زندگی اپنی بے ثباتی کے لئے پہلے روز سے بدنام تھی لیکن اب اس کی بے وفائیوں کا لبوں لبوں پر چرچہ ہے۔ رخش عمر کی باگ پہلے بھی کسی کے ہاتھ میں نہ تھی اور نہ رکاب میں پاؤں جمے تھے لیکن اب تو جیسے یہ گھوڑا موت کی کھائیوں کے کنارے کنارے بدمست چلا جا رہا ہے اور کچھ خبر نہیں کہ کس لمحہ اپنے سوار کو اس پاتال میں اچھال دے۔ سب کے دلوں میں خوف اور اندیشے چودھری بنے بیٹھے ہیں۔ پل پل کی خیر منائی جا رہی ہے لیکن خیر کہاں…
ابھی فیس بک کی دیواروں پر ذوقی کی مفارقت میں نکلے آنسوؤں کے چھینٹے تازہ ہی تھے کہ انجم عثمانی رخصت ہوئے۔ دو دن میں دلی کے دو بڑے فکشن نگار اٹھ جائیں تو ہر تلاطم بجا ہے۔ کیا وقت آن پڑا ہے کہ لوگ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ جانے والوں کے ماتم میں بیٹھیں یا اس دعا میں لگ جائیں کہ جو باقی رہ گئے ہیں وہ سلامت رہیں؟۔
میں دوردرشن میں ملازم ہوا تو انجم عثمانی سبکدوش ہرکر جا چکے تھے۔ البتہ ان کے تربیت یافتہ کئی لوگوں کی زبانی ان کا ذکر سنا کرتا تھا۔ کبھی کسی ادبی تقریب میں انہیں دیکھا بھی تو ملاقات کا موقع نہیں مل سکا۔ پھر ایک دن ان کا فون آیا۔ آج کل میں پروفیسر عبید صدیقی پر میرا مضمون چھپا تھا جو انہیں پسند آیا تھا۔ بہت سی دعائیں دیں اور بولے کہ آپ کا مضمون پڑھتے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ لکھنے والا دو آبے کا ہے۔ جواباً میں شکریہ جزاک اللہ کہتا رہا۔ پھر فرمایا کہ مضمون میں آپ کی کسی کتاب کا ذکر ہے وہ مجھے کیسے ملے گی؟۔ میں نے عرض کیا کہ میں خود آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پکا ارادہ تھا کہ انہیں کتاب نذر کرنے جاؤں گا اس لئے ایک کتاب پر ان کا نام بھی لکھ دیا۔ وہ کاپی میرے سرہانے رکھی ہے لیکن اب کہاں جاکر نذر کروں پتہ نہیں۔ ذہن کے ایک کونے سے انجم عثمانی کی یادوں کا جلوس برآمد ہو رہا ہے تو دوسرے گوشے سے ذوقی کی باتوں کا قافلہ بڑھتا چلا آ رہا ہے۔
میں نے مشرف عالم ذوقی کا نام پہلی بار ایک رسالے میں پڑھا تھا۔ کوئی بیس برس پہلے انیس امروہوی نے قصے نکالا تو میرے والد کو بھی بھیجنا شروع کیا۔ تب تک میں اچھی طرح اردو پڑھنے لگا تھا اس لئے ڈاک سے جو رسالہ آتا میں لفافہ کھول کر صفحات الٹنا شروع کر دیتا۔ ظاہر ہے ساتویں آٹھویں جماعت کے طالب علم کو سب کچھ تو سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا لیکن کچھ باتیں اب تک یاد رہ گئیں۔ قصے میں ہی بہت سے نام پہلی بار پڑھے۔ خواجہ اکرام، سلام بن رزاق، باقر مہدی، مرغوب علی، اقبال امروہوی اور مشرف عالم ذوقی۔ آج بیس سال بعد بھی ذوقی کی وہ کہانی میرے ذہن سے چپکی ہوئی ہے۔ کہانی ایک مختصر سے واقعے کی روداد ہے کہ دلی میں کسی حساس موقع پر ایک کار میں چار پانچ ادیب جا رہے ہیں جن میں سے ایک کا تعلق پاکستان سے ہے۔ زبردست چیکنگ چل رہی ہے اور یہ کار بھی روک لی جاتی ہے۔ اس کے بعد والے چند منٹ میں جو کچھ ہوا وہی پوری کہانی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کوئی سچی واردات تھی یا ذوقی کے ذہن کی اپج لیکن جو کچھ تھا اس میں کچھ ایسا تھا کہ بھولتا نہیں۔
دلی آیا تو ذوقی کو دیکھا بھی اور سنا بھی۔ دلی اردو اکیڈمی کے سالانہ ادبی اجتماع نئے پرانے چراغ میں جب وہ سیشن کے صدر کے طور پر تقریر کرتے تو نئے چراغوں کی کہانیوں میں جہاں کمیاں رہیں اس کو بتاتے جاتے لیکن ہر دو چار جملوں کے بعد یہ یاد دلانا نہیں بھولتے کہ یہ قلم کار کل ادبی دنیا میں بہت نام کمائے گا۔ میں سامعین کے طور پر ان مجلسوں میں شریک ہوتا تھا اور سن سن کر حیران ہوتا کہ یہ شخص نئے لکھنے والوں کی کس قدر مبالغہ آمیز حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ یہ دراصل ذوقی کا بڑپن تھا۔
کچھ لوگ ذوقی کو جذباتی کہتے رہے لیکن میں کہتا ہوں وہ صاف گو تھے۔ جو محسوس کرتے بنا لاگ لپیٹ کہ ڈالتے۔ آگے آپ کی مرضی، اسے جو چاہے نام دے لیں۔ عزیز برنی راشٹریہ سہارا سے فارغ ہوئے تو ایک اخبار نکالا ‘عزیز الہند’۔ یوں سمجھئے ملک کی اردو صحافت کی تاریخ میں مدارس کے لئے وقف یہ پہلا اخبار تھا۔ میں نے چائے خانوں میں مدارس کے طلبہ کو اس اخبار کو چھینا جھپٹی کرکے پڑھتے خود دیکھا ہے۔ ذوقی کو لگا کہ یہ اخبار جس نہج پر صحافت کر رہا ہے وہ مناسب نہیں ہے۔ یہ بات اکیلے ذوقی کو نہیں لگی تھی بلکہ ہم جیسے کتنے ہی لوگوں کو محسوس ہو رہی تھی لیکن ہم چپ رہے اور ذوقی نے قلم اٹھا لیا۔ انہوں نے ایک مضمون لکھا ‘عزیز الہند کی باتیں’ اور اخبار پر بڑی بے رحمی سے تنقید کر ڈالی۔
اپنے موقف کا آخر تک دفاع کرنا ذوقی کے مزاج کا حصہ تھا۔ ایک بار انہوں نے تجویز دی کہ میڈیا کے مسلمان مخالف بیانیے کا توڑ کرنے کے لیے مسلمان اپنا نیوز چینل شروع کریں۔ انہوں نے فیس بک پر تفصیلی پوسٹ لکھ کر باقائدہ پورے نیوز چینل کے اخراجات اور ضرورتوں کا خاکہ ترتیب دیا۔ زیادہ تر لوگوں نے اس تجویز کو سراہا لیکن کچھ لوگوں نے اس کے ناقابل عمل یا کارآمد نہ ہونے کی بات کہی۔ ذوقی پوری مضبوطی سے اپنی بات پر کھڑے رہے اور یکے بعد دیگرے اعتراضات کا جواب دیا کئے۔ مجھے وہ بحث پڑھ کر لگا کہ یہ شخص جب کسی نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے تو پھر غضب کا استقلال دکھاتا ہے۔
ان کے مرنے پر کچھ لوگوں نے لکھا کہ وہ موجودہ اردو فکشن کے سب سے بڑے فنکاروں میں سے تھے۔ میرے لئے اس بات کی وثوق سے تائید ممکن نہیں اس لئے کہ میں نے موجودہ اردو فکشن اتنا تھوڑا پڑھا ہے کہ مجموعی حکم لگانے کی ہمت نہیں ہے۔ البتہ سوشل میڈیا پر ہونے والے چرچے اگر کوئی پیمانہ ہیں تو وہ ہمارے عہد کے مقبول ترین اردو ادیبوں میں ضرور شامل تھے۔ ایک کے بعد ایک، ان کے ناول آتے گئے اور چھاتے گئے۔ ممکن ہے وقت کے جبر سے گھٹ رہے جذبات کے لیے وہ ناول تازہ ہوا کا روشن دان ثابت ہوئے ہوں۔
ایسا لگتا ہے کہ ذوقی کو بہت جلدی رہا کرتی تھی۔ جیسے کوئی گاڑی چھوٹی جا رہی ہو۔ جیسے یہ سب کام نمٹا کر کہیں نکلنا ہو۔ پچھلے سال انہیں دنوں وہ تقریبا ہر رات کوئی ایک خاکہ لکھ دیا کرتے تھے۔ ادھر ایک ناول چھپ کر آیا ادھر اگلے کی تیاریوں میں لگ گئے۔ خاکے بھی لکھ رہے ہیں، مضمون نگاری بھی چل رہی ہے، ناول بھی چھپ رہے ہیں اور درجنوں منصوبوں کو دل میں اس بے کلی سے لیے بیٹھے ہیں کہ ان کو جلدی سے انجام دے دیا جائے۔ اب پتہ چلتا ہے کہ ذوقی کو اتنی جلدی کیوں تھی؟۔ انہیں واقعی سب کچھ جلدی سنگوا کر کہیں نکلنا تھا۔ اتوار کو نگار عظیم کی وال پر پڑھا کہ وہ بیمار ہیں۔ پیر کو ایک ساتھی نے پیغام بھیجا کہ ‘ذوقی صاحب چلے گئے’۔ مجھے یقین نہیں ہوا تو ذوقی کے بہت پرانے دوست اور اپنے کرم فرما خورشید اکرم صاحب کو واٹس ایپ کیا ‘ذوقی صاحب کی کوئی خبر ہے؟’۔ ادھر سے ہاں یا نہیں میں جواب آنے کے بجائے ایک جملہ واپس ہوا جس کو پڑھ کر دل بیٹھ گیا۔ انہوں نے لکھا تھا ‘اب تو بے خبری ہی بھلی میاں’۔ رات ہوتے ہوتے فاروق ارگلی نے نیم اندھیارے قبرستان میں ذوقی کی تازہ قبر کی تصویر بھی ڈال دی اور خورشید صاحب نے بھی یہ یہ دو سطری پیغام فیس بک پر لکھ دیا کہ ’35 برس پرانے دوست کو آج اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار آیا’۔
20 اپریل, 2021
دو ہزار سات سو دس اشعار پر مبنی ایک غزل لکھنے کا کیا تھا کارنامہ
بھوپال: (رضوان الدین فاروقی) بھوپال سے تعلق رکھنے والے بزرگ و کہنہ مشق شاعر نصیر پرواز کی رحلت سے بھوپال کی ادبی فضا سوگوار ہوگئی ہےـ
نصیر پرواز کی ولادت یکم دسمبر 1940 کو بھارت کے صوبہ مدھیہ پردیش کے شہر ساگر میں ہوئی ـ نئے مدھیہ پردیش کی تشکیل کے فوراً بعد آپ بھوپال آگئے اور آخر عمر تک یہیں رہےـ اوائل عمر سے لے کر آخر عمر تک آپ نے اپنی پوری زندگی شعر و ادب کے لیے وقف کردی تھی ـ نصیر پرواز کے شعری سفر کا آغاز 1950 میں ترقی پسند شاعری کے زوال کے بہت بعد ایسے دور میں ہوا جب کہ اس کے شکست خوردہ سپہ سالار اپنی تحریروں سے مردہ ڈھانچے میں روح پھونکنے کی کوشش میں سرگرداں تھےـ تحریک اگرچہ ختم ہوچکی تھی لیکن اس کے اثرات نئی پیڑھی کے شعرا کو کسی نہ کسی شکل میں متاثر کررہے تھےـ نصیر پرواز نے اس کا اعتراف یوں کیا ہے:
"مہرے ذہن کو سب سے پہلے جس آہنگ سے دوچار ہونا پڑا وہ یہی ترقی پسند تحریک تھی ـ”
اس اعتراف کے باوجود آپ کی غزلیں ترقی پسند شاعری کے اثرات سے پاک نظر آتی ہیں ـ آپ کی غزل نہ غم دوراں کی تاریخ ہے نہ غم جاناں کا مرثیہ ـ آپ کی شاعری کا قالب زندگی کی تلخیوں اور عریاں حقیقتوں پر کھڑا نظر آتا ہےـ آپ کے دائرۂ نگاہ میں چھوٹی سے چھوٹی چیز رہتی ہے جو شعر کے پیراہن میں حسین و جمیل بن کر قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہےـ آپ کی شاعری میں قدیم و جدید کا امتزاج ہی نہیں بلکہ عصری حسیت، جدت طرازی، فکری گہرائی، زبان کی شگفتگی اور الفاظ کو برتنے کا سلیقہ موجود ہےـ آپ کے نو شعری مجموعے منظر عام پر آئےـ
متاعِ دیدۂ تر: 1985، ایک تنہا صدا : 2001،رسول اکرم (منظوم سیرت پاک)،اضطراب لفظوں کا، آہٹیں، ایک غزل ، سفر درپیش ہے، لمحوں پہ صدیاں، میر رنگ اور کرب خود آشنائی ـ( سبھی 2016 میں منظر عام پر آئے)
ماہ ِرمضان میں اکثر مجھے لکھنؤ میں گذر ہوا اپنا بچپن یاد آنے لگتا ہے۔آنکھوں کے سامنے سے یادوں کا معصوم ا ور ست رنگی کارواں گزرنے لگتا ہے۔ بچوں سے اپنے بچپن کی باتیں کرنے کا دل چاہتا ہے کیوں کہ ہر بچہ کا بچپن اسکی زندگی کا پیاری پیاری باتوں سے بھرا انمول سرمایہ ہوتا ہے۔
اس وقت میری عمر تقریباً نو یا دس سال کی ہوگی۔ شدت سے گرمی پڑ رہی تھی،جیسے آج کل ُپورے ملک میں گرمی کی تپش کا زور ہے۔میںروزانہ صبح سحری میں اٹھ جاتا ۔یا یوں کہیں کہ دودھ ۔پھینی اور آلو کے دیسی گھی میں تلے پراٹھوں کی خوشبو مجھے اٹھا دیتی تھی۔
اس کے علاوہ ، ان دنوں سحری کے وقت، روز انہ اللہ کے کچھ نیک بندے اپنی ترنم ریز آواز میں سحری نعرہ لگاتے کہ جاگو سونے والو۔ غفلت کی نیند سے اٹھو۔سحری کا وقت ہو گیا ہے۔ نیند کا شیطان بہکائے گا۔ اس کے بہکاوے سے بچو۔ یہ مبارک مہینہ ہے، دوبارہ نصیب ہو نہ ہو۔گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا وغیرہ وغیرہ۔
وہ لوگ ڈفلی بجانے کا اپنا ہنر دکھاتے۔ عقیدت بھری آواز میں سحری نغمے گاتے۔ نعت، منقبت اور حمد پیش کرتے۔ گویا کہ وہ لوگ سحری کے لئے اٹھا کر ہی دم لیتے۔
میں روزانہ سحری کرکے جلدی سے سونے کی کوشش کرتا لیکن امی اپنے ساتھ نماز پڑھواتیں اور تب جاکر سونے کی اجازت ملتی۔
ان دنوں روز شام کو مسجد میں افطاری پہنچانے کا رواج تھا۔یہ میری ڈیوٹی تھی کہ میں روز مسجد میں افطاری پہنچائوں۔میں وہیں رک کر روزہ کھولتا، افطار کرتا اور مغرب کی نماز ادا کرتا۔ ایک دن امی نے کہاکہ جب تم روز سحری کر تے ہو۔ روزہ کھولتے ہو، ا فطار کرتے ہو ، نماز پرھتے ہو، تو تم روز ہ بھی رکھ لیا کرو۔
چاہتا تو میں بھی یہی تھا لیکن اکثر والدین اپنے بچوں کو کم عمر ی میں روزہ رکھنے کے لئے اصرار نہیں کرتے ہیں ، خاص طور سے گرمی میں۔ اس لئے مجھے بھی اپنے والدین کی رضامندی کی ضرورت تھی۔ بہرحال روزہ کشائی کے لیے چودھواں روزہ مقرر ہوا۔
سحری میںمیری پسند کی چیزیںبنائی گئیں۔ اس سحری میں کچھ زیادہ ہی چیزیں تھیں۔ خاص طور پر کئی شربت تھے۔سہ پہر سے ہی افطاری اور کھانا پکانے کا اہتمام ہونے لگا۔رشتے داروں اور محلہ کے بہت سے لوگوں کو افطار کی دعوت دی گئی۔ رشتے داروں کو عشائیہ یعنی ڈنر کی بھی دعوت تھی ۔دعوت دینے کی ذ میداری میں مجھے بھی لگایا گیا۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میرا بہت سا وقت اس نیک کام میں گذر گیا۔ کچھ وقت نماز اور تلاوت قران میں بیتا۔
جو جو وقت گذر رہا تھا، پیاس اور بھوک شدت اختیار کر رہی تھی ۔امی یہ سب کچھ محسوس کر رہی تھیں۔لہٰذہ وہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد مجھے اپنے پاس بلاتیں اور روزہ رکھنے کی فضیلت بیان کرتیں۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے مجھے نصیحت کی تھی:
بیٹا، بہت سے غریب لوگ بھوک اور پیاس سے بیمار ہو جاتے ہیں ۔یہاں تک کہ مر جاتے ہیں۔ہمیں انکی مدد کرنی چاہیے۔ہمیشہ پانی اور کچھ کھانے کا سامان اپنے ساتھ رکھنا چاہے اور راستے میں ، اسکول میں یا اپنے در پہ آئے لوگوں کی مدد کرنی چاہئے۔
پھر کہتیں کہ جائو تھوڑی دیر آرام کرلو ۔میں کمرہ میں جاتا ، پلنگ پر تھوڑا آرام کرتا۔کروٹیں بدلتا،اٹھ جاتا، کچھ پڑھتا، لیکن آرام کہاں؟ پھر باہر آجاتا۔امی مسکراتیں اور اپنے پاس بٹھا کر پھر ماہ رمضان کی اہمیت بتانے لگتیں:
بیٹا، یہ مہینہ ہمیں ٹریننگ دیتا ہے کہ ہم اپنی بھوک، پیاس، غصہ، لالچ، غیبت ،وقت کی بربادی اور تمام برائیوں پر کیسے قابو پا ئیں تاکہ ہم آئندہ آنے والوں دنوں میں ایک اچھے انسان کی طرح اپنے گھر، اپنے سماج اور اپنے ملک کا بھلا کر سکیں!
بہرحال، شام کے چھ بج گئے۔ مجھے تیار ہونے کے لئے کہا گیا۔پہننے کے لئے مجھے نیا جوڑا دیا گیا جو میری خالہ میرے لیے لیکر آئیں تھیں۔سفید چوڑیدار پاجامہ، لکھنوی چکن کا سفیدکرتا اور چکن کی جالی دار خوبصورت ٹوپی اور تین عدد رنگ برنگے رومال۔
اس کے بعد مجھے گرمی کے لحاظ سے سوتی کپڑے کی سفید شیروانی پہنائی گئی۔ اممی نے مجھے بہت اچھا سا عطر لگایا۔ والد صاحب کی منھ بولی بہن ،میری پھوپی جان نے پھولوں کا ہار پہنایا۔ اسطرح مجھے کسی دولھے راجہ کی طرح خوب تیار کیا گیا۔
رشتے داروں میں کچھ لوگ پھل، تو کچھ لوگ سوکھا میوہ اور دیگر کھانے کی چھیزیں سینی یعنی بڑی سی تھال میں سجا کر ، سنہرے اور روپہلے گوٹے لگے کنارے والی سرخ ریشمی خوان سے ڈھک کر لائے تھے ۔اسی کے ساتھ مبارکباد اور دعائیں دینے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔کو ئی بہت پیار اور محبت سے گلے لگا رہا تھا تو کوئی سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیر رہا تھا گویا کہ مرکز تقریب میں اور صرف میں تھا۔
دفتر سے والد صاحب بھی آگئے۔ بہت پیار سے مجھے اپنے سینے سے کافی دیر تک لگائے رکھا اور بہت سی دعائیں دیں۔
تقریباً ساڑھے چھ بجے ہم سب دسترخوان پر بیٹھ گئے۔افطاری میں کھجور ، تخم ملنگا کا شربت( چھوٹے چھوٹے سفید دانے کے برابر پھول والا شربت)،فالسہ کا شربت، روح افزا، شکنجی،نمکین لسسی، پیاز کے پکوڑے،بیسن میں تلی ہوئی مرچ، کابلی چنے، دہی بڑے ، آلو کے قطلے،تربوز ، خربوزہ اور آم کی قاشیں۔ غرضکہ انواع و اقسام کی نعمتیں دستر خوان کی زینت بنی ہوئی تھیںاور انہیں دیکھ دیکھ کر میرے منھ میں پانی آرہا تھا۔
ابو جان نے میری حالتِ غیر کو بغور دیکھا اور فرمایا۔بیٹا، یہ وقت اپنے نفس،اپنی بھوک پیاس اور اپنے اوپر قابو پانے کی تربیت کا ہے۔اس وقت اللہ سے دعاء کرو کہ وہ ہمارا روزہ قبول فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم پورے مہینے روزہ رکھ سکیں۔پھر ہم سبھی لوگ دعا کرنے لگے کہ اتنے میں ایک گولہ دغہ جو کہ افطار کا وقت ہو نے کا اشارہ تھا اور پھر مسجد سے اذا ن کی آواز آئی۔
میں نے سب سے پہلے کھجور سے روزہ کھولا اور شربت روح افزا پیا۔پیاس اور بھوک کو تھوڑی راحت ملی۔پھر جلدی جلدی بیسن میں تلی پیاز کی پھلکییاں کھانے لگا۔امی نے اشارہ کیا کہ آرام سے کھائوں۔
افطاری کے بعد ، گھر پر ہی نماز باجماعت پڑھی گئی کیونکہ خاندان اور محلہ کے بہت سے افراد میری روزہ کشائی میں شریک ہوئے تھے۔
کچھ دیر دینی اور غیر دینی باتیں ہوئیں۔پھر دستر خوان پر کھانا لگنے لگا۔ڈنر میں بھی مزے مزے کے پکوان تھے۔مجھے یخنی پلاؤ اور سفید زردہ بہت پسند ہے۔ رومالی روٹی ،کباب،قورمہ دوپیازہ اور پسندیدہ کے ساتھ شیر مال بھی کھائی۔شاہی ٹکڑے اور کھیر کا بھی مزہ لیا۔یعنی اتنا کھایا کہ پیٹ پھول گیا۔ پھر میری ڈیوٹی لگی کہ میں مسجد کے امام صاحب کو کھانا دیکر آؤں۔
اُن دنوں مسجد کے امام کو دوپہر اور رات کا کھانا پہنچانا محلہ کے ہر گھر پر اخلاقی طور پر لازمی تھا۔ ہر گھر کا دن اور وقت مقرر تھا۔بہر حال، اس ماہ بقیہ پورے روزے رکھے۔پھر یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن مشاہدہ اور تجربہ یہ بھی ہوا کہ اللہ جسے توفیق دے،وہی شخص روزہ رکھ سکتا ہے !
نئی دہلی: (رضوان الدین فاروقی) دور درشن کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ٹی وی کے معروف ادبی پروگرام بزم کے پروڈیوسر اور مشہور افسانہ نگار انجم عثمانی رضائے الٰہی سے وفات پا گئے ـ
انجم عثمانی 1952 میں دیوبند ضلع سہارنپور کے مشہور علمی، دینی و ادبی خانوادے میں پیدا ہوئےـ ان کے پردادا مولانا فضل الرحمن رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے تھے اور فارسی اور اردو کے بہت اچھے شاعر بھی تھےـ ان کے دادا فقیہ الامت مفتی عزیز الرحمن عثمانی رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے مفتی اور غیر منقسم ہندوستان کے پہلے مفتی اعظم تھےـ مشہور مفسر قرآن، دانشور، مجاہد آزادی مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ آپ کے دادا کے بھائی تھےـ زمانۂ طالب علمی میں ہی دیوبند کے پندرہ روزہ جریدے "دیوبند ٹائمز” کی ادارت سے وابستہ رہےـ 1968 میں دار العلوم دیوبند سے تعلیمی فراغت حاصل کرنے کے بعد مختلف علمی و ادبی جریدوں کی ادارت سے وابستہ رہےـ اسی دوران آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی یو سی کا امتحان بھی پاس کیاـ 1971 میں دلی آگئے اور آخر تک یہیں رہےـ 1978 میں آپ نے دہلی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور اسی سال پہلا افسانوی مجموعہ "شب آشنا ” منظر عام پر آیاـ اس کے علاوہ آپ کے تین افسانوی مجموعے اور منظر عام پر آئےـ سفر در سفر 1984، ٹھہرے ہوئے لوگ 1998اور کہیں کچھ کھو گیا ہے 2011ـ معروف افسانہ نگار سید محمد اشرف انجم عثمانی کے حوالے سے رقم طراز ہیں :
” اپنی تہذیبی و ثقافتی وراثت کی امانت، زبان و بیان پر مہارت، سمعی و بصری ذرائع ابلاغ کی تکنالوجی پر قدرت، شخصی شرافت اور اپنی ذات کے بیابانوں میں کھوئے ہوؤں کی جستجو کی خواہش و حسرت… یہ سب یکجا ہوجائیں تب انجم عثمانی کی کہانی وجود میں آتی ہے. تخلیقی نثر فکشن کی جان ہوتی ہے، اس بارےخاص میں انجم عثمانی اپنے بیشتر معاصرین میں ممتاز ہیں. موضوعات کا انتخاب بھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں. رہا افسانے میں کہانی پن کا سوال تو پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ افسانے کی تاریخ کا مورخ جب اردو افسانے کی تاریخ لکھے گا تو انجم عثمانی کا نام ان معدودے چند افسانہ نگاروں میں شامل ہوگا جن کے کارن افسانے میں روٹھا ہوا کہانی پن واپس آیا ہے”ـ ان کی رحلت سے ادبی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہےـ
مشرف عالم ذوقی کا یہ وہ کمرہ ہے جس میں بیٹھ کر وہ لکھا کرتے تھے – جو کرسی نظر آ رہی ہے ٹھیک اس کے سامنے ایک کھڑکی ہے جہاں سے آسمان بالکل صاف نظر آتا ہے اگر چاندنی رات ہو تو صاف آسمان پر چاند یوں چمکتا ہے جیسے کوئی دودھیا بلب جل رہا ہو –
گیارہ فروری 2021 کو جب ان سے آخری ملاقات ہوئی تھی تو اسی کرسی پر بیٹھ کر ہاتھ کے اشاروں سے انہوں نے کہا تھا کہ "دیکھو یہاں سے آسمان بالکل صاف نظر آتا ہے اور جب میں رات کو لکھتا ہوں تو چاند کو دیکھتا رہتا ہوں اور میں نے اپنے اکثر ناول یہیں اسی کرسی پر بیٹھ کر رات کی تنہائی میں لکھے ہیں ” –
وہ کہا کرتے تھے کہ "ذہن میں کچھ آ رہا ہو تو اس وقت تک چین نہیں ملتا جب تک کہ لکھ نہ لوں” – یہ بھی کہتے تھے کہ” تین چار بجے اٹھ جاتا ہوں اور لکھنے لگتا ہوں کیوں کہ لکھنا زندگی ہے اور پڑھنا زندگی ہے، نہ لکھوں تو چین نہیں ملتا ایک وحشت طاری رہتی ہے ” –
کبھی یہ کہتے تھے کہ "تم گیارہ بجے فون کرو کیوں کہ میں چار بجے تک لکھتا ہوں اور اس کے بعد گیارہ بجے صبح تمام ضروریات سے فارغ ہو کر پھر لکھنے بیٹھتا ہوں اور پھر غالباً وہ دو یا تین بجے تک لکھتے پڑھتے؛ پھر اٹھتے اور تھوڑا آرام کرتے تھے” – مگر آرام کہاں کیوں کہ ایک حساس انسان پل پل موت سے ہمکلام ہوتا رہتا ہے اور خصوصاً اس وقت جب حالات بالکل غیر خوشنما ہوں –
مشرف عالم ذوقی بھی موجودہ ہندوستانی حالات اور بدلتے رویوں کے تناظر سے یوں کبیدہ خاطر تھے کہ وہ لوگوں کو جگانا چاہتے تھے کہ نئے نسل کو بتاؤ کہ تم سے تمہارا بہت کچھ چھینا جا رہا ہے – تمہاری تہذیب، تمہارا سرمایہ اور تمہارا ملک زعفرانی ہاتھوں میں جا رہا ہے –
ان سب امور پر انہوں نے بے باک لکھا، دل کھول کر لکھا اور اس حد تک لکھا کہ کچھ مہینے پہلے ایک صاحب نے یہاں تک کہ دیا کہ مشرف عالم ذوقی ” ادب نہیں، سیاست بگھارتے ہیں ” –
اور جہاں تک مجھے محسوس ہوا یہ بات بگھارنے والے صاحب نہ سیاست سے واقف تھے اور نہ ادب سے جس کے نتیجے میں وہ بے ادب ٹھہرا دیے گئے –
بات اس کمرے کی ہو رہی تھی جس کے داہنے طرف ایک میز ہے جس پر لیپ ٹاپ رکھا ہوا ہے جس کے بارے میں میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا تھا کہ اسی لیپ ٹاپ پر لکھتا ہوں اور فیسبک پر پوسٹ بھی کرتا ہوں – وہ خود ٹائپ کرتے اور خود تمام باتوں کا جواب تیزی سے دیا کرتے تھے –
کرسی کے سامنے والی کھڑکی کے بائیں جانب ریک نما ایک الماری ہے جس میں انہیں عطا کیے گئے وہ عطیات اور ایوارڈ رکھے ہوئے تھے جو مختلف مواقع سے انہیں ملے تھے – اسی کرسی کے سامنے لگی کھڑکی کی بائیں جانب بھی کچھ عطیات رکھے ہوئے تھے اور ساتھ میں ان کے نام سے منسوب کچھ کتابیں، رسالے، میگزین، اور خود ان کے ذریعے تخلیق کردہ کتابیں غیر ترتیب وار انداز میں رکھی ہوئی تھیں –
اور اسی کھڑکی کے اوپر ایک لمبی پتلی سی الماری بنی ہوئی تھی جس میں ان کے ناول، ان کی شریک حیات تسبم فاطمہ کے مجموعہء کلام اور اس کے علاوہ کچھ کتابیں تھیں جن کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ "یہاں اوپر کتابیں رکھی ہوئی ہیں تم دیکھ لو، جو تمہارے پاس نہ ہوں وہ لے لو” –
کرسی کے بائیں جانب میز اور صوفے لگے ہوئے ہیں جس روز میں گیا تھا میز پر کچھ رسالے اور کتابیں پڑی ہوئی تھیں – پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ” تبسم کی ہے وہ کچھ لکھ رہی تھی ” –
واضح رہے کہ اس دن ان کی شریک حیات تبسم فاطمہ کی طبیعت بالکل اچھی نہیں تھی (شاید شوگر حد درجہ بڑھا ہوا تھا) جس کی وجہ سے بار بار ان پر غشی طاری ہو رہی تھی اور دماغ ماؤف ہوتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے مشرف عالم ذوقی حد درجہ پریشان تھے اور انہوں نے اسی درمیان یہ بات کہی تھی کہ ” تبسم اچھی نہ ہو تو میں کیسے اچھا رہ سکتا ہوں ” –
واقعی وہ بہت پریشان تھے کبھی ڈاکٹر کو فون کرتے، کبھی گھر میں جاتے تو کبھی کمرے میں آتے اور جب کال کرنے پر فیملی ڈاکٹر آ گئے تو مجھ سے کہا کہ "تم آرام سے بیٹھے رہو، میں ابھی آتا ہوں ” –
جب وہ کرسی پر آکر بیٹھ گئے تو مختلف باتیں ہوئیں، اسی درمیان انہوں نے اپنا ناول "پو کے مان کی دنیا، لے سانس بھی آہستہ، پروفیسر ایس کی عجیب داستان ” کرسی کے بائیں جانب سے نکالا اور کہا ” یہ دیکھو!!!! تم نے پڑھا نہیں ہے ابھی… ؟ انہوں نے ان تینوں ناولوں میں سے کسی ( شاید لے سانس بھی آہستہ) کے بارے میں کہا کہ یہ میرا پسندیدہ ہے اور اس ناول کے بارے میں میں نے کچھ لکھا بھی ہے ” – مزید کہا کہ ان شاءاللہ جلد ہی یہ تینوں ناول اور بیان، مرگ انبوہ ” مَیٹر لنک سے دوبارہ شایع ہو رہے ہیں اور "صحرائے لا یعنیت” کے بارے میں کہا کہ مکمل ہوچکا ہے – اس ناول کے کردار، پلاٹ وغیرہ پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ یہ ناول کشمیر کے حالات پر لکھا گیا ہے – یہاں ایک اور ناول یاد آ رہا ہے جس کو شاید وہ ابھی لکھ رہے تھے؛ سچ کہوں تو اس ناول کا میں اتنا متنی تھا کہ اب دل کرچی کرچی ہو کر بکھر رہا ہے کہ یہ ناول نہ جانے پورا ہوا تھا یا نہیں – یہ ناول جس کا نام وہ "اردو” رکھنے والے تھے ان کے بقول ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہوگا جس میں اردو ادب کی تاریخ کو حیطۂ تحریر میں لایا جائے گا – مجھے لگتا ہے کہ اردو شاعروں اور اردو ادب کے حالات کو وہ ابتدا تا موجودہ دور ناول کی شکل میں بیان کرنے والے تھے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ –
وہ پڑھنے لکھنے میں اتنے مصروف رہا کرتے تھے کہ ناول لکھتے تو درمیان درمیان میں دوسرے مضامین بھی لکھنا شروع کر دیتے تھے کیوں کہ حالات کی نزاکت اور خصوصاً پچھلے کچھ سالوں سے پیدا ہوئے ملکی ماحول نے انہیں ذہنی طور پر الجھن میں مبتلا کر دیا تھا جس کے نتیجے میں انہوں نے "مرگ انبوہ، مردہ خانہ میں عورت” اور پھر "صحرائے لا یعنیت” وغیرہ جیسے ناول اور مضامین لکھے –
"مرگ انبوہ ” کے دوسرے حصے کا ذکر جب انہوں نے کیا تو میرے منھ سے برجستہ نکل گیا کہ مرگ انبوہ کے بعد والے حصے میں بھی زیادہ تر دیس کا حال رہے گا اور ساری کہانی ہندوستان کے ارد گرد گھومے گی تو کیوں نہ ناول کا نام "نغمہء نا شنیدہ” رکھ لیا جائے – یعنی ایسا نغمہ جسے کوئی سننا نہیں چاہتا – اس نغمے میں ایک کراہیت ہے کیوں کہ ہمارے ملک کا حال ایسا ہوچکا ہے کہ وہ نغمہء نا شنیدہ بن گیا ہے –
یہ سن کر انہوں نے کہا کہ
"خوب، مجھے یہ نام پسند آیا… بہت خوب…نام پسند آیا…. مودی کی باتیں، ملک کے حالات مجھے لایعنیت کی طرف لے گئے – میں نے نام مردہ خانے میں عورت رکھا تھا لیکن اب لگتا ہے یہ نام تبدیل کرنا ہوگا” –
لیکن اگلے روز انہوں نے کہا کہ میں نے ہندوستانی پس منظر میں بہت غور و فکر کے بعد نام "مردہ خانے میں عورت” ہی تجویز کیا ہے –
اس نام کے پیچھے کیا مصلحت شاملِ حال رہی اس کا تذکرہ ادھورا ہی رہ گیا ہے کیوں کہ اس ناول کے نام کو لے کر؛ مشرف عالم ذوقی کے ہاتھوں سے ناول حاصل کرنے تک "مردہ خانہ میں عورت” پر طبیعت مطمئن نہیں ہو سکی – یہاں یہ بھی واضح رہے کہ انہوں نے پہلے نام "مردہ خانے میں عورت” لکھا تھا – ایک دن کہا کہ اہل زبان سے بات ہوئی ہے اور” مردہ خانہ میں عورت” ترکیب درست ہے –
جیسا کہ یہ کہا گیا کہ وہ لکھنے پڑھنے میں اتنا مشغول رہا کرتے تھے کہ انہیں کتابوں سے بھرے ریک اور کمرے میں ادھر ادھر رکھی کتابوں کو درست جگہ پر رکھنے کے مواقع میسر نہیں آیا کرتے تھے جس کو دیکھ کر ایک دن میں نے کہا تھا کہ کسی دن صبح آکر ساری کتابیں ترتیب وار سجا دوں گا اور آپ کا کمرہ ٹھیک کرتا ہوں، تو یہ سن کر وہ مسکرا دیے اور کہا کہ "آؤ تمہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر کھلاتا ہوں ” – اس کے جواب میں یہ کہا کہ ” میں بناؤں گا آپ میرے ہاتھوں کا کھانا کھائیے گا تو وہ سراپا تبسم زار ہوگئے اور مسکرانے لگے –
مشرف عالم ذوقی کے مسکرانے کی کیفیت اور بات کرنے بعد قطع کلام کے طور پر” خوش رہیے” کے جملے اب یوں یاد آ رہے ہیں کہ دل امڈا آتا ہے اور کیوں نہ امڈے؛ کیوں کہ بہت ساری ملاقاتیں، باتیں اور بہت سارے خواب ادھورے رہ گئے ہیں اور ساتھ ساتھ میرے تئیں ان کی وہ امیدیں بھی رخصت ہوگئی ہیں جس میں وہ مجھے اپنے آپ سے بڑا بنتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے – شاید یہی وجہ ہے کہ جب "حبس نامہ” پر تبصرہ کیا تو انہوں نے کہا تھا کہ ” تم نے واقعی مجھ سے اچھا لکھا ” – یہ ان کا خلوص تھا کہ انہوں نے ہر وقت اور ہر تحریر پر حوصلہ افزائی کی اور یہ بات کہی کہ تم میں آگ ہے، تم اس آگ کو زندہ رکھو” –
غالباً وہ مجھ سے وہی بات کہا کرتے تھے جو محمد حسن نے ان کے بارے میں کہی تھی کہ "تم میں ایک آگ ہے، اس آگ کو بجھنے نہ دو” –
دھوئیں اور آگ کے سلسلے میں اس بات کا ذکر روایت بالمعنىٰ کے طور پر کرتا چلوں کہ اس دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ خیالات کی مہمیز کو روانی دینے کے لیے غیر اسلامی دھوئیں کا کش بھی ضروری ہے کیوں کہ اس کے بنا خیالات و تصورات میں چنگاری نہیں بھرتی –
آج یعنی 19 اپریل 2021 بروز سوموار دن کے ساڑھے گیارہ بجے انسٹھ سال چوبیس دن کی عمر پاکر جب مشرف عالم ذوقی مکر ہاسپٹل (makkar hospital) میں وفات پا چکے ہیں تو” بیان کردہ اور نہ بیان کی ہوئیں” بہت سی باتیں حاشیۂ خیال میں آتی جا رہی ہیں اور ایک بے یقینی کی کیفیت طاری ہوتی جا رہی ہے اور اب یہ مضمون لکھتے وقت (ساڑھے سات بجے) وہ آسودہء لحد کیے جا رہے ہوں گے – ایسے عالم میں ہم بس یہی دعا کر سکتے ہیں کہ :
اللہ تعالیٰ آپ کی بشری لغزشوں کو در گزر کرے اور آپ کے سيئات کو حسنات میں بدل کر آپ کو کروٹ کروٹ سکون دے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے –
کجریوال کی یقین دہانیوں پرمزدوروں کوبھروسہ نہیں،بڑی تعدادمیں نقل مکانی شروع
نئی دہلی:گزشتہ سال بھی کجریوال نے مزدوروں کویقین دہانی کرائی تھی لیکن ہواکیاسب کومعلوم ہے۔اسی لیے کجریوال کے’ میں ہوں نا‘ والی یقین دہانی پروہ بھروسہ کرنے کوتیارنہیں ہیں۔کورونا کے بڑھتے ہوئے معاملات کے پیش نظر دہلی حکومت نے پیر سے ریاست میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔ جب سے سی ایم اروند کجریوال نے یہ اعلان کیا ہے دارالحکومت میں مقیم تارکین وطن مزدوروں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ لاک ڈاؤن نافذ ہونے سے قبل لوگوں نے اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے بس اڈوں پر جمع ہونا شروع کردیا۔ جب کسی کو جگہ نہیں ملی تو کوئی بسوں پر لٹکا۔ مزدوروں کا یہ ہجوم پچھلے سال کی یادوں کوواپس لانا شروع کر رہا ہے ، جب دہلی-ممبئی کے مزدور پیدل ہی گھر واپس جانے لگے۔دہلی سے اتر پردیش جانے والے بہت سارے تارکین وطن مزدور آنند وہار ٹرمینل پر کھڑے ہوئے بسوں کا انتظار کرتے نظر آئے تھے۔ شام 5:30 بجے کے بعد فرید آباد۔دہلی کی بدر پور بارڈر پر اچانک لوگوں کا رش شروع ہوگیا۔ تارکین وطن کے بڑھتے ہوئے ہجوم کی وجہ سے جام ہو گیا۔ لوگ بس میں سوار ہونے کے لیے بے قابوہوگئے۔ جب کسی کو جگہ نہیںملی تو کسی نے بس پر چھلانگ لگائی۔ یوپی کے علاوہ بہار ، مدھیہ پردیش اور راجستھان جانے والے لوگوں کا گروپ بس اسٹینڈ پر جمع ہوگیاہے۔ لاک ڈاؤن نافذ ہونے سے قبل سبھی اپنے گھر پہونچناچاہتے ہیں۔ انہیں پچھلی بار کی طرح لاک ڈاؤن میں پھنس جانے کاخدشہ ہے جب حکومتیں صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلارہی تھیں اوراشتہاربازی ہورہی تھی۔
نئی دہلی:دہلی کے ایک اہم اسپتال ، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) نے کورونا کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر او پی ڈی کی سہولیات بند کردی ہیں ، یہاں صرف ٹیلی میڈیسن کی سہولت دستیاب ہے۔ باقاعدہ اسپتال میں داخلہ بھی ابھی بندہے ، سرجری بند ہے یہ انتظام ابھی دو ہفتوں کے لیے ہے جس کے بعد صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ کورونا کیسز میں اضافے کی وجہ سے ، ایمس نے 8 اپریل سے سرجری کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اس مہینے کے شروع میںایمس نے بیرونی مریضوں کے لیے رجسٹریشن بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ایمس انتظامیہ نے بتایا کہ یہ فیصلہ کورونا کی وباکے پھیلنے والے کمیونٹی کے امکان کو کم کرنے کی ضرورت کے پیش نظر لیاگیاتھا۔اہم بات یہ ہے کہ کرونا کیسوں میں اضافے کے سبب اروند کجریوال حکومت نے ملک کے دارالحکومت میں چھ روزہ منی لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لاپرواہی میری عادت ، بیزاری میری فطرت اور اسی بیزاری کی کیفیت میں دنیا بھر سے قطع تعلقی میری طبیعت اور شاید اسی لیے رشتوں کی ناکامی میرا مقدر؛ لیکن یہاں معاملہ برعکس ہےـ ہمارے درمیان کوئی ایسا رشتہ نہ تھا جسے نباہتے رہنا لازم ہوـ نہ عمر کا، نہ دوستی کا نہ شاگردی کا اور نہ مریدی و مرشدی کا پھر یہاں ناکامی چہ معنی؟ بریک…. وقفہ…. دنیا سے اکتا کر زندگی سے من چاہے بریک لیتے رہنا میری سب سے بڑی کمزوری اور ناکامی کی سب سے بڑی وجہ!!
تعلق طویل نہ تھا لیکن مختصر ہو ایسا بھی نہیں ـ ایک فکشن نگار اور مبصر کا تعلق ایسا ہی ہوا کرتا ہےـ مختصر ہوتے ہوئے طویل اور طویل ہوتے ہوئے مختصرـ اور پھر جب وہ فکشن نگار مشرف عالم ذوقی ہو تو یہ تعلق مزید دلچسپ ہو جاتا ہےـ بحثیت انسان آب آب اور بحثیت قلم کار آگ آگ، دل مومی اور دماغ فولادی، انسان دوست اور فاشزم کا دشمن ـ
ذرا ٹھہریے! یہ تو محض جملہ معترضہ تھا مبصر ہونے کا دعوی نہیں ـ طفل مکتب ہوں بلکہ یوں کہیے قلم پکڑنے کے ابتدائی مراحل میں ہوں موجودہ حالات ہوں یا ہندوستان کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانا اوقات سے بڑھ کر ہے چنانچہ ایسی حالت میں مرگ انبوہ اور مردہ خانہ میں عورت جیسے ناولوں پر تبصرے کرنا فقط اندر کی آگ سرد کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے اور بہانہ بھی ـ
خیر ادیب کے ادب پر تو ہمشہ باتیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی فی الوقت مشرف عالم ذوقی کی بات کرتے ہیں (جو فکشن نگار کے سوا بھی بہت کچھ تھاـ) اور اس بے نام سے تعلق کی جس کا انجام ایک "آخری کال” تھاـ
ان دنوں زندگی جمود کا شکار تھی ـ وہی سکتہ طاری تھا جو اکثر و بیشتر ذات پر سوار ہو کر دنیا و مافیہا سے بیزار اور قلم کتاب سے بے خبر کر دیا کرتا ہے اور مجبورا یا عادتا زندگی سے بریک لینا پڑتا ہے سو اس چند ساعتوں کے وقفے میں صدیوں کا نقصان ہو جانے کی خبر بھی مجھ تک زبان غیر سے پہنچی اور بہت دیر سے پہنچی ـ منیر نیازی کی نظم "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں” میری ذات کی من و عن عکاسی بھی ہے اور میری زندگی کا المیہ بھی ـ وائے ناکامی کہ جو شخص اپنی کسی کتاب کی اشاعت پر قارئین کی فہرست میں ناچیز کا نام سر فہرست رکھتا اور جو اپنے سخت دنوں میں بھی اپنا یہ فرض نہیں بھولا اس کی زندگی کے آخری ایام کی خبر گیری کی بھی مجھے نہ فرصت ہوئی، نہ توفیق! اور اب جب ان کے آخری ایام کے واقعات بھی عوام الناس کے ذریعے علم میں آئے تو دل کی کسک مزید بڑھ گئی اور یہ خیال شدت سے کچوکے لگانے لگا کہ چند دن پہلے کال کرکے میری خبر گیری کرنے والا شخص خود بیمار تھا؟ یعنی وہ مشفق آواز آخری مرتبہ سماعتوں سے ٹکرائی تھی؟ کیا خبر تھی کہ منظر عام سے کیوں غائب ہو کہنے والا بہت جلد خود منظر عام سے غائب ہو جائےگاـ
وہ چاہتے تھے کہ میں ان کا نیا ناول ضرور پڑھوں جوابا میں نے کہا تھا کہ زندگی ان دنوں جمود کا شکار ہے جس دن تحریک ملی اور طبیعت ذرا بھی پڑھنے لکھنے کی طرف مائل ہوئی ہاتھوں کو سب سے پہلا لمس آپکی کتاب کا حاصل ہوگاـ اور ادبی دنیا میں واپسی آپکے ناول پہ بھرپور تبصرے کے ساتھ ہی ہوگی ـ وائے افسوس کہ زندگی کا جو جمود آپکی زندگی پر لکھ کر ٹوٹنا تھا اس کا خاتمہ آپکی موت پر ہواـ
شاید میں اب کبھی وہ ناول پڑھوں اور اگر پڑھوں تو شاید کبھی تبصرہ کر سکوں اور اگر تبصرہ کر بھی دوں تو شاید بلکہ یقینا وہ خوشگوار احساس نہ ہو سکے کیونکہ یقین جانیے کسی تخلیق پر خود تخلیق کار سے گفتگو کرنا اور داد وصولنا ایک منفرد اور خوشگوار تجربہ ہے!
مشرف عالم ذوقی کی ذات و صفات کا مکمل خاکہ آپکے اقربا اور آپکی تخلیقات کا مکمل احاطہ ادبی نقاد کے سر ہے ـ میرے لیے تو وہ ایک عظیم محرک ہیں ـ اگر تحریکیں جمود کی کوکھ سے جنم سے لیتی ہیں تو شاید اب میری زندگی کو محرک ہونے کیلیے کسی جمود کی ضرورت نہ پڑے اور شاید اب میں زندگی سے اکتا کر دنیا سے کنارہ کشی کا شیوہ تیاگ دوں کیونکہ کیا خبر کب، کس کی، کون سی کال آخری ہو جائے:
یہ وقفہ ساعتوں کا چند صدیوں کے برابر ہے!!