بھوپال:(رضوان الدین فاروقی) بھوپال سے تعلق رکھنے والی سلیقے مند طنز ومزاح نگار، باریک بیں نقاد اور منجھی ہوئی شاعرہ ڈاکٹر انیس سلطانہ آج بتاریخ یکم مئی ٢٠٢١ کو رضائے الٰہی سے وفات پا گئیں ـ
پروفیسر انیس سلطانہ ۲ جولائی ۱۹۴۱ کو بھوپال میں پیدا ہوئیں۔ والد کا آبائی وطن آگرہ تھا۔ بچپن میں آپ نے اپنے ماموں سید اقبال حسین سے کسب فیض کیا۔ابتدائی تعلیم بھوپال میں حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۳ میں وکرم یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا اور اسی یونیورسٹی سے ۱۹۶۸ میں فارسی میں ایم اے کیا۔ ’’بھوپال میں اردو تحقیق تنقید‘‘ کے موضوع پر آپ کو برکت اللہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ ابتدائی ملازمت سلطانیہ گرلس اسکول سے شروع کی۔ بعد ازاں گرلس کالج اوجین میں لکچرر کی حیثیت سے تقرر عمل مین آیا۔ ۳۲ سال ایم ایل بی گرلس کالج بھوپال میں اردو درس و تدریس کے مقدس پیشے میں گزار کر بحیثیت صدر شعبۂ ۲۰۰۱ میں سبکدوش ہوئیں۔
زمانۂ طالب علمی سے ہی آپ کا رجحان انشائیہ نگاری کی جانب تھا اور یہی صنف آپ کی ادبی شناخت بنی۔ ابتدائی دور کے کچھ انشائیے کالج میگزین میں شائع ہوئے بعد ازاں آپ کے اکثر انشائیے موقر ادبی رسالے ’’شگوفہ‘‘ اور دیگر ادبی جرائد میں شائع ہوئے۔ آپ کے اب تک دو انشائیوں کے مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ جن میں پہلا’’ قصور معاف‘‘ ۲۰۰۳ میں منظر عام پر آیا جبکہ دوسرا مجموعہ ’’اک ذرا‘‘ کے نام سے ۲۰۲۰ میں منظر عام پر آیا۔ آپ کے دو شعری مجموعے ’’تنگ نائے غزل(۲۰۱۰) اور سرگوشیاں (۲۰۲۰) بھی شائع ہوئے۔اس کے علاوہ آپ کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’تنقیدی سروکار‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ۔ آپ کے انشائیوں کے پہلے مجموعہ ’’قصور معاف‘‘ مدھیہ پردیش اردو اکادمی اور بہار اردو اکادمی نے اعزاز سے نوازا۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے سال ۰۶۔ ۲۰۰۵ میں محمد مہر صوبائی اعزاز اور ۲۰۱۴ میں ’’قومی اعزاز برائے طنز و مزاح‘‘ سے نوازا۔
پروفیسر انیس سلطانہ کی رحلت سے بھوپال کی ادبی فضا سوگوار ہوگئی ہےـ
1 مئی, 2021
نئی دہلی:بہار کے سیوان سے راشٹر یہ جنتا دل کے سابق ممبر آف پارلیمنٹ محمد شہاب الدین کا آج دوپہر کورونا سے انتقال ہوگیا ،نیوز ایجنسی اے این آئی نے صبح ٹویٹ کر یہ جانکاری دی تھی ، لیکن جیل انتظامیہ کے تردید کے بعد اےاین آئی نے اپنے ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر معافی مانگ لی تھی، لیکن چند گھنٹے بعد ہی آپ کی موت ہوگئی، محمد شہاب الدین غریبوں کے مسیحا مانے جاتے تھے،شہاب الدین قتل کے الزام میں تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے،٢٠ اپریل کو جیل میں ہی شہاب الدین کی طبعیت بگڑ گئی تھی، اور کورونا کے علامات پاۓ گئے تھے ، جس کے پیش نظر جیل انتظامیہ نے شہاب الدین کا کورونا ٹیسٹ کروایا جس کی رپورٹ مثبت آئی، اور جیل کے ڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج چل رہا تھا، دلی ہائی کورٹ نے دو دن پہلے ہی دلی سرکار اور جیل انتظامیہ کو شہاب الدین کا بہتر علاج کرانے کا حکم دیا تھا، جسٹس پرتبھا سنگھ نے کہا تھا کہ کورونا کا علاج کر رہے ڈاکٹرز شہاب الدین کی صحت کا خیال رکھیں،دراصل شہاب الدین کی طرف سے کورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ ان کا علاج ٹھیک طریقے سے نہیں ہورہا ہے،اور آج دوپہر ٥٣ سال کی عمر میں دلی کے لوک نائیک جے پرکاش نارائن ہاسپٹل میں انتقال کر گئے-آپ کی پیدائش ١٠ مئی ١٩٦٧ کو شیخ محمد حسیب اللہ کے گھر ہوئی-
سمجھ نہیں پا رہے کیا لکھیں، کہاں سے الفاظ لائیں،اور کسے تعزیت پیش کریں۔ذوقی اور تبسم کا نور نظر کمسن ساشا کیا جانیں کہ کے اس کے والدین کے قلم کے گرویدہ ، ان سے بے پناہ محبت کرنے والے ، ان کی تحریروں میں اپنا عکس دیکھنے والے حلقہ احباب کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔ان کی عظمتوں کے پرچم کہاں کہاں نہیں لہرا رہے ہیں ۔ان عظمتوں سے وہ لوگ بھی واقف ہیں جو اس پرچم تلے کھڑے تھے اور اور ذوقی اور تبسم کے رابطے میں تھے ان سے ملتے تھے۔ ملاقات کرتے تھے ۔بات کرتے تھے۔ لیکن ان کی عظمتوں کا گرویدہ ایک وہ حلقہ بھی ہے جو کہیں دور سے اس لہراتے ہوئے پرچم کو دیکھ رہا تھا ،اور ان کی تحریروں سے اثر اندوز ہو رہا تھا۔ جس روز سے ذوقی صاحب اور تبسم صاحبہ اس سرائے فانی کو الوداع کہ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں ذہن کو پل بھر سکون نہیں۔ دل بے زار ہو کر بار بار ہم سے سوال کرتا ہے کہ دونوں کو کہیں تمہاری نظر تو نہیں لگ گئی عنبر ۔ جہان ادب کے جس میدان میں ذوقی اور تبسم صفحہ اول میں کھڑے نظر آتے ہیں ہم اسی کاروان ادب کی آخری صف میں بہت دور سے بڑی حسرت بھری نظروں سے ان عظمتوں کا طواف کرتے رہے تھے۔ اور اللہ رب العزت سے اپنے قلم کے لیے مزید صلاحیتوں، وسعت اور پختگی کی دعائیں کرتے رہے ہیں ۔ ۔ذوقی صاحب اردو ادب کی ایک قد آور شخصیت اور فکشن کا ایک ضروری نام ہیں جس نام کے بنا اس صدی کے فکشن کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ہے ۔مشرف عالم ذوقی پچھلی تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے اردو فکشن کی ہر صنف پر لکھ رہے تھے اور ایسا لکھ رہے تھے کہ شاید ہی کوئ دوسرا اس انداز اور رفتار سے لکھ پاے۔ ذوقی موجودہ ہندستانی حالات اور ملک میں برق رفتاری سے بدلتے ہوئے رویوں کے تناظر میں نئ نسل کو آواز لگا رہے تھے وہ سوئ ہوئ قوم کو جگانا چاہتے تھے کہ نئ نسل کی سمجھ میں آ جائے کہ تم سے تمہارا سب کچھ چھیننے کی تیاری چل رہی ہے ۔ خدایا ہوش میں آ ؤ تمہاری تہذیب تمہارا سرمایہ ، اور تمہارا ملک سب کچھ آہستہ آہستہ تمہارے ہاتھوں سے پھسلتا جا رہا ہے ۔ ملک کو زعفرانی لبادے میں لپیٹ کر تمہارا سب کچھ اس میں ڈھک لینے کی سازشیں چل رہی ہیں ۔ذوقی ان سازشوں سے نسل کو آگاہ کرنے کی کوشش رہے تھے ۔ فکشن کے معاملے میں اگر انہیں آج کا پریم چند کہا جائے تو ہمارے خیال سے کوئ مبالغہ آرائ نہ ہوگی ۔تقریبا دو درجن فکشن کی کتابوں کے مصنف ذوقی کے ناولوں نے نہ صرف ملک میں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی دھوم مچا دی اور تمام اردو دنیا ذوقی کے قلم کی گرویدہ ہو گئ ان میں اہم ناول ہیں” بیان ” "پوکی مین کی دنیا ” "مرگ انبوہ” "نالئہ شب گیر” "شہر چپ رہے "۔ "عقاب کی آنکھیں” "آتش رفتہ کا سراغ” "لے سانس بھی آہستہ” "اس کے علاوہ "نفرت کے دنوں میں” آپ کا افسانوی مجموعہ ہے ۔”گزرے ہیں کتنے لوگ” خاکوں اور دیگر مضامین کا مجموعہ ہے نیز کتاب "سلسلہ روز و شب ” میں وہ مضامین شامل کیے گئے ہیں جس میں آپ نے اردو ناول اور دیگر موضوعات پر اپنے نظریات بیان کئے ہیں۔”مرگ انبوہ” نے ذوقی کو اردو فکشن کی معراج عطاء کی اس ناول میں انہوں نے جرمنی کے باری ہولوکاسٹ ہندوستان کے پس منظر میں لکھ کر اہل ذوق کو حیرت میں ڈال دیا ۔ابھی حال ہی میں شائع ہوا ناول "مردہ خانے میں عورت” نے بھی شائع ہوتے ہی پزیرائی حاصل کرنی شروع کر دی تھی ناول پر تبصرے کی کئ وڈیوز ذوقی صاحب نے ہم سے شئیر کی تھیں جس کے سبب ناول کے مطالعہ کا اشتیاق بڑھ گیا تھا لیکن ابھی ناول دستیاب نہ ہو سکا تھا ۔ذوقی کی تحریریں جزبات سے لبریز حقیقت کی چاشنی میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں ۔راقم التحریر بھی حد درجہ حساس طبع ہے یہی وجہ ہے کہ ذوقی کی تحریروں سے دل کی ویران بستی میں لفظوں کے بیج سے شگوفے پھوٹ کر ذہن کو شاداب کرتے ہیں ۔ محسوس ہوتا کہ آپ کا قلم تمام معاشرے کا حصار کرکے لفظوں سے کاغذ پر ایک دنیا سجا رہا ہے جس میں زندگی کا ہر رنگ موجود ہے ، "حبس نامہ” نہ صرف آپ کی آپ بیتی ہے بلکہ ایک عہد کی تاریخ اس میں سمٹ آئی ہے۔ ذوقی کی ہمت اور حوصلے کو سلام جہاں لوگ تنہایوں سے گھبرا کر یاسیات کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں وہیں ذوقی ان پر حکومت کرتے ہیں اور وقت کے بادشاہ بن جاتے ۔”میں اور میری تنہایاں” میں آپ لکھتے ہیں
"میں تنہا ہوتا ہوں اور اپنی دنیا کا سکندر اعظم بن جاتا ہوں جو بس اس خیال سے پیدا ہوا ہے کہ ساری دنیا کو فتح کرنا ہے ۔” آپ کی اسی حوصلے نے آپ کو فکشن کہ دنیا کا حکمراں بنا دیا ۔
” تبسم اور میرا سچ "میں تبسم سے پہلی ملاقات اور ان سے محبت کا قصہ یوں سنایا کہ اس محبت پر زمانہ رشک کرے ذوقی کہتے ہیں ” عشق ابھی بھی آواز دیتا ہے تو تبسم مسکراتی ہوئی میری آنکھوں میں اتر جاتی ہے ” آگے لکھتے ہیں ۔
"میں نے سوچا تھا تبسم کو لیکر ایک ناول لکھوں گا ۔یہ قرض ابھی باقی ہے مگر یہ بھی سوچتا ہوں کہ ناول کا قرض ادا کرنا مشکل ہے ۔تبسم پر ناول لکھنا آسان نہیں جب زندگی مجھ پر اپنے راستے تنگ کر دیتی ہے ،تاریکی مسلط ہو جاتی ہے تو ایسے میں تبسم کسی جادوگر کی طرح اپنی طلسمی پوٹلی سے رات کی جگہ دن کے چراغ نکال لیتی ہے ”
تبسم اور ذوقی ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے تبسم ہر دکھ۔ درد ہر خوشی غم کے احساس میں نہ صرف ذوقی کے ساتھ تھیں بلکہ ادب کے میدان میں بھی ذوقی کے شانہ بہ شانہ کھڑی نظر آتیں ۔تبسم فاطمہ کو اللہ رب العزت نے منفرد صلاحیتوں سے نوازا تھا بہ یک وقت وہ ایک مضمون نگار، افسانہ نگار ،صحافی ، مترجم اور شاعرہ تھیں ۔اردو میں آپ کی کئ کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آ چکی ہیں ۔”لیکن جزیرہ نہیں” "ستاروں کی آخری منزل” "سیاہ لباس” میں پناہ کی ‘تلاش کرتی ہوں” ذرا اور چلنے کی حسرت رہی ہے ” ہمارے خیال کی آخری دھوپ ” جرم کے نام سے ہندی میں افسانوی مجموعہ اردو سے ہندی میں 20 سے زیادہ کتابوں کا ترجمہ کیا ایک طویل عرصے سے اردو کہانیوں کا ہندی ترجمہ اور ہندی کا اردو ترجمہ کر رہی تھی ،تبسم فاطمہ ایک ہمہ جہت شخصیت کی مالک تھیں حالاتِ حاضرہ پر جس سچائی،ایمانداری اور بے باک انداز میں آپ کا قلم چلتا خواتین قلم کاروں میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ آپ کی تحریریں ہمیں بھی سچ اور حق لکھنے کی تحریک عطاء کرتیں رہی ہیں ، آپ نظم بھی بہت عمدہ کہتی تھیں ۔آپ کی نظمیں دل پر اثر کرتی ہیں ۔ 24 مارچ ذوقی کے سالگرہ کا موقع تھا اور تبسم نے ذوقی کے لیے بہت خوبصورت نظم کہی تھی
بیتے دن کو پھر سے نکالا
اس میں رکھا روئ کا گالا
ایک بنایا نور کا ہالہ
موسمِ گل سے آنکھ بنائ
دل کی کلی سے ہونٹ تراشے
باد صبا سے خوشبو لیکر
ساون رت کو ناز سے پالا
خواب بدن سے خواہش لیکر
ایک نئے چہرے کو تراشا
عشق کے درپن میں جب دیکھا
تم تھے یارا
نور میں جل تھل ایک تم تھے
عشق میں جل تھل ایک میں تھی
میری دعا کا چہرہ تم تھے
تیری دعا کی چٹھی میں تھی
وصل کی رُت تھی
نور میں ڈھل کر
ایک رب تم تھے
ایک شب میں تھی
محبت کے اس حسیں شاہکار کو پڑھ کر معلوم نہیں دل کن احساسات سے دو چار ہوا کہ دل کی گہرائیوں سے دست دعا گو ہوے کہ اللہ کریم یہ محبت ہمیشہ قائم رکھے ، اللہ رب العزت ہر ذوقی کو تبسم اور ہر تبسم کو ذوقی جیسا شریک حیات عطاء فرمانا ۔دونوں ہمیشہ دو جسم ایک روح رہیں کون جانتا تھا کہ اللہ رب العزت اس وقت ہماری دعا سن رہا ہے کہ تبسم کے جسم میں بھی ذوقی کی ہی روح ہے ذوقی کی روح کے ساتھ تبسم کے جسم کو بھی فنا ہو جانا ہے ۔ذوقی کہا کرتے تھے "ہماری محبت بڑی عجیب ہے تبسم میرے بنا 24 گھنٹے بھی نہیں رہ سکتیں” ۔ ذوقی اور تبسم محبت کی ایسی مثال پیدا کریں گے کہ اردو ادب کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی نے پیش نہ کی ہوگی 19 اپریل کو ذوقی اسے سرائے فانی کو الوداع کہ گے اور 20 اپریل کو تبسم بھی ان کے ہمراہ ہو لیں اللہ دونوں کو کروٹ کروٹ سکون عطاء فرمائے ۔۔۔۔
اپنی گزشتہ پوسٹ میں راقم نے مشہور منافق عبد اللہ بن ابی کی موت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حسنِ سلوک کا تذکرہ کیا تھا۔ اس پر بعض احباب نے اشکال ظاہر کیا کہ ابن ابی کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی اگرچہ جگ ظاہر تھی ، لیکن بہ ہر حال اس کے ظاہری اسلام کی وجہ سے اس کا شمار مسلمانوں میں ہوتا تھا ، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی موت پر جس رویے کا اظہار کیا اسے کسی کافر و مشرک دشمنِ اسلام کی موت پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت ہے کہ صراحت سے کوئی ایسی مثال پیش کی جائے جس میں کسی کافر و مشرک کی موت پر آں حضرت کے رویّے کو بیان کیا گیا ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ کوئی شخص اسلام اور مسلمانوں کا کتنا ہی بڑا دشمن ہو ، چاہے وہ نام نہاد مسلمان ہو یا کافر و مشرک ، اس کی موت پر خوشی منانا ، اس پر لعنت بھیجنا اور اسے بُرا بھلا کہنا اعلیٰ اسلامی اخلاقیات کے منافی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات اور معمولات سے ہمارے سامنے ایسا ہی نمونہ پیش کیا ہے ۔
یہودِ مدینہ کی اسلامی دشمنی بالکل عیاں تھی۔ ان کے طاقت ور قبیلے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع حاصل سے جانے نہ دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ایک جگہ تشریف فرما تھے۔ آپ کے بعض اصحاب بھی وہاں موجود تھے ۔ وہاں سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا ۔ آپ کھڑے ہوگئے ۔ اصحاب نے کہا : یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ اس کے لیے کھڑے ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ نے فرمایا :
ألَيْسَتْ نَفْساً (بخاری :1312، مسلم : 961)
"کیا وہ جان دار نہ تھا؟”
ابو لہب اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا چچا تھا ، لیکن اسلام اور مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا ۔ مکی عہد میں مسلمانوں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف اس کی کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں ۔ اپنی بیماری کے سبب وہ غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکا تھا اور غزوہ کے 7 روز کے بعد طاعون جیسی بیماری میں مبتلا ہوکر بدترین موت مرا ، لیکن اس کی موت پر آپ نے کوئی ایسی بات نہیں فرمائی جس سے آپ کی خوشی کا اظہار ہوتا ہو ۔
سب سے بڑی مثال غزوۂ بدر کی ہے ۔ اس میں کفر کے سرغنہ ، شرک کے عَلَم بردار ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو مسلسل تکلیفیں پہنچانے والے اور اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی رکھنے والے ستّر (70) افراد مارے گئے تھے ۔ ان میں ابو جہل بن ہشام، امیّہ بن خلف، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن الولید جیسے سردار اور سرغنہ بھی تھے۔ ان کی لاشیں میدانِ جنگ میں اِدھر اُدھر بکھری پڑی تھیں ۔ کافر فوج انھیں چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی تھی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی لاشیں جمع کروائیں اور انہیں ٹھکانے لگوایا ۔ اس موقع پر آپ وہاں تشریف لے گئے ۔ آپ نے نہ انھیں لعن طعن کیا، نہ بُرا بھلا کہا ، نہ ان کی موت پر خوشی کا اظہار کیا ۔ اگر کچھ کیا تو یہ کہ ان میں سے بعض سرداروں کا نام لے لے کر پکارا اور فرمایا :
” أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا۔”( مسلم:2874 )
"کیا تمھیں وہ سب نہیں ملا جس کا تمھارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا ۔ مجھے تو وہ مل گیا جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ ”
موت ایک ایسی اَٹل حقیقت ہے جس سے ہر ایک کو سابقہ پیش آنا ہے ۔ کوئی مومن ہو یا کافر ، مؤحّد ہو یا مشرک ، دہریہ ہو یا لبرل ، اسلام کا علم بردار ہو یا اس کا دشمن ، صالح فطرت ہو یا بد خصلت ، ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اس لیے اگر کسی کافر کی بھی موت ہو تو اس پر خوشی منانے یا مرنے والے کو لعن طعن کرنے کے بجائے ہر ایک کو اپنی موت کی فکر کرنی چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ اس نے خود مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کیا توشہ جمع کر رکھا ہے؟! ہر ایک کو اپنی خیر مانی چاہیے نہ کہ دوسرے شخص کی عاقبت کا فیصلہ سنانے میں جلدی کرنی چاہیے ، کیوں کہ یہ کام اللہ تعالٰی کا ہے کہ وہ کس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا؟
موت کے سوداگروں کی کارستانیوں کے نتیجے میں ملک بھر میں موت کا بازار گرم ہے۔ آج ایک ایسے فرد کے انتقال کی خبر بھی آئی جسے زندگی نے صحافت کے فرائض کی ادائیگی کے لیے چن لیا تھا۔ اس فرد نے بحیثیت صحافی، بحیثیت شہری اور بحیثیت انسان اپنے فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا… یا شاید یہ کہنا زیادہ صحیح ہو کہ مظلوم کی آواز بننے کے بجائے ظالم کی آواز بن کر اس نے صحافت کا ایک معیارِ معکوس قائم کیا۔ ایسا اس نے ظالموں کے خوف سے کیا یا جاہ و منصب و دولت کے حصول کے لیے، یہ وہ خود بہتر جانتا ہوگا۔ یہ مقاصد اسے حاصل ہوئے یا نہیں، یہ تو اس سے بہتر اور کوئی نہیں جان رہا ہوگا۔ زندگی بھر کیمرے کے سامنے بیٹھ کر چیخ چیخ کر جس ظالمانہ نظام کی وکالت کی، آخر اسی نظام کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ گیا: فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ!
ایک شخص اپنے اعمال کے ساتھ اپنے رب کے حضور پہنچ گیا۔ ہمارے لیے یہ عبرت کا مقام ہے… خوشی کا نہیں۔ کسی دوسرے کو امتحان میں فیل ہوتا دیکھ کر خوش ہونا ایک سنجیدہ اور کامیاب طالب علم کی علامت نہیں ہے۔ ایک مخلوق اگر خالق کو پہچانے بغیر اور ایک صحافی اپنی صحافتی ذمہ داریوں سے غفلت برت کر اللّٰہ کے دربار میں حاضر ہوگیا تو اس میں خوشی کیسی؟ خوشی کا موقع تب ہوگا جب ہم اپنے رب کے سامنے اس حال میں حاضر ہوں کہ ایک مومن کی حیثیت سے شہادت حق، اعتصام باللہ، تمسک بالقرآن اور اقامت دین کی ذمہ داریوں کو کماحقہ نبھاتے رہے ہوں۔
اُس نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی ـ آج اُس کی باری تھی! ہم اپنی نبھائیں یا نہ نبھائیں،باری تو ہماری بھی آنی ہے!
سوچنے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ضمیر فروش صحافیوں کی فہرست میں یقیناً وہ اکیلا نہ تھا۔ میڈیا ہی نہیں، زندگی کے ہر شعبے میں پاسدارانِ ظلم و جہل کا اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو شاید نہیں کرسکیں گے۔ ایسے میں سسٹم پر مومنانہ جرأت اور داعیانہ خیرخواہی کے ساتھ تنقید ضروری ہے۔ خیال رہے کہ یہاں سسٹم سے صرف نظم حکومت اور انتظامیہ مراد نہیں ہے بلکہ پورا نظام مراد ہے ـ نظام اگر ظلم و استحصال پر مبنی ہو تو ہر شعبۂ زندگی میں چھوٹے بڑے ظالم اور اعوان و انصار اور ان کے وکیل پیدا ہوتے رہیں گے، ایک کے جانے کے بعد دوسرے ان کی جگہ لیتے رہیں گے… زمین پر جب تک انسان خدا بنے رہیں گے اس وقت تک فتنہ و فساد بھی ہوتا رہے گا اور انسان اپنے منصب اور فرائض سے غافل رہ کر اسفل السافلین کی نت نئی تفسیریں پیش کرتا رہے گا۔ انسانوں کو معیارِ مطلوب تک لے جانا ہے تو ان تک حق کا پیغام لے کر پہنچیں۔ جسے جانا تھا وہ جاچکا۔ اس میں خوشی ڈھونڈنے کے بجائے یہ سوچیے کہ جو رہ گئے ہیں ہمارے پاس ان کی اصلاح کا کیا پروگرام ہے؟
مختصراً یہ کہ خوشی اس وقت منائیں جب کسی ایک ضمیر فروش کا نہیں بلکہ صحافت سے (اور ملک سے) ضمیر فروشی کا خاتمہ ہو۔ اور اُس صبح کے آنے میں ہمارے قلم کی روشنائی، آنکھوں کا تیل، ماتھے کا پسینہ اور جگر کا لہو شامل ہو۔
کولکاتہ: کورونا معاملات میں بڑے پیمانے پر اضافے کے درمیان مغربی بنگال حکومت نے متعدد پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ عہدیدار نے بتایا کہ شاپنگ مالز، ریستوراں، بیوٹی پارلر، جیمز، اسپاس اور سوئمنگ پول بند رہیں گے۔عہدیدار نے بتایا کہ بنگال میں اگلے حکم تک تک تمام سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور تفریح سے متعلق پروگراموں پر پابندی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بنگال میں بازار، تجارتی مقامات صبح 7 بجے سے رات 10 بجے تک اور شام 3 بجے سے شام 5 بجے تک گھروں میں سامان کی فراہمی کی اجازت ہوگی۔ بتادیں کہ جمعرات کو مغربی بنگال میں 17403 افراد کورونا سے متاثر ہوئے تھے اور ایک دن میں سب سے زیادہ 89 افراد کی موت ہوئی تھی۔ نئے مریضوں کی تصدیق کے بعدریاست میں کیسوں کی کل تعداد 810955 ہوگئی ہے۔ وہیں 11248 مریض ہلاک ہو چکے ہیں۔کرونا کے اس تباہی کے درمیان متعدد سیاسی جماعتوں نے آٹھ مرحلوں میں بنگال میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر تنقید کی ہے۔ جمعرات کو آٹھویں اور آخری مرحلے کے لئے ووٹ ڈالے گئے۔ نتائج کا اعلان آسام، تمل ناڈو، کیرالہ اور پڈوچیری کے ساتھ کیا جائے گا۔