یادیں انسانی زندگی کا کتنا بڑا ثاثہ ہیں ! یادیں رلاتی ہیں ، ہنساتی ہیں ، اور ہم اس گھڑی میں ، جو گزر چکی ہے ، دوبارہ سانسیں لینے لگتے ہیں ۔ مہاراشٹرا اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکیڈمی کے سابق ایکزیکیٹیو افسر ، وقار قادری کی نئی کتاب ’’ درشن : شخصی یادداشتیں ، خاکے / خاکہ نما ‘‘ کے مطالعے نے مجھ پرکچھ ایسی ہی کیفیت طاری کی ہے ۔ نہ جانے کتنے چہرے ، جو اب کبھی واپس لوٹ کر نہیں آئیں گے ، آنکھوں کے سامنے گھوم گئے ہیں ، ان کی نرم گرم باتیں اور آوازیں پھر سنائی دینے لگی ہیں اور یوں لگنے لگا ہے جیسے کھویا ہوا وقت لوٹ آیا ہے ۔ یہ یادیں ، چشم کو تر بھی کر رہی ہیں اور لبوں پرمسکراہٹ بھی لا رہی ہیں ۔ یہ کیفیت ، میرے لیے ، وقار قادری کی اس کتاب کے مطالعے کا ’ حاصل ‘ ہے ۔ کتاب میں ’ صورتیں کیا کیا ملی ہیں خاک میں ‘ کے عنوان سے ( یہ عنوان صرف فہرست ہی میں دیا گیا ہے ، کیوں ؟ اس سوال کا کوئی جواب کتاب میں نہیں ہے) ۲۳ مرحومین کے خاکے ہیں ۔ فہرست کے عنوان ’ رونقِ جہاں تمہیں ہو ‘ کے تحت پانچ ایسے اشخاص کے خاکے ہیں ، جوعلمی ، ادبی اور سماجی زندگی میں اپنے کارناموں سے روشنی کیے ہوئے ہیں ، اللہ رب العزت انہیں عمرِ خضر عطا کرے ، آمین ۔ ’ محبت نامے‘ کے عنوان سے ( یہ عنوان بھی صرف فہرست میں ہے ) وقار قادری کے دو ساتھیوں کے ، دو مضامین شامل ہیں ، پڑھنے والے ، جن سے ، محبت کی خوشبو اڑتے ہوئے صاف محسوس کر سکتے ہیں ۔
ان خاکوں پر بات کرنے سے پہلے ، یہ جان لیں کہ ان مضامین کو کتابی شکل دینے کی ضرورت ، کیوں محسوس کی گئی ، اس سوال کا کوئی جواب ، وقار قادری نے ، نہیں دیا ہے ۔ ’ اپنی بات ‘ میں وہ بس اتنا ہی لکھتے ہیں ’’ چند مضامین لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں ۔ کچھ نے کہا یہ خاکے ہیں ، کچھ نے کہا خاکہ نما ، کچھ نے یادداشتیں ، تو کسی نے تاثراتی مضامین کہہ دیا ۔ اب فیصلہ آپ کا ہے ۔‘‘ گویا قادری صاحب نے ، کتاب پڑھنے والوں کو ، پوراحق دے دیا ہے کہ وہ اپنے لحاظ سے فیصلہ کریں کہ یہ مضامین صنفِ ادب کے کس زمرے میں آتے ہیں ، اور کیا یہ ضروری تھا کہ انہیں کتابی صورت دی جاتی ؟ کتاب میں شامل مقدمہ ’’ خاکہ نگاری اور وقار قادری ‘‘ ، جسے مشہور و معروف طنز و مزاح نگار فیاض احمد فیضی نے تحریر کیا ہے ، مذکورہ سوالوں کا تشفی بخش جواب دیتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’ قاری جب ایک خاکہ ختم کرتا ہے تو ایک اچھا تاثر اس کے ذہن پر قائم ہوتا ہے اور دوسرے خاکے پڑھنے کی خواہش جنم لیتی ہے ۔‘‘ مطلب واضح ہے ، یہ تحریریں خاکے ہی ہیں ، اور جن تحریروں کو تعزیتی مضامین کہا جا رہا ہے ، بقول فیضی ’’ ان میں تعزیتی فقرے محض رسمی طور پر ہیں اور مصنف کے قلم نے انہیں قابلِ ذکر خاکوں کی شکل دے دی ہے ۔‘‘ ظاہر ہے کہ ایک خاکہ پڑھنے کے بعد ، اگر دوسرا خاکہ پڑھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو ، اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ اس کتاب کو شائع ہونا چاہیے تھا ، اور وقار قادری نے اسے شائع کر نے کا فیصلہ ٹھیک ہی کیا ہے ۔
کتاب میں جن ۲۳ مرحومین کے خاکے ہیں ، ان میں سے ۵ ، اشخاص ، ساجد رشید مرحوم ، محمود ایوبی مرحوم ، انور ظہیر خان مرحوم ، م ناگ مرحوم اور مظہرسلیم مرحوم سے میرا گہرا تعلق رہا ہے ۔ یہ وہ خاکے ہیں جن میں ، ان مرحومین کی یادوں کے ساتھ ساتھ ، معروف افسانہ نگار انور خان مرحوم ، بلٹزاور انقلاب کے ایڈیٹر رہے ہارون رشید مرحوم ، حبیب رضا خان مرحوم ، فوٹو گرافر عباس صباحت مرحوم ، آصف خان مرحوم اور ایسے ہی کئی یار دوست ، ساتھی ، گائیڈ اور ہمدرد اور ان کے ساتھ بتائے لمحات یاد آگئے ۔ یہ یاد آنے والے لمحے میرے لیے اس کتاب کے مطالعے کا ’ حاصل ‘ ہیں ۔ ساجد رشید ، جنہیں میں ساجد بھائی کہا کرتا تھا ، کے خاکے کا عنوان مختصر ہے ’ طریقۂ کار ‘۔ خاکے کی شروعات شجاع خاور کے ایک شعر ؎
میاں عموماً تو دشمنی لوگ کرتے رہتے ہیں دشمنوں سے بس ایک ہی شخص شہر میں ہے ، جو دوستوں سے لڑا ہوا ہے
سے ہوتی ہے ۔ شعر کے عین مطابق ، ساجد رشید مرحوم کی اپنےدوستوں سے لڑائی اکثر ہوتی رہتی تھی ، لیکن میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں ، اس کی صرف ایک وجہ تھی ، وہ ایکٹوسٹ تھے اور اپنے ساتھیوں سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی ان کا ساتھ دیں ۔ وقار قادری نے اپنے خاکے میں مرحوم سے کچھ اختلافات کاذکر کیا ہے ، جو ساجد بھائی کی ناگہانی موت کے سبب رفع نہیں ہو سکے ، حالانکہ دونوں ہی طرف سے اختلافات بھول جانے کا ارادہ کیا گیا تھا ۔ وقار قادری لکھتے ہیں ’’ ساجد رشید سے آخری دنوں میں میری ملاقاتیں ختم ہو گئی تھیں ، ان سے ملنے یا عیادت کرنے کے لیے ان کے گھر یا ہسپتال نہ جا سکا تھا ، ہسپتال جانے سے ایک روز قبل فون پر آپریشن کے لیے نیک خواہشات کا اظہار ضرور کیا تھا ۔ کچھ غلط فہمیاں بڑھ جانے ، کچھ احباب کے ہوا دے کر بڑھائے جانے پر اظہار افسوس کر کے ان سے معذرت طلب کی ، جس پر مرحوم کا مجھ سے کہا ہوا آخری جملہ میرے کانوں میں گونج رہا تھا ’’ قادری ! ہسپتال سے آنے پر ہم لوگ مل بیٹھیں گے ۔‘‘ ،’’ ٹھیک ہے ساجد بھائی ۔‘‘ ہسپتال سے آکر ہم لوگ مل بیٹھیں گے ۔ اس جملے میں کتنا یقین اور پختگی تھی ، مگر افسوس ان کی زندگی وفا نہ کر سکی اور مل بیٹھ کر اختلافات کو دور کرنے کی بات اس دنیا میں دھری کی دھری رہ گئی ۔ میں دل مسوس کر رہ گیا ۔‘‘ اس خاکے کی شروعات موت کی خبر سے کی گئی ہے ۔ ایسے چھ خاکے اور ہیں جن کی شروعات موت کی خبر سے ہوتی ہے ۔ فیاض احمد فیضی کا کہنا ہے کہ ’’ شاید مصنف نے شدت تاثر کی خاطر المیہ سے ابتدا کرنے کی تکنیک اپنائی ہے ‘‘ ۔ ممکن ہے یہی بات ہو ، لیکن مجھے یوں محسوس ہوا ہے کہ ، موت کی یہ اطلاعات مصنف کے دل پر خود اس شدت سے اثر انداز ہوئی ہیں کہ ، مصنف کو اپنے خاکوں کی ابتدا ، موت کی خبروں سے کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خاکے تاثراتی بھی ہیں ۔ لیکن تاثراتی ہونے کے باوجود یہ ہیں خاکے ہی کیونکہ ان میں تعزیتی کلمات رسمی طور پر ہی ہیں ، جیسا کہ فیضی صاحب’ مقدمہ ‘ میں کہہ چکے ہیں ۔ م ناگ کے خاکے میں ، ان کا حلیہ ، وقار قادری صرف سوا سطر میں یوں کھینچ دیتے ہیں کہ م ناگ کو جاننے والے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں ’’ پہلی ملاقات میں اپنا کوئی تاثر نہ چھوڑنے والا ، سیدھا ، شریف ، نیک اور غریب ادیب م ناگ ہے ۔‘‘ ندا فاضلی پر دو خاکے ہیں ، ایک ان کی موت سے پہلے کا لکھا ہوا اور دوسرا ان کی موت کے بعد کا لکھا ہوا ۔ ان خاکوں کی خوبی یہ ہے کہ دونوں میں کہیں کوئی تکرار نہیں ہے ۔ پہلے خاکے میں ندا صاحب کے سارے رنگ دیکھے جا سکتے ہیں ، گفتگو کرنے کا ان کا انداز ، غربت اور آسودگی کے دنوں میں زندگی گزارنے کا ان کا ڈھنگ ،’’ اپنے برے دنوں میں بھی انہوں نے مایوسی کو قریب پھٹکنے نہ دیا تھا ۔‘‘ ان کا ، اپنے ہاتھوں سے بنائی کھچڑی اور گوشت کا سالن ، بھر پیٹ کھلانے کا انداز ، اپنے گھر والوں کے لیے محنت کرنے کا ہنر اور اپنی برادری کے لوگوں یعنی ادیبوں کی ضرورتوں کو حتی المقدور پورا کرنے کی کوشش ۔ دوسرے خاکے میں ابتدا ندا کی موت کی خبر سے ہوتی ہے ، اور موت کے حوالے سے وقار قادری ، نداصاحب کی زندگی کے صفحات الٹتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ خا کہ اپنے اندر درد و غم کی کیفیت کو سموئے ہوئے ہے جس کا اثر پڑھنے والے پر بھی مرتب ہوتا ہے ۔
اپنے تین استادوں ، بدیع الزماں خاور ، پروفیسر عالی جعفری اور میمونہ دلوی کے خاکے ، وقار قادری نے محنت ، محبت اور عقیدت سے لکھے ہیں ۔ علی ایم شمسی اور معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق پر لکھی تحریریں شاندار ہیں ، ان میں دونوں ہی، پڑھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔ اقبال نیازی پر خاکہ اچھا ہے ، اس میں اسمعیل یوسف کالج کی یادیں اور وہاں کا ماحول بھی اجاگر ہو گیا ہے ۔ وقار قادری کو ڈراموں کی دنیا سے بھی دلچسپی تھی ، اس کتاب کے پانچ خاکے ان کی رنگ منچ سے کشش کی گواہی دیتے ہیں ۔ ایک خاکہ معروف ڈرامہ نویس وجئے تینڈولکر پر ہے ، ایک مشہور اداکار نیلو پھلے پر ، ایک خاکہ اداکار شفیع انعامدار مرحوم پر اور ایک جیونت دلوی پر ۔ اور ایک خاکہ چیتن داتار پر ہے جو اسٹیج کی دنیا کا ایک اہم نام تھا ۔ کچھ خاکے ایسے ہیں جنہیں ، اگر تھوڑا سا مزید محنت کی جاتی تو ، بہت اچھے ڈھنگ سے لکھا جا سکتا تھا ۔ مثلاً اپنے جوان بھانجے کبیر پالیکر کا خاکہ ۔ اس خاکے کو ایک یادگار نوحے میں ڈھالا جا سکتا تھا ۔ وقار قادری نے کئی ایسے اشخاص کے خاکے بھی اس کتاب میں شامل کیے ہیں جن سے ان کے علاوہ شاید ان کے گاوں یا گاوں کے اطراف ہی کے لوگ واقف رہے ہوں گے ، جیسے کہ زینب بی مقادم ۔ یہ ایک بہترین خاکہ ہو سکتا تھا اگر اسے یادداشت پر مزید زور دے کر اور مشاہدے کی لئے کو کچھ اور تیز کر کے لکھا جاتا ۔ مجھے مرحوم اسلم فرخی کا لکھا ہوا ایک خاکہ یاد آگیا ، جو شاید ان کی کسی عزیزہ کی زندگی پر تھا ۔ ظاہر ہے کہ ایک عام پڑھنے والے کو اسلم فرخی کی عزیزہ سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ، لیکن جب میں نے وہ خاکہ پڑھنا شروع کیا تو ایک ہی نشست میں پڑھ گیا ۔ یہ اسلم فرخی کی زبان اور ان کے بیان کا کمال تھا ۔ بیان کے لیے زبان ضروری ہے ۔ وقار قادری کے یہاں زبان ہے لیکن وہ بہر حال اسلم فرخی نہیں ہیں ۔ ویسے وقار قادری کے یہاں کہیں کہیں جو جملے کھٹکتے ہیں ، زبان کچھ الگ سی لگتی ہے اور بیان پر کبھی بمبیا تو کبھی کوکن کا رنگ چھایا نظر آتا ہے ، وہ ایسا کچھ خراب بھی نہیں لگتا ، کہ ہم ممبئی والے اس کے عادی ہیں ۔ لیکن شااید ان پڑھنے والوں کو ، جو ممبئی کے نہیں ہیں ، یہ زبان نہ بھائے ۔ میرا خیا ل ہے کہ اگر وقار قادری ذرا سی محنت اور کر دیتے تو اس کتاب کی زبان اور بیان نکھر جاتے ۔ ادب نوازوں سے گزارش ہے کہ وہ یہ کتاب ضرور پڑھیں کیونکہ اس میں ممبئی کی ادبی دنیا کا اتارچڑھاو نظر آئے گا ، ادیبوں کی چشمکیں دکھائی دیں گی اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ ادیب ، شاعر اور فکشن نگار حقیقی زندگی میں اپنے پڑھنے والوں کے تصور سے کتنے مختلف یا کتنے قریب ہوتے ہیں ۔ کتاب ’ کتاب دار ‘ نے شائع کی ہے ، اسے موبائل نمبر (9869321477)سے حاصل کیا جاسکتاہے۔
دسمبر 2021
نئی دہلی :کانگریس کے رکن پارلیمنٹ دیپیندر سنگھ ہڈانے احتجاج کے دوران کسانوں کی موت کے اعداد و شمار سے متعلق بیان کے لیے مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ ہڈانے پوچھاہے کہ کیا حکومت سچے دل سے یہ کہہ رہی ہے؟ انہوں نے کہاہے کہ اگر حکومت کے پاس کسانوں کی تحریک میں جان قربان کرنے والے تقریباً 700 کسانوں کے اعداد و شمار نہیں ہیں، تو میں یہ اعداد و شمار حکومت کو دینے کے لیے تیار ہوں۔ حکومت تمام مرنے والے کسانوں کو خراج عقیدت پیش کرے اور کسان خاندانوں کو معاوضہ اور نوکریاں دے۔اس سے زیادہ غلط جواب نہیں ہوسکتاہے۔اگر حکومت چاہے تو میں خود یہ فہرست حکومت کو دے سکتا ہوں۔ یہ فہرست متحدہ کسان مورچہ نے بھی جاری کی ہے۔ تمام ریاستوں میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس فہرست کے حوالے سے لوگوں کی مددکاکام کیا ہے۔ میں خود ان لوگوں کے گھر گیا ہوں۔ ایسی مددپنجاب حکومت نے بھی کی ہے۔ اگر حکومت چاہے تو تمام ریاستی حکومتوں سے یہ فہرست لے سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت ان کی مدد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ نہ تو وہ یہ ماننا چاہتے ہیں کہ اتنے لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور نہ ہی ہم انہیں پہچان دینا چاہتے ہیں لیکن ہم کسانوں کی قربانی رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
کسان احتجاج میں 700 سے زیادہ اموات کا حکومت کے پاس کوئی ریکارڈنہیں ،پارلیمنٹ میں کہا-معاوضہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ اس کے پاس کسانوں کے احتجاج کے دوران مرنے والے کسانوں اور ان کے خلاف درج مقدمات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں کسی کو مالی امداد یعنی معاوضہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے یہ تحریری جواب لوک سبھا میں پارلیمنٹ کے جاری سرمائی اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں دیا ہے۔پارلیمنٹ میں سوال پوچھا گیا کہ کیا حکومت کے پاس ان کسانوں کا کوئی ڈیٹا ہے جو احتجاج کے دوران مر گئے اور کیا حکومت ان کے اہل خانہ کو مالی امداد دینے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ جس کے جواب میں وزیر زراعت کا یہ جواب آیا ہے۔ وزیر نے اس ایوان کو یہ بھی بتایا کہ مرکزی حکومت نے کسان لیڈروں کے ساتھ 11 دور کی بات چیت کی تھی لیکن یہ بات نہیں بن سکی۔ دوسری طرف کسان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ احتجاج کے دوران 700 سے زیادہ کسانوں کی موت ہو چکی ہے۔ بتا دیں کہ 11 دن پہلے قوم سے اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا تھا اور اس کے لیے کسانوں سے معافی مانگی تھی۔19 نومبر کو وزیر اعظم نے کہا تھاکہ ملک سے معافی مانگتے ہوئے، میں سچے اور صاف دل سے کہنا چاہتا ہوں کہ شاید ہماری کوششوں میں کچھ ایسی کمی تھی کہ ہم کسان بھائیوں کو کو سچ نہیں بتا سکے۔ اس کے بعد انہوں نے احتجاج کرنے والے کسانوں سے گھر واپس لوٹنے کی اپیل کی تھی۔
’کسی یو پی اے کا وجود نہیں‘ ،شرد پوار سے ملاقات کے بعد ترنمول سربراہ ممتا بنرجی کابیان
ممبئی : ممتابنرجی فی الحال قومی سطح پر خود کومضبوط کرنے کے لیے کانگریس کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے رہنما شرد پوار سے ملاقات کے بعد انہوں نے کہاہے کہ یو پی اے کیا ہے؟ کوئی یو پی اے نہیں ہے۔شردپوار، جو کہ 2019 کے عام انتخابات سے پہلے اپوزیشن کے چیف مذاکرات کار تھے، نے اسے 2024 کے لیے ٹیمپلیٹ کا نام دیاہے۔ انہوں نے اس ملاقات کی تصویر بھی ٹویٹ کی، ‘مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے ان کی ممبئی کی رہائش گاہ پر مل کر خوشی ہوئی۔ ہم نے مختلف مسائل پر بات کی۔ ہم نے جمہوری اقدار کے تحفظ اور عوام کی بہتری کے لیے اجتماعی کوششوں پر اتفاق کیا۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کانگریس کے بغیر اتحاد کا امکان ہے، شردپوار نے نامہ نگاروں سے کہاہے کہ جولوگ بی جے پی کی مخالفت کرتے ہیں ان کا ایک ساتھ آنے کا خیرمقدم ہے۔ کسی کو ہٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔این سی پی کے سربراہ نے کہاہے کہ ہم نے موجودہ صورتحال اور تمام ہم خیال جماعتوں کے اکٹھے ہونے اور بی جے پی کا ایک مضبوط متبادل فراہم کرنے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیاہے۔قیادت کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ہمیں بی جے پی کے خلاف متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ممتابنرجی چاہتی ہیں کہ شردپوار کانگریس کے زیر قیادت متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کا صدر بنیں، ممتابنرجی نے کہاہے کہ ابھی تک کوئی یو پی اے نہیں ہے۔واضح طور پرانھوں نے کہاہے کہ وہ 2024 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کے ایک نئے اتحاد کو دیکھ رہی ہیں۔
نوادہ میں استقبالیہ اجلاس اور تعلیمی بیداری کانفرنس سے امیر شریعت بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کا خطاب
نوادہ :امارت شرعیہ ہم سب کے ایمان و یقین کا حصہ ہے ، اور جس طرح ہمارے لیے اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت فرض ہے اور اس کے لیے اپنی جان و مال اور توانائی کو خرچ کرنا لازمی ہے ، اسی طرح امارت شرعیہ کو محفوظ و مستحکم رکھنا بھی ہمارا دینی ، ایمانی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی شناخت اور وقار کے ساتھ شریعت اسلامی کے نفاذ کو اس ملک میں برقرار رکھیں تو ہمیں اپنے خون جگر سے امارت شرعیہ کی جڑوں کو مضبوط کرنا ہو گا ۔ یہ باتیں امیر شریعت بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے نوادہ میں منعقد استقبالیہ اجلاس اور تعلیمی بیداری کانفرنس میں ایک بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہیں ۔ آپ نے کہا کہ ایمان کی حفاظت کے بعد ہمارا سب سے مستحکم فریضہ تعلیم کا فروغ ہے ، اس لیے کہ تعلیم ہی وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعہ کوئی قوم ترقی کے معراج پر پہونچتی ہے ۔ مسلمانوں کو تو تعلیم میں آگے بڑھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کو دیے گئے الٰہی احکامات میں سے سب سے اولین حکم پڑھنے اور علم کے حاصل کرنے کا ہی ہے ، کیوں کہ علم ہی کے ذریعہ انسان کو خالق کی معرفت حاصل ہو تی ہے ۔نائب قاضی شریعت جناب مولانا مفتی وصی احمد قاسمی صاحب نے اطاعت امیر کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایمان کے بعد سب اہم چیز اجتماعیت ہے اور اجتماعیت کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ امیر کی اطاعت کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنائے ۔ امیر کی اطاعت کے بنا اس اسلامی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا جو شریعت میں مطلوب ہے ۔ ۔ جناب انجینئر فہد رحمانی صاحب نے رحمانی تھرٹی کی کامیابیوں کا تذکرہ تفصیل سے کیا اور بتایا کہ کس طرح رحمانی تھرٹی خاموشی کے ساتھ قوم کے نونہالوں کے مستقبل کو سنوارنے میں لگا ہوا ہے ۔انہوں نے کہا کہ رحمانی تھرٹی نے قوم کی ناامیدیوں اور بے یقینی کو امید اور یقین میں بدلا ہے ۔ انہوں نے ہر ضلع میں رحمانی تھرٹی جیسے ادارے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔خیال رہے کہ یہ استقبالیہ اجلاس اور تعلیمی بیداری کانفرنس کا انعقاد ضلع نوادہ کے علمائے کرام ،دانشوران ونوجوانان کی جانب سے امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ کے آٹھویں امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کے استقبال میں آج بتاریخ 1دسمبر2021بروزبدھ بوقت 10بجے دن بمقام میدان نزدمدرسہ عظمتیہ انصار نگر نوادہ بہار م کیا گیا تھا۔ اجلاس کی صدارت جانشیں امیر شریعت سابع حضرت مولانا سیدمحمد ولی رحمانی نوراللہ مرقدہ مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم امیرشریعت امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ ،سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر،سرپرست رحمانی30 وچیئرمین رحمانی فاؤنڈیشن نے فرمائی، جبکہ مہمانان خصوصی کے طور پرانجینئرحامدولی فہدرحمانی صاحب مدظلہ العالی ڈائرکٹررحمانی30پٹنہ بہار، جناب مولانا مفتی وصی احمد قاسمی نائب قاضی شریعت امارت شرعیہ، جناب مولانا افتخار احمد قاسمی قاضی شریعت آڑھا ضلع جموئی اور جناب مولانا احتشام رحمانی صاحب خانقاہ رحمانی مونگیر بہار نے شرکت کی اجلاس کی سر پرستی معروف عالم دین حضرت الحاج قاری شعیب احمد صاحب مدظلہ العالی رکن شوریٰ امارت شرعیہ پٹنہ وصدر تعلیمی مشاورتی کمیٹی امارت شرعیہ ضلع نوادہ نے فرمائی ۔اجلاس میں حضرت مولانا محمد شمشادرحمانی قاسمی مدظلہ العالی نائب امیر شریعت امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ واستاذحدیث دارالعلوم وقف دیوبند کو بھی شرکت کرنی تھی ، لیکن حضرت والا دیگر مصروفیت کی وجہ سے شریک اجلاس نہ ہو سکے ، لیکن انہوں نے اپنا تحریری پیغام بھیجا جس کو مولانا نصیر الدین مظاہری نے پڑھ کر سنایا ۔ استقبالیہ کمیٹی اجلاس ضلع نوادہ کے ذمہ داران و ارکان قاری شعیب احمدصاحب، قاری مقصوداحمد،مولانامحمدنصیرالدین مظاہری ،سلمان راغب صاحب، سیدمسیح الدین ،میجراقبال حیدر،قاری شوکت مظاہری،قاری شہادت حسین قاسمی،مولاناشفقت قاسمی،مولاناطیب قاسمی ،آصف علی خان،مولانانظام الدین مظاہری،مولاناسلیم قاسمی،مولانااسلام الحق،مولاناعمران صاحب،ذوالفقارحیدرصاحب،جہانگیرعالم،ڈاکٹرصبااحمد،عارف علی خان،مولاناحسنین مظاہری نے اجلاس کے انتظامات کو بہتر بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ اجلاس کا آغاز قاری شوکت مظاہری صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، نعت شریف جناب مولانا منظرقاسمی صاحب نے پیش کی ، اجلاس کی نظامت کے فرائض مولاناشہادت قاسمی نے انجام دیے ۔ مولاناضیائالدین،پروفیسرعتیق صاحب ،مولانانظام الدین مظاہری ، سیدمسیح الدین، اور نوادہ کے ڈی ایم یس پال مینا،مولانا طیب صاحب اور مفتی مسرور صاحب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ،خاص طور پر ڈی ایم نوادہ نے حضرت امیر شریعت کو گلدستہ پیش کر کے ان کا استقبال کیا اور اپنی تقریر میں امارت شرعیہ کے کاموں کی ستائش اور تحسین کی۔اجلاس کوکامیاب کرنے میں صدرعالم، مولاناابوالعاص، مواناابوالکلام، مولاناطلحہ،مولانامنت اللہ، محمدرضوان عالم ،قاری حسان، حافظ سرفراز ،حافظ فصیح ،ڈاکٹرصبا،مفتی معراج، عارف علی خان، محمدشہنواز، حافظ فیض ، محمدجہانگیر،ذوالفقارحیدر،ماسٹرعلی حیدر ، محمدرابد،محمددانش، محمدعمران ،محمدریاض ، حافظ منظور ، حافظ محمود ،محمدگلاب محمدنوشادخان ونوجوانان انصارنگروغیرہم بھی پیش پیش رہے۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے مبینہ غداری کے الزام میں گرفتار جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم شرجیل امام کی درخواست ضمانت پر دہلی پولیس کو بدھ کو نوٹس جاری کیا۔خیال رہے کہ شرجیل امام پر 2019 میں CAA-NRC احتجاج کے دوران مبینہ اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور مفروضہ تشدد بھڑکانے کا الزام ہے۔ جسٹس رجنیش بھٹناگر نے شرجیل امام کی درخواست پر استغاثہ کو نوٹس جاری کرکے انہیں 11 فروری سے پہلے اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ معاملہ کی اگلی سماعت کے لیے 11 فروری کی تاریخ درج کی گئی ہے۔شرجیل امام نے نچلی عدالت کے 22 اکتوبر کو ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کے حکم کو چیلنج کیا ہے۔ ان کی نمائندگی ایڈوکیٹ سنجے آر ہیگڑے نے کی۔ وہیں استغاثہ کی نمائندگی اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امیت پرساد نے کی۔ شرجیل امام نے کہا کہ تشدد کے الزام میں گرفتار تمام شریک ملزمان کو اس معاملہ میں ضمانت مل
گئی ہے ، لیکن وہ اب بھی گزشتہ 20 ماہ سے جیل میں ہیں۔ ٹرائل کورٹ نے ضمانت مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آزادیٔ اظہار کو فرقہ وارانہ امن اور ہم آہنگی کی قیمت پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔پراسیکیوٹر کے بیان کے مطابق 13 دسمبر 2019 کوشرجیل امام نے مبینہ طور پر ایک اشتعال انگیز تقریر کی جس کے نتیجے میں دو دن بعد جامعہ نگر کے علاقہ میںجامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کے ساتھ تشدد ہوا اور تقریباً مشتعل ہجوم نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کرکے کئی گاڑیاںنذر آتش کیں۔
شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام دو روزہ آن لائن قومی ریسرچ اسکالرز سمینار کے دو تکنیکی اجلاس مکمل
سنی سنائی باتوں پر یقین کے بجائے ذاتی تفتیش اور اخذ نتائج تحقیق کا بنیادی اصول : پروفیسر ابن کنول
نئی دہلی(پریس ریلیز):تحقیقی عمل خاراشگافی اور جہد مسلسل سے عبارت ہے ۔ علمی دنیا میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی ۔ سنی سنائی چیزوں پر یقین کر لینے کے بجائے ذاتی تفتیش اور اخذ نتائج تحقیق کا بنیادی اصول ہے۔ ان خیالات کا اظہار سابق صدر ،شعبۂ اردو ، دہلی یو نیورسٹی ، مشہور ادیب و نقاد پروفیسر ابن کنول نے شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام دو روزہ آن لائن قومی ریسرچ اسکالرز سمینار کے تکنیکی اجلاس میں صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کیا ۔ معروف شاعر و نقاد پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ تحریر و تقریر میں غیر ضروری الفاظ اور خارج از موضوع طویل تمہیدوں سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے دعوے یا تھیسس کی تائید میں دلائل پیش کرنے پر ارتکاز کرنا چاہیے۔ ممتاز فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے اجلاس کی صدارت میں وسیع مطالعے اور تنقیدی و تجزیاتی شعور کی بالیدگی کے لیے سخت محنت اور یکسوئی پیدا کرنے پر زور دیا ۔
سمینار کے پہلے اجلاس میںمحمد خوشتر (حیدر آباد یو نیورسٹی ) نے’ مظفر حنفی کی علمی و ادبی خدمات ‘ ، محمد علیم الدین شاہ (مگدھ یو نیورسٹی ، گیا ) نے ’جدید تر اردو غزل ‘ ، رئیس احمد فراہی (جے این یو ) نے ’مصحفی کا نگار خانۂ آب و رنگ ‘ ، ثوبان احمد (دہلی یونیورسٹی ) نے ’ اردو ناولوں میں ہجرت اور اس کی المناکی ‘ اور ضیاء المصطفیٰ (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’اردو صحافت کی تاریخ : ایک تجزیاتی مطالعہ ‘ کے عنوان سے اپنے مقالات پیش کیے۔
سمینار کے دوسرے تکنیکی اجلاس میں عقیل احمد (لکھنؤ یونیورسٹی ) نے’ لکھنوی ڈراما : فنی خوبیاں اور اصلاح معاشرہ ‘،شمشیر علی (بی ایچ یو ) نے ’ اردو کے چند نامور غیر مسلم صحافی ‘ ، زاہد حسین میر (مرکزی یونیورسٹی آف کشمیر ) نے ’اردو میں تاریخی ناول نگاری : 1980کے بعد نمائندہ ناول نگاروں کے حوالے سے ‘ ، مسعود الحسن خان (محمد علی جوہر یونیورسٹی ،رامپور) نے ’مولانا محمد علی جوہر کی اردو صحافت ‘ ، ثمینہ بی کے کے (شری شنکراچاریہ یونیورسٹی آف سنسکرت ، کیرلا ) نے ’ پروفیسر بی شیخ علی بحیثیت نقاد ، محقق اور ماہر تعلیمات ‘، پی ایم جعفر (تھیرو ولا رودر یونیورسٹی ، ویلور ) نے ’ سراج زیبائی بحیثیت شاعر اطفال ‘، محمد رضوان (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’فن تاریخ گوئی : ایک تعارف ‘، مجوفہ (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’اردو کا مقبول ِعام ادب : منشی فیاض علی کے خصوصی حوالے سے ‘، نصرت پروین (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’فضیل جعفری کی کتاب چٹان اور پانی : ایک تجزیاتی مطالعہ ‘اور محمد وسیم (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’ ہفت روزہ اردو اخبار پیغام کا تنقیدی جائزہ ‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ پہلے اور دوسرے اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر مشیر احمد اور محمد وسیم نے انجام دیے ، جب کہ ڈاکٹر عادل حیات اور ڈاکٹر جاوید حسن کے اظہار تشکر پر دونوں اجلاس کا اختتام ہوا ۔
یوپی: نائب وزیر اعلیٰ کیشو موریہ کانہایت متنازعہ ٹوئٹ:’ایودھیا میں مندر کانرمان جاری ہے، اَب متھرا کی تیاری ہے‘
لکھنؤ: یوپی اسمبلی انتخابات سے قبل نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کے متنازعہ ٹویٹ نے سیاست کو گرما دیا ہے۔ انہوں نے بدھ کو ٹوئٹ کیا کہ ایودھیا کاشی عظیم الشان مندر کی تعمیر جاری ہے، اب متھرا کے لیے تیاری جاری ہے ۔ اس کے بعد کئی قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر شروع ہونے کے بعد سے متھرا جنم بھومی کا واقعہ زور پکڑ رہا ہے۔ پچھلے سال رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کے رکن واسودیوانند سرسوتی نے بھی کہا تھا کہ پہلے رام جنم بھومی پر مندر بنایا جائے گا۔ رام مندر کی تعمیر کے بعد کاشی وشوناتھ اور متھرا کی کرشن جنم بھومی کو’ آزاد‘ کرایا جائے گا، اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ یوپی میں اسمبلی انتخابات میں کچھ وقت باقی ہے،وہیں بی جے پی لیڈران اب اپنے مخصوص ایجنڈے اور پروپیگنڈے ’ہندوتوا‘ کو مزید مضبوط کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے بدھ کو ٹویٹ کیا، جس میں انہوں نے مندر میں متھرا کی تیاریوں کا ذکر کیا، جس کے بعد سیاست میں ہلچل ہو سکتی ہے۔پچھلے مہینے متھراشری کرشن کی جائے پیدائش، اور ورنداون کو یوگی آدتیہ ناتھ نے ’یاترا استھل‘ قرار دیا تھا۔ متھرا-ورنداون میونسپل کارپوریشن کے 22 وارڈوں کوزیارت گاہیں قرار دیتے ہوئے ریاستی حکومت نے وہاں گوشت اور شراب کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی، جس کے بعد سادھو سنتوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔ آنے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظربی جے پی متھرا کو تیرتھ استھل بنائے جانے کے فیصلے کو انتخابی ایشو بناکر سیاسی روٹی سینک سکتی ہے ۔ برج راج تہوار کا افتتاح ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے 10 نومبر 2021 کو کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے 500 سنت مہنتوں کے ساتھ کھانا کھاکراور ان کے سا تھ کچھ وقت گزارکر یہ پیغام دیا کہ ہندوتوا ہی یوپی الیکشن میں ان کا بنیادی ایجنڈا ہوگا۔
(صدر :گلف اردو کونسل)
تما م مسائل اور بے شمار اتھل پتھل سے جوجھتے ہوئے وقت کے دھارے نے جب آئندہ کے دروازے پر دستک دی تو قدرتی طور پر کئی خوشگوار معاملات بھی بیدار ہو کر نئی صدی کا استقبال کرنے لگے۔ نئی نئی ایجادات اور نئی نئی جہتیں کھل کر سامنے آئیں۔ فور جی ( 4G) موبائل سروس کے عام ہونے کے بعد واٹس اپ نے سماج کے اندر ایک نئے انقلاب کو جنم دیا۔ اس روشنی کی رفتار نے بہت سی پریشانیاں بھی پیدا کیں ، تاہم کسی بھی ایجاد کے مثبت پہلو سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس تکنیک کے شروعاتی ایام میں تو اردو سے اس کا تعلق کم کم، بلکہ بہت ہی کم رہا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اردو اور تکنیک نے بھی ایک دوسرے کا دامن تھام لیا۔ اس کا نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے۔ عوامی ذرائع ابلاغ کے سہارے بہت سے ایسے قابل قدر لوگ سامنے آئے جو پہلے بہت کم نظر آتے تھے۔ عزیزم دیدار بستوی سے میری ملاقات بھی اسی ذریعہ سے ہوئی تھی۔ ’پرندہ ہے کہ اڑتا جا رہا ہے‘آپ کا شعری مجموعہ ہے۔
۱۵۲صفحہ پر مشتمل شعری مجموعہ ـ۲۰۱۳ء میں شائع ہوا ہے۔ کتاب ہذا میں شامل انتخاب شاعری میری نظر میں ایک ایسے تجربہ کار شاعر کے فکر کا وہ عکس ہے جو آج کل کے نوجوانوں میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ مصرعے نہایت ہی چست اور فکر لاجواب ہے ، اس لئے عزیزم دیدار بستوی کی شاعری اپنے قارئین سے داد حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔ متذکرہ کتاب نہایت ہی خوب صورتی سے شائع کی گئی ہے، جس میںایک نعت اور اکیاون غزلیں شامل ہیں ۔کتاب سے چند اشعار کا ملاحظہ فرمائیں :
فضا میں تیر چھوڑے جا رہے ہیں
پرندہ ہے کہ اڑتا جا رہا ہے
ہو چکی باتیں محبت کی بہت سی فون پر
اب چلو کچھ دیر سو جائیں سحر ہونے کو ہے
میں اس کے حکم کو مانوں یہ مشورہ ہے مجھے
امیر شہر نے کس خانے میں رکھا ہے مجھے
بخیلی جب کسی کے ذہن میں گھر کرنے لگتی ہے
پرندے شاخ سے چھت پر اترنا چھوڑ دیتے ہیں
زندگی کے ٹیڑھے میڑھے راستوں کا رنج کیا
تم جو میرے ساتھ ہو تو حادثوں کا رنج کیا
گلوں کا رنگ بلبل کی نزاکت دیکھ لی میں نے
تری تصویر کیا دیکھی قیامت دیکھ لی میں نے
مسکراہٹ تھی ابھی آپ کے رخ پر لیکن
کون سی فکر نے پیشانی پہ بل ڈال دیا
اشعار ہر لحاظ سے بہتر ہیں جب کہ بھرپور اور طویل مضمون کے طور پر محترم پدم شری بیکل اتساہی، محترم پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، محتر م پروفیسر علی احمد فاطمی،
محترم ڈاکٹر بشیر بدر، محترم منور رانا، محترم ڈاکٹر محمد رضی الرحمان (گورکھ پور یونیورسیٹی) ،محترم ڈاکٹر شکیل احمد معین ، محترمہ ڈاکٹر زیبا محمود ، محترم پروفیسر انجم
عرفانی، محترم عشرت ظفر، محترم ڈاکٹر تشنہ عالمی، ڈاکٹر قمر رئیس، محترم ڈاکٹر رضوان الرضا رضوان (علیگ) کے خیالات و افکار کو شامل کیا گیا ہے ۔ اس فہرست پر نظر پڑتی ہے تو یہ سب مہابھارت میں ہستنا پور کے مہارتھی کی طرح ویراٹ کے جنگ میں دکھائی دیتے ہیں ۔ فن شاعری کی تعریف میں سب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار مثبت طریقے سے کیا ہے۔ عزیزم دیدار بستوی کے ساتھ میںخود بھی کئی محفل مشاعرہ میں شامل رہا ہوں۔ آپ کی شاعری قابل توجہ اور پڑھنے کا انداز بھی بہت مناسب ہے ۔ ان سب معاملات کے باوجود میں یہ کہیں سے نہیں پاتا ہوں کہ عزیزم دیدار بستوی کی شاعرانہ عظمت اور ادبی دبدبہ اس طرح قائم ہوا جیسا کہ ہو جانا چاہئے تھا۔ یہ باتیں میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ میرے دل میں اس کی کسک ہے۔ برادرم دیدار بستوی سے احترام کا دوستانہ رشتہ ہے۔ آپ نے میرے ا عزاز میں معتبر شعرا کی طویل فہرست کے ساتھ گورکھپور میں (۲۰۱۹ء) ایک بڑا مشاعرہ بھی منعقد کیا تھا، جس کی صدارت محترم ڈاکٹر کلیم قیصر صاحب نے فرمائی تھی۔ ان تمام معاملات کو دیکھنے سے ا یسا لگتا ہے کہ برادرم دیدار بستوی سے کہیں نہ کہیں کوئی ایسی ادبی چوک ہوئی ہے ،جس نے آپ کی شخصیت کو اس طرح پنپنے نہیں دیا، جس کا میں متمنی ہوں ۔ ایک دوست ہونے کے ناتے میں مشورہ دے سکتا ہوں کہ برادرم دیدار بستوی کو اس کی جانچ کر کے اپنی سمت کو صحیح کرنا جاہئے۔ ملاحظہ فرمائیں ڈاکٹر شکیل احمد معین صاحب اور ڈاکٹر زیبا محمود صاحبہ کی تحریر سے اقتباسات :
’’جب وہی شاعر غزل جیسی نازک جیسی نازک صنف سخن پر طبع آزمائی کرتا ہے، تو اس کے نوک قلم سے ایسے ایسے اشعار نکلتے ہیں جو بڑے بڑوں کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ دیدار بستوی عہد حاضر کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے لفظوں کی ساتھ سے کھیلا نہیں ؛بلکہ مشاہدے اور تجربے کی کسوٹی پر برتا ہے ۔ آنے والے کل میں اردو شاعری دیدار بستوی کے شعری اثاثہ پر ناز کر سکتی ہے‘‘۔ (ڈاکٹر شکیل احمد معین )
’’ منفرد لب و لہجہ سے مزین دیدار بستوی کا شعری مجموعہ ـ’پرندہ ہے کہ اڑتا جا رہا ہے‘ ـ ایک ایسا کارنامہ ہے جس میں انہوں نے راست گفتاری کے آداب کو ملحوظ نظر رکھا ہے ،جو اردو شعری سرمایے میں گراں قدر اضافہ کی حیثیت رکھا ہے۔ آپ کی قوت فکر پر زور پرواز تخیل کی غماز ہے، جو قاری کے ذہن کے دریچوںکو کھولنے پر آمادہ کرتی ہے۔ آپ کے شعری افکار، نظریات ، شعر و ادراک اردو افق پہ نئے منظر پیش کرتے ہیں۔آپ کے فن پاروں کی زبان شستہ و رفتہ ہے اور آپ خیال کی طرفگی سے لبریز جوہر پارے کو شاعری کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش میں کامیاب ہیں۔ لے ،نوا اور صدا کی خوبصورت آمیزش سے آشکار آپ کا شعری سفر جدت طبع سے آراستہ و پیراستہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ اردوداں طبقہ اور ذوق شناسانِ ادب آپ کی کاوش کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنائیں گے‘‘۔(ڈاکٹر زیبا محمود)
Cell : 9891726444
Email:[email protected]
کتاب شناسی بھی مردم شناسی کی طرح آسان نہیں ہے۔ انسانوں کے اوصاف و امتیازات کی تشخیص میں جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کچھ ایسی ہی مشکلات کتابوں کی شناخت میں بھی پیش آتی ہیں۔مردم شناسی کے لیے جس قوت ادراک Cognitive Powerکی ضرورت ہوتی ہے، ویسی ہی قوت کتاب شناسی کے لیے ضروری ہے کہ احساس کے اجالے اور لفظوں کی روشنی سے ہر آنکھ کا رشتہ قائم نہیں ہو پاتا ۔انسانوں کی طرح کتابوں کے اسرار بھی ہر ایک پر نہیں کھلتے ۔کچھ ہی اکسراتی آنکھیں ہوتی ہیں جو ظاہر و باطن کو دیکھنے کی قوت رکھتی ہیں۔ قدرت نے احسن مفتاحی کی آنکھوں کو وہی قوت ودیعت کی ہے جس سے وہ کتابوں کی ماہیت، مزاج، معیار کو صحیح طور پر دیکھ لیتے ہیں اور کتاب کا ہر لفظ ان کے ذہن میں تحلیل ہو کر زشت و خوب کا احساس کرا دیتا ہے۔
در اصل تبصرہ ایک Detection System ہے جس سے کتاب کے محاسن اور معائب کی تشخیص آسان ہوجاتی ہے۔ اور تبصرہ نگار کے Cognitive Radar پر کتاب اپنی جملہ ماہیت اور معنویت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے۔ احسن مفتاحی تبصرہ نگاری کے ذیل میں اس روایت کے امین ہیں جس میں مولوی عبد الحق، قاضی عبد الودود، کلیم الدین احمد، ظ۔انصاری، کلام حیدری، شمس الرحمن فاروقی، وہاب اشرفی وغیرہ جیسی شخصیتوں کے نام آتے ہیں۔ان کے تبصرے تحسین یا تنقیص نہیں بلکہ تعین قدر کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ بات بلالیت و لعل کہی جا سکتی ہے کہ ان کے تبصروں میں ان تلازمات کا التزام ہے جن کی طرف بڑے ناقدین اور مبصرین نے اشارے کیے ہیں۔
ہر مبصر کا اپنا ایک خاص ذہنی علاقہ ہوتاہے اور وہ ان جزئیات پر زیادہ مرکوز ہوتا ہے جن سے ذہنی مناسبت ہوتی ہے۔ احسن مفتاحی کا زبان و بیان سے زیادہ سروکار ہے، اسی لیے وہ کتابوں پر لکھتے ہوئے صحت زبان پر زیادہ د ھیان دیتے ہیں اور خود بھی اپنے تبصروں میں صحت زبان کا التزام کرتے ہیں۔ زبان کی ذرا سی غلطی پر ان کا فشار دم بڑھ سا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے تبصروں میں زبان کے زوال پر سب سے زیادہ تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کے زوال کے لیے ذمہ دار وہ زیادہ تر اردو کے پروفیسروں کو قرار دیتے ہیں۔ان کے مختلف تبصروں سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :
(الف) جناب اعزاز صاحب اگرچہ پروفیسر تھے مگر میں محترم افضل صاحب کو پروفیسر لکھنا پسند نہیں کرتا کیونکہ اردو کے پروفیسر اور اردو کے اخبار نویس اردو سے نا بلد ہوتے ہیں۔ (خد وخال/اعزاز افضل)
ہماری درسگاہوں میں اردو پڑھانے والے معلم عام طور پر اردو نہیں جانتے مگر یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے پروفیسر یوسف تقی اردو جانتے ہیں اور بڑی پیاری اردو جانتے ہیں۔ (خشک ٹہنی زرد پتے/یوسف تقی)
سحر صاحب ڈاکٹر ہیں مگر میں ان کو ڈاکٹر نہیں لکھوں گا کیونکہ ڈاکٹر تو خلاکو مؤنث لکھنے والے شمیم ہاشمی بھی ہوا کرتے ہیں۔ اردو پر عجب وقت پڑا ہے کہ اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والے بہت سے افراد خط اور اعلان لکھنے کی استعداد سے بھی محروم ہیں۔ (اردو رسم الخط اور املا/ابو محمد سحر)
اب تک میں سمجھتا تھا کہ اردو کے اخبار نویس اور درسگاہوں میں اردو پڑھانے والے عام طور پر اردو نہیں جانتے مگر جناب جمیل عظیم آبادی کی کتاب روایت کے قیدی پڑھ کر معلوم ہوا کہ اردو کے ادیب و شاعر اور نقاد بھی اردو نہیں جانتے۔ (روایت کے قیدی/جمیل عظیم آبادی)
احسن مفتاحی کے کچھ اور تبصروں میںاس طرح کے جملے نظر آ جاتے ہیں۔ اس طرح کے زنبوری جملے قلندرانہ وضع کے احسن مفتاحی ہی لکھ سکتے تھے۔جنھیں نہ کوئی خوف تھا نہ کوئی خطر۔ انھوں نے بغیر کسی لاگ ولپیٹ کے اور بلا خوف لومۃ لائم وہی کچھ لکھا جو ان کے ذہن اور ضمیر نے کہا۔ ضمیر سے انحراف و انکار انھیں گوارا نہیں، اسی لیے انھوں نے وہ طرز اختیار کیا جسے بہت سے تخلیق کار پسند نہیں کرتے۔ در اصل انھیں صرف ستائشی اور تحسینی کلمات کی توقع رہتی ہے۔ مگر احسن مفتاحی نے اپنے تبصروں میں زیادہ تر جگہوں میں ترشی اور تلخی جارحیت اور جراحی سے کام لیا ہے کہ ان کا مزاج ہی ایسا ہے۔ انھوں نے خود لکھا ہے:
’’ میں تنقید اور تبصرے میں کسی مروت اورلحاظ کا قائل نہیں۔ اس لیے حق گوئی اور بد گوئی میں بعض اوقات فرق نہیں محسوس ہوتاہے‘‘۔ (مظہر امام نئے منظر نامے میں/جمال اویسی)
اور دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’مجھے ایسے ہی تنقید نگار اچھے لگتے ہیں جو اپنی باتیں کسی لاگ و لپیٹ کے بغیر کہتے ہیں اور کوئی تحفظ نہیں رکھتے ، نیز ہر قسم کی گروہ بندی سے بالا تر ہوتے ہیں۔ ہمارے شعر و ادب کو گروہ بندی نے بڑا نقصان پہنچایا ہے جو گدھے کو بھی اسپ تازی بنادیتی ہے‘‘۔ (جرأت افکار/کوثر مظہری)
احسن مفتاحی نے اپنے تبصروں میں یہی طور وطرز اختیار کیا ہے اور بغیر کسی مروت اور مرعوبیت کے وہی باتیں لکھی ہیںجنھیں انھوں نے سچ سمجھا اور سچ جانا۔ اس سلسلے میں انھوں نے کسی عہدے کا بھی پاس نہیں رکھا کہ در اصل احسن مفتاحی جلب منفعت کے لیے تبصرہ نہیں لکھتے تھے بلکہ ان کا طریق دفع مضرت کا تھا۔اردو کے ممتاز ناقد اور شاعر حامدی کاشمیری کے شعری مجموعہ ’’خواب رواں‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ حامدی کاشمیری اس عہد کی بہت بڑی شخصیت ہیں اور گوپی چند نارنگ کے ہم عصر اور ہم پلہ ہیں مگر حرف اول میں حامدی صاحب نے اپنے بارے میں لکھا ہے ۔میں شعر اور تنقید میں اولیت شعر ہی کو دیتا ہوں۔ میری عمر عزیز کا ایک ایک پل فکر سخن ہی کے التہاب کی نذر ہوا ہے رہی تنقید نگاری تو میرا کاروبار شوق ہے یعنی حامدی صاحب خود کو تنقید نگار سے زیادہ اچھا شاعر سمجھتے ہیں تو یہ ان کی خوش فہمی ہے۔ پوری کتاب میں پڑھ گیا اور مجھے آورد ہی آورد نظر آئی، آمد کہیں نظر نہیں آئی۔‘‘ (خواب رواں/حامدی کاشمیری)۔
جبار علی رضوان انصاری کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے یہ لکھا ہے کہ:
’’ میں کسی کی اعلیٰ ڈگریوں سے مرعوب نہیں ہوتا اور جو لکھنا ہوتاہے وہ بے جھجھک لکھتا ہوں ۔‘‘
اس طرح کے بہت ہی جارحانہ جملے ان کے تبصروں میں ملتے ہیں۔ یہ پتہ لگانا دشوارہے کہ انھوں نے یہ تبصرے کن ساعتوں اور کیفیتوں میں لکھے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس نو ع کے تبصرے انھوں نے نہایت برہمی یا غیظ وغضب کے عالم میں لکھے ہوں۔ کیونکہ ان کے بہت سے تبصرے پڑھنے سے یہ بھی احساس ہوتاہے کہ انھوں نے نہایت خوشگوار ساعتوں میں لکھے ہوں گے۔ورنہ ان تبصروں کا رنگ بھی الگ ہوتا۔انھوں نے زیادہ تر تبصروں میں اختصار، اجمال سے کام لیا ہے بلکہ کہیں کہیں توتفصیل سے کام لینا چاہیے تھا تو وہاں صرف چند سطروں کے سہارے اپنی بات کہہ گئے ہیں۔ مجھے ان چند سطری تبصروں کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ اس طرح کے منحنی تبصرے کس زمرے میں رکھے جائیں گے، یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔بہر حال یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ احسن مفتاحی کا سارا درد زبان کے زوال سے جڑا ہوا ہے۔اسی لیے وہ اپنے تبصروں میں زبان کے زوال کا نوحہ لکھتے اور مرثیہ پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس تعلق سے چند اقتباسات پیش ہیں تاکہ ان کے کرب کا اندازہ لگایا جاسکے:
’’دنیا میں اردو جاننے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ اتنے کم کہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ اردو دینی مدارس میں رہ گئی ہے مگر اب اردو دینی مدارس میں بھی نہیں رہی۔ بڑے بڑے دینی مدارس کے جو مجلے اور جریدے شائع ہوتے ہیں، ان کا مطالعہ کرکے بڑا افسوس ہوتاہے ۔‘‘(منظر شہاب حیات اور فکر وفن/صلاح الدین رام نگری)
’’اردو پر بڑا برا وقت آگیا ہے۔ اردو جاننے والے نا پید ہوتے جارہے ہیں۔ اردو کا اصل سرچشمہ فارسی اور عربی زبانیں ہیں۔ اردو والوں میں عربی اور فارسی کا چلن بہت کم ہوگیا ہے، اس لیے اردو مٹتی جارہی ہے۔ اسلامیات سے بھی اردو والے لا تعلق ہوگئے ہیں، اس لیے وہ اردو سے بھی لا تعلق ہوگئے ہیں۔اب اردو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے والے بھی نہیں ملتے۔‘‘ (نئی افسانوی تقلیب/مہدی جعفر)
احسن مفتاحی کو خدا بخشے کہ انھوں نے بہت کم لوگوں کو بخشا ہے۔ ان کے طنز کا شکار بیشتر وہ افراد بنے ہیں جو ترقی درجات کے لیے کتابیں تحریر تو کرتے ہیں مگر ترقی زبان پر زیادہ توجہ نہیں دیتے اور زبان کا زائچہ اور ذائقہ بگاڑتے رہتے ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو احسن مفتاحی کے تبصروں کا یہ مجموعہ’ کھرے کھوٹے ‘ہمیں اردو اور اصناف ادب کے بہت سے زاویوں سے روشناس کراتا ہے۔ اور ہمیں وہ آئینہ دکھاتا ہے جس میں ہماری پیاری زبان کا چہرہ مسخ ہوتا نظر آتا ہے اور صورت بگڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
جس طرح ہر انسان کی شخصیت دوسرے انسان سے منفرد ہے، انگلیوں کے نشانات الگ ہوتے ہیں، ایک انسان کی پہچان دوسرے سے مختلف ہے۔ اسی طرح ہر ایک کے لکھنے کا انداز الگ الگ ہے۔ کچھ لوگ چھوٹا لکھتے ہیں، کچھ بڑا، کچھ سیدھا لکھتےہیں، کچھ ترچھا اور کچھ کی لکھائی تو وہ خود ہی پڑھ سکتے ہیں کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ اگر آپ نے لکھائی پہلے دیکھ رکھی ہو تو آپ کسی کی لکھائی دیکھ کر پہچان سکتے ہیں کہ یہ کس شخص کی لکھائی ہے۔ اللہ نے انسان کی شخصیت کے خدوخال کو اس کی لکھائی میں بھی پوشیدہ رکھا ہے۔ لوگ لکھائی کے ذریعے شخصیت پر تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ یہ بھی پامسٹری، ٹیروکارڈ اور علم الاعداد کی طرح کا ایک علم ہے۔ انھی ساری خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد عثمان ذوالفقار نے ایک معروف لکھاری نوشاد عادل کو ہاتھ سے لکھی تحریروں کا آئیڈیا دیا۔
اس منفرد کتاب کا نام شان دار ادیب ،مزاح نگار عارف مجید عارف نے "قلم کتاب” تجویز کیا۔ قلم اور کتاب کا جنم جنم کا ساتھ ہے اور ان کی فضیلت تو الہامی کتابوں میں بھی مجود ہے۔ خود قرآن میں اکثر مقامات پر قلم کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم کے نزدیک قلم وکتابت کی اہمیت کا ثبوت اس سے زیادہ اورکیا ہوسکتا ہے کہ قرآن حکیم کی ایک سورۃ کو ’القلم‘ ،کا نام دیاگیا ہے اور اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم بھی کھائی ہے اور ان چیزوں کی بھی، جنہیں قلم لکھتا ہے ۔
نٓ والقلم وما یسطرون (القرآن الحکیم، سورہ القلم، ۱)
قسم ہے قلم کی اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں ۔
جنگ بدر کے موقعے پرمکہ کے جو جنگی قیدی بنے ان میں سے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، ان کی آزادی کےلیے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فدیہ مقرر فرمایا تھا کہ ا ن میں سے ہرایک مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے ۔
کتاب آپ بیتیاں حصہ دوم کی اشاعت اور اس کی مقبولیت کے بعد سوچا گیا کہ کیوں نہ کچھ ایسا کیا جائے کہ ادب اطفال کے لکھاریوں کی لکھائیاں محفوظ ہو جائیں۔ موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک شاہکار تخلیق کیا جائے اور ایسا کچھ کیا جائے کہ لوگ اپنے من پسند لکھاریوں کی لکھائی سے بھی واقفیت حاصل کر لیں اور انہیں پڑھنے کو مواد بھی مل جائے؛ چنانچہ اس شاہکار کتاب کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا بیڑا نوشاد عادل نے اٹھایا اور اسے پبلش کرنے کا کام محبوب الہی مخمور نے اپنے ذمے لیا۔
اس کے مدیر اعلی ذوالفقار علی بخاری ہیں اور معاون مدیر فاکہہ قمر ہیں۔ یہ تمام احباب جن کا ذکر اس تحریر میں کیا گیا ہے اپنے اپنے نام میں ایک اثاثہ ہیں اور ادب اطفال کی ترقی کے لیے بہت کام کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کہنا اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کے برابر ہے۔ ان سب کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اللہ ان سب کو کامیابیاں عطا فرمائے اور ادب اطفال کی مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
چاہنے والے تمام لکھاریوں کی لکھائی کو ان کا آٹوگراف سمجھ کر محفوظ کر سکتے ہیں۔ اس کتاب کی یہ خاصیت ہوگی کہ اس میں صرف ہاتھ سے لکھی گئی تحریر ہی نہیں ہو گی بلکہ لکھاریوں کے دستخط، ان کا برقی پتہ اور رابطہ نمبر بھی شامل ہو گا۔
یہ ایک لاجواب مجموعہ تیار ہو گا، جو کہ نہ صرف ہر لائبریری میں محفوظ ہونا ضروری ہے؛ بلکہ ملکی و عالمی سطح پر بھی اس کو متعارف کروایا جانا چاہیے؛ کیوں کہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد خیال ہے۔ اگر آپ خواہش مند ہیں کہ آپ کی ہاتھ سے لکھی گئی مختصر کہانی تاریخ ساز کتاب ’’قلم کتاب“ کا حصہ بنے، تو آج ہی اسکین کردہ یا واضح فوٹو درج ذیل ای میل اورواٹس ایپ نمبر پر ارسال کیجئے۔ یاد رہے جس قدر یہ صاف اور واضح ہوگی اتنے ہی شاندار انداز میں یہ شائع ہو سکے گی۔ آپ کو اپنی کہانی A4 سائز صفحے پر بلیک پوائنٹر سے لکھنی ہے،جس پر آپ اپنا نام، ای میل، رابطہ نمبراوردستخط بھی دے سکتے ہیں۔ مزید کسی بھی معلومات کے لیے فاکہہ قمر، محبوب الہی مخمور صاحب اورذوالفقار علی بخاری سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
[email protected]
[email protected]
واٹس ایپ نمبر: 0333.2172372
موجودہ دور میں فکرِ اسلامی کے چند اہم موضوعات ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
برادرِ عزیز ابو الاعلی سید سبحانی صدر انجمن طلبۂ قدیم جامعۃ الفلاح نے پہلے ہی وعدہ کروالیا تھا کہ جامعہ کی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس کے موقع پر طلبہ کے درمیان توسیعی خطبات کروائے جائیں گےـ انھوں نے مجھ سے ایک خطبہ دینے کی خواہش کی اور ‘ موجودہ دور میں فکرِ اسلامی کے اہم موضوعات ‘ کا عنوان بھی طے کردیاـ میرے لیے کسی عذر کا موقع نہ تھا ـ
لیکچر ہال پہنچا تو پورا ہال طلبہ سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھاـ چند اساتذہ بھی موجود تھےـ ابتدائی تعارف کے بعد مجھ کو اظہارِ خیال کرنے کی دعوت گئی ـ میری گفتگو درج ذیل نکات پر مشتمل تھی :
(1) اللہ کے رسول کا ارشاد ہے : ” اللہ تعالیٰ ہر صدی میں اس امّت کے لیے ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کریں گے ـ ” (أبو داود :4291) تجدید کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ دین کے قدیم ہوجانے پر اس میں نئی باتیں شامل کرکے اسے نیا بنائیں گے ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اسے بیرونی آمیزشوں سے پاک کریں گےـ
(2) اسی بات کو دوسری حدیث میں تھوڑی وضاحت سے کہا گیا ہےـ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے : ” یہ علم ایک سے دوسرے تک ایسے معتبر لوگوں کے ذریعے پہنچے گا جو اسے غلو کرنے والوں کی تحریفات ، اہلِ باطل کی بے بنیاد باتوں اور جاہلوں کی تاویلات سے محفوظ رکھیں گے ـ ” ( الثقات لابن حبّان : 4/10)
(3) فکرِ اسلامی کا مطلب مجرّد طور پر اور سپاٹ انداز میں اسلام کی کسی تعلیم کو پیش کرنا نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد تین پہلوؤں سے اسلام کی علمی خدمت کرنا ہے : اسلام کو غیر اسلامی افکار و نظریات سے مُمَیّز کرنا ، اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا اور اسے غلو اور انحرافات سے محفوظ رکھناـ
(4) عہدِ نبوی کے تھوڑے عرصے کے بعد ہی جب لوگ بڑے پیمانے پر دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے تو ان کی صحیح طریقے سے تربیت نہیں ہوپائی ، چنانچہ ان کے ذہنوں میں سابقہ افکار و نظریات باقی رہے ، اس وقت علما کو ان کی اصلاح کے لیے آگے آنا پڑاـ اسی طرح جب مسلمانوں کا اختلاط دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے ہوا تو اہلِ اسلام کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لیے میدان میں آنا پڑاـ اسلام کے بعض نام لیواؤں کی طرف سے بسا اوقات غلو پر مبنی افکار کا اظہار کیا گیا تو علماء کو ان کی تردید کرکے صحیح اسلامی فکر پیش کرنی پڑی ـ
(5) مسلمانوں میں بہت سے فرقے وجود میں آئے ، مثلاً خوارج ، معتزلہ ، جہمیہ ، مُرجئہ ، قدریہ ، جبریہ ، وغیرہ ـ ان کے افکار انحراف اور غلو پر مبنی تھےـ علما نے ان کا رد کیا اور درست افکار پیش کیےـ
(6) اسلامی مفکرین کی کہکشاں ہے ، جس نے اسلام کے چشمۂ صافی کو گدلا ہونے سے بچانے کے لیے انتھک کوششیں کی ہیں ـ ہر صدی میں ایسے علماء پائے جاتے رہے ہیں ـ بہ طور مثال چند نام ذکر کیے جاتے ہیں : عمر بن عبد العزيز ، ابن شہاب زہری ، حسن بصری ، ابو حنیفہ ، مالک بن انس ، شافعی ، احمد بن حنبل ، ابو الحسن اشعری ، ابو منصور ماتریدی ، ابن حزم اندلسی ، امام الحرمین جوینی ، غزالی ،رازی ، عز بن عبد السلام ، نووی ، ابن تیمیہ ، ابن قیّم ، شاطبی ، سیوطی ، سرہندی ، شاہ ولی اللہ ، محمد بن عبد الوہاب ، شوکانی ، صدیق حسن ، محمد اقبال ، وغیرہ ، رحمہم اللہ
(7) مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے ‘تاریخِ دعوت و عزیمت’ میں ان علما کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے اسلام کی اشاعت اور تفہیم کی خدمت انجام دی ہےـ پروفیسر محمد اجتبا ندوی نے اپنی کتاب ‘تاریخ فکر اسلامی’ میں فکر اسلامی کا تعارف کرایا ہے اور اس کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے ، اس کے بعد فکر اسلامی پر کام کرنے والی 50 شخصیات کا تعارف کرایا ہےـ پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی نے اپنے کتابچے ‘ معاصر اسلامی فکر’ میں ان موضوعات کی نشان دہی کی ہے جن پر موجودہ دور میں کام کرنے کی ضرورت ہےـ انجینیر سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند نے بھی اپنی کتاب ‘ بدلتی ہوئی دنیا اور فکر اسلامی’ میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں سے بہت اچھی بحث کی ہےـ
(8) موجودہ دور میں مختلف ممالک میں ایسے علما پائے گئے ہیں جنھوں نے اپنی تصنیفات کی شکل میں قیمتی دینی ورثہ چھوڑا ہے ، جس میں فکر اسلامی کی بھرپور ترجمانی کی ہےـ ان کے ناموں کا تذکرہ تفصیل طلب ہےـ البتہ خصوصیت سے مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا ، جن کی بیش تر تصنیفات فکر اسلامی کے دائرے میں آتی ہیں ، مثلاً الجہاد فی الاسلام ، سنّت کی آئینی حیثیت ، اسلامی ریاست ، اسلامی قانون ، تجدید و احیائے دین ، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ، تنقیحات ، تفہیمات ، اسلام اور ضبطِ ولادت ، پردہ ، سود ، مرتد کی سزا اسلامی قانون میں ، حقوق الزوجین ، رسائل و مسائل ، قادیانی مسئلہ ، معاشیاتِ اسلام ، مسئلہ جبر و قدر ، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی ، وغیرہ ـ
(9) موجودہ دور میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں ضرورت ہے کہ صحیح رہ نمائی کی جائے ، انحرافات کا تدارک کیا جائے ، اعتراضات کا جواب دیا جائے اور اسلام کا صحیح تعارف کرایا جائےـ
(10) جن موضوعات پر آج کے دور میں کام کرنے کی ضرورت ہے ان میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے :
الحاد کا محاکمہ : کیا خدا کی ضرورت نہیں؟
اسلام ہی کیوں؟
اسلامی عقائد کا عقلی اثبات ـ
وحدتِ ادیان کا ابطال ـ
آواگون کا رد اور عقیدۂ آخرت کا اثبات ـ
حضرت محمد ﷺ پر ایمان لائے بغیر اخروی نجات ممکن نہیں ـ
رسول اللہ ﷺ کا اسوہ مثالی بھی ہے ، کامل بھی ـ
رسول اللہ ﷺ کی تشریعی حیثیت
کلچر اور سنّت کا فرق
گھر سے باہر مسلمان عورت کے لیے شرعی حدود
جنس کے منحرف رویّوں کا تجزیہ اور محاکمہ
مسلمان خاتون اور معاشی سرگرمیاں
حجاب اور اختلاط : شرعی حدود
اسلام میں خواتین کے سیاسی حقوق
مرد کے اختیارِ طلاق کو بعض آداب کا پابند بنانے کی ضرورت
عورت کے حقِ خلع کی تعبیرِ نو کی ضرورت
یتیم پوتے کے حق میں جبری وصیت کے امکانات
تکثیری سماج میں دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ تعامل (تہنیت ، تحائف کا تبادلہ ، تقریبات میں شرکت)
اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی حقوق
غیر اسلامی ریاست میں مسلمان کی خدمات کا دائرہ
عقیدۂ حاکمیتِ الہ اور سیکولرزم و جمہوریت
جدید تجارتی شکلوں کا جائزہ
انشورنس کی مروّجہ صورتیں اور اسلام کا نظامِ تکافل
سودی قرضے اور ان سے استفادہ کا حکم
فیملی پلاننگ کے بارے میں شرعی احکام
یہ چند موضوعات بہ طور مثال ذکر کیے گئے ہیں ـ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں زندگی کے مختلف میدانوں میں موضوعات کی بھر مار ہےـ ان پر کام کرنے اور اسلامی نقطۂ نظر پیش کرنے کی ضرورت ہےـ
ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عصر حاضر کے ممتاز شاعر، ادیب، نامور افسانہ نگار اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف جناب شاکر کریمی کا طویل علالت کے بعد ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو ان کے آبائی شہر بتیا مغربی چمپارن میں انتقال ہو گیا،جنازہ کی نماز بعد نماز ظہر مدرسہ یتیم خانہ بدریہ بتیا میں ادا کی گئی، مولانا علی احمد قاسمی سابق امام جامع مسجد بتیا نے نماز پڑھائی اور گنج نمبر ایک کے چھوٹی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ ،ایک لڑکا ڈاکٹر نوشاد احمد کریمی اور ایک لڑکی طلعت فاطمہ کریمی کو چھوڑا، صاحبزاہ ڈاکٹر نوشاد احمد کریمی گلاب میموریل کالج بتیا میں اردو کے لکچرر ہیں۔
شاکر کریمی کے قلمی نام سے مشہور امتیاز احمد کریمی بن مولوی محمد عنایت کریم بَرتَر آروی بن شیخ مولانا بخش (کواتھ) بن حکیم ظہور احمد(غازی پور) ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۲ء کو مغربی چمپارن کے شہر بتیا میں پیدا ہوئے، ان کے والد کو اتھ آرہ سے نقل مکانی کرکے بسلسلہ ملازمت بتیا آئے، اور یہیں کے ہو کر رہ گیے، بتیا راج میں منشی تھے، یہیں ان کی شادی حافظ سلامت علی کی صاحب زادی کریم النساء سے ہوئی،میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی دلچسپی شاعری سے ہو گئی، ’’ریزۂ مینا‘‘ (مطبوعہ ۱۹۸۵) ان کی شاعری کا مجموعہ ہے اور مقبول ہے، اس کی مقبولیت کی وجہ اس کی تغزل آمیز جدیدیت ہے، اس کے اشعار میں محبت کی زیریں لہریں، فرقت کی کسک اور عصری حسیت کی بھر پور عکاسی ملتی ہے،۱۹۷۰ء سے قبل شاعری سے زیادہ ان کا وقت افسانہ نگاری پر صرف ہونے لگا اور ۱۹۷۰ء آتے آتے وہ ملک کے نامور افسانہ نگار بن گیے ،ایک زمانہ تک بتیا کی ادبی عظمت کا اقرار عظیم اقبال اور شاکرکریمی کے افسانوں کے ذریعہ ہوا کرتا تھا، جس زمانہ میں خوشتر گرامی بیسویں صدی نکالا کرتے تھے ان دونوں (عظیم اقبال اور شاکر کریمی )کے افسانے کثرت سے اس میں چھپا کرتے تھے، ان کے افسانے سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی وغیرہ کی طرح نہیں ہیں، شاکر کریمی کے یہاں حقائق کو بے لباسی کے ساتھ بیان کرنا جرم تھا، ان کے افسانوں میں مقصدیت ہے اور اس کی تہہ داری قاری کو اپنی طرف متوجہ کیا کرتی ہے ، ان کے کئی افسانوی مجموعے پر دے جب اٹھ گئے (۲۰۱۷)، ایک دن کا لمبا سفر اور صحرا(۲۰۱۴)، پیاس اور تنہائی(۲۰۰۹) خاص طور پر قابل ذکر ہیں، انہوں نے ناول نویسی پر بھی اپنا وقت صرف کیا، ان کی ایک ناول ’’جشن کی رات‘‘(۲۰۰۹) کے عنوان سے طبع بھی ہوئی تھی، بتیا میں کتاب کی رسم اجراء کی تقریب کا آغاز ان کے افسانوی مجموعہ’’ اپنی آگ‘‘(۱۹۹۱) سے ہوا تھا۔ان کے افسانے کا مواد ہمارے گرد وپیش کا ہوتا ہے ، ان میں مقصدیت ہوتی ہے، اس لیے اس سے سماجی اصلاح کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔
شاعری انہوں نے مختلف اصناف میں کی، لیکن نظم اور غزل کے شاعر کی حیثیت سے اہل علم وادب میں متعارف ہوئے، یادیں، دعوت، چلے بھی آؤ ، تم بن، تلاش، کانٹے، شہنائی اور پھر ایسا ہوا، نیز احساس وغیرہ کا شمار ان کی کامیاب نظموں میں ہوتا ہے ۔
جن افسانوں کی وجہ سے ان کو شہرت ملی ان میں ایک اور گوتم، ایک دن کا لمبا سفر، اگر تم نہ آئے، وہ کون ہے، واردات، بھٹکا ہوا آدمی ، ٹوٹی ہوئی عورت، زخموں کی مہک ، آگ ہی آگ، ذراسی بات، پھر وہی جھوٹی انا ، خوشبو تیرے بدن کی ، پردہ ، انہونی بات خاص طور سے قابل ذکر ہیں، اس طرح کہنا چاہیے کہ وہ بیک وقت شاعر ، افسانہ اور ناول نگار تھے، وہ پوری زندگی اصناف ادب کی مشاطگی اور اردو کے فروغ کے لیے کوشاں رہے، ان کی تخلیقات ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوا کرتی تھیں، واقعہ یہ ہے کہ ان کی ادبی خدمات کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فراموش ۔
ان کی حیات وخدمات پر ۲۰۰۳ء میںاقبال جاوید کولکاتہ نے تحقیقی مقالہ لکھ کر بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسیٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، شاکر کریمی کا تخلیقی شعور کے نام سے ڈاکٹر عدیلہ نسیم مئو ناتھ بھنجن نے بھی ایک کتاب مرتب کی ہے۔
شاکر کریمی صاحب کپڑوں کی تجارت کرتے تھے ان کی شادی ۴؍ اپریل ۱۹۶۵ء کو احمد علی صاحب سیتامڑھی کی دختر نیک اختر حفصہ خاتون سے ہوئی، جو حی القائم ہیں۔
جناب شاکر کریمی سے میری ایک ہی ملاقات تھی ، لیکن تفصیلی تھی، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں استاذ تھا اور بزم احباب ادب ویشالی کے ذمہ داروں میں تھا، ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ایک آل بہار مشاعرہ کرانا چاہیے، ڈاکٹر عبد الرؤف ، مولانا مظاہر عالم قمر، مولانا رئیس اعظم سلفی اور راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی )نے طے کیا کہ مشاعرہ چونکہ مدرسہ کے احاطہ میں ہے اس لیے نہ تو شاعرات کو مدعو کیا جائے گا اور نہ ہی شرابی شاعر کو، اس موقع سے دونوں بھائی شاکر کریمی اور صابر کریمی کو مشاعرہ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، اور انہوں نے تشریف لا کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی تھی، مشاعرہ کے ایک حصہ کی نظامت ان کے بھائی صابر کریمی نے کیا تھا، دونوں بھائی کی شرافت، محبت اور ان کی فنی عظمت سے بھر پور شاعری کو میرے لیے بھُلانا آج بھی ممکن نہیں ہے ، ان دنوں مجھے بڑے لوگوں سے آٹو گراف لینے کا شوق دیوانگی کی حد تک پہونچا ہوا تھا، میں نے جناب شاکر کریمی کو آٹو گراف بک بڑھایا، انہوں نے درج ذیل شعر لکھ کر اپنے دستخط ثبت کیے۔
لاؤں بھی تو کہاں سے لاؤں لکھنے کا انداز نیا
قلم پُرانا ہو تو شاکر بنتی ہے تحریر نئی
صابر کریمی نے لکھا
فلک پہ ذکر تیرااور زمیں پہ حکم چلے
ترے وجود کا مقصد ہے فقر میں شاہی
یہ مشاعرہ ۲۵؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہوا تھا اور بہت کامیاب تھا، پہلے دور میں ہی رات ختم ہو گئی تھی، آج شاکر کریمی ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کا تخلیقی ادب خواہ وہ شاعری ہو یا افسانے ، ان کی خدمات کے زریں اور تابندہ نقوش ہیں، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین۔
حجۃالاسلام قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی جہاں ایک طرف جلیل القدر عالم و مُناظر،بلند پایہ فلسفی و متکلم اور خدا رسیدہ بزرگ و درویش تھے،وہاں دوسری طرف فن شعر و شاعری اور انشا پردازی میں بھی درجۂ کمال کو پہنچے ہوئے تھے،لیکن ان کی عالمانہ و درویشانہ صفات اس قدر غالب تھیں کہ فن شعر و شاعری میں ان کی شہرت چُھپ کر رہ گئی۔
مولانا کی شاعری کا بیشتر حصہ شرمندۂ طباعت نہیں ہوا ورنہ ان کی پُرگوئی کا یہ عالم تھا کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے حاجی امیر شاہ خان صاحب اور دوسرے بزرگوں سے سنا ہے حضرت نے ارشاد فرمایا کہ بعض اوقات میں اپنے اندر قدرت محسوس کرتا ہوں کہ پورا وعظ نظم میں کہہ جاؤں،لیکن خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے میں اس سے احتراز کرتا ہوں۔
آپ کے قصائد کا ایک مجموعہ "قصائد قاسمی”کے نام سے مطبوعہ ہے ان قصائد سے ان کی شاعری، معنیٰ آفرینی اور قادر الکلامی کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے،اس مجموعے میں شامل ان کا”قصیدہ بہاریہ” ایک سو اکیاون اشعار پر مشتمل ہے،صرف یہی ایک قصیدہ ان کے تخیل کی بلند پروازی،سلاست،
روانی،آمد،بےتکلفی اور شاعری سے فطری مناسبت پر شاہدِ عدل ہے۔مثلا یہ شعر دیکھیے:
شرارِ دانۂ بارود کو لگے ہیں پھول
عمومِ فیضِ بہاری سے آگ ہے گلزار
یہ فیضِ عام ہےسر پر ہرن کے ہیں شاخیں
بدن پہ شیر کے گل دم میں سیہ کے خار
بارود کے دانوں میں شراروں کی پیدائش کو پھول کہنا، ہرن کے سینگوں کوشاخ اور شیر کے جسم پر موجود قدرتی نقش و نگار کو گل قرار دے کر ان سب امور کو بہار کی قوتِ نشو و نما کا کرشمہ بتانا نیز سیہ(ایک جانور جس کے جسم پر کانٹے ہوتے ہیں) کے کانٹوں کو بہار کی قوتِ نامیہ کا ممنون بنانا یہ سب نہایت عمدہ مضامین ہیں۔
ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
سمجھ کے غنچۂ لالہ کرے ہے گل ورنہ
نسیمِ تیز کو کچھ شمع سے نہیں پیکار
یہ شعر لفظی و معنوی مناسبتوں کے اعتبار سے نہایت خوب ہے،شمع کو غنچۂ لالہ سمجھ کر نسیمِ تیز کا اسے گل کرنا صنعتِ ایہام کی خوب مثال ہے،علاوہ ازیں گل لالہ کو چراغ سے تشبیہ دینا عام ہے،لیکن یہاں شاعر نے شمع کو غنچہ کہہ کر اور پھر نسیمِ تیز کی کارفرمائی سے اسے "گل”کر کے کمال ہی کر دیا ہے۔
اب "قصیدہ بہاریہ” کا وہ شعر ملاحظہ فرمائیں جو اس تحریر کا باعث و محرک بنا ہے،یہ قصیدہ پہلے بھی کئی بار مکمل پڑھ چکا ہوں مگر آج اس کے کچھ اشعار دوران مطالعہ سامنے آئے تو اس شعر کی شعریت اور شاعر کے تخیل کے اچھوتے پن نے دل و دماغ کو جکڑ لیا اور دن بھر یہ شعر وِردِ زبان رہا:
بنا شعاعوں کی جاروب تیرے کوچہ سے مہر
کرے ہے دُور اندھیرے کا روز گرد و غبار
سورج کو جاروب کش،اس کی کرنوں کو جھاڑو،تیرگیِ شب کو گرد و غبار اور طلوع آفتاب کی وجہ سے اندھیرے کے خاتمے کو جاروب کشی کا نتیجہ قرار دینا ایک بالکل نیا،اچھوتا اور البیلا تخیل ہے۔
ایک اور شعر ملاحظہ ہو جو اس قصیدے کا نہیں ہے:
نگاہِ شوق کے صدمے کے داغ کا،تل نام
غبارِ راہ ہے نورِ قمر دمِ تنویر
نگاہِ شوق سے پڑنے والے داغ کو تِل قرار دینا، یہ بھی ایسا تخیل ہے جو کسی اور شاعر کے دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔
عطیہ فیضی استنبول میں پیدا ہوئیں۔ ہندوستان کے چوٹی کے اسکالرز سے خط و کتابت رہی۔ اقبال ایک خط میں انہیں لکھتے ہیں: میں جرمنی واپس جانا چاہتا ہوں مگر میرے گھر والے زبردستی میری شادی کر رہے ہیں۔ میرے گھر والوں کو ایسا کرنے کا حق نہیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب اقبال ایک جرمن خاتون میں دلچسپی لیتے تھے اور عطیہ رازداں تھیں۔ ایک طرف اقبال کا خاندان تھا جو شادی کے معاملے میں ان کی رائے لینے کاروادار نہیں تھا، دوسری طرف خود عطیہ نے بین الاقوامی شہرت یافتہ ایک یہودی آرٹسٹ سے شادی کی جس نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ عطیہ کا خاندانی نام بھی اختیار کیا۔ ایساکر کے عطیہ نے انس بن مالک کی والدہ رمیصا بنت ملحان جو ام سلیم کی کنیت سے معروف تھیں کی سنت کو زندہ کیا مگر آج اپنے تئیں دیں کا دفاع کرنے والا شاید ہی سیرت نبی کے ایسے کرداروں سے واقف ہو۔
ذہنی افلاس کے مارے مسلمانوں نے جن کے نزدیک ایک مرد اور عورت کی باہم بات چیت محض عشق عاشقی ہوسکتی ہے، اپنے ذہن میں کیا کیا کہانیاں تراش لیں۔ محترم خاتون نے اقبال اور شبلی کے خطوط شائع کروائے۔ شبلی خطوط میں نعمانی مدرسے کے قیام کے سلسلے میں عطیہ، انکی بہن اور خاندان کے کثیر مالی تعاون کا شکر ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک خط میں عطیہ کی بہن، جو ایک نواب کی اہلیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں ایک ہاسٹل کا افتتاح ان سے کروانا چاہتا تھا مگر ہندوستانی مولوی اسے قبول نہیں کرے گا۔ انکی بہن کے کثیر مالی تعاون پر ایک رباعی پر مبنی قصیدہ لکھتے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شبلی نے سیرت النبی کی تصنیف عطیہ کے بہنوئ نواب کی رہائش گاہ پر مقیم رہ کر کی۔
عطیہ کی شادی پر شبلی کا شعر ان ذہنی مفلسوں کو بھول جاتا ہے جو اس تعلق میں کچھ اور تلاش کرنے کے متمنی ہیں۔
بتان ہند کافر کر دیا کرتے تھے مسلم کو
عطیہ کی بدولت آج ایک کافر مسلماں ہے
قیام پاکستان کے بعد عطیہ اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان آ جاتی ہیں۔ کلیم میں ملنے والی زمین کراچی آرٹس کونسل کو عطیہ کر دیتی ہیں لیکن گھٹیا سوچ رکھنے والےایک مسلمان عورت کی عزت پر اپنے آپ کو آمادہ نہیں کر سکتے۔ وہ اقبال سے اور شبلی سے عطیہ کے تعلق پر مسلسل اپنی ذہنی غلاظت کی الٹیاں کرتے رہتے ہیں۔
زاہدہ حنا بتاتی ہیں کہ عطیہ کے شوہر فیضی شبلی نعمانی کا ایک پورٹریٹ تیار کرتے ہیں جو پیرس کی ایک نمائش میں رکھا جاتا ہے اور اسکے لئے ایک بڑی رقم آفر کی جاتی ہے مگر عطیہ کی مرضی پر اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
کوئ دو سال پیشتر دائیں بازو کے صحافیوں سے تعلق کرنے والے ایک گروپ پر مجھے بہ اصرار ایڈ کیا گیا کہ آپ ہمارے گروپ کی پہلی خاتوں صحافی ہوں گی۔ وہاں ایک اقبالیات کے ماہر کی ایک تحریر کسی نے شئیر کی جس میں مصنف نے اس بات پر اظہار خیال کیا تھا کہ اقبال نے عطیہ سے شادی کیوں نہ کی؟ شاید اس طرح سوچنا تو آج ایک صدی بعد بھی ہمارے دائیں بازو کے دانشور کے لئے ممکن نہ ہو کہ ‘عطیہ’ نے اقبال سے شادی کیوں نہ کی ؟
مضموں میں استدلال تھا کہ عطیہ بالکل اس قابل نہیں تھیں کی اقبال ان سے شادی کرتے۔ اس طرح سوچنا آج بھی ہمارے دانشور کے لئے مشکل ہے کہ کیا اقبال بیچارے اسی قابل تھے کہ ان کی شادی زبردستی ایک خاتوں سے کر دی جاتی جنہیں وہ شریک حیات کے طور ہر قبول نہ کرنا چاہتے تھے۔ مضمون نگار ماہر اقبالیات کا استدلال یہ بھی تھا کہ عطیہ انگلستان گئیں تو محض گھومنے پھرنے میوزیم دیکھنے اور دعوتیں اٹینڈ کرنے میں وقت ضائع کیا۔ ہمارے دائیں بازو کے دانشور جو خود کو دینی طبقہ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں میوزیم وزٹ کو وقت کا ضیاع تصور کرتے ہیں یا شاید ایک خاتوں کے میوزیم وزٹ کو۔ یہ آج بھی اینتھروپولوجی نامی سوشل سائنسز کی شاخ کو علم نہیں سمجھتے جس میں اقوام کی عادات و ثقافت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ انہیں دو سو سال گزرنے کے باوجود یہ بھی نہیں معلوم کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں قدم جمانے سے پہلے سیکڑوں عربی فارسی اور سنسکرت کے نسخوں کے تراجم کروائے۔ کیوں کروائے اس پر تو بحث ہی بیکار ہے۔ تاجر کے بھیس میں آنا اور ہندوستان پر قابض ہو جانے کا بیانیہ اتنا مضبوط ہے اور امت کا ذہن اتنا جامد کردیا گیا ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ہم اس سے آگے سوچنے ہر آمادہ نہیں۔
انہیں ایک خاتوں کا انگلستان کی علمی محافل اٹینڈ کرنا بھی کھلتا ہے۔ ایسی ہی ایک محفل میں عطیہ کی اقبال سے ملاقات ہوئی۔ اقبال کا دعوتیں اٹینڈ کرنا قابل اعتراض نہیں تھا مگر ایک ہندوستانی مسلمان عورت کے اس جرم کو ماہر اقبالیات معاف کرنے پر آمادہ نہیں۔
جہاں تک اقبال اور عطیہ کے شادی نہ کرنے کا تعلق ہے تو مجھے اقبال کے خطوط میں ایسی کوئی بات نظر نہ آئی جس کی بنیاد پر ہم اقبال جیسی شخصیت پر اتنے گھناونے الزامات لگائیں۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ اقبال سے عطیہ کی انٹیلکچوئل انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ عطیہ اس گھٹے ہوئے غیر اسلامی ماحو ل میں سانس نہ لے سکتی ہوں جس میں انگلستان اور جرمنی سے فارغ التحصیل ایک مرد کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے اور وہ چوں نہیں کر سکتا۔
خود عطیہ کا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جو ماڈرن ہونے کے باوجود اسلامی روایات کے مطابق عورت کو بھی اپنا شریک حیات چننے کا اختیار دیتا ہے۔ دائیں بازو کے لکھاری سے ایسی سوچ کی توقع بیکار ہے۔
ؓمیری تحریر کے اس جملے پر اعتراض پر کہ ‘عطیہ بالکل اس قابل نہیں تھیں کے ان سے شادی کی جاتی یا اقبال ان سے شادی کرتے۔ ‘ گروپ پر موجود ایک صاحب کا کہنا تھا کہ عطیہ اس دور کی قندیل بلوچ تھیں۔ میرا دل چاہا کہ میں ان صاحب سے ہوچھوں کے عطیہ اگر قندیل بلوچ تھیں تو اقبال اور شبلی کیا تھے؟؟ (ایک لفظ پلے بوائے پتہ نہیں کیوں دماغ میں گھوم رہا ہے) لیکن کچھ سوچ کر میں نے گروپ کو خدا حافظ کہا۔
سچ ہے ہمارا دینی طبقہ بظاہر عورتوں کی عزت کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتا مگر ایسے موقعوں پر خود کو ننگا کردیتا ہے۔ خرم جاہ مراد مرحوم نے اپنی اپ بیتی لمحات میں بے نظیر کے خلاف گندے ہروپیگنڈے اور دینی طبقے کے اس کے آلہ کار بننے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ انہوں نےاپنے لوگوں کو سمجھا کر دیکھ لیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گروپ پر موجود باقی حضرات کو اس سوچ پر کوئ اعتراض نہیں تھا۔ ایک باعزت خاتون پر کہانیوں کی بنیاد پر کیچڑ اچھالتے ہوئے ہمارےدینی علمی حلقے یہ بھی نہیں سوچتا کہ یہ کیچڑ اقبال اور شبلی کے منہ پر ملی جا رہی ہے۔
(ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
منور فاروقی کا ایک ’ اسٹینڈ اَپ کامیڈین‘ کی حیثیت سے اپنے فن کے مظاہرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کا اعلان ہمارے ملک ہندوستان میں ’ جمہوریت‘ کی ناکامی کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے ۔۲۹ سالہ منور فاروقی اور اسے نشانہ بنانے والے عناصر اس ملک کی دو ایسی سمتوں کی علامت بن گئے ہیں جن میں سے ایک جمہوری حقوق کے لیے ہر حالت میں جدوجہد کرنے والوں کی طرف جاتی ہے ، اور دوسری جمہوری حقوق کو لوگوں سے زور اور جبر سے چھین لینے کے لیے ہر طرح کی قبیح حرکتوں ، حتیٰ کہ تشدد کرنے کی جانب جاتی ہے ۔ گذشتہ دنوں منور فاروقی کا ایک ٹوئٹ آیا تھا جس میں اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ’ اسٹینڈاَپ کامیڈی‘ کو چھوڑ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اتوار کے روز بنگلورو کے ’ گڈشیفرڈ آڈیٹوریم‘ میں ’کرٹن کال ‘ نامی ایک گروپ نے منور فاروقی کا ایک پروگرام رکھا تھا جسے ’ڈونگری ٹونووہیر‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اتوار کو ، جب پروگرام ہونا تھا ، منتظمین کو اشوک نگر علاقہ کی پولس کی طرف سے یہ ’ مشورہ ‘ دیا گیا کہ وہ پروگرام کو ملتوی کردیں کیونکہ انہیں یہ اطلاع ملی ہے کہ منور فاروقی کے شو کے خلاف کچھ تنظیمیں بڑے پیمانے پر احتجاج کرسکتی ہیں ۔ یہ ’ مشورہ ‘ ایک طرح سے پولس کا ’حکم‘ ہی تھا۔ منتظمین کو ’ مشورے ‘ یا ’ حکم‘ پر عمل کرتے ہوئے منور فاروقی کے شو کو ملتوی کرنا پڑا ۔ شوملتوی ہونے کے بعد منور فاروقی کا سوشل میڈیا پر اعلان آیا کہ ’اب بہت ہوگیا ، وہ اب اسٹینڈ اَپ کامیڈین کی حیثیت سے کسی بھی شو میں شرکت نہیں کرے گا ۔ ‘ یہ اعلان کوئی ایک پروگرام کے ملتوی کیے جانے کا نتیجہ نہیں تھا ، ادھر چند مہینوں کے دوران منور فاروقی مسلسل ’ ہندوتوادیوں ‘ کے نشانے پر رہاہے ۔ یہ وہی منور فاروقی ہے جسے اس الزام میں کہ اس نے ہندودیوی دیوتاؤں کی ’توہین‘ کی ہے اندور میں ایک مہینے تک جیل میں رہنا پڑا تھا، حالانکہ اس پر لگا ’توہین‘ کا الزام ثابت نہیں ہوسکا تھا۔ ممبئی ،رائے پور ، سورت ، ودودرا اور احمد آباد میں ’ ہندوتوادیوں‘ نے منور فاروقی کے شو نہیں ہونے دیئے ، بار بار اسے نشانہ بنایا ۔ بنگلورو میں جو پروگرام تھا وہ ایک پرائیویٹ پروگرام تھا ، اس کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت کے عین مطابق ، کسی بھی طرح کے پولس کی اجازت لینا لازمی نہیں تھا۔ لیکن امن وامان کو خطرہ بتا کر پولس نے منتظمین کو اس پروگرام کو ملتوی کرنے پر مجبور کردیا ۔ ایک کٹر وادی تنظیم ’ ہندو جن جاگرتی سمیتی‘ نے بنگلورو کے پولس کمشنر کمل پنت کو خط لکھ کر منور فاروقی کے پروگرام کو ملتوی کرنے پر زور ڈالا تھا۔ اس خط کو دھمکی بھرا خط بھی کہا جاسکتا ہے ۔ خط میں یہ الزام ، جو کہ ثابت نہیں ہوسکا ہے ، لگایا گیا ہے کہ منور فاروقی ہندودیوی دیوتاؤں کی توہین کامرتکب ہوتا ہے ۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ شہریت ترمیمی قانون مجریہ ۲۰۲۰ ء کے خلاف باتیں کرتا ہے اور گودھرا فسادات کا تذکرہ بھی اس کے شومیں ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہیکہ کیا کسی جمہوری ملک میں کوئی کسی کو روک سکتا ہے کہ وہ اپنی زبان پر تالا ڈال کر رکھے اور حق بات بھی نہ بولے ؟ گودھرا فساد یا این آر سی اور سی اے اے کے بارے میں باتیں کرنا کب سے جرم ہوگیا ہے ؟ سچ یہ ہیکہ منور فاروقی کی ایک ’ مسلمان‘ کی حیثیت ہندوتوادیوں کو ہضم نہیں ہورہی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ کوئی مسلمان کیسے سی اے اے اور فسادات کے خلاف بول سکتا ہے ؟ خود منور فاروقی کا کہنا ہے کہ اسے اس لیے پروگرام کرنے سے روکا جارہا ہے کہ اس کا نام منور فاروقی ہے ۔ منور فاروقی کے ’ اسٹینڈ اَپ کامیڈی‘ چھوڑدینے کو اس ملک میں جحمہوریت کی ہار اور فرقہ پرستی کی جیت کہا جائے گا ۔ راہل گاندھی نے ایک ٹوئٹ کرکے منور فاروقی سے گذارش کی ہے کہ وہ فرقہ پرستی کو کامیاب نہ ہونے دے اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتا رہے ۔ مزید آوازیں منور فاروقی کے حق میں اٹھ رہی ہیں ۔ ضروری ہے کہ ہر کوئی فرقہ پرستی کے خلاف کھڑا ہوتا کہ اس ملک کے جمہوریت دشمن اظہار آزادی کے حق پرڈاکہ نہ ڈال سکیں ۔ ضروری ہیکہ بنگلورو پولس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے کہ اس نے گوری لنکیش اور کلبرگی جیسے عقلیت پسندوں کو راہ سے ہٹانے والی ’ ہندوجن جاگرتی سمیتی‘ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور اپنے فرض سے کوتاہی کی ہے ۔