نئی دہلی :ہندوستان کے سب سے بڑے کاروباری اداروں میں سے ایک ٹاٹا گروپ اس سال سے آئی پی ایل کے اسپانسر کے طور پر چینی موبائل بنانے والی کمپنی ویوو کی جگہ لے گا۔ آئی پی ایل گورننگ کونسل نے منگل کو ہونے والی اپنی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا۔ آئی پی ایل کے چیئرمین برجیش پٹیل نے کہا کہ ٹاٹا گروپ اب آئی پی ایل کا اسپانسر ہوگا۔معاہدے کی رقم کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا اور ٹاٹا گروپ کے ترجمان نے’اسپانسرشپ کی تصدیق کی لیکن مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ vivoنے 2018 سے 2022 تک 2,200 کروڑ روپئے میں آئی پی ایل کے اسپانسرشپ کے حقوق خریدے تھے لیکن 2020 میں وادی گلوان میں ہندوستان اور چین کے درمیان فوجی تصادم کے بعد انہوں نے ایک سال کا وقفہ لیا۔ ان کی جگہ ڈریم الیون اسپانسر تھا۔ویبو2021 میں دوبارہ اسپانسر بن گیا، حالانکہ یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ وہ صحیح بولی لگانے والے کو حقوق منتقل کرنا چاہتے ہیں اور بی سی سی آئی نے اس کی حمایت کی۔بی سی سی آئی کے ایک ذرائع نے کہاکہ یہ آج نہیں تو کل ہونا تھا کیونکہ یہ لیگ اور کمپنی دونوں کو تشہیر دے رہا تھا۔ چینی مصنوعات کے بارے میں منفی جذبات کی وجہ سے کمپنی کو معاہدے کی تکمیل سے ایک سیزن قبل اسپانسر شپ سے دستبردار ہونا پڑا۔ بی سی سی آئی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اسے اب بھی 440 کروڑ روپئے کی سالانہ اسپانسرشپ کی رقم ملنی ہے جو اب نئے اسپانسر ادا کریں گے۔ بی سی سی آئی اسپانسر شپ کی رقم کا 50 فیصد اپنے پاس رکھتا ہے اور باقی آئی پی ایل فرنچائزز میں تقسیم کرتا ہے، جن کی تعداد اب اس سال دو نئی ٹیموں کے اضافے کے ساتھ 10 ہو گئی ہے۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ معاہدہ صرف ایک سال کے لیے ہے کیونکہ بی سی سی آئی کو 2023 سے شروع ہونے والے اگلے سیزن کے لیے نئے ٹینڈرز طلب کرنا ہوں گے۔
11 جنوری, 2022
نئی دہلی : دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے منگل کو ایک بار پھر کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لاک ڈاؤن نہیں لگایا جائے گا۔ یہ بھی کہا کہ حالات قابو میں آنے کے بعد جو بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں، وہ بھی جلد ہٹا دی جائیں گی۔ ہم نے مرکزی حکومت سے درخواست کی ہے کہ جو پابندیاں دہلی میں ہیں وہ این سی آر میں بھی نافذکی جائیں۔ اس وقت ہمارے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ لوگوں کا روزگار متاثر نہ ہو۔دہلی کے سب سے بڑے کورونا اسپتال لوک نائک اسپتال کا دورہ کرنے کے بعد وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا کہ ہماری تیاریاں مکمل ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ہم 37 ہزار بیڈز تک تیار کرسکتے ہیں اور آئی سی یو بیڈز بھی بڑھا سکتے ہیں لیکن ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔کورونا پیک کے بارے میںان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مثبت شرح 25% تک آ رہی ہے۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔
زندگی ، جسم اور روح کے مجموعے کا نام ہے ۔ انسان کو زندہ رہنے اور زندگی گذارنے کے لیے غذاؤں کی ضرورت پڑتی ہے ۔ زندگی کی بھی دو صورتیں ہیں ۔ ایک مادی زندگی ، دوسری روحانی زندگی ۔ جسمانی زندگی کے لیے مادّی غذا اور روحانی زندگی کے لیے روحانی غذا ضروری ہے ۔ قرآن مقدس کی صراحت کے مطابق اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان و سکون کی دولت نصیب ہوتی ہے ۔
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب .
یہی وجہ ہے کہ علماء و مفسرین نے اللہ تعالی کے ذکر و اذکار اور اوراد و ظائف کو ” روح کی غذا ” کہا ہے اور یہ بات حق ہے ۔ ذکر و فکر میں جو لذت اور روحانی سکون ملتا ہے ، وہ آلاتِ لہو و لعب میں کہاں ؟ جب بندہ زمین کی پستیوں میں اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو اللہ رب العزت آسمان کی بلندیوں پر عرشیوں کے درمیان اس کا ذکر کرتا ہے ۔ ذکر و اذکار کے علاوہ ، عبادت و ریاضت ، قرآن شریف کی تلاوت اور مجلسِ وعظ و تذکیر سے بھی روح کو غذا ملتی ہے ۔ غرض کہ روح کی غذا کی متعدد انواع و اقسام ہیں ۔
اچھی کتابوں کا مطالعہ بھی روح کی غذا ہے ۔ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ عز و جل کی عبادت ہے اور عبادت کا مقصد ، تزکیۂ نفس ، تطہیرِ باطن اور صفائیِ قلب ہے ۔ مادی غذائیں کھانے اور لہو و لعب میں مبتلا ہونے کے بعد انسان کا جسم جب نڈھال اور پژ مردہ ہونے لگتا ہے تو روح اپنے غذا کا مطالبہ کرتی ہے اور جب روح کو مطلوبہ غذا مل جاتی ہے تو انسان ( جو جسم اور روح کا مجموعہ ہے ) کے ظاہر و باطن میں تازگی آجاتی ہے ۔ اسے کیف و سرور ملنے لگتا ہے اور اس وقت اسے زندگی کا حقیقی لطف ملتا ہے ۔
” خیر الجلیس الکتاب ”
کتاب بہترین ساتھی ہے ۔ کتاب کو جو بہترین ساتھی کہا گیا ہے ، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ کتاب اور اس کا مطالعہ سچے دوست اور بہترین ساتھی ہیں ۔ کتابیں سامنے ہوں ، لیکن ان کا مطالعہ نہ کیا جائے تو پھر کتابیں کس کام کی ؟
أعز مـكان في الدنا سرج سابح
وخير جليس في الزمان كتاب
متنبی کے اس شعر سے ظاہر ہے کہ ایک بہادر اور مجاہد کے لے سب سے بہتر ساتھی ، تیز رفتار گھوڑا ہے اور ایک طالب علم کے لیے سب سے بہتر ساتھی کتاب ہے ۔ کیوں کہ کتابیں ہی دنیا بھر معلومات کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ انبیائے کرام ، بزرگان دین ، علمائے کرام کے حالات اور قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ ہمیں ان کتابوں سے معلوم ہوتی ہے ۔ کتابیں ، ہمیں قلبی سرور اور روحانی سکون بخشتی ہیں اور تنہائیوں کی رفیق بن کر ہم سے ہم کلام ہوتی ہیں ۔ آدابِ زندگی اور طریقۂ بندگی سکھانے کے ساتھ ہمارے پست حوصلوں کو جوان کرتی ہیں ، آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کا ولولہ پیدا کرتی ہیں اور دنیا میں کچھ کرنے کا جذبہ بیدار کرتی ہیں ۔ کتب و رسائل ، علوم و فنون کی کنجی ہیں ۔ یہ علوم و معارف کے بند دروازوں کو کھولتی ہیں اور اکتسابِ فیض کا موقع فراہم کرتی ہیں ۔
ایک عرب عالم نے کیا ہی خوب کہا ہے :
لا ينمو الجسد إلا بالطعام والرياضة ولا ينمو العقل إلا بالمطالعة والتفكير .
یعنی جسم ، غذا اور ریاضت ( ورزش ) سے نشو و نما پاتا ہے اور عقل ، درس و مطالعہ اور غور و فکر سے پروان چڑھتی ہے ۔ لہٰذا عقل کو پروان چڑھانے ، فکر میں بالیدگی پیدا کرنے اور روح کو بیش قیمت غذا فراہم کرنے کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے ۔ مطالعے کا عادی انسان ، کثرتِ کار ، ہجوم ِ افکار اور دنیاوی مصائب و آلام میں لاکھ کھِرا ہو ، لیکن مطالعے کے لیے وہ وقت نکال ہی لیتا ہے اور مطالعے وہ کیف و سرور اور لطف و لذت پاتا ہے کہ دنیاوی مصائب کو بھول جاتا ہے ۔ درس و مطالعہ کا ایک اہم اور صحت مند افادی پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور انسان تضییعِ اوقات کی محرومیوں سے بچ جاتا ہے ۔ تضییعِ اوقات ، سب سے بڑی محرومی ہے اور درس و مطالعہ محرومیوں کے اس جال سے باہر نکلنے کا مؤثر ذریعہ اور کامیاب ترین راستہ ہے ۔
علم نے اضطراب بخشا ہے !!!
کس قدر پُر سکوں تھی لاعلمی
مختلف علوم و فنون کا مطالعہ ، بظاہر ایک اضطرابی عمل ہے ، لیکن اس کے فوائد بیشمار ہیں ۔ عصرِ حاضر کی ایجادات و اکتشافات اور سائنس دانوں کے نت نئے سائنسی کارنامے ، یہ در اصل غور و فکر اور درس و مطالعہ کے نتائج و ثمرات ہیں ۔
مطالعے کی غرض و غایت ، علم کا حصول ، معلومات میں اضافہ اور راہِ عمل کا تعیّن ہے ۔ مطالعہ سے انسان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے اور اس کی وسعتِ ظرف کا اندازہ ہوتا ہے ۔ الاناء یترشّح مافیہ ( برتن سے وہی ٹپکتا ہے ، جو برتن میں ہوتا ہے )
آپ کا مطالعہ جتنا وسیع ہوگا ، آپ کا زورِ استدلال ، فکری توانائی اور قوّتِ تخلیق بھی اتنی ہی مضبوط و مستحکم ہوگی ۔ آپ کی بات میں وزن اور آپ کے افکار و نظریات میں غیر معمولی قوت ہوگی ۔ الفاظ کی بازی گری ، پھکّڑ پن اور ہوائی فائرنگ کا زمانہ اب گذر گیا ۔ اہل علم آج زورِ استدلال ، قوّتِ اخذ و استنباط اور معانی کی گہرائیوں پر نظر رکھتے ہیں ۔ ہر چیز کو علم و استدلال کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی بات پر کان دھرتے ہیں ، جن کا حقیقت سے مضبوط رشتہ ہوا کرتا ہے ۔ ادّعائے محض اور پھسپھسی باتوں پر وہ کان تک نہیں دھرتے اور انہیں ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں ۔
مطالعے کی اہمیت کے حوالے سے ایک مفکر کا قول ہے کہ :
کتابوں کا مطالعہ انسان کی شخصیت کو ارتقا کی بلند منزلوں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ، حصولِ علم و معلومات کا وسیلہ ، عملی تجرباتی سرمایہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے اور انسانی ذہن و فکر کو روشنی فراہم کرنے کا معروف ذریعہ ہے ۔
لہٰذا تعلیمی و تدریسی زندگی کے علاوہ عمومی حالت میں ہمیں کتابوں کا مطالعہ تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے ، کیوں کہ کتب و رسائل کے گہرے
مطالعے سے جہاں ہمارے علم و معلومات میں اضافہ ہوتا ہے ، وہیں فکر و شعور میں بالیدگی ، عزائم میں پختگی ، طبیعت میں کیف و نشاط اور ذہن و دماغ میں تازگی پیدا ہوتی ہے ۔
خالقِ کائنات نے انسان کو عقل جیسی ہمہ گیر طاقت و قوت اور فکر و شعور جیسی بیش قیمت دولت سے نوازا ہے ۔ دنیا کی ساری نیرنگیاں اور ایجادات و اکتشافات کی محیر العقول دل فریبیاں ، عقل و شعور کے صحیح استعمال کا نتیجہ ہیں ۔ عقل کو نتیجہ خیز بنانے اور فکری ارتقاء کو منتہائے کمال تک پہنچانے میں مطالعۂ کتب ، بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ، اسی طرح روحانی ارتقاء کے لے مطالعہ ایک جز و لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اوپر بیان ہوا کہ ” جس طرح جسم کے لیے غذا ضروری ہے ، اسی طرح روح کے لیے بھی غذا ضروری ہے اور ذکرِ الہٰی کے مطالعہ بھی روح کی غذا ہے” ۔
اور آپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ غذا کے بغیر جسم لاغر اور کمزور ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح مطالعہ کے بغیر عقل و شعور میں اضمحلال اور کمزوری آجاتی ہے اور فکری ارتقاء جمود و تعطّل کا شکار ہو جاتا ہے ۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ کے بقول :
” چاہے وہ دین کا کام ہو یا دنیا کا ، یہ اچھی صحت پر موقوف ہے ” ۔ جان ہے تو جہان ہے اور صحت ہے تو سب کچھ ہے ۔ دماغی صحت کے بغیر ایک مکمل صحت مند زندگی کا تصور ممکن نہیں ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں ہر شعبۂ حیات میں ترقی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ، وہیں نت نئی بیماریاں بھی جنم لے چکی ہیں ۔ نفسیاتی امراض نے آج پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اور ماہرینِ طب و صحت ان کے تدارک کے لیے طرح طرح تجاویز اور فارمولے دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں ، تاکہ نفسیاتی امراض کے عذاب سے بنی نوعِ انساں کو محفوظ رکھا جا سکے ۔ دماغی اور نفسیاتی بیماریاں اکثر اوقات جسمانی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں اور متاثرہ افراد کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دیتی ہیں ۔
منشیات کا استعمال ، دیر رات تک جاگنا ، صبح دیر سے اٹھنا ، میاں بیوی کے آپسی جھگڑے ، کمپوٹر اور انٹرنیٹ کا ضرورت سے زیادہ استعمال ، نفسیاتی امراض کے بنیادی اسباب ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی زندگی سے ان امور کو بے دخل کردیں اور مذکورہ قبیح عادات سے حتی الامکان پرہیز کریں ۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق اچھی اور مفید کتابوں کا مطالعہ انسان کو ان امراض سے نجات دلا سکتا ہے ۔ اچھی اور مفید کتابوں کے مطالعے سے انسان کی زندگی میں سکون اور اطمینان جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں ، جو نفسیاتی امراض سے لڑنے اور بہت حد ان کے ازالے میں موثر کردار ادا کرتے ہیں ۔
مطالعہ سے علم و معمولات میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے ۔ گذشتہ قوموں کی تہذیب و ثقافت کا پتہ چلتا ہے ۔ آج کا انسان گذشتہ کئی صدیوں کو مطالعہ کی کھڑکی سے گویا جھانکتا ہے اور قوموں کی عروج و زوال کی داستان کا گہرائی سے مطالعہ کر کے عروج کے اسباب پر کاربند اور زوال کے عوامل سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ہم مطالعہ کی مدد سے ہزار ، دو ہزار سال قبل فوت ہونے والی عظیم شخصیات سے باتیں کرتے ہیں اور یہ مطالعہ ہی کی دین ہے کہ بعدِ زمانی کے باجود ہم قدیم مصنفّین کی بارگاہوں میں حاضری دے کر ان کے علم کے سمندر سے موتیاں چنتے ہیں اور ان کے وسیع تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ مطالعہ ہمیں تضییعِ اوقات اور بُروں کی صحبت سے بچاتا ہے ۔ مشہور کہاوت ہے :
” جیسی سنگت ، ویسی رنگت ”
اچھے دوستوں کی اچھی صحبت کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ۔ اچھوں کی صحبت انسان کو اچھا بناتی ہے اور بُروں کی صحبت اخلاق و عادات پر منفی اثرات ڈالتی ہے ۔ مطالعہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے انسان برے لوگوں کی صحبت سے بچ جاتا ہے ۔ اوباش ، نکمے اور برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے سے بدرجہا بہتر ہے کہ کتابوں کی صحبت اختیار کی جائے اور ان سے دوستی کی جائے ۔ کتاب جیسا سچا اور مخلص دوست انسان کو زندگی کے کسی موڑ پر کبھی ذلیل اور رسوا نہیں ہونے دیتا ، بلکہ اس کی عزت اور قدر و منزلت میں اضافہ کرتا ہے ۔ مطالعہ کرنے والوں کی اصلاح کرتا ہے ۔ ان کے اخلاق و عادات کو سدھارتا ہے اور معاشرے میں کامیابی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا ہنر سکھاتا ہے ۔
ہر انسان کو مطالعہ کی اشد ضرورت ہے ۔ کوئی بھی شخص مطالعہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے ۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ جو جتنا بڑا عالم ہوتا ہے ، وہ اتنا ہی زیادہ مطالعہ کرتا ہے اور دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہو کر کتابوں کی دنیا میں کھویا رہتا ہے اور مطالعہ کی کی حیات بخش لذتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔ مطالعہ ایک قسم کا جنون ہے ، جس کو اس کی عادت یا بلفظِ دیگر چاٹ لگ جاتی ہے ، وہ آخری دم تک اس زلفِ جاناں کا اسیر بن جاتا ہے ۔ وہ کتابوں سے محبت کرتا ہے ۔ مطالعہ کو اپنا محبوب و مطلوب سمجھ کر اس کے ارد گرد منڈلاتا پھرتا ہے ۔
ہمارے بہت سارے اکابر علماء و مشائخ کا یہ معمول رہا کہ وہ رات کو تین حصوں میں بانٹ دیتے ۔ ایک حصے میں آرام کرتے ، ایک حصہ عبادت میں گذارتے اور رات کا ایک حصہ مطالعۂ کتب میں بسر کرتے ۔ اپنے وقت کے مشہور عالم و مؤرخ علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ ” میری پوری زندگی میں صرف دو رات ایسی گذری ، جس میں مطالعے سے میں محروم رہا ۔ ایک : میری شادی کی پہلی رات اور دوسری وہ رات جس میں میرے والد کا انتقال ہوا ۔
مولانا ابو الکلام آزاد نے ” غبار خاطر ” میں ایک جگہ لکھا ہے :
بچپن سے ہی یہ چٹیک سی لگ گئی تھی کہ فراغت ہو ، کتاب ہو اور باغ کا کوئی پرسکون کونا ۔ پھر وہاں بیٹھے گھنٹوں مطالعہ کرتا رہوں ۔
عرب کے مشہور عالم و ادیب ڈاکٹر عائض القرنی کے بقول :
میرے پاس سینکڑوں لوگ آتے ہیں اور ان کے لبوں پر ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ ہم کیسے عمدہ قلم کار بن سکتے ہیں ؟ میری طرف سے ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ ایک دن کا کام نہیں ۔ یہ ایک سفر ہے جو کتاب سے شروع ہوتا ہے اور جب تک کتاب سے رشتہ جڑا رہتا ہے ، یہ سفر جاری رہتا ہے ۔ ایک کامیاب مصنف اور قلم کار بننے کے لیے کتابوں کا خوب خوب مطالعہ کرنا چاہیے ۔
سید سلیمان ندوی کہا کرتے تھے کہ ” ایک صفحہ کا مضمون لکھنے سے پہلے سو صفحات مطالعہ کرنا چاہیے ۔ ایک صفحے کا جو مضمون ، سو صفحات مطالعہ کیے بغیر لکھا جائے ، وہ پڑھے جانے کے لائق نہیں ہے ” ۔
ایک مصنف اور قلم کار کے لیے مطالعہ گویا ” آکسیجن ” کی طرح ضروری ہے ۔ تحریر میں معنویت ، تہہ داری اور چاشنی گہرے مطالعے کے بغیر نہیں آتی ۔ مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں میں رائج نصابی کتب پڑھنے لینے کے بعد انسان متعلقہ علوم و فنون میں ماہر اور کامل و اکمل نہیں بن جاتا ، مہارت تو اس کے بہت بعد مسلسل درس و مطالعہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ غرض کہ ہر جہت سے مطالعہ کی اہمیت و افادیت مسلّم ہے ، کیوں کہ مطالعہ ، تعمیر و ترقی کا ذریعہ ، روح کی غذا اور علمی پیاس بجھانے کے لیے ” آبِ حیات ” کا درجہ رکھتا ہے ۔
راقم کے بعض اساتذہ نے مطالعہ کا مفہوم یوں بیان کیا ہے ، جو بہت حد تک جامع ہے :
المطالعہ : ھو الاطلاع علی ما اراد المصنف .
کتاب کے مصنف کے معنیٔ مراد تک پہنچنے کا نام مطالعہ ہے ۔ یعنی دیگر کاموں کی طرح مطالعہ بھی غور و فکر کے ساتھ ہونا چاہیے اور ہمیں سرسری طریقے سے نہیں بلکہ کامل توجہ اور پوری گہرائی کے ساتھ کسی بھی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہمیشہ مطالعہ ہی میں خود کو مصروف رکھا جائے ۔ مطالعہ کم ہو ، لیکن روزانہ ہو اور پوری پابندی کے ساتھ ہو ۔ یہ نہیں کہ آج جذبات میں آ کر پچاس یا سو صفحات پڑھ ڈالے اور کل سے ایک صفحہ بھی نہیں ۔مطالعے کو اپنی زندگی کا معمولی اور روٹین بنا لیں اور ہر دن پانچ ، دس یا بیس صفحہ ضرور مطالعہ کریں ، اس عمل سے آپ اپنے اندر ضرور تبدیلی محسوس کریں گے ۔ قلبی سکون اور دماغی تازگی کے ساتھ آپ کے سامنے نت نئی معلومات کا ایک ” آئینۂ جہاں نما ” ہوگا ۔
اگر ممکن ہو اور وقت اجازت دے تو زیرِ مطالعہ کتابوں کے اہم نکات اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا کریں ، یہ پوائنٹس آگے چل کر بہت کام آئیں گے ۔ عربی کی ایک کہاوت ہے : العلم صید و الکتابۃ قید . علم ، شکار ہے اور کتابت ( لکھنا ) اس شکار کے لیے قید ہے ۔ کوئی بھی چیز لکھ لینے سے وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جایا کرتی ہے ۔ خود بھی مطالعہ کریں اور اپنے بال بچوں کو بھی مطالعہ کا عادی بنائیں ۔ گھر میں اچھی اچھی کتابیں لا کر رکھیں ۔ میگزین اور رسالے منگوائیں ۔ خود بھی پڑھیں اور بچوں کو بھی اس کی ترغیب دیں ۔ مطالعہ کے لیے ایک وقت متعین کر لیں ۔ رات کی تنہائی اور صبح کا وقت مطالعہ کے لیے بڑا مناسب ہوا کرتا ہے ۔ اگر رات میں نیند نہ آتی ہو اور آپ کو بے خوابی کا مرض لاحق ہو تو اس کے لیے مطالعہ کا نسخہ اپنائیں ۔ کتابیں پڑھتے پڑھتے ، کب نیند آجائے گی ، آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا ۔ ہمیشہ اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں ۔ انبیائے کرام ، صحابہ و تابعین اور بزرگان دین کی حالات زندگی پر مشتمل کتابیں خصوصی طور پر مطالعہ میں رکھیں ۔ سیرت طیبہ اور تاریخ و تذکرہ کے علاوہ قرآن و تفسیر اور حدیث و فقہ کی کتابوں کو بھی اپنے مطالعے کا حصہ بنائیں ۔ ہم اس مذہب کے ماننے والے ہیں جس کے نبی پہلی وحی لفظ ” اقرا ” سے ہوئی ہے ۔ جب تک ہم نے کتابوں سے اپنا رشتہ مضبوط رکھا اور تعلیمی میدان میں پیش پیش رہے ، دنیا کی امامت و حکومت
ہمارے ہاتھوں میں رہی ۔ اور جب سے ہم نے تعلیم سے اپنا رشتہ منقطع کرلیا اور درس و مطالعہ سے دوری اختیار کر لی ، ذلت و پستی کی گہری کھائی میں دن بدن دھنستے چلے گئے ۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج کا ہمارا نوجوان طبقہ درس و مطالعہ کے بجائے اپنا قیمتی وقت موبائل اور انٹرنیٹ پر صرف کرتا ہے ۔ اس افسوسناک رویّہ میں ہمیں تبدیلی لانے کی اور مطالعہ کو اپنی زندگی کا ایک لازمی حصہ بنانے کی ضرورت ہے ۔
نئی دہلی:اتر پردیش اسمبلی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف پرینکا گاندھی اور ان کی پارٹی کوانتخابات سے ایک ماہ قبل بڑا جھٹکا لگا ہے۔ اتر پردیش کانگریس کے رہنما عمران مسعود نے باضابطہ طور پر کانگریس کو چھوڑ کر سماج وادی پارٹی میں جانے کا اعلان کیا۔ عمران مسعود نے آج میٹنگ کی جس کے بعد انہوں نے یہ اعلان کیا۔عمران مسعود کافی عرصے سے ایس پی جانے کا عندیہ دے رہے تھے۔ وہ مانتے ہیں کہ اتر پردیش میں سیدھی لڑائی بی جے پی اور ایس پی کے درمیان ہے۔ عمران مسعود نے 2007 کے اسمبلی انتخابات میں آزاد حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے 2012 میں کانگریس کے ٹکٹ پر اسمبلی الیکشن لڑا اور ہار گئے۔ 2013 میں مسعود ایس پی میں شامل ہوئے تھے۔ اگلے سال وہ کانگریس میں واپس آئے اور سہارنپور سے 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں حصہ لیا۔ مسعود دونوں الیکشن ہار گئے۔2014 میں مسعود کو انتخابی مہم کے دوران نفرت انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیاتھا۔عمران مسعود سہارنپور سے کانگریس کے پانچ بار لوک سبھا ممبر منتخب ہونے والے راشد مسعود کے بھتیجے ہیں۔ راشد مسعود کا انتقال 2020 میں ہوا۔
’’ارے بھائی آپ فون ریسیو کیوں نہیں کرتے، مستقبل میسج پہ میسج بھیجتا ہوں آپ کی طرف سے جواب ندارد، کیا ہوا بھائی، اب ہم جیسے چھوٹے لوگوں سے کاروبار نہیں کرتے ہیں کیا؟‘‘
’’نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں!‘‘
’’نہیں؛ بتائیں اگر آرڈر لینے کی کچھ شرائط ہوں کہ اتنے سے کم کا آرڈر نہیں لیا جائے گا، تو وہ بھی بتا دیں، لیکن آپ تو کچھ جواب ہی نہیں دیتے‘‘۔
’’ارے تنویر بھائی! بات…. اصل میں یہ ہے نہ کہ آپ جو آرڈر دیتے ہیں نہ وہ اردو میں لکھ کر دیتے ہیں، دیکھیے ایسا نہیں کہ اردو ہمیں نہیں آتی، الحمد للہ، السلام عليكم وغیرہ ہم خوب اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں، لیکن بس آپ جو کتابوں کے نام، ( اردو زبان کی پہلی… دوسری… تیسری… نورانی قاعدہ…. فضائل اعمال…. عم پارہ… ألم… بغدادی قاعدہ… یسرنا القرآن…. حافظی قرآن… جلی قلم پارہ سیٹ…. معاون نماز… اشرفی نماز…. مسنون دعائیں…. چھبیس سورتیں….) اردو میں لکھتے ہیں نہ تو تھوڑی دقت ہو جاتی ہے،اس وجہ سے آپ کا آرڈر نہیں جا پاتا ہے۔ ایسا کریں اب آپ میرا پرسنل نمبر لکھ لیں اور انگلش میں آرڈر بھیجا کریں، میں یہاں کا ملازم ہوں؛ لیکن إن شاء الله اب آپ کے آرڈر میں تاخیر نہیں ہوگی‘‘۔
شاید اوپر کا مکالمہ آپ کے ہوش و حواس کے ہاتھوں سے طوطے اڑا دے، طوطے نہیں تو توتے تو ضرور ہی اڑا دے گا، میں اردو کی روزی روٹی کھانے والا کتب فروش ہوں، اردو کی درسی و غیر درسی کتابوں کی تجارت سے تقریباً نصف دہائی سے وابستہ ہوں، اردو کی روزی روٹی سے جڑے لوگ بھی اردو کو بس بے گوشت کی ہڈی سمجھتے ہیں، جسے صرف ہوٹل میں آنے والے گراہک کے برتن میں بوٹیوں کی گنتی بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک مرتبہ بچوں کو اردو سکھانے والی بلکہ حروف شناسی کی پہلی کتاب منگوائی، تو جو کتاب آئی اس پر بڑے ہی خوبصورت انداز میں لکھا تھا ” اردو کا قائدہ” پتہ نہیں، شاید انہوں نے اس اصول پر عمل کیا تھا کہ جو ملفوظ ہوگا وہی مکتوب ہوگا، اس اصول کی کرم نوازیاں اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ طوطے کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے، ” جہاز ” ایک ایسے جزیرے پر پہنچ گیا کہ ” ز” کو ” ج” سے بدلے بغیر داخلے کی گنجائش ہی نہیں تھی کہ اردو کی ایک چار ورقی کتاب میں ” ج” سے ” جہاج ” لکھا ہوا دیکھا، کئی ایک مثالیں ہیں ابھی یاد نہیں۔
دہلی کا جامع مسجد کا علاقہ ہم اردو نوش لوگوں کے لیے بہت بڑا میخانہ ہے، دینی ادبی درسی و غیر درسی کتابوں کی بڑی منڈی ہے، جب ہم نے شروع میں کام کیا تو ہم بڑے ناموں سے ہی واقف تھے، اور یک گونہ آسانی بھی تھی کہ تمام کتابیں ایک ہی جگہ مل جاتی تھیں، کئی ایک دکانوں کے چکر نہیں لگانے پڑتے تھے، ہم بھی ایک بڑے سے نام سے جڑ گئے، واقعی وہ اتنا بڑا نام ہے کہ اردو کتابوں کی طباعت میں شاید آزادی کے بعد کوئی اور نام اس کی برابری کر سکا ہو، مصنفین اپنی کتابوں کی حیثیت بڑھانے کے لیے اس مکتبہ سے اپنے صرفے پر اپنی کتابیں چھپاتے ہیں، ہزاروں سے زیادہ کتابیں اب تک اس مکتبے سے چھپ چکی ہیں، ان کا باضابطہ کمپیوٹرائزڈ بل ہوتا مگر مجھ جیسے اردو کے لکیر کے فقیر کے لیے بسا اوقات بل کا سمجھنا دشوار ہو جاتا ، کتابوں کے نام پڑھنے میں دقت ہوتی کہ سارا بل انگریزی میں ہوتا اور ہم جیسے کم پڑھے لکھے لوگوں والی انگریزی نہیں بلکہ محذوفات و مخففات والی انگریزی، جس کا سمجھنا کارے دارد! عربی طرز و انداز والے نام عجب ٹوٹ پھوٹ کے ہتھے چڑھے ہوتے، ہم قیمت و حجم کے اعتبار سے بل کے پرچے کو حل کر پاتے، یہ سوچ کر صبر کر لیتے کہ شاید کمپیوٹر کا ہاضمہ ابھی اردو کی روٹی کھانے لائق نہیں ہوا ہے، اس لیے مجبوراً انگریزی میں بل بنانا پڑتا ہوگا۔
بعد کے دنوں میں جب ہم بھی اس کمپیوٹر نام والی مخلوق سے روشناس ہوئے تو پتہ چلا کہ ٹکنالوجی کی اس بھاگم بھاگ میں بھی ہم اردو کا لبادہ اوڑھ کر چل سکتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ سافٹ ویر اور ایپس وغیرہ میں ہمارے ہندوستان میں عام طور پر اردو مقامی زبانوں کی فہرست میں نظر نہیں آتی ہے، مگر شاید اس میں بھی ہم نے ہی صرف اپنی روٹی سینکنے پر اکتفا کیا ہے اور اردو کو” یہ منہ مسور کی دال” کہہ کر چھوڑ دیا ہے، ورنہ سافٹ ویر یا ایپس کسی بھی پلیٹ فارم اینڈرائڈ، ونڈوز، ایپل کے ہوں، اس کی ترتیبات(سیٹنگس) اردو میں نہ ہوں مگر ہم اس میں اپنے اندراجات اگر اردو میں لکھتے ہیں تو کوئی دقت نہیں ہوتی ہے وہ قابل قبول ہوتا ہے، شاید ہم یہ کرتے رہیں تو خود ان ایپلیکیشنز کے Algorithm کے ذریعے ایپس بنانے والوں تک ہم اردو کی دستک دے سکتے ہیں؛ تاکہ باضابطہ وہ اردو پروگرامنگ کے بارے میں سوچ سکیں.
سوشل میڈیا کے عالمی سطح کے جتنے بڑے پلیٹ فارم ہیں سب اردو ترتيبات کے ساتھ دستیاب ہیں، ہم مکمل اردو سیٹنگ نہیں کر سکتے تو کم از کم ہم اپنے تحریری پیغامات، کمنٹس اور ٹوئٹس وغیرہ تو اردو میں کر ہی سکتے ہیں، آسان در آسان کی بورڈز اسمارٹ فون کے ہر ایک پلیٹ فارم پر دستیاب ہے،بس ہم اپنی عادت کو بدلنے کی کوشش کریں۔ راستے خود بہ خود کھلتے چلے جائیں گے۔
لکھنؤ : یوپی اسمبلی انتخابات سے پہلے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ یہ انتخاب 80 بمقابلہ 20 فیصدکا ہوگا۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ بتائے گئے اعداد و شمار تقریباً اتر پردیش میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے تناسب سے میل کھاتے ہیں، جہاں اگلے ماہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔راجدھانی لکھنؤ میں ایک پرائیویٹ نیوز چینل کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں اتر پردیش کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ سے برہمن ووٹوں سے متعلق سوال پوچھا گیا۔ اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’’الیکشن اس سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے ، اب یہ الیکشن 80 بمقابلہ 20فیصد کا ہے‘‘۔پروگرام کے میزبان نے پھر کہا کہ اویسی نے کہا ہے کہ وہ 19 فیصد ہیں۔ اسد الدین اویسی، اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اورحیدرآباد کے ایم پی ہیںیوگی آدتیہ ناتھ نے میزبان کے سوال کا مختصر جواب دیا۔چیف منسٹر یوگی نے کہاکہ لڑائی اب 80 اور 20فیصد کی ہوچکی ہے، جو لوگ گڈ گورننس اور ترقی کی حمایت کرتے ہیں وہ 80 فیصد بی جے پی کے ساتھ ہیں اور جو کسان مخالف ہیں، ترقی مخالف ہیں، غنڈوں، مافیا کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ 20 فی صد اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔
ہریدوار دھرم سنسد کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا، سی جے آئی نے کہا – معاملے کی جلد سماعت کریں گے
نئی دہلی : ہریدوار میں دھرم سنسدمیں نفرت انگیز تقریر کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کی جلد سماعت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا کہ ہم اس معاملے کی سماعت کریں گے۔ اس معاملے کے بارے میں سپریم کورٹ میں سینئر وکیل کپل سبل نے کہاکہ ہم نے ہریدوار میں دھرم سنسد میں ہونے والے واقعات پر مفاد عامہ کی عرضی دائر کی ہے۔سی جے آئی نے کہا کہ عدالت اس کا جائزہ لے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس معاملے کی تحقیقات پہلے ہی ہو چکی ہیں؟ اس پر سبل نے کہا کہ اس معاملے میں صرف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، کوئی کارروائی نہیں ہوئی، کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ آخر میں سی جے آئی نے کہا کہ وہ اس معاملے کی سماعت کریں گے۔ پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس انجنا پرکاش اور صحافی قربان علی نے دائر کی ہے۔درخواست میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی ایس آئی ٹی سے آزادانہ، معتبر اور منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ نیز تحسین پونا والا کیس میں نفرت انگیز تقریر سپریم کورٹ کے جاری کردہ احکامات کی تعمیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔انہوں نے 17 اور 19 دسمبر 2021 کے درمیان دو الگ الگ تقاریب میں دی گئی نفرت انگیز تقریر سے متعلق معاملے میں فوری مداخلت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ہریدوار میں ایک دھرم سنسد کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں ایک خاص مذہب کے فرقے کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اس معاملے میں اتراکھنڈ پولیس نے وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن تیاگی اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ پولیس نے اطلاع دی تھی کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کو ایک مخصوص مذہب کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرکے نفرت پھیلانے کا نوٹس لیتے ہوئے کوتوالی ہریدوار میں وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن تیاگی اور دیگر کے خلاف دفعہ 153A آئی پی سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ہریدوار میں یہ پروگرام تین دن تک جاری رہا۔ اس میں نفرت انگیز تقریر کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سابق آرمی چیف، کارکنوں اور بہت سے دوسرے لوگوں نے متنازعہ تقریر کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ترنمول کانگریس لیڈر اور آر ٹی آئی کارکن ساکیت گوکھلے نے اس معاملے میں منتظمین اور مقررین کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔
تہاڑ سمیت دہلی کی تین جیلوں میں کورونا کا قہر ، 46 قیدی اور 43 ملازمین متاثر
نئی دہلی: دہلی کی تین جیلوں میں 46 قیدی اور 43 ملازمین کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے ہیں۔ حکام نے پیر کو یہ جانکاری دی۔ جیل کے ایک سینئر اہلکار نے کہاکہ تمام متاثرہ قیدی اور اہلکار قرنطینہ میںہیں اور ان کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔تہاڑ اور 17 کا تعلق منڈولی جیل سے ہے۔ متاثرہ پائے گئے 43 ملازمین میں سے 25 تہاڑ، 12 روہنی جیل اور چھ منڈولی جیل سے ہیں۔ حکام نے بتایا کہ تہاڑ، منڈولی اور روہنی جیل کے احاطے میں انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جیل کی ڈسپنسریوں کو کورونا دیکھ بھال کے مراکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تہاڑ میں قائم ایک آکسیجن پلانٹ بھی جلد کام کرنا شروع کردے گا۔ ان قیدیوں کے لیے کئی میڈیکل آئیسولیشن سیل قائم کیے گئے ہیں جن میں انفیکشن کی ہلکی علامات ہیں۔ نیزجن مریضوں میں انفیکشن کی علامات نہیں ہیں، ان کے لیے جیل کے احاطے میں ہی الگ آئیسولیشن روم بنائے گئے ہیں۔ عہدیداروں نے بتایا کہ تہاڑ میں 120 بستروں پر مشتمل کوویڈ کیئر سنٹر اور منڈولی میں 48 بستروں کا مرکز قائم کیا گیا ہے۔ جیل انتظامیہ نے بتایا کہ انہوں نے قیدیوں اور عملے کی دیکھ بھال کے لیے چار کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔
پیارے جوش ملیح آبادی!
سلامِ شوق
تمہارا جو ایک خفیہ انٹرویو تھا یعنی اس کو تمہارے مرنے کے بعد شائع ہونا چاہیے تھا مگر تمہارے حاشیہ برداروں نے اس کو قبل از وقت شائع کرکے راز کو فاش کر دیا اور تمہارے اوپر عتاب نازل ہونے لگے۔ میرے نزدیک یہ تمہاری غلطی تھی۔ پاکستان میں رہ کر اقبالؔ کی مخالفت دانش مندی نہیں اور صحیح بات تو یہ ہے کہ تم اقبالؔ کو سمجھ بھی نہیں سکتے؛ کیونکہ اقبالؔ نے دینِ اسلام کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس کی افادیت میں اعلیٰ پیمانے کی گہر افشانی کی ہے۔ ان کا علم اس معاملے میں مکمل ہے۔ تمہارا علم اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ تم دین سے واقف ہی نہیں اور دین کی گہرائیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے علم کم ہے اور پر طرہ یہ کہ تم دہریے بھی ہو۔ تم آفاق کے کفر میں گم ،اقبالؔ دین کی ہمیشگی سے لبریز۔ تمہاری شاعری اس لیے نہیں مانی جا سکتی کہ دونوں میں تضاد ہے۔ میں نے جو اقبال پر اعتراض کیے ہیں اس کی نوعیت الگ ہے ۔ یعنی وہ ملت کی شاعری اگر نہ کرتے تو عظیم شاعر ہوتے لیکن ملت کی شاعری پر میں نے تنقید نہیں کی۔ کیونکہ میں اسلامی مسائل سے نابلد ہوں۔ اور اگر واقف بھی ہوتا تو مجھے اس کا حق نہیں کہ کسی کے دینی معاملات میں دخل دوں۔ ملت کی شاعری کے علاوہ جو کچھ اقبالؔ نے کہا ہے وہ بھی بہت کچھ ہے۔ تمہاری تنقید اقبالؔ پر ہر اعتبار سے غیر معتبر ہے۔ کیونکہ کہیں تم دہریے بن جاتے ہو اور کہیں پر مرثیے میں اپنے جوہر دینی طور پر دکھانے لگتے ہو۔ اور حسینؑ کی مدح میں یہاں تک کہہ گئے ہو۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
تم نے مذہب کی تبدیلی بھی ادبی فائدے کے لیے کی تھی۔ جب اس سے کچھ حاصل نہ ہوا تو علما کے خلاف لکھنا شروع کر دیا۔ سمجھ میں بات یہ نہیں آتی کہ اگر کوئی عالم تعریفِ حسینؑ کرے تو اس پر اعتراض اور تم حسینؑ کی مدح سرائی کرو تو سب سر دھنیں۔ تم نے حسینؑ کی تعریف یہ کہہ کر کی میں حسینؑ الگ سے ایک عظیم انسان مانتا ہوں۔
میرے پیارے! تم تک حسینؑ کی عظمت اور کردار کیسے پہنچا؟ تم تو کربلا میں موجود نہ تھے، ہاں تاریخ کے صفحات ہی اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ لیکن جن صفحات میں حسینؑ کی تعریف ہے اس میں یہ بھی موجود ہے کہ حسینؑ رسولﷺ کے نواسے تھے اور اپنے نانا کی پیروی سے آخر دم تک غافل نہیں ہوئے ۔ یعنی کربلا میں بیعت کے سوال کو ٹھکرا دیا۔ اور عالمِ سجدہ میں شہید ہو گئے۔ تم ان نے سب باتوں کو نظر انداز کر کے حسینؑ کو عظیم مان لیا؟ یہ تمہاری فرضی اُپچ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جس کو کوئی بھی ذی فہم تسلیم نہیں کرے گا۔ ایک طرف تو خدا سے انکار اور بے یقینی اور مزید یہ کہ علما سے خطاب:
خدا کو اور نہ پہچانیں یہ حضرت!
خدا کے ساتھ کے کھیلے ہوئے ہیں
تمہارے عقیدے کے لحاظ سے بھی تمہارا مرثیہ بارگاہِ حسین میں اس لیے پیش نہیں ہو سکتا کہ تم نے خدا اور علما کی بھی توہین کی ہے۔
حسینؑ خدا کے ماننے والے اور نبیﷺ کے نواسے تھے اور خدا ہی کی راہ میں شہید ہوئے۔ اس لیے شاعر نے ان کو یہاں تک مان لیا:
"دیں ہست حسین دیں پناہ ہست حسین”
اس لحاظ سے تم نہ پکے دہریے ہوئے اور نہ حسیںؑ کے شیداء، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ تمہارے والد کو جب تمہاری مذہبی تبدیلی کا تیقن ہوگیا تو انہوں نے اپنی تمام جائیداد سے محروم کر دیا۔ اور صرف سو روپے ماہانہ کے لیے لکھ دیے۔ یہ تمہارا ذاتی بیان "یادوں کی بارات” میں ہے لیکن اس پر تم اپنی ضد پر اڑے رہے اور اسی دوران بقول تمہارے تم نے ایک خواب دیکھا کہ ایک جلوس جا رہا ہے جو اتنا پاکیزہ اور با رونق تھا کہ تمہارے ہوش اڑ گئے اور اسی عالمِ حیرانی میں کسی نے تمہاری پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور وہ تھے جنابِ ابوذر غفاری۔ انہوں نے بتایا کہ اس جلوس میں پیغمبرِ اسلامؐ اور مشکل کشا حضرت علی تھے جو آگے جا کر تمہیں ملیں گے۔ یہ سن کر تم پیچھے پیچھے وہیں پہنچ گئے اور تمہیں دیکھ کر پیغمبرِ اسلامؐ نے علی المرتضیٰ سے کچھ فرمایا، جسے تم سن نہ سکے لیکن علی المرتضیٰ بنفس نفیس تمہارے پاس آئے اور ارشاد فرمایا: "جو ہم سے محبت کرتا ہے نہ تو اس کی دنیا خراب ہوتی ہے اور عقبیٰ۔ جاؤ جوشؔ بلندیاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔”
۔
پیارے جوش!۔ حضرت علی نے صرف تمہاری بلندیوں کے بارے میں فرمایا لیکن دین کی راہ پر چلنے کی کوئی تلقین نہیں فرمائی، اور نہ شراب نوشی سے منع فرمایا۔ گویا ان تمام دینی لوازمات سے تمہیں بری کر دیا۔ طاعت زہد کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں کیا۔ اور حیرت ہے کہ یہ بھی نہیں فرمایا کہ اے جوش!۔ تم نے یہ جو بکا ہےکہ ( شبیر حسن خاں سے بھی چھوٹا ہے خدا)۔ جبکہ خدا کو پہنچوانے کے لیے پیغمبرِ اسلامﷺ تشریف لائےتھے اور کافروں سے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دو تب بھی میں وحدانیت کا پرچار کرنے سے گریز نہ کروں گا۔ اور حضرت علی بھی اسی راہ پر گامزن تھے۔
ایک قوم نصیری تھی جو حضرت علی کو خدا مانتی تھی لیکن حضرت علی نے وحدانیت میں فرق ڈالنے والے کو منکرِ خدا ہی کہا ہے اس لیے حضرت علی سے یہ کہاں امید کی جا سکتی ہے کہ تم جو منکرِ خدا بھی ہو حضرت علی تمہیں بلندیوں پر سرفراز ہونے کی خوش خبری دیں۔ یہ خلافِ عقل اور مذہب اسلام کے منافی ہے۔
اگر حضرت علی ایسے سنگین گنہ گار اور منکرِ خدا کو اپنی محبت اور عنایات سے نواز سکتے ہیں تو میں دنیا و آخرت میں ان کی کرم نوائیوں کا امیدوار ہو سکتا ہوں۔ اب تم یہ کہو گے کہ میں ہندو ہوں اور ہندو ایسے خواب سے سرفراز نہیں سکتے، تو میں یہ کہوں گا کہ منکروں کے لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ایسے خوابوں کو خوابِ پریشاں ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی دلیل بھی نہیں دی جا سکتی۔
مجھے اس سلسلے میں ایک کہانی یاد آ گئی۔ ایک بادشاہ نے اپنے درباری علما سے کہا کہ نماز کے سلسلے میں بادشاہوں کےلیے نماز نہ پڑھنے میں کوئی رعایت ہے؟ ایک موقع پرست عالم نے مختلف دلائل سے دو وقت کی نماز نہ پڑھنے کا جواز پیش کر دیا۔ بادشاہ نے اسے انعام سے نوازا۔ کچھ ہی دنوں بعد بادشاہ نے اور نمازوں کے بارے میں وہی سوال کیا۔ اس مرتبہ دوسرے عالم نے یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور مختلف دلائل سے مزید دو وقت کی نماز کی بھی مثالیں پیش کر دیں بادشاہ بہت خوش ہوا کہ چار وقت کی نماز سے تو نجات ملی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد بادشاہ نے پھر اسی سوال کو دہرایا تا کہ آخری نماز کا بھی کوئی جواز نکل آئے لیکن اس مرتبہ سب عالم خاموش بیٹھے رہے اور کسی کو بھی ہمت نہ ہوئی کہ کوئی جواز پیش کرے۔ بادشاہ کو تردد میں دیکھ کر ایک عالم کھڑے ہوئے۔ بادشاہ نے ان کی طرف بڑے اشتیاق اور اعتماد سے دیکھا۔ دیگر علما یہ سوچنے لگے کہ آخری بازی یہ لے گیا لیکن کوئی یہ نہ سمجھا کہ جھوٹوں اور مصلحت پسندوں کے درمیاں سچے بھی ہوتے ہیں۔ جن کو اپنی سچائی پر یقین کامل ہوتا ہے۔ ان کے سر کسی کے سامنے خم نہیں ہوتے۔ بادشاہ یہ سکوت کا عالم دیکھ کر اس عالم سے مخاطب ہوا کہ مجھے یقین تھا کہ آپ کی نگاہ ہلند اور آپ کا علم عمیق ہے۔ آپ کے مقابل میرے دربار میں کوئی عالم نہیں ہے۔ عالم نے بادشاہ کے حضور میں دست بستہ عرض کیا کہ عالی جاہ! میں نے آپ کے لیے وہ راستہ نکالا ہے کہ اس پر کسی کی نگاہ جا ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ سب کی آنکھوں پر مصلحت پسندی اور خود غرضی کے حسین پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اگر عالی جاہ کسی وقت کی بھی نماز نہ پڑھیں تو اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ میری ناچیز رائے تو یہ ہے کہ حضور! آپ مذہب اسلام سے انکار فرما دیں۔ ان جملوں کو سنتے ہی دربار میں سناٹا چھا گیا۔
پیارے جوشؔ! تمہاری حالت بھی کچھ ایسی ہے۔ تم نے جو خواب دیکھا تھا اس کا قدرتی اثر بقول تمہارے یہ ہوا یعنی اس خواب کی تعبیر یہ ہوئی کہ جس جائیداد سے تمہارے والد نے تمہیں محروم کر دیا تھا دوبارہ تمہارے والد نے تمہارے حق میں بحال کر دیا۔
اب تمہیں بتاؤ کہ یہ خواب تم نے گھڑا ہے یا سچا ہے؟ تم نے یہ خواب شیعہ قوم کو بے وقوف بنانے کے لیے تراشا ہے۔ اگر اس خواب کو تم سچا سمجھتے تو یقینا دہریت سے توبہ کر لیتے۔ بھئی ایسا خواب میں نے اگر دیکھا ہوتا تو میں نے اپنی دنیا ہی بدل دی ہوتی۔ اب تم یہ کہو گے کہ میں ہندو ہوں۔ مجھے یہ پاک ہستیاں خواب میں نظر آ ہی نہیں سکتیں۔ بھئی اس موقع پر میرے خیال میں ہندو مسلمان کا سوال ہی نہیں ہوتا کیونکہ جو منکرِ خدا ہے وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا اور جب مسلمان ہونا تسلیم نہیں ہوا تو یہ خواب بھی خوابِ پریشان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اول تو تم نے اس خواب میں حضرت علی کے لیے جو الفاظ اور جس بد تہذیبی کا مظاہرہ کیا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ یعنی حضرت علی بہ نفسِ نفیس تمہارے پاس آئے۔ خادم مخدوم کے پاس جاتا ہے۔ مخدوم کے آنے سے توہین کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ چونکہ یہ خواب جھوٹا ہے اس لیے تم نے تحریر پر غور نہیں کیا۔ جھوٹ میں یہ غلطیاں عام طور پر ہو جاتی ہیں۔ بہرحال تم اس خواب کے بعد کم سے کم پیغمبرِ اسلامﷺ اور حضرت علی کے تو صحیح پرستار ہو جاتے، نعت یا منقبت سے کچھ نہیں ہوتا:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
مگر تم نے ایسا نہیں کیا؛ کیونکہ ان کی پیروی میں خدا کو بھی ماننا پڑتا۔ اسی لیے میں نے یادوں کی بارات کو جھوٹ کا پلندہ کہا ہے۔ میں میر انیس، محسن کاکوروی، تلسی داس وغیرہ کو اس لیے نہیں مانتا ہوں کہ وہ مذہبی شاعر تھے بلکہ ان کی فنکارانہ صلاحیتیں ادبی دنیا کا عظیم ذخیر ہیں۔
اقبال کی شاعری میں جو تضاد ہے وہ بھی عقل و دانش کا پہلو لیے ہے۔ تمہاری شاعری کا بنیادی تضاد مشقِ سخن پر دلالت کرتا ہے۔ مذہبی داؤ پیچ سیاسی جوڑ توڑ یہ سب شاعری میں ابھرنے کے لیے ہیں۔ یہ بات ضرور ہے کہ تم نے بندشِ الفاظ کی نئی راہیں نکالیں تراکیب کا بہترین سرمایہ گھن گرج کے ساتھ ادب کو دیا ہے۔ شاعری میں جو مقام تم نے حاصل کر لیا ہے اس کو کم نہ سمجھو۔ میری ذاتی رائے ہے کہ آنے والا زمانہ اور تاریخِ ادب تمہیں فراموش نہیں کر سکتی۔ تم زندہ ہو اور زندہ رہو گے؛ کیونکہ ادب میں نئی اور حسین تراکیب کے تم شہنشاہ ہو۔ تم اقبالؔ کو برا کہہ کر اقبال سے بلند ہونے کی کوشش نہ کرو؛ کیونکہ یہ گناہ گناہِ عظیم ہے۔ وقت کی کسوٹی نے جتنا کھرا تم کو مان لیا ہے اس کو کھوٹا نہ کرو۔ پچھلے حالات و خیالات کی تلافی اس صورت سے ہو سکتی ہے کہ یا تو تم توبہ کر لو یا خدائی کا دعوی کر دو۔
تمہارا فراقؔ
جنوری 2، 1975ء
الہ آباد
(بشکریہ ریختہ)