کویت سٹی:امیر کویت شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح نے نئی کابینہ کی منظوری دی ہے۔ وزیراعظم شیخ صباح الخالد الحمد الصباح نے وزرا کے نام منظوری کے لیے پیش کیے تھے۔کویتی خبر رساں ادارے ’’کونا‘‘ کے مطابق کویتی وزیراعظم نے بیان میں کہا کہ پہلی بار ملک میں دو نئی وزارتیں قائم کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک فروغ تفریحات اور دوسری انفارمیشن ٹکنالوجی اینڈ کمیونی کیشن افیئرز کی وزارت ہے۔الحمد الصباح نے بیان میں مزید کہا کہ انفارمیشن ٹکنالوجی اینڈ کمیونیکیشن امور کی وزارت آئندہ مرحلے میں کویت میں سائبر سکیورٹی کے استحکام اور الیکٹرانک بنیادی ڈھانچہ جدید خطوط پر استوار کرے گی۔ ای گورنمنٹ خدمات کا معیار بلند کرے گی۔ سمارٹ سروسز کو فروغ دے گی اور مواصلاتی شعبے کو جدید تر بنائے گی۔یاد رہے کویتی کابینہ میں وزیر خارجہ احمد ناصرالصباح، وزیر خزانہ خلیفہ حمادہ اور وزیر تیل محمد عبدالطیف الفارس کو نئی کابینہ میں برقرار رکھا گیا ہے۔
3 مارچ, 2021
دہلی یونیورسٹی میں اساتذۂ عربی زبان و ادب کا اجتماع،معاصر ادبی ،تدریسی و لسانی نظریات پرگفتگو
نئی دہلی:عربی زبان وادب کی تدریس اور اس کے نصابی مشمولات کی تیاری میں عصری تقاضوں کی رعایت نہایت اہم اور ضروری ہے ،تاکہ ہم اپنے تدریسی عمل کو مزید مؤثر اور افراد ساز بناسکیں۔ان خیالات کا اظہارآج شعبۂ عربی دہلی یونی ورسٹی میں منعقد لکچرز میں ’عربی زبان کی تدریس عصر حاضر کے تناظر میں‘کے عنوان پر اپنا لکچرپیش کرتے ہوئے شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سینئر استاذاور آل انڈیا ایسوسی ایشن فار عربک ٹیچر زاینڈ اسکالرز کے صدر پروفیسر حبیب اللہ خان نے کیا۔اس سے قبل سینٹر فار عربک وافریقن اسٹڈیز جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے سینئر استاذ پروفیسر مجیب الرحمن نے ’عربی زبان وادب کے لسانی رحجانات اور تنقیدی نظریات‘کے موضوع پراپنا وقیع اور تفصیلی خطبہ پیش کیا۔پروگرام کی پہلی نشست کی صدارت کررہے شعبۂ عربی دہلی یونی ورسٹی کے سینئر استاذ اور سابق صدرِ شعبہ پروفیسر محمد نعمان خان نے کہا کہ عربی شعبہ جات کے اساتذہ کا باہم علمی گفت وشنید کے لیے جمع ہوناہم سب کے لیے نہایت نفع بخش ثابت ہوتا ہے ، پروفیسر رضوان الرحمن چیئرپرسن سینٹر فار عربک وافریقن اسٹڈیز جے این یو نے پہلے لکچر میں بطور مہمان ِ خصوصی شرکت کی،جب کہ دوسری نشست کی صدارت پروفیسر عبد الماجد قاضی صدر شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کی اور پروفیسرایوب تاج الدین اعزازی ڈائریکٹر انڈیا عرب کلچرل سینٹر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔پروگرام کی نظامت پروفیسر نعیم الحسن صدر شعبہ عربی دہلی یونی ورسٹی نے کی اور کلمات تشکر پروفیسرسید حسنین اختر نے پیش کیے۔اس سے قبل جواہر لال نہرو یونی ورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ،ذاکر حسین کالج اوردہلی یونی ورسٹی کے مختلف شعبہ جات سے پروگرام میں شرکت کرنے والے اساتذہ نے پروفیسر سید حسنین اختر اور پروفیسر نعیم الحسن کو پروفیسرشپ کی ترقی پر مبارکباد پیش کی ۔پروگرام میں شریک ہونے والوں میں پروفیسر ارتضی کریم ڈین آرٹس فیکلٹی دہلی یونی ورسٹی،پروفیسر سید ظہیر حسین جعفری شعبہ تاریخ دہلی یونی ورسٹی،پروفیسر علیم اشرف وڈاکٹر علی اکبر شاہ شعبہ فارسی دہلی یونی ورسٹی،ڈاکٹر محمد کاظم ،ڈاکٹر عباد،ڈاکٹر محمد شمیم،ڈاکٹر مشتاق عالم قادری،ڈاکٹرمتھن کمارشعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی،جے این یو سے ڈاکٹر محمد عبید طیب ،ڈاکٹرمحمد اجمل،ڈاکٹر محمد اختر،ڈاکٹرزر نگار ،جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ڈاکٹر نسیم اختر،ڈاکٹر فوزان ،ڈاکٹراورنگ زیب ،ڈاکٹر ہیفا شاکری،ڈاکٹر محفوظ اور ذاکر حسین کالج سے ڈاکٹر محمود فیاض،ڈاکٹرمحمد طارق،ڈاکٹر عامر جمال کے علاوہ شعبہ عربی دہلی یونی ورسٹی کے اساتذہ اوراسکالرز نے شرکت کی اور بڑی تعداد میں اسکالرز آن لائن بھی لکچرز میں شریک ہوئے۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے ۔ یہاں 27 مارچ سے 29 اپریل تک ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ 18 کروڑ 60 لاکھ رائے دہندگان کے ذریعہ منتخب کیے گئے 824 ممبران اسمبلی کی 3 مئی کو تقرری ہوگی ۔ یہ الگ بات ہے کہ مرکز سے لے کر ریاستوں تک میں برسوں سے خالی پڑی نوکریوں پر تقرری نہیں ہو پا رہی ہے ۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں وہاں بھی آسامیاں خالی پڑی ہیں ۔ ریاستیں قرض کے بوجھ سے دبی جا رہی ہیں ۔ ان کے پاس خالی جگہوں کو بھرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔ عوام مہنگائی کو لے کر پریشان ہیں، دو جون کی روٹی جٹانا مشکل ہو رہا ہے ۔ مہنگائی پر سینا پیٹنے والے یا تو خاموش ہیں یا پھر بڑی بے شرمی سے یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ راشٹر وادی حکومت کے لئے اتنا تو برداشت کرنا ہی پڑے گا ۔ راشٹر واد کی آڑ میں ملک کے اثاثوں کی لوٹ ہو رہی ہے ۔ 14 کروڑ کسان تین نئے زرعی قوانین کو لے کر احتجاج کر رہے ہیں ۔ 11 کروڑ ڈگری ہولڈر نوجوان بے روزگار گھوم رہے ہیں ۔ یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس طرح کی تعلیم اس ملک میں دی جا رہی ہے ۔ 8 کروڑ کاروباری جی ایس ٹی کو لے کر پریشان ہیں ۔ وہ ملک گیر ہڑتال بھی کر چکے ہیں ۔ مگر جمہوریت کو جینا ہے تو چناؤ تو وقت پر کرانا ہی ہوگا ۔
سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت کا مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کے مسائل، کاروباریوں کی پریشانی اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تکلیفوں سے کوئی سروکار ہے یا نہیں ۔ کیا انتخابی ہار جیت یا الیکشن کے نتائج پر ان ایشوز کا کوئی اثر پڑے گا یا نہیں ۔ یا بی جے پی نے کوئی ایسی تکنیک ایجاد کر لی ہے کہ ملک کے سلگتے ہوئے مسائل کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ الیکشن جیت جاتی ہے ۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن مارچ اور اپریل کا مہینہ الیکشن میں گزرنے والا ہے ۔ چناؤ کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے بعد کوئی وزیر اعلیٰ بڑا فیصلہ نہیں لے سکتا ۔ مگر ان ریاستوں میں نوٹو کا فلو اور تشہیر کے ذریعہ جو کام ملے گا وہی اس ملک کا بڑا روزگار ہوگا ۔ کیوں کہ موجودہ حکومت کے پاس نئے روزگار پیدا کرنے کا نہ کوئی منصوبہ ہے نہ فکر ۔ خود وزیراعظم کے اعلان انتخابات سے متاثر ہوتے ہیں ۔ پچھلے سال وزیراعظم 22 مئی کو مغربی بنگال گئے تھے ۔ اس بار وہ 7 فروری اور 22 فروری کو دو مرتبہ آسام، مغربی بنگال کا دورہ کر چکے ہیں ۔ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا اور وزیر داخلہ امت شاہ ہر جگہ گئے ہیں ۔ پارٹی صدر جائیں تو جائیں لیکن ہر چھوٹے بڑے الیکشن میں پچاس وزیروں کی پوری کابینہ جس میں وزیراعظم سب سے آگے کھڑے ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ حکومت چناؤ لڑنے، جیتنے اور اقتدار میں بنے رہنے کو ترجیح دیتی ہے ۔ عوام کے مسائل اور ان کی پریشانیاں حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں ۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی کو انتخاب جتانے، عوام کو بھٹکانے اور مدوں کو دفن کرنے میں پارٹی صدر ہی نہیں کابینی وزیر بھی اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ اس کا نمونہ پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں دیکھنے کو مل سکتا ہے ۔ پڈوچیری میں دل بدل اور کرپشن انتخابی مدا بننے کا امکان ہے ۔ کیرالہ میں مذہب کے چھونک کے ساتھ سیاسی کارکنان کے قتل اور قانون انتظامیہ کی ناکامی کو ابھارا جا سکتا ہے ۔ تمل ناڈو میں مقابلہ ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے کے بیچ ہوگا ۔ وہاں بی جے پی کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ آسام میں الیکشن اسمی اور غیر اسمی کے ارد گرد لڑا جا سکتا ہے ۔ وہاں سی اے اے کا مدا دوبارہ اٹھ رہا ہے ۔ آسام کے لوگ سمجھ چکے ہیں کہ اسم سمجھوتہ کی دفعہ 6 میں مقامی لوگوں کے حقوق کی ذاتی، ماٹی اور بیٹی یعنی پشتینی زمین کی بنیاد پر حفاظت کا جو التزام کیا گیا تھا بی جے پی گزشتہ پانچ سالوں میں اسے لاگو نہیں کر پائی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ کیا سب چیزیں سیاست کے لئے ہوتی ہیں، نعرے لگانے کے لئے ہوتی ہیں ۔
جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہو رہا ہے ان میں سب سے اہم مغربی بنگال ہے ۔ بنگال سے پورے نارتھ ایسٹ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔ اس ریاست کی حقیقت یہ ہے کہ اس نے اپنے طور پر جدوجہد اور خوابوں کو جیا ہے ۔ 67-1969 میں وام پنتھی اور ماؤ وادیوں نے کانگریس کے سدھارتھ شنکر رے کو ہرا کر بنگال پر اپنا جھنڈا لہرایا تھا ۔ اس وقت لیفٹ کی جیت کو نظریات کی لڑائی کہا گیا تھا ۔ جیوتی باسو اس کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے اور لمبے عرصہ تک وام پنتھی وہاں اقتدار میں رہے ۔ ممتا بنرجی نے طبقاتی جدوجہد کے ساتھ نئے خواب کی نندی گرام، سنگور اور لال گڑھ سے جو دھارا بہائی اس نے اقتدار کو بدل دیا ۔ وام پنتھی حکومت سے باہر ہو گئے اور ممتا بنرجی پہلی مرتبہ2011 میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ بن گئیں ۔ اس وقت انہیں 294 سیٹوں میں سے 39 فیصد ووٹ کے ساتھ 184 سیٹ پر کامیابی ملی تھی ۔ 2016 میں 45 فیصد ووٹ اور 211 سیٹ پر جیت حاصل ہوئی تھی ۔ جبکہ بی جے پی کو تین سیٹ اور 10.16 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ 2014 میں بی جے پی کی ملک میں آندھی چل رہی تھی لیکن مغربی بنگال میں اسے صرف دو سیٹ پر اطمینان کرنا پڑا تھا ۔ مگر اس کے ووٹ بڑھ کر 17 فیصد ہو گئے تھے ۔ 2019 کے عام انتخابات میں ٹی ایم سی کو 22 اور بی جے پی کو 18 سیٹوں پر کامیابی ملی ۔ پارلیمانی انتخاب میں اس کا ووٹ 40.2 فیصد رہا ۔ جو ٹی ایم سی سے صرف 3.1 فیصد کم ہے ۔ اس صورتحال نے بی جے پی کا حوصلہ بلند کر دیا ۔ اب وہ بنگال میں کمل کھلانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ وہ ٹی ایم سی کو ہر سطح پر چنوتی دے رہی ہے ۔
بنگال کو جیتنے کے لئے بی جے پی فرقہ وارانہ نفرت کی لکیر کھینچ کر ووٹوں کو پولرائز کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس کے لئے سونار بنگلہ اور جے شری رام کا نعرہ لگایا جا رہا ہے ۔ جے شری رام کا نعرہ مذہبی نہیں بلکہ پوری طرح سیاسی ہے ۔ مگر یہ سچائی ہے کہ مسلمان اس نعرے کو نہیں لگائیں گے ۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی30 فیصد ہے ۔ جسے بی جے پی ہندوؤں کے لئے خطرہ کے طور پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بنگال کے ہندو اور مسلمانوں کا رہن سہن، کھان پان ،زبان اور لباس اتنی یکسانیت ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ 294 سیٹوں میں سے 16 سیٹ ایسی ہیں جہاں 40 سے 50 فیصد مسلم آبادی ہے ۔ 33 سیٹوں پر مسلمانوں کی تعداد30 سے40 فیصد ہے ۔ 50 سیٹوں پر20 سے30 اور15 سے18 سیٹوں پر مسلمانوں کے ووٹ 15 سے20 فیصد ہیں ۔ یعنی 110 سیٹیں ایسی ہیں جو مسلم طبقہ متاثر کرتا ہے ۔ بنگال کا مسلمان کھیتی اور مزدوری سے بھی جڑا ہے ۔ یہاں کا مسلمان چھوٹا اور درمیان کسان ہے، لینڈ لارڈ بھی ہیں اس فرق کو کسی نے کم نہیں کیا بلکہ سیاسی جماعتوں نے اسی فرق کے ساتھ مسلم ووٹوں کو سادھنے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی ان ووٹوں کو بے اثر کرنا چاہتی ہے ۔ اگر اسد الدین اویسی انتخابی میدان میں اترتے ہیں تو بی جے پی کا کام آسان ہو سکتا ہے ۔
ہندو آبادی کی بڑی تعداد کھیتی پر منحصر ہے ۔ قریب 71،60،000 خاندان ایسے ہیں جو زراعت سے جڑے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے دس کروڑ سے کچھ کم آبادی والی ریاست میں ان کی تعداد ساڑھے تین سے چار کروڑ ہے ۔ سب سے زیادہ فصل پیدا کرنے والے بنگال کے کسان کی حالت بھی اچھی نہیں ہے ۔ سوال ہے جب ملک میں کسانوں کا آندولن چل رہا ہے ۔ جب کاروباری ہڑتال پر آ گیا ہے، جب بے روزگاری اور مہنگائی اپنی انتہا پر ہے ۔ تو بنگال کا ووٹر کیا فیصلہ لے گا ۔ یہ وہی بنگال ہے جہاں کے لوگ ٹرام کے کرایہ میں دس بیس پیسے کے اضافہ پر مہنگائی کے خلاف بڑے بڑے احتجاج کر چکے ہیں ۔ یہاں مزدوروں کی بھی بڑی تعداد ہے جو پورے ملک میں جاتے ہیں ۔ اس لئے بی جے پی مغربی بنگال کی سیاست کو ہندو مسلمان میں بھٹکانا چاہتی ہے ۔ ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کے لوگ جے شری رام کے نعرہ میں سمٹ کر رہ جائیں گے یا اپنے اصل مسائل کو دھیان میں رکھ کر ووٹ کریں گے ۔ بنگال کا الیکشن آئندہ ہونے والے ریاستی انتخابات کا ایجنڈہ طے کرے گا ۔ یہ اب بنگال کے ووٹروں کی سمجھ پر منحصر ہے کہ وہ عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کا باعث بنیں گے یا الیکشن جیتنے کو جمہوریت سمجھنے والوں کو ناکام کرکے عام آدمی کو راحت پہنچائیں گے ۔
روسی دانش ور ولاد ی میر پروپ (1895-1970) نے روسی شہرسینٹ پیٹرز برگ (Saint Petersburg)میں مقیم ایک جرمن خاندان میں جنم لیا۔ تعلیم کے ابتدائی مدارج ہی سے اس ہو نہار طالب علم نے اپنے اساتذہ کو اپنی ذہانت سے بہت متاثر کیا۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ولادی میر پروپ نے اعلی تعلیم کے لیے سال 1724میں قائم ہونے والی روس کی مشہور وفاقی سرکاری جامعہ”سینٹ پیٹرز برگ سٹیٹ یو نیورسٹی“ (SPbSU) میں داخلہ لیا۔اس یو نیورسٹی میں وہ پانچ سال (1913-1918) زیر تعلیم رہا۔یہاں روسی اور جرمن لسانیات اس کے پسندیدہ مضامین تھے۔ان مضامین میں اس نے گہری دلچسپی لی اور اپنی ذاتی محنت اور لگن سے اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کو بہت متاثر کیا۔ مستقبل میں روسی اور جرمن لسانیات میں اس کی دلچسپی اس کے لیے اہم ترین موضوع ثابت ہوا۔اس جامعہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو گیا اور مختلف مدارس میں جرمن اور روسی زبان کی تدریس پر مامور ہوا۔کچھ عرصہ بعد وہ کالج کی سطح پر جرمن زبان پڑھانے لگا۔سال 1928میں اُس کی معرکہ آرا تصنیف ”Morphology of Folk tales“ روسی زبان میں شائع ہوئی۔سال 1932میں اس کا تقرر لینن گراڈ یو نیورسٹی میں ہو گیا۔اس نے اپنی باقی زندگی اسی جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دینے میں گزاری۔سال 1958میں جب ولادی میر پروپ کی تصنیف ”Morphology of Folk tales“ کے تراجم یورپ میں انگریزی زبان میں ہونے لگے تو وہ شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچا۔ ادب کے بعض سنجیدہ قارئین اور محققین کی رائے ہے کہ مصنف نے اپنی اس کتاب کا نام پہلے ”A morphology of wondertale“ تجویز کیا مگر ناشر نے من مانی کرتے ہوئے wondertale کے بجائے Folk Tale رکھ لیا۔شاید ناشر کو یہ گمان تھا کہ اس کی یہ اختراع ادب کے عام قارئین کے لیے زیادہ پر کشش ثابت ہو گی۔ ادب کے زیرک نقادوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ فکشن کے وضاحتی اسلوب کے تجزیاتی مطالعہ کے سلسلے میں ساختیات کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ولاد ی میر پروپ کا شمار فکشن میں تخلیقِ ادب کے وضاحتی اسالیب کے ساختیاتی مطالعہ کے اہم بنیا دگزاروں میں ہوتا ہے۔ ولادی میر پروپ نے روسی لوک داستانوں کے تجزیاتی مطالعہ میں جس تدبر،فہم وفراست اور بصیرت کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔لوک داستانوں کے مو ضوعات میں پائی جانے والی غیر معمولی وسعت،ندرت اور تنوع کے باعث ولاد ی میر پروپ نے لوک داستانوں کی کلاسی فکیشن کا تصور پیش کیا۔وہ موضوعات کے اعتبار سے لو ک داستانوں کی تقسیم اور درجہ بندی کا داعی تھا۔اس نے مضامین اور ان کے مرکزی خیال کے لحاظ سے بھی لوک داستانوں کی تقسیم کی جانب توجہ دلائی۔ادب میں ساختیاتی مطالعہ کی راہ ہموار کرنے کے سلسلے میں ولادی میر پروپ کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ بیانیہ کے ساختیاتی مطالعہ کے سلسلے میں قارئین کی نگاہ جن ممتاز نقادوں پر پڑتی ہے ان میں ولاد ی میر پروپ (Vladimir Propp) اور فرانسیسی ماہر لسانیات کلاڈ لیوی سٹراس (Claude Lévi-Strauss)کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ولادی میر پروپ نے فکشن کے تجزیاتی مطالعہ کو جدید ادبیات میں رو بہ عمل لا کر روسی ادبیات میں ساختیاتی مطالعہ کی راہ ہموار کر دی۔ روسی فکشن میں ساختیاتی مطالعہ کے مظہراس کے نظریات نے فکر و نظر کے نئے دریچے وا کر دیے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے تصورات کو جدید لسانیات میں تازہ ہوا کے جھونکے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ذو ق ِ سلیم سے متمتع ادب کے ذہین قارئین کو ساختیات کے ان قدیم بنیاد گزاروں کی علمی و ادبی خدمات کے بارے مثبت شعور و آ گہی فراہم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔اس سے پہلے ممتاز ادیب اور نقاد الیکزنڈر وسیلو وسکی(Alexander Veselovsky)نے روسی لوک کہانیوں پر تحقیقی کام کیا۔الیکزنڈر وسیلو وسکی(1838-1906) نے تقابلی ادبیات کے موضوع پر جن فکر پرور خیالات کا اظہار کیا انھیں اس کی پیش کردہ ادبی تھیوری کی حیثیت سے پزیرائی مِلی۔فرانس سے تعلق رکھنے والے نقاد جوزف بیدئیر (Joseph Bédier) نے بھی اس جانب توجہ دلائی کہ رزمیہ میں تخلیقِ ادب کے سوتے کیسے پھوٹتے ہیں۔ جوزف بیدئیر (1864-1938)نے اس امر پر اصرار کیا کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تخلیقی فعالیت در اصل تخلیق کار کی ذاتی فہم وفراست اور بصیرت کی مر ہونِ منت ہے۔تخلیقی فعالیت کو کسی ہر دل عزیز روایت کا ثمر سمجھنا درست نہیں۔ اپنے نظریات کی توضیح کے سلسلے میں اس نے قرونِ وسطیٰ کے غنائی شاعروں کی تخلیقات کواپنی دلچسپی کا محور بنایا۔ قرون وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی حسن و رومان کی داستان ٹرسٹن اور ایسولڈ (Tristan and Isolde) پر اس کے تجزیاتی مطالعہ کو پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔آج کے دور میں جب ان مشاہیر کا ذکر کم کم ہوتا ہے تو رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ)(1933-1990) کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگا:
کس نے پہلا پتھر کاٹا پتھر کی بنیاد رکھی
عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے
لوک داستانوں کا تجزیاتی مطالعہ اس امر کامتقاضی سمجھا جاتا ہے کہ اس کی صحیح خطوط پر درجہ بندی کی جائے۔ بادی النظر میں لوک کہانیوں کی یہ درجہ بندی ہر قسم کی تحقیق اور تجزیاتی مطالعہ میں اساسی حیثیت رکھتی ہے۔ لو ک کہانیوں کے اس قسم کے تنقیدی تجزیات میں ابتدائی نوعیت کے مطالعات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ تجسس اور حسن و خوبی سے لبریز لوک کہانیوں میں مافوق الفطرت عناصر کے علاوہ جانوروں کی موجودگی بھی قارئین کے لیے دلچسپی کا سبب بنتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ پری اور شہزادے کا رومان، ماہی گیر اور مچھلی کی کہانیاں،مداری اور بندر کے مکالمے، صیدِ زبوں اور صیاد کی بات چیت سے لوک کہانیوں میں حیرت کی جو فضا پیدا ہوتی ہے وہی ان لوک کہانیوں کا مزاج بن جاتی ہے۔ ولاد ی میر پروپ نے لوک کہانیوں کی تقسیم کے بارے میں لکھا ہے:
,,The most commom division is a division into tales with fantastic content,tales of everyday life,an danimal tales.At first glance everything appears to be correct.But involuntarily the question arises,”Don,t tales about animals sometimes contain elements of the fantastic to a very high degree?Is it possible to consider such an indicator as sufficiently precise?,, (1)
ولاد ی میر پروپ نے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر ہمیشہ گہری نظر رکھی۔ طلسم ہوش ربا قسم کی کہانیوں میں یہ بات حیران کن ہے کہ کس طرح شجر،حجر،طیور، چرند اور درندے لوک کہانیوں میں سر گرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔ لوک کہانیوں کا ہر قسم کا تجزیاتی مطالعہ اس امر کا متقاضی ہے کہ اسے وسیع اور کثیر الجہتی موازنہ کی اساس پر استوار کی اجائے۔ لوک داستانوں کے تجزیاتی مطالعہ کے دوران با لعموم تکنیک اورطریق ِ کار پر پُوری توجہ نہیں دی جاتی۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متعدد حقائق سرابوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ساختیاتی مطالعہ کو اس سارے سلسلے میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے اسی کے معجز نما اثر سے لو ک کہانیوں کے متن،مواد اور ہئیت کے بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ ولاد ی میر پروپ نے لو ک کہانیوں کے تجزیاتی مطالعہ میں تاریخی صداقتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے:
,,Historical realities can be of great assistance in explaining the fate of a plot.The bylina is rich in realities,and the number increases as epic poetry develops.Among such realities are proper and place names,which must be studied in accordance with contemporary onomastics and toponymics and not the means of the conjectural association of like-sounding words.,,(2) اس کے مطالعے جہاں اس کی اہم ترین بصیرتوں کے آ ئینہ دار ہیں وہاں ان کی تاریخی،ساختیاتی اور لسانی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ روسی لوک کہانیوں کے آغاز و ارتقا کے موضوع پر اس نے جن مباحث کا آغاز ولاد ی میر پروپ نے کیا ان کی حقیقی کیفیات اس کی تصنیف روسی لوک کہانیاں ( The Russain Folktale )میں نظر آ تی ہیں۔ مصنف کا حقیقت پسندانہ اور تجزیاتی نقطہ ئ نظر قاری کے لیے ایک منفرد تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کتاب کا وسیع موضوع اور قلب و نظر کو مسخر کرنے والا متنوع موضوعات سے مزین اسلوب قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتاہے۔ مصنف نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ لوک داستانوں میں حرفِ صداقت کی جستجو لاحاصل ہے۔ صدیوں سے مقبول لوک کہانیاں اورروایتی قصے ہر دور میں قارئین کی دلچسپی کا محور رہے ہیں۔ لوک کہانی کا مقصد محض تفریح ہے اور اس کی تخلیق میں اصلاح اور مقصدیت کی تلاش وقت اور محنت کا کوئی صحیح مصرف نہیں۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ لوک کہانیوں کے بر عکس روایتی قصوں، اسطور اورداستانوں میں کسی حد تک سبق آموز واقعات بھی پائے جاتے ہیں۔ روایتی قصہ اصلی النسل داستان گو بیان کرتے ہیں جوروایتی قصے(myth)کے نسل در نسل راوی سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ان میں عقائداور طلسمات کااپنا رنگ ہوتا ہے۔ جب روایتی قصے(myth) میں سماجی اور معاشرتی افادیت عنقا ہونے لگے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ لوک کہانی کے رُوپ میں سامنے آرہا ہے۔ تحیر کے عنصر سے لبریزروسی لوک کہانیوں میں اختصاصی مہارت رکھنے والے اس جری نقاد نے کہانیوں کی ساخت اور ہئیت کے بارے فکر و خیال کی جو شمعیں فروزاں کیں ان کے معجز نما اثر سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں اور روشنی کا سفر جاری رکھنے میں مدد ملی۔ انسانی ہمدردی اورجذبۂ انسانیت نوازی اس رجحان ساز نقاد کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے۔ ولاد ی میر پروپ نے روسی لو ک کہانیوں کے بارے میں اپنے تجزیاتی مطالعات جس دیانت اور ذہانت سے پیش کیے ان کے ساختیاتی فکر پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔
مزاح زندگی کی نا ہمواریوں،بے اعتدالیوں،بے ہنگم ارتعاشات اوربدوضع تضادات کے ہمدردانہ شعور سے عبارت ہے جسے فنی نزاکتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیرایہئ اظہار عطا کیاجاتا ہے۔اس کی اصلیت،نوعیت اور تاثیر کی تفہیم اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک اس کے پس پردہ کار فرما احساسات،جذبات اور نفسیاتی عوامل پر گہری نظر نہ ڈالی جائے۔ ولاد ی میر پروپ نے طنز و مزاح کے محرکات کے بارے میں لکھا ہے:
,,Laughter occurs when two elements are present: the funny object and the laughing subject.As a rule,nineteenth -and twentieth century thinkers studied either one or the other:the comic object in works on aesthetics,the laughing subject in works on psychology. Yet the comic is determine dby neither the formerno rthe later,but by influence on us of objective phennmena. (3)
بیسویں صدی کے آغاز میں ساختیات،روسی ہئیت پسندی اور نئی تنقید نے خو ب رنگ جمایا۔اسی عرصے میں تنقید میں نیا آ ہنگ دیکھنے میں آیا جسے بیانیہ کے مباحث سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ روسی کہانیوں کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت ولادی میر پروپ نے کہانیوں کے مرکزی خیال اورمشترک موضوع کی جستجوکو بہت اہمیت دی۔اپنی افتاد طبع کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نے لوک کہانیوں کو مختصر ترین صرفیہ (morphemes)میں بانٹ کر ان ادبی ریزوں میں سے مفاہیم و مطالب کے گوہر تلاش کرنے کی سعی کی۔ ولادی میر پروپ نے پریوں کی عام لوک کہانیوں میں سے طلسمات سے وابستہ کہانیوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ ولادی میر پروپ نے لوک کہانیوں کے تجزیاتی مطالعہ کے لیے جس ساختیاتی ماڈل کاانتخاب کیا اس کے بارے میں کوئی ابہام نہیں۔ ولادی میر پروپ نے لوک داستانوں کے واقعات اور افعال سے تعلق رکھنے والے اکتیس آزاد اور خود مختار بیانیہ یونٹ دریافت کیے جن میں مماثلت کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس کا خیال تھا کہ یہی حساس بیانیہ یونٹ لوک کہانیوں کی ساخت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ دورانِ تحقیق وہ اس نتیجے پر پہنچاکہ واقعات اورافعال کے یہ بیانیہ یو نٹپریوں کی سب لوک کہانیوں کو ایک ڈوری میں پر و دیتے ہیں اس لیے وہ ان کی ترتیب پر زور دیتا ہے اور ان کے حقیقی انداز کو ملحوظ رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔واقعات اور افعال کے بیانیہ یونٹ کے بارے میں ولاد ی میر پروپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اِن کا کہانی کے پلاٹ اور مقام سے گہرا تعلق ہے۔اُس نے واضح کیا کہ بیانیہ یونٹ جو واقعات اور افعال کے آئینہ دار ہوتے وہی لوک کہانی میں محوری حیثیت رکھتے ہیں جب کہ موضوع،شکل،کردار،پلاٹ اور کردار کو لوک کہانی میں ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ وہ پریوں کی لوک کہانیوں میں سات اہم کرداروں کا بھی ذکرکرتا ہے۔ اس نے پریوں کی لوک کہانیوں میں پائی جانے والی ایک ہی بنیادی ساخت کی جانب بھی اشارہ کیا۔دنیا بھر میں داستان گو صدیوں سے یہ لوک کہانیاں اپنے سامعین کو زبانی سناتے چلے آئے ہیں۔یہ لوک کہانیاں معاشرے کے مختلف طبقوں کے درمیان معتبر ربط کا وسیلہ سمجھی جاتی ہیں۔اس طرح کا لوک ادب جن میں لوک کہانیاں بھی شامل ہیں تہذیبی،ثقافتی،تاریخی،عمرانی اور معاشرتی حوالے سے تاریخ کے ہر دور میں دنیا کی مختلف قوموں کے ادب اور فنون لطیفہ کی تعمیر و ترقی کے لیے نشانِ منزل ثابت ہوئی ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید دور میں علم و ادب کی تابانیوں کے سوتے در اصل ماضی کی اِن لوک کہانیوں سے پُھوٹتے ہیں۔لوک ادب نے ہر عہد میں قارئین کو نشانِ منزل دیا اور ان خطوط پر زیرک تخلیق کاروں نے جدت اور تنوع کو ملحوظ رکھتے ہوئے نئے آفاق تک رسائی کی مقدور بھر کوشش کی۔
ساختیاتی فکر کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں ولاد ی میر پروپ کی فہم و فراست کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔جہاں تک کہانی کے مختلف عناصر کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی کا تعلق ہے اس مقامِ شوق میں وہ کھویا گیا اور اس کا احساس اس کا ساتھ نہ دے سکا۔ مثال کے طور پر تخلیق کاروں اور لوک کہانیوں کے مختلف کرداروں کے مزاج کی کیفیت (Mood ) اور لوک کہانیوں کے گہرے تناظرپر وہ کچھ کہنے سے قاصر رہا۔ اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ ولاد ی میر پروپ نے لوک کہانیوں کے جو تجزیات پیش کیے وہ قدیم لوک کہانیوں اور جدید ادب کی تفہیم کے سلسلے میں کوئی مفید اور موثر لائحہئ عمل پیش نہیں کرتے۔ ولاد ی میر پروپ سے پہلے رولاں بارتھ اور کلاڈ لیوی سٹراس نے لوک کہانیوں اور ساختیاتی تجزیہ کا جو ارفع معیار پیش کیا اُسے کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ ولاد ی میر پروپ نے لو ک کہانیوں کے تجزیاتی مطالعہ کے دوران میں جونتائج اخذ کیے ان کی بنا پر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ عناصر کی درج ذیل پانچ درجہ بندیاں ہی وہ مقیاس ہیں جو لوک کہانیوں کی تشکیل و توضیح میں اساسی حیثیت رکھتی ہیں۔
1۔تخلیق کارکی شخصیت اور اس کی تخلیقی فعالیت۔
2۔ لوک کہانی کے اتار چڑھاؤ کے تخلیقی عمل کے دوران میں مربوط عناصر کا نشیب و فراز سے گزرناجس میں تکنیک،اعلان،سیلِ زماں کے تھپیڑے،آفاتِ نا گہانی،محرومی، مجبوری،جبر کے مختلف انداز اور بد قسمتی وغیرہ شامل ہیں۔
3۔شخصیت کے عزائم،مقاصد اور ترجیحات،اس کی منشا،ترغیب اور تحریک
4۔ مختلف مواقع پرلوک کہانیوں میں ڈرامہ کی صورت میں کردار ادا کرنے والی شخصیت کے اظہار کی متنوع صورتیں۔
5۔لوک کہانی میں پائے جانے والے صفاتی عناصر اور متعدد لوازمات جیسے ڈائن کی کٹیا،بُھوت محل میں لٹکی مٹی کی ٹانگ اور چڑیل کی خون آشامی۔
بیانیہ یونٹ جو واقعات اور افعال کا آئینہ دار ہے اس میں شامل ان اکتیس عناصر کی فہرست دی جارہی ہے جن کی ولاد ی میر پروپ نے لوک کہانیوں کے تجزیاتی مطالعہ کے بعد نشان دہی کی۔ ان عناصر کی علامات، تشریحات، مباحث، ان میں سے کچھ جوڑو ں کی صور ت میں ہوتے ہیں جیسے روانگی، واپسی وغیرہ۔ایسی کیفیات دنیا کی تمام زبانوں کے ادب میں جلوہ گرہیں۔
پہلا دائرۂ کار:ابتدائی کیفیات اور تعارف
1۔ غائب ہو نا: لوک کہانی کا کوئی اہم کردار گم ہو جاتاہے جس کے بعد کہانی سنسنی خیز صورت اختیار کر لیتی ہے۔
آوا زدے کہاں ہے
دنیا میری جواں ہے
تم نہ جانے کِس جہاں میں کھو گئے
ہم بھری دنیا میں تنہا ہو گئے
2۔ امتناع: ہیرو کوکسی کام کی ممانعت کر دی جاتی ہے اور اس ممنوعہ کام سے باز رہنے کی نصیحت کی جاتی ہے۔
آج کی رات نہ سونا یارو
آج ہم ساتواں در کھو لیں گے
3۔حکم امتناع کی خلاف ورزی: لو ک کہانی کا ہیر و پند و نصائح،حکم امتناعی اور تنبیہہ کو خاطر میں نہیں لاتا اور نتائج سے بے پروا ہو کر من مانی کرتا ہے۔
4۔ٹوہ لگانا :ہیرو کا رقیب سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا ہے اور وہ ہیرو کی جاسوسی کرکے اسے اذیت دینا چاہتا ہے۔
5۔ترسیل: برادرانِ یوسف،کینہ پرور حاسداورآستین کے سانپ رقیب کو مطلوبہ معلومات تک رسائی میں مدد دیتے ہیں۔اس کے بعد ہیرو مصائب و آلام میں گِھر جاتا ہے۔
6۔فریب کاری:جو فروش گندم نما رقیب لوک کہانی کے ہیرو کو جُل دینے پر تُل جاتا ہے اور اُسے نا کردہ گناہوں کی سزا دینے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آتا ہے۔
7۔سازش:سازشی عناصر کے مکر کی چالوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور لا علمی میں دشمن کو فائدہ پہنچتا ہے۔
دوسرا دائرۂ کار:کہانی کی جسامت
لوک کہانیوں کا باقاعدہ آغاز یہاں سے ہوتا ہے۔اس مر حلے میں لو ک کہانی ہیرو کی بڑی مہم پر روانگی،حل طلب معما کی مشکلات کے حل کی جستجواور گوہرِ مراد کے حصول تک پھیل جاتی ہے۔
8۔شرارت اور کمی:مخالفین کی شرارت،اقتضائے وقت کے مطابق اقدامات کی ضرورت اور ممکنہ کمی کی شناخت ہو جاتی ہے۔
9۔ثالثی:اس موقع پر لو ک کہانی کے ہیرو کومسائل کی سنگینی اورحکمت عملی کی کمی کا شدت سے احساس ہونے لگتا ہے۔
10۔جوابی کارروائی: ہیرو مثبت انداز فکر اپناتے ہوئے فیصلہ کن اور نتیجہ خیز جوابی کاروائی کرنے کا عزم کر لیتا ہے۔
11۔ ہیرو کی مہم پر روانگی:ہیرو مہم سر کرنے کے لیے روانہ ہو جاتا ہے۔
تیسرا دائرہ کار:عطیہ دینے کا سلسلہ
12۔ جائزہ: ہیرو اپنی استعداد کا جائزہ لیتا ہے کہ وہ کس طرح درپیش چیلنج کا سامنا کرے،مخالفین کو زیر کرنے کے بعداپنی جرأت و استقامت کو ثابت کرے۔
13۔رد عمل: ہیرو ابتلا اور آزمائش کی گھڑی میں ثابت قدم رہتا ہے اور انتہائی کٹھن حالات میں استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
14۔حصول:جان لیوا مصائب سے بچنے کے لیے ہیرو کوئی طلسمی چیزحاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
15۔رہنمائی:کسی مافوق الفطرت قوت کی رہنمائی میں ہیرو منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے جہاں مزیدامتحا ن اس کے منتظر ہیں۔
16۔جد و جہد:ہیرو اور ولن میں خوف ناک تصادم ہوتا ہے۔
17۔چھاپ لگانا:ہیرو پر کسی خاص نشان کی چھاپ لگا دی جاتی ہے۔
18۔فتح و نصرت: ہیرو کو کامیابی حاصل ہوتی ہے اور وِلن کو منھ کی کھانا پڑتی ہے۔
19۔قرار داد:ہیرو کی فتح کے بعدابتدائی مر حلے کی نحوست،بد قسمتی اور محرومی کاازالہ ہو جاتا ہے۔
چوتھا دائرہئ کار:ہیرو کی واپسی
لوک کہانی کے اس آخری مرحلے میں طویل جد و جہد کے بعدکامیابی و کامرانی ہیرو کا مقدر بن جاتی ہے۔اکثر مشکلات پر قابو پانے کے بعد وہ اپنے گھر لوٹ جانے کا عزم کر تا ہے۔اُس کی واپسی ہنگامہ خیز نہیں بل کہ یہ ہیرو کی ذات کے لیے راحت اور مسرت کی نقیب ثابت ہوتی ہے۔کئی مہمات میں دکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیلنے اور سخت مقامات پراپنے لہو سے ہولی کھیلنے کے بعدوہ بالآخر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیتاہے۔جب ہیرو اپنے وطن لوٹتا ہے تو بعض اوقات اُس کا پرجوش خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
20۔واپسی:لوک کہانی کے وِلن کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد غریب الوطن ہیرو اپنی جنم بھومی کی طرف لوٹنے کے لیے رختِ سفر باندھ لیتاہے۔ لوک کہانیوں کے غریب الدیار ہیرو کو وطن کی یاد دستانے لگتی ہے تو اس کی آ نکھوں سے جوئے خوں رواں ہو جاتی ہے اور وہ سایہ طلب انداز میں کسی نخل سایہ دار کی جانب بڑھتا ہے:
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
21۔تلاش و تعاقب:جب ہیرو مہم سر کرنے کے بعد اپنے وطن روانہ ہوتا ہے تو کینہ پرور حاسد اور اس کے خون کے پیاسے اس کی تلاش کرتے ہیں اور اس کا تعاقب کرتے ہیں۔
22۔بچاؤ:ہیرو کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے جال میں نہیں پھنستا اور قتل گاہوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
23۔ہیر وکا اپنے گھر پہنچ جانا: لوک کہانیوں کا آبلہ پا ہیرو جب خرابی ئ بسیار کے بعد اپنے گھر پہنچتا ہے توزمانہ بدل چکا ہوتا ہے۔ہیرو پر جو صدمے گزرتے ہیں ان کے نقوش اس کے چہرے اور پورے وجود پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ اس دیار میں کوئی اس کی سر گزشت سے آ گاہ نہیں،یہی وجہ ہے کہ کوئی اسے پہچان نہیں سکتا۔
24۔دعویٰ : لوک کہانی کے اصل ہیرو کی کامیابی کے بعد کوئی ابن الوقت مسخرااور جعل ساز اچکا ہیرو کاسوانگ رچا اپنی فرضی مہم جوئی اور جُھوٹی گواہی کے ذریعے بے بنیاد مطالبات کرنے کے لیے میدان میں کُود پڑتا ہے۔
25۔ مقررہ کام:آزمائش کی اس گھڑی میں اصلی ہیرو کو پر کھنے کے لیے اُسے انتہائی کٹھن کام کرنے کی ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے۔
26۔مسائل کا حل:اپنی فہم و فراست،دلیری اور ثابت قدمی کی بدولت ہیرومقررہ کا م کی تکمیل اور مسائل کو احسن طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
27۔تسلیم کرنا : جب ہیرو ہر آزمائش پر پُورا اُترتا ہے توسب لوگ اس کی اصلیت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کی پزیرائی اور قدر افزائی کی جاتی ہے۔
28۔انکشاف: اس مر حلے پر جعلی ہیرو کے مکر کا پردہ فاش ہو جاتا ہے۔توہین،تذلیل،تحقیر، رُو سیاہی اورجگ ہنسائی جعلی ہیرو کا مقدر بن جاتی ہے۔
29۔شکل کی تبدیلی: ہیرو کو ایک نئی شکل عطا کی جاتی ہے جس سے اس کی وجاہت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
30۔سزا : سادیت پسندوِلن کو اس کی بد اعمالیوں کا خمیازہ اُٹھانا پڑتا ہے اوراُس کے قبیح کردار کی وجہ سے اُسے کڑی سزا دی جاتی ہے۔
31۔شادی: ہیرو کی شادی شہزادی کے ساتھ ہو جاتی ہے اور وہ تخت و تاج کاوارث بن جاتا ہے۔
لوک کہانیوں کے دائرہ کار سے متعلق مندرجہ بالا فہرست کا مطالعہ کرنے کے بعدوہ قارئین جو لو ک کہانیوں کے بارے میں اعتدال پسند ہیں مگر ساخت میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں،اُسے دائرہ ئ کار میں شامل ان عوامل کا لوک کہانیوں پر انطباق بہ ظاہر آسان دکھائی دیتا ہے مگر عملاً ان اکتیس عوامل کو لوک کہانی پر منطبق کرنا ایک انتہائی کٹھن مر حلہ ہے۔ لوک کہانیوں کا ہر بیانیہ ہیرو اور وِلن کے تصادم کامظہر ہوتا ہے۔کیاانھیں زیادہ سہل اور عام فہم انداز میں پیش کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ولاد ی میر پروپ کی تھیوری کے مطابق لوک کہانیوں کے کردار محض دو قسم کے ہوتے ہیں یا تو بہت اچھے یا بہت ہی بُرے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوک کہانیوں پر ان اکتیس عوامل کے انطباق سے قاری کے لیے اظہار و ابلاغ اور تفہیم میں آسانی پیدا ہو سکے گی۔اس کا جواب حددرجہ غیر اُمید افزا ہے۔آج کے دور میں بیانیہ میں جس تصنع،نفاست اور پیچیدگی کی فراوانی ہے وہ اہلِ نظر سے مخفی نہیں۔لو ک کہانیوں میں کچھ بیانیہ ایسے بھی ہیں جن کے دُھندلے نقو ش ادب کے عام قاری کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔اگر جدید دور میں ولاد ی میر پروپ کے خیالات کی اسیری قبول کر لی جائے تو لوک کہانیوں کے مطالعہ میں اکثر مواقع پر مضحکہ خیز صور ت حال پیدا ہو جانے کا خدشہ ہے۔ ولاد ی میر پروپ کے نظریات کا مطالعہ کرتے وقتبعض اوقات یہ خیال بھی ذہن میں آتا ہے کہ دورِ جدید میں فکر و خیال کی وادی میں مستانہ وار گھو منے والے قارئینِ ادب کیااس صلاحیت سے متمتع ہیں کہ وہ لوک کہانیوں کی پریوں کے حسن وجمال،وِلن کے وبال اور ہیرو کے کمال کے سِحر سے نکل کراخلاقی تعلق کی حدود میں پیش قدمی کر کے اپنے وجود کا اثبات کر سکیں۔ روایتی لوک کہانیوں کے بیانیہ کے بارے میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ کہیں کہیں ایسا بھی محسوس ہوتا ہے دانستہ لوک کہانی کی قدیم روایات سے انحراف کیاجا رہا ہے۔اگر کسی لوک کہانی میں کوئی حسین وجمیل دوشیزہ مہم جوئی پر آمادہ ہو کر ہیرو کا کردار ادا کرنے پر کمر بستہ ہو جائے تو نقا د اُس پر ولاد ی میر پروپ کے معائر اور اصولوں کا اطلاق کرنے میں تامل کرے گا۔
ولاد ی میر پروپ کا خیال تھا کہ لوک کہانیوں کے عمیق مطالعہ سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ کردار ہی ہیں جن کے اعجاز سے بیانیہ کی تاب و تواں کا سارا منظر نامہ نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔بُھوتوں،چڑیلوں،ڈائنوں اور پریوں کے موضوع پر لکھی گئی لوک کہانیاں درا صل روایتی نوعیت کے قصے (Myth)کی اساس پر استوار ہیں۔ پریوں وغیرہ کی ان کہانیوں میں تجسس اور دلچسپی پیدا کرنے کی غرض سے ان میں کئی پُر اسرار واقعات شامل کر لیے جاتے ہیں جن میں شجاعت،مہم جُوئی،طلسمات،رہزن،رہنما اور متعدد دیگر عوامل شامل ہیں۔مافوق الفطرت عناصر،چڑیلوں اور پریوں کی کہانیاں پڑھنے کے بعد یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیاسائنس کو جادو ٹونے کے نعم البدل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اپنے تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ کے دوران میں ولاد ی میر پروپ نے لوک کہانیوں میں جن سا ت مختلف کرداروں کی شناخت کی ہے اُن میں وِلن،عطا کرنے والا،معاون،ہیرو،شہزادی اور اُس کا والد،بھیجنے والااورجعلی ہیرو شامل ہیں۔ ولاد ی میر پروپ کے مطابق اکثر لوک کہانیوں میں دو قسم کے ہیرو دیکھے جاتے ہیں۔پہلی قسم کے ہیرو انتہائی مظلوم ہوتے ہیں جنھیں وِلن شدید اذیتوں اور عقوبتوں میں مبتلا کرتا ہے اور لذتِ ایذا حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت ہیرو کے درپئے آزار رہتاہے۔ہیرو کی دوسری قسم کو وہ طالب کا نام دیتا ہے،اس قسم کے ہیرو ان الم نصیبوں اور جگر فگاروں کی مدد کرتے ہیں جو وِلن کی سفاکی اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔بیانیہ کی متعد د دلچسپ صورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں دو کردار متصادم دکھائی دیتے ہیں مگر ادب کے عام قاری کے لیے ان کرداروں کی شناخت حلیف اور حریف کے طور پر کرناآسان نہیں۔
تاریخ کاایک مسلسل عمل ہوا کرتا ہے جو مؤرخ کے قلم اور عصری حقائق کا مظہر ہوتا ہے۔ لوک کہانیوں کے بارے میں ولاد ی میر پروپ کے نظریات کا سال 1950میں انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔اس کے ساتھ ہی یورپ میں اس کے نظریات پر مباحث کے ایک غیر مختتم سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ علم بشریات اور علامتی ابلاغ کے شعبوں میں اس کے خیالات کی بازگشت طویل عرصہ تک سُنی جاتی رہی مگر آخری تجزیہ میں دِل میں یہ خلش باقی رہتی ہے کہ کون سی اُلجھن کو سلجھایا گیا۔ ساختیات کے حوالے سے پریوں کی لوک کہانیوں کے بارے میں ولاد ی میر پروپ کی بحث اس لیے ادھوری معلوم ہوتی ہے کہ اس میں کئی ضروری باتیں تشنۂ تکمیل رہ گئی ہیں۔ لوک کہانیوں کے ساختیاتی تجزیہ اورولاد ی میر پروپ کے اسلوب کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے:
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
مآ خذ:
1-V.Propp:Morphology of The Folk tale,University of Texas,2009,page 5-
2.V.Propp:Theory and History of Folklore,vol.5,University of Minnesota Press,1970,page,59
3-Valdimir Propp:On The Comic And Laughter,University of Toronto press,2009,page,14-
اد ب اطفال میں ماہ نامہ’’ انوکھی کہانیاں ‘‘ کی انفرادیت- ذوالفقار علی بخاری
’’ دیوتا‘‘ محی الدین نواب کا تحریر کردہ اُردو ناول ہے جو اردو ماہنامہ ’’ سسپنس ڈائجسٹ ‘‘ میں1977 سے 2010 تک بلاناغہ شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ اردو ادب میں جاری رہنے والا سب سے طویل ترین اورمقبول ترین ناول ہے، اس کے 56حصے ہیں۔یہ ناول ’’ فرہاد علی تیمور‘‘ کی سوانح عمری ہے۔اسی طرح سے پاکستان میں بچوں کے ادب میں طویل ترین قسط وار ناول کا اعزاز ’’ آگ کا بیٹا‘‘ کو حاصل ہے جو کہ معروف لکھاری نوشاد عادل کے قلم سے نکلا ہوا تہلکہ خیز ناول ہے۔اس کی محض دو ماہ کے بعد سو اقساط مکمل ہونے کو ہیں۔ یہ ایک ایسا سنگ میل ہے جو پہلی بار کوئی قسط وار طبع زاد ناول چھونے جا رہا ہے۔راقم السطور کی تحقیق کے مطابق اس کو کتابی شکل میں ایک ہی جلد میں شائع کرکے ورلڈ ریکارڈ بنایا جا ئے گا۔’’ آگ کا بیٹا‘‘بچوں کے معروف ماہ نامہ ’’ انوکھی کہانیاں‘‘، کراچی میں شائع ہو رہا ہے۔’’آگ کا بیٹا‘‘ کی سو اقساط کے بعد ماہ نامہ ’’ انوکھی کہانیاں‘‘ ،کراچی دیگر رسائل سے اس لحاظ سے منفرد ہو جائے گاکہ اس سے قبل بچوں کے رسائل میں لکھاریوں اور ادیبوں کی زندگی کے حالات بھی اسی رسالے میں شائع ہو چکے ہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ادب اطفال میں نئے رجحانات سامنے لانے میں پیش پیش ہے اور دیگر رسائل میں کم سے کم جدت پذیری کے حوالے سے نمایا ں ہو چکا ہے۔
راقم السطور کی جاری تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہو رہی ہے کہ یہ رسالہ فرد واحد یعنی’’ محبوب الہی مخمور‘‘ کی بہترین صلاحیتوں کی بدولت خوب صورت انداز میں شائع تو ہوتا ہی ہے مگر مذکورہ ماہ نامہ ’’ خاص نمبروں‘‘ کی اشاعت میں جداگانہ حیثیت رکھتا ہے،یعنی خا ص نمبروں کے موضوعات بھی کافی دل چسپ ہیں۔ ’’ انوکھی کہانیاں‘‘، کراچی نے اپنی اشاعت کا آغاز اگست 1991 میںکیا تھا ۔یہ رسالہ بچوں اور طلبہ میں بے حد مقبول ہے اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ دیگر رسائل کی بہ نسبت تیس برسوں سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے جو کہ اپنی جگہ ایک انفرادیت ہے۔ ایک زمانے میں آخری صفحات پر ’’آخری صفحات آخری لمحہ‘‘کے عنوان سے مکمل ناولٹ شائع ہوا کرتا تھا۔جس کی آج کئی رسالے پیروی بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف اس رسالے کی پہچان منفرد سرورق صفحے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ یہاں سے بہت سے نئے لکھاریوں کو بھرپور طور پر اُبھرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ ان میں چند نام اگر لیں تو ان میںسعید عباس، محمد عرفان رامے اور نوشاد عادل شامل ہیں۔
آپ کی معلومات کے لئے یہ بتاتے چلیں کہ ماہ نامہ انوکھی کہانیاں ، کراچی پہلے ہی آپ بیتیاں کا منفرد سلسلہ شائع کرکے تاریخ میں اپنا منفرد مقام بنا چکا ہے۔اس سے قبل ماہ نامہ نٹ کھٹ ،حیدرآباد نے نوشاد عادل کے ترغیب دینے پر چند آپ بیتیوں کو شائع کیا تھا مگر اُس کے بند ہو جانے کے بعد اس منفرد سلسلے کو بڑی خوب صورتی سے ’’ انوکھی کہانیاں‘‘ ،کراچی نے جاری رکھا کہ آج ہر لکھاری کی خواہش بنتی جا رہی ہے کہ اُس کی زندگی کے حالات دوسروں تک پہنچیں۔ پاکستان میں آپ بیتی کے رحجان کے حوالے سے بات کریں تو نوشاد عادل نے پہلا پتھر پھینکا تھا ، یعنی انہوں نے اس سلسلے کا آغاز اپنی آپ بیتی ’’ نوشاد بیتی‘‘ لکھ کر کیا تھا۔ جس کے بعد پروفیسر ظریف خان، مسعود احمد برکاتی، ڈاکٹر ظفر احمد خان، غلام حسین میمن،مشتا ق احمد قادری، رضوان بھٹی ، ببرک کارمل، خلیل جبار، محبوب الہی مخمور (مدیرماہ نامہ انوکھی کہانیاں،کراچی)،سید صفدر رضا رضوی، پروفیسر مجیب ظفر انوار حمید ی، یاسمین حفیظ ، عبدالرشید فاروقی، طاہر عمیر،حنیف سحر، ڈاکٹر طارق ریاض خان ، رانا محمد شاہد،ندیم اختر، صالحہ صدیقی، حکیم محمد سعید شہید، عبداللہ نظامی، آصف جاوید نقوی، احمد عدنان طارق، نذیر انبالوی، عبدالصمد مظفر پھول بھائی، رابعہ حسن، عبد اللہ ادیب، نور محمد جمالی، علی اکمل تصور، اختر عباس،افق دہلوی، شیخ فرید، ضرغام محمود، ارشد سلیم، غلام محی الدین ترک، رابنس سیموئل گل، حاجی محمد لطیف کھوکھر، امجد جاوید، رضیہ خاتم ، شابانہ جمال، عاطر شاہین، عمران یوسف زئی،خادم حسین مجاہد، ظہور الدین بٹ، ڈاکٹر عبدالرب بھٹی، شہریار بھروانہ،غلام رضا جعفری، نعیم ادیب، جاوید بسام، جدون ادیب، راحت عائشہ، علی عمران ممتاز، حافظ نعیم احمد سیال، شہباز اکبر الفت، مظہرمشتاق، محمود شام،محمد ناصر زیدی، نشید آفاقی، امان اللہ نیرشوکت، ساجد کمبوہ ،یاسین صدیق،خواجہ مظہر نواز صدیقی، نسیم حجازی، فرخ شہباز وڑائچ، محمد شعیب خان ،ظفر محمد خان ظفر اور محمد توصیف ملک کے حالات زندگی شائع ہو چکے ہیں۔
ہم جہیز کے خلاف بچپن سے جو کچھ سنتے، پڑھتے اور دیکھتے آرہے ہیں ان میں زیادہ تر جہیز لینے والوں پر غصہ، گالی گلوچ، نفرت، لعنت ملامت اور فتوے بازیوں کا اظہار ملتا ہے۔ سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہیز ایک ایسی سماجی برائی ہے جو نہ تو اچانک پیدا ہوئی ہے اور نہ اچانک ختم کی جاسکتی ہے، بلکہ اس کی جڑیں ہمارے سماج میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جہیز کا زہر ملک، قوم، تہذیب، مذہب،برادری، رسم ورواج اور تاریخ میں اتنا اندر تک پھیلا ہوا ہے کہ اس کو صرف تقریر اور لعنت و ملامت کرکے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
خوب یاد رکھیے کہ جہیز کا ناسور نہ تو قانون سے ختم ہوگا، نہ فتوؤں سے ختم ہوگا، نہ جلسوں سے ختم ہوگا،نہ کالموں اور اداریوں سے ختم ہوگا، نہ اشتہار اور نعروں سے ختم ہوگا اور نہ سماجی بائیکاٹ اور سخت اقدام سے ختم ہوگا۔ شاید آج تک یہ تحقیق کرنے کوشش پوری یکسوئی اور سنجیدگی کے ساتھ نہیں ہوسکی ہے کہ جہیز کی رسم شدت سے جڑ پکڑنے کے اسباب کیا ہیں؟جب تک مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہوگی، اس کی دوا کس طرح ممکن ہے؟
بات یہ ہے کہ جہیز کی وجہ سماجی بھی ہے، معاشی بھی ہے، نفسیاتی بھی ہے اور اخلاقی بھی۔ ذرا سوچیے کہ لڑکے کے والدین کیا کہتے ہیں؟ یہی نا کہ بیٹے کی تعلیم میں بہت خرچ کیا ہے؟پڑھاتے پڑھاتے ہماری کمر ٹوٹ گئی ہے۔اب آگے اس کو کھڑا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ یعنی اگر معاملے کی جڑ تک جائیں تو جہیز کا ایک اہم سبب تعلیم کا کمرشیلائزیشن بھی ہے۔
جہیز کے حوالے سے سماج کی سوچ کیا بنی ہوئی ہے؟جہیز کو سماجی حیثیت طے کرنے کا پیمانہ بنادیا گیا ہے۔ لڑکی والوں کی بھی ناک کا مسئلہ ہے کہ وہ کیا کیا دینے کی حیثیت رکھتے ہیں؟ سماجی ڈھانچہ ایسا ہے کہ لڑکیوں کا وراثت میں حصہ لینے پر سماج انھیں لعن طعن کرتا ہے۔ایسے میں جہیز کو ہی وراثت کا متبادل بنا دیا گیا ہے۔ آج معیارِ زندگی کا تصور کس طرح گاڑی، بنگلہ اور دیگر آلائشات و تعیشات سے وابستہ ہوگیا ہے؟ چناں چہ خوابوں کی یہ جنت جہیز میں ہی ممکن نظر آتی ہے۔ یہ تو بس مثال کے لیے چند اسباب کی طرف اشارے کیے گیے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ جہیز کے عام ہونے کے پیچھے بہت ہی الجھی ہوئی سماجی، معاشی اور نفسیاتی گتھیاں ہیں، جنھیں ٹھنڈے دل سے اور یکسوئی کے ساتھ سلجھانے کی ضرورت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جہیز کی غلاظت سے سماج کو صرف اور صرف ایک دردمندانہ، مخلصانہ،محبت آمیز اور قربانیوں سے لبریز اصلاحی تحریک کے ذریعے ہی پاک وصاف کیا جاسکتا ہے۔ایسی اصلاحی تحریک جو محض وقتی نہ ہو بلکہ بہت ٹھہراؤ کے ساتھ جاری رہے۔شاید تین چار دہائیاں درکار ہوں گی۔ اس وبا کے خاتمے کے لیے اچانک،مصنوعی اور ہنگامہ خیز آندولن کا نتیجہ صفر ہوگا۔بلکہ اس کے لیے دھیرے دھیرے صبر کے ساتھ، استقامت کے ساتھ، محبت و ہمدردی کے ساتھ مرحلہ وار اور مسلسل کوشش کرنی ہوگی اور جہیز کے تمام عوامل کو دریافت کرکے ایک ایسا سماجی ڈھانچہ بنانا ہوگا جہاں جہیز کا رجحان پنپنے کا امکان مسدود ہوجائے۔اس کی ایک شان دار مثال نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شراب بندی ہے۔
تیج پور:آسام اسمبلی انتخابات کے حوالے سے ریاست میں سیاسی گہما گہمی جاری ہے ۔ تمام پارٹیاں ریاست کے رائے دہندگان کواپنے حق میں کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ کانگریس کی طرف سے ریاست میں بی جے پی کی موجودہ حکومت کوکسی نہ کسی طرح اقتدارسے ہٹانے کے لیے مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔اس کے لیے کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکاگاندھی نے ایک چال چلی ہے ۔آسام کے تیج پور میں ایک ریلی کے دوران پرینکا گاندھی نے بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر ریاست میں کانگریس کی حکومت بنتی ہے تو ہم شہریت ترمیمی قانون کو نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہا کہ ہم ایک ایسا قانون بنائیں گے کہ سی اے اے یہاں لاگونہیں ہوگا۔ادھرپرینکا گاندھی نے بی جے پی حکومت کے وعدوں کی یاد دلاتے ہوئے کہاہے کہ موجودہ حکومت نے آپ سے جووعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے اور آپ کی شناخت پر حملہ کیا۔ پرینکاگاندھی نے بھی ریلی کے پلیٹ فارم سے بہت سے اہم وعدے کیے ہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ ہم وعدہ نہیں کر ر ہے ہیں بلکہ آپ کو گارنٹی دے رہے ہیں۔ یہ ضمانتیں آپ کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے ہیں۔ آسام کی گھریلو خواتین کے بارے میں بڑا اعلان کرتے ہوئے پرینکاگاندھی نے کہاہے کہ جب کانگریس کی حکومت آئے گی ، گھریلو خواتین کو گھریلو پیسہ کے طور پر ماہانہ 2000 روپے دیے جائیں گے۔
عائشہ خودکشی کیس میں نئے انکشافات:بیوی کے سامنے ہی عارف گرل فرینڈ سے بات کرتا تھا،سسرال سے پیسے منگواکر اس پر خرچ کرتا تھا
احمد آباد:23سالہ عائشہ عارف نے گزشتہ ہفتے احمد آباد کی سابر متی ندی میں چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی ، خودکشی سے قبل عائشہ نے ایک ہنستا ہوا ویڈیو بھی بنایا تھا ، لیکن اب عائشہ کے تبسم کے پیچھے چھپا درداور کڑھن وکیل کے توسط سے ظاہر ہورہا ہے۔ عائشہ کے وکیل ظفر پٹھان نے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 23سالہ عائشہ کی شادی عارف سے ہوئی تھی ، جو راجستھان کے جالور میں رہتا ہے۔ عارف کا راجستھان کی ایک لڑکی سے افیئر چل رہا تھا۔ عارف عائشہ کے سامنے ویڈیو کال پر گرل فرینڈ سے گفتگو کرتا تھا۔ وہ اپنی گرل فرینڈ پر پیسہ خرچ کرتا تھا اور اسی وجہ سے وہ عائشہ کے والد سے رقومات کا مطالبہ کرتا تھا۔وکیل نے کہا کہ عائشہ کی پریشانی شادی کے 2 ماہ بعد ہی شروع ہوگئی۔ ظفرپٹھان نے وضاحت کی کہ سابرمتی ریور فرنٹ پر عائشہ کی بنائی گئی ویڈیو نے لوگوں کو حیران کردیاہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عائشہ کی تکلیف اس کی شادی کے صرف 2 ماہ بعد شروع ہوگئی تھی۔ عارف نے خود عائشہ سے کہا تھا کہ وہ ایک اور لڑکی سے محبت کرتا ہے۔ اس کے باوجود عائشہ اپنے غریب والدین کی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے حالات سے مقابلہ کرتی رہی، وہ ہر لمحہ ایک نئی پریشانی سے گذرتی رہی ، لیکن خاموش رہی۔شوہر کا اپنی بیوی کے سامنے گرل فرینڈ سے بات کرنے سے بدترین عمل کیا ہوسکتا ہے ؟عائشہ کے وکیل نے بتایا کہ عائشہ ایک باصلاحیت لڑکی تھی، تعلیم کے علاوہ وہ امورخانہ داری میں ماہر تھی۔ بچپن سے ہی اس نے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو نبھایا ، اسی طرح اس نے اپنے سسرال والے گھر میں بھی کوشش کی۔ اس نے صورتحال کو اِس حد تک سنبھالنے کی کوشش کی کہ اس کے اہل خانہ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ شادی کے وقت عائشہ کے والد نے اپنی بیٹی کو اپنی صلاحیت کے مطابق سب کچھ دیاتھا، لیکن عائشہ کے شوہر اور سسرال والے اس سے مطمئن نہیں تھے۔ادھر یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ عارف ایک بار عائشہ کو احمد آباد چھوڑ آیا تھا، عائشہ اس وقت حاملہ تھی۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ عارف نے کہا تھا کہ اگر آپ مجھے ڈیڑھ لاکھ روپے دیں گے ،تو میں عائشہ کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ عائشہ حمل کے دوران عارف کے رویے سے ٹوٹ گئی تھی، وہ تناؤ میں رہنے لگی ۔ اسی وجہ سے مادرِ رحم سے خون بہنے لگا، ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی، لیکن جنین کو بچایا نہیں جاسکا۔ عائشہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود عارف اور اس کے اہل خانہ نے خبر نہیں لی۔ وہ مسلسل رقم کا مطالبہ کرتا رہا۔عائشہ کے والد لیاقت علی نے منگل کے روز بتایا کہ وہ عارف کے والد کو فون کرکے اس سارے معاملے سے آگاہ کرنا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے کبھی بھی میرا فون نہیں اٹھایا۔ میری عائشہ واپس نہیں آئے گی ، لیکن اس کے مجرم کو سزا ضرور ملنی چاہئے ، تاکہ کسی اور کی بیٹی کے ساتھ ایسا نہ ہو۔
ریلوے کی دل چسپ دلیل،بھیڑروکنے کے لیے پلیٹ فارم ٹکٹ کی شرح پانچ گنابڑھائی گئی
ممبئی:پٹرول ،ڈیزل اورگیس کی مارتوپڑہی رہی ہے،اس کانتیجہ یہ ہے کہ دیگرضروری اشیابھی مہنگی ہورہی ہیں۔کرائے کے بڑھنے کے سبب ہرچیزکے دام بڑھائے جارہے ہیں۔اب ریلوے نے پسنجرٹرینوں کے کرائے بڑھائے ہیں۔اس کے علاوہ دیگرٹرینوں کے ٹکٹ بھی مہنگے ہوئے ہیں۔اسی طرح ریلوے مارچ کی گرمی میں کہرے کابہانہ بناکراہم ٹرینوں کی سروس کم کررہاہے۔اب سنٹرل ریلوے نے کوویڈ۔19 کی وبا پر گرمیوں کے موسم میں پلیٹ فارم پر زیادہ ہجوم سے بچنے کے بہانے ممبئی میٹرو پولیٹن ریجن (ایم ایم آر) کے کچھ اہم اسٹیشنوں پر پلیٹ فارم ٹکٹ کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ ایک اہلکار نے یہ اطلاع دی ہے۔جب کہ انتخابی ریلیوں میں لاکھوں کی بھیڑروکنے کے لیے ایسے انتظامات نہیں ہیں۔کیرل،بنگال،آسام،بہار،تمل ناڈومیں اس کانظارہ دیکھاگیاہے کہ کس طرح بی جے پی لیڈروں کی ریلیوں میں بھیڑجمع ہے ۔عوام کاسوال ہے کہ کیاکوویڈوہاں نہیں ہے،لیکن کوویڈکابہانہ بناکرہرطرف سے مہنگائی بڑھائی جارہی ہے۔ سنٹرل ریلوے (سی آر) کے چیف پبلک ریلیشن آفیسر شیواجی ستار نے بتایاہے کہ پلیٹ فارم ٹکٹ ممبئی اور اس کے آس پاس کے تھانہ ، کلیان ، پنول اور بھونڈی میں چھترپتی شیواجی مہاراج ٹرمینس ، دادر اور لوکمانیا تلک ٹرمینس پر 10 روپے کے بجائے 50 روپے میں دستیاب ہوگا۔ انھوں نے بتایاہے کہ نئی شرح یکم مارچ سے نافذ العمل ہے اور وہ رواں سال 15 جون تک لاگورہے گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ موسم گرما کے سفر کے دوران بھیڑ سے بچنے کے لیے یہ قدم اٹھانے کافیصلہ کیاگیاہے۔
ایک مخصوص واقعہ؛ بلکہ سانحہ پیش آنے کے بعد سے جہیز کے خلاف لکھنے والے قلمکاروں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے، واٹس ایپ کھولیں یا فیس بک، ہر جگہ جہیز اور جہیز لینے والے مردوں کے خلاف ایک محاذ کھول دیا گیا ہے، ان تحریروں کی وجہ سے تو جہیز لینے والے مرد حضرات ہی نہ کہیں خود کشی پر آمادہ ہوجائیں ـ کسی نے لکھا کہ ائمہ حضرات جہیز لینے والے لوگوں کو مسجد میں جمعہ کے خطبہ میں نام بنام ذلیل کریں (جیسے یہ عمر فاروق کے مقرر کیے ہوے امام ہوں) کسی نے لکھا کہ "رسم جہیز” کو سب سے زیادہ فروغ دینے والے یہ مولوی اور مفتی حضرات ہیں جو پوری تقریر یا تحریر کے بعد "لیکن/البتہ” لگا کر چور دروازہ فراہم کردیتے ہیں اور عوام کو جہیز کا جواز مل جاتا ہےـ اس لیے اس رسم بد کے سب سے بڑے مجرم "علما” ہی ہیں (ویسے تو معاشرے کی تمام تر برائیوں اور کمی کوتاہیوں کا ٹھیکرا ان علما ہی کے سر پھوڑا جاتا ہے؛ چوں کہ یہ بیچارے بڑی آسانی سے اپنا سر پیش بھی کردیتے ہیں) کسی نے لکھا کہ جہیز لینے والوں کا سماجی بائیکاٹ کردینا چاہیے تو کسی نے لکھا کہ جہیز لینے والوں کو رمضان میں زکاۃ بھی لینی چاہیےـ الغرض بھانت بھانت کے مشورے اور رسم جہیز کے فروغ کی وجوہات سامنے آئیں؛ لیکن ہر معاملے کی طرح اس معاملے کو بھی ایک ہی رخ سے دیکھا گیا، جب کہ ہر سکے کے دو رخ اور معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں، جب کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو ہم ایک رخ پر اتنا فوکس کرتے ہیں کہ دوسرا پہلو بالکل نظرانداز ہوجاتا ہے، اس لیے معاملہ کا دوسرا رخ دکھانے کے لیے ہم نے بھی قلم گھسیٹنا ضروری سمجھاـ
اپنا جسم فروخت کرنے والی عورت کے لیے استعمال ہونے والے کئی الفاظ آپ کے ذہن میں ہوں گے”جسم فروش، عصمت فروش، پیشہ ور، طوائف، دھندے والی” اور بازاری زبان میں "رنڈی اور ہیرامنڈی والی”ـ اس کے علاوہ بھی کئی نام آپ کے ذہن میں ہوں گے؛ لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ان "جسم فروشوں” سے جسم خریدتا کون ہے؟ جسم کے ان خریداروں کا بھی کوئی نام آپ کے ذہن میں ہے؟ نہیں نا!
اس لیے کہ اب تک ہم نے سکے کا صرف ایک پہلو دیکھا، معاشرے میں "اس مخصوص برائی” کا پورا ذمے دار ان خواتین کو قرار دے دیا اور اس پیشے/ پیشہ ور خواتین کو ختم کرنے پر پورا فوکس دیا کہ اس طرح یہ برائی ختم ہوجائے گی؛ لیکن کیا ہوا؟
پاکستان میں ایک بدنام زمانہ مارکیٹ ہیرا منڈی ہے، جہاں کسی زمانے میں اتنے بڑے پیمانے پر عصمت فروشی کا کاروبار ہوتا تھا کہ پاکستان میں اب ہیرا منڈی ایک گالی بن چکی ہے، کچھ سماجی ورکرز کی محنت اور کچھ حکومتی توجہات کی وجہ سے (بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق) یہاں اب یہ کاروبار بالکل ختم ہوچکا ہے یا نہ کے برابر ہے؛ لیکن کیا یہ برائی بھی ختم ہوچکی ہے؟
نہیں بلکہ اب یہ اور بھی بڑے پیمانے پر پھیل چکی ہے، زنا اب کے مقابلے میں پہلے دس فیصد بھی نہیں ہوا کرتا تھا، معذرت کے ساتھ لکھ دوں کہ اب تو ہوٹلز، پارکس، بیچز (سواحل) یہاں وہاں سب جگہ ہیرا منڈی بن چکی ہے؛ کیوں کہ ہم نے صرف ایک پہلو پر توجہ دی اور دوسرے کو یکسر نظر انداز کردیاـ
اس تمہید طولانی کے بعد عرض ہے کہ جہیز لینا یقینا ایک بڑا جرم ہے اور جہیز لینے والے بڑے مجرم ہیں؛ لیکن آخر جہیز دیتا کون ہے اور کیوں دیتا ہے؟ اس طرف بھی توجہ ڈالیےـ
آپ کہیں گے جہیز دینا لڑکی والے کی مجبوری ہے، اس کے بغیر ان کی بیٹی کی شادی نہیں ہوپاتی ـ میں کہتا ہوں آپ بالکل غلط ہیں ـ جہیز کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ضرور ہے؛ لیکن سوفیصد یہی وجہ بالکل بھی نہیں ہےـ
اس زمانے میں جہیز دینا مجبوری کم اور فیشن، فخر، شان، اپنی تعلی، دکھاوا اور سماج میں اپنی ناک کا مسئلہ زیادہ ہے، بیٹی والے صرف مطالبہ پر ہی جہیز نہیں دیتے؛ بلکہ اس لیے بھی جہیز دیتے ہیں کہ میری ناک کا مسئلہ ہے، فلاں نے اپنی بیٹی کو اتنا جہیز دیا تھا، ہم اس سے دوگنا دیں گےـ
میں نے اپنے خاندان اور علاقہ وتعلقات میں دیکھا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا کیس ہو جس میں جہیز کی تفصیلی فرمائش کی گئی ہو؛ لیکن اس کے باوجود اپنی ناک اور انا کی خاطر اپنی پشتینی زمینوں کو بھی بیچ کر اچھا سے اچھا جہیز مہیا کیا گیاـ سامان جہیز پہلے مجمع عام میں رکھ کر شریک دعوت لوگوں میں نمائش کی جاتی ہے اور "فہرست جہیز” جاری کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں خوب واہ واہی بٹور سکےـ
میرے کئی دوستوں کے واقعات ایسے بھی ہیں کہ انھوں نے بڑی سختی سے منع کیا کہ ہمیں جہیز نہیں چاہیے، ہم سے جو بن پڑے گا ہم خود انتظام کرلیں گے؛ لیکن لڑکی والے نہیں مانے اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اگر آپ جہیز نہیں لیتے ہیں تو شادی کا معاملہ ختم ہوجائے گا؛ چناں چہ اسے مجبوری میں جہیز محض اس لیے لینا پڑا کہ وہ اپنے پسند کی لڑکی کو کھونا نہیں چاہتے تھےـ
میرے ایک سینیر دوست جو عالم دین اور قدرے متقشف مزاج بھی تھے انھیں ایک جگہ لگے لگائے رشتے سے صرف اس لیے ہاتھ دھونا پڑا کہ وہ سامان جہیز نہ لینے پر بضد تھےـ
شادی کے روز مجمع عام میں لڑکی والے لاکھوں کا سامان پوری رضا ورغبت اور خوشی سے دیتے ہیں، اگر آپ منع کیجیے تو سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ ہم تو اپنی خوشی سے دے رہے ہیں (اس لیے بیچارے مفتی بھی اسے جائز کہنے اور لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں؛ چوں کہ دل کی اصلیت جاننے کا ان کے پاس کوئی تھرمامیٹر نہیں ہے) لیکن ایک ہفتہ بعد ہی اگر آپ کو یا اہلیہ کو کوئی ایمرجنسی پیش آگئی اور سسرال والوں سے پانچ دس ہزار روپے بھی لینے پڑے تو وہ واجب الاعادہ قرض ہوتا ہے، اب ساری خوشیاں کافور ہوچکی ہوتی ہیں؛ چوں کہ اب وہ مجمع نہیں ہے جس میں یہ واہ واہی لوٹ سکیں گے، دس لوگ یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ "فلاں صاحب نے اپنی بیٹی کو بہت دیا”ـ
جہیز کی ایک دوسری وجہ حکم نبوی "فاظفر بذات الدين” (کہ دین داری کی وجہ سے پسند کرو) کو ہم نے چھوڑ دیا، یعنی شادی کے لیے لڑکا کی تلاش کے وقت اس کے اخلاق وکردار، اس کی دینی حالت اور اس کے خاندانی تربیت کو مکمل نظر انداز کرکے صرف اور صرف اس کی مالی حالت دیکھی جاتی ہے اور اس کے پختہ مکان چیک کیا جاتا ہےـ اگر لڑکے کی سیلری اچھی ہے پھر وہ بدمعاش ہو یا اوباش، رشوت خور ہو یا شرابی اس کی تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے؛ چناں چہ شادی سے پہلے ہی وہ تلک کی رقم/ گاڑی/ جہیز کی فرمائش کرکے اپنے بدقماش وبداخلاق اور نیچ ہونے کا ثبوت دے چکا ہوتا ہے، اس کے مقابل ایک دوسرا لڑکا جو صحیح اخلاق وکردار کا مالک ہو، دین دار؛ بلکہ کسی بڑے دارے کا فاضل مولوی بھی ہو؛ لیکن سیلری اس سے کم ہو تو اسی شخص کا انتخاب کرتے ہیں جس کی سیلری زیادہ ہو گوکہ وہ تلک اور جہیز کا مطالبہ کر رہا ہوـ
میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو آٹھ دس ہزار کی سیلری پر کام کر رہے ہیں یا ان کے پاس پختہ مکان نہیں ہے، انھیں تمام تر تلاش کے باوجود مناسب رشتہ نہیں مل پارہا ہےـ
میں یہ بالکل نہیں کہتا کہ آپ لڑکے کی مالی حالت نہیں دیکھیے، یقینا یہ قابل توجہ چیز ضرور ہے؛ لیکن قابل ترجیح نہیں ہےـ آپ اپنے ارد گرد اور اطراف میں روز دیکھتے ہوں گے کہ معمولی تنخواہ پانے والا یا محنت مزدوری کرنے والا اپنی بیوی کو ہر سال تاج محل دکھانے نہیں لے جاتا، گوا اور پیرس کی سیر نہیں کراتا؛ لیکن وہ اپنی بیوی کو لاکھوں کمانے والوں سے زیادہ خوش رکھتا ہےـ بیٹی کے "خوش رہنے” کو پورے طور پر مادیت سے جوڑدینا جہیز کے بڑے اسباب میں سے ایک ہےـ
جہیز کے فروغ کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب بیٹیوں کو چاہے ان چاہے وراثت سے محروم کرنا بھی ہے، اپنی خود کی بیٹی کو پانچ لاکھ کا جہیز تو دے دیتے ہیں؛ لیکن اپنی بہن کو ڈھائی لاکھ کی وراثت کی زمین نہیں دے سکتے؛ چوں کہ خود اس نے اپنی بہن کا حق دبا رکھا ہے، اس لیے کہیں نہ کہیں اس کی چھٹی حس میں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ جو دینا ہے ابھی دے دو، بعد میں میرے بیٹے انھیں کچھ نہیں دیں گے، اس لیے جہیز کے خاتمہ کے لیے لڑکیوں کی وراثت کو فروغ دیا جانا چاہیےـ
بہرحال! جہیز کے مجرم صرف لینے والے نہیں ہیں؛ بلکہ اسے فروغ دینے میں جہیز دینے والوں کا بھی بڑا ہاتھ ہےـ
اولا لڑکے کے انتخاب میں مادیت کو اولی درجہ دینے کے بجائے دین داری، اخلاق وکردار اور خاندانی تربیت کو اولی درجہ دے، جہیز کو اپنی شان اور دکھاوے کا مسئلہ بنانے کے بجائے ضرورت کی چیز سمجھے کہ اگر لڑکا دین دار؛ مگر مالی اعتبار سے کمزور ہے تو کچھ دیدے تاکہ بسہولت اپنی نئی زندگی کا آغاز کرسکے اور لڑکیوں کی وراثت کو یقینی بنائے اور سب سے پہلے اپنی بہنوں کا حصہ ان کے حوالے کردیں تو جہیز کے معاملات یقینا کم سے کم تر ہوجائیں گےـ میرے مشاہدہ وتجربہ میں اب بھی ڈیمانڈ کرکے جہیز لینے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے؛ البتہ بغیر مطالبہ کے زبردستی اپنی شان اور انا کے لیے جہیز تھوپنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں جہیز کی وجہ سے خواتین کی خود کشی یا قتل کے واقعات دیگر مذاہب کے مقابلے میں بہت کم ہیں ـ
ایک بافیض والد اور دوست (پروفیسر باراں فاروقی اپنے والد شمس الرحمن فاروقی کے آخری دنوں کو یاد کرتی ہیں)
ترجمہ:نایاب حسن
اور جب میں پا بہ رکاب ہونے لگوں تو جدائی کا کوئی غم نہ ہو !
-الفریڈ لارڈ ٹینی سن
’’یہ میری آخری بیماری ہے‘‘۔ابا نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔وہ شیوالک ،مالویہ نگر(دہلی) کی ہومیو پیتھ ڈاکٹر نندنی شرما سے مخاطب تھے،جو ہم سب سے مانوس ومعتمد تھیں۔اس شام ہم ابا کو ان کی خواہش پر وہاں لے گئے تھے،وہ چاہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحبہ سے ویڈیو کال کی بجاے براہِ راست ملاقات کی جائے اور کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد فورٹس اسکورٹ ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے دوران ان کی آنکھ کے آس پاس ہونے والے فنگل انفیکشن کے ٹھیک ہونے کے امکانات کے بارے میں دریافت کیا جائے۔ ہم میں سے کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کی وفات اور نہایت اطمینان و تیاری کے ساتھ ’’اپنے پائلٹ(خدا) سے بالمشافہہ ملاقات‘‘ سے چند دن پہلے کا واقعہ ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر نندنی نے انھیں یقین دہانی کروائی کہ ابھی تو وہ بہت دن زندہ رہیں گے اور مزید کارنامے انجام دیں گے،انھیں یقین تھا کہ ان کی دوائیں اس انفیکشن کو ٹھیک کر دیں گی۔ یہ بات چیت ان کی راہ داری میں ہوئی تھی؛ کیوں کہ ہسپتال سے واپسی کے بعد ابا چلنے کی پوزیشن میں نہیں تھے،اس وجہ سے یہ طے کیا گیا تھا کہ ان کی کلینک میں جانے کی بجاے کار کے پاس ہی وہیل چیئر پر بیٹھے رہیں گے اور ڈاکٹر صاحبہ ان کا چیک اپ کریں گی۔ ہم لوگ تو ڈاکٹر نندنی کے یہاں سے مطمئن اور خوش ہوکر لوٹے،مگر اس بار ڈاکٹر نندنی سے زیادہ ابا کو اپنے بارے میں معلوم تھا۔انھیں جو بھی کہاجاتا اس کا پوری خوش دلی سے جواب دیتے؛چنانچہ وہ ہمارے لطیفوں پر اپنی کمزور آواز میں ہنستے اور میں یا میری بہن یا میری بیٹی جب بھی ان کے کمرے میں داخل ہوتی تو وہ گلے لگانے کے لیے اپنا ہاتھ یا بانہیں پھیلادیتے۔ اگر وہ برقی بستر پر تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوتے(ہم نے راحت رسانی کے لیے ان کے آس پاس آدھا درجن تکیے رکھ دیے تھے) تو میرے ہاتھ کو بوسہ دیتے اور نرمی سے میرا سر سہلاتے۔ آخری دنوں میں،خصوصا جب وہ ہسپتال سے بذریعہ موبائل صوتی پیغام بھیجنے لگے تھے،تو اکثر اپنی شفقت و محبت کا اظہار کرتے۔ ویسے ہمیں ان کی شفقت و محبت کے بارے میں کبھی کوئی اندیشہ نہیں رہا ؛کیوں کہ ابا اظہارِ جذبات و احساسات کے معاملے میں بڑے فیاض تھے۔ وہ ایک بے تکلف انسان تھے،انھوں نے مجھے سکھایا کہ اگر کبھی میرے والدین کچھ دیں یا گھر کے خدام یا دوست کوئی کام کردیں یا کسی قسم کی مدد کردیں تو ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ آفس سے واپسی پر سلام نہ کرنے یا خوشگوار انداز میں گھر میں استقبال نہ کرنے پرایک بار میں نے انھیں والدہ کی تنبیہ کرتے ہوئے سنا تھا۔ وہ ہمیشہ شگفتہ چہرے کے ساتھ ، ہنستے مسکراتے ہوئے آفس سے گھر لوٹتے اور گھر کے لوگوں سے بھی یہی توقع رکھتے کہ وہ آنے والے کا پرتپاک استقبال کریں۔ ہم میں سے کوئی جب بھی ان کے کمرے میں داخل ہوتا تو وہ حد درجہ مسرت آمیز لہجے میں کہتے’’آئیے آئیے‘‘۔ وہ مجھے کبھی کبھی ’’مزاحیہ چہرے والی ‘‘ کہا کرتے تھے،ان کی یہ بات مجھے بہت اچھی نہیں لگتی تھی ،مگر ایسا ظاہر کرتی تھی کہ میرے اندر حسِ مزاح پائی جاتی ہے اور میں معمولی باتوں پر بددل نہیں ہوتی۔ آخر کار ایک دن میں نے ان سے پوچھ ہی لیا ’’آپ مجھے مزاحیہ چہرے والی کیوں کہتے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا کہ مضحکہ خیز یا مزاحیہ چہرے والا ایسے انسان کو بھی کہاجاتا ہے جو خود بھی ہشاش بشاش اور مسرور رہتا ہے اور جس سے مل کر دوسرے لوگ بھی خوش ہوتے ہیں۔ ایک بار تو میں نے انھیں اپنے سوالات کے کالمز بھرنے پر مجبور کردیا تھا،جن میں اس قسم کے سوالات تھے کہ آپ کا بہترین دوست کون ہے؟ آپ کا پسندیدہ رنگ کونسا ہے؟آپ کن چیزوں سے ڈرتے ہیں؟ وغیرہ(ان دنوں میری اسکول کی ہمجولیوں کا پسندیدہ شغل یہی ہوتا تھا کہ اپنے آٹوگراف بک میں بے وجہ لوگوں سے آٹو گراف لو اور ان سے اسی قسم کے سوالیہ کالمز پر کرواؤ ،جو عموماً رجسٹر کے دوصفحات پر مشتمل ہوتے تھے) مجھے اس دن کے ان کے سارے جوابات یاد ہیں،مگر میں صرف چند ایک کے بارے میں بات کروں گی۔ میں نے ایک سوال کیا کہ ’’اگر آپ کے پاس جادو کی چھڑی ہو تو مجھے کیا بنانا چاہیں گے؟‘‘تو انھوں نے جواب دیا’’ملکۂ سبا‘‘۔ میں فوراً سمجھ گئی کہ یہ کوئی عظیم ،منور اُلوہی ہستی وغیرہ ہوگی،اس وقت مجھے فی الحقیقت ملکۂ سبا کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ اس سوال کے جواب میں کہ’’آپ کو کس چیز سے ڈر لگتا ہے؟‘‘انھوں نے جواب دیا’’کن کھجورے‘‘۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح ہی ایک انسان ہیں اور ان کے اندر بھی عام انسانی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔
میری تحریر طویل ہوگئی۔میں ان کی بیماری اور آخری دنوں میں ان کے طرزِ عمل کے بارے میں بات کررہی تھی۔اپنا ہاتھ باہر نکال کر مجھے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے ایک دن انھوں نے مجھ سے کہا کہ ان کا آخری وقت قریب آگیا ہے اور اب انھیں رخصت ہونے کی اجازت دی جائے۔ ہم انھیں بچانے کی جو جی توڑ کوشش کررہے تھے، وہ بے فائدہ تھی اور اب وہ اس دنیا سے رختِ سفر باندھنے کو آمادہ تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ انھیں ان کے وسیع و عریض مکان میں پہنچا دیا جائے، جہاں ان کا پیارا پالتو کتا ’’بھولی‘‘ اور دوسرے لوگ تھے اور وہ زندگی کی آخری سانس لینے سے پہلے اپنی کھڑکی سے پرندوں کی چہچہاہٹ سننا چاہتے تھے۔ایک رات جبکہ ابھی ان پر کمزوری کی وجہ سے بے ہوشی طاری نہیں ہوئی تھی،میں ان کے پاس بیٹھی انھیں مختلف لوگوں کی طرف سے موصول ہونے والے واٹس ایپ میسجز اور صوتی پیغام سنا رہی تھی۔ وہ روزانہ ایک دو صوتی پیغام یا ای میل کا جواب دیا کرتے۔ صوتی پیغام تو خود بول کر بھجوایا کرتے اور تحریری میسج یا ای میل املا کرواتے۔ ایک دن انھوں نے مجھ سے سی ایم نعیم صاحب(پروفیسر ایمریٹس شکاگو یونیورسٹی) اور فرانسس پریچٹ(پروفیسر ایمریٹس کولمبیا یونیورسٹی) کوای میل لکھوایا، انھیں اپنی صحت سے متعلق خبر دینا چاہتے تھے۔ ایک وائس نوٹ انھوں نے امین اختر(ہمارے ایک رشتے دار جو سالوں سے ان کے لائبریری؍آفس اسسٹنٹ تھے اور مختلف قسم کے خانگی معاملات بھی ان سےمتعلق تھے) کو مقامی قبرستان کے تعلق سے بھجوایا،اس قبرستان کی تعمیرِ نو ریٹائرمنٹ اور الہ آباد واپسی کے بعد ابا کی کوششوں سے ہی ہوئی تھی۔انھوں نے امین اختر سے کہا کہ میری والدہ کی قبر پر جائیں اور انھیں ان کا سلام پیش کریں۔ یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا ان کی قبر کے سامنے مجھے جگہ مل سکتی ہے؟ساتھ ہی انھیں یہ بھی یاد دلایا کہ اگر کوئی معترض ہوا، تو اس صورت میں دوسری پسند کے طورپر انھوں نے اپنے لیے قبرستان کے ایک دوسرے گوشے کا انتخاب کر رکھا ہے۔ امین اختر نے اگلے دن غمزدہ لہجے میں جواب دیا کہ انھوں نے ان کے حکم کی تعمیل کردی ہے،ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ان کی اہلیہ کی قبر کے سامنے ان کی تدفین پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اپنی قبر پر لکھی جانے والی آیت وہ کئی سال قبل ہی امین اختر کو لکھ کر دے چکے تھے۔ اس ساری گفتگو کو سنتے ہوئے میرا دل ڈوب رہا تھا،مگر مجھے معلوم تھا کہ یہ سب ہونا ہے ،اس سے پہلے ہی ہر کام مکمل ہوجانا چاہیے کیوں کہ جب دمِ واپسیں آئے گا،تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ مجھے تو حیرت تھی کہ فاروقی(عام طورپر وہ اپنا نام ایسے ہی لیا کرتے تھے؛بلکہ کبھی کبھی تو خود کو’’سالا فاروقی‘‘ یا ’’فراڈی‘‘بھی کہا کرتے تھے) نے کس صبر و تحمل کے ساتھ اپنی بیماری کو جھیلا۔ اس حالت میں بھی وہ ہم لوگوں کے تئیں نہایت مہربان اور متحمل تھے، ہم جب بھی ان سے کچھ کھانے یا پینے کی گزارش کرتے تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ہماری بات مان لیتے۔
جب بھی ہم ان کے ساتھ الہ آباد جانے کا منصوبہ بناتے اور سفر کے لیے میں یا میری ہمشیرہ ہفتہ یا دوہفتے بعد کی کوئی تاریخ بتاتی،تو وہ تحمل کے ساتھ اثبات میں اپنا سر ہلاتے اور ہماری رائے سے اتفاق کرتے۔ جب امی کا انتقال ہوا تھا،تو ان کی متروکہ تمام پراپرٹی یا روپیہ بڑی احتیاط کے ساتھ انھوں نے یہ کہتے ہوئے ہمارے مابین تقسیم کردیا کہ یہ ساری چیزیں تم دونوں کی ہیں؛کیوں کہ وہ تمھاری ماں تھی۔ ہمارا خیال رکھنے یا تحائف سے نوازنے یا وسیع و عریض مکان کے تحفظ اور دیکھ بھال کے معاملوں میں ان کا رویہ ایک پرفیکٹ باپ کا ہوتا تھا۔ انھوں نے کبھی بھی ہم لوگوں پر کسی قسم کا مالی بوجھ نہیں ڈالا، چاہے امی کی متروکہ پراپرٹی کے ٹیکس کی ادائیگی ہو یا دوسرے فلاحی کام جو وہ اپنے آبائی وطن میں کیا کرتی تھیں۔ وہ تمام انسانوں کے تئیں فطری طورپر بڑے بے لوث اور فیاض طبیعت واقع ہوئے تھے،انھوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ انھوں نے پوری زندگی(خصوصاً سول سروس کی ملازمت کا دَور) اس مقصد کے ساتھ بسر کی ہے کہ ضرورت مند انسانوں کی مدد کریں۔ میں نے ان کے جیساانسان اپنی زندگی میں اب تک نہ دیکھا اور نہ ایسی امید ہے،جو نیک دل ہونے کے ساتھ قابل ترین اور صدی کے عظیم ترین ادبی اَذہان میں سے ایک تھا۔ ابا کو نئی چیزوں کی دریافت و اکتشاف کا شوق تھا اور بچوں کی خواہش کے احترام میں وہ بھی نئے نئے اسفار اور تجربوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہم انھیں ہر نیا لطیفہ سناتے،کوئی نئی مشین یا الیکٹرانک سامان آتا تو وہ اس کے بارے میں جاننے کے مشتاق ہوتے،کسی دلچسپ سفر کا پلان بنتا تو وہ بھی اس کا حصہ بننا چاہتے۔ فی الحقیقت میری اور میری بیٹیوں کی زندگی کے زیادہ تر خوب صورت اسفار کی پلاننگ یا تو خود انھوں نے کی یا انہی کے لیے کی گئی ۔ پچھلے موسمِ سرما میں ہی ہم لوگ ایک ساتھ کوچی گئے تھے کہ کیرالہ کے دوردراز علاقوں کی سیر کریں اور شمالی ہندوستان کی سخت سردی سے بچنے کے لیے کچھ عرصہ وہاں گزاریں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ سردی سے گھبرانے لگے تھے؛کیوں کہ اس موسم میں انھیں اپنے کمرے میں بند رہنا پڑتا تھا اور ان کے مطالعے کے اوقات بھی کم ہوجاتے تھے۔ موسمِ سرما میں ان کے کمرے،دارالمطالعہ حتی کہ باتھ روم کو بھی گرم رکھنے کا اہتمام کیا جاتا تھا،مگر پھر بھی انھیں سردی لگتی تھی کیوں کہ وہ اِنر یا موٹے،بھاری بھرکم گرم کپڑے نہیں پہنتے تھے۔
نئے مقامات کے سفر اور قدرتی حسن و جمال و تاریخی اہمیت کی حامل جگہوں میں دلچسپی کے ساتھ انھیں اچھے کپڑوں اور کھانوں کا بھی شوق تھا(کھاتے تو کم تھے،البتہ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ دسترخوان پر کھانے کی مقدار زیادہ ہو)۔ ویسے عام سماجی تصور کے مطابق ان کے ذہن میں بھی یہ چھوٹی سی چیز گھر کیے ہوئی تھی کہ فلاں فلاں پکوان ’’مردانہ‘‘ ہیں اور فلاں چیزیں صرف خواتین ہی کھاتی ہیں،اس کا نتیجہ تھا کہ میں نے انھیں کبھی تھوڑی سی بھی کھٹی چیز کھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ کسی بھی قسم کے اچار،چٹنی یا چاٹ وغیرہ کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ حتی کہ قدرے ناپسندیدہ بو والی سبزیوں پر بھی ہمارے گھر میں پابندی تھی، گھر میں بنائے جانے والے سرکے یا بالائی سے نکالے جانے والے گھی کے بارے میں بات تک کرنے کی اجازت نہیں تھی۔گھر کے صحن میں ایک بار مولی کا اچار نظر آگیا تو انھوں نے والدہ کو ڈانٹ پلادی،ان کے نزدیک یہ اچار مولی کی سبزی سے بھی زیادہ ناپسندیدہ تھا۔ دوسری بیویوں کی طرح میری والدہ بھی اس قسم کی چیزیں گھر میں چھپاکر رکھتی تھیں اور جب وہ آفس میں ہوتے اس دوران کھایا کرتیں۔
ابا کو جانوروں سے بھی بہت محبت تھی۔ بچپن میں ہمارے آس پاس جانوروں کا وجود سانس لینے جیسا طبعی تھا یہی وجہ ہے کہ ہمارے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ دنیا کی نگاہوں میں ہم لوگ ’’حیوان دوستی‘‘ کے مروّجہ معیار پر کھرے اترتے ہیں۔ ہمیشہ ہمارے آس پاس کتے ، بلی ، کچھوے، چڑیا، مور کے بچے یا بڑے مور ، کبوتر ، تیتر ، بٹیر ،گوریا اور دوسرے چہچہانے والے پرندے رہے۔ ابا اکثر اپنے پالتو جانوروں کو کھانے پینے کی چیزیں بھجواتے(میں نے بھجوانے کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ ہمارا گھر واقعی بہت وسیع و عریض تھا اور چیزیں باقاعدہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھجوانی پڑتی تھیں) ساتھ ہی لے جانے والے شخص سے کہتے کہ انھیں میرا سلام کہنا اور کہنا کہ فاروقی صاحب نے بھجوایا ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہوگیا تھا کہ کن پرندوں کو سدھاکر رکھا جاسکتا ہے اور کن کو پنجرے میں بند کرکے رکھنا ہے۔ ان کے پاس جانوروں اور پرندوں کے بارے میں کافی ٹیبل ٹائپ کی کتابوں کا بھی مجموعہ تھا،میرے بچپن کے کچھ دلچسپ اوقات ان کتابوں کو الٹتے پلٹتے بھی گزرے ہیں۔ سمندری مخلوقات مثلاً اسٹار فش،آکٹوپس اور ڈولفن نے مجھے بے حد مسحور کیا اور مجھے بڑے بڑے سمندروں کی تصویریں بہت اچھی لگتی تھیں۔ میری خواہش تھی کہ کسی ساحلی شہر کا سفر کروں مگر اس کی تکمیل میں اس وجہ سے تاخیر ہوتی رہی کہ اس قسم کے شہر مثلاً ممبئی یا کولکاتا میرے والدین پہلے ہی کئی بار جا چکے تھے اور ان کی زیادہ تر توجہ پہاڑی علاقوں یا جانوروں اور پرندوں والے مقامات پر ہوتی تھی۔
ابا کی عادت تھی کہ وہ صبح کے وقت تین چار بیڈ ٹی کے ساتھ میوزیکل ریکارڈز،غزلیں یا کلاسکل راگ سنا کرتے۔ خوب صورت ٹی پاٹ میں بنائی جانے والی چائے قدرے تلخ ہوتی ،ابا اخبار پڑھتے رہتے اور اس دوران چائے دھیرے دھیرے ٹھنڈی ہوجاتی۔ ناشتے کے لیے تیار ہونے تک غزل یا راگ سننے کا سلسلہ جاری رہتا۔ آہستہ آہستہ میرے اندر بھی فریدہ خانم،اقبال بانو،مہدی حسن،کشوری آمونکر اور دیگر فنکار مثلاً ہری پرساد چورسیا،استاد بسم اللہ خان وغیرہ کو سننے کا ذوق نموپذیر ہوگیا۔ میں اور میری بہن بالکل نوعمری سے ہی اپنے والدین کے ساتھ پابندی سے مشاعروں اور سمیناروں میں بھی شریک ہوتی رہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ میں بڑی ہوتی گئی اور بچپن میں مجھے اردو کے کئی بڑے ادیبوں،شاعروں اور تخلیق کاروں کی گود میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ خصوصاً نیر چچا(نیر مسعود)،شمیم چچا(شمیم حنفی)،شہریارچچا اور بلراج انکل سے میں بہت مانوس ہوگئی تھی۔ تنقید نگار اور شاعر خلیل الرحمن اعظمی ایک ایسے شخص تھے، جن کے بارے میں مجھے زیادہ یاد نہیں، مگر اتنا یاد ہے کہ ابا کو ان کے انتقال کا بہت رنج ہوا تھا اور وہ بار بار اس کا اظہار کرتے تھے، جس پر انھیں امی کی جھڑکیاں بھی سننی پڑی تھیں۔
ابا ایک جادوگر تھے، جنھوں نے ہمیں دنیا کے بہت سے عجائب سے متعارف کروایا،زندگی اور معاملاتِ زندگی کے بارے میں ہر بات سکھائی اور مجھے اپنی غیر معمولی شخصیت کی اسیر بنالیا۔ میں ان کے علم،ان کی سنجیدگی ووقار،خود اعتمادی اور جس طرح کندھوں کے بل اطمینان سے بیٹھ کر پیارے انداز میں وہ باتیں کرتے تھے اس سے متحیر رہتی تھی۔ان کی زندگی نرمی و گرمی کا نمونہ تھی۔ایک بار ہم اپنے معمول کے مطابق موسم گرما کی چھٹیاں گزارنے یوپی و ہماچل پردیش کی سیاحت کے لیے نکلے،اس دوران ایک ایسا حادثہ ہوا کہ باقی کی پوری زندگی ایسے حادثے سے سابقہ نہیں پڑا ۔ سڑک جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی اور بند تھی تو ابا نے فیصلہ کیا کہ دوسرے راستے سے چلنا چاہیے جو مین روڈ کی نچلی طرف، کھیت کے کنارے سے نکلتا تھا ۔ اس راستے میں پانی بھرا ہوا تھا، مگر انھیں اندازہ تھا کہ ہماری ایمبیسڈر کار آسانی سے اسے عبور کرلے گی؛لیکن بدقسمتی سے ہماری گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی اور اس میں تیزی سے پانی گھسنے لگا،ایسا لگ رہا تھا کہ کار پانی میں تیر رہی ہے،میں مارے گھبراہٹ کے چلانے لگی’’ہم ڈوب جائیں گے،ہم ڈوب جائیں گے‘‘۔ اس کے جواب میں مجھے ابا سے نہایت سخت اور غیر متوقع ڈانٹ سننی پڑی،انھوں نے کہا’’ابے تو اپنے لیے رو رہی ہے صرف!اور باقی تیرے ماں باپ اور بہن؟‘‘۔ ان کی ڈانٹ سن کر میں باقاعدہ رونے لگی اور حیرت سے انھیں دیکھے جارہی تھی۔ اس دن مجھے انھوں نے ایک سبق دیا جو مجھے آج تک یاد ہے، بے لوثی اور صبر و تحمل۔ان کی شخصیت ہم سب لوگوں سے نہایت قریب،ہم سب کی رفیق،ہم سب میں گھلی ملی،نہایت ہی منفرد اور بے حد متاثر کن تھی۔ ابا! آپ جیسے لوگ روز روز نہیں پیدا ہوتے۔
میں اپنا مضمون شروع میں محولہ انگریزی نظم سے ہی ختم کرتی ہوں۔ ابا ہمیں کبھی کبھی اردو اور فارسی کے ساتھ انگریزی شاعری بھی پڑھایا کرتے تھے۔ ابا نے یہ نظم بہت سال پہلے مجھے سنائی تھی اور اس کی تشریح بھی کی تھی۔الفریڈ ٹینی سن کی نظم Crossing the Bar ان کی پسندیدہ ترین انگریزی نظموں میں سے ایک تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس نظم کو پڑھتے ہوئے ابا کی آواز اس کی تخلیقی عظمت اور فنی جمال میں کھوجاتی تھی:
For though’ from out our bourne of Time and Place
The flood may bear me far,
I hope to see my Pilot face to face
When I have crossed the bar.
موت مجھے زمان و مکان کی حدوں سے
دور لے جائے گی
جب میں تمام رکاوٹیں عبور کرلوں گا
تو مجھے امید ہے کہ اپنے پائلٹ(خدا) سے بالمشافہہ میری ملاقات ہوگی!
جب ابا آخری سانس لے رہے تھے تو شاید ان کے ذہن میں بھی یہی اشعار گونج رہے تھے۔ وہ اپنے تمام تر ہوش و حواس، ذہنی بیداری اور صبر و تحمل کے ساتھ اپنے آخری سفر کے لیے تیار تھے۔
(بشکریہ ’’ایوانِ اردو‘‘دہلی،مارچ ۲۰۲۱)