Cell.: 9891726444
Email.: [email protected]
تعزیتی تحریروں کا رشتہ دماغ سے زیادہ دل سے ہوتا ہے۔دل کی رسائی باطنی شخصیت کی تمام جہتوں تک ہوتی ہے۔ جبکہ دماغ خارجی شخصیت کے خد و خال تک ہی محدود رہتا ہے۔ جن تحریروں میں جگر کا سوز اور قلب کا گداز شامل ہوان تحریروں کی کیفیت ہی الگ ہوتی ہے۔ ملک زادہ منظور احمدکی تعزیتی تحریروں میں جو مقناطیسی کیفیت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں دماغ سے زیادہ دل کی کارفرمائی ہے۔ ان کی ایسی تحریروں میں دل ایک مرکزی کردار کے طور پر شامل رہتا ہے اور دماغ کی حیثیت صرف ایک معاون کردار کی سی ہوتی ہے۔
مرنے والے سے جذباتی قربت کا اظہار کرنے کے لیے جگر کو لہو کرنا پڑتا ہے۔ مرحوم کی ذات میں مکمل طور پر شامل ہوئے بغیر ایک لفظ بھی تحریر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی تحریریں لکھتے وقت جوئے خوں آنکھوں سے بہنے لگتی ہے۔آنکھ سے خون کی جو ایک بوند ٹپکتی ہے وہی لفظوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ لفظ اور لہو کے لاینفک رشتے سے ہی تعزیتی تحریر تشکیل پاتی ہے۔ رنگ خوں اشک میں شامل ہوتا ہے تب ایک لفظ لوح قرطاس پر نمودار ہوتا ہے۔ ماتمی احساس کو اظہار کا روپ دینا ہر کسی کا مقدور نہیں— اس کے لیے حواس کی اجڑی ہوئی دنیا کو آباد کرکے اس شخصیت اور اس سے جڑی یادوں کا ایک ایسا کولاژ تیار کرنا پڑتا ہے جس سے مرحوم کی داخلی اور خارجی شخصیت کا مکمل انعکاس ہوسکے اور اس کی شخصیت کا ہر وہ پہلو سامنے آجائے جو اس کے اختصاص اور انفراد کا مظہر ہو۔ بے قراری اور افسردگی کی کیفیت پورے وجود پر طاری کیے بغیر کوئی بھی تعزیتی تحریر وجود میں نہیں آسکتی۔
ملک زادہ منظور احمد کی تعزیتی تحریریں پڑھتے ہوئے ایسا احساس ہوتا ہے جیسے وہ دل ستم زدہ کو تھام تھام کر لکھ رہے ہوں اور بحر غم میں مکمل طور پر ڈوب کر اس شخصیت کے گل و گوہر تلاش کررہے ہوں۔ ملک زادہ منظور احمدکا دل درد ومحبت سے آشنا تھا۔ اس لیے انھوں نے یارانِ رفتگاں کو فراموش نہیں کیا۔ دل کے نہاں خانے میں ان کی جتنی یادیں محفوظ تھیں انھیں سپردِ قرطاس کیا۔ جن چہروں سے ان کی شناسائیاں تھیں ان شناسائیوں کو اپنی تحریروں سے تابندہ کیا۔
ملک زادہ منظور احمد نے مرحومین پر لکھتے ہوئے جانے کتنی اور شخصیتوں کو ذہنوں میں زندہ کردیا ہے۔ نشور واحدی، سروش مچھلی شہری، خاموش غازی پوری، کامل شفیقی، شوق بہرائچی، میکش غازی پوری، سلیم جعفری، جمیل مہدی، اشفاق محمد خاں، عرفی آفاقی، بشیشر پردیپ، شاہ جہاں بانو یاد، مینا قاضی، جمیلہ بانو، مسعودہ حیات، ساحرہ قزلباش، فضل نقوی، گنیش بہاری طرز، ممتاز نکہت، حافظ یوسف دہلوی، ادریس دہلوی، عباس حسینی، شاداں بارہ بنکوی، انور ندیم، احمد عباس ردولوی، علی صدیقی اور اس طرح سے بہت سے نام ذہن میں جگمگانے لگتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں یادوں کا جو نگارخانہ سجایا ہے اس کی سیر کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ان کے یہاں غم شہپر پرواز اور قوتِ محرکہ ہے۔ ان کی تحریروں میں ایک کسک سی محسو س ہوتی ہے۔ بالکل میرتقی میر جیسی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔
امڈی آتی ہیں آج یوں آنکھیں
جیسے دریا کہیں ابلتے ہیں
حزنیہ لے میں لکھی ان کی ہر تحریر میں دریا کی طغیانی نظر آتی ہے۔ ملک زادہ منظور نے اکثر بچھڑنے والوں کو اپنے آنسوؤں کا خراج پیش کیا ہے اور قارئین پر بھی ’قفانبک‘ کی کیفیت طاری کردی۔ ان کی ایسی تحریروں میں محبت کا دریا رواں نظر آتا ہے کہ ان کے لیے محبت متاعِ بے بہا تھی اس لیے وہ محبتوں کو حرزِ جاں بنائے رکھتے تھے اور محبتوں کے چھوٹے چھوٹے رشتوں کی بھی بڑی قدر کرتے تھے۔ وضع داری اور قدر شناسی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انھوں نے صحبت دیرینہ کو صفحات پر جس طرح نقش کیا ہے کہ، اس عہد میں شاید ہی اس کی نظیر مل سکے۔ کیسے کیسے اجڑے دیار کو ذہنوں میںا ٓباد کردیا۔
ملک زادہ منظور احمدکی تعزیتی تحریروں کا مقصد مرحومین کے کوائف سے خلق کو روشنا س کرانا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے احساس اور جذبے کی شدت میں قاری کو بھی شامل کرکے اس طرز احساس اور اقدار و روایات کو بھی ذہنوں میں نقش کرنا چاہتے تھے جو ان شخصیات کی ذات اور ان کی معاشرت کا خاصہ تھیں۔ ملک زادہ کے جذبے کی شدت اور قربت کا احساس ان کی تعزیتی تحریروں سے بآسانی ہوجاتا ہے۔ جس شخصیت سے زیادہ قربت ہوتی اس سے متعلق تحریروں کا انداز بالکل مختلف ہوتا۔ ان کی ایسی تحریروں سے ان کی قربت کے مدارج و مراتب بھی متعین ہوجاتے تھے۔ وہ اس شخص کے متعلقات اور متلازمات کا مکمل ذکر کرتے اور اس طرح بیان کرتے کہ شخصیت اور کردار کے تمام ابعاد سامنے آجاتے۔ ان کی تحریروں میں ان کے اندر کا داستان گو، وقائع نگار اپنی پوری کیفیت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ ان کے داستانوی منظرنامہ میں وہ سب چیزیں شامل رہتی تھیں جو صارفی معاشرت کے منظرنامے سے غائب ہوتی جارہی شخصیتوں سے جڑے ہوئے عروج و زوال کے قصے ، شوکت و اقبال کی کہانیاں، گویا وہ صرف تحریریں نہیں ہوتی تھیں بلکہ وہ اپنی تحریرو ںکے ذریعے زندگی کے اطوار بھی سکھاتے تھے۔ ان کی تعزیتی تحریریں زندگی کے آداب بھی بتاتی ہیں، جینے کا سلیقہ اور زندگی کرنے کا ہنر بھی سکھا جاتی ہیں۔ ان کی تعزیتی تحریروں میں زندگی کے سارے رنگ طے ہیں۔
ملک زادہ منظور احمدنے اپنی یادوں کے کسی بھی حصے کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ نصف صدی پر محیط ہر یاد ان کے ذہن میں محفوظ رہی۔ حتیٰ کہ رنگین کمل کا وہ پھو ل بھی ان کے لوح ذہن پر ابھر آیا:
’’بچپن کی یادوں میں آج تک وہ گھومتا ہوا رنگین کمل کا پھول محفوظ ہے جو اسٹیج پر بنایا گیا تھا اور جس کے درمیان میں بیٹھ کر کوی لوگ اپنی کویتائیں لوگوں کو سنا رہے تھے۔ یہ کمل کا پھول نصف دائرے میں داہنے اور بائیں گھومتا بھی تھا اور کوی کا چہرہ خود بخود دونوں جانب سننے والوں کی طرف چلا جاتا تھا۔‘‘
ملک زادہ منظور احمدکا ذہن مربوط و منظم تھا۔ زندگی کے الجھاوے کے باوجود انتشار ان کے ذہن کا حصہ نہیں بنا۔ کسی بھی تحریر میں بے ربطی کا احساس نہیں ہوتا۔ غضب کا حافظہ قدرت نے ودیعت کیا تھا۔ ان کی یاد کے ایک سلسلے سے نہ جانے کتنے اور سلسلے جڑجاتے تھے۔ جگن ناتھ آزاد کا ذکر کیا، تو ان سے جڑے اور بہت سے نام روشن ہوگئے:
’’کس کس کا ماتم کیا جائے، کس کس کو رویا جائے وہ شعرا کی اس بزرگ نسل کی آخری یادگار تھے جن کی موجودگی میں میں نے مشاعروں میں نصف صدی سے زائد کا عرصہ شعرا کا تعارف کراتے ہوئے گزارا تھا، فراق اور نوح گئے، جگر اور خمار اللہ کو پیارے ہوگئے، ساغر نظامی اور روش صدیقی نے ساتھ چھوڑ دیا، عرش ملسیانی اور ساحر ہوشیارپوری باقی نہ رہے۔ سردار اور کیفی نے رخت سفر باندھا، مجروح اور مخدوم، بیدی اور بسمل، شکیل اور شمیم، سلام اور وامق، نذیر اور کیف، شوق اور خطیب، نازش اور نیاز، راہی اور خلیل، شاد اور شاذ، عرفان اور والی، کرشن بہاری نور اور پریم وار برٹنی، نہ جانے کتنے او ر،جن کے الفاظ کے زیر و بم میں ایک عہد سانسیں لے رہا تھا، راہی ملک عدم ہوئے۔ لے دے کے ایک جگن ناتھ آزاد بچے تھے جن سے تعلقات کی محرابیں روشن اور مراسلات کے پھول شگفتہ و شاداب تھے، انھوں نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا اور اب مشاعروں کے اسٹیج پر ایک بھی ایسا نہیں بچا جس کو میں اپنا بزرگ تصور کروں، اور جس کی عمر کا احترام کرتے ہوئے اس کے نام کے ساتھ ’محترم‘ کا لاحقہ لگاؤں۔
ملک زادہ منظور احمدزندہ تخلیقی نثر لکھنے والے تھے۔ باغ و بہار اسلوب کے حامل ان کی ہر تحریر فکر و فرزانگی سے معمور ہے۔ ان کی تحریروں میں حکمت و دانش کے جواہر ہیں جو ان کے مطالعاتی تنوع اور وسیع تر لسانی پس منظر کے عکا س ہیں کہ وہ انگریزی ادبیات کے پروفیسر تھے۔ تاریخ اور اردو کی تدریس سے بھی ان کی وابستگی رہی ہے۔ زندہ اور متحرک لفظیات سے ہی انھوں نے اپنا تعلق قائم کیا وہ نہایت فصیح و بلیغ اور شستہ اور شائستہ زبان لکھتے تھے۔ انھوں نے سیکنڈ ہینڈ لفظوں کی جگالی نہیں کی۔ نئے اور تازہ الفاظ سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔ میر نے جس طرح شاعری میں پیکرتراشی کی ہے ملک زادہ منظور احمد نے اپنی نثر میں اسی عمل کو برتا ہے۔ شکیلہ بانو بھوپالی سے جڑی یادوں کو سمیٹتے ہوئے ان کی نثر میرتقی میر کی طلسماتی شاعری کا روپ لے لیتی ہے:
’’پردہ اٹھا اور، میں نے دیکھا
ایک پری چہرہ نازنین شاہانہ سج دھج کے ساتھ اسٹیج پر جلوہ افروز تھی۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر ایک دلبرانہ انداز میں حاضرین بزم کو سلام کیا، اس کے کانوں کے جھمکے، ماتھے کا جھومر، ناک کی نتھنی، گلے کا گلوبند اور دیگر زیورات جو لعل و جواہر سے مرصع تھے اور اپنی ضوفشانی اور چمک دمک سے ہال کو بقعۂ نور بنا رہے تھے۔ اس کی سرمگیںآنکھیں، ہونٹوں کی سرخی، دست ِ حنائی کی شوخیاں، کلائی میں کھنکتی ہوئی چوڑیاں، کاکل پیچاں میں چنبیلی اور گلاب کی زیبائش اور پاؤں میں پازیب کی آرائش نے مجھے تصویر حیرت بنا دیا، میں صبحِ صادق تک مبہوت ہوکر ان کاپروگرام دیکھتا رہا۔‘‘
ملک زادہ منظور احمدکی تعزیتی تحریریں اس بات کا احساس دلاتی ہیں کہ ان کے اندر انسانی قدریں زندہ تھیں۔ ان کا مادیت اور صارفیت کے اس معاشرے سے رشتہ نہیں تھا جو ہمارے آنسو بھی چھین لیتا ہے اور غم کے احساس کو بھی سلب کرلیتا ہے۔ انھوں نے ایسے معاشرے میں رہ کر بھی اپنے قوی تر انسانی جذبے کو زندہ رکھا۔ ان کا رشتہ اس قدیم معاشرے سے تھا جہاں انسانوں کی موت روشنی کے خاتمے سے عبارت ہوا کرتی تھی۔ ان کی تعزیتی تحریریں دراصل ہمیں یونانِ قدیم کے اس روایت کی یاد دلاتی ہیں جہاں Funeral oration یا Epitaplios Logos کی رسم زندہ تھی۔
ہومر کی طرح انھوں نے بھی Epita Logoes ہی لکھے ہیں ۔ ملک زادہ منظور احمد کے رسالہ ’امکان‘ میں کسک کے عنوان سے لکھی ہوئی تحریریں اسی اوریشن (Oration) کے ذیل ہی میں آتی ہیں۔ ملک زادہ نے رسالہ ’امکان‘ لکھنؤ میں اپنے یارانِ مہربان کو جس طرح یاد کیا ہے وہ یاد یقینا انسانی قلب و ذہن کو ایک عجب طلسماتی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہے۔
مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں پر انھوں نے تعزیتی تحریریں لکھی ہیں۔ مقبول لاری، محسن زیدی، کرشن بہاری نور، ابوالفیض سحر، لئیق صدیقی، ظہیر ناصر، جون ایلیا، ساغر اعظمی، اسعد بدایونی، جگن ناتھ آزاد، ملک راج آنند، عبدالقوی ضیا، قاسم شبیر نقوی، ظہیر احمد صدیقی، دیویندر ستیارتھی، ہری ونش رائے بچن، جانی واکر (بدرالدین قاضی)، رشید آزاد، امیر آغا قزلباش۔ یہ لوگ الگ الگ طبیعتوں کے حامل تھے۔ ان میں کچھ رندان قدح خوار بھی ہیں، کچھ صاحبان جذب و جمال بھی۔
ملک زادہ منظور احمد، خبط عظمت (Maglomania) کے مریض نہیں تھے۔ ان کی جوہرشناس آنکھیں شرر سے ستارہ، اور ستارہ سے آفتاب تلاش کرلیتی تھیں۔ انھوں نے اپنے خوردوں کے جوہر کی بھی شناخت کی اور انھیں کھلے دل سے سراہا بھی۔ اسعد بدایونی پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے دیکھیے کس انداز میں انھوں نے ان کے تخلیقی جنوں کو سراہا ہے:
’’ان کے تین مجموعہ ہائے کلام دھوپ کی سرحد، خیمہ خواب اور جنونِ کنارہ جو شائع ہوکر منظرعام پر آچکے ہیں وہ اس بات کا کھلا ہوا اشاریہ ہیں کہ ان کا تخلیقی سفر آگے چل کر نہ صرف فکر و نظر کی نئی راہیں متعین کرتا بلکہ غزل کے مستقبل اور مستقبل کی غزل کا عنوان بھی بن سکتا تھا۔ اسعد بدایونی صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ اردو تنقید کی سمت و رفتار کے پارکھ اور اداشناس بھی تھے۔ ان کے دو نثری مجموعے نئی غزل نئی آوازیں اور دائرے اور ان کا مرتب کیا ہوا انتخابِ بیخود موہانی ان کی تنقیدی اور تدوینی صلاحیتوں کی بھرپور غمازی کرتے ہیں۔‘‘
ملک زادہ منظور احمدکی تعزیتی تحریروں کا رنگ اور اسلوب بھی سب سے الگ تھا۔ عرفان صدیقی جیسے شاعر کو تعزیت پیش کرتے ہوئے ان کی نثر کا آہنگ ملاحظہ کیجیے:
’’کب تلک حلقۂ زنجیر میں کرتا رہوں رقص
کھیل اگر دیکھ لیا ہے تو اجازت مجھے دے
(عرفان صدیقی)
اور پھر 15 اپریل 4ء کی شام کو نو بجے حلقۂ زنجیر کا یہ رقص بھی تمام ہوگیا! کھیل دیکھ لیا گیا اور ’ہوائے دشتِ ماریہ‘ کو ’سات سموات‘ کی جانب اذن سفر مل گیا۔‘‘
’حلقۂ زنجیر‘، ’ہوائے دشت ماریہ‘ اور سات سموٰت سے عرفان صدیقی کی مکمل شعری شخصیت سامنے آجاتی ہے۔ چند سطروں میں کسی بحر بے کنار شخصیت کا اتنا جامع تعارف ملک زادہ منظور احمد کا خاصہ ہے۔ ملک زادہ منظور احمد کسی بھی شخصیت پر لکھتے ہوئے اس کے تمام اطراف و جوانب اور امتیازات کا مکمل احاطہ کرتے تھے۔ عرفان صدیقی سے ان کے بہت گہرے مراسم تھے۔ وہ ان کے حلقہ دوستاں میں تھے۔ معاصرانہ چشمک کا امکان بھی تھا مگر ملک زادہ منظور نے اپنی معاصرت کے پردے میں ان کی ہمالیائی شخصیت کو نہیں چھپایا بلکہ علی الاعلان یہ اعتراف کیا کہ:
’’اب ہمارے درمیان کوئی عرفان صدیقی نہیں ہے۔ شعر و ادب کی دنیا میں چاروں طرف دیکھتا ہوں، قرب و جوار میں کوئی ایسا نہیں نظر آرہا ہے جو اس کا بار اٹھانا تو درکنار اس کے کشکولِ فقیرانہ ہی کا بار اٹھا لے!‘‘
ملک زادہ منظور کا ذہن رسا ہمیشہ احساس و افکار کے نئے زاویوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ عرفان صدیقی کے پسماندگان کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے ایک ایسا نکتہ تلاش کرلیا جو کسی بھی تخلیق کار کی تخلیقی ابدیت کے باب میں بڑی معنویت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ اس کے تخلیقی وجود کا لافانی استعارہ ہوتا ہے:
’’پسماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیٹا اور چار بیٹیوں کے علاوہ انھوں نے کینوس، شب درمیاں، سات سموات، ہوائے دشت ماریہ، عشق نامہ کے علاوہ کالی داس کا ترجمہ ’مالویکا اگنی متر‘ اور متفرق نثر کی تحریریں چھوڑیں!‘‘
یہاں ایک بیوہ، ایک بیٹا، چار بیٹیو ںکے علاوہ ان کی معنوی اولادوں کا ذکر بھی خوب ہے۔
ملک زادہ منظور احمد مرحومین کے کوائف، پس منظر و پیش منظر سے بھی اچھی طرح آگاہ کردیتے تھے۔ ان کی تحریروں کی خوبی یہی ہے کہ وہ اس طرح کا پس منظر بیان کرتے کہ مرحوم کی شخصیت کے تمام زاویے روشن ہوجاتے تھے۔ جون ایلیا پر لکھتے ہوئے انھوں نے ان کے خاندانی پس منظر کا بطورِ خاص ذکر کیا جس سے ان کی عظمت کے نقوش دل میں اور بھی مرتسم ہوجاتے ہیں:
’’جون ایلیا ساداتِ امروہہ کے ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جس کی گھٹی میں علم و دانش اور شعر و ادب کی روایات دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں، بذات خود جون ایلیا کی نگاہیں منقولات اور معقولات دونوں پر تھیں جس کا خاطر خواہ اندازہ ان کے مجموعۂ کلام ’شاید‘ میں ان کے تحریر کردہ پیش لفظ سے ہوتا ہے۔ اس خانوادے کا ہر فرد چاہے وہ رئیس امروہوی رہے ہوں یا سید محمد تقی، صادقین رہے ہوں یا کمال امروہوی، شعر و ادب یا فنون لطیفہ کی جس صنف کی جانب نکل گیا اپنے فن میں یکتائے روزگار رہا۔‘‘
شکیلہ بانو پر لکھتے ہوئے بھی انھوں نے ان کے پورے پس منظر کا حوالہ دیا ہے:
بمبئی میں ہماری اور ان کی ملاقاتیں گیارہ بجے شب کے بعد ان کے مکان ’شہرغزل‘ میں ہوتیں۔ عموماً ہمارے ساتھ ادبی ذوق رکھنے والے، ذہین، طباع اور مہذب احباب ہوتے اور پھر شعر و شاعری، لطیفوں، قہقہوں اور خاطر و تواضع کا سلسلہ صبح تک جاری رہتا۔ شکیلہ بانو محض شاعرہ اور قوالہ ہی نہیں تھیں وہ الہٰیات سے لے کر جنسیات تک کسی بھی موضوع پر علمی گفتگو کرسکتی تھیں، غزل کے اوزان و بحور سے واقفیت رکھتی تھیں۔
¡
شکیلہ بانو ایک خوش فکر شاعرہ بھی تھیں۔ ان کا مجموعہ کلام ’ایک غزل اور‘ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی حکومت اترپردیش کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا پیش لفظ ان کی فرمائش پر لکھتے ہوئے میں نے ان کی شاعری کو ’انتخابی شاعری‘ قرار دیا ہے جس میں مختلف رنگ و آہنگ کے اشعار ہیں۔ کہیں ماضی کے صنم کدوں کا نور ہے اور کہیں جدت کی کارفرمائی، دراصل قوالی کی ضرورت کے پیش نظر شکیلہ بانو کو متقدمین اور معاصرین کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔
ملک زادہ منظور احمد نے اپنی تعزیتی تحریروں میں ناقدریِ زمانہ کا گلہ و شکوہ بھی کیا ہے۔ فنکارو ں کے تعلق سے معاشرے کی بے حسی کا ماتم بھی کیا ہے۔ دیویندر ستیارتھی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اس المیے کا اظہار کیا ہے کہ :
’’دہلی کی ہندی اور اردو پنجابی اکادمیوں نے انھیں اعزازات سے نوازا۔ حکومت ہند نے انھیں پدم شری کا خطاب عطا کیا۔ پنجابی اکادمی نے ایک ہزار ماہانہ پنشن مقرر کی۔ پنجابی میگزین آر سی نے ان پر اپنا خصوصی نمبر شائع کیا اور ایک لاکھ روپے نقد عطا کیے مگر اس عظیم فنکار کے انتقال پر اردو اخبارات، رسائل و جرائد کا جو ردعمل رہا اور جس معمولی انداز میں ان کی موت کی خبریں شائع ہوئیں وہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے!‘‘
اسی طرح انھوں نے شکیلہ بانو کی زندگی کے آخری لمحات کے کرب کو الفاظ کے پیرائے میں یوں ڈھالا ہے جس سے ہمارے معاشرے کی بے حسی ہی ظاہر ہوتی ہے:
’’مگر شکیلہ بانو کے آخری دن بے حد پریشانی اور اقتصادی بدحالی میں گزرے، اخبارات کی خبر کے مطابق یہ فنکارہ جس کو سننے کے لیے ہزاروں لوگ اکٹھا ہوتے تھے شاید خاندانی مناقشات کے باعث اپنے باضابطہ علاج کے لیے پیسے نہ بچا سکی اور اس کا انتقال بمبئی کے ایک سرکاری ہسپتال میں ہوا۔‘‘
ملک مادہ کی تعزیتی تحریروں میں کہیں کہیں دماغ کو بھی مرکزیت حاصل رہی ہے۔ ملک راج آنند پر تعزیتی سطریں اسی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ 99 برس کی عمر میں پونہ میں انتقال کرنے والے ملک راج آنند کے بارے میں کسک کا آغاز یوں کرتے ہیں اور صرف بنیادی معلومات کی فراہمی پر ہی اکتفا کرتے ہیں:
’’ان لوگوں میں جنھوں نے ہندی دنیا کو انگریزی قارئین سے روشناس کرایا ملک راج آنند کا نام ایک بہت بڑا نام تھا۔ یوں تو ان کی ابتدائی تحریریں زیادہ تر آرٹ پر تھیں مگر ان کو عالمگیر شہرت اس وقت ملی جب ایک مختصر عرصے میں ان کے تین ناول منظرعام پر آئے ان کا پہلا ناول Untouchable 1935 میں، دوسرا ناول Coolie ایک برس کے بعد، اور تیسرا ناول Two leaves and a Bud 1937 میں یکے بعد دیگرے شائع ہوئے اور ان کا شمار راجا راؤ اور آر کے نارائن جیسی شخصیات کے ساتھ ہونے لگا۔ انھوں نے ذات پات، برطانوی سامراج اور سماجی ناانصافی کے خلاف بہت کچھ لکھا اور گاندھی جی کے زیراثر ہندوستان کی جنگ آزادی میں شریک ہوئے۔‘‘
ان کی تعزیتی تحریروں میں ایک عہد کی ثقافتی، تہذیبی، معاشرتی اور مجلسی زندگی سانس لے رہی ہے۔ مقبول لاری کے ضمن میں انھوں نے مشرقی انداز زندگی کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
’’لاری صاحب پرانے تہذیبی رویوں کے انسان تھے اور ان کے مزاج میں مشرقی اندازِ زندگی اتنا رچ بس گیا تھا کہ وہ اپنے ڈرائنگ روم میں شاذ و نادر ہی بیٹھے۔ وہ تقریبات میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک آئی اے ایس افسر بڑے ہی کروفر کے ساتھ کسی خاتون کے ہمراہ ان کے لان پر منعقد ہونے والی ایک ادبی تقریب میں آگئے۔ لاری صاحب نے زور دے کر کہا کہ وہ خاتون کو زنانے حصے میں بھیج دیں جہاں لاؤڈاسپیکر سے ساری کارروائی پہنچ رہی ہے مگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے اور اٹھ کر چلے گئے۔ لاری صاحب نے ان کو جانے کی اجازت تو دے دی مگر مردوں میں ان دونوں کو ساتھ ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔‘‘
ان کی تعزیتی تحریروں میں اقدار کے زوال کا نوحہ بھی ہے اور گم شدہ شہروں کی صحت مند معاشرت کی تخیلی بازیافت بھی۔ معاشرہ کی منفی اور مثبت قدروں کا ذکر بھی ہے۔ اس میں طلسم ہوش ربا کا ’اودھ‘ بھی نظر آتا ہے اور تہذیب کی وہ زمینیں بھی جو بنجر ہوچکی ہیں۔
ملک زادہ منظور احمد نے تعزیتی شذرات میں اپنے تنقیدی تصورات بھی واضح کردیے ہیں۔ کسی ازم یا تحریک سے متاثر ہونا ایک فطری عمل ہے مگر ملک زادہ کسی تحریک کے تابع مہمل نہیں رہے۔ فکری اور نظری جبریت کے حصار سے ہمیشہ آزاد رہے۔ ادبی رجحانات، رویوں، تحریکات پر ان کی گہری نظر تھی، عالمی ادبیات کے نئے رویوں سے بھی آگاہ تھے۔ مگر ان کا تنقیدی شعور ان کے ذوق، وجدان اور مطالعاتی ارتکاز کا عکاس تھا— وہ کلاسیکی شعریات کے ہی دلدادہ تھے، شعر و ادب کے نئے تجربوں سے ناخوش تو نہیں مگر ان تجربوں کو فنی حسن اور جمالیاتی اقدار کے لیے زیادہ مفید نہیں سمجھتے تھے۔ قاسم شبیر نقوی نصیر آبادی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اپنے تنقیدی رویے کا اظہار یوں کیا ہے:
’’ہم ترقی پسندی یا جدیدیت کے زعم میں اپنے امتیاز کے چاہے جتنے بھی پہلو پیدا کریں مگر سچ یہ ہے کہ زبان و بیان کے جو نکات اور صنائع بدائع کے التزامات ہمارے بزرگوں کے پاس رہے ہیں، اس سے ہم محروم ہوتے جارہے ہیں۔‘‘
اسی طرح جدیدیت، مابعد جدیدیت پر ولی کمال خاں عارف ادیب کے تعلق سے لکھتے ہوئے انھوں نے اپنا یہ تاثر دیا ہے:
’’ان کے انتقال سے ملیح آباد کی ایک عجوبہ روزگار شخصیت ہمارے درمیان سے اٹھ گئی—انھوں نے اپنا ایک مضمون امکان میں شائع ہونے کے لیے بھیجا مگر وہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ اور میں نے اسے شائع کرنے سے احتراز برتا۔ ان کا ایک طویل مضمون ان کے بھتیجے نورس جاٹ آفریدی کی ڈائری میں موجود ہے اس کے کچھ حصے میں نے پڑھے مگر وہ بھی میری ناقص عقل سے بالاتر رہے۔ میری ناقص عقل سے بالاتر جدیدیت اور مابعد جدیدیت، ساختیات اور پس ساختیات کے بہت سے مباحث بھی رہے ہیں مگر میرے سمجھنے یا نہ سمجھنے سے شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہی صورت حال ولی کمال خاں عارف ادیب کی تحریروں کی بھی ہے۔‘‘
ملک زادہ منظور احمد کی نثر کا تکلمی اسلوب جہاں ابوالکلام آزاد کی خطابیہ نثر سے گہرے تاثر کا سراغ دیتا ہے وہیں ان کا حکائی انداز ان کے تخلیقی وجود میں پنہاں افسانہ نگار کا ثبوت ہے۔ ملک زادہ منظور احمد کی شخصیت ’گل صد برگ کی سی ہے‘ ان کے تنوعات کو کسی خاص صنف یا فن میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ملک زادہ ایک کثیرالابعاد شخصیت کا نام ہے۔
ملک زادہ منظور احمد نے یاد رفتگاں کی رسم بخوبی نباہی۔ انھں نے اپنے سینے میں شہر ملال بسایا ہوا تھا۔ اب جبکہ وہ خود شہر خموشاں کے مکیں ہوچکے ہیں تو ڈر لگتا ہے کہ مادیت، صارفیت کی آندھیاں اس شہر ملال کو اجاڑ نہ دیں اور یہ ڈر یوں بھی فطری ہے کہ عشق بتاں یا فکر معاش کہیں یاد کی فرصت بھی نہ چھین لے۔ ساحر لدھیانوی نے بہت پہلے کہا تھا:
کل کوئی مجھ کو یاد کرے، کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے
مصروف زمانہ میرے لیے کیوں وقت اپنا برباد کرے