19 اکتوبر, 2021
نیند کی پہلی جھپکی آئی ہی تھی کہ محلہ میں پٹاخوں کے شور نے بستر چھوڑنے پر مجبور کردیا، باہر نکلا تو دیکھا عجیب سماں ہے، رنگ برنگی بجلیاں آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہیں، تیز موسیقی کی دھمک حرکت قلب میں اٹھا پٹخ کا سبب بن رہی ہے، (معلوم ہوا کہ چند سالوں پہلے تیز موسیقی ایک بچے کے موت کا سبب بن گئی تھی)، اور دوسری طرف نوجوانوں کا ایک طبقہ آتش بازی میں مگن ہے۔
دل میں ایک خیال آیا کہ انہیں نبی سے محبت نہیں، اسلئے تو آداب عشق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، لیکن یہ بالکل غلط ہے، بخدا اپنے آقا سے ان کو بڑی محبت ہے، بے انتہا عشق ہے، ، پھر ایسا کیوں؟ یہ نبی کی تعلیمات کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ کچھ لوگ محبت ثابت کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کے نزدیک اظہار کافی ہے۔
محبت کے اظہار اور اثبات میں فرق ہے، کوئی اپنے محبوب کے چشم ابرو کی ہر جنبش پر سر تسلیم خم کرتا ہے، اپنی خواہش، اپنی چاہت، اپنی خوشی، اپنی مرضی سب کچھ محبوب کی رضا پر قربان کردیتا ہے، وہ نہیں دیکھتا کہ اردگرد کے لوگ کیا کہتے ہیں، دنیا والے اسے "محبت” کی سرٹیفیکیٹ دیتے ہیں یا نہیں، اس کی بلا سے، اس پر تو صرف یہ جاننے کی دھن سوار ہوتی ہے کہ محبوب کی چاہت کیا ہے، اس پر سو جان قربان کرنے کیلئے ہمہ دم تیار رہتا ہے، محبت کے سارے تقاضے پورے کرنے کے بعد بھی اسے یہ غم کھائے جاتا ہے کہ، پتہ نہیں در محبوب پر اس کی جان نثاری کو قبولیت کا شرف عطا ہوگا یا نہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا اعتقاد ہوتا ہے کہ محبت کا تقاضا ہے کہ محبوب کے رنگ میں رنگ جائیں، اس کے سانچے میں ڈھل جائیں، ورنہ محبت ادھوری ہے۔
اس کے برعکس کچھ لوگوں کے نزدیک محبت کی معراج اس کا اظہار ہے، چناں چہ اظہار محبت کے ہر وہ طریقے اپناتے ہیں جو اس وقت رائج ہوتے ہیں، وہ دنیا کو دیکھتے ہیں کہ لوگ خواہ وہ کسی قوم، کسی مذہب سے ہوں کسی کیلئے اپنی محبت کا اظہار کس رنگ، کس ڈھنگ سے کرتے ہیں، کہیں پھول پیش کئے جاتے ہیں، کہیں آتش بازی ہوتی ہے، کہیں گھر، دوکان، گلی، محلے بجلی کے قمقموں سے روشن کئے جاتے ہیں، راستے اور چوراہے چراغاں کئے جاتے ہیں، ناچ، گانے کی محفلیں سجتی ہیں، موسیقی کی دھن پر تھرک کر بتایا جاتا ہے کہ محبوب میری نسوں میں خون بن کر دوڑتا یے۔
ایسے لوگ اپنے نفس کے ہر مشورہ عمل کرتے ہیں، ان کے دل میں اظہار محبت کا جو راستہ سوجھتا ہے اسے اپنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، محبوب کی چاہت اس کی مرضی کا کوئی مول نہیں ہوتا، اس کا حقیقی مقصد ہوتا ہے کہ آس پاس کے لوگوں کو محسوس ہوجائے کہ یہ عشق میں غرق سچا عاشق ہے۔
"عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہئے” کے تحت مظاہر عشق کا اہتمام بھی ضروری ہے، انکار کی گنجائش نہیں، لیکن اس کے لئے دنیا کے مروجہ طریقوں کے بجائے، وہ طریقے اختیار کئے جائیں جو محبوب کو قبول ہوں، محبت کے تقاضوں پر عمل کیا جائے تو خود بخود اظہار بھی ہوجاتا ہے، حقیقی عشق چھپتا نہیں، زندگی کے ہر ہر قدم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع، آپ پر کثرت درود، نام مبارک سننے پر صلاۃ و سلام، یہ وہ اعمال ہیں جو قرآن و حدیث نے بتائے ہیں، جو مالک دوجہاں اور آقائے دوجہاں کی نظر میں مقبول و محبوب ہیں، آقا کے جاں نثاروں نے حب نبی کے اظہار کیلئے ان ہی کو وسیلہ بنایا، اور محبت کا تقاضا بھی یہی ہیں، یہ سب عشق نبی کے حقیقی مظاہر ہیں، ان طریقوں میں عشق کے اظہار کے ساتھ اس کا اثبات بھی ہے۔
آج گلی محلہ اور آس پاس کی سڑکوں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ رمزیت پسندی اور حقیقت سے زیادہ خود ساختہ مظاہر کا اہتمام کا قدر عام ہو چکا ہے، حد تو یہ ہے کہ پندو نصائح میں مشغول، قرآن و حدیث سے واقفیت کے مدعیان بھی اظہار محبت کے ان طریقوں کی تبریر و توصیف میں لگے ہیں۔
میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ یہ لوگ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی محبت سے عاری ہیں جس دل میں حب نبی نہیں اس کے مومن ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ہاں یہ ضرور کہوں گا کہ بخدا یہ لوگ صرف اظہار پر اکتفاء کرنے کو محبت کی معراج سمجھتے ہیں،سید الکونین، خاتم النبیین، حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کےلئے مقررہ "پروٹوکولز” کی مخالفت کر رہے، آداب شاہی میں ذرا سی چوک شاہی دربار سے دربدری کا سبب بن جاتی ہے، یہاں تو سید الانس و الجن، خیر الانام، تاجدار امم، اشرف الخلائق،افضل الرسل، سید الکونین و الثقلین، اور خالق کون و مکاں کے سب سے چہیتے، سب سے دلارے کی "تعظیم” کے نام پر "مقررہ آداب” میں "سیندھ ماری” کا سوال ہے، ان کے کیا آداب ہوں گے، وہ آداب کس نے طے کئے ہیں، اور ان کے آداب تعظیم میں ذرا سی چوک کس کی ناراضگی کا سبب بن سکتی ہے، ذرا سوچیں، ٹھہر کر غور کریں تو روح کانپ جائے گی، کہ ادھر ذرا سی لغزش ہوئی کہ مالک ارض و سماوات کے غضب کا اندیشہ ہے۔
اور جن اقوام نے صرف اظہار محبت کو محبت کا منتہی سمجھا، ان کے یہاں بھی اظہار کے تمام مروجہ طریقوں کے ساتھ نفس کی پیروی ہوتی ہے، چناں جس طریقہ میں اظہار زیادہ ہوتا ہے، وہی اپناتے ہیں، اور اس میں روز بروز ترقی ہوتی چلی جاتی ہے، سادہ گانوں سے آغاز ہوا اب جدید ترین آلات موسیقی کا استعمال ہوتا ہے، چراغ سے ابتدا ہوئی اب ڈسکو لائٹ سے کم کا تصور نہیں، "کیف و وجد” میں ظاہر ہونے والی، سر کی مخصوص جنبش، اب اچھل کود، تھرکنے، مٹکنے میں تبدیل ہوچکی ہے، محفل مدحت و ثنا خوانی ترقی کرکے "کنسرٹ”کی شکل اختیار کرچکی ہے، یہ حالت ان تمام ملل و اقوام کی ہے جو اپنی مقدس ہستیوں کے تئیں اظہار محبت کو محبت کی انتہا سمجھتے ہیں، ہماری قوم میں بھی ایک طبقہ اظہار محبت کیلئے ہندؤں اور عیسائیوں کی طبیعت سے متاثر نظر آتا ہے، ان کے یہاں بھی گڈ فرائیڈے، گنیش جینتی، کرشنا جینتی، مہادیو جینتی اور دوسرے "بھگوانوں” کے (مزعومہ) یوم پیدائش پر مختلف طریقوں سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، ان کے یہاں بھی طریق اظہار میں تدریجی ترقی ہوئی ہے، وجہ یہی ہے کہ جس طریقہ میں اظہار و اعلان کی زیادتی نظر آتی ہے وہ اپناتے ہیں اور ظاہر ہے طریقے روز بروز ظہور میں آتے رہتے ہیں، انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ شریعت میں ان طریقوں کے اختیار کی گنجائش کتنی ہے، کون سا طریقہ شریعت سے متصادم ہے کون نہیں، کیوں کہ شریعت مقصود ہی نہیں، مقصود ہے، دکھلاوا، دوسروں کو احساس دلانا، اعلان اور اظہار کرنا، یہ طے شدہ امر ہے کہ رمزیت پسندی کا غلبہ جہاں ہوگا وہاں نو بہ نو خرافات ظہور میں آئیں گے، جس کا مشاہدہ ہم کر رہے ہیں۔
جس محبت کے اظہار میں اس کے تقاضے اور محبوب کے مطالبات یاد نہ رہیں وہ بے فائدہ ہے۔
انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف تھیالوجی کے زیر اہتمام”لکچر سیریز“ میں مولانا انیس الرحمن قاسمی کا خطاب
پھلواری شریف: انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف تھیالوجی دہلی کے زیر اہتما م منعقد آن لائن لکچرر سیریز سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی نے فرمایا کہ اسلام نے ہر انسان کو بنیادی حقوق دیئے ہیں اوران حقوق کی پاسداری کولازم قرار دیا ہے،شریعت نے پانچ چیزوں کو مقاصد دین میں شمارکیا ہے،حفظ دین،حفظ جان،حفظ مال،حفظ عقل اورعزت نفس کی حفاظت،اسلام کے بنیادی مقاصدمیں سے ہیں جن کی رعایت بہر طورکرنی لازم ہے،اسلام دین کے معاملہ میں زوروزبردستی کو پسند نہیں کرتا،اورہر شخص کو اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرنے اورزندگی گزارنے کی کھلی آزادی دیتا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے،تو یہاں مسلمانوں کے علاوہ یہوداورمشرکین بھی آباد تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں یہودیوں سے ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے جاتا ہے،اس معاہدہ میں یہ شق موجود ہے کہ کسی شخص کے مذہب میں مداخلت نہیں کی جائے گی،ان کواپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی،مذہبی عہدیداراپنے عہدے پر برقراررہیں گے،اسی طرح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کی عیسائیوں سے جو معاہدہ کیا اس میں ان کے حقوق تفصیل سے لکھوائے،چنانچہ اس معاہدہ میں یہ شقیں صاف طورپر لکھی گئیں کہ نجران اوراس کے اطراف کے باشندوں کی جانیں،ان کا مذہب،ان کی زمینیں،ان کا مال،ان کے قافلے،ان کے قاصد حتیٰ کہ ان کی مورتیاں بھی اللہ اوراس کے رسول کی امان میں رہیں گی،نہ ان پر ظلم کیا جائے گا اورنہ ان پر ظلم ہونے دیا جائے گا،اب غور کریں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن کی بعثت کامقصد ہی توحید کی دعوت تھی،انہوں نے شرک کی علامت مورتیوں کو بھی امان دیا،یہ امن وسلامتی پر امن بقائے باہم کی خوبصورت مثال ہے،ہندوستان جیسے تکثیری ملک میں جہاں مختلف عقیدے اورمذہب کے پیروکار بستے ہیں،وہاں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ معاہدے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں،ان کی روشنی میں ہم اپنا راستہ متعین کر سکتے ہیں،کہ ہم کس طرح اس ملک میں امن اورسلامتی کی دعوت کے ساتھ اسلام کے کلمہ کو بلند کر سکتے ہیں،دین کی دعوت دینا ہر مسلمان کا فریضہ ہے،اورانبیاء کی بعثت کا مقصد اللہ کے بندوں کو شیطان کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی سے جوڑدینا ہے،اوراس دعوت کے لیے پر امن فضا کا ہونا ضروری ہے،خوف اوردشمنی کے ماحول میں دعوت دین کا فریضہ انجام نہیں دیا جاسکتا،یا دعوت دین اتنی مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی جتناامن کے زمانہ میں دعوت کے مواقع میسر آسکتے ہیں،مولانا قاسمی نے مزید کہا کہ آپ غورکریں کہ مکہ کی تیرہ سالہ دعوت کے نتیجہ میں صرف مٹھی بھر لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے،لیکن صلح حدیبیہ کے بعد چند مہینوں میں تقریبا پوراجزیرۃ العرب حلقہ بگوش اسلام ہو گیا،کیوں کہ امن کی فضا انسان کو مثبت ماحول عطاکرتا ہے،اوراس میں انسان غوروفکر کرتا ہے،جس کے نتیجہ میں اس کے سامنے حق دن کے اجالے کی طرح واضح ہو کر آجاتا ہے اورانسان حق کو قبول کرتا ہے،اس لیے ہرمسلمان کو چاہئے کہ وہ آج اس مبارک موقع پر یہ عہد کرے کہ ہم اس ملک کی فضاکو پر امن بنانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ چلیں گے،اورحسن معاشرت،حسن اخلاق،پڑوسیوں کے حقوق،غیر مسلموں سے تعلقات کے سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنی زندگی میں اتاریں گے،اگر ہم نے ایسا کیا تو عنقریب ہم دیکھیں گے کہ لوگ فوج درفوج دین اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔واضح رہے کہ انٹرنیشنل انسٹی آف تھیالوجی، تسخیر فاؤنڈیشن دہلی کا ذیلی ادارہ ہے۔ ان دونوں کا اداروں کا مقصد بقائے باہم /بین المذاہب مکالمہ اور تعلیم کا فروغ ہے۔ اس کے تحت امن وآشتی اور مذہب کے عناوین پر تقریباً دود رجن خطبے پیش کیے جاچکے ہیں جو یوٹیوب پر موجود ہیں۔ اس پروگرام میں تقریباً تین درجن افراد موجود تھے۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر قسیم اختر اور ساجدحسین ندوی، تسخیر فاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری گلاب ربانی،سید صفوان حامد، مولانا سعد، عادل عفان، وجہہ القمر،محمد فیصل، محمد ارشد، محمد وسیم، نہاں انصاری، شگفتہ قمر، ایان ربانی، شازیہ صدیقی کے علاوہ کثیر تعداد میں سامعین موجود ہے۔ اس پروگرام کا آغاز قاری ابوسلمہ صدیقی کی تلاوت سے ہوا اور کامران اکمل ندوی (چنئی)نے نعت نبی پیش کی۔جب کہ ڈاکٹر ایس عبدالصمد نے پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔
۱۲؍ ربیع الاول کو آں حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’جشن عید‘‘ منایا جاتا ہے اور آج کل اُسے اہل سنت کا خاص شعار سمجھا جانے لگا ہے۔ اس کے بارے میں بھی چند ضروری نکات عرض کرتا ہوں:
۱:… آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر ایک اعلیٰ ترین عبادت بلکہ روحِ ایمان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک واقعہ سرمۂ چشمِ بصیرت ہے۔ آپ کی ولادت، آپ کی صغرسنی، آپ کا شباب، آپ کی بعثت، آپ کی دعوت، آپ کا جہاد، آپ کی قربانی، آپ کا ذکر و فکر، آپ کی عبادت و نماز، آپ کااخلاق و شمائل، آپ کی صورت وسیرت، آپ کا زہد و تقویٰ، آپ کا علم و خشیت، آپ کا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، آپ کی صلح و جنگ، خفگی و غصہ، رحمت و شفقت، تبسم و مسکراہٹ، الغرض آپ کی ایک ایک ادا اور ایک ایک حرکت و سکون امت کے لیے اسوۂ حسنہ اور اکسیر ہدایت ہے اور اس کا سیکھنا سکھانا، اس کا مذاکرہ کرنا، دعوت دینا امت کا فرض ہے۔ اسی طرح آپ سے نسبت رکھنے والی شخصیات اور چیزوں کا تذکرہ بھی عبادت ہے۔ آپ کے احبابؓ و اصحابؓ، ازواجؓ و اولادؓ، خدامؓ و عمالؓ، آپ کا لباس و پوشاک، آپ کے ہتھیاروں، آپ کے گھوڑوں، خچروں اور ناقہ کا تذکرہ بھی عین عبادت ہے، کیوں کہ یہ دراصل ان چیزوں کا تذکرہ نہیں، بلکہ آپ کی نسبت کا تذکرہ ہے۔
۲:… آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے دو حصے ہیں: ایک ولادتِ شریفہ سے لے کر قبل از نبوت تک کا اور دوسرا بعثت سے لے کر وصال شریف تک کا۔ پہلے حصہ کے جستہ جستہ بہت سے واقعات حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں اور حیاتِ طیبہ کا دوسرا حصہ جسے قرآن کریم نے امت کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ فرمایا ہے۔ اس کا مکمل ریکارڈ حدیث و سیرت کی شکل میں محفوظ ہے اور اس کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ آپ باہمہ خوبی و زیبائی گویا ہماری آنکھوں کے سامنے چل پھر رہے ہیں، اور آپ کے جمالِ جہاں آرا کی ایک ایک ادا اس میں صاف جھلک رہی ہے۔ بلامبالغہ یہ اسلام کا عظیم ترین اعجاز اور اس امت مرحومہ کی بلند ترین سعادت ہے کہ اس کے پاس ان کے محبوب کی زندگی کا پورا ریکارڈ موجود ہے اور وہ ایک ایک واقعہ کے بارے میں دلیل و ثبوت کے ساتھ نشان دہی کرسکتی ہے کہ یہ واقعہ کہاں تک صحیح ہے؟ اس کے برعکس آج دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جن کے پاس ان کے ہادی کی زندگی کا صحیح اور مستند ریکارڈ موجود ہو۔ یہ نکتہ ایک مستقل مقالے کا مضمون ہے، اس لیے یہاں صرف اسی قدر اشارے پر اکتفا کرتا ہوں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو بیان کرنے کے دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ آپ کی سیرت طیبہ کے ایک ایک نقشے کو اپنی زندگی کے ظاہر و باطن پر اس طرح آویزاں کیا جائے کہ آپ کے ہر امتی کی صورت و سیرت، چال ڈھال، رفتار و گفتار، اخلاق و کردار آپ کی سیرت کا مرقع بن جائے اور دیکھنے والے کو نظر آئے کہ یہ محمد رسول ﷲ کا غلام ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جہاں بھی موقع ملے آں حضرت کے ذکرخیر سے ہر مجلس و محفل کو معمور و معطر کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات اور آپ کے بابرکت اعمال و اخلاق اور طریقوں کا تذکرہ کیا جائے اور آپ کی زندگی کے ہر نقشِ قدم پر مرمٹنے کی کوشش کی جائے۔ سلف صالحین، صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمہ ہدیٰؒ ان دونوں طریقوں پر عامل تھے۔ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو اپنے عمل سے زندہ کرتے تھے اور ہر محفل و مجلس میں آپ کی سیرتِ طیبہ کا تذکرہ کرتے تھے۔ آپ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ سنا ہوگا کہ ان کے آخری لمحاتِ حیات میں ایک نوجوان ان کی عیادت کے لیے آیا، واپس جانے لگا تو حضرتؓ نے فرمایا: ’’برخوردار! تمہاری چادر ٹخنوں سے نیچی ہے اور یہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے‘‘۔ ان کے صاحبزادے سیدنا عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو اپنانے کا اس قدر شوق تھا کہ جب حج پر تشریف لے جاتے تو جہاں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفر حج میں پڑائو کیا تھا، وہاں اترتے، جس درخت کے نیچے آرام فرمایا تھا، اس درخت کے نیچے آرام کرتے۔ اور جہاں آنحضرت فطری ضرورت کے لیے اترے تھے، خواہ تقاضا نہ ہوتا تب بھی وہاں اترتے اور جس طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے اس کی نقل اتارتے، رضی ﷲ عنہ۔ یہی عاشقانِ رسول تھے جن کے دم قدم سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ صرف اوراق و کتب کی زینت نہیں رہی، بلکہ جیتی جاگتی زندگی میں جلوہ گر ہوئی اور اس کی بوئے عنبرین نے مشامِ عالم کو معطر کیا۔ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ بہت سے ایسے ممالک میں پہنچے جن کی زبان نہیں جانتے تھے، نہ وہ ان کی لغت سے آشنا تھے، مگر ان کی شکل و صورت، اخلاق و کردار اور اعمال و معاملات کو دیکھ کر علاقوں کے علاقے اسلام کے حلقۂ بگوش اور جمالِ محمدی ؐ کے غلام بے دام بن گئے۔ یہ سیرتِ نبوی کی کشش تھی، جس کا پیغام ہر مسلمان اپنے عمل سے دیتا تھا۔
سلف صالحین نے کبھی سیرت النبی ؐ کے جلسے نہیں کیے اور نہ میلاد کی محفلیں سجائیں، اس لیے کہ وہاں ’’ہر روز روزِ عید‘‘ اور ’’ہر شب شبِ برأت‘‘ کا قصہ تھا۔ ظاہر ہے کہ جب ان کی پوری زندگی ’’سیرت النبی ؐ‘‘ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، جب ان کی ہر محفل و مجلس کا موضوع ہی ’’سیرتِ طیبہ‘‘ تھا اور جب ان کا ہر قول و عمل ’’سیرت النبی ؐ ‘‘ کا مدرسہ تھا، تو ان کو اس نام کے جلسوں کی نوبت کب آسکتی تھی؟! لیکن جوں جوں زمانہ کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور سے بُعد ہوتا گیا، عمل کے بجائے قول کا اور کردار کے بجائے گفتار کا سکہ چلنے لگا۔ الحمدﷲ! یہ امت کبھی بانجھ نہیں ہوئی، آج اس گئے گزرے دور میں بھی ﷲ تعالیٰ کے ایسے بندے موجود ہیں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنی زندگی کے گیسوو کاکل سنوارتے ہیں اور ان کے لیے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت ملکِ سلیمان ؑ اور گنج قارون سے زیادہ قیمتی ہے۔ لیکن مجھے شرم ساری کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ایسے لوگ کم ہیں، جب کہ ہم میں سے اکثریت مجھ جیسے بدنام کنندہ، گپوڑوں اور نعرہ بازوں کی ہے جو سال میں ایک دو بار ’’سیرت النبیؐ‘‘ کے نعرے لگا کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے ذمہ اُن کے محبوب نبی کا جو حق تھا، وہ قرض انہوں نے پورا ادا کردیا اور اب ان کے لیے شفاعت واجب ہوچکی ہے، مگر ان کی زندگی کے کسی گوشے میں دور دور تک سیرتِ طیبہ کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت کے ایک ایک نشان کو انہوں نے اپنی زندگی کے دامن سے کھرچ کھرچ کر صاف کرڈالا ہے، اور روزمرہ نہیں بلکہ ہر لمحہ اس کی مشق جاری رہتی ہے، مگر ان کے پتھردل کو کبھی احساس تک نہیں ہوا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سنتوں اور اپنے طریقوں کے مٹنے سے کتنی تکلیف اور اذیت ہوتی ہوگی۔ وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ بس قوالی کے دوچار نغمے سننے، نعت شریف کے دوچار شعر پڑھنے سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا ہوجاتا ہے۔ میلاد کی محفلوں کے وجود سے امت کی چھ صدیاں خالی گزرتی ہیں اور ان چھ صدیوں میں جیسا کہ میں ابھی عرض کرچکا ہوں، مسلمانوں نے کبھی ’’سیرت النبی ؐ‘‘ کے نام سے کوئی جلسہ یا ’’میلاد‘‘ کے نام سے کوئی محفل نہیں سجائی۔ ’’محفل میلاد‘‘ کا آغاز سب سے پہلے ۶۰۴ھ میں سلطان ابو سعید مظفر اور ابوالخطاب ابن دحیہ نے کیا، جس میں تین چیزیں بطور خاص ملحوظ تھیں : ۱:… بارہ ربیع الاول کی تاریخ کا تعیُّن۔ ۲:… علماء و صلحاء کا اجتماع۔ ۳:… اور ختمِ محفل پر طعام کے ذریعہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پُرفتوح کوایصالِ ثواب۔ ان دونوں صاحبوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ کس قماش کے آدمی تھے؟ بعض مورخین نے ان کو فاسق و کذاب لکھا ہے اور بعض نے عادل و ثقہ۔ واﷲ اعلم۔ جب یہ نئی رسم نکلی تو علمائے امت کے درمیان اس کے جواز و عدم جواز کی بحث چلی، علامہ فاکہانی اور ان کے رفقاء نے ان خود ساختہ قیود کی بنا پر اس میں شرکت سے عذر کیا اور اُسے ’’بدعت ِسیّئہ‘‘ قرار دیا۔ اور دیگر علماء نے سلطان کی ہم نوائی کی اور ان قیود کو مباح سمجھ کر اس کے جواز و استحسان کا فتویٰ دیا۔ پھر جب ایک بار یہ رسم چل نکلی تو یہ صرف ’’علماء و صلحاء کے اجتماع‘‘ تک محدود نہ رہی، بلکہ عوام کے دائرے میں آکر ان کی نئی نئی اختراعات کا تختۂ مشق بنتی چلی گئی۔ آج ہمارے سامنے ’’عید میلاد النبی‘‘ کی جو ترقی یافتہ شکل موجود ہے (اور ابھی خدا بہتر جانتا ہے کہ اس میں مزید کتنی ترقی مقدر ہے) اب ہمیں اس کا جائزہ لینا ہے۔ سب سے پہلے دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ جو فعل صحابہؓ و تابعینؒ کے زمانے میں کبھی نہیں ہوا، بلکہ جس کے وجود سے اسلام کی چھ صدیاں خالی چلی آئی ہیں، آج وہ ’’اسلام کا شعار‘‘ کہلاتا ہے۔ اس شعارِ اسلام کو زندہ کرنے والے ’’عاشقانِ رسولؐ‘‘ کہلاتے ہیں، اور جو لوگ اس نوایجاد شعارِ اسلام سے نا آشنا ہوں، ان کو دشمنانِ رسول تصور کیا جاتا ہے۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ کاش! ان حضرات نے کبھی یہ سوچا ہوتا کہ چھ صدیوں کے جو مسلمان ان کے اس خود تراشیدہ شعارِ اسلام سے محروم رہے ہیں، ان کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ کیا وہ سب نعوذ باﷲ! دشمنانِ رسولؐ تھے؟ اور پھر انہوں نے اس بات پر کبھی غور کیا ہوتا کہ اسلام کی تکمیل کا اعلان تو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن ہوگیا تھا، اس کے بعد وہ کون سا پیغمبر آیا تھا جس نے ایک ایسی چیز کو ان کے لیے شعارِ اسلام بنادیا جس سے چھ صدیوں کے مسلمان نا آشنا تھے۔ کیا اسلام میرے یا کسی کے ابا کے گھر کی چیز ہے کہ جب چاہو اس کی کچھ چیزیں حذف کردو اور جب چاہو اس میں کچھ اور چیزوں کا اضافہ کرڈالو؟ دراصل اسلام سے پہلے قوموں میں اور اپنے بزرگوں کے بانیانِ مذہب کی برسی منانے کا معمول ہے، جیسا کہ عیسائیوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت پر ’’عید میلاد‘‘ منائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے برسی منانے کی رسم کو ختم کردیا تھا اور اس میں دو حکمتیں تھیں۔ ایک یہ کہ سالگرہ کے موقع پر جو کچھ کیا جاتا ہے وہ اسلام کی دعوت اور اس کی روح و مزاج سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ اسلام اس ظاہری سج دھج، نمود و نمائش اور نعرہ بازی کا قائل نہیں، وہ اس شور و شغب اور ہائو ہو سے ہٹ کر اپنی دعوت کا آغاز دلوں کی تبدیلی سے کرتا ہے، اور عقائد ِ حقہ، اخلاقِ حسنہ اور اعمالِ صالحہ کی تربیت سے ’’انسان سازی‘‘ کا کام کرتا ہے۔ اس کی نظر میں یہ ظاہری مظاہرے ایک کوڑی کی قیمت بھی نہیں رکھتے، جن کے بارے میں کہا گیا ہے : جگمگاتے در و دیوار دل بے نور ہیں۔
دوسری حکمت یہ ہے کہ اسلام دیگر مذاہب کی طرح کسی خاص موسم میں برگ و بار نہیں لاتا، بلکہ وہ تو ایسا سدا بہار شجرۂ طوبیٰ ہے جس کا پھل اور سایہ دائم و قائم ہے۔ گویا اس کے بارے میں قرآنی الفاظ میں ’’أُکُلُہُا دَائِمٌ وَّ ظِلُّہَا‘‘ کہنا بجا ہے۔ اس کی دعوت اور اس کا پیغام کسی خاص تاریخ کا مرہونِ منت نہیں بلکہ آفاق و ازمان کو محیط ہے۔ اور پھر دوسری قوموں کے پاس تو دوچار ہستیاں ہوں گی جن کی سالگرہ مناکر وہ فارغ ہوجاتی ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کے دامن میں ہزاروں لاکھوں نہیں، بلکہ کروڑوں ایسی قد آور ہستیاں موجود ہیں جو ایک سے ایک بڑھ کر ہیں اور جن کی عظمت کے سامنے آسمان کی بلندیاں ہیچ اور نورانی فرشتوں کا تقدس گردِ راہ ہے۔ اسلام کے پاس کم و بیش سوا لاکھ کی تعداد تو ان انبیاء کی ہے، جو انسانیت کے ہیرو ہیں اور جن میں سے ایک ایک کا وجود کائنات کی ساری چیزوں پر بھاری ہے۔ پھر انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کا قافلہ ہے، ان کی تعداد بھی سوا لاکھ سے کیا کم ہوگی، پھر ان کے بعد ہر صدی کے وہ لاکھوں اکابر اولیاء ﷲ ہیں جو اپنے اپنے وقت میں رشد و ہدایت کے مینارۂ نور تھے اور جن کے آگے بڑے بڑے جابر بادشاہوں کی گردنیں جھک جاتی تھیں۔ اب اگر اسلام شخصیتوں کی سالگرہ منانے کا دروازہ کھول دیتا تو غور کیجیے! اس امت کو سال بھر میں سالگرہوں کے علاوہ کسی اور کام کے لیے ایک لمحہ کی بھی فرصت ہوتی؟ چونکہ یہ چیز ہی اسلام کی دعوت اور اس کے مزاج کے خلاف تھی، اس لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ و تابعینؒ کے بعد چھ صدیوں تک امت کا مزاج اس کو قبول نہ کرسکا۔ اگر آپ نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلامی تاریخ میں چھٹی صدی وہ زمانہ ہے، جس میں فرزندانِ تثلیث نے صلیبی جنگیں لڑیں، اور مسیحیت کے ناپاک اور منحوس قدموں نے عالم اسلام کو روند ڈالا۔ ادھر مسلمانوں کا اسلامی مزاج داخلی و خارجی فتنوں کی مسلسل یلغار سے کمزور پڑگیا تھا۔ ادھر مسیحیت کا عالم اسلام پر فاتحانہ حملہ ہوا، اور مسلمانوں میں مفتوح قوم کا سا احساس کمتری پیدا ہوا، اس لیے عیسائیوں کی تقلید میں یہ قوم بھی سال بعد اپنے مقدس نبی کے ’’یوم ولادت‘‘ کا جشن منانے لگی۔ یہ قوم کے کمزور اعصاب کی تسکین کا ذریعہ تھا، تاہم جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں‘ امت کے مجموعی مزاج نے اس کو قبول نہیں کیا، بلکہ ساتویں صدی کے آغاز سے لے کر آج تک علمائے اُمت نے اسے ’’بدعت‘‘ قرار دیا اور اسے ’’ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ کے زمرے میں شمار کیا۔ اگرچہ ’’میلاد‘‘ کی رسم ساتویں صدی کے آغاز سے شروع ہوچکی تھی اور لوگوں نے اس میں بہت سے امور کے اضافے بھی کیے، لیکن کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی تھی کہ اُسے ’’عید‘‘ کا نام دیتا، کیونکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’میری قبر کوعید نہ بنانا‘‘ اور میں اوپر حضرت قاضی ثناء اﷲ پانی پتی کے حوالے سے بتاچکا ہوں کہ ’’عید‘‘ بنانے کی ممانعت کیوں فرمائی گئی تھی۔ مگر اب چند سالوں سے اس سال گرہ کو ’’عید میلاد النبیؐ‘‘ کہلانے کاشرف بھی حاصل ہوگیا ہے۔
دنیا کا کون مسلمان اس سے ناواقف ہوگا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے ’’عید‘‘ کے دو دن مقرر کیے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔ اگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کو بھی ’’عید‘‘ کہنا صحیح ہوتا اور اسلام کے مزاج سے یہ چیز کوئی مناسبت رکھتی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اس کو ’’عید‘‘ قرار دے سکتے تھے اور اگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ پسندیدہ چیز ہوتی تو آپ نہ سہی، خلفائے راشدین ہی آپ کے یوم ولادت کو ’’عید‘‘ کہہ کر ’’جشن عید میلاد النبیؐ‘‘ کی طرح ڈالتے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، اس سے دو ہی نتیجے نکل سکتے ہیں: یا یہ کہ ہم اس کو ’’عید‘‘ کہنے میں غلطی پر ہیں یا یہ کہ نعوذ باﷲ ہمیں تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی خوشی ہے، مگر صحابہ کرام خصوصاً خلفائے راشدین کو کوئی خوشی نہیں تھی، انہیں آپ سے اتنا عشق بھی نہیں تھا جتنا ہمیں ہے۔ ستم یہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت میں تو اختلاف ہے، بعض ۹؍ ربیع الاول بتاتے ہیں، بعض ۸؍ ربیع الاول، اور مشہور بارہ ربیع الاول ہے۔ لیکن اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات شریفہ ۱۲؍ ربیع الاول ہی کو ہوئی۔ گویا ہم نے ’’جشن عید‘‘ کے لیے دن بھی تجویز کیا تو وہ جس میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے داغِ مفارقت دے گئے، اگر کوئی ہم سے یہ سوال کرے کہ تم لوگ ’’جشنِ عید‘‘ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت طیبہ پر مناتے ہو یا آں حضرت کی وفات کی خوشی میں؟ (نعوذ باللہ) تو شاید ہمیں اس کا جواب دینا بھی مشکل ہوگا۔ بہرحال میں اس دن کو ’’عید‘‘ کہنا معمولی بات نہیں سمجھتا، بلکہ اس کو صاف صاف تحریف فی الدین سمجھتا ہوں، اس لیے کہ ’’عید‘‘ اسلامی اصطلاح ہے، اور اسلامی اصطلاحات کو اپنی خودرائی سے غیر منقول جگہوں پر استعمال کرنا دین میں تحریف ہے۔ اور پھر یہ ’’عید‘‘ جس طرح منائی جاتی ہے وہ بھی لائقِ شرم ہے، بے ریش لڑکے غلط سلط نعتیں پڑھتے ہیں، موضوع اور من گھڑت قصے کہانیاں، جن کا حدیث و سیرت کی کسی کتاب میں کوئی وجود نہیں، بیان کی جاتی ہیں، شورو شغب ہوتا ہے۔ نمازیں غارت ہوتی ہیں، اور نامعلوم کیا کیا ہوتا ہے۔ کاش! آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جو ’’بدعت‘‘ ایجاد کی گئی تھی اس میں کم از کم آپ کی عظمت و تقدس ہی کو ملحوظ رکھا جاتا۔ غضب یہ کہ سمجھا یہ جاتاہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان خرافاتی محفلوں میں بنفس نفیس تشریف بھی لاتے ہیں۔ فیا غربۃ الإسلام! (ہائے اسلام کی بیچارگی!)
(ماخوذ از: اختلاف امت اور صراط مستقیم)
ہرزہ سرائی سے مراد محض دیگر اصناف شعر نہیں، جن کی اہمیت شاعر کی نظر میں کم ہوجاتی ہے،بلکہ نعت کہنے والی زبان، مختلف نقطہ نظر ، مختلف مذہب ومسلک کے حامل لوگوں کے خلاف نازیبا الفاظ ادا کرنے سے ابا کرتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تمام طرح کے سماجی فساد ہرزہ سرائی سے شروع ہوتے ہیں۔اس بات پر باردگر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت چوں کہ اس زبان کے ذریعے ثقافت کا حصہ بنتی ہے،جسے سب مذاہب کے لوگ ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں، اس لیے عقیدت سے تشکیل پذیر ہونے والی نشانیات ہندوں ، سکھوں اور وسرے مذاہب کے شعرا کو بھی نعت لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ان کی نعتیں ،پیمبر اعظم ﷺ کی ذات کی بے غرضانہ مدحت کے ساتھ ساتھ ، یہ امر بھی باور کراتی ہیں کہ سچائی،اپنے لیے عقیدت مند خود پیدا کرلیتی ہے،اور یہ عقیدت مند سماجی ہم آہنگی کی قابل قدر علامت ہوتے ہیں۔ عشق کا جذبہ ،عقیدت کا مقابل نہیں ،مگر عقیدت سے کہیں زیادہ گہرا ہے ۔عقیدت میں رسمیت ہوسکتی ہے ،مگر عشق میں نہیں؛عقیدت میں ایک طرح کی اجتماعیت ہے ،مگر عشق انفرادی ،داخلی ،موضوعی ہے۔اگر عقیدت کے تحت لکھی گئی نعت ایک ثقافتی کردار اداکرتی ہے ،تو عشق ِ نبی ﷺ میں لکھی گئی نعتیں ،روحانی رفعت اور نفسیاتی قلبِ ماہیت ممکن بنانے کا غیر معمولی امکان رکھتی ہیں۔تاہم ایک فرد کی روحانی رفعت کبھی اس شخص کی ذات تک محدود نہیں رہتی؛چراغ کی مانند اس کی لو،ارد گرد کے افراد کی روحوں میں چھائی تاریکی کو مٹاتی ہے ،کبھی روحانی رفعت پانے والے کے عمل کے ذریعے، کبھی اس کے قول و گفتگو کے وسیلے سے ،اور کبھی سماج میں اس کی خاموش شرکت سے۔ واضح رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جہاں عقیدت ہو،وہاں عشق بھی موجود ہو،مگر جہاں عشق ہوگا،وہاں عقیدت لازماً ہوگی۔دوسرے لفظوں میںکہا جاسکتا ہے کہ عشق،عقیدت کی انتہا بن سکتی ہے۔دوسرے لفظوں میں عشق بے بصر نہیں ہوتا؛ اس میں بھی سچائی پر یقین موجود ہوتا ہے۔عشق ِ نبی ﷺ ان عظیم صداقتوں پر اعتقاد کا حامل ہوتا ہے ،جن کا علم مستندمذہبی متون(تحریری وزبانی) کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔
عشق نبی ﷺ کئی ایسی خصوصیات رکھتا ہے ،جو محض اسی سے مخصوص ہیں۔چوں کہ اس کی بنیاد میں عقیدت شامل ہوتی ہے، یعنی ’باخدا دیوانہ باش و بامحمد ﷺ ہوشیار‘ کی کیفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی وارفتگی اس بے تکلفی ، غیر رسمیت سے پاک ہوتی ہے ،جسے عام بشری عشق میں اختیار کیا جاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق نبیﷺ کی وارفتگی و دیوانگی در اصل ایک ایسی مقدس تجرید ،ایک مابعد الطبیعیاتی مگر عظیم الشان تصوریت کو مرکز بناتی ہے، جسے پورے طور پر انسانی ذہن گرفت میں لینے سے قاصر ہوتا ہے۔ یوں عاشق کے لیے ایک پیراڈاکسیائی صورتِ حال ہوتی ہے۔اس صورت ِ حال کا ایک رخ یہ ہے کہ اس تجرید کو اس الوہیت سے جدا رکھنا ہوتا ہے جو صرف خدا سے مخصوص ہے۔بہت سوں کے لیے یہ محال رہا ہے،اور اس کی وجہ لاعلمی کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی بشری بے بضاعتی بھی ہے ،جو عشق کے وفور میں اس نازک ترین فرق کو بھول جاتی ہے جو الوہیت ورسالت میں ہے۔یوں بھی عشق میں خود کو ہوشیار رکھنا آسان نہیں،لیکن عشق نبیﷺ میں ہوشیاری اور احتیاط لازمی شرائط ٹھہرتی ہیں،اور عشقِ نبی ﷺ کے سفر کو کڑا اور آزمائشوں بھرا بناتی ہیں۔اس کڑے سفر میں دعا سب سے اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ احمد جاوید کا یہ شعر اسی طرف دھیان منتقل کراتاہے:
کا ش اس بات سے محفوظ رہیں یہ لب وگوش
جو مرے سید وسردار نے فرمائی نہیں
گویا بندے بشر کی استطاعت میں نہیں کہ وہ عشق میں ہوشیاری واحتیاط کا دامن تھامے رکھے، اس لیے وہ دعا کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہے۔لیکن دعاایک بار پھر اسے اس مقدس تجرید کی طرف لے جاتی ہے۔ عشق نبی ﷺ کی پیراڈاکسیائی صورت حال کا ایک اور رخ یہ ہے کہ ایک طرف وہ عشق کا سچا، گہرا جذبہ محسوس کرتا ہے ،مگر اپنے محبوب کا تصور ایک مقدس تجرید کے طور پر کرتا ہے؛پیرا ڈاکس یہ ہے کہ جذبہ سامنے، حقیقی طور پر حسی وجود پر مرتکز ہونے کے بجائے ،تصوریت سے وابستہ ہوتا ہے۔اسی پیراڈاکس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عاشقِ رسول ﷺکو ایک طرف اپنی خاکی نہاد کا منکسرانہ احساس ہوتا ہے ،اور دوسری طرف وہ ایک عظیم الشان مابعد الطبیعی تصوریت پر اپنی تمام حسی وذہنی صلاحیتوں کو مرکوز کرتا ہے،مگر یہی پیراڈاکسیائی صورتِ حال اس کے عشق کو ایک عجب ذائقہ ،ایک انوکھی بلندی، اور اس کے دل میں نئی آرزوئیں پیدا کرتی ہے۔ عاشق اپنی خاکی نہادکا منکسرانہ احساس تو رکھتا ہے ،مگر اسے حقیر،بے معنی ،بے مصرف و بے مقصد نہیں سمجھتا؛جو خاکی وجود ،ایک عظیم الشان تجرید کا تصور کرسکتا ہے ،وہ کیوں کر حقیر ہوسکتاہے؟یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں نعت سمیت دوسری مذہبی شاعری ،جدید شاعری سے ایک الگ راستہ اختیار کرتی ہے ۔جدید شاعری میں اپنے حقیر ہونے ، وجود کے لغو ہونے ،نفس میں موجو دتاریکیوں کو انسانی تقدیر سمجھ کر قبول کرنے کا رویہ موجود ہوتا ہے ۔(جدید شاعری ،اس حقیقت کو قبول کرکے در اصل اس کی ملکیت کا احساس پیدا کرتی ہے )۔جدید شاعری میں منفی قلب ِ ماہیت (آدمی کا کیڑا ،مکھی ،بھیڑیابن جانا)کا موضوع بھی تقریباً اسی راہ سے آیا ہے ،مگر نعتیہ شاعری میں انکسار ہوسکتا ہے ، حقیر ہونے کا احسا س ہرگز نہیں ۔نعت میں نفس کی تاریکی کا ادراک ظاہر ہوسکتا ہے ،مگر اسے انسانی تقدیر نہیں تصور کیا جاتا،اسے ایک عارضی صورت حال تصور کرکے ،اس سے نکلنے کا راستہ دکھایا جاتاہے۔ اگر نفس کی تاریکی کوانسانی تقدیر تصور کیا جائے تو یہ سیدھا سادہ مذہبی اعتقاد پر سخت تشکیک کا اظہار ہے۔نعت ، مذہبی حسیت کی حامل صنف ہونے کے ناطے،انسانی وجود کی تاریکیوں کو دور کرنے کا لازمی امکان بنتی ہے۔ حقیقی مذہبی حسیت ،لازماً رجائیت پسند ہوتی ہے ؛ وہ انسان کی حتمی صورتِ حال کا پرشکوہ رجائی تصور رکھتی ہے۔ بہ ہر کیف، خالد احمد کی نعت کا یہ شعر دیکھیے جس میں انکسار تو موجود ہے ، حقیرہونے کا احساس نہیں:
زرگل ہوئی مری گرد بھی کہ ریاض عشق رسول ہوں
بڑی پاک خاک ہے یہ گلی، میں اسی کی دھول کا پھول ہوں
یوں عاشق کی بشریت ،اپنے اندر ایک غیر معمولی پن کا حقیقی روحانی تجربہ کرتی ہے۔غیر معمولی پن کا احساس ،محض تصوری اور نظری طور پر بھی ممکن ہے،مگر جب یہ عشق کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہ تجربہ بن جاتا ہے،یعنی احساس، جذبے ،فکر ، تخیل ،عمل یعنی انسانی وجود کے سب پہلوئوں اور سب سطحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔اس سے ایک طرف عاشق کی قلب ِ ماہیت ہوتی ہے،اس کے وجود کی تاریکی دور ہوتی ہے ،یا دور ہونے کا گہرا یقین پید اہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے دل میں نئی آرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ نئی آرزوئیں بھی دراصل مذکورہ بالا پیراڈاکسیائی صورتِ حال سے پیدا ہوتی ہیں۔ عشق لازماً حسی ہدف چاہتاہے،لیکن یہاں ایک مقدس تجرید ہوتی ہے ، جسے تاریخ وسیرت ایک حسی سطح ضرور دیتے ہیں، مگر نبی ﷺ کی ذات اس درجہ وسیع اور تخیل کی حدوں سے ورا ہوتی ہے کہ اس کا قطعی متعین تصور ممکن نہیں ہوتا۔عشق ،حسی ہدف کی آرزو ترک نہیں کرسکتا، اور عشقِ نبی ﷺ میں یہ ممکن نہیں ہوتا تو اس کانتیجہ ان نئے ،عظیم الشان مقاصد کی آرزوئوں کی صورت میں نکلتاہے۔جو حقیقی، حسی ،مادی دنیا کو اپنا ہدف بناسکیں۔چوں کہ یہ عظیم آرزوئیں،عشق کا حاصل ہوتی ہیں،اس لیے وہ مادی دنیا کو جب ہدف بناتی ہیں تو اسے مسخ کرنے کے بجائے ، اس کی وسعتوں کو کھوجتی ہیں ،اوراس عمل کو خود اپنی ذات کی توسیع کی علامت تصور کرتی ہیں۔یوں ایک نئی ،بلند تر سطح کا رشتہ دنیا سے قائم ہوتا ہے۔علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر اسی طرف اشارہ کرتا ہے:
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
عالم بشریت کی زد میں آسمان ،یعنی وہ بلند ترین مقام ،جسے انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے ،اور جس کے سبب،انسانی تخیل عظمت وبلندی کا تصور کرسکتا ہے،کے ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ انسانی بساط کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ نبی ﷺکی معراج ،بشری دنیا کو یہ تحریک دیتی ہے کہ وہ خاک سے افلاک تک پہنچے۔یہی کچھ مقدس تجرید کے عشق میں ہوتا ہے:
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول ؐ
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول ؐ
(بیدم وارثی)
میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا
(نصیر الدین نصیر)
مقد س تجرید کے عشق کی کیا کیفیت ہوتی ہے ،اسے جس طرح اقبال نے پیش کیا ہے ، اس کی کوئی دوسری مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔اقبال کے یہاں عشق اس علامت کی طرح ہے ،جس میں اپنے معنی متعین کرنے کے خلاف باقاعدہ مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ علامت ہونے کی بنا پر کئی معانی کی حامل ہوتی ہے ،مگر اس رمز کو بھی جانتی ہے کہ معنی کے تعین کی کوشش،در اصل اسے محدود کرنے کے عمل کاآغاز ثابت ہوتی ہے۔اقبال کے یہاں عشق کی علامت ، لامتناہی جستجو اوران تھک سفرکی محرک بنتی محسوس ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال اس لامتناہی سفر کو ایک خیالی دنیا اور فنتاسی میں سفر میں نہیں بدلنے دینا چاہتے۔وہ عشق کی اس حسی، جذبی کیفیت کوقائم رکھنا چاہتے ہیں،جو انسانی دل میں حقیقی طور پر پیدا ہوتی ہے، اور جس کے ذریعے انسان خود اپنے بشری مرکز سے متصل رہتا ہے،اور اسی کو لامتناہی جستجو کا رخت سفر بنانا چاہتے ہیں،خود اپنی ذات میں ، تاریخ میں ، دنیا میں اور کائنات میں۔بہ قول اقبال :’عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک‘۔ اقبال نے عشق کا تصور واضح طور پر عشق رسول ﷺ سے لیا،اور اس پیراڈاکسیائی صورتِ حال کا حل بنا کر پیش کیا ،جس کا سامنا نبی ﷺ کی ذات کی مقدس تجرید کے عشق میں گرفتار ہونے سے ہوتا ہے۔یہ نظری حل نہیں۔ہوسکتا ہے نظری طور پر اسے واضح کرناہی محال ہو،لیکن اقبال بشری عالم کی اس انتہائی بنیادی خصوصیت سے واقف تھے کہ تمام عظیم کارنامے ، تمام بڑی تبدیلیاں ،تمام غیر معمولی فن پارے ان عظیم آرزوئوں سے جنم لیتے ہیں جو عشق کانتیجہ ہیں۔ عشق اور آرزو میںتعلق تو صدیوں سے معلوم بات ہے ،مگراقبال نے دریافت کیا کہ عشق اور آزرو کی عظمت کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ اقبال کی شاہکار نظم’ مسجد قرطبہ ‘کے یہ اشعار ان معروضات کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے،جن میں عشق کی علامت ایک مخروطی صورت اختیار کرتی محسوس ہوتی ،اور جو تکمیل فن کا مظہر ہوتی ہے:
مرد خد اکا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
تند وسبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصررواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیںجن کا نہیں کوئی نام
عشق دم جبریل ،عشق دل مصطفیٰ
عشق خدا کارسول ،عشق خدا کا کلام
عشق کے مضراب سے نغمہ ء تار حیات
عشق سے نورحیات، عشق سے نارحیات
آخر ی بات!اردو نعت کے موضوعات ،دیگر شعری اصناف کی طرح کبھی محدود نہیں رہے؛وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہی ہے ۔نعت اسی طرح اپنے زمانے کی حسیت کو اپنی شعریات کا حصہ بناتی رہی ہے ،جس طرح دیگر شعری اصناف۔ کلاسیکی اردو شاعری کے عہد کی نعت کا اہم موضوع ،مدحت کے ساتھ ساتھ ،ثواب و مغفرت تھا، لیکن انیسویں صدی کے اواخرمیں نعت کے موضوعات میں تنوع پید اہونا شروع ہوا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نو آبادیاتی عہد میں جب مسلم قوم پرستی کا آغاز ہوا،اور جداگانہ مذہبی شناختوں پر اصرار بڑھا تو نعتیہ شاعری کے موضوعات بھی تبدیل ہونا شروع ہوئے۔شناختوں کو مسخ کرنے کی نو آبادیاتی سیاست ،اور یورپ کے کبیری بیانیے کے ردّ عمل میں، برصغیرکے مسلمانوں کے یہاں اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بڑھا،اور وہ تاریخِ اسلام اور سیرت رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے لگے۔پہلی مرتبہ اردو شاعری میں مذہبی ،قومی شناخت ایک اہم موضوع کے طور پر شامل ہوئی۔
(بہ شکریہ نعت کائنات ڈاٹ اوآرجی)
ہرزہ سرائی سے مراد محض دیگر اصناف شعر نہیں، جن کی اہمیت شاعر کی نظر میں کم ہوجاتی ہے،بلکہ نعت کہنے والی زبان، مختلف نقطہ نظر ، مختلف مذہب ومسلک کے حامل لوگوں کے خلاف نازیبا الفاظ ادا کرنے سے ابا کرتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تمام طرح کے سماجی فساد ہرزہ سرائی سے شروع ہوتے ہیں۔اس بات پر باردگر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عقیدت چوں کہ اس زبان کے ذریعے ثقافت کا حصہ بنتی ہے،جسے سب مذاہب کے لوگ ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں، اس لیے عقیدت سے تشکیل پذیر ہونے والی نشانیات ہندوں ، سکھوں اور وسرے مذاہب کے شعرا کو بھی نعت لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ان کی نعتیں ،پیمبر اعظم ﷺ کی ذات کی بے غرضانہ مدحت کے ساتھ ساتھ ، یہ امر بھی باور کراتی ہیں کہ سچائی،اپنے لیے عقیدت مند خود پیدا کرلیتی ہے،اور یہ عقیدت مند سماجی ہم آہنگی کی قابل قدر علامت ہوتے ہیں۔ عشق کا جذبہ ،عقیدت کا مقابل نہیں ،مگر عقیدت سے کہیں زیادہ گہرا ہے ۔عقیدت میں رسمیت ہوسکتی ہے ،مگر عشق میں نہیں؛عقیدت میں ایک طرح کی اجتماعیت ہے ،مگر عشق انفرادی ،داخلی ،موضوعی ہے۔اگر عقیدت کے تحت لکھی گئی نعت ایک ثقافتی کردار اداکرتی ہے ،تو عشق ِ نبی ﷺ میں لکھی گئی نعتیں ،روحانی رفعت اور نفسیاتی قلبِ ماہیت ممکن بنانے کا غیر معمولی امکان رکھتی ہیں۔تاہم ایک فرد کی روحانی رفعت کبھی اس شخص کی ذات تک محدود نہیں رہتی؛چراغ کی مانند اس کی لو،ارد گرد کے افراد کی روحوں میں چھائی تاریکی کو مٹاتی ہے ،کبھی روحانی رفعت پانے والے کے عمل کے ذریعے، کبھی اس کے قول و گفتگو کے وسیلے سے ،اور کبھی سماج میں اس کی خاموش شرکت سے۔ واضح رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جہاں عقیدت ہو،وہاں عشق بھی موجود ہو،مگر جہاں عشق ہوگا،وہاں عقیدت لازماً ہوگی۔دوسرے لفظوں میںکہا جاسکتا ہے کہ عشق،عقیدت کی انتہا بن سکتی ہے۔دوسرے لفظوں میں عشق بے بصر نہیں ہوتا؛ اس میں بھی سچائی پر یقین موجود ہوتا ہے۔عشق ِ نبی ﷺ ان عظیم صداقتوں پر اعتقاد کا حامل ہوتا ہے ،جن کا علم مستندمذہبی متون(تحریری وزبانی) کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔
عشق نبی ﷺ کئی ایسی خصوصیات رکھتا ہے ،جو محض اسی سے مخصوص ہیں۔چوں کہ اس کی بنیاد میں عقیدت شامل ہوتی ہے، یعنی ’باخدا دیوانہ باش و بامحمد ﷺ ہوشیار‘ کی کیفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی وارفتگی اس بے تکلفی ، غیر رسمیت سے پاک ہوتی ہے ،جسے عام بشری عشق میں اختیار کیا جاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق نبیﷺ کی وارفتگی و دیوانگی در اصل ایک ایسی مقدس تجرید ،ایک مابعد الطبیعیاتی مگر عظیم الشان تصوریت کو مرکز بناتی ہے، جسے پورے طور پر انسانی ذہن گرفت میں لینے سے قاصر ہوتا ہے۔ یوں عاشق کے لیے ایک پیراڈاکسیائی صورتِ حال ہوتی ہے۔اس صورت ِ حال کا ایک رخ یہ ہے کہ اس تجرید کو اس الوہیت سے جدا رکھنا ہوتا ہے جو صرف خدا سے مخصوص ہے۔بہت سوں کے لیے یہ محال رہا ہے،اور اس کی وجہ لاعلمی کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی بشری بے بضاعتی بھی ہے ،جو عشق کے وفور میں اس نازک ترین فرق کو بھول جاتی ہے جو الوہیت ورسالت میں ہے۔یوں بھی عشق میں خود کو ہوشیار رکھنا آسان نہیں،لیکن عشق نبیﷺ میں ہوشیاری اور احتیاط لازمی شرائط ٹھہرتی ہیں،اور عشقِ نبی ﷺ کے سفر کو کڑا اور آزمائشوں بھرا بناتی ہیں۔اس کڑے سفر میں دعا سب سے اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ احمد جاوید کا یہ شعر اسی طرف دھیان منتقل کراتاہے:
کا ش اس بات سے محفوظ رہیں یہ لب وگوش
جو مرے سید وسردار نے فرمائی نہیں
گویا بندے بشر کی استطاعت میں نہیں کہ وہ عشق میں ہوشیاری واحتیاط کا دامن تھامے رکھے، اس لیے وہ دعا کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہے۔لیکن دعاایک بار پھر اسے اس مقدس تجرید کی طرف لے جاتی ہے۔ عشق نبی ﷺ کی پیراڈاکسیائی صورت حال کا ایک اور رخ یہ ہے کہ ایک طرف وہ عشق کا سچا، گہرا جذبہ محسوس کرتا ہے ،مگر اپنے محبوب کا تصور ایک مقدس تجرید کے طور پر کرتا ہے؛پیرا ڈاکس یہ ہے کہ جذبہ سامنے، حقیقی طور پر حسی وجود پر مرتکز ہونے کے بجائے ،تصوریت سے وابستہ ہوتا ہے۔اسی پیراڈاکس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عاشقِ رسول ﷺکو ایک طرف اپنی خاکی نہاد کا منکسرانہ احساس ہوتا ہے ،اور دوسری طرف وہ ایک عظیم الشان مابعد الطبیعی تصوریت پر اپنی تمام حسی وذہنی صلاحیتوں کو مرکوز کرتا ہے،مگر یہی پیراڈاکسیائی صورتِ حال اس کے عشق کو ایک عجب ذائقہ ،ایک انوکھی بلندی، اور اس کے دل میں نئی آرزوئیں پیدا کرتی ہے۔ عاشق اپنی خاکی نہادکا منکسرانہ احساس تو رکھتا ہے ،مگر اسے حقیر،بے معنی ،بے مصرف و بے مقصد نہیں سمجھتا؛جو خاکی وجود ،ایک عظیم الشان تجرید کا تصور کرسکتا ہے ،وہ کیوں کر حقیر ہوسکتاہے؟یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں نعت سمیت دوسری مذہبی شاعری ،جدید شاعری سے ایک الگ راستہ اختیار کرتی ہے ۔جدید شاعری میں اپنے حقیر ہونے ، وجود کے لغو ہونے ،نفس میں موجو دتاریکیوں کو انسانی تقدیر سمجھ کر قبول کرنے کا رویہ موجود ہوتا ہے ۔(جدید شاعری ،اس حقیقت کو قبول کرکے در اصل اس کی ملکیت کا احساس پیدا کرتی ہے )۔جدید شاعری میں منفی قلب ِ ماہیت (آدمی کا کیڑا ،مکھی ،بھیڑیابن جانا)کا موضوع بھی تقریباً اسی راہ سے آیا ہے ،مگر نعتیہ شاعری میں انکسار ہوسکتا ہے ، حقیر ہونے کا احسا س ہرگز نہیں ۔نعت میں نفس کی تاریکی کا ادراک ظاہر ہوسکتا ہے ،مگر اسے انسانی تقدیر نہیں تصور کیا جاتا،اسے ایک عارضی صورت حال تصور کرکے ،اس سے نکلنے کا راستہ دکھایا جاتاہے۔ اگر نفس کی تاریکی کوانسانی تقدیر تصور کیا جائے تو یہ سیدھا سادہ مذہبی اعتقاد پر سخت تشکیک کا اظہار ہے۔نعت ، مذہبی حسیت کی حامل صنف ہونے کے ناطے،انسانی وجود کی تاریکیوں کو دور کرنے کا لازمی امکان بنتی ہے۔ حقیقی مذہبی حسیت ،لازماً رجائیت پسند ہوتی ہے ؛ وہ انسان کی حتمی صورتِ حال کا پرشکوہ رجائی تصور رکھتی ہے۔ بہ ہر کیف، خالد احمد کی نعت کا یہ شعر دیکھیے جس میں انکسار تو موجود ہے ، حقیرہونے کا احساس نہیں:
زرگل ہوئی مری گرد بھی کہ ریاض عشق رسول ہوں
بڑی پاک خاک ہے یہ گلی، میں اسی کی دھول کا پھول ہوں
یوں عاشق کی بشریت ،اپنے اندر ایک غیر معمولی پن کا حقیقی روحانی تجربہ کرتی ہے۔غیر معمولی پن کا احساس ،محض تصوری اور نظری طور پر بھی ممکن ہے،مگر جب یہ عشق کی صورت اختیار کرتا ہے تو یہ تجربہ بن جاتا ہے،یعنی احساس، جذبے ،فکر ، تخیل ،عمل یعنی انسانی وجود کے سب پہلوئوں اور سب سطحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔اس سے ایک طرف عاشق کی قلب ِ ماہیت ہوتی ہے،اس کے وجود کی تاریکی دور ہوتی ہے ،یا دور ہونے کا گہرا یقین پید اہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے دل میں نئی آرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ نئی آرزوئیں بھی دراصل مذکورہ بالا پیراڈاکسیائی صورتِ حال سے پیدا ہوتی ہیں۔ عشق لازماً حسی ہدف چاہتاہے،لیکن یہاں ایک مقدس تجرید ہوتی ہے ، جسے تاریخ وسیرت ایک حسی سطح ضرور دیتے ہیں، مگر نبی ﷺ کی ذات اس درجہ وسیع اور تخیل کی حدوں سے ورا ہوتی ہے کہ اس کا قطعی متعین تصور ممکن نہیں ہوتا۔عشق ،حسی ہدف کی آرزو ترک نہیں کرسکتا، اور عشقِ نبی ﷺ میں یہ ممکن نہیں ہوتا تو اس کانتیجہ ان نئے ،عظیم الشان مقاصد کی آرزوئوں کی صورت میں نکلتاہے۔جو حقیقی، حسی ،مادی دنیا کو اپنا ہدف بناسکیں۔چوں کہ یہ عظیم آرزوئیں،عشق کا حاصل ہوتی ہیں،اس لیے وہ مادی دنیا کو جب ہدف بناتی ہیں تو اسے مسخ کرنے کے بجائے ، اس کی وسعتوں کو کھوجتی ہیں ،اوراس عمل کو خود اپنی ذات کی توسیع کی علامت تصور کرتی ہیں۔یوں ایک نئی ،بلند تر سطح کا رشتہ دنیا سے قائم ہوتا ہے۔علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر اسی طرف اشارہ کرتا ہے:
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
عالم بشریت کی زد میں آسمان ،یعنی وہ بلند ترین مقام ،جسے انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے ،اور جس کے سبب،انسانی تخیل عظمت وبلندی کا تصور کرسکتا ہے،کے ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ انسانی بساط کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ نبی ﷺکی معراج ،بشری دنیا کو یہ تحریک دیتی ہے کہ وہ خاک سے افلاک تک پہنچے۔یہی کچھ مقدس تجرید کے عشق میں ہوتا ہے:
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول ؐ
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول ؐ
(بیدم وارثی)
میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دے دے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا
(نصیر الدین نصیر)
مقد س تجرید کے عشق کی کیا کیفیت ہوتی ہے ،اسے جس طرح اقبال نے پیش کیا ہے ، اس کی کوئی دوسری مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی۔اقبال کے یہاں عشق اس علامت کی طرح ہے ،جس میں اپنے معنی متعین کرنے کے خلاف باقاعدہ مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ علامت ہونے کی بنا پر کئی معانی کی حامل ہوتی ہے ،مگر اس رمز کو بھی جانتی ہے کہ معنی کے تعین کی کوشش،در اصل اسے محدود کرنے کے عمل کاآغاز ثابت ہوتی ہے۔اقبال کے یہاں عشق کی علامت ، لامتناہی جستجو اوران تھک سفرکی محرک بنتی محسوس ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال اس لامتناہی سفر کو ایک خیالی دنیا اور فنتاسی میں سفر میں نہیں بدلنے دینا چاہتے۔وہ عشق کی اس حسی، جذبی کیفیت کوقائم رکھنا چاہتے ہیں،جو انسانی دل میں حقیقی طور پر پیدا ہوتی ہے، اور جس کے ذریعے انسان خود اپنے بشری مرکز سے متصل رہتا ہے،اور اسی کو لامتناہی جستجو کا رخت سفر بنانا چاہتے ہیں،خود اپنی ذات میں ، تاریخ میں ، دنیا میں اور کائنات میں۔بہ قول اقبال :’عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک‘۔ اقبال نے عشق کا تصور واضح طور پر عشق رسول ﷺ سے لیا،اور اس پیراڈاکسیائی صورتِ حال کا حل بنا کر پیش کیا ،جس کا سامنا نبی ﷺ کی ذات کی مقدس تجرید کے عشق میں گرفتار ہونے سے ہوتا ہے۔یہ نظری حل نہیں۔ہوسکتا ہے نظری طور پر اسے واضح کرناہی محال ہو،لیکن اقبال بشری عالم کی اس انتہائی بنیادی خصوصیت سے واقف تھے کہ تمام عظیم کارنامے ، تمام بڑی تبدیلیاں ،تمام غیر معمولی فن پارے ان عظیم آرزوئوں سے جنم لیتے ہیں جو عشق کانتیجہ ہیں۔ عشق اور آرزو میںتعلق تو صدیوں سے معلوم بات ہے ،مگراقبال نے دریافت کیا کہ عشق اور آزرو کی عظمت کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ اقبال کی شاہکار نظم’ مسجد قرطبہ ‘کے یہ اشعار ان معروضات کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے،جن میں عشق کی علامت ایک مخروطی صورت اختیار کرتی محسوس ہوتی ،اور جو تکمیل فن کا مظہر ہوتی ہے:
مرد خد اکا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
تند وسبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصررواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیںجن کا نہیں کوئی نام
عشق دم جبریل ،عشق دل مصطفیٰ
عشق خدا کارسول ،عشق خدا کا کلام
عشق کے مضراب سے نغمہ ء تار حیات
عشق سے نورحیات، عشق سے نارحیات
آخر ی بات!اردو نعت کے موضوعات ،دیگر شعری اصناف کی طرح کبھی محدود نہیں رہے؛وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہی ہے ۔نعت اسی طرح اپنے زمانے کی حسیت کو اپنی شعریات کا حصہ بناتی رہی ہے ،جس طرح دیگر شعری اصناف۔ کلاسیکی اردو شاعری کے عہد کی نعت کا اہم موضوع ،مدحت کے ساتھ ساتھ ،ثواب و مغفرت تھا، لیکن انیسویں صدی کے اواخرمیں نعت کے موضوعات میں تنوع پید اہونا شروع ہوا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نو آبادیاتی عہد میں جب مسلم قوم پرستی کا آغاز ہوا،اور جداگانہ مذہبی شناختوں پر اصرار بڑھا تو نعتیہ شاعری کے موضوعات بھی تبدیل ہونا شروع ہوئے۔شناختوں کو مسخ کرنے کی نو آبادیاتی سیاست ،اور یورپ کے کبیری بیانیے کے ردّ عمل میں، برصغیرکے مسلمانوں کے یہاں اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بڑھا،اور وہ تاریخِ اسلام اور سیرت رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے لگے۔پہلی مرتبہ اردو شاعری میں مذہبی ،قومی شناخت ایک اہم موضوع کے طور پر شامل ہوئی۔
(بہ شکریہ نعت کائنات ڈاٹ اوآرجی)
اور ینٹل کا لج پٹنہ سٹی
اس کائنات میں، اس جہان آب و گل میں بلکہ یوں کہیے کہ اس عالم عرش و فرش میں اللہ رب العزت کی ربوبیت اور کمال قدرت کی سب سے روشن دلیل سرورکونین حضرت محمد ا ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ انسان بحیثیت اپنی نوع کے اگر خلاصہ مخلوقات ہے تو بلاشبہ سرور کونین خلاصہ انسانیت ہیں۔ اس میں شک نہیں دنیا میں ایک سے ایک اہم شخصیتیں پیدا ہوئیں لیکن انسانیت کی پوری تاریخ میں انسان کامل اگر کوئی پیدا ہوا تو وہ سرورکونین، رسول رحمت، محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ربیع الاول کا مہینہ اور آنحضور کی ولادت باسعادت کی تاریخ آتی ہے تو عالم انسانیت کے لیے وہ موسم، موسم بہار اور وہ دن قابل صد افتخار ہوتا ہے۔ اس روز دنیا بھر کے مسلمان جس قدر اظہارِ مسرت کریں اور جتنا بھی درود کا نذرانہ پیش کریں کم ہے۔ بلاشبہ یہ مہینہ، یہ تاریخ اور دن تاریخ انسانیت کا عظیم ترین دن ہے۔ اس روز ضلالت اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو چیر کر ہدایت اور آگہی کا آفتاب طلوع ہوا جس کی منور کرنوں سے مشرق و مغرب جگمگا اٹھے۔
محبت رسول ؐ ایمان کا حصہ ہے ، محبت سے اتباع کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، جس درجے کی محبت ہوگی اسی درجے کا اتباع ہوگا ۔ دنیائے عشق و محبت میں محبت کا زبانی دعوی مطلوب نہیں ہے ، عاشق صادق جب تک اپنے عمل سے اپنی محبت کی صداقت کا ثبوت پیش نہیں کر دیتا ، اس کا ہر دعوی مسترد کر دئے جانے کے لائق ہے ۔ اطاعت اور اتباع اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا اصل معیار ہے ۔ بخاری شریف میں حضرت انسؓ کی روایت موجود ہے کہ ’’سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہ ہوگا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائوں‘‘۔اس محبت کا تقاضا ہے کہ حضور اکرمؐ کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے خود بہتر انسان بنے اور سماج کے لئے بہترین نمونہ ثابت ہو، تاکہ حضور ؐ کے فرمودات سے دنیا خوشگوار ہو سکے۔
آج انسان فضاؤں میں پرندوں کی طرح پرواز کرنے لگا ہے، سمندروں میں مچھلیوں کی طرح تیرنے لگا ہے، ان ساری ترقیوں کے باوجود ساری دنیا کا اتفاق ہے کہ زمین پر شریف انسانوں کی طرح چلنے کا سلیقہ ابھی نہیں آیا ہے۔ اور یہ معاملہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ ساری حصولیابیوں کے باوجود انسان اپنی زندگی میں درد و کرب محسوس کرتا ہے۔ پوری دنیا امن و سکون کے لئے ترس رہی ہے، سب لوگ ٹینشن میں مبتلا ہیں ،سارے نظام کا تجربہ کر کے انہوں نے دیکھ لیا ہے لیکن انہیں سکون نصیب نہیں ہو سکا۔آدمی کو انسان بنانے والی شخصیت کی سبھوں کو تلاش ہے۔
آئیے ہم محسن انسانیت کی سماجی تعلیمات کو سماج میں پھیلائیں، جنہوں نے چھوٹوں پر شفقت کا حکم دیا، بڑوں کے احترام پر توجہ دلائی، جنہوں نے بیماروں کی تیمارداری اور خدمت کی تعلیم دی ، جنہوں نے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانے کو کار ثواب بتایا۔
ہمارا کوئی نوجوان بسوں میں سفر کر رہا ہو اور کسی ضعیف آدمی کو کھڑا دیکھ کر اپنی سیٹ چھوڑ دے اور محبت سے کہے کہ چچا آپ بیٹھئے، وہ تعجب کے ساتھ سوال کریں گے کہ بابو تم کو ہم نہیں پہچانتے ہیں، تمہارا کیا نام ہے؟ یہ جواب دے گا عبداللہ، وہ پھر تعجب سے پوچھیں گے کہ ہمارا نام تو رام پرشاد ہے، ہم کو یہ عزت اور سہولت تم کیوں دے رہے ہو ؟ نوجوان احترام کے ساتھ کہے گا کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم نے اگر بڑی عمر اور بزرگوں کا احترام نہیں کیا تو تمہارا تعلق ہم سے نہیں ہے ۔وہ بزرگ چاہے جس آبادی، جس خاندان اور جس مسلک و مذہب کے آدمی ہوں، ہمارے لئے ان کو عزت و سہولت دینا ضروری ہے ورنہ وہ ہمارا نام اپنے لوگوں کی لسٹ سے کاٹ دیں گے۔
ہمارے مسلمان نوجوانوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ ہاسپیٹل میں چلے جائیں اور سارے بیماروں کی عیادت کریں ، دو سیب تحفہ کے طور پر ان کو دیں، اپنی خدمت پیش کریں، جب وہ پوچھیں کہ آپ کون ہیں تو جواب دیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رسول (Prophet) ہیں اور ہم ان کی ٹیچنگ کو مانتے ہیں، انہوں نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ بیمار چاہے کوئی ہو، کسی مذہب کا ماننے والا ہو، تم کو ان کی سیوا کرنی ہے، میں اسی لئے آپ کے پاس آیا ہوں۔ وہ بیمار سوچے گا کہ جس کی تعلیم اتنی بلند ہو، وہ محسن انسانیت ہیں، انہوں نے ہماری مصیبت کے وقت میں ہماری مدد کا حکم دیا ہے، ان کو تفصیل سے جاننے کی کوشش کرے گا ،اس طرح غلط فہمی دور ہو گی۔ اسلام ، پیغمبر اسلام اور محسن انسانیت کا تعارف ہوگا اور سورج سے بادل کا ٹکڑا ہٹے گا، روشنی پھیلے گی ۔
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللّٰہ رب العزت نے جب سے یہ دنیا قائم کی ، پہلے دن سے ہی انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے انبیاء ورسل کو مبعوث کرنا شروع کیا ، بلکہ جب اس دنیا میں کوئی انسان نہیں تھا صرف آد م علیہ السلام تھے ، اس ایک انسان کو نبی بنایا ، دنیا آباد ہوتی گئی ، آبادیاں بڑھتی رہیں ، کائنات کا نظام وسیع ہوتا رہا اور اس وسعت کے حساب سے انبیاء ورسل بھیجے جاتے رہے ، تاریخ میں ایسے مواقع بھی آئے جب مختلف علاقوں کے لیے الگ الگ رسول بھیجے گئے تاکہ وہ احکام الہی کو لوگوں تک پہونچائیں ،خود کرکے دکھائیں ، اور وہ لوگوں کے لیے آئیڈیل ہوں ، یہ احکام الہی آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ بھی رہیں ، اس لیے آسمانی کتابیں اور صحیفے بھیجے گئے ، ضرورت کے اعتبار سے یک بارگی یاقسطوں میں ، پھر ایک دور وہ آیا جب خالق کائنات نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر معبوث کیا ، کتاب اللہ کی شکل میں تئیس سال میں قرآن کریم کو قیامت تک کے لیے دستور حیات بنا کر نازل کیااور عالم الغیب اور علیم بذات الصدور نے اس پورے نظام کی تکمیل کا اعلان کردیا ، اور نعمت باری کے اتمام کا مژدہ سنادیا ، رعایت قیامت تک آنے والے لوگوں کی ملحوظ رکھی گئی اور قرآن کریم کو قیامت تک کے لیے تحریف وتبدیل سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا گیا ۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو جامع کمالات اور صفات کے ساتھ جوامع الکلم بنایا گیا اور ملفوظات نبوی بھی دین کا حصہ قرار پائے ، زبان نبوت سے یہ اعلان بھی کروادیا گیاکہ زبان مبارک سے نکلنے والے کلمات وملفوظات بھی وحی الہی سے ہی صادر ہوتے ہیں اور معاملہ صرف اتنا سا ہے کہ ان کی قرآن کریم کی طرح تلاوت نہیں کی جاتی ۔اب یہ ساری تعلیمات قرآن و احادیث میں مذکوراور محفوظ ہیں ان تعلیمات کی اہمیت اور ضرورت ہر دور میں رہی ہے اوراس نے ہر دور میں بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا اہم فریضہ انجام دیا ہے ۔جب جب ان تعلیمات سے انسانوں نے دوری اختیارکی ، انسانیت کراہنے اور سسکنے لگی، انسانوں کے خود ساختہ دستور ، قوانین اور نظام زندگی نے بنی نوع انسان کو سکون ، راحت و آرام پہونچانے کے بجائے اسے نت نئے مسائل اور پریشانیوں سے دوچار کیا ، موجودہ دور اس کی منہ بولتی تصویراور عصر حاضر کے مسائل ومشکلات اس کی واضح مثالیں ہیں ہرطرف افراتفری اور افراط وتفریط کی گرم بازاری ہمیں تعلیمات نبوی پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کررہا ہے ، یہی ایک صورت ہے جس میں پریشان دنیا کا مداوا ہے ۔ہم نے ایک کے سامنے سر کو جھکانا چھوڑ دیا تو پتہ نہیں کتنی جگہوں پر جبیں سائی کرنی پڑرہی ہے ۔ہمیں’’ یک درگیر ومحکم گیر ،،کا حکم دیا گیا تھا ہم نے بہت سارے دروازوں سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ کرلیں، نتیجہ میں ہمیں ہلاکت وبربادی ، افلاس وپسماندگی ملی ، ہمیں غصہ پر قابو پانے کا حکم دیا گیا تھا اور جو اسے پچھاڑ دے اس کے قوی ہونے کا اعلان کیا گیا تھا، ہم اس معاملہ میں اتنے کمزور ثابت ہورہے ہیں کہ ہماری شبیہ جذباتی اور جوشیلی بن گئی ہے، تحمل اور برداشت کا مادہ ہم میں باقی نہیں ہے ، جس کے مضر اثرات کھلی آنکھوں ہم دیکھ سکتے ہیں ، ہمیں غیبت ، چغل خوری ، تجسس ، ذات برادری کی لعنت سے دوررہنے اور ہر قسم کے تعصب سے پاک سماج بنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی ، لیکن ہم اس پوری لعنت کو ترقی اور رفع درجات کا ذریعہ سمجھنے لگے ، اس کے لیے تنظیمیں بنائی جانے لگیں ، اور ہم آپس میں دست وگریباں ہونے لگے دھوکہ دہی مسلمانوں کے شایان شان نہیں تھا لیکن مادی منفعت کے حصول کی ہوس میں یہ شان جاتی رہی ، اب پھٹے کپڑے اور خراب مال کواچھا کہہ کر اچھی قیمت پر فروخت کردینے والا ہی اچھا سلزمین ہے ، گول مرچ میں پپیتے کا بیج اور مرچ کے سفوف میں اینٹ کے سفوف ملانے کے واقعات بھی حیرت انگیز نہیں ہیں، لوگوں پر رحم کرنے والے پر اللہ کی رحمت کے نزول کی بشارت دی گئی تھی ، لیکن ظلم و جورہمارا شیوہ بن گیا ، علم ہماری شناخت کا ذریعہ تھا ،ہم جہالت میں ممتاز ہوکررہ گئے ، اللہ خوف باقی نہیں ہے ہمیں امت وسط اورخیرامت بنا کر لوگوں کو صحیح راستے پرلانے کا کام سپرد کیا گیا تھا ،ہم خود گم کردہ راہ ہوگئے ، راہ بری کس طرح کرسکتے ہیں، سود کی لعنت سے پاک تجارت اور معاشی نظام ہماری پہچان تھی ، لیکن ہمیں سودی کاروبار کرنے تک میں عار نہیں ہے کوششیں اس کی بھی ہوتی رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی بہانے ہندستان میں سود کو جائزقرار دیدیا جائے، ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انہیں اف تک کہنے سے روکا گیا تھا ، ان کے لیے اپنے کاندھے جھکا دینے کا حکم دیا گیا اور ہم ان کے لیے اولڈایج ہوم کی تجویز لارہے ہیں ، تاکہ ہماری بے لگام زندگی میں وہ کہیں پر رکاوٹ نہ بنیں ، ہمیں اپنی نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا ،عورتوں کو بے پردہ نکلنے اور بنائو سنگھار کرکے غیروں کے سامنے آنے سے منع کیا گیا تھا،ہم نے ان حدود وقیود کو اس طرح توڑا کہ رشتوں کا احترام باقی نہیں رہا ، ہمیں ام الخبائث شراب کی حرمت بتائی گئی تھی کہ اس میں گناہ بڑا ہے ہم نے اس کو شیر مادر سمجھ کر استعمال کرنا شروع کردیا ، جوئے ، قمار سے ہمیں روکا گیا تھا ، لیکن ہم نے اسے جلدمالدار ہونے کا نسخہ سمجھ لیا ، اب جوئے خانے کے لائسنس دیے جاتے ہیں اور گھوڑ دوڑ کے مقابلے میں کھلے عام جوا کھیلا جاتا ہے ، ہمیں اسراف و فضول خرچی سے منع کیا گیا تھا اور فضول خرچی کرنے والے کوشیطان کا بھائی قرار دیا گیا تھا ، ہم مختلف تقریبات میں ہزاروں روپے کے پٹاخے پھوڑرہے ہیں ، دو دو سو روپے کے شادی کارڈ چھپوا رہے ہیں ، اور کئی کئی سو بلکہ ہزارہزار روپے کی پلیٹوں پردعوت ولیمہ کررہے ہیں ، بینڈ باجے ، رقص وسرور ، ڈکوریشن اور استقبالیہ کے نام پر جو تماشے ہم کررہے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں،انسانی اعضا کی تجارت کو حرام قرار دیاگیا تھا ہم پورے کے پورے سالم جوان لڑکے کو تجارت کا مال سمجھ بیٹھے ہیں ،لڑکی والوں پرشادی میں کوئی مالی بوجھ نہیں ڈالا گیا تھا ہم تلک و جہیز کے ساتھ کھانے تک کے مینو طے کرنے میں لگے ہیں ہمیں مہر دینے کا حکم دیا گیا تھا ،ہم نے اسے دین مہر بنادیا ، ہم نے اسلامی تعلیم کو چھوڑ اتو خاندان ٹوٹنے لگا۔ ہمیں پورے خاندان کا نگراں بنایا گیا تھااور اس حوالے سے ہماری باز پرس بھی ہونی ہے ، لیکن ہمیں کلبوں ، تفریح گاہوں سنیما گھروں اور دوستوں کی مجلسوں سے فرصت ہی نہیں کہ ہم اپنے گھرخاندان اور بچوں کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھ سکیں ، پاکیزہ زندگی گزارنا ہمارا طرۂ امتیاز تھا ، آج اس کا خیال تک قصہ پارنیہ ہے ، اس لئے عصرحاضر میں تعلیمات نبوی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ ہم اس سے بہت دور ہوگئے ہیں ، اور ہم کامطلب صرف مسلمان نہیں ہیں تمام انسان ہیں اس لیے کہ تمام لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لیے رسول بنا کربھیجے گئے ، اللّٰہ تمام جہان کا رب ، رسول تمام جہان کے رسول اور قرآن کریم تمام جہان کی ہدایت کے لیے ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ جس نے اس دعوت کو قبول کرلیاہے اس پر سارے احکام لاگو ہوتے ہیں اورجو ابھی ایما ن نہیں لائے ان پر پہلے ایمان لانا اور پھر تمام احکام پرعمل کرنا ضروری ہے جو لوگ بغیر ایمان لائے بھی تعلیمات نبوی کے دوسرے حصوں کو اپنی زندگی کا محور بنائیں گے وہ بھی دنیا میں اس کے فوائد و برکات سے مستفید ہوسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیرو کار بھی اس قسم کی آواز لگاتے رہتے ہیں کہ حکومت کرنی ہے تو اس کا طریقہ حضرت ابوبکر اورحضرت عمرؓ سے سیکھواور انسانی ہمدردی اور اکرام انسانیت کا درس اسلام سے حاصل کرو۔آیئے ہم پھر تعلیمات نبوی کی طرف لوٹ چلیں ، اپنی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گذاریں ، اور نفس کے شر سے بچاکر اپنے اور اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اور جن پر مامور فرشتے صرف اللّٰہ کی مانتے ہیں ، ان کی نافرمانی نہیں کرتے ،اور جو حکم ہوتا ہے کر گذرتے ہیں ۔ لا یعصون اللہ ماامر ھم ویفعلون مایؤمرون ۔
جمعیۃ علماء ہند کےصدر مولانا ارشد مدنی کو آج سریش چوانکے، کےساتھ سدرشن چینل پر دیکھ کلیجہ شق ہوگیا، بہت تکلیف ہوئی، یہ ملت کی بےعزتی ہے۔ سریش چوانکے ایک ایسےخبیث کا نام ہے جسے انسانوں میں شمار کرنا انسانیت پر زیادتی ہے، یہ ایک گھٹیا غنڈہ ہے جسے شرفا اپنے پاس بھی نہیں بٹھاتے، دنگے بھڑکانا اور عورتوں پر اوچھے حملے کرنا اس کی پہچان ہے، خواتین کے سلسلے میں اس گالی باز کےخلاف مجرمانہ معاملات بھی ہیں، یہ غنڈہ دن رات سدرشن چینل پر بیٹھ کر کبھی جامعہ ملیہ کے طلبا کےخلاف تو کبھی مسلم خواتین کےخلاف انتہائی وحشیانہ انداز میں کیچڑ اچھالتا ہے، اس شخص کی زبان و ذہنیت کس قدر خباثت زدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ گزشتہ دنوں اس نے لائیو چینل پر اسدالدین اویسی کو کتّے سے بھی بدتر جانور قرار دیا تھا، یہی وجہ ہےکہ کوئی بھی ذمہ دار شخص یا باعزت انسان اس کےساتھ بیٹھنا یا بات کرنا اپنی شرافت اور معیار کےخلاف سمجھتاہے، صرف مسلمان ہی نہیں؛ بلکہ سمجھدار ہندو اور اعلیٰ سطحی سیاستدان بھی اس سے بچتے ہیں، حالانکہ اگر عام سیاست دان اس کے زہریلے چینل پر جائیں تو کوئی اس کو سیریس بھی نہیں لیتا؛ کیونکہ اسے سب جان چکےہیں اور ” گینڈا جانور ” کے لقب سے اسے یاد کرتےہیں۔
سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ ایسے جاہل اور بدتمیز انسان کے ساتھ مولانا ارشد مدنی کو گفتگو کرنے کا مشورہ کس نے دے دیا؟ جب سے سریش کےساتھ بحث کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آئی ہے تب سے حساس مسلمان تڑپ اٹھے ہیں، جسے آپ ٹوئٹر پر دیکھ بھی سکتےہیں، خود مجھے کالج و جرنلزم سے جڑے کئی لوگوں نے وہ ویڈیو بھیج کر سوال کیا ہے کہ ” یہ آپ کے مولانا مدنی کو کیا ہوگیاہے؟ کہاں جا رہے ہیں آج کل ؟ ” اور یقینًا یہ انتہائی تکلیف دہ منظر ہے کہ مولانا ارشد مدنی کے برابر میں سریش جیسا بازاری غنڈہ بیٹھا ہوا ہے اور مولانا اس سے بحث کر رہے ہیں، مولانا مدنی صرف جمعیۃ علمائے ہند کے صدر نہیں بلکہ وہ دارالعلوم دیوبند کے سینئر استاذ بھی ہیں ان کا مقام تو یہ ہے کہ اگر وہ کوئی بات چینل پر کہنا چاہیں تو این ڈی ٹی وی یا نیشنل لیول کے کسی اعلیٰ پلیٹ فارم پر کہیں، ان کی حیثیت ہندوستان کے وزرا سے براہ راست مذاکرات کی ہوتی ہے، دارالعلوم دیوبند کی مسند پر رونق افروز اتنی بڑی شخصیت کا ایسے گلی محلے اور بازار کے بدتمیز کےساتھ بیٹھنا جہاں بحیثیت مذہبی رہنما غلط ہے وہیں مولانا حسین احمد مدنی کا فرزند ہونے کی حیثیت سے اس اعلیٰ گھرانے کے خاندانی معیار کے بھی خلاف ہے۔
ہم بہت سی دفعہ ان حضرات کی پالیسیوں سے اختلاف کرتےہیں؛ لیکن ان کے عرف کا بھی لحاظ رکھتےہیں، عام غیرمسلموں میں ہنوز انہیں مسلمانوں کا قدآور رہنما سمجھا جاتاہے، اب ہندوتوا ذہنوں کے لوگ یہ سمجھتے پھریں گے کہ دیکھو سدرشن جیسے گھٹیا چینل نے مسلمانوں کے بڑے رہنما کو گھیر لیا، اور اگر ویڈیو میں مولانا کی زبان سے کوئی بات ایسی نکل گئی جس کا ہندوتوا سماج ایشو بنا دے تو مسلمانوں کے لیے اضافی سردرد ۔ موجودہ حالات کا جوکچھ تھوڑا بہت مجھے تجربہ ہے اس کی روشنی میں، ایسے چینل پر جاکر مولانا نے اچھا نہیں کیا، اس سے دیگر قومی سطح کی میڈیا میں ان کا وقار کم ہوگا بلکہ مسلمانانِ ہند کی ملی قیادت کے معیار کو اس سے ناپا جائےگا اور سَنگھ یہی تو چاہتاہے کہ مسلمانوں کا پست معیار عام ہو اسی لیے آپ کبھی بھی سریش کےساتھ برہمنوں کے کسی بھی بڑے رہنما کو نہیں دیکھیں گے۔
جب آدمی بڑا ہوتاہے تو اسے پتا ہونا چاہیے کہ قومی سطح پر اسے کس کے ساتھ بیٹھنا ہے کس کےساتھ نہیں، اللہ جانے مولانا ارشد مدنی صاحب کے آس پاس کون لوگ ہیں؟ جو کم از کم انہیں دیانتداری کےساتھ معقولیت کی رائے بھی نہیں دیتے۔ البتہ جب ہم ان حضرات کی غلط روش پر حقیقت کا اظہار کریں تو گستاخ قرار دے دیے جاتےہیں؛ لیکن کاش ایسے لوگوں کو ملت کےساتھ ہورہی بدترین گستاخی کا احساس ہو۔
اردو شاعری خصوصاً اردو غزل میں اگرچہ مسلم شعرا کا حصّہ تعداد شعرا و مقدار کلام دونوں اعتبار سے غیر مسلم شعراء کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔مگر ان غیر مسلم شعرا نے اردو شاعری کے ہر دور اور ہر موڑ پر جو کچھ کہا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اردوشاعری میں نعت گوئی ایک ایسی شیریں اور دل نشیں صنف بن گئی ہے جس کی مثال دوسری زبانوں میں کم ملتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اردو نعت کے سرمائے میں توسیع کا اعزاز ان شعراء کو بھی حاصل ہواجنہیں معروف ایمانی مفہوم کے مطابق وابستگان رسول میں کبھی شمار نہیں کیا گیا،لیکن ان شعراء نے رسول اکرم حضرت محمد ﷺ سے اپنی والہانہ وابستگی اور پر خلوص عقیدت کو ایسے اشعار میں پرویا ہے کہ جنہیں کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
غیرمسلم نعت گو شعراء کے تعارف،تذکرے اور جائزے پر مشتمل کئی مضامین اور کتابیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں خصوصاً جناب نور احمد میرٹھی کی ۰۵۶ صفحات پر مشتمل کتاب’’بہر زماں بہر زباں‘‘بڑی اہمیت کی حامل ہے جس میں تین سو سے زائد غیر مسلم شعراء کی نعتیہ شاعری کاتعارف وتذکرہ پیش کیا گیا ہے جن میں سے چند شعراء کے صرف نام لکھے جائیں تو ایک طویل مضمون تیار ہو جائے گا۔اس وقت ہمارے پیش نظر ان غیر مسلم نعت گو شعراء کے حوالے سے مختلف محققین ،ناقدینِ فن اور دانشوران ادب نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے،انہیں یہاں پیش کردیا جائے تاکہ ان کی قدر و قیمت اور اہمیت ہمارے سامنے اجاگر ہو جائے۔
سب سے پہلے مذکورہ کتاب کے مقدمہ میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے کراچی کے ایک نعتیہ مشاعرے میں اپنی شرکت اور وہاں کے صدر مشاعرہ کی تقریر کے حوالے سے لکھا ہے:
’’ایک ہندو شاعریا کوئی غیر مسلم شاعر حضور اکرم ﷺکی شان میں نعت کہتا ہے تو اپنا کوئی بندھا ٹکا مذہبی فریضہ ادا نہیں کرتا،ہاں اس بات کا اظہار اس سے ضرور ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے مذہب کا پابند ہوتے ہوئے بھی پیغمبر اسلام کی شان میں نعت کہہ رہا ہے تو گویا وہ اس نکتے کی وضاحت کر رہا ہے کہ اپنے مذہب کے ساتھ ہی ساتھ دوسروں کے مذاہب اور بانیانِ مذاہب کا احترام بھی ضروری ہے اور آج دنیا کو اسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت ہے۔دنیا اس وقت تنگ نظری ،تنگ خیالی اور تعصب کے پھندے میں گرفتار ہے۔ عملی طور پر لوگ مذہب سے بیگانہ ہورہے ہیں اور مذہب کے نام پرفتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں اس لئے اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ شعراء اور دوسرے حضرات سامنے آئیں اور دوسرے مذاہب کے بارے میں اور ان کے بانیوں کے بارے میں وسیع المشربی کے ساتھ نظم و نثر میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔‘‘
نعت ایک ایسی صنف سخن بھی ہے جس کو نازک ترین فن کہا گیا ہے۔ مسلمان شعراء بھی کہیں کہیں ان حدود کا خیال نہیں رکھتے لیکن بقول پروفیسر سید یونس شاہ ’’یہ امر خاص طور پرقابل لحاظ ہے کہ غیر مسلم شعراء کے نعتیہ کلام میں حفظ مراتب کا خیال بدرجۂ اتم موجودہے۔‘‘ممتاز محقق شکیل احمد ضیا نے غیر مسلموں کی نعتیہ شاعری کے ضمن میں اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے’’ان نعتوں کے ایک شعر میں بھی مسلمانوں کی مشکوک و مجہول روائتوں کا سہارا نہیں لیا گیا ہے جن سے بعض مسلمان شعراء اپنے کلام کو مزین یا ملوث کرتے ہیں۔‘‘
اردو نعت کے تمام محققین نے اپنی تصانیف میں غیر مسلم شعراء کے نعتیہ کلا م کے محاسن اور رسول اکرم ﷺ سے ان کی شیفتگی کا ذکر کیا ہے۔ڈاکٹر ریاض مجید نے اپنے تحقیقی مقالہ’’ اردو میں نعت گوئی‘‘ میں تحریر کیا ہے’’غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی کا آغاز جنوبی ہند سے ہو چکا تھا اور مسلمان شاعروں کی طرح ہندو شاعروں نے عقیدت و محبت کے اظہار کے لئے حضور اکرم ﷺ کی سیرت و نعت کو بھی اپنی تخلیقات کا موضوع بنا یا ہے۔ لچھمن نرائن شفیقؔ کا معراج نامہ اور راجہ مکھن لال مکھنؔ کا نعتیہ کلام اس اظہار عقیدت کے نمونے ہیں۔‘‘ غیر مسلموں کی نعت سے دلچسپی کی وجوہات بھی ڈاکٹر ریاض مجید نے یوں بیان کی ہے’’ ہندو شاعروں کی نعت گوئی کا حقیقی دور ۷۵۸۱ کی جنگ آزادی کے بعد ہوا ۔عصر جدید میں ہمیں متعدد ایسے غیر مسلم شاعر ملتے ہیں جنہوں نے مقدار اور معیار ہر اعتبار سے اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔اس کے بہت سے سیاسی اور معاشرتی عوامل ہیں۔ایک بڑی وجہ وہ رواداری کی فضا ہے جو جنگ آزادی کے بعد ہندو مسلم قوموں میں پہلے کی نسبت کچھ نمایاں ہوگئی تھی۔ انگریز کے خلاف جنگ آزادی میں مقصدو منزل کی ہم آہنگی بھی دونوں میں قدر مشترک رکھتی ہے۔ مخلوط معاشرے میں اگرچہ ہندو مسلم تعلقات میں ایک کشیدگی ہمیشہ رہی اور دونوں قوموں کے تہذیب و تمدن میں واضح اختلاف رہا، اس کے باوجود اہل فکر و قلم کے حلقوں میں ایک رواداری کی فضا ملتی ہے۔‘‘
اب چند دوسرے ادیبو ں کی آراء بھی ملاحظہ فرمائیے۔پونا کے انیس چشتی اپنے مقالے ’’اردو کے ہندو نعت گو شعراء‘‘ میں ہندووں کی نعت گوئی کا پس منظر بتاتے ہوئے لکھتے ہیں’’ہندوستان کی سرزمین کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسلامی روایات کا پاس رکھنے والے افراد نے یہاں صرف مذہب اسلام کی آبیاری نہیں کی بلکہ یہاں کے دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں اسلام کے روح رواں رسول اکرم ﷺ کے بارے میں ایسا تاثر دیاکہ اس ملک میں بسنے والے دیگر طبقات سے متعلق افراد نے بھی ایک سچّے محسن انسانیت کی طرز زندگی اور اخلاق و عادات کو اپنی زندگی کا خاصّہ بنایا اور جب شعر گوئی کی طرف رغبت اختیار کی تو مدح رسول ﷺ کے ایسے جوہر دکھائے کہ بے ساختہ ان وابستگی اور نسبت پر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔‘‘اکثر محققین اور مصنفین نے بعض غیر مسلم شعراء کے نعتیہ کلام پرتبصرے کئے ہیں اور ان کی نعت نگاری کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی ‘ مشہور شاعر بال مکند عرش ملسیانی کی نعتیہ شاعری کے ضمن میں ہندو مسلم مخلوط معاشرے میں اس انداز کی شاعری سے نمایاں ہونے والی باہمی محبت و یگانگت کی فضا کے بارے میں فرماتے ہیں’’قومی اور اجتماعی حیثیت سے وہ اس وقت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں، ایک پل،اور ایک ربط کا کام دے رہے ہیں ،ملک کی دو بڑی قوتوں ،دو بڑی تہذیبوں ،دو بڑے مذہبوں کے درمیان ‘وہی خدمت جو ماضی قریب میں اس ملک کی دو محترم ہستیاں انجام دے چکی ہیں، ایک مسز سروجنی نائیڈو اور دوسرے سرکشن پرشاد شاد ؔ حیدر آبادی۔‘‘
ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے اپنے تحقیقی مقالے میں منشی شنکر لال ساقیؔ کی نعتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے’’ساقی کی نعتوں سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ ایک غیر مسلم کا اظہار عقیدت ہے۔شاعر جا بجا شرک اور کفر کی برائی اور توحید کے مضامین کو بلا تکلف باندھتے ہیں۔اس جگہ نہ تو ابہام کو دخل ہے اور نہ کسی تاویل کی گنجائش۔‘‘ اسی طرح انہوں نے راجہ مکھن لال مکھنؔ کی نعتیہ شاعری کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ’جہاں مکھن نے حضور ﷺ کی محبت میں اپنے داخلی جذبات کا اظہار کیا وہاں آپ ﷺ کے محاسن کا بیان بھی ان کے کلام میں پایا جاتا ہے ۔ ان محاسن میں داخلی اور خارجی دونوں ہیں۔‘‘ چودھری دلّو رام کوثری کی نعتیہ شاعری کو تقریباً تمام ناقدینِ فن نے سراہا ہے ان کے جذبات کی صداقت کا ہر صاحبِ ایمان معترف ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری فرماتے ہیں ’’ انہوں نے نعت گوئی میں زبان و بیان کوبڑی ہنر مندیاں دکھائی ہیں۔ ان کا کلام ظاہر کرتا ہے کہ نعت گوئی ان کی ذہنی کاوش یا محض محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان کے دل کی آواز اور ان کی طبع شاعرانہ کی فطری جولان گاہ تھی اسی لئے ہر جگہ ان کی سادگی ایک طرح کی پر کاری لئے رہتی ہے ۔‘‘ڈاکٹر طلحہ رضوی برقؔ کی کتاب’’ اردو کی نعتیہ شاعری ‘‘جو نعتیہ ادب کی پہلی تحقیقی کتاب ہے ‘میں رگھو بندر راؤ جذبؔ اور مصرؔ کے نعتیہ کلام کی خصوصیات کے بارے میں لکھتے ہیں’’جذب ؔ اور مصرؔ کی نعتیں اردو کی فنکارانہ اور عمقِ دل سے کہی گئی نعتوں کی نمائندہ ہیں۔ ایک سرشاری ،ایک بے خودی، ایک جذب، ایک کیفیت اور ایک مستی کا عالم ہے جو ایک ایک شعر سے مترشح ہے۔ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اشعار کسی غیرمسلم کے ہیں۔‘‘ اردو ادب کی بیشتر اہم شخصیات نے نعتیہ شاعری کے محاسن کو تو نمایاں کیا ہی ہے مگر بعض اہم دانشوروں نے غیر مسلموں کی نعتیہ شاعری کو تنقیدی رخ سے بھی دیکھا ہے ۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں’’نعت گوئی سے دلچسپی کا اظہار صرف مسلمانوں نے ہی نہیں غیر مسلم شعراء نے بھی کیا ہے ۔مطالعہ سے پتہ چلتا ہے مسلمان شعراء کی طرح غیر مسلم شعراء کی نعتوں کا بیشتر حصّہ یکسر رسمی ہے۔‘‘ اسی طرح ایک دوسری جگہ راجہ رشید محمود لکھتے ہیں’’ کئی غیر مسلموں کی نعتوں میں بھی ایسے مضامین پائے جاتے ہیں جن میں حمدو نعت کے فرق کو اور ان کے آپس میں تعلق کی نزاکت کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔‘‘ان آراء سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بعض غیر مسلموں نے بھی بعض مسلمانوں کی پیروی کی ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی اپنی کتاب’’ اردو شاعری میں نعت گوئی ‘‘ میں غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں’’سچّی بات تو یہ ہے کہ ان شعراء نے نبی رحمت ﷺ سے اپنی والہانہ وابستگی اور پر خلوص عقیدت کو ایسے اشعار میں پرو دیا ہے کہ ان نعتوں پر امّتِ محمدی ﷺ سے وابستہ افراد بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔‘‘
مختصر یہ کہ اردو ادب کے بیشتر محققین اور ناقدین نے غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں بہترین خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور خاص طور سے اس سلسلہ میں نور احمد میرٹھی نے جو تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے وہ بلا شبہ ناقابل فراموش ہے۔اور اس لحاظ سے اردو کے تمام غیر مسلم شعراء اور قارئین ‘نہ صرف انہیں داد و تحسین سے نوازیں گے بلکہ ان کی اس ادبی خدمت کے لئے ہمیشہ ان کے ممنون اور شکر گذار رہیں گے۔
(بشکریہ نعت کائنات ڈاٹ او آر جی)
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر وکلام وبقا کی قسم -محمد رابع نورانی بدری
استاذ دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف و سجادہ نشیں آستانہ بدر العلما، بڑھیا، ضلع سدھارتھ نگر یوپی
اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی ـ رحمہ اﷲ تعالی ـ بارگاہ رسالت میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے عرض کناں ہیں :
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیانہ کسی کوملے نہ کسی کو ملا
کہ کلام مجید نے کھائی شہا ترے شہر وکلام وبقا کی قسم
یقینا یہ ایک درخشندہ حقیقت ہے کہ رب العالمین جل جلالہ وعم نوالہ نے حضور سرور دو عالم ﷺکو جو مقام و مرتبہ عطافرمایا ہے وہ کائنات ہست وبود میں آپ سے پہلے کسی کو نہ ملاتھا اور نہ مستقبل میں کسی کو ملے گا اور اس عظیم خصوصیت سے مشرف فرمایا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکی ذات ،مدت حیات،کلام ،قوت قلب، شہرپاک،رخ تاباں،زلف عنبریں،اور زمانہ مبارک کو قسم کے ساتھ یاد فرمایا۔
ذیل میں ہر ایک کو تفصیلا ت اور حوالوں کے ساتھ ملاحظہ کریں۔
حضورﷺکی ذات کی قسم
حضور ﷺکی ذات کو قسم کے ساتھ یہاں یادفرمایا جا رہا ہے:
اس پیارے چمکتے تارے محمدکی قسم جب یہ معراج سے اترے(سورۃ النجم الآیۃ ۱)
امام جعفر بن محمد ـ رحمہ اﷲ تعالی ـ لکھتے ہیں:
إنہ محمد ﷺ (۱)
یعنی النجم سے مراد آقائے دوعالم ﷺ کی ذات ہے۔
اسی طرح امام آلوسی ـ رحمہ اﷲ تعالی ـ نے بھی لکھا ہے (۲)
آپﷺ کی ذات پاک کو قسم کے ساتھ یہاںبھی یاد فرمایاجارہا ہے:
اس صبح کی قسم اور دس راتوںکی(سورۃ الفجر۱/۲)
امام قاضی عیاض مالکی ـ رحمہ اﷲ تعالیٰ ـ تحریر کرتے ہیں:
الفجر محمد و لأن منہ تفجر الإیمان(۳)
یعنی فجر سے مراد حضورﷺ کی ذات پاک ہے اس لئے کہ صبح ایمان آپﷺہی سے روشن ہوئی۔
امام شیخ محمد اسمٰعیل حقی رحمہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں :
وقال سہل رحمہﷲتعالیٰ الفجرمحمد علیہ السلام منہ تفجرت الانوار ولیال عشر ہی العشرۃ المبشرۃ بالجنۃ(۴)
یعنی الفجرسے مراد حضورﷺ کی ذات پاک ہے انوار کاظہور آپ ہی سے ہوا ،اور لیال عشر عشرۂ مبشرہ ہیں ۔
حضور ﷺکی مدت حیات (عمر)کی قسم
حضور ﷺکی مدت حیات (عمر) کو قسم کے ساتھ اس آیت کریمہ میں یاد فرمایا جارہا ہے (ترجمہ پیش ہے)
اے محبوب تمہاری جان کی قسم بیشک وہ اپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں(سورۃالحجر الآیۃ ۷۲)
اس آیت کریمہ میں حضور ﷺکی عظمت شان کا جو اظہار ہے وہ مخفی نہیں حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں :
ما خلق اللہ تعالیٰ و ما ذرأوما برأ نفسا اکرم علیہ من محمد ﷺ وما سمعت اللہ تعالیٰ اقسم ۔بحیاۃ احد غیرہ(۵)
یعنی اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی جان نہ پیدا فرمائی جو اس کے نزدیک محمد ﷺ زیادہ مکرم ومعظم ہو حضور ﷺ کے علاوہ میں نے کسی کے بارے میں نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ اس کے زندگی کو قسم کے ساتھ یاد فرمایا ہو۔
حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بار بارگاہ نبوی میں عرض کیا :
بابی انت وامی یا رسول اللہ لقد بلغ من فضیلتک عند اللہ أن اقسم بحیاتک دون سائرالانبیاء (۶)
یعنی :حضور پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپ کا مقام ومرتبہ اللہ کے نزدیک اس قدر بلندہے کہ جماعت انبیائے کرام علی نبینا وعلیھم الصلاۃ والسلام میں سے صرف آپﷺ کی حیات کو قسم کے ساتھ یاد فرمایا ۔
حضورﷺکے کلام کی قسم
حضور کے کلام کو قسم کے ساتھ اس آیت کریمہ میں یادفرمایاجا رہا ہے( ترجمہ پیش ہے)
اورمجھے رسول کے اس کہنے کی قسم کہ اے میرے رب یہ لوگ ایمان نہیں لاتے(سورۃ الزخرف الآیۃ ۸۸)
حضور ﷺ نے بار گاہ خدا وندی میں عرض کیا تھا جس کا ترجمہ ہے :
اے میرے رب یہ لوگ ایمان نہیں لاتے
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کیاس قول کو اس قدر پسند فرمایا کہ اس کو قسم ساتھ یاد فرمایا ۔
حضرت شیخ زادہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :
وإقسام اﷲ تعالی بقیلہ رفع منہ تعالی و تعظیم لدعائہ والتجائہ (۷)
یعنی اللہ تعالیٰ کا حضور ﷺ کے قول کو قسم کے ساتھ یاد فرمانا یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضور ﷺکی شان کو بلند کرنا اور آپ کی دعاو التجا کی عظمت کا اظہار ہے ۔
حضور ﷺ کے قوت قلب کی قسم
حضور ﷺ کے قوت قلب کوقسم کے ساتھ یہاں یادفرمایا جارہاہے (ترجمہ پیش ہے)
قٓعزت والے قرآن کی قسم ( سورۃ قٓ الآیۃ۱)
حضرت قاضی عیاض مالکی ـ رحمہ اللہ تعالی ـ لکھتے ہیں:
وقال ابن عطاء أقسم بقوۃ قلب حبیبہ محمد ﷺ حیث حمل الخطاب والمشاھدۃ ولم یؤثر ذلک فیہ لعلو حالہ(۸)
یعنی ابن عطاء اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
اپنے حبیب محمد ﷺ کے قوت قلب کو قسم کے ساتھ یاد فرمایا کہ یہ دل وہ دل ہے کہ جو خطاب و مشاہدہ دونوں کا حامل رہا ہے اور علو حال کے باعث اس پرکچھ اثر نہ ہوا۔
حضور ﷺکے شہر پاک کی قسم
حضور ﷺکے شہر پاک کو قسم کے ساتھ یہاںیادفرمایا جارہا ہے (ترجمہ پیش ہے)
مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو اور تمہارے باپ ابرہیم کی قسم اور اس کی اولاد کی کہ تم ہو(سورۃ البلد ۱/۳)
مزیداس کو قسم کے ساتھ یہاں بھی یاد فرمایاجارہا ہے(ترجمہ پیش ہے)
انجیر کی قسم اور زیتون اور طور سینا اور اس امان والے شہر کی (سورۃ التین۱/۳)
حضور ﷺ کے رخ تاباں اور گیسوئے انور کی قسم
حضور ﷺ کے رخ تاباں اور گیسوئے انور کو قسم کے ساتھ یہاںیاد فرمایاجارہا ہے (ترجمہ پیش ہے)
چاشت کی قسم اور رات کی جب پردہ ڈالے(سورۃ الضحی ۱/۲)
امام اسمٰعیل حقی ـ رحمہ اﷲ تعالی ـ لکھتے ہیں:
یااشارتست بروشنی روئے وے حضرت مصطفی علیہ السلام وکنایتست از سیاہی موئے وے
والضحی رمزے زروئے ہمچو ماہ مصطفی ٭ معنی واللیل گیسوئے سیاہ مصطفی (۹)
یعنی و الضحیٰ سے حضور ﷺ کے رخ زیبا کی طرف اشارہ اور والیل گیسوئے انور سے کنایہ ہے والضحیٰ کا مطلب حضورﷺ کا چاند سا چہرہ ہے اور والیل کا معنی حضورﷺ کی زلف عنبریں ہے۔
حضرت امام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ـرحمہ اﷲ تعالیٰ ـ تفسیر عزیزی میں تحریر کرتے ہیں:
بعضے از مفسرین چنیں گفتہ اند کہ مراداز ضحی روز ولادت پیغمبر ﷺاست ومراد ازلیل شب معراج است وبعضے گویند کہ مراد از ضحی روئے پیغمبر استﷺواز لیل موئے او کہ در سیاہی ہمچو شب است وبعضے گویند کہ مراد ازضحی نور علمے است کہ آنجناب رادادہ بود وبسبب آن پردہ نشینان عالم غیب منجلی ومنکشف گشتند ومراد از شب خلق عفو اوست کہ عیوب امت را پوشید۔
یعنی:بعض مفسرین نے کہا کہ ضحی سے مراد حضورﷺکی ولادت باسعادت کا دن اور لیل سے مراد شب معراج ہے اور بعض فرماتے ہیں کہ ضحی سے مراد حضورﷺکا رخ انور ہے اورلیل سے زلف عنبریں اوربعض نے فرمایا کہ ضحی سے مراد نور علم ہے جو آپﷺ کو دیا گیا جس کے سبب علم غیب کے مخفی اسرار بے نقاب اور منکشف ہوئے اور لیل سے مراد حضورﷺ کے عفو ودر گزر کا خلق ہے جس نے امت کے عیبوں کو ڈھانپ لیا(۱۰)
حضور ﷺکے مبارک زمانہ کی قسم
حضور ﷺکے مبارک زمانہ کو قسم کے ساتھ یہاں یاد فرمایا جارہا ہے (ترجمہ پیش ہے)
اس زمانہ محبوب کی قسم بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کوصبر کی وصیت کی(سورۃ العصر )
علا مہ احمد بن محمدقسطلانی ـ رحمہ اﷲ تعالی ـ لکھتے ہیں:
وفيتفسیر الإمام فخرالرازي و البیضاويوغیرھما :إنہ أقسم بزمان الرسول ﷺ (۱۱)
یعنی امام فخرالدین رازی وامام بیضاوی وغیرہما کی تفسیر میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲﷺکے زمانہ مبارک کو قسم کے ساتھ یاد فرمایا ہے۔
یہ ہیں حضور رحمت عالم ﷺ کے عظمت کے جلوے جو قرآن کریم میں جابجا چمکتے اوردمکتے نظر آرہے ہیں۔
وصلی اللہ تعالی وسلم علی غیر خلقہ ونور عرشہ سیدنا و مولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم
حواشی :
(۱)الشفا بتعریف حقوق مصطفی ﷺامام قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ تعالیٰ ج/۱ ص/۳۴
(۲) روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی امام محقق سید محمود الآلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ ج/۲۷ ص/۴۰مطبوعہ دارا احیاء التراث العربی بیروت لبنان
(۳)الشفابتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ج/ ۱ ص /۳۴
(۴)روح البیان امام اسمٰعیل حقی رحمہ اللہ تعالیٰ ج۱۰/ ص /۴۲۱
(۵)الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ج/۱ ص/۳۲
(۶)المواہب اللدنیۃ با لمنح المحمدیۃ ج/۳ص/۲۱۵
(۷)حاشیہ شیخ زادہ علی تفسیر القاضی البیضاوی ج/۴ ص/۲۱۲
(۸)الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ج/۱ ص/۳۴
(۹)روح البیان ج/۱۰ ص/۴۵۳
(۱۰) تفسیر ضیاء القرآن :حضرت پیر کرم شاہ ازہری علیہ الرحمہ ج/۵ص/۵۸۶
(۱۱)المواھب اللدنیۃ ج/۳ص ۲۱۵
جہانِ سبز میں جس وقت زندگی پھیلی
گلوں میں رنگ تو پتوں میں تازگی پھیلی
حلاوتوں کا مرقع ترا لعابِ دہن
تری زباں سے زمانے میں چاشنی پھیلی
ہر ایک لفظ ہدایت کا پیش خیمہ بنا
تمہارے نطق سے ہر لمحہ راستی پھیلی
تری نظر سے زمانے نے دیکھنا سیکھا
"ترے جمال سے دنیا میں روشنی پھیلی”
تمہاری بزم سے دانش کدوں کو فیض ملا
تمہاری نعت سے عالم میں شاعری پھیلی
تمہی نے حسن کے معنی بتائے دنیا کو
ترے سراپے کے باعث ہی دلکشی پھیلی
صدر جمہوریہ اورنائب صدرنے میلاد النبی کے موقع پر ملک کے عوام کو مبارکباد دی
نئی دہلی:صدر جمہوریہ رام ناتھ کوونداورنائب صدروینکیانائیڈونے میلاد النبی کے موقع پر اپنے پیغام میں کہاہے، ’’ پیغمبر محمد ﷺکے یوم پیدائش پر منائی جانے والی عیدالمیلاد یا میلاد النبی کے مبارک موقع پر میں سبھی ہم وطنوں ، خاص طور سے اپنے مسلم بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔پیغمبر محمدﷺ کی زندگی بھائی چارے ، رحم دلی اور شفقت کی مثال ہے۔ وہ ہمیشہ انسانیت کے لیے باعث تحریک بنے رہیں گے۔آئیے،ہم سب ان کی حیات اور صفات سے تحریک لے کر سماج کی خوشحالی اور ملک میں امن و سکون برقرار رکھنے کے لیے کام کریں۔ ‘‘نائب صدر جمہوریہ ہند ایم وینکیا نائیڈو نے میلاد النبی کے موقع پر اہل وطن کو مبارکباد پیش کی ہے اورکہاہے کہ میلاد النبی کے مبارک موقع پر،جسے پیغمبر حضرت محمدﷺ کے یوم پیدائش کے طور پر منایا جاتا ہے، میں اپنے تمام شہریوں کواپنی جانب سے مبارکباداور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صاحب نے بنی نوع انسانیت کو جذبہ ترحم ، رواداری اور عالمی بھائی چارے کا راستی پر مبنی سیدھا راستہ دکھایا۔خدا کرے کہ ان کا ابدی پیغام ایک منصفانہ ، مبنی بر انسانیت اور ہم آہنگی کے اصولوں پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے ہماری رہنمائی کرتا رہے۔
اپنے آقا کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
دل اُلجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں
اب یہ دُنیا جسے چاہے اُسے دیکھے سرِسیل
ہم تو بس ایک سفینے کی طرف دیکھتے ہیں
عہدِ آسودگئ جاں ہو کہ دورِ ادبار
اُسی رحمت کے خزینے کی طرف دیکھتے ہیں
وہ جو پل بھر میں سرِ عرشِ بریں کھُلتا ہے
بس اُسی نور کے زینے کی طرف دیکھتے ہیں
بہرِ تصدیق سندنامہ نسبتِ عشاق
مُہرِ خاتم کے نگینے کی طرف دیکھتے ہیں
دیکھنے والوں نے دیکھے ہیں وہ آشفتہ مزاج
جو حرم سے بھی مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
کشمیری شہریوں کے قتل کا طالبان حکومت سے تعلق،کانگریس لیڈرمنیش تیواری کامضحکہ خیزدعویٰ
نئی دہلی:کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر منیش تیواری نے کشمیر میں شہریوں کے قتل کو افغانستان میں اقتدار میں آنے والے طالبان کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ تیواری نے کہا کہ طالبان کو افغانستان پر حکومت چلائے ہوئے دو ماہ ہو چکے ہیں۔ اس واقعے نے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے علاقے میں ہر بنیاد پرست اور انتہا پسند تنظیم کو پرجوش کر دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم آج کشمیر میں جس مرحلے کا مشاہدہ کر رہے ہیں اس کا اندازہ افغانستان میں طالبان کے عروج کے بعد ہی لگالینا چاہیے تھا۔کانگریس کے رکن اور سابق مرکزی وزیر منیش تیواری نے اس سے قبل بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مبینہ مظالم کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے تھے۔ اتوار کو منیش تیواری نے ٹویٹ کیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں ایک بڑا اسلامی ایجنڈا کام کر رہا ہے۔منیش تیواری نے ٹویٹ کیا تھاکہ کیا کشمیر میں غیر مسلموں کے قتل، بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے قتل اور پونچھ میں 9 جوانوں کی شہادت کے درمیان کوئی تعلق ہے؟ شاید ہے، جنوبی ایشیا میں ایک بڑا اسلامی ایجنڈا کام کر رہا ہے۔
نئی دہلی: اپوزیشن جماعتوں پر حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے میں رکاوٹ پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بی جے پی کے صدر جگت پرکاش نڈا نے پیر کو کہا کہ ان کی پارٹی کے ارکان نے نہ صرف سیاسی اشاروں کوذہن میں رکھتے ہوئے بلکہ سماجی اشاروں کوبھی ذہن میں رکھتے ہوئے قوم کےلیے کام کیاہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق بی جے پی کے قومی عہدیداروں کی میٹنگ سے اپنے خطاب میں نڈا نے کورونا وبا کے دوران مرکزکی نریندر مودی حکومت کی طرف سے غریبوں کو مفت اناج فراہم کرنے سمیت کئی فلاحی اسکیموں اور ویکسینیشن مہم کا حوالہ دیا۔بی جے پی کے قومی نائب صدر رمن سنگھ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اگلے چند ماہ کے لیے پارٹی کے ایجنڈے کو عہدیداروں کی میٹنگ کے ذریعے پیش کیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ میٹنگ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے گزشتہ چند مہینوں کے دوران بی جے پی تنظیم کے لیڈران کے ساتھ ہونے والی شدید بات چیت کے پس منظر میں ہوئی ہے۔سنگھ نے کہا کہ بی جے پی نے دکھایا کہ کس طرح پارٹی کے ارکان متعلقہ ہوسکتے ہیں اور تنظیم کے لیے کام کرتے ہوئے معاشرے کی مدد کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ بی جے پی ممبران نے نہ صرف سیاسی اشارے بلکہ سماجی اشارے کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے قوم کے لیے کام کیا ہے۔سنگھ نے دعویٰ کیا کہ کانگریس نیچے کی طرف گئی کیونکہ اس نے زمینی مسائل پر سرگرم رہنا چھوڑ دیا۔
کابل: ترجمان طالبان نے کہا ہے کہ لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولز بھی جلد کھول دیئے جائیں گے۔ قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے طالبان حکومت کے وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بہت جلد لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دیں گے۔ترجمان سعید خوستی نے مزید کہا کہ لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولز کھولنے کی تاریخ کا باضابطہ اعلان وزارت تعلیم جلد ہی ایک پریس کانفرنس میں کرے گی۔وزارت داخلہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ میری معلومات کے مطابق نہ صرف لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولز بلکہ یونیورسٹیز بھی کھول دی جائیں گی۔ ملک میں لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم کی اجازت ہوسکے گی۔قبل ازیں طالبان نے کہا تھا کہ لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے حوالے سے ایک فریم ورک ترتیب دیا جا رہا ہے تاہم سعید خوستی نے یہ نہیں بتایا کہ کن شرائط پر اور اصول و ضوابط پر لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی جائے گی۔واضح رہے کہ دو روز قبل یونیسیف کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل عمر عبدی نے بھی میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ دورہ کابل کے دوران طالبان نے انھیں جلد لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولز کھولنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
امیرِ شریعتِ ثامن کے سامنے لا مختتم سیاسی ،سماجی اور تنظیمی چیلنجز-صفدر امام قادری
انتخابِ امیرِ شریعت:سو برس بعد امارتِ شرعیہ نے کیا کھویا؟ کیا پایا؟؟
[پانچویں اور آخری قسط ]
مولانا ولی رحمانی کے ارتحال کے بعد سے مختلف گوشوں سے ایسی اطّلاعات آنے لگی تھیں کہ نئے امیرِ شریعت کے لیے ان کے صاحب زادے احمد ولی فیصل رحمانی اُمیّدوار ہو سکتے ہیں۔اسی لیے ان کی تعلیم اور ان کی شخصیت کے تعلق سے مختلف حلقوں سے اختلافی بیانات سامنے آنے لگے۔کچھ تحریروں میں کردار کُشی کی بھی کوششیں ہوئیں۔اس کے ردعمل میںرحمانی حلقے سے بھی جوابات پیش کیے جاتے رہے۔اب جب کہ اربابِ حل و عقد نے انھیں باضابطہ طور پر منتخب کر لیا ہے،اس لیے پرانی باتوں کو دہرانا بے وقت کی راگنی سمجھا جائے گا ۔سوال وجواب اور اشتعال میں پوچھے گئے سوال یا پیش کردہ جواب کی اکثر منطقی بنیادیں کمزور ہوتی ہیںمگر بعض ایسے سوالات بھی سامنے آئے جن کے جوابات ہر فریق کو چاہے۔ نئے امیرِ شریعت کیوں نہ ہوں،انھیں جواب دینا ہی پڑے گا۔بعض سوالوں کے جواب میں تو امیرِ شریعت کو اپنی کارکردگی ہی پیش کرنی پڑے گی۔امارتِ شرعیہ کی جتنی تابناک اورروشن تاریخ ہے،اس کے مطابق نئے امیرِ شریعت کو کسی حلقے کا حصّہ نہیں بننا چاہیے۔انتخاب میں کامیابی کے فوراً بعد انھوں نے سب لوگوں کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا جو نشانہ پیش کیا،وہ گذشتہ چند دنوں میں عملی شکل لیتا ہوا نظر آتا ہے۔امیر کی یہ بڑی جواب دہی ہوتی ہے کہ انتشار کے ہر موڑ پر اتّفاق اور محبت کا کوئی پیغام پہنچادیا جائے۔
انتخاب میں فتح یابی کے فوراً بعد انھوں نے عوام کے نام جو پہلا خطاب کیا،اس میں قومی اور عالمی صورتِ حال اور اہلِ اسلام کے لیے ہر سطح پر عرصۂ حیات تنگ ہونے کا ذکر تھا ۔انھوں نے تعلیم اور جدید تعلیم کے فروغ کے لیے اپنا ایک واضح نقطۂ نظر پیش کیا ۔مجلس میں موجود اربابِ حل وعقد کے افراد کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ امیرِ شریعت کے ذہن میں کچھ نیا کرنے کے لیے واضح خواب ہیں۔اگلے روز ان کا ایک اور بیان شایع ہوا جس میں اسلامی اور عصری تعلیم کے بیچ جو خطِ تقسیم موجود ہے، اس سے انھوں نے بے زاری اور بے اطمینانی کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے لیے یہ نقلی بٹوارے ہیں ۔ضرورت اور مقصد کے تحت علم کی شکلیں بدلتی ہیں اور انسان ان کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔اس لیے انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم کی اتنی خانہ بندی قوم کی ترقّی میں رُکاوٹ ثابت ہوگی۔
کورونا کی طویل وبائی صورتِ حال اور مشکل دور میں جناب فیصل رحمانی کو امیرِ شریعت کا عہدہ ملا ہے۔چھے مہینوں کے وقفے میں امارتِ شرعیہ کا دفتر ہزار طرح کی سازشوں کا اڈا ہو گیاتھا۔شہرِ عظیم آباد، صوبۂ بہار اور پورے ملک میں گذشتہ مہینوں میں امارتِ شرعیہ کے سلسلے سے جتنی ہنگامہ آرائیاں ہوئیں ،ان میں سے ہر بات کا کوئی نہ کوئی سِرا امارتِ شرعیہ کے دفتر اور اس کے کسی نہ کسی اہل کار سے جڑا ہوا پایا گیا۔مشاہدین اس بات پر مکمّل یقین رکھتے ہیں کہ ہر کھیل تماشے میں یہ افراد کسی نہ کسی جہت سے شامل ہو جاتے تھے یا شامل کر لیے جاتے تھے۔امیرِ شریعت کے انتخاب کی تاریخ کے تعین میں جو خلفشار پیدا ہوا ،اس میں بھی کہیں نہ کہیں امارتِ شرعیہ کے دفتر اور اس کے اہل کاروں کی شرکت بتائی جاتی ہے۔
امیرِ شریعت کے لیے یقینا سب سے بڑا مسئلہ اس دفتری نظام کو درست کرنا ہوگا۔وہ ماضی میں مینجمنٹ کے طالب علم اور استاد بھی رہ چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ خانقاہِ رحمانہ، جامعہ رحمانی،رحمانی فاؤنڈیشن اور رحمانی ۳۰ جیسے اداروں میں خاموشی سے اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے رہے۔گذشتہ پانچ برسوں میں اس دائرۂ کار میں کہیں نہ کہیں امارتِ شرعیہ بھی آئی ہوگی۔اس تجربے سے انھیں موجودہ ذمّہ داری کو بہ حسن و خوبی ادا کرنے میں اچھی خاصی مدد ملے گی۔عین ممکن ہے کہ امارتِ شرعیہ کے تمام ذیلی اداروں کے کار کنان اور خود امارتِ شرعیہ کے تنظیمی ڈھانچے کو سر گرم کرنے کے لیے انھیں بعض سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ممکن ہے آنے والے وقت میں نظام میں انقلاب آفریں تبدیلیاں بھی آئیں اور امارتِ شرعیہ کا دفتر جس انداز سے اب تک چلتا رہا ہے، اس میں ایک معنیٰ خیز تبدیلی آ جائے،عوام میں ایسی واضح توقعات نظر آنے لگی ہیں۔امارتِ شرعیہ سو برس کا ایک بھر پور زمانہ دیکھ چکا ؛اب اس کی شریانوں میں تازہ لہو شامل کرنا ضروری ہے۔ترقّی یافتہ اور جدید دنیا کے بہ راہِ راست تجربات مولانا فیصل رحمانی کے پاس موجود ہیں۔امارتَ شرعیہ کے دفتری نظام کا خاکہ کم وبیش اسی پُرانے مدرّسانہ انداز پر مرتَّب ہوا۔مولانا ولی رحمانی نے کار کردگی کے انداز و اسالیب بدلنے کی کوشش کی اور کاموں کی رفتار بڑھانے میں کامیاب ہوئے۔نئے نئے ادارے اور ذیلی تنظیمیں بنا کر امارتِ شرعیہ کو عوام و خواص کی زندگی سے جوڑنے اور دائرۂ کار کو پھیلانے میں ان کی سرگرمیاں یاد رکھی جائیں گی۔قدرت نے انھیں وقت نہیں دیا اور آخر کا ایک سال تو وبا کی رُکاوٹوں کی نذر ہو گیا۔اس کی وجہ سے امارتِ شرعیہ ایک نئے اور سرگرم ادارے کے طور پر پورے طور پر سامنے نہیں آ سکی ۔
موجودہ امیرِ شریعت کے پاس صوفیانہ تربیت ،جدید تر تعلیم کا فیضان اور عالمی سطح پر اداروں کے بدلتے ہوئے رُخ اور کام کرنے کے انداز سے بھر پور واقفیت موجودہے۔دفاتر کو جدید تکنیک کی مدد سے کس طرح سجایا،سنوارااور سنبھالا جا سکتا ہے ،اسے وہ خوب خوب جانتے ہیں۔بزرگوں کی دعائیں اور اربابِ حل وعقد کی بھر پور اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ایسی صورتِ حال میں ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ امارتِ شرعیہ کا دورِ جدید اپنے قلم سے رقم کریں۔اُن کے والد واضح تصوّر کے ساتھ کوئی کام کرتے تھے۔اس سلسلے کو انھیں آگے تک بڑھانا ہے اور امارتِ شرعیہ کو اس کی حقیقی اور نئی منزل عطا کرنی ہے۔یہ آسان کام نہیں ہے مگر ان کے پاس صحت اور تندرستی کے ساتھ ساتھ طبعی عمر کی بہت ساری منزلیں ہم رکاب ہیں۔وہ چاہیں تو امارتِ شرعیہ کی دنیا بدل دیں۔بڑے بڑے علماے دین کو چھوڑ کر اربابِ حل وعقد نے انھیں جس خاص اہتمام اور مقصد کے لیے امیرِ شریعت چُنا ہے،اسے یقینی طور پر وہ سمجھتے ہوں گے۔مستقبل کا مورخ اس انتظار میں ہے کہ سید احمد ولی فیصل رحمانی اپنے عہدِ امیرِ شریعت میں وہ کام کر جائیں گے جسے تاریخ یاد رکھے گی۔
نئے امیرِ شریعت کے لیے پہلا چیلنج تو ان کے والد اور ساتویں امیرِ شریعت کی مقبول عام شخصیت کا بدل بننا ہے۔گذشتہ تین دہائیوں میں ولی رحمانی اپنی تحریر،اپنی تقریر اور سماج کے ہر انداز کے طبقے میں ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک کے طور پر سمجھے جاتے تھے۔اہلِ سیاست کے سامنے ان کی گرمیٔ گفتار اس بات کی شاہد تھی کہ وہ کسی وزیرِ اعلا اور کسی وزیر اعظم سے خوف نہیں کھاتے تھے۔سیاست ،،مذہب ،تعلیم ،صحت ،ادارہ سازی اور مسلمانوں کے مخصوص مسائل کے ساتھ ساتھ ہم وطنوں سے مکالمات کا ان کا جو دانشوارانہ انداز تھا، ہندستانی عوام موجودہ امیرِ شریعت سے اس کی بھر پور توقع کریں گے۔انتخاب کے بعد انھوں نے جو مختصر تقریر کی، اس سے اتنا تو اندازہ ہوا کہ وہ کام کی باتوں پر اپنی گفتگو کا مدار رکھتے ہیں مگر اپنے والد کی طرح نپے تلے اور نکیلے انداز میں اردو زبان کی سِحر انگیزی کے ساتھ اپنی باتیں پیش کرنا ان کے لیے اگلا نشانہ ہونا چاہیے۔مولانا ولی رحمانی کی مقبولیت اور ان کے پیچھے لاکھوں افراد کا جمِّ غفیر ہوتا تھا۔ وہ ان کی تقریری مہارت اور زبان و بیان کی حسن کاری سے مزید روشن ہوتا تھا۔یہ مولانا ولی رحمانی کی ایک دن کی کمائی نہیں تھی۔ندوۃالعلما،دارالعلوم دیوبند،جامعہ رحمانی اور امارتِ شرعیہ کے پچاس سال سے زیادہ کے تجربات کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔یہ یاد رہے کہ امیرِ شریعت کی مقبولِ عام شخصیت کی تشکیل میں یہ تمام چیزیں لازم ہیں، آنے والے وقت میں مولانا فیصل رحمانی سے لوگ اس بات کی توقع کریں گے کہ مقبولیت اور دانش ورانہ جہت میں کیا وہ اپنے والد کے ہم سر ہو سکتے ہیں؟
آج ہندستانی مسلمانوں کو سماجی اور سیاسی مورچوں پر عجیب و غریب پسپائی کا احساس ہوتا ہے۔ایسی حالت میں کسی فرقہ وارانہ جماعت سے بہ راہِ راست تعلق کو ہندستانی عوام شاید پسند نہ کریں۔مولانا انیس الرحمان قاسمی کے دورِ نظامت پر کچھ سوالات تو تھے ہی مگر این۔ڈی۔اے حکومت میں ان کے اندر تک گھسے ہونے کی بات بھی ہمیشہ سامنے آتی رہی۔اربابِ حل وعقد نے یہ بھی دیکھا کہ فرقہ پرستوں سے سیدھے مقابلے کے وقت کسی ایسے چہرے کو کیوں اپنا سربراہ چنا جائے جو اسی حکومت کا حصّہ بننے اور ا س کی سہولیات کے حصول کے در پے ہے۔مولانا فیصل رحمانی سے لوگوں کی توقع ہے کہ وہ سیاسی مورچوں پر اسی طرح بے باک اور نڈر بن کر سامنے آئیں جسیے ان کے والد ہمیشہ سامنے آتے تھے۔یہ قوم کے مفاد میں جِد وجہد اور مقابلہ آرائی کا راستہ ہے مگر یہیں سے بزمِ گیتی کو ایک روز نئی روشنی ملے گی۔مولانا ولی رحمانی جب امیرِ شریعت بنے ، اس سے پہلے سے ان کی قومی شناخت تھی۔مگر مولانا فیصل رحمانی کو اپنے لیے نئے سِرے سے پہچان کا راستہ ڈھونڈنا پڑے گا۔عہدے کے ساتھ ہر روز نئے نئے کاموں سے اپنے آپ ان کی پہچان بنتی جائے گی اور چند برسوں میں ہندستان گیر سطح پر انھیں پہچانا جانے لگے گا ، اس میں کسی کو کوئی مغالطہ نہیں ہونا چاہیے۔
موجودہ امیرِ شریعت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ان کے مخالفین کی طرف سے یہ بھی لگایا گیا کہ وہ رواجِ عام کے مطابق مولانا نہیں ہیں۔ ان کے مخالفین انھیں انجینئر اور مینیجر کہتے ہیں۔ بھلے ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت جامعہ رحمانی میں اور خود ان کے والد کی نگرانی میں ہوئی ہو اور وہ جامعہ ازہر سے بھی کسی کورس کے فارغ ہیںمگر ان تمام سوالوں کے جواب انھیں اپنی موثر کار کردگی سے پیش کرنی ہوگی۔یہ کوئی ناممکن بات نہیں کہ کچھ برسوں میں ان کی باتیں ایک طرف عالمِ دین جیسی ہونے لگیں گی اور دوسری طرف جدید دنیا کے واقف کار کے حربوں سے وہ اپنے کاموں کو بدلتے ہوئے پائے جائیں گے مگر ان الزامات اور ان کے عقیدت مندوں کی توقعات کا صرف ایک ہی پیمانہ ہمیں نظر آتا ہے وہ ان کی حسنِ کار کردگی ہوگی۔انھیں اپنے انتخاب کے مراحل میں یہ بات ٹھیک طریقے سے معلوم ہو چکی ہے کہ اس راہ میں کانٹے زیادہ ہیں اور پھول کم۔سازشیں زیادہ ہیں اور معاونت کم سے کم ہیں مگر جسے ذمّہ داری ملی ہے اسے ایک ایک رُکاوٹ سے مقابلہ کرنا ہوگا ۔دنیا جب ان کے کام دیکھے گی تو اسے اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ ان کی راہ کے کانٹے تو انھیں اور حوصلہ دیتے ہیں ۔سازشوں سے کار کردگی میں مہارت پیدا ہوتی ہے ۔ اس حال میں مخالفین اور معاندین بھی ان کے ساتھ آ کر اپنے حصّے کی کوئی کار کردگی پیش کر نے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔اسی دن سے وہ نئی تاریخ لکھنے لگیں گے۔تھوڑے دنوں تک مخالفت اور سازشوں کا بازار گرم ہوگا مگر نئے امیرِ شریعت اپنے انتظامی سوجھ بوجھ اور کام کرنے کی رفتارسے ان تمام رُکاوٹوں کو دور کر سکتے ہیں۔بہت بڑی عوامی توقعات ان کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہیں۔اس بار سے کمزور آدمی بکھر جائے گا مگر مضبوط آدمی اس کے بر عکس نکھر کر سامنے آتا ہے۔
یہ ضرور ہے کہ اب ان کے لیے چین سے بیٹھنے کا کوئی موقع نہیں۔زندگی میں جتنا وقت ہے ، اس سے بڑھ کر ان کے سامنے ذمّہ داریاں ہیں۔وہ نئی دنیا کے فرزند ہیں، اس لیے اس منصب عالی پر وہ وقت گزاری کے لیے نہیں آ رہے ہیں بلکہ وہ امارتِ شرعیہ کو ایک نیا نظام بخشیں گے۔امارتِ شرعیہ کو عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنا نیا دستور اور کار کردگی کے لیے نیا آئین بنانا ہوگا۔نئی تعلیم کی روشنی سے اگر امارتِ شرعیہ کی جانب سے ادارے قایم کرنے کی ایک مہم شروع ہو جائے تو امارتِ شرعیہ کا دائرۂ کار بھی بدلے گا۔امارتِ شرعیہ کا اسپتال کام چلاو قسم کی خدمات انجام دے رہا ہے۔اسے جدید اسپتال اور معیاری ڈاکٹروں کی خدمات سے اونچا اُٹھانا ہوگا۔چالیس برس سے اگر ممتاز معالج ڈاکٹر احمد عبد الحئی اس کے چیر مین تھے تو اسپتال کی کار کر دگی کا معیار کیوں ان کی شایانِ شان نہیں ہو سکا۔امیرِ شریعت کو اس جانب بھی پوری توجہ دینی پڑے گی ورنہ بڑے بڑے ناموں سے ادارے کی ترقّی نہ ہونے والی ہے۔ قوم کو کام چاہیے اور معیاری خدمت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر اس جانب توجہ نہ ہوئی تو امارتِ شرعیہ کی مستقبل پسند ترقّی میں رُکاوٹیں آتی رہیں گی۔نئے امیرِ شریعت کے لے یہ تمام اہداف فصیلِ وقت پر شاہ سرخیوں میں کندہ ہیں۔ ان کی کامیابی کا سارا دار و مدار ان کی موثر کار کردگی میں پہناں ہے۔لوگ ان کے اقدام کا انتظار کرتے ہوئے ملیں گے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]