ملک کی سب سے بڑی ریاست میں انتخابی بگل بج چکاہے، بھارت کی قومی سیاست میں اتر پردیش اور بہار کی جو حیثیت ہے اس سے کون واقف نہیں ، ۲۰۱۴ء سے ملک جس راہ پر چل پڑا ہے اور معاشرہ جس قدر زہرناک ہو گیا ہے اس کا احساس منصف مزاج غیر مسلم صحافیوں کو بھی ہے ، جو وقتًا فوقتًا اس بابت اظہارِ خیال کرتے رہتے ہیں ، اس زہر ناکی کا سب سے زیادہ مشاہدہ اتر پردیش میں کیا گیا ہے اور آئندہ اس سے بھی زیادہ نقصانات کا اندیشہ مسلّم ہے ، لیکن صد حیف پھر بھی ہم ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ، ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ہمارے پاس کچھ پانے کی کوئی امید نہیں ہے لیکن ہم مزید کچھ کھونا بھی نہیں چاہتے ، ہم کبھی اپنی قیادت کے وجود و ضرورت کے منکر و مخالف نہیں رہے ، بلکہ جب سے شعور کی دولت ملی تب سے ہمارا قلم اسی احساس کی آبیاری کر رہا ہے ، کاش یہ کام بہت پہلے ہی شروع ہو گیا ہوتا ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم کبھی بھی لفاظی اور بغیر منصوبہ بندی کے محض جذباتی طور پر حصہ داری کا خواب دیکھنے اور اپنی قیادت کا نعرہ لگانے کے قائل نہیں رہے ، زمینی حقائق سے آنکھیں موند کر محض جذباتی فیصلوں نے ہی ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے ۔
جو لوگ حصے داری کی بات کرتے ہیں انھیں اچھی طرح ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے ، محض خواہشات اور تقریروں کے سبب قیادت نہیں ملا کرتی ، اگر کسی قوم کو قیادت میں حصہ داری کے لیے سال دو سال کی محنت درکار ہے تو مسلم قوم کو پوری یکسوئی اور منصوبہ سازی کے ساتھ دوگنی اور سہ گنی مدت درکار ہے ، اس لیے کہ ساری ہی قومیں ہمارے خلاف ہیں ، بحیثیت مسلم ہماری بالا دستی کسی کو قبول نہیں ، دلت مسلم اتحاد کا نعرہ خوب لگایا جاتا ہے ، لیکن ہم تجربہ کر چکے ہیں کہ دلتوں کو اگر شبہ بھی ہوجائے کہ کسی طرح باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں چلی جائے گی تو وہ کنارہ کشی اختیار کر لیں گے ، پھر اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ آزاد بھارت کی تاریخ میں مسلم مجلسِ مشاورت سے زیادہ طاقت ور سیاسی قیادت مسلمانوں میں نہیں ابھری ، اس عہد کے تمام بڑے بڑے نام اسکے سرپرستوں میں شامل تھے ، لیکن حشر کیا ہوا اور کیوں ہوا اور کامیابی کس قدر ملی تھی ، ان سوالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیے بغیر جذباتی فیصلے مزید الگ تھلگ کرنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے ، عام طور پر حصہ داری کا نعرہ لگانے والے یہ سوال کرتے ہیں کہ سیکولرزم کا مکھوٹا لگانے والوں نے آج تک ہمیں کیا دیا ؟ سب سے پہلی بات اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ ہماری سب سے پہلی غلطی یہ ہیکہ ہم نے سیکولرزم و کمیونلزم کو بنیاد بنا کر اکثریت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک طبقے کو اپنا دشمن بنا لیا ، حالانکہ دونوں کی ہی کوشش ہمیں حاشیہ پر لانے کی تھی ، دوسری غلطی یہ تھی کہ اگر انھوں نے دیا نہیں تو ہم نے لینے کے لیے کبھی کوئی منصوبہ بھی تو نہیں بنایا ، ہمارے یہاں خود سپردگی اور مفاد پرستی کا طرز عمل جاری رہا اور جاری ہے ، کبھی ایسا نہ ہوا کہ کسی ادارے یا کسی تنظیم نے سیاسی حصہ داری کے لیے افراد سازی کر کے لوگوں کو میدان سیاست میں ایک وژن (VISION)کے ساتھ اتارا ہو ، اور نہ ہی یہ ہوا کہ ملت کے سیاہ سفید کے مالک ایک میز پر بیٹھے ہوں اور انھوں نے کسی پارٹی کی مشروط حمایت کے لیے ایجنڈا تیار کیا ہو اور پھر ملی مفاد میں سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی ہو ، حصہ داری کا نعرہ لگانے والوں کو ۱۸سے ۲۰ فیصد مسلمان کا عدد تو نظر آتا ہے مگر یہ نہیں نظر آتا کہ بغیر زمینی تیاری اور کیڈر بیس سیاست اور سالہا سال کی محنت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ، کاشی رام اور ملائم سنگھ والی محنت اگر کسی مسلم لیڈر نے اپنی قیادت کو وجود بخشنے کے لیے کی ہو تو اس کا نام ضرور سامنے آنا چاہیے ، ہاں مسلم لیڈران شعلہ بار لفاظی کے ذریعہ ضرور میدان مارنے کی کوشش کرتے ہیں ، اگر نصیب یاوری کر جائے تو پھر ملی مفادات کو اپنے مفادات کے لیے قربان کر آتے ہیں، اس سے آگے بڑھیے تو یہ سو چنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا ووٹ متعدد وجوہات کی بنا پر تقسیم ہوتا ہے ، سوچنے کی بات ہے کہ آپ ۱۸ ؍ فیصد ووٹ کا نعرہ لگا کر ڈپٹی سی ایم کی کرسی مانگتے ہیں ، اور صورت حال یہ ہوتی ہے کہ یہ ۱۸؍ فیصد مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوتا ہے، ایک ہی سیٹ پر کئی کئی مسلم امیدوار ہوتے ہیں ، مسلکی تقسیم بھی ووٹ کی تقسیم کا سبب بنتی ہے ، ذات پات کا جن بھی بوتل سے باہر آتا ہے ، اور ایک بڑا طبقہ صرف اپنے مفادات کی خاطر ووٹ کرتا ہے ، اسے ہندو مسلم سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ، اسے صرف یہ نظر آتا ہے کہ فلاں کے جیتنے سے میرا فلاں کام ہوجائے گا ۔ یہ حقائق ہیں سوشل میڈیائی سراب یابند کمرے کے خواب نہیں۔ بھارت کی سیاست میں حصہ داری میں آپ تب ہی کامیاب ہو سکتے ہیں جبکہ آپ نظریاتی بنیادوں پر افراد سازی کے عمل میں کامیاب ہوں ، اور پھر چھوٹے انتخابات سے ابتدا کر کے اوپر آنے کی کوشش کریں ، جب آپ قوم میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں مکمل کامیاب ہوجائیں ، جب آپ اس لائق ہوجائیں کہ جس طرح یادو ، کرمی اور چمار آپ کے ووٹ کو حاصل کر کے اقتدار تک پہنچ گئے اسی طرح آپ ان کا ووٹ حاصل کر کے اقتدار تک پہنچ جائیں ، اور ان کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے آپ کا سیاسی شعور و منصوبہ بڑا ماہرانہ اور پیشہ ورانہ ہونا ضروری ہے ، بصورت دیگر کوئی بھی مسلم سیاسی جماعت محض مسلم ووٹ کی طاقت سے پورے اتر پردیش میں ۲۰؍ نشستیں بھی نہیں جیت سکتی ، اور بفرض محال اگر خالص مسلم مسلم کی رٹ لگانے والی جماعت ۲۰؍ نہیں ۵۰؍ نشستیں جیت جائے تو حکومت سازی کرنے والی جماعت اسکو اپنے اتحاد کا حصہ نہیں بنائے گی خواہ دوبارہ انتخاب کی نوبت آجائے ،اور دوبارہ انتخاب کی صورت میں سب سے بڑی پارٹی کو عوام کی مکمل حمایت حاصل ہوگی اور مسلم جمات کی جیتی ہوئی نشستیں مزید کم ہوجائیں گی ، بھارت جیسے ملک میں مذہبی بنیاد پر سیاسی شعلہ باری علحٰیدگی پسندی کا ثبوت ہے جو کسی صورت میں کسی بھی طرح سے درست نہیں ، اس طرز سیاست سے علحٰیدہ ایک خطہ زمین تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن تکثیری سماج میں سیاسی حصہ داری نہیں حاصل کی جاسکتی ، بھارت کی سیاست کے بارے میں یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ یہاں سیکولرزم کبھی رہا ہی نہیں ، کوئی سیکولر نہیں الا ماشاء اللہ ، یہاں سب موقع پرست ہیں ، ہمیشہ موقع پرستی کی بالادستی رہی ہے ، سیکولرزم کے نام پر اپارچنزم (OPPORTUNISM)کی حکمرانی رہی ہے ، مسلمانوں کی بھول رہی ہے کہ وہ سیکولرزم کی حقیقت کو سمجھے بغیر تنہا اس کی حفاظت کا ٹھیکہ لیے رہے اور اس کا دم بھرتے رہے ، لوگ انھیں ہندو راشٹر کی تعمیر سے ڈراتے رہے اور وہ اپارچنزم کے فریب کو سمجھ ہی نہیں پائے ، یوں تو مسلمانوں کے سفید پوشوں اور کھدّر دھاریوں میں بھی بڑے بڑے موقع پرست(OPPORTUNIST)ہوئے ہیں مگر من حیث القوم مسلمان کبھی بھی موقع پرستی یعنی اپارچنزم کو استعمال کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ، جبکہ دیگر کئی قومیں اسی کا استعمال کر کے اقتدار تک پہنچ گئیں ۔
موجودہ منظر نامہ میں ہندتوا بھی اپارچنزم کا ایک حصہ ہے ، آپ دیکھ رہے ہیں کہ بی جے پی نے تمام سیاسی جماعتوں کو خود کو ہندو ثابت کرنے پر مجبور کر دیا ہے ، سیکولرزم ولبلرزم وسوشلزم کے سبھی علمبردار کسی نہ کسی طرح خود کو ہندو ثابت کر رہے ہیں ، پیرایۂ بیان جدا ہو سکتا ہے مگر سکّہ رائج الوقت کا استعمال سب کر رہے ہیں اور اسی کے ذریعہ حصولِ اقتدار کی راہ ہموار کر رہے ہیں ،اس تناظر میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لینا چاہیے کہ مسلمانوں کا ووٹ موثر تو ہوسکتا ہے لیکن وہ بی جے پی کو ہرانے کا سبب نہیں بن سکتا ، بی جے پی اتنی بڑی اکثریت کے ساتھ تب ہی آسکی جب اس کو ہندوؤں نے بلا تفریق ذات برادری ووٹ دیا ، وہی اس کو ہرا بھی سکتے ہیں اور ہٹا بھی سکتے ہیں ، مسلمانوں کے ہرانے سے بی جے پی نہیں ہارے گی ، اور ہرانے کی مہم بھی نہیں چلانا چاہیے، البتہ مسلمانوں کا انتشار یا متحدہ ووٹنگ کا شور ہندوؤں کو ایک بار پھر ہندوازم کے نام پر بی جے پی کو بطور پہلی پسند کے ووٹ کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے ، بی جے پی کی دوسری بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے ساری پارٹیوں کو مسلمانوں سے بڑی حد تک کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے ، جس کا مشاہدہ لوگ کھلی آنکھوں کر رہے ہیں ، کوئی بھی ووٹ کے لیے مسلمانوں کو رجھانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے ، بد قسمتی سے وقت کی نزاکت و سنگینی کو سمجھے بغیر مسلمان بھی علٰحدگی پسند سیاست کے جھانسے میں آگئے ہیں ، اگر یہ سیاست بیس سے پچیس فیصد بھی کامیاب ہوگئی تو مسلمانوں کا ووٹ مزید بے حیثیت ہو کر رہ جائے گا ، خود اس وقت مسلم ووٹ کی یہ حیثیت ہوگئی ہے کہ سب یہ سمجھ کر بیٹھے ہیں کہ یہ ووٹ تو ہم کو بغیر مانگے مل کر رہیں گے ، کاش مسلمانوں نے موقع پرستی کا استعمال کیا ہوتا ، انھیں اس سے فائدہ اٹھانا آیا ہوتا ، وہ کسی پارٹی کے دوست اور کسی کے دشمن نہ بنے ہوتے تو آج اس طرح حاشیہ پر بھی نہ کھڑے ہوتے ، یوں بھی بھارت جیسے ملک میں اقلیتوں کا موقع پرست ہونا ہی دانشمندی ہے ، اس کے نتیجے میں انھیں جینے کا حق (SURVIVAL)کا موقع رہتا ، اور پھر اگر پھر وہ اقلیتیں دانشمند ہوتی ہیں تو وہ اسی دورانیے سے فائدہ اٹھا کر ٹھوس منصوبہ سازی کے ذریعہ نہ صرف اپنی جڑیں مضبوط کر لیتی ہیں بلکہ اقتدار کی منزل تک پہنچنے کا خواب بھی پورا کر لیتی ہیں ۔
فی الوقت کا منظر نامہ وجود بچانے کا ہے ،تشخص کی حفاظت کا ہے ،عصمت و عفت کی حفاظت کا ہے ، ملک کے جمہوری اقدار اور دستور کی حفاظت کا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس کے تحفظ کا ٹھیکہ صرف مسلمانوں نے لے رکھا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ آخر دشمن کے نشانے پر اورکون ہے ؟ سب سے زیادہ کس کو ستانے پر وہ آمادہ نظر آتے ہیں ؟سب سے زیادہ اپنے تشخص کی فکر اور ضرورت کس کو ہے ؟ سب سے زیادہ عدم تحفظ کا احساس جس قوم میں پنپ رہا ہے اسی کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے کہ وہ جمہوریت و دستور کی حفاظت کا سامان کرے ، یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ بعض لوگ بڑی شدّو مد کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ بھارت ہندو راشٹر بننے والا ہے ، لیکن میں نے ہمیشہ پوری وضاحت سے یہ بات کہی کہ بھارت منوواد کی حکمرانی والا ہندو راشٹر بننے کا کبھی اعلان نہیں کر سکتا ، کیونکہ خود ہندوؤں میں اتنی برادریاں اور اتنے اختلافات ہیں جو ہندو راشٹر کی حمایت کر ہی نہیں سکتے ، منوواد کی حکمرانی قبول کر ہی نہیں سکتے ، بڑی عیاری کے ساتھ تقریبًا ۷۰؍فیصد لوگوں کو ہندو بنا لیا گیا ، جو آزادی کے بعد پہلی مردم شماری سے پہلے تک ہندو نہیں لکھے جاتے تھے ، لیکن۱۹۵۳ء کی مردم شماری میں انھیں ہندو لکھ دیا گیا ، واقعہ یہ ہے کہ انھیں صرف ووٹ اور فسادات کے لیے ہندو بنایا گیا ، ورنہ آج بھی پنڈت ان کے یہاں کھانانہیں کھاتا ، آج بھی صدر جمہوریہ تک کو مندر میں جانے سے روک دیا جاتا ہے ، آج بھی خود بی جے پی میں ذات پات کو لے کر جو اختلافات ہیں وہ اب سوشل میڈیا سے نکل کر انتخابی موضوعات میں شامل ہوگئے ہیں، کاش مسلم دانشوران ان موضوعات کا فائدہ اٹھا پاتے ، خیر ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ جب علی الاعلان منوواد کی حکمرانی والے ہندو راشٹر کی بات ہوگی تو یہی ہندو برادریاں علم بغاوت بلند کریں گی ، اس لیے یہ اعلان تو نہیں ہوگا ، البتہ مسلم دشمن اور مسلم مخالف ہندو راشٹر پر سب کا اتفاق ہو سکتا ہے ، میرے نزدیک ہندو راشٹر کا مطلب ’’مسلم مکت‘‘بھارت ہے ، اور اس معنی میں ہندو راشٹر بہت پہلے قائم ہو چکا ، CAA/NRCاحتجاجات کے زمانے میں اسکی تصویریں دیکھی گئیں ، جس بری طرح سے مسلمانوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچایا گیا اسکی مثال فسادات کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے ، دوسرے درجہ کا شہری ہونے کا احساس دلانے میں حکومت نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ، بلکہ شاید اگرکرونا دخل اندازی نہ کرتا تو بچی کھچی ساکھ بھی چلی جاتی ، بھارت میں فسادات کی ایک طویل تاریخ ہے ، لیکن عدم تحفظ ، دوسرے درجہ کی شہریت اور بے مائیگی کا جو احساس پچھلے سات سالوں میں پیدا کیا گیا ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کوئی جیت بھی جائے تو ہمیں کیا ملے گا ؟ پہلی بات یہ ہے کہ ملنے کی امید چھوڑ کر طویل مدتی منصوبہ کے طور پر چھین لینے اور حاصل کر لینے کی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، اور اس سوچ کی نشو نما کے لیے کم از کم ایسی حکومت لانے کی ضرورت ہے جو زبان و قلم پر قدغن نہ لگائے ، جو زخم ہی دے مگر زخم پر مرہم کے بجائے نمک نہ چھڑکے ، جس میں برائے نام ہی شرم و لحاظ اور احساس جوابدہی ہو ، جس سے مل کر اپنی بات کہی جا سکے ، جو کم از کم بات تو سنے خواہ ٹال دینے کے لیے سنے ، جو روزانہ زبان کے زخموں سے ہمارا دل نہ چھلنی کرے جو کم از کم ہمارے کمزور و غریب طبقے کو کھانے کمانے دے ، جو دستور کی تبدیلی کا منصوبہ نہ بنائے خواہ عملًا دستور پر عمل پیرا نہ ہو ، اگر یہ ماحول مل جائے تو پھر ذمہ دار قوم کی ذمہ داری ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا منصوبہ بنائے ، ہم نے اوپر واضح کر دیا کہ حصہ داری اور اپنی قیادت کے وجود کے لیے کن امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، فی الوقت کی ترجیحات میں سب سے پہلی ترجیح یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے ووٹ تقسیم نہ ہو ں، ہمارے صوبے میں ایک ایسی حکومت آئے جو بی جے پی جیسے عزائم نہ رکھتی ہو ، جو عملًا ایسا بھارت تعمیر کرنے کی حمایت نہ کرے جس بھارت میں مسلمان پریشان ہو ، دوسرے درجہ کا شہری ہو ، احساس کمتری کا شکار ہو ، کیونکہ میری معلومات کی حد تک بی جے پی کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس طرح کی اشتہاری مہم نہیں چلاتی کہ فلاں کی حکومت بناؤ تو ان مسلمانوں کو پاکستان بھیج دیا جائے گا ، پھر ان کی جائیداد تمہارے درمیان تقسیم کر دی جائیں گی ، ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۷ کے انتخابات میں گاؤں گاؤں یہی تشہیر کی گئی تھی بلکہ بڑے بڑے مکانات باعتبار مستقبل لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے تھے ، یہ سب کانوں سنے اور آنکھوں دیکھے حالات ہیں ، یہی وجہ ہے گاؤں کے عوام سارے چھوا چھوت اور ذات برادری کے نظام کو بھول کر ’’مودی ‘‘ کے عشق میں دیوانے ہو گئے تھے ، ان ہی دعوؤں کی تکمیل کا جھانسہ دینے کے لیے CAAڈرامہ رچایا گیا تھا ، یہ جن ان بیچاروں کو فریب دینے کے لیے اب بھی باقی ہے ، گر چہ اب بھی وہ نشہ اترا نہیں ہے لیکن برادری واد اور کسان آندولن نیز مہنگائی اور بی جے پی کے اندرونی اختلافات نے بڑی حد تک ناکامی کی راہ ہموار کی ہے ، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی سب بھول کر پھر سے رام اور ۸۰؍بنام ۲۰؍ کی گھٹیا سیاست پر اتر آئی ہے ، موجودہ منظر نامہ میں جبکہ ہر کسی کو اپنے آپ کو دیش بھگت اور ہندو ثابت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہو ، ایسے بیانات بڑی اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں کہ ’’ہماری حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا ،حکومتی مراعات اور اسکیموں سے وہ یکساں طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں ‘‘ یا یہ بیان کہ ’’ ملک میں اصل لڑائی گاندھی کی سوچ رکھنے والوں اور گوڈ سے وادیوں کے درمیان ہے ‘‘، کاش مسلمان اس بیان کو سمجھ پاتے اور خود تماشائی بن کر اسی لڑائی کو ہوا دیتے ، ایک کسان نیتا کا یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل تھا ، اس سے پوچھا گیا کہ یوگی جی تو کہہ رہے ہیں کہ متھرا میں بھی مندر بنائیں گے اس نے کہا ’’مندر مطلب آستھا بھڑکانا ‘‘ پھر اس نے اپنی بات میں توازن پیدا کرنے کے لیے کہا کہ سیاست میں مندر مسجد گرجا اور دھرم کی بات صرف جذبات کے استحصال کے لیے کی جاتی ہے ، حکومت کا کام مندر کی تعمیر کی نہیں اسپتال و اسکول کی تعمیر ہے ، اس سے آگے بڑھ کر اس نے کہا کہ اب یہ اس کا آخری وقت ہے اور آخری وقت میں ’’رام نام ستیہ ‘‘ہی کہا جاتا ہے ، پھر اس کے بعد بی جے پی کے کچھ وزیر وایم ایل اے بھی مستعفی ہوئے ، اس پورے منظر نامے کو سمجھنے اور غیر جذباتی تجریہ کرنے کی ضرورت ہے ، اپنے ووٹ کی کھوئی ہوئی حیثیت کو بحال کرنے کی ضرورت ہے، بچکانہ غلطیاں نہ کرتے ہوئے ۸۰؍بنام ۲۰؍ کی سیاست کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے ، جب ماحول ساز گار ہو جائے تو پوری تندہی ، منصوبہ سازی اور دانشمندی کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلانے اور اپنی قیادت کو کھڑا کرنے کی ضرورت ہے ، جو قومیں وقت کی ترجیح کا درست تعین نہیں کر پاتیں ، جذبات کی رو میں بہتی ہیں اور درست فیصلے کرنے کے بجائے بے وقت کی شہنائی بجاتی ہیں وہ کبھی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ پاتیں ، ہانپنا اور تھک ہار کر حسرت و ندامت کے ساتھ بیٹھ جانا ان کا مقدر بن جاتا ہے ۔
17 جنوری, 2022
تکثیری سماج کی فرقہ وارانہ تقسیم اور اس کے خلاف مزاحمت کی ضرورت- مولانا عبدالحمید نعمانی
زندگی کا راستہ، جدو جہد اور مخالف طاقتوں سے مزاحمت سے گزر کر منزل تک گیا ہے، ہر میدان میں موجودگی کے بغیر عملی و نظریاتی خلا کو پر نہیں کیا جا سکتا ہے ، اس کے سبب متعلقہ سماج میں مایوسی اور بے سمتی کی حالت طاری رہے گی ، ہمارے یہاں کوئی نیا موثر قائد سامنے نہیں آرہا ہے اور جب کسی کے سامنے آنے کا راستہ ہموار ہوتا نظر آتا ہے تو کچھ مخالف قوتوں کی سرگرمیوں اور زیادہ تر ہماری غفلت و بے اعتنائی کی وجہ سے راستہ مسدود ہو کر رہ جاتا ہے ، اس کے علاوہ معروف و موجود قیادت کی منفی و مکروہ شبیہ ابھارنے کی کوششوں سے تحریک کی ٹھوس زمین ، دلدل میں بدل جاتی ہے جس میں زیادہ زور آزمائی سے آدمی مزید دھنستا چلا جاتا ہے ، جدو جہد کی کامیابی کے لیے اپنی تیار کر دہ زمین اور میدان ہونا چاہیے، اس میں دفاع بھی موثر ہوتا ہے اور اقدام بھی نتیجہ خیز ہوتا ہے۔
سماج دشمن عناصر کی طرف سے جاری سر گرمیوں کے خلاف مختلف سمتوں سے جو کوششیں ہورہی ہیں اور آواز اٹھ رہی ہیں ، ان کو نظر انداز اور نفی کرنے سے سماج میں مایوسی پیدا ہوگی ، ان کی تائید و حمایت ہر میدان کے رجال کار کو اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے اور ضروری سوالات اٹھانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔جناب اسد الدین اویسی کے طرز سیاست سے اختلاف کی پوری گنجائش ہے ، تاہم حال کے دنوں میں انھوں نے سنگھ کے متعلق ، تحریک آزادی وطن میں شرکت کے حوالے سے معقول سوال اٹھایا ہے ۔ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے کئی اہم نکات اٹھا کر صورت حال کو ایک صحیح رخ دینے کی کوشش کی ہے ، اگر وہ عام انتخابات کے موقع پر رافیل کے بجائے ہندو تو وادی طاقتوں کے حوالے سے راشٹر واد کو صحیح طریقے سے اٹھاتے تو کچھ مختلف سیاسی و سماجی اثرات مرتب ہو سکتے تھے ، اسی طرح حالیہ دنوں کی اشتعال انگیز تقاریر و بیانات ،مسلم خواتین کی بولی و نیلامی ، مقدس عظیم شخصیات کی توہین ، 80فیصد بنام 20فی صد جیسے امور پر بھی اگر صحیح سمت میں پیش رفت ہوگی تو بہتر اثرات و نتائج مرتب و برآمد ہو سکتے ہیں ، اس سلسلے میں کسی مایوسی اور پس پائی کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ قدرت نے موثر جدو جہد سے نتیجے کو جوڑ دیا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ مطلوبہ اقدامات اور نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں تاہم مزاحمت اور ضروری سوالات یقینی طور سے سماج کے سامنے آرہے ہیں ، ان کے تھوڑے بہت اثرات سے انکار حقیقت پسندی نہیں ہے ، جمعیة علما ہند ، جماعت اسلامی ہند ، مشاورت ، جمعیة اہل حدیث ہند، ملی کونسل ، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز ، دارالعلوم دیو بند، خانقاہ رحمانی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ ،امارت شرعیہ اور دیگر تعلیمی ، سماجی ، سیاسی ، اقتصادی اداروں کا کسی نہ کسی نہج و جہت سے کردار ہمارے سامنے آتا رہتا ہے ، ان کی طرف سے جاری کوششوں اور ان کے طرز فکر و عمل سے وابستگی رکھنے والوں کی مزاحمتی و مثبت سر گرمیوں کا نتیجہ ہے کہ فاشسٹ طاقتوں کے خلاف ،کسی نہ کسی سطح پر اقدام کا سلسلہ جاری ہے ، جس طرح بین الاقوامی سطح کی 27تنظیموں نے یتی نرسنہا نند اور دیگر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ، اسے انصاف و انسانیت کے تحفظ و فراہمی کے لیے جاری سر گرمیوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا ہے ، سپریم کورٹ میں دائر استغاثہ اور مقدمات اور سپریم کورٹ کی شنوائی ،کی منظوری اس بات کی علامت ہے کہ بھارت میں فاشزم کا تسلط اور جارحانہ ہندو راشٹر کا قیام بہت آسان نہیں ہے ، ویسے بھی ہندو تو وادی عناصر نے،بھارتیہ سنسکرتی کے گن گان اور نعرے کے ساتھ اقتدار اور طاقت میں آنے کے بعد اپنے قول و فعل سے نہ تو کوئی بہتر نمونہ پیش کیا ہے اور نہ ہی دیس میں سکھ ،شانتی کے ماحول میں ذرا بھی بہتر کردار ادا کیا ہے ۔
ہندوتوا عناصر کی طرف سے مسلم حکمرانوں کی مکردہ شبیہ اور ان کے مبینہ مظالم کو زور شور سے بیان کر کے اکثریت میں اشتعال پیدا کر کے اس کو اپنے ساتھ کرنے اور رکھنے کی برابر کوششیں کی جارہی ہےں، لیکن اس کے بر عکس امن و انصاف کی فراہمی میں ابھی تک پوری طرح ناکام ہیں ، بی،جے پی کی سرکار والی ریاستوں میں کوئی بہتر نمونہ حکمرانی سامنے نہیں آرہا ہے، اس سلسلے میں ماضی قریب کے ایک دو حوالے سے صورت حال کو بہتر طور سے سمجھا جاسکتا ہے، مراٹھوں اور دہلی کے قرب و جوار میں غیر مسلم تفوق والے علاقے میں مسلم اقلیت کی حالت ناگفتہ بہ تھی ، جب کہ اسی وقت روہیلوں کے زیر اثرعلاقے میں مذہبی رواداری کا بہتر نمونہ تاریخ میں درج ہے، روہیلے بے حد تشدد سمجھے جاتے تھے ، لیکن ان میں مذہبی تعصب نام نہ تھا، نجیب الدولہ ہندوﺅں کے تہواروں کا خاص خیال رکھتا تھا، بستر مرگ سے اس نے اپنی فوجوں کو حکم دیا کہ گنگا کے میلے میں آنے جانے والے ہندو یاتریوں کی جان مال کی پوری حفاظت کی جائے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات) اس تناظر میں موجودہ حالات کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ہندو تو عناصر نے اب تک کی سر گرمیوں ،اقدامات اور کرتوتوں سے اپنی نااہلی، منفی ،جارحانہ فکرو عمل ، نسل پر ستی ، جات پات ،فرقہ پرستی کی راہ ہی ہموار کی ہے ، اس تعلق سے یہ اچھی بات ہے کہ اس کے خلاف، ملک و بیرون ممالک میں ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے سر گرم نظر آتے ہیں ، جن بین الاقوامی سطح کی تنظیموں نے اشتعال انگیزی اور کسی کمیونٹی کو قتل کی دھمکی دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ، ان میں جہاں یورپ کی انڈین الائنس، فیڈریشن آف انڈین امریکن وغیرہ تنظیمیں ہیں ، وہیں ، ہندو فارہیومن رائٹس ،امریکن دلت فورم جیسی تنظیمیں بھی ہیں ، اس کے باوجود بھی اگر فی الحال کوئی واضح تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے تو اس میں سیاسی پشت پناہی صاف نظر آرہی ہے ، اس صورت حال میں متبادل طریق کار اور حکمت عملیوں پر غور و خوض ہونا چاہیے ، کسی بھی بہتر جدو جہد اور کوشش کا کچھ نہ کچھ تو اثر ہوتا ہی ہے ، اس کی مثال کرناٹک کے تیز طرار بی ، جے پی لیڈر تیجسوی سوریا کے خلاف قومی اقلیتی کمیشن کی طرف سے ، سی جی پی کی درخواست پر کارروائی ہے ، تیجسوی سوریا نے اپنے کچھ رفقاءکے ساتھ ، کورونا کے تناظر میں مسلم اقلیت کے خلاف فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوشش کی تھی ، جس کے نتیجے میں ،16مسلم کارکنوں کو برخواست کر دیا گیا لیکن ان کی طرف سے جدو جہد اور جانچ کے بعد بحالی ہوگئی ، 200 میں صرف 16 مسلم ناموں کی نشاندہی کر کے فرقہ وارانہ خطوط پر سماج کو تقسیم کر کے سیاسی فائدے کے لیے کام کرنے کا معاملہ بہت صاف ہے ، مودی ، یوگی کی تقسیم کی سیاست اور خود کی بے تحاشا نمائش اور پرچار سے عوام اور ملک کی ترقی اور امن و استحکام کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے ،اس سلسلے کی عوامی بیداری تحریکات اور سر گرمیوں کے کچھ نہ کچھ اچھے نتائج یقینا نکلیں گے ، یہ بات پوری طاقت سے کہنے اور عمل سے ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارت جیسے تکثیری سماج اور ملک کے جمہوری نظام میں 80 فیصد بنام 20 فیصد کی فرقہ وارانہ تقسیم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔
مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے زیر اہتمام چھ روزہ "اردو ڈرامہ فیسٹیول” کا انعقاد
بھوپال:مدھیہ پردیش اردو اکادمی ،محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام 11 جنوری سے 16 جنوری 2022 تک روزانہ شام 7 بجے "اردو ڈرامہ فیسٹیول” کا انعقاد کیا گیا۔ چھ دن چلنے والے اس فیسٹیول میں بہترین ڈرامے پیش کیے گئے اور بڑی تعداد میں ناظرین نے شرکت کی۔ کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ پورا ہال کھچا کھچ بھر گیا۔ کووڈ کے لیے جاری ہدایات کو مد نظر رکھتے ہوئے سوشل ڈسٹینسگ کے تحت ناظرین کو بٹھانے کا انتظام کیا گیاتھا۔ چھ ڈراموں پر مشتمل یہ ڈرامہ فیسٹیول بے حد کامیاب رہا۔
پہلا دن
پہلے دن شام 7 بجے پروگرام کا افتتاح کیا گیا۔ پروگرام کی ابتدا میں اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے ڈرامہ فیسٹیول کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مدھیہ پردیش اردو اکادمی ہر سال ڈرامہ فیسٹیول کا انعقاد کرتی ہے۔ اسی سلسلے کے تحت اس سال 6 ڈرامے اسٹیج کیے جارہے ہیں۔ اس کا مقصد اردو زبان میں ڈراموں اور تھیٹر کی روایت کو زندہ رکھنا ہے ساتھ ہی اس کے ذریعے اس فن سے جڑے ہر فنکار کو اسٹیج فراہم کرانا بھی ہے۔ اس سال آزادی کا امرت مہوتسو کے موضوع کو بھی ڈرامہ فیسٹیول میں شامل کیا گیا ہے۔
پروگرام کے پہلے دن "برسا منڈا” ڈرامہ اسٹیج کیا گیا۔ یہ ڈرامہ مشہور ڈرامہ گروپ رنگ محلہ سوسائٹی فار پرفارمنگ آرٹ،بھوپال کے ذریعے پیش کیا گیا،اس کے مصنف رشیکیش سلبھ ہیں۔
ڈاکٹر نصرت مہدی نے برسا منڈا کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ برسا منڈا کی زندگی انسان کی عزت نفس کے لیے جدوجہد کی علامت ہے۔ برسا منڈا کی زندگی ان کی قوم کو غلامی کی مشکل زندگی سے آزادی دلانے کی جدو جہد میں گزری۔ انھوں نے منڈاؤں کو یکجا کرکے نئے سماجی انتظام اور آزادی کے لیے لڑائی لڑی۔ ان کی اسی جدو جہد کو ڈرامے کی صورت میں ڈھال کر پیش کیا گیاہے۔ یہ ڈرامہ پردیپ اہروار کی ہدایت کاری میں پیش کیا گیا اور منتظمین اسٹیج تھے عدنان خان اور وویک ترپاٹھی۔ ان کے علاوہ دیگر فنکاروں میں رمیش اہیرے، اودے نوالکر، یوگیش وشوکرما ،سنیتا اہیرے اور ودھیادھر آمٹے وغیرہ موجود رہے۔
دوسرا دن
"اردو ڈرامہ فیسٹیول” کے دوسرے دن "رام : امام ہند، ناز ہند” ڈرامہ پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ ابھیودے سانسکرتک منچ، اندور کے ذریعے پیش کیا گیا، جس کے مصنف و ہدایت کار آلوک واجپائی ہیں۔ پروگرام کی ابتدا میں اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے اردو شاعری میں رام کے مقام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو شاعری میں رام کا ذکر کریں تو نظیر کے یہاں رام پر بہترین شاعری ملتی ہے۔ چَکبست نے رام کے رخصتِ بن باس کا نقشہ کھینچا ہے توعلامہ اقبال نے ان کی شجاعت، پاکیزگیِ نفس اور رعایا سے ان کی محبت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں امامِ ہند کہا ہے۔ آج کے ڈرامے کی تھیم اور موضوع بھی یہی ہے اور ڈرامہ کا نام ہے "رام : امام ہند، ناز ہند”.
اس ڈرامہ کے تحت اردو شاعری میں رام پر مرکوز نظموں کو ایک تمثیلی مشاعرے کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے۔ یہ ادبی حصہ تقریباً پچاس منٹ کا ہے، باقی اتنے ہی حصے میں میوزیکل ڈرامہ ہے۔ یہ ڈرامہ کی ایک نئی قسم ہے جسے انفو ڈرامہ کہہ سکتے ہیں، مطلب اس میں کئی اہم معلومات بھی ڈرامائی شکل میں پیش کی جارہی ہیں۔ ڈرامہ کے ذریعے قومی یکجہتی، بھائی چارے اور محبت کا پیغام دیا گیا ہے، اور ملک کی مثبت تعمیر میں ایک دوسرے کے مذہب اور علماء کے لیے محبت، عزت اور امن کی طرف بھی یہ ڈرامہ اشارہ کرتا ہے۔
تیسرا دن
اردو ڈرامہ فیسٹیول” کے تیسرے دن "خانم بی” ڈرامہ پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ ینگس تھیٹر فاؤنڈیشن ، بھوپال کے ذریعے پیش کیا گیا جس کے مصنف ایس این لال اور ہدایت کار سرفراز حسن ہیں۔
پروگرام کی شروعات میں ڈاکٹر نصرت مہدی نے اردو ڈراموں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب میں ڈرامہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کا پودا کسی دوسرے ملک سے نہیں لایا گیا بلکہ اس نے ہندوستان میں ہی جنم لیا اور یہیں پرورش پائی، اس لئے یہاں کی کہانیاں، یہاں کے مناظر اور یہاں کی تاریخ ڈراموں میں نظر آتے ہیں۔ اسی سلسلے کے تحت آج کے پیش کردہ ڈرامہ "خانم بی” میں آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔ ڈرامے میں ایک ایسے کوٹھے کی کہانی ہے، جہاں لڑکیوں کو ادب، شاعری، موسیقی اور رقص سکھانے کی درسگاہ کے طور پر بہت عزت کے ساتھ پہچانا جاتا ہے۔ اس کوٹھے کو وطن پرست خانم بی نام کی ایک بہت عزت دار اور بااصول خاتون چلاتی ہیں جو اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبت کرنے والی ہیں اور جو بٹوارے کے خلاف رہتی ہیں اور اپنی ذہانت سے پاکستان بننے کے نقصانات کی پیشین گوئی کرتی ہیں جو کچھ سالوں بعد صحیح ثابت ہوتی ہے۔ ڈرامے کے اہم فنکاروں میں کیتکی اشڑا، شمبھاوی استھاپک،پریم جین، راہول کشواہ، رام تیواری، دیپانشو کمار، امن اگروال، مریم رضا، ظفر رضوی، شبھم سین وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
چوتھا دن
"اردو ڈرامہ فیسٹیول” کے چوتھے دن جل ککڑے-٣ ڈرامہ پیش کیا گیا۔ اس ڈرامہ کے مصنف رفیع شبیر اور تخلیقی ہدایت کار فرخ شیر خان ہیں۔
پروگرام کی شروعات میں ڈاکٹر نصرت مہدی نے اردو ڈراموں میں طنزومزاح کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب میں طنز و مزاح پر مبنی موضوعات کو بہت کامیابی کے ساتھ برتا گیا ہے۔ اس طرز کے ڈرامے، کہانیاں، افسانے اور شاعری دلچسپ انداز میں عمدہ درس بھی دے جاتے ہیں. آج کا ڈرامہ جل ککڑے بھی ایسا ہی ایک ڈرامہ ہے۔ جلن ایک برا جذبہ تو ہے لیکن جل ککڑے ڈرامے میں یہ کس طرح اپنی صورتیں بدلتا ہے اور ڈرامے میں اس کی کتنی دلچسپ شکلیں نظر آتی ہیں یہ دیکھنے لائق ہے. در اصل ڈراموں میں اس طرح کے تمام موضوعات اپنی عام سماجی تفہیم سے الگ بھی ایک معنی قائم کرتے ہیں۔
جل ککڑے ڈرامے کے ذریعے مڈل کلاس فیملی کے رہائشی مسائل کے ساتھ اکیلے پن کے شکار ان مرد حضرات کا غم پیش کیا گیا ہے جن کے بچے انھیں چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے بھجنے سے وہ خوش ہوجائیں گے، مگر یہاں وہ دوسروں کے خاندان کو دیکھ جلتے کڑھتے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ اس ڈرامے میں ایسے ہی مرد حضرات کے ذریعے ہی معاشرے کے کئی پہلوؤں پر طنز کیا گیا ہے اور مزاح کے ذریعے معاشرے کی ایک چھپی ہوئی سچائی کو دکھایا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ ان کرداروں کی کہانی ہے جو اپنے غموں سے نہیں بلکہ دوسروں کی خوشی سے زیادہ عمگین ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی میں ایک خواہش لے کر جیتا ہے، وہ خواہش پوری نہ ہونے پر جلنے کڑھنے سے لفظ جل ککڑا وجود میں آتا ہے. اس ڈرامے کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر ہم دوسروں کی خوشی دیکھ جلنے کے بجائے جو کچھ ہمیں ملا ہے اسی میں خوش رہیں تو زندگی آسان ہوجاتی ہے. ڈرامے کے فنکاروں میں محمد آصف، سمت مشرا، یوگی چندرونشی،متھن دھوریا، زبیر عالم، سنجے پنچاکشری، عمران خان، انکر راؤ، شروتی دھرمیشن کے نام شامل ہیں۔
پانچواں دن
"اردو ڈرامہ فیسٹیول” کے پانچویں دن "نظیر تو بے نظیر” ڈرامہ پیش کیا گیا۔ جس کے مصنف ڈاکٹر رضوان الحق اور ہدایت کار راجیو سنگھ ہیں۔ پروگرام کی شروعات میں ڈاکٹر نصرت مہدی نے نظیر اکبرآبادی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نظیر پہلے شاعر ہیں جن کی شاعری مکمل طور پر ہندوستانی فضا میں سانس لیتی نظر آتی ہے۔ ان سے قبل اردو شاعری میں ہندوستانی فضا اور ہندوستانی عوام کی زندگی اس طرح نہیں پیش کی گئی تھی کہ ان سے زندگی کے تمام نشیب و فراز ہمارے سامنے آ جائے۔
ان کی نظموں میں جہاں عوامی زندگی جیتی جاگتی، ہنستی بولتی اور چلتی پھرتی نظر آتی ہے اسی طرح در باروں، شہروں، بازاروں، خانقاہوں اور مندروں کی رونق اور چہل پہل بھر پور انداز میں دکھائی دیتی ہے۔ انھیں ہندوستان کے ذرے ذرے سے بے پناہ محبت و عقیدت ہے۔ اس لیے انھوں نے ہندوستان کے مختلف تیوہاروں، تقریبوں، میلوں ٹھیلوں اور مذہبی رہنماؤں کی شان میں کثرت سے نظمیں لکھی ہیں۔ انھوں نے جہاں عید، شب اور حضرت سلیم چشتی کے حوالے سے نظمیں تخلیق کی ہیں وہیں ہولی، دیوالی، راکھی، کنھیا جی، رام کرشن جی، بلد یو جی اور گرو نانک پر بھی نظمیں تحریر کی ہیں. آج کا یہ ڈرامہ نظیر کی نظموں پر مبنی ہے، اور خاص بات یہ ہے کہ نظیر کا کردار بھی اسٹیج پر اداکاری کرتا نظر آرہا ہے جو خود اپنی یعنی نظیر اکبرآبادی کی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے ہوئے نظیر کی اپنے ملک سے ، ملک کی عوام سے، یہاں کے تہواروں، یہاں کے موسموں غرض ہندوستان کی ہر چیز سے محبت کو اپنی اداکاری کے ذریعے سب کے سامنے پیش کرتا ہے. نظیر اکبر آبادی کی وہ نظمیں جن میں انھوں نے عوام کے مسائل اور میلوں ٹھیلوں اور تہواروں، ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو موضوع بنایا ہے اس ڈرامہ کا حصہ ہیں. اس ڈرامے میں آدمی نامہ، بنجارہ نامہ، مفلسی، دیوالی، ککڑی جیسی نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں کی مدد سے نظیر کے کردار کے ذریعے محبت کی مثال پیش کی گئی ہے اور قومی یکجہتی، اپنے وطن سے محبت کا پیغام دیا گیا ہے. ڈرامے میں اسٹیج پر موجود فنکاروں میں یوگیش تیواری، انوپ شرما، ندھی دیوان، طلعت حسن، شیو کٹاریا، پشپیندر سنگھ، راہول سنگھ وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
آخری دن
"اردو ڈرامہ فیسٹیول” کے آخری دن "بھاگ اونتی بھاگ” ڈرامہ پیش کیا گیا۔ یہ پیشکش بھوپال تھیٹرز کی جانب سے کی گئی۔ ناٹک کے مصنف ہیں یوگیش سومن اور ہدایت کار ہیں معروف اداکار راجیو ورما۔ پروگرام کی شروعات میں ڈاکٹر نصرت مہدی نے کہا کہ اردو اکادمی کا ایک کام دوسری زبانوں میں لکھے جارہے ادب اور دیگر اصناف کا اردو زبان میں ترجمہ کرنا بھی ہے۔ اس سے اردو زبان جاننے والوں کو دیگر زبانوں میں ہونے والے ادبی اور فنی تبدیلیوں علم ہوتا ہے اور اس سے زبانیں مالامال ہوتی ہیں۔ آج کا ڈراما یوگیش سومن کے طبع زاد مراٹھی ڈرامہ "لگین گھائی” کا ہندی/اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ پروین مہووالے اور راجیو ورما نے کیا ہے. پروین مہووالے اس ڈرامے میں مرکزی کردار بھی نبھا رہے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں عام آدمی کو اپنی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بڑی مشقت کرنا پڑتی ہے. ایسے میں اگر کسی بڑی بیماری پر جمع رقم خرچ ہوجاتی ہے تب کبھی کبھی انسان پریشان ہوکر ایسے فیصلے لے لیتا ہے کہ حالات مضحکہ خیز ہوجاتے ہیں. ایسے ہی حالات کی مثال ہے یہ بھاگ اونتی بھاگ۔ اسٹیج پر موجود فنکاروں میں پروین مہو والے، رہتا ورما، ادیشا نایر،ابھیشیک ٹھاکر وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
حال ہی میں بر صغیر پاک و ہند کے عظیم روحانی میکدہ معرفت خانقاہ رائپور میں بیرسٹر جناب اسد الدین اویسی صاحب صدر مجلس اتحاد المسلمین سے باضابطہ شرف نیاز حاصل ہوا ۔اسد الدین صاحب کی یہاں کی یہ حاضری رائپور کے سجادہ نشین عظیم روحانی اور عرفانی روایتوں کے حامل حضرت الحاج شاہ عتیق احمد صاحب دامت برکاتہم کی زیارت اور شرف ملاقات صرف اسد الدین صاحب کی عقیدت اور محبت کے اظہار کی خاطر تھی۔ اس میں ان کی کسی قسم کی سیاسی آمیزش اور مفاد شامل نہیں تھا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی سیاسی گفتگو طرفین سے ہوئی۔اس غیر سیاسی ملاقات میں شامل نوجوان عالم دین جناب ڈاکٹر عبد المالک صاحب مغیثیی۔ حضرت شاہ عتیق صاحب کے جانشین اور فرزند ڈاکٹر بدر عالم صاحب رائپوری۔جناب قاری مستقیم صاحب کھجناوری جناب مولا نا محمد اسلم صاحب کھجناوری۔ جناب آس محمد صاحب۔جناب قاری عاطف صاحب۔ جناب قاری مصروف صاحب۔قاری افتخار صاحب۔ قاری مزمل صاحب ۔جناب شوکت علی صاحب جناب وسیم صاحب جناب مستفیض کاشفی صاحب۔ وغیرہ کے علاوہ اور دیگر احباب شامل تھے ۔
ذاتی طور پر میرے لیے یہ ان سے ملاقات بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ اب تک ان سے جو تعارف تھا وہ محض غائبانہ تھا.اس لیے ان کو سننے سے زیادہ دید کا شوق اور دید سے زیادہ سننے کا اشتیاق طبیعت پر غالب تھا۔ آج اس خواہش کی تکمیل ہوئی اور اسد الدین صاحب کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ مضبوط اور فولادی اعصاب۔ آہنی ارادے۔ اورمردان حسن کا شاہکار۔ پر شکوہ شخصیت لاکھوں ہندوستانی لوگوں کے دلوں کی دھڑکن اور محبوب شخصیت کا سراپا یہ تھا کہ تواضع اور عاجزی سے بچھاجارہا تھا۔ نہ ہی اس کے چہرے پر تکبر اور بڑائی کی سلوٹیں تھیں اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو صدر مجلس سمجھ رہا تھا بلکہ عجز و انکساری کا زندہ پیکر تھا۔ اس کی چوڑی اور چمک دار پیشانی اور اس کی آنکھوں کے سرخ اور لال ڈورے اور اس کی لمبی خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ وہ ملت کی نیا کو ساحل مراد تک پہچانے کی خاطر شکست اور فتح کی حد بندیوں سے بالاتر ہوکر کسی لمبے سفر پر نکلا ہوا ہے۔ جہاں نہ اس کے چہرے پر کسی قسم کی تھکن کے آثار تھے اورنہ ہی پائے استقامت میں کوئی تھرتھراہٹ تھی۔
اسد الدین اویسی صاحب سے میری طرح بہت سے لوگوں کو بہت سے معاملات میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص تنہا سب کے معیار اور منشا پر کھرا نہیں اتر سکتا۔ اور میرے خیال میں اس کو سب کے معیار پر کھرا اترنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔اسی طرح ان لوگوں کو بھی صبر اور شانتی کا مظاہرہ پیش کرنا چاہیے جن کی رائے کے خلاف کوئی قدم حالات اور مصلحت کے پیش نظر اٹھ جائے۔
ہمیشہ سے ہماری کسی بھی قائد اور رہنما پر مخالفت کے معیار الگ الگ رہے ہیں۔ بعض وہ لوگ ہیں جو کسی سیاسی پارٹی یا جماعت سے وابستہ ہیں وہ ہر صورت اپنے مد مقابل کی مخالفت کرے گا۔ہر عیب اور برائی اس میں تلاش کریگا۔غرض اسے مخالفت ہر صورت کرنی ہے چاہے فریق مخالف کتنا ہی پاک صاف کیوں نہ ہو۔
کچھ بلاوجہ ہی فریق بن جاتے ہیں۔ ان کو مخالفت سے کچھ ذاتی فائدہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ بس وہ مخالفت کر رہے ہیں۔ کیوں کر رہے ہیں ان کو بھی پتہ نہیں۔بلکہ ان کو اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ وہ صحیح یا غلط کا ادراک کرسکیں بس انہیں بلاوجہ مخالفت سے کام۔
اسد الدین صاحب کی مخالفت جو لوگ کررہے ہیں ان میں سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملت کو ہمیشہ دھوکہ دیا ہے۔ ملت کے نام پر اپنی تجوریاں بھری ہیں۔ اب انہیں اپنی سیاسی دکان اجڑ تی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس بے چینی کے سبب وہ مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔ کبھی وہ ان کو بی جے پی کا ایجنٹ بتاتے ہیں اور کبھی سیکولر ووٹوں کا کا ٹنے والا غرض ستر سال سے کسی نہ کسی بہانے اور چالاکیوں سے مسلم قیادت کو خود مسلم قیادت نے ابھرنے نہیں دیا پاؤں میں زنجیریں ڈال دی یا پاؤں ہی کا ٹ کر رکھ دیے۔ یہ اس ملت کا سب سے بڑا المیہ رہا ہے کہ اجتماعی طور پر کبھی کسی پر اعتماد خود مسلم قیادت نے ہونے نہیں دیا۔
اسد الدین صاحب بھی اس کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے قد کو گھٹانے بلکہ ختم کرنے کے لیے جوڑ توڑ شروع ہوچکا ہے وہی الزام لگنے شروع ہو گئے جو پچھلے ستر سالوں سے ہماری عادت کا حصہ کسی نہ کسی صورت میں رہے ہیں۔
۔ہم اسد الدین صاحب کو سمجھیں، پرکھیں۔ دوسری معاصر سیاسی جماعتوں اور قائدین سے ان کا تقابل کریں۔ ان کی گزشتہ سیاسی زندگی کا ملت اور قوم کے حوالے سے مطالعہ کریں۔ اس کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچ کر آپ فیصلہ کیجییے کہ وہ قوم کے لیےکتنے مفید اور کتنے نقصان دہ ہیں۔اس نے اب تک
ملت کے لیے۔ قوم کے لیے بلکہ ہندوستان کے ہر شہری کے لیے۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے لیے۔ ہندوستان کے امن و شانتی کے لیے۔ اس کی ترقی اور اس کی قانونی با لادستی اور وقار کے لیے۔ کیا نقصان اور کیا فائدہ کیا ہے۔اگر آپ واقعی سچائی سے ان کی پارٹی اور خود ان کا جائزہ لیں تو بلامبالغہ ان سے تمام تر سیاسی اختلاف کے باوجود وہ اپنی ذات میں ایک خوبصورت ہندوستان کا عکس اور نمونہ ہیں۔ان کی تمام سیاسی زندگی ہندوستان کی جمہوریت اور قانونی با لادستی کا اعلان اور عنوان ہے۔ کیونکہ وہی ایک سچا ہندوستانی ہوسکتا ہے جو آئین کی آواز اور جمہوریت کا محافظ اور نگہبان ہو۔اسد صاحب نہ صرف جمہوریت کے محافظ ہیں۔بلکہ انہوں نے دوسرے لوگوں کو خاص طور پر سخت گیر عناصر کو بھی جمہوریت اور آئین کے پاس و لحاظ کا پاٹھ بھی پڑھا یا ہے۔
آپ کے حوالے سے حضرت مولانا سجاد نعمانی صاحب نقشبندی کی رائے کی تائید کرتا ہوں۔ ابھی ملک کی جو صورت حال ہے۔اس میں ان کی رائے بہت مناسب ہے۔ ابھی ہمارا مقابلہ براہ راست یہاں کی اکثریت سے کسی بھی صورت مناسب نہیں ہوگا۔ بلکہ ابھی ان طاقتوں سے مقابلہ کیا جائے۔ جو جمہوریت اور آئین کی مخالف ہیں۔جو ملک کے سیکولر ڈھانچے کو گرانا چاہتی ہیں۔ اس کی آئینی اور قانونی بالا دستی کے مخالف ہیں۔ان آئین مخالف عناصر کا مقابلہ ہم ان سیاسی جماعتوں اور سیکولر ذہن رکھنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر بہ خوبی کر سکتے ہیں۔ اس ملک میں آج بھی ایسے لوگ اکثریت میں خود موجود ہیں۔جو ملک کی اقلیت کو عزیز اور ان کے حقوق کا پاس و لحاظ کرتے ہیں اور ساتھ ہی ملک کی قانونی اور آئینی بالادستی کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور اس کی روایت کو قائم رکھنے کے لیے جدوجہد بھی کرتے ہیں۔
دوسری رائے حضرت مولانا سلمان حسینی صاحب کی ہے۔ہم ان کی تائید بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے آپ کو ان دونوں حضرات کی رائے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے بلکہ پوری ملت کو ان کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔
اسی پس منطر میں آپ سے یہ درخواست گزار ہوں کہ ضلع سہارنپور بیہٹ سیٹ سے آپ کی پارٹی سے امجد علی عباسی صاحب کنڈ یڈیٹ ہیں۔ دوسری طرف بسپا سے رئیس ملک صاحب ہیں اور سماجوادی وادی سے عمر علی خان صاحب ہیں۔ اس سیٹ سے یہ تین مسلم کنڈیڈیٹ ہیں۔ تینوں کنڈیڈیٹ میں یہاں مضبوط عمر علی خان صاحب ہیں۔ وہ پندرہ سال سے مسلسل یہاں محنت کر رہے ہیں۔ با اخلاق اور طبیعت کے نیک ہیں۔ بلا تفریق مذہب و ملت ان کو عوامی محبوبیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے اگر آپ اپنے کنڈیڈیت امجد عباسی صاحب پر غور فرمالیں تو مناسب ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فریق مخالف اس سے فائدہ اٹھا لے۔
ملک کی پانچ ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور اور گوا میں الیکشن کمیشن نے سات مرحلوں میں انتخابات کا اعلان کردیا ہے۔ ۱۰ فروری سے شروع ہونے والے یہ انتخابات ۷ مارچ تک جاری رہیں گے اور دس مارچ کو ان پانچ ریاستوں کے نتائج کا اعلان ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کا سیاسی پارہ چڑھ گیا ہے۔ پنجاب ، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا میں تو وہ ہلچل نہیں ہے جو ہل چل یوپی میں ہے؛ کیونکہ یہ ریاستیں یوپی کے مقابل بہت ہی چھوٹی ہیں؛ اس لیے یہاں اتنی سرگرمیاں نہیں ہیں، یوپی اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یوپی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دہلی کا راستہ یوپی سے ہوکر ہی گزرتا ہے ۔یوپی کا الیکشن ۲۰۲۴ کے پارلیمنٹ الیکشن کا سیمی فائنل بھی ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ جو پارٹی یوپی میں اکثریت سے حکومت قائم کرتی ہے اس کےلیے پارلیمنٹ کا الیکشن جیتنا آسان تصور کیاجاتا ہے۔ یوپی میں فی الحال بی جے پی کی واضح اکثریت والی حکومت ہے اس سے قبل سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی اور اس سے پہلے مایاوتی کی ۔ کانگریس یوپی سے ۱۹۸۹ سے ہی ختم ہے۔ اس سے قبل ۱۳ اگست ۱۹۸۰ میں مرادآباد عیدگاہ فائرنگ کا سانحہ پیش آیاتھا جس میں چالیس کے قریب مصلیوں کو پولس نے شہید کردیا تھا، ایمرجنسی کے نفاذ اور نس بندی کے اعلان، اور پھر بابری مسجد کے تعلق سے کانگریس کا منافقانہ رویہ ان سب چیزوں سے وہاں کے مسلمان ناراض ہیں اور جب سے مسلمان کانگریس سے روٹھے ہیں اترپردیش سے کانگریس دور ہوگئی ہے۔
کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو لوگ سیکولر سمجھتے ہیں بی جے پی کو فرقہ پرست؛ لیکن کانگریس، بی ایس پی اور ایس پی کے دور اقتدار میں جو مظالم ہوئے ہیں مسلمانوں کے ساتھ وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اور کانگریس کے علاوہ بی ایس پی کبھی بی جے پی کی حمایتی بنی ہے تو کبھی ایس پی ۔ ایس پی کے سربراہ ملاملائم بارہا پارلیمنٹ میں بی جے پی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نظر آئے ہیں اور مایاوتی کا کردار تو خیر واضح ہے۔
اتنی لمبی تمہید کا مقصد یہ تھا کہ یوپی کے مسلمانوں نے بہت سارے ادوار دیکھے ہیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا دور اقتدار بھی دیکھا جہاں مظفر نگر فساد ہوا، جہاں مرادآباد عیدگاہ قتل عام ہوا اور جہاں ہاشم پورہ کے نہتے مسلمانوں کو ندی میں ڈال کر گولیوں کا نشانہ بنادیاگیا۔ وہیں بی جے پی کا بھی دور اقتدار دیکھا ہےجہاں کلیان سنگھ کے دور اقتدار میں بابری مسجد کو شہید کردیاگیا اور یوگی کے دور اقتدار میں بابری مسجد رام مندر کو سونپ دی گئی، یوگی کے دور اقتدار میں مسلمانوں پر کس طرح شکنجہ کسا گیا، انہیں کس طرح روزگار سے محروم کیاگیا، کس طرح لو جہاد کا شوشہ چھوڑ کر مسلم بچیوں کو مرتد بنانے کی مہم چھیڑی گئی، کس طرح مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی اسکیم چلائی گئی، مسلمانوں کی لنچنگ کا لامتناہی سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یوپی کے مسلمانوں کے لیے سیکولر اور فرقہ پرست دونوں ایک ہی ثابت ہوئے ہیں، کوئی آرایس ایس کا کنفرم رکن ہے تو کسی کی دھوتی سے آر ایس ایس کی چڈی نظر آتی ہے، خیر مسلمانوں کےلیے دونوں ہی نقصان دہ ہیں۔ اب مسلمانان یوپی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ کوئی ایسی پارٹی بھی نہیں ہے جس کا تعاون کیاجائے اور نہ کوئی ایسا اتحاد و گٹھ بندھن جس پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیاجائے کیوں کہ مسلمان سبھی کوآزما چکے ہیں۔
اترپردیش میں اویسی کی پارٹی سے بھی کافی ہلچل ہے۔ نوجوان مسلم ووٹرس اویسی کو ارطغرل ہند سمجھتے ہوئے نجات دہندہ تصور کررہے ہیں؛ لیکن یہ اترپردیش جیسی ریاست میں ممکن ہی نہیں ہے کہ اویسی کی پارٹی اقتدار میں آجائے ، کیونکہ صرف مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار نہیں مل سکتا، اس کے لیے پچھڑی جاتیوں کے ووٹ درکار ہوتے ہیں اور پچھڑی جاتیاں ہمیشہ مستعمل رہی ہیں ان کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا وہ کب کس کے پالے میں میں چلے جائیں۔ ویسے ابھی دبی کچلی اور پچھڑی جاتیاں خاموش ہیں جس سے یوپی میں کنفیوژن کی صورت برقرار ہے اور یہ کنفیوژن بی جے پی کے حق میں معاون ہوسکتی ہے اورامکان ہے کہ دوبارہ بی جے پی کی حکومت قائم ہوجائے۔ اگر مسلم ووٹوں کی تقسیم نہ ہوئی اور پچھڑی جاتیوں کے ووٹر یکمشت کسی نام نہاد سیکولر پارٹی کو ووٹ دے دیتے ہیں تو ممکن ہے کہ بی جے پی ختم ہوجائے ۔
ابھی یوپی میں ایک پارٹی سے چھلانگ لگا کر دوسری پارٹی میں داخلے کی کارروائی شروع ہے، کل تک جو فرقہ پرست تھے وہ آج سیکولر ازم کے امام بن گئے ہیں کل تک جو مسلمانوں کے تعلق سے اشتعال انگیزیاں کرتے رہے ہیں، جو مسلمانوں کے سروں پر انعام کا اعلان کرتے رہے ہیں وہ آج ان کے محافظ بننے کا بھی اعلان کررہے ہیں۔ سب سے زیادہ بی جے پی کے ممبران اسمبلی دوسری پارٹیوں میں داخل ہوئے ہیں جس سے بی جے پی خیمے میں بھگدڑ ہے۔ بعض سیاسی ماہرین اس دل بدل کو آر ایس ایس کی چانکیہ نیتی قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی اپنی یقینی شکست کو دیکھ کر دوسرا راستہ اپنا رہی ہے، یہ ایم ایل اے دوسری پارٹیوں میں جاکر جیت حاصل کرنے کے بعد پھر سے بی جے پی کی گود میں آگریں گے اور بعض کا کہنا ہے کہ واقعتاً وہ لوگ ناراض ہیں اور اپنے ٹکٹ کاٹے جانے کے خوف سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا سہارا لیا ہے۔ خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کون کس مقصد سے کہاں آیا تھا اور کہاں گیا تھا۔
آخری بات: سوال یہ ہے کہ یوپی کا مسلمان کسے ووٹ دے، بی جے پی کے خوف سے اکھلیش کو، بی جے پی کے خوف سے مایاوتی کو، بی جے پی کے خوف سے کانگریس کو، کس کو آخر ووٹ دے۔ بعض اکابرین اویسی کو سیکولر ووٹوں کی تقسیم روکنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوں گے۔ تو ہونے دیں؟ میرے خیال سے یوپی میں مسلمانوں کے لیے اپنی سیاسی قوت پیدا کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس جو مسلمانوں کا نام تک نہیں لیناچاہتے، جو مسلمانوں کو محض دری بچھانے اور اسٹیج سجانے کااہل سمجھتے ہیں انہیں اویسی کی وجہ سے احساس تو ہوجائے کہ مسلم ووٹوں کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں انہیں یہ احساس دلانے کےلیے اویسی کی حمایت ضروری ہے بھلے سے اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوجائے ۔اس سے خوفزدہ نہیں ہوناچاہئے جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ کانگریس، ایس پی، بی ایس پی کی حکومت آئی تو کیا گیارنٹی ہے کہ مظفر نگر جیسا سانحہ نہیں ہوگا، کیا گیارنٹی ہے کہ گیان واپی مسجد اور متھرا شاہی عیدگاہ پر آنچ نہیں آئے گی۔ کوئی ضمانت نہیں پھر کیوں سیکولرازم کا جنازہ اکیلے ناتواں کندھوں پر ڈھوتے رہیں۔
شوکت پردیسی 1924 میں ملیشیا میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصلی نام محمد عرفان تھا۔ ان کا آبائی گاؤں، جونپور شہر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موضع معروف پور تھا۔ ضلع جونپور کی ادبی و تاریخی سر زمین سے تعلق رکھنے والے شاعر و نغمہ نگار شوکت پردیسی کتابوں کے اوراق و صفحات میں پوشیدہ تھے۔
شوکت پردیسی کے بیٹے محمد ندیم نے اپنے والد کے اشعار و کلام کو یکجا کرنے کے بعد اسے کتابی شکل دے کر منظرِ عام پر لاکر ان کی شخصیت کو روز روشن کی طرح دنیا کے سامنے عیاں و بیاں کر دیا ہے تو وہیں محمد ندیم کی اس نیک پہل کو علمی و ادبی حلقوں میں کافی سراہا بھی جا رہا ہے ان کی اس کاوش کی وجہ سے اردو دنیا میں شاعر شوکت پردیسی کا نام دوبارہ زندہ و تابندہ ہو گیا۔
شوکت پردیسی نے بنیادی تعلیم ملیشیا سے حاصل کی، 12 سال کی عمر میں والدین کے ساتھ ہندوستان آ گئے۔ 2 سال تک لکھنؤ میں مقیم رہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ گرچہ سند فراغت حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد جونپور شہر میں سکونت اختیار کر لی، شہر کے مشن اسکول حال راج کالج میں داخلہ لیا اور تعلیمی سلسلہ مڈل اسکول تک چلا۔ سنہ 1957 میں ممبئی سے لوٹنے کے بعد بقیہ زندگی کے ایام اپنے سسرال جمدہاں میں گزاری۔
شوکت پردیسی کا تعلق ادبی و علمی گھرانے سے تھا جس کا نتیجہ یہ رہا کہ وہ 14 سال کی عمر سے ہی شعر و سخن میں شغف رکھنے لگے تھے۔ کم عمری میں ہی ایک غزل کہی جس کا ایک شعر قارئین کی نظر ہے۔
ہم نشیں ابتدائے الفت میں
نظر انجام پہ نہیں جاتی
شوکت پردیسی کو ان کی حیات و زندگی میں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا، جس کے وہ حقدار تھے وہ ایک خاموش طبع مزاج شخصیت تھے ان کو تشہیر بالکل پسند نہ تھی۔ شوکت پردیسی کی خاموش مزاجی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بیٹے ماسٹر شمیم احمد بتاتے ہیں کہ خود ہم لوگوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کی شاعری اس مقام و مرتبہ کی ہے۔اور اتنی خاموشی کے ساتھ وہ اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں لیکن اتنا علم تو ضرور تھا کہ ان کی شاعری اس وقت کے اردو حلقوں میں کافی مقبول تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت کے تقریباً ہر ادبی رسالے میں ان کے نظم و اشعار شائع ہوتے رہتے تھے شوکت پردیسی کو کثیرالاشاعت شاعر کہا جاتا تھا۔
شاعری کا موضوع
شوکت پردیسی کی شاعری میں ان کی انفرادی زندگی کے پر صعوبت ایام کی داستان سننے کو ملتی ہے۔ انہوں نے اپنے درد و پریشانیوں کو اپنی شاعری میں ڈھالا ہے۔ جب آپ ان کے اشعار پڑھیں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ حال صرف شوکت پردیسی کا انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ اس حساب سے ان کے دکھ و درد سے پُر شاعری انفرادی نہ ہوکر اجتماعی شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ان کی شاعری کا موضوع نہ رومانی تھا اور نہ سیاسی بلکہ ان کی شاعری ماضی کے پرصعوبت ایام کی ترجمان تھی۔
ماسٹر شمیم احمد بتاتے ہیں کہ ہر میدان کے فنکار کو یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی حیات میں اس کے ہنر و فن کی پذیرائی کی جائے مگر وقت کی ستم ظریفی کہیے کہ شوکت پردیسی کی زندگی میں ان کا مجموعہ کلام منظرِ عام پر نہ آ سکا۔شمیم احمد کہتے ہیں کہ میں اپنے چھوٹے بھائی محمد ندیم کے حق میں دعا گو ہوں کہ جن کی محنت و کاوش سے والد صاحب کا کلام مجموعہ کی شکل میں منظرِ عام پر آ سکا ہے۔
خیال رہے کہ شوکت پردیسی نے اردو ادب کے تقریباً سبھی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ انھوں نے کئی افسانے اور کہانیاں بھی لکھیں جن میں سے چند کو رسائل و جرائد میں اچھا خاصا مقام حاصل ہوا۔شوکت پردیسی برسوں تک بطورِ صحافی عروس البلاد ممبئی کے مختلف اخباروں میں کالم نگاری کی خدمات انجام دیتے رہے اور بچوں کے ماہنامہ "منا” کی کئی برسوں تک اشاعت بھی کرتے رہے۔
شوکت پردیسی نے 1938 میں بطورِ قلم کار محمد عرفان جونپوری اور عرصہ بعد نشاط جونپوری کے نام سے شناخت بنائی۔ اس کے بعد 1948 میں نئے نام شوکت پردیسی کے ساتھ ادبی حلقوں میں کافی معروف و مقبول ہوئے۔
شوکت پردیسی کا فلمی سفر
شوکت پردیسی نے متعدد فلموں کے لئے نغمہ بھی لکھا پہلی فلم "خوبصورت” کے لئے لکھی غزل کو طلعت محمود کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے بعد "غلام بیگم بادشاہ” اور "شہید اعظم بھگت سنگھ” کے لئے نغمے لکھے جنہیں آشا بھونسلے اور محمد رفیع کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے دو فلموں "غلام بیگم بادشاہ” اور "جھانسی کی رانی” کے لئے مکالمے بھی لکھے تھے۔اس کے علاوہ درجنوں نظمیں اور غزلیں طلعت محمود، مکیش منا ڈے، سی ایچ آتما، انوپ جلوٹا، دلراج کور، شیلندر سنگھ، شیام لالہ کی آوازوں میں ریکارڈ ہوئی، ان کے کئی گیت کافی مشہور ہوئے لیکن منا ڈے کی آواز میں ریکارڈ ہوا گیت "حیراں ہوں اے صنم کہ تجھے اور کیا کہوں” کو بالخصوص کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔شوکت پردیسی کی غزلوں اور نظموں کو بیسویں صدی عیسوی کی پانچویں چھٹی اور ساتویں دہائیوں میں ہندوستان کے بیشتر اردو جریدوں میں جگہ ملی۔
شائع شدہ کتب
شوکت پردیسی کی کل چار تصنیفات ان کے فرزندان کے ذریعے منظر عام پر آچکی ہیں۔ ‘تحفہ اطفال’ (ہندی،اردو) بچوں کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ ‘مضراب سخن’ ان کی نظموں اور گیتوں کا مجموعہ ہے۔ ”ساز نغمہ بار“ میں ان کی غزلیں، رباعیاں اور قطعات شامل ہیں۔ شوکت پردیسی کی چوتھی کتاب ”مضامین شوکت“ میں ان کی کچھ نثری تحریر شامل ہیں اس کے علاوہ حبیب سیفی کے ذریعہ تحقیق "شوکت پردیسی فکر و فن کے آئینے میں” کے عنوان سے منظرِ عام پر آچکی ہے۔
انعام و اکرام
اترپردیش اردو اکیڈمی نے 2014 میں "تحفہ اطفال” اور 2016 میں "ساز نغمہ بار” پر ایوارڈ سے نوازا ہے۔
وفات
شوکت پردیسی کی طبیعت عرصہ دراز تک خراب رہی اور بالآخر 14 ستمبر 1995 کو وہ اس دار فانی سے رخصت ہوگئے، انہیں جمدہاں میں دفن کیا گیا۔شوکت پردیسی کے بیٹے شمیم احمد کا کہنا ہے کہ والد ماجد شوکت پردیسی کے نام پر بطورِ یادگار کوئی نمایاں کام نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ ضرورت ہے کہ ان پر کام کیا جائے ۔انھوں نے کہا کہ اگر کوئی صاحب شوکت پردیسی پر کام کرنا چاہیں، وہ ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اسد الدین اویسی اب ہندوستان کی سیاست کا ایک ایسا نام ہو چکا ہے جس کو اس نسل کے بعد والی نسلیں بھی شاید نہ بھلا پائیں، یہ ضرور ہے کہ ان کی سیاست صرف مسلمانوں کا طواف کرتی نظر آتی ہے اور ان کی شبیہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیڈر کی ہے، جو کہ ایک کمال کی بات بھی ہے، کیونکہ ہندوستان ایسے ملک میں اس شبیہ کو پروان چڑھا کر بر قرار رکھنے والے لوگ نا کے برابر ہی ہیں۔ کیونکہ یہ ایک جمہوری ملک ہے لیکن سوچنا یہ ہوگا کہ وہ اپنی اس شبیہ کو کہاں تک لے جا پانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اور ان کی مسلم نوازی کی سیاست ایک جمہوری ملک میں کیا کچھ گل کھلاتی ہے۔
وہ ایک منجھے ہو ئے بیرسٹر سہی، ایک بے خوف و البیلے مقرر کی روح بھی ان میں ہے، اپنے موقف کو کہہ کر ڈٹے رہنے کا حوصلہ بھی ہے، اچھے اچھے سیاست دان ان کے نام کا لوہا بھی مانتے ہیں، مسلمانوں کے علاوہ بھی ایک بڑے حلقے میں وہ لیڈر تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، اپنی اس شبیہ کی وجہ سے ہی انہوں نے اپنی پارٹی کی دیرینہ محدود سیاست کو بڑی وسعت سے ہم کنار بھی کر لیا ہے اور اب وہ پورے ملک کی سیاست میں سرگرم ہونے کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین کے دوسرے سرکردہ لیڈران کے ساتھ ملکی سیاست کی ایک مضبوط آواز ہیں اور ان کے حامیوں کے شور میں ان کے مخالفین کی آواز کہیں گم سی ہوتی نظر آتی ہے۔ اب تو انہیں اترپردیش تک کی سیاست میں اترنے سے گریز نہیں رہ گیا جہاں مسلمانوں کا ایک بڑا حلقہ بھی ان سے ان کے اس اقدام کو لے کر نالاں دکھائی دیتا ہے اور آنے والے فروری اسمبلی چناؤ میں ان کی شرکت کو کسی بد شگونی سے تعبیر کر رہا ہے۔
خیر، یہ فیصلہ تو مستقبل ہی پر رکھیے کہ بیرسٹر صاحب کا یہ فیصلہ رنگ لائے گا یا رنگ میں بھنگ کے مترادف قرار پائے گا، لیکن کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ان کے سیاسی شعور کی جانچ ان کے ماضی سے کر لی جائے تو مضایقہ نہیں۔
اگر صرف اسمبلی انتخابات کی بات کریں تو تلنگانہ میں سات، بہار میں پانچ اور مہاراشٹر میں دو سیٹیں ایم آئی ایم کے نام ہیں۔ یہ اعداد سننے میں بہت معمولی ہیں لیکن ایک اِمَرجِنگ پارٹی کے لیے اچھے کہے جانے کے قابل ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ جس پارٹی نے اپنے شروعاتی انتخابات میں اتنی سیٹیں حاصل کی ہیں وہ آئندہ ایک اچھی پارٹی ثابت ہونے کی اہل بھی ہے، لیکن اس حقیقت کا اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ جہاں جہاں ان کا دائرۂ اثر ہے وہاں بڑی حد تک مسلمانون کی کثرت ہے اور یہ ہر با شعور انسان تسلیم کرے گا کہ ہندوستان میں اپنا سکہ مسلم ووٹوں کے دم پر نہیں جمایا جا سکتا، یہاں کی سیاست کا رخ اکثریتی طبقہ طے کرتا ہے، اور وہ بلاشبہ اویسی کی راہ پر نہیں ہے اور یہ بات اویسی بھی بخوبی سمجھتے ہیں، اسی لیے ایسی سیٹوں پر اپنے کینڈیڈیٹ اتارتے ہیں جہاں مسلم ووٹوں کی مدد سے سیٹ نکال لے جانے کا امکان نظر آتا ہے، اس بات کو بھی کہتے سنے جاتے ہیں کہ ہم ہر صوبے میں مسلمانوں کی نمائندگی فیصد کے حساب سے چاہتے ہیں، کہ وہاں جتنا فیصدی مسلمان ہے اقتدار میں بھی کم از کم اس کا اتنا ہی حصہ ہو۔
اترپردیش میں انہوں نے سو سیٹوں سے اپنی پارٹی کے کینڈیڈیٹ اتارنے کی بات کہی ہے جبکہ یہاں کل چار سو تین سیٹیں ہیں۔ یہاں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اکھلیش یادو کو ووٹ ڈالنے کے حق میں ہے اور انہیں وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتا ہے اور اسے وہ مسلم قیادت کی باتیں کسی افسانہ سے زیادہ نہیں لگتیں جنہیں اویسی اپنی تقریروں میں دہراتے رہتے ہیں۔ وہ اویسی کو مسلمانوں کا کم بی جے پی اور ہندوتو وادیوں کا ہمدرد زیادہ سمجھتا ہے۔ لیکن وہیں دوسری طرف اویسی حامیوں کی بھی کمی نہیں ہے، وہ بھی جا بجا اویسی کا دم بھرتے آپ کو نظر آ جائیں گے اور اویسی کو مسلمانوں کا مسیحا ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کریں گے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اویسی کی کرشمائی شخصیت ان کی سیاسی دھاک ان کو اتر پردیش میں کس حد تک کامیاب کرنے میں معاون ہوتی ہے اور اگر وہ واقعی مسلمانوں کے مسیحا ہیں تو کیا مسلمان ان کو ان کی اس مسیحائی کا صلہ دیں گے؟ اور کیا وہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے اتحاد کا علم اٹھا کر سیاست کی پر خار راہ کی اڑچنوں کو سر کر سکیں گے؟
ویسے آج کل اترپردیش میں سیاسی ہلچل اپنے عروج پر ہے، اور سیاسی بازیگر اپنی اپنی بازیاں کھیل رہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں حال میں ہی بی جے پی کو اس کے ایم ایل اے الوداع کہہ آئے ہیں اور اکھلیش یادو کو اپنا رہنما بتانے لگے ہیں، جس سے بی جے پی کے حلقوں میں ہلچل ہو جانا یقینی ہے اور یوگی آدتیہ ناتھ (وزیر اعلیٰ) پر بھی اس کا اثر لازمی ہوگا۔
مایاوتی بھی بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اکھاڑے میں ہیں اور کئی جگہوں سے اپنی کینڈیڈیٹ اتار چکی ہیں، اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے. لیکن سیاسی مبصرین بی جے پی اور سماجوادی کو آمنے سامنے دیکھتے ہیں اور ابھی بی ایس پی کو تیسرے درجے پر رکھ رہے ہیں۔
اس منظرنامے میں اسد الدین اویسی کا کردار سو سیٹوں پر مقابلے میں خاصے کی چیز ہے، اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مسلمانوں کا رخ کس طرف زیادہ ہوگا۔ کیا وہ ہمیشہ کی طرح سماجوادی یا بہوجن سماج پارٹی پر اعتماد دکھائیں گے یا اویسی کے مسلم قیادت کو مضبوط کرنے کے نعرے کو اہم سمجھیں گے۔ اور مجلس اتحاد المسلمین کی سیاسی روش پر اپنی مہر تصدیق ثبت کریں گے۔
دس مارچ کو آنے والے نتائج ہی یہ طے کریں گے کہ اترپردیش کی جنتا کا رخ کیا ہے اور کون کتنا بڑا سورما ہے۔ وہیں یہ انتخابات ٢٠٢٤ میں آنے والے لوگ سبھا انتخابات کے نتائج پر بھی اہم اثر ڈال سکتے ہیں۔ ان نتائج سے اندازہ ہو سکے گا کہ شمالی ہند کے لوگوں کا نظریہ بی جے پی کو لے کر کیا ہے اور کیا وہ اب بھی مندر مسجد میں اٹکے ہوئے ہیں یا دوسرے معاشی سماجی اور تعلیمی مدعوں میں ان کے لیے کچھ دلچسپی کا سامان ہے، کیا انہیں ابھی بھی بی جے پی کے قول و عمل میں کھلا تضاد معلوم نہیں ہوتا یا وہ جان بوجھ کر مذہب کا چشمہ پہن کر ہی ہر ایک پہلو کو دیکھنے کے عادی ہیں اور مذہبی سیاست ہی ان کا منتہائے نظر ہے۔
خیر، ہم تو دست بدعا ہیں کہ جو بھی ہو ہندوستانی عوام اور مسلمانوں کے حق میں خیر ہی لے کر آئے اور نفرت کی سیاست کرنے والوں سے پروردگار اس ملک کی حفاظت فرمائے۔
اس صدی میں جن اہم شخصیات نے قرآن کریم کی تفسیر پر قابل رشک کام کیا ہے ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا بھی آتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد ساٹھ کتابوں کے مصنف، ماہر علوم قرآن ، کئی اسلامی تنظیموں اور اداروں کے بانی اور موسس اور ایک مایہ ناز مفسر قرآن تھے جنھوں نے تقریبا بیالیس سال تک قرآن پاک کا درس دیا جو آج بھی ویڈیو اور آڈیو کی شکل میں ایک نہایت ہی قیمتی اور مفید سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد26 اپریل1932 میں پنجاب کے ہسار میں پیدا ہوئے، آپ کے والد برٹش حکومت میں ایک سول سرونٹ تھے ۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے لاہور کے کنگ ایڈوارڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کے اندر ایڈمیشن لے لیا، 1954 میں ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میڈیکل کی پریکٹس شروع کردی ، دس سال میڈکل پریکٹس کرنے کے بعد آپ نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات کے اند ر ماسٹر ڈگری بھی حاصل کی۔
ڈاکٹر اسرار صاحب نے تحریک آزادی کے دوران مسلم اسٹودنٹس فیڈریشن میںایک مختصر مدت تک حصہ لیا اور پھر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرلی۔ مگر جب پاکستان ہجرت کر گئے اور جماعت اسلامی نے 1956 میں پاکستان میں الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو انھوں نے جماعت اسلامی چھوڑ دیا ۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق جماعت اسلامی کا نظریہ 1947 سے پہلے جو تھا اس پر جماعت قائم نہیں رہی ، جماعت کے قیام کا مقصد الیکشن میں حصہ لینا نہیں تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر اسرار صاحب نے جماعت اسلامی سے الگ ہونے کے بعد 1975میں ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جس کا نام تنظیم اسلامی تھا ،اس تنظیم کا مقصد خلافت کا قیام اور اسلام کو زندگی کے سارے شعبوں میں نافذ کرنا تھا ۔ ڈاکٹر اسرار صاحب گرچہ علامہ ابو الاعلی مودودی کے علم وفضل نہ صرف معترف تھے ،بلکہ ان کے افکار ونظریات کے حامی اور خوشہ چیں بھی تھے، مگر نقطہ اختلاف اس بات پر تھا کہ الیکشن میں حصہ لینے سے جماعت کی روح جو خلافت کے قیام کے لیے اٹھی تھی ،ضائع ہوجائیگی ، اسی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب بھی اس زمانہ کے دوسرے علما کی طرح جماعت سے الگ ہوگئے۔
ڈاکٹر اسرار احمد کی عظیم الشان علمی دعوتی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں پاکستان نے انھیں 1981 میں ستارہ امتیاز کے ایوارڈ سے نوازا۔ انھوں نے ساٹھ سے زائد کتابیں لکھیں جن میں نو سے زائد کا ترجمہ انگریزی اور دوسری زبانوں میں ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب نے عالمی سطح پر ایک مفسر قرآن کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی اور تقریبا بیالیس سال تک قرآن پاک کا درس دیا ، جس کے سیکڑوں آڈیو اور ویڈیو لیکچرز پوری دنیا میں بڑے شوق سے دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔ اور جن کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے نصف صدی سے زائد علم دین کی خدمت ، قرآن پاک کی تفسیر اور خلافت کے قیام اور اسلامی اصولوں کے احیاء پر کام کیا اور ایک طویل علالت کے بعد14 اپریل 2010 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالی انکی خدمات کو قبول فرمائے اور انکی قبر کو نور سے منور کردے۔
مشکی پور: ضلع کھگڑیا کے مشکی پور کی رفاہی تنظیم”مشکی پور ویلفیئر کمیٹی” کے زیر انتظام مولانا آزاد لائبریری میں آج ایک محفلِ ادب منعقد ہوئی. جس میں اطراف کے شعراء اور دیگر اہلِ ذوق شریک ہوئے. پروگرام کا آغاز کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی کے استقبالیہ کلمات سے ہوا اور پروگرام کی نظامت کا فریضہ بھی انھوں نے ہی انجام دیا. سب سے پہلے کے ڈی ایس کالج گوگری کے اردو کے پروفیسر ڈاکٹر سراج الحق نادر نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا، اس کے جمال خاں پروانہ سلیم نگری کو دعوت سخن دی گئی اور انھوں نے اپنی دوتین غزلوں سے حاضرین کو نوازا، سامعین نے سن کر بڑی حرارت و تازگی محسوس کی اور شاعر کو داد و تحسین عطا کرنے میں کشادہ دلی سے کام لیا، ان کے بعد احمق سلیم نگری نے اپنے مخصوص لب و لہجے اور مترنم کلام سے سامعین کو محظوظ کیا، ان کی غزل سرائی پر واہ واہ اور سبحان اللہ کی صدا گونجنے لگی. جناب شبیر اصغر نے بھی اپنے چند اشعار سے حاضرین کو مسرت بخشی، نادر صاحب نے اپنے خاص انداز میں ایک سے زائد غزل و نظم پیش کی اور اپنے پرمغز اور معنی خیز کلام سے اہلِ ذوق کا دل جیت لیا. جامع مسجد مشکی پور کے امام مفتی حنظلہ قاسمی نے بھی اپنی ایک خوبصورت نعت خوبصورت آواز میں پیش کی اور سامعین کے دلوں کو منور کیا. اخیر میں فاروق اعظم عاجز مشکی پوری نے بھی اپنی ایک نعت اور دو نظمیں پیش کیں جو پسند کی گئیں. اب چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں:
الزام روز ناحق اوروں پہ ڈالتے ہیں
ایسے بھی لوگ ہیں جو کیچڑ اچھالتے ہیں
رنج و الم نہ اپنے سینے میں پالتے ہیں
دل کی بھڑاس اب ہم رو کر نکالتے ہیں
ہرگز نہ چاہتے ہیں اس کا ملے صلہ کچھ
ہم لوگ نیکی کرکے دریا میں ڈالتے ہیں
(جمال خاں پروانہ، سلیم نگر)
زندگی وہ زندگی نہیں
جس میں رب کی بندگی نہیں
مانا کہ ہے جگنو میں چمک
کام کی وہ روشنی نہیں
(محمد رضوان خاں احمق، سلیم نگر)
تری بستی میں لگتا من نہیں ہے
یھاں لوگوں میں اپنا پن نہیں ہے
لگائیں ہم کہاں تلسی کا پودا
ہمارے گھر میں اب آنگن نہیں ہے
(شبیر اصغر، گوگری)
کیا عجب کاٹی ہے میں نے زندگی
عمر بھر کی بے مکانی اور میں
کس طرح سے زندگی گزرے مری
سامنے ہے آگ، پانی اور میں
(سراج الحق نادر، کے ڈی ایس کالج، گوگری)
ایسی ہی گزرجائے ایک رات مدینے میں
کہ میں ہوں اور مرے آقا ایک ساتھ مدینے میں
(مفتی حنظلہ قاسمی)
جب مدینے کا دیدار ہوگا، دردِ دل کو بھی تسکین ہوگی
جھوم کر تشنہ لب پھر کہیں گے، بدلی رحمت کی چھانے لگی ہے
(فاروق اعظم عاجز مشکی پوری)
سابق ایم ایل اے (پربتہ) جناب نعیم اختر کے صدارتی کلمات پر پروگرام کا اختتام ہوا. انھوں نے مولانا آزاد لائبریری کے اس پروگرام کو فالِ نیک قرار دیتے ہوئے ذمہ دارانِ پروگرام، آنے والے مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور مضبوطی کے ساتھ اس سلسلے کو آگے لے جانے کا مشورہ دیا اور اس کے لیے نوجوانوں سے عہد بھی لیا، ساتھ ہی اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ عنقریب ہم سب مل کر اس پلیٹ فارم سے فروغ اردو کے لیے ایک بڑا پروگرام کریں گے اور کم از کم ہر جمعہ کو ہم سب لائبریری آئیں، مطالعہ کریں، بچوں کی رہنمائی کریں اور لائبریری کی ضروریات کا بھی خیال کریں. اخیر میں ناظم پروگرام نے سب شکریہ ادا کیا. اس محفل میں اہلِ علم و ادب کی اچھی خاصی تعداد نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر ناصر الدین، مولانا مشاہد علی اصلاحی، ماسٹر نیر اعظم، ماسٹر تبریز شمیم، ماسٹر اورنگزیب، ماسٹر تنویر،ماسٹر ارشد ،وکیل احمد، لبریز شمیم اور جناب شمیم مستری صاحبان خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں ـ
’کیسے کیسے لوگ وردی میں چھپے ہوئے تھے‘،کانپورکے پولیس کمشنرکی بی جے پی میں شمولیت پراکھلیش یادوکاطنز
کانپور:کانپور کے پولیس کمشنر اسیم ارون کے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد اکھلیش یادو کا بیان سامنے آیا ہے۔ اکھلیش یادونے کہاہے کہ کیسے کیسے لوگ وردی میں چھپے ہیں؟ اکھلیش یادونے کہاہے کہ کیا آپ پنچایت کا الیکشن بھول گئے؟ میں نے تب بھی کہا تھا کہ ضلعی کپتان اور افسران مل کر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اتوار کو بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد اسیم ارون نے کہا تھا کہ پچھلی حکومتوں میں مافیا کو چھوڑنے کی کالیں آتی تھیں۔عاصم ارون نے کہاہے کہ میں پارٹی کے خیالات کو جوائن کرکے آرہا ہوں۔ یوگی راج میں مجھے بی جے پی کے دفتر سے ایک بھی غنڈے کا فون نہیں آیا۔ میں خوش ہوں، مطمئن ہوں، مجھے عوام کی خدمت کا موقع ملا ہے۔ یہ ایک خدائی ڈھانچہ ہے جس کا تصور اعلیٰ قیادت ایک پولیس اہلکار کے بارے میں کرتی ہے۔ ارون نے کہاہے کہ سیاست میں آنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔ گھر والوں سے اس بارے میں بات کی کہ ایک طرف نوکری ہے تو دوسری طرف عوامی خدمت کا موقع ہے۔ جو موقع ملا ہے اس کے مطابق کام کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔انہوں نے کہاہے کہ بی جے پی کے دفتر یا کسی لیڈر، وزیر سے کبھی کسی کو ڈراپ کرنے، سستی کرنے کا فون نہیں آیا۔ جب میں اے ٹی ایس چیف تھا تو میں نے بہت سے مجرموں کو گرفتار کیا تھا۔ میرا تعلق گاؤں سے ہے اور میرا خاندان اپنے گاؤں میں مسلسل سماجی کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ محروم، دلت کی عزت کے لیے ابھی بہت کام باقی ہے۔ اگر میں اس میں حصہ ڈال سکتا ہوں تو میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھوں گا۔
آپ نئی نسل کے حقیقی لیڈر ہیں، کوہلی کے فیصلے پر محمدعامرکاٹوئٹ ،اظہرمحمودنے بھی ستائش کی
کراچی :وراٹ کوہلی ٹیسٹ کپتانی: ویرات کوہلی نے ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی چھوڑ کر اپنے فیصلے سے سب کو حیران کر دیا ہے۔ اس کا اعلان وراٹ کوہلی نے جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ سیریز کے اختتام کے فوراً بعد کیا۔ ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک کے کھلاڑی بھی وراٹ کے بارے میں اپنا تجربہ بتا رہے ہیں۔ پاکستان کے سابق کرکٹر محمد عامر نے بھی وراٹ کے بارے میں ٹویٹ کیاہے۔محمد عامر نے لکھاہے کہ وراٹ کوہلی بھائی، میرے لیے آپ نئی نسل کے حقیقی لیڈرہیں۔ کیونکہ آپ نوجوان کرکٹرز کو متاثر کرتے ہیں۔ میدان کے اندر اور باہر اس طرح جھومتے رہیں۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ محمد عامر کے علاوہ کئی اور غیر ملکی کرکٹرز نے وراٹ کو ان کے شاندار کیریئر پر مبارکباد دی ہے۔محمد عامر اب بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیل رہے لیکن وہ مسلسل دنیا کی مختلف فرنچائز لیگز میں حصہ لے رہے ہیں۔ جلد ہی محمد عامر بھی پاکستان سپر لیگ میں کھیلتے نظر آئیں گے۔محمد عامر کو وراٹ کوہلی کی جانب سے بلے کا تحفہ بھی ملا ہے۔ 2017 کی چیمپئنز ٹرافی کے دوران وراٹ کوہلی نے اپنا بیٹ محمد عامر کو دیا جس کی تصویر کافی وائرل ہوئی۔سابق پاکستانی کرکٹر اظہر محمود نے بھی وراٹ کوہلی کو بطور کپتان ان کے کیریئر پر مبارکباد دی۔ اظہر محمود نے کہا کہ وراٹ کوہلی کو مبارک ہو، انہوں نے اپنی ٹیم کی قیادت بہت اچھے طریقے سے کی۔ ایک شاندار سفر، کیریئر اور کرکٹ کو اتنا پرلطف بنانے کے لیے آپ کا شکریہ۔
فرانس : ہزاروں افراد کا ویکسین کیخلاف شدید احتجاج،’ویکسین منظور نہیں‘ کے نعرے
پیرس:فرانس کے مختلف شہروں میں کورونا کی ویکسین نہ لگانے پر پابندیوں کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرے کیے ہیں۔خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گزشتہ کئی ماہ سے ہر اختتام ہفتہ ہونے والے ان مظاہروں میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں۔سنیچرکو کیے گئے احتجاج میں مختلف شہروں میں 54 ہزار افراد نے شرکت کی۔ پولیس کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ہفتے ان مظاہروں میں ایک لاکھ سے زائد افراد شریک تھے۔ فرانس کی وزارت داخلہ ملک کے مختلف شہروں میں کیے جانے والے ان مظاہروں میں شریک افراد کے اعداد وشمار اکھٹے کرتی ہے۔ فرانس کی پارلیمنٹ میں ویکسین نہ لگانے والے شہریوں پر مختلف قسم کی پابندیوں کی قانون سازی کے لیے اراکین میں ایک ڈرافٹ بل پر بحث جاری ہے۔دارالحکومت پیرس میں سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ ایفل ٹاور کے قریب کیا گیا جس کی قیادت دائیں بازو کے سیاست دان فلورین فلیپوٹ نے کی۔ملک کے دیگر بڑے شہروں بورڈیکس، ٹولیوز اور للی میں بھی بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکلے۔ مظاہروں میں شریک افراد ویکسین منظورنہیں ‘کے نعرے لگا رہے تھے۔
جمیل اختر شفیق کا تعلق نئی نسل کے بیدار مغز قلم کاروں سے ہے۔ وہ جتنے اچھے شاعر ہیں اتنی ہی اچھی نثر بھی لکھتے ہیں۔ ایک طرف جہاں ان کا نام مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے وہیں ان کے فکری مضامین، اصلاحی کہانیاں اور انشائیہ کا رنگ لی ہوئی تحریریں ادب کے سنجیدہ قارئین کو اپنی طرف ملتفت کرتی ہیں۔ جمیل اختر شفیق کی حساسیت انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔ عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ جو شعرا عوامی مقبولیت رکھتے ہیں انہیں سنجیدہ حلقوں میں لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ وہ خود بھی عوامی شہرت اور مالی منفعت سے مغلوب ہو کر اپنے تخلیقی معیار یہاں تک کہ بسا اوقات اپنے شخصی معیار سے بھی سمجھوتا کر لیتے ہیں۔ جمیل اختر شفیق اس اعتبار سے بھی دوسروں سے منفرد و ممتاز ہیں کہ انہوں نے اپنی شخصیت اور فن میں توازن برقرار رکھا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کی شاعری عوامی سطح پر مقبول ہے لیکن عوامی مقبولیت کے حصول کے لیے وہ ادب کے معیار سے سمجھوتا نہیں کرتے ہیں۔ دوسری طرف وقتاً فوقتاً اپنے سنجیدہ مضامین، کہانیوں، انشائیوں اور افسانوں وغیرہ کے توسط سے وہ شعر و ادب کے سنجیدہ قارئین سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھتے ہیں۔ ادب اطفال کے حوالے سے بھی ان کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی کہانیاں بہار کے کثیر الاشاعت اردو روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ کے ہفتہ وار ایڈیشن ’’بچوں کا صفحہ‘‘ میں پابندی سے شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ملک کے مقتدر اخبارات و رسائل میں ان کی مختصر اخلاقی اور اصلاحی کہانیاں شائع ہوتی رہتی ہیں اور پسند کی جاتی ہیں۔
اس وقت میرے پیش نظر ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’روشنی کا سفر ‘‘ ہے۔ کتاب کا عنوان انتہائی معنی خیز ہے۔ روشنی زندگی کی علامت ہے۔روشنی آگہی کا استعار ہ ہے۔ روشنی عزم و ااستقلال کی پیام بر ہے۔روشنی حق و صداقت کی آواز ہے۔آپ کسی ویران اور سنسان علاقے میں چل رہے ہوں۔ دور بہت دور کہیں کوئی شمع ٹمٹماتی ہوئی نظر آ جائے ، آپ پر امید ہو اٹھیں گے کہ جہاں شمع جل رہی ہے وہاں زندگی ہے، وہاں انسانیت ہے۔ ’’روشنی‘‘ اپنے اندر مفاہیم کا ایک جہان سمیٹے ہوئے ہے۔ تبھی تو شاعر رب سے دعا مانگتا ہے تو اپنی زندگی کو مثل شمع بنانے کی التجا کرتا ہے ـ: ’’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘
جمیل اختر شفیق نے اپنی کہانیوں کے مجموعہ کا نام ’’روشنی کا سفر‘‘ بہت سوچ سمجھ کر رکھا ہے۔ اس عنوان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کتاب میں شامل کہانیاں زندگی گزارنے کا شعور سکھاتی ہیں۔ ان میں آگہی ہے۔ عزم و حوصلہ ہے۔حق و صداقت ہے۔ایمان و ایقان ہے۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھنا بڑوں کے لیے لکھنے سے کہیں زیادہ دشوار ہے۔بچوں کی عمر، ان کا ذہنی و فکری معیار، ان کی دلچسپی، ان کی زبان کو مدنظر رکھے بغیر ہم بچوں کا ادب تخلیق ہی نہیں کر سکتے۔ بدلتے ہوئے وقت کے مطابق بچوں کے لیے لکھنا دن بہ دن مزید دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ کتابوں کی جگہ موبائل اور اسمارٹ فون نے لے لی ہے۔ بچوں کا گلہ کون کرے۔ اب تو بڑے بھی مطالعہ سے جی چرانے لگے ہیں۔ ایسے میں بچو ں کے لیے لکھنا اور صرف لکھنا ہی نہیںبلکہ انہیں پڑھنے پر بارضا مجبور کرنا، اس عہد کے قلم کاروں اور تخلیق کاروں کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ تحریر میں زبان و بیان کی چاشنی،سلاست و روانی، تجسس اور تحیر میں ڈال دینے والا انداز نہ ہو تو بچے تحریر کی طرف جلد ملتفت نہیں ہوتے۔ جمیل اختر شفیق کی شخصیت کے ایک پہلو کا ذکر میں نے اوپر قصداً نہیں کیا تاکہ بوقت ضرورت اس پہلو پر روشنی ڈال کر میں اپنی بات میں وزن پیدا کر سکوں۔ ان کی شخصیت کا ایک قابل قدر گوشہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک اچھے استاد بھی ہیں۔ بلکہ سچی بات تو یہی ہے کہ حقیقت میں وہ ایک استاد ہی ہیں، شاعری، افسانہ نگاری اور مضمون نگاری تو ان کا شوق ہے، جنون اور دیوانگی ہے۔ تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ چوں کہ جمیل اختر شفیق ایک تجربکار استاد بھی ہیں، اس لیے بچوں کی پسند و ناپسند اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ان کی ضرورتوں کا انہیں بخوبی اندازہ ہے۔ بچوں کی نفسیات کو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں بچوں کو اپیل کرتی ہیں۔ان کی تحریروں میں نہ تو ضرورت سے زیادہ نصیحتوں کا بوجھ ہوتا ہے کہ بچے اکتا جائیں اور نہ بھاری بھرکم الفاظ کا غیر ضروری مظاہرہ۔وہ اپنی کہانیوں کے ذریعہ جو پیغام دینا چاہتے ، بہت خوب صورتی اور مہارت سے دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ انہیں پند و نصیحت کے لیے الگ سے الفاظ ضائع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بلکہ بین المتون وہ جو کہنا چاہتے ہیں وہ بہت آسانی سے قاری کے ذہن و دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔
’’روشنی کا سفر‘‘ کی کہانیاں آپ کے سامنے ہیں۔ آپ انہیں پڑھیں اور ایمانداری سے بتائیں کہ جمیل اختر شفیق کی کہانیوں کے تعلق سے میں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ کس حد تک درست ہیں؟ اگر آپ کو میری باتوں سے اتفاق ہو تو آپ کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ جمیل اختر شفیق کی کہانیوں کوقوم کے نونہالوں تک پہنچائیں۔ آپ کی یہ چھوٹی سی کاوش جہاں آپ کے نونہالوں میں اخلاقی قدروں کے فروغ کی ضامن بنے گی وہیں ادب اطفال کی ٹوٹتی ہوئی کڑیوں کو جوڑنے میں بھی معاون ثابت ہوگی۔
مسلم مفکرین کے ذہنوں میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ اویسی کی جارحانہ تقریروں سے بجائے فائدہ، نقصان ہی ہوتا ہے، لیکن اس سوچ کو مکمل طور پر درست نہیں قرار دیا جا سکتا، مجھے لگتا ہے کہ جارحانہ تقاریر بھی لوگوں سے کنیکٹ ہونے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں، بس وہ دائرے میں ہوں – اور یہ کام صرف اویسی ہی نہیں کر رہے بلکہ اس قبل بھی کئی پارٹیاں کرتی رہی ہیں، نہ جانے کیوں مسلم مفکرین یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ماضی قریب میں کئی ایسی پارٹیاں ہیں جو جارحانہ انداز کی وجہ سے ہی حکومت تک پہنچی ہیں –
آپ اگر بہوجن سماج پارٹی( BSP) کی ابتدا دیکھیں تو آپ کو اس کے مقابلے اسد الدین اویسی کی تقاریر کچھ بھی نہ لگیں گی ، بی ایس پی کا شروعاتی نعرہ تھا:
تِلک ترازو اور تلوار
ان کو مارو جوتے چار
برہمن اتپات مچائے گا
ہاتھی بڑھتا جائے گا
برہمن ٹھاکر بنیا چور
باقی ہیں سب DS4
بی ایس پی کے ان نعروں کا مطلب تھا، برہمن، ویشیہ (بنیہ وغیرہ) اور چھتری (ٹھاکر، راجپوت وغیرہ) جیسی اونچی قوموں کو جوتے مارو – کیوں کہ انھوں نے ہمیں (دلتوں، پچھڑوں) کو ستایا اور ہماری حق تلفی کی ہے، اب اپنی قیادت کو مضبوط کرو –
ان جذباتی اور بھڑکاؤ نعروں کی ہی دین ہے کہ بی ایس پی اتر پردیش میں چار بار وزیر اعلی کی کرسی تک پہنچی – مسلم مفکرین اس نعرے کا کوئی جواز پیش کر سکتے ہیں؟ کوئی بھی دلت کیا اس نعرے کو غلط کہتا ہے؟ بی ایس پی نے آج تک اس نعرے پر معافی مانگی؟ ہرگز نہیں کیوں کہ وہ جانتے تھے جب تک ہم اپنی گری ہوئی قوم کے جذبات کو ابھار کر ووٹ میں تبدیل نہیں کریں گے تب تک ہم ایسے ہی مار کھاتے رہیں گے، لہذا انھوں نے بڑے فائدے کے لیے تھوڑا مشکل راستہ اختیار کیا اور نتیجہ ہم سب دیکھ چکے ہیں –
جب بی ایس پی کا اپنا ووٹ مضبوط ہوا تو ان نعروں میں بھی بدلاؤ ہوگیا ، کیونکہ اکیلے دلتوں کے بھروسے حکومت نہیں کی جا سکتی، پہلے نعرہ تھا "برہمن اتپات مچائے گا، ہاتھی بڑھتا جائے گا، لیکن بعد میں نعرہ یوں ہو گیا:
برہمن شنکھ بجائے گا
ہاتھی بڑھتا جائے گا
جو دلتوں کی بات کرے گا
وہ دہلی پر راج کرے گا
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان تبدیل ہوتے نعروں میں کس قدر اعلی سیاست کی جھلک دکھتی ہے –
ہم نے یہاں صرف ایک مثال دی ہے ورنہ آپ ملک کی سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالیں تو اسی قسم کی سیاست نظر آئے گی، مہاراشٹر میں” شو سینا” اپنا وجود کیسے بنا پائی، آپ جانتے ہیں کہ اس نے غیر مراٹھی لوگوں کے خلاف مہاراشٹر کے لوگوں میں نفرت بھری، نتیجہ آج حکومت میں ہیں، بی جے پی آج کس بنیاد پر حکومت میں ہے، انھیں اشتعالی نعروں اور جارحانہ تیوروں کی بنا پر ، چونکہ بی جے پی پورے ہندوؤں کو لے کر سیاست کرتی ہے اس لیے اس کا اکیلا سیاست میں کامیاب ہونا ظاہر ہے جب کہ بی ایس پی، شو سینا یا لیفٹ اکیلے سیاست نہیں کر سکتیں اس لیے انھوں نے تھوڑے طریقے بدل کر اور حالات کو دیکھتے ہوئے تبدیلیاں لاکر کامیابی حاصل کی ہے –
مسلم دانشور اویسی کو سمجھیں:
لوگوں کے دلوں تک پہنچنا انکے جذبات کے ذریعے بہت آسان ہوتا ہے، جس کے پاس پیسہ نہ ہو، جس کے پاس لوگ نہ ہوں، جس کو کوئی سیاسی پارٹی گھاس نہ ڈال رہی ہو، بتائیے اس کے پاس لوگوں کو مائل کرنے کا اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ جہاں دھرم سنسد ہو رہی ہو، جہاں بات بات پر آپ کو پاکستان بھیجنے کی بات کی جارہی ہو، جہاں آپ سے ووٹ دینے کا حق چھین لینے کی بات ہو رہی ہو، ہر قانون اور ہر حکومتی قدم آپ کو نظر میں رکھ کر بنایا جارہا ہو ایسے میں اگر اویسی قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی بات کہہ رہے ہیں تو کیا غلط ہے؟ اور اگر غلط ہے تو سیکولر پارٹیاں کیس کیوں نہیں کرتیں؟ کیا سیکولر پارٹیاں مسلم قیادت کو کنارے رکھ کر،اپنے اسٹیجوں سے دھکے دے کر اکثریتی طبقے کو یہ کمینول پیغام نہیں دے رہیں کہ ہمارے نزدیک مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے، آپ ہمیں ووٹ کریں ہم مسلمانوں کو سبق سکھاتے رہیں گے!
آج اگر اویسی کے بیانات کچھ جذباتی اور بھڑکاؤ لگتے ہیں تو کل یہ بہتر ہونگے، لیکن مجلس کو گھر گھر پہنچانے کا اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہے، آج سے پہلے کیا اویسی جتنا رسپانس کسی دوسرے مسلم لیڈر کو ملا ہے؟ اگر نہیں تو غور کریے، سمجھ جائیں گے کہ ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ انھوں نے اپنی قیادت کی بات نہیں کی، دوسری وجہ وہ نوجوانوں کو اپنی طرف راغب نہیں کر پائے، جو وقت کی نبض کو سمجھ لے اور اسی کے مطابق کام کرے وہی سیاسی لیڈر کامیاب ہوتا ہے، ورنہ ہزاروں جی حضوری کرنے والے لیڈر آئے بھی اور چلے بھی گیے نہ وہ کچھ کر سکے اور نہ دیگر کر سکیں گے، غلام نبی آزاد، احمد پٹیل، نسیم الدین، شہاب الدین، مختار انصاری، عتیق وغیرہ وغیرہ بہت سے لیڈر ہیں لیکن نوجوانوں کا دل دھڑکتا ہے تو اویسی صاحب کے نام پر دھڑکتا ہے، اب اگر اس طاقت کو اویسی صاحب کیش نہ کریں تو کیا کریں!!!
اویسی کی تقریروں سے کوئی نقصان تو سمجھ نہیں آتا،البتہ مسلم لیڈر شپ کے چانس دکھتے ہیں، جب کہ خاموش رہنے والے اور وفاداری کرنے والے لیڈر یا تو "تہہ مزار چلے گیے” یا پھر جیلوں میں اپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں، اگر لڑ کر مرا جائے تو بہتر ہے ورنہ موت تو غلاموں کو جیل میں بھی آہی جائے گی، یاد رکھیں! تاریخ ہمیشہ لڑنے والوں کی لکھی جاتی ہے، آرام کرنے والوں کو کوئی بھولے سے بھی یاد نہیں کرنا چاہتا –