متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں اصلاحات کے نام پر اپنے درجنوں قوانین میں تبدیلی کی ہے جن میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات کو جرائم کی فہرست سے نکالنا بھی شا مل ہے۔ترمیم شدہ قانون کے تحت اب زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو زانی مرد وعورت قبول کریں گے اور ان کی د یکھ بھال کا فریضہ بھی انجام دیں گے۔ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا اور سزادی جائے گی۔یعنی اب متحدہ عرب امارات میں زنا کرنایا شادی کے بغیر بچے پیداکرنا جرم نہ ہوگا ،البتہ زنا کے بعد پید ا ہونے والے بچے کی دیکھ بھال نہ کرنا قابل سزا جرم مانا جائے گا۔اس قانون کے بعد متحدہ عرب امارات میں زناکاری کے لیے قانوناً راہیں کھل گئی ہیں۔یہ صورت حال اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔اسلام میں زنا کاری حرام ہے اور غیرشادی شدہ زانی مرد وعورت کو سو کوڑے اورشادی شدہ زانی مردوعورت کو سنگسار کرنے کا حکم ہے ۔دراصل اسلام نے زناکاری کے تمام دروازوں کو بندکیا ہے ۔قرآن میں ارشاد فرمایا گیا:’’اور زناکے قریب بھی مت جائو‘‘ ۔ (سورہ الاسراء : 32)غورکیجئے کہ نہ صرف زنا بلکہ زنا کے قریب لے جانے والی چیزوںسے بھی روکا گیا ہے۔اسی طرح حدیث میں’حیاء‘کو ایمان کا شعبہ بتایاگیاہے۔(بخاری ومسلم)۔کیونکہ بے حیائی زناکی طرف لے جاتی ہے۔اسلام نے اپنے ماننے والوں کوپردے کا ایک پورانظام دیا ہے تاکہ وہ زناکاری وفحاشی سے بچ جائیں،لیکن متحدہ عرب امارات میں نہایت بے دردی سے اسلامی تعلیمات و احکامات کی دھجیاںاڑائی جارہی ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اسلامی تہذیب واقدارسے انحراف کرکے بے حیائی وفحاشی کے میدان میںاور آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔وہ ہر اس رکاوٹ کو دور کردینا چاہتا ہے جس سے کسی بھی طرح کی عیاشی میںخلل واقع ہویا جسے کرتے ہوئے کوئی خوف محسوس ہو۔ شراب نوشی کے قانون میں نرمی اور زناکاری کے تعلق سے مذکورہ قانون اس کی طرف واضح اشارہ کرتاہے کہ اب متحدہ عرب امارات نہ صرف عالمی تجارت کا مرکز ہوگا بلکہ عیاشی کا بھی ایک عالمی اڈہ ہوگا۔اور وہ اس معاملے میں ان مغربی ممالک سے پیچھے نہیں رہے گا جن میں بغیر شادی کے جنسی تعلقات قائم کرنے اور بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے اور جہاں فحاشی وبے حیائی کے سارے سامان موجود ہیں۔
واضح رہے کہ گزشہ کئی برسوںسے متحدہ عرب امارات جس راہ پر چل رہا ہے ، وہ اسلام کی راہ نہیں بلکہ مغرب کی راہ ہے۔ اسی لیے وہاں اسلامی تعلیمات وآثار کی پامالی کے واقعات چپہ چپہ پر نظرآتے ہیں۔غالباً یہ ملک مغربی دنیا سے بے حد متاثر ہوگیا ہے اور مغربی دنیا کے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔اس لیے اس نے اپنے یہاں مغربی تہذیب کے لیے تمام دروازے کھول دیے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ وہ فکری اور سیاسی سطح پربھی مغرب کی پیروی میں دلچسپی لے رہا ہے۔جیساکہ گزشتہ دنوں اس نے اسرائیل سے دوستی کرکے اس بات کا ثبوت دے دیا۔ جب کہ اسلام کے تئیں اسرائیل کا رویہ نہایت جارحانہ اور معاندانہ ہے۔وہ ارضِ فلسطین میں اپنی ناجائز بستیاں قائم کرنے کے منصوبے پر ابھی تک اڑا ہوا ہے اور مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچانے اور اس کی بے حرمتی کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا جب کہ مسجد اقصیٰ کا شمار اسلام کے مقدس مقامات میں ہوتاہے اور قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ اس کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، مگرمتحدہ عرب امارات نے ان تمام قرآنی آیا ت اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پس پشت ڈال کر اسلام کے خطرناک دشمن سے ہاتھ ملالیا ہے۔اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے بعد متحدہ عرب امارات میں جو تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ، وہ اسلام کے خلاف اور مغرب کے موافق ہیں۔اب کئی اور مسلم ممالک بھی اسرائیل کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔
اصلاحات کی آڑ میں اسلامی احکامات وتعلیمات کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش اب سعودی عرب بھی کرتا ہوادکھائی دے رہا ہے۔وہ بھی اپنے یہاں مغربی تہذیب کے لیے دروازے کھول رہا ہے اور ان قوانین میں نرمی یا تبدیلی کررہا ہے جنھیں اسلامی قوانین کے طورپر دیکھا جاتارہا ہے ۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب میں کئی ایسے فرمودات جاری ہوئے ہیںجو سعودی عرب کے معاشرے میں مغربی تہذیب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔اب سعودی عرب میں خواتین کے تعلق سے جوفرامین جاری ہورہے ہیں، وہ خواتین کو بظاہر آزادی یا ترقی کے مواقع فراہم کرتے ہیں مگر ان کے بطن میں مغربی تہذیب کی خاموش لہریں موجود ہیں۔مغربی تہذیب کی بنیاد موج مستی اور بے راہ روی پرمنحصر ہے۔اس کے لیے اہل مغرب نے عورت کواستعمال کیا، آزادی نسواں کا نعرہ لگاکر اسے بے پردہ کردیا اور اسے بازاروں ، ہوٹلوں، کلبوں اور محفلوں کی زینت بنادیا۔جس کے بعد بے راہ روی کے تمام راستے کھل گئے۔سعودی عرب میں بھی عورت کو جس طرح آگے لانے کی کوشش کی جارہی ہے،اس سے یہ خدشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ کہیں وہاں بھی عورت بازاروں،کلبوںاور محفلوں کی رونق بن کر نہ رہ جائے۔ سعودی عرب میں سنیما گھر کھولنے کی اجازت بھی اس بات کا عندیہ ہے کہ اب سعودی عرب اسلامی تعلیمات واحکامات سے آزادی کے لیے پر پھڑپھڑانے لگا ہے ۔سعودی عرب میں یہ سب تبدیلیاںاصلاحات کے نام پرکی جارہی ہیں۔یہاں یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے سعودی عرب میں جو قوانین نافذتھے کیا وہ غلط تھے۔ مقدس مقامات پر سنیما گھروںکے کھولنے کی پابندی بھی کیا غلط تھی؟شاید سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوںکی نگاہ میں وہ سب غلط ہے جسے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں طے کیا گیا تھا۔اسی لیے وہ اب اسلامی تعلیمات اور اپنے بزرگوں کے قائم کردہ نظام سے باہر آکر ایک نئے سعودی عرب کی تشکیل وتعمیر چاہتے ہیں جس میں وہاں کے لوگوںکو اسی طرح جینے اور عیش و مستی کے تمام مواقع حاصل ہوں جس طرح مغربی ملکوں میںحاصل ہیں۔
عرب ممالک کا اسلامی تہذیب وآثار سے انحراف کرکے مغربی تہذیب ومعاشرت کی طرف مائل ہونا مغربی تہذیب کی بہت بڑی فتح ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ساری دنیا میںفی زمانہ مغربی تہذیب کا بول بالا ہے، یہاں تک کہ بیشتر مسلم ممالک میں بھی مغربی تہذیب کو زبردست مقبولیت حاصل ہے لیکن فی زمانہ عرب ممالک میں مغربی تہذیب کی لہر نے اسلامی تہذیب کے لیے زیادہ خطرات پیداکردیے ہیں۔ کیونکہ ان ممالک کواسلامی تہذیب ومعاشرت کی علامت سمجھا جاتاتھا اور یہاں بہت حد تک اسلامی تہذیب کے آثار بھی موجود ہیں، نیز کئی عرب ممالک میں متعدد اسلامی قوانین کو حکومتی نظام میںجگہ بھی دی گئی ہے۔ایسے ممالک میں بھی اگر مغربی تہذیب کو عروج حاصل ہوتا ہے تو یہ اسلامی تہذیب کے لیے بہت بڑے خسارے کی بات ہوگی۔کہیں ایسا نہ ہوکہ ان ممالک میں مغربی تہذیب کو قبول کرنے کے بعد اسلامی تہذیب ومعاشرت کی وہ کشمکش بھی ختم ہوجائے جو دنیا میں کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ غورکرنے کا مقام ہے کہ مغربی قومیںتو اپنی تہذیب کی بالادستی کے لیے ہر ممکن کوششیں کررہی ہیں لیکن مسلمان خود اسلامی تہذیب سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں اور مغربی رہن سہن کو اپنا رہے ہیں۔ایسے میں اسلامی تہذیب ومعاشرت کاکیا ہوگا؟کیا مسلم حکام وعوام مسلم تہذیب کو اپنے ہی ہاتھوںدفن کردینا چاہتے ہیں؟مسلم امہ کویہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مغربی تہذیب کی چکاچوند کے پیچھے بھیانک اندھیرے ہیں۔اگر ایک مرتبہ ان اندھیروںمیں ڈوب گئے تو ان سے نکلنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ بھی یادرکھیںکہ مغربی طرزِ حیات کا بنیادی محور اسلامی طرزِزندگی سے جداہے،اس لیے آنکھیں بند کرکے اس کو قبول نہ کریں اورخدارا ترقیات و اصلاحات کے نام پر اسلام کو نقصان نہ پہنچائیں۔
2 دسمبر, 2021
شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام دو روزہ آن لائن قومی ریسرچ اسکالرز سیمینار اختتام پذیر
بین العلومی مطالعے کے بغیر علمی وسعت اور ثروت مندی پیدا نہیں ہوسکتی: پروفیسر شہزاد انجم
نئی دہلی (پریس ریلیز): ریسرچ اسکالرز کو چاہیے کہ وہ تحقیق کی اخلاقیات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں۔ اعلیٰ اور بامعنی تحقیقات کے لیے بین العلومی مطالعات، ذہنی افق کی وسعت، غیر جانب داری ، جذباتی وابستگیوں سے اجتناب اور تجزیاتی و استدلالی زبان و اسلوب ناگزیر عناصر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار صدرِ شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام دو روزہ آن لائن قومی ریسرچ اسکالرز سیمینار کے اختتامی جلسے میں کیا۔ تکنیکی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سابق صدر شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی نے کہا کہ سیمینار میں مقالات کی پیش کش دراصل ریسرچ اسکالرز کے مبلغِ علم کی تعیینِ قدر کا پیمانہ ہے۔ صدرِ اجلاس جے این یو سے وابستہ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اردو تحقیق و تنقید کی نئی پود کو ڈیجیٹل عہد کے چیلنجز اور امکانات و مواقع سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر شعبۂ اردو، بی ایچ یو پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے سیمیناروں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ایک تربیت گاہ تصور کرنا چاہیے۔ شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ پروفیسر ندیم احمد نے صدارتی خطاب میں کہا کہ نئی نسل کی کارکردگی مجموعی حیثیت سے اپنی ذہانت اور علمی لیاقتوں کے حوالے سے اطمینان بخش ہے۔ کنوینر سیمینار ڈاکٹر خالد مبشر نے دو روزہ سیمینار کی روداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس میں ملک بھر کی ۲۷؍ یونی ورسٹیوں سے ۴۷؍ ریسرچ اسکالرز نے اپنے پی ایچ ڈی کے موضوع سے متعلق کسی ایک پہلو پر مقالات پیش کیے۔ اس سیمینار میں افتتاحی اجلاس کے علاوہ چار تکنیکی اجلاس کا انعقاد ہوا جن کی صدارت کے فرائض ملک بھر کے مایۂ ناز ناقدین اور محققین نے انجام دیے۔
سیمینار کے تیسرے تکنیکی اجلاس میں جناب اطہر حسین (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، لکھنؤ کیمپس) نے ’اردو تحقیق میں ماہنامہ معارف کی بازیافت‘‘، محترمہ نازیہ (مدراس یونیورسٹی) نے ’جنوبی ہند کی منتخب مزاح نگار خواتین‘ ، جناب شاہ نواز(برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال) نے ’احمد ندیم قاسمی ایک منفرد افسانہ نگار‘، جناب ساجد علی (چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ) نے ’مولانا آزاد اور الجمعیۃ‘، یسریٰ راحت (حمیدیہ کالج ،بھوپال) نے ’ڈاکٹر رضیہ حامد کی ادبی خدمات‘، محترمہ بشریٰ چشتی (حیدرآبادیونیورسٹی ) نے ’1980 کے بعد اردو ڈرامے میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی‘، جناب فیروز خان (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’عرفان صدیقی کی شاعری میں عشقِ رسول‘، محترمہ سیدہ فاطمہ النساء اسماء(ساتاواہنا یونیورسٹی، تلنگانہ) نے ’دکنی تحقیق میں اسلم مرزا کے اضافے‘، محترمہ حمیرہ عالیہ (لکھنؤ یونیورسٹی) نے ’اردو میں جاسوسی ادب کی روایت اور ابنِ صفی کا اختصاص‘، محترمہ سعدیہ صدف (عالیہ یونیورسٹی، کولکاتا) نے ’1980 کے بعد مغربی بنگال کی غزلوں کا سیاسی مزاج‘، محترمہ تہنیت فاطمہ(جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’الہ آباد کے اہم اشاعتی ادارے‘، جناب عبداللہ منیر العالم (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’اردو زبان و ادب کے فروغ میں رسالہ ’’آج کل‘‘ کی خدمات‘، جناب محمد یوسف رضا (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’ظہیر دہلوی کی مرثیہ نگاری‘، جناب شاہ نواز عالم(جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’ابنِ انشا بحیثیت شاعر‘،ظفرالاسلام (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’معین احسن جذبی کی غزلیہ شاعری‘اور محترمہ سفینہ خاتون(جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’ تنویر احمد علوی: بحیثیت محقق و مدون‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔
سیمینار کے چوتھے تکنیکی اجلاس میں محترمہ رشید ۃ النساء(مراٹھ واڑایونیورسٹی، اورنگ آباد) نے ’اردو ڈراما اور ہندوستانی تہذیب‘، جناب محمد اعظمی (نارتھ مہاراشٹرا یونیورسٹی ، جالیگاؤں) نے ’ڈاکٹر اشفاق انجم کی نعتیہ شاعری‘، جناب شبیر احمد لون (پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ) نے ’خاکہ نگاری کا فن اور قرۃ العین حیدر‘، محترمہ کوثر جمال(بریلی یونیورسٹی) ’رشید حسن خاں کے تحقیقی نظریات‘، جناب احمد حسن (گجرات یونیورسٹی، احمد آباد) نے، ’جدید غزل اور خلیل الرحمٰن اعظمی‘، جناب پپو رام (پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ) نے ’اردو ادب میں طنز و مزاح کا ارتقائی دور: ایک مختصر جائزہ‘، محترمہ اسنیٰ سحر(الہٰ آباد یونیورسٹی) نے ’فن انشائیہ نگاری اور مجتبیٰ حسین‘، جناب سوریہ پرکاش راؤ (الہٰ آباد یونیورسٹی) نے ’اردو رباعی کی تعریف اور غزل، قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ میںاہم صنف کون: ایک جائزہ‘، محترمہ صبا(جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’فکشن تنقید کے مباحث اور عابد سہیل‘، جناب محمد تنظیم عالم(جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’غلام عباس بحیثیت افسانہ نگار‘، جناب ناظر انور (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’ ظفر گورکھپوری: غزل گائیکی کے حوالے سے‘ اور جناب عبد الواحد(جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے ’اسلوب احمد انصاری بحیثیت خاکہ نگار‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ ڈاکٹر محمد مقیم کے اظہارِ تشکر پر اجلاس کا اختتام ہوا۔
مصنف: غضنفر اقبال
صفحات: 76، قیمت: 50، سنہ اشاعت: 2021
ناشر:ساہتیہ اکادمی، دہلی
حکومت ہند کے باوقار ادبی ادارہ ساہتیہ اکادمی کے ‘ہندوستانی ادب کا معمار’ سیریز کے تحت مشاہیر ادبی شخصیات کے بہت سے مونوگراف شائع ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے قاضی سلیم پر لکھا گیا یہ مونوگراف ہے جس کے مصنف ڈاکٹر غضنفر اقبال ہیں۔
قاضی سلیم کا شمار جدید نظم کے بنیادگزاروں میں ہوتا ہے۔ مشکل پسندی اور نت نئے تجربات ان کی نظم کا خاصہ ہیں جن کی بنا پر قارئین کو ان کی نظموں کی تفہیم میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ قاضی سلیم کی مشکل پسندی اور معنی کی پیچیدگی کی وجہ سے ان کے معاصرین خلیل الرحمن اعظمی، وحید اختر، بلراج کومل عمیق حنفی وغیرہ کے مقابلے ان پرذرا کم توجہ دی گئی۔
قاضی سلیم کی نظموں کے موضوعات سماج اور افراد کی زندگی سے وابستہ مسائل ہیں لیکن انھوں نے ان مسائل کو مختلف زاویوں اور جہات سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے، اسی لیے ان کی نظموں میں بہت سے موضوعات ملتے ہیں، جیسے: تجسس و اضطراب، حزنیہ کیفیت، بے ضمیری اور بے حسی، یاس و ناامید،علامت، امید و آرزو،خود کلامی و صنعت تلمیح،تہذیب آثار کی گمشدگی، اقدار کے ابتذال کا نوحہ، تصوف،زندگی کا احتجاج، شعور و آگاہی، فکر و فلسفہ، سیاست و سماجی احوال، موت و غم، احساس تنہائی وغیرہ وغیرہ۔
قاضی سلیم کی نظموں کے حوالے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان کے یہاں موضوعات کے علاوہ اور بھی بہت سی سطحوں پر تنوع اور تکثیریت ہے۔ اس تعلق سے پروفیسر انتخاب حمید نے اپنے مضمون ‘قاضی سلیم: جدید نظم کا منفرد کردار’ میں اہم اشارے کیے ہیں۔ ان کے مطابق ان کی نظموں میں :
’’کہیں طبعیات و مابعد الطبیعیات پر مکالمہ ہے تو کہیں متصوفانہ تکلم۔ نظم بیک وقت کئی سمتوں میں رواں دواں نظر آتی ہے۔ تکثیریت اس کا وصف خاص ہے۔ اس کا شعری لحن، منفرد ڈکشن حسن و معنی آفرینی کی لائق تحسین مثال ہے۔‘‘
زیر نظر مونوگراف دو ابواب میں منقسم ہے۔ پہلا باب ‘قاضی سلیم:حیات نامہ’ ہے جس میں قاضی سلیم کے خاندانی پس منظر، پیدائش اور گھریلو ماحول، والدین بھائی اور بہن، تعلیم و تربیت، ذوق و شوق، ادبی زندگی، اساتذہ، عقائد، پسند اور ناپسند، پیشہ، ازدواجی زندگی، احباب، ادبی صحافت، سماجی اور سیاسی خدمات، مطبوعات، اعزازات، قدرشناسی، شخصیت، زندگی کی کھٹی میٹھی یادیں، بیماری اور وفات جیسے ذیلی عنوانات کے ذریعے قاضی سلیم کی زندگی کے احوال و کوائف سے قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔
’خاندانی پس منظر’ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قاضی سلیم کے دادا قاضی شمس الدین اپنے نام کے ساتھ قاضی کا لاحقہ لگاتے تھے کیونکہ انھیں قضاء کا عہدہ ملا ہوا تھا۔ آپ کے والد شمس الدین چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور محکمۂ پولس میں سرکل انسپکٹر تھے۔ قاضی سلیم وکالت کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد فوجداری کے وکیل بھی بنے۔ قاضی سلیم اپنے والد سے بہت ڈرتے تھے جس کی بنا پر انھیں ’سرکار‘ کہتے تھے اسی لیے انھوں نے اپنے والد کو طویل نظم ’برأت‘ لکھ کر بہترین خراج پیش کیا ہے۔
قاضی سلیم کے ‘پیشہ’ کے تعلق سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تقریباً 7 برس تک اپنے والد کے ساتھ وکالت کی، بعد میں ان کے خسر محترم کریم احمد تارا نے اپنی کمپنی میں جنرل منیجر بنا دیا لیکن یہ عہدہ بھی انھیں راس نہیں آیا اور آپ نے تاج آفسیٹ کے نام سے ایک پریس قائم کیا، یہاں سے بھی بددِل ہوئے تو سیاست سے وابستہ ہوگئے جہاں ممبر آف پارلیمنٹ کی حیثیت سے انھوں نے بہت اہم خدمات انجام دیں۔
دوسرا باب ‘قاضی سلیم: ادبی شناخت’ ہے جس میں بہ حیثیت نظم نگار، مثنوی نگار، ہائیکو نگار، رباعی نگار، نثر نگار، مکتوب نگار اور ترجمہ نگار قاضی سلیم پر گفتگو کی گئی ہے۔ نظم نگار کی حیثیت سے قاضی سلیم کے انفراد اور اختصاص کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے اور ان کے شعری مجموعے: ‘نجات سے پہلے’، ‘رستگاری’ اور ‘ کچوکے ضمیر کے’ کی کچھ چنندہ نظموں مثلاً انتظار، ایک کتبہ، وقت، وائرس، ہم وقت کے صحرا میں، اس جہنم میں، انتساب، ٹورسٹ، پرواز، وعید، مکتی، نوحہ، عمر باقی ہے، ایک گیت بانو کے لیے، ایک نظم، بے ضمیری، کچوکے ضمیرکے وغیرہ کا مختصرا تجزیہ کیا گیا ہے۔
‘نجات سے پہلے’ کی نظموں کے امتیازات کے حوالے سے غضنفر اقبال لکھتے ہیں :
’’… اس مجموعے میں شاعر نے اس قدر کڑا انتخاب کیا تھا کہ پوری کتاب شاہکار نظموں کا درجہ رکھتی ہے… کتاب کا سرورق عالمی شہرت یافتہ مقبول مصور فدا حسین نے بنایا تھا۔ ’نجات سے پہلے‘ کی نظمیں گہرے تخلیقی شعور کا پتا دیتی ہیں…(ہندوستانی ادب کے معمار: قاضی سلیم، ص 26)
قاضی سلیم کی شناخت بہ حیثیت ’مثنوی نگار‘ بھی ہے۔ اس عنوان کے تحت ڈاکٹر غضنفر اقبال قاضی سلیم کی دو مثنویوں ‘مثنوی باغبان و گل فروش’ اور ‘مثنوی زہر خند’ کی خصوصیات اوران کے مختصر تجزیے پیش کیے ہیں۔
‘ہائیکو’ ایک جاپانی صنف ہے لیکن قاضی سلیم نے اس میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ صاحب کتاب نے ‘ہائیکو نگار’ کی حیثیت سے آپ کا تعارف اورکچھ ہائیکوکے تجزیے پیش کیے ہیں۔
قاضی سلیم نے رباعیاں بھی لکھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔ یہاں کے کچھ رسائل میں ‘بیماریوں کے بھنور سے’ سریز کے تحت آپ کی رباعیاں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ڈاکٹر غضنفر اقبال نے قاضی سلیم بہ حیثیت ‘رباعی نگار’ میں ان کی کچھ رباعیوں کا عمدہ تجزیہ کیا ہے۔
قاضی سلیم بہ حیثیت ‘نثر نگار’ میں آپ کے مضامین ‘نئی شاعری’، ‘شعری ترجمے کے آداب’ کا ذکر ہے جس میں قاضی سلیم کے مضامین کی اہمیت، افادیت اور ان کے اختصاص کے ساتھ ساتھ کچھ مشاہیر کی آرا بھی ہیں۔
قاضی سلیم بہ حیثیت ‘مکتوب نگار’ میں آپ کے ان تین خطوط کا ذکر کیا گیا ہے جو ماہنامہ ‘شب خون’ الہ آباد میں ‘نقطے اور روشنیاں’ کے عنوان سے شائع ہوئے تھے۔ یہ خطوط قاضی سلیم نے ‘شب خون’ کے مدیر شمس الرحمن فاروقی کو لکھے تھے۔ شاذ تمکنت کی رحلت پر ایک ‘تعزیت نامہ’ بھی تحریر کیا تھا جس کے مخاطب پروفیسر انور معظم، پروفیسر مغنی تبسم اور ڈاکٹر مجتبیٰ حسین ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ مصنّفین کو ان کی کتابوں کی موصولگی پر لکھے ہوئے خطوط کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
’ترجمہ نگاری’ کے ذیل میں قاضی سلیم کے مشہور مضمون ‘شعری ترجمے کے آداب’ اور آپ کی ایک کتاب ‘ریگزاروں کے گیت’ کا بھی ذکر ہے۔ قاضی سلیم نے عربی شاعر غازی القصیبئی کی نظموں کے مجموعہ ‘From the orient and The Desert’ کا اردو ترجمہ کیا تھا ۔
ڈاکٹر غضنفر اقبال لائق ستائش ہیں کہ انھوں نے قاضی سلیم جیسی جید اور متنوع شخصیت کی ادبی خدمات کے حوالے سے مختصر مگر جامع گفتگو کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قاضی سلیم کی شخصیت اور فن کی تفہیم میں اس کتاب سے قارئین کو بہت مدد ملے گی۔
آئی سی سی ٹیسٹ پلیئر رینکنگ: شاہین آفریدی پہلی بار ٹاپ 5میں شامل ، دیمتھ کرونارتنے کو بھی ہوافائدہ
دبئی:انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ٹیسٹ کرکٹ میں بلے بازوں اور گیندبازوں کی تازہ رینکنگ جاری کر دی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں گیندباز وں کی رینکنگ میں پاکستان کے اسٹار تیز گیندباز شاہین شاہ آفریدی کو برتری حاصل ہوئی ہے۔ نیز سری لنکا کے ٹیسٹ کپتان اور اوپنر دیمتھ کرونارتنے کوبھی رینکنگ میں کافی فائدہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف پہلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں پانچ وکٹیں لینے والے شاہین آفریدی پہلی بار گیندبازوںکی ٹیسٹ رینکنگ میں ٹاپ فائیو میں پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں سنچری اور دوسری اننگز میں نصف سنچری بنانے والے دیمتھ کرونارتنے بلے بازوں کی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر آگئے ہیں۔ٹیسٹ کرکٹ میں بلے بازوں کی رینکنگ میں انگلینڈ کے جو روٹ 903 پوائنٹس کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں۔ جب کہ آسٹریلیا کے اسٹیو اسمتھ دوسرے اور نیوزی لینڈ کے کین ولیمسن تیسرے نمبر پر ہیں۔ہندوستان کے روہت شرما پانچویں اور وراٹ کوہلی چھٹے نمبر پر برقرار ہیں۔نیز گیند بازوں کی رینکنگ میں آسٹریلیا کے پیٹ کمنس 908 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ دوسری جانب ہندوستان کے روی چندرن اشون 840 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے اور نیوزی لینڈ کے ٹم ساؤتھی تیسرے نمبر پر ہیں۔ نیوزی لینڈ کے فاسٹ بولرکائل جینیسن نویں اور ہندوستان کے جسپریت بمراہ دسویں نمبر پر ہیں۔ٹیسٹ کرکٹ میں آل راؤنڈرز کی رینکنگ میں ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان جیسن ہولڈر 412 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ نیز ہندوستان کے رویندر جڈیجہ دوسرے نمبر اور آر اشون تیسرے نمبر پر ہیں۔
ملکاارجن کھڑگے کا دعویٰ، کورونا سے 50 لاکھ سے زیادہ اموات ہوئیں، مرکزنے کسانوں کی توہین کی
نئی دہلی:اپوزیشن لیڈر ملکاارجن کھڑگے نے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کے ایک بیان کو کسانوں کی توہین قرار دیاہے۔ انہوں نے کہاہے کہ زرعی قوانین کی واپسی کے لیے احتجاج کے دوران 700 سے زائد کسانوں کی موت ہوئی اور حکومت کے پاس کوئی ریکارڈنہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیاہے کہ 50 لاکھ سے زیادہ لوگ کورونا کی وجہ سے مر چکے ہیں۔ کسان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ تین زرعی قوانین کو واپس لینے کے مطالبے کے لیے شروع ہونے والی تحریک میں 700 سے زائد کسان شہید ہوئے تھے۔ تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے تحریری جواب میں کہاہے کہ وزارت زراعت کے پاس دہلی میں احتجاج کے دوران کسانوں کی موت کے بارے میں کوئی سرکاری ڈیٹانہیں ہے۔
شعبۂ عربی، مانو میں لائبریری کی اہمیت پر ڈاکٹر اختر پرویز کا توسیعی لیکچر
حیدرآباد (پریس نوٹ): مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی سید حامد سنٹرل لائبریری بہت ہی قیمتی خزانہ ہے ،جس میں اردو، عربی، فارسی، ہندی، مینجمنٹ، سوشل سائنسز اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بڑی تعداد میں کتابیں موجود ہیں۔ لائبریری بہت سے آن لائن جرنلس اور میگزینس کی خریدار ہے، جن سے یونیورسٹی کے طلباءو طالبات کو استفادہ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر اختر پرویز، لائبریرین، سید حامد سنٹرل لائبریری نے کل توسیعی خطبہ دیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ شعبہ عربی کے زیر اہتمام، ”مانو سنٹرل لائبریری کا تعارف“ کے موضوع پر اس لیکچر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر اختر پرویز نے لائبریری سے استفادہ کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آن لائن پورٹل کے ذریعے کتابوں تک رسائی کیسے کی جائے، ریسرچ پیپر میں حوالے دینے میں تکنیک کا استعمال کرنے کا صحیح طریقہ، اور حوالہ دینے میں ہونے والی دشواریوں کے ازالے جیسے اہم موضوعات کی طرف توجہ دلائی۔ ای – بکس اور ای ریسورسز پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر پرویز نے نیشنل ڈیجیٹل لائبریری آف انڈیا اور کئی دوسری اہم ویب سائٹس سے بھی طلباءو طالبات کو روشناس کرایا ۔ ڈاکٹر فیصل مصطفی اسسٹنٹ لائبریرین نے لائبریری کی آن لائن رسائی پر پاور پریزنٹیشن دیا تاکہ طلبہ کے لیے لائبریری سے استفادہ آسان ہو سکے۔ پروفیسر سید علیم اشرف جائسی، صدر شعبہ عربی، مانو نے مہمانان، اساتذہ شعبہ عربی، ریسرچ اسکالرز، اور تمام طلبا وطالبات کا شکریہ اداکیا ۔ اس پروگرام میں شعبہ عربی کے اساتذہ ڈاکٹر جاوید ندیم ندوی، ڈاکٹر ثمینہ کوثر تابش، ڈاکٹر مفتی محمد شرف عالم، ڈاکٹر طلحہ فرحان، ڈاکٹر آصف لئیق، ڈاکٹر شمس الدین کے علاوہ کافی تعداد میں ریسرچ اسکالرس اور بی اے وایم اے کے طلباءوطالبات نے شرکت کی۔ جلسے کے اختتام پر سوال و جواب کا سیشن بھی منعقد ہوا۔ڈاکٹر محمد شاکر رضا مصباحی، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ عربی نے خیر مقدم کیا اور ڈاکٹر اختر پرویز اور ڈاکٹر فیصل مصطفی کا تعارف پیش کیا۔ ایم اے عربی کے طالب علم عبد اللہ محی الدین کی تلاوت قران پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔
یادیں انسانی زندگی کا کتنا بڑا ثاثہ ہیں ! یادیں رلاتی ہیں ، ہنساتی ہیں ، اور ہم اس گھڑی میں ، جو گزر چکی ہے ، دوبارہ سانسیں لینے لگتے ہیں ۔ مہاراشٹرا اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکیڈمی کے سابق ایکزیکیٹیو افسر ، وقار قادری کی نئی کتاب ’’ درشن : شخصی یادداشتیں ، خاکے / خاکہ نما ‘‘ کے مطالعے نے مجھ پرکچھ ایسی ہی کیفیت طاری کی ہے ۔ نہ جانے کتنے چہرے ، جو اب کبھی واپس لوٹ کر نہیں آئیں گے ، آنکھوں کے سامنے گھوم گئے ہیں ، ان کی نرم گرم باتیں اور آوازیں پھر سنائی دینے لگی ہیں اور یوں لگنے لگا ہے جیسے کھویا ہوا وقت لوٹ آیا ہے ۔ یہ یادیں ، چشم کو تر بھی کر رہی ہیں اور لبوں پرمسکراہٹ بھی لا رہی ہیں ۔ یہ کیفیت ، میرے لیے ، وقار قادری کی اس کتاب کے مطالعے کا ’ حاصل ‘ ہے ۔ کتاب میں ’ صورتیں کیا کیا ملی ہیں خاک میں ‘ کے عنوان سے ( یہ عنوان صرف فہرست ہی میں دیا گیا ہے ، کیوں ؟ اس سوال کا کوئی جواب کتاب میں نہیں ہے) ۲۳ مرحومین کے خاکے ہیں ۔ فہرست کے عنوان ’ رونقِ جہاں تمہیں ہو ‘ کے تحت پانچ ایسے اشخاص کے خاکے ہیں ، جوعلمی ، ادبی اور سماجی زندگی میں اپنے کارناموں سے روشنی کیے ہوئے ہیں ، اللہ رب العزت انہیں عمرِ خضر عطا کرے ، آمین ۔ ’ محبت نامے‘ کے عنوان سے ( یہ عنوان بھی صرف فہرست میں ہے ) وقار قادری کے دو ساتھیوں کے ، دو مضامین شامل ہیں ، پڑھنے والے ، جن سے ، محبت کی خوشبو اڑتے ہوئے صاف محسوس کر سکتے ہیں ۔
ان خاکوں پر بات کرنے سے پہلے ، یہ جان لیں کہ ان مضامین کو کتابی شکل دینے کی ضرورت ، کیوں محسوس کی گئی ، اس سوال کا کوئی جواب ، وقار قادری نے ، نہیں دیا ہے ۔ ’ اپنی بات ‘ میں وہ بس اتنا ہی لکھتے ہیں ’’ چند مضامین لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں ۔ کچھ نے کہا یہ خاکے ہیں ، کچھ نے کہا خاکہ نما ، کچھ نے یادداشتیں ، تو کسی نے تاثراتی مضامین کہہ دیا ۔ اب فیصلہ آپ کا ہے ۔‘‘ گویا قادری صاحب نے ، کتاب پڑھنے والوں کو ، پوراحق دے دیا ہے کہ وہ اپنے لحاظ سے فیصلہ کریں کہ یہ مضامین صنفِ ادب کے کس زمرے میں آتے ہیں ، اور کیا یہ ضروری تھا کہ انہیں کتابی صورت دی جاتی ؟ کتاب میں شامل مقدمہ ’’ خاکہ نگاری اور وقار قادری ‘‘ ، جسے مشہور و معروف طنز و مزاح نگار فیاض احمد فیضی نے تحریر کیا ہے ، مذکورہ سوالوں کا تشفی بخش جواب دیتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’ قاری جب ایک خاکہ ختم کرتا ہے تو ایک اچھا تاثر اس کے ذہن پر قائم ہوتا ہے اور دوسرے خاکے پڑھنے کی خواہش جنم لیتی ہے ۔‘‘ مطلب واضح ہے ، یہ تحریریں خاکے ہی ہیں ، اور جن تحریروں کو تعزیتی مضامین کہا جا رہا ہے ، بقول فیضی ’’ ان میں تعزیتی فقرے محض رسمی طور پر ہیں اور مصنف کے قلم نے انہیں قابلِ ذکر خاکوں کی شکل دے دی ہے ۔‘‘ ظاہر ہے کہ ایک خاکہ پڑھنے کے بعد ، اگر دوسرا خاکہ پڑھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو ، اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ اس کتاب کو شائع ہونا چاہیے تھا ، اور وقار قادری نے اسے شائع کر نے کا فیصلہ ٹھیک ہی کیا ہے ۔
کتاب میں جن ۲۳ مرحومین کے خاکے ہیں ، ان میں سے ۵ ، اشخاص ، ساجد رشید مرحوم ، محمود ایوبی مرحوم ، انور ظہیر خان مرحوم ، م ناگ مرحوم اور مظہرسلیم مرحوم سے میرا گہرا تعلق رہا ہے ۔ یہ وہ خاکے ہیں جن میں ، ان مرحومین کی یادوں کے ساتھ ساتھ ، معروف افسانہ نگار انور خان مرحوم ، بلٹزاور انقلاب کے ایڈیٹر رہے ہارون رشید مرحوم ، حبیب رضا خان مرحوم ، فوٹو گرافر عباس صباحت مرحوم ، آصف خان مرحوم اور ایسے ہی کئی یار دوست ، ساتھی ، گائیڈ اور ہمدرد اور ان کے ساتھ بتائے لمحات یاد آگئے ۔ یہ یاد آنے والے لمحے میرے لیے اس کتاب کے مطالعے کا ’ حاصل ‘ ہیں ۔ ساجد رشید ، جنہیں میں ساجد بھائی کہا کرتا تھا ، کے خاکے کا عنوان مختصر ہے ’ طریقۂ کار ‘۔ خاکے کی شروعات شجاع خاور کے ایک شعر ؎
میاں عموماً تو دشمنی لوگ کرتے رہتے ہیں دشمنوں سے بس ایک ہی شخص شہر میں ہے ، جو دوستوں سے لڑا ہوا ہے
سے ہوتی ہے ۔ شعر کے عین مطابق ، ساجد رشید مرحوم کی اپنےدوستوں سے لڑائی اکثر ہوتی رہتی تھی ، لیکن میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں ، اس کی صرف ایک وجہ تھی ، وہ ایکٹوسٹ تھے اور اپنے ساتھیوں سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی ان کا ساتھ دیں ۔ وقار قادری نے اپنے خاکے میں مرحوم سے کچھ اختلافات کاذکر کیا ہے ، جو ساجد بھائی کی ناگہانی موت کے سبب رفع نہیں ہو سکے ، حالانکہ دونوں ہی طرف سے اختلافات بھول جانے کا ارادہ کیا گیا تھا ۔ وقار قادری لکھتے ہیں ’’ ساجد رشید سے آخری دنوں میں میری ملاقاتیں ختم ہو گئی تھیں ، ان سے ملنے یا عیادت کرنے کے لیے ان کے گھر یا ہسپتال نہ جا سکا تھا ، ہسپتال جانے سے ایک روز قبل فون پر آپریشن کے لیے نیک خواہشات کا اظہار ضرور کیا تھا ۔ کچھ غلط فہمیاں بڑھ جانے ، کچھ احباب کے ہوا دے کر بڑھائے جانے پر اظہار افسوس کر کے ان سے معذرت طلب کی ، جس پر مرحوم کا مجھ سے کہا ہوا آخری جملہ میرے کانوں میں گونج رہا تھا ’’ قادری ! ہسپتال سے آنے پر ہم لوگ مل بیٹھیں گے ۔‘‘ ،’’ ٹھیک ہے ساجد بھائی ۔‘‘ ہسپتال سے آکر ہم لوگ مل بیٹھیں گے ۔ اس جملے میں کتنا یقین اور پختگی تھی ، مگر افسوس ان کی زندگی وفا نہ کر سکی اور مل بیٹھ کر اختلافات کو دور کرنے کی بات اس دنیا میں دھری کی دھری رہ گئی ۔ میں دل مسوس کر رہ گیا ۔‘‘ اس خاکے کی شروعات موت کی خبر سے کی گئی ہے ۔ ایسے چھ خاکے اور ہیں جن کی شروعات موت کی خبر سے ہوتی ہے ۔ فیاض احمد فیضی کا کہنا ہے کہ ’’ شاید مصنف نے شدت تاثر کی خاطر المیہ سے ابتدا کرنے کی تکنیک اپنائی ہے ‘‘ ۔ ممکن ہے یہی بات ہو ، لیکن مجھے یوں محسوس ہوا ہے کہ ، موت کی یہ اطلاعات مصنف کے دل پر خود اس شدت سے اثر انداز ہوئی ہیں کہ ، مصنف کو اپنے خاکوں کی ابتدا ، موت کی خبروں سے کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خاکے تاثراتی بھی ہیں ۔ لیکن تاثراتی ہونے کے باوجود یہ ہیں خاکے ہی کیونکہ ان میں تعزیتی کلمات رسمی طور پر ہی ہیں ، جیسا کہ فیضی صاحب’ مقدمہ ‘ میں کہہ چکے ہیں ۔ م ناگ کے خاکے میں ، ان کا حلیہ ، وقار قادری صرف سوا سطر میں یوں کھینچ دیتے ہیں کہ م ناگ کو جاننے والے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں ’’ پہلی ملاقات میں اپنا کوئی تاثر نہ چھوڑنے والا ، سیدھا ، شریف ، نیک اور غریب ادیب م ناگ ہے ۔‘‘ ندا فاضلی پر دو خاکے ہیں ، ایک ان کی موت سے پہلے کا لکھا ہوا اور دوسرا ان کی موت کے بعد کا لکھا ہوا ۔ ان خاکوں کی خوبی یہ ہے کہ دونوں میں کہیں کوئی تکرار نہیں ہے ۔ پہلے خاکے میں ندا صاحب کے سارے رنگ دیکھے جا سکتے ہیں ، گفتگو کرنے کا ان کا انداز ، غربت اور آسودگی کے دنوں میں زندگی گزارنے کا ان کا ڈھنگ ،’’ اپنے برے دنوں میں بھی انہوں نے مایوسی کو قریب پھٹکنے نہ دیا تھا ۔‘‘ ان کا ، اپنے ہاتھوں سے بنائی کھچڑی اور گوشت کا سالن ، بھر پیٹ کھلانے کا انداز ، اپنے گھر والوں کے لیے محنت کرنے کا ہنر اور اپنی برادری کے لوگوں یعنی ادیبوں کی ضرورتوں کو حتی المقدور پورا کرنے کی کوشش ۔ دوسرے خاکے میں ابتدا ندا کی موت کی خبر سے ہوتی ہے ، اور موت کے حوالے سے وقار قادری ، نداصاحب کی زندگی کے صفحات الٹتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ خا کہ اپنے اندر درد و غم کی کیفیت کو سموئے ہوئے ہے جس کا اثر پڑھنے والے پر بھی مرتب ہوتا ہے ۔
اپنے تین استادوں ، بدیع الزماں خاور ، پروفیسر عالی جعفری اور میمونہ دلوی کے خاکے ، وقار قادری نے محنت ، محبت اور عقیدت سے لکھے ہیں ۔ علی ایم شمسی اور معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق پر لکھی تحریریں شاندار ہیں ، ان میں دونوں ہی، پڑھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔ اقبال نیازی پر خاکہ اچھا ہے ، اس میں اسمعیل یوسف کالج کی یادیں اور وہاں کا ماحول بھی اجاگر ہو گیا ہے ۔ وقار قادری کو ڈراموں کی دنیا سے بھی دلچسپی تھی ، اس کتاب کے پانچ خاکے ان کی رنگ منچ سے کشش کی گواہی دیتے ہیں ۔ ایک خاکہ معروف ڈرامہ نویس وجئے تینڈولکر پر ہے ، ایک مشہور اداکار نیلو پھلے پر ، ایک خاکہ اداکار شفیع انعامدار مرحوم پر اور ایک جیونت دلوی پر ۔ اور ایک خاکہ چیتن داتار پر ہے جو اسٹیج کی دنیا کا ایک اہم نام تھا ۔ کچھ خاکے ایسے ہیں جنہیں ، اگر تھوڑا سا مزید محنت کی جاتی تو ، بہت اچھے ڈھنگ سے لکھا جا سکتا تھا ۔ مثلاً اپنے جوان بھانجے کبیر پالیکر کا خاکہ ۔ اس خاکے کو ایک یادگار نوحے میں ڈھالا جا سکتا تھا ۔ وقار قادری نے کئی ایسے اشخاص کے خاکے بھی اس کتاب میں شامل کیے ہیں جن سے ان کے علاوہ شاید ان کے گاوں یا گاوں کے اطراف ہی کے لوگ واقف رہے ہوں گے ، جیسے کہ زینب بی مقادم ۔ یہ ایک بہترین خاکہ ہو سکتا تھا اگر اسے یادداشت پر مزید زور دے کر اور مشاہدے کی لئے کو کچھ اور تیز کر کے لکھا جاتا ۔ مجھے مرحوم اسلم فرخی کا لکھا ہوا ایک خاکہ یاد آگیا ، جو شاید ان کی کسی عزیزہ کی زندگی پر تھا ۔ ظاہر ہے کہ ایک عام پڑھنے والے کو اسلم فرخی کی عزیزہ سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ، لیکن جب میں نے وہ خاکہ پڑھنا شروع کیا تو ایک ہی نشست میں پڑھ گیا ۔ یہ اسلم فرخی کی زبان اور ان کے بیان کا کمال تھا ۔ بیان کے لیے زبان ضروری ہے ۔ وقار قادری کے یہاں زبان ہے لیکن وہ بہر حال اسلم فرخی نہیں ہیں ۔ ویسے وقار قادری کے یہاں کہیں کہیں جو جملے کھٹکتے ہیں ، زبان کچھ الگ سی لگتی ہے اور بیان پر کبھی بمبیا تو کبھی کوکن کا رنگ چھایا نظر آتا ہے ، وہ ایسا کچھ خراب بھی نہیں لگتا ، کہ ہم ممبئی والے اس کے عادی ہیں ۔ لیکن شااید ان پڑھنے والوں کو ، جو ممبئی کے نہیں ہیں ، یہ زبان نہ بھائے ۔ میرا خیا ل ہے کہ اگر وقار قادری ذرا سی محنت اور کر دیتے تو اس کتاب کی زبان اور بیان نکھر جاتے ۔ ادب نوازوں سے گزارش ہے کہ وہ یہ کتاب ضرور پڑھیں کیونکہ اس میں ممبئی کی ادبی دنیا کا اتارچڑھاو نظر آئے گا ، ادیبوں کی چشمکیں دکھائی دیں گی اور یہ بھی پتہ چلے گا کہ ادیب ، شاعر اور فکشن نگار حقیقی زندگی میں اپنے پڑھنے والوں کے تصور سے کتنے مختلف یا کتنے قریب ہوتے ہیں ۔ کتاب ’ کتاب دار ‘ نے شائع کی ہے ، اسے موبائل نمبر (9869321477)سے حاصل کیا جاسکتاہے۔
نئی دہلی :کانگریس کے رکن پارلیمنٹ دیپیندر سنگھ ہڈانے احتجاج کے دوران کسانوں کی موت کے اعداد و شمار سے متعلق بیان کے لیے مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ ہڈانے پوچھاہے کہ کیا حکومت سچے دل سے یہ کہہ رہی ہے؟ انہوں نے کہاہے کہ اگر حکومت کے پاس کسانوں کی تحریک میں جان قربان کرنے والے تقریباً 700 کسانوں کے اعداد و شمار نہیں ہیں، تو میں یہ اعداد و شمار حکومت کو دینے کے لیے تیار ہوں۔ حکومت تمام مرنے والے کسانوں کو خراج عقیدت پیش کرے اور کسان خاندانوں کو معاوضہ اور نوکریاں دے۔اس سے زیادہ غلط جواب نہیں ہوسکتاہے۔اگر حکومت چاہے تو میں خود یہ فہرست حکومت کو دے سکتا ہوں۔ یہ فہرست متحدہ کسان مورچہ نے بھی جاری کی ہے۔ تمام ریاستوں میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس فہرست کے حوالے سے لوگوں کی مددکاکام کیا ہے۔ میں خود ان لوگوں کے گھر گیا ہوں۔ ایسی مددپنجاب حکومت نے بھی کی ہے۔ اگر حکومت چاہے تو تمام ریاستی حکومتوں سے یہ فہرست لے سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت ان کی مدد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ نہ تو وہ یہ ماننا چاہتے ہیں کہ اتنے لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور نہ ہی ہم انہیں پہچان دینا چاہتے ہیں لیکن ہم کسانوں کی قربانی رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
کسان احتجاج میں 700 سے زیادہ اموات کا حکومت کے پاس کوئی ریکارڈنہیں ،پارلیمنٹ میں کہا-معاوضہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ اس کے پاس کسانوں کے احتجاج کے دوران مرنے والے کسانوں اور ان کے خلاف درج مقدمات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں کسی کو مالی امداد یعنی معاوضہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے یہ تحریری جواب لوک سبھا میں پارلیمنٹ کے جاری سرمائی اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں دیا ہے۔پارلیمنٹ میں سوال پوچھا گیا کہ کیا حکومت کے پاس ان کسانوں کا کوئی ڈیٹا ہے جو احتجاج کے دوران مر گئے اور کیا حکومت ان کے اہل خانہ کو مالی امداد دینے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ جس کے جواب میں وزیر زراعت کا یہ جواب آیا ہے۔ وزیر نے اس ایوان کو یہ بھی بتایا کہ مرکزی حکومت نے کسان لیڈروں کے ساتھ 11 دور کی بات چیت کی تھی لیکن یہ بات نہیں بن سکی۔ دوسری طرف کسان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ احتجاج کے دوران 700 سے زیادہ کسانوں کی موت ہو چکی ہے۔ بتا دیں کہ 11 دن پہلے قوم سے اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا تھا اور اس کے لیے کسانوں سے معافی مانگی تھی۔19 نومبر کو وزیر اعظم نے کہا تھاکہ ملک سے معافی مانگتے ہوئے، میں سچے اور صاف دل سے کہنا چاہتا ہوں کہ شاید ہماری کوششوں میں کچھ ایسی کمی تھی کہ ہم کسان بھائیوں کو کو سچ نہیں بتا سکے۔ اس کے بعد انہوں نے احتجاج کرنے والے کسانوں سے گھر واپس لوٹنے کی اپیل کی تھی۔
’کسی یو پی اے کا وجود نہیں‘ ،شرد پوار سے ملاقات کے بعد ترنمول سربراہ ممتا بنرجی کابیان
ممبئی : ممتابنرجی فی الحال قومی سطح پر خود کومضبوط کرنے کے لیے کانگریس کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے رہنما شرد پوار سے ملاقات کے بعد انہوں نے کہاہے کہ یو پی اے کیا ہے؟ کوئی یو پی اے نہیں ہے۔شردپوار، جو کہ 2019 کے عام انتخابات سے پہلے اپوزیشن کے چیف مذاکرات کار تھے، نے اسے 2024 کے لیے ٹیمپلیٹ کا نام دیاہے۔ انہوں نے اس ملاقات کی تصویر بھی ٹویٹ کی، ‘مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے ان کی ممبئی کی رہائش گاہ پر مل کر خوشی ہوئی۔ ہم نے مختلف مسائل پر بات کی۔ ہم نے جمہوری اقدار کے تحفظ اور عوام کی بہتری کے لیے اجتماعی کوششوں پر اتفاق کیا۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کانگریس کے بغیر اتحاد کا امکان ہے، شردپوار نے نامہ نگاروں سے کہاہے کہ جولوگ بی جے پی کی مخالفت کرتے ہیں ان کا ایک ساتھ آنے کا خیرمقدم ہے۔ کسی کو ہٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔این سی پی کے سربراہ نے کہاہے کہ ہم نے موجودہ صورتحال اور تمام ہم خیال جماعتوں کے اکٹھے ہونے اور بی جے پی کا ایک مضبوط متبادل فراہم کرنے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیاہے۔قیادت کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ہمیں بی جے پی کے خلاف متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ممتابنرجی چاہتی ہیں کہ شردپوار کانگریس کے زیر قیادت متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کا صدر بنیں، ممتابنرجی نے کہاہے کہ ابھی تک کوئی یو پی اے نہیں ہے۔واضح طور پرانھوں نے کہاہے کہ وہ 2024 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کے ایک نئے اتحاد کو دیکھ رہی ہیں۔
نوادہ میں استقبالیہ اجلاس اور تعلیمی بیداری کانفرنس سے امیر شریعت بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کا خطاب
نوادہ :امارت شرعیہ ہم سب کے ایمان و یقین کا حصہ ہے ، اور جس طرح ہمارے لیے اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت فرض ہے اور اس کے لیے اپنی جان و مال اور توانائی کو خرچ کرنا لازمی ہے ، اسی طرح امارت شرعیہ کو محفوظ و مستحکم رکھنا بھی ہمارا دینی ، ایمانی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی شناخت اور وقار کے ساتھ شریعت اسلامی کے نفاذ کو اس ملک میں برقرار رکھیں تو ہمیں اپنے خون جگر سے امارت شرعیہ کی جڑوں کو مضبوط کرنا ہو گا ۔ یہ باتیں امیر شریعت بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے نوادہ میں منعقد استقبالیہ اجلاس اور تعلیمی بیداری کانفرنس میں ایک بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہیں ۔ آپ نے کہا کہ ایمان کی حفاظت کے بعد ہمارا سب سے مستحکم فریضہ تعلیم کا فروغ ہے ، اس لیے کہ تعلیم ہی وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعہ کوئی قوم ترقی کے معراج پر پہونچتی ہے ۔ مسلمانوں کو تو تعلیم میں آگے بڑھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کو دیے گئے الٰہی احکامات میں سے سب سے اولین حکم پڑھنے اور علم کے حاصل کرنے کا ہی ہے ، کیوں کہ علم ہی کے ذریعہ انسان کو خالق کی معرفت حاصل ہو تی ہے ۔نائب قاضی شریعت جناب مولانا مفتی وصی احمد قاسمی صاحب نے اطاعت امیر کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایمان کے بعد سب اہم چیز اجتماعیت ہے اور اجتماعیت کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ امیر کی اطاعت کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنائے ۔ امیر کی اطاعت کے بنا اس اسلامی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا جو شریعت میں مطلوب ہے ۔ ۔ جناب انجینئر فہد رحمانی صاحب نے رحمانی تھرٹی کی کامیابیوں کا تذکرہ تفصیل سے کیا اور بتایا کہ کس طرح رحمانی تھرٹی خاموشی کے ساتھ قوم کے نونہالوں کے مستقبل کو سنوارنے میں لگا ہوا ہے ۔انہوں نے کہا کہ رحمانی تھرٹی نے قوم کی ناامیدیوں اور بے یقینی کو امید اور یقین میں بدلا ہے ۔ انہوں نے ہر ضلع میں رحمانی تھرٹی جیسے ادارے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔خیال رہے کہ یہ استقبالیہ اجلاس اور تعلیمی بیداری کانفرنس کا انعقاد ضلع نوادہ کے علمائے کرام ،دانشوران ونوجوانان کی جانب سے امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ کے آٹھویں امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کے استقبال میں آج بتاریخ 1دسمبر2021بروزبدھ بوقت 10بجے دن بمقام میدان نزدمدرسہ عظمتیہ انصار نگر نوادہ بہار م کیا گیا تھا۔ اجلاس کی صدارت جانشیں امیر شریعت سابع حضرت مولانا سیدمحمد ولی رحمانی نوراللہ مرقدہ مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم امیرشریعت امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ ،سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر،سرپرست رحمانی30 وچیئرمین رحمانی فاؤنڈیشن نے فرمائی، جبکہ مہمانان خصوصی کے طور پرانجینئرحامدولی فہدرحمانی صاحب مدظلہ العالی ڈائرکٹررحمانی30پٹنہ بہار، جناب مولانا مفتی وصی احمد قاسمی نائب قاضی شریعت امارت شرعیہ، جناب مولانا افتخار احمد قاسمی قاضی شریعت آڑھا ضلع جموئی اور جناب مولانا احتشام رحمانی صاحب خانقاہ رحمانی مونگیر بہار نے شرکت کی اجلاس کی سر پرستی معروف عالم دین حضرت الحاج قاری شعیب احمد صاحب مدظلہ العالی رکن شوریٰ امارت شرعیہ پٹنہ وصدر تعلیمی مشاورتی کمیٹی امارت شرعیہ ضلع نوادہ نے فرمائی ۔اجلاس میں حضرت مولانا محمد شمشادرحمانی قاسمی مدظلہ العالی نائب امیر شریعت امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ واستاذحدیث دارالعلوم وقف دیوبند کو بھی شرکت کرنی تھی ، لیکن حضرت والا دیگر مصروفیت کی وجہ سے شریک اجلاس نہ ہو سکے ، لیکن انہوں نے اپنا تحریری پیغام بھیجا جس کو مولانا نصیر الدین مظاہری نے پڑھ کر سنایا ۔ استقبالیہ کمیٹی اجلاس ضلع نوادہ کے ذمہ داران و ارکان قاری شعیب احمدصاحب، قاری مقصوداحمد،مولانامحمدنصیرالدین مظاہری ،سلمان راغب صاحب، سیدمسیح الدین ،میجراقبال حیدر،قاری شوکت مظاہری،قاری شہادت حسین قاسمی،مولاناشفقت قاسمی،مولاناطیب قاسمی ،آصف علی خان،مولانانظام الدین مظاہری،مولاناسلیم قاسمی،مولانااسلام الحق،مولاناعمران صاحب،ذوالفقارحیدرصاحب،جہانگیرعالم،ڈاکٹرصبااحمد،عارف علی خان،مولاناحسنین مظاہری نے اجلاس کے انتظامات کو بہتر بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ اجلاس کا آغاز قاری شوکت مظاہری صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، نعت شریف جناب مولانا منظرقاسمی صاحب نے پیش کی ، اجلاس کی نظامت کے فرائض مولاناشہادت قاسمی نے انجام دیے ۔ مولاناضیائالدین،پروفیسرعتیق صاحب ،مولانانظام الدین مظاہری ، سیدمسیح الدین، اور نوادہ کے ڈی ایم یس پال مینا،مولانا طیب صاحب اور مفتی مسرور صاحب نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ،خاص طور پر ڈی ایم نوادہ نے حضرت امیر شریعت کو گلدستہ پیش کر کے ان کا استقبال کیا اور اپنی تقریر میں امارت شرعیہ کے کاموں کی ستائش اور تحسین کی۔اجلاس کوکامیاب کرنے میں صدرعالم، مولاناابوالعاص، مواناابوالکلام، مولاناطلحہ،مولانامنت اللہ، محمدرضوان عالم ،قاری حسان، حافظ سرفراز ،حافظ فصیح ،ڈاکٹرصبا،مفتی معراج، عارف علی خان، محمدشہنواز، حافظ فیض ، محمدجہانگیر،ذوالفقارحیدر،ماسٹرعلی حیدر ، محمدرابد،محمددانش، محمدعمران ،محمدریاض ، حافظ منظور ، حافظ محمود ،محمدگلاب محمدنوشادخان ونوجوانان انصارنگروغیرہم بھی پیش پیش رہے۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے مبینہ غداری کے الزام میں گرفتار جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم شرجیل امام کی درخواست ضمانت پر دہلی پولیس کو بدھ کو نوٹس جاری کیا۔خیال رہے کہ شرجیل امام پر 2019 میں CAA-NRC احتجاج کے دوران مبینہ اشتعال انگیز تقاریر کرنے اور مفروضہ تشدد بھڑکانے کا الزام ہے۔ جسٹس رجنیش بھٹناگر نے شرجیل امام کی درخواست پر استغاثہ کو نوٹس جاری کرکے انہیں 11 فروری سے پہلے اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ معاملہ کی اگلی سماعت کے لیے 11 فروری کی تاریخ درج کی گئی ہے۔شرجیل امام نے نچلی عدالت کے 22 اکتوبر کو ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کے حکم کو چیلنج کیا ہے۔ ان کی نمائندگی ایڈوکیٹ سنجے آر ہیگڑے نے کی۔ وہیں استغاثہ کی نمائندگی اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امیت پرساد نے کی۔ شرجیل امام نے کہا کہ تشدد کے الزام میں گرفتار تمام شریک ملزمان کو اس معاملہ میں ضمانت مل
گئی ہے ، لیکن وہ اب بھی گزشتہ 20 ماہ سے جیل میں ہیں۔ ٹرائل کورٹ نے ضمانت مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آزادیٔ اظہار کو فرقہ وارانہ امن اور ہم آہنگی کی قیمت پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔پراسیکیوٹر کے بیان کے مطابق 13 دسمبر 2019 کوشرجیل امام نے مبینہ طور پر ایک اشتعال انگیز تقریر کی جس کے نتیجے میں دو دن بعد جامعہ نگر کے علاقہ میںجامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کے ساتھ تشدد ہوا اور تقریباً مشتعل ہجوم نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کرکے کئی گاڑیاںنذر آتش کیں۔
شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام دو روزہ آن لائن قومی ریسرچ اسکالرز سمینار کے دو تکنیکی اجلاس مکمل
سنی سنائی باتوں پر یقین کے بجائے ذاتی تفتیش اور اخذ نتائج تحقیق کا بنیادی اصول : پروفیسر ابن کنول
نئی دہلی(پریس ریلیز):تحقیقی عمل خاراشگافی اور جہد مسلسل سے عبارت ہے ۔ علمی دنیا میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی ۔ سنی سنائی چیزوں پر یقین کر لینے کے بجائے ذاتی تفتیش اور اخذ نتائج تحقیق کا بنیادی اصول ہے۔ ان خیالات کا اظہار سابق صدر ،شعبۂ اردو ، دہلی یو نیورسٹی ، مشہور ادیب و نقاد پروفیسر ابن کنول نے شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام دو روزہ آن لائن قومی ریسرچ اسکالرز سمینار کے تکنیکی اجلاس میں صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کیا ۔ معروف شاعر و نقاد پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ تحریر و تقریر میں غیر ضروری الفاظ اور خارج از موضوع طویل تمہیدوں سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے دعوے یا تھیسس کی تائید میں دلائل پیش کرنے پر ارتکاز کرنا چاہیے۔ ممتاز فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے اجلاس کی صدارت میں وسیع مطالعے اور تنقیدی و تجزیاتی شعور کی بالیدگی کے لیے سخت محنت اور یکسوئی پیدا کرنے پر زور دیا ۔
سمینار کے پہلے اجلاس میںمحمد خوشتر (حیدر آباد یو نیورسٹی ) نے’ مظفر حنفی کی علمی و ادبی خدمات ‘ ، محمد علیم الدین شاہ (مگدھ یو نیورسٹی ، گیا ) نے ’جدید تر اردو غزل ‘ ، رئیس احمد فراہی (جے این یو ) نے ’مصحفی کا نگار خانۂ آب و رنگ ‘ ، ثوبان احمد (دہلی یونیورسٹی ) نے ’ اردو ناولوں میں ہجرت اور اس کی المناکی ‘ اور ضیاء المصطفیٰ (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’اردو صحافت کی تاریخ : ایک تجزیاتی مطالعہ ‘ کے عنوان سے اپنے مقالات پیش کیے۔
سمینار کے دوسرے تکنیکی اجلاس میں عقیل احمد (لکھنؤ یونیورسٹی ) نے’ لکھنوی ڈراما : فنی خوبیاں اور اصلاح معاشرہ ‘،شمشیر علی (بی ایچ یو ) نے ’ اردو کے چند نامور غیر مسلم صحافی ‘ ، زاہد حسین میر (مرکزی یونیورسٹی آف کشمیر ) نے ’اردو میں تاریخی ناول نگاری : 1980کے بعد نمائندہ ناول نگاروں کے حوالے سے ‘ ، مسعود الحسن خان (محمد علی جوہر یونیورسٹی ،رامپور) نے ’مولانا محمد علی جوہر کی اردو صحافت ‘ ، ثمینہ بی کے کے (شری شنکراچاریہ یونیورسٹی آف سنسکرت ، کیرلا ) نے ’ پروفیسر بی شیخ علی بحیثیت نقاد ، محقق اور ماہر تعلیمات ‘، پی ایم جعفر (تھیرو ولا رودر یونیورسٹی ، ویلور ) نے ’ سراج زیبائی بحیثیت شاعر اطفال ‘، محمد رضوان (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’فن تاریخ گوئی : ایک تعارف ‘، مجوفہ (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’اردو کا مقبول ِعام ادب : منشی فیاض علی کے خصوصی حوالے سے ‘، نصرت پروین (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’فضیل جعفری کی کتاب چٹان اور پانی : ایک تجزیاتی مطالعہ ‘اور محمد وسیم (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) نے ’ ہفت روزہ اردو اخبار پیغام کا تنقیدی جائزہ ‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ پہلے اور دوسرے اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر مشیر احمد اور محمد وسیم نے انجام دیے ، جب کہ ڈاکٹر عادل حیات اور ڈاکٹر جاوید حسن کے اظہار تشکر پر دونوں اجلاس کا اختتام ہوا ۔
یوپی: نائب وزیر اعلیٰ کیشو موریہ کانہایت متنازعہ ٹوئٹ:’ایودھیا میں مندر کانرمان جاری ہے، اَب متھرا کی تیاری ہے‘
لکھنؤ: یوپی اسمبلی انتخابات سے قبل نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کے متنازعہ ٹویٹ نے سیاست کو گرما دیا ہے۔ انہوں نے بدھ کو ٹوئٹ کیا کہ ایودھیا کاشی عظیم الشان مندر کی تعمیر جاری ہے، اب متھرا کے لیے تیاری جاری ہے ۔ اس کے بعد کئی قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر شروع ہونے کے بعد سے متھرا جنم بھومی کا واقعہ زور پکڑ رہا ہے۔ پچھلے سال رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کے رکن واسودیوانند سرسوتی نے بھی کہا تھا کہ پہلے رام جنم بھومی پر مندر بنایا جائے گا۔ رام مندر کی تعمیر کے بعد کاشی وشوناتھ اور متھرا کی کرشن جنم بھومی کو’ آزاد‘ کرایا جائے گا، اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ یوپی میں اسمبلی انتخابات میں کچھ وقت باقی ہے،وہیں بی جے پی لیڈران اب اپنے مخصوص ایجنڈے اور پروپیگنڈے ’ہندوتوا‘ کو مزید مضبوط کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے بدھ کو ٹویٹ کیا، جس میں انہوں نے مندر میں متھرا کی تیاریوں کا ذکر کیا، جس کے بعد سیاست میں ہلچل ہو سکتی ہے۔پچھلے مہینے متھراشری کرشن کی جائے پیدائش، اور ورنداون کو یوگی آدتیہ ناتھ نے ’یاترا استھل‘ قرار دیا تھا۔ متھرا-ورنداون میونسپل کارپوریشن کے 22 وارڈوں کوزیارت گاہیں قرار دیتے ہوئے ریاستی حکومت نے وہاں گوشت اور شراب کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی، جس کے بعد سادھو سنتوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔ آنے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظربی جے پی متھرا کو تیرتھ استھل بنائے جانے کے فیصلے کو انتخابی ایشو بناکر سیاسی روٹی سینک سکتی ہے ۔ برج راج تہوار کا افتتاح ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے 10 نومبر 2021 کو کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے 500 سنت مہنتوں کے ساتھ کھانا کھاکراور ان کے سا تھ کچھ وقت گزارکر یہ پیغام دیا کہ ہندوتوا ہی یوپی الیکشن میں ان کا بنیادی ایجنڈا ہوگا۔