ونود مہتا نامور بھارتی صحافی اور مشہور میگزین آﺅٹ لک کے بانی ایڈیٹر تھے۔ ان کی خودنوشت ”لکھنؤ بوائے “نے بڑی پذیرائی حاصل کی۔ ونود مہتاکا شمار دلیر، بااصول اورڈٹ جانے والے ایڈیٹروں میں کیا جاتا ہے۔ اپنے چالیس سالہ صحافتی تجربے کی روشنی میں انہوں نے نوجوان صحافیوں کے لیے چند مشورے تحریر کیے ۔
ونود مہتا سوال اٹھاتے ہیں: ”کیا صحافی کو انقلابی ہونا چاہیے؟ ونود کے خیال میں یہ خیال رومانوی ہونے کے باوجود غیر عملی ہے۔ آپ کسی بڑے کاز کے لئے کام کرنے والے انقلابی ہیں یا کسی خاص ایجنڈے کے بغیر انقلابی مزاج رکھتے ہیں، دونوں صورتوں میں ایسی انقلابی رومانویت سے دور رہیں۔ریڈیکل ازم کا بھی ٹکٹیں جمع کرنے کی طرح خاص وقت اور جگہ ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ نوجوانی میں کسی نے کوئی انقلابی پمفلٹ لکھا ہو، مگر وقت کے ساتھ اسے آگے بڑھ جانا چاہیے ۔ جرنلزم میں ایسے شوریدہ سروں یا سر پھروں کے لیے جگہ نہیں ۔ ایک بات البتہ سمجھناضروری ہے کہ چی گویرا ٹائپ ہٹ اینڈ رن قسم کی صحافت کی ضرورت نہیں ، مگر اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ آپ روایتی گھسی پٹی سوچ کے غلام بن جائیں۔ اہم طاقتور لوگ جب صبح اٹھتے اور اخبار پڑھتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ ان کے موقف کی تصدیق ہو، اسے چیلنج نہیں کیا جائے۔ آپ کو مگر یہ چیلنج کرنا چاہیے ۔ صحافیوں میں بھیڑ چال کا رواج (Herd Mentality)ہے، کوئی ایک کچھ کرے تو سب پیروی کرتے ہیں۔ ایک اچھے صحافی کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس نے کب ان کا حصہ بننا ہے اور کب اکیلا شکار کرنا ہے۔
ونود مہتا آگے چل کر دو ممتاز مغربی لکھاریوں کی کوٹیشن دیتا ہے، پہلی کے مطابق ، جس موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں، اس پر روایتی نقطہ نظر جان لیں اور پھراپنی تحریر میں اس کے خلاف دلائل دیں۔ دوسری کوٹیشن دلچسپ ہے، ”جب شک میں ہوں تب حملہ آور ہوں۔“
کیا سیاستدان اور صحافی دوست ہوسکتے ہیں؟ونود مہتا کا جواب نفی میں ہے، مگر ان کے مطابق جارج اورویل (اینمل فارم ناول کے مصنف)بننے کی ضرورت نہیں، وہ جب ٹربیون اخبار کے بک ایڈیٹر تھے تو کتاب کی تقریب رونمائی میں شریک نہیں ہوتے تھے کہ مصنف سے ملاقات دیانت دارانہ تبصرے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ ونود مہتا آگے جا کر نکتہ اٹھاتے ہیں کہ سیاستدانوں اور صحافیوں دونوں کا ایجنڈا ایک دوسرے سے نہایت مختلف بلکہ متضاد ہے۔ سیاستدان بیشتر اوقات حقائق یا سچ کو توڑموڑ کر،کچھ خفی کچھ جلی انداز میں پیش کرتے ہیں جبکہ صحافی کا کام ہے جہاں تک ممکن ہو سچ سامنے آئے۔ اس لیے سیاستدانوں سے قربت کے بجائے اہم یہ ہے کہ آپ سچ کے کتنے قریب ہیں؟
کیا ایک صحافی کو اپنا استعفاجیب میں ڈال کر پھرنا چاہیے؟ونود مہتا کے خیال میں یہ بہت مشکل سوال ہے، آپ کی ایک فیملی ہے جس کے اخراجات برداشت کرنے ہیں، گھر کا کرایہ، یوٹیلیٹی بلز، بنک کی قسطیں وغیرہ وغیرہ۔ تاہم ایک دیانت دار صحافی کی زندگی میں کم از کم ایک موقعہ ایسا آتا ہے جب وہ ایسا کرنے کا سوچتا ہے۔ ونود مہتا یہاں پر مشورہ دیتا ہے کہ آپ سب ایڈیٹر، فیچر رائٹر، رپورٹر، فوٹوگرافر ، اسٹنٹ ایڈیٹر یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کو اپنے کام میں بہترین ہونا چاہیے۔ میڈیا کے تمام تر مسائل اور نئے آنے والے بے تہاشا نوجوانوں کے باوجود آج بھی کوالٹی ایک نایاب صفت ہے۔ اپنے آپ کو بہتر کرنے کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ آج بھی میں کوئی اچھی تحریر دیکھوں تو اسے دو بار پڑھتا ہوں۔ پہلی بار اس کی کوالٹی جانچنے جبکہ دوسری بار اس کے انداز تحریر اور مہارت کو بغور دیکھنے کے لیے ۔اس لیے یقین رکھیں کہ اگر آپ ایک بہترین صحافی ہیں تو آپ بے روزگار ہوسکتے ہیں، مگر یہ مدت مختصر ہوگی کیونکہ مارکیٹ میں اچھے صحافی کی شہرت بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور کوئی نہ کوئی ضرور آپ کی مہارت سے استفادہ کرنا چاہے گا۔
اگر غلطی ہو جائے تب صحافی کو کیا کرنا چاہیے؟ ونود مہتا کے خیال میں بعض اوقات صحافی خود کو بے عیب اور پرفیکٹ سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس رفتار سے خبریں آتی ہیں، ان پر کام ہوتا،فائنل ٹچ دیا جاتا ہے ، اتنے مختصر وقت میں پرفیکٹ کام کرنا ممکن ہی نہیں۔ اخبار ہے ہی نامکمل، عجلت میں کئے گئے کام کی پراڈکٹ ۔حتیٰ کہ مضامین، تجزیے ، کالم ، اداریے وغیرہ بھی بہت بار نہایت عجلت میں ،ڈیڈ لائن پریشر کے تحت لکھے جاتے ہیں۔ آپ کے پاس مکمل ڈیٹا نہیں، اعداد وشمار چیک کرنے کا وقت نہیں مل پاتا، حتیٰ کہ لفظوں کی املا درست کرنا بھی مسئلہ ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ کرشمہ ہی ہے کہ فائنل پراڈکٹ (اخبار یا ٹی وی نیوزبلیٹن)کا تاثر اتنا برا نہیں ، وہ خاصا موثر ہوتا ہے۔ کوئی صحافی مکمل اور خامیوں سے پاک نہیں، اس حقیقت کو سب سے پہلے ذہن میں لے کر چلیں۔ نیویارک ٹائمز جیسا اخبار جو اپنی خبر کی تحقیق کے لئے کئی مراحل پر مشتمل پراسیس اختیار کرتا ہے، اس نے بھی عراق جنگ کے حوالے سے بالکل غلط اور بے بنیاد معلومات فراہم کیں،۔وہ صدر بش کے وائٹ ہاﺅس ٹیم کے ہاتھوں استعمال ہوگئے اور اس پر نیویارک ٹائمز کو بعد میں اپنے قارئین سے معذرت کرنا پڑی۔اصول یہ ہے کہ غلطی ہو تو اسے تسلیم کریں۔ چھپانے یا کمزور عذر تراشنے کے بجائے مانیں۔ اپنے قارئین سے واضح الفاظ میں معذرت کریں۔ البتہ صحافی کو غلطیاں دہرانی نہیں چاہیں۔ میرے حساب سے تین سال میں ایک آدھ غلطی کی گنجائش بن سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
صحافی کو اپنی انا کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے؟ ونود مہتا کے خیال میں اسے تالے میں بند کرکے رکھ دینا چاہیے۔ صحافیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غلطیوں کی نشاندہی کریں اور اسے کیسے ٹھیک کیا جائے، اسی وجہ سے کچھ صحافی مستقل قسم کے ناصح بن جاتے ہیں۔ بعض ایڈیٹر سمجھتے ہیں کہ وہ ملک چلارہے ہیں یاقوم کے لئے ایجنڈا سیٹ کر سکتے ہیں۔ ایڈیٹر(اور کالم نگار) بھول جاتے ہیں کہ ان کے دھماکہ خیز ادارئیے اور دھواں دھار کالم زیادہ سے زیادہ تیس منٹ کی زندگی رکھتے ہیں ۔ اس کے بعد اخبارکھڑکیوں کے ٹوٹے شیشوں کو ڈھانپنے کے کام آتے ہیں۔یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ہم صحافیوں کا سماج میں کچھ اثرہے مگر اس سے کہیں کم جتنا ہم تصور کرتے ہیں۔ایک بڑے مغربی صحافی نے کہا تھا ،”صحافی شراب سے زیادہ خودپسندی کے ہاتھوں برباد ہوتے ہیں۔“ ہم صحافی میچ میں بہترین سیٹ حاصل کرتے ہیں ،یہی کافی ہے، جمہوریت کے کھیل میں ہم کھلاڑی نہیں ، اپنا کردار سمجھ لینا چاہیے ، اسے مکس کرنا مصیبت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔
کیا صحافی کو اپنا سٹائل بہتر کرنے پر وقت اور پیسہ صرف کرنا چاہیے؟ونود مہتا لکھتے ہیں کہ ایسا ضرور کرنا چاہیے ۔آپ کسی بھی زبا ن میں لکھتے ہوں، اس میں مہارت حاصل کرنا لازم ہے۔ ایک زمانے میں سب ایڈیٹر اپنے رپورٹر کی خبر میں اس کے اسلوب کی دلکشی کا جائزہ ضرور لیتے تھے۔ اب حالات بدل گئے ہیں، مگر آج بھی ایک اچھی سٹوری اگر بہترین طریقے سے لکھی گئی ہو تو اس کا تاثر بہت بڑھ جاتا ہے جبکہ ایک بڑی سٹوری کمزور اسلوب کی وجہ سے غیر موثر ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کسی بڑے ناول نگار کا اسلوب اپنا لیں یا بڑی مرصع نثر لکھیں جس میں مشکل مترادفات ہوں۔ نہیں اس کے بجائے مشہور ادیب ہیمنگوئے کے الفاظ یاد رکھیں کہ سیدھے سادے الفاظ ہی بہترین ہوتے ہیں۔ آپ کی زبان سادہ اوردلچسپ ہونی چاہیے۔ خوش ونت سنگھ اس پر خاص توجہ دیتا تھا کہ اس کی تحریر زیادہ سے زیادہ رواں اور قابل مطالعہ ہو۔ اسی وجہ سے خوشونت کو ناپسند کرنے والے بھی اسے پڑھتے ضرور تھے۔ ادب میں ممکن ہے کوئی مشکل اور ثقیل نثر کے باوجوداپنا کام چلا لے، مگر مین سٹریم صحافت میں یہ عیاشی ممکن نہیں۔ لکھنے والے کو اپنے پہلے فقرے سے قاری کو انوالو کر لینا چاہیے۔ اس لئے تحریرکا آغاز بہت توجہ اور محنت سے اچھا بنا کر لکھنا چاہیے۔ اگر اپنے پہلے پیرے میں قاری کو گنوا بیٹھے تو سب کچھ ضائع ہوگیا۔
ونود مہتا نے معروف برطانوی صحافی، مصنف جارج اورویل کا دلچسپ اقتباس نقل کیا، اورویل لکھتے ہیں ” دو باتیں ایسی ہیں جو کسی لکھنے والے کے لئے قاتل ہیں۔ کٹر روایتی پن لکھنے والے کے لئے تباہ کن ہے، چاہے رائٹ ونگ یا لیفٹ ونگ دونوں انتہاﺅں کا سخت روایتی پن تحریر کو بے رنگ اور بے کشش، مصنوعی بنا دیتا ہے۔تحریر کی دوسری سب سے بڑی خامی اس میں دیانت داری کا فقدان ہے۔اگر کسی کی اصل سوچ اور جس کا وہ پرچار کرنے لگا ہے، اس میں فرق ہے تب مصنف اپنی تحریر میں گھسی پٹی اصطلاحات اور بلند بانگ الفاظ استعمال کر کے اسے مصنوعی بنا دے گا۔جیسے کسی کتاب پر فرمائشی تبصرہ یا کالم لکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، ایسی تحریر کمزور ہی ہوتی ہے۔
ونود مہتا کے مطابق اچھا لکھنا کسی سکول میں نہیں سیکھا جا سکتا، بہت بار اپنے وجدان پر بھروسا کرنا پڑتا ہے، تاہم جارج اورویل نے لکھنے والے کے لیے چند اصول وضع کیے، ان میں سے سب سے اہم یہ کہ اگر آپ کے پاس اپنی بات کہنے کے لیے مختصر جملہ ہے تو اس کی جگہ کبھی طویل جملہ استعمال نہ کریں۔لکھنے کے بعد اگر کسی لفظ کو کاٹا جا سکتا ہے تو اسے ضرور کاٹ دیں۔ پامال الفاظ اور جملے استعمال نہ کریں۔
18 جون, 2021
دہشت گردی کے الزام میں چار سال قید رہنے والے حبیب میاں کی جمعیت علما کی کوششوں سے رہائی
ممبئی:بنگلور سیشن عدالت کی جانب سے دہشت گردی کے الزامات سے ڈسچار ج کیے گئے تریپورہ کے حبیب میاں کی کل جیل سے رہائی عمل میں آئی جس کے بعد اسے بنگلور سے بذریعہ ہوائی جہاز تریپورہ بھیج دیاگیا ، تریپورہ پہنچنے کے بعد حبیب میاں نے بذریعہ فون گلزار اعظمی (سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی جمعیۃ علماء مہاراشٹر ارشد مدنی) سے گفتگو کی اور اس کا مقدمہ لڑنے کے ساتھ ساتھ اسے صحیح سلامت اس کے گھر پہنچانے تک مدد کرنے پر شکریہ ادا کیا۔اس ضمن میں گلزار اعظمی نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جیل سے رہائی کے بعد بھی ملزم کا تریپورہ پہنچنا مشکل ہورہا تھا کیونکہ اس کے پاس کسی بھی طرح کا شناختی کارڈ نہ ہونے کہ وجہ سے بنگلور ائیر پورٹ پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جسے ائیر پورٹ اتھاریٹی سے گفتگوکرکے حل کیا گیا جس کے بعد حبیب میاں کو ہوائی جہاز میں بغیر کسی شناختی کارڈ کے سفر کرنے کی اجازت ملی۔
جیل سے رہائی کے بعد حبیب میاں نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بنگلور آئے نہیں اور نہ ہی انہیں بنگلور شوٹنگ مقدمہ کے تعلق سے کوئی جانکاری ہے ، پولس نے جب انہیں تریپورہ سے گرفتار کرکے بنگلور لایا اس وقت وہ پہلی بار بنگلورشہر آیا تھا اور وہ اس مقدمہ میں ماخوذ کسی بھی ملزم سے نہ تو کبھی ملا اور نہ ہی وہ کسی کو جانتا ہے۔پیشہ سے رکشا ڈرائیور باریش حبیب میاں نے بتایا کہ ان کی گرفتاری کا صدمہ ان کے والد برداشت نہ کرسکے اور ان کا انتقال ہوگیا جبکہ گذشتہ چار سال قید کے دوران ان کا جوذاتی نقصان ہوا وہ اسے بیان نہیں کرسکتے، مجھے اور میرے اہل خانہ کو جو جسمانی اور ذہنی اذیتیں ملی ہیں میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا لیکن اس د وران مجھے جمعیۃ علماء کی قانونی امداد ملی جس کی وجہ سے آج میں مقدمہ سے بری ہوگیا اور میرے اوپر لگا دہشت گردی کا داغ بھی دھل گیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ شکر گزار ہیں جمعیۃعلماء کے جن کی کوششوں سے انہیں مقدمہ بری کیا گیاورنہ پتہ نہیں کب ٹرائل شروع ہوتا اور کب اس کا اختتام ہوتا اور انہیں اسی طرح جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی اور ان کے اہل خانہ بھی پریشان رہتے۔واضح رہے کہ بنگلور پولس نے ملزم پر تعزیرات ہند کی دفعات 120-B, 121,121-A,122,123,307,302 ، آرمس ایکٹ کی دفعات25,27، دھماکہ خیز ماد ہ قانون کی دفعہ6اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون کی دفعات 10,13,16,17,18,20کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا اور اس پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا جس سے بنگلور کی سیشن عدالت نے 14 ؍ جون کو اسے بری کردیا۔
کووڈ کی دوسری لہر میں حکومت کی لاپرواہی، نااہلی، نکمے پن، بے حسی اور مغربی بنگال کی ہار نے یوگی، مودی اور بی جے پی کی مقبولیت کو کم کیا ہے ۔ بی جے پی نے اپنی حکومت، نریندرمودی کی شبیہ سدھارنے اور عوام کا دھیان بھٹکانے کے لیے کئی قدم اٹھائے ۔ ابتدا میں ملک کو مثبتیت کا درس دیا گیا ۔ حالات سے گھبرانے کے بجائے سوچ کو مثبت رکھنے پر زور دیا گیا ۔ اس کے بعد دلکش دیپ جیسے خوبصورت، پر امن علاقے کو تباہ و برباد کرنے کی سازش سامنے آئی ۔ یہ مدا کئی دن تک میڈیا کی سرخیوں میں بنا رہا ۔ لیکن حکومت سے عوام کی ناراضگی بدستور قائم رہی، خود بی جے پی لکش دیپ کے کارکنان نے سماج کو بانٹنے والے حکومت کے فیصلوں کی کھل کر مخالفت کی ۔ پھر اترپردیش کے ماحول کو فرقہ وارانہ بنیاد پر گرمانے کی کوشش کی گئی ۔ بارہ بنکی میں انتظامیہ نے سو سال پرانی مسجد کو شہید کر دیا ۔ جبکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک حکم نامہ میں مسجد کو نہ گرائے جانے کی ہدایت دی تھی ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اناؤ میں سبزی فروش فیصل کو کورونا کرفیو پر عمل کرانے کے بہانے پولس نے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا ۔ مگر بی جے پی سماج کو بانٹنے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔ اسے اترپردیش کے پنچایت الیکشن میں ایک تہائی سیٹیں بھی نہیں مل سکیں ۔ اس کے بعد شروع ہوا ڈیمیج کنٹرول کا ہائی وولٹیج ڈرامہ ۔
واضح رہے کہ اترپردیش میں کووڈ کی دوسری لہر کے دوران جس طرح انسانی جانوں کی ناقدری ہوئی اس نے ریاستی حکومت کے سارے دعووں کی قلعی کھول دی ۔ گنگا میں بہتی اور اس کے کنارے ریت میں دفن لاشوں نے دنیا کے سامنے ملک کا سر شرم سے جھکا دیا ۔ عام آدمی کی طرف توجہ دینا تو دور خود بی جے یو کے ارکان پارلیمنٹ و اسمبلی اور ان کے اہل خانہ کو وقت پر طبی مدد نہیں مل سکی ۔ جس کی وجہ سے کئی ممبران اسمبلی کو اپنی جان گنوانی پڑی ۔ پارٹی اراکین تک لوگوں کی مدد نہیں کر پائے ۔ وزیراعلیٰ کے قریب یوں کے علاوہ کوئی کسی کی سننے والا نہیں تھا ۔ نتیجہ کے طور پر یوگی ادتیہ ناتھ کو اپنے طریقہ کار کے لیے عوام کے ساتھ اپنے وزراء، ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی کی ناراضگی بھی جھیلنی پڑی ۔ کئی وزراء و ممبران اسمبلی نے وزیراعلیٰ یوگی کو خط لکھ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ ایسے میں بی جے پی کو 2022 کے یوپی الیکشن میں ناکامی کا ڈر ستانے لگا ۔
آر ایس ایس نے بی جے پی کو مشورہ دیا کہ ریاستی انتخابات میں نریندرمودی کو چہرہ نہ بنایا جائے ۔ اس سے مودی جی کی شبیہ خراب ہوتی ہے ۔ عوام وزیراعظم کو صوبائی لیڈران کے برابر آنکنے لگتے ہیں ۔ اب ایسا کیا ہوا کہ سنگھ کو اس طرح کا مشورہ دینا پڑا جبکہ سات سالوں کے دوران ملک کا ہر چھوٹا بڑا الیکشن مودی جی کے چہرے پر لڑا گیا ہے ۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سات سال میں 202 دن انتخابی ریلیوں کو خطاب کرنے میں لگائے ہیں ۔ دراصل آر ایس ایس نریندرمودی کی کم ہوتی مقبولیت کو لے کر پریشان ہے ۔ اسے لگتا ہے کہ اگر اسی طرح گراف گرتا گیا تو بی جے پی کے لیے 2024 کا الیکشن جیتنا مشکل ہو جائے گا ۔ دوسری طرف سنگھ نے یوپی کو لے کر بھی تشویش ظاہر کی تھی ۔ جس کے بعد بی جے پی تنظیمی امور کے سکریٹری بی ایل سنتوش اور یوپی کے نگراں راھاموہن سنگھ نے یوپی کا دورہ کرکے پارٹی کے تمام ممبران اسمبلی اور وزراء سے الگ الگ ملاقات کی ۔ لیکن یوگی ادتیہ ناتھ نے انہیں کوئی توجہ نہیں دی ۔ راھا موہن سنگھ نے میٹنگ کے دوران پارٹی کارکنان کا زمینی سطح پر رابطہ کمزور ہونے پر تشویش ظاہر کی ۔ انہوں نے یوپی کی گورنر آنندی بین پٹیل کو ملاقات کرکے بند لفافہ سونپا ۔ میڈیا کی مانیں تو اس میں یوگی کی کارکردگی سے غیر مطمئن 250 ممبران اسمبلی کے دستخط والا خط تھا ۔ اسی کے بعد یہ قیاس لگایا جانے لگا کہ یوگی ادتیہ ناتھ کی جگہ کسی اور کو یوپی کا وزیر اعلیٰ بنایا جا سکتا ہے ۔
میڈیا سے سوشل میڈیا تک یوگی اور مودی کے درمیان اختلافات کو لے کر بحث چھڑ گئی ۔ ٹکراؤ کی وجہ نریندرمودی کے قریبی سابق آئی اے ایس اروند شرما کو یوپی حکومت میں کوئی اہم ذمہ داری نہ دینا بتایا گیا ۔ یہ خبریں بھی آئیں کہ مرکزی قیادت نے یوگی ادتیہ ناتھ کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے اے کے شرما کو اترپردیش بھیجا ہے ۔ مگر یوگی شرما کو کوئی اہم ذمہ داری دینے کو تیار نہیں تھے ۔ مودی یوگی کا ٹکراؤ کئی ہفتہ تک میڈیا اور عوام میں موضوع بحث بنا رہا ۔ آخر یوگی ادتیہ ناتھ کو دہلی طلب کر عوام اور یوگی سے اختلاف رکھنے والوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ مرکز ہر بات سے واقف ہے اور غلطی کے لیے بازپرس کر سکتا ہے ۔ یوگی دہلی آکر امت شاہ، مودی اور جے پی نڈا سے الگ الگ ملے ۔ ملاقات کے دوران کیا باتیں ہوئیں یہ کوئی نہیں جانتا البتہ اس کے بعد نریندرمودی، امت شاہ، جے پی نڈا نے یوپی کے حالات اور وہاں ہونے والے انتخابات پر میٹنگ میں غور وخوض کیا ۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ کو آر ایس ایس کی حمایت حاصل ہے ۔ وہ سنگھ کے وسیع منصوبہ کا حصہ ہیں ۔ آر ایس ایس کو ان جیسے کٹر ہندو وادی گیروا کپڑے پہنے والے شخص کی ضرورت ہے ۔ سنگھ کی سفارش پر ہی یوگی کو یوپی کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا ۔ جبکہ کیشو پرساد موریہ یوپی بی جے پی کے صدر تھے اور 2017 کا الیکشن ان کی اگوائی میں لڑا گیا تھا ۔ وزیراعلیٰ کے لیے کیشو پرساد اور منوج سنہا کا نام لیا جا رہا تھا لیکن اچانک یوگی کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ۔ اس لیے بی جے پی یوگی ادتیہ ناتھ کو ہٹانے کا جوکھم نہیں لے گی ۔ یوپی اسمبلی کا چناؤ بھی یوگی کی رہنمائی میں لڑا جائے گا ۔ 2017 کا انتخاب غیر جاٹو دلت اور غیر یادو پچھڑے کی سوشل انجینئرنگ کے فارمولے پر لڑا گیا تھا ۔ یوگی کی وجہ سے یہ سمیکرن اب باقی نہیں ہے ۔ اس لیے اگلا الیکشن فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی بنیاد پر ہونے کا امکان ہے ۔ اس کے لئے بی جے پی کو یوگی کی ضرورت ہے ۔ یوگی اور مودی کے بیچ مصنوعی تناؤ سے بی جے پی کووڈ سے پیدا ہوئے حالات کی طرف سے دھیان ہٹانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی ہے ۔
کتنا عجیب ہے کہ یوپی کے چناؤ کو لے کر غور وفکر ہو رہا ہے ۔ میٹنگ ہو رہی ہے لیکن بی جے پی نے کورونا سے نمٹنے کے لیے جو محنت کرنی چاہیے تھی وہ نہیں کی ۔ کوئی میٹنگ نہیں کی ابھی کووڈ سے پوری طرح نجات نہیں ملی ہے ۔ لیکن الیکشن کی تیاری شروع ہو گئی ہے ۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بی جے پی رام مندر کو مرکز میں رکھ کر یوپی اسمبلی انتخابات کی تشہیر کا خاکہ تیار کرے گی ۔ انتخابی مہم دو مرحلے میں چلائی جائے گی ۔ پہلے مرحلے میں حکومت اپنے اچھے کاموں جسے کووڈ کے دوران پارٹی کی طرف سے کیے گئے فلاحی کام، غریبوں کے لیے راشن، مفت کورونا ویکسین کی فراہمی وغیرہ پر فوکس ہوگا ۔ لیکن جیسے ہی انتخاب نذدیک آئے گا عوام کا دھیان رام مندر، ہندوتوا وغیرہ ان مدوں کی طرف لے جایا جائے گا جن سے وہ جزبات طور پر جڑے ہوں گے ۔ رام مندر کو اپنی کارکردگی بتا کر اسے بھونانے کی کوشش کی جائے گی ۔ جذباتی مدوں سے لوگوں کو جوڑنے کے لیے آنے والے دنوں میں بی جے پی اپنے کارکنوں کو زمین پر اتارنے کے لیے ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، کانشی متھرا باقی ہے نام سے مہم چلا سکتی ہے ۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوگی مودی کے درمیان کا ٹکراؤ محض دکھاوا ہے ۔ لوگوں کا دھیان بھٹکانے کی کوشش ہے یا یوں کہیں کہ یہ انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام پنچایت چناؤ کی طرح اسمبلی انتخاب میں بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کریں گے یا پھر بی جے پی کے پروپیگنڈہ میں بہہ کر اپنے دکھوں اور کووڈ کی وجہ سے چھوڑ کر جانے والے اپنے عزیزوں کو بھول جائیں گے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر
بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر
آرہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر
تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر
تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دلوں کے ختن
پا شکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر
شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر
یہ محلاّتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں ان کے علم صبر کر صبر
دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر
لہلہا ئیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابر کرم صبر کر صبر کر
کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر
پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریر قلم صبر کر صبر کر
درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر
دیکھ ناصر زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر
تمہاری قبر پر
میں فاتحہ پڑهنے نہیں آیا
مجهے معلوم تها
تم مر نہیں سکتے
تمہاری موت کی
سچی خبر جس نے اڑائی تھی
وه جھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئ سوکھا ہوا پتہ
ہوا سے مل کے ٹوٹا تها
میری آنکھیں تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک
تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے وہ
تمہاری لغزشوں ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
میری آواز میں چھپ کر تمہارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے
وہ جھوٹا ہے
تمہاری قبر میں، میں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑهنے چلے آنا!
مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ
تہجد کی پابندی:
حضرت الاستاذ رح ایک خدا ترس عالم اور درویش صفت انسان تھے ، مزاج میں قناعت پسندی تھی ، اس لئے جمع مال کی کبھی فکر نہیں ہوئی ۔
البتہ جہاں تک مجھے علم ہے ، حضرت رح سلاسل اربعہ : نقشبندیہ ، چشتیہ ، سہروردیہ ، قادریہ میں سے کسی سلسلے میں اجازت یافتہ یا مجازِ بیعت نہیں تھے ، بلکہ غالباً کسی سے باضابطہ بیعت و ارشاد کا تعلق بھی نہیں تھا ، اِس کے باوجود ذکر و تسبیح اور تہجّد و تلاوت پر اتنی مداومت اور پابندی تھی کہ بہت سے صلحاء و اتقياء اور خانقاہوں سے وابستہ افراد و اشخاص کے یہاں بھی میں نے ایسی مداومت اور پابندی نہیں دیکھی ، اُن کی استقامت اور مداومت کو دیکھ کر ہی حضرات صوفیہ کے اِس قول کی معنویّت کا صحیح طریقے سے ادراک ہوپایا ”الإستقامة فوق الكرامة ” ۔
وہ صبح پونے تین بجے بیدار ہو جایا کرتے تھے ، غیر معمولی احوال میں ہی اس میں تخّلف ہوتا ہوگا ، ورنہ میں نے طویل ترین اسفار میں بھی حضرت کو متعین وقت پر بیدار ہوتے اور اپنے صبح کے معمولات کو پورے اہتمام کے ساتھ مکّمل کرتے ہوئے دیکھا ہے ، اپنے مخصوص انداز میں کہا کرتے تھے کہ یہ نیند کا کام ہے کہ اپنے وقت پر آجایا کرے ، ورنہ میرے بیدار ہونے کا جو وقت طے ہے ، میں اس وقت بہرحال بیدار ہو جاتا ہوں ۔ حوائج بشری سے فارغ ہو کر پہلے تہجد پڑھتے ، اس کے بعد تقریباً پون گھنٹہ تک دعا کا معمول تھا ، اپنے رشتہ داروں عزیزوں ، شاگردوں ، اساتذہ ، محسنین ، اہم علمی اور دینی شخصیات ، اولیاء اللہ اور بزرگان دین کے لئے پوری پابندی سے دعا فرمایا کرتے تھے ، اکابر علماء میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رح ، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ، حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒ اور اپنے نہایت مخلص و کرم فرما اور حد درجہ مشفق ومحسن استاذ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے لئے خاص طور پر دعا کا اہتمام کرتے تھے ، ہم لوگ زیادہ الحاح اور اصرار کے ساتھ دعا کی درخواست کرتے تو قدرے مزاح کے لہجے میں فرماتے تھے کہ میری دعا کی زد سے بچ پانا تمہارے لئے مشکل ہے (یہ دعا کی وسعت و جامعیت کی طرف اشارہ ہوتا تھا ) تمہارے والد کے لئے بہت دعا کرتا ہوں ، اُن سے زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی جن گہرے مراسم اور تعلقات کی بنا پڑی تھی ، اُس میں بحمد اللہ آج تک کسی قسم کا ضعف اور اضمحلال نہیں آیا ، وہ میرے محسنوں اور مخلصوں میں ہیں ۔
اجلاس صدسالہ کے موقع پر دارالعلوم کے مہمان خانے میں حضرت الاستاذ رح اور والد صاحب کی اچانک ملاقات ہوگئی ، دارالعلوم کے فارغین کی دستاربندی کا حسین و خوبصورت منظر دیکھ کر حضرت الاستاذ رح کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں ، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ ماضی میں پیش آئے حادثوں کو یاد کرکے زار و قطار رو رہے تھے ۔
حضرت والد گرامی مد ظلہ العالی نے اس واقعے کا تذکرہ مجھ سے ان الفاظ میں کیا : میں نے مولانا رح کو زار و قطار روتے ہوئے دیکھا تو صبر و تسلی کے چند کلمات کے ساتھ ایک بات یہ کہی کہ آپ اس قدر رنجیدہ اور ملولِ خاطر نہ ہوں ، آدمی کی محنت اور صلاحیت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہے ، آپ خدا کی ذات پر بھروسہ رکھئے ، آپ کی محنتوں کا صلہ انشاء الله آپ کو جلد ہی ملے گا ، اِسے حسن اتفاق کہئے کہ اس واقعے کے کچھ عرصے کے بعد ہی وہ ماہنامہ ,,الداعی،، کے مدیر اور ادب عربی کے ,,استاذ،، کی حیثیت سے دارالعلوم بلا لئے گئے ، حضرت الاستاذ رح نے اپنے جلیل القدر استاذ حضرت مولانا کیرانوی رح کی سوانح عمری ,,وہ کوہ کن کی بات،، کا پہلا ایڈیشن جب حضرت والد صاحب کو بھیجا تو اس کے پہلے صفحے پر ایک تحریر اپنے قلم سے لکھی ، اس تحریر میں حضرت والد صاحب کی طرف سے مولانا رح کے لئے حوصلہ افزا کلمات اور اُن کی دلجوئی اور اشک شوئی کا احسان مندانہ انداز میں ذکر تھا ، میں چونکہ مذکورہ بالا واقعے سے واقف نہیں تھا ، اس لئے کسی خاص واقعے کی طرف ذہن نہیں گیا ، پھر میرے قیامِ دیوبند کے ابتدائی زمانے میں جب حضرت والد صاحب دیوبند تشریف لائے تو حضرت الاستاذ رح نے شب میں کھانے کی دعوت میں اسی قصے کو دہرایا ، تب میں اُس تحریر کے اشارات کو مکمل طور پر سمجھ سکا ۔
حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ میں نے آپ کی صلاحیتوں کو مائل بہ عروج و ترقی دیکھا تو مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ہلال بہت جلد بدرکامل بن جائے گا اور اس کی ضیاء پاشیوں سے ایک عالم فیضیاب ہو گا ، اُس گفتگو میں حوالے کے طور پر حضرت نانوتوی رح کی تقریر دلپذیر کے بعض مقامات کا بھی ذکر آیا تھا مگر سولہ سترہ سال کے بعد وہ باتیں من و عن کہاں یاد رہ سکتی تھیں ۔
قرآن کریم سے عشق:
فجر کے بعد روزانہ پابندی سے تلاوت قرآن کا معمول تھا ، ایک آدھ پارہ قرآن کا اِس طرح بھی پڑھتے تھے کہ ہر سطر پر انگلی پھیرتے جاتے تھے اور بہت غور وتوجہ اور نہایت عظمت کے احساس کے ساتھ نگاہیں قرآنی آیات پر مرکوز کئے رہتے تھے ، قرآن کے ادبی اعجاز اور اس کے ساحرانہ طرز بیان کا ذکر بھی آپ کی مجالس میں بارہا سنا ، آپ قرآن مجید کے ادبی اور لسانی اعجاز اور اس کے ادبی نکات کی تشریح بڑے دلنشیں پیرائے میں کرتے تھے ، فنّ بلاغت کی فلسفیانہ موشگافیوں سے حضرت الاستاذ رح کو بالکل مناسبت نہیں تھی ، وہ ادب کے سلسلے میں موزوں طبیعت اور عمدہ و پاکیزہ ذوق کو ہی راہ نما سمجھتے تھے ، اس لئے بلاغت کی بعض نہایت پیچیدہ اور فلسفیانہ انداز میں لکھی ہوئی کتابوں پر خوب نقد و جرح کرتے تھے ، تاہم قرآن کے ادبی اور معنوی اعجاز اور اس کے طرف بیان و ادا کا جب ذکر آتا تو فن بلاغت کی قابل ذکر تالیفات کے مطالعے کا طلبہ کو مشورہ دیتے تھے ، خاص طور پر اس فن کی مشہور کتاب ,,دلائل الاعجاز،، کا خصوصیت سے تذکرہ کرتے تھے اور طلبہ کو اس کے مطالعے کی ترغیب دیتے تھے ۔
قرآن کریم کی سحر انگیزی اور معجز طرازی کی جھلک مولانا رح کے اسلوب نگارش میں بھی مختلف جگہوں پر نظر آئے گی ۔ خاص طور پر ’اشراقہ‘ اگر غور سے پڑھا جائے تو صاف طور پر محسوس ہوگا کہ مصنف کے فکراور اسلوب پر قرآن کی سحر طرازی اور جادو بیانی کا کتنا گہرا اثر ہے ۔
فرمایا کرتے تھے کہ میری تحریروں کو غور اور توجہ سے پڑھو تو اندازہ ہوگا کہ میں قرآن کے اسلوب سے کتنا فائدہ اٹھاتا ہوں اور کس طرح قرآنی تعبیرات ،تراکیب اور جملوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی تحریر میں خوبصورتی سے اُس کو برتنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
وقت کی قدر و قیمت کا احساس:
اس مختصر سی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور انعام کی وجہ سے بہت سے صلحاء و اتقياء ، اہل فکر و نظر اور اصحاب علم و قلم کی صحبتوں میں بیٹھنے اور ان کی دید و زیارت سے مشرّف ہونے کا موقعہ ملا ، مگر پورے یقین اور وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ وقت کی جیسی قدردانی اور حفاظت حضرت مولانا رح کے یہاں دیکھی ، اس کی جھلک کہیں اور نہیں نظر آئی ۔ ,,ہروقت کے لئے ایک کام اور ہر کام کے لئے ایک وقت،، کے اصول پر وہ پوری زندگی عمل کرتے رہے ، اس سلسلے کی تفصیلات وجزئیات کو اگر لکھنے کا کوئی موقعہ آیا تو قارئین کو پڑھ کر تحیّر اور استعجاب ہوگا کہ کوئی شخص اپنے وقت کا اتنا پابند کیوں کر ہو سکتا ہے ، مثلاً شوگر کے مرض کی وجہ سے پیروں میں جو زخم سالہاسال سے آپ کے لئے اذیت و تکلیف کا باعث تھا ، اس کی مرہم پٹی وہ شام کی چُھٹی کے بعد اور نماز عصر سے پہلے کسی شاگرد کی مدد سے کرتے تھے ، بالعموم سات آٹھ یا دس منٹ میں وہ اس کام کو کر لیا کرتے تھے ، روزانہ اس کام کے لئے یہی وقت متعین تھا ۔
وقت کی اتنی قدردانی اور اِس درجہ احتیاط کے ساتھ وقت خرچ کرنے کا ہی نتیجہ تھا کہ ان کے کاموں میں بڑی برکت ہوتی تھی ، وہ مختلف قسم کے امراض اور عوارض میں گھرے رہنے کے باوجود ایک مشین کی طرح اپنے سارے کام انجام دیتے تھے ، عبادتوں کے اوقات کی پوری پابندی ، گھرکی روزمرہ کی ضرورتوں کا انتظام ، تخصص فی الادب کے طلبہ کی تعلیم و تدریس ، ماہنامہ ,,الداعی،، کے لئے کئی کئی مضامین خود اپنے قلم سے لکھنا ، سلسلہ وار چھپنے والے مختلف عربی تراجم کی تیّاری ، دیگر مضامین اور مقالات کی ترتیب و تقسیم ، آخری مرحلے کی پروف ریڈنگ تاکہ پرچے میں کہیں کسی قسم کی غلطی نہ رہ جائے ، خوبصورت اور دلکش ٹائٹل اور میگزین کے اندرونی صفحات کے ڈیزائن کا انتخاب ، اردو اور عربی کے اخبارات کا مطالعہ اور اس کے منتخب حصوں کو تراشے کی صورت میں جمع کرانا ، ظہر کے بعد کے گھنٹوں کی بلاناغہ حاضری ، دیگر علمی اور تصنیفی مشاغل اور ایسے بیسیوں دوسرے کام ۔
غرض ایک آدمی بلامبالغہ ایک پوری جماعت کا کام اِس قدر حسن اور خوبی کے ساتھ انجام دے رہا تھا کہ اس کی بشری کمزوریوں کے ساتھ اس میں کم سے کم غلطی اور خامی کا امکان رہ جاتا تھا ۔
خوش طبعی اور بذلہ سنجی:
اس قدر ہجوم کار اور کثرت مشاغل کے باوجود ان کی طبیعت میں چرچڑاپن نہیں تھا ، وہ اپنے سارے کاموں کو اِس خوش اسلوبی اور طبیعت کی آمادگی کے ساتھ انجام دیتے تھے کہ ماتھے پر شکن نہیں پڑتی تھی اور لہجے میں تلخی نہیں آتی تھی ، حضرت رح سے جنہیں بہت قریب رہنے کا موقعہ ملا ہے وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ وہ گھر کی چہار دیواری کے باہر جتنے پُروقار اور پُرہیبت نظر آتے تھے ، وہ نجی مجلسوں ، شاگردوں اور عزیزوں کے درمیان اور گھر کی چہاردیواری میں اتنے ہی بے تکلف رہتے تھے ، وہ اتنے سُبک روح اور خوش مزاج تھے کہ کوئی ان کی مجلس میں مغموم اور افسردہ نہیں رہ سکتا تھا ، ان کی دو مخصوص اصطلاحیں تھیں ، ثقیل الظلّ اور خفیف الرّوح ، وہ اس کو پسند نہیں کرتے تھے کہ آدمی ہر وقت بلاوجہ ایسا پُرشکوہ اور پُرہیبت بنارہے کہ لوگ اس سے بات کرتے ہوئے بھی ڈریں ، یا ہمہ وقت اتنا مغموم اور افسردہ رہے کہ اس کی افسردگی کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی افسردہ ہو جائیں
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را:
وہ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو سبک روح اور خوش مزاج ہونا چاہئے ۔ مولانا خود بھی اسی طبیعت و مزاج کے حامل تھے ، اپنے گھر کے بچوں سے چھیڑ چھاڑ ، ہم عصروں سے دل لگی اور عزیزوں اور شاگردوں سے ایک مخصوص دائرے میں مذاق و مزاح اُن کی عادت تھی ، اسی مزاح کا ایک حصہ یہ تھا کہ وہ بعض بچوں کا نام لیتے وقت بالقصد اُس میں کچھ تصرف کردیتے تھے ، مثلاً ابھی شعبان کے دوسرے ہفتے میں ، میں نے اُن کو فون کیا تو اُنہوں نے تھوڑا استعجاب ظاہر کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ یہ تمہارے نام میں DABAR کیوں لکھا ہوا آرہا ہے ، مجھ کو بے اختیار ہنسی آگئی ، میں نے کہا کہ حضرت A کی جگہ I ہونا چاہئے ، حضرت رح مجھے ایک عرصے تک دبیر عالم کہہ کر پکارتے تھے ، چونکہ حضرت کے نام کا بھی ایک جز ’’عالم‘‘ تھا ۔اِس پر سوائے اشک بہانے کے اور کیا کر سکتا ہوں
آں قدح بہ شکست و آں ساقی نماند
اہل و عیال سے محبت و تعلق:
ہمارے زمانے میں اولادوں سے بے تعلقی اور ان کے مسائل و معاملات سے عدم دلچسپی کو بعض لوگ کمالِ تقوی اور بزرگی کی دلیل سمجھتے ہیں ، اُس فقر اور استغنا کی خوب ستائش اور تعریف کی جاتی ہے ، جس کے نتیجے میں کسی دینی اور علمی شخصیّت کے گزر جانے کے بعد اُن کی اولادیں احتیاج اور تنگدستی میں مبتلا ہو جائیں ، چنانچہ پیش رو بزرگ کے گزر جانے کے بعد بالعموم اس طرح کے فقرے سننے میں آتے ہیں کہ فلاں بزرگ اِس پائے اور مرتبے کے تھے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اولادوں کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں کی ، مکمل طور پر متوکل علی اللہ رہے ، افسوس ہے کہ ان کے گزرجانے کے بعد اولادیں مجبور و تنگدست ہو گئیں ، حالانکہ احادیث نبویہ علی صاحبہا ألف ألف تحية اور آثارِ صحابہ سے اس طرز فکر کی بالکل تائید نہیں ہوتی ہے ، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا پاک ارشاد ہے کہ جو مال اہل و عیال پر خرچ کیا جائے وہ بہترین صدقہ ہے ، نیز آپ ص کا فرمان ہے : ,,منْ قُتِل دُونَ أهْلِهِ فهُو شهيدٌ. (رواه أبوداؤد والترمذي وقال حديث حسن صحيح)
جو شخص بیوی کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے ، وہ شہید ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ لقمہ جو شوہر بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے ، وہ بھی صدقہ ہے ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس صرف ایک بیٹی تھی ، اس لئے اپنا سارا مال راہ خدا میں دے دینا چاہتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے سختی سے روک دیا اور بہت اصرار کے بعد ایک تہائی مال صدقہ کرنے کی اجازت دی ، آپ ص نے فرمایا ’’إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ‘‘. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
تم اپنی اولادوں کو مالدار چھوڑ کر دنیا سے جاؤ ، یہ بہتر ہے اِس سے کہ تم ان کو اس طرح محتاج اور تنگدست چھوڑ کر مروکہ انہیں اپنی ضرورتوں کے لئے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے ۔
حضرت الاستاذ کا طریقۂ کار اس سلسلے میں نبوی تعلیمات اور قرآنی ہدایات کے بالکل مطابق تھا ، آپ اہل و عیال کی خدمت کو عبادت تصور کرتے تھے ، چنانچہ جب تک زندہ رہے ، اپنی تمامتر بے بضاعتی اور کم مائیگی کے باوجود اُن کو مطمئن رکھنے اور آرام پہنچانے کی تابحدّ امکان سعی و کوشش کرتے رہے ، بعض ناعاقبت اندیش اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے ناواقف لوگ اِس سے اُلجھن محسوس کرتے ہیں ، مگر حضرت الاستاذ اِس سے بیحد مسرور اور خوش ہوتے تھے ، حضرت کو اپنی اولادوں سے جو بے پناہ تعلق اور اُنس تھا ، اُس کا اندازہ آپ کی اُس نظم سے ہوگا جو آپ نے وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنے چھوٹے فرزند مولوی ثمامہ سلمہ کو مخاطب کرکے کہی تھی ، اس نظم میں استعارات اور تشبیہات کے پردے میں انہوں نے طبیعت کی بے قراری ، دل کے اضطراب و بے چینی اور اپنے خدشات اور اندیشوں کو جس سوز اور درد کے ساتھ بیان کیا ہے ، اُس سے بے اختیار دل تڑپ اٹھتا ہے اور طبیعت پر اضطراب اور بے قراری کی کیفیت چھا جاتی ہے ۔
جیل سے باہر آنے کے بعد آصف اقبال تنہا کا زبردست استقبال، طلبا سے خطاب کیا
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے آصف اقبال تنہا، نتاشا ناروال اور دیوانگنا کالیتا کو فوراً رہا کرنے کا حکم سنایا جس کے بعد جمعرات کی شام ان تین طلبہ کارکنان کی تہاڑ جیل سے رہائی عمل میں آئی۔جیل سے باہر آنے پر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے ممبران اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے آصف اقبال تنہا کا زبردست استقبال کیا۔ آصف اقبال تنہا نے سفید ماسک پہن رکھا تھا جس پر No CAA اور No NRC لکھا ہوا تھا۔اس موقع پر بڑی تعداد میں جمع ہوئے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے آصف اقبال نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں اور اپنے تمام حمایتی، میرے وکلاء اور وہ تمام لوگ جو دوسروں کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تنہا نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی وہ تمام سیاسی قیدی بھی رہا ہو جائیں گے جنہیں اپنے نظریات اور شناخت کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا۔آصف اقبال نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ جیل میں کووڈ19 کے مسائل کو حل کرے۔ زیادہ بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لیے چھوٹی موٹی سزاؤں والے قیدیوں کو رہا کرے اور تمام قیدیوں کو ویکسین لگانے کا انتظام کرے۔نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے آصف اقبال نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی لڑائی عوام میں امتیاز برتنے والے قانون CAA کے خلاف ہے، ناکہ کسی خاص عقیدے کو ماننے والے لوگوں کے خلاف۔ ہمارا پر امن احتجاج جاری رہے گا۔ آصف نے مزید کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ معزز کورٹ نے پرزور انداز میں کہا کہ ہمارا پرامن اور جمہوری احتجاج کا فسادات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ فیصلہ اہم اور مثالی ثابت ہوگا۔ عدلیہ پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے آصف اقبال تنہا نے امید کی کہ مقدمات کی سماعت تیز رفتاری سے ہوگی اور ہم سب جلد ہی بری ہو جائیں گے۔اس موقع پر کثیر تعداد میں موجود طلباء اور کارکنان نے عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر قید طلباء کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ و جھارکھنڈ
اتحاد امت، شرعی اور سماجی ضرورت ہے ،جب کہ اختلاف رائے کا وجود فطری ہے، اس لیے ہم شرعی ضرورت کے پیش نظر اتحاد امت کے پابند ہیں اور فکر ونظر کے اختلاف کے باوجود اتحاد امت اور وحدت امت کو اپنی ایمانی اور اسلامی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں، اختلاف کلمۂ واحدۃ کے ماننے والوں کے درمیان عقائد کا ہویا فروعی مسائل کا ، ان اختلافات کو عملی زندگی میں برتنے کے بھی کچھ شرعی اصول وحدود ہیں، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ اختلاف کی سر حدوں کو پہچاننا چاہیے اور احکام ومسائل کے بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
یہاں اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اتحاد امت کا مطلب تمام مذاہب ومسالک کا ادغام یا تمام مذاہب ومسالک سے مشترکہ چیزوں کو لے کر نیا مذہب بنانا نہیں ہے؛ بلکہ اتحاد امت کا مطلب اپنے مسلک ومذہب پر عامل رہتے ہوئے دوسرے مسلک ومذہب والوں کا احترام اور فروعی مسائل کو نزاعی بنانے سے اجتناب ہے؛ اسی طرح اختلاف رائے سے مراد وہ اختلاف وافتراق ہے جو امت اجابت کے درمیان ہے،امت دعوت یعنی غیر مسلموں سے اتحاد مراد نہیں ہے ۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مسلمان ایک امت ہیں، ان کے اتحاد کی بنیاد کلمہ ، قبلہ، کتاب اور رسول کا ایک ہونا ہے،ان کے علاوہ عقیدۂ آخرت ،دخول جنت وجہنم، نماز ، روزہ، حج وزکوٰۃ کی فرضیت ، جہاد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی مشروعیت میں سبھی متحد ومتفق ہیں؛ اس لیے مسلمان ایک امت ہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو دو آسمانی مذاہب کے ماننے والے یہودی اور نصرانی تک کو بعض امور مشترکہ کی وجہ سے ایک امت کہہ کر ان کے خلجان اور خدشات کو دور کیا ،جس کا حاصل یہ ہے کہ جو دین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا اور انبیاء سابقین جس دین کے حامل رہے، وہ ایک ہی دین، دین توحید ہے اور جس ملت کے داعی رہے وہ ملت اسلام ہے، لوگوں نے پھوٹ ڈال کر اصل دین کو پارہ پارہ کر دیا اور الگ الگ راہیں نکال لیں، نفسانی خواہشات اور اتباع ہویٰ کی وجہ سے لوگ فرقوں اور ٹکڑوں میں ںبنٹ گیے اور ہر فرقہ اپنے کو اچھا اور دوسرے کو گھٹیا اور ذلیل سمجھنے لگا ، رسولوں کی واضح ہدایات کو پس پشت ڈال کر دین کو بازیچۂ اطفال بنادیا اور اپنے عقائد وخیالات کو اصل دین کی جگہ دے کرہر گروہ مسرور وشادماں اور اپنی غفلت ، ضلالت اور جہالت کے نشے میں سرشار ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس امت میں جو اختلاف وانتشار وتفرقہ بازی ہے وہ بڑی حد تک یہود ونصاریٰ کے باہمی تفرقہ واختلاف کی طرح ہے جس سے اللہ رب العزت نے سختی سے منع کیا ہے۔
ہم اس سے باز نہیں آئے تو جتنی مصیبتیں آئیں، تھوڑی ہیں، آلام ومصائب ، قتل وغارت گری سب ہمارے اسی افتراق وانتشار کا شاخسانہ ہے، اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ان حالات سے ہمیں با خبرکیا تھا ، لیکن ہم نے اس پر غورنہیں کیا ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے؛آپ کہیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یاکہ تم کو گروہ گروہ کرکے سب کو بھڑا دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھادے، آپ دیکھیے تو سہی، ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں، شاید وہ سمجھ جائیں‘‘۔
لیکن ہم سمجھ نہیں سکے، ہم الجھے او ر الجھتے چلے گیے، معتزلہ اور خوارج کے جھگڑے تو اب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں؛ لیکن شیعہ، سنی ،سلفی ، غیر سلفی ،دیو بندی ، بریلی، مذہبی اور غیر مذہبی ؛بلکہ ایک ہی مذہب ومسلک میں مفادات وتحفظات کی لڑائی ،اسلام پسند اور لبرل طبقوں کے اختلافات نے ہمارا جینا دو بھر کر دیا ہے،یہ عذاب کی اندرونی اور داخلی قسم ہے، جو پارٹی بندی ، باہمی جنگ وجدال اور آپس کی خوں ریزی کی شکل میں امت مسلمہ پر مسلط ہے، پورے عالم اسلام اور خود ہندوستان میں اس اختلافات کی وجہ سے جنگ وجدال ہی نہیں، قتل وغارت گری تک کی نوبت آگئی ہے، مسجدوں میں بندوقیں چل رہی ہیں،پڑوسی ملک میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں ، شام ، عراق یمن وغیرہ میں کئی لاکھ اپنے ملک اور علاقہ کو چھوڑ کر پناہ گزیں کیمپوں میں ہیں اور خانہ بدوشوں کی زندگی گذار رہے ہیں ، ان کی بنیادی انسانی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہو پا رہی ہیں، بہت سارے ملک ان کو پناہ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں ، ماضی میں کئی ملکوں کی سرحدوں سے انہیں کھدیڑا گیا اور کئی کشتیاں غرق آب ہو گئیں اور اس پر سوار پناہ گزیں سمندر کی کوکھ میں سما گیے،بعض بچے کوپانی نے ساحل سمندر پر ڈال دیا اور بعض کی لاشوں کا پتہ نہیں چل سکا اور ہمیں اب بھی ہوش نہیں آ رہا ہے۔
پس اصلاً دین ایک ہے اور امت مسلمہ بھی ایک ہے، نسلی ، لسانی،مسلکی اختلافات اور ملکوں کی سرحدوں کا کلمہ ٔ واحدہ اور دین کی بنیاد پر متحد ہونا امر مستبعد نہیں ہے، اللہ نے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے اور جس قدر اس میں مضبوطی آئے گی ، اختلاف وانتشار دور ہوں گے ۔
واقعہ یہ ہے کہ اعتصام بحبل اللہ اور افتراق سے اجتناب؛ یہ اتحاد امت کی دو قرانی بنیادیں ہیں، ان بنیادوں سے گریز ان اختلافات کوجنم دیتا ہے جو مذموم ہیں، اور جن کی وجہ سے ملت میں انتشار پیدا ہو گیا ہے، حبل اللہ سے مراد بعضوں نے دین اور بعضوں نے قرآن کریم لیا ہے، مقصود ایک ہی ہے، آج مسلمانوں کے درمیان جو افتراق وانتشار ہے، وہ قرآن کریم احادیث رسول اور شریعت مطہرہ سے دوری کا نتیجہ ہے، اگر قرآن کریم ہماری زندگی میں آجائے اور وہ ہمارے سارے اعمال کا محور بن جائے تو اس امت کو ایک امت بننے سے نہیں روکا جا سکتا اور فروعی اختلافات اتحاد کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
اختلافات قرونِ اولیٰ میں بھی تھے، لیکن یہ آپسی مخالفت ، بغض وعناد ،کینہ کدورت اور جدال وقتال کی بنیاد نہیں بنتے تھے، خود صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے جزوی اور فروعی مسائل میں اختلافات منقول ہیں، حضرت عائشہؓ غسل میں عورتوں کے جوڑا کھولنے کی قائل نہیں تھیں اور اوپر سے پانی بہانا وہ بھی تین چلو کافی سمجھتی تھیں، بعض صحابہ سماع موتیٰ کے قائل تھے ، بعض مردوں پر نوحہ کرنے سے مردے پر عذاب کی بات کہا کرتے تھے، جبکہ بعض دوسروں کا استدلال َوَلَا تَزِرُ وَازِرۃ وِزْرَ اُخْریٰ(النجم 38) یعنی کسی دوسرے کابوجھ کوئی اٹھانے والا نہیں اٹھاتا،سے تھا کہ دوسرے کے گناہ کا بوجھ مُردے پر نہیں ڈالا جا سکتا ؛ کیونکہ ہر ایک کو اپنی اپنی جواب دہی خود کرنی ہوگی؛ ان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے پر اعتماد اور ایک دوسرے کے احترام میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا؛ بلکہ صحابہ کرام کے درمیان ہونے والے اختلافات باعث رحمت سمجھے جاتے تھے، اس لیے کہ اس کی وجہ سے عمل کے دائرہ میں وسعت پیدا ہوتی تھی ۔
یہیں سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ شیعہ سنی کے بعض اختلافات اور تنازعات بنیادی اور اساسی ہونے کے باوجود اور شیعوں کے بعض فرقوں کے خارج ازاسلام اور بعض کے گمراہ قرار دینے کے باوجود کسی فریق کی طرف سے بے دریغ قتل وغارت گری، بد ترین جنگ وخوں ریزی کی اجازت شریعت اسلامیہ نہیں دیتی، ایدوسرے کی مساجد، ادارے اور اہم مذہبی شخصیات کی توہین وقتل ،اسلامی مزاج سے میل نہیں کھاتا، اس لیے عالم اسلام کے مختلف ملکوں میں شیعہ سنی آویزش کو ختم کرنے اور بقاۓ باہم کے اصول کی روشنی میں میثاق مدینہ کو سامنے رکھ کر صلح وآشتی کا معاہدہ کرنا چاہیے، اس معاملہ میں اصحاب فکر ودانش اور عام مسلمانوں کی اپنے حلقہ ٔ اثر میں کام کی استطاعت کے اعتبار سے الگ الگ ذمہ داری ہے، علماء امن وآشتی کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی رول ادا کریں اور عوام اپنے جذبۂ سمع وطاعت سے اس مہم کو کامیابی سے ہم کنار کرے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے، جن ملکوں میں سنی اور شیعہ کی مشترک آبادیاں ہیں، وہ اپنے اپنے مسلک ومذہب پر عمل کریں اور بقائۓباہم کے اصول پر کوئی معاہدہ کرلیں، شریعت نے پڑوسیوں ، ضعفاءاور انسانوں کو جو حقوق بحیثیت انسان عطا کیا ہے، اس کا پاس ولحاظ رکھیں تو باہمی منافرت اور جنگ وجدال کو روکا جا سکتا ہے؛چونکہ مختلف ملکوں کے احوال الگ الگ ہیں،اس لیے وہاں کے احوال کے واقفین علماء ومذہبی پیشواؤں کو اصول وآداب بنانے چاہیے ، در اصل علماء کے اختلاف کا ہی یہ سب شاخسانہ ہے، عوام پہلے بھی علماء کی مانتی تھی اور اب بھی ماننے کو تیار ہے؛ حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ امت کا اتحاد علماء کے اتحاد پر موقوف ہے، علماء اور مذہبی پیشوا جب تک کسی بات پر اور کسی معاہدہ پر متفق نہیں ہوں گے، یہ سلسلہ دراز ہوتاہی رہے گا، یہ سارے معاملات اور چپقلش کی وجہ یہ ہے کہ اب لوگوں نے ’’بقاء باہم‘‘ کے بجائے ’’تنازع للبقاء‘‘ کو محور ومرکز مان لیا ہے، اسی لیے ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جانا چاہتی ہے اور اپنے خلاف قوتوں سے مزاحم ہو کر اپنے وجود کو مستحکم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں، اس لیے علماء کوعوام کے ذہن سے یہ بات نکال کر بقاۓ باہم کی اہمیت اجاگر کرنی ہوگی اور بتانا ہوگا کہ جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے، یہ مسئلہ کا حل کیا نکالے گی، خون کسی کا بہے، نسل انسانی کا خون ہے آخر، سب کو سمجھانا ہوگا تبھی مختلف مذاہب اور مسلک کے لوگ پر امن زندگی گذار سکیں گے؛ ورنہ برتری او رقبضہ کی جنگ میں سب کچھ خاکستر ہوتا چلا جائے گا، اس کا مطلب حق کے لیے جہاد سے انکار نہیں ہے، جہاد کے جو شرائط شریعت میں مذکور ہیں اس کی ان دیکھی کرکے لڑی جانے والی جنگ کو جہاد قرار دینا شرعی طور پر صحیح نہیں ہے، اس لیے اختلاف رائے کے باوجودہم سب کو ایک امت بن کر رہنا ہے۔
وحدت امت اور اختلاف رائے بڑا حساس اور سلگتا ہوا موضوع ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر اسلامک فقہ اکیڈمی نے اپنے پچیسویں سیمینار منعقدہ بدر پور آسام میں بڑے اہم فیصلے کےلیے ؛ تاکہ امت کے اندر اتحاد پیدا کیا جا سکے اور فروعی مسائل میں الجھنے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے بجائے وحدت امت کے اسلامی تصور کو عام کیا جائے اور مختلف طبقات سے گذارش کی جائے کہ وہ اس حقیقت کو مان کر چلیں کہ مسلک عمل کے لیے ہے اور دین اسلام دعوت وتبلیغ کے لیے اپنے مفادات اورتحفظات کے لیے اتحاد امت کو پارہ پارہ کرنا ناقابل تلافی جرم ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
غیر ازدواجی تعلقات اور نوجوانوں کی بڑھتی بے راہ روی -عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
چند یوم قبل ایک عزیز کے گھردوست احباب کی مختصر سی تقریب میں شرکت کا اتفاق ہوا،چوں کہ وقفے وقفے سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا؛اس لیے عشائیے میں کافی وقت درکارتھا۔ میں نے موقع پاکرپاس بیٹھے ایک نوجوان سے گفتگو کا آغاز کیا،علیک سلیک اورابتدائی تعارف کے بعد معلوم ہوا کہ وہ حیدرآباد ہی کی کسی بڑی کمپنی میں برسرروزگار ہے اور ویب ڈیزائننگ کے کام میں اچھی خاصی مہارت رکھتا ہے،تھوڑی دیر کی رسمی گفتگو اور اپنے اپنے کام سے متعلق وضاحت بالخصوص تحفظ شریعت ٹرسٹ (جس سے راقم السطور منسلک ہے)کے تعارف کے بعدوہ نوجوا ن قدرے بے تکلفانہ انداز میں کہنے لگا کہ آپ ماشاء اللہ تحفظ شریعت کی خدمت سے وابستہ ہیں اور نوجوانوں کے لیے مختلف ورک شاپ بھی منعقد کرتے ہیں نیز آپ کا مقصد بھی نوجوان نسل میں دین و شریعت سے متعلق شعور بیداری ہے؛اس لیے میں ایک نہایت حساس مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذو ل کروانا چاہتا ہوں،جس پر مستقل کام کرنے اور نئی نسل کو اس سلسلے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔پھراس نے ملک کے مشہورتعلیمی و تجارتی شہر،ممبئی،دلی،بنگلور،حیدرآباد کے متعدد مسلم نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کے حوالے سے ایسا چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ میں دم بہ خود رہ گیا۔وہ کہنے لگاکہ پچھلے چند سالوں سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کا بلاتفریق مذہب یکجاقیام کرنے اور بہ وقت ضرورت جنسی تعلق قائم کرنے پھر کچھ عرصے بعد علاحدہ ہوجانے کارجحان بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے،خود میں جس کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں وہاں ایسے متعدد مسلم نوجوان ہیں جو اس لعنت میں گرفتار ہیں۔ نوجوان کے مطابق کہ اس تعلق کو جو سراسر ناجائز اورحرام ہے، انگریزی زبان میں Live in Relationship کہا جاتا ہے،یعنی مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہتے ہوئے زندگی گزارنا،جو عارضی اور چند روزہ بھی ہوسکتا ہے اور اس میں پائیداری بھی ممکن ہے، اس عرصے میں ان کے درمیان جنسی تعلق بھی قائم رہتا ہے؛لیکن میاں بیوی کی طرح رہنے کے باوجود ان کے درمیان نکاح کا معاہدہ نہیں ہوتا، جس کی بنا پر ان میں سے ہر ایک کواختیار رہتا ہے کہ جب چاہے علاحدگی اختیار کرلے۔ نکاح نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ساتھی کے تعلق سے ہر طرح کی ذمہ داریوں سے آزاد رہتا ہے اور اس پر کوئی قانونی بندش نہیں ہوتی۔
اس ملاقات کے چند روز بعد ابھی ہفتہ عشرہ قبل پڑوس ملک کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی، نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کامتنازع بیان انٹرنیشنل میڈیا پر کئی دن تک بحث کا موضوع رہا، جس میں ملالہ نے کہا کہ’’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگوں کو شادی کیوں کرنا پڑتی ہے؟ اگر آپ زندگی میں ایک شخص کو چاہتے ہیں توآپ کو شادی کے کاغذات پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آخر کیوںیہ صرف ایک پارٹنرشپ نہیں ہوسکتی؟‘‘
یہ حقیقت ہے کہ یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعدعورت کو کسی حد معاشی استقلال تو حاصل ہوگیا؛ لیکن خاندانی نظام پر اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوئے۔تربیت کے بغیر اعلی عصری تعلیم کے بعد عورت جب مرد کی کفالت اورمالی اعانت سے بے نیاز ہوگئی تو پھر قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوا کہ جو عورت خودکمائے وہ مرد کی خدمت کیوں کرے؟ گھر کی ذمہ داریاں کیوں سنبھالے؟ برطانیہ کی نیشنل ویمنز کونسل کی ایک خاتون رکن کا کہنا ہے کہ ’’یہاں یہ خیال مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ شادی کر کے شوہر کی خدمت کے جھمیلے میں کیوں پڑا جائے بس زندگی کے مزے اڑالیے جائیں۔ بہت سی خواتین یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ ان کی بقا کے لیے مردوں کے سہارے کی ضروت نہیں۔‘‘ (ملخص از نکاح کے انسانی زندگی پر اثرات)
ایک طرف مرد و زن کے مابین تعلقات کا یہ غیر فطری رجحان ہے جونئی نسل میںتیزی کے ساتھ پنپتاجارہاہے اور دوسری طرف اسلام کا پیش کردہ پاکیزہ فطری نظام ہے جو ہر اعتبار سے واضح،مکمل اور معاشرتی حقوق کا محافظ ہے؛جس کا غیروں نے بھی کھلے دل سے اعتراف کیاہے اور اعداد وشمار اس کی گواہی دے رہے ہیں: برٹلن کے ترتیب دیئے ہوئے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کی نسبت غیر شادی شدہ انسان کہیں زیادہ خودکشی کے مرتکب ہوتے ہیں، جبکہ اکثر شادی شدہ افراد کی دماغی اوراخلاقی حالت نہایت متوازن اور ٹھوس ہوتی ہے، ان کی زندگی میں ٹھہراؤ ہوتا ہے۔ نیزجیسا کج رو اور سوداوی مزاج بہت سارے بن بیاہے نوجوانوں کا ہوتا ہے، شادی شدہ جوڑوںمیں اُس طرح نہیں پایا جاتا۔ نیز یہ بھی مشاہدہ ہے کہ شادی شدہ خواتین ہر چند کہ بچہ جننے، ماں بننے اور خانہ داری اور ازدواجی زندگی جیسی بے شمار ذمہ داریوںمیں گھری ہوتی ہیں، پھر بھی دوسری غیر شادی شدہ عورتوں کے مقابلہ میں ان کی عمریں خاصی طویل ہوتی ہیں اور وہ ان کے مقابلہ میں زیادہ مطمئن اور خوش ہوتی ہیں۔(مقاصدنکاح بہ حوالہ ماہ نامہ بینات ستمبر2013)
اسلام کا تصور نکاح:
دیگر ادیان و مذاہب کے بالمقابل اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے اور اسلام نے اس حوالے سے جو معتدل فکر اور متوازن نظریہ پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں؛بل کہ یہ نام ونسب کی حفاظت کے ساتھ فروغ نسل انسانی اور مستحکم خاندانی نظام سے عبارت ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں اسی طرح جنسی عمل بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے؛جسے اسلام نے معقول اور مہذب طریقے سے پورا کرنے کی نہ صرف اجازت و ترغیب دی ہے؛بل کہ نکاح کو آسان بناکر پیش کیا ہے۔اسلام کے علاوہ باقی مذاہب (چاہے آسمانی ہوں یا غیرآسمانی) میں عورت اور مرد کے ازدواجی تعلقات کو بہت حد تک اخلاقی و روحانی ترقی کے لیے مانع تسلیم کیا گیا ہے؛بل کہ مغرب نے تو آزادیٔ نسواں کے پرفریب نعرے کے ذریعہ سر عام اس کی عزت و عصمت کو نیلام کیا ہے۔دنیا کے مختلف مذاہب نے شادی بیاہ کے بارے میں جو مختلف نظریات پیش کیے ہیں،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
یہودی معاشرے نے نکاح کو سوشل کنٹریکٹ قرار دیا کہ جب چاہے توڑ دیاجائے۔ہندومت نے اسے اٹوٹ قرار دے کر اس میں مظلومیت کا عنصر شامل کر دیا اور عیسائیت نے تو نکاح اور ازدواجی زندگی سے الگ رہنے اور رہبانیت وتجرد کی زندگی اختیار کرنے کو ہی اعلیٰ اخلاق کا ذریعہ اورروحانیت کی معراج قرار دے کر اس سے دور رہنے کی تلقین کی ہے؛مگراسلام نے نکاح کوانبیاء کرام کی سنت،اہم ترین عبادت اور تکمیل ایمان کا سبب بتلایا ہے کہ نکاح ہی اخلاق و کردار، عزت و ناموس اور حیا و پاک دامنی کا ذریعہ ہے۔ جو آدمی نکاح کرلیتا ہے، وہ ایک قلعہ میں محصور ہوکر بے حیائی،بداخلاقی،بے راہ روی اوربدنگاہی جیسی مذموم عادات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کونکاح کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی حقوق زوجیت پر قادرہو تو وہ شادی کرلے‘‘۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح سے حاصل ہونے والے دو اہم فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’کیونکہ اس سے نگاہ اورعصمت دونوں کی حفاظت ہوتی ہے‘‘۔(بخاری و مسلم)
المختصر:اسلام نے ازدواجی زندگی کے متعلق صاف ستھرا اورقابلِ عمل تصور پیش کیاجو بے شمار دینی و دنیوی فائدوں کاحامل ہے،مثلاً معاشرتی فائدے، خاندانی فائدے،اخلاقی فائدے،سماجی فائدے، نفسیاتی فائدے وغیرہ۔۔۔۔اس طرح ان گنت فائدوں اور خوبیوںکا دوسرا نام نکاح ہے۔
اسلام میں زنا کی مذمت:
قرآن مجید میں جہاں نکاح کی اہمیت اجاگر کی گئی،وہیں مختلف مقامات پرزنا کاری کی مذمت بیان کی گئی ؛بل کہ مقدمات زنا پر بھی قدغن لگائی گئی،مردوں اور عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے نگاہ نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے کی تاکید کی گئی،دوسروں کے گھر میں داخل ہونے سے قبل اجازت لینے کو ضروری قرار دیاگیا،پردے اور حجاب سے متعلق تفصیلی احکام اتارے گئے نیز سورۃ الاسراء میں پہلے زنا سے منع فرمایا گیا، اس کے بعد قتل ناحق سے روکاگیا،جس کی حکمت بیان کرتے ہوئے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:’’کفرکے بعد سب سے بڑا گناہ قتل ناحق ہے، زنا اس کے بعد ہے؛ لیکن اس کے باوجود اس آیت میںزنا کا ذکر قتل سے پہلے کیا گیا ہے، اس کی حکمت اور وجہ یہ ہے کہ جس سماج میں زناکا دروازہ کھل جاتا ہے، اس میں قتل وخون کی واردات عام ہوتی چلی جاتی ہے، زنا سے قتل کی راہیں ہموار ہوتی ہیں، اسی لئے زنا کو پہلے ذکر کیا گیا ہے‘‘۔ (التفسیرالکبیر)اسی طرح قرآن میں زنا اور اولاد کے قتل کا ایک ساتھ بھی ذکر آیا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد معاشرے میںجس طرح ذلیل وبے مایہ ہوتی ہے وہ کسی موت سے کم نہیں ہے۔نیز زنا سے ہونے والے حمل بدنامی اور طعن و تشنیع وغیرہ کے خوف سے عام طور پر ساقط کردیے جاتے ہیں اس طرح ہرسال لاکھوں کلیاں کھلنے سے پہلے ہی مسل دی جاتی ہیں۔
اسلام میں زنا کی شناعت کا اندازہ اس سے بھی ہوسکتا ہے کہ زنا کار کو ایمان کے نور وکیف سے محروم قرار دیا گیا، اس کی دعاؤں کو نامقبول بتایا گیا، زنا کے نتیجے میں جو اجتماعی وانفرادی مصائب اور مشکلات پیدا ہوتے ہیں، ان کا ذکر کرکے اس عمل کی زہرناکی کو اجاگر کیا گیا۔
وبائی امراض کی ایک وجہ:
جس قوم یا سماج میں بدکاری کی وبا پھیل جاتی ہے وہ سما ج عذابِ الٰہی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:جب کسی علاقے میں سودخوری اور زناکاری عام ہوجاتی ہے تو اللہ کا عذاب آنے کے قریب ہوجاتا ہے۔(المستدرک)
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں: میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک کہ اس میں ولدالزنا کی کثرت نہ ہو، اور جب امت میں ولد الزنا کی کثرت ہوجائے گی تو قریب ہے کہ اللہ سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔(مجمع الزوائد)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس آئے اور ارشاد فرمایا:اے گروہِ مہاجرین!جس قوم میں علانیہ زناکاری عام ہوجاتی ہے اس میں طاعون اور ایسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں جو پچھلی امتوں میں نہ تھے۔(ابن ماجہ)
حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے خطبات میں ملتا ہے:’’جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے خدا اس میں مصیبت کو پھیلادیتا ہے‘‘۔معلوم ہوا کہ جس معاشرہ میں زنا عام ہوجائے، ناجائزاولاد کی کثرت ہونے لگے وہ معاشرہ عذابِ الٰہی کے نشانے پر آجاتاہے، پھر عذاب کاظہور مختلف شکلوں میں ہوتا ہے، طوفان وسیلاب ہو، زلزلہ ہو، رزق سے محرومی ہو، وبائی امراض ہوں یہ سب اسی عذاب کے مظاہر ہیں۔
موجودہ دور میں ہر جگہ جو خطرناک وبائی امراض پھیلے ہوئے ہیں،کیا بعید ہے کہ وہ سب انہی فواحش کا خمیازہ ہو جسے پوری انسانیت بھگت رہی ہو۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
الجھتی ہیں ، ناراض ہوتی ہیں ، بگڑتی ہیں اور پھر آپ کے ہی قدموں میں بکھر جاتی ہیں ، اور سب کچھ آپ کے پاؤں میں ہار دیتی ہیں –
روپیہ روپیہ جوڑتی ہیں ، کبھی آپ کی جیب سے بچا بچا کے اور کبھی اپنی وراثت میں ملا روپیہ – ایسی بھولی گائیں ہوتی ہیں یہ کہ خاوند پر احسان چڑھاتی ہیں ، لیکن کرتی ہمیشہ "گھاٹے کا سودا” ہے – وہ یوں کہ سینت سینت کر جوڑا روپیہ آپ کی اولاد پر لگا چھوڑتی ہیں – کبھی بہت ہوا تو اپنے دو چار جوڑے بنا لیے ، لیکن اکثر جانتے ہیں کیا کرتی ہیں ؟
جی ہاں بہت شوق سے بازار جا کر گھر کی کوئی شے ، کوئی آرائش کی ، یا استعمال کی چیز لے آتی ہیں – بہت سیانی بنتی ہیں ، ایک جملے کو ، صرف ایک تحسین کے جملے کو اس ” جوڑ توڑ ” کا حاصل سمجھتی ہیں – آپ کے حصے کا کام کر رہی ہوتی ہیں اور بدلے میں صرف اک نظر ، محبت بھری مسکراہٹ اور تسلیم پر راضی ہو جاتی ہیں –
دیکھئے نا اصول کی بات ہے کہ گھر بنانا اور چلانا مرد کی ذمے داری ہے ، اور اس کو سنبھالنا ، سجانا ، سنوارنا عورت کی –
اب یہ عورت مرد کے حصے کا کام کرتی ہے اور تحسین کے دو بول محض دو بول مانگتی ہے اور جانتے ہیں ؟ انہی پر راضی ہو جاتی ہے –
اگلے روز ہمارے ایک فیس بک کے دوست کا آپریشن تھا – دوست کے دونوں گردے ناکارہ ہو چلے تھے – تبدیلی کا فیصلہ ہوا – ان کی پوسٹ دیکھی دل مضطرب تھا – کیسا خوبصورت ، ہنستا چہرہ ، سچی بات ہے مجھے بہت اندیشے تھے – اللہ نے زندگی دی ، لوٹ آئے – ایک دوست نے ان سے پوچھا کہ جس نے گردہ عطیہ کیا وہ کیسا ہے ؟
اگلا سوال کسی نے کیا :
"بھائی آپ کو گردہ کس نے دیا ؟”
ان کا جواب تھا :
” میری اہلیہ نے ”
میری آنکھیں بھر آئیں – کہ یہ کیسی کمال کی نعمت اللہ نے ہم کو دی ہے – بھلا ایسا بھی ہوتا ہے –
ہم سے محبت کرتی ہیں ، پھر الجھتی ہیں ، اور پھر اپنا سب کچھ ہم پر ہی ہار دیتی ہیں ، اگر وقت آن پڑے تو اپنی جان بھی وار دیتی ہیں –
کبھی تو ہم ایسے بے پرواہ ہو جاتے ہیں کہ کہ تعریف تو کیا تسلیم سے بھی مکر جاتے ہیں ، لیکن یہ ایسی ہوتی ہیں کہ اس بے پرواہی کا علاج بھی مزید محبت سے کرتی ہیں – کہ شائد اب کے شام کا بھولا جلدی لوٹ آئے –
اگلے روز ایک ویڈیو دیکھی کہ خاوند بیوی کی بے جا ضد سے ہارا ، کہ جو ساتھ جانے کو تیار نہ تھی – اس نے اسے موٹر سائیکل پر باندھا اور ساتھ لے چلا ، راستے میں لوگوں نے اس عمل پر اس مرد کو شرمندہ کیا تو اس نے اسے کھولا – اب وہ عورت لوگوں کو یقین دلا رہی تھی کہ کوئی ایسا مشکوک معاملہ نہیں وہ اس کی بیوی ہی ہے ، بس لڑائی ہو گئی تھی – اور ساتھ ساتھ میں اپنے خاوند کے منہ سے پسینہ کمال محبت سے صاف کر رہی تھی – لوگوں کے تیور دیکھے تو سب لڑائی بھول گئی ، بس یہی فکر کہ کوئی اس کے خاوند کو کچھ نہ کہے –
جگ تے توں جیویں ، تے تری آس تے میں جیواں
ایسی "جھلی ” ہوتی ہیں کہ کھانے کا بہترین حصہ ہمارے لیے بچا کے رکھتی ہیں اور ہم بسا اوقات یہ پوچھنا بھی بھول جاتے ہے کہ اس نے کھانا بھی کھایا یا نہیں –
ہم بھلے تمام دن دوستوں میں بتا کے آئیں ، یہی سمجھتی ہیں کہ سرتاج دن بھر کام کاج کے تھکے آئے ہیں – پاؤں بھی دھیرج رکھتی ہے کہ مزاج کے نازک آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے – ہم ایسے بے توفیق ہووے کہ نازک آبگینے خود بن کے رہ گئے – اور اس کو بہت آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ:
” آپ تمام دن کرتی کیا ہو ”
مجھے اپنے ایک ملنے والے یاد آ گئے کہ جب بھی آتے ایک آٹھ دس برس کا بچہ ہمراہ ہوتا ، اک روز بتانے لگے کہ :
"اس کی ماں نہیں ، کھانا بھی خود بناتا ہوں ، اکٹھے رہتے ہیں ایک کمرہ لیا ہوا ہے ، نوکری لاہور میں ہے – میں ملازمت پر چلا جاتا ہوں اس کو حفظ کے مدرسے میں چھوڑ کے آتا ہوں ، تب کچھ کام کر پاتا ہوں -”
میں سوچ کے رہ گیا کہ ہم کیسے بے فکر ہو کے کام پر چلے آتے ہیں –
ایسی سادہ ہوتی ہیں کہ شادی کی اگلے روز اپنا حق مہر معاف کر کے بیٹھی ہوتی ہیں ، اور اگر کوئی زیادہ مسکین شکل بنا لے یا محبت سے بازوں میں بھر لے تو وہی رقم اس کو دے کر کہتی ہیں:
” لیں آپ برت لیجئے گا ، میں نے کیا کرنی ہے ، آپ ہیں نا -”
یار دیکھیے نا ، کیسی اللہ کی نعمت ہوتی ہیں ، زمانے بھر کا دکھ سہتی ہیں کہ ماں باپ کو چھوڑ کے آپ کے پاس آ جاتی ہیں ، پھر آپ کے ماں باپ ، بہن بھائیوں کی خدمت کرتی ہیں – آپ ایک لمحہ جس تکلیف کو نہ سہہ سکیں ، اس کو سہار کر آپ کے بچے پیدا کرتی ہیں – اور سب سے بڑا انعام آپ کو یہ دیتی ہیں کہ ان کی اچھی سے اچھی تربیت کرتی ہیں ، اور پھر آپ بوڑھے ہوتے ہیں تو بھی ان سے آپ کے لیے لڑتی ہیں کہ :
” باپ کا خیال کیا کرو ”
اور بتاؤں سب سے بڑی عنایت ان کی تب ہوتی ہے کہ جس سے میں بھی ہر دم نہال ہوتا ہوں ، کہ آپ کی آخرت کی بھی سوچتی ہیں – کیسی مہربان اور شفیق – میری اہلیہ تب تو ایسی تلخ ہو جاتی ہے جب میں نماز میں سستی کرتا ہوں ، کبھی سستی کے مارے گھر میں پڑھنے کو جی چاہتا ہے تو یوں ناراض ہوتی ہے کہ جیسے میں نے اس کے بچاے پیسے چرا لیے ہیں – پھر اٹھ کے مسجد جانا ہی پڑتا ہے ـ ہیں نا بہت ظالم بیویاں کہ آپ کا ساتھ چھوڑتی ہی نہیں ، آخرت کی فکر میں بھی رہتی ہیں ۔
اردو اکادمی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد کی وزیر اعلیٰ سے خصوصی ملاقات، متعلقہ مسائل کے حل کی یقین دہانی
نئی دہلی:اردو اکادمی، دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال سے خصوصی ملاقات کی اور اردو اساتذہ کی تقرری کے معاملے میں عمر کی سابقہ حد42 سال بحال کرنے کی ان سے گزارش کی۔ اس ملاقات میں اکادمی کے دیگر مسائل اور اردو زبان سے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔وزیر اعلیٰ نے تمام بات چیت کو بہت سنجیدگی سے سنا اور دہلی حکومت کی طرف سے سے یقین دہانی کرائی کہ جو اردو زبان کے فروغ کے لیے ہوسکتا ہے وہ سرکار ضرور کرے گی۔وائس چیئرمین اکادمی نے حکومت دہلی بالخصوص وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا اس بات کے لیے شکریہ ادا کیا کہ ایک مدت کے بعد دہلی میں اردو اساتذہ کی اسامیاں اتنی بڑی تعداد میں سرکار کے ذریعے نکالی گئی ہیں جو یقینا ایک بڑا قدم ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ حکومت عوام کے اعتماد سے چل رہی ہے اور ہم ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جو دہلی کے عوام بالخصوص زبانوں کی فلاح و بہبود کے لیے جوتنظیمیں کام کر رہی ہیں ان کو نقصان پہنچے۔وائس چیئرمین نے دبلی میں اردو اخبارات کے مالی بحران کی طرف بھی وزیراعلیٰ کی توجہ مبذول کرائی اور وزیراعلیٰ سے کہا کہ اردو اخبارات کو بھی حکومت دہلی دیگر زبانوں کے اخبارات کے حساب سے اشتہارات دے۔ وزیر اعلیٰ نے اس بات پر بھی اپنی آمادگی ظاہر کی کہ حکومت اس بات یقینی بنائے گی کہ اردو اخبارات کو ان کا جائز حق ملے۔واضح رہے کہ اساتذہ کی عمر میں حد کے تعلق سے مختلف ملی و سماجی تنظیموں نے وائس چیئرمین اکادمی حاجی تاج محمد کو مکتوب لکھ کر ان سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سے بات کریں۔ ان تنظیموں میں ماڈرن انڈین لینگویجز آدھیاپک پریوارفار پیپلس فا ؤنڈیشن،امن سندیش کمیٹی،فیڈریشن فار ایجوکیشنل ڈولپمنٹ،مائناریٹی کمیونٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن، میسکاٹ ایجوکیشنل سوشل ویلفیئر سوسائٹی،محبان اردو ایجوکیشنل ٹرسٹ،جدید فاؤنڈیشن،رائزنگ اینی شیٹیو فار آل،سرسید اجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ،کلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی،ہنی میموریل سوسائٹی،سنیکت جن کلیان سمیتی،سروجن ہیتائے وکاس سیوا سمیتی،سوسائٹی فار سوشل ویلفیئر، ملت ویلفیئر کمیٹی،سہراب ماسی اور رفیع ٹرسٹ جیسے این جی اوز شامل ہیں۔ ان این جی اوز نے مشترکہ طور پر دہلی میں جو بڑی تعداد میں تمام زبانوں کے لیے اساتذہ کی اسامیاں نکالی گئی ہیں ان کی عمر کی حد 32 سال سے 42 سال کرنے کی گزارش کی گئی ہے، لہٰذا اس بنیاد پر وائس چیئرمین نے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروندکیجریوال کو اردو اکادمی کی طرف سے این جی اوز کے حوالے سے ایک مکتوب دیا۔
دہلی میں لاک ڈاؤن ضروری سہولیات کے ساتھ چل رہا ہے اس کے باوجود وزیراعلیٰ نے اپنی تمام ترمصروفیات کے باوجود اردو اکادمی کے وائس چیئرمین کے ساتھ ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں گورننگ کونسل کے ممبران جاوید رحمانی اور عبدالماجد نظامی موجود تھے۔آخر میںوزیراعلیٰ نے کہا کہ اردو اکادمی کے ساتھ دہلی کی تمام اکادمیوں کے لیے ہماری سرکار ہمیشہ فلاح و بہبود کے لیے نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ جب بھی آپ کو ہماری ضرورت ہو تو آپ بلا جھجک ملاقات کرسکتے ہیں۔
عدالت سے ضمانت کے بعد تہاڑ جیل سے رہا ہوئے دیوانگنا کالیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال
نئی دہلی:دہلی فسادات کے معاملے میں دیوانگنا کالیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال تنہا کو کرکرڈوما عدالت کے حکم کے بعد تہاڑ جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔ عدالت نے تینوں کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے دہلی پولیس کی درخواست خارج کردی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ دہلی پولیس نے عدالت سے تصدیق کے لئے 21 جون تک کا وقت مانگا تھا۔ یہ حکم ان تینوں کی رہائی کے لئے دہلی ہائی کورٹ جانے کے بعد آیا ہے۔ ان تینوں کو دہلی پولیس نے پچھلے سال یعنی مئی 2020 میں دہلی تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کے بعد گرفتار کیا تھا۔ ان کی رہائی سے قبل، جے این یو کے طلباء اور میڈیا کے ساتھ حامی تہاڑ جیل کے باہر جمع ہوتھے۔ دیوانگنا کالیتا نے نعرے لگانے والے حامیوں کے درمیان جیل گیٹ سے باہر آنے کے بعد صحافیوں سے کہاکہ یہ حکومت کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے،ہم ایسی خواتین ہیں جو ان سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم بچ گئے کیوں کہ ہمیں دوستوں، خیر خواہوں کی زبردست حمایت حاصل ہے، ہم ان سب کے شکرگزار ہیں۔نتاشا نروال نے کہا کہ وہ اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتیں کیوں کہ یہ ابھی عدالت میں موجود ہیں۔ نروال نے کہاکہ تاہم ہم دہلی ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے، جس پر ہم یقین رکھتے ہیں۔ ایسا کوئی بھی احتجاج جو ہم نے کیا وہ دہشت گردی نہیں ہے، یہ خواتین کے ذریعہ جمہوری احتجاج تھا۔نروال نے کہاکہ وہ ہمیں جیل کے دھمکی سے نہیں ڈراسکتے، اگر وہ ہمیں جیل میں ڈالنے کی دھمکی دیتے ہیں تو اس سے ہماری لڑائی جاری رکھنے کے ہمارے عزم کو مزید تقویت ملے گی۔ ناروال کے والد مہاویر ناروال کاویڈ سے مئی میں انتقال ہوگیا تھا جب وہ جیل میں تھی۔ ان کا بھائی، جو اسے لینے آیا تھا،انہوں نے کہا کہ اسے اپنے والد کی یاد آتی ہے، اگر وہ زندہ ہوتے تو جیل سے باہر آنے پر ان کا استقبال کرنے آتے۔نارووال نے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ مجھے نہیں معلوم کہ میں (والد کی موت) سے کس طرح نمٹوں گی۔ یہ ہمارے لئے ایک سبق ہونا چاہئے کہ یہ نظام ہمیں اپنے پیاروں سے کس طرح الگ کرتا ہے۔ میرا معاملہ بے نقاب ہوا لیکن وہاں بہت سارے لوگ تھے جن کو فون کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی،ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہئے کہ ہم اس مقام پر کیسے پہنچے جہاں دہشت گردی اور اختلاف کے مابین لائن دھندلی پڑ گئی ہے؟ لوگوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کے خلاف احتجاج دہشت گردی نہیں ہے۔
ترجمہ:نایاب حسن
ہم دونوں عرصۂ دراز سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں
میری اور تیری آرزووں کا چشمہ رواں ہے
ہمارے دلوں کے بادل بھرے ہوئے ہیں
ہمارے افکار و خیالات کے پہاڑ ثابت و قائم ہیں
ہمارے دلوں کے جنگل سرسبز و ثمردار ہیں
ہمارے دن گرم اور راتیں طویل کہانیوں سے لبریز ہیں
میں اور تو جانتے ہیں
کہ زندگی ہر لمحہ تغیرپذیری کا نام ہے
زندگی باغ میں چہکنے والے چڑیے جیسی ہے
میں اور تو جانتے ہیں
زندگی روح سے باہر آنے والی آواز ہے
زندگی اس ساز کا نغمہ ہے،جو ہمارے ہاتھوں میں ہے
زندگی ہم دونوں کے لبوں کا تبسم ہے
زندگی وہ خواب ہے جو تو ابھی دیکھ رہی ہے
زندگی ایک کھیل ہے جس میں تو ہر لمحہ خنداں ہے
زندگی اچھی نیند اور بچے کے احساس جیسی ہے
زندگی وقتِ سحر تیری ناراضگی کا نام ہے
زندگی تیری پلکوں پر ٹھہرے ہوئے آنسو کے قطرے جیسی ہے
زندگی گلِ سرخ کی آنکھ میں پوشیدہ ایک راز ہے
زندگی حرفِ ناگفتہ کو سننے کا نام ہے
زندگی اپنی مرضی سے دیکھاگیا خواب ہے
زندگی تیرے دستِ راحت بخش کا لمس ہے
زندگی تیرے دل کا خوف ہے
زندگی وہ امید ہے جو تو میرے دل میں تلاش کررہی ہے
محبت کی زندگی تیرے خیالات میں پوشیدہ ہے
زندگی یہ سب ہے
میں اور تو جانتے ہیں
زندگی ایک سفر ہے
زندگی دنیاے خیال کی طرف جانے والی راہ ہے
زندگی وہ تصویر ہے جو میرے آئینۂ دل میں تجھے نظر آتی ہے
زندگی وہ خواب ہے جسے بغیر دیکھے تو دیکھتی ہے
زندگی ایک سانس ہے جسے ہم اپنی خواہش سے مار دیتے ہیں
زندگی موسمِ باراں کے خوب صورت مناظر کا نام ہے
زندگی رات کے وقت روح پر جمی برف ہے
زندگی کی گردش ککروندے کی طرح عام اور پایاب ہے
زندگی سرِ راہ پڑا ہوا نقشِ پا ہے
زندگی نسترن کی خوشبو ہے
بوے گلِ یاسمین ہے،جو میری اور تیری نگاہوں کی دیوار پر کھلا ہوا ہے
زندگی قدیم یادیں ہیں
زندگی گزشتہ کل ہے
زندگی آج ہے
زندگی وہ شعر ہے جسے میرے اور تمھارے لیے کسی عزیز نے لکھا ہے
زندگی گھر کی دیوار پر پڑی ہوئی ایک تصویر ہے
زندگی خوب صورت پھول کو دیکھنے کے بعد بادشاہ کی مسکراہٹ ہے
زندگی تیرے لبوں کے خطوط کا دل انگیز رقص ہے
زندگی ایک حرف ہے،ایک لفظ ہے
زندگی شیریں ہے
زندگی تلخ نہیں ہے
ہماری زندگی کی تلخی بھی شہد جیسی شیریں ہے
میں اور تو جانتے ہیں
زندگی ایک آغاز ہے جس کے انجام کی ایک ہی راہ ہے
زندگی آنے،جانے اور بہنے کا نام ہے
زندگی خاموشی و تنہائی ہے
میں اور تو جانتے ہیں
زندگی آنا ہے
زندگی ہونا اور بہنا ہے
زندگی جانا اور اپنے ہونے سے دور چلا جانا ہے
زندگی شیریں ہے
زندگی روشن ہے
زندگی سرشاری و مستی و سرور انگیزی ہے
زندگی ان سب کا نام ہے
میں اور تو جانتے ہیں
زندگی کبھی بد شکل بھی ہوتی ہے
کبھی تلخ و ناپسندیدہ بھی ہوتی ہے
اس کی یہی کہانی ہے اور ہم اسے جانتے ہیں
کہ نہ غم کے دن مستقل ہوتے ہیں اور نہ ہم ہمیشہ خوشحال ہوتے ہیں
زندگی چاہے خوشحال ہو یا غمناک
نغمہ و ترانہ و آواز کا نام ہے
جنگل میں ترنم ریز چڑیے کی طرح
زندگی خوب صورت ہے
میں اور تو جانتے ہیں
آنسو و خوشی سب زندگی ہے
نالہ و آہ و فغاں بھی زندگی ہے
آنا زندگی ہے
ہونا،رہنا و مشاہدہ کرنا سب زندگی ہے
جانا اور نہ ہونا بھی زندگی ہے
یہ سب زندگی ہے
میں اور تو جانتے ہیں
زندگی،زندگی ہے
(سہراب سپہری( 1980ء ۔ 1928 ء) کا شماربیسویں صدی کے عمده اور باکمال ایرانی،فارسی شاعروں میں ہوتا ہے۔ اس کی شاعری میں خوش رنگ خیالات کی فراوانی اور تخلیقیت کا وفور ہے،الفاظ و اسلوب کی سطح پر بھی سپہری کی شاعری میں امتیازی خصائص پائے جاتے ہیں۔اس کی شاعری میں نغمگی اعلیٰ درجے کی ہے اور فکر و خیال کو مہمیز کرنے والے عناصر قاری کو غیر معمولی طورپر متاثر کرتے ہیں۔ اس کی پہلی کتاب ’’آرامگاه عشق‘‘ہے، جو کلاسیکی اشعار پر مشتمل بے۔ بعد میں سپہری کا رجحان نئی شاعری کی طرف ہوا اور اس کی کتابوں میں زندگی خوابها (خوابوں کی زندگی) مرگ رنگ (موت کا رنگ)، آوار آفتاب (سورج کا ملبا) صدای پای آب (پانی بہنے کی آواز)،شرق اندوہ،حجم سبز وغیرہ ہیں۔ سپہری شاعری کے علاوه پینٹینگ میں بهی مہارت رکهتا تها اور اس کی مصوری کا ایک کلکشن بهی شائع ہوا)