کابل:افغانستان کے ایک تہائی حصے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد رواں ہفتے طالبان تحریک کے عناصر شمال مشرقی صوبے بدخشاں تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ پہاڑی علاقہ چین کے صوبے شنکیانگ کے ساتھ سرحد پر واقع ہے۔ یہ بات امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے بتائی ہے۔ شنکیانگ صوبے میں القاعدہ تنظیم سے مربوط مسلح اویغور جماعتوں کے ساتھ طالبان کے تاریخی تعلقات کے پیش نظر حالیہ پیش رفت ماضی میں بیجنگ کے لیے باعث تشویش ہو سکتی تھی۔ تاہم ان اب افغان طالبان چین کے اندیشوں کو اطمینان میں بدلنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔بیجنگ کی ایک یونیورسٹی میں نیشنل اسٹریٹجک انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تحقیق کے سربراہ چیان ونگ کے مطابق افغان طالبان چین کے لیے حْسنِ نیت کا اظہار چاہتے ہیں۔ طالبان امید رکھتے ہیں کہ بالخصوص امریکی افواج کے انخلا کے بعد چین زیادہ اہم کردار ادا کرے گا۔طالبان تحریک اس وقت دو مواقف میں اچھا توازن یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ ایک طرف عالمی اسلامی معاملات کی پاسداری ہے اور دوسری طرف بیجنگ کو قائل کرنا ہے کہ کابل میں طالبان حکومت چین کے استحکام کے لیے خطرہ نہیں بنے گی۔طالبان تحریک کے ایک اعلی ذمے دار کا کہنا ہے کہ ہمیں مسلمانوں پر جبر کے معاملے میں دل چسپی ہے اور ہم اس پر توجہ دیتے ہیں خواہ فلسطین ہو ، میانمار ہو یا پھر چین ہم دنیا میں کسی بھی جگہ غیر مسلموں پر جبر کے لیے بھی فکر رکھتے ہیں، البتہ ہم چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہر گز نہیں کریں گے۔افغان طالبان کے اویغور کے مسلح عناصر کے ساتھ تعلقات اْس زمانے سے ہیں جب اسامہ بن لادن افغانستان میں سکونت پذیر تھے۔متعدد ایوغور جنگجو حالیہ برسوں میں شام منتقل ہوئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اویغور کے تقریبا 500 مسلح ارکان ابھی تک افغانستان میں ہیں۔چین نے شدت پسند جماعتوں مثلا ترکستانی اسلامک پارٹی جیسی تنظیموں کی موجودگی کو شنکیانگ صوبے میں اپنے کریک ڈاؤن کا جواز بنایا۔ اس دوران میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پیشہ وارانہ تربیت کے کیمپوں کے نام سے معروف مقامات پر قید میں رکھا گیا۔بدخشاں کے صدر مقام کے سوا صوبے کے بقیہ تمام علاقے اس وقت افغان طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں 1000 سے زیادہ افغان سرکاری فوجی فرار ہو کر سرحد پار تاجکستان میں داخل ہو گئے۔اگرچہ بیجنگ کابل میں افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کو سپورٹ کرتا ہے۔ اس نے متعدد بار طالبان کے وفود کا استقبال بھی کیا۔ رواں سال چین نے افغانوں کے درمیان امن بات چیت کی میزبانی کی پیش کش بھی کی تھی۔چین کی ریاستی سلامتی کی وزارت کے زیر انتظام ایک تحقیقی مرکز کے محقق لی وی ے کے مطابق طالبان کا خیال ہے کہ وہ ایک بار پھر معاملات کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں۔ لہٰذا وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ زیادہ دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ مزید یہ کہ طالبان افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے زرخیز سرزمین کے طور پر دیکھنے کے خواہاں نہیں۔دوسری جانب سنگاپور میں نینیانگ یونیورسٹی آف ٹکنالوجی میں بین الاقوامی دہشت گردی کے ماہر روہان جوناراتنا کا کہنا ہے کہ اس بات کی توقع ہے کہ طالبان تحریک ایک بار پھر اویغور جنگجوؤں کی حمایت شروع کر دے گی بالخصوص جب کہ ان میں بہت سے جنگجو شام سے افغانستان واپس آنا چاہتے ہیں۔ طالبان کے نظریات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
11 جولائی, 2021
تعلیم کے شعبہ میں سرگرم افراد اس بات سے واقف ہیں کہ حکومت کی پالیسیاں نظام تعلیم پر کتنا اثر ڈالتی ہیں اور اس کے نتیجے میں کس طرح کا معاشرہ اور افراد تیار ہوتے ہیں۔ تعلیم میں اخلاقیات یا اخلاقی تعلیم کے میدان میں کام کر رہے افراد کا پالیسیوں سے صرف نظر کرکے خود کو محض اسکولوں تک محدود کرلینا مناسب نہیں ہے، اس لیے کہ کتابوں اور طرز تعلیم کا پالیسی سے گہرا تعلق ہے۔واضح رہے کہ ملک کی آزادی کے بعد بھی فوری طور پر تعلیمی نظریات اور نظام و انصرام میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی تھی بلکہ میکاولے کی رپورٹ، جسے‘میکاولے منٹس’کہا جاتا ہے، کی روشنی میں انگریزوں نے جس برطانوی قانونِ تعلیم (British Education Act 1835) کو منظور کیا تھا اور اس کے تحت جو نظام کام کر رہا تھا وہی نظام آزادی کے بعد بھی جاری رہا۔ البتہ کئی دانش وروں، ماہرین تعلیم اور لیڈروں کی جانب سے اس پر تشویش کا اظہار ہوتا رہا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں مذہب، روحانیت اور اخلاقیات کی تعلیم کا معقول انتظام ہونا چاہیے۔ اس وقت جاری نظامِ تعلیم کے خالق میکاولے مذہب، روحانیت اور اخلاقیات کی تعلیم اور اس سے متعلق مضامین کی تعلیمی نظام میں شمولیت کیمخالف تھے۔ ان کا موقف بڑا واضح تھا، وہ یہ کہ ہمارا تعلیمی نظام (یعنی اس وقت کی برطانوی سرکار کا تعلیمی نظام) برطانوی حکومت کو استحکام بخشنے اور تعلیم یافتہ افراد کو روزگار کے قابل بنانے کا ہونا چاہیے۔ میکاولے کی رپورٹ نے اخلاق کی تعلیم کے متعلق یہ رائے پیش کی تھی کہ مذہب اور اخلاق کی تعلیم کا ذمہ حکومت پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بقول مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے، چناں چہ اسے گھر اور کمیونٹی سینٹروں کے ذمہ کر دینا چاہیے۔ مذہبی تعلیم پر برطانوی حکومت کے اخراجات پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے اس نے لکھا تھا کہ ’’ہم کیوں چرچ میں بیٹھ کر وظیفہ پڑھنے والوں پر خرچ کریں‘‘۔ میکاولے مذہب بے زار کے طور پر معروف تھا۔
آزادی کے بعد اس بحث کا آغاز ہوگیا تھا کہ اب ملک کا نظام تعلیم ہماری ملکی اور سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہو۔ چناں چہ آزاد ہندوستان کی وزارتِ تعلیم نے اس سلسلے میں پالیسی وضع کرنے کے لیے بتدریج مختلف کمیٹیاں بنائیں۔ ان میں سے چند قابلِ ذکر کمیٹیوں کا تذکرہ اور ان کمیٹیوں کی سفارشات ہم اس مضمون میں پیش کر رہے ہیں۔دی سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن: آزادی سے پہلے حکومتِ برطانیہ کے دور میں 1920 میں سنٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن قائم کیا گیا تھا جو آج بھی قائم ہے۔ اس بورڈ کا ایک اہم مقصد ملک اور ریاستوں کو تعلیم کے شعبے میں رہ نمائی کرنا ہے۔ اس بورڈ کے سربراہ اکثر وزرائے تعلیم ہوا کرتے ہیں۔ اس کا اجلاس سال میں ایک بار ہوتا ہے، لیکن کئی سال سے اس کا اجلاس متواتر نہیں بھی ہوا ہے۔ اس بورڈ کا ذکر نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں بھی ملتا ہے۔ پیرا گراف 25 میں بورڈکو استحکام بخشنے اور اس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے منصوبہ سازی کی بات کہی گئی ہے۔آزادی کے چند ماہ بعد جنوری 1948 میں اس بورڈ کا 14 واں اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس نے وزارتِ تعلیم کو یہ مشورہ دیا تھا کہ سیکنڈری ایجوکیشن کے نظام کا جائزہ لینے اور اصلاحات تجویز کرنے کیلیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔ واضح رہے کہ اس وقت بورڈ کی صدارت مولانا ابوالکلام آزاد فرما رہے تھے۔ مولانا اس اہم ترین بورڈ کی صدارت 1948 سے 1958 تک کرتے رہے۔ درمیان میں 1951، 1954 اور 1957کے تین برسوں کے دوران مولانا کے بجائے دیگر افراد اس کے چیئرمین رہے۔ اس بورڈ کی صدارت اور وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولانا ابوالکلام آزاد پر جتنا کچھ تحقیقی کام ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوسکا ہے۔ ہمارے ریسرچ اسکالراور پروفیسر صاحبان اس پر توجہ فرمائیں۔
موجودہ قومی تعلیمی پالیسی کو وضع کرنے کے لیے نچلی سطحوں سے مشورے طلب کیے گئے تھے۔ پرنسپل اور اساتذہ سے تجاویز حاصل کی گئی تھیں۔ یہ کام این ڈی اے سرکار کی پہلی میقات میں ہوا تھا۔ اس وقت تعلیم کے میدان میں مصروف کار افراد کی اتنی بڑی تعداد میں شمولیت کو سراہا جارہا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے، لیکن اس کمیشن کے طریقہ کار کا مطالعہ بتاتا ہے کہ 1952 میں کمیشن (سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن) نے اس دور میں ایسا ہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کو مدون کرنے والوں نے، سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن کے طریقہ کار کو اختیار کیا تھا۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی تدوین میں تقریباً پانچ سال صرف کیے گئے، جب کہ مذکورہ کمیشن نے 1953 میں ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں اپنی رپورٹ حکومتِ ہند کو سونپ دی تھی۔ جو افراد موجودہ تعلیمی پالیسی کی تعریف میں پل باندھ رہے ہیں انھیں سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ یہ رپورٹ ملک کی تعمیر کا قابلِ عمل اور ہندوستانی معاشرے کے تناظر میں موجودہ پالیسی کے مقابل بہتر منصوبہ پیش کرتی ہے۔ یہ رپورٹ مرکزی تعلیمی بورڈ کی ویب سائٹ taleemiboard.org پر دست یاب ہے۔ 321 صفحات پر مشتمل اس مفصل رپورٹ کا آٹھواں باب اس مضمون کے موضوع کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ باب کا عنوان ہے اخلاق کی تعلیم (The Education of Character)۔ صفحات 119 تا 131، یعنی 12 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے اس حصے میں اخلاق کی تعلیم کی اہمیت اور طریقہ کار سے گفتگو کی گئی ہے۔ اخلاقی تعلیم کے حوالے سے اتنی تفصیل نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں نہیں ہے۔ اس باب کے اہم نکات کو ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں:اہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے جس میں کھیل، اسکاوٹ و گائیڈ،این سی سی اور این ایس ایس قابلِ ذکر ہیں۔اسی باب کے ذیل میں ایک شق ’’مذہب کی تعلیم‘‘ کی بھی ہے، جس کے تحت مذہب کی تعلیم اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے۔ مذہب کی تعلیم کو تسلیم کرتے ہوئے کمیشن نے واضح کیا ہے کہ چوں کہ ہندوستان کی حکومت سیکولر بنیادوں پر کام کرتی ہے، اس لیے حکومت کے وضع کردہ تعلیمی نظام کو کسی مذہب کی نہ تو تائید کرنی چاہیے اور نہ ہی تبلیغ۔ اس وضاحت اور حکومت کے اس موقف کی وضاحت کرنے کے بعد کمیشن کہتا ہے کہ اسکول نصابی تعلیم کے اوقات کے بعد مذہب کی تعلیم کا انتظام کرسکتا ہے، لیکن اسکولی اوقات کے بعد کیے جانے والے اس انتظام میں تمام طلبا کی شرکت کو لازمی نہ ٹھہرایا جائے۔ ایک اور ماڈل کا تذکرہ کرتے ہوئے کمیشن نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ مذہبی تعلیم کی گھنٹی میں، جو اسکولی اوقات کے بعد ہوگی، کسی خاص مذہب کی تعلیم کا انتظام کیا جاسکتا ہے اور وہ طلبا جو اس گھنٹی میں شریک ہونا نہیں چاہتے، ان کے لیے اخلاقی تعلیم کی کلاس کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ کمیشن کی یہ ایک اہم تجویز تھی لیکن اب بعض ریاستی حکومتیں ایسا کرنے پر روک لگا چکی ہیں۔ جب ہم پالیسی پر اثرانداز ہونے کا منصوبہ بنائیں گے، اس وقت اس نکتے سے ہمیں بڑی مدد ملے گی۔
(مضمون نگار، مرکزی تعلیمی بورڈ ، جماعت اسلامی ہند کے ڈائریکٹر ہیں)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
شعبۂ اردو ،کالج آف کامرس آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
ایسے لوگ زیادہ نہیں جو اپنے نام اور وطن کی خوشبو کے ساتھ دور دیس میں آباد ہوئے اور پھر دونوں کے حقوق ایمانداری سے ادا کرتے رہے۔جلال عظیم آبادی کا خاندان اور آبا و اجداد کا وطن تو ضرور اطرافِ عظیم آباد رہا مگر ان کی پیدائش موجودہ بنگلہ دیش اور سابق مشرقی پاکستان میں ہوئی۔تعلیم و تربیت کے لیے وہ اپنے پُرکھوں کے وطن عظیم آباد آئے اور جب یہاں سے واپس ہوئے تو سیّد محمد جلال الدین تبدیل ہو کر جلال عظیم آبادی بن چکا تھا۔ ابھی عمرِ عزیز کے انھوں نے ستّر برس بھی پورے نہیں کیے تھے۔ صحت اور خوش لباسی سے تو وہ دس برس اور کم معلوم ہوتے تھے۔کورونا وبا کے دوران کئی بارفون سے ان سے باتیں ہوئیں ۔بزمِ صدف کے متعدد آن لائن مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔بزمِ صدف کی کویت شاخ کے قیام کے سلسلے سے جو عالمی مشاعرہ منعقد ہوا،اس کی انھوں نے صدارت فرمائی تھی۔دسمبر کی کسی تقریب میں آمنا سامنا ہوا تو وہ اُسی طرح بشّاش نظر آئے اور اتنی ہی محبت سے خیریت پوچھتے رہے ۔ بنگلا دیش کی بزمِ صدف کے قیام کے موقعے سے ان کی خوشی دیکھنے لائق تھی اور وہ بار بار ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہے اور اپنے ارادوں کو ظاہر کرتے رہے۔
ڈھاکا کے پچھلے سفر سے واپسی کے بعد ہمیں ایک روز ایک کال آیا۔ دوسری طرف سے آواز آئی کہ ڈھاکا سے میں جلال عظیم آبادی بول رہا ہوں۔ نام سے تو میری واقفیت تھی مگر یہ نعمتِ غیر متوقّع نہ جانے کیسے حاصل ہو گئی؟ میں نے دریافت کیا کہ میرا فون نمبر کہاں سے ملا تو انھوں نے پروفیسر محمود الاسلام کا ذکر کیا اور بتایا کہ انھی سے دورانِ گفتگو میرے بارے میں اطّلاعات ملیں اور پھر انھوں نے مجھے دعائیں دینے کے لیے فون کیا۔
ڈھاکا میں دبستانِ عظیم آباد کی وہ پہچان ہیں، اس لیے ان کے لیے بھی یہ بہت موزوں تھا کہ عظیم آباد کے ہم جسے نو آموزوں سے وہ براہِ راست تعلّق پیدا کریں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ میں پٹنہ کے کالج آف کامرس میں صدر شعبۂ اردو ہوں، اس وقت وہ اپنی یادوں میں کھو گئے۔ انھوں نے فخر اور محبت کے ملے جلے جذبے سے اس بات کی اطلاع دی کہ میرے کالج سے ہی انھوں نے بی۔ایس سی۔ کرنے کے بعد رختِ سفر باندھا۔ اب بھی مجھ سے ان کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی محبت کا ایک سبب یہ رشتہ بھی نظر آتاہے کہ ان کے مادرِ علمی میں مَیں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتا ہوں۔ انھوں نے اُس زمانے کے اپنے بعض اساتذہ اور شعبۂ اردو کے بارے میں تذکرہ کیا۔جلال عظیم آبادی سے یہ رابطہ آنے والے دنوں میں مستقل صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ انھوں نے از راہِ محبت اپنے ایک رشتے دار کے ہاتھوں اپنا شعری مجموعہ ’کہکشاں‘ میرے گھر پر بھجوایا۔ کسی خاص موقعے سے وہ ضرور اپنی خیریت بتادیتے تھے اور ہمیں اپنی دعاؤں سے نوازتے رہتے تھے۔ کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے کبھی وہ ہندستان آئے تو ضرور فون کریں گے اور خیریت کے طلب گار ہوںگے۔
جلال عظیم آبادی کا خانوادہ ادب اور مذہب دونوں حوالے سے بے حد زرخیز رہا ہے۔ ان کے بزرگوں میں مولانا مناظر احسن گیلانی، سید سلیمان ندوی اور سہیل عظیم آبادی کی خاص اہمیت ہے ۔ موجودہ صوبہ بہار کا ضلع نالندہ (بہارشریف) ان کا آبائی وطن ہے مگر ان کے والدین تقسیم ملک کے بعد مشرقی پاکستان چلے گئے جہاں 1952 ء میں جلال عظیم آبادی کی پیدایش ہوئی۔ والدین نے ڈھاکے میں اپنا کاروبار قائم کرلیا تھا۔ جلال عظیم آبادی نے ڈھاکا اور پھر عظیم آباد میں تعلیم کے بعد اسی کاروبار سے خود کو منسلک کرلیا۔ ایک مدّت تک وہ جاپان بھی رہ چکے تھے۔
ڈھاکا سے انھوں نے ’ادب‘ نام سے ایک رسالہ بھی شایع کیا تھا۔ ان کے مجموعۂ کلام میں غزلیں، نظمیں، قطعات و رباعیات جیسی صنفوں میں طبع آزمائی نظر آتی ہیں جس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انھوں نے مشقِ سخن سے قدرتِ کلام تک کا سفر طے کیا ہے۔ بنگلادیش کے سے می نار میں جب اُن سے ملاقات ہوئی تو ہرگز ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ہم لوگ پہلی بار مل رہے ہیں۔ ان سے فون پر اتنی بار گفتگو ہوئی تھی کہ ان کی آواز اور ان کے مزاج کو بھی ہم سمجھ چکے تھے۔ بنگلادیش کے مشاعرے کی مجلسِ صدارت میں وہ موجود تھے۔ عمر کے مقابلے ان کی خوش پوشی ان کی بے پناہ سلیقہ مندی کی غمّاز ہے۔ ان کا ترنّم کلاسیکی شاعروں کے انداز و اطوار کا واضح اشاریہ ہے۔ کلام میں بھی کلاسیکی رنگ غالب ہے، اس لیے اس پہ ترنّم کا وہ انداز بہت لطف دیتا ہے۔ غالباً انھیں مشاعروں میں بھی خاص طور سے اسی لیے بلایا جاتا تھا کہ وہ ایک مخصوص ادا سے اپنا کلام پیش کرتے تھے۔
جلال عظیم آبادی کی قرابت داریاں عظیم آباد کے مختلف محلّوں اور علاقوں میں ہیں۔ ہر مہینے ہمیں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ضرور ملتا ہے جو جلال صاحب کا تذکرہ کرے گا اور ان سے فون پر ہوئی گفتگو کے دوران میرے ذکر کی تفصیل بتائے گا۔ ان کے ہم عصر اور ادبی دوست بھی اطرافِ عظیم آباد میں کم نہیں ہیں۔ جلال ڈھاکا میں بیٹھے ہوئے اپنے سارے متعلّقین، دوست اور آشنا سے جُڑے رہتے تھے۔ ڈھاکا کے سے می نار کے بعد بزمِ صدف کے افتتاحی پروگرام میں بھی وہ شامل ہوئے اور اپنی مادری زبان کی حفاظت اور توسیع و ترقی کے لیے وہاں سرگرم ہیں۔ ادبی طور پر ان کی شخصیت کا ایک خاص وقار بھی قائم رہتا ہے۔ ہمارے لیے تو وہ اس وجہ سے بھی غنیمت معلوم ہوتے تھے کہ ڈھاکا میں ان کی ذات سے وہاں ایک عظیم آباد بستا ہے۔ اُن کے شعری مجموعے پر علقمہ شبلی اور نوشاد نوری نے اپنے تاثرات رقم کیے تھے۔
پچاس برس کی مدّت میں ان کا ایک ہی شعری مجموعہ شائع ہو سکا۔ ’کہکشاں‘ عنوان سے ۲۰۰۴ میں یہ پہلی بار شائع ہوا۔ ۲۰۱۸ میںاس شعری مجموعے کا چوتھا ایڈیشن منظرِ عام پر آیا۔ غالباً کار و باری مصروفیات کی وجہ سے وہ اپنی بکھری ہوئی تحریروں کودوسرے اور تیسرے مجموعے کی شکل نہ دے سکے۔ڈھاکا میںاردو زبان کی کتابوں کی اشاعت کی اپنی مشکلات ہیں ؛غالباً اس سے وہ عہدہ بر آ نہیں ہو سکے۔ ان کے وارثین کے لیے یہ لازم ہے کہ اب باقی ماندہ کلام کو بھی جلد از جلد شائع کرائیں۔
جلال کے شعری مجموعے میں ساٹھ غزلیں ہیں۔بے شک وہ منتخب کلام ہے اور اس بات کا غمّاز ہے کہ مشقِ سخن کا ایک طویل عرصہ شاعر کو ثمربار بنا گیا ہے۔کلاسیکی عشقیہ رنگ تو ہے ہی مگر عہدِ جدید کے تقاضوں کے پیشِ نظر زندگی کی بدلتی ہوئی کیفیتوں کو قید کرنے کی وہ بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ہجر و وصال کے موضوعات میں بھی نئے عہد کے انسانوں کا سوز بہ درجۂ اتم موجود ہے۔ یہیں بے وطنی اور بار بار کی ہجرت اور مسافرت کا درد بھی ان کے اشعار میںایک کرب ناک فضا قائم کرتا ہے۔بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنے آپ سے سرگوشی کر رہا ہے۔ کوئی ہم زاد ہے جو اس سے مل کر اس کے درد کو ہلکا کر رہا ہے۔ چند ملے جلے اشعار قارئین ملاحظہ کریں:
ہم مسافر تھے، ذرا چین تو لینے دیتے
زندگی دینے کے احسان جتانے آئے
یادیں کچھ ماضی کی پیہم
دل کو کر دیتی ہیں مدھم
اک اور زخم اگر کھا گئے تو کیا غم ہے
ہمارا درد سے رشتہ بہت پرانا ہے
دیے جلتے ہیں روشنی کے لیے
اور ہم جل رہے ہیں کسی کے لیے
باقی سبھی رستوں میں ہے انسانوں کا جھرمٹ
منزل کا مگر راستہ سنسان بہت ہے
پاس رہتا ہے کبھی دور چلا جاتا ہے
غیر تو غیر ہے، سایہ بھی تو ہرجائی ہے
کیوں تلاطم ہے ندی میں، جاننا چاہیں اگر
آپ کو بھی بیچ دریا میں اُترنا چاہیے
گھر کی یاد آتی ہے کیوں تھکے مسافر کو
اجنبی ٹھکانوں میں رات جب بتاتے ہیں
بے وطن کر دیا مجھ کو بھی ضرورت نے جلال
ورنہ کیوں خاکِ وطن تجھ سے کنارا ہوتا
جلال عظیم آبادی کے یہاں غزلوں کے ساتھ نظموں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ پتھر، عورت، خود کفیل، شہد ، بیساکھ، اکیسویں صدی کا ماتم، پردیسی شوہر کے نام بند لفاف وغیرہ قابلِ توجہ نظمیں ہیں۔ مجموعے کے بعد کی ان کی ایک نظم ’بہاری ہیں بہاری‘ بہت پُر اثر اور موضوع کے اعتبار سے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ان کے قطعات،رباعیات اور حمد و نعت بھی اس بات کے ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ان کے یہاں قادر الکلامی موجود ہیں۔
جلال عظیم آبادی کی شخصیت میں جو رکھ رکھائو ، تہذیبی اور ثقافتی ذوق اور جو مجلسی توجّہ تھی، اس کی وجہ سے خاصی مدّت سے وہ ڈھاکاکے اردو بولنے والوں کے بیچ ان کی ایک مرکزیّت قائم ہو چکی تھی۔ نئے شعرا اور ایسے اسکالرس جن کی اردو شعر و ادب میں خاص دلچسپی ہے، ان کے لیے وہ ایک رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔عظیم آباد سے تعلّق ہونے کی وجہ سے زندہ ادبی دبستانوں کے اطوار کا وہ بنگلا دیش میں اپنی ذات کی حد تک نفاذ کرنے میں کامیاب رہے۔ ان سے یونی ورسٹی کے اساتذہ بھی حسبِ ضرورت اور حسبِ توفیق مستفیض ہوتے رہے۔اب ان کے نہیں رہنے پر ڈھاکا کی ادبی محفلیں سونی معلوم ہوں گی۔
پٹنہ:(شیث احمد)اردو کارواں کے ایک نمائندہ وفد نے آ ج سکریٹریٹ وزیر تعلیم وجئے کمار چودھری سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور انہیں اردو کے مسائل کے سلسلے میں ایک عرضداشت پیش کی۔ عرضداشت میں وزیر تعلیم سے اردو کی لازمیت ختم کرنے اور اسے اختیاری مضمون کے زمرے۔ میں ڈالنے والے سرکلر نمبر 799مورخہ15مئی2020 کو واپس لینے٫ اردو کو لازمی مضمون کی حیثیت سے برقرار رکھنے٫ہر اسکول میں ایک اردو ٹیچر کا لازمی طور پر تقرر کرنے اور اردو ٹی ای ٹی امیدواروں کو ہندی ٹی آی ٹی امیدواروں کی طرح ہی گریس مارکس دے کر ان کا رزلٹ جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ وفد نے امید ظاہر کی کہ وزیر تعلیم ان اہم مسائلِ پر توجہ دے کر انہیں حل کر ے کے لئے جلد ضروری اقدامات کریں گے۔ اردو کارواں کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ وزیر تعلیم نے عرضداشت پر سنجیدگی غور کیا اور وفد کو یقین دلایا کہ وہ ان تمام مسائلِ سے متعلق کاغذات٫دستاویزات اور سرکاری نوٹی فیکیشن اور سرکلر کو دیکھیں گے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اردو زبان٫اردو اساتذہ اور اردو ٹی آی ٹی امیدواروں کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ وزیر تعلیم نے وفد کے اراکین کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹے تک اردو سے متعلق مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے گفتگو کے دوران بار بار یہ بات کہی کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کام پر یقین رکھتے ہیں٫اردو اور اقلیتوں کے مسائل کے سلسلے میں سنجیدہ ہیں اور سماج کے ہر طبقے کو ساتھ لے کر ریاست کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وزیر تعلیم نے دوران گفتگو حضرت امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ با شعور ملی رہنما تھے۔ ان کے میں ملک وقوم کا سچا درد تھا۔ ہم سب مل کر ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے۔ وزیر تیم نے یقین دلایا کہ امیر شریعت نے وقتاً فوقتاً اردو کے جن مسائل کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائی ہے ان تما
مسائل کو حکومت حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ ان میں اردو مشاورتی کمیٹی ٫بہار اردو اکادمی اور گورنمنٹ اردو لائبریری کی مجلسِ عاملہ کی تشکیل نو کا معاملہ بھی شامل ہے۔ وفد میں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی٫اردو کارواں کے نائب صدور مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی٫مشتاق احمد نوری اور پروفیسر صفدر امام قادری٫ جنرل سکریٹری ڈاکٹر ریحان غنی اور سکریٹری ڈاکٹر انوارالہدی شامل تھے۔
9708111470
بالی ووڈ کے شہنشاہ جذبات، ہندوستانی فلمی دنیا کے بے تاج بادشاہ ،لیجنڈ اداکار یوسف خان عرف دلیپ کماراب اس دنیا میں نہیں رہے ۔98 سال کی عمر میں 7 جولائی بروزبدھ ممبئی کے ہندوجا اسپتال میں آخری سانس لی۔ان کے انتقال کے بعد ایک سنہرے دور کا خاتمہ ہو گیا۔وہ صرف بہترین اداکار ہی نہیں بلکہ بہترین انسان بھی تھے جن کی ہر شخص عزت کرتا تھا۔
ابتدائی زندگی:
یوسف خان محمد عرف دلیپ کمار11 دسمبر 1922ءکوپشاور کے محلہ خداداد میں لالہ غلام سرور کے یہاں پیدا ہوئے۔ والدہ کا نام عائشہ خان ہے ۔ان کا پورا نام محمد یوسف سرور خان ہے۔ان کے پانچ بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم دیولالی میں پوری کی جب کہ بی ایس سی خالصہ کالج ممبئی سے کیا ۔وہ اپنے خاندان کے ساتھ 1935 ءمیں ممبئی کاروبار کے سلسلے میں منتقل ہوئے۔اداکاری سے قبل یوسف خان پھلوں کے سوداگر تھے اور انہوں نے پونا کے فوجی کینٹین میں پھلوں کا ایک اسٹال لگا رکھا تھا۔
فلموں میں آمد:
دلیپ کمار 1940 ءکے عشرے کے وسط کے دوران سنیما کی دنیا میں داخل ہوئے۔ اپنے زمانے کی معروف اداکارہ اور فلمساز دیویکا رانی کی جوہر شناس نگاہوں نے بیس سالہ یوسف خان میں چھپی اداکاری کی صلاحیت کو بھانپ لیا اوربامبے ٹاکیزکی فلم ’جوار بھاٹا‘ میں دلیپ کمار کے نام سے ہیرو کے رول میں کاسٹ کیا۔اس کے بعد سے اس شخص نے بھارتی فلمی صنعت پر ایک طویل عرصے تک راج کیا۔
شہرت و مقبولیت:
دلیپ کمار کی پہلی فلم ”جوار بھاٹا“ (1944) پرکسی کا دھیان نہیں گیا تھا، اس کے بعد ’جگنو‘ (1947) باکس آفس پر ان کی پہلی بڑی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ میلہ‘ (1948) کے بعدآئی فلم” انداز ‘ (1949 ء)نے انہیں مقبولیت دلائی۔ دیدار (1951)دیوداس (1955) یہودی (1958) اور’مدھومتی‘ (1958) سمیت کئی کامیاب فلموں میں بہترین اداکاری کرکے شہنشاہ کا خطاب جیتا۔انہوں نے961 1ءمیں ”فلم ”گنگا جمنا“ کی تخلیق بھی کی جس میں ان کے بھائی ناصر خان نے کام کیاتھا۔ انہوں نے ’انداز ‘میں راج کپور (1949) کے ساتھ اور ”انسانیت“ میں دیو آنند (1955) کے ساتھ اداکاری کی۔ نرگس ، کامنی کوشل، مینا کماری، مدھوبالا اور وجنتی مالا سمیت کئی مقبول اداکاراؤں کے ساتھ ان کی جوڑی بنی تھی۔
شہنشاہ جذبات:
انہیں المیہ فلم کے شہنشاہ کے طور پرسب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔ایک ہیرو جوکہ محبت کی ناکامی پر آنکھوں سے آنسورواں کروادیتا ہے۔ دیوداس اس کردار کا ایک نمونہ ہے۔ سنگ دل، امر، اڑن کھٹولہ، آن، انداز، نیا دور، مدھومتی، یہودی‘ اور’ مغل اعظم‘ ایسی چند فلمیں ہیں جن میں کام کرنے کے دوران انہیں شہنشاہ جذبات کا خطاب دیا گیا۔ جب کہ ”دیدار“ اور”دیوداس“ نے انہیں ٹریجڈی کنگ بنادیا۔لیکن انہوں نے فلم کوہ نور، آزاد، گنگا جمنا اور’ رام اور شیام ‘میں ایک کامیڈین کی اداکاری کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ لوگوں کو ہنسا نے کا فن بھی جانتے تھے ۔انہوں نے مزاح کی بے انتہا استعدا دکا مظاہرہ کیا۔
کیریئر:
دلیپ کمار کا کیرئیر چھ دہائیوں اور 60 سے زائد فلموں میں پھیلا ہواہے۔ ہندی سنیما کی تاریخ میں سب سے بڑے اداکار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے’ انداز (1949 ء) آن (1952) دیوداس (1955) آزاد (1955) مغل اعظم (1960) گنگا جمنا (1961) میں بہترین اداکاری کی۔ 1970,1980اور1990 ءکی دہائی میں انہوں نے کم فلموں میں کام کیا۔ فلم’ انقلاب‘ (1981) میں ایک اہم کردار کے ساتھ واپس ہوئے ۔ کرانتی(1981) شکتی (1982) ویدھاتا (1982)مشال (1984) دنیا (1984) کرما (1986)عزت (1990 ) سوداگر (1991) میں بہترین ایکٹر کا رول اداکیا تھا۔ان کی آخری فلم ’قلعہ‘ (1998) تھی۔ دلیپ کمار نے سب سے زیادہ اداکارہ وجینتی مالا کے ساتھ کام کیا ۔
عوامی زندگی :
فلمی صنعت نے قومی سرحدیں عبور کی ہیں اور راج کپور اور دلیپ کمار جیسے سینما کے عظیم ستاروں کے پیار نے ہندوستان اور پاکستان کے عوام کو یکجا کر دیا ۔ دلیپ کمار بھارت اور پاکستان کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششوں میں سرگرم رہے۔وہ ہمیشہ عوامی خدمات میں پیش پیش رہے۔انہوں نے سیاسی تشہیر میں بھی حصہ لیا اور پٹنہ بھی آچکے ہیں۔ وہ 2000 کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے بھی رکن رہے ۔
ذاتی زندگی :
دلیپ کمار نے11 اکتوبر 1966 ء میں اداکارہ اور خوبصورتی مورت سائرہ بانو سے اس وقت شادی کی جب وہ 44 سال کے تھے اور سائرہ بانو22 سال کی تھیں ۔ یوسف کی دیوانی سائرہ بانو اس وقت ہوگئیں جب وہ محض آٹھ سال کی تھیں۔ 1952 ءمیں جب ہدایت کارمحبوب خان کی فلم میں نمی کے ساتھ دلیپ کمارنظر آئے تو سائرہ دلیپ پر فدا ہو گئیں۔دلیپ کمار نے 30 مئی1981 ءمیں دوسری شادی آسما جوڈے نام کی خاتون سے کی، لیکن 2 سال کے اندر20 جنوری 1983 ءکو طلاق ہو گیا ۔ازیں قبل ہیروئین مدھوبالا سے ان کے عشق کے چرچے رہے لیکن کسی وجہ سے ان کی یہ محبت دم توڑ گئی اور زندگی میں ہی دونوں علیحدہ ہو گئے۔ دلیپ کمار اپنے دور کے فلم انڈسٹری کے ایسے اداکار تھے جن کے اسٹائل کی نقل لڑکے کرتے تھے اور ان کی ساتھی ہیروئینوں کے ساتھ ساتھ عام لڑکیاں ان پر مرتی تھیں۔ان کے بھائی ناصر خان‘ احسان خان اور اسلم خان ہیں۔ دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی ناصر خان بھی ایک اداکار تھے اور گنگا جمنا (1961) اور بیراگ(1976) میں ایک ساتھ کام کئے تھے۔ ناصر خان نے اداکارہ، بیگم پارا سے شادی کی تھی، تاہم ناصر خان 1974 میں 49 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ناصر خان کے صاحبزادے ایوب خان فلموں میں بطور اداکار کام کررہے ہیں۔
عادت و فطرت:
دلیپ کمار اردو زبان اور شاعری سے محبت رکھتے تھے۔ وہ شعروشاعری اور لطیفے کے بیحد شوقین تھے ۔عمر خیام ‘مرزا غالب‘ اکبر الہ آبادی‘ فیض احمد فیض کے شیدائی تھے۔ مشاعروں میں خوب شرکت کرتے تھے۔ دلیپ صاحب دنیا کی کسی بھی زبان کی کتاب کی بہت عزت کرتے تھے۔کرکٹ کے دیوانے تھے اور جم خانہ میں شطرنج ‘ ٹیبل ٹینس اور بیڈ منٹن کھیلتے تھے۔ایام نوجوانی میں بھی دلیپ کمار گھر میں بچے جیسی طوفانی حرکت کرتے تھے۔ ان کو اردو ‘ ہندی ‘ انگریزی‘ اور مراٹھی زبان پر عبور حاصل تھا ۔ انہیں ستار بجانے کا بہت شوق تھا اور اچھا بجاتے تھے۔ انہیں ڈائری لکھنے کا بھی شوق تھا۔ انہوں نے ” مووی ٹائمس“ نامی اخبار میں ”دل ایک مندر پر“ ایک اداریہ بھی لکھا تھا‘ جس کی کٹنگ راجندر کمار نے سنبھال کررکھی تھی۔انہوں نے فلم” مسافر‘ سگینہ‘ کرما‘ اور ’سودا گر“ کے لئے گانا بھی گایا۔ دلیپ کمار موسیقی کے بیحد شوقین تھے۔ بڑے غلام علی خان کی ٹھمری اور بیگم اختر کی غزلیں سننا پسند کرتے تھے۔
چاہت :
دلیپ کمار کے دیوانے صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ سرحد کے اس پار پاکستان میں بھی ہیں۔دلیپ کمار پاکستانیوں کے بھی دل میں بسے ہوئے ہیں۔اسی لئے تو انہیں پاکستان حکومت کی طرف سے 1998ء میں پاکستان کے سب سے بڑے سیویلین اعزاز’ نشان امتیاز ‘سے بھی نوازا گیا ۔ ان کے علاوہ صرف ایک دوسرے ہندوستانی سابق وزیر اعظم آنجہانی مرارجی ڈیسائی کو اس اعزاز سے نوازاگیا۔لہذا پشاور کے عوام ہر سال دلیپ کمار کا یوم پیدائش بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں اور انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔اتناہی نہیں پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی حکومت نے پشاور سے تعلق رکھنے والے برصغیر ہندوپاک کی فلم انڈسٹری کے عظیم فنکاروں دلیپ کمار اور راج کپور کے مکانات کو خریدنے کا اعلان کرتے ہوئے ان میں جدید عجائب گھر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے پہلے سابق اور موجود حکومتوں نے دلیپ کمار اور راج کپور کے مکانات کو خریدنے اور اسے ثقافتی ورثہ قرار دینے کے کئی مرتبہ وعدے کیے تاہم اس سلسلے میں ابھی تک عملی اقدامات کم ہی دیکھنے کو ملے ہیں۔یہ اعلان وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے کھیل و ثقافت امجد آفریدی نے جمعرات 11 دسمبر2014 ءکو پشاور پریس کلب میں غیر سرکاری تنظیم کلچرل ہیرٹیج کونسل اور ٹورزم کارپوریشن کی طرف دلیپ کمار کی 92 ویں سالگرہ کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ امجد آفریدی کا کہنا تھا کہ حکومت بہت جلد نہ صرف دلیپ کمار اور راج کپور کے مکانات کو سرکاری تحویل میں لے رہی ہے بلکہ ان دونوں مکانات کو عجائب گھروں میں تبدیل کیا جائے گا تاکہ ان فنکاروں کی جائے پیدائش کو آئندہ نسلوں تک محفوظ بنایا جا سکے۔
شخصیت:
دلیپ کمار ایک استاد، بلکہ ایک درس گاہ تھے ۔ ان کی باوقار اور دل آویز شخصیت، دھیمے لہجے میں بولنا، فن کی بلندیوں اور تمام تر شہرت اور عزت کے باوجود، انتہائی انکساری۔ اِن سب باتوں نے مداحوں کو ان کا گرویدہ بنائے رکھا۔ جب اداکاروں کی محفل میں بیٹھتے اور آواز کے اتار چڑھاو اور اداکاری کے رموز پر بات ہوتی تو مشہور فلموں اور اداکاروں اور خاص طور پر دلیپ کمار کا ذکر ہوتا اور پھر ان کی اداکاری کے ایسے ایسے پہلو سامنے آتے کہ رشک آتا کہ کیا فنکار تھے اور کیا انکی اداکاری تھی ۔ اور، بے اختیار جی چاہتا کہ کاش ہم بھی کبھی اس منزل پر پہنچ جائیں۔یہی وجہ ہےکہ جب کوئی ذرا اچھا کردار ادا کرتا یا جملے کی ادائیگی خوبصورت طریقے سے ادا کرتا، تو کہا جاتا کہ بھئی دلیپ کمار بن گیا۔
دلیپ صاحب چاہے مکالمے بول رہے ہوں، عام بات چیت کر رہے ہوں یا اسٹیج پر تقریر کر رہے ہوں وہ لفظوں کا چناو بہت عمدگی سے کرتے تھے ۔ اور ہر جملہ اس خوبصورتی سے ادا کرتے تھے کہ ہر لفظ انتہائی صاف طریقے سے اپنے پورے معانی کے ساتھ، پورے رچاؤ کے ساتھ سامعین تک پہنچتا ۔ چونکہ، ان کی آواز میں ایک مٹھاس ایک چاشنی ہے اور ان کے جملوں میں ایک خاص ردم، ایک ربط ہوتا تھا۔ پھر آواز کے اتار چڑھاو کابہت دھیان رکھتے تھے ۔ تو لگتا ہے کہ وہ نثر نہیں نظم پڑھ رہے ہوں اور اشعار میں باتیں کر رہے ہیں۔ وہ مکالموں کو اشعار کی طرح موزوں کرتے تھے اور ایسے لفظ نکلوا دیتے تھے جو سخت اور بے وزن ہوں۔
عقیدت و محبت:
ہرشخص ہی ان سے بے پناہ عقیدت اور محبت کا اظہار کرتا اور کہتا کہ میں نے دلیپ کمار کی فلاں فلم دس مرتبہ دیکھی ہے، فلاں فلم کوئی پانچ مرتبہ اور دو تین بار تو شاید ہر فلم ہی دیکھی جاتی تھی۔ پورے پورے مکالمے اور مناظر لوگوں کو ازبر تھے۔ داغ، انداز، آن، مغل اعظم، دیو داس، کوہ نور، گنگا جمنا اور رام اور شیام۔ غرض، ایک سے ایک شاہکار فلم کا ذکر ہوتا۔
ہالی ووڈ :
ان کی وجیہ شخصیت کو دیکھ کر برطانوی اداکار ڈیوڈ لین نے انہیں فلم ’لارنس آف عریبہ‘ میں ایک رول کی پیشکش کی لیکن دلیپ کمار نے اسے ٹھکرا دیا۔
اعزازات :
دلیپ کمار وسیع پیمانے پر ہندی سنیما کی تاریخ میں سب سے بڑے اداکار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ایک بھارتی اداکار کے طورپر انعامات کی زیادہ سے زیادہ تعداد حاصل کرنے کے لیے ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا گیا۔ دلیپ کمار کی اداکاری میں ایک ہمہ جہت فنکار دیکھا جاسکتا ہے جو کبھی جذباتی بن جاتا ہے تو کبھی سنجیدہ اور روتے روتے آپ کو ہنسانے کا گر بھی جانتا ہے۔انڈین فلم انڈسٹری انہیں آج بھی بہترین اداکار مانتی ہے اور اس کا لوگ اعتراف بھی کرتے ہیں۔ جہاں انہیں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا وہیں انہیں حکومت ہند نے 1991 میں پدم بھوشن اعزاز اور 1994 ءمیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ کے علاوہ1980 بمبئی شیرف سے نوازاگیا۔پاکستان حکومت کی طرف سے 1998ء میں ان کو پاکستان کے سب سے بڑے سیویلین اعزاز ’نشان امتیاز ‘سے بھی نوازا گیا۔ساتھ ہی 2008 ءمیں خصوصی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ۔ انہیں ” شکتی ‘ رام اور شیام‘لیڈر‘کوہ نور ‘نیادور‘ دیوداس ‘آزاد اور ”داغ“ میں بہترین داکاری کے لئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازاگیاتھا۔
فلموں سے کنارہ کشی :
1998 میں فلم ‘ قلعہ ‘ میں کام کرنے کے بعد فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیارکر لی تھی۔ دلیپ کمار صرف مخصوص فلمی پارٹیوں میں اپنی بیوی سائرہ بانو کے ساتھ نظر آئے۔ پارٹی میں آنے والے یا ان کے گھر پر جانے والے اکثراداکار ان کے احترام میں ان کا پیر چھونا نہیں بھولتے تھے اور اس طرح ان کی عزت کرتے تھے ۔ادھرکچھ دنوں سے وہ زیادہ بیمار رہنے لگے تھے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)۔
جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار
امام وخطیب جامع مسجد دریاپور،سبزی باغ ،پٹنہ
زیر مطالعہ کتاب’’ عورت قرآن کریم میں‘‘ اپنے موضوع کی ایک اہم جامع تحقیقی کتاب ہے ، جو اس سے متعلق تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ عورت سے متعلق قدیم مذاہب کے نظریات، عصر حاضر کاپروپیگنڈہ اوراسلام میں دیے ہوئے حقوق اوراس کے عظمت ووقار کو جس رفعت شان سے بیان کیاگیا ہے ان کو مدلل اورمفصل انداز میں بڑی شرح وبسط سے اس کتاب میں یکجا کردیاگیا ہے۔
مصنف کتاب ڈاکٹر مولانا عتیق الرحمن قاسمی ایک نامور عالم دین، عظیم قلمکار اورنہایت وسیع المطالعہ شخص ہیں۔ایک درجن سے زائد کتابیں ان کے قلم گہر بار سے منصہ شہود پرآچکی ہیں۔ ہندوستان کی مشہور ومعروف خدابخش لائبریری پٹنہ کے اسسٹنٹ لائبریرین کے عہدہ سے 2006 میں سبکدوش ہوئے ہیں۔ تصنیف وتالیف کابڑا اعلیٰ ذوق ہے۔ ان کے علمی خدمات کے صلہ میں 2012 میں صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ اعزاز سے بھی نوازاگیا ہے۔ ان سب کے ساتھ بہت ساری تنظیموں سے گہری وابستگی ہے، آل انڈیا ملی کونسل بہار کا یہ حقیرراقم الحروف جنرل سکریٹری ہے اورآپ صدر ہیں۔ ان کی سرپرستی میں کام کرنے کا اورآپ کے تجربات ومشاہدات سے فائدہ اٹھانے کا اورقریب سے استفادہ کاموقع ملا ہے۔اللہ تعالیٰ ان کاسایہ دراز کرے اوران سے ملت کو علمی فائدہ ملتا رہے۔
دیگر کتابوں کی طرح آپ کی یہ کتاب ایک اہم موضوع پر اس کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتی ہے اورخواتین سے متعلق تمام موضوعات کو مدلل انداز میں تحریر کیا ہے اورپوری تحقیق کرکے خواتین کے حوالے سے موضوع کے تعین کے ساتھ تمام آیات قرآنی کو جمع کردیا ہے اوراس کا بھی التزام کیا ہے کہ عورتوں کے بارے میں تمام بڑے قدیم مذاہب ہندوازم، یہودی، عیسائی کے نظریات کے ساتھ جدید نظریات مغربی افکار اورقرآنی احکامات کاتقابلی جائزہ پیش کیا ہے اوراسلامی احکام کی حکمت ومصلحت اوراس کی عظمت واہمیت کونمایاں کیا ہے اوربڑی عرق ریزی سے اعداد وشمار کی روشنی میں بتایاکہ پورے قرآن پاک میں 179 موضوعات ،62 سورتوں میں 421 آیات کے تحت اللہ رب العزت نے عورتوں کا ذکر کیا ہے۔ اتنے تفصیلی انداز میں اس کاذکر دوسری جگہ بہت کم ہے، اس موضوع پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے یہ بہت معین ومددگار کتاب ثابت ہوسکتی ہے۔
اس کتاب کے متعلق عظیم اسلامی شخصیت حضرت مولانا رابع حسنی ندوی ناظم ندوۃالعلماء لکھنؤ مقدمہ کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’عورتوں سے متعلق تمام حقائق کا پورے انصاف اوردقت نظر کے ساتھ قرآنی مطالعہ کی روشنی میں جائزہ پیش کیا ہے۔ وقت کی ضرورت کے طورپر سامنے آئی ہے اس پر انہیںتہنیت پیش کرتا ہوں۔‘‘ (ص:25)
عرض مصنف اورمقدمہ کے بعدسات ابواب میں اس کے عناوین بیان کیے گئے ہیں۔ باب اول میں۔ عورت مذاہب عالم میں ایک تقابلی مطالعہ۔ اس میں ہندومت، یہودیت اورعیسائیت کے تحت ان مذاہب میں عورتوں کی کیا حیثیت ہے اس کو بیان کیا ہے۔ باب دوم میں یونانی تہذیب، رومن تہذیب، ایرانی تہذیب انگلستانی تہذیب اورعرب کی جاہلانہ تہذیب پرمفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
تیسرے باب میں عصرحاضر کے تحت عورت جدید مغربی تہذیب میں جس کے تحت مساوات مردوزن ، تحریک نسواں، حقوق نسواں کامنشور اوراس کے تباہ کن حالات وعواقب کو چشم کشا تحریر کے ذریعہ حقیقت کو آشکارا کیا گیا ہے۔چوتھے باب میں مذاہب عالم جدید مغربی تہذیب اوردورحاضر کے مسائل اورمضراثرات پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ پانچویں باب میں عورتوںسے متعلق قرآن کریم کے پیغامات کوبڑی تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔چھٹے باب میں نسوانی احکامات کے تعلق سے جو سورتوں کے نام ہیں ان سب کو یکجا کردیاگیا ہے اورساتویں باب میں 179 ذیلی عنوانات کے تحت جو عورتوں سے متعلق ہیں ان احکامات کو صفحہ 63 سے 346 تک یعنی 283 صفحات میں پوری تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔جس سے ہرزاویہ منقح ہوجاتا ہے اورقرآن کریم میں کس عنوان کے تحت کن آیتوں میں ذکر آیا ہے ، یہ ایک نظر میں سامنے آجاتا ہے۔ عصرحاضر میں جو موضوع گاہے گاہے میڈیا میں موضوع بحث بنتا ہے اورمسلم عورتوں کے سلسلے میں جوبدگمانی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی آزادی پراسلام پابندی لگاکر قدغن لگاتا ہے اس کا مدلل جواب اوراس کے حقیقی مقام ومرتبت کو صرف قرآن پاک کی روشنی میں واضح کیاگیا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی مصنفانہ ضابطہ ہوہی نہیں سکتا۔حالانکہ اسلام کا دوسرا اہم حصہ حدیث پاک ہے۔ جس میں عورتوں سے متعلق وافر مقدار میں واضح احکامات ہیں مگر کتاب کے موضوع کے لحاظ سے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف قرآن پاک کی روشنی میں عورتوں سے متعلق احکامات کو پیش کیا ہے۔
موصوف رقمطراز ہیں کہ ’’عورتوں کے حقوق کے لئے پوری دنیا میں جوآوازیں بلند ہوئی ہیں ان تحریکات کے صرف دو مقاصد ہیں ایک عورتوں کی آزادی دوسرے مردوں کے برابر حقوق…اس اعتبار سے دیکھا جائے کہ ان کی تحریکیں کامیاب ہوئیں یا ناکام تو اس کا جواب یہ ہے کہ پورے طور پرناکام ہوئی۔ ابھی تک وہ ہر محکمہ میں برابری حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ دوسرے آزادی کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوگئے ہیں تعلیم اورترقی کے نام پر استحصال میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اورنسوانی اقدار بھی ختم ہورہا ہے۔ (عورت قرآن کریم میں، ص :48) اس طرح کے اہم گوشے پرسیرحاصل بحث کی گئی ہے یہ اپنے موضوع کی ایک مفید جامع تحقیقی کتاب ہے۔
352 صفحات پرمشتمل دیدہ زیب نفیس طباعت سے مزین یہ اہم کتاب مرکز تحقیقات اسلامی نیوعظیم آباد کالونی پٹنہ نے 2021میں شائع کیا ہے۔ اس کی قیمت 450 روپے ہے۔ جس کو مصنف کے علاوہ کتب خانہ انجمن ترقی اردو، اردوبازار جامع مسجد دہلی اورپرویز بکڈپو سبزی باغ پٹنہ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
RLSY College, Bettiah(BRABU.MUZ.)
مدرسہ اسلامیہ محمودیہ:
1926میں چند اہلِ خیر حضرات کی مخلصانہ کوششوں ، بطورِخاص زبیر تحصیلدار کے تعاون سے مجاہدِ آزادی مولوی عبد الوحید رحمانی (1885-1976)کی شب و روز کی تگ ودو کے نتیجے اور مولانا محمد علی مونگیری (1846-1927)اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی (1879-1957)کی خاص سرپرستی میں سرزمینِ مبارک پور(مونگیر اب سہرسہ) میں ایک مدرسہ قائم ہوا۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی(1851-1920) کی طرف انتساب کرتے ہوئے اس کا نام مدرسہ اسلامیہ محمودیہ رکھا گیا۔ بانیوں میں ایک خاص نام مولانا محمد یعقوب قاسمی دربھنگوی کا بھی ہے اس لیے کہ اس ادارے کو سجانے سنوارنے اور بلندیوں پر پہنچانے میں ان کا غیر معمولی کردار رہا ہے۔ مدرسہ محمودیہ نے سمری بختیار پور کے پورے علاقے میں دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت اور دینی فضا ہموار کرنے میں اہم کارنامہ انجام دیا۔اس مدرسے میں وقت کے بڑے بڑے علماء ، صلحاء اور اہل ِ فضل و کمال کی تشریف آوری ہوتی رہی ہے جن میں مفتی کفایت اللہ دہلوی (1875-1952) ،سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی (1888-1959)،شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ،مجاہد ِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (1901-1962)، مولانا منت اللہ رحمانی (1913-1951)، مولانا ابو الوفا شاہ جہاں پوری (1910-1979)، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (1936-2002)، مولانا اسعد مدنی (1928-2006) اور مولانا محمد سالم قاسمی (1926-2018)علیہم الرحمہ وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ مولانا محمدمحمود ، مولانا نظام الدین، حافظ محمد نذیر، مولانا محمد نسیم الدین، مفتی محمد حصیر الدین، مولانا محمد یونس ()، حافظ نور الہدیٰ، مولانا انوار الحق (1953-2019)، مولانا عبد القادر رحمانی(1949-2021)، مولانا شرف الدین رحمانی ، ماسٹر محمد طاہر ، ماسٹر سید سلیم ، ماسٹر جنید، قاری محمد شعیب اور قاری سید منظر الحسن وغیرہ مدرسہ اسلامیہ محمودیہ مبارک پور کے معروف و مقبول اساتذہ میں رہے ہیں۔
مبارک پور کے دو محلے ہیں ۔ ایک مشرقی دوسرا مغربی۔مدرسے کا محل وقوع دونوں کے بیچوں بیچ ہے اور اسی سے متصل جانب ِ شمال گاؤں کی جامع مسجد بھی قائم ہے۔ اس مدرسے کے برکتی وجود ہی کا نتیجہ تھا کہ پوری بستی کا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو قرآن کی تعلیم سے محروم رہا ہو۔اس مدرسے سے نہ صرف یہ کہ بستی کے سینکڑوں طلبہ فیضیاب ہوئے بلکہ آس پاس کے مواضعات و قصبات اور دیگر اضلاع کے طلبہ کی بھی ایک بڑی تعداد نے سیرابی حاصل کی اور ملک و بیرون ِ ملک میں زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی خدمات فراہم کی اور آج بھی کر رہے ہیں۔
ویسے تو سینکڑوں کی تعداد میں اس کے خوشہ چیں دنیا کے مختلف خطوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور دینی ، علمی ، رفاہی اور اصلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔مولانا منظور الحسن ندوی (سابق مکھیا)،مولانا عبدالرشید(خلیفہ مجاز مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ)، مولانا فضل الرحمن رحمانی(سابق استاذ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر)،مولانا عبد الاحد قاسمی (سابق صدر جمعیۃ علماء سہرسہ)،مولانا انعام الحق مفتاحی (سابق متولی مسجد مبارک پور)،مولانا حفظ الرحمن ندوی (استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)،مولانا محمد اشتیاق صاحب (رکن شوریٰ دار العلوم دیوبند)اور مولانا محمد انظر علی شمسی(صدر جمعیۃ علماء سہرسہ) وغیرہ بھی اسی مٹی سے اگنے والے لعل و جواہر ہیں ۔ اسی طرح مولانا محمد اقبال ،مولانا نثار احمد الحصیری ،مولانا محبوب الرحمن قاسمی ،مولانا سعود عالم قاسمی ، مولانا ضیاء اللہ قاسمی اور مفتی ڈاکٹر سعد مشتاق حصیری، مولانا مرغوب الرحمن قاسمی جیسے علماء کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔ ان کے علاوہ بھی قدیم و جدید علماء فضلا اور مدرسہ محمودیہ کے خوشہ چینوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔لیکن اس وقت نوجوانوں میں مفتی سیف الرحمن ندوی اور ڈاکٹر مفتی شمشاد عالم قاسمی اس معنیٰ کر بھی نمایاں ہیں کہ قلم سے دونوں کی گہری وابستگی ہے اور دونوں عربی زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے بھی اسکالر ہیں ۔ ان ہی دونوں کے پیچھے پیچھے یہ فقیر بھی ہے کہ ندوی صاحب تو میرے عزیز جونئیر ٹھہرے لیکن شمشاد عرف بابر صاحب میرے لنگوٹیے یار رہے ہیں ، بیچ میں ذرا وقفہ ضرور رہا ، وہ جامعہ رحمانی مونگیر چلے گئے اور میں جامعہ عربیہ خادم الاسلام ہاپوڑ ۔اس کے علاوہ محمودیہ سے دیوبند اور دیوبند سے دہلی یعنی جامعہ اور جے این یو تک ہم دونوں ساتھ رہے کبھی وہ آگے اور میں پیچھے اور کبھی وہ پیچھے تو میں آگے ۔ آج الحمد للہ ہم دونوں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر ڈاکٹر بن چکے ہیں ، بس فرق یہ ہے کہ میں صرف دنیا کی زبان میں اور وہ دنیا و آخرت دونوں کی زبان میں ۔
(ایڈیٹرروزنامہ ممبئی اردونیوز)
ہندو مسلم تصادم کا واحد حل بات چیت ہے ،نہ کہ اختلاف۔
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کے سربراہ موہن بھاگوت کی بات اچھی لگی ! موہن بھاگوت پہلے بھی کئی بار ایسی باتیں کہہ چکے ہیں ،لیکن اس بار انہوں نے کچھ زیادہ ہی تفصیل سے ہندو مسلم تصادم اور اختلاف پر بات کی ہے ،اور بات یوںکی ہےجیسے کہ ، وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان سامنے آئیں، تاکہ جو بھی اختلافات ہیں، ان کے حل بات چیت کے ذریعے نکالے جائیں ۔ کیا یہ ایک اچھی پیشکش نہیں ہے ؟ یہ سوال مسلم قیادت سے ہے ۔مسلم قیادت کو اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے ،بھلے ہی سوچنے سمجھنے میں کچھ وقت لگ جائے ، کوئی بھی ہندوستانی مسلمان یہ نہیں چاہے گا کہ موہن بھاگوت کی بات چیت کی یہ پیشکش ،اگر یہ بات چیت کی پیشکش ہے تو، آنکھ بند کر کے قبول کر لی جائے ،کیونکہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کا ،باالفاظ دیگر سارے سنگھ پریوار کا تجربہ ،مسلمانوں کے لیے کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہے ۔مسلمان آج جہاں پر کھڑا ہوا ہے وہاں سے جب پیچھے گھوم کر ،ماضی بعید و ماضی قریب پر نظر ڈالتا ہے ، تو اسے آگ کی وہ لپٹیں اور وہ خون کے بہتے ہوئے دریا دکھائی دیتے ہیں ،جو ترقی کی سمت بڑھنے کی ،اس کی راہ کی سب سے بڑی روکاؤٹ بنے ہیں ،اور ان میں سنگھ کا ہاتھ بہت نمایاں نظر آتا ہے۔سب ہی اس بات سے خوب واقف ہیں کہ ملک کی تقسیم کا سارا الزام بھلے ہی پاکستانیوں کے قائدِ اعظم محمد علی جناح کے سر ڈال دیا جائے ،اس کے قصوروار ملک کے سیکولر اور غیر سیکولرسیاست داں بھی رہے ہیں ۔وہ سیکولرسیاست داں جن کی نظریاتی وابستگی سنگھ سے ابتدا سے تھی ،اور جو آج بھی سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیوں میںموجود ہیں ،نہ صرف موجود بلکہ اُن پر اپنی پکڑ اور گرفت بنائے ہوئے ہیں۔ سنگھ کے اشارےپر انہوں نے ملک کے جمہوری سیکولر کردار اور ڈھانچے کو اندر ہی اندر مسخ کرنے کا کام پہلے بھی بڑی ہی مہارت سے کیا ، اور آج بھی جب یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ملک کے سیکولر و جمہوری ڈھانچے کو قوت بخشنے کے لیے ،بغیر ڈرے پوری محنت اور ایمانداری کے ساتھ مہم چلائی جائے ،یہ عناصر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ کیا کانگریس یونہی زوال کی طرف بڑھ رہی ہے ؟ کیا سماج وادی پارٹی، جو لوہیا کے سوشلزم کا بھونپو بجاتی چلی آرہی تھی خودبخود اپنے نظریات اور اپنی راہ سے ہٹ گئی ہے؟ اعظم خان ،مختارانصاری ،عتیق احمد وغیرہ کے ساتھ جو ہو رہا ہے کیا سماج وادی پارٹی کا اُس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے؟ کیا لالو پرساد یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل نے، شہاب الدین مرحوم کے ساتھ جو کچھ ہوا ،اسے دیکھ کر اپنی زبان پر بغیر اپنے کسی مفاد کے ، تالے ڈالے رکھے تھے؟ بھلا مایاوتی کو اپنے مسلمان ووٹروں کی یاد اب کم کم کیوں آنے لگی ہے؟ یو پی میں وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو کیوں اب سیکولر سیاسی پارٹیوں کے احتجاج کا کوئی ڈر نہیں رہ گیا ہے؟اگر ان سوالوں پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے مسلم قیادت اور مسلم رائے دہندگان کو اس ملک میں حاشیے پر لگانے کی مشترکہ کوششیں کی گئی ہیں ،اور کیسے اس کوشش میں ایک حد تک اُنہیں ،جو اس کوشش کو ناکام نہیں دیکھنا چاہتے تھے، کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کیا یہ سب سنگھ پریوار کی مرضی اور منشاء کے بغیر ہوا ہے ؟ نہیں، اس کے پسِ پشت بھگوائیوں کا ہاتھ بہت واضح ہے۔ ہوایہ ہے کہ آر ایس ایس نے ، کیا سیکولر اور کیا غیر سیکولر ، ہر سیاسی پارٹی سے اپنی مرضی کے کام لیے ، ہاں یہ بہت ممکن ہے کہ سیکولر سیاسی پارٹیوں کے کچھ اربابِ حل و عقد کو اندازہ ہی نہ رہا ہو کہ وہ استعمال کیے جا رہے ہیں ۔
جس طرح اس ملک میں جمہوری قدروں کے خاتمے اور سیکولزم کو مٹانے کے لیے سازشیں گڑھی گئی ہیں اسی طرح مسلم اقلیت کو ، جسے اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کہا جاتا ہے ، برباد اور تباہ کرنے کے لیے بھی سازشیں بُنی گئیں ،ہر سیاسی پارٹی کو استعمال کیا گیا ،فسادات کرائے گیے ، دہشت گردانہ حملے کرائے گیے ،سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کیا گیا ، لُٹے پٹے بھی مسلمان ، حراست میں لیے گیےبھی مسلمان ، سزاجنہیں دی گئی وہ بھی مسلمان ۔ آبادی کا تناسب کوئی ۱۴ فیصد اور جیلوں میں جو مسلمان ٹھونسے گیے وہ آبادی کے تناسب سے کئی گنا زیادہ ۔ گویا کہ تباہ وبرباد کرنے کا وہ کون سا ہتھیار نہیں تھا یا نہیں ہے جس کا گزرے ہوئے کل یا آج مسلمانوں کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا یا نہیں کیا جا رہا ہے۔ پوٹا اور ٹاڈا سے لے کر یو اے پی اے تک کے غیر انسانی قوانین کے تحت جو پکڑے گیے اور جنہیں سزا دی گئی ،بشمول سزائے موت ،ان میں کس کی تعداد زیادہ ہے ،دیکھ لیں ۔ ناانصافی اور مصائب کا جو سیلِ رواں تھا اور ہے ،اُس کے پسِ پشت بھی سنگھ ٹولے کا ہاتھ بہت نمایاں ہے ۔ جب سے مرکز میں نریندر مودی کی سرکار بنی ہے ،اور ملک کی اکژ ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں کام کرنے لگی ہیں ،ہندوستانی مسلمانوں کے لیے حالات انتہائی دشوار بنا دیے گیے ہیں ۔ فسادات تو کم ہوئےہیں، سوائے دہلی کے کوئی اور بڑا فساد نہیں ہوا ہے ،لیکن ایسے ایسے قانون بنا دیے گیے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے روزی روٹی سے لے کر زندگی کے دیگر معاملات تک میں سرگرم ہونا، مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے ۔ گئوذبیحہ کو ہی لے لیں ، اس نام پر ہر طرح کے ذبیحے پر سختی ،اور ایسی سختی کر دی گئی ہے کہ اس روزگار سے لگے ہوئے لوگوں کے لیے زندگی گزارنا تقریباًناممکن سا ہو گیا ہے۔اس پر گئو رکھشا کے نام پر کی جانے والی ماب لنچنگ مرے پر سو دُرّےکے مصداق ہے ،اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس کے خلاف ،سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود ، کوئی قانون نہ بنایا گیا ہے اور نہ ہی بنائے جانے کی امید ہے ،رہی اپوزیشن پارٹیاں تو انہیں جیسے کہ ماب لنچنگ کوئی مسٔلہ ہی نہیں لگ رہا ہے!مودی دور کے آغاز میں یعنی ۲۰۱۴ء سے جو ماب لنچگ کی شروعات ہوئی ہے اس پر آج تک قابو نہیں پایا جاسکا پے ۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ قابو پانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی ہے۔ ماب لنچنگ کے ساتھ شہریت کے نئے قانون کے ذریعے مسلمانوں کو ، جو پہلے ہی اس ملک میں حاشیے پر تھا ، نہ سرکاری ملا زمت اور نہ ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ ،وہ مزید حاشیے پر پہنچا دیا گیاہے ۔ شہریت قانون کی مخالفت ہوئی اور جم کر ہوئی مگر مخالفت کرنا بھی اس ملک میں ، مسلمانوں کے لیے ایک جرم ٹھہرا ہے لہٰذااس کی املاک قرق کی گئیں اور اسے جیلوں میں ٹھونسا گیا ،بالخصوص یوگی کے راج میں ۔ افسوس یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آئی ہے ،اسے تقریباً سب نے بیچ منجدھار میں چھوڑ دیاہے ۔ کئی سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیاں شہریت معاملے میں بی جے پی کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہیں ۔دہلی فسادات میں عام آدمی پارٹی کے کیجریوال فسادیوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکے ہیں ،بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے لیے دیئے گئے گگوئی کے فیصلےکی کانگریس جیسی قدیم ترین سیاسی پارٹی گُنگان کرتی رہی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کسی نہ کسی موقعے سے سنگھ پریوار کے خیمے میں کھڑی نظر آئی ہے ،لہٰذا کیوں نہ مسلم قیادت بھی ایک بار بات چیت کر کے دیکھ لے۔ ممکن ہے کہ کوئی راہ نکل ہی آئے۔ مجھے اس موقعے پر آر ایس ایس کے سربراہ سدرشن یاد آرہے ہیں کہ ان کی جب مسلمانوں سےبا ہوئی تھی تو بہتر نتائج سامنے آئے تھے ،وہ خود مسلمانوں کے لیے نرم پڑے تھے بلکہ ان کے ساتھ مل جل کر کام کرنے اور ملک کو ایک بہتر راستے پر لے کر چلنے کے لیے راضی بھی ہوگئے تھے ۔
بھاگوت نے جو کہا اس پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ پتہ چل سکے وہ کیا چاہتے ہیں۔ بھاگوت نے کہا:’’تمام ہندوستانیوں کا ڈی این اے ایک ہے اور مسلمانوں کو ڈر کے اس چکر میں نہیں پھنسنا چاہیے کہ ہندوستان میں اسلام خطرے میں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا :’’جو لوگ مسلمانوں سے ملک چھوڑنے کو کہتے ہیں وہ خود کو ہندو نہیں کہہ سکتے ، ایساشخض ہندو نہیں ہےاور جو لوگ لنچنگ کرتے ہیں وہ ہندوتوا کے خلاف ہیں ، قانون کو غیر جانبداری سے اپنا کام کرنا چاہیے۔‘‘ مزید کہا: ’’ایکتا کی بنیاد نیشنل ازم اور اجداد کا فخر ہونا چاہیے ،ہندو مسلم تصادم کا واحد حل بات چیت ہے۔‘‘مجھے حال ہی میں موہن بھاگوت کی ایک کتاب ’’ مستقبل کا بھارت‘‘دیکھنے کا اتفاق ہوا ، اس میں مذکورہ موضوعات پر ان کی کہی باتیں کچھ تفصیل سے شامل ہیں ،مثلاًایک جگہ وہ لکھتے ہیں :’’جو گائے کے تحفظ کی بات کرتے ہیں، وہ لنچنگ کرنے والے نہیں ہیں،وہ معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں ،وہ اعلیٰ اخلاق کے لوگ ہیں۔‘‘ایک جگہ لکھتے ہیں:’’پرانی روایات ، قومیت ،مادرِ وطن اور اپنے اسلاف کے اعتبار سے ہم سب ہندو ہیں۔یہ ہمارا کہنا ہے اور یہ ہم کہتے رہیں گے۔‘‘بھاگوت کی یہ اور جو باتیں اوپر کہی گئی ہیں ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ، بلکہ اختلاف کیا جانا چاہیے ،کیونکہ اس ملک کے مسلما ن خود کو ہندو نہیں کہلا سکتے ،اس لیے کہ ہندو اور اسلام دو الگ الگ مذاہب ہیں ،دونوں میں بڑا فرق ہے ،اب اگر کوئی مسلمان بھاگوت کی بات مان کر خود کو ہندو کہنے لگے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اب وہ مسلمان نہیں ہے ،لہٰذا یہسوال اٹھے گا کہ کہیں بھاگوت کی منشا سارے مسلمانو ں کوہندو بنانا تو نہیں ہے؟ اسی طرح یہ تو درست ہے کہ تمام ہندوستانی قوم کا ڈی این اے ایک ہے لیکن وہ جو یہ کہتےہیں کہ مسلمان عرب سے آئے ہیں انہیں بھاگوت کیا جواب دیں گے؟ بھاگوت تک یہ بات پہنچانا چاہیے کہ بھارت میں اسلام کو قطعی خطرہ نہیں ہے ،یہ تو سنگھ ہی کے لوگ ہیں جو ’ہندو خطرے میں ہیں ، ہندو دھرم خطرے میں ہے ‘ کے نعرے لگاتے ہیں ۔ لنچنگ کا جہاں تک معاملہ ہے تو یہ کرنے والےاکثر لوگ سنگھ اور بی جے پی سے جڑے ہوئے لوگ ہیں ،کیا بھاگوت ان سے یہ کہہ سکیں گے کہ اب آپ لوگ ہندو نہیں رہے ؟ بہت سارے سوال ہیں جو بھاگوت سے پوچھے جا سکتے ہیں اور پوچھے جانے ضروری بھی ہیں ،لیکن اس کے لیے یہ بھی ْضروری ہے کہ جب سوال رکھے جائیں تو جواب ملے ،اور جواب پانے کے لیے آمنے سامنےکا بیٹھنا ضروری ہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ مسلم قیادت بھاگوت کی باتیں مانے ہی ، مگر نہ ماننے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ جو بھی باتیں ہیں وہ سامنے آئیں ۔اور اس سے بہتر موقع شائد بات چیت کا پھر نہیں ملے گا ۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے ایک پہل کی ہے اس پہل کا جواب مسلم قیادت کو ،جس میں مذہبی قیادت بھی شامل ہے، دینا ہی چاہیے ۔ اختلاف بہت ہوچکا۔ بات چیت کرنے سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ بھاگوت اپنی بات میں کتنے سنجیدہ ہیں ،کیا وہ واقعی مسٔلے کا حل چاہتے ہیں یا ملک کو ’ہندو راشٹر ‘ میں بدلنے کے لیے مسلمانوں کو کوئی فریب دے رہے ہیں ۔ اب بھاگوت نے مسلمانوں کے پالے میں گیند پھینک دی ہے ،اس گیند کا کیا کرنا ہے ،اس پر غور کرنا اب مسلم قیادت کی ذمہ داری ہے۔
آپ مالک اشتر کو جانتے ہیں؟ ارے وہی جو "جنوں میں کیا کیا کچھ” کے نام پر اچّھے اچّھے خرد مندوں کے ہوش اڑا گئے۔
ارے ہاں میاں! ہم سچ بول رہے ہیں پچھلے برس اُن کی وہ ایک کتاب آئی تھی نا "مسلمان: حالات وجوہات اور سوالات” اُس نے کئی بڑے بڑے لوگوں کے کان کھڑے کردیے تھے۔
اچّھا! اب جب محترم کی جنوں پاشی نے دیکھا کہ میرے دوست کے سوالات نے اتنا ہنگامہ پربا کر رکھا ہے تو بے ساختہ خرد کو آواز لگائی:
دشت میں قیس اکیلا ہے مُجھے جانے دو
صدا اتنی بلند و مستانہ انداز میں لگائی گئی تھی کہ جیسے ہی محترمہ خرد کے کانوں میں یہ صدائے مستانہ پڑی وہ کچھ گھبرا کر گویا ہوئی کہ اس جنوں کی وجہ سے پہلے ہی بہت بدنامی جھیل چکی ہوں اب اس کمبخت کو دشت میں دفع کر ہی دیتی ہوں کیا خبر کل کو دشت کا حکیم مطلق بن جائے تو کم سے کم احسان شناسی کے پیشِ نظر ہی سہی، پر اتنا تو کہے گا:
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
تو صاحب خرد سے اجازت ملتے ہی جنوں نے وہ حشر پربا کیا کہ لوگوں کو اُس کی ایک ایک بات سن/پڑھ کر ایسا لگنے لگا کہ یہ جنوں تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے اور اُدھر جنوں نے بھی اپنی قیامت خیز کارکردگی کا مظاہرہ کر کے جب خرد کے ہوش ٹھکانے لگا دیے تو اپنی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا کہ محترمہ آپ اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ آپ نے ہمیں راہیِ دشت کرکے ہم پر کوئی احسان کیا ہے بلکہ:
نکھرنا عقل و خرد کا اگر ضروری ہے
جنوں کی راہبری میں سفر ضروری ہے
جیسے ہی جنوں اور خرد کے بیچ برپا اس جنگ اور اُس کی پاداش میں ہونے والی چے مے گوئیوں کی خبر ہم آشفتہ سروں تک پہنچی ہم نے ترنت محترم اشتر صاحب سے رابطہ کرکے اس جنگ کا عینی شاہد بننے کی خواہش ظاہر کی اور اگلے دس دنوں میں ہم "جنوں میں کیا کیا کچھ” سے "جنوں میں یہ سب کچھ؟” تک کا مرحلہ طے کرچکے تھے اور یقین جانیں محترم اشتر صاحب کی جنوں پاشی کا پیچھا کرتے کرتے ہم نے "جامعہ، دلّی اور یادوں کی پالکی” میں بیٹھ کر "اجنبی کیمپس” کی زیارت کی اُس کے بعد "قلم کا عتاب” دیکھا، "ایک بزرگ دو رویے” والے شخص سے متعارف ہوئے اور سب سے مزیدار بات یہ کہ جامعہ میں چچا غالب کے مجسمے کے آگے واقع کینٹین کے مالک سے اُس کے تپتے تندور کے سامنے تن بدن میں آگ لئے نوکر کی اپنے مالک سے انتقام کی داستان بھی سنی۔
یہ داستان سننے کے بعد اول وہلہ میں ہم بھی نان لینے جانے ہی والے تھے پھر خیال آیا کہ ابھی ذرا رکتے ہیں کیوںکہ ابھی تو پالکی سے اتر کر آگے بھی دیکھنا ہے اِس لئے ابھی کے لئے جنوں کی پیروی کرتے ہوئے بس چچا غالب کا یہ شعر گنگناتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں:
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
اوہ، خدایا! کمبخت اِس سے تو اچّھا تھا کہ پالکی میں ہی بیٹھا رہتا اور وہی سے بیٹھے بیٹھے کینٹین میں جماوڑا کرکے ہونے ولی "صحافتی محفلوں” میں شرکت کرکے "ماس کمونیکیشن ریسرچ سینٹر” اور "جامعہ کمیونیٹی سینٹر” گھوم آتا لیکن:
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
پالکی سے کیا اُترا کہ کورونا نے آن دبوچا ہے، کبھی تو یہ کمبخت انسانوں کو جُھک جُھک کر سلام کرتا ہے تو کبھی اِس کے خلاف ورزی کرنے کی صورت میں ہم خود ہی سے یہ سوال کررہے ہوتے ہیں کہ "کورونا وائرس: ہم اللہ کو کیوں آزمانا چاہتے ہیں؟”۔
واللہ! اشترمیاں! کیا غضب کے عنوان باندھے ہیں:
بیوی کی پٹائی کی مذہبی گائیڈ لائن
بندہ خدا بننا چاہتا ہے؟
مدارس میں تاحیات عہدہ کیوں ہوتا ہے؟
مذہبی قیادت سوال سے کیوں چڑتی ہے؟
عبادت گزار مشرق فحش مغرب سے کیا سیکھے؟
عزاداری کرکے کام پورا ہوگیا؟
ایسے وسپوٹک عنوانات رکھنے پر بھی محترم اشتر صاحب کا نشتر نما قلم بس نہیں کرتا بلکہ اُن کا ہر کالم سماج کے اُن پہلوؤں پر مسلسل خنجر آزمائی کرتا نظر آتا ہے جس کا محض خیال آنے سے ہی بہت سے اہلِ صفا حضرات کو نہ صرف یہ کے چکر آنے لگیں بلکہ اُن کے گمان کے تئیں وہ خود کو مردودانِ حرم کی فہرست میں شامل سمجھنے لگیں جس کا صدمہ اُن پر ایسی بے ہوشی طاری کردے کہ افاقہ کا ہوتے ہی سب سے پہلے آں حضرات علم و فضل، اپنے پند و نصائح کا مکمل دفتر کھول کر کالم نگار کو سمجھانے لگیں لیکن اس سیال قلمکار پر ناصحین کی نصیحتوں کی قید و بند کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ وہ اور شدت سے سماج کے بد نما داغوں کو "طوائفوں سے میری وہ ایک مُلاقات” کے عنوان کے تحت یہ کہہ کر مزید دکھانے لگتا ہے:
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا
روانی وسلاست کا عالم یہ ہے کہ جب تحریر پڑھتے پڑھتے اچانک اختمام پر پہونچو تو تشنگی ہونٹوں پر پتھر کی طرح کچھ اس طرح جم جاتی ہے کہ تحریر ختم ہونے کے باوجود "ھل من مزید؟” کا ورد زباں پر جاری ہو جاتا ہے اور ایسا تبھی ہوتا ہے جب آہ دل سے نکلتی ہے کیونکہ لفظوں کی بازیگری اپنی جگہ:
مگر یہ شرط ہے ہر لفظ روح سے نکلے
دعائے نیم شبی میں اثر ضروری ہے
اب کیا سب مجھ ہی سے جان لیں گے؟ بس اب آگے میں کچھ نہیں بتا رہا۔ آپ خود پڑھ کے جانیئے گا میں چلتا ہوں اور آپ کہاں جا رہے؟ میرے ساتھ آئیں اور ہم لوگ ساتھ مل کر:
آؤ ڈھونڈیں تو سہی اہلِ وفا کی بستی
کیا خبر پھر کوئی گم گشتہ ٹھکانہ نکلے
لہجے کی پختگی اور اثر آفرینی کا شاعر: غلام مرتضیٰ راہیؔ-پروفیسرصغیرافراہیم
سابق صدر شعبۂ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ،یوپی (انڈیا)
[email protected]
وہ غزل جو شاعری کے ہر دور میں اپنے موضوع اور اپنی ہیئت کے اعتبار سے سرتاج سخن رہی ہے، راہیؔ اُس کی نزاکت ونفاست اور نشیب وفراز سے واقف تھے ، اوراُس کو سنوارنے کے سولاسِنگارکا ہُنر جان گئے تھے۔ یہ اس لیے بھی کہ جس ماحول میں اُن کی پرورش اور نشوونما ہوئی، اُس میں شاعری کو اہمیت حاصل تھی۔ یوں بھی راہیؔ کے آبائی وطن فتح پور کے تعلق سے مشہور ہے کہ ہر صاحبِ حیثیت گھرانے میں کوئی ایک وکیل یا شاعر ضرور ہوتاہے۔ ایسے میں بھلا غلام مصطفی خاں غوری کا گھر کیسے محفوظ رہ سکتا تھا۔ گنگا جمنا کے دو آبے کی صفات کو سمیٹے ہوئے ضلع فتح پور ہمیشہ سے پُرسکون علاقہ رہا ہے۔ اِس کے ایک جانب معروف صنعتی اور ادبی شہر کانپور، دوسری طرف صوفیہ کا مرکز کوڑا جہان آباد، تیسری جانب سنتوں کا شہر باندہ جہاں غالبؔ نے شفاپائی اور چوتھی طرف تہذیبوں کا سنگم الٰہ آباد ہے۔ وسط میں عہدِ قدیم سے بسا ہوا شہر فتح پور اور اس کے قصبات وموضعات بھی اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ اِس خطہ کے بزرگانِ دین میں سید ظہور الاسلام، مولانا عارف ہسوی، ادیبوں میں نیاز فتح پوری، فرمان فتح پوری، ابو محمد ثاقبؔ، ابومحمدسحرؔ، مجاہد حسین حسینی، ضیاء حسنی، اشتیاق عارف اور شعراء میں حسرتؔ، ثاقبؔ، مظفر حنفی، ابوالخیر کشفی عالمی شہرت کے حامل ہیں۔
غلام مرتضیٰ راہیؔ نے فتح پور کے اُس انٹر کالج میں تعلیم حاصل کی، جہاں سے حسرتؔ موہانی نے ۱۸۹۸ء میں امتیازی حیثیت سے میٹرک پاس کیا تھا۔ انٹر کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے راہی ؔ کانپور گئے۔ کرائسٹ چرچ کالج میں پڑھتے تھے لیکن بیش تر وقت نوین مارکیٹ اور بیکن گنج میں گُزرتا۔ نوین مارکیٹ مزدور یونین کا مرکز تھا جہاں انقلابی شعرا ہر وقت موجود رہتے تھے۔ اور بیکن گنج میں اُن کا مرکز ومحور سید غلام رسول رسولنماؒ کی خانقاہ تھی، جس کے سجادہ نشین علامہ ثاقبؔ کانپوری تھے۔ اُن کی علم دوستی کی بدولت یہاں شہر کے معروف ادیبوں کی محفلیں سجتی تھیں۔ان محفلوں میں غلام مرتضیٰ راہی اپنا کلام سُناتے اور اصلاح لیتے۔ گریجویشن کے بعد راہیؔ روزنامہ سیاست کے د فتر میں (معاون مدیر) اور پھر روڈویز میں سرکاری ملازم ہوگئے۔ کانپور میں اُس وقت ’’سیاست‘‘ اور ’’پیغام‘‘ کی اخبار کی حیثیت سے اور ’’کاوش جدید‘‘ نیز ’’زبانِ ہند‘‘ کی رسائل کے اعتبار سے ادبی اور صحافتی حلقوں میں دھوم تھی۔ راہیؔ اکثر ان اخبار ورسائل میںشائع ہوتے رہتے تھے۔ انھوں نے نعتوں، مثنویوں اور نظموں کے ساتھ خود نوشت سوانح عمری بھی لکھی :
وقت کے ذہن میں شاید مرا خاکہ ہی نہیں
اک خلا ہوں کہ تعین مرا ہوتا ہی نہیں
لیکن صنف غزل کی زُلف کو سجانے اورسنوارنے کے ہُنر نے اُن کا یہ مرحلہ جلد ہی طے کردیا۔
غلام مرتضیٰ راہیؔ اکثر علی گڑھ آتے رہتے تھے۔ انھیں یہاں کا ادبی اور ثقافتی ماحول بہت پسند تھا۔ ۱۹۷۲ء میں جب ان کا روڈویز کے اکاؤنٹس کے شعبہ میں یہاں تبادلہ ہوا تو وہ بے حد خوش تھے ۔ موصوف سرائے رحمن میں تقریباً اٹھارہ برس مقیم رہے۔ اُن کا دفتر پہاسو ہاؤس میں تھا۔ شمشاد مارکیٹ میں وہ ایجوکیشنل بک ہاؤس یا پھر مکتبہ جامعہ میں تشریف لاتے، جہاں ادیبوں کے جم گھٹوں میں ادبی بحث ومباحثہ کا سلسلہ رہتا تھا۔ آشفتہ چنگیزی، ابوالکلام قاسمی ، فرحت احساس، عبید صدیقی اور انجم نعیم کی آواز میں سب کی آوازیں دب جاتیں۔ یہاںسے راہیؔ صاحب امین اشرف یا پھر منظور ہاشمی کے گھر جاتے تھے۔ اکثر و ہ اسعدؔبدایونی کے ساتھ آفتاب ہوسٹل بھی آتے تھے۔ میں اُس زمانہ میں آفتاب ہاسٹل کی بالائی منزل پر ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے رہتا تھا۔ اسعدؔ بدایونی کا کمرہ ہوسٹل کے زیریں حصہ میں تھا۔ میری سینئرٹی کا لحاظ کرتے تھے اور مجھے چائے پر نیچے بلالیتے تھے۔ سبطین اخگر، نوری شاہ یا پھر رئیس الدین رئیسؔ بھی موجود ہوتے اور پھر ہم سب بڑے احترام کے ساتھ راہیؔ صاحب کاکلام سُنتے تھے۔ ریٹائرمنٹ (۳۱؍مارچ ۱۹۹۵ء) کے بعد جب تک چلنے کی سکت رہی، وہ علی گڑھ تشریف لاتے رہے۔غلام مرتضیٰ راہیؔکا چھ دہائیوں پر مشتمل شعری سفر مسلسل ترقی پذیر رہا۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’لامکاں‘‘ ۱۹۷۱ء میں منظر عام پر آیا۔ اس میں ۸۸؍ غزلیں شامل ہیں۔ نُصرت پبلشرز، لکھنؤ نے اسے اہتمام سے شائع کیا تھا۔ ادبی حلقوںمیں اسے بہت پسند کیا گیا اور مسلسل تبصرے ہوتے رہے۔ دوسرے مجموعہ ’’لاریب‘‘ میں ۷۰؍غزلیں ہیں۔ ۱۹۷۳ء میں یہ دلنواز پبلی کیشنز، بمبئی سے شائع ہواہے۔ تیسرا ’’حرفِ مکرر‘‘ دونوں مجموعوں کا مشترکہ جدید ایڈیشن، ۱۹۹۷ء میں منظر عام پر آیا۔ اِس کی ترتیب وتنظیم اور اشاعت میں راہیؔ خود شامل تھے۔ ’’حرفِ مکرر‘‘کا انتساب انھوں نے علی گڑھ کے دوستوں کے نام کیا ہے۔ چوتھا ’’لاکلام‘‘ ۲۰۰۰ء میں ’’شب خُون‘‘ کتاب گھر، الٰہ آباد سے شائع ہوا۔ اِس کا انتخاب شہریار نے ،اور ترتیب عقیل شاداب نے قائم کی تھی۔ ’’لاکلام‘‘ کے پیش لفظ میں شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے:
’’جدیدیت کا سورج چمکا تو جہاں بہت سی نئی باتیں ظہور میں آئیں، ایک بات یہ بھی ہوئی کہ بہت نو عمر شعراء جنھیں اندھیرے ماحول میں اپنی راہ نہیں مل رہی تھی یا جن کی صلاحیتوں پر نئی دریافت کی کرن نہیں پڑی تھی، انھوں نے یا تو اپنی راہ نکال لی یا ان کی صلاحیتوں کو روزِ روشن میں آنے کا موقع ملا۔ غلام مرتضیٰ راہیؔ موخر الذکر گروہ کے، قابلِ قدر اور قوت مند نمائندے کی حیثیت سے اربابِ نظر کے سامنے آئے اور بہت جلد سب کو معلوم ہوگیا کہ نئی اردو غزل کو ایک سنجیدہ، محنت کوش اور دور رس شاعر مل گیا ہے۔ ان کا کلام روز بہ روز روشن سے روشن تر ہوتا گیا۔ ’’لامکاں‘‘ اور ’’لاریب‘‘ دو مجموعے تھوڑے تھوڑے وقفے سے ۱۹۷۱ء اور ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئے۔ غلام مرتضیٰ راہیؔ نے ان مجموعوں میں غزل کی متانت کو نئی لفظیات کی تلاش کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی بڑی خوش آئند کوشش کی تھی۔ مجموعی طور پر ان کے یہاں متفکر ذہن اور متجسّس روح کی کارفرمائی نظر آتی تھی اور ان کے لہجے کی پختگی اُنھیں جدید غزل کے کسی ایسے ٹھکانے کی طرف لے جانے کا وعدہ کرتی تھی جہاں روایتی ’’روایت پسندی‘‘ اور ’’روایتی جدیدیت‘‘ دونوں کا ہی گزر نہ تھا‘‘۔
اِس بابت فاروقی صاحب مزید فرماتے ہیں:
’’راہیؔ کی نئی غزلوں میں آہنگ کا تنوّع گزشتہ مجموعوں سے زیادہ ہے۔ ان کے یہاں آہنگ میں وہ نرم رَوی تو کبھی نہ تھی جسے لوگ غزل کے لیے ضروری جانتے ہیں، لیکن پچھلی غزلوں کے آہنگ میں جو تنوع تھا وہ غیر یقینی کی منزل سے آگے نہ جاتا تھا۔ گویا شاعر خود یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہو کہ کس لہجے میں شعر کہنا ہے۔ اب جو تنوع ہے اس میں کھردُرے پن اور بے یقینی کی جگہ نئے لہجے دریافت کرنے اور اُنھیں کامیابی سے نبھالے جانے کا اعتماد بھی ہے۔
ایسی عمر میں جب اکثر شاعر تھک کر بیٹھ چکے ہوتے ہیں، غلام مرتضیٰ راہیؔ نئے مرحلے تسخیر کررہے ہیں‘‘۔
پروفیسر شمیم حنفی ’’لاکلام‘‘ کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
’’غلام مرتضیٰ راہیؔ صاحب اور ان کی شاعری سے میرا تعارف تقریباً تیس برس پُرانا ہے۔ اُن دنوں بہ سلسلۂ معاش ان کا قیام بھی علی گڑھ میں تھا اور وہ اکثر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ خلیل الرحمن اعظمی، وحید اختر، شہریار کی موجودگی نے اس زمانے میں یونیورسٹی کے ادبی ماحول کو خاصا پُرکشش بنارکھا تھا۔ راہیؔ صاحب بھی نشستوں اور مشاعروں میں حصّہ لیتے تھے اور شعر سناتے تھے۔
ان کی چند غزلیں سننے کے بعد ہی یہ احساس ہونے لگا تھا کہ نئے شاعروں کی بھیڑ میں اُنھیں آسانی سے پہچانا جاسکتا ہے۔ ان کی شاعری پر روایت کا غلبہ تھا، پُرانے مضامین کو اختیار کرنے سے وہ گھبراتے نہیں تھے۔ قافیہ پیمائی اور قدرتِ کلام کا اظہار بھی وہ کرتے تھے، لیکن اِسی کے ساتھ ساتھ ایک شخصی رنگ ان کے شعروں کو ہجوم میں گم ہونے سے بچائے رکھتا تھا۔ وہ ایسے تجربے بھی نظم کرتے تھے جن کا تعلق نئے طرزِ احساس اور شاعری کے نئے محاورے سے تھا۔ مجھے ان کی شعروں میں جو بات اچھی لگی یہ تھی کہ تخلیقی واردات کے کامراں لمحوں میں ان کا شعور رچا ہوا، ان کی حسیّت اپنے عہد سے مشروط، ان کا لہجہ منفر اور ان کی زبان تربیت یافتہ دکھائی دیتی تھی۔ ایک خاص قسم کی چابک دستی بیان میں اور شاعرانہ وفور ان کے ادراک میں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ خوبیاں راہیؔ صاحب کے تمام ہم عصروں کے یہاں نہیں ملتیں۔ فکر کی تازگی کو قائم رکھنا اور اسی کے ساتھ اپنی روایت سے رشتوں کو محفوظ بھی رکھنا مشکل کام ہے۔
راہیؔ صاحب کے بہت سے اشعار کا تیور غزل کے عام مزاج سے مختلف ہے، وہ ناہموار زمینوں اور بیان کی نامانوس علاقوں میں قدم رکھنے سے گھبراتے نہیں۔ غیر شاعرانہ تجربوں اور اسالیب کو بھی آزمانا چاہتے تھے۔ نئے لفظوں کا استعمال بھی کرتے ہیں تاکہ اپنے شعر کے رسمی حدود میں وسعت پید ا کرسکیں‘‘۔
غلام مرتضیٰ راہیؔ کا پانچواں شعری مجموعہ ’’لاشعور‘‘ کے نام سے ۲۰۰۶ء میں اور چھٹا مجموعہ ’’لاسُخن‘‘ ’’کلیاتِ راہیؔ کے ساتھ ۲۰۱۲ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ ان کے اس شعری اثاثہ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف کی شاعری مخصوص لب ولہجہ کی شاعری ہے۔ ان کے کلام میں گہری معنویت کے ابعاد اُبھرتے ہیں اور یہ ابعاد قاری کے دل ودماغ پر چھاجاتے ہیںاور گھر کرلیتے ہیں۔
لہجے کی پختگی، طبیعت کی روانی، فکر کی رنگارنگی اور احساس کی شدّت راہیؔ کی شاعری کے نمایاں اوصاف ہیں۔ اُن کے کلام میں آئینہ، چراغ، سایہ ، دیوار، دریا، ، کشتی، پتھر ، سمندر، چاند، چاندنی، آنسو وغیرہ کلیدی لفظ بن کر اُبھرے ہیں۔ یہ کلیدی الفاظ مختلف زاویوں سے شعری پیراہن میں اس انداز سے ڈھلتے ہیں کہ شعری حُسن میں مزید نکھار آجاتا ہے اور اس کی معنوی خوبی بھی دوچند ہوجاتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
میری صفات کا جب اُس نے اعتراف کیا
بجائے چہرے کے ، آئینہ میں نے صاف کیا
علم وہُنر کی روشنی پھیلتی ہے اِسی طرح
جلتے ہیں اِک چراغ سے جیسے ہزارہا چراغ
کتنا ہی رنگ ونسل میں رکھتے ہوں اختلاف
پھر بھی کھڑے ہوئے ہیں شجر اک قطار میں
پھینکنے والوں نے پہچان نہ جانی ان کی
جُڑ گئے ہیں مری دیوار میں پتھر کیا کیا
چُھپا تھا ہیرا کوئی راستے کے پتھر میں
ہماری ٹھوکروں نے اس کا انکشاف کیا
ہر شام کناروں کو لگا رہتا ہے دھڑکا
مچھوارا سمندر میں نظر آئے نہ آئے
چھوٹی بحر میں بڑی بات کو اس طرح تحلیل کرنے کے لیے انھوں نے استعاروں کا سہارا ضرور لیا ہے مگر اس انداز میں کہ سادگی اور روانی برقرار رہے۔ تبھی تو کہا گیا ہے کہ سہلِ ممتنع میں وسعتِ معنی کا فن راہیؔ کے یہاں نکھرے ہوئے انداز میں درآیا ہے :
میں ترے واسطے آئینہ تھا
اپنی صورت کو ترس، اب کیا ہے
کسی نے بھیج کر کاغذ کی کشتی
بُلایا ہے سمندر پار مجھ کو
اتنے فریب کھائے ہیں میں نے کہ اب مجھے
دریا کہیں ملا تو لگے گا سراب سا
سایہ مرے درخت کا اتنا گھنا ہوا
سورج کے واسطے ہے معمّہ بنا ہوا
انسانی جذبات واحساسات کو متشکل کرنے کے فطری عمل کو راہیؔ نے تشبیہ، استعارے اور علامت کے طور پر استعمال کرکے زندگی اور کائنات کے مظاہر کو منعکس کیا ہے۔ اندازِ تخاطب دیکھیے :
سبزے کی طرح میں نے بھی خود کو جھکالیا
اب آندھیوں کو سر سے گزرجانا چاہیے
زبان میں سادگی، نرمی، روانی اور اثر آفرینی ملاحظہ ہو:
مجھ کو تیری فکر جہاں تک سفر رہے
تجھ کو مرا خیال جہاں تک غبار ہو
عین طوفان میں مقبول ہوئی میری دُعا
ہر تھپیڑا مری کشتی کا مددگار ہوا
صنائع وبدائع کی بازیگری سے بچتے ہوئے راہیؔ نے محاورہ بندی اور قوافی کو پُرلطف انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ان کے یہاں تشبیہات واستعارات کا استعمال نہایت فنکارانہ انداز میں ہوا ہے۔ اِنہی شعری اسالیب کی بنا پر ہم عصر شعراء میں راہیؔ کی ایک الگ پہچان ہے:
اپنی قسمت کا بلندی پہ ستارہ دیکھوں
ظلمتِ شب میں یہی ایک نظارہ دیکھو
بہار میں اردو کے تعلق سے لوگ بیدار ہو رہے ہیں ـ یہ نیک فال ہے، امیر شریعت کے وصال کے بعد امارت شرعیہ کی تحریک ماند پڑتی نظر آ رہی تھی لیکن اب امارت بھی پھر سے فعال ہو گئی ہے، دوسرے افراد اور اداروں کی طرف سے بھی نشستیں ہو رہی ہیں، اردو کے مسائل پر سنجیدہ گفتگو بھی ہو رہی ہےـ روزانہ اخبارات میں فروغ اردو کے تعلق سے بیانات بھی آ رہے ہیں، اردو کے لیے اہل اردو کی یہ فکرمندی اطمینان بخش ہے،تاہم کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ گفتگو محض "نشستند و گفتند و برخاستند” تک سمٹ کر نہ رہ جائےـ بہار میں اردو کے حوالے سے جتنی بھی کوششیں ہو رہی ہیں ان کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ ان میں اساتذہ اور نوجوانوں کی شمولیت نہ کے برابر ہےـ جو لوگ اردو کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں وہ تکنیکی سطح پر جانتے ہی نہیں ہیں کہ پیچ ہے کہاں، نیز اردو والوں کا آپس میں اشتراک نہ ہونا بھی مسائل کے حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہےـ
سال 2018ء میں جب این آئی او ایس نے بطور ذریعہ تعلیم اردو کو اپنے نصاب سے ہٹا دیا تھا تو اس وقت نہ صرف بہار بلکہ پورے ہندوستان کے محبان اردو میں زبردست بے چینی تھی، این آئی او ایس کے ذمہ داران سے گفتگو کے ذریعہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نتیجہ صفر رہاـ نوجوانوں کی ایک ٹیم دانشوران اردو اور اردو اداروں کے ذمہ داران سے مل کر انہیں اس اہم مسئلہ کے حل کے لیے آگے لانے کی کوشش کرتی رہی لیکن سوائے امتیاز احمد کریمی (سابق ڈائریکٹر اردو ڈائریکٹوریٹ، پٹنہ) کے کسی نے کوئی مثبت پیش قدمی نہیں کی، یقیناً سرکاری اداروں کے ذمے داران کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن امتیاز احمد کریمی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ڈائرکٹر این آئی او ایس کو خط لکھ کر اردو کو بطور ذریعہ تعلیم دوبارا نصاب میں داخل کرنے کی گزارش کی، بعد میں اردو ٹیچر ایسو سی ایشن نے پٹنہ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا، وکیل کی فیس کا مسئلہ کھڑا ہوا تو اس وقت بھی اردو کے لیے بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگ بیک فٹ پر نظر آئے، بہرحال چند نوجوانوں کا جنون سرخرو ہوا اور فیصلہ اردو کے حق میں آیا، این آئی او ایس کے ذریعے ٹریننگ حاصل کرنے والے لاکھوں اساتذہ نے چین کا سانس لیا، لیکن افسوس کہ اتنی بڑی کامیابی کے بعد اردو والوں نے نہ تو اردو ٹیچر ایسو سی ایشن کے فعال نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے دو لفظ خرچ کیے، نہ ہی اتنی بڑی اور اہم خبر کو کوئی اہمیت ہی دی گئی،
ابھی اس وقت بہار کے اسکولوں سے اردو کو بطور لازمی مضمون ختم کرنے کا مسئلہ سرخیوں میں ہے، بہار اردو ٹیچر ایسو سی ایشن نے ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، خوشی کی بات یہ ہے کہ پٹنہ ہائی کورٹ نے تین ماہ کا وقت دے کر حکومت کو اردو کے تعلق سے اپنا مؤقف واضح کرنے کے لیے کہا ہے،
بہار اردو ٹیچرس ایسو سی ایشن کے سکریٹری محمد شفیق اور ایسوسی ایشن کے اراکین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنی ملازمت داؤ پر لگا کر اردو کے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں، ایسے میں کیا ہماری یہ زمہ داری نہیں ہے کہ انہیں کم از کم اخلاقی تعاون ہی پیش کریں؟
بی جے پی اقتدار کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ فسطائی ٹولہ جس چیز پر بھی اعتراض درج کراتا ہے، اس کے خلاف پولیس اور انتظامیہ فوراً سرگرم ہوجاتے ہیں۔ خواہ یہ اعتراض آئین وقانون کے سراسر خلاف ہی کیوں نہ ہو۔اس کا ایک ثبوت حال ہی میں بی جے پی کے اقتدار والی ریاست اتراکھنڈ میں دیکھنے کوملا ہے، جہاں ایک بورڈنگ اسکول کو ’حلال گوشت‘ کی سپلائی کے لیے ٹینڈر جاری کرنا اتنا مہنگا پڑا ہے کہ اس کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج ہوگیا ہے۔یہ کارروائی بجرنگ دل کی شکایت پر عمل میں آئی ہے ۔ حالات کا دباؤ اتنا شدید ہے کہ پوری طرح قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کے باوجود اسکول انتظامیہ دفاعی پوزیشن میں ہے اور اسے معافی تلافی کرنی پڑرہی ہے۔
سبھی کو معلوم ہے کہ ملک کا دستور اور قانون ہر شہری کو اپنی پسند کی زندگی گزارنے اور کھانے پینے کی اشیاء کا انتخاب کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ یہی معاملہ مذہب اور عقیدے کا بھی ہے، لیکن ان دنوں ملک میں فرقہ واریت کی جوخطرناک لہریں چل رہی ہیں ، ان میں نہ تو مذہبی آزادی باقی رہ گئی ہے اور نہ ہی لوگوں کو اپنی پسند کے کھانے چننے کا اختیارہے۔آج فرد کی آزادی کوجو خطرہ لاحق ہے ، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ایسی تمام آزادیوں پر پہرے بٹھائے جارہے ہیں جن کی ضمانت ملک کے سیکولر جمہوری آئین نے ہرشہری کو فراہم کی ہے اور جس کے طفیل ہندوستانی عوام امن وچین کی زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں۔لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ختم ہونے والا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس ملک کے تمام باشندے کچھ فسطائی عناصر کی شرانگیزیوں کے اسیر ہوکر رہ جائیں گے۔ملک کی رنگارنگی کو ختم کرکے یہاں یک رنگی قایم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یعنی اکثریت کے مذہب ، کلچر اور زبان کے علاوہ باقی سب کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ پورے ملک کی فضا کو زعفرانی بنانے کی کوششیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔بقول محترم اظہرعنائتی
جو باقی رنگ ہیں ، وہ کیا کریں گے
فضا سب زعفرانی ہوگئی ہے
اتراکھنڈ کی راجدھانی دہرہ دون میں ایک مشہور عیسائی بورڈنگ اسکول کی انتظامیہ کے ساتھ مقامی پولیس نے بجرنگ دل کے دباؤ میں جو رویہ اختیار کیا گیاہے ، وہ نہ صرف جابرانہ ہے، بلکہ دستور اورقانون کے اعتبار سے بھی درست نہیںہے، لیکن چونکہ شکایت سنگھ پریوار کی ایک جارحیت پسند تنظیم کی طرف سے کی گئی ہے، اس لیے پولیس نے سب کچھ پس پشت ڈال کراسکول کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے۔اسکول کے منیجر ، پرنسپل اور نائب پرنسپل پر دوفرقوں کے درمیان منافرت کو فروغ دینے کا مقدمہ درج کرلیاگیا ہے۔ قصور محض اتنا تھا کہ انھوں نے اسکول میس کے لیے حلال گوشت کی فراہمی کا ٹینڈر شائع کرایا تھا۔ واضح رہے کہ اس اسکول میں تمام فرقوں کے بچے زیرتعلیم ہیں اور انتظامیہ ان کے عقیدے کے مطابق انھیں غذا فراہم کرنے کا پابند ہے۔ لیکن آرایس ایس کی ذیلی تنظیم بجرنگ دل کویہ اشتہار اتنا ناگوار گزرا ہے کہ اس نے حلال گوشت کو بھی جبری تبدیلی مذہب سے جوڑ کر ایک ہنگامہ برپا کردیا ہے۔بجرنگ دل کی دہرہ دون اکائی کے لیڈر وکاس ورما نے دالن والا پولیس اسٹیشن میں گزشتہ 29 جون کو یہ شکایت درج کروائی کہ اسکول نے حلال گوشت کی فراہمی کا ٹینڈر دراصل ’مذہبی تبدیلی ‘ کی منشا سے جاری کیا ہے ، جس سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ورما نے کہا کہ’’ اسکول کی طرف سے حلال گوشت سپلائی کرنے کا ٹینڈر جاری کرنا دراصل تبدیلی مذہب کی جانب پہلا قدم ہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کچھ دیگر اسکول اور اسپتال بھی یہی کام کررہے ہیں ، لہٰذاہم پورے صوبے میں ایسے لوگوں کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی مہم چلارہے ہیں۔‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس اسکول کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس میں کسی کا نام نہیں ہے بلکہ صرف ملزمان کے عہدوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات کررہے سب انسپکٹر مہاویر سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ تعزیرات ہند کی دفعہ505(2)کے تحت دوفرقوں کے درمیان عداوت کو فروغ دینے والا بیان شائع کرنے کے لیے درج کیا گیا ہے، تاہم شکایت درج کرانے والے بجرنگ دل لیڈر وکاس ورما کا کہنا ہے کہ’’ اس معاملے میں مزید سخت دفعات عائد کی جانی چاہئے، کیونکہ وہ جو کچھ کررہے تھے وہ قطعی طورپر ناقابل معافی ہے۔ وہ ہندو طلبا کو صرف حلال گوشت کی فراہمی کی دعوت دے رہے تھے، جس کی ہندو مذہب میں اجازت نہیں ہے۔‘‘ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب ہندو طلباء گوشت کھاتے ہی نہیں ہیں تو انھیں’حلال گوشت‘ فراہم کرنے کی دعوت دینے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔اسکول کے ہاسٹل میں مقیم مسلم اور عیسائی طلبا ء کے لیے حلال گوشت کی فراہمی کا اشتہار جاری کیا گیا تھا جوپوری طرح ایک قانونی سرگرمی تھی، لیکن اس پر پولیس نے جس انداز میں آناً فاناً کارروائی انجام دی ہے ، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی سرکاروں میں انتظامیہ اور پولیس پوری طرح سنگھ پریوار کا دست نگر ہے اورسنگھ پریوار کی ذیلی تنظیموں کی ہٹ دھرمی کے سامنے قانون اور دستور کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اسکول کے وائس پرنسپل مہیش کنڈپال نے اس سلسلہ میں ایک جوابی بیان اور نئے اشتہار کی کاپی ’ انڈین ایکسپریس‘ کو دکھائی جس میں کہا گیا ہے کہ کسی غلطی کی وجہ سے ٹینڈر نوٹس میں کچھ باتیں شائع ہونے سے رہ گئی تھیں جنھیں اب دوسرے ٹینڈر میں شائع کرایا جارہا ہے۔ اسکول کی طرف سے اس معاملے میں کسی فرقے یا فرد کے مذہبی جذبات کو جانے انجانے میں ٹھیس پہنچنے پر معافی بھی طلب کی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘‘ مگر یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس ٹینڈر کی اشاعت سے کسی دوسرے فرقہ کے مذہبی جذبات کا کیا تعلق ہوسکتا ہے اور اس میں تبدیلی مذہب پر اکسانے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔اگر کسی کے کھانے پینے کے طریقوں سے متاثر ہوکر کسی مذہب کے لوگ اپنا دھرم تبدیل کرلیتے ہیں تو پھر اس مذہب کے ٹھیکیداروں کو اپنے مذہب کی اس کمزوری پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
ہم یہاں حلال گوشت کے تعلق سے بعض بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کرنا چاہیں گے۔ اوّل یہ کہ ملک بھرمیں جتنے بھی میس یا بڑے ہوٹل ہیں ، وہ اپنے یہاں حلال گوشت کو ہی فوقیت دیتے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حلال گوشت سائنٹفک طور پر زیادہ محفوظ اور صحت مند تصور کیا جاتا ہے۔ اس کو زیادہ عرصہ تک فریز کیا جاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں جتنے بھی گوشت کے ایکسپورٹرہیںوہ حلال گوشت ہی ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ ان ایکسپورٹروں میںاکثریت غیرمسلم برادران وطن کی ہے۔تمام فائیواسٹار ہوٹل بھی حلال گوشت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ملک کی پارلیمنٹ کی کینٹین میں بھی حلال گوشت ہی سپلائی ہوتا ہے۔ لیکن حلال گوشت کے ساتھ چونکہ مسلمانوں کا نام وابستہ ہے، اس لیے بجرنگ دل کو اس معاملے میں ہنگامہ آرائی کا موقع مل گیا۔دوسری بات یہ ہے کہ بجرنگ دل نے اس معاملے میں مرچ مسالہ لگانے کے مقصد سے اسے تبدیلی مذہب سے جوڑنے کی ناکام بھی کوشش کی ہے۔ آج کل چونکہ تبدیلی مذہب کا موضوع نفرت پھیلانے کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے، اس لیے پر اس کا تڑکا لگانا بے حد ضروری ہے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جب سے انتہاپسند تنظیموں نے غیرقانونی ذبیحہ کے نام پر مہم چلائی ہے تب سے گوشت کا قانونی کاروبار کرنے والوں کا بھی جینا حرام ہوگیا ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ملک میں گوشت کے ایکسپورٹ سے حکومت کو اربوں روپوں کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے، لیکن گوشت کے چھوٹے تاجر انتہائی پریشانی میں زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ کہیں بھی ان پر گاؤ کشی کا الزام لگاکر ان کی گاڑیاں روک لی جاتی ہیں اور انھیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ اب حلال گوشت کے خلاف بجرنگ دل کی اس نئی مہم سے ہراسانی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔گئورکشکوں نے پہلے ہی ملک میں اپنا متوازی نظام قایم کررکھا ہے اور وہ جہاں چاہتے ہیں قریش برادری کے لوگوں کو تشدد اور ناجائز وصولی کا نشانہ بناتے ہیں۔حلال گوشت کی سپلائی کے جائزاورقانونی کام کوبھی اب غیرقانونی قرار دے کر اس پر بندشیں عائد کی جاسکتی ہیں۔ دہرہ دون کے واقعہ سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔
اردو زبان و ادب کی تاریخ میں جن چند شخصیات کو بین العلومی مطالعہ کا مینارہ سمجھا جاتا ہے اور جن کی تنقیدی بصیرت و بصارت مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے ان میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔وہ اردو کے پروفیسر تھے لیکن دیگر زبانوں کے ادبا اور شعرا کے درمیان بھی ان کی حیثیت با اعتبار سمجھی جاتی تھی ۔اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خود کو اردو کےدیگر ناقدوں کی طرح محض نصابی کتابوں کی تنقید تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے فکر و نظر کی دنیا ستاروں سے آگے کی متمنی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ پروفیسر قاسمی کو اردو تنقید سے بے اطمینانی تھی جس کا اظہار انہوں نے اپنی تنقیدی کتاب معاصر تنقیدی رویے میں کچھ اس طرح کیا ہے :
’’اردو تنقید کی عام فضا ہنوز تا ثراتی اور عمومی نوعیت کی تحریروں کو ادبی تنقید کا نام دینے پر مضر نظر آتی ہے ۔اس ماحول میں ادبی تنقید کی منطقی زبان اور معروضی طرز بیان پر کوئی مفاہمت نہ کرنا ہماری سب سے بڑی ناقدانہ ذمہ داری بن گئی ہے ۔ناچیز نے شاعری اور نثر دونوں طرح کے ادب پاروں پر تنقیدی مضامین لکھے ہیں لیکن بالعموم کوشش رہی ہے کہ شاعروں اور ادیبوں کو مرکز میں رکھنے کے بجائے ان کی تخلیقات کو بنیادی محور بنایا جائے اورمتن پر سارا ارتکاز رکھنے کے نتیجے میں تحریک پانے والے ناقدانہ عمل کو استدلال کی مدد سے سامنے لایا جائے‘‘۔
اسی کتاب میں آگے لکھتے ہیں:
’’میں نے تخلیقی ادب کو ہمیشہ لطف اندوزی اورحصول بصیرت کے عوامل کے تحت پڑھا ضرور ہے مگر کبھی بھی محاسن و معائب کا سیاق و سباق میری نگاہوں سے اوجھل نہیں رہا اس لیے میری تنقید کو تنقید سے کہیں زیادہ ایک با ذوق اور حساس قاری کے ردعمل کا نام دیا جانا چاہیے ۔ مجھے اس بات سے قدرے اطمینان کا احساس ہوتا ہے کہ میری تحریروں نے اکثر فن پارے کے افہام و تفہیم کا تاثر دینے کے ساتھ قاری کے تجسس کو بھی پیدا کیا ہے شاید اسی باعث مجھے کسی بھی مرحلے پرنہ اپنے طرز اظہار سے نارسائی کا گلہ رہا اور نہ اپنے قاری سے ۔”
پروفیسر قاسمی نظریاتی طور پرایک سخت رویے کے ناقد تھے اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ مصلحت پسند نہیں تھے ۔یہی وجہ کہ ان کے ہم نواؤں کا دائرہ بہت محدود ہے۔اور ان کوایک اکھڑ پن شخص کے طور پر زیادہ مشہور کیا گیا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی کلیم الدین احمد کی طرح اپنی تنقید کے معیار کو بلند دیکھنا چاہتے تھے یہ اور بات ہے کہ وہ پروفیسر کلیم الدین احمد کی طرح انتہا پسندی کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھتے تھے بلکہ اپنے عالمانہ دلائل کے ذریعے اپنی دانشوری کا مہر ثبت کرتے تھے ۔جیسا کہ انہوں نے اپنی ایک مشہور تنقیدی تصنیف”کثرت تعبیر "میں اس کی وضاحت کی ہے:
’’مجھے اس بات کے اظہار میں کوئی تکلف نہیں کہ معاصر تنقیدی منظرنامے میں سنجیدہ اور قابل اﻉتنا کاوشیں بہت کم دکھائی دیتی ہیں اس لیے اردو میں تنقید کے نام پر لکھی جانے والی عام تحریروں سے بے اطمینانی کا اظہار کیے بغیر کوئی چارہ نظر نہیں آتا میں اگرتنقید لکھتا ہوں تو اس کا سبب اس بے اطمینانی کے ازالہ کی بساط بھر کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں "۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ ان کی تمام تحریروں میں پستیِ معیار سے بے اطمینانی نظر آتی ہے اور بااعتبار تنقید کی جستجو ۔دراصل پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی ذہنی نشوونما عربی اور فارسی کے ماحول میں ہوئی تھی ۔ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے اور بعد میں عصری تعلیم کو انہوں نے اپنی فکر و نظر کا محور و مرکز بنایا ۔انگریزی زبان و ادب پر عبور حاصل کیا اور دیگر ہندوستانی زبان و ادب کے مطالعہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں میں بہت جلد نمایاں ہوئے اور زمانہ ان کی تحریر و تقریر کا قائل ہوگیا ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ اردو سے وابستہ ہونا اور وہاں کی علمی و ادبی فضا سے فیضیاب ہونا ان کی شخصیت کو چار چاند لگانے میں معاون ثابت ہوا ۔
پروفیسر ابوالکلام قاسمی بین العلومی مطالعہ کو اولیت سمجھتے تھے اسی لئے عربی اور فارسی کے علاوہ انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ دیگر ہندوستانی ادب پر بھی ان کی نگاہ رہی ۔دنیا ے اردو ادب میں ان کی کتاب ناول کا فن غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے جو ای ایم فاسٹرکی انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے ۔لیکن اس ترجمہ کو ان کی تصنیف سے کہیں زیادہ شہرت نصیب ہوئی ۔کیونکہ انہوں نے انگریزی کی کتاب کا محض لفظی ترجمہ نہیں کیا بلکہ انگریزی کتاب کو اردو کے مزاج کے مطابق ڈھال دیا ۔لہذا اس کتاب کو ناول کی تنقید کے مطالعے کے لئے ناگزیر سمجھا جانے لگا۔
پروفیسر ابوالکلام قاسمی ایک محتاط نقاد تھے، جس طرح وہ ادبی موضوعات و مسائل پر اپنی نپی تلی رائے رکھتے تھے ٹھیک اسی طرح تحریر میں بھی بہت سنجیدہ نظر آتے ہیں ۔ان کی تصنیفات میں تخلیقی تجربہ ،مشرقی شعریات ،شاعری کی تنقید ،معاصر تنقیدی رویے ،کثرت تعبیر اردو فکشن کے مضمرات وغیرہ کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ پروفیسر قاسمی کا نظریہ نقد مشرقی شعریات کی بازیافت ہے ۔وہ مغربی تنقید سے استفادہ کے قائل تو ہیں لیکن وہ پروفیسر کلیم الدین احمد کی طرح ہر چیز کو مغربی آئینے سے نہیں دیکھتے ۔اس لیے اپنے ایک مضمون جس کا عنوان ہے میرا ادبی موقف اس میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ :
’’اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اردو تنقید میں موجود تمام نقائص اورغیر تنقیدی طریق کار کی تلافی میری تحریر کردی گی ۔عرض کرنا محض یہ مقصود ہے کہ تنقیدی اصول و نظریات کو جس شدت اور غیر جانبداری کے ساتھ استعمال کرنے اور اطلاقی تنقید میں فن پارے کی تعیین قدر کو کارآمد بنانے کی خاطر جس نوع کے معروضی فاصلہ کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اردو کےعام نقادوں میں اس کا احساس نہ ہونے کے برابر ہے ۔کسی خاص تنقیدی مکتب فکر یا مخصوص نظریہ ادب میں الجھ کر باقی دوسرے نظریات یا مکتب فکر کو یکسر نظر انداز کرنے کا رویہ عام ہے یوں تو یہ بات غلط نہیں کہ نفسیات، سماجیات، لسانیات اسلوبیات یا ساختیات پر مبنی تمام تصورات فن پارے کے کسی نہ کسی پہلو کی اہمیت کا احساس ضرور دلاتے ہیں اور اس وسیلے سے بسا اوقات مفید نتائج بھی نکالے جا سکتے ہیں مگر کیا تشکیل متن میں شامل دوسرے عناصر اور محرکات اس اکہر ے طریقے کے سبب معرض التوا میں نہیں جاپڑتے ۔”
پروفیسر قاسمی نے اپنی مرتبہ کتابوں میں جو مقدمے لکھے ہیں ان کے مطالعہ سے بھی یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ ان کا موقف اور نظریہ کیا ہے ۔ان کتابوں میں مشرق کی بازیافت، انتخاب انعام اللہ خان یقین ،رشید احمد صدیقی قدروقیمت انتخاب، فراق گورکھپوری، اردو افسانہ آزادی کے بعد اور نظریاتی تنقید کے مقدما ت میں اردو تنقید و تحقیق کی روایتی گہرائی و گیرائی تک ان کی رسائی اور مغربی تنقید کی پرکھ صاف نظر آتی ہے ۔پروفیسر قاسمی نے شخصیاتی تنقید کے ساتھ ساتھ ادبی مباحث کو اپنی فکر و نظر کا محور و مرکز بنایا اور خاص کر فکشن کی تنقید کو فوقیت دی ۔اصناف سخن پر بھی پر مقالے لکھے اور غزلیہ شاعری کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا ۔
پروفیسر قاسمی شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سبکدوشی کے بعد اپنے ادبی رسالہ امروز کے ذریعے اپنے ادبی نظریے کو فروغ دیتے رہے ۔اگرچہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے مگر امروز کو جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔اور ہندو پاک میں امروز کے حلقے کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہے ۔امروز کے اداریوں کے مطالعے سے بھی ان کے تصورات ادب اور نظریہ زیست کو سمجھا جاسکتا ہے ۔
کسی ادیب و شاعر کو کسی جغرافیائی حدود میں نہیں دیکھا جانا چاہیے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ادیب و شاعر کو اس کی مٹی سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا ۔پروفیسر قاسمی کا تعلق شمالی بہار کے ضلع دربھنگہ سے تھا ۔وہ دوگھڑا گاؤں میں 20 دسمبر 1950 کو پیدا ہوئے تھے اور آخر وقت تک اپنے گاؤں کو نہیں بھولے ۔اگرچہ طالب علمی کے بعد پوری زندگی علی گڑھ میں گزری لیکن بہار کے ادبا اور شعرا سے ہمیشہ رشتہ استوار رکھا ۔اپنے گاؤں اور آس پاس کے ذہین طلبہ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی راہ دکھانا اور اس کی ہرممکن رہنمائی و حوصلہ افزائی کرنا ان کا وطیرہ رہا ۔راقم الحروف سے بھی ان کے دیرینہ تعلقات رہے اور چار دہائیوں میں ہمیشہ ان کو بحر ادب میں غوطہ زن دیکھا ۔زندگی جینے کا بھی ایک انوکھا نسخہ ان کے پاس تھا کہ وقت کے بہت پابند تھے ۔اور اپنی شرطوں پر جینے والے شخص تھے۔افسوس صد افسوس 8 جولائی 2021کواس دنیائے فانی کو الوداع کہہ کر 9 جولائی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سہرے خموشاں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سپرد خاک ہو گئے۔
یوں تو یہ زمین کبھی اہل فکر و نظر سے خالی نہیں رہتی کہ اللہ تعالی ہر شعبہ حیات کے لیے ہمیشہ نابغہ روزگار شخصیت کو پیدا کرتا ہے اور کبھی یہ دنیا مثالی شخصیت سے خالی نہیں رہتی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پروفیسر ابوالکلام قاسمی جیسی ہمہ جہت شخصیت کا مالک اردو زبان و ادب کو عنقریب ملنے والا نہیں ہے ۔اردو زبان و ادب میں دانشوری کی جو روایت رہی ہے وه آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے ۔حال کے دنوں میں شمس الرحمن فاروقی اور پروفیسر شمیم حنفی کے بعد پروفیسر قاسمی کا رخصت ہونا جہان اردو کے لیے ایک خسارۂ عظیم ہے ۔ اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب نے شاید ایسی ہی شخصیت کے لئے کہا تھا :
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے !
پستہ قد،قدرے جھکاہوانحیف جسم،ناتواں پاؤں ، کمزوربازو اورپیٹھ پرنمایاں کُب ؛لیکن چہرے پر محرومی ، مایوسی ،مجبوری کا کوئی رنگ نہیں۔بڑی بڑی روشن آنکھوں میں ہلکی سی اداسی کی کیفیت بھی نہیں۔لوگ اِراسنگھل کو physically challenged سمجھتے ہوں تو سمجھیں ،وہ خودکومعذوریااپاہج نہیں سمجھتیں۔
نئی دہلی کی اِراسنگھل ملک کی پہلی جسمانی طورپر معذور خاتون ہیں ،جنہوں نے عام زمرے میں یوپی ایس سی سیول سروس 2014ء کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہ scoliosisنامی مرض میں مبتلا ہیں۔جس میں ریڑھ کی ہڈی میں غیرفطری خم پیدا ہو جاتاہے ۔ اس بیماری کے سبب ان کی پیٹھ پر کب hunchpackابھرآیاہے۔اور ان کے بازووں کو حرکت میں دشواری ہوتی ہے۔
اِرا نے 2010ء ہی میں سول سروس امتحان میں کامیابی حاصل کرلی تھی،لیکن انہیں ان کی معذوری کے سبب نااہل قراردیتے ہوئے انڈین ریوینیو سروس میں تقررسے محروم رکھا گیا تھا۔خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والی بلند حوصلہ اِرا نے ہمت نہیں ہاری اور اس ناانصافی کے خلاف کیس دائر کیا۔سینٹرل ایڈمنسٹریٹیو ٹریبونل نے چار سال بعدان کے حق میں فیصلہ سنایاتھا‘ اس کے باوجود انہیں مذکورہ محکمے میں پوسٹنگ کا بروقت آرڈر نہیں ملا تھا۔ اس دوران انہوں نے اپنا رینک بہتر کرنے کے لیے دو مرتبہ سول سروس کا امتحان لکھا اور کامیاب رہیں ۔ چوتھی کوشش میں انہیں پہلا رینک حاصل ہوا اوروہ ملک کی پہلی خاتون بنیں جس نے جسمانی طورپر معذور ہوتے ہوئے عام زمرے میں آئی اے ایس میں امتیازی کامیابی حاصل کی تھی۔
اِراسنگھل بی ای اور ایم بی اے کی ڈگریاں رکھتی ہیں۔ انہوں نے کیڈبری انڈیا اور کوکاکولاکمپنی میں بھی ملازمت کی ہے اوروہ ہسپانوی زبان کی ٹیچر بھی رہی ہیں۔
ہندوستان ٹائمز(5جولائی 2015ء) کی رپورٹ میں ان کا یہ بیان درج ہے کہ ’’میرے والدین نے میرے ساتھ ایک معذور اورلاچار جیسا سلوک نہیں کیا۔ انہوں نے مجھے ایک نارمل انسان کی طرح چیزوں کوقبول کرنا سکھایا۔اس دنیا میں میری جدوجہد ایک physically challenged انسان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عورت ہونے کی حیثیت سے ہے۔کسی بھی دوسری خاتون کی طرح جوصنفی امتیاز اور دقیانوسیت کا سامناکرتی ہے۔
این ڈی ٹی وی کے معروف اینکر اورحساس، انسانیت نواز صحافی رویش کمار نے پرائم ٹائم میں اِراسنگھل کی کامیابی اور اس کے حصول کی خاطر مسلسل جدوجہد کی کہانی پیش کی تھی۔ارا کی ماں نے بتایا تھاکہ وہ پیدائشی طورپرنارمل تھی، لیکن جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی ، جسمانی نقائص سامنے آنے لگے ۔ کافی علاج کے باوجود بھی افاقہ نہیں ہوا۔شاید وہ سرجری سے ٹھیک ہوجاتی، لیکن اس میں کافی جوکھم تھا، اسی لیے سرجری نہیں کروائی گئی۔اِرا کو ڈاکٹر بننے کی خواہش تھی ‘ لیکن ان کے والد نے یہ محسوس کیا کہ اپنی جسمانی کمزوریوں کے سبب شاید وہ ایک ڈاکٹر کے فرائض بخوبی ادا نہ کرسکے اسی لیے انہیں کمپیوٹر انجینئرنگ میں داخلہ دلوایاگیا۔
اِرا کومتعدد زبانوں پر عبورحاصل ہے ۔ رویش کمار کے استفسار پرانہوں نے بتایا تھاکہ وہ اطالوی ، ہسپانوی ، فرانسیسی ، پرتگالی زبانیں جانتی ہیں اورجرمن زبان سیکھ رہی ہیں۔اسی لیے ان کی ترجیح انڈین فارین سروس تھی لیکن وہ معذوری کی وجہ سے اس کی اہل نہیں تھیں۔وہ فکشن پڑھنے کی بہت شوقین ہیں۔ان کے والدین نے بتایا کہ وہ ہر وقت ناول پڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
ارا کا کہنا تھا کہ مطالعے سے انسان کی شخصیت اور اس کے رویے میں بہت فرق آجاتا ہے ۔ وہ کنفیوژن کا شکار نہیں رہتا۔
رویش کمارکے اس سوال پر کہ کیا انہیں مایوسی نہیں ہوتی ؟اِرا نے اس کا بہت ہی متاثرکن جواب دیاتھا۔ ان کا کہنا تھا کہ’’ ہرکسی کوکوئی نہ کوئی مشکل درپیش ہے ۔ فرق بس اتنا ہے کہ کسی کی کوئی تکلیف دکھائی دیتی ہے اور کسی کی کوئی پریشانی نظر نہیں آتی۔جس کے ماں باپ نہیں ہیں یا جس کے ساتھ گھر میں اچھاسلوک نہیں ہوتا اس کی تکلیف اوراذیت جسمانی معذوری سے بھی زیادہ ہے۔اگر وہ آئی اے ایس بننے سے محروم رہتیں تو اسے زندگی اور موت کا سوال ہرگز نہیں بناتیں۔ کیوں کہ ایک انسان کی زندگی کسی ایک امتحان سے نہیں جڑی ہے ۔مایوسی تو تب ہوتی ہے ‘جب آپ توقع رکھتے ہیں۔کرم کریں اور پھل کی فکرنہ کریں۔ ‘‘
صدر شعبہ عربی و فارسی، الہ آباد یونیورسٹی
’’ذیشان بیٹے ،جلدی کیجئے،لیٹ ہو جائیں گے آپ‘‘
’’رحیم چاچا ۔‘‘
’’جی، سلام بیگم صاحبہ ‘‘
’’گاڑی نکالئے ‘‘
ثروت بیگم کی آواز پر رحیم چاچا نے جلدی سے کار کی چابی سنبھالی اور ایک بار پھر۔
’’جی بیگم صاحبہ ‘‘ کہتے ہوئے صدر دروازے کی طرف ہو لئے۔
ثروت بیگم نے ذیشان کی ٹائی ٹھیک کی ۔سر پر ہاتھ پھیرا ۔ درود شریف پڑھ کر دم کیااو ر بیٹے کی انگلی پکڑ کر صدر دروازے کی جانب چل پڑیں۔انھیں آتا دیکھ رحیم چاچا نے چمچماتی مرسیڈیز پھاٹک کے سامنے لا کر لگا دی۔ ثروت بیگم نے دوبارہ دعاپڑھ کر ذیشان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور گاڑی میں بٹھا دیا ۔رحیم چاچا معمول کے مطابق ذیشان کو اسکول چھوڑنے چلے گئے۔
آج ثروت بیگم کی طبیعت کچھ مضمحل تھی۔ نواب عمران کل رات اپنے باغات کی طرف چلے گئے تھے۔آموں کی فصل تیار تھی ۔اس لئے ان کا وہاں ہونا ضروری تھا۔ ثروت بیگم رات دیر سے سوئی تھیں لہٰذا ان کی طبیعت کچھ بوجھل سی ہو رہی تھی۔فجر کی نماز کے لئے علی الصبح اٹھی تھیں۔نماز پڑھی، قرآن پاک کی تلاوت کی پھر ذیشان کو جگایا ۔انھیں تیار کر کے اسکول روانہ کر دیا۔ نواب عمران بھی گھر پر نہیں تھے لہٰذا نقن میاں کو چند ہدایات دے کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔اس وقت انھوں نے آرام کرنا بہتر سمجھا۔بستر پر لیٹی ہی تھیں کہ ذرا دیر میں ان کی آنکھ لگ گئی۔
چھ برس قبل ثروت بیگم اس حویلی کی بہو بیگم بن کر آئی تھیں۔خاندان میں ہی شادی ہوئی تھی لہٰذا پرایا پن نہیں تھا۔شادی کے پہلے بھی وہ اس حویلی میں آتی رہتی تھیں۔شاکرہ بیگم ، یعنی اس حویلی کی مالکن اور ثروت بیگم کی خالہ جانی کو اللہ نے بیٹی جیسی نعمت سے نہیں نوازا تو کیا عمران جیسے نیک اور فرمانبردار بیٹے کی ماں ہونے کی سعادت تو بخشی تھی۔نواب عمرا ن نے اعلیٰ تعلیم انگلینڈ سے حاصل کی تھی مگر اپنی والدہ سے دور رہنا ان کے بس کا نہیں تھا۔وہ اپنے قصبے جہانگیر پور کی سوندھی مٹی کی مہک انگلینڈ میں نہ پا سکے ۔مینیجمنٹ کا امتحان پاس کرتے ہی ان کے دل میں ایک برق سی لپکی اور انھوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ وطن واپس جا کر اپنے گائوں ، اپنے کھیت پر نئے تجربے کریں گے۔اس خیال کے ذہن میں آتے ہی انھوں نے وطن واپسی کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔شاید یہ ان کی والدہ شاکرہ بیگم کی رات دن کی دعائوں کا اثر تھاکہ نواب عمران اپنی ماں اور خاک وطن کو ایک پل کے لئے فراموش نہیں کر سکے تھے۔جہانگیر پور کی مٹی کی سوندھی مہک نے انھیں دیوانہ بنا رکھا تھا۔پورے دو سال کے بعد ان کے قدم حویلی میں پڑنے والے تھے۔شاکرہ بیگم نے حویلی کو دلہن کی طرح آراستہ کروایا تھا۔ان کا دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔اپنے لخت جگر کے استقبال میں انھوں نے قریبی رشتے داروں کو مدعو کر لیا تھا۔شام ڈھلنے کو تھی۔رات کی سیاہی نے جیوں ہی اپنے پائوں پسارنے شروع کئے، حویلی زرق برق قمقموں سے جگمگا اٹھی۔رحیم چاچا نواب عمران کو چمچماتی مرسیڈیز میں اسٹیشن سے لے کر آ گئے۔شاکرہ بیگم نے بڑھ کر اپنے لاڈلے کی پیشانی چومی ۔بلائیں لیں۔صدقے اتارے گئے۔خوش آمدید کی صدائیں بلند ہوئیں اورچھوٹے نواب سب کو سلام کرتے ہوئے حویلی کے اندر داخل ہوئے۔ ہر طرف گہما گہمی تھی۔سب کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے ۔وہ بڑی گرم جوشی سے سب سے مل رہے تھے اور احوال پرسی کر رہے تھے۔ان کے کزنس کی ایک لمبی قطار موجود تھی جو انھیں اپنے غول میں لے جانے کو بیتاب تھی تاکہ وہ سب اپنا تجسس دور کر سکیں۔ تھوڑی ہی دیر میں عشاء کی اذان ہو گئی۔سب نے حویلی سے ملحق مسجد میں نماز ادا کی اور اس کے فوراً بعدکھانے کا اہتمام کیا گیا۔سارے مہمان کھانے کی میز پر آ چکے تھے۔بزرگ ایک جانب اور نوجوان گروپ دوسری جانب عمران میاں کو گھیر کر بیٹھ گیا۔ٹیبل پر مختلف انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے۔ان سے اٹھنے والی عمدہ خوشبو نے پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔چند لمحوں کے توقف کے بعدشاکرہ بیگم اپنے کمرے سے اپنی چھوٹی بہن ہاجرہ بیگم کے ساتھ تشریف لائیں ۔نقن میاں نے جلدی سے ان کے بیٹھنے کے لئے کرسی ٹیبل کے نیچے سے باہر نکالی۔اس سے قبل کہ شاکرہ بیگم بیٹھتیں ، انھوں نے اپنی با رعب آواز میںسب کو مخاطب کیا ۔
’’میرے عزیزو! آج کی اس پر مسرت گھڑی میں میں آپ سب کو ایک خوش خبری دینا چاہتی ہوں ۔میں نے اور ہاجرہ بیگم نے یہ طے کیا ہے کہ نواب عمران اور ثروت بیگم کو ازدواجی رشتے میں منسلک کر دیا جائے۔‘‘
اتنا کہہ کر انھوں نے ہاجرہ بیگم کو گلے لگا لیا۔عمران اور ثروت اس اچانک انکشاف سے حیران سے رہ گئے۔اس اعلان کو سن کرثروت کی نگاہیں جو جھکیں تو اٹھنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔ رخسار شرم سے سرخ ہونے لگے۔اسے اپنا سراپا پسینے میں نہایا سا محسوس ہونے لگا۔سامنے ہی نواب عمران بیٹھے تھے ۔اگرنگاہ اٹھی تو انھیں پر پڑنی ہے۔اس خیال سے وہ عجب کشمکش میں مبتلا تھی۔لمحہ بھر پہلے تو ایسا کچھ نہیں تھا۔سارے کزنس کے ساتھ وہ بھی چہک چہک کر باتیں کر رہی تھی۔خالہ جانی کے اشاروں پر سارا انتظام اسی نے کروایا تھا۔شاکرہ بیگم نے اسے ایک ہفتہ پہلے ہی بلوا لیا تھا۔پوری حویلی کی صفائی ستھرائی سجاوٹ سب اسی کے ذمے تھی ۔پورے انہماک سے اس نے سارا کام اپنی نگرانی میں کروایا تھا۔ نواب عمران کے کمرے کوخاص طور سے ڈیکوریٹ کیا تھا۔خالہ جانی کو اس نے بیٹی کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا تھا۔ اس دوران ان کے دل و دماغ میں کیا چل رہا تھا ، اسے گمان بھی نہیں تھا۔آج کے اس اچانک انکشاف سے وہ ششدر رہ گئی تھی۔اگلے ماہ ہی وہ اس حویلی کی بہو بیگم بن کر آ گئی تھی۔ ٌٌ
فون کی گھنٹی بجی تو ثروت بیگم کی آنکھ کھلی ۔کال رسیو کی ۔
ہیلو!!!
دوسری جانب نواب عمران تھے۔
ثروت بیگم نے بھی جواب میں ہیلوکہا تو نواب عمران کچھ پریشان سے ہو گئے۔
’’ارے بیگم آپ خیریت سے تو ہیں؟ آپ کی آواز کچھ بدلی بدلی سی ہے۔نصیب دشمناں آپ کی طبیعت تو ناساز نہیں؟‘‘
نواب عمران نے ایک سانس میں اتنی تفتیش کر ڈالی۔
’’ارے نہیں عمران صاحب، ذیشان اسکول چلے گئے تو میں ذرا آرام کر رہی تھی اور میری آنکھ لگ گئی ۔ ابھی آپ کی کال پر آنکھ کھلی ۔میں ٹھیک ہوں ۔آپ پریشان بالکل نہ ہوں۔‘‘
’’اللہ تیرا شکر‘‘ عمران نے اطمینان کا سانس لیا۔
’’ذیشان میاں وقت پر اٹھ گئے تھے ؟ آپ کو تنگ تو نہیں کیا؟ ‘‘
’’نہیں قطعی نہیں۔ آپ فکر نہ کیجئے۔میں اور ذیشان بالکل ٹھیک ہیں ۔بس آپ جلدی آ جائیے۔‘‘
’’جو حکم آپ کا ثروت بیگم ۔ کہئے تو ابھی چلا آئوں‘‘ نواب عمران شرارت بھرے لہجے میں گویا ہوئے۔
’’اللہ!! عمران آپ کی شرارتی حس ہر دم بیدار رہتی ہے۔کبھی تو سیریس ہو جایا کیجئے۔‘‘
’’بیگم آپ سیریس ہونے ہی نہیں دیتیں ۔اس میں بھی قصور آپ کا ہی ہے۔‘‘اتنا کہہ کر نواب عمران کا ایک بھرپور قہقہہ ابھراور خدا حافط کہہ کر انھوں نے رخصت لی۔
شاکرہ بیگم کے انتقال کے بعد سے پوری حویلی پر ثروت بیگم کی حکمرانی تھی۔لق و دق حویلی نوکروں چاکروں سے بھری تھی۔آسائش کا بھرپور سامان تھا۔ نواب عمران بے انتہا سلجھے مزاج کے انسان تھے۔بیوی سے بیحد محبت کرتے ۔ان کے گلشن میں ذیشان کی شکل میں خوبصورت سا پھول کھلا تھا۔ثروت بیگم خود بھی بہت سمجھ دار اور خوش مزاج خاتون تھیں۔ لہٰذا حویلی ہمیشہ مہمانوں سے بھری رہتی تھی۔ان کی خاطر مدارات میں وہ کوئی کمی نہیں ہونے دیتی تھیں۔ ملازموں سے شفقت سے پیش آتیں۔ہر ایک ان کے حسن اخلاق کا گرویدہ تھا۔نواب عمران نے انگلینڈ سے واپس آکر اپنے کھیت اور باغات پر خصوصی توجہ دی تو وہاں کی مٹی بھی ہیرے موتی اگلنے لگی تھی۔گویا قدرت نے ہر چہار سو ان کے لئے خوش حالی رقم کر دی تھی۔ثروت بیگم اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتیں کہ اس معبود بر حق نے ان کا دامن خوشیوں سے بھر دیا تھا۔
نواب عمران سے بات کر لینے کے بعد ثروت بیگم نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔اپنی پر سکون زندگی کے بارے میں سوچ کر ان کے چہرے پر بشاشت کے رنگ بکھر گئے۔ابھی ذیشان کے اسکول سے واپس لوٹنے میں وقت تھا۔اس دوران وہ دوسری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے منصوبے بنانے لگیں کہ فون کی گھنٹی پھر بج اٹھی۔ثروت بیگم نے رسیور کو کان سے لگایا تو دوسری طرف سے کسی کی سسکیوں کے ساتھ بمشکل ہیلوکی آواز آئی ۔
’’ہیلو ،ثروت میں حنا ۔‘‘
اتنا کہنے کے بعد پھر ہچکیوں کے ساتھ رونے کی آوازیں ابھریں۔وہ ثروت بیگم کی دوست حنا تھی۔دونوں کے گھر آس پاس ہی تھے۔ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ایک ساتھ آنا ، جانا، گھومنا پھرنا،ساتھ مل کر پڑھائی کرنا ان کا شغل ہوا کرتا تھا۔ ابھی چھ ماہ قبل اس کی شادی نواب عمران کے دور کے عزیزوں میں ہوئی تھی۔نوابی آن بان کے مالک وہ لوگ بھی تھے۔سب کچھ تو ٹھیک ہی تھا۔اس ایک لمحے میں ثروت بیگم کو نا جانے کتنے وسوسوں نے آ گھیرا۔
’’ہیلو ۔۔۔حنا !!! کیا ہو گیا ہے تمھیں ؟ کچھ بتائو تو!!!! حنا۔‘‘
حنا اپنی سسکیوں کے درمیان بس اتنا ہی کہہ پائی ۔
’’ثروت بس تم جلدی سے میرے پاس آ جائو‘‘
ثروت بیگم نے کچھ نا جانتے اور نا سمجھتے ہوئے بھی پریشانی کے عالم میں حنا سے ایک گھنٹے کے اندر پہنچنے کا وعدہ کر لیا۔
انھوں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی ۔ ذیشان کے اسکول سے واپس آنے میں ابھی کافی وقت تھا۔نواب عمران بھی باغات کی جانب گئے ہوئے تھے۔انھیں دو دن کے بعد لوٹنا تھا۔ثروت بیگم نے تیاری کی۔ملازموں کو ضروری ہدایات دیں اور رحیم چاچا کو گاڑی نکالنے کو کہا۔کچھ ہی دیر میں وہ ذیشان کو اسکول سے لے کر اپنی والدہ کے گھر پہنچ گئیں۔اپنا سامان اور ذیشان کو امی کے سپرد کر کے انھوں نے تیزی سے حنا کے گھر کا رخ کیا۔
ثروت حنا کے گھر پہنچی تو بڑے دالان میں ان کی امی شرف النسا بیگم نظر آ گئیں۔ثروت نے جلدی سے انھیں سلام کیا اور ہمیشہ کی طرح گلے لگ گئی۔ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔صاف ظاہر تھا کہ وہ روتی رہی تھیں۔ اس کے بعد وہ تقریباً دوڑتی ہوئی حنا کے کمرے میں پہنچی تو اسے بستر پر تکئے میں منہ چھپائے سسکتے پایا۔اس نے محبت بھرا ہاتھ اس کے سر پر پھیرا اور ہولے سے آواز دی ۔
’’حنا !!! دیکھو میں آ گئی ‘‘
حنانے تکیہ ایک طرف رکھا اور ایک دم سے چیخ مار کر ثروت سے لپٹ گئی۔آنکھیں تو پہلے سے نم تھیں، اب تو جیسے اشکوں کا سیلاب ہی آ گیا ۔ثروت نے اسے سینے سے لگالیا۔کمرے میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔بس حنا کی سسکیاں ہی اس خاموشی کو رہ رہ کر توڑ تی تھیں۔ اس کا بدن بری طرح تپ رہا تھا۔ یہ تیزبخار کی تپش تھی ۔ حنا کو اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا۔ثروت نے حنا کے اشکوں کے سیلاب کو بہہ جانے دیا ۔اس وقت انھیں کسی بند کی ضرورت نہیں تھی۔کافی دیر کی اشکباری کے بعد گھٹائیں کچھ تھمیں تو ثروت نے حنا کو واش روم میں لے جا کر کھڑا کیا اور اسے سمجھا بجھا کر فریش ہونے کو کہا۔پھر اس نے ملازم کو چائے لانے کی ہدایت دی ۔حنا بوجھل قدموں سے واش روم سے باہر آئی تو ثروت نے لپک کر اسے سہارا دیا ۔بستر پر لا کر بٹھایا۔بہلا پھسلا کر اسے چائے اور سنیکس کھلائے۔بخار کی دوا دی پھرحنا کو لٹایا اور خود اس کے سر کو ہلکے ہلکے دباتے ہوئے بولی۔
’’حنا جان ۔۔۔جلدی بتائو معاملہ کیا ہے؟‘‘
حنا نے خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھا اور بالکل سپاٹ لہجہ میں گویا ہوئی۔
’’ثروت ۔وجاہت حسین اور میرے درمیان کوئی رشتہ نہیں رہا ۔انھوں نے مجھے طلاق دے دی!!!‘‘
’’کیا،حنا تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ ثروت کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔آنکھوں میں استعجاب اتر آیا۔اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ حنا سے زیادہ وہ بیچین ہو گئی ہے۔
’’یا اللہ !! یہ میں کیا سن رہی ہوں ؟‘‘
آن کی آن میں ثروت کے دل میں نواب وجاہت حسین کے خلاف نفرت کا ایک بڑا سا دائرہ تشکیل پا گیا۔وہ غصے سے بے قابو ہونے لگی۔اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔غنیمت تھا کہ نواب وجاہت حسین اس کے سامنے نہیں تھے ورنہ وہ اپنے غصے کو نہ جانے کس روپ میں پورا کا پوراان پر انڈیل دیتی۔اسے ان سے ایسی توقع قطعی نہیں تھی۔وہ تو انتہائی وجیہ، پر وقار، مہذب اور با تمیز انسان تھے۔دولت و ثروت کا غرور دور دور تک انھیں چھو نہیں گیا تھا۔خوش اخلاقی کا پیکر، نرم گفتارایسے کہ کبھی ملازموںسے بھی اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ بیحد نفیس اور اعلیٰ ذوق کے مالک ہیں۔ان کی ایک شاندار لائیبریری بھی ہے کیونکہ انھیں اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ وہ اتنی ذلیل حرکت کیسے کر سکتے ہیں؟ ابھی چھ ماہ قبل ہی تو دونوں کی شادی ہوئی تھی۔الٰہی !!کسی مرد کو پرکھنا کتنا مشکل ہے؟ بہروپئے ۔۔۔!!اور نا جانے کیا کیا۔۔۔۔غصے سے اس کی گرفت حنا کی کلائی پر کستی جا رہی تھی۔حنا نے آہستہ سے اپنا ہاتھ ثروت کے ہاتھ سے چھڑایااور اٹھ کر بیٹھ گئی۔اسے اٹھتا دیکھ ثروت ایک دم سے بپھر پڑی۔
’’حنا میں ابھی عمران کو فون کرتی ہوں اور انھیں وجاہت حسین کی ذلیل حرکت سے آگاہ کرتی ہوں۔شادی نا ہوئی تماشا ہو گیا۔میرا تو دل چاہ رہا ہے کہ وجاہت حسین کو ان کے کئے کی بھر پور سزا دلوائوں۔‘‘
حنا اب تک خود کو سنبھال چکی تھی۔اس نے ثروت کے غصے کی زیادتی بھی بھانپ لی تھی۔اس کے منہ سے جیسے ہی سزا کی بات نکلی ، حنا نے ایک دکھ بھری نگاہ اس پر ڈالی اور اپنا ہاتھ اس کے دہانے پر رکھ دیا۔پھر تڑپ کر بولی۔
’’نہیں ثروت !!!!نہیں!!!!قطعی نہیں!!!!تم ایسا کچھ بھی نہیں کروگی!!!!‘‘
ثروت نے خشمگین نگاہیں حنا پر ڈالیں۔اسے لگا غم کی شدت سے حنا کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہے۔آخر وجاہت حسین نے ایک اچھی خاصی لڑکی کے وجود سے کھلواڑ کیا ہے۔اپنے غصے اور نفرت کو مزید تقویت دینے کے لئے اس نے حنا کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
’’حنا !! مجھے وجاہت حسین کی اس نازیبا حرکت کے بارے میں تفصیل سے بتائو‘‘۔
’’ثروت !! میری پیاری دوست!!!تم سچ مچ بہت پیاری ہو ۔میری ایک آواز پر میرے دکھ میں پوری شدت سے شریک ہو گئیں۔
ہاں ،یہ سچ ہے کہ مجھ پر دکھوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے،یہ بھی سچ ہے کہ وجاہت حسین نے مجھے طلاق دی ہے۔لیکن۔‘‘
’’لیکن کیا۔؟‘‘ثروت نے بے چینی کے عالم میں حنا کو بیچ میں ہی ٹوک دیا۔
’’ثروت!! ہر لڑکی کی طرح میرے بھی ارمان تھے۔تم تو جانتی ہی ہو ہم دونوں مل کر سپنے بنا کرتے تھے۔تمھاری شادی نواب عمران سے ہوئی۔ وہ ایک اچھے شوہر ثابت ہوئے۔بھری پری حویلی کی تم مالکن بن گئیں۔ایک چاند سے بیٹے کی ماں بھی بنیں۔گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں ، ہر طرف چہل پہل، ذیشان کی ہر حرکت پر تم اور نواب عمران فدا ہوئے جاتے ہو ۔بچے تو گھر کی رونق ہوتے ہیں۔ تمھیں اللہ نے ان سب نعمتوں سے نوازا ہے۔ مجھے بھی نواب وجاہت حسین کی شکل میں ایک پر وقار شوہر ملے۔بڑی سی حویلی، ملازموں کی لمبی چوڑی قطار، دولت کی فراوانی، آسائش کی ہر شے مہیا۔وہاں کسی چیز کی کمی تو نہیں تھی۔ ‘‘
’’تو پھر کیا ہو گیا؟‘‘ ثروت کی قوت برداشت جواب دے رہی تھی۔اس سے رہا نہیں جا رہا تھا۔وہ پھر بیچ میں بول پڑی۔
’’ثروت !! وہاں بچوں کی کلکاریاں نہیں گونج سکتی تھیں۔۔۔۔۔‘‘اتنا کہتے کہتے حنا کی آواز ڈوبتی سی محسوس ہوئی۔
’’کیا کہہ رہی ہو،حنا تم؟‘‘
’’ہاں ثروت !! یہی سچ ہے !!!!‘‘
ثروت کے چہرے پر نفرت اور غصے کے ساتھ اب غم کے سائے بھی لہرانے لگے۔وہ جلد از جلد ساری حقیقت جاننے کو بیتاب تھی۔اس کے منہ سے اتنا ہی نکلا۔’’پھر‘‘
’’وجاہت حسین نے اس تلخ حقیقت کے کرب کو اکیلے جھیلنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔میں ان کی منکوحہ بن چکی تھی۔اس لئے ان کے کرب کی بھی حصے دار بن کر رہنا چاہتی تھی۔میں نے ضد پکڑ لی تھی کہ کچھ بھی ہو میں ان کے ساتھ رہوں گی ۔گذر جائوں گی اس سخت امتحان سے۔اس نیک انسان کے نکاح میں آنے کے بعد اسے اس طرح اپنے ہی درد کی ٹیس کے درمیان چھوڑ دینے کے خیال سے ہی میں کانپ جاتی تھی ۔میں احساس گناہ کی شکار رہنے لگی۔میرا اترا چہرا ان سے چھپا نہ رہتا۔میں اکثر دیکھتی کہ وہ بڈ روم کی کھڑکی سے باغ کے تالاب میں تیرتی بطخیں دیکھ رہے ہوتے جو پانی کی اوپری سطح پر خاموشی سے تیرا کرتیں ۔پھر غم کے سائے ان کے چہرے پر اتر آتے۔مگر ایک پل میں وہ اس کرب کو اپنے سینے میں اتار لیتے اور چہرے پر مصنوعی بشاشت بکھیرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے میری دلجوئی و دلداری میں لگ جاتے۔ میں اپنی ضد پر بدستور قائم تھی۔ان کی شرا فت و نجابت کسی طورمجھے ان سے علحٰدہ ہونے نہیں دے رہی تھی۔انھوں نے مجھے میری عمر کا واسطہ دیا۔بولے۔
’’حنا بیگم،آپ ابھی اپنی زندگی کی فقط تیسری دہائی میں ہیں۔زندگی کتنی لمبی ہے ،کوئی نہیں جانتا۔‘‘
وہ مجھے زندگی کی اونچ نیچ سمجھاتے رہے۔ مجھے چند کتابیں بھی پڑھنے کو دیں۔ایک کتاب پڑھ لینے کے بعد وہ مجھ سے میری رائے پوچھتے۔جب میں انھیں اپنی پہلی رائے پر قائم ملتی تو میرے ایثار کے جذبے سے ان کا کرب مزید بڑھ جاتا۔وہ مجھے سمجھاتے۔
’’ اس بات کی سزا آپ کیوں بھگتیں گی حنا بیگم ، جس میں آپ کا کوئی قصور ہی نہیں‘‘۔
انھوں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ذرا بھی ہار نہیں مانی ۔آخر ایک دن وہ مجھے سمجھا نے میں کامیاب ہو گئے۔میں جیسے ہی تھوڑی نرم پڑی، انھوں نے کلام پاک کی طلاق سے متعلق آیات مجھے پڑھ کر سنانی شروع کیں اور ان کے معنی و تفسیر بتائی۔ہر دن ہم فجر کی نماز کے بعد طلاق کی باریکیاں قرآن کی رو سے سیکھنے اور سمجھنے لگے۔انھوں نے سورہ بقرہ کی آیت ۲۳۶اور ۲۳۷کو بار بار پڑھ کر اس کا مطلب واضح کیاجس میں متعہ طلاق کا ذکر ہے اور اگلی آیت کہتی ہے کہ آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو۔متعہ طلاق یعنی اپنی حیثیت کے مطابق عورت کو تحائف دے کر رخصت کرنا۔اس عمل کی حکمت اور فائدے بیشمار ہیںاسی لئے آیت ۲۴۱میں پھر اس کی تاکید کی گئی ہے۔اکثر تلخی، کشیدگی اور اختلاف ہی طلاق کا سبب بنتے ہیں۔عورت کی دلجوئی ، دلداری اور احسان کرنے سے آئندہ دشمنی کا سد باب ہوتا ہے۔مگر ہم معاشرے میں طلاق کے موقع پر اس کے بر عکس دیکھتے ہیں۔مطلقہ کو احسان و سلوک کے بجائے اتنے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آپسی تعلقات ہمیشہ کے لئے منقطع ہو جاتے ہیں۔ثروت ۔۔۔۔!!ہم نے قرآن کوپڑھا ضرور پر سمجھا نہیں۔‘‘
’’تم سچ کہہ رہی ہو حنا۔رشتہ ٹوٹنے کے بعد بھی دو خاندانوں کا آپسی وقار قائم رہے، قرآن نے اس کی تاکید کے ساتھ ساتھ تدبیر بھی بتا دی ۔تحفے دینے سے آپسی محبت تو بڑھتی ہی ہے۔‘‘
’’ثروت !! اس سے ایک بات تو بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ ہم آپسی تعلقات کو برقرار رکھنے کی کوشش کریںچاہے معاملہ طلاق کا ہی کیوں نا ہو۔وجاہت حسین کی وجاہت کا راز اب میری سمجھ میں آ گیا ۔وہ زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔اس کا با قاعدہ مطالعہ کرتے ہیں۔خود بھی عمل کرتے ہیں اور بہت نرمی سے دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔اس کی ایک مثال میں تمھارے سامنے موجود ہوں۔‘‘
ثروت ،جس نے تھوڑی دیر پہلے وجاہت حسین کی ایک ظالم و جابر مرد کی شبیہ اپنے ذہن میں بنا ڈالی تھی، اب سراپا حیرت بنی ہوئی تھی۔پہلے وہ بنا سانس لئے بولے جا رہی تھی ،وجاہت حسین کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کر رہی تھی ، اب وہ حنا کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے لئے طلاق کے تعلق سے یہ تمام باتیں بالکل نئی تھیں ۔بھلا طلاق کے معاملے میں بھی آپسی پیار اور خاندانی وقار کی گنجائش ہوتی ہے؟اس وقت حیرت اس کی نفرت پر غالب آ رہی تھی۔حنا جو مظلوم و مغموم تھی ، جس کی سسکیوں نے اسے لرزا دیا تھا، اب وہ قدرے سنبھل چکی تھی۔اس کے اندر کا تضاد اب الفاظ کی شکل میں باہر نکل رہا تھا۔جس سے اس کے دل کا بوجھ کچھ کم ہو رہا تھا۔وہ اپنی زندگی کے گذشتہ چھ ماہ کا ایک ایک پل ثروت کے ساتھ شئیر کرنا چاہ رہی تھی۔ آخر وہ اس کی سب سے عزیز دوست تھی۔ثروت کی بیچینی بڑھتی جا رہی تھی۔وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ جہاں اتنا سمجھدار شوہر موجود تھا ۔۔۔۔ اس کی زبان سے لفظ طلاق آخر کیسے ادا ہوا۔۔۔؟ وہ مزید واقعات جاننے کو بیتاب تھی۔اسے لگ رہا تھا کہ آگے بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہوگا جس کا وہ تصور نہیں کر سکتی۔اس نے پھر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ آخر جلدی بتائو یہ سب کیسے ہوا؟
حنا نے آگے بتانا شروع کیا۔
’’ثروت ،کچھ دنوں کے بعد وجاہت حسین نے اپنے والدین کو بھی اس مسئلہ میں شریک کر لیا ۔حالانکہ میں اس خاندان میں حال ہی میںشامل ہوئی تھی مگر ان لوگوں کے پیار اور خلوص کی ڈور میں پوری طرح بندھ چکی تھی۔میں بار بار ان سے یہی کہتی کہ میں آپ لوگوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گی۔اپنی زندگی آپ لوگوں کی شفقت کے سائے میں گذار لوں گی ۔اب میں آپ لوگوں کی زندگی کا حصہ ہوں۔مجھے اپنے سے الگ مت کیجئے۔آپ لوگوں سے دورہو جائوں ، ایسا میں سوچ بھی نہیں سکتی۔مجھے احساس گناہ میں مبتلا مت کیجئے۔مگر محبت ، شفقت اور خلوص کی ایک بار پھر فتح ہوئی۔مجھے ان کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑا۔جمعہ کا دن مقرر ہوا۔ میرے امی ابو کو بھی بلایا گیا اور فریقین کی موجودگی میں وجاہت حسین نے میرے مہر کی رقم ادا کی اور ان کی والدہ نے ایک خوبصورت جویلری باکس امی کو تھمایایہ کہتے ہوئے کہ ہماری پیاری بیٹی حناکے لئے۔اس کے بعد وجاہت حسین نے مجھے طلاق دے کر نکاح کی گرہ تو کھول دی مگر اس خاندان کے ساتھ خلوص اور محبت کی گرہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ بندھ گئی۔
یہ نیا بھارت ہے۔ خدارا جاگ جائیے!
میرے واٹس ایپ پربرادرِ اکبر فرید احمدکی بھیجی ہوئی ایک پوسٹ کی مذکورہ سطر نے مجھے پوری پوسٹ پڑھنے اور اُس پوسٹ سے متعلق ویڈیو دیکھنے پر مجبور کر دیا ۔پوسٹ پڑھی اور ویڈیو دیکھی تو غصے اور شرم کی ملی جلی ایسی کیفیت طاری ہوئی جسے میں کوئی نام دینے سے قاصر ہوں ۔پوسٹ کی شروعات بھیجے گیےاس ویڈیو کے جملوں سے کی گئی تھی ،جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے ۔جملے نیوز چینل ’سی این این ‘ کی ڈیفینس ایڈیٹر شریا ڈھونڈھیال کے تھے ،اور یوں تھے:’’ایک صبح آپ جاگتی ہیں تو خود کو ’’آنلائن‘‘ سیل پر پاتی ہیں، یعنی آپ کی تصویر اور دوسری تفصیلات ، آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے چرا کر’’ سُلّی ڈیل‘‘ نام کے ویب سائٹ پر آپ کی نیلامی ہو رہی ہے اور لوگ بولیاں لگا رہے ہیں اور آپ پر غیر مہذبانہ تنقید اور تشریح کر رہے ہیں۔ سلّی مسلم عورتوں کو کہا جاتا ہے اور ڈیل بمعنی کاروبار ۔ یہ معاملہ اسی ہفتہ سیکڑوں مسلم لڑکیوں کے ساتھ ہوا تھا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے کون تھا لیکن صرف مسلم لڑکیاں ہی ٹارگٹ کی گئی تھیں تو یہ سوال بےمعنی ہو جاتا ہے۔‘‘ پوسٹ بھیج کر یہ کمنٹ کیا گیا تھا کہ ’’ بہتر ہوگا کہ ہماری بچیاں اب سوشل میڈیا کا کھیل بند کر دیں ورنہ مستقبل بڑا ہی بھیانک دِکھ رہا ہے۔‘‘ میں نے مذکورہ پوسٹ کے بعد ’’ سلّی ڈیل ‘‘ کی کچھ تفصیلات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ دہلی پولیس کے سائبر کرائم سیل نے اس معاملہ میں ایک ایف آئی آر درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے اور باقاعدہ اس کے لیے ایک ٹیم تیار کی گئی ہے۔ ایک اوپن سورس پلیٹ فارم GitHub پر مذکورہ ایپ پوسٹ کیا گیا تھا ،اور اس کے ذریعے مسلم لڑکیوں کی تصویروں پر،جو ٹوئٹر سے چوری کی گئی تھیں ،بولیاں لگائی جا رہی تھیں ۔کوئی ۸۰ لڑکیوں کی تصویریں لوڈ کی گئی تھیں ،جنہیں اپنی تصاویر کے چوری ہو جانے کی اور ایک ایپ پر ان تصویروں کی نیلامی کی کوئی خبر نہیں تھی۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ جون کے دوسرے ہفتے میں اس ایپ کو شروع کیا گیا اور ۴ سے ۵ جولائی کے درمیان اسے خوب دیکھا گیا ، جب اس تعلق سے ٹوئٹر پر کچھ ہلچل شروع ہوئی تو یہ ایپ لوگوں کی نظر میں آیا اور اس کے خلا ف شکایتیں کی گئیں ، ممبئی اور نوئیڈا میں بھی شکایات سامنے آئی ہیں ۔ حالانکہ مذکورہ پلیٹ فارم سے اس ایپ کو ہٹالیا گیا ہے مگر اُس پلیٹ فارم کی سی ای او ایریکا بریزیا نے یہ نہیں بتایا ہے کہ اس انتہائی قابلِ نفرت ایپ کی ہوسٹنگ کے پیچھے کون ہے؟ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پورے بیس دنوں تک یہ شرمناک ایپ چلتا رہا ،اسے بند کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی ۔اور اگر ’کے‘ نامی ایک خاتون نے ، اپنی تصویر پر بولی لگنے کی شرمناک حرکت خود نہ دیکھی ہوتی ،اور اس پر شدید ردِ عمل کا اظہار نہ کیا ہوتا تو شاید یہ مذموم ایپ سامنے آتا ہی نہیں۔ فاطمہ خان نام کی ایک جرنلسٹ اس ایپ پر اپنی تصویر دیکھ کر دنگ رہ گئی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنا سب ہوگیا کیا اس پر کوئی شدید ردعمل آیا ؟ وہ جو مسلم خواتین کے غم میں گھلے جا رہے تھے ،کیا انہوں نے اس معاملے کی کوئی خبر لی؟ خواتین کے قومی کمیشن نے خیر دہلی پولیس کو اس معاملہ میں نوٹس بھیج دیا ہے ،لیکن کیا ہمارے پی ایم نے ،جو مسلم خواتین کو طلاقِ ثلاثہ سے چھٹکارہ دلا کر مبارک بادیاں لوٹ چکے ہیں ،کسی طرح کے ردعمل کا اظہار کیا؟افسوس یہی ہے کہ کسی جانب سے کوئی آواز نہیں اٹھی ہے۔ مسلم خواتین کو ایک ایسے موقعے پر بےیار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے جب انہیں اس کی زیادہ ضرورت تھی ۔ یرقانیوں کو چھوڑیں اس معاملہ میں مسلم تنظیمیں اور جماعتیں بھی خاموش ہیں ،جبکہ یہ بہترین موقع جھوٹے کو پکڑ کر گھر تک پہنچانے کا ہے۔ بس ایک آخری بات: کیا یہ ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی تصویریں اور اپنے تعلق سے ہر طرح کی معلومات شیئر کی جائیں ؟ یہ سوال مسلم خواتین سےبھی ہے اور مسلم مردوں سے بھی ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
کیا کورونا کی معاشی مار کے سبب قربانی میں رعایت مل سکتی ہے؟- وقار احمد ندوی
ایک شخص نے خصی/بکرا پال رکھا ہے۔ عموما وہ دو بڑے جانور اور ایک بکرے کی قربانی کیا کرتا تھا، اب ویسے حالات نہیں رہے، بکرے کی قربانی اپنے نام سے کرے تو اہلیہ کی دل شکنی ہوتی ہے اور اسے بیچ کر بڑے جانور میں حصہ لے تو تین حصوں سے زیادہ کی گنجائش نہیں نکل رہی ہے، پھر ماں باپ میں سے کوئی ایک رہ جاتا ہے، اب ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ وہ قرض لے یا قیمتی اثاثہ بیچے، یہ ایک مثال ہے جسے سامنے رکھ کر زیر نظر مضمون لکھا گیا ہے۔ امید ہے لائقِ عمل نہیں تو کم از کم قابلِ غور وفکر ضرور سمجھا جائے گا۔
اہل سنت کے اکابر ائمہ میں بعض نے قربانی کو واجب قرار دیا اور بعض نے اسے سنت مؤکدہ ٹھہرایا، اہل تشیع اسے مستحب سمجھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قربانی کا عمل ثابت ہے اس میں کسی قسم کے شک شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذیشان بھی ثابت ہے کہ جو استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ میری عیدگاہ میں نہ آئے اور یہ بھی کہ قربانی کے ایام میں (قربانی کے جانور کا) خون بہانے کا عمل اللہ کو دوسرے تمام اعمال سے زیادہ پسند ہے،لہذا واجب، سنت یا مستحب جو بھی سمجھا جائے، قربانی ضرور کی جانی چاہیے. البتہ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دینی یا دنیاوی کوئی بھی قانون قابل عمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس میں صورتِ حالات کے مطابق استثنائی شقیں شامل نہ کی جائیں۔
کلمہ طیبہ اصل الاصول ہے لیکن جان بچانے کے لیے اس کا انکار جائز ہے، نمازیں بعض حالات میں معاف ہیں اور بعض میں ان کی قضا ہے، روزے کی قضا ہے اور بعض حالات میں ان کا فدیہ ہے، حج بعض حالات میں منسوخ بھی ہوتے ہیں اور بعض وقت "حج بدل” بھی ہوتا ہے، اسی طرح زکات میں بھی تقدیم وتاخیر کی گنجائش ہے۔ یہ ارکان اسلام کی استثنائی صورتوں کا اجمالی بیان تھا۔ دوسری طرف خنزیر کا گوشت اور شراب کا حرام ہونا قرآن سے ثابت ہے، لیکن شدید مجبوری کی حالت میں جان بچانے کے لیے بقدر ضرورت ان کا کھانا اور پینا بھی جائز ہے۔
فرائض اور محرمات کے قوانین میں استثنا ہے تو یقینا قربانی کے احکام میں بھی ہونا چاہیے، ضرور ہے۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ حالات اچھے نہ ہوں تو قربانی کی ہی نہ جائے، ایسی صورت میں بات ہی ختم ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ بھی بعض صورتیں ہو سکتی ہیں لیکن علما اپنے فقہی مسلک کے تحت مجبور ہیں لہذا وہ بتاتے نہیں اور عوام کو دین کی باتوں میں نہ رغبت ہے اور نہ ہی فرصت،لہذا وہ جاننا ہی نہیں چاہتے اور بسا اوقات ان کی سماجی شان وشوکت اور شہرت طلب طبیعت انہیں قربانی کرنے پر مجبور کرتی ہے، خواہ مقروض ہی کیوں نہ ہو جائیں۔
کورونا نے معاشی طور پر سماج کی کمر توڑ دی ہے، چھوٹے کارخانے بند ہو چکے ہیں، لاکھوں جوان اور نوجوان بے روزگار ہو کر شہروں سے گاؤں کو لوٹ چکے ہیں، ضروریات زندگی انہیں مقروض کرتی جا رہی ہے، اس کے باوجود انہیں حدیث سنائی جا رہی ہوگی کہ "جو استطاعت رکھتے ہوئے قربانی نہیں کرتا وہ عیدگاہ میں نہ آئے” اور "قربانی کے ایام میں خون بہانے کا عمل اللہ کو تمام دوسرے اعمال سے زیادہ پسند ہے”۔ استطاعت کی تشریح میں جمعہ کے خطیب کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ قرض لے کر شادی بیاہ کر سکتے ہیں، گھر بنا سکتے ہیں اور دوسرے کام کر سکتے ہیں تو قربانی کیوں نہیں کر سکتے. عجیب منطق ہے۔ ان سے کون پوچھے کہ کس خدا نے کہا ہے کہ قرض لے کر مذکورہ سارے کام کرو! غلطی یا مجبوری کے تحت کیے جانے والے دنیاوی کاموں پر دینی مسائل کو قیاس کرنے اور منبر ومحراب سے اس کا اعلان کرنے سے پہلے احادیث اور اعمال رسول کو دیکھ لیا جائے تو اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیان سے بچا جا سکتا ہے۔
عبد اللہ بن عباس، ابو ہریرہ، حذیفہ، عبد اللہ بن ھشام، رسول اللہ کے آزاد کردہ غلام ابو رافع، جابر بن عبد اللہ، ابو الدرداء، ابو سعید، انس بن مالک اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہم اجمعین، یہ وہ اصحاب رسول علیہ الصلوات والتسلیمات ہیں جنہوں نے بعض الفاظ کے اختلاف کے ساتھ حدیثیں بیان کی ہیں جن کا مفہوم ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنبے کی قربانی کی؛ ایک اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے ان تمام افراد کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہ کی ہو۔
چھوٹے جانوروں میں ایک حصہ اور بڑے جانوروں میں سات حصوں کے ہونے کی احادیث بھی ہیں جن سے انکار نا ممکن ہے، معاملہ حسب حال تعمیل اور تطبیق کا ہے کہ کس صورت حال میں کس پر عمل کیا جائے۔ موجودہ حالات میں مسئلہ کی تفہیم اور تعمیل یہ ہونی چاہیے کہ جو لوگ اب بھی خوش حال ہیں وہ حسب سابق ایک چھوٹا جانور ایک شخص کے نام سے کریں اور بڑے جانور کے سات حصے سات لوگوں کے نام سے منسوب کریں اور جو لوگ تنگ دستی کا شکار ہیں وہ ایک چھوٹے جانور کو پورے خاندان کی طرف سے اللہ کے نام قربان کر دیں۔
امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ابو اسد سلمی کی روایت کردہ ایک حدیث نقل کی ہے۔ راوی کے دادا اور دوسرے پانچ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بڑے جانور کی قربانی میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سب لوگوں نے ایک ایک درہم جمع کیا اور سات درہم میں ایک جانور خریدا اور قربان کیا گیا۔ ان لوگوں نے کہا یا رسول اللہ بہت مہنگا پڑا تو آپ نے فرمایا مہنگا اور موٹا جانور قربانی کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ حدیبیہ کے مقام پر بھی بڑے جانور میں سات صحابہ کے شامل کیے جانے کی بابت ایک حدیث موجود ہے۔ ان دونوں حدیثوں سے یہ پیغام تو ضرور ملتا ہے کہ خاندان کے نمائندہ شخص نے اپنے نام سے بڑے جانور میں ایک حصہ کی قربانی کی لیکن یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ ان صحابہ نے اپنے اہل وعیال کے نام سے بھی قربانی کی تھی یا نہیں۔ ہاں ایک حدیث ایسی بھی ملتی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے نام ایک بڑے جانور کی قربانی دی تھی۔ اس حدیث میں یہ واضح نہیں ہے کہ کتنی زوجات کے نام اس میں شامل تھے، سب کے تھے یا صرف سات کے، سات کے تھے تو قربانی میں کن کے نام شامل تھے اور کن کے نہیں۔
ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک دنبہ اپنی امت کے نام اور دوسرا اپنے اہل وعیال کے نام قربان کر دیا تو اس کے بعد میں کئی سال بنو ہاشم کے درمیان رہا اور وہ لوگ قربانی نہیں کرتے تھے، کہتے تھے کہ رسول نے ہم لوگوں کی طرف سے قربانی کر دی ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ابو بکر اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما پابندی سے ہر سال قربانی نہیں کیا کرتے تھے کہ لوگ اسے فرض ہی نہ جان لیں۔
اتنی تفصیل میں جانے کا مطلب کوئی حتمی رائے دینا یا قطعی فیصلہ صادر کرنا نہیں ہے، کیوں کہ یہ میرا منصب ہی نہیں ہے۔ صرف یہ جتانا مقصود ہے کہ مسلمان جتنا جوش وخروش دکھاتے ہیں اور حالات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مقروض ہو کر بھی بہر حال شان وشوکت کے ساتھ قربانی کا مظاہرہ ضروری سمجھتے ہیں ایسے میں علما وخطبا کو اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے اور عوام کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی ضرور کرنی چاہیے۔
حنفیت، شافعیت، مالکیت اور حنبلیت کے برحق ہونے کی بابت علما اور اساتذہ جب بات کرتے ہیں تو یہ ضرور بتاتے ہیں کہ ان چاروں مسلک کے موجود ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ رسول کی کوئی سنت نہیں چھوٹتی، ہر ایک سنت پر ان چاروں مسلک میں سے کسی نہ کسی میں عمل ہو ہی جاتا ہے. ہمیں یہ بات اچھی لگتی ہے۔ یہ بھی اچھا لگتا ہے کہ ایک خطہ کے لوگ اگر حنفی ہیں تو وہ حنفیت ہی کو اپنائے رہیں، لیکن یہ بات بہت بری لگتی ہے کہ ہنگامی/ایمرجنسی صورتِ حال میں بھی مشکلات کے باوجود حنفیت یا کسی بھی فقہی مسلک سے چمٹے رہیں جبکہ رسولِ رحمت کی صحیح حدیث اور ان کا عمل ہماری راحت رسانی کے لیے موجود ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "دین آسان ہے” اور "آسانیاں پیدا کرو اور مشکلات سے بچو”. کیا ہی بہتر ہو اگر ہم کبھی کبھی ان سنتوں پر بھی عمل کر لیں جن پر اب تک نہیں کر سکے ہیں۔
فقہ کی کتابوں میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں فقہائے احناف نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فتوی واجتہاد کو چھوڑ کر امام ابو یوسف اور امام محمد کے اجتہاد کو اپنایا ہے. اگر بعض حالات میں ایک بڑے امام کے قول کو چھوڑ کر دوسرے چھوٹے امام کے قول کو اپنایا جا سکتا ہے تو مخصوص ہنگامی حالات میں امام کے اجتہاد کو چھوڑ کر رسول کی حدیث کو کیوں نہیں اپنایا جا سکتا! یا بالفاظ دگر رسول کی ایک حدیث/سنت پر عمل کو وقتی طور پر چھوڑ کر دوسری حدیث/سنت پر عمل کیوں نہیں کیا جا سکتا!
وبا اور قحط کے دور میں، بے روزگاری اور تنگ دستی کے حالات میں قربانی کے قانون میں احادیث کے مطابق استثنائی صورت یہ نکل سکتی ہے کہ ایک بکرا یا بکری پورے خاندان کے لیے کافی قرار دیا جائے اور بڑے جانور میں ایک حصہ بھی کافی سمجھا جائے۔ یہ فتوی نہیں، دعوت غور وفکر ہے. وما توفیقی الا باللہ
شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی، دہلی
وقت کانہ تو کوئی ٹھوس جسم ہے نہ ظاہری شکل،نہ اس کے آغاز اور انجام کی خبر ہے اور نہ ہی اس کی عمر کا اب تک کوئی صحیح تعین ہوسکاہے۔چاہے تو یوں کہہ لیں کہ یہ کوئی مجسم نہیں مجرد شے ہے۔ بالکل انسانی جذبات و احساسات کی طرح مجرد۔ سو، وقت کودیکھنے ، جاننے یا سمجھنے کے لیے ہم بہر طور خارجی وسائل کے محتاج ہیں۔ یایوں کہہ لیں کہ وقت اپنے اظہار کے لیے دوسری اشیا مثلاً سورج چاند کی گردش اوروقت کے پیمائشی آلات و اصطلاحات کا حاجت مندہے ،جیسے جذبات و احساسات کو دیکھنے ، جاننے اور سمجھنے کے لیے ہم ٹھوس اور واضح چیزوں کے محتاج ہیں۔مثلاً محبت کو مسکراہٹ، خوشی کو آنکھوں کی چمک،نفرت کو ناک چڑھانے ،غصے کو دانت پیسنے اور فکر کو بھویں سکیڑنے سے ہم دیکھ، جان اور سمجھ سکتے ہیں۔یا پھر ان تمام جذبات و احساسات کی شناخت جسمانی حرکتوں کے علاوہ ہم گفتگو کے مختلف لہجوں سے کرتے ہیں۔ سو وقت کو بھی ہم تغیراحوال یا تبدیلی ِحالات سے ہی دیکھ، جان یا محسوس کر سکتے ہیں۔
’وقت‘کے تعلق سے سائنس جو بھی کہے ،لیکن کیا ایسا نہیں لگتا کہ خود وقت میں نہ تو کوئی حرکت ہوتی ہے ، نہ کوئی تبدیلی اور نہ ہی اس میں سورج ،چاند، پانی اور ہواکی مانند کسی طرح کی گردش، روانی یاکسی طرح کا بہاؤ ہے۔یہ تو ایک ٹھہری ہوئی ، شے ،ایک تصور یا محض خلا ، یا صرف خیال ہے۔وقت نہیں گزتا عمریں گزرتی ہیں،وقت گردش نہیں کرتا سیارے گردش کرتے ہیں،جن کی پیمائش کے لیے ہم نے سکنڈ، منٹ، گھنٹے ، دن رات، ہفتے ، مہینے ، سال ،صدی وغیرہ کی یونٹس اختراع کیں۔وقت برا نہیں ہوتا ۔سیاسی، سماجی اور معاشی نظام برا ہوتا ہے ،اور اس کے نتیجے میں انسانی اور معاشرتی حالات برے ہوتے۔ وقت اچھا بھی نہیں ہوتا ، یہ توآپ کی خواہشات و ضروریات کی تکمیل اور جسمانی اور روحانی تسکین کا احساس ہوتا ہے جسے آپ اچھے وقت سے تعبیر کرتے ہیں ۔’وقت‘کی کوئی متعین رفتار بھی نہیں ہوتی کہ :انتظار کرنے والوں کے لیے وقت انتہائی سست روہوتا ہے ، دہشت زدہ لوگوں کے لیے بے حد تیز رفتار،غم کی کیفیت میں وقت کاعرصہ اتناطویل ہوتا ہے کہ کاٹے نہیں کٹتا،اور خوشی کی حالت میں وقت کا وقفہ ایسامختصرکہ اس کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ البتہ محبت کرنے والوں کے لیے وقت کی تمام حد بندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وقت کے جو لمحات آپ کے لیے بہت اچھے ہوتے ہیں ٹھیک وہی لمحات بعض لوگوں کے لیے بے حد برے ہوتے ہیں۔ اور کیا یہ بھی درست نہیں ہے کہ جس لمحے سورج ہمارے ملک میں ضیا پاشیاں کر کے دن کا اعلان کررہا ہوتا ہے ٹھیک اسی لمحے کسی اور ملک میںرات کی تاریکی سایہ فگن ہورہی ہوتی ہے؟ تو پھر یہ صفات’ وقت ‘کی کہاں؟نظام شمسی ، انسانی فہم، یا دوسری اشیا ، یا حالات کی ہوئیں ۔ اسی طرح یہ کیا ضرور ہے کہ وقت ماضی سے مستقبل کا سفر کر رہا ہے؟کیا عجب کہ حال سے ماضی کا سفر کررہا ہو ،یا’وقت‘ ایک دائرے میں گھوم رہا ہو۔یہ تو ہم نے جاندار کی آگے بڑھتی عمروں اور نباتات وجمادات کی نشو ونما سے قیاس کیا ہے ۔چونکہ ہم بوڑھاپے سے جوانی اور جوانی سے ، بچپن کی طرف نہیں لوٹ سکتے ، کوئی پیڑ پیچھے جاکر پودا اور پھر اکھوا نہیں بن سکتا ،اس سے یہ نتیجہ نکالا گیاکہ وقت پیچھے نہیں، آگے کی طرف بڑھ رہاہے ۔وقت کہاں آگے کی طرف بڑھ رہا ہے ؟ وقت توٹھہرا ہوا ہے،آگے تو حیوانات، نباتات اور جمادات کی عمریں اپنے فطری نظام قانون کے تحت بڑھ رہی ہیں۔بالکل ویسے ہی جیسے تیز رفتار ٹرین کی کھڑکی سے لگ کر باہر کا منظر دیکھیے تو پیڑ پودے بھاگتے اور آس پاس کے کھیت گردش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جب کہ وہ سب تو ٹھہرے ہوئے ہوتے ہیں، اپنی اپنی جگہ ساکت و جامدہوتے ہیں،بھاگتی تو صرف ٹرین ہے اور اس میں بیٹھا ہوابھاگتے ناچتے مناظر دیکھنے والاشخص۔توثابت یہ ہوا کہ ’وقت‘ کے تصور میں اتنی لچک ہے کہ ’وقت‘ کے فلسفیانہ ،مذہبی اور سائنسی تصور کی طرح ’وقت‘کا ادبی تصور بھی تشکیل دیا جانا ممکن ہے اوراس حوالے سے اس پر گفتگو کی بہر طور گنجائش موجود ہے ۔
تخلیق کاروں سے بھی کہا جاتا ہے کہ سائنس کے تمام فرمودات پر ایمان لائیے ،جیسے سائنسی ایجادات پر یقین کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ بیشترسائنسی ایجادات دراصل ہمارے شاعروادیب کے تخیلات وتصورات اور ان کے خواب وخیال کی مادی تعبیریں ہیں ۔ یقین نہ آئے توتمام ملکوں کی قدیم داستانیں، تمثیلیں ،شاعری اوربعد کے سائنسی ،جاسوسی اور اسراری ادب پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ تب شاید آپ کو یقین کی اس منزل پر پہنچنے میں دیر نہ لگے کہ پہلے ادب نئی نئی دنیاؤں کی تعمیر وتخریب اور انسانی آسائش ومسرت اور حصول قدرت و تسخیر کے خواب بُنتا، دیکھتااور دکھاتاہے اوربعد میں سائنس ان خوابوں کو عملی تعبیروںکی شکل میں ڈھالتی ہے۔
وقت کے بارے میں سائنسدانوں کے ایک بڑے طبقے خاص طورسے نیوٹن کا نظریہ ہے کہ یہ ماضی سے مستقبل کی طرف رواں ہے۔بدھ ازم اورہندوازم میں اسے کال چکر یا پہیے کی طرح سے ایک دائرے میں گھومتا ہوا بتایا گیا ہے۔قران میں وقت کا تصوراس لحاظ سے بے حد دلچسپ اور فکر انگیزہے کہ قران وقت کے زمانی تصور کے بجائے وقت کے یونیورسل تصور کا نظریہ پیش کرتا ہے۔یا یوں کہیے کہ یہ ماضی کو ماضی نہیں، حال کی صورت دیکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ مثلاًقران میں جگہ جگہ یوں مخاطب کیاگیا ہے :اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم کو۔۔۔ موسیٰ کے حوالے سے کہتا ہے اور یادکرو جب سمندر کوہم نے پھاڑ دیا۔۔۔ ، ’اور اس وقت کو یادکرو جب ہم نے تمھیں فرعون کے لوگوں سے رہائی دی۔۔ ‘ ، یہاں تک کہ بنی نوع انسان کی تخلیق سے بھی پہلے کے واقعے کو بھی اس طرح زمانۂ حال کا حصہ بناتا ہے:’’ایک جگہ مذکور ہے :’ اور جب انھیں ہماری آیتیں سنائی جاتیں ،تو کہتے پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔۔‘۔گویا قران عہد عتیق یا ماضی بعید کو قدیم واقعات کی طرح نہیں ، بلکہ زندہ اور موجود حقیقت کے طور پر بیان کرتا ہے۔ مذہبی نقطۂ نظر سے الگ اس لحاظ سے قران کا مطالعہ اہم اور دلچسپ ہے کہ اس میں مختلف مذاہب ،انبیاء ورسل، مختلف اقوام، قدیم تہذیبوں،مختلف ممالک اور دنیا کے اہم واقعات،کا بیان ،پھر رحم دل اور جابر بادشاہوں کا ذکر،خود سر جاہلوں اور باوقار عالموں کے تذکرے ، جنگ و امن کے مناظر،حسن و عشق کے ذکر ،حیرت انگیز قصے ، خیر وشر کے معرکے، انسانی نفسیات ،ماضی کی بیتی باتیں،حال کی شہادتیں اور مستقبل کی ان دیکھی دنیا ؤںکی عکاسی تشبیہات و استعارات اور تمثیل وعلامات کے سہارے بے حد خوبصورت ادبی انداز اور تخلیقی پیرایے میں موجود ہے۔ اس طور کہ ان میں تحیر، تجسس، مسرت اور بصیرت ؛سبھی طرح کے لٹریری عناصر شامل ہیں۔ان کے علاوہ بہتر معاشرے کی تشکیل ، خوبصورت دنیا کی تعمیر،اچھائی کی تلقین ،اخلاق کی تطہیر، جذبات کاکیتھارسس (تزکیہ)، زندگی کانقطۂ نظر یا کہیے فلسفۂ حیات بھی ہے ۔تو کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ فکشن ، یا کہیے افسانوی ادب کا پورا فکری نظام اور فنی اسٹرکچر بھی بالکل اس آسمانی کتاب جیسا ہی ہے؟
بہر حال ادب میں بھی سائنس ،مذاہب اور فلسفے کی طرح وقت کو دیکھنے ، سمجھنے اور برتنے کااپنا ایک طریقۂ کار ہے۔یہ تسلیم کہ اردوشاعری میں وقت کے برتاؤ میں کوئی نیاپن اور تصور میں کوئی خاص تنوع نہیں ہے۔ سوائے علامہ اقبال کے جنھوں نے اپنی شاعری میں وقت کا ایک اہم اور مستقل نظریہ پیش کیاہے، جو سائنس اور مذہب سے قطعاًمختلف نہیں ہے ۔ مگر یقین کیجیے کہ افسانوی ادب میں’ وقت‘ کو مختلف رنگوں میں دیکھا، برتا اور متعدد تجربات سے گزارا گیاہے۔ سو، پیش نظرمضمون میں بحث صرف افسانوی ادب کے تعلق سے ہی مقصود ہے۔
ادب کی دو اصناف ایسی ہیں جن میں’ وقت‘ کاتصور زمینی وقت سے بے حد مختلف ہے۔ ان اصناف کوہماری تنقید نے کبھی سراہا،کبھی رد کیا،کبھی جھوٹ اور لغو قرار دیااور بالآخر انھیں اپنے زمانے کی سماجی صداقت اور معاشرتی عقائد کا بیان ہونے کے باعث حقیقت کی سند دی اور انھیں ادبی روایت کی مہتم بالشان اصناف قرار دیا ۔یعنی:ایک داستان،جس میں ایک ہی انسانی زندگی میں’ وقت کا گزران ‘ مہینوں اور برسوں میں نہیں بسا اوقات صدیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔دوسری جاتک کتھائیں جن میں(discourse time)یعنی متن کا عرصہ توگھنٹوں اور منٹوں کا ہوتا ہے لیکن بیانِ قصہ کا وقت (story time)صدیوں بلکہ لاکھوں برس کاہوتا ہے ۔ناولوں میں بھی وقت صدیوں کو محیط ہوتا ہے جیسے ’آگ کا دریا‘۔ لیکن اس میں یہ منطقی جواز موجود ہے کہ یہ وقت ایک ہی انسانی زندگی میں نہیں گزرتا ،بلکہ ہر زمانے میں کردار بدلتے رہتے ہیں۔ ویسے بالعموم ناول ایک انسانی زندگی، ایک عہد یا ایک سے زیادہ ادوار پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔ افسانے میں وقت کا احاطہ ناول کے مقابلے میںکم ہوتا ہے۔ اور’ وقت‘ کا سب سے کم عرصہ حکایت میں ہوتا ہے ۔اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہوکہ حکایت میںstory time، ,discourse time اور narrating time یعنی حکایت میں بیان ہوئے عرصے ،اس کے متن کا وقفہ اور حکایت بیان کرنے کا وقت تقریباً برابر ہوتا ہے۔
قدیم داستانوں میں’وقت ‘لازمی طور پر ماضی سے شروع ہوکربالعموم ماضی میں ہی ختم ہوتا ہے ۔ زمانۂ حال اور مستقبل داستان کے بیانیے میں شامل نہیں ہوتے۔ بعض صورتوں میں داستان کے آغاز اور انجام کا وقت تو چند لمحوں کی صور ت زمانۂ حال کا ہوتا ہے( مثلا ً’باغ و بہار‘میں)بقیہ صدیوں کو محیط وقت ماضی کا ہوتا ہے۔ کلاسیکی ناولوں میں بھی وقت بالعمو م ماضی سے شروع ہوکر سیدھے خطوط پر چلتاہے ۔ٹریجڈی یا المیہ ناول میں ’وقت‘ بہرطور خوش وقتی سے شروع ہوکر برے وقت پر ختم ہوتا ہے ۔ اسی طرح طربیہ ناول میں بھی ’وقت‘ کاایک طویل عرصہ ہوتا ہے ۔ ان میں المیہ کی طرح وقت کے آغاز کا اچھا ہونا کوئی لازمی شرط نہیں ہے ، البتہ وقت کا اختتام لازمی طور پر خوشیوں سے لبریز اور مسرت بھرا ہوتا ہے ۔ ان سبھی میں ’وقت‘ کسی عہد، کسی فکر ، کسی زندگی یا تاریخ کے کئی یا محض ایک حصے پرہی مشتمل ہوتا ہے۔اس کے برعکس جاسوسی اور اسراری ناولوں میں بالعموم ’وقت‘ کا سفر یو شیپ‘(U shape)میں ہوتا ہے ۔یعنی ’وقت‘ حال سے شروع ہوکر ماضی کی طرف سفر کرتا ہوا پھر حال میں اسی جگہ لوٹ آتا ہے ، جہاں سے وہ شروع ہوا تھا۔اور کبھی ’وقت‘ کا سفر ماضی قریب سے ماضی بعید کی طرف،اور پھر ماضی بعید سے ماضی قریب ہوتا ہوا حال میں آکر ختم ہوتا ہے ۔ وقت کا یہ انوکھا سفر دراصل ناول کے مرکزی ناخوشگوار یا انہونی حادثے یا واقعے کے اسباب معلوم کرنے اور اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے ہوتا ہے ۔اس کی عمدہ مثالیں ابن صفی اور اگاتھا کرسٹی کے جاسوسی ناول اور ڈسکوری اور ہسٹری چینل پر پیش کیے گئے بہت سے ڈِڈیکٹیو، کریمنل اور تاریخی ڈسکورس یا narrative ہیں۔
جدید ادبی فکشن یا یوں کہیے ترقی پسند تحریک کے آخری زمانے سے اب تک لکھے جارہے متعدد ناولوں اور افسانوں میں وقت کے سفر کی کوئی سمت ،کوئی ترتیب، یاکوئی منزل متعین نہیں رہی اور نہ ہی وقت کے آغاز اور اختتام کے حتمی نشان ، (exact starting point)کااظہار ہوتا ہے۔ ایسی تخلیقات میں ’وقت‘ عمودی یا افقی سفر کے بجائے ایک دائرے کی شکل میں گردش کرتا ہے۔ مثلاً غلام عباس کے افسانے ’آنندی‘ میں’ وقت‘ حال سے شروع ہوکرایک زمانی عرصہ طے کرتا ہوا پھر وہیں آپہنچتا ہے جہاں ، یا جس جگہ سے شروع ہوا تھا۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں پہنچنے کے بعد وقت ٹھہرتا یا ختم نہیں ہوتا بلکہ پھر اسی دائرے میں ایک بار اور اپنا سفر شروع کردیتا ہے ۔یعنی کہانی تو ختم ہوجاتی ہے، مگر کہانی میں ’وقت‘ نہیں ختم ہوتا۔ گبرئیل گارسیا مارکیز کے ناول ’One hundred years of solitude‘ میں بھی’وقت‘ ایک دائرے میں گھومتا اور سیال کی شکل میں بہتا نظر آتا ہے ۔ ’آنندی ‘ میں کہانی کا آغاز بلدیہ کے جلسے سے ہوتا ہے جس میں یہ بحث ہورہی ہوتی ہے کہ طوائفوں کو شہر سے نکال کر کہیں دور بسایا جائے ۔ چنانچے انھیں شہر سے دور بسایا جاتا ہے ۔لیکن رفتہ رفتہ ان طوائفوں کے غیر آباد علاقے کے گردپھر ایک نیا شہر بس جاتا ہے ۔کہانی کا اختتام یوں ہوتا ہے کہ اس نئے شہر میں بھی بلدیہ کا اجلاس ہورہا ہے جس میں یہ تجویز پاس ہوتی ہے کہ طوائفوں کا شہر کے بیچ رہنا اخلاقی اعتبار سے درست نہیں سو، انھیں شہر سے دور بسایا جائے ۔ ’One hundred years of solitude‘ میں شہر ایک ہی ہوتا ہے لیکن بوئنڈیا خاندان کی بعد والی نسلیں بھی انھی حالات سے گزرتی ہوئی وہیں آپہنچتی ہیںجن حالات سے خاندان کے پہلے افرادگزرتے ہیں ۔
کچھ کہانیوں میں وقت آگے اور پیچھے ایک ساتھ سفر کرتا ہے۔ ایک ہی وقت میں مخالف سمتوں میں گزرتی ہوئی دو ٹرینوں کی مانند۔ مثلاًممتاز شیریں کا افسانہ ’آئینہ جس ‘ میں واقعات بیک وقت زمانۂ حال میں بھی آگے بڑھ رہا ہے اور ماضی میں بھی۔لیکن اس کی سب سے اچھی مثال 1921میں لکھی ہوئی ،ایف۔اسکاٹ فٹز جیرلڈ کی بے حد عمدہ کہانیThe curious case of Benjamin Buttonہے۔جس میں پیدائش کے وقت مرکزی کردارکی عمر تقریباً ستر برس ہوتی ہے ۔اور جوں جوں وقت آگے بڑھتا ہے ، وہ اپنی عمر کی منزلوں میں پیچھے کی طرف لوٹتا ہے۔وہ بوڑھا سے جوان، جوان سے نوجوان، نوجوان سے لڑکا،لڑکا سے بچہ ، بچہ سے شیر خوار اور بالآخر شیر خوار ی کی عمر میں آکر ایک دن مر جاتا ہے۔ اس کے پیدا ہونے کے دس بارہ برس بعدسات آٹھ سالہ ڈیزی نام کی ایک لڑکی اس سے محبت کرنے لگ جاتی ہے۔یوں جانیے کہ اس وقت ڈیزی کی عمر سات آٹھ سال اور بنجامن کی پیچھے کی طرف لوٹتی ہوئی عمر ساٹھ سے زیادہ تھی۔اور کہانی کے آخر میں بنجامن اپنی اسی محبوبہ کی گود میں،جواَب ستر سال کی بوڑھی ہوچکی ہے بنجامن بالکل نو مولود بچے کی طرح دم توڑدیتا ہے۔ یعنی بنجامن کی زندگی کا ’وقت‘ باقی تمام لوگوں کے زمانی’وقت‘ کے مخالف سمت میں سفر کرتا ہے۔یعنی زمانۂ حال سے زمانۂ ماضی کی طرف۔ یوں اس کہانی میں ’وقت‘ بیک وقت دو متضادسمتوں ؛حال سے مستقبل ،اور حال سے ماضی کی جانب سفر کرتا ہے۔ 2008میں اسی نام سے اس کہانی پر بے حد خوبصورت فلم بھی بنائی گئی تھی جس نے متعدد انعامات حاصل کیے۔
کبھی ناول یا افسانے کے بیانیے میں’ وقت ‘ماضی سے حال ،یا حال سے ماضی کی طرف سفر کرنے کے بجائے حدودِ وقت کے درمیانی حصے سے شروع ہوتا ہے ۔جیسے عبد اللہ حسین کے ناول ’’قید‘‘ کی ابتدا ’وقت‘ کے بالکل درمیان میں وہاں سے ہوتی ہے، جہاں ناول کا کردار اپنے باپ شاہ صاحب کے کمرے میں جھانکتا ہے۔ ناول کا آغاز راوی کے اس جملے سے ہوتا ہے’’یہ منظر اس نے آج سے انیس سال پہلے بھی دیکھا تھا۔۔۔‘‘۔ کرشن چندر کے ناول ’شکست ‘ کا آغازبھی ناول کے ہیرو کی موت سے ایک دن پہلے سے ہوتا ہوا ماضی کی جانب اس کی انقلابی تحریک، جوانی اور بچپن تک جا پہنچتا ہے۔ بعض میں درمیانی وقفے سے شروع ہوکرآگے کی طرف بڑھتا اور پھر پیچھے کی جانب آجاتا ہے۔بعض میں اس کے برعکس ہوتا ہے یعنی درمیان سے شروع ہوکرپیچھے کی جانب جاتا اور پھر جس وقت سے شروع ہوا تھا اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے، یا جیسے قرۃ العین حیدر کے افسانے ’روشنی کی رفتار‘ میں۔جس میں ’وقت‘کا سفر حال سے ماضی بعید،ماضی بعید سے اس کے مستقبل یعنی حال ،اورپھر حال سے مستقبل کا سفر شروع ہوتا ہے۔سائنسی فکشن سے قطع نظر اردوکے ادبی یا سنجیدہ فکشن میں زمانی وقت سے کروڑوں میل دور ہر طرح کی پیمائش سے آزاد مستقبل کے وقت میں پہچنے کا ذکر ذرا کم ہواہے، لیکن ہوا ہے ۔’وقت‘ کے اس نوع کا سفر ایک تو اردو کے پہلے ہی ناول ’توبۃ النصوح‘میں ہے ، جب’ نصوح ‘عالم بالا میں حشرونشر اورروز جزا کا مشاہدہ کرتا اور بالآخر واپس اپنی دنیا میں آجاتاہے، جہاں سے اس کی قلب ماہیت ہوتی ہے۔ دوسرا ابھی حال ہی میں پاکستان سے شائع ہونے ناول’مابین‘ میں وقت اور مکان دونوں ہی ہماری اس دنیا کے نہیں لاکھوں برس بعد قائم ہونے والی جنت کے ہیں۔البتہ انگریزی اور اردو کے سائنس فکشن ’وقت‘ کے سائنسی ، مذہبی اور فلسفیانہ تصور کی توڑ پھوڑاور اس کی ترمیم و تنسیخ سے بھرے پڑے ہیں۔ اس حوالے سے اردومیں انور سراج کے ’نیلی دنیا‘ ، کالی دنیا‘ ،’خوفناک جزیرے‘ اور اظہار اثر کے متعدد افسانے موجود ہیں۔
فکشن میں بعض مرتبہ ’خارجی وقت‘ اور ’ داخلی و قت‘ ایک ساتھ سفر کرتے ہیں۔لیکن دونوں کی رفتار میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔یوں کہ’ خارجی وقت‘نظام شمسی کا پابند ہوتا ہے، اور’ داخلی وقت‘ زمانی وقت سے آزاد ،ادبی تصور ِوقت کا ماتحت ۔ مثلاً’’چیخوف کامشہور طویل مختصر افسانہ Steppe، کرشن چندر کا’’حسن اور حیوان‘‘ اور حسن عسکری کا’’چائے کی پیالی‘‘ اسی نوعیت کے افسانے ہیں جن میں زمانی وقت یا کہیے discourse time کچھ منٹوں میں ایک فاصلہ طے کرنے کا ہے، مگر فکشن کاوقت یا story timeبرسوں کو محیط ہے ۔کبھی فکشن میں اتحاد زمان و مکاں کو ضروری قرار دیا جاتا تھا۔ فکشن کے کردار کاایک خاص وقت میں ایک ہی مقام پر ہونا لازمی تھا، لیکن شعور کی رو (stream of consciousness)کی دریافت کے بعد لازمیت کا یہ بندھن ٹوٹ چکا ہے۔ اب فکشن میں کرادار ایک ہی مقام پر رہتے ہوئے بیک وقت کئی زمانوں ،ماضی، حال اورمستقبل ( یعنی وقت کے تینوں زمانوں میں بیک وقت ) میں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح وہ ایک ہی وقت میں، یا وقت کے ایک ہی لمحے میں رہتے ہوئے بیک وقت متعدد مقامات پربھی موجود ہوسکتا ہے ۔ یعنی’ وقت ‘ منٹوں ، گھنٹو ، دنوں، مہینوں اور برسوں کی یونٹ میں نہیں گزرتا بلکہ وہ اپنی مکمل اور محیط شکل میں موجودہوتا ہے اور اس کے رفتار کی کوئی سمت متعین نہیں ہوتی ۔ مثلاً ’’یولی سس‘‘ کا ہیرو دوران ناول میں تو ڈبلن میں مقیم ہے لیکن ڈبلن کی گلیوں میں چلتے چلتے اس کا ذہن ماضی کی طرف چلا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مقام بھی بدل جاتا ہے۔ وقت ماضی حال اور مستقبل سب کچھ ہو سکتا ہے۔
فکشن میں وقت کا بہاؤ سائنس کے برخلاف حال سے مستقبل کی طرف ، یا بعض مذاہب اور فلسفے کی ماننددائری شکل کے برخلاف نہ تو گزرتا ہے ،نہ اس کی کوئی سمت ہوتی ہے، بلکہ ’وقت‘پوری طرح معلق ہوتا ہے ۔ اورزمانۂ ماضی،حال اور مستقبل سب ایک لمحے میں سمٹ آتا ہے ،یا کہیے وقت کے تمام زمانوں کا ادغام ہوجاتا ہے ، یا یوں کہہ لیجیے کہ وقت ٹھہر جاتا ہے ۔ اسلامی روایت میں اس کی عمدہ مثال وہ ہے جب حضورﷺ سفر معراج پر تشریف لے گئے تھے۔روایت یہ ہے کہ وہ گھر سے نکل کر مسجد اقصیٰ گئے ، وہاں تمام انبیاء کی امامت فرمائی ،پھر وہاں سے براق کے ذریعے ساتوں آسمان کی سیر کی ، خدائے قادر مطلق سے ہم کلام ہوئے اور جب واپس آکر مکان کے اندر تشریف لے جارہے تھے تو دیکھا کہ ؛ جاتے وقت دروازہ کھولنے کی وجہ سے جو کنڈی ہلی تھی وہ اب تک ہل رہی تھی اورجس بسترسے اٹھ کرتشریف لے گئے تھے وہ ابھی تک گرم تھا۔
فکشن میں اس کی مثال جیمس جوائس کا ناول ’یولیسس ‘ ہے اور اردو میں شعور کی رو میں لکھے ہوئے متعدد ناول اور افسانے ہیں۔مثلااحمد علی کاافسانہ ’برف کی سل‘ ، محمد منشا یادکا ’تماشہ‘ اورکئی دوسرے افسانے ہیں۔
یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ فکشن میں ’وقت‘ کی رفتار، سمت ،ترتیب اور وقفہ جو بھی ہو ،کہانی بہرصورت آگے کی طرف بڑھ رہی ہوتی ہے۔
سو، کہنے کی اجازت دیجیے کہ جس طرح سائنس، مذہب اور فلسفے کا ’وقت‘ کااپنااپنا تصور ہے ویسے ہی افسانوی ادب کا بھی ’وقت ‘ کا اپنا ایک تصور ہے۔یہ تو ممکن ہے کہ علامہ اقبال کے نظریہ ٔوقت سے لے کر موجودہ دور میں افسانے کے قاری کی فہم تک وقت کے سیال یا ساکن ہونے ، یا اس کی رفتار میں ندی جیسے بہاؤ یا تصویر کے سے ٹھہراؤ ، یااس کی حرکت کے عمودی یا دائروی گردش ہونے یا پھر اس کے آغاز اور اختتام پر جزوی یا نظریاتی اختلاف ہو،مگر یہ تسلیم کیجیے کہ ادب کا بھی وقت کااپنا ایک تصور ہے۔جس پر سوالات تو قائم کیے جا سکتے ہیں،اس کے تصوروقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا۔ گوکہ اس کے تعلق سے باضابطہ نظریہ سازی اوراس پرمزید مفصل ومنضبط گفتگو کی ضرورت ابھی باقی ہے-
دہلی ہائی کورٹ کے ذریعے یکساں سول کوڈ کی حمایت ناقابل قبول: پاپولر فرنٹ آف انڈیا
نئی دہلی:پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے سلام نے دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے مرکز کو یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے متعلق ضروری اقدامات کرنے کی دی گئی ہدایت کو سیاق سے باہر، ناپسندیدہ اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔یکساں سول کوڈ نے عرصہ دراز سے کافی زیادہ سیاسی بحث چھیڑ رکھی ہے، کیونکہ یہ اقلیتی حقوق بالخصوص اپنے علیٰحدہ قوانین کے ان کے حق سے متعلق معاملہ ہے۔ گرچہ سپریم کورٹ نے اس مسئلے پر کئی مرتبہ غور کیا اور مختلف باتوں کا اظہار کیا، لیکن یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کا حتمی فیصلہ کبھی نہیں لیا گیا۔ اس سال کے شروع میں، عدالت عظمیٰ نے بھارت میں مذہب سے ہٹ کر وراثت اور جانشینی کے قوانین پر مرکز سے جواب طلب کیا تھا اور اس معاملے میں بھی فیصلہ زیر التوا ہے۔بی جے پی کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتیں پرسنل لاز کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں جس سے یکساں سول کوڈ کی راہ ہموار ہوتی ہو، حتیٰ کہ سابقہ بی جے پی حکومتوں نے بھی اس پر کچھ نہیں کیا۔ لیکن بی جے پی اور ہندتوا سیاست میں اس کی شریک جماعتوں کے لئے یہ معاملہ ہمیشہ سے فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرکے اکثریتی طبقے کا ووٹ حاصل کرنے کا ایک آسان ہتھیار رہا ہے۔جب کبھی بی جے پی کو کسی قریبی انتخابی شکست کا احساس ہوتا ہے، وہ فوراً یکساں سول کوڈ کی ’ضرورت‘ اور مسلم پرسنل لا کے ’خطرے‘ جیسے مدفون منافرتی آلۂ کاروں کو کھود نکالنے کی حکمت عملی پر عمل شروع کر دیتی ہے۔ اب یوپی انتخابات کو دیکھتے ہوئے جو بی جے پی کے لئے بے حد اہم ہے، انہیں پھر سے اس کی ضرورت آن پڑی ہے تاکہ وہ مودی اور یوگی حکومتوں کی ناکامیوں پر پردہ ڈال سکیں۔یکساں سول کوڈ سے مراد کچھ ایسے مشترک قوانین کا مجموعہ ہے جو شادی، طلاق، گود لینے، وراثت اور جانشینی جیسے ذاتی معاملات کو ملک کے تمام شہریوں کے لئے بلاتفریق مذہب چلاتا ہے۔ موجودہ وقت میں، ان پہلؤوں کو الگ الگ مذاہب کے پیروکاروں کے لئے الگ الگ قوانین چلاتے ہیں اور یکساں سول کوڈ کا مقصد ان ذاتی قوانین کو ختم کرنا ہے۔دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ جدید ہندوستانی معاشرہ آہستہ آہستہ ’یکساں‘ بنتا جا رہا ہے، اور مذہب، قوم اور ذات کی ’روایتی رکاوٹیں‘ ختم ہو رہی ہیں، لہٰذا ان بدلتے نمونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یکساں سول کوڈ کی ضرورت ہے۔ اس استدلال کو مضحکہ خیز ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ موجودہ حکومت ’متفاوت‘ سے کہیں بڑھ کر ایک ایسا جدید ہندوستان بنا رہی ہے جو مذہب، قوم اور ذات کی بنیادوں پر بری طرح سے اور گہرائی تک تقسیم شدہ ہے۔او ایم اے سلام نے کہا کہ عدالت کے مشاہدات عارضی اور سیاق سے باہر ہیں، کیونکہ مینا برادری سے تعلق رکھنے والے فریقوں سے متعلق جسٹس پرتبھا ایم سنگھ کے سامنے پیش ہوئے معاملے پر ہندو میریج ایکٹ ۱۹۵۵ لاگو ہوتا ہے۔
نئی دہلی:اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے حال ہی میں مرکز کی نریندر مودی کی وزارت میں27 او بی سی چہروں کو شامل کرنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور وزیر اعظم مودی کے کام کا موازنہ رام منوہر لوہیا اور بابا سے کیا ہے۔پتہ نہیں ،تجزیہ کاراسے ذات پات کی سیاست یااس نظریہ کوفروغ دیناسمجھیں گے یانہیں۔سی ایم یوگی نے ایک کے بعد ایک کل پانچ ٹویٹس کیے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹویٹ کیا اور لکھا ہے کہ قابل احترام پی ایم مودی جی کی نئی کابینہ واقعی میں پورے بھارت کی نمائندگی کرتی ہے۔ عظیم رہنما ، خاص طور پر بابا صاحب اور لوہیا جی جیسے مفکرین نے ملک میں نمائندگی اور عوامی شرکت کا تصور کیا ہے۔ مودی جی کی قیادت میں اس کا احساس حکومت سے لے کر معاشرے تک ہو رہا ہے۔انہوں نے دوسرے ٹویٹ میں لکھاہے کہ لوہیا جی سمجھتے تھے کہ پختہ جمہوریت صرف پسماندہ لوگوں کو اقتدار دے کر ہی ممکن ہے۔ وزیر اعظم نے او بی سی کمیشن کو آئینی حیثیت دی ہے اور اس میں بھی بڑی شراکت دے کر ملک کی ذمہ داری سونپی ہے۔ لوہیا جی اگر آج ہوتے تو اپنے خیالات کوثمر آور ہوتے دیکھ کر انھیں خوشی ہوتی۔اگلے ٹویٹ میں وزیراعلیٰ نے لکھا ہے کہ آج جب ملک اتنی بڑی معنی خیز اور مثبت معاشرتی تبدیلی کا مشاہدہ کررہاہے ۔بدقسمتی سے کچھ لوگ اس پر بھی احتجاج کررہے ہیں۔
نئی دہلی:کسانوں کا احتجاج گذشتہ آٹھ ماہ سے جاری ہے اور اب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلاہے۔ مودی کابینہ میں توسیع کے بعد مرکزی وزیر زراعت نے کہاہے کہ وہ کسانوں سے بات چیت شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی دوران کسان رہنما راکیش ٹکیت نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر مرکز زرعی قوانین پر بحث کرنا چاہتا ہے تو ہم بھی تیار ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی ٹکیت نے 26 جنوری کے واقعے کو اقوام متحدہ میں لے جانے والے بیان پر وضاحت کی ہے۔ راکیش ٹکیت نے کہاہے کہ ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہم اقوام متحدہ میں نئے زرعی بلوں کا معاملہ اٹھائیں گے۔ ہم نے 26 جنوری کے واقعہ پر ایک سوال کا جواب دیاتھا۔انہوں نے کہاہے کہ آیاکوئی ایسی ایجنسی ہے جو منصفانہ تحقیقات کر سکے۔ اگر نہیں تو ہمیں اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جاناچاہیے۔
اتراکھنڈ : کورونا ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے کئی ویکسی نیشن سینٹر بند ، لوگ مشتعل
دہرادون : ایک بار پھر اتراکھنڈ میں کورونا ویکسین کی قلت سامنے آئی ہے۔ ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے ویکسی نیشن مراکز کو بند کرنا پڑا ہے۔ ریاست کی سڑکوں پر مفت ویکسین کو فروغ دینے والے پوسٹر عوام کامنھ چڑھا رہے ہیں۔ کیونکہ تقریباً تمام ویکسی نیشن مراکز کی حالت ایک جیسی ہے۔ ہلدوانی کے حفاظتی ٹیکوں کے مراکز کی حالت کچھ یوں ہے کہ یہاں چھٹی کے نام پر ویکسین نہیں لگائی جارہی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی ویکسین نہیں ہے ، جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہو رہے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ریاست میں لگائے جانے والے ویکسین کی پہلی خوراک تقریبا ً39 لاکھ افراد کو مل چکی ہے، جبکہ صرف 10 لاکھ افراد ہی دوسری خوراک لے سکے ہیں۔ اس صورتحال میں ویکسین کی کمی کی وجہ سے وہ لوگ جو بے لوث عوامی خدمات میں مصروف ہیں ، بھی مجبور ہیں، کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ ویکسین کب آئے گی۔در حقیقت کئی اضلاع میں کووی شیلڈ ویکسین نہیں مل سکی ہے ، جس کی وجہ سے لوگوں کووی شیلڈ کی ویکسی نیشن نہیں مل رہی ہے ، خاص طور پر لوگ دوسری خوراک لگانے والے افراد زیادہ ہی پریشان ہیں۔
نئی دہلی : ملک کے دارالحکومت دہلی میں صوتی آلودگی پر زیادہ سختی لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ دہلی آلودگی کنٹرول کمیٹی صوتی آلودگی سے متعلق سخت رویہ اپنانے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کے تحت صوتی آلودگی کی صورت میں دہلی آلودگی کنٹرول کمیٹی (ڈی پی سی سی) نے جرمانے کی رقم میں نظر ثانی کا اعلان کیا ہے۔ نئی ترمیم کے تحت صوتی آلودگی کا باعث بننے والے کسی بھی درمیانے درجے پر ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی تجویز رکھی ہے ۔ کمیٹی نے جنریٹر کی صوتی آلودگی سے متعلق بھی کارروائی کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ اب صوتی آلودگی پھیلانے والے پلانٹ کو ضبط کئے جانے کی بھی فراہمی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ترمیم کی اس تجویز کو این جی ٹی نے بھی قبول کرلیا ہے۔ نئے قانون کے مطابق کسی بھی شخص کے ذریعہ مقررہ وقت کے بعد آتش بازی کرنے پر جرمانہ عائد کرنے کی رقم میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔ رہائشی اور تجارتی علاقوں میں یہ رقم 1000 اور سائلنٹ زون میں 3000 روپے ہوگی۔نئی شق کے مطابق اگر کسی جلسے ، شادی کی تقریب یا مذہبی تہوار میں آتش بازی کے متعلق ضابطہ کی خلاف ورزی ہوتی ہے، تو رہائشی اور تجارتی علاقے میں منتظم پر 10 ہزار جرمانے کی فراہمی کی گئی ہے اور سائلنٹ زون میں 20 ہزار تک۔ لیکن اگر اسی علاقہ میں دوبارہ قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ،تو جرمانے کی رقم 40 ہزار کردی جائے گی، جبکہ دو بار سے زیادہ ضابطہ کی خلاف ورزی کی صورت میں ایک لاکھ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا ، ساتھ ہی اس علاقہ کو سیل بھی کردیا جائے گا۔
نوئیڈا:آئندہ تہواروں کو مدنظر رکھتے ہوئے کورونا وائرس کے انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے گوتم بودھ نگر ضلع میں 30 اگست تک دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر پولیس (لا اینڈ آرڈر) شردھا پانڈے نے کہا کہ جولائی اور اگست میں ساون ، شیوراتری ، بقرعید ، یوم آزادی ، محرم ، رکشابندھن اور جنم اشٹھمی جیسے بڑے تہواروں کے پیش نظر انفیکشن کے پھیلاؤکوروکنے کے لیے گوتم بودھ نگر ضلع میں سیکشن 144 نافذ کردی گئی ہے ۔انہوں نے کہاہے کہ طبی خدمات اور ضروری خدمات کے علاوہ ممنوعہ علاقے میں دیگر تمام سرگرمیاں ممنوع رہیں گی۔ کسی بھی قسم کی سماجی ، سیاسی ، کھیل ، تفریح ، ثقافتی ، مذہبی تہوار سے متعلق سرگرمیاں اور دیگر اجتماعات پیشگی اجازت کے بغیرنہیں ہوں گے۔ شادی کی تقریب میں زیادہ سے زیادہ 50 افراد کی موجودگی ہوگی۔ میٹرو ، بسیں اور ٹیکسی 50 فیصد گنجائش کے ساتھ کام کریں گے۔انہوں نے بتایاہے کہ ایک آٹو میں دوافراد ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں ، ای رکشہ میں رائیور سمیت تین افراد اور چار پہیے میں چار افراد سے زیادہ نہیں۔پانڈے نے کہاہے کہ ممنوعہ علاقوں کے علاوہ ، دیگر مقامات ، مذہبی مقامات پر ایک وقت میں 50 سے زیادہ عقیدت مند نہیں جاسکیں گے۔ صبح 7 بجے سے رات 9 بجے تک مال ، ریسٹورنٹ ، ہوٹلوں کے اندر صرف 50 فیصد صلاحیت کی اجازت ہوگی۔ تعلیمی کام کے لیے اسکول ، کالج اور تعلیمی ادارے نہیں کھولے جائیں گے۔ شادی کی تقریب میںکسی بھی شخص کی طرف سے فائرنگ نہیں کی جائے گی ، کوئی بھی شخص مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر دھرنا نہیں دے سکے گا۔