نئی دہلی:دہلی سے متصل ہریانہ کے گروگرام میں کھلی جگہ پرنماز کا معاملہ جمعہ کو بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم پولیس نے جمعہ کو 37 مقامات پر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے لیکن کچھ ہندو تنظیمیں گزشتہ پانچ ہفتوں سے نماز کے دوران ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ آج جیسے ہی نماز جمعہ کا وقت ہوا، ہندو تنظیم کے ارکان نماز کی جگہ پر پہنچے اور نعرے بازی شروع کردی، پولیس نے مجموعی طور پر 30 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔غور طلب ہے کہ اس سے قبل گزشتہ جمعہ کو اس وقت کشیدہ صورتحال پیدا ہو گئی تھی جب گروگرام کے ہی سیکٹر 12-اے میں ایک پرائیویٹ پراپرٹی میں نماز ادا کر رہے مسلمانوں پر ایک ہجوم نے حملہ کر دیا تھا، جس میں مبینہ طور پر بجرنگ دل کے کارکنان بھی شامل تھے۔ مقامی وکیل کلبھوشن بھاردواج بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے گزشتہ ہفتے سیکٹر 12-A میں نماز کی مخالفت کی تھی، جن کی پولیس والوں سے بحث ہوئی تھی۔ بی جے پی کے سابق لیڈر بھاردواج نے جامعہ ملیہ کے شوٹر کی نمائندگی کی تھی جسے گڑگاؤں پولیس نے فرقہ وارانہ تقریر کرنے پر گرفتار کیا تھا۔پولیس کی یقین دہانی کے بعد ہی ہجوم منتشر ہوئی۔ اس طرح کے مظاہرے ہریانہ کے سیکٹر 47 میں گزشتہ چند ہفتوں سے ہو رہے ہیں، علاقے کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سماج دشمن عناصر یا روہنگیا پناہ گزین علاقے میں جرائم کرنے کی نیت سے ’نماز‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے اے سی پی امن یادو کے حوالے سے کہا تھا کہ اس معاملے میں رہائشیوں کے درمیان کئی دور کی بات چیت ہوئی ہے لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکلا ہے۔
اکتوبر 2021
مغربی بنگال: پٹاخوں کے استعمال اور فروختگی پرہائی کورٹ نے لگائی مکمل پابندی
کولکاتہ:مغربی بنگال میں اس دیوالی پٹاخے نہیں پھوڑے جاسکیں گے ۔ دراصل ریاست میں پٹاخوں کی فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ پابندی دیوالی، کالی پوجا، چھٹھ پوجا، کرسمس اور نئے سال پر بھی جاری رہے گی۔ جمعہ کو کولکاتہ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں ایک حکم جاری کیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرونا وبا کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ریاستی حکومت نے دیوالی، چھٹھ اور کالی پوجا پر دو گھنٹے تک آتش بازی کی اجازت دی تھی۔ وہیں کرسمس اور نئے سال پر 35 منٹ تک آتش بازی کی اجازت دی تھی ۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومت نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ صرف گرین پٹاخے ہی پھوڑے جاسکیں گے۔ اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرکے پٹاخوں پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے مغربی بنگال میں پٹاخوں کی فروخت اور استعمال پر نئے سال تک کیلئے مکمل طور پر پابندی لگا دی ہے۔
نیویارک :سماجی رابطوں کے مقبول ترین پلیٹ فارم فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے جمعرات کو کمپنی کا نام تبدیل کر کے میٹا رکھنے کا اعلان کیا ہے۔اس نام کا اطلاق صرف کمپنی کے نام کے لیے ہو گا اور اس سے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز یعنی فیس بک، انسٹاگرام اور میسنجر کی سروس کے نام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ نے لائیو اسٹریمنگ اور آگمینٹڈ ریئلٹی کانفرنس میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی کا نیا نام میٹاورس کی دنیا میں اس کے کام کی عکاسی کرے گا۔میٹا ورس دراصل ورچوئل ماحول ہے جس کا تجربہ مختلف ڈیوائسز کو استعمال کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اصطلاح سائنس اور فکشن لکھنے والے ایک ناول نگار نیل اسٹیفنسن نے 1992 میں اپنے ناول سنو کریش میں استعمال کی تھی جو حقیقی دنیا سے ورچوئل دنیا میں جانے والے لوگوں کے لیے متعارف کرائی تھی۔ اب دنیا کی بڑی کمپنیاں استعمال کر رہی ہیں۔فیس بک کی جانب سے نام کی تبدیلی کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب کمپنی کو اس کی کاروباری پالیسیوں اور مبینہ طور پر صارفین کی ذہنی صحت متاثر کرنے پر تنقید کا سامنا ہے۔مارک زکر برگ کہتے ہیںکہ اس وقت ہم بے شمار چیزوں پر کام کر رہے ہیں لیکن ہماری شناخت صرف ایک پروڈکٹ تک محدود ہے۔ اب ہمیں مستقبل کی جانب توجہ مرکوز کرنی ہے۔ان کے مطابق کمپنی کا نیا نام میٹا یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ’اس پار‘ ہے۔ یہ نام اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ تخلیق کے لیے بہت کچھ ہے۔ورچوئل ریئلٹی میں بھاری سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی فیس بک کا کہنا ہے کہ یہ نئی تبدیلی ان کی مختلف ایپس اور ٹیکنالوجی کو ایک چھت تلے لے کر آئے گی۔ورچوئل ریئلٹی دراصل ایک ایسا تجربہ ہے جو صارفین کو ورچوئل (ڈیجیٹل) چیزوں کو حقیقت سے قریب تر دکھانے کے ساتھ انہیں محسوس بھی کرواتا ہے۔کمپنی نے رواں ہفتے کہا تھا کہ اس کی آگمینٹڈ ریئلٹی اور ورچوئل ریئلٹی کی ذمہ دار لیبز کو ایک علیحدہ یونٹ بنا دیا جائے گا اور اس سرمایہ کاری سے کمپنی کے رواں برس کے کْل آپریٹنگ منافع میں 10 بلین ڈالرز کی کمی ہو گی۔رواں برس کمپنی نے میٹاورس پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے ایک پروڈکٹ ٹیم کی تشکیل بھی دی ہے اور کمپنی نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ میٹاورس پر کام کرنے کے لیے یورپ سے 10 ہزار ملازمین کی بھرتی کرے گی۔کمپنی کی نئی ڈویژن ’ریئلٹی لیب‘ کہلائیں گی۔ ڈویژن کے سربراہ اینڈریو بوزورتھ نے جمعرات کو کہا ہے کہ کمپنی اب اپنے ورچوئل ہیڈ سیٹ ڈیوائسز کو اوکلس ہیڈ سیٹ کے بجائے ’میٹا‘ پروڈکٹس کے نام سے ہی پکارے گی۔
جن بوتل سے باہر آ گیا،بی جے پی لیڈرکے ساتھ سمیرکی ملاقات پرنواب ملک کاطنز
ممبئی:نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) کے ممبئی ڈویڑنل ڈائریکٹر سمیر وانکھیڑے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما کریت سومیا کے خاندان کے درمیان جمعہ کو ہونے والی ملاقات پر طنز کرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر نواب ملک نے کہاہے کہ جن۔ بوتل سے باہر آ گیاہے۔ملک، جنہوں نے کروز شپ نارکوٹکس کیس میں وانکھیڑے کے خلاف الزامات لگائے ہیں، بی جے پی پر مہاراشٹر اور ممبئی فلم انڈسٹری کو بدنام کرنے کے لیے مرکزی ایجنسیوں کا غلط استعمال کرنے کا بھی الزام لگایاہے۔نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، مہاراشٹر کے وزیرنے کہاہے کہ سمیر کی بیوی نے کل چیف منسٹر کو خط لکھ کر مراٹھی کارڈ کھیلتے ہوئے ان سے تعاون طلب کیا تھا، لیکن شام کو پورا خاندان بی جے پی لیڈر کرت سومیا سے ملا۔ اس کا مطلب ہے کہ جن بوتل سے باہر آ گیا ہے۔انہوں نے کہاہے کہ جب میں این سی بی کے ایک اہلکار پر دھوکہ دہی میں اس کے مبینہ ملوث ہونے کا الزام لگا رہا تھا، تو میں نے بی جے پی کے اس سے بے چین ہونے پر سوالات اٹھائے تھے۔وانکھیڑے کی اہلیہ کرانتی ریڈکر نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو خط لکھا ہے، جس میں ان کے خاندان اور ذاتی زندگی پر حملے کے پس منظر میں انصاف کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد (1836۔ 1912ء) کی خدمات ادبی اور دینی دونوں میدانوں میں ہیں ، لیکن انہیں جو شہرت ادبی میدان میں حاصل ہوئی وہ دینی اعتبار سے نہ حاصل ہوسکی۔ ضرورت تھی کہ ان کی دینی خدمات کو تحقیق کا موضوع بنایا جائے۔ اس خدمت کو انجام دینے کی سعادت کشمیر کے نوجوان ڈاکٹر ماجد الاسلام کو حاصل ہوئی ہے۔ ان کی کتاب ‘ڈپٹی مولوی نذیر احمد کی علمی خدمات’ منظرِ عام پر آئی ہے۔ اصلاً یہ تحقیقی مقالہ ہے ، جس پر انہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ ( شعبۂ اسلامک اسٹڈیز) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کا تعلق ریاست اترپردیش کے ضلع بجنور سے تھا۔ انہیں دہلی کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ پھر انھوں نے تدریسی خدمت انجام دی ۔ جلد ہی ترقی کرکے ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے ۔ بعد میں تحصیل دار ، ڈپٹی کلکٹر اور ریاست حیدر آباد دکن میں افسر بندوبست کے مناصب پر فائز ہوئے۔ حکومت نے انہیں 1897ء میں شمس العلماء کا خطاب دیا۔ انھوں نے علی گڑھ تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ کیا۔ ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد انھوں نے اپنی زندگی تصنیف و تالف میں گزاری ۔ انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ ‘تعزیرات ہند’ کے نام سے کیا ، جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا اور آج تک مستعمل ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے قانونِ انکم ٹیکس اور قانونِ شہادت کا بھی ترجمہ کیا۔ ادبی دنیا میں ان کو ناول نگار کی حیثیت سے شہرت ملی۔ ان کی کتابوں : مراۃ العروس ، بنات النعش ، توبۃ النصوح ، فسانۂ مبتلا ، ابن الوقت ، ایامی اور رویائے صادقہ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی کتاب الحقوق و الفرائض 3 جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اول میں حقوق اللہ ، جلد دوم میں حقوق العباد اور جلد سوم میں آداب و اخلاقیات سے بحث کی گئی ہے۔ انھوں نے ایک پادری کی کتاب ‘امہات المؤمنین ‘ کے جواب میں ‘امہات الامۃ’ لکھی ، لیکن اس میں بعض مقامات پر بے جا محاورات کے استعمال کی وجہ سے علماء نے اس پر سخت تنقیدیں کیں اور ایک موقع پر اس کتاب کے نسخے اکٹھا کرکے نذرِ آتش کروایا۔ انھوں نے قرآن مجید کا بامحاورہ اور سلیس زبان میں اردو ترجمہ کیا ، جو بہت مقبول ہوا اور اس کے بہت سے اڈیشن شائع ہوئے۔ ان کی ایک کتاب ‘مطالب القرآن’ کے نام سے ہے ، جس میں اسلامی عقائد کی تشریح کی گئی ہے۔
یہ کتاب مقدمہ اور خلاصہ کے علاوہ 6 ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اوّل میں ان کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور باب دوم میں تحریکِ علی گڑھ سے ان کے تعلق سے بحث کی گئی ہے۔ اگلے تین ابواب میں ان کے ترجمۂ قرآن ، الحقوق و الفرائض اور امہات الامّۃ کا مفصّل جائزہ لیا گیا ہے۔ آخری باب میں ان کی دیگر تصانیف اور خطبات میں ان کے مذہبی نقوش کا سراغ لگایا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے بہت محنت سے یہ مقالہ تیار کیا ہے اور تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر ماجد الاسلام کا تعلق جموں و کشمیر کے علاقہ کپواڑہ سے ہے ۔ انھوں نے کشمیر یونی ورسٹی سے گریجویشن (آرٹس) کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں داخلہ لیا اور شعبۂ اسلامک اسٹڈیز سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ اِن دنوں وہ غالباً بارہ مولہ کے کسی کالج میں تدریسی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اپنی تحقیق کے دوران میں وہ راقمِ سطور سے ملاقات کرتے اور مشورے لیتے رہے۔ وہ جو کچھ لکھ لیتے اسے دکھاتے، پھر مکمل تحقیقی مقالہ کا مسودہ بھی دکھایا۔ اب اسے کتابی صورت میں دیکھ کر بہت خوشی ہورہی ہے۔
صفحات :280
قیمت :300 روپے
ناشر : کریئٹیو اسٹار پبلیکیشنز ، نئی دہلی ، موبائل :
+91_9958380431,8851148278
مصنف سے رابطہ :
Mob:+91-70067 02141
Email:[email protected]
نئی دہلی:بالی ووڈ اداکار اور کانگریس لیڈر شتروگھن سنہا نے کروز شپ ڈرگز کیس میں نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) کو نشانہ بنایا ہے، وہ اس معاملے میں تفتیشی ایجنسی پر لگاتار الزامات پر ہیں جو بولی وڈ اداکار شاہ رخ کے بیٹے آریان خان سے متعلق ہیں۔ خان صاحب کھل کر بات کریں۔ سنہا نے کہاہے کہ کہیں پرنگاہیں، کہیں پرنشانہ، آرین خان صرف ایک بہانہ ہے۔ شتروگھن سنہا نے اس معاملے میں این سی پی لیڈر اور مہاراشٹر حکومت کے وزیر نواب ملک کی طرف سے این سی بی پر لگائے جانے والے الزامات کا حوالہ دیا اور کہاہے کہ اگر الزامات سچ ہیں تو سزا دی جانی چاہیے تاکہ کوئی ایجنسی دوبارہ ایسا نہ کرے۔ نواب ملک حقائق کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کروز ڈرگز کیس میں گزشتہ روز شاہ رخ خان کے بیٹے آریان خان سمیت 3 ملزمان کی ضمانت ہوئی تھی۔شتروگھن سنہا نے کروز ڈرگز کیس میں این سی بی کی تحقیقات پر سوال اٹھایا اور کہا کہ جس طرح آرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ نہ کوئی میڈیکل ٹیسٹ تھا، نہ خون یا پیشاب کا ٹیسٹ۔ جس طرح وہ پکڑا گیا۔سنہا نے کہاہے کہ میں کہتا ہوں کہ آرین خان شاہ رخ کے بیٹے ہیں، اس لیے انھیں معاف نہیں کرنا چاہیے لیکن یہ بھی کہناچاہوں گا کہ اس وجہ سے انھیں (آرین) کو ستایا نہیں جانا چاہیے۔اس سوال پر کہ مشہور ستاروں کے بچوں کی نظریں ان پر زیادہ ہوتی ہیں اور ایسے میں کیا ان کی پرورش ایک چیلنج ہے، شتروگھن نے کہاہے کہ یہ چیلنج ہو یا نہ ہو، لیکن اچھی پرورش ہونی چاہیے۔
میچ سے پہلے جب ٹیم انڈیا سیاہ فاموں کے تئیں تعصب کے خلاف گھٹنوں پر بیٹھی تو پوری دنیا نے سمجھا ہوگا کہ پوری ٹیم، ٹیم مینیجمنٹ اوراس سے جڑے تمام سیاسی اور غیر سیاسی عہدیدار اوران سب کی آقا سرکاربھی نہ صرف امریکہ اور یورپ میں سیاہ فاموں کے خلاف ہونے وا لے تعصب کے خلاف ہیں بلکہ اپنے ملک اور پوری دنیا میں کسی بھی قسم کے تعصب کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں ؛ لیکن میچ ختم ہوتے ہوتے ہی دنیا کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ اندازہ غلط ہے ۔ ٹیم انڈیا کا گھٹنوں پر بیٹھنا محض فریب اور منافقت کے سوا کچھ نہیں ۔جس میچ میں ٹیم انڈیا نے بلیک لائیوز میٹر ( Black Lives Matter ) تحریک کے تحت گھٹنوں پر بیٹھ کریہ اظہار کیا کہ وہ سیاہ فاموںپر ہونے والے تعصب کے خلاف ہے اسی میچ میں اس کی پول کھل گئی ، ٹیم انڈیا اپنے روایتی حریف پاکستان سے میچ ہار گئی اور اتفاق سے محمد شامی کے اور میں پاکستانی بیٹسمین کچھ زیادہ رن بنانے میں کامیاب ہو گئے بس پھر کیا تھا سوشل میڈیا میں ہار کا ٹھیکرامحمد شامی کے سر پھوڑ کر انہیں ٹرول کیا جانے لگا اور میچ کے آغاز میںتعصب کے خلاف عہد کر نے والی ٹیم انڈیا سے یزویندر چہل کے علاوہ کوئی بھی محمد شامی کی حمایت میں نہیں آیا ، نہ ٹیم کے کیپٹن وراٹ کوہلی نے شامی کے خلاف ہونے والی دشنام طرازی کی مخالفت میں کچھ کہنا تو دور بہ حیثیت کیپٹن انہیں اپنی حمایت کا یقین بھی نہیں دلایا،نہ ٹیم مینجمنٹ اور بی سی سی آ¾ٰ ئی نے شامی کی حمایت میں کچھ کہا رسمی طور پرکوئی ٹوئیٹ بھی نہیں کیا نہ کھیل منتری کا جذبہ بھڑکا نہ قانون منتری نے شامی کے حقوق کی حفاظت کے لئے اس کے خلاف دشنام طرازی کرنے والوں کا نوٹس لیا اور نہ ہی بلا تفریق مذہب انڈیا کے تمام لوگوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے کہنے والوں نے شامی کے خلاف نفرت انگیزی کرنے والوں کو تنبیہ کی ۔ سب کے سب خاموش دراصل اپنے اندر کی عصبیت کا اظہار کرتے رہے دنیا کو بتاتے رہے کہ میچ کے شروع میں انہوں نے جو کچھ کیا وہ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر ہونے والے تعصب کی مخالفت نہیں بلکہ ان کی منافقت کا اظہار تھا ۔اوراس سے زیادہ منافقت کوئی ہو ہی نہیں سکتی جو ٹیم کے کیپٹن اور دوسرے کھلاڑیوں کی خاموشی سے جھلکتی ہے شاید یہ لوگ بھی ہار کی اجتماعی ذمہ داری کو صرف شامی کے سر ڈال کے اسے بلی کا بکرا بنا رہے ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ کسی کھلاڑی کی خراب کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانا فطری بات ہے ۔قبول ہے لیکن ،کسی کی خراب کارکردگی پر یہ الزام لگانا کہ اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا بجائے خود گالی ہے ، اور شامی کے ساتھ جو ہوا وہ یہیں تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ انہیںباقائدہ گالیاں دی گئیں ان کے مذہب اور قومیت کا نام لے کر بک جانے اور پاکستان کو جتوانے کے الزامات لگائے گئے،ملا اور مسلمان کہہ کر مغلظات بکے گئے ، انہیں اس پاکستان چلے جانے کا طعنہ دیا گیا جسے ہندوستان کی محبت میںان کے باپ دادا نے ٹھکرا چکے ہیں ،یہ کسی طور بھی تنقید نہیں ہے بلکہ اسی نفرت انگیز مہم کی ایک کڑی ہے جو ملک کے مسلمانوں کے خلاف چلائی جاتی رہی ہے ۔ سرکار اور اس کے اداروں سے تو کوئی امید نہیں کہ وہ اس کے خلاف کچھ کرے گی لیکن کرکٹ سے جڑے سبھی لوگوں کا اور پڑھے لکھے افراد کانہ صرف شامی کی حمایت میں آنابلکہ اس کے خلاف اٹھے طوفان بد تمیزی کی مخالفت کرنا ضروری تھا ۔کچھ سابق کرکٹرس نے اس کی حمایت ضرور کی لیکن یہ حمایت اس کی اب تک کی کامیاب کارکردگی کے حوالے تک ہی محدود رہی ، یہ بھی کہا گیا کہ جو ٹیم انڈیا کے لئے کھیلتا ہے انڈیا اس کے دل میںکسی بھی آن لائن ہجوم سے زیادہ رہتا ہے وغیرہ ۔لیکن اس کے خلاف ہوئی مسلم منافرت کی مخالفت کسی نے نہیں کی ، شامی کے خلاف طوفان بدتمیزی صرف اس لئے اٹھایا گیا کہ وہ مسلمان ہے اور مقابلہ انڈیا کے کٹر ’مذہبی ‘ دشمن پاکستان یعنی مسلمانوںسے تھا۔ اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس پر تنقید ہوسکتی تھی لیکن کیا اس بہانے اس کے خلاف بھی مذہب اورقوم کو لے کر نفرت انگیزی کی جاتی تھی؟ دراصل شامی کے خلاف جوکچھ ہوا وہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف پھیلی عصبیت ہی کی ایک کڑی ہے اورشرم آنی چاہئے ٹیم انڈیا کو کہ اس نے امریکہ اور یورپ میں سیاہ فاموں سے ہونے والے تعصب کی مخالفت کا اظہار کیا اور خود اپنے ساتھی کھلاڑی کے ساتھ اس کے مذہب اور قوم کے نام ہوئے تعصب پر خاموش رہی ۔جس بلیک لائیوز میٹر تحریک سے اظہار یکجہتی ٹیم انڈیا نے کی اس تحریک کے دومحرکات ہیںایک امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلوائیڈ کی ہلاکت اوردوسرے انگلینڈ فٹبال ٹیم کے تین سیاہ فام کھلاڑیوں کے خلاف سوشل میڈیا میں دشنام طرازی اور دونوںمیں وہاں کی حکومتوں ٹیم اور ٹیم مینجمنٹ کا رویہ ہماری حکومت اور ٹیم کے رویہ سے بالکل الٹ رہا جارج فلوائیڈ کی ہلاکت میں ملوث پولس افسر کو قانون کے شکنجہ میں کسا گیا اور۲۲ سال کی سزا سنائی گئی، اسی طرح انگلینڈ فٹبال ٹیم کے جن کھلاڑیوں گول کا موقع گنوانے کے بہانے ٹرول کیا گیا تھا پوری ٹیم ٹیم مینجمنٹ حکومت اور خود انگلینڈ کے وزیر اعظم ان کھلاڑیوں کی حمایت اور ٹرولرس کے خلاف آگے آئے ۔ ہماری حکومت سے ایسے کسی اقدام کی امید نہیں کہ سدھ بھاو¿نا اور سب کا ساتھ بولنا لیکن ساتھ نہ دینا اور جہاں بولنا اشد ضروری ہے وہاں چپ رہنا ہماری حکومت کا ایجنڈا ہے لیکن ٹیم انڈیا اور کیپٹن نے شامی کی حمایت میں آگے آنا چاہئے تھا اور اس کی حمایت کرنے والوں نے پہلے اس کے خلاف ہوئی نفرت انگیزی کی مخالفت کرنی چاہئے تھی مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکا ۔ دراصل ملک میں مسلمانوں کو ’اجنبی‘ ظاہر کر نے کی سازش اتنی کامیاب ہو گئی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی سیاست کے اسی رنگ میں رنگ گئے ہیں ۔ یہ لوگ اگر کھلم کھلا مسلم منافرت نہیں کرتے تو مسلم منافرت کی مخالفت بھی نہیں کرتے بجائے اس کے مسلم منافرت پر دانستہ چپ رہ کر بلکہ حیلوں بہانوں سے لوگوں کا ذہن بھٹکانے کی دانستہ کوشش کر کے موجودہ حکومت کی خاموشی کو جواز اور نفرت انگیزی کرنے والوں کو حوصلہ فراہم کرتے ہیں۔
مودی کوپھر وزیر اعظم بنانا ہے تو یوگی کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بنانا ہوگا،امت شاہ کا لکھنؤمیں خطاب
لکھنؤ:مرکزی وزیر داخلہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق قومی صدر امت شاہ نے آئندہ سال کے اوائل میں ہونے والے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں چیف منسٹر کے چہرے کے بارے میں اب تک کی تمام قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر 2024 میں وزیراعظم کے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو2022 میں ایک بار پھر یوگی (یوگی آدتیہ ناتھ) کو وزیر اعلیٰ بنانا پڑے گا۔امت شاہ نے جمعہ کو لکھنؤ میں ڈیفنس ایکسپو گراؤنڈ سیکٹر-17 ورنداون یوجنا کے مقام پر میرا پریوار-بی جے پی پریوار کے نعرے کے ساتھ بی جے پی کی رکنیت سازی مہم کا آغاز کرنے کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ بی جے پی کے لوگ کمل کے جھنڈے اور نعرے کے ساتھ چلتے ہیں تو اپوزیشن پارٹیوں کے دل دہل جاتے ہیں۔امت شاہ نے کہاہے کہ یہ انتخاب بھارت ماتا کو وشو گرو بنانے کا انتخاب ہے۔ دیوالی کے بعد الیکشن میں تیزی آئے گی اور لگن دکھائیں گے اور تیزی کے ساتھ انتخابی مہم میں شامل ہوں گے۔الیکشن میں تین سو سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا بھیڑ سے وعدہ لیتے ہوئے امت شاہ نے کہاہے کہ مودی جی کو ایک اور موقع دیں، یوگی۔ جی کو ایک بار پھر وزیر اعلیٰ بنائیں،یوپی ملک میں نمبر ون ہوگا۔اسمبلی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہاہے کہ رکنیت سازی مہم 2014، 2017 اور 2019 کے انتخابات سے پہلے شروع کی گئی تھی اور آج کی رکنیت سازی مہم سے 2022 کے انتخابات کا آغاز ہو رہا ہے۔اتر پردیش کے شاندار ماضی اور رام اور کرشن کا ذکر کرتے ہوئے امت شاہ نے کہا کہ 2017 سے پہلے اتر پردیش کی پہچان کیسے تھی لیکن 2017 کے بعد بی جے پی نے یوپی کو پہچان دلانے کا کام کیااور ریاست کو بہت آگے لے گئے۔ بی جے پی نے پہلی بار ثابت کر دیا کہ حکومتیں خاندان کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ ریاست کے غریب ترین طبقے کے لیے ہوتی ہیں۔اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص سماج وادی پارٹی (ایس پی)کے سربراہ اکھلیش یادو پر حملہ کرتے ہوئے امت شاہ نے کہاہے کہ دوبارہ انتخابات کے ڈھول بج گئے ہیں اور جو لوگ گھر بیٹھے تھے وہ نئے کپڑے سلائے ہوئے ہیں کہ ہماری حکومت بننے والی ہے۔امت شاہ نے کہاہے کہ میں اکھلیش سے حساب مانگتا ہوں کہ آپ پانچ سالوں میں کتنے دن بیرون ملک رہے، اس کا حساب یوپی کے لوگوں کو دیں۔ انہوں نے طنزکیاکہ یہ لوگ زیادہ سے زیادہ اپنے لیے، خاندان کے لیے سوچنے والے بن گئے ہیں، پھر انھوں نے اپنی ذات کے لیے کیا، کسی کے لیے نہیں کیا۔
آرایس ایس کو تریپورہ میں مسلم نسل کشی نظر نہیں آرہی،بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے مسائل پر فکر مند
نئی دہلی :آر ایس ایس نے بنگلہ دیش میں ہندوبرادری کے لوگوں اور مذہبی مقامات پرمبینہ حملوں پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جمعہ کوراشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے کہاہے کہ یہ حملے اقلیتی برادری کو باہر نکالنے کی سازش کا حصہ تھے۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس کی جانب سے مرکزی حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس سلسلے میں بنگلہ دیش سے بات کرے اور ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔انہوں نے تریپورہ میں نسل کشی پرکچھ نہیں کہااورنہ اب تک مسلم تنظیمیں اس پرمیٹنگ کرسکی ہیں۔روایت یہی رہی ہے کہ مسلم تنظیمیں اس وقت جاگیں گی جب مسلمان لٹ چکے ہوں گے۔ آر ایس ایس لیڈر ارون کمار نے کہا کہ سنگھ مطالبہ کرتا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے جنہوں نے ہندو برادری کے لوگوں پر حملہ کیا۔آر ایس ایس کا تین روزہ اجلاس جمعرات کو دھارواڑ میں شروع ہوا۔ اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے ارون کمار نے کہاہے کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد ملک سے اقلیتوں کو نکال باہر کرنے کی مکمل سازش ہے۔ ان حملوں کا مقصد جعلی خبروں کے ذریعے مذہبی تشدد پھیلانا اور ہندوؤں کے اخراج کا سبب بننا تھا۔ آر ایس ایس نے اپنی قرارداد میں کہا کہ مرکزی حکومت کو تمام سفارتی کوششیں کرکے اس معاملے پر بات کرنی چاہیے۔ سنگھ نے کہاہے کہ ہندوؤں اور بدھوں کے خلاف حملے بند ہونے چاہئیں۔اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ان حملوں کو انجام دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی سنگھ نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی خاموشی پر بھی سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہاہے کہ اس معاملے پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی دوہرا رویہ کھل کر سامنے لاتی ہے۔ سنگھ نے کہاہے کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان حملوں کے قصورواروں کو سزا ملنی چاہیے۔ تب ہی بدھ اور ہندو برادریوں کے لوگ باوقار طریقے سے زندگی گزار سکیں گے۔دوسری طرف مسلم تنظیموں نے اب تک تریپورہ کے مسئلے پرعالمی تنظیموں کومتوجہ نہیں کیاہے۔
سرزمینِ یونان شعر و ادب، عشق و رومان اور رزم و بزم کے قصوں کے لیے مشہور ہے۔ یونانی تہذیب و ثقافت نے تاریخِ عالم پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ مغربی تہذیب و تمدّن تو یونان کی شاعرہ سیفو اور جنس بازی یونان ہی کے گہوارۂ حکمت میں پروان چڑھے ہیں۔ مشرقی طرزِ فکر و عمل پر بھی یونانی اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہومر، ہسیوڈ، افلاطون، ارسطو اور سکندرِ اعظم جیسے مشاہیرِ یونان سے کون واقف نہیں۔ شہرت کے آسمان پر چمکنے والے ان ستاروں کے جھرمٹ میں ایک تابندہ ستارے کا نام سیفو یا ساپفو (Sappho) ہے۔ سیفو یونان کی ممتاز ترین اور متنازعہ ترین شاعرہ ہے۔ سیفو کی زندگی اور موت دونوں حیرت و حسرت کی داستان ہیں۔
سیفو کا دَور ساتویں صدی قبل مسیح کے اواخر سے چھٹی صدی کے آغاز تک کا دَور ہے۔ وہ ۶۱۲ ق م کو شمالی یونان کے ایک خوبصورت جزیرے لیسبوس کے علاقے ایریسوس میں پیدا ہوئی۔ زندگی کا بیشتر حصہ مٹیالین (مٹی لین یا موتی لینے) میں بسر کیا۔ ا س زمانے میں یونان کے بیشتر علاقوں میں عورتوں کو زیادہ آزادی حاصل نہ تھی لیکن جزیرہ لیسبوس میں آزادئ نسواں کا چرچا تھا۔ سیفو لیسبوس کی عورتوں کو شاعری اور موسیقی کی تعلیم دیتی تھی۔ سیفو جنس اور حسن و عشق کی دیوی افرودیتی کی پجارن تھی اور اس کی منڈلی میں کنواری دوشیزاؤں کی خاصی بڑی تعداد تھی۔ لیسبوس میں نوجوان لڑکیوں کو موسیقی اور شعر و ادب کی تعلیم کے لیے سیفو، گورگو اور اندرومیدا کے حلقے زیادہ مشہور تھے۔ ان حلقوں کے درمیان پیشہ ورانہ رقابت عام تھی۔ سیفو جتنی اچھی شاعرہ تھی اتنی ہی بدنام بھی تھی۔ اس کی ذات سے طرح طرح کے اسکینڈل منسوب کیے جاتے ہیں۔ اس کی ہم عصر اور حریف خواتین اُسے لڑکیوں سے غیر فطری لگاؤ کے باعث لعن طعن کرتی تھیں۔ یہ ایک عام تاثر ہے کہ سیفو نسائی ہم جنس پرستی کی بانی ہے۔ پرویز اختر نے ڈیسمنڈ مورس کی کتاب ’’عورت، مرد اور تاریخ‘‘ سے درج ذیل اقتباس نقل کیا ہے:
’’نسوانی ہم جنسیت کی متبادل انگریزی اصطلاح Lesbianism اوّل اوّل بہ طور دشنام استعمال ہوئی جس کا ہدف لیسبوس نامی ایک جزیرہ ہے۔ یہ جزیرہ ایشیائے کوچک کے ساحل سے دس میل دور بحیرۂ ایگیسٹن (یعنی بحیرہ آژ) میں واقع ہے۔ جزیرے کی ہم جنسی کے حوالے سے وجۂ شہرت بننے کی ذمہ دار ایک عورت سیفو تھی جو یہاں ساتویں صدی ق م میں رہائش پذیر تھی۔ اس نے عورتوں سے اپنی ’’غیرفطری‘‘ محبت کا اظہار شاعرانہ کمالات کی حامل نظموں میں کیا۔ اسی کے نام پر نسوانی ہم جنسی کا قدرے کم معروف نام سیفزم ہے۔ اور ہم جنس پرست عورت کو سیفوسٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یونانی لوگ عورتوں کی ہم جنسی کے لیے اُس دور میں Tribien کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ اس کے معنی باہم رگڑنے کے ہیں۔‘‘
بعض روایات میں سیفو کو طوائف بھی کہا گیا ہے، لیکن میری برنارڈ کے بقول:
’’طوائف ہونے کے الزام کو تو عمومی طور پر جدید علما نے رَد کر دیا ہے، کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایتھنز کے مزاحیہ شاعروں کا بھلا سا مذاق ہے۔‘‘
اُردو ادب کے جن ناقدین نے سیفو پر قدرے تفصیل سے لکھا ہے اُن میں میرا جی اور سلیم الرحمن کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ میرا جی لکھتے ہیں کہ اگرچہ سیفو کسی طرح کے اخلاقی اصولوں کی پابند نہ تھی لیکن اس بات سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ دل کی صفائی اور پاکیزگی اس کا مطمحِ نظر تھا۔ کسی مرد کے ہاتھوں اپنے روح و جسم کو یکسر سونپ دینا اُس کے لیے کوئی خوشگوار عمل نہ تھا، مثلاً وہ ایک جگہ اپنے آپ کو ’’ابدی دوشیزہ‘‘ لکھتی ہے۔ سیفو کے اردگرد دوشیزاؤں کا جھرمٹ رہتا تھا۔ سیفو اپنی ان نوجوان عورتوں کے حلقے کو ’’ہٹیرے‘‘ کے نام سے بیان کرتی ہے۔ میرا جی اس لفظ کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ بات کچھ کھٹکتی ہے کیوں کہ اسی لفظ سے بعد میں جا کر اُن تربیت یافتہ طوائفوں کو پکارا جانے لگا جو یونانی امرا کا دل بہلاتی تھیں، لیکن سیفو کے زمانے میں اس لفظ کے ساتھ کوئی ایسا ناگوار تلازمِ خیال نہ تھا، نہ اس لفظ کے ترجمے کے لیے زناخی یا دوگانہ کی اصطلاحات سے مدد لینا چاہیے، کیوں کہ اس وقت اس کا مفہوم بعینہٖ وہی تھا جو آج ہمارے سماج میں سہیلی یا ’’دوپٹہ بدل بہن‘‘ کے کلمے سے لیا جاتا ہے۔‘‘
سلیم الرحمن کا خیال ہے کہ سیفو کی ہم جنس بازی کے بارے میں جو مبالغہ آمیز روایات مشہور ہیں، وہ سراسر فرضی ہیں۔ خود اپنے زمانے میں لیسبوس میں اس کی شہرت بالکل یونان کی شاعرہ سیفو اور جنس بازیبے داغ تھی۔ لیکن بعد میں لوگوں نے، خصوصاً طربیہ لکھنے والوں نے، اس کے حوالے سے طرح طرح کی بے سروپا کہانیاں مشہور کر دیں۔ کسی نے اسے بدنامِ زمانہ طوائف کہا تو کسی نے اسے چپٹی باز بنا دیا۔۔۔ ان باتوں کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ متاخرین کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی کہ کوئی عورت اور وہ بھی شریف خاندان کی، اس قدر فاش لہجے میں عاشقانہ نظمیں کہنے کی جسارت کر سکتی ہے۔
سلیم الرحمن کے برعکس ڈاکٹر صفدر سیتاپوری لکھتے ہیں:
’’سیفو کا عشق گوشت پوست کے جسم اور اُس کے ظاہری حسن سے ہے۔‘‘
ایک معاصر مترجم ضمیر احمد لکھتے ہیں:
’’ان کے کلام میں ہم جنسی عشق کے رجحانات بڑے واضح ہیں ـ محسوسات جیسے آتش بہ داماں ہیں۔‘‘
سیفو اپنی سہیلیوں کے بارے میں جس طرح جذبات و احساسات کا تخلیقی اظہار کرتی ہے ، اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے سلیم الرحمن کو بھی کم از کم یہ ضرور تسلیم کرنا پڑا کہ:
’’ان لگاوٹوں میں کہیں کہیں کامنا بھی جھلک مارتی ہے۔‘‘
سیفو کو صرف ہم جنس دوشیزاؤں ہی سے پیار نہ تھا بلکہ متعدد مردوں کے عشق میں بھی گرفتار رہی۔ اس ضمن میں سب سے مشہور نام معروف شاعر الکائیوس کا ہے۔ الکائیوس سیفو سے شادی کا خواستگار تھا لیکن بعض وجوہ کی بنا پر یہ شادی نہ ہو سکی۔ سیفو کی شادی ایک بہت امیر تاجر کیرکلاس سے ہوئی۔ سیفو کی ایک بیٹی کلیز کا ذکر بھی ملتا ہے۔ کیرکلاس کی بے وقت موت سے سیفو شادی کے چند سال بعد ہی بیوہ ہو گئی۔ سیفو مٹی لین کے ایک نوجوان ملّاح فاڈن پر عاشق تھی۔ فاڈن حسن و زیبائی میں بے مثل تھا۔ کچھ عرصہ سیفو اور فاڈن چھپ چھپ کر ملتے رہے لیکن فاڈن جلد ہی سیفو سے کنارہ کش ہو گیا۔ سیفو دربدر فاڈن کو ڈھونڈتی رہی اور بالآخر نااُمیدی اور یاس نے اسے زندگی سے دلبرداشتہ کر دیا اور ایک دن چٹان پر سیر کرتے ہوئے اُس نے دوڑ کر چھلانگ لگا دی اور نیچے گہرائی میں موجزن دریائے ایپی اس کی موجوں نے اس کے جسم کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ خودکشی کے وقت (۵۵۷ ق م) سیفو کی عمر پچپن سال تھی۔
الکائیوس شاعر کی ایک ناتمام نظم سے سیفو کی موت کے متعلق چند اشارے ملتے ہیں:
’’… بدنصیبی … میں ایک بدنصیب عورت،جس کے لیے دکھ ہی دکھ ہیں،گھربار، دکھوں سے بھری ہوئی تقدیر، رسوائی،زندگی کا ناقابلِ علاج زوال آنے کو ہے،ڈرے ہوئے سینے میں ایک خوف جاگ اٹھا، جنون، تباہی،سمندر کی سرد مہر لہریں۔‘‘
انجام کار سیفو کے شکستہ جسم کو دریا سے برآمد کر لیا گیا اور جلانے کے بعد اُس کی راکھ کو مٹی لین میں دفن کرنے کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ بعض مورّخینِ ادب نے سیفو کی خودکشی کو محض افسانہ قرار دیا ہے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سیلانین نے سیفو کا مجسمہ نصب کیا تھا، بعد میں واس نے اسے چرا لیا۔ اس سے سیفو کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا پتہ چلتا ہے۔ سیفو کے متنازعہ کردار اور متلوّن مزاج شخصیت کے باوجود ہم عصر اور متاخرین شعرا نے اُسے بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ افلاطون، جو اپنی یوٹوپیا میں شاعروں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا، سیفو کے متعلق کہتا ہے کہ:
’’لوگ کہتے ہیں کہ سروشِ غیبی تعداد میں نو ہیں، لیکن وہ بھولتے ہیں، کیوں کہ دیکھو، لیسبوس کی سیفو بھی ہے جو دسواں سروش ہے۔‘‘
ارسطو اسے ’’حسنِ مجسّم‘‘ کہتا ہے اور جا بجا اس کی نظموں کے حوالے دیتا ہے۔ پلوطارک لکھتا ہے کہ:
’’اُس کا کلام شعلوں میں لپٹا ہوا تھا۔‘‘
سیّد امداد امام اثر سیفو کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ:
’’اس کی غزل سرائی ایسی پُرتاثیر تھی کہ اہلِ یونان اُس کے کلام کے مفتون و شیدا تھے۔ معاملات عشقیہ کے بیان پر نادر قدرت رکھتی تھی۔ خود کسی نوجوان پر عاشق تھی اسی لیے اس کا کلام تمام تر عاشقانہ رنگ رکھتا تھا۔ لیرکس کسی شخص نے اہلِ یونان میں سے اس شاعرہ سے بہتر نہیں لکھا۔‘‘
سیّد امداد امام اثر نے سیفو کی شاعری کو غزل سرائی سے تعبیر کیا ہے۔ سیفو نے وارداتِ قلبی اور معاملہ بندی جیسے مضامین کو نہایت سوزوگداز اور خوش سلیقگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اسی لیے ناقدین نے ’’تغزّل‘‘ کو سیفو کی شاعری کی نمایاں خوبی قرار دیا ہے۔ میرا جی رقم طراز ہیں:
’’سیفو نہ صرف اپنے زمانے میں یونان کی سب سے بڑی شاعرہ گزری ہے بلکہ خالص تغزّل کے لحاظ سے وہ آج تک دنیا کی سب سے بڑی شاعرہ تصور کی جاتی ہے۔ اور اس کی شاعری میں دو باتوں نے ایک خاص دل چسپی پیدا کر دی ہے؛ پہلی بات یہ ہے کہ اس کا کلام کمیاب بلکہ نادر ہے۔ اب تک صرف ساٹھ کے قریب ٹکڑے اس کی شاعری کے مل سکے ہیں، اور اُن میں بھی صرف ایک نظم مکمل ہے اور دو تین بڑے ٹکڑے ہیں، باقی سب دو دو تین تین سطروں کے جواہر پارے ہیں بلکہ بعض ٹکڑے تو صرف چند الفاظ پر مشتمل ہیں۔
لیکن یہ ادھورے ٹکڑے بھی چمکتے ہوئے ہیرے ہیں اور بھڑکتے ہوئے شعلے۔ دوسری بات اس کی رنگین سوانح حیات ہیں۔‘‘
میرا جی نے سیفو کی شخصیت کا بھرپور تجزیہ کیا ہے۔ سیفو خوبصورت نہ تھی لیکن اُس کی شخصیت میں ایک پُراسرار مقناطیسی کشش پوشیدہ تھی جس کے باعث نوجوان لڑکیاں اس کی جانب کھنچی چلی آتی تھیں۔ میرا جی ایک مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ ایک ایسی بلبل کی طرح تھی جس کے ننھے منے جسم کو بدنما پروبال نے ڈھانپ رکھا ہو، لیکن اس کی ذہانت ان نسائی خامیوں کی پردہ پوش تھی۔ وہ ایک ایسی شاعرہ تھی جسے مولوی عظمت اللہ کے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ:
کامنی کوئل تھی تو
گیت سریلا ترا
اُس کی شخصیت کے سحر اور باطن کے اضطراب نے اُس کے کلام کو دو آشتہ بنا دیا تھا۔ محمد سلیم الرحمن سیفو کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:
’’اس کی شعری دنیا کا مرکز ذاتی جذبات ہیں۔ طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑی نسوانی زندگی کی چھوٹی بڑی خوشیاں اور محرومیاں، لگاوٹ کے مزے، لاگ ڈانٹ کی کھٹک، ہر وقت سلگتے رہنے کی کیفیت جو گاہے گاہے لاٹیں مارتی آگ میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے، یہ سارا، کبھی نہاں کبھی عیاں، ہیجان اس کے شعر کے سانچے میں ڈھل کر بے کراں اور بے زماں معلوم ہونے لگتا ہے۔ ساپفو کے موضوعات صرف اپنے خاندان اور ہم جولیوں تک محدود ہیں یا پھر اُن کا تعلق قلبی واردات یا مذہبی عقائد سے ہے۔ لیکن احساس کی چوکھی آنچ نے ہر طرح کے کھوٹ کو جلا کر راکھ کر دیا ہے اور حرف حرف میں سونے کی سی ڈلک پیدا ہو گئی ہے۔
عروض پر اُس کی گرفت بہت مضبوط ہے۔۔۔ اشعار کا آہنگ بہت مترنم ہے جیسے اپنے زیروبم سے جذبات کے اتار چڑھاؤ کو آس دے رہا ہو۔۔۔ ساپفو کے کلام میں سوزوگداز، آہنگ اور صوت کی پُرفریب حد تک دل آویز سادگی اور حسّیاتی حسن کی اس یکجائی سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کوئی آسمانی نشیدسن رہے ہوں۔ اس کا ایمان تھا کہ وہ جس دنیا میں سانس لے رہی ہے وہاں الوہی ہستیاں کہیں آس پاس ہی سرگرمِ عمل ہیں۔ جب وہ شاعری کی دیویوں کو پکارتی ہے تو اس بلاوے میں کوئی سخن سازی یا رسمی عقیدت شامل نہیں ہوتی، وہ اپنے الہام کا سرچشمہ اُنہی کو سمجھتی ہے۔ اس کی نظر میں مضامین غیب سے نہیں آتے بلکہ ان دیویوں کی طرف سے القا ہوتے ہیں۔ آسمانی ہستیوں کی تائید سے سرفراز ہونے کے شعور سے اُس کا کلام جگمگاتا اور عشق ایسی واردات کا روپ دھارتا نظر آتا ہے جو انسانی امنگوں اور جذبوں سے سیراب بھی ہے اور اپنے آپ میں افلاکی شان بھی رکھتا ہے۔
وہ عشق کی مختلف کیفیتوں کی شاعر ہے لیکن اُس کے لیے عشق محبوب کے حوالے سے خود اپنی ذات کی توسیع کا نام ہے۔ اپنے حواس کو دوآشتہ کرنے کا عمل ہے۔ زندگی کی اس تھرتھراہٹ کی ترجمانی ہے جو اس کے رگ و پے میں سیل کی طرح رواں دواں تھی۔ جب عشق کی آگ بجھتی ہے تو وہ بالکل سونی بلکہ اَدھ موئی ہو کر رہ جاتی ہے۔۔۔ ساپفو کی شاعری کی نرماہٹ کی نظیر یونانی شاعری میں ملنی مشکل ہے۔ یہ نرماہٹ لذت اندوزی اور آرام طلب خودپسندی یا اپنے خیالوں اور جذبوں کو چوم چاٹ کر خوش ہوتے رہنے سے وجود میں نہیں آئی۔
اس میں رَچی ہوئی مٹھاس اتنی گاڑھی بھی نہیں کہ ذرا سی دیر میں طبیعت سیر ہو جائے۔ ساپفو نے تشبیہہ اور استعارے کا سہارا کم لیا ہے اور دو ٹوک انداز میں بات کہنے کو ترجیح دی ہے۔ اس کا فن زیب و زینت کے لیے تمثالیات کا محتاج نہیں۔ وہ تمثالوں کی حدود سے نکل کر ایسی سطح پر جا پہنچا ہے، جہاں ہر شے کے حسن کو شفاف، کندن حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں بیان کو گہنوں، پاتوں اور توضیحی چناں چنیں کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کے ہاں مواد اور پیش کش کے انداز کے درمیان کوئی آویزش یا جھول نظر نہیں آتا اور سمجھنا مشکل ہے کہ وہ ایسی نظمیں کیسے کہہ لیتی ہے جو ایک طرف تو سادگی کا کمال ہیں اور دوسری طرف بلاغت کا یہ عالم ہے کہ ہر لفظ اپنا فریضہ غیرمعمولی جزالت اور سعادت مندی سے انجام دیتا ہے۔ ان نظموں کی روشن ضمیری اور خالص شعلگی دیدنی ہے، جیسے ان میں کارفرما تخیل پہلے ہی کسی آنچ میں تپ کر پارس ہو چکا ہو۔‘‘
ادھر تین چار دنوں سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دفتر جامعہ نگر میں بہت ہی گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ تریپورہ کا معاملہ جب سے سامنے آیا ہے، نقی احمد ندوی کے سارے دعووں پر پانی پھر گیا ہے۔ جیسے ہی تریپورہ میں حالات خراب ہوئے، سب سے پہلے بورڈ کے صدر اپنی نقاہت کے باوجود دلی پہنچ گئے۔ بورڈ کے کارگذار جنرل سکریڑی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر پہلے کئی دن پہلے ہی دلی پہنچ چکے تھے اور تریپورہ کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ کل پوری رات قائدین ملت بورڈ کے آفس میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ اسی دوران مولانا سلمان ندوی، مولانا سجاد ندوی، مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی بھی پہنچ چکے تھے۔ بورڈ کے پلیٹ فارم پر تریپورہ کے حالات پر ایسی مخالف شخصیتوں کا ایک ساتھ بیٹھ کر امت کے ناگفتہ بہ حالات پر باتیں کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ یہ الزام کہ یہ لوگ کبھی ایک ساتھ نہں بیٹھ سکتے بالکل غلط ثابت ہورہا تھا۔ صبح ہوتے ہوتے شیعہ اور بریلوی اور اہل حدیث کے قائدین بھی دفتر پہنچ گئے۔ حالات کی سنگینی اور مصروفیات کے باعث ہمارے قائدین نے صبح کا ناشتہ تک نہ کیا، جب گیارہ بج گئے تو مشاورت کے کچھ اراکین کی ذبردستی پر صرف کچھ توش پر قناعت کی ۔
میٹنگ جاری تھی اور اسی بیچ جمعیہ علماء ہند کے ممبران تریپورہ ہاؤس دلی پر صبح مظاہرہ کرنے پہنچ چکے تھے۔ بورڈ یہ فیصلہ لینے جارہی تھی کہ تریپورہ کے حالات پر سنٹرل گورنمنٹ سے ایک وفد ملاقات کرے، مگر اسی دوران یہ خبر آئی کہ بورڈ کے کچھ عہدیداران تریپورہ ایرپورٹ پر پہنچ چکے ہیں اور فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنا چاہتے ہیں، مگر وہاں کی گورنمنٹ نے انھیں روک دیا ہے۔
بورڈ کے صدر اور جنرل سکریٹریز رات بھر اپوزیشن لیڈروں سے وہاں کی کشیدگی پر باتیں کرتے رہے۔ تریپورہ کے چیف منسٹر سے بھی بات کرنے کی کوشش کی گئی، مگر بات نہیں ہوسکی۔ اب پرسنل لا بورڈ کے عہدیداران حرکت میں آچکے تھے اور لوگوں کے اس خیال کو غلط کردکھایا تھا کہ ہمارے قائدین کچھ نہیں کرتے۔ مولاناارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی کے تعلقات حکومت سے اتنے گہرے ہیں کہ وہ جب چاہیں حکومت کے کسی بھی منسٹر سے مل سکتے ہیں ، اس وقت حکومت سے ان دونوں کے ذاتی تعلقات امت کے کے لیے مفید ثابت ہورہے تھے ، دونوں صبح سے حکومت کے وزرا اور ہوم منسٹری کے اہل کاروں سے بات چیت میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ مولانا سلمان ندوی اور مولانا سجاد ندوی نے یہ فیصلہ کیا کہ بورڈ کے متفقہ فیصلوں کا انتظار کرنے کے بجاے وہ کل تریپورہ روانہ ہوجائیں گے۔ تو خالد رشید فرنگی محلی اور شیعہ اور بریلوی رہنماوں نے اپنی انا کا گلا گھونٹتے ہوئے ان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ ادھرمسلم مجلس مشاورت اور ملی کونسل کے ذمہ داران بھی حرکت میں آچکے تھے۔ دلی میں بورڈ کے سارے رہنمائوں کو لوجسٹک سپورٹ ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر منظور عالم دے رہے تھے تو دوسری طرف مشاورت کے عہدیدیران ہنگامی میٹنگوں کے انعقاد اور کورآرڈینشن کا کام کررہے تھے اور کھانے پینے کی ساری ذمہ داری اپنے سر لے رکھی تھی۔ جماعت اسلامی نے بھی اپنے عالی شان انفرااسٹرکچر کو استعمال کرنا شروع کردیا تھا، جو بھی دلی آرہے تھے سب جماعت کی بلڈنگ میں قیام کررہے تھے، ادھر تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد صاحب نے بھی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اب صرف جماعت کو دعوت وتبلیغ تک محدود کرنا امت کے ساتھ دھوکہ ہوگا، لہذا وہ بھی کئی دنوں سے نظام الدین اور جامعہ نگر کے درمیان کے فاصلہ کو مٹاکر میٹنگ میں پوری طرح شریک تھے۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر حالات اسی طرح خراب ہوتے رہے تو ہماری جماعت کے لوگ جتنے بھی ہیں ان سب کو بھی سڑکوں پر اترنے کی اپیل کی جائے گی اور اب ہاتھ پر ہاتھ دھرکر نہیں رہا جائیگا۔ حالات نے سبھی جماعتوں کے ذمہ داران کو حرکت میں لادیا تھا، بورڈ کے صدر اپنی نقاہت ، کمزوری اور کبر سنی کے باوجود جب حرکت میں آئے اور جب مولانا ارشد مدنی اور محمود مدنی نے اپنے ذاتی تعلقات کو امت کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور جماعت ، مشاورت، ملی کونسل تبلیغی جماعت کے عہدیداران اپنے اپنے اداروں اور تنظیموں کے مفاد کو پس پشت ڈال کر قوم کے حالات پر اقدامات کرنا شروع کیا، تو پوری امت کے اندر ایک میسج گیا کہ ہم ابھی بھی اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے تمام ذاتی مفادات کو ترک کرکے اپنے ملک کے حالات کو خراب نہیں ہونے دینگے اور ہندو مسلم فساد سے اپنے ملک کوجلنے نہیں دیں گے۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ امن وشانتی کی فضا قائم نہ کرے۔
مولانا ولی رحمانی کے بعد مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کو کارگذارجنرل سیکریٹری بنانے پر نقی احمد ندوی نے جو اپنی مخالفت کا بازار گرم کررکھا تھا اور یہ کہا تھاکہ بورڈ کو فل ٹائم جنرل سکریٹری کی ضرورت ہے نہ کہ پارٹ ٹائم صدر اور سکریڑی کی۔ بورڈ کے جوبھی موجودہ عہدیداران ہیں وہ اپنے اپنے اداروں کی مشغولیات میں مصروف ہونے کے باعث امت کی مشترکہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے لیے کام نہیں کرتے ،وہ اپنے اپنے اداروں اور تنظیموں کے لیے کام کرتے ہیں اور ہندوستان کے چودہ کروڑ مسلمانوں کی قیادت کے لیے ہمیں پارٹ ٹائم تنظیم یا پارٹ ٹائم صدر اور جنرل سکریٹریز کی ضرورت نہیں؛ بلکہ ہمیں فل ٹائم صدر، جنرل سکریٹری وغیرہ کی ضرورت ہے ،بالکل غلط ثابت ہورہا تھا۔
افسوس کہ اور پر جو کچھ لکھا گیا ہے،یہ صرف ہمارا خیال ،تمنا اور آرزو ہے،مگر ویسا کچھ نہیں ہوا اور نقی احمد ندوی کی بات صد فیصد صحیح ثابت ہوئی کہ مسلم پرسنل لابورڈ کو جب تک فل ٹائم کام کرنے والا صدر، سکریٹریزاور عہدیداران نہیں دیے جائیں گے اور جب تک ہمارے قائدین اپنے اپنے اداروں اور تنظیموں کے مفاد پر امت کے مفاد کو ترجیح نہیں دیں گے ، کوئی بنیادی تبدیلی نظر نہیں آنے والی۔ یہ بات بالکل صد فیصد درست ہے جو قرآن نے کہا ہے کہ اللہ تعالی اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ قوم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کرے اور کسی قوم کے اندر تبدیلی کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اداروں، اس کی تنظیموں ، اس کی سماجی ، سیاسی ، معاشی اور دینی تنظیموں کے ڈھانچوں کے اندر تبدیلی پیدا ہو اور اس کے ڈھانچے میں تبدیلی خود بخود نہیں آسکتی ؛بلکہ اس کے لیے اس کے ذمے داروں اور سربراہوں کو ایکشن لینا ہوگا اور اسی تبدیلی کا امت کو انتظار ہے۔
بھارت کے مشرقی علاقے ریاست تریپورہ میں فسادات کی موجیں سروں سے گزر رہی ہیں، متعصب ہندؤں کے لیے خون دل کی سبیلیں لگائی جا رہی ہیں، فرقہ پرستوں کی تنگ نظری سیکولر ذہنیت کے منھ پر کالک تھوپ رہی ہے۔
بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق کم از کم ایک درجن مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے یا انھیں جلایا گیا ہے اور متعدد مقامات پر مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر حملے کیے گئے ہیں۔ ابھی تک کسی گرفتاری کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔ تریپورہ میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، جن میں سے ایک قابل ذکر تعداد بنگلہ دیش سے ہجرت کرنے والے ہندوؤں کی ہے۔ مقامی لوگ تریپورہ میں حالیہ تشدد کو پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کے واقعات کے ردعمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔یاد رہے کہ بنگلہ دیش کے ضلع کومیلا میں ایک پوجا پنڈال میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کی اطلاعات کے بعد ملک بھر میں ہندوؤں کے خلاف کئی پُرتشدد واقعات رونما ہوئے تھے۔جس پر حکومتِ بنگلہ دیش نے سخت کارروائی کی ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے تشدد کے واقعات کے فوراً بعد ملک کی ہندو برادری سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ حکومت نے کئی گرفتاریاں کیں اور وزرا نے متاثرہ ہندوؤں سے ملاقات بھی کی؛ لیکن تریپورہ میں بھگوا دہشت گردوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہورہے ظلم و بربریت پر بھارت کے وزیراعظم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کی حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے۔
تاجر عبدالمنان کی آپ بیتی :
تریپورہ کے اناکوٹی ضلع کے سرحدی قصبے کیل شہر میں رہنے والے عبدالمنان نامی تاجر نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل(26/ اکتوبر 2021)کی رات ساڑھے بارہ بجے ایک ہجوم نے ان کے گھر پر حملہ کر دیا اور توڑ پھوڑ کی جس کے نتیجے میں ان کی فیملی کو گھر سے بھاگنا پڑا۔ وہ خود اس وقت گھر پر نہیں تھے اور ریاستی دارالحکومت اگرتلہ میں تھے۔عبدالمنان نے تفتیش کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کے حوالے کر دی ہے؛ لیکن انھیں اپنی حفاظت سے متعلق تشویش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں 44 سال کا ہوں لیکن میں نے یہاں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب تو رہنا مشکل ہو گیا ہے، اور کوئی کام کیا کرے گا آدمی۔ اس حملے سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے ایک رات مبینہ طور پر ‘وشو ہندو پریشد’ (وی ایچ پی) کے ارکان نے ان کے گھر پر بھگوا جھنڈا لگا دیا تھا۔
عبدالمنان ایک معروف تاجر ہیں اور ریاستی اسمبلی کے ایک ممبر کے خاص رشتہ دار ہیں؛ لیکن پھر بھی یہ ان کے گھر پر حملے روکنے کے لیے ناکافی تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جہاں رہتے ہیں وہاں مسلمانوں کے صرف پانچ سے 10 گھر ہیں۔ اگر ایسے ہی رہا پھر تو یہاں سے وہاں جانا پڑے گا جہاں مسلمان زیادہ آبادی میں ہیں۔ ریاست میں مسلمانوں کی تعداد 10 فیصد سے بھی کم ہے اور وہ کسی ایک جگہ نہیں؛ بلکہ ان کی آبادی پوری ریاست میں پھیلی ہوئی ہے۔
تریپورہ کے حالات دن بدن شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف ہوئے تشدد کی مذمت میں کئی دنوں سے ریاست بھر میں بھگوا دہشت گرد تنظیم وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی طرف سے مظاہرے اور ریلیاں جاری تھیں، لیکن یہ ریلیاں شدت اختیار کر گئیں اور ریاست کے مسلمانوں کے خلاف متشدد ہوگئیں۔ جس کے نتیجے میں مساجد میں توڑ پھوڑ، آگ زنی، مسلمانوں کی دُکانوں و مکانوں میں توڑ پھوڑ، مسلم مخالف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شان مقدس میں اہانت آمیز نارے بازی جیسے واقعات روزانہ سامنے آ رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہندوتوادی ہجوم کی جانب سے مسلم علاقوں میں مساجد، گھروں اور افراد پر حملہ کرنے کے کم از کم 27 واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں 16 واقعات ایسے ہیں جہاں مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور ان پر زبردستی وی ایچ پی (وِشو ہندو پریشد) کے جھنڈے لہرائے گئے۔ کم از کم تین مساجد، اناکوٹی ضلع کی پالبازار مسجد، گومتی ضلع کی ڈوگرہ مسجد اور وِشال گڑھ میں نرولا ٹیلا کو نذر آتش کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ اور نشانہ بنانے اور توڑ پھوڑ کرنے کی بھی خبریں ہیں۔ تقریباً یہ تمام حملے ہندوتوا ہجوم کی طرف سے کیے گئے جو بظاہر بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔ لیکن حکومت اور ریاستی انتظامیہ کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے، گویا ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے حکومت چاہتی ہی نہیں ہے کہ تشدد ختم ہو اور امن قائم ہو۔ کئی جگہ بنگلہ دیش کے واقعات کا حوالہ دے کر تریپورہ کی صورتحال کو درست بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں تشدد کے واقعات پر چند ہی دنوں میں حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کیے گئے جس میں تقریبا 500 گرفتاریاں بھی ہوچکی ہیں۔ لیکن تریپورہ میں اب تک حالات جوں کہ توں ہیں بلکہ مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔” بروز منگل نارتھ تریپورہ کے علاقے دھرمانگر اور کیلاشہر میں ریاست کے حالات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کی جانب سے مظاہرے منقعد کیے گئے، بعد ازاں وہاں پولیس انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور مظاہرے سے روک دیا گیا۔ لیکن جن مقامات پر شر پسندوں کے ذریعے دہشت کا ماحول بنایا جا رہا ہے، توڑ پھوڑ اور آگ زنی کی جا رہی ہے وہاں اب تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔ حکومت و ریاستی انتظامیہ کی جانب سے محض چند مقامات پر پولیس کی تعیناتی دِکھا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ حالات پر قابو پانے کی کوشش جاری ہے۔حکومت سے یہ اپیل ہے کہ حالات پر جلد از جلد قابو پایا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ مساجد کا جو نقصان ہوا ہے اسکی بھرپائی کی جائے، مسلمانوں کو خصوصی تحفظ فراہم کیا جائے اور جو دہشت پھیلا رہے ہیں ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے تاکہ ریاست میں امن قائم ہو سکے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
سنہ 2017 میں ڈاکٹر ایم اے حق سے میرا رابطہ ہوا۔ ایم اے حق ایسے پہلے سینئر ادیب تھے جن سے ادب کی بنیاد پر میرا تعلق جڑا تھا۔ اس وقت وہ رسالہ عالمی انوار تخلیق نکالتے تھے۔ جس کا، موسمِ گرما 2017 کا شمارہ منظرِ عام پر آ چکا تھا اور اس میں میرا ایک افسانچہ ’شرمندگی‘ شائع ہوا تھا۔ اُس وقت مختلف اخبارات میں میری تحریریں شائع ہو رہی تھیں اور رسائل کی معلومات مجھے نہ کے برابر تھی۔ میرا افسانچہ رسالہ عالمی انوارِ تخلیق کے موسم گرما 2017 کے شمارے میں میں شائع ہوا ہے یہ اطلاع مجھے وسیم عقیل شاہ نے دی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ ایک معیاری رسالہ ہے اور اس میں افسانچوں کا انتخاب بڑا سخت ہوتا ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی اور حیرت بھی کہ میں نے تو افسانچہ بھیجا ہی نہیں تھا۔ میں ڈاکٹر ایم اے حق کو بحیثیت افسانچہ نگار جانتا تھا۔ ان کے کئی افسانچے پڑھے تھے لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک رسالے کے مدیر بھی ہیں۔ پہلے ان سے فیس بک میسنجر پر بات ہوئی۔ نمبروں کا تبادلہ ہوا اور پھر براہ راست فون پر بات چیت ہونے لگی۔ معلوم ہوا کہ انھوں نے ایک ادبی ویب سائٹ سے میرا افسانچہ منتخب کیا تھا۔ ہم بہت جلد دوست ہو گئے۔ گھنٹوں باتیں ہونے لگیں۔ فون پر انھوں نے میرے کئی افسانچوں کی اصلاح کی۔ نئی نسل کی ہمت افزائی ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ افسانچے کی باریکیوں سے وہ بخوبی واقف تھے۔ افسانچے کے فروغ میں انھوں نے اپنی زندگی لگادی۔ شروعات میں انھوں نے افسانے لکھے پھر محمد بشیر مالیر کوٹلوی کے افسانچوں سے متاثر ہو کر افسانچے لکھنے لگے۔ اس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور افسانچہ نگاری کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ فون پر ہماری روزانہ گفتگو ہوتی تھی۔ وہ نئے نئے منصوبے بناتے۔ مجھے سناتے۔ میں بھی اس پر اپنی رائے دیتا۔ میری رائے کا وہ احترام کرتے۔ اور ہمت افزائی والے کلمات ادا کر کے میرا حوصلہ بڑھاتے۔ لیکن پہلا منصوبہ مکمل ہو نہیں پاتا تو کوئی دوسرا منصوبہ بنا لیتے اور پہلا منصوبہ ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہ ایک خامی تھی ان میں۔
فون پر تو ان سے بہت باتیں ہو چکی تھیں۔ بس اب ان سے ملاقات کی تمنا تھی جو 2018 میں پوری ہوگئی۔ 4 اکتوبر 2018 بروز جمعرات کو وہ میرے چھوٹے سے شہر ناندورہ (ضلع بلڈانہ، مہاراشٹر) تشریف لائے۔ ڈاکٹر تسلیم عارف بھی ساتھ تھے۔ دراصل وہ ممبئی گئے تھے۔ واپس رانچی جاتے وقت ہمارے اصرار پر ناندورہ اتر گئے۔ ریل کے ذریعے ممبئی سے رانچی جاتے ہوئے راستے میں ناندورہ پڑتا ہے۔ ہم نے ان کے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا انعقاد کیا۔ اسی پروگرام میں ان ہی کے دست مبارک سے میری کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’الجھن‘ کی رسم اجرا ہوئی۔ اسی محفل میں انھوں نے خاکسار کو رسالہ عالمی انوارِ تخلیق کا معاون مدیر بنائے جانے کا اعلان کیا اور بعد میں باقاعدہ طور پر لیٹر بھی دیا۔ ناندورہ سے جاتے وقت انھوں نے ایک جملہ کہا تھا جو اب تک میرے کانوں میں گونجتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا، ’’مہاراشٹر کے دوسرے شہروں کے مقابلے ناندورہ میں ادب کم ہے لیکن خلوص زیادہ ہے۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے فون پر کئی بار کہا کہ وہ ناندورہ پھر سے آئیں گے ابھی ان کا دل بھرا نہیں۔ لیکن صحت نے ساتھ نہ دیا۔ طبیعت اکثر خراب رہتی تھی۔ ناندورہ آئے تھے تب بھی بہت ساری دوائیاں ان کے ساتھ تھیں اور 18 مئی 2021 کو کورونا وبا سے جنگ لڑتے لڑتے وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
ڈاکٹر ایم اے حق جتنے اچھے افسانچہ نگار تھے اتنے ہی اچھے افسانچے کے نقاد بھی تھے۔ انھوں نے محمد بشیر مالیر کوٹلوی کے افسانچوں سے متاثر ہو کر افسانچے لکھنے شروع کیے اور ایسے افسانچے لکھے کہ خود بشیر مالیر کوٹلوی ان کے افسانچوں سے کافی متاثر ہوئے اور کہنے لگے: ’’یہ حق میرا یار افسانچے کا بہت بڑا پارکھ ہے۔‘‘
ایم اے حق اور بشیر مالیر کوٹلوی دونوں جگری یار تھے۔ 18 مئی 2021 کو ڈاکٹر ایم اے حق کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس کے دو دن بعد محمد فاروق قادری (کشمیر) سے موبائل پر میری گفتگو ہو رہی تھی۔ ہم دونوں ڈاکٹر ایم اے حق کے متعلق بات کر رہے تھے اور انھیں یاد کر رہے تھے۔ پھر محمد بشیر مالیر کوٹلوی کی بات نکلی تو میں نے کہا کہ بشیر صاحب، حق صاحب کے یوں چلے جانے سے بہت رنجیدہ ہو گئے ہیں۔
تب فاروق قادری نے ان کی دوستی کا ایک قصہ سنایا۔ واقعہ یوں ہے کہ فاروق قادری نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’1980 کے بعد ہندوستان کے مشاہیر افسانچہ نگار:تفہیم و تجزیہ‘‘ سے متعلق بشیر مالیر کوٹلوی کو فون کیا اور پوچھا:
’’میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں منٹو اور جوگندر پال کے بعد تیسرے اور چوتھے نمبر پر آپ اور ڈاکٹر ایم اے حق کا ذکر کر رہا ہوں لیکن میں تذبذب میں ہوں کہ آپ دونوں میں سے کس کا ذکر پہلے کروں؟‘‘
تب بشیر مالیر کوٹلوی نے جواب دیا:
’’ایم اے حق نے افسانچے پر زیادہ کام کیا ہے اس لیے آپ مجھ سے پہلے حق کا ذکر کریں۔‘‘
اس کے بعد فاروق قادری نے ڈاکٹر ایم اے حق کو کال کی اور یہی مسئلہ ان کے سامنے رکھا۔ تب ڈاکٹر ایم اے حق نے جواب دیا:
’’میں نے بشیر مالیر کوٹلوی کے افسانچوں سے متاثر ہو کر افسانچے لکھنے کی شروعات کی تھی لہذٰا بشیر مالیر کوٹلوی میرے سینئر ہیں اس لیے آپ ان کا ذکر مجھ سے پہلے کریں۔‘‘
واہ کیا دوستی ہے…!!!
ڈاکٹر ایم اے حق جب بات کرتے تو کرتے ہی چلے جاتے اور میری بات دل ہی میں رہ جاتی۔ یوں لگتا کہ سمندر کی اونچی اونچی لہریں میری جانب آرہی ہیں اور دور تک دھند ہی دھند چھا گئی ہے۔ بات سے بات نکالتے چلے جاتے بات لمبی ہوتی جاتی۔ ان سب باتوں کے باوجود ان کی باتوں میں ایک کشش تھی ایک جادو تھا کہ سامنے والا شخص اس میں گرفتار ہو جاتا۔ پہلی دفعہ بھی اگر کسی سے بات کر رہے ہو تو یوں لگتا کہ برسوں کی یاری ہے۔ بڑی دلچسپ اور آزاد شخصیت کے مالک تھے وہ۔ رسالہ عالمی انوارِ تخلیق کے شمارے اور افسانچوں کے دو مجموعے ’’نئی صبح‘‘ اور ’’ڈنک‘‘ اُردو ادب کو ان کی بیش قیمتی دین ہیں۔
امیر شریعت کا بہترین فیصلہ، امارت شرعیہ کے زیر اہتمام میٹرک کی تیاری کے لیے چار مہینے کا کریش کورس شروع،ماہر اساتذہ کے ذریعے کرائی جائے گی تیاری
پٹنہ: امیر شریعت بہاراڈیشہ و جھارکھنڈ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے پہلے دن سے ہی تعلیمی ترقی کو امارت کےلیے اولین ترجیحی ایجنڈا بنایا ہے ۔ان کی سوچ ہے کہ ملت کا ہر بچہ اسلامى ماحول میں معیاری تعلیم حاصل کرے۔
اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے کئی منصوبوں کا آغاز ہو چکا ہے ، جس میں امارت کے دائرہ کار کے تمام اضلاع میں دینی مکاتب کے قیام اورپرائمری، مڈل اورسینئر سکینڈری کے معیاری اسکولوں کے قیام کا روڈ میپ تیار کیا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی امیر شریعت نے ان طلبہ و طالبات کے لیے جو 2022میں میٹرک کا امتحان دینے والے ہیں بہترین تحفہ دیا ہے اور امارت شرعیہ کے کیمپس میں ان کے لیے میٹرک کی بہتر تیاری کے لیے چار ماہ کا کریش کورس(crash course) شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔جہاں ماہر اساتذہ کے ذریعے امتحان کی تیاری کرائی جائے گی ۔
یہ حقیقت ہے کہ پچھلے دو تعلیمی سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ اس درمیان، خاص طور پر مائنوریٹی کے طلبہ و طالبات کا بڑا تعلیمی نقصان ہوا ۔ اسکولوں و کوچنگ سنٹروں کے بند رہنے کی وجہ سے ان کی تعلیم پر بہت برا اثر پڑا ہے اور امتحان کی تیاری کے سلسلہ میں مناسب رہنمائی اور تیاری نہیں ہوپائی ہے ۔ آگے کی تعلیم کے لیے کسی بھی اچھے پلس ٹو اسکول یا کالج میں مطلوبہ اسٹریم میں داخلہ کے لیے میٹرک میں اچھے نمبرات سے کامیاب ہونا بہت ضروری ہے ۔ اس لیے ایسے طلبہ و طالبات کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے امارت شرعیہ کے زیر اہتمام میٹرک کے امتحان کی تیاری کا نظم امارت شرعیہ کے کیمپس میں واقع ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کی عمارت میں کیا گیا ہے۔اس کوچنگ کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہوں گی ۔
1 ۔ کوچنگ کی مدت (Duration) چار ماہ ہوگی۔
2۔تعلیم کا وقت سنیچر اور اتوار کو پورا دن اور ہفتہ کے بقیہ پانچ دنوں میں دو پہر ساڑھے تین بجے سے ساڑھے پانچ بجے تک ہوگا۔
3۔ میٹرک کے تمام اہم سبجیکٹ ؛ میتھ(Math)، سائنس(Science)، انگریزی(English)،سوشل سائنس(Social Science)، اردو (Urdu) اور ہندی (Hindi) کی تیاری ماہر اساتذہ سے کرائی جائے گی۔
4۔ ایڈمیشن فیس پانچ سو رو پئے (500/-)ہے ، لیکن اگر طالب علم %95 حاضر رہے گا اور اس کی کارکردگی(Performance) پچاس فیصد بچوں سے اچھی ہوگی تو ایڈمیشن فیس کورس مکمل ہونے پر واپس کر دی جائے گی ۔
5۔ جو بچے زکات کے مستحق ہیں ان کی پانچ سو روپے کی ایڈمیشن فیس بھی کورس ختم ہونے کے بعد واپس کر دی جائے گی اگر وہ 95% حاضری درج کراتے ہیں.
6۔ ایڈمیشن داخلہ ٹیسٹ (Entrance Test) کی بنیاد پر ہو گا۔ داخلہ ٹیسٹ میں شرکت کے لیے آن لائن رجسٹریشن 31 اکتوبر 2021سے شروع ہوگا ۔خواہش مند طلبہ مولانا منت اللہ رحمانی پارا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ http://mmrti.org پر آن لائن فارم بھر سکتے ہیں ، رجسٹریشن کے لیے کوئی فیس نہیں ہے۔
7۔رجسٹریشن کی آخری تاریخ 9نومبر 2021ہے ، 11نومبر 2021کو صبح دس بجے سے داخلہ ٹیسٹ (Entrance Test) ہوگا۔ مورخہ 13نومبر2021روز سنیچر سے کلاس شروع ہو جائے گا۔
8۔ کریش کورس کا یہ نظم غیر رہائشی ہوگا ، اس لیے پٹنہ ضلع سے باہر رہنے والے جو بچے اس میں شریک ہونا چاہیں گے ، انہیں اپنی رہائش کاخود انتظام کرنا ہو گا۔
9- اس پروگرام میں صرف وہ بچے حصہ لیں جو اپنی محنت پر اعتماد رکھتے ہیں اور ہر روز کم از کم آٹھ سے دس گھنٹے خود سے اپنی پڑھائی میں لگا سکتے ہیں
اس لیے ان تمام طلبہ و طالبات سے جو 2022میں میٹرک کا امتحان دینا چاہتے ہیں ان سے اپیل ہے کہ وہ اس سنہرے موقع کا فائدہ اٹھائیں اور میٹرک کے امتحان کی بہترین تیاری کر کے امتحان میں اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہوں۔
جامعہ کے یوم تاسیس سے مجھے تعلیمی میلہ یاد آتا ہے اور تعلیمی میلے کا خیال آتے ہی پروفیسر مشیر الحسن کی تصویر ذہن کے روشن دان سے جھانکنے لگتی ہے۔ میں جامعہ میں پانچ برس پڑھا جن میں دو برس ایسے تھے جب مشیر صاحب بطور وائس چانسلر جامعہ کی قیادت کر رہے تھے۔ جامعہ کی ایک صدی کی تاریخ میں اس کے کوئی 14 سربراہ ہوئے ہیں۔ ان سب نے اپنے اپنے ویژن کے مطابق یونیورسٹی کو فروغ دینے کی کوشش کی لیکن مشیر صاحب کا امتیاز یہ ہے کہ اگر ان کے پانچ برس درمیان سے نکال دیئے جائیں تو آپ جامعہ کی موجودہ صورت کا تصور نہیں کر سکتے۔ ان کی مدت کار اس روشنی سے منور ہے جو پیار سے بچے کو سجا رہی ماں کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ میں نے ایک طالب علم کے طور پر اپنی یونیورسٹی کو سجتے سنورتے بھی دیکھا اور مشیر صاحب کی آنکھوں میں بسے اس نور اور خوابوں کا بھی گواہ ہوا۔ معلوم ہے کہ حکیم اجمل خان، مولانا محمد علی جوہر اور مختار احمد انصاری جامعہ کے بنیاد گزار ہیں لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ اگر کوئی ’جدید جامعہ‘ کا بانی کہلانے کا مستحق ہے تو وہ مشیر صاحب ہی ہیں۔ انہوں نے صرف نئی عمارتوں کی دیواریں ہی نہیں اٹھائیں بلکہ تعلیمی سرگرمیوں کی بنیادوں کو بھی گہرا کیا۔ آج اگر جامعہ ملک کی سب سے اچھی مرکزی یونیورسٹی بن سکی ہے تو اس میں ان گہری بنیادوں اور اس خاموش طبع معمار کی محنتوں کا بڑا دخل ہے۔
مجھے جامعہ میں داخل ہوئے مہینہ ہی ہوا ہوگا کہ تعلیمی میلے کی ہلچل شروع ہو گئی۔ چھوٹے سے قصبے سے آنے والے مجھ طالب علم کے لیے اس جشن کی تیاریوں کو دیکھنا بڑا خوابناک تجربہ تھا۔ انصاری آڈیٹوریم کے سامنے واقع بڑے سے لان میں لمبا چوڑا پنڈال گاڑا جا رہا ہے تو دوسرے لان میں اسٹال کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ مالی پھولوں کے گملوں کی قطاریں لگا رہے ہیں۔ روشنیوں کی بیل سے جامعہ کی عمارتیں اور درخت جگمگا اٹھے ہیں۔ لیجئے صاحب، پرچم کشائی کے ساتھ تعلیمی میلے کی کئی روزہ تقریبات شروع ہوئیں اور پھر تو جیسے پروگراموں کی جھڑی ہی لگ گئی۔ کہیں لیکچر، کہیں قوالی، کہیں کوئز، کہیں تقریری مقابلہ اور کہیں کتابوں کی نمائش ہے۔ مشیر صاحب طلبہ کے اسٹالوں پر جاکر ان کی تیاریوں کی تعریف کر رہے ہیں۔ رخشندہ جلیل صاحبہ کا اسٹاف کسی پروگرام کی نوک پلک سنوارنے میں لگا ہے۔ پروفیسر غضنفر زیدی اپنے والنٹیئرس کو کوئی ہدایت دے رہے ہیں۔ اسی گہماگہمی میں دن بیت گیا اور رات اترنے لگی۔ اکتوبر کے اخیر کی سردی نے شام کی دلکشی کی ہر کسر پوری کر دی ہے۔ بستی کے لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ میلہ دیکھنے آ گئے ہیں۔ اگلے دن، اس سے اگلے دن اور پھر اس سے اگلے دن وہی رونق ہے وہی روشنیاں ہیں۔ میلے کے آخری دن کنوکیشن ہو رہا ہے۔ جدھر نظر ڈالئے، سیاہ گاون میں ملبوس نوجوانوں کا ریلا چلا آ رہا ہے۔ ہر آنکھ میں جذبات کا عجب سنگم نظر آتا ہے۔ ان آنکھوں میں جامعہ سے بچھڑنے کی اداسی بھی ہے اور نئی زندگی کے خواب بھی۔ کوئی اس چہرے کو آج جی بھر کر دیکھ لینا چاہتا ہے جس سے اب کے بعد شائد کبھی آمنا سامنا نہ ہو۔ کچھ دلوں میں یہ پچھتاوا ہے کہ دل کی بات لب پر لانے کی ہمت کیوں نہیں جٹا سکے؟ ایک دوسرے سے لڑنے والے بہت سے دوستوں کے گلے آج کیوں رُندھے ہوئے ہیں؟۔
تعلیمی میلے کے وہ تین چار دن تفریح کا وقفہ نہ ہوکر یونیورسٹی کی ایسی اجتماعی کلاس کی طرح تھے جن میں باہر والوں کو بھی آنے کی اجازت تھی۔ ان لیکچرس، تعلیمی مقابلوں، مشاعروں، ڈراموں اور مباحثوں سے اتنا کچھ مل جاتا تھا جس کی ایک علیحدہ سے گٹھڑی بن جائے۔ طلبہ کی غیر نصابی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے جامعہ میں وہ سب سے بڑا پلیٹ فارم ہوا کرتا تھا۔ طلبہ اس دوران روزانہ ایک خصوصی اخبار نکالتے اور اس کی رپورٹنگ سے چھپائی تک کا سارا کام بھاگ بھاگ کر خود کیا کرتے، کئی شعبوں کے طلبہ اپنے ڈپارٹمنٹ کا اسٹال سجاتے، خود لی ہوئی تصویروں کی نمائش لگاتے اور نکڑ ناٹک بھی کر لیا کرتے۔ کئی دن کی رونق اور تھکن کے باوجود جس شام تعلیمی میلہ ختم ہو رہا ہوتا تو مجھے نہ جانے کیوں اپنے بچپن کا زمانہ یاد آ جایا کرتا جب ہر سال مجھے عید کی شام یہ شکوہ ہوا کرتا تھا کہ عید کا دن اتنی جلدی کیوں گذر جاتا ہے؟
انتخاب کے بعد امراۓ شریعت کے احساسات وخیالات ـ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اسلام میں عہدے اور منصب کا تعلق نہ تو روایتی جاہ وحشم سے ہے اور نہ ہی حکمرانی اور ملوکیت سے ، یہاں عہدہ کا مطلب ذمہ داری اور فرائض کی ادائیگی کا وہ احساس ہے جو انسان کو قوم کا خادم بنا دیتا ہے ، اسی وجہ سے سید القوم خادمہم کہا گیا ہے۔ امارت شرعیہ کے سارے امراء کے احساسات انتخاب کے بعد یہی تھے اور سب نے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ ایک ذمہ داری ہے ، جس کی ادائیگی کے لیے اللہ رب العزت سے دعا بھی کرنی چاہیے اور مسلمانوں کو سمع وطاعت کے جذبہ سے تعاون بھی کرنا چاہیے، اس کے بغیر اس اہم منصب کی ذمہ داری کا ادا کرنا عملا ممکن نہیں ہے، یہ احساس ذمہ داری اس قدر حاوی ہوتا تھا کہ عوام بھی یہ مان کر چلتی تھی کہ یہ عہدہ ایک آزمائش ہے، اب تو عہدہ ملنے پر مبارکبادی دی جاتی ہے اور ہر چھوٹا بڑا اس میں سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ ماضی میں متعلقین تعزیت اور پُر سہ کے لیے جاتے تھے کہ اب آزمائشیں اس شخص پر بارش کی طرح نازل ہوں گی وہ دعا کرتے تھے کہ اللہ عزم وحوصلہ اور استقامت سے نوازے۔
امارت شرعیہ کے امراء شریعت بھی انتخاب کے بعد ان ہی احساسات کے حامل تھے، انہوں نے اپنے پہلے خطاب یا احکام میں واضح کر دیا کہ امارت شرعیہ کی کشتی کو کس طرح آگے بڑھانا ہے، اس کے حدود وقیود کیا ہوں گے اور کن اصول وضوابط کے ساتھ کام کرنا ہے ، چنانچہ پہلے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ بدر الدین قادری ؒ پہلے تو اس ذمہ داری کو قبول کرنا ہی نہیں چاہتے تھے، لیکن لوگوں کے اصرار خاص کر قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ کے کہنے سے اس عہدہ کو قبول کیا۔ ۱۹؍ شوال ۱۳۳۹ھ کو امارت شرعیہ کا قیام اور امیر کا انتخاب ہوا تھا، دوسرے دن حضرت امیر شریعت اول نے اپنے پہلے فرمان میں لکھا کہ
’’تمام مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ امارت کا مقصد کیا ہے ؟ خدمت وحفاظت اسلام ، بقاء عزت وناموس دین، اجراء احکام شرعیہ جو بجز اجتماعی قوت کے ممکن نہیں ہے ، ان مقاصد ومصالح شرعیہ کو پیش نظر رکھ کر میں اسی نوع کے احکام جا ری کروں گا، جس سے حیات اجتماعی کو تعلق ہو اور وہ ایسے احکام ہوں گے جو مسلمانوں کی کسی جماعت کے خلاف نہ ہوں۔‘‘
آگے لکھتے ہیں: آج میں محسوس کرتا ہوں کہ میری ذمہ داریاں کسی قدر بڑھ گئی ہیں ، ہمارا فرض ہوگا کہ کسی مسلمان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہونچے‘‘ (دینی جد وجہد کا روشن باب)
امیر شریعت اول کے وصال کے بعد ۹؍ ربیع الاول ۱۴۴۳ھ کو حضرت مولانا سید محی الدین قادری ؒ امیر شریعت ثانی منتخب ہوئے، انتخابی اجلاس میں ہی بحیثیت امیر شریعت آپ نے اپنے قیمتی اور کلیدی خطاب میں فرمایا:
’’حضرات! آج آپ نے جو بار اور بوجھ میرے سر ڈالا ہے، میں ہرگز اس کو اٹھانے اور بر داشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہوں، لیکن جب آپ حضرات اتفاق رائے سے مجھ پر یہ بار ڈال رہے ہیں تو میں صرف اس لیے کہ میرے انکار سے تفرقہ کا خوف ہے، مجبور ہو کر قبول کرتا ہوں، آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح آپ نے میرے سراتنا بڑا بوجھ ڈالا ہے، اپنے سر بھی ڈال لیا ہے، یعنی آپ نے مجھ کو اپنا سردار تسلیم کر لیا ہے تو میری تمام خدمات کا دارو مدار آپ کے سمع وطاعت پر ہے ، آپ حضرات سمع وطاعت سے میری مدد کریں تو یقین کیجئے کہ آپ کے لیے دین ودنیا کی بھلائی حاصل ہوگی۔(محی الملۃ والدین ۴۹)
تیسرے امیر شریعت کا انتخاب ڈھاکہ میں ۲۶؍ جون ۱۹۴۷ء کو ہوا ، امیر شریعت کی حیثیت سے مولانا سید شاہ قمر الدین ؒ کا انتخاب عمل میں آیا، دوسرے روز رات کے اجلاس میں ۲۷؍ جون کو آپ پٹنہ سے ڈھاکہ تشریف لے گیے، اجلاس عام سے خطاب بھی فرمایا ؛ لیکن بد قسمتی سے جس طرح قیام امارت کے موقع سے مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریر ضبط تحریر میں نہیں لائی جا سکی ، ویسے ہی امیر شریعت ثالث کے خطاب کا کوئی حصہ یا تو محفوظ نہیں رہا یا میرے مطالعہ میں نہیں آیا، چوتھے امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ کا انتخاب ۲۴؍ مارچ ۱۹۵۷ء کو مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ میں عمل میں آیا، انتخاب کے چوتھے روز ۲۷؍ مارچ ۱۹۵۷ء کو دفتر تشریف لائے اور مختصر معائنہ کے بعد کتاب الاحکام میں لکھا:
’’امارت شرعیہ ہر طبقہ اور ہر خیال کے مسلمانوں کا مشترک ادارہ ہے ، جس کا مقصد بنیادی عقیدہ کی وحدت پر مسلمانوں کی شرعی تنظیم ہے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، مسلمانوں میں ممکن حد تک اسلامی احکام جاری ہوں، اور مسلمان اس ملک میں اسلامی زندگی گذار سکیں، ظاہر ہے کہ یہ مقصد عظیم تعصب ، تنگ نظری ، پارٹی بندی اور اپنے مسلک سے ہٹے ہوئے لوگوں پر طعن وتشنیع کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘آگے لکھتے ہیں۔
’’ ایسا طریقۂ کار اختیار کریں کہ مختلف مسلک اور خیال کے ادارے اور اشخاص ، مقصد عظیم کے لیے امارت شرعیہ کے گرد یہ حسن ظن رکھتے ہوئے جمع ہو سکیں کہ یہاں ان کی انفرادیت پر حملے نہ ہوں گے اور نہ ان کو مشتبہ نگاہوں سے دیکھا جا ئے گا۔ (دینی جد وجہد کا روشن باب)
حضرت امیر شریعت رابع کے ۱۹۹۱ء میں انتقال کے بعد مولانا عبد الرحمن صاحب پانچویں امیر شریعت منتخب ہوئے، امیرمنتخب ہونے کے بعد جو آپ نے پہلا خطبہ دیا ، اس میں فرمایا:
’’آج کے نازک حالات میں مسلمانان بہار واڈیشہ کی امارت کے منصب کی جو بھاری ذمہ داری اس حقیر پر عائد کی گئی ہے، میں اس کی نزاکت کومحسوس کرتا ہوں، اور اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے کمزور بندے کو قوت اور ہمت عطا فرمائے، اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے، میں اپنی طاقت بھر اس کے لیے کوشاں رہوں گا کہ اللہ کے احکام کی تنفیذ اور حضور اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو جاری کرنے کی راہ میں سلف اور خاص کر پچھلے چاروں امراء شریعت اور بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی روش پر چلتا رہوں گا، مجھے یقین ہے کہ جملہ برادران اسلام بلا لحاظ اختلاف ومسلک وخیال ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر اللہ کے دین کی حفاظت کی راہ میں اس حقیر کے ساتھ تعاون کریں گے ۔ ‘‘ (نقیب ۸؍ اپیل ۱۹۹۱)
امیر شریعت خامس کے انتقال کے بعد چھٹے امیر شریعت کی حیثیت سے مولانا سید نظام الدین صاحب کا انتخاب ہوا، حضرت نے امت مسلمہ کے نام اپنے پہلے پیغام میں لکھا:
’’یکم نومبر ۱۹۹۸ء کو مجلس ارباب حل وعقد کا اجلاس ہوا اور اس نے اتفاق رائے سے امیر شریعت سادس کی حیثیت سے میرا انتخاب کیا اور ایک بڑی ذمہ داری میرے کمزور کاندھوں پر ڈال دی ہے ، میں اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فیصلہ سمجھتا ہوں اور اس کی بار گاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس عظیم منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی توفیق واستطاعت فرمائے۔‘‘
حضرت نے لکھا : ’’بحیثیت امیر شریعت اس موقع پر یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امارت شرعیہ جس طرح اب تک اسلاف کے طریقہ پر چلتی رہی ہے آئندہ بھی اس روش پر گامزن رہے گی ۔ ‘‘ (نقیب ۲۳؍ نومبر ۱۹۹۸)
چھٹے امیر شریعت کے وصال کے بعد ساتویں امیر شریعت کی حیثیت سے مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کا انتخاب ۲۹؍ نومبر ۲۰۱۵ء کو دار العلوم رحمانی زیرو مائل ارریہ میں عمل میں آیا، اس موقع سے آپ نے مجلس ارباب حل وعقد کے ارکان سے اپنے پہلے خطاب میں فرمایا :
’’آپ حضرت نے جو ذمہ داری میرے سپرد کی ہے وہ بہت ہی نازک اور اہم ہے، اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے اللہ کے فضل کے علاوہ آپ حضرات کی مضبوط ، مستحکم اور مربوط معاونت کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے یہاں موجود آپ تمام حضرات اور بہار اڈیشہ جھارکھنڈ کی عوام کا مجھے اور امارت شرعیہ کو مکمل تعاون ملے گا۔‘‘
حضرت نے فرمایا : لوگوں پر تبصرہ کرنے سے پہلے ہم خود اپنا محاسبہ کریں، اس لیے کہ شخصیتیں بہت مشکل سے بنتی ہیں اور آسانی سے پگھل جاتی ہیں، اگر شخصیتوں اور اداروں کی حفاظت کریں گے تو ہم مضبوط ہوں گے ۔ (نقیب۷؍ دسمبر ۲۰۱۵ء)
ان تمام امراء شریعت کے پہلے احساسات وخیالات کو طویل اقتباس کے ساتھ نقل کر کے یہ بتانا مقصودہے کہ امیر شریعت کا منصب عہدہ نہیں ایک ذمہ داری ہے ، سارے امراء شریعت نے اس کا اظہار کیا ہے، سمع وطاعت پر بھی زور دیا ہے، یہ دو طرفہ معاملہ ہے اور اسی میں امارت شرعیہ کی ترقی کا راز مضمر ہے۔
مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی افسوسناک،طلبہ کا کوئی پرسانِ حال نہیں
نئی دہلی(نمایندۂ خصوصی) ’مانو‘ ایک سینٹرل یونیورسٹی ہے، جہاں ریگولر تعلیم کے ساتھ ساتھ فاصلاتی نظامِ تعلیم بھی رائج ہے،جس کے تحت ملک بھر کے ہزاروں طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس کے نام پر پورے ملک میں اس یونیورسٹی کے کئی مقامی مراکز ہیں جہاں درس و تدریس کے ساتھ امتحانات بھی منعقد ہوتے ہیں ، اس عنوان سے یونیورسٹی کو اچھی خاصی گرانٹ بھی ملتی ہے،مگر زمینی سطح پر شعبۂ فاصلاتی تعلیم کی حالت انتہائی خستہ ، ناگفتہ بہ اور طلبہ کے لیے حد درجہ تکلیف دہ ہے ۔ اس شعبے میں داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کو نہ تو وقت پر کتابیں بھیجی جاتی ہیں اور نہ ہی وقت پر امتحان ہوتاہے اور رزلٹ شائع ہونے میں تو تقریباً پانچ مہینے تک کا وقفہ ہو جاتاہے ،پھر کاپی جانچ کرنے کا معلوم نہیں کیا نظام ہے کہ تمام سوالات کے مطلوبہ جوابات دینے کے باوجود عموماً طلبہ کے صرف ۴۵ یا زیادہ سے زیادہ ۵۰فیصد نمبرات آتے ہیں ،جس کی وجہ سے یہاں تعلیم پانے والے طلبہ ترقی کرنے اور تعلیمی میدانوں میں آگے بڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں ؛کیوں کہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں ماسٹرز یا پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے کم از کم ۵۰ فیصد نمبرات حاصل کرنا ضروری ہے ،نیز جو طلبہ یہاں سے بی اے کرنے کے بعد بی ایڈ کرتے ہیں ، وہ کم نمبر کی وجہ سے صلاحیت کے باوجود سرکاری اداروں میں بحالی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کن مرحلہ تو رزلٹ کا ہوتا ہے،وقت پر رزلٹ نہ آنے کی وجہ سے، بڑی مشکل سے کسی بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد بھی وقت مقررہ پر مارک شیٹ اور سرٹیفکیٹ جمع نہ کرپانے کی بنا پر ان کا داخلہ ختم کردیا جاتاہے۔
اس سال تو کورونا کے نام پر یونیورسٹی کے اس شعبہ نے طلبہ پر ظلم کی انتہا ہی کردی ہے ،۲۰۲۰ء کے اگست میں ہونے والا امتحان ایک سال کی تاخیر سے ۲۰۲۱ء کے اگست میں کروایا گیا اور اب امتحان پر دو ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے؛لیکن رزلٹ کا کوئی پتہ نہیں ہے ،حالانکہ بہت سے طلبہ کو مختلف یونیورسٹیوں کے مختلف کورسز میں داخلہ لینے کی وجہ سے کہیں ۱۵ اور کہیں ۲۰نومبر تک فائنل ایئر کا رزلٹ جمع کرنا ضروری ہے ،ورنہ ان کا داخلہ ختم ہوجائے گا۔ ایڈمیشن لینے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ جب وہ ’مانو‘ کے ذمے داروں کو ای میل کرتے ہیں، تو ان کو کوئی جواب نہیں ملتاہے، اسی طرح اگر وہ فون کرتے ہیں،تو ان کا فون یاتورسیو نہیں ہوتا یا رسیو ہوتا ہے، تو ان کی رہنمائی کرنے کے بجائے یہ کہہ کرکہ مجھے نہیں معلوم ہے ،فون رکھ دیا جاتا ہے اور ان کو مایوسی کے غار میں بے دریغ ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ اپنے ہی طلبہ کے ساتھ مانو کے ذمے داروں کا یہ رویہ نہایت شرمناک اور غیر اخلاقی؛بلکہ غیر انسانی ہے۔ ایک تو یوں بھی اس ملک میں مسلمانوں کے لیے تعلیم کی راہیں اتنی آسان نہیں،بہت سے نوجوان جو اپنے گھریلو حالات یا دوسری ناگزیر وجوہات کی بنا پر ریگولر کورسز میں داخلہ نہیں لے سکتے،وہ ’مانو‘ کے شعبۂ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں،مگر یہ بھی اگر طلبہ کے تئیں ایسی سرد مہری اور بے حسی کا مظاہرہ کرے گی، تو کون اور کیوں یہاں داخلہ لے کر وقت برباد کرنا چاہے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ مولانا آزاد یونیورسٹی کے فاصلاتی تعلیم کے شعبے میں داخلہ لینا اپنی زندگی کوبرباد کرنے کے مترادف ہے۔ ایک طالب علم نے بڑی عاجزی اور منت سماجت کے ساتھ وہاں کےایک ذمے دار سے کہا کہ رزلٹ آنے سے قبل حد درجہ ضرورت کے وقت یونیورسٹیز اپنے طلبہ کو کنڈیشنل رزلٹ؍سرٹیفکٹ دیتی ہیں ،آپ بھی دے دیجیے ؛تاکہ جہاں میرا داخلہ ہوا ہے وہاں داخلہ باقی رہ جائے ؛کیوں کہ میں نے بڑی مشقت ومحنت اورشب وروز ایک کرکے تیاری کرنے کے بعد وہاں داخلہ لیا ہے ،اگر سرٹیفکٹ نہیں دیاگیا تو میراداخلہ ختم ہوجائے گا ،تو انہوں اس طالب علم کے جذبات سے کھیلتے ہوئے کہاکہ ہمارے یہاں یہ سسٹم نہیں ہے اور اسی پر بس نہیں کیا ؛بلکہ اس سے اس اہل کار نے پوچھا کہ تمھیں میرا نمبر کہاں سے ملا ،پھر نمبر دینے والے کانام بتانے پر اسے بھی برا بھلا کہا اور اس طالب علم سے کہاکہ آیندہ مجھے فون مت کرنا۔ یہ کیسا شرمناک رویہ ہے،جبکہ تعلیمی اداروں میں دوسروں کے تعاون،ہمدردی،بلند اخلاقی اور رہنمائی کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہر تعلیمی ادارہ اپنے طلبہ کے مستقبل کو روشن کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ؛لیکن ’مانو‘ کے ذمے داروں کا رویہ اس کے بر عکس ہے۔بہت سے طلبہ کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی نے فالو آن کورسز کے لیے رجسٹریشن اور پیمنٹ کی تاریخ کا اعلان کیا اور اب اس میں ۲۱؍نومبر تک توسیع بھی کردی گئی ہے،مگر ویب سائٹ پر ۲۰۱۹ء میں داخلہ لینے والے طلبہ کے لیے رجسٹریشن کا آپشن ہی نہیں آرہا ہے اور طلبہ اگر مقامی مرکز یا ’مانو‘سے رابطہ کرتے ہیں تو انھیں تشفی بخش جواب نہیں مل رہا ہے،جس کی وجہ سے وہ بھی پریشان ہیں اور مزید ایک تعلیمی سال کے ضیاع کا خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔
یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن، جو بظاہر کافی ایکٹیو نظر آرہے ہیں اور یونیورسٹی کے نظام کو بہتر کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں،انھیں ترجیحی بنیاد پر شعبۂ فاصلاتی تعلیم کے نظام کو بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہیے،خاص طورپر داخلے کے پروسیس، کتابوں کی ترسیل،امتحان کے نظام اور نتائجِ امتحان کے اجرا کے سلسلے میں جو لاپروائی اورغیر ذمے دارانہ رویہ اس شعبے کا رہتا ہے،اسے جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے؛تاکہ طلبہ کا یونیورسٹی پر اعتماد بحال ہو اور وہ یہاں سے اپنے تعلیمی مراحل کی تکمیل کرکے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کے قابل بن سکیں۔
پٹاخوں پر پابندی کسی کمیونٹی کے خلاف نہیں،سپریم کورٹ کاانتباہ،جان کی قیمت پر جشن منانے کی اجازت نہیں
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے جمعرات کو پٹاخوں پرپابندی پرکہاہے کہ یہ کسی خاص گروہ یا برادری کے خلاف نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کہاہے کہ وہ جشن کی آڑ میں شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ جسٹس ایم آر شاہ اور اے ایس بوپنا کی بنچ نے واضح کیاہے کہ وہ اپنے احکامات پر مکمل عمل چاہتا ہے۔ آپ (پروڈیوسرز) جشن کی آڑ میں شہریوں کی زندگیوں سے نہیں کھیل سکتے۔ ہم کسی خاص برادری کے خلاف نہیں ہیں۔ بنچ نے کہاہے کہ ہم ایک مضبوط پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہاہے کہ پٹاخوں پر پابندی کا پہلا حکم تفصیلی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے پاس کیا گیا تھا۔ تمام پٹاخوں پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ یہ وسیع تر عوامی مفاد میں تھا۔ ایک خاص تاثر بنانا۔ اس سے یہ اندازہ نہ لگایا جائے کہ اس پر پابندی کسی خاص مقصد کے لیے لگائی گئی تھی۔ پچھلی بار ہم نے کہاتھاکہ ہم جشن کے راستے میں نہیں آ رہے ہیں لیکن عوام کے بنیادی حقوق کی راہ میں نہیں آ سکتے۔
نینی تال کی سیاحت کے ساتھ ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس علاقہ میں متعدد رفقائے تحریک سے ملاقات ہوئی اور وہاں انجام دی جانے والی تحریکی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوئی ـ یہ چیز بھی مجھے خوش کرنے والی تھی ـ
ہلدوانی میں جماعت کے ایک بزرگ رکن جناب عبد الحمید ادیب ہیں ـ سرکاری اسکول میں ٹیچر تھے ، کافی عرصہ سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں ـ ادبی ذوق رکھتے ہیں ـ دو برس پہلے ان کا سفر نامۂ حج ‘رودادِ حرم’ کے نام سے شائع ہوچکا ہےـ ان سے پہلے ہی رابطہ ہوگیا تھاـ میں نے عرض کیا : ” ہم لوگ ساڑھے دس بجے شب تک پہنچیں گے ، اس لیے راستے میں کچھ کھا لیں گے ، آپ رات کے کھانے کا انتظام مت کیجیے گاـ” کہنے لگے : ” یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ ہمارے مہمان ہیں ـ” ہم ہلدوانی ریلوے اسٹیشن پر اترے تو انہیں اپنے بیٹے کے ساتھ منتظر پایاـ بہت شرمندگی ہوئی کہ انھوں نے اتنی زحمت کی ، جب کہ ان کی عمر 80 برس کو پہنچ گئی ہےـادیب صاحب ماشاء اللہ اب بھی سرگرم ہیں ـ تحریکی رسائل منگواتے ہیں اور خود ہی انہیں تقسیم کرتے ہیں ـ تحریکی موضوعات پر ان سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی ـ انہیں اس بات پر متفکر پایا کہ تحریک کی ابتدا میں لوگ جس جوش و جذبہ ، شعور اور قربانی کے ساتھ اس میں شامل ہوتے تھے وہ اب تحریک میں شامل ہونے والوں میں نظر نہیں آتاـ میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع شدہ بچوں کے لیے کہانی کی کتابیں لے گیا تھاـ ان کے پوتوں پوتیوں کو دیں تو وہ بہت خوش ہوئے _ ان کی بہوئیں بھی میری اہلیہ کے پاس آگئیں اور دیر تک گفتگو کرتی رہیں ـ اہلیہ نے انھیں چھوٹی موٹی چیزیں : اسٹال ، چوڑیاں وغیرہ تحفے میں دیں تو انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیاـ
ادیب صاحب نے نینی تال کی سیر کے لیے ایک ٹیکسی والے سے بات کرلی تھی ـ انھوں نے اس سے کہا : ” یہ بہت بڑے مولانا ہیں ، پوری دنیا کا سفر کرتے ہیں ، انہیں بہت آرام سے لے جانا اور کسی شکایت کا موقع نہ دینا _” شاید ان کی اس تاکید کا اثر تھا کہ اس نے ہمارا بہت خیال رکھا _ وہ اتنا گُھل مل گیا جیسا ہمارا فیملی ڈرائیور ہو _ جتنا کرایہ طے ہوا تھا ، ہم نے اس سے کچھ بڑھا کر ادا کیاـ وہ بہت خوش ہواـ اس نے رخصت ہوتے ہوئے کہا : ” میں بہت دنوں سے گاڑی چلا رہا ہوں ، لیکن آپ لوگوں جیسی سواریاں میری گاڑی میں بہت کم بیٹھی ہیں ـ” میں نے اس پر اللہ کا شکر ادا کیاـ
سیاحت سے واپسی پر جناب فخر الدين صاحب ہمارے منتظر تھے کہ ہمیں انہی کے یہاں قیام کرنا تھا _ تحریک اسلامی سے محبت انہیں پشتوں سے ملی ہےـ بہت تپاک سے ملے _ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی ، لیکن ایسا لگا کہ بہت پرانی شناسائی ہےـ میں نے ان سے سوال کیا : ” آج سے 47 برس پہلے ، جب میں درسِ گاہ اسلامی رام پور میں زیرِ تعلیم تھا اور میری عمر دس گیارہ برس تھی ، میں درس گاہ کے بچوں کے ساتھ اس علاقے میں پکنک میں آیا تھا _ وہ کون سی جگہ تھی؟” انھوں نے جواب دیا : ” وہ یہی جگہ تھی جہاں آپ بیٹھے ہوئے ہیں ـ” ان کی اس بات نے مجھے جذبات سے مغلوب کردیاـ میں نصف صدی قبل کی یادوں میں کھوگیا ، جب ہم نے یہاں کئی دن گزارے تھے ، خوب کھیلے کودے تھے ، گنّے کے کھیتوں سے گنّے توڑ کر کھائے تھے ، یہاں گنّے کا رس نکال کر گُڑ بنایا جاتا تھا تو گنے کا رس پیا تھاـ
فخر الدین صاحب نے میری موجودگی سے فائدہ اٹھاکر کئی پروگرام رکھوا دیےـ بعد نمازِ عشا خطاب ، جس میں اطراف سے خاصے لوگ آگئے ، اگلے دن بعد نمازِ فجر درسِ قرآن اور ساڑھے دس بجے خواتین سے خصوصی خطاب ـ ان پروگراموں میں مجھے اصلاحِ معاشرہ کی ضرورت بیان کرنے کے ساتھ اس میدان میں جماعت اسلامی کی کوششوں کا تعارف کرانے کا موقع ملاـ
اتراکھنڈ کا علاقہ پہلے جماعت اسلامی ہند کے حلقۂ اترپردیش (مغرب) کے ماتحت تھاـ 2018 میں اس کا نظم الگ کردیا گیاـ اِس میقات میں مرکزِ جماعت میں ایک نیا شعبۂ توجہ طلب /کم زور حلقوں (Focused Zones) کا قائم کیا گیا ہے ، جس کے سکریٹری محترم جناب شفیع مدنی اور اسسٹنٹ سکریٹری جناب محمد نیّر ہیں ـ برادر مکرّم محمد طاہر کو اتراکھنڈ کا انچارچ اور برادر عزیز انس کو ان کا معاون بنایا گیا ہےـ سیاحت سے ہماری واپسی پر یہ دونوں حضرات بھی آگئے تھے اور آخر تک ہمارے ساتھ رہےـ طاہر صاحب نے بتایا کہ اتراکھنڈ میں جماعت کے 26 ارکان ہیں ـ زیادہ تر لوگ کاشی پور ، رام نگر اور رڑکی میں ہیں ـ کچھ دوسرے مقامات پر بھی ہیں ـ SIO, GIO, children Circle اور حلقۂ خواتین بھی قائم ہیں ـ
فخر الدین صاحب کا بڑا فارم ہےـ انھوں نے شتر مرغ ، بطخیں ، مرغے مرغیاں ، طوطے ، کبوتر وغیرہ پال رکھے ہیں ـ مرغوں نے رات بھر سونے نہیں دیاـ میں نے کہا : ” مرغ علی الصباح بانگ دیتے ہیں ، وہ تہجد اور آہِ سحر گاہی کے لیے لوگوں کو بیدار کرتے ہیں ـ یہ کیسے مرغ ہیں جو رات بھر چیختے چلّاتے ہیں؟” طاہر صاحب نے کہا : ” یہ مرغ زیادہ متّقی و پرہیزگار ہیں ، یہ رات بھر اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ـ”
بھائی نعمان بدر فلاحی اسی علاقے کے رہنے والے ہیں ـ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں ریسرچ کررہے ہیں ـ ان سے بات ہو گئی تھی ـ ان کے والد محترم اور بھائی بعد عشاء خطاب کے موقع پر اور والدہ محترمہ خواتین کے خصوصی پروگرام میں آگئی تھیں ـ انھوں نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تو واپسی میں چند منٹ کے لیے ان کے یہاں رکےـ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بھائی نعمان کے والد بھی درس گاہ اسلامی رام پور کے فیض یافتہ ہیں ـ یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ میرے درس گاہ اسلامی رام پور کے استاذ مولانا محمد ایوب اصلاحی جیراج پوری (مؤلف تعلیم النحو) ان کے ماموں ہیں ـ
نیویارک:امریکی ریاست نیوجرسی میں استاد کو مسلمان طالب علم سے نفرت انگیز رویہ مہنگا پڑ گیا، اسکول انتظامیہ نے ٹیچر کو معطل کردیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق نیوجرسی ہائی اسکول کے ایک مسلم طالب نے اسائنٹمنٹ سے متعلق پوچھا، جواب میں ٹیچر نے کہ ہم دہشت گردوں سے با ت نہیں کرتے،،تم اسائنمٹ گھر میں مکمل کر سکتے ہو۔استاد کے نفرت انگیز جملے پر قریب کھڑے کچھ لوگوں نے قہقے لگائے، طالب علم کی شکایت پر استاد کو معطل کردیا گیا، اس سے قبل ایک ٹیچر نےمسلم طالبہ کا حجاب کھینچ کر اتار دیا تھا۔
نئی دہلی: جامعہ ہمدرد نئی دہلی میں نیشنل سروس اسکیم (این ایس ایس) کے زیر اہتمام آج مورخہ 28 اکتوبر کو "سوچھ بھارت ابھیان” کے عنوان سے ایک ریلی نکالی گئی۔ یہ ریلی صفائی ستھرائی کے سلسلے میں بیداری پیدا کرنے کی غرض سے کی گئی۔ واضح رہے کہ آزادی کی پچھترویں سالگرہ مناتے ہوئے مختلف وزارتوں اور شعبہ جات کے ذریعے متعدد پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں۔ منسٹری آف یوتھ ایفئرز اینڈ اسپورٹس حکومت ہند کے تحت این ایس ایس کی جامعہ ہمدرد یونٹ نے رواں ماہ کی 2 تا 31 تاریخ کے دورانیے میں یہ بیداری ریلی نکالی جس میں قریب سو کی تعداد میں این ایس ایس سے وابستہ رضاکاروں نے شرکت کی۔ اس عظیم الشان جلوس کا جامعہ ہمدرد کے وی سی پروفیسر ڈاکٹر افشار عالم نے ربن کاٹ کر صفائی بیداری پر مشتمل نعروں کے ساتھ افتتاح کیا۔ اس موقعے پر جامعہ ہمدرد کے رجسٹرار سید سعود اختر، صدر شعبہ فلاح و بہبود طلبہ پروفیسر ریشمہ نسرین، کلچرل نگراں ڈاکٹر سیما رانی سمیت جامعہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ نمائندگان بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ ادارہ کے تدریسی و غیر تدریسی عملہ نے بھی اس میں بھرپور حصہ لیا۔ سوچھ بھارت کے تحت منعقدہ پروگراموں کی نگرانی جامعہ ہمدرد شعبہ یونانی کے استاذ ڈاکٹر خورشید احمد انصاری کوآرڈینیٹر این ایس ایس و صدر شعبہ تشریح البدن نے کی جو اس موقع پر بطور خاص رضاکاروں کی قیادت کر رہے تھے۔
ریلی میں مجیدیہ یونانی اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر منہاج، ڈاکٹر انوار حسین خان، یونانی فزیالوجی سے نشاط قدوس، شعبہ یونانی کے اساتذہ ڈاکٹر عظمی بانو، ڈاکٹر عمر جہانگیر، ازہر جبیں، سیدہ انعم، رہیبلیشن شعبہ سے مبین خان اور اسکول آف نرسنگ اینڈ ایلائڈ ہیلتھ کے طلبہ و اساتذہ ساتھ جامعہ کے حفاظتی دستوں کے سربراہ اور طلبہ شعبہ یونانی میڈیسن نے پورے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے حصہ لیا۔
ایک ایسے وقت میں جب مسلمانوں کو سیاسی طور پر حاشیہ پر دھکیل دیا گیا ہے اور مسلم نام لینے سے تقریباً ہر سیاسی پارٹی کے رہنما گریز کرتے ہیں شاید اس اندیشہ کے تحت کہ ایسا کرنا مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنا سمجھا جائے گا جس سے اکثریتی طبقہ ناراض ہو سکتا ہے اور ظاہر ہے کوئی بھی پارٹی ووٹروں کی اتنی بڑی تعداد کی ناراضگی کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی۔
غالباََ اسی لئے اکھلیش یادو نے چند روز قبل راج بھر کے ساتھ اتحاد کا اعلان کے موقعے پر کہا : ونچتوں، شوستوں، پچھڑوں، دلتوں، مہیلاؤں، کسانوں نوجوانوں اور ہر کمزور ورگ کے لئے سماجوادی پارٹی بھارتیہ سماجوادی پارٹی کے ساتھ مل کر لڑے گی۔ سیدھے سادے لفظوں میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے لڑے گی یہ کہنا بھی اب گوارہ نہیں ہے۔
٢٠١٤ سے قبل نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو شو کیس میں سجاوٹ کے لئے ، اسٹیج پر بٹھانے کے لئے پوسٹر اور بینرز پر ان کے فوٹو لگا کر سیکولرازم اور شمولیت والی پارٹی کی یقین دہانی کے لئے مسلم چہروں کی ضرورت ہوتی تھی؛لیکن ٢٠١٤ کی انتخابی مہم کے وقت سے ملک کا مزاج ایسا بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلم چہرے کیا مسلم ووٹرز سے بھی بے اعتنائی کی جانے لگی۔ اس کی شروعات بی جے پی نے کی لیکن جلد ہی دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی اسی نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا۔ اور اس طرح انتخابی سیاست میں مسلمان بے وقعت اور بے حیثیت کر دیے گئے۔
مسلمانوں کا ذکر مسلمان کہہ کر لینا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے "اقلیتوں” کے ضمن میں چونکہ مسلم بھی ہیں اس لئے اقلیت کہہ کر کام چلا لیا جاتا تھا۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہوتی تھی کہ مسلمان یا ہندو کہنے سے مذہب کی بنیاد پر علیحدگی کے شعور کو تقویت ملتی ہے۔ درست لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مذہب کا نام ترک کر کے ذات برادری کے نام لۓ جانے لگے۔ چنانچہ بہوجن سماج نے سورنوں کے لئے ایودھیا میں اجلاس کیا تو بی جے پی نے ایک طرف او بی سی کو وزارتی عہدوں سے نوازا اور اس کی خوب تشہیر کی تو دوسری طرف برہمن سماج کی منہ بھرائی کی۔ اسی طرح مختلف سیاسی پارٹیاں مختلف برادریوں جاتیوں ؛ یادو، کرمی، تیلی، وغیرہ وغیرہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگی ہیں۔
ایک عرصہ سے "مسلمانوں کے مسائل ” جیسے الفاظ بھی متروک ہو گۓ اس لئے کہ سیاسی رہنماؤں کو اندیشہ ہے کہ ایسا کہنے سے اکثریتی طبقہ ناراض ہو سکتا ہے جس کا انجام اکثریتی طبقہ کی ایک بڑی تعداد کے ووٹ سے محروم ہونا ہوگا؛ چنانچہ براہ راست ” مسلمان” کہنے کی بجائے ” اقلیتوں” سے کام چلایا جانے لگا؛ لیکن مسلمانوں کے لئے اس اصطلاح کا اتنی کثرت سے استعمال ہوا کہ اب استعارہ اور کنایہ سے نہیں بلکہ اقلیت کہتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں جو شبیہ ابھرتی ہے وہ ہے مسلمان۔ اب اقلیت سے مراد "مسلمان” عام فہم تھا ۔ لہٰذا اس سے بھی بچنے کی ضرورت محسوس کی گئی چنانچہ اب اس نۓ دور میں لفظ ” اقلیتوں” کا استعمال بھی شاذونادر ہو رہا ہے۔ اس کی جگہ کثرت سےلفظ "دلتوں” کا استعمال ہوتا ہے۔ ایک وہ بھی دور تھا جب لالو پرساد یادو کا مسلم + یادو ‘ایم وائی’ سمیکرن ٹاک آف د ٹاؤن ہوتا تھا۔ ملائم سنگھ یادو ” مولانا ملائم” کہے جاتے تھے۔ جن حلقوں میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ہے، وہاں ان کے مسائل کے حل کی بات کی جاتی تھی؛لیکن ایسا لگتا ہے اب یہ لفظ کوئی متعدی مرض ہے، جسے بولنے سے ان کے جسم میں جراثیم سرایت کر جائیں گے !
الناس على دين ملوكهم … اصولاً ابھی تک یہ ملک کسی ایک دین کے حکمرانوں کا نہیں ہے کہ لوگ اپنے حکمرانوں کی اتباع کریں لیکن ملک کا مزاج ایسا بنا دیا گیا ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی ایک طرف اکثریتی فرقہ کے مذہبی تقریبات اور مقدس دنوں سے اپنی مہم کی شروعات کر رہے ہیں تو دوسری طرف ہر ایسی علامت سے گریز کر رہے ہیں جس سے مسلمانوں کی شناخت ٹپکے ۔
حکومت تری پورہ میں مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے ، شر پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے: مولانا احمد ولی فیصل رحمانی
امیر شریعت بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ نے تری پورہ میں بھگوا شدت پسندوں کے ذریعہ مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم کی مذمت کی
پٹنہ:شمال مشرقی ہندوستان کی سرحدی ریاست تری پورہ میں پچھلے ایک ہفتے سے بھگوا شدت پسند وں کی جانب سے اناکوٹی، مغربی تریپورہ، سیپاہی جالا اور گومتی تریپورہ اضلاع میں کئی روز سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد کا خوفنا ک سلسلہ جاری ہے، جس میں مساجد کی توڑ پھوڑ، مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ اور مسلم دکانداروں کو اپنے مقام سے نکلنے پر مجبور کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ امیر شریعت بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے اس تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کو شرمناک قرار دیا ہے اور مرکزی و صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد تریپورہ کے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی جائے، تری پورہ سمیت پورے ملک میں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبر و کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور شر پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرے ۔
واضح ہو کہ تریپورہ میںچند دنوں پہلے ریاست کے دارالحکومت اگرتلہ اور دیگر قصبوں میں ہندو تشدد پسند جماعت ’’وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی) اور ہندو جاگرن منچ کے ذریعہ بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے موقع پر پنڈال میں ہونے والے فرقہ وارانہ معاملہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے، جو کہ دیکھتے دیکھتے مقامی مسلمانوں کے خلاف مظاہروں میں بدل گئے ۔ ان مظاہرین نے مساجد اور مسلمانوں کے گھروں کو جم کر نشانہ بنایا اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی جان و مال کا نقصان کیا ۔ کئی بے قصور مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر کے ان کا ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کیا۔ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہندوتوا ہجوم کی جانب سے مسلم علاقوں میں مساجد، گھروں اور افراد پر حملہ کرنے کے کم از کم 27 واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں 16 واقعات ایسے ہیں جہاں مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور ان پر زبردستی وی ایچ پی کے جھنڈے لہرائے گئے ۔ کم از کم تین مساجد، اناکوٹی ضلع کی پالبازار مسجد، گومتی ضلع کی ڈوگرہ مسجد اور وِشال گڑھ میں نرولا ٹیلا کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے اور ان شر پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے ۔تری پورہ کے وزیراعلی اور ریاستی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت بھی مکمل طور پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے حکومت چاہتی ہی نہیں ہے کہ تشدد ختم ہو اور امن قائم ہو۔
امیر شریعت نے پولیس کے اس رویہ پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ، پولیس اکثر معاملوں میں شر پسندوں کی حمایت کرتی ہوئی نظر آتی ہے بجائے فسادات پر قابو پانے کی کوشش کرنے کے الٹا ظلم کا شکار ہوئے مظلوم مسلمانوں کو ہی جھوٹے مقدموں میں پھنسا کرانہیں قیدو بند کی صعوبتوں میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ یا پھر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔اس کی کارروائی تب شروع ہوتی ہے جب مسلمانوں کا اچھا خاصا نقصان ہو چکا ہوتا ہے ۔ حضرت امیر شریعت نے مزید کہا کہ ملک میں ووٹ بینک کی سیاست اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہندو ووٹ بینک کھسکنے کے ڈر سے حزب اختلاف کی جماعتیں بھی مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و تشدد کے خلاف بولنے کو تیار نہیں ہیں۔ حضرت امیر شریعت نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت پورے تریپورہ کا مسلمان ڈرا ہوا ہے ۔ بھگوا شدت پسند جماعتوںنے سبھی ہندو نوجوانوں کو ’’ریڈیکلائز‘‘ کر دیا ہے ۔ ہندو قدامت پسند جماعتیں مسلسل پوری ریاست میں ریلیاں نکال رہی ہیں اور مسلم مخالف نعرے لگا رہی ہیں۔ مقامی لوگ تشدد کے خلاف انتطامیہ کے اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ مقامی لوگوں کے بیان کے مطابق تشدد کئی دنوں سے جاری تھا لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے تشدد کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تو پولیس نے فوراً دفعہ 144 کا اعلان کر دیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب یہ لوگ مساجد جلا کر چلے جاتے ہیں، تب پولیس 144 لگاتی ہے۔
امیر شریعت نے ریاستی اور مرکزی دونوں حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تری پورہ میں امن قائم کرنے اور مسلمانوں کو خوف و دہشت کے ماحول سے نکالنے کے لیے فوری اقدامات کرے ساتھ ہی ساتھ جن مساجد کا نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی کی جائے، مسلمانوں کو خصوصی تحفظ فراہم کیا جائے اور جو دہشت پھیلا رہے ہیں ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے تاکہ ریاست میں امن قائم ہو سکے ۔مقتولوں کے ورثا اورزخمیوں کو مناسب معاوضہ دیا جائے اور ان کے بہتر علاج و معالجہ کا انتظام کیا جائے ۔انہوں نے ملک کی تمام اپوزیشن کی جماعتوں سے بھی اپیل کی کہ وہ بھی سیاست سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر مظلوموں کے حق میں کھڑے ہوں اور حکومت پر ظالموں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ بنائیں ۔
عالمی ادارہ صحت کا انتباہ،کورونا بحران ختم ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں
واشنگٹن :عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں کرونا وائرس کا بحران ختم ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق کرونا سے متعلق بنائی گئی کمیٹی کا ہر تین ماہ بعد اجلاس ہوتا ہے، یہ کمیٹی 19 ارکان پر مشتمل ہے، ورچوئل اجلاس میں کرونا وبا پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔طویل ورچوئل اجلاس کے بعد ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کرونا ویکسین لگوانے اور علاج کے ذریعے پیشرفت دیکھی گئی ہے لیکن موجودہ حالات کے تجزیے اور پیش گوئی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی وبا ختم ہونے کا ابھی کوئی امکان نہیں۔کمیٹی نے دوبارہ استعمال کیے جانے والے ماسک، سانس لینے کے آلات اور آئندہ نسل کے لیے ویکسین اور تشخیص و علاج کے حوالے سے مزید تحقیق کا مطالبہ کیا تاکہ طویل عرصے تک عالمی وبا پر کنٹرول کیا جاسکے۔بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کرونا وائرس کی منتقلی کو کم کرنے کے لیے ماسک کا استعمال، جسمانی فاصلہ، ہاتھوں کو صاف رکھنا اور انڈور سطح پر ہوا کے گزر کا بہتر نظام اب بھی ضروری ہے۔کمیٹی کا کہنا تھا کہ طویل عالمی وبا نے انسانی ایمرجنسی، وسیع پیمانے پر ہجرت اور دیگر بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، لہٰذا ممالک کو چاہیے کہ اپنی تیاری اور رد عمل کے منصوبوں پر نظرثانی کریں۔عالمی اداراہ صحت نے افریقا میں عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے درپیش چیلنجز پر تشویش کا اظہار کیا جس میں ویکسین تک رسائی، ٹیسٹ اور علاج کے ساتھ ساتھ عالمی وبا کے ارتقا کی نگرانی کے لیے اعداد و شمار جمع کرنا اور ان کا تجزیہ شامل ہے۔اعداد و شمار کے مطابق افریقہ میں ہر 100 افراد میں 14 ویکسین کی خوراکیں لگائی گئی ہیں، یہ تعداد امریکا اور کینیڈا میں ہر سو افراد میں 128 خوارکیں، یورپ میں 113، لا طینی امریکا اور کیریبین ممالک میں 106، بحر الکاہل میں 103، ایشیا میں 102 اور مشرق وسطیٰ ہر سو افراد میں 78 خوراکیں لگائی گئی ہیں۔کمیٹی نے ممالک سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے منظور شدہ تمام ویکسینز کو تسلیم کریں جبکہ بین الاقوامی سفر کے لیے ویکسی نیشن کا ثبوت لازمی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی یہ واحد شرط ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ شرط عالمی دنیا تک رسائی محدود کرتی ہے اور کرونا وائرس کی ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم کو فروغ دیتی ہے، ممالک کو شرط کے بجائے بین الاقوامی سفر کے لیے خطرات کے نقطہ نظر سے اقدامات اٹھانے چاہئیں، جس میں ٹیسٹ اور قرنطینہ جیسے اقدامات شامل ہیں جب یہ مناسب ہوں۔
ابوظہبی:حالیہ جنوبی افریقہ کے 28 سالہ تجربہ کار وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کاک نے ’بلیک لائیوز میٹر‘ کےلیے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈی کاک کے اس فیصلے کے بعد کرکٹ کی دنیا میں کھلبلی مچ گئی۔ دراصل جہاں پوری دنیا ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے لیے شدید احتجاج کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی افریقی وکٹ کیپر بلے باز نے ویسٹ انڈیز کے خلاف اہم میچ سے قبل ’بلیک لائیوز میٹر‘ ایونٹ میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ ڈی کاک کے اس بڑے فیصلے کے بعد ٹیم انتظامیہ نے بھی سخت قدم اٹھاتے ہوئے انہیں ویسٹ انڈیز کے خلاف فائنل پلیئنگ الیون سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔ڈی کاک کے اس بڑے فیصلے کے بعد سب سے پہلے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلنے کے لیے خود کو غیر دستیاب قرار دے دیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد خبر کی حقیقت سامنے آگئی۔ تاہم معاملہ مزید طول پکڑتا دیکھ کر ہونہار افریقی کھلاڑی نے معافی مانگ لی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں اپنے ساتھی کھلاڑیوں اور کرکٹ سے محبت کرنے والوں سے معافی مانگتا ہوں، میں اس مسئلے کو کبھی بڑا نہیں کرنا چاہتا تھا، میں نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھانے کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ اس کے علاوہ بحیثیت کھلاڑی میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ بحیثیت کھلاڑی ہم پر اس حوالے سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
نئی دہلی : سپریم کورٹ نے NEET-UG 2021کے نتائج کے اعلان کو ہری جھنڈی دے دی ہے۔ سپریم کورٹ نے 16 لاکھ نتائج کا اعلان کرنے کی اجازت دے دی۔ سپریم کورٹ نے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی ہے۔ دراصل ہائی کورٹ نے دو طالب علموں کے NEET کے نتائج پر روک لگا دی تھی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ 2 طلباء کے امتحانی نتائج کو روکا نہیں جا سکتا۔ 16 لاکھ طلباء نتائج کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ ہمیں مفادات کو متوازن کرنا ہوگا۔ سماعت کے دوران جسٹس ایل ناگیشورا راؤ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ تاہم ہم اس بات سے متفق ہیں کہ نتائج کے اعلان کو روکا نہیں جا سکتا، لیکن ان دونوں طلباء کے مفادات کا بھی تحفظ کیا جانا چاہیے، نہ کہ اس کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ آپ کے انسپکٹر نے غلطی مان لی ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم لاکھوں طلبہ کو نتائج کا انتظار نہیں کرا سکتے۔ ہم آپ کو نتیجہ کا اعلان کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان دو طالب علموں کے معاملے میں آپ کو ایک راستہ مل جائے گا۔ عدالت نے دونوں طلبہ کے معاملے پر این ٹی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا ہے۔ اس کی سماعت دیوالی کے بعد ہوگی۔مرکزی حکومت NEET-UG 2021امتحان کے نتیجہ کو لے کر سپریم کورٹ پہنچی۔ بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ مرکز نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کے دو طالب علموں کے دوبارہ امتحان کرانے کے حکم پر روک لگا دی جائے۔ ہائی کورٹ کا یہ حکم غلط نظیر قائم کرے گا۔ ہائی کورٹ کے حکم کی وجہ سے پورے امتحان کا نتیجہ روک دیا گیا ہے۔ اس لیے نتائج کے اعلان میں تاخیر سے انڈرگریجویٹ میڈیکل کورسس جیسے ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس، بی اے ایم ایس، بی ایس ایم ایس، بی یو ایم ایس اور بی ایچ ایم ایس کے داخلے کے عمل میں تاخیر ہوگی۔ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط فائدہ اٹھانے کی غلط مثال قائم کرے گا ۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس این وی رمنا سے جلد سماعت کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے اس حکم نے NEET کے نتائج کے اعلان پر روک لگا دی ہے۔ دراصل بامبے ہائی کورٹ نے دو طلباء کے لیے الگ الگ NEET امتحان کا حکم دیا ہے۔ نیز ان دونوں طلبہ کے امتحان کے بعد ہی نتیجہ کا اعلان کیا جانا ہے۔ NEET کا امتحان گزشتہ ماہ 12 ستمبر کو ملک بھر میں منعقد ہوا تھا۔ امتحان میں تقریباً 16 لاکھ امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔
نئی دہلی :ٹیلی کام کمپنی بھارتی ایئرٹیل کو سپریم کورٹ سے بڑا جھٹکا لگا ہے۔ سپریم کورٹ نے جمعرات کو بھارتی ایئرٹیل کے 923 کروڑ جی ایس ٹی کی واپسی پر روک لگا دی۔ سپریم کورٹ نے بھارتی ایئرٹیل کو رقم کی واپسی کے ہائی کورٹ کے حکم کو منسوخ کردیا۔ دراصل بھارتی ایئرٹیل نے جولائی سے ستمبر 2017 کے درمیان کی مدت کے لیے 923 کروڑ کے جی ایس ٹی ریفنڈ کا مطالبہ کیا تھا۔ مئی 2020 میں دہلی ہائی کورٹ نے بھارتی ایئرٹیل کی عرضی کی اجازت دی تھی۔ سپریم کورٹ نے دعویٰ کی گئی رقم اور رقم کی واپسی کی تصدیق کرنے کی ہدایت حکومت کو دی، جس کے بعد مرکز نے جولائی 2020 میں ریفنڈ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔مرکز نے اپنی درخواست میں دلیل دی تھی کہ بھارتی ایئرٹیل نے جولائی تا ستمبر 2017 کے درمیان ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کی اطلاع دی تھی۔ بھارتی ایئر ٹیل نے دلیل دی تھی کہ اس نے GSTR-2A فارم کے بعدجولائی تا ستمبر 2017 کی مدت کے لیے 823 کا اضافی ٹیکس ادا کیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے رقم کی واپسی کے معاملے کے خلاف حکومت کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے۔
واشنگٹن :پیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والی موبائل ایپلی کیشن واٹس ایپ نے بزنس ورژن استعمال کرنے والے صارفین کے لیے نیا فیچر متعارف کرادیا۔واٹس ایپ کی جانب سے تقریبا 6 برس قبل واٹس ایپ کے ذریعے کاروبار کرنے والے صارفین کے لیے ایک نیا فیچر آزمائشی طور پر متعارف کرایا ہے۔ٹیکنالوجی پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ کی رپورٹ مطابق واٹس ایپ نے بزنس ورژن استعمال کرنے والوں کی سروس کو ریٹنگ دینے کے لیے ’میسج ریٹنگ‘ نامی فیچر متعارف کرایا۔اس فیچر کے بعد بزنس اکاؤنٹس کی مدد سے کاروبار کرنے والوں کی سروس، مصنوعات اور معیار کو دیکھتے ہوئے گاہک ریٹنگ دیں گے۔صارفین کے لیے پانچ اسٹارز متعارف کرائے گیے ہیں۔ جیسے اگر کسی صارف کو آرڈر کی گئی چیز پسند نہیں آئے گی تو اُس کو اختیار ہوگا کہ وہ ایک اسٹار پر کلک کر کے ناپسندیدگی کا اظہار کرسکے گا۔اسی طرح اگر کسی صارف کو سروس، معیار بہتر لگے گا تو وہ اپنی مرضی کے مطابق ایک سے پانچ تک ریٹنگ کرسکے گا۔رپورٹ کے مطابق یہ فیچر آزمائشی طور پر اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے چند صارفین کے لیے متعارف کرایا گیا ہے، کامیاب آزمائش کے بعد اسے دنیا بھر کے صارفین کے لیے متعارف کرایا جائے گا۔
جامعہ نے تحریکِ آزادی ہی نہیں بلکہ تصورِ قومیت کو بھی ابھارا: پروفیسر انور پاشا
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلایہ کے زیر اہتمام آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعے پر آن لائن مذاکرے کا انعقاد
نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ نے نہ صرف تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے، بلکہ قومیت کے اس جدید تصور کو تقویت بخشی جس کے بنا پر ہندوستان کا شمار آج دنیا کی بڑی اور مستحکم جمہوریتوں میں ہوتا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریۂ ہندوستان اور تصور قومیت کو ٹھوس علمی بنیادیں فراہم کیں۔ ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام آزادی کے مہوتسو کے موقعے پر ’’تحریک آزادی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو‘‘ کے زیر عنوان آن لائن مذاکرے میں جے این یو کے استاذ پروفیسر انور پاشا نے کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ معروف محقق اور نقاد پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی نے کہا کہ آزادی کے تصور کا جو خمیر ہے، اس کو ہم جامعہ میں چلتی پھرتی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ جامعہ نے تعلیم کے میدان میں جس طرح ذہن سازی کی ہے اصل میں جامعہ کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے۔ صدر شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے صدارتی خطاب میں کہا کہ آزادی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو ایک ایسا مثلث ہے جو ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔تحریک حریت اور جامعہ ملیہ دونوں کو اردو زبان و ادب میں قوت و استحکام عطا کیا۔ صدر شعبۂ اردو، اودے پور پروفیسر حدیث انصاری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ بہت سی پریشانیوں سے گزرا، لیکن آج ہر میدان میں اپنی شناخت قائم کرچکا ہے۔ بانیان جامعہ ماہرین تعلیم ہی نہیں بلکہ مجاہدین آزدی بھی تھے۔ شعبۂ اردو ، دہلی یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر ابوبکر عباد نے مذاکرے میں گفتگو کے دوران کہا کہ ہندوستان کے دو ادارے جن کا براہ راست تعلق تحریک آزادی اور اردو سے رہا ہے دارلعلوم دیوبند اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ہیں۔ جامعہ کے تمام بانیان صاحب تصنیف تھے اور ان کے بغیر اردو کی تاریخ ناقص ہے۔ صدر شعبۂ اردو ، مولانا آزاد کالج کولکاتا ڈاکٹر دبیر احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے فروغ میں جامعہ نے جو کردار ادا کیا ہے اگر ہم چند ابتدائی ناموں پر غور کریں تو ان سب کا تعلق بنیادی طور پر کہیں نہ کہیں اردو سے ہی ہے۔ مذاکرے کی نظامت کے فرائض کنوینر پروگرام ڈاکٹر شاہ عالم نے انجام دیے۔ جلسے کا آغاز شعبے کے طالب علم حافظ عبدالرحمن کی تلاوت اور اختتام شعبے کے استاد ڈاکٹر مشیر احمد کے اظہار تشکر پر ہوا۔
مذاکرے میں پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر ندیم احمد، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمدمقیم، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر جاویدحسن، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر ثاقب عمران ، ڈاکٹر روبینہ شاہین زبیری اور ڈاکٹر آس محمد صدیقی کے علاوہ بڑی تعداد میں شعبے کے ریسرچ اسکالر اور طلبا و طالبات شریک ہوئے۔
سمستی پور(پریس ریلیز) کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبندکی شاخ،رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہارکے زیراہتمام،مدرسہ تجویدالقرآن،اکبرپورملکی،سمستی پور،میں آج ارباب مدارس کی ایک اہم مٹینگ منعقدہوئی اور رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کے نظام کو فعال،متحرک اور سرگرم بنانے،مدارس اسلامیہ کے مابین ربط باہمی کے جذبہ کوفروغ دینے کے لئے رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ ضلع سمستی پورکی تشکیل عمل میں آئی۔ دارالعلوم دیوبندسے مربوط وغیرمربوط مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران،اساتذہ کرام نے باتفاق رائے رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ ضلع سمستی پورکی سرپرستی کے لئے مولانامحمد یوسف صاحب فریدی قاسمی،نائب مہتمم مدرسہ اسلامیہ چک بہاؤالدین سمستی پور کو منتخب کیا گیا، صدر کے لئے مولانا نذیر احمد ندوی، ناظم مدرسہ ضیاء العلوم روسڑا سمستی پور کے نام پر لوگوں نے اتفاق کیا جبکہ قائم مقام صدر کی ذمہ داری قاری راشد عرفانی مہتمم دارالعلوم تجویدالقرآن سمستی پورکو سونپی گئی اور جنرل سکریٹری کے لئے قاری ممتازاحمد جامعی مہتمم جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور کے نام پر اتفاق رائے کیا گیا ۔
واضح رہے کہ مدارس اسلامیہ عربیہ کے نظام تعلیم وتربیت کو بہتربنانے،مدارس اسلامیہ کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینے اور روابط کو مستحکم کرنے،مدارس اسلامیہ عربیہ کی بقا وترقی کے لئے صحیح ومؤثر ذرائع اختیار کرنے،اسلامی تعلیم اور اس کے مراکزکے خلاف کی جانے والی کوششوں پرنظر رکھنے،مسلم معاشرہ کی اصلاح،شعائر اسلام کی حفاظت،داخلی وخارجی مسائل ومشکلات کا ازالہ اور دیگر اہم مقاصدکوبروئے کارلانے کے لئے دارالعلوم دیوبندکی طرف سے کل ہندرابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند قائم ہے،اس کے نظام کو ملک بھرمیں رائج کرنے کے لئے تمام ریاستوں میں اس کی شاخیں ہیں،ریاست بہارمیں اس کی شاخ قائم ہے،آج رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہارکے زیراہتمام،دارالعلوم تجویدالقرآن سمستی پورمیں ارباب مدارس کا اجلاس منعقدہوا،جس میں رابطہ مدارس اسلامیہ ضلع سمستی پورکا از سرِ نو انتخاب عمل میں آیا،جس کی صدارت قاری راشد عرفانی صاحب نے فرمائی،جناب مفتی محمد صابر صاحب قاسمی نائب صدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہار مشاہدونگراں کی حیثیت سے شریک ہوئےاور صدوروسکریٹری کے ساتھ،نائبین صدورکے لئے مولانامحمد شمس الہدیٰ قاسمی جامعہ میراث الانبیاء لادکپیا بتھان سمستی پور اور مولانا اخلاق احمد صاحب قاسمی ناظم مدرسہ جامعہ صدیقیہ رحیم پور ردولی سمستی پورمنتخب کئے گئے،سکریٹری کے لئے مفتی حامد اقبال صاحب رشیدی ناظم مدرسہ تدریب القرآن گنڈک کالونی دھرمپور سمستی پور اور مولانا نعمت اللہ جامعی ناظم جامعہ عربیہ اشاعت القرآن شتمل پور سمستی پور کے ناموں پر اتفاق کیاگیا ۔ شرکائے مجلس میں مولانا نور عالم قاسمی،مولانا نظام الدین ، مولانا محمد عباس ندوی ، مولانا محمد شہاب الدین عبد الوہاب قاسمی اور مولانا محمد اسلم جاوید کے نام قابل ذکر ہیں۔