نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو مرکزی حکومت اور یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کو سول سروس کے امیدواروں کو اضافی موقع دینے کی ہدایت دینے سے انکار کردیا ،جو اکتوبر 2020 کے امتحان میںاپنی آخری کوشش کرچکے تھے یا جن کی عمر 2020 کے بعد زیادہ ہوگئی تھی۔تاہم جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ نے امیدواروں کو اضافی کوشش کے لئے متعلقہ اتھارٹی کے سامنے نمائندگی کرنے کی آزادی دی۔ بنچ نے زور دیا کہ حکام کووڈ وبا کی صورتحال کی روشنی میں اضافی موقع کے لئے درخواست پر نرمی کا مظاہرہ کرناچاہئے۔دراصل گذشتہ سال درخواست گزاروں نے کورونا وبا کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے اضافی کوشش کی مانگ کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ بنچ
نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اضافی موقع دینے کی ہدایت نہیں دے سکتی ہے۔ بنچ نے کہا کہ فروری 2021 میں رچنا بمقابلہ یو پی ایس سی معاملے میں اس طرح کی درخواست خارج کردی گئی تھی۔
جولائی 2021
کولمبو:سری لنکا کے خلاف تیسرے اور آخری ون ڈے سے قبل کوچ راہل دراوڈکو کنفیوژن کا سامنا کرنا پڑے گا ، چاہے وہ آخری میچ میں تجربہ کریں یا کلین سوئپ کے لیے فاتحانہ اٹیک برقرار رکھیں۔شیکھر دھون کی کپتانی میں ہندوستان نے پہلا میچ سات وکٹوں سے جیتا تھا جبکہ دیپک چاہر نے دوسرے میچ میں تین وکٹ سے جیت میں 69 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ہندوستان اننگ کی شروعات کے لیے شیکھر دھون کے ساتھ پرتھوی شا کو لے جاتا ہے یا دیووت پاڈیکال یا ریتوراج گائکواڈ کو موقع دیتا ہے۔ شا نے پہلے دو میچوں میں 43 اور 13 رنز بنائے تھے۔اگر شاکو دوبارہ موقع ملا تو وہ اچھی شروعات کو بڑی اننگ میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ٹیم مینجمنٹ کے سامنے ایک اور مخمصہ یہ ہو گا کہ جارح ایشان کشن کو میدان میں اتارنا ہے یا سنجو سیمسن کو ون ڈے ڈیبیو میں جانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ منیش پانڈے اور سوریہ کمار یادو مڈل آرڈر میں اپنے مقامات برقرار رکھیں گے۔نائب کپتان بھونیشور کمار نے کہا ہے کہ ہاردک پانڈیا کی فٹنس سے متعلق کوئی مسئلہ نہیں ہے ، لہٰذا بڑودہ کے کھلاڑی اور ان کے بھائی کرونال پانڈیا سے کھیلنے کی امید ہے۔
مہاراشٹرا اسمبلی سے معطل بی جے پی کے 12 ایم ایل اے سپریم کورٹ پہنچے
نئی دہلی: مہاراشٹرا اسمبلی سے معطل ہونے والے بی جے پی کے 12 ایم ایل اے اسپیکر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ ارکان اسمبلی نے معطلی کی کارروائی کو ان کی آواز دبانے اور اپوزیشن کی طاقت کو کم کرنے کی کوشش قرار دیا۔ درخواست میں معطلی کی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔ درخواست میں ممبران اسمبلی نے عدالت کے سامنے دلائل دیئے کہ اسپیکر کو 12 اراکین اسمبلی کو اپنی وضاحت دینے کا موقع دینا چاہیے تھا۔ اسپیکر کے کمرے میں حکمراں جماعت کے کچھ ایم ایل اے بھی موجودتھے۔مزید انہوں نے استدلال کیا کہ ایک سال کے لیے معطلی انتہائی غیر ناسب ہے۔ انہوں نے یہ بھی استدلال کیا کہ حکمران جماعت اور حزب اختلاف کے مابین گرما گرم بحث جمہوریت کا جوہر ہے اور اس طرح کی کارروائی صرف اپوزیشن کی طاقت کو کم کرنے کے لیے کی گئی ہے۔6 جولائی کوبی جے پی کے 12 ممبران اسمبلی کو اسمبلی کے اندر اور باہر اسپیکر کے ساتھ بد سلوکی کے الزام میں مہاراشٹرا اسمبلی سے ایک سال کے لیے معطل کردیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے آصف اقبال تنہا سمیت تین افرادکی چار ہفتوں تک سماعت ملتوی کی
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے شمال مشرقی دہلی فسادات کیس کے ملزم دیونگنا کالیتا ، آصف اقبال تنہا اور نتاشا ناروال کی ضمانت کیس میں سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کردی ہے۔ سپریم کورٹ نے اشارہ دیا کہ وہ ضمانت کو منسوخ نہیں کرے گی ، لیکن کہاہے کہ ضمانت کے آرڈر میں قانون کی دفعات پر کوئی تبصرہ نہیں کرناچاہیے۔ سماعت کے دوران وکیل کپل سبل نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہاہے کہ چارج شیٹ 20000 صفحات پر ہے اور یہ نوجوان ہیں۔ جسٹس سنجے کشن کول نے کہاہے کہ ضمانت کی کارروائی حتمی فیصلے کی نوعیت میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہائیکورٹ کو قانون کی دفعات پر بحث میں نہیں جانا چاہیے۔آج کل ضمانت کے معاملات پر ایک لمبی بحث جاری ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ صورتحال میں اتنا وقت دینا ضروری ہے؟ یہ ہمیں پریشان کرنے والی بات ہے۔ ضمانت کے ہر معاملے میں ایک لمبی بحث ہوتی ہے۔ ہم اس مسئلے میں مزید وقت دینے کی تجویز نہیں کرتے ہیں۔ جسٹس کول نے دہلی پولیس میں پیشی کرتے ہوئے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا سے پوچھاہے کہ انہیں ضمانت ہوگئی ، کیا آپ انہیں تحویل میں لینا چاہتے ہیں؟ آپ ضمانت اور ہائی کورٹ کی تشریح کو چیلنج کررہے ہیں؟ اس پر تشار مہتا نے جواب دیاہے کہ ہم دونوں کو للکار رہے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ ہائی کورٹ کا حکم ختم کیا جائے۔ ایس سی کارکنوں کی درخواست کوپین ڈرائیو میں جواب داخل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
نئی دہلی: دینک بھاسکرپرچھاپے پر انوراگ ٹھاکرنے کہاہے کہ ہم اس پر پارلیمنٹ میں بھی جواب دیں گے۔ انہوں نے کہاہے کہ ایجنسیاں اپنا کام کرتی ہیں۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے جو معلومات دی جارہی ہیں وہ ضروری نہیں کہ وہ درست ہوں۔ آج صبح کئی شہروں میں ٹیکس چوری کے الزام میں انکم ٹیکس ٹیموں نے اترپردیش میں میڈیا گروپ دینک بھاسکر اور ایک نیوز چینل پر چھاپہ مارا۔ جیسے ہی اہم ذرائع ابلاغ پر چھاپے مارے جانے لگے ، اپوزیشن جماعتوں نے سوشل میڈیا پر حکومت پر حملہ کرنا اور ان کی مذمت شروع کردی۔ اطلاعات و نشریات کے وزیر انوراگ ٹھاکر نے حکومت کے اس عمل کا جواب دیا ۔انوراگ ٹھاکر نے کابینہ کی بریفنگ میں نامہ نگاروں کوبتایا ہے کہ ایجنسیاں اپنا کام کرتی ہیں ، ہم ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی واقعے کے بارے میں اطلاع دینے سے پہلے کسی کو حقائق جاننا پڑتا ہے۔ بعض اوقات معلومات کا فقدان الجھن پیدا کرتاہے۔
پیگاسس جاسوسی کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا، ایس آئی ٹی جانچ اور سافٹ ویئر کی خریداری پرروک لگانے کی مانگ
نئی دہلی:ہندوستان میں پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعے حزب اختلاف کے لیڈران اور صحافیوں کی جاسوسی کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ ایڈووکیٹ منوہر لال شرما نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ اس عرضی میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایس آئی ٹی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان میں پیگاسس کی خریداری پر بھی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ملک کے بہت سے اپوزیشن لیڈر پیگاسس جاسوسی کیس کولے کرمودی حکومت پرحملہ آور ہیں۔ کانگریس پارٹی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی تحقیقات کا مطالبہ کررہی ہے۔ تاہم حکومت نے جاسوسی کے اس کیس کو پارلیمنٹ میں بھی مسترد کردیا ہے۔ایک بین الاقوامی میڈیا تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی جاسوس سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعہ دو ہندوستانی وزراء، 40 سے زیادہ صحافی، حزب اختلاف کے تین لیڈران سمیت بڑی تعداد میں کاروباری افراد اور انسانی حقوق کے کارکنان کے 300 سے زیادہ موبائل نمبروں کو ہیک کیا گیا تھا۔
مسلمانوں کو ’ہندو‘بتانے والے موہن بھاگوت کا مضحکہ خیز بیان،بولے-ہندوستان میں 1930 سے منصوبہ بندطریقے سے مسلمانوں کی تعدادمیں اضافہ ہوا
گوہاٹی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بار پھر ہندو مسلم سے متعلق متنازع بیان دیا ہے۔ موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ سن 1930 سے ہندوستان میں منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے پیچھے یہ خیال تھا کہ آبادی بڑھا کر ملک کو پاکستان بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں بنگال، آسام اور سندھ کو پاکستان بنانے کا منصوبہ تھا لیکن یہ منصوبہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا اور ملک تقسیم ہوگیا اور پاکستان بن گیا۔شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور شہری قومی رجسٹر (این آر سی) کے بارے میں موہن بھاگوت نے کہا کہ اس کا ہندو مسلم تقسیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے دعوی کیا کہ کچھ لوگ اپنے سیاسی مفادات کیلئے اسے فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں۔ دو روزہ آسام کے دورے پر بھاگوت نے اس بات پربھی زور دیا کہ شہریت کے قانون سے کسی بھی مسلمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔بھاگوت نے ’این آرسی اور سی اے اے آسام پر شہریت مباحثہ اورسیاسی تاریخ‘ کے عنوان سے کتاب لانچ کرنے کے بعد کہاکہ آزادی کے بعد پہلے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اقلیتوں کاخیال رکھاجائے گا اور اب تک ایساہی کیاگیاہے، ہم ایسا کرتے رہیں گے۔ بھاگوت نے اس بات پر زور دیا کہ شہریت کا قانون پڑوسی ممالک میں مظلوم اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہم تباہی کے وقت ان ممالک میں اکثریتی برادریوں کی بھی مدد کرتے ہیں، اس لئے اگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خطرات اور خوف کی وجہ سے ہمارے ملک آنا چاہتے ہیں تو ہمیں یقینی طور پر ان کی مدد کرنی ہوگی۔ بھاگوت نے کہاکہ ہندوستانی میں منظم طور پر مسلمان خاندانوں کی نقل مکانی، ان کی آبادی کو ایک خاص انداز میں بڑھانا، آسامی سمیت مختلف برادریوں کیلئے باعث تشویش ہے۔انہوں نے کہاکہ آبادی کاایک بڑاحصہ تمام حقوق مانگ رہاہے لیکن وہ اپنا فرض ادا کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ اس کتاب کے لانچ کے پروگرام کو آسام کے وزیر اعلی ہمنت بسوا سرما اور کتاب کے مصنف پروفیسر این گوپال مہنت نے بھی خطاب کیا۔
کابل :افغانستان کے صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ طالبان کے القاعدہ اور دیگر تنظیموں کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ طالبان افغانستان کو باغیوں کی پناہ گاہ بنانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت طالبان کی خواہش پوری نہیں ہونے دے گی، ہمارا مقصد افغانستان کی آزادی، مساوات اور 20 سال میں حاصل کی گئی کامیابیوں کا تحفظ ہے۔افغانستان کے صدر نے مزید کہا کہ ہم فوری اور دیرپا امن قائم کرنا چاہتے ہیں، دشمن جان لیں ہم کبھی سرینڈر نہیں کریں گے۔اشرف غنی کایہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کیا لیکن طالبان ہم سے مذاکرات کے لیے رضا مند نہیں ہیں۔
نئی دہلی :مرکزی وزیر مملکت برائے شہری ہوا بازی وی کے سنگھ نے جمعرات کے روز کہا کہ ایئر انڈیا کے 56 ملازمین 14 جولائی تک کورون وائرس کے انفیکشن کے سبب ہلاک ہوچکے ہیں۔انہوں نے یہ معلومات لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں دی۔سنگھ نے کہاکہ کورونا نے ایئر انڈیا کے 3523 ملازمین کو متاثر کیا ہے۔ 14 جولائی 2021 تک ان ملازمین میں سے 56 کی موت ہوگئی تھی۔وزیر موصوف نے کہا کہ ائر انڈیا کی جانب سے کورونا سے متاثرہ ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے تحفظ کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے موت واقع ہونے کی صورت میں ہر ملازم کے اہل خانہ کو 10 لاکھ روپئے معاوضہ دیا گیا۔
نئی دہلی: کرناٹک کے وزیر اعلی بی ایس یدیورپا 26 جولائی کو اپنے عہدے سے استعفی دے سکتے ہیں۔ یدیورپا نے اپنے استعفیٰ کا عندیہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نڈا، وزیر اعظم اور ایچ ایم مجھ سے بہت محبت رکھتے ہیں۔ بی جے پی میں پالیسی واضح ہے کہ 75 کے بعد کسی کے لئے کوئی عہدہ نہیں ہوگا، میرے کام کوانھوں نے سراہا اور انہوں نے مجھے 78-79 سال کی عمر تک کام کرنے دیا۔ میرا ارادہ ریاست میں پارٹی کو مضبوط بنانا اور پارٹی کو حکومت میں واپس لانا ہے۔ 26 تاریخ کو دو سال پورے ہوں گے، اس کے بعد قومی صدر نڈا جی جو کہیں گے اس پر عمل کریں گے۔یدیورپا نے مزید کہا کہ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں لانا میرا فرض ہے، میں پارٹی کے تمام کارکنوں سے نظم و ضبط پر عمل کرنے کی درخواست کرتا ہوں، پارٹی جو بھی فیصلہ کرے گی، میں مانوں گا، پارٹی کے تمام کارکن اور ساتھی تعاون کریں گے۔ذرائع کے مطابق کرناٹک کے نئے وزیر اعلی کی دوڑ میں پرہلاد جوشی، بی ایل سنتوش، لکشمن ساودی، ڈپٹی سی ایم مرگیش نیرانی، وسوراج اتنال، اشوتھ نارائن، ڈی وی سدانند گوڑا جیسے نام شامل ہیں۔
دینک بھاسکر گروپ پر آئی ٹی کا چھاپہ، حزب اختلاف نے جمہوریت پر حملہ قرار دیا
نئی دہلی: جمعرات کی صبح میڈیا گروپ دینک بھاسکر کے ملک کے کئی دفتروں میں انکم ٹیکس کے چھاپے مارے گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ بھاسکر گروپ پر ٹیکس چوری کا الزام ہے۔ ذرائع کے مطابق حکام نے دہلی، مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات اور مہاراشٹر میں دینک بھاسکر کے دفتر کے احاطے میں تلاشی لی۔ گروپ کے پرموٹر کے گھروں اور دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے۔ دینک بھاسکر کے سینئر ایڈیٹر نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ بھاسکر گروپ کے جے پور، احمد آباد، بھوپال اور اندور کے دفاتر پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ اس معاملے پر سی ایم اروند کیجریوال نے کہا کہ دینک بھاسکر اور بھارت سماچار پر انکم ٹیکس کے چھاپے میڈیا کو ڈرانے کی کوشش ہیں۔ ان کا پیغام صاف ہے، بی جے پی حکومت کے خلاف بولنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ ایسی سوچ بہت خطرناک ہے۔ سب کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ ان چھاپوں کو فوری طور پر روکا جائے اور میڈیا کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے۔راجستھان کے سی ایم اشوک گہلوت نے بھی کہا کہ دینک بھاسکر اخبار اور بھارت سماچار نیوز چینل پر انکم ٹیکس کے چھاپے میڈیا کی آواز دبانے کی کوشش ہے۔ مودی سرکار اپنی تنقید کو ہر گز برداشت نہیں کرسکتی۔ اپنی فاشسٹ ذہنیت کی وجہ سے بی جے پی وہ سچائی نہیں دے سکتی جو اس کوجمہوری انداز میں دکھائی جارہی ہے۔کانگریس کے رہنما جے رام رمیش نے کہا کہ دینک بھاسکر نے اپنی رپورٹنگ کے ذریعے کورونا وبائی بیماری کے دوران مودی حکومت کی بڑی بدانتظامی کو بے نقاب کیا۔ اب اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ جیسا کہ ارون شوری نے کہاکہ یہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی طرح ہے۔
7895886868
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ ماضی قریب کے ان اساطین علم و فضل میں ایک اہم اور ممتاز نام ہے، جن سے اللہ رب العزت نے احادیث نبویہ کی تشریح و توضیح کا بہت اہم اور نمایاں کام لیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ ذکر اللہ و خانقاہی نظام کے ذریعہ نہ جانے کتنے مردہ قلوب کی نئی زندگی بھی آپ کے حسنات کا زریں حصہ اور ہم اخلاف کے لیے اسوہ و نمونہ ہے۔ دعوت و ارشاد اور تبلیغ دین کے حوالے سے آپ کی مساعی جمیلہ رہتی دنیا تک ان شاء اللہ بار آور ہوتی رہیں گی اور مظاہرعلوم سہارنپور کی علمی دینی خدمات کا ایک اہم باب ہوں گی ،انھوں نے دوران طالب علمی کا ایک واقعہ آپ بیتی میں املا کرایا ہے کہ ایک بار میرا جو تا اٹھ گیا تھا تو جہاں تک مجھے یاد ہے چھ ماہ تک دوسرا جوتا خرید نے کی نوبت نہیں آئی اس لیے کہ جمعہ بھی مدرسہ قدیم میں ہوتا تھا ،دارالطلبہ بھی اس وقت تک نہیں بنا تھا، بیت الخلاء کے پاس بوسیدہ جوتے پڑے رہا کرتے تھے اور مجھے چھ ماہ تک باہر نکلنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ سہارنپور میں ایک بار نمائش ہوئی تو الحاج حافظ مقبول صاحب مرحوم جو میرے والد سے خصوصی تعلق رکھتے تھے ،اپنے بچوں کو نمائش دکھلانے کے لیے والد صاحب سے اجازت چاہی ،والد صاحب نے اس شرط پر اجازت دی کہ وہ مجھے اپنے ساتھ رکھیں انھوں نے مجھ سے چلنے کے لیے کہا ،میں نے پوچھا وہاں کیا ہوگا؟ انھوں نے فرمایا وہاں دکانیں لگتی ہیں، میں نے کہا دکانیں تو یہاں سے اسٹیشن تک بہت ہیں ،انھوں نے ازراہ شفقت بہت اصرار کیا پھر بھی میرا جی نہ چاہا، اسی طرح کبھی بھی مجھے سیرو تفریح کا شوق نہیں ہوا۔
یہ واقعہ یقیناً اسوہ و نمونہ بنائے جانے کے لائق ہے، اس لیے کہ زندگی کے کسی بھی میدان میں کامیابی اور مقصد کے حصول کے لیے یکسوئی اور انہماک از حد ضروری ہے۔ ذہنی انتشار اور ضرورت سے زیادہ میل جول، حد سے بڑھے ہوئے تعلقات ہمیشہ مقصد کے حصول میں حارج اور خلل انداز ہوتے ہیں۔ جب دل مختلف قسم کی فکر میں بٹا ہوگا ،ادھر ادھر کی سوچے گا، تو یکسوئی اور انہماک ناممکن ہوگا اور پھر انسان مقصد کے حصول سے قاصر رہے گا۔
آج عام طور پر یہ شکایت ہے کہ ہم فلاں کام کرتے ہیں لیکن اس میں کامیابی نہیں ملتی، ہمارے اوپر قسمت کچھ زیادہ مہربان نہیں ہے، اللہ کی نظر کرم ہماری طرف نہیں ہے، اسی انداز کے مختلف فقرے آئے دن سماج اور معاشرے کے تقریباً سبھی طبقات کے لوگو ںسے سننے میں آتے ہیں، شاکی تو ہر کوئی ہے ، شکوہ تو ہر ایک کی زبان پر ہے لیکن اس کے صحیح اسباب و عوامل کیا ہیں ان پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔ آج معاشرہ اور سماج کے ہر طبقہ میں نظراٹھاکر دیکھا جائے تو ذہنی انتشار اور مختلف افکار کی بھیڑ نظر آئے گی ،اپنے کام میں انہماک اور یکسوئی کا ہر جگہ فقدان ملے گا، ایک ایک کام کے پیچھے لوگوں نے دس دس کام لگارکھے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک میں بھی کامیابی نہیں ملتی ،یہ تو ایک عمومی بات ہے ،خاص طور پر طلب علم کے زمانے میں یکسوئی اور انہماک بہت ضروری ہے، اس لیے کہ سرپرستوں نے طلب علم کے لیے طالب علم کے اوقات کو فارغ کررکھا ہے، اب اگر اس دور میں دوسرے امور میں دلچسپی رکھی گئی تو پھر پوری زندگی بے کار ہوجاتی ہے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ کا جو اپنا واقعہ اوپر مذکور ہوا اس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے۔ حضرت شیخ الحدیث کے اسی علمی انہماک، ذہنی یکسوئی اور خارجی امور سے اجتناب نے انہیں علم و فضل کے ایسے اعلی مقام تک پہنچا دیا کہ اساتذۂ فن نے ان کی علمی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک مظاہرعلوم کے لیے آپ کی شخصیت سرمایۂ افتخار ہوگی۔
بورڈ کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں،یوپی الیکشن کے سلسلہ میں صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا وضاحتی بیان
نئی دہلی (پریس ریلیز): آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے صدرحضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب نے اپنے وضاحتی بیان میں فرمایاکہ فروری ۲۰۲۲ء میں اترپردیش میں الیکشن ہے، اس کی گہما گہمی ابھی سے شروع ہوگئی ہے ،کچھ لوگ مسلم پرسنل لا بورڈ اور خاص کر بحیثیت صدر مجھ سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ کسی ایک پارٹی کی حمایت میں اپیل جاری کی جائے ،یہ لوگ نہ تو مسلم پرسنل لا بورڈ کے دستور سے واقف ہیں نہ اس کے دائرہ کار سے، نہ اس کے اغراض ومقاصد سے اور نہ اس کی پچھلی تاریخ سے ،بورڈ کے دستور کی دفعہ نمبر 4 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ’’ مسلم پرسنل لا بورڈ کا بحیثیت ادارہ، سیاست سے کوئی سروکار نہیں ہوگا‘‘ ۔
صدر محترم نے مزید فرمایاکہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف منسوب کسی سیاسی اعلان یا کسی سیاسی پارٹی کی حمایت کی اپیل کومعتبر نہ سمجھا جائے ،خود میرا اور ندوۃ العلماء کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ الیکشن کے موقع پر افواہوں کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور جھوٹے اور فرضی بیانات سے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے ،ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، ان کو پہچانئے اور دھوکہ نہ کھائیے ۔
ساتھ ہی آپ نے یہ بھی فرمایاکہ ووٹ دینا آپ کا جمہوری حق ہے کس کو چننا ہے یہ فیصلہ خود آپ کو کرنا ہے، سوچ سمجھ کر اپنے اس حق کا استعمال کیجیے ،ملک وملت کا مفاد پیش نظر رکھیے۔
صدر مسلم پرسنل لا بورڈنے کروناگائیڈ لائن کے تعلق سے فرمایاکہ ہمارا ملک کرونا کے بحران سے دوچار ہے، عید قرباں کے موقع پر ضروری احتیاط لازمی ہے، سرکار کی طرف سے جو ہدایات دی گئی ہیں ان کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔
ہندوستانی سیاست کا ایک بالکل نیا اورخطرناک چہرہ سامنے آیا ہے، اب حکومتیں مخالف پارٹیوں کے لیڈران، صحافی، سماجی کارکنان، سرکاری عہدے داران، نوکر شاہ وغیرہ کی جاسوسی تو کراتی ہی ہیں، ساتھ میں اپنے ساتھیوں کی، اپنے وزیروں کی، عدالت کے ذمہ داران کی اور دستوری عہدے دار الیکشن کمشنر، ہندوستانی فوج کے سربراہ وغیرہ کی بھی جاسوسی ہوتی ہے ـ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پہلے مطلق العنان بادشاہ ہوتے تھے جو اپنے علاوہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے تھے، کسی پر ذرا بھی شک ہو کہ وہ اقتدار کے لئے خطرہ بن سکتا ہے تو اسے فورا ٹھکانے لگوادیتے تھے، پھر چاہے وہ سگے بھائی ہوں یاحقیقی باپ!
آئیے ذرا تفصیل سے سمجھتے ہیں، ایک اسرائیلی کمپنی ہے ” پیگاسس ” اس نے ایک ایسا سافٹ ویر بنایا ہے جو موبائیل فون کے ذریعے لوگوں کی تمام اطلاعات جمع کرتا ہے ـ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس کا طریقۂ کار کچھ یوں ہے کہ آپ کے موبائل پر ایک مس کال آتا ہے اور اسی وقت یہ سافٹ ویر آپ کے موبائل مائیک، کیمرہ اور مکمل ڈاٹا کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے، اب آپ کا موبائل بند رہے یا چلے آپ کی اور آپ کے آس پاس کی تمام حرکتیں ریکارڈ ہورہی ہیں، آپ کیا بات کررہے ہیں، کس سے کررہے ہیں، کہاں جارہے ہیں، کون آپ سے ملنے آرہا ہے سب تصویروں کے ساتھ ریکارڈ ہورہا ہے ـ
پیگاسس کمپنی کا کہنا ہے کہ ہم یہ سافٹ ویر کسی پرائیوٹ پارٹی کو فروخت نہیں کرتے، صرف برسر اقتدار حکومتوں کو ہی فروخت کرتے ہیں، کمپنی کا کہنا ہے کہ اب تک ہم دنیا کی 45 حکومتوں کو یہ سافٹ ویر فروخت کرچکے ہیں، ہندوستان بھی ان میں سے ایک ہے ـ اب تک ہندوستان میں تین سو ایسے افراد کی فہرست سامنے آچکی ہے جن کی جاسوسی ہورہی ہے یا مستبقل میں ہوسکتی ہے ـ
اب ذرا دل تھام کرسنئے کہ تین سو میں کون کون جغادری شامل ہیں ، راہل گاندھی اور ان کےچار قریبی ساتھی، سابق الیکشن کمشنر لواسا، ممتا کے بھتیجے ابھیشک بنرجی، پرشانت کشور اور فوج کے ایک سربراہ سمیت مختلف پارٹیوں کے کئی لیڈران، درجنوں صحافی جن میں انڈیا ٹوڈے، ہندو، انڈین ایکسپریس جیسے بڑے میڈیا ہاوس سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی مبینہ طور پر شامل ہیں، تعجب یہ ہے کہ حکومت کی مشہور خاتون وزیر اسمرتی ایرانی کے پرسنل سکریٹری، پتہ یہ بھی چلا ہے کہ وہ خاتون جس نے سابق چیف جسٹس گوگوئی پر جنسی الزامات لگائے تھے اس کے گیارہ فون نمبروں پر یہ سافٹ ویر استعمال ہوا اور حد تو یہ ہوگئی کہ آئی ٹی کے نئے نویلے وزیر اشونی ویشنو جنھوں نے پارلیمنٹ میں حکومت کی طرف سے صفائی پیش کی، خود اُن کا نام نامی اسم گرامی بھی اس فہرست میں شامل ہے، ہائے:
ناوک نےتیرےصید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
حکومت کے وزیر باتدبیر نے صفائی دی، سابق وزیر روی شنکر پرشادنے بھی پریس کانفرنس میں حسب عادت اپوزیشن کے خلاف زبردست غیض وغضب کا مظاہرہ کیا، مگر ایک لائین میں ان دونوں نے یہ نہیں بتایا کہ حکومت نے اسرائیلی کمپنی سے وہ سافٹ ویر خریدا ہے یا نہیں؟ بتاتے بھی تو کیسے ؟ بات آگے نہ بڑھ جاتی؟پھر یہ بھی تو بتانا پڑتا کہ حکومت نے یہ سافٹ ویر کہاں استعمال کیا؟ کن لوگوں کے فون ٹیپ کئے گئے ؟ کیوں کئے گئے؟ سپریم کورٹ نے جو فرد کی پرائیوسی کو بنیادی حق قرار دیا تھا اس کا کیا بنے گا؟ اگر وزیروں کے فون ٹیپ ہوئے ہیں تو حکومتی زاز داری جس کا حلف وزرا لیتے ہیں اس کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں؟ سب سے بڑی بات یہ کہ بیرون ملک کی ایک کمپنی کے پاس ہمارے ملک کے بڑے بڑے لیڈران، وزرا، فوجی سربراہان کے ملکی راز پہنچ جاتے ہیں تو یہ ملکی سیکورٹی کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہوسکتا ہے ؟ غالبا اسی لئے کانگریس کے ترجمان سرجے والا نے اس عمل کو ملک کے خلاف بغاوت والا عمل بتایا ہے ـ
ایک مرد یا عورت جس کے موبائل میں یہ سافٹ ویر داخل ہو چکا ہے چوبیس گھنٹے مستقل کیمرے کی زد میں ہے، اس کا کوئی راز پوشیدہ نہیں رہے گا، خواب گاہیں تک محفوظ نہیں ہیں ـ اگر کوئی شخص حکومت کےکسی ذمہ دار عہدے پر ہے خصوصا خاتون، اس سے زندگی کے کسی کمزور لمحے میں سرزد ہونے والا کوئی گناہ اگر کیمرے میں محفوظ ہوگیا تو اس کو بلیک میل کرکے اُس سے کیا نہیں کرایا جاسکتا، سارے حکومتی راز، آئندہ منصوبے ملک دشمن ہاتھوں میں کتنی آسانی سے پہنچ جائیں گے، ذرا سوچئے یہ سافٹ ویر کتنا خطرناک ہے ـ اگر کسی اور جمہوری ملک میں ایسا ہوا ہوتا تو؟
یاد کیجئے ستر کی دہائی میں امریکی صدرنکسن کی کرسی اسی طرح کے ایک معاملے میں جاتی رہی تھی، دیکھتے ہیں ہمارے یہاں کیا ہوتا ہے ؟؟
ایران میں پانی کی قلت کی وجہ سے عوامی احتجاج ، مظاہرین پر فائرنگ سے 3 افراد ہلاک
تہران:ایران میں پانی کی دستیابی کی قلت کے خلاف مسلسل چوتھے روز بھی احتجاج جاری رہا۔ اس دوران مقامی میڈیا نے اتوار کی شام بتایا کہ ملک کے جنوب مغربی حصے میں واقع شہر الخفاجیہ میں مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کر دی گئی۔ اس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہو گئے۔ایرانی ذرائع کے مطابق الخفاجیہ اور اس کے نواحی علاقوں میں انٹرنیٹ منقطع ہو گیا ہے۔اسی طرح ایرانی حکام نے الاہواز کے جنوب مشرق میں المحمرہ شہر میں گرفتاریاں انجام دیں۔ سوشل میڈیا پر زیر گردش وڈیو کلپوں میں الخفاجیہ میں مظاہرین پر فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ایران میں عرب اکثریتی آبادی والے شہروں میں گذشتہ تین روز سے احتجاجی سلسلہ جاری ہے۔ ان شہروں میں الاہواز، الخفاجیہ، الفلاحیہ، السوس، شوور، الحمیدیہ ، الحویزہ اور المحمرہ شامل ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ ایام کے دوران میں ملک کے جنوب مغرب میں خوزستان صوبے کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ احتجاج پانی کی عدم دستیابی ، خوزستان صوبے میں پانی کی منتقلی کے منصوبوں اور صوبے کی آبادی کو جبری ہجرت پر مجبور کیے جانے کے خلاف سامنے آیا۔یاد دہے کہ ایرانی حکام عموما مظاہرین کی ہلاکت کو مشتبہ عناصراور انقلاب کے دشمنوں سے منسوب کرتے ہیں۔
جیل جانے سے پہلے تو اعظم خان ایسے نہیں تھے، ان کا بولنا طاقت ور ہوتا تھا جیل جانے سے پہلے کی ان کی تقاریر، پارلیمنٹ سے لے کر رامپور میڈیا خطاب تک دیکھ لیجیے، کیا گھن گرج تھی ان کی آواز میں، سَنگھ کو ایسی مسلمان آواز سے فطری الرجی تھی کیونکہ جب وہ بولتے تھے تو لگتا تھا کوئی باوقار انسان بول رہاہے، وہ چلنے پھرنے میں بھی صحت مند اور توانا تھے، پھر جیل جانے کےبعد سے ان کی صحت بگڑتے بگڑتے اس حال تک جاپہنچی !
مجھے بالکل یقین نہیں کہ یہ سب قدرتی امر ہے، اترپردیش سے باہر نکال کر ان کے جسم کی مکمل باریکی سے جانچ ہونی چاہیے، انہیں کیا کھلایا جاتا رہا، کھانے پینے سے لے کر دوائیوں تک کا، بالکل شفاف ہاتھوں میں یہ معائنہ ہونا چاہیےـ
موجودہ یوگی سرکار کے نشانے پر وہ براہ راست ہیں، وزیراعلیٰ یوگی کے انتقامی مزاج اور دشمنانہ سیاست سے کون ناواقف ہے؟ آر ایس ایس اور بھاجپا کو مسلمانوں کے درمیان کسی بھی طاقت ور آواز سے کس درجہ دشمنی ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے وہ کس حد تک گر سکتےہیں کیا یہ اب بھی ڈھکا چھپا ہے؟ فرزندِ بہار شیرِ سیوان سید شہاب الدین کےساتھ کیا ہوا ؟ وزیراعلیٰ یوگی نے اپنے مکمل سامراج میں اپنے سیاسی دشمنوں پر انتہائی سفاکیت کےساتھ بلڈوزر چلوانے سے لے کر انکاؤنٹر کروانے تک کیسی بےشرمی کا مظاہرہ کیا ہے، کیا یہ مخفی ہے؟ توپھر صحیح سالم اور صحت مند حالت میں جیل پہنچنے والے اعظم خان جیسے قدآور مسلم لیڈر کے جیل پہنچنے کےبعد سے تشویش ناک طبی صورت حال پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیوں کر لیا جائے؟ ایک ایسا آدمی جس نے موجودہ وزیراعلیٰ یوگی کو کسی وقت ناکوں چنے چبوائے تھے اس کے سلسلے میں یوگی کی ہی ریاستی مشنری پر اعتماد کرنے میں بھلا کوئی معقولیت بھی ہے؟ آر ایس ایس وادی برہمن حکمرانوں کی طرف سے بھی اعظم خان کے خلاف ہری جھنڈی یقینًا ہے کیونکہ اعظم خان نے سرسید جیسا کوئی کام کرنے کی کوشش کی تھی انہوں نے محمد علی جوہر یونیورسٹی کی شروعات کی تھی، ایسےمیں اعظم خان کو ان لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑنا کہاں کی دانش مندی ہے؟
میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں، اور ملت کے لیڈروں کو متوجہ کرانے کی کوشش بھی کی ہے اور ابھی بھی دہراتا ہوں کہ میں ایک منٹ کے لیے بھی یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ اعظم خان محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور ان کی مسلسل بگڑتی ہوئی طبیعت قدرتی امر ہے، اگر آج کی ہندوستانی سیاست میں ايسے بھروسے کیے جانے لگے تب ہندوتوا کے حکمرانوں کو ” ننھی گائے ” بھی مان لینے میں کیا حرج ہےـ
اگر آپ آج اعظم خان کو اس حالت میں کسی بھی فاسد وجہ سے چھوڑنے پر راضی ہیں تو آپ اپنے ہاتھوں سے اپنی تاریکی لکھ رہے ہیں، سیکولر اور لبرل دوست نما بہروپیوں کا انتظار بیکار ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی بھی طاقت ور مسلمان کے خاتمے پر اندر ہی اندر سب سے زیادہ خوش ہوتےہیں ۔
اعظم خان ہمارا ہے، ہماری ملت کا حصہ ہے اور ملت کے حوالے سے ہی جانا پہچانا جاتاہے، اس لیے وہ ہماری ذمہ داری میں سب سے پہلے ہے، المناک صورتحال ہےکہ سیاسی مذہبی و ملی لیڈرشپ نے اعظم خان کےساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔
قبل ازوقت ہوش کے ناخن لیجیے، اعظم خان کو اترپردیش سے دور لے جاکر ان کا علاج محفوظ ہاتھوں میں کروایا جانا چاہیےـ
نئی دہلی:انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) نے ملک میں کورونا انفیکشن کے سب سے زیادہ واقعات کے باوجودبقرعید کے موقع پر لاک ڈاؤن میں نرمی کے کیرالہ حکومت کے اعلان کو پسند نہیں کیا۔ آئی ایم اے نے اس پر اعتراض کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ اگر کیرالہ حکومت نے بقرعید پر لاک ڈاؤن میں نرمی دینے کے اپنے حکم کو واپس نہیں لیا تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگی۔آئی ایم اے نے اپنے بیان میں کہا کہ کورونا معاملات میں اضافے کے درمیان کیرالہ حکومت کا ایسا فیصلہ افسوسناک ہے۔ جب جموں و کشمیر ، اتر پردیش اور اتراکھنڈ جیسی متعدد شمالی ریاستوں نے عوام کی حفاظت کے پیش نظر روایتی اور مقبول سفرکو روک دیا ہے ، تو بدقسمتی کی بات ہے کہ ریاست کیرالہ نے ایسا فیصلہ کیاہے۔
کابل:افغان طالبان کے قطری دارالحکومت میں قائم سیاسی دفتر کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ طالبان نے دوحہ مذاکرات کے دوران افغان حکومت کو کسی جنگ بندی کی کوئی پیش کش نہیں کی۔ اس دفتر کے ترجمان نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا کہ اس بات چیت میں طالبان نے ایسی کوئی تجویز نہیں دی کہ وہ افغانستان میں تین ماہ تک جنگ بدی کے لیے تیار ہیں۔ ترجمان نے تاہم کہا کہ طالبان کی دوحہ میں کابل حکومت کے وفد کے ساتھ مکالمت آئندہ بھی جاری رہے گی تا کہ فریقین اپنے اپنے موقف میں ایک دوسرے کے قریب آ سکیں۔
لندن :انگلینڈ میں کورونا وائرس کی نئی انفیکشنز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود آج پیر سے نئے ہفتے کے آغاز پر کووڈ انیس کے باعث عائد کردہ تقریباًتمام پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔ حکومتی بیانات کے مطابق دیگر پابندیوں کے ساتھ ساتھ حفاظتی ماسک پہننے اور لازمی سماجی فاصلہ رکھنے کی پابندیاں بھی اٹھا لی گئی ہیں۔ اب تمام ڈسکو کلب اور تھیٹرز دوبارہ کھولے جا سکیں گے اور کھیلوں کے مقابلوں کے لیے اسٹیڈیمز میں ان کی گنجائش کے مطابق شائقین کو جانے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن کے مطابق اس متنازعہ فیصلے کا سبب یہ ہے کہ اب عوامی سطح پر کورونا کی وبا کے خلاف حفاظتی ویکسی نیشن کی شرح بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ ملکی اپوزیشن نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق انگلینڈ میں اب اس وبا کی ایک نئی بڑی لہر کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
نئی دہلی:راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈونے کوویڈکی صورتحال سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہاہے کہ پارلیمنٹ نے ملک کے عوام کو یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اس کے شانہ بشانہ ہے۔ایوان بالامیں مانسون کے اجلاس کے آغاز کے موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کورونا اور لوگوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر مانسون کے اجلاس کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اب ایک تیسری لہر کا خدشہ ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ آفت اور بحران کی اس گھڑی میں پارلیمنٹ ملک کے عوام کو اپنے حال پرنہیں چھوڑسکتی ۔انہوں نے کہا کہ میں ایوان کی تمام پارٹیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آج سے شروع ہونے والے مانسون کا اجلاس معنی خیزہو۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور اس کے ممبروں کی ساکھ خطرے میں ہے ۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگ غیر یقینی صورتحال کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس غیریقینی صورتحال کے بیچ پارلیمنٹ کو ملک کے عوام کو یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
نئی دہلی: کیرالہ میںبقر عید کے حوالے سے لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کے فیصلے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ بقر عید تہوار کے پیش نظر کیرالا حکومت نے لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں نرمی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔ عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے کیرالہ حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ یہ سماعت کانوڑکیس کے دوران ہوگی۔ پی کے ڈی نانبیارکی پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی صحت اہم ہے۔18، 19 اور 20 جولائی کو کیرالہ میں لاک ڈاؤن کے قواعد میںتین دن تک نرمی کرنا ایک سیاسی اور فرقہ وارانہ خیال ہے۔ پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ یوپی کانوڑیاترا پر سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کیا ہے۔ اس کی وجہ سے اب کانوڑیاترا منسوخ کردی گئی ہے۔ لیکن کیرل میں کورونا کیسوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لہٰذا تین دن کی رعایت دینے کے حکم کو ختم کرناچاہئے۔اترپردیش میں کانوڑیاترا کیس میں پیر کو سپریم کورٹ میں سماعت اس وقت شروع ہوئی، جب یوپی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ اس سال کی کانوڑیاترا ملتوی کردی گئی ہے۔ گزشتہ سال بھی کوئی کانوڑیاترا نہیں ہوئی تھی۔ اگر کوئی عقیدت مند کسی مقامی مندر میں تقدس کے لئے جاتا ہے، تو اس کورونا پروٹوکول کی پیروی کرنی ہوگی۔ دہلی اور اتراکھنڈ نے پہلے ہی اس پر پابندی عائد کردی ہے۔ اسی دوران کیرالہ میں بقرہ عید کے موقع پر لاک ڈاؤن میں نرمی کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران وکاس سنگھ نے درخواست گزار کی جانب سے دلیل دی۔انہوں نے کہاکہ اس وقت کیرالہ میں مثبت شرح 10.6 فیصد ہے، جو کہ سب سے زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ یوپی اور دہلی سے بھی زیادہ جہاں کانوڑیاترا منسوخ کردی گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں کیرالہ کے حکم پر بھی پابندی لگانی چاہئے۔ کیرالہ حکومت نے بتایا تھا کہ ہم نے صرف چند دکانیں کھول رکھی ہیں۔ ہم مرکز کے کورونا پروٹوکول کی مکمل پیروی کر رہے ہیں۔
نئی دہلی:یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس وبائی امراض کے پیش نظر انڈرگریجویٹ میںداخلہ کے لئے سنٹرل یونیورسٹی کامن انٹری ٹیسٹ (سی یو سی ای ٹی) 2021-22 کے تعلیمی سیشن سے نافذنہیں ہوگا۔ یو جی سی نے ٹویٹ کرکے یہ معلومات دی۔ وزارت تعلیم نے پہلے اعلان کیا تھا کہ جامعات میں داخلہ ایک کامن انٹرینس ٹیسٹ کی بنیاد پر ہوگا۔مرکزی وزارت تعلیم نے قومی تعلیم پالیسی (این ای پی) 2020 کے تحت تجویز کردہ سنٹرل یونیورسٹیوں میں تمام انڈرگریجویٹ کورسز میں داخلے کے لئے سی یو سی ای ٹی کے طرز عمل پر غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ واضح رہے کہ ہفتے کے روز یو جی سی نے تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں کو یکم اکتوبر تک گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن طلباء کے لئے کلاسز شروع کرنے کی ہدایت کی۔ سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن سمیت اسکول بورڈ 31 جولائی تک اپنے نتائج کا اعلان کرنے کے بعد اعلی تعلیمی اداروں میں داخلے کا عمل شروع کردیں گے۔
آر جے ڈی میں گھمسان: جگدانند نے لالویادو سے ملاقات کی ،تیجسوی یادودہلی طلب
پٹنہ:کیاراشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے؟ کیا آر جے ڈی کے بہار کے ریاستی صدر جگدانند سنگھ ابھی بھی ناراض ہیں؟ ایسے بہت سارے سوالات پھر سے زیر بحث ہیں۔ دہلی میں آر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو اور جگدانند سنگھ کی ملاقات کے بعد لالو نے اب تیجسوی یادو کو دہلی طلب کیا ہے۔ تیجسوی یادو اپنے تمام پروگرام منسوخ کرنے کے بعد اچانک دہلی روانہ ہوگئے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ لالو یادو دہلی میں تیجسوی یادو اور جگدانند سنگھ سے ملاقات کرکے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔موصولہ اطلاع کے مطابق جگدانند سنگھ اس وقت دہلی میں ہیں۔ وہاں انہوں نے لالو پرساد یادو سے ملاقات کی۔ پیر کے روز دونوں رہنماؤں کے درمیان دو گھنٹے تک کیا گفتگو ہوئی ، یہ معلوم نہیں ہوسکا ، لیکن یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جگدانند سنگھ کی ناراضگی ابھی دور نہیں ہوئی ہے۔ اس سے قبل نو جولائی کو اس وقت ہلچل مچی تھی جب جگدانند نے پارٹی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دیاتھا۔ تاہم لالو یادو نے فوراََمداخلت کی اور انہیں راضی کرلیا۔ تب جگدانند سنگھ نے نہ تو ان کے استعفیٰ کی تصدیق کی اور نہ ہی اسے مسترد کردیا۔ دوسری طرف آر جے ڈی نے اسے افواہ قرار دیا ہے۔
تنازعات کے حل کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوروزہ مذاکرات اختتام پذیر، آئندہ ہفتے دوبارہ ملنے پر اتفاق
کابل :افغان حکومت اور طالبان کے وفد کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دو روزہ مذاکرات اختتام پذیر ہو گئے ہیں اور فریقین نے تنازع کے حل کے لیے آئندہ ہفتے دوبارہ ملنے پر اتفاق کیا ہے۔افغانستان کی قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سمیت افغان حکومت کے سینئر نمائندے مذاکرات میں شریک تھے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے تنازع کے حل پر پہنچنے پر اتفاق کیا ہے اور اس سلسلے میں آئندہ ہفتے دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے والے قطر کے انسدادِ دہشت گردی کے سفیر مطلق القحطانی نے کہا کہ فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ جب تک کسی نتیجے پر پہنچا نہیں جاتا اس وقت تک اعلیٰ سطح پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔انہوں نے بتایا کہ دو روزہ مذاکرات کے دوران فریقین اس بات پر بھی متفق دکھائی دیے کہ عام شہریوں کی ہلاکت کو روکنے کے سلسلے میں کام کیا جائے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان حکومتی وفد اور طالبان اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔ البتہ مذاکرات کے اختتام پر فریقین نے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے اور اسے تیز کرنے پر اتفاق کیا لیکن اس کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔مذاکرات سے قبل طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا تھا کہ وہ افغان تنازع کے پرامن سیاسی حل کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے افغان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان طویل جنگ کے خاتمے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن مخالفین وقت ضائع کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان جہاں ایک جانب مذاکرات کر رہے ہیں وہیں افغانستان میں طالبان کی جانب سے مختلف شہروں پر قبضوں کا سلسلہ جاری ہے اور مقامی سیکیورٹی فورسز سے جھڑپیں بھی ہو رہی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق طالبان 200 سے زیادہ اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں جن میں کئی اہم سرحدی گزر گاہوں کے علاوہ اہم صوبائی دارالحکومتوں کا محاصرہ بھی شامل ہے۔
قربانی ایک ایسی عبادت ہے جس میں بندہ احساس عبدیت سے سرشار ہوکر اپنا جذبۂ خلوص خالق کائنات کی خدمت میں پیش کرتا ہے ۔ عبادت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر کرے ، اپنے آپ کو دائمی اور ہمہ وقتی ملازم سمجھے ، زندگی کا ایک لمحہ بھی اللہ کی عبادت سے خالی نہ ہو ، اس دنیا میں آدمی جو کچھ بھی کرے رب کائنات کے احکامات کے مطابق کرے ۔اس کا سونا اور جاگنا ، کھانا اور پینا ، چلنا پھرناغرض سب کچھ خدا کی مرضی کے مطابق ہو ۔ مومن قربانی کے موقعے پر اپنے اسی موقف کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے ’’بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے‘‘ (آیت نمبر 161 سورۂ اَنعام )۔ قربانی تقرب الہی کی ایک علامت ہے ، جس میں مومن یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ کے آگے سر جھکا نے اور اس کے حکم پر نفس کو قربان کر نے کے لئے تیار ہے ، جب تک دل میں خشیت نہ ہو اور اللہ کی مرضی پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ نہ ہو، اس وقت تک قربانی قبول نہیں ہوتی، رسم تو اداہو سکتی ہے لیکن قربانی کی روح اور مقصد تک رسائی نہیں ہوپاتی ، اللہ تبارک وتعالی نے سورہ حج میں ارشاد فرمایا ہے کہ’’ جانور کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہونچتا مگراسے تمہاراتقوی پہونچتا ہے ‘‘۔ قربانی دراصل احتساب نفس کے ساتھ کی جاتی ہے اور خالق کائنات نے قربانی کی جو روح اور اس کا مقصد بیان کیا ہے وہ بھی اسی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے ۔اور ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ ہم قربانی کے اس بلیغ پیغام کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے ہیں جو قربانی کی اصل روح ہے ۔
قربانی کرنے والے کو اپنے دل کی کیفیت اور جانوروں کی صحت پر بھی نظر رکھنی چاہئے ، دل میں تقوی ہو اور جانور صحت مند ہو ، مومن دینی و اخلاقی عیب سے پاک ہو اور جانور جسمانی عیب سے پاک ہو تو انشاء اللہ قربانی مقبول ہوگی ، اور قربانی کرتے وقت اپنے زبان وقلب سے یہ کہے کہ ’’میری نماز، میری قربانی ، میرا جینا اورمیرا مرناسب کچھ اللہ رب العزت کے لئے ہے ، جس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلے سر جھکا نے والوں میں سے ہوں‘‘ (سورۂ اَنعام ) ۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھائے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی دے ، غریبوں اور ناداروں میں تقسیم کرے اور اللہ سے قبولیت کی دعا بھی کرے ۔
قربانی سیدنا حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی سنت اور ان کی یادگار ہے۔ دنیا کا یہ دستور ہے کہ جب کسی شخص کے کارنامے کو یادگار کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے تو اس کے مجسمہ کو مخصوص مقامات پر نصب کر دیا جاتا ہے تاکہ دنیا اس کو یاد کرے لیکن حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی یادگار کا یہ کتنا مثالی طریقہ ہے کہ جس تاریخ کو یہ واقعہ پیش آیا اس دن ہر صاحب نصاب پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ابراہیم ؑکے اس عمل کو لازمی کر دیا اور شریعت محمدی میں بھی اس کی لازمیت کو بحال رکھا ۔ چناںچہ لوگ اس دن بہتر اور قیمتی جانورکی قربانی کرتے ہیں اور عمدہ لباس زیب تن کرتے ہیں، اس دن اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ انسان تکبر میں مبتلا نہ ہو اور لباس کی عمدگی میںتفاخر نہ کرنے لگے لہذا ایک خاص تکبیر کا حکم دیا گیا ہے جو تکبیر تشریق کہلاتی ہے،جس کا ترجمہ یہ ہے : ’’اللہ سب سے بڑاہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ سب سے بڑاہے، اللہ سب سے بڑاہے، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں‘‘ ، اس تکبیر کا کثرت سے اہتمام کرنا ہے، نویں ذی الحجہ کے فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر نمازکے بعد خصوصاًاور دیگر اوقات میں عموماً تاکہ بندہ قیمتی جانور کی قربانی اورعمدہ لباس زیب تن کرنے کی وجہ سے تکبر میں مبتلا نہ ہوجائے۔ قربانی در اصل حج کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اسی طرح ایام تشریق کا تلبیہ بھی حج کا ایک جزہے ان دونو ںحکم کو بجالانے میں پوری دنیا کے مسلمان شریک ہیں اس کے لئے حج کی شرط نہیں یعنی حج کے سارے ارکان تو مکہ مکرمہ میں ادا ہوتے ہیں مگر قربانی اور ایام تشریق کا تلبیہ دنیا کے دوسرے گوشے میں بھی انجام پاتے ہیں اور یہی دو اعمال ایسے ہیں جن کی وجہ سے تمام مسلمان حج کے عمل میں جزوی طور پر شریک ہوجاتے ہیں ۔
قربانی کی فضیلت کے سلسلے میں حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ ) کو ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ محبوب نہیں ہے ، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام مقبولیت میں پہونچ جاتا ہے لہذا اس کو خوش دلی سے کرو ۔(ترمذی شریف )
قربانی ہر صاحب نصاب پر واجب ہے یعنی ان لوگوں پر ضروری ہے جو مسلمان ہوں ،عاقل بالغ اور مقیم ہوں اور ان کی ملکیت میں ساڑھے سات تو لہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال ہو ، اور اس کی ضرورت اصلیہ سے زائد ہو اور یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں یا مال تجارت ہو یا ضرورت اصلیہ سے زائد گھریلو سامان ہو ، یا رہائش کے مکان سے زائد مکانات ہوں ، قربانی کے لئے اس مال پر سال کا گذرنا بھی شرط نہیں ہے اور نہ اس کا تجارتی ہونا شرط ہے اگر کوئی شخص قربانی کے تین دنوں میں سے کسی دن بھی کسی صورت سے مالک نصاب ہوجائے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے ۔
آپ سماج سے چاہے جس قدر جھگڑتے ہوں ، رشتہ داروں سے چاہے جس قدر دوری بنائے رکھتے ہوں ، اس کائنات کے پیدا کرنے والے اور ہم سب لوگوں کے خالق و مالک نے سماج ، خاندان اور رشتہ داریوں کا مقام متعین کیا ہے اور اس کی اہمیت کو مختلف موقعوں پر واضح کیا ہے چنانچہ اس قربانی کے موقعے پر بھی شریعت کی ہدایت ہے کہ تم قربانی تو رب کائنات کی خوشنودی کے لئے کر رہے ہو ۔ یہ حقوق اللہ کی ادائیگی ہے لیکن حقوق العباد کو بھی یاد رکھو اور اپنے جھگڑوں کے باوجود، اپنی رنجشوں کے باوجود ، قربانی کے گوشت کا ایک حصہ غریبوں میں تقسیم کرو، دوسرا حصہ رشتہ داروں اور تعلقات کے لوگوں کو دو اور تیسرے حصے سے خود فائدہ حاصل کرو۔ قربانی کی یہ معنویت بھی غور طلب ہے کہ ایک آدمی قربانی کرتا ہے لیکن وہ صرف ایک حصے سے استفادہ کرتا ہے ، دو حصے دوسروں میں تقسیم کرتا ہے اور جانور کا چمڑا بھی کسی غریب کو دے دیتا ہے گویا عملا بہت ہی مختصر حصے سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے اس عمل پر کائنات کے خالق سے پورے پورے ثواب کی امید رکھتا ہے۔گویا اس امت میں جو قربانی کے گوشت کا حکم ہے وہ بھی انوکھا اور مفید ترین ہے کہ ہم جو جانور قربانی کرتے ہیں اس کے گوشت کے مالک بھی ہم ہی ہوتے ہیںاور ہم اس سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں،پچھلی امتوں کے مقابلہ میں یہ خصوصی امتیاز ہم کو حاصل ہے۔
قربانی کے ان دنوں کو عید الاضحی کہتے ہیں عیدالاضحی کے معنی ہیں قربانی کی عید ،اس سالانہ تیوہار کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر قربانی کی اسپرٹ پیدا ہو جائے تاہم قربانی کا اصل مطلب جانور کو ذبح کرنا نہیں ہے بلکہ جانور کا ذبیحہ اصل قربانی کی علامت ہے نہ کہ وہی اصل قربانی ہے، عیدالاضحی کے موقع پر جب ایک شخص جانور کو ذبح کرتا ہے تو وہ اپنی زبان سے عربی کے وہ الفاظ کہتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ : بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے ،خدایا! تجھ ہی نے دیا ہے اور تجھ ہی کو میں اسے لوٹاتا ہوں،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی قربانی تو خود اپنی ذات کی ہے، اصل قربانی یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات کو خدا کے حوالے کر دے، وہ اپنے وجود کی حوالگی کے لئے خدا سے عہد کرتے ہوئے بطور علامت ایک جانور کو ذبح کرتا ہے،عیدالاضحی کے دن صبح کو دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے پھر جانور کی قربانی دی جاتی ہے یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو اظہار ہیں نماز بھی حوالگی اور سپردگی کا عہد ہے اور قربانی بھی، نماز میں رکوع اور سجدہ کے ذریعے خود سپردگی کا اظہار کیا جاتا ہے اور قربانی میں جانور کے ذبیحہ کی صورت میں خودسپردگی کا اظہار کیا جاتا ہے، گویا نماز کے ذریعہ آدمی یہ کہتا ہے کہ جہاں مجھ کو خدا کے آگے جھکنا ہوگا جھک جائوں گا اور قربانی کے ذریعہ وہ کہتا ہے کہ جہاں مجھے اپنی جان پیش کرنی ہوگی وہاں اپنی جان پیش کر دوں گا، عیدین کی نماز عام نمازوں سے مختلف ہے کہ اس میں چھ زائد تکبیر کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ گویا کثرت سے خالق حقیقی کی کبریائی بیان کی جاتی ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج ہمیں اسلام کے لئے جانی و مالی قربانی پیش کرنے کی ضرورت ہے، آج ضرورت ہے کہ دنیا کی ترغیبات چھوڑ کر آخرت کی ابدی نعمتوں کے لئے قربانی دی جائے اور قربانی کے ذریعے ہمیں کیا پیغام ملتاہے اس پر غور کر نا چاہئے اس سے آدمی کے اندر قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اورآدمی اپنے زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ اللہ رب العزت اگر جان ومال کسی بھی چیزکو قربان کرنے کو کہیں گے تو یہ سعادت مند بندہ ہروقت تیار ہے،اخیر میں اللہ تبارک وتعالے سے دعا ہے کہ ہمیں اور آپ کو قربانی کی روح کو سمجھتے ہوئے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ ہم اس عزم و ارادے اور عہد کے ساتھ اپنی بات ختم کرتے ہیں کہ ع آئو پھر عہد و فا تازہ کریں۔
پارلیمنٹ کے سیشن کاہنگامہ خیزآغاز،پہلے ہی دن دونوں ایوانوں کی کارروائی ملتوی
نئی دہلی:اپوزیشن پارٹیوں کے سخت سوال اورہنگامے کی وجہ سے لوک سبھااورراجیہ سبھادونوں کی کارروائی کل تک کے لیے ملتوی ہوگئی ۔ پیرکو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے پہلے دن مودی لوک سبھا میں اپنی وزارتی کونسل کے نئے ممبروں کو متعارف نہیں کرا سکے۔ کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیاں نعرے بازی کرتی رہیں۔ ایوان کا اجلاس کل تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔جب صبح 11 بجے ایوان میں میٹنگ شروع ہوئی تونومنتخب چار ممبران نے حلف لیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کے لوک سبھا میں وزارتی کونسل کے نئے ممبروں کے تعارف کے دوران کانگریس سمیت کچھ اپوزیشن جماعتوں کے ممبروں نے مرکز کے تین نئے زرعی قوانین اوردیگرموضوعات پرہنگامہ شروع کردیا۔ اس پر وزیر اعظم نے اپوزیشن ممبروں پر چٹکی لی اورکہا کہ کچھ لوگوں کو یہ پسند نہیں ہے کہ دلت ، آدی واسی ، او بی سی اورخواتین وزیروں کو یہاں متعارف کرایا جائے۔ لوک سبھا اسپیکر نے کانگریس سمیت اپوزیشن ارکان سے پر سکون ہونے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ روایات کو نہ توڑیں۔ آپ ایک طویل عرصے سے حکومت میں رہے ہیں۔ آپ روایت کو توڑ کر ایوان کے وقار کو کم نہ کریں۔ اس ایوان کی عظمت کو برقرار رکھیں۔
تُو زندگی کے بُرے تجربات میں سے ہے
تجھے بھُلانا تو ناممکنات میں سے ہے
خبر میں جن کی لکھا ہوتا ہے، "کوئی نہ بچا”
تمہارا ہجر اُنہی حادثات میں سے ہے
مرے لئے ہے اندھیرا بھی روشنی کی طرح
یہ روشنائی، خدا کی دوات میں سے ہے
میں جلد چھوڑنے والا ہوں سب بُری عادات
تجھے نہیں کہ تو مستثنیات میں سے ہے
ہمارا بخشا ہوا عشق تجھ سے کرتا ہے وہ
تجھے جو قرض مِلا ہے، زکوٰۃ میں سے ہے
معاف کرنا! یہ کرتے ہو جس کے نام پہ قتل
معاف کرنا اُسی کی صفات میں سے ہے
ہمیں تو گریہ بھی لگتا ہے سہل، اور یہ چیز
ہماری چند بڑی مشکلات میں سے ہے
سوال :
ہمارے یہاں ایک مولانا صاحب نے تقریر کی تو اس میں بعض عجیب و غریب باتیں کہیں ، جو پہلے کبھی نہیں سنی گئی تھیں ـ مثلاً انھوں نے فرمایا :
(1) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وطن ‘اُر’ (عراق) سے ہجرت کی تو سیدھے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور وہیں بقیہ زندگی گزاری ـ حرّان ، کنعان ، مصر اور آخر میں مکہ مکرمہ جانے کا تذکرہ کرنے والی روایات غلط اور بے بنیاد ہیں ـ
(2) قرآن میں ہے : وَنَجَّیۡنَـٰهُ وَلُوطًا إِلَى ٱلۡأَرۡضِ ٱلَّتِی بَـٰرَكۡنَا فِیهَا لِلۡعَـٰلَمِینَ (الانبیاء :71) اس آیت میں حضرت ابراہیم کی ہجرت کا تذکرہ ہے _ جن آیات میں صرف ‘التی بارکنا فیھا’ ہے ان سے ارضِ شام مراد ہے ، لیکن مذکورہ آیت میں ‘ للعالمین’ کا اضافہ ہے ، اس سے سرزمینِ مکہ کی طرف اشارہ ہےـ
(3) حضرت ابراہیم کی صرف ایک بیوی تھیں ـ انہی کے ساتھ انھوں نے ہجرت کی اور انہی کے ساتھ پوری زندگی گزاری ـ
(4) اسماعیل اور اسحاق دونوں سگے بھائی تھے ، جو ایک ماں کے بطن سے پیدا ہوئے تھےـ
(5) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اسماعیل کو ان کی ماں کے ساتھ مکہ میں آباد کیا تھا اس وقت وہ صحرا اور بے آب و گیاہ وادی نہیں تھا ، بلکہ وہاں مختلف قبائل پہلے سے آباد تھےـ
(6) جن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں : ایک سارہ ، دوسری ہاجرہ ، جنھیں شاہِ مصر نے تحفے میں دیا تھا اور حضرت ابراہیم ہاجرہ و اسماعیل کو ایک ایسے علاقے میں تنِ تنہا چھوڑ آئے تھے جہاں نہ پانی تھا نہ سبزہ نہ آبادی ، وہ تمام روایات جھوٹی ، بے بنیاد اور من گھڑت ہیں _
مولانا صاحب کی ان باتوں سے ہمارے یہاں بہت تشویش پائی جاتی ہےـ اس لیے کہ یہ باتیں کبھی سنی گئیں نہ پڑھی گئیں ـ مولانا نے جن روایات کو گھڑی ہوئی بتایا ہے وہ حدیث کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں ـ اس نظریے کو ماننے سے ان احادیث کا انکار لازم آتا ہےـ
کیا مولانا صاحب کی یہ باتیں درست ہیں؟ اس سلسلے میں آپ کی کیا تحقیق ہے؟ براہ کرم وضاحت فرما دیں ـ
جواب :
(1) علمی میدان میں کوئی نئی بات سامنے آئے ، یا کوئی شخص نئی تحقیق پیش کرے تو تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ دیکھنا چاہیے کہ نئی تحقیق کے پیچھے کیا دلائل ہیں؟ اگر وہ تحقیق دلائل سے آراستہ ہو تو اسے قبول کرنا چاہیے اور اگر دلائل سے عاری ہو تو اسے رد کردینا چاہیےـ آپ کی باتوں سے معلوم نہیں ہوتا کہ مولانا صاحب نے اپنی تحقیق کے کیا دلائل پیش کیے ہیں؟
(2) مولانا صاحب نے جو دعوے کیے ہیں ان کا تعلق دینی عقائد سے نہیں ہے ، بلکہ تاریخ سے ہے _ اگر ان کی نئی آراء قابلِ قبول ہوں تو اس سے دینی مسلّمات کی تردید نہیں ہوجاتی ، بلکہ محض تاریخ کی بعض ایسی باتوں کا علم ہوتا ہے جن سے اب تک واقفیت نہیں تھی ـ علم کا قافلہ ایسے ہی آگے بڑھتا ہےـ
(3) تاریخ نویسی خواہش کے اظہار کا نام نہیں ہےـ جو چیز کسی کو اچھی لگے اسے وہ تاریخی حقیقت کے طور پر پیش کردے ، علمی دنیا میں یہ رویّہ قابلِ قبول نہیں ہوتا _ اسی طرح کسی معروف اور متداول رائے کو رد کرنے کے لیے بھی مضبوط دلائل کی ضرورت پڑتی ہےـ
(4) بائبل میں حضرت ابراہیم کے اُر سے ہجرت کے بعد مختلف مقامات پر جانے کا ذکر ملتا ہے _ بائبل کی ہر بات غلط ہو ، یہ ضروری نہیں ہےـ بائبل کا بیانیہ غلط ہے ، اسے دلائل سے ثابت کرنا ہوگاـ
(5) ٱلَّتِی بَـٰرَكۡنَا فِیهَا کے الفاظ قرآن میں جن دیگر مقامات پر آئے ہیں ، اگر سب کا اشارہ ارضِ شام کی طرف ہے ، تو سورۂ انبیاء کی آیت 71 کا اشارہ بھی اسی طرف ماننا چاہیے ، محض لِلۡعَـٰلَمِینَ کے اضافہ سے اس کا مُشار الیہ دوسرا ہوجائے ، یہ مضبوط بات نہیں ہےـ پھر اگر بالفرض یہ بات تسلیم کرلی جائے تو اس کا اشارہ مکہ مکرمہ کی طرف ہے ، اس کی قطعی دلیل کیا ہے؟
(6) یہ دعویٰ کہ حضرت ابراہیم کی ایک ہی بیوی تھیں ، جن سے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق ، دونوں پیدا ہوئے ، محتاجِ ثبوت ہے، بلکہ قرآن مجید کے اشاروں سے اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے _ یہ بات بائبل اور دیگر تاریخی مصادر سے ثابت شدہ ہے کہ حضرت اسماعیل پہلے پیدا ہوئے تھے ، اس کے تقریباً 14برس بعد اسحاق کی پیدائش ہوئی ـ فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو ان کے یہاں پیدائش کی بشارت دی تو وہ فوراً بول پڑیں :
قَالَتۡ یَـٰوَیۡلَتَىٰۤ ءَأَلِدُ وَأَنَا۠ عَجُوزࣱ وَهَـٰذَا بَعۡلِی شَیۡخًاۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَیۡءٌ عَجِیبࣱ ( ھود: 72)
” وہ بولی : ” ہا ئے میری کم بختی ! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی ، جب کہ میں بڑھیا پُھونس ہوگئی اور یہ میرے میاں بھی بُوڑھے ہو چکے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔“
قرآن مجید میں دوسری جگہ یہ الفاظ آئے ہیں :
فَأَقۡبَلَتِ ٱمۡرَأَتُهُۥ فِی صَرَّةࣲ فَصَكَّتۡ وَجۡهَهَا وَقَالَتۡ عَجُوزٌ عَقِیمࣱ ( الذاریات :29)
” یہ سُن کر اُس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ پِیٹ لیا اور کہنے لگی : ” بوڑھی ، بانجھ ! “
یہ انداز بتارہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سے یہ پہلی پیدائش تھی _ اگر ایسا نہ تھا تو فرشتوں کے بشارت دینے پر انہیں انتہائی حیرت کیوں ہوئی؟ ان کے یہاں تو اسماعیل پہلے پیدا ہو چکے تھےـ سورۂ الذاریات کی آیت 29 سے معلوم ہوتا ہے کہ بوڑھاپے کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد بھی کوئی اولاد نہ ہونے پر انھوں نے خود کو بانجھ سمجھ لیا تھاـ پھر کیا اُن سے حضرت اسماعیل کی پیدائش حضرت اسحاق کے بعد ہوئی تھی؟
(7) یہ دعویٰ کہ جب حضرت ابراہیم نے اسماعیل کو ان کی والدہ کے ساتھ ‘ وادی غیر ذی زرع’ میں چھوڑا ، اس وقت وہ علاقہ آباد تھا اور وہاں مختلف قبائل بسے ہوئے تھے ، یہ بھی محتاجِ ثبوت ہے _ قرآن مجید سے اس کے خلاف اشارے ملتے ہیں ـ حضرت ابراہیم کی دعا کے الفاظ یہ ہیں :
” پروردگار ! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے ۔ پروردگار ! یہ میں نے اِس لیے کیا ہے کہ لوگ یہاں نماز قائم کریں ، لہٰذا تُو لوگوں کے دِلوں کو اِن کی طرف مائل کردے اور انہیں کھانے کو پھل دے ، تاکہ یہ شکر گزار بنیں ـ”
(ابراہیم :37)
اگر پہلے سے وہاں آبادی تھی تو یہ دعا مانگنے کی کیا ضرورت تھی کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں؟ اور اگر پہلے سے وہاں پانی ، سبزہ ، ہریالی اور پیداوار تھی تو یہ دعا مانگنے کا کیا موقع تھا کہ انھیں کھانے کو پھل دے؟
(8) حضرت اسماعیل اور ان کی ماں کے مکہ میں بسنے کا واقعہ حدیث کی بہت سی کتابوں میں مروی ہےـ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ اس وقت غیر آباد علاقہ تھا ، معجزہ کے طور پر وہاں زم زم کا چشمہ جاری ہوا ، بعد میں وہاں جرہم نامی قبیلہ آباد ہوا _ صحیح بخاری کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، لیکن مولانا مودودی رحمہ اللہ نے بجا طور پر لکھا ہے کہ جس طرح درمیان میں ایک سے زائد مقامات پر حضرت ابن عباس نے ‘ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم’ فرمایا ہے ، یہ انداز اسے حدیثِ مرفوع کا درجہ دے دیتا ہےـ
جی ہاں بکرا۔قربانی کا بکرا۔بلی کا بکرا نہیں۔وہ قربانی کا بکرا جسے مسلمان عیدالاضحیٰ میں ذبح کرتے ہیں۔میری نسل آدم علیہ السلام کے وقت سے دنیا میں موجود ہے؛ کیونکہ بکریاں پالنا سنت انبیاء میں سے ہے؛ میں ابتدائے دنیا سے اب تک روئے زمین پر موجود ہوں۔ میری بہت ساری نسلیں ہیں ۔ مثلاً دیسی بکرا، کوہستانی بکرا، ٹیڈی بکرا، لائل پوری بکرا، ریگستانی بکرا، بارہ سنگھا بکرا وغیرہ وغیرہ؛ لیکن ہماری ہر نسل کی قسمت میں اسلام پر قربانی ہی لکھی ہوئی ہے۔ ہماری نسل جتنا زیادہ قربان ہوتی ہے اتنا ہی زیادہ بڑھتی ہے۔ کبھی آپ نے نہیں سنا ہوگا کہ میری نسل ناپید ہوگئی ہے؛ بلکہ ہماری نسل ہزاروں سال سے قربان ہوتے ہوئے آئی ہے؛ لیکن افزائش نسل میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور نہ ہی ہماری نسل ناپید ہوئی ہے۔
ہاں میں وہی بکرا ہوں جس کے بارے میں مشہور مزاح نگار مشتاق یوسفی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ ’’اسلام میں سب سے زیادہ قربانی بکروں نے دی ہے‘‘۔ اور واقعی بکروں کی نسل نے ہی اسلام کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جہاں گائے ایک کمیونٹی کے لیے مقدس ہے، ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ہندوستانی سب سے زیادہ مجھے ہی کاٹتے ہیں اور میں فخر سے اسلام کے لیے اپنا سر کٹواتا ہوں اور ان کے مقدس تیوہار پر انہیں خوشیاں فراہم کرتا ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ میں بکرا ہوں اور اسلام کےلیے قربان کیاجاتا ہوں؛ لیکن مجھے شکایت ہے کہ ہندوستانی مسلمان سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے مجھے دکھاوے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مجھے فخر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مہنگا خرید کر مجھ کمزور کو احساس برتری میں مبتلا کرتے ہیں۔ قربانی جو کہ خالص خدا کی رضا وخوشنودی کےلیے ادا کی جانی تھی اس کا مقصد فوت ہوکر رہ گیا ہے مسلمان قربانی معاشرے میں بڑا ثابت کرنے کے لیے کرتے ہیں تقویٰ ان کے پیش نظر نہیں ہوتا ۔ ان سب تفاخرانہ کاموں کے باوجود مجھ بکروں سے پل صراط پر سرعت کے ساتھ دوڑنے کی امیدیں رکھتے ہیں؛ حالانکہ ایسا ہوگا نہیں؛ کیوں کہ خدا ان کی نیت کے مطابق مجھے پل صراط پر مامور کرے گا۔
ہاں میں وہی بکرا ہوں جو قربانی کے ان تین دنوں میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ قربان کیاجاتا ہوں۔ لوگ مجھے انا پسندمغرور اور تکبر کرنے والاسمجھتے ہیں اور کہتے ہیں اس کے ’میں میں‘ کی سزا اسے قربانی دے کر ادا کرنی پڑتی ہے ۔اگر یہ سچ بھی ہے تو دنیا والوں کو مجھ سے سبق سیکھناچاہئے کہ جو تکبر کرے گا ’میں میں ‘کرے گا اسے گردن سے ہاتھ دھونا پڑے گا؛ لیکن یہ محاورہ ہے میں برضاورغبت خدا کے حکم کا پابند ہوں اور اسلام کے لیے مسلمانوں کے کام آتا ہوں۔ لیکن مسلمان مجھے صرف کھانے کےلیے استعمال کرتے ہیں خوشنودی رب اب ان میں نہیں رہ گئی ہے۔ وہ صرف ریاکاری اور دکھاوے کےلیے قربانی کررہے ہیں۔ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرناچاہئے ۔ ایک دوست و احباب کےلیے، ایک غربا ومساکین کےلیے اور ایک اپنے لیے؛ لیکن مسلمان صرف اب اپنے لیے مجھے ذبح کرتے ہیں۔ مجھے تو قربان کردیتے ہیں؛ لیکن میرے گوشت کی قربانی نہیں دیتے۔۔ان دنوں امیروں کے پیٹ کے علاوہ میں جہاں پڑا رہتا ہوں وہ فریزر مشین ہے۔ مجھے ٹھنڈا کرکے وہاں مہینوں رکھا جاتا ہے۔ اور وقتاً فوقتاً مجھے برف سے نکال کر پیٹ کی آگ بجھائی جاتی ہے۔ میں ان مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ قربانی خدا کےلیے کرتے ہیں تو خدا کے بندوں کے بھی کام آویں۔ وہ غریب ومسکین جنہیں گوشت میسر نہیں ان تک مجھے پہنچائیں؛ تاکہ میں قیامت میں آپ کے کام آسکوں؛ لیکن آپ نے مجھے برف میں ڈال کر اتنا منجمد کردیا ہے کہ پل صراط پر چلنے کےلیے میرے پائوں کھلنے مشکل ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس کا کوئی خوف نہیں، انہیں کوئی فکر نہیں، انہیں اگر فکر ہے تو فکر پیٹ ہے کہ پیٹ کی آگ میرے ہی گوشت سے بجھے ، بھلے سے غریب کے پیٹ میں آگ سلگتی رہے۔ کاش! مسلمان جذبہ قربانی کو سمجھ پاتے، ایثار کے وسیع تر معانی ومفاہیم سے روشناس ہوتے؛ غریبوں کی فکر کرتے، جس سے ان کے گھر بھی جہاں پورے سال گوشت مہیا نہیں ہوپاتا ہے بقرعید کے ان تین ایام میں دستیاب ہوسکتا۔ میری گزارش ہے ان امراء سے کہ اپنے پیٹ کے ساتھ ان کا بھی دھیان رکھیں۔ فریزر کے پیٹ کو بھرنے کے بجائے ان کے پیٹ کو بھرنے کی کوشش کریں؛ تاکہ ان کے شکم سیر پیٹ سے خلوص دل سے دعا نکلے جو مجھے پل صراط میں آپ کا معاون بنائے؛ ورنہ قربانی کے گوشت کو دس محرم الحرام تک کھانے والے امیر مجھ سے پل صراط میں سرعت کے ساتھ پار ہونے کی امید نہ لگائیں ۔ قسطوں میں میری بوٹیاں کھانے والے قسطوں میں ہی مجھے جڑنے کی امید رکھیں۔ جس طرح آج ایک ٹانگ اڑائی ایک ماہ بعد دوسری ٹانگ ہڑپ کی اس طرح میں بیچ میں اٹکا رہوں گا وہ ٹانگ آکر جڑے گی تب پھر میں دوڑوں گا۔
سرگزشتِ حیات” کے مطالعے کی سرگزشت ـ اظہارالحق قاسمی بستوی استاذ: مدرسہ عربیہ قرآنیہ اٹاوہ
مولانا ضیاءالحق صاحب خیرآبادی کی ارسال کردہ کتابوں میں ایک تازہ خود نوشت سوانح "سرگزشتِ حیات” بھی تھی۔ کتاب نئی ہونے کی کشش کے ساتھ مصنف کے قاسمی ہونے اور فن حدیث کی ایک عظیم شخصیت کے احوالِ حیات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ترجیحاً پہلے پڑھی گئی۔
اس کتاب کے مصنف اور موضوعِ مصنف دونوں مولانا ڈاکٹر ابواللیث خیرآبادی ہیں۔ مولانا نے یہ کتاب حاجی بابو (مرتب کتاب: مولانا ضیاء الحق خیرآبادی) کے اصرار پر صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں لکھی ہے اور شاندار کتاب لکھی ہے۔
پوری کتاب مصنف کی ولولہ انگیزیوں، جہد مسلسل اور نصرت و انعاماتِ خداوندی کی داستانوں سے لبریز اور برجستگی و شائستگی کا مرقع ہے۔ کتاب پڑھتے وقت جگہ جگہ مولانا کی قوتِ حافظہ پر عش عش کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ اس کتاب میں مولانا نے اپنی زندگی کے تمام قابلِ ذکر گوشوں کا دلچسپ، خوب صورت، ذمے دارانہ اور دیانت دارانہ تذکرہ کیا ہے۔
کتاب پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہد مسلسل اور تضرع الی اللہ انسان کو کس طرح منزل بہ منزل ترقی کی راہوں پر لے جاتے ہیں۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ خیرآباد مئو کے قصبہ نما گاؤں میں پیدا ہونے والا ایک بچہ جو چھ سال کی عمر میں اپنی ماں کی ممتا سے محروم ہو جاتا ہے، وہ کس طرح خیرآباد، مرادآباد میں پڑھتے ہوئے، ازہر ہند دارالعلوم دیوبند جا پہونچتا ہے اور وہاں سےاپنے علم کی پیاس بجھاتا ہے۔ وہاں سے مشکل حالات میں نکل کر وہ مالیگاؤں پھر اعظم گڑھ میں پڑاؤ ڈالتا ہے اور مدرسۃ الاصلاح میں سات سال اس کی عملی تَپائی ہوتی ہے، پھر اس کے اندر علم حاصل کرنے کی امنگیں انگڑائی لیتی ہیں اور وہ ہزار مجاہدے کرکے مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حصول علم کے لیے فروکش ہوتا ہے۔ پھر وہاں سے بیت اللہ کی سرزمین کی کشش اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور یوں سات سال پڑھانے کے بعد وہ سترہ سال مزید اپنی علمی تشنگی بجھاتا ہے اور فن حدیث میں ماجستیر اور دکتورہ کرکے وہ باہر نکلتا ہے۔ پھر قسمت یاوری کرتی ہے اور وہ ملیشیا کی بین الاقوامی یونیورسٹی میں پہونچ جاتا ہے جہاں وہ اٹھائیس سال سے علم حدیث کی شمعیں جلائے ہوئے ہے۔ یہ مصنف کی زندگی کی چند لفظی روداد ہے۔
خاندانی پس منظر کے ذکر کے بعد مولانا نے اپنی تعلیمی سرگزشت بیان کی ہے۔ انھوں نے پرائمری تا عربی چہارم کی تعلیم خیرآباد کے معروف ادارے مدرسہ منبع العلوم میں حاصل کی ہے۔ پرائمری تعلیم کی روداد بڑے خوب صورت انداز میں ذکر کی ہے۔ "ایک بہانہ تراشی” کے عنوان کے ذیل میں انھوں نے دلچسپ اور بے ساختہ انداز میں ذکر کیا ہے کہ مجھے بچپن میں پڑھائی سے کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی وجہ سے میں بہت مرتبہ مدرسے سے غائب ہو جاتا تھا اور نئے نئے بہانے تراشتا رہتا تھا۔ ایک دن بخار کے بہانے مدرسے نہیں گیا۔ اس سے پہلے کے دو دن بھی غائب رہا تھا۔ مولانا کے استاذ حافظ ریاض الدین صاحب نے پانچ بچوں کی بٹالین بھیجی۔ اس بٹالین نے دھر دبوچا اور اٹھا کر لے گئے۔ راستے میں ایک جگہ کچڑے میں سب کو لیے دیے گر بھی گئے مگر ان سپاہیوں نے نہ چھوڑا۔ مدرسے پہونچ کر حافظ صاحب نے سب سے پہلے ان سے سب کے کپڑے دھلوائے اور پھر دو گھنٹے مرغا بنایا اور پھر اتنا مارا کہ پورے بدن پر نشانات پڑگئے۔ مولانا کا کہنا ہے اور کتاب میں کئی بار تذکرہ کیا ہے کہ ” یہ انھیں کی مار کا اثر ہے کہ میں پڑھ پایا، اگر انھوں نے ذرا بھی مروت سے کام لیا ہوتا تو ابواللیث آج پروفیسر نہ بنا ہوتا؛ بل کہ خیرآباد کا ایک عام مزدور پیشہ انسان ہوتا”۔ مولانا نے جگہ بہ جگہ اپنے ان استاذ کے لیے دل سے دعائیں کی ہیں۔ مولانا کا یہ واقعہ اور اس پر مولانا کا تاثر پڑھ کر میں حیران رہ گیا کہ آج جہاں ہر طرف یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ بچوں کو ڈانٹو بھی مت، مارنے کی بات تو چھوڑ دیجیے، ایسے میں ایک عالمی یونیورسٹی کا پروفیسر اپنے ایک سخت ترین استاذ کے لیے منھ بھر بھر کر دعائیں کر رہا ہے اور اپنی ترقیوں کا کریڈٹ ایسے استاذ کو دے رہا ہے۔
منبع العلوم میں چہارم تک کی کتابیں مولانا نذیر احمد صاحب سے بہت پختہ پڑھ کر حیات العلوم مرادآباد گئے۔ وہاں پر استاذی مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی سے بھی پڑھا جو میرے افتا کے استاذ اور تمرین فتاویٰ کے نگراں تھے۔ وہاں کی پڑھائی کچھ خاص جمی نہیں اس لیےایک سال کے بعد دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔
مولانا نے دارالعلوم میں اپنی طالب علمی کے زمانے کا خوب صورت تذکرہ کیا ہے اور اس تین سالہ: ششم، ہفتم اور دورہ کے زمانے کو علمی معراج کا عہد قرار دیا ہے۔ مولانا نے دارالعلوم میں اپنے اساتذہ مولانا کیرانوی اور مولانا معراج الحق صاحب کے درس سے خاص طور پر متاثر ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔ دورہ حدیث کے سال میں مشہور زمانہ اسٹرائیک کا واقعہ پیش آیا جس میں مولانا بالکلیہ عدم شرکت کے باوجود مشتبہ قرار دیے گئے اور بڑی کدو کاوش کے بعد فراغت تو ہوگئی اور دورے میں دوسری پوزیشن بھی آئی مگر مشتبہ قرار دیے جا چکے تھے اس لیے عید کے بعد مولانا کو رقعہ بھیج کر مزید دیوبند پڑھنے آنے سے منع کردیا گیا۔
مولانا چوں کہ تکمیل ادب کا ارادہ کرکے بیٹھے ہوئے تھے اس لیے عید کے بعد کی اس اطلاع سے انھیں شدید دھچکا لگا۔ اب رسمی تعلیم تو پوری ہی ہو چکی تھی لہذا اب فکر معاش سوار ہوئی۔ اسی سلسلے میں وہ مالیگاوں پہونچے۔ چند ماہ کے بعد وہاں سے سرائمیر پہونچے اور سات سال تک مدرسۃ الاصلاح سرائمیر میں ابتدائی، متوسطہ اور علیا کی کتابیں پڑھائیں۔ اسی درمیان دو بچوں کی ولادت ہو گئی اور سات سال میں تنخواہ 120 روپئے سے 180 روپئے پہونچی اور گزارا دشوار ہونے لگا۔
مولانا نے اس موقع کی کیفیت بڑی دلسوزی کے ساتھ لکھی ہے کہ انھوں نے اور ان کی بیوی نے کس طرح سے اللہ تعالیٰ کے سامنے تنگی معاش کا دکھڑا سنایا۔ چناں چہ بیوی کے کہنے سے ہی مدینہ منورہ پڑھنے جانے کا آناً فاناً منصوبہ بن گیا اور پھر ایک دن آیا کہ مولانا کی مدینہ سے منظوری آ گئی۔ مولانا نے درخواست بدست خود لکھی تھی جسے انھوں نے مدینہ بھیجا تھا کیوں کہ مولانا کا خط بہت عمدہ تھا۔ مولانا امینی رح نے لکھا ہے کہ حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی رح اپنے طلبہ کے حسنِ خط کی طرف بھی بہت توجہ دیتے تھے؛ اسی وجہ سے اس وقت کے فضلاء کا خط بہت عمدہ ہوا کرتا تھا۔
مدینہ پہونچنے کے بعد کی اور وہاں پڑھائی کی سرگزشت بھی بہت زبردست ہے اور قاری کو خود سے باندھے رکھتی ہے۔ مدینہ یونیورسٹی میں ہندوستانی غیر مقلد طلبہ اور ان کی مولانا کے خلاف قدم بہ قدم ریشہ دوانیوں نے بار بار مولانا کے قدم کو ہلانے کی کوشش کی؛ مگر مولانا نے اپنے علمی مجاہدوں اور ممتاز حصول یابیوں کے ذریعے ان کو منھ توڑ جواب دیا۔ مدینہ میں بی اے کے چار سال مولانا کے مجاہدانہ طالب علمی کے سال ہیں۔ بی اے فائنل میں امتیازی پوزیشن کے باوصف مولانا کو انھیں غیرمقلدین کی شرانگیزی کی بدولت ایم اے میں داخلہ نہیں ملا۔ قاسمیوں کے خلاف غیر مقلدین بنیادی طور پر عقائد کو لے وہاں کی انتظامیہ کے کان بھرتے ہیں کہ اس کا عقیدہ کمزور اور شرکیہ ہے وغیرہ۔ مدینہ میں ایم اے میں داخلہ نہ ہونے کے سبب مکہ پہونچنے کی روداد بھی دلچسپ اور انابت الی اللہ کی سوزش سے بھرپور ہے۔ پی ایچ ڈی کی بھی داستان اور اس کے بعد سعودی میں ملازمت کی تگ ودو کی حکایت بھی کافی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ قاری کو قدم بہ قدم محسوس ہوتا ہے کہ جب جب دنیاوی اسباب ختم ہوئے، بارگاہ ربانی سے نئی راہیں کھلی نظر آئیں، ہاں بس بندے کی تھوڑی سی توجہ درکار تھی۔
مولانا نے ملیشیا کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں اپنے تقرر سے لے کر ترقی، اپنے شاگردوں اور تجربات کی روداد بھی تفصیل سے ذکر کی ہے۔ یونیورسٹی کی آفیشل زبان انگریزی ہونے اور مولانا کی انگریزی سے عدم واقفیت کے باوجود ترقی ہوتے رہنے سے مولانا کی قدردانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جس کا بھی اس میں ذکر ہے۔ اولاد کے تذکرے میں مولانا نے اپنے ساتوں بچوں اور ان کی مصروفیات کا ذکر کیا ہے۔ وقائع و حوادث میں اپنی ماں، سالے والد اور زوجہ کی وفات کا تذکرہ کیا ہے۔
تصنیفات و تالیفات میں اپنی تیرہ تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے جو سب عربی میں ہیں۔ یہ خود نوشت ہی شاید ان کی واحد اردو تصنیف ہے۔ کتابوں میں اکثر فنون حدیث پر ہیں اور فراہم کردہ مختصر تعارف سے دلچسپ اور علم و معرفت سے معمور بھی معلوم ہوتی ہیں۔ اس کے بعد مولانا نے اپنے تحکیم شدہ 29 مقالات کا نام اور ان کا مختصر تذکرہ کیا ہے جو سب علمی و فکری انداز کے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ غیر محکم مقالات، بک ریویو اور تعلیقات کا ذکر ہے جو مولانا کے قلم سے انجام پائے ہیں۔ اخیر سے قبل مولانا نے درجہ وائز اپنے ہر جگہ کے اساتذہ کے نام اور اپنے ممتاز شاگردوں کا مختصر تذکرہ کیا ہے۔ مولانا کے ہندوستان کے ممتاز شاگردوں میں سے ایک ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی ہیں جن پر مولانا کو ناز ہے۔ دوسرے رفیق درس مولانا ڈاکٹر شکیب قاسمی ہیں جن کی مولانا کے دل میں بہت قدر ہے۔ اخیر میں مولانا نے خود سے کسی بھی طرح تعلق رکھنے والے اور زیرِ اشراف ایم اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کی تھیسیس کے عنوانوں اور طلبہ کے ناموں کی لسٹ دی ہے اور اخیر میں اپنی مدینہ اور مکہ کی سندیں ہم رشتہ کرکے کتاب پر ختم شد کی مہر لگا دی ہے۔
کتاب پڑھتا گیا اور لطف اندوز ہوتا گیا اور معلومات میں پیہم اضافے کرتا گیا۔ دوران مطالعہ کتاب میں کچھ شخصی توجیہات سے اختلاف بھی رہا جسے اس راقم نے اپنی کتاب میں نشان زد کرلیا۔
کتاب سے حاصل ہونے والے چند موٹے موٹے اسباق یہ ہو سکتے ہیں:
1- زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔
2۔ اپنی کوشش کرنے کے بعد اللہ کا دروازہ ضرور کھٹکھٹانا چاہیے۔
3۔ پڑھنے کی کوئی عمر نہیں ہے۔ جب شوق پیدا ہوجائے آدمی حصول علم کے لیے نکل پڑے۔ کئی سال پڑھا لینے کے باوجود بھی!
4۔ مخالفین کا جواب اپنی محنت وعمل سے دے۔
5۔ مرنے سے پہلے کچھ علمی یادگاریں چھوڑنے کی کوشش کرے، شاگردوں کی شکل میں بھی اور بطور خاص کتابوں کی شکل میں۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ ایک جہد مسلسل اور عمل پیہم کی بہترین روداد ہے جو نسل نو؛ بل کہ ہر نسل کو پڑھنا چاہیے اور اپنے اندر بھی عزیمت کا حوصلہ فراواں کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مصنف و مرتب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس کا نفع عام فرمائے۔
کتاب 256 صفحات پر مشتمل ہے اور مکتبہ ضیاء الکتب خیرآباد مئو سے چھپی ہے۔ پرنٹنگ قیمت 300 ہے اور رعایتی قیمت 150 ہے۔ کتابت و طباعت دونوں عمدہ اور دیدہ زیب ہیں اور کتاب کی پیشانی پر یہ شعر چسپاں ہے:
یہ سر گزشتِ حیات میری، نہ سمجھے کوئی اسے فسانہ
علوم نبوی کی جستجو کا یہ اک مرقع ہے والہانہ