھنؤ میں باقی ہے
انیس اشفاق
مرثیہ تو لکھ چکے ہو لکھنوی تہذیب کا
ہے مگر اب بھی یہاں رسمِ رواداری بہت
ہارون رشید
اسی لکھنؤ میں ہونے والی علمی سرگرمیوں اور ادبی ہلچلوں کا بھی ذکر ہے،لیکن لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے طلبہ کی تنظیم رجحان کا ذکر نہیں ہے جس کے تحت ہونے والی ادبی نشستوں اور مذاکروں میں غضنفر شریک رہے ہیں۔رجحان کے تحت ہی ایک شام غضنفر کے نام بھی منائی گئی تھی جس کی خبر اس وقت کے موقر اردو اخبار قومی آواز میں آدھے صفحہ پر شائع ہوئی تھی جس کے بعد استاد محترم پروفیسر انیس اشفاق نے بوجوہ رجحان کی سرگرمیوں پرکچھ دنوں کے لئے پابندی لگا دی تھی۔لکھنو ہی میں ان کے ادارے میں پروفیسر علی احمد فاطمی کی کتاب "جڑیں اور کونپلیں” پر مذاکرہ ہوا تھا جس میں متداول لکھنؤ کے معروف اور ممتاز ادبا شامل ہوئے تھے۔لکھنؤ ہی کیوں وہ دلی کے بارے میں بھی لکھتے ہیں:
”دلی کے قیام کے دوران دلی والے اور غیر دلی والے دونوں اچھی طرح پہچانے گئے ۔زیادہ تر دلی والے تو دل سے محروم ہیں ہی، غیر دلی والے بھی دلی میں آکر پہلو سے دل کھو بیٹھےہیں۔دونوں احساس سے عاری ہو چکے ہیں، دوستی، محبت، رشتے ،ناطے سب ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں ۔ان کے پاس اگر کچھ ہے تو پیسہ۔اس کے لئے وہ جائز ناجائز حرام ،حلال سبھی طرح کے کام کرتے ہیں اور اس کے حصول کے ناجائز طریقے کو بھی جائز ٹھہراتے ہیں۔وہ اسی سے ملنا پسند کرتے ہیں جس سے ملنے میں ان کا کوئی فائدہ ہو۔ہمارے جیسے کچھ لوگ بھی یہاں آ جاتے ہیں جو آخر تک دہلوی رنگ ڈھنگ سےمحفوظ رہتے ہیں اور اپنے اصل رنگ میں رہنے اور اپنے ڈھنگ سے جینے کا خمیازہ بھگتتے رہتے ہیں۔دہلی کے اس رنگ نے مجھے بہت اداس کیا“ ـ
سوانح میں غضنفر نے اپنی ذات کے ان پردوں کو بھی اٹھایا ہے جنھیں پروفیسر شارب ردولوی نے "نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم” میں چھیڑا ہی نہیں اور نہ چھیڑنے کا سبب بھی بیان کیا ہے۔غضنفر نے روبی ،رات کی تاریکی میں فحش لٹریچر کے لئے بھابھی (مکان مالکن)ٰکے بار بار کمرے میں آنے،اورپڑوس میں رہنے والے لڑکوں کے ذریعہ لائی گئی لڑکی کا غضنفر کے ساتھ سونے کی بات کرنے اور پھر ایک خاتون کاانھیں کھینچ لینے کا ذکر بڑی بے تکلفی اوربے باکی سے کیا ہے۔لیکن قاری یہ سوچنے پر مجبور ضرور ہو جاتا ہے کہ وہ غضنفر جو اس عمر میں حسینہ کانپوری اور مست رام کا فحش لٹریچر پڑھنے کا عادی تھا اس غضنفرنے جو لکھا ہے کہ:
”یہ عقدہ کبھی مجھ پر وا نہیں ہواکہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جس نے ان کتابوں سے پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت اور تکمیلِ خواہشاتِ نفسانی کی امکانی صورت میں بھی مجھے روکے رکھا،مجھے کتاب کے گھیرے سے نکلنے نہیں دیا“ـ
کیا اتنا ہی سچ ہے،یا آگےکے سچ پر پردہ ڈال دیا ہے۔اسی تسلسل میں ایک حافظ جی کا ذکر ہے جو اپنی شاگردہ کی طرف سے اس کےمحبوب کے لئے غضنفرسے خط لکھواتے ہیں ۔یہ بات بھی حلق سے نہیں اترتی کہ کوئی استاد اپنی شاگردہ کی طرف سے محبت نامہ تحریر کرے چہ جائےکہ دوسرے سے تحریر کروائے۔لیکن دلچسپ بات یہ ضرور ہے کہ جواب پانے کے بعد عاشق اس خط سے بھی بہتر خط لکھوانے کے لئے انھی حافظ جی کے پاس پہنچتا ہے اور پھر غضنفر کو اپنے ہی خط کا جواب بھی لکھنا پڑتا ہے۔اس عمل کا ان پر کیا اثر ہوا یہ خود غضنفر کی زبانی سنئے:
ّّّّّدو نوجوانوں کی کیفیات دیوانگی کے اظہارنے میرے قلم کو وہ روانی بخشی کہ میری تحریر رواں ہوتی چلی گئی،مجھے یہ تو معلوم نہ ہو سکا کہ میری تحریروں نے آگے چل کر کیا گل کھلایا اور ان دودلوں میں دیر پا رہنے والی خوشبوبسائی کہ نہیں مگر اس بات کا پتا مجھے ضرور ہے کہ میری تحریر میں جو کچھ بھی حرکت و حرارت ہے یہ انھیں خطوں کی برکت ہے اور آگے چل کر جو میرے اپنے جذبہ دل کا معاملہ پر اثر اظہار پا سکا اور کسی غیر کو اپنانے میں مثبت کردار نبھا سکا،اس کے پیچھے بھی ان خطوں کا ہاتھ ہے۔خطوں کا کیا،اس اردو کا ہاتھ تھا جس نے خطوں کو سحر انگیز بنایا،اردو کا حسن ایسا بھایا کہ مجھے اس سے عشق ہو گیا اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ ایم اے اردو میں کرنا ہے”۔
یوپی میں اکثر بہاری طلبہ اور اشخاص پر لوگ طنز کرتے ہیں ایسا غضنفر کے ساتھ بھی ہوا اور غضنفر نے اس کا دفاع صفحہ 89 سے 92 تک کیا ہے اور یہیں اپنی نصف بہتر بشری کا ذکر کچھ یوں کیا ہے کہ قاری زیر لب مسکرانے لگتا ہے، جب ان کے گھربہار کے دو لڑکےملنے آئے اور ناشتہ میں پیش کئے جانے والے کاجو اور کچھ نمکین کی پلیٹیں پوری طرح صاف کر دیں ،اس پر ان کی بیوی بھنا کر بولیں کہ” پکے بہاری نکلے“ ـ
غضنفر نے اپنی خود نوشت میں اپنی زندگی کے واقعات ،طالب علمی کا زمانہ ،اپنے تدریسی دور کے متحرک نقوش اور زندگی کے مختلف پڑاؤ میں رابطے میں آنے والے لوگوں کا تذکرہ خاکے کی شکل میں اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ اگر قاری ان کرداروں سے ذاتی واقفیت نہیں رکھتا ہے تو بھی غضنفر کا فن ان کرداروں کوان کی پوری نفسیات کے ساتھ قاری کے ذہنوں میں اتار دیتا ہے۔
دیکھ لی دنیا ہم نے حقیقت میں ایک نگارخانہ ہے جس کے سجانے میں غضنفر نے صاف گوئی اور جسارت کا وہ مظاہرہ کیا ہے،جو خود نوشت لکھنے والوں کے لئے ایک لائق تقلید نقش ہے۔جو لوگ بھی غضنفر کو قریب سے جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ غضنفر کے مزاج میں تلاش حق کا جذبہ بھی ہے اورباطل کے خلاف بغاوت کا مادہ بھی ۔ اس لئے وہ مذہبی آڈمبر اور سماجی بندش دونوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔کتاب کا ابتدائی حصہ جہاں غضنفر کا بچپن ہے وہ اس نکتہ کو واضح کر دیتا ہے کہ ان کے اندر یہ آتش فشاں کیوں اورکہاں سے آیا ہے۔ 336 صفحات پر پھیلی غضنفر کی دنیا کے آخری صفحات میں حج بیت اللہ کی سعادت کا ذکر ہے اور پھر جب وہ مکہ مدینہ کی روحانی فضا سے نکلتے ہیں تو انھیں اپنی دیکھی ہوئی دنیا کا نقشہ یوں نظر آتا ہے:
”آدمی آدمی سے بیزار ،دل دماغ،روح سب میں انتشار، سب اشک بار،مادہ پرستی کا دباؤ،قدروں کا بکھراؤ، اعصاب میں تناؤ،تہذیب کی ہلتی ہوئی بنیادیں،معاشرت کی گرتی ہوئی دیواریں،معاشیت کی بیٹھتی ہوئی چھتیں،مضبوط مذہبی جڑوں میں گھلتا ہوا شوراب،دین کے تنومند تنوں سے ادھڑتی ہوئی چھالیں،عقیدے کی سوکھتی ہوئی شاخیں،ایمان اور یقین کی پیلی پڑتی ہوئی پتیاں،انسانی وجودکی کایا پلٹ،بڑھاپے میں تبدیل ہوتا شباب،جوان چہرے پر جھلملاتی ہوئی جھریاں،پیشانی سے جھانکتی ہائی شکنیں ،آنکھوں میں ڈولتی ہوئی وحشت ناک پرچھائیاں،لبوں پر چیختی ہوئی بے چینیاں،ذرا ذرا سی خوشی اور خوش فعلی کے لئے بڑے بڑے بد رنگ تماشے،کریہہ المنظر کارنامے، مداریوں جیسے کرتب ،شعبدہ بازی اور سفلی عمل جیسے مظاہرے،نفرت کا گھناؤنا روپ،معصوم جسموں کے دھڑا دھر کٹتے ہوئے اعضا،دھڑ سے کٹ کرزمین پر گرتے ہوئے انسانی گوشت کے ٹکرے،کھٹاکھٹ ان کی بنتی ہوئی فلمیں، فیس بک پر ان کی تصویروں کی پوسٹنگ اور بےشمار لوگوں کی لائیکنگ ،جری ،نڈر اور بہادروں کی آنکھوں میں خوف ،دانشوروں کی بے بسی،سچ کی شکست انصاف کا قتل،محبت کی ہار اور نفرت کی جیت“ـ
دیکھ لی دنیا ہم نے میں غضنفر کی کردار نگاری ،واقعہ نگاری اور خاکہ نگاری کمال فن کو چھوتی نظر آتی ہے۔ انھوں نے خود نوشت کے لئے کوئی الگ سے اسلوب نہیں تراشا۔یہ اسلوب غضنفر کا فطری اسلوب ہے، جو ان کی رگ و پے میں رچا بساہے، جس سے وہ چاہ کر بھی خود کو الگ نہیں کر سکتے ۔اس کا ثبوت مختلف اصناف میں ان کے شعری اور نثری کارنامے ہیں۔مترادفات کا استعمال وہ بہت خوبی سے کرتے ہیں ۔جب کوئی لفظ ان کےذہن میں ابھرتا ہے تو اپنے تمام مترادفات کے ساتھ ابھرتا ہے اورغضنفر ان تمام مترافات کو جلد از جلدبرت لینے کے لئےبے چین نظر آتے ہیں،لیکن کبھی کبھی مترادفات کی زیادتی نثر کے فطری بہاؤ کو متاثر کرنے لگتی ہے۔ افسانوی اسلوب میں افسانہ لکھا جا سکتا ہے اور شاعرانہ اسلوب میںشاعری کی جا سکتی ہے ۔غضنفر کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نےشاعرانہ اسلوب میں افسانے لکھے اور افسانوی اسلوب میں نظمیں لکھیں۔لیکن کیا افسانوی اور شاعرانہ اسلوب میں خود نوشت بھی لکھی جا سکتی ہے۔ممکن ہے کہ کچھ ناقدین کا جواب نفی میں ہو،لیکن غضنفر نے یہ کارنامہ بھی کر دکھایا ہے۔خود نوشت اور سوانحی ادب کی تاریخ چونکہ بہت مختصر ہے اس لئے اس کے تنقیدی اصول و ضوابط بھی متعین نہیں کئے جا سکے ہیں اس کے باوصف یہ کہا جا سکتا ہے کہ غضنفر نے جودنیا دیکھی اسے قاری کوبھی دکھانے میں بھی وہ پوری طرح کامیاب ہیں۔امید ہے کہ ان کی خود نوشت کو سوانحی ادب میں ایک ممتاز اور منفرد خود نوشت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
نئی دہلی:لو جہاد ایکٹ پر راحت کی امید لگانے والی گجرات حکومت کو سپریم کورٹ نے بڑا جھٹکا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم کی بعض دفعات پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے کی جانچ کا فیصلہ کیا ہے۔سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کی درخواست پر نوٹس جاری کیا ہے۔ اس سے پہلے ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ لڑکی کو لالچ دے کر پھنسایا گیا ہے، تب تک لو جہاد ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔دراصل گزشتہ سال اگست میں گجرات ہائی کورٹ نے لو جہاد مخالف قانون کو لے کر ایک اہم فیصلہ سنایا تھا۔ ہائی کورٹ نے لو جہاد ایکٹ کی بعض دفعہ کے نفاذ پر روک لگا دی تھی۔ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ جمعیت علمائے ہند کی عرضی پر دیا تھا۔ جمعیت نے اس قانون پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔ گجرات حکومت نے مبینہ لو جہاد کو روکنے کے لیے 15 جون 2021 کو گجرات مذہبی آزادی (ترمیمی) ایکٹ 2021 نافذ کیا تھا۔ گجرات ہائی کورٹ نے حکم میں کہا کہ اس قانون کی دفعات ان لوگوں پر نافذنہیں ہو سکتی جن کے بین مذہبی شادی میں زبردستی یا دھوکہ دہی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ لڑکی کو لالچ دے کرپھنسایا گیا ہے، تب تک کسی کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جانی چاہیے۔
حجاب پرتنازعہ غیرضروری اورمداخلت بے معنی،وزیراعلیٰ نتیش کمارکااہم بیان،بہارمیں ہم کوئی دخل اندازی نہیں کرتے
پٹنہ :کرناٹک سے شروع ہوئے حجاب تنازعہ پرجم کرسیاست جاری ہے۔اس معاملے کوبڑھایاجارہاہے۔ہرکوئی اپنی روٹی سینکنے پرلگ گیاہے۔مجلس اوربی جے پی کے درمیان بیان بازی کامقابلہ ہے۔دونوں مل کراسے انتخابی ایشوبنانے میں لگی ہیں۔اب اس میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمارنے بیان دیاہے۔تیش کمار نے ملک میں جاری حجاب تنازعہ کو مکمل طور پر بے معنی قرار دیا ہے۔ بہار کی مثال دیتے ہوئے نتیش کمارنے کہا ہے کہ ریاست کے اسکولوں میں سبھی ایک جیسے کپڑے پہنتے ہیں، لیکن اگر کوئی لڑکی حجاب پہنتی ہے یا لڑکا اپنے ماتھے پر چندن لگاتا ہے، تو اس میں کیا ہوسکتا ہے؟نتیش کمارنے کہاہے کہ حجاب تنازعہ بے فائدہ ہے، اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ بہار کے اسکول میں تو سب ایک ہی قسم کا پہنتے ہیں، لیکن اگر کوئی سر پر حجاب یا ماتھے پر چندن لگاتا ہے تو اس کا کیا کیا جائے، ایک طریقہ ہے اور اس میں کسی کو دخل نہیں دینا چاہیے۔انہوں نے کہاہے کہ حجاب کا تنازعہ ہماری نظر میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کے جینے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ ہم اس میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ نتیش کمارنے کہاہے کہ حجاب تنازعہ جیسی چیزوں پر بحث یا توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب باتوں پر بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
پردہ پر بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ اسے تمسخر کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ اسے ملاّ کی ایجاد قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اعتراضات اسلامی نظامِ معاشرت کی خصوصیات، اس میں عورت کی حیثیت اور اس کے دائرۂ کار سے ناواقفیت یا تجاہل کا نتیجہ ہیں۔ اسلامی حجاب کے بارے میں قرآن وحدیث کے بیانات ان کے رد کے لیے کافی ہیں ۔
یہاں چند اعتراضات کا جائزہ لیا جارہا ہے، جنہیں پردہ کے مخالفین بہت زوروشور سے پیش کرتے ہیں :
(۱) آزادی سے محروی
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ عورت کو حجاب کا پابند بنانے سے اس کی آزادی سلب ہوتی ہے ، جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔ مرد کی طرح عورت بھی انسانی وجود رکھتی ہے ۔ اس پر کچھ زائد پابندیاں عائد کر دینے سے اس کی انسانیت کی توہین و تذلیل ہوتی ہے۔
اسلام نے عورت کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ مردوں کے سامنے ایک خاص وضع اور خاص لباس میں آئے۔ یہ حکم بعض معاشرتی مصالح کی بنیاد پر دیا گیا ہے، تا کہ لوگوں کے اخلاق پراگندہ نہ ہوں اور معاشرہ میں صنفی انتشار پیدا نہ ہو۔ اسے آزادی یا بنیادی انسانی حقوق پرقدغن نہیں قرار دیا جا سکتا۔ تمام متمدّن معاشروں میں رہن سہن کے خاص طریقوں کی پابندی کی جاتی ہے۔ مثلاً کسی کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ برہنہ ہو کر گھر سے باہر نکلے، یا سونے کا لباس پہن کر کام پر جائے، مگر اس پابندی کو فرد کی آزادی یا بنیادی انسانی حق کے خلاف قرار نہیں دیا جاتا۔ اسلام چاہتا ہے کہ عورت گھر سے باہر نکلے تو اپنے لباس، چال ڈھال اور گفتگو میں وہ طرز اختیار کرے جس سے کسی کے جذبات برانگیختہ نہ ہوں۔ وہ آرائش و زیبائش کے ذریعے لوگوں کی شہوت آمیز نگاہوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔ اس طرح اسلام اسے ساتر لباس کا پابند بنا کر معاشرہ کے افراد کی نگاہوں میں عزت و احترام کا مقام عطا کرتا ہے۔
(2)) عملی سرگرمیوں سے علیٰحدگی
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ پردہ عورت کو زندگی کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دیتا ہے۔ وہ گھر سے باہر کے کام نہیں انجام دے سکتی۔ اس طرح معاشرہ اپنی نصف آبادی کی فطری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہو جا تا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ صرف اسلام ہی عورت کی فطری صلاحیتوں سے صحیح طریقے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کوئی بھی نظام اسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب اس میں کاموں کی تقسیم مناسب ڈھنگ سے ہو اور جس کے ذمّے جو کام لگایا جائے وہ پوری امانت داری اور محنت سے انجام دے۔ اگر ہرشخص ہر کام انجام دینے لگے تو نظام میں خلل وفساد ناگزیر ہے۔ کوئی تجارتی کمپنی اسی وقت صحیح ڈھنگ سے چل سکتی ہے جب اس کے ملازمین میں سے کچھ لوگ اچھی سے اچھی مصنوعات تیار کرنے میں لگے ہیں اور کچھ دوسرے لوگ مارکیٹ میں اس کی پبلسٹی اور نکاسی کے لیے جدّوجہد کریں۔ اگر اس کمپنی کا ہر ملازم ہر کام اپنے ذمہ لے لے تو وہ ایک دن بھی نہیں چل سکتی ۔ اسی طرح نظامِ تمدن کو چلانے کے لیے اللہ تعالی نے مرداور عورت کے درمیان کاموں کو تقسیم کر دیا ہے۔ عورت کو گھر کے اندر کے کاموں کی ذمہ داری دی گئی ہے اور مردکو گھر کے باہر کے کاموں کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ بچوں کی پیدائش اور پرورش و پرداخت ایسا کام ہے جسے صرف عورت ہی انجام دیتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بڑی زیادتی ہوگی کہ اس طویل المیعاد اور محنت طلب کام سے تو اسے چھٹکارانہ ملے۔ اس کے ساتھ گھر سے باہر کے بھی بہت سے کام اس کے ذمے لگادیے جائیں۔ اسی لیے اسلام نے عورت کو معاشی جدّوجہد سے آزادرکھا ہے اورنفقہ کی ذمہ داری کلّیۃً مرد پر عائد کی ہے،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہی نہیں دیتا ہے اور اسے معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کلّیۃً روکتا ہے ۔ وقتِ ضرورت عورتوں کے لیے گھر سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشادفرمایا ہے:
”اللہ تعالیٰ نے تم (عورتوں) کو اجازت دی ہے کہ اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہو۔“ (بخاری)
عہدِ نبوی میں بہت سی صحابیات گھر سے باہر کے کاموں، مثلاً کھیتی باڑی، صنعت و حرفت اور تجارت وغیرہ میں اپنے شوہروں کی معاونت کرتی تھیں اور غزوات میں شریک ہو کر زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کرنے کی خدمت انجام دیتی تھیں۔
اسلام عورت کو ہر طرح کے معاشرتی، معاشی اور تمدّنی حقوق عطا کرتا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہے، وقت ضرورت کسبِ معاش کرسکتی ہے، اپنا سرمایہ تجارت میں لگا سکتی ہے، علم وثقافت کے فروغ میں حصہ لے سکتی ہے، اجتماعی مفاد کے لیے اپنی خدمات پیش کرسکتی ہے۔ لیکن اسلام عورت کو شمعِ محفل نہیں بنانا چاہتا۔ وہ مرد و زَن کا آزادانہ اختلاط سخت نا پسند کرتا ہے۔ اس لیے کہ یہ چیز اس کے نظام ِ معاشرت سے قطعاً میل نہیں کھاتی۔
(۳) میلان میں اضافہ
حجاب کے سلسلے میں ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان آزادانہ اختلاط پر پابندی عائد کرنے سے عورتوں کی جانب مردوں کے میلان اور رغبت میں اضافہ ہوتا ہے۔اس لیے کہ کسی چیز سے روک دینے سے انسان کی حرص اس میں اور بڑھ جاتی ہے۔ اگر نہیں کھلی چھوٹ دے دی جائے تو بہت جلد طبیعتیں سیر ہو جائیں گی اور جذ بات سرد پڑ جائیں گئے ۔
بے پردگی کے حامیوں کا یہ منطقی استدلال بھی خوب ہے۔ اگر سرمایہ داروں کی تجوریوں میں مال و دولت کے ڈھیر دیکھ کر غریب لوگوں کے دلوں میں اس کے حصول کی خواہش پیدا ہو تو کیا مشورہ دینا مناسب ہوگا کہ حفاظت کی تمام تدابیر ختم کردینی چاہییں اور کھلی چھوٹ دے دینی چاہیے کہ جو چاہے جتنا مال اٹھالے جائے۔ اسی تدبیر سے لوگوں کے دلوں سے مال کی رغبت ختم کی جاسکتی ہے؟ کیا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اخلاقی جرائم پر پابندی سے انسانوں میں جرم کرنے کی خواہش ابھرتی ہے۔ اگر ارتکابِ جرائم کی مکمل آزادی دے دی جائے تو تمام جرائم پیشہ افراد پر ہیزگار بن جائیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تمدّن کی تاریخ کے کسی دور میں اس منطق کو استعمال نہیں کیا گیا۔
انسان کی فطری خواہشات دو طرح کی ہیں: ایک محدود، جیسے کھانے اور سونے کی خواہشات۔ان کی جب تکمیل ہو جاتی ہے تو ان سے انسان کی رغبت ختم ہو جاتی ہے۔ دوسری خواہشات وہ ہیں جو غیر محدود ہوتی ہیں۔ مثلاً مال کی خواہش،یا جنسی میلان کہ ان سے طبیعت کبھی آسودہ نہیں ہوتی۔ جنسی میلان کے بھی دو پہلو ہیں: ایک جسمانی، دوسرا روحانی۔ جسمانی تسکین تو بسا اوقات ہو جاتی ہے، لیکن روحانی آسودگی کبھی نہیں ہوتی، بلکہ مسلسل ’ھل من مزید‘ کا تقاضا رہتا ہے۔ مردوزَن کے آزادانہ اختلاط کی صورت میں خواہشات میں سکون اور ٹھہراؤ آنے کے بجائے انہیں ہوا ملے گی اور معاشرہ میں مزید بے حیائی اور آوارگی کو فروغ ہوگا۔
یہ بات بھی پورے طور پر صحیح نہیں کہ جس چیز سے انسان کو روکا جاتا ہے اس کی حرص اس کے اندر بڑھ جاتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ایک طرف اسے روکا بھی جائے اور دوسری طرف اس کی رغبت بھی دلائی جائے ۔ لیکن اگر کسی چیز سے روکنے کے ساتھ اس کا ضرر رساں ہونا بھی واضح کیا جائے تو اس کی جانب رغبت پیدا نہیں ہوسکتی۔ آگ میں ہاتھ ڈالنے سے منع کیا جاتا ہے۔ پھر کسی کے دل میں اس کی خواہش کیوں نہیں پیدا ہوتی؟ اس لیے کہ اسے بتایا جاتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے ہاتھ جل جائے گا۔ یہی حال بے پردگی اور آزادانہ اختلاط کا ہے۔ اگر ان کے سماجی، اخلاقی اور دینی مضرّات بتائے جائیں اور ان پر پابندی کی حکمتیں واضح کی جائیں تو لوگوں میں ان کی طرف رغبت پیدانہیں ہوگی۔
بے پردہ معاشرہ
آج مغربی معاشروں میں جو سماجی برائیاں عام ہوگئی ہیں، مثلاً طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان، اغوا اور عصمت دری کے روز افزوں واقعات، بن بیاہی ماوں کی کثرت وغیرہ، ان کے اسباب پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ایک بنیادی سبب بے پردہ معاشرت ہے۔ وہاں عورتیں انتہائی زیب وزینت کے ساتھ بلا روک ٹوک، بے حجابانہ مردوں کے سامنے آتی ہیں۔ اس لئے وہ آسانی سے فتنہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ افسوس کہ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک نے ہم مسلمانوں کی نگاہوں کو خیرہ کر رکھا ہے اور ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ ظاہر کرنے کے لیے بغیر سوچے تھے ان کی نقّالی کر رہے ہیں۔ کاش ہمیں معلوم ہو کہ اگر عورت کی عصمت کی حفاظت ہوسکتی ہے اور اسے عزّت اور وقار مل سکتا ہے تو صرف اسلام کے سائے میں اور اگر وہ چین و سکون کی زندگی گزارسکتی ہے تو صرف اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہوکر۔
صوبہ کرناٹک کے اوڈپی ضلع میں مسئلہ حجاب پر جو شور وہنگامہ بپا ہے اس نے صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے،خصوصا ۸ فروری کی شام کی ایک وائرل ویڈیو نے اسے مزید شہرت دے دی ہیجس میں ایک برقعہ نشیں مسلم طالبہ درجنوں زعفرانی غنڈوں کے سامنینعرہ تکبیر (اللہ اکبر یعنی اللہ سب سے بڑا ہے) بلند کرتی ہوئی نظر آئی،اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی دنیا بھر کے مفکرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں وطن عزیز میں جاری مسلم مخالف سرگرمیوں کو واضح طور پر تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں،اور یہ اندیشہ ظاہر کررہی ہیں کہ بھارت میں جاری اسلاموفوبیا کی مختلف شکلوں کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی تو مستقبل قریب میں ملک بدترین خانہ جنگی سے دوچار ہوگا جس کی بھینٹ ہزاروں معصوم افراد چڑھیں گے،یوں تو ان مفکرین کی فہرست کافی طویل ہے جنہوں نے اپنے تشویش ناک خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن ان میں ایک سب سے نمایاں نام حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبردار اور مشہور ماہر لسانیات اورام نوآم چومسکی کا ہے،نوآم چومسکی امریکہ کے مشہور زمانہ میساچومسٹس انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شعبہ لسانیات میں پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں،انہیں لسانیات میں جینیریٹو گرامر کے اصول اور بیسویں صدی کے لسانیات کے بانی کے طور بھی جانا جاتا ہے،۲۱ فروری کو انڈین امریکن کونسل کی جانب سے منعقدہ ایک ویبینار میں ویڈیو میسیج کے ذریعہ لب کشائی کرتے ہوئے چومسکی نے کہا کہ بھارت میں اسلاموفوبیا اپنی خطرناک ترین اور بدترین شکل میں پنپ رہا ہے،یہاں ہندو انتہا پسند سیاسی جماعت،مودی کے زیر قیادت ایک منصوبہ بند سازش کے تحت سیکولرزم اور عوامی حکومت کی بیخ کنی کرنے پر تلی ہے،اور اسے نفرت پر مبنی ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہی ہے،انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت کو ملک سے ختم کرنے کے لئے اب تک جو کاروائیاں انجام دی جاتی رہیں وہ خفیہ اور پس پردہ تھیں تاہم اب انتہائی بیباکی کے ساتھ آزادء اظہار رائے اور حقوق انسانی کا گلا گھونٹا جارہا ہے،اور یہ مسلم اقلیت کے خلاف بڑے منظم طریقے سے ہورہا ہے۔
نوآم چومسکی کے علاوہ اس ویبینار میں دیگر مفکرین نے بھی دائیں بازو کی شدت پسند سیاسی جماعت اور وزیر اعظم مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا،واضح رہے کہ 2014ء میں حکومت کی کرسی پر قبضہ جمانے کے بعد مودی حکومت مسلسل ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلم جماعت کے خلاف اقدامات کررہی ہے،اور اسے ملک میں دوسرے درجے کا شہری بنانے پر آمادہ ہے،یہی وجہ ہے کہ روز افزوں نت نئے فرقہ وارانہ مسائل جنم دئے جارہے ہیں،اور اب معاملہ بایں جا رسید کہ امریکی ادارہ ”جینوسائڈ واچ” کے بانی گریگوری اسٹینٹن کے مطابق بھارت نسل کُشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور مسلم کمیونٹی کا مکمل صفایا صرف ایک قدم دور رہ گیا ہے،ادارہ ”جینوسائڈ واچ” نے روانڈا قتل عام سے پہلے بھی پیشین گوئی کی تھی جو کہ صد فیصد درست ثابت ہوئی،لہذا اس بیان کو محض قیاس آرائی پر محمول کرکے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت پوری دنیا میں اپنی گنگا جمنی تہذیب سے جانا جاتا ہے،یہاں مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ہزاروں سالہ طویل تاریخ ہے،لیکن زعفرانی جماعت کے رویے پوری دنیا میں اس کی شبیہ کو مجروح اور داغدار کررہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے حکومت ایسی تمام کاروائیوں پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کرے جو ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کا کام کررہی ہیں،اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا قلع قمع کررہی ہیں،تاکہ ملک کے تمام باشندے پرسکون اور باعزت زندگی گزار سکے اور وطن عزیز کی شبیہ کو بھی داغدار ہونے سے بچایا جاسکے۔