ریاض:سعودی عرب کے دارلحکومت الریاض کی شاہ عبدالعزیز پبلک لائبریری ایک کتاب شائع کرنے کی تیاری کر رہی ہے جس میں اسلامی فن نقش نگاری کے وہ نادر نمونے محفوظ کیے جائیں گے ،جن کا اظہار مختلف مخطوطات، کتابوں اور ڈرائنگز کی شکل میں ملتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز پبلک لائبریری میں بڑی تعداد میں مخطوطات اور کتابیں موجود ہیں جن میں اسلامی تاریخ کے اس قدیم فن کے مظاہر بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس فن کو نقش نگاری کہتے ہیں جس میں خاکوں، نقش ونگار اور تراش خراش سے کام لیا جاتا ہے۔ نقش نگاری آ رٹ میں انتہائی باریک بینی سے ڈرائنگ، متنوع تصاویر اور رسم الخطوط میں رنگ بھرا جاتا ہے۔ حاشیہ اور کتاب کی شکل کی سجاوٹ کا کام کیا جاتا ہے۔اس فن میں دسیوں ماہرین اور خطاط نام کما چکے ہیں۔انھوں نے کتابوں اور مخطوطات کو اس فن سے سجایا۔ ان میں ابن البواب، ابن مقلہ، یاقوت المستعصمی اور دیگر نمایاں نام ہیں۔لائبریری میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اسلامی فن نقش نگاری کے نادر نمونے، تصاویر اور مخطوطات محفوظ ہیں۔ان آرٹسٹک نمونوں میں سلطان کی ڈرائنگ ( نادر شاہ افشار)، شکاری مہمات کے خاکے، روزمرہ کے معمولات اور کہانیاں شامل ہیں۔ لائبریری میں سائنسی ڈرائنگز، مقامات کے نقشے، نباتات وجانور، مقدس مقامات اور راستوں کی تفصیلات بھی محفوظ ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں ادب، ثقافت، طب، سائنس، اناٹومی اور تعلیمی موضوعات پر کتابیں شائقین کے علم کی پیاس بجھانے کے لئے موجود ہیں۔اسلامی فن نقش نگاری کے مختلف مکاتب فکر ہیں ،جن میں مدرسہ بغداد، مدرسہ العراقیہ، الفارسیہ، التیموریہ اور العثمانیہ نمایاں ہیں۔ مسلمانوں نے فارس، روم سے متاثر ہو کر ان کی ڈرائنگز کو وضاحت کے لیے استعمال کیا ،تاکہ قاری کے ذہن میں معلومات یا اعداد وشمار کے بارے میں اشکال کو دور کیا جا سکے۔فن نقش ونگاری کے نمونے ٹکڑوں اور مخطوطات کی شکل میں ملتے ہیں۔ مطالعہ وتحقیق کرنے والے رنگوں کی ترکیب اور استعمال کی مدد سے فنی مکتبہ فکر کا تعین کرتے ہیں۔اس ضمن میں انسانی خواص، کپڑوں کی تراش، ڈیزائن، رنگ، جانور منی ایچر آرٹ کے نمونوں میں نظر آنے والے مقامات اور پس منظر بھی فنی نمونے کی تحقیق میں مدد دیتے ہیں۔اسلامی فن نقش نگاری کے ماہر فنکاروں نے کتابوں اور مخطوطات میں کئی مضامین، تصاویر اور اشکال پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔ نقش نگاری کے بیشتر نمونوں میں گھوڑوں اور گھڑ سواروں کو دکھایا گیا ہے، جس میں وہ ہاتھ میں تلوار یا نیزہ لیے سوار دکھائی دیتے ہیں۔ فنکارانہ انداز میں کی گئی منظر کشی سے گھڑ سوار کی مہارت اور گھوڑے کی چابک دستی کا پتہ چلتا ہے۔ان فن پاروں مختلف سائز، رنگوں اور اقسام کے عربی رسم الخطوط کا بیان بھی ملتا ہے۔ نیز یہ نمونے مختلف سفر، مقامات، شکار اور تیز اندازی کو تجریدی آرٹ میں پیش کرتے ہیں جس نے آگے چل کر سائنس، تاریخ اور متعدد حقائق سے پردہ اٹھانے میں مدد دی۔
9 فروری, 2021
واشنگٹن:امریکی صدر جو بائیڈن نے پی ایم نریندر مودی کے ساتھ اپنے پہلے ٹیلیفونک رابطے میں دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور دنیا میں موسمیاتی تبدیلی اور جمہوری اقدار کے دفاع پر گفتگو کی ہے ۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جو بائیڈن کی ٹیلیفونک رابطے کو انڈیا کے ساتھ سابق صدر ٹرمپ کی پالیسی کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جنہوں نے اپنی مدت صدارت کے دوران آخری غیرملکی دورہ دہلی کا کیا تھا۔ سابق صدر انڈیا کو چین کے خلاف اپنے سخت مؤقف میں شراکت دار کے طور پر دیکھ رہے تھے۔صدر بائیڈن نے انڈیا کے وزیراعظم کے ساتھ گفتگو میں موسمیاتی تبدیلی کو ایجنڈے میں شامل کیا جو عالمی درجہ حرات میں اضافے پر ان کی پالیسی کی ترجیحات کا حصہ ہے۔وائٹ ہاؤس سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے، موسمیاتی تبدیلی پر اشتراک کار، عالمی معیشت کو دونوں ملکوں کے عوام کے فائدے کے لیے استوار کرنے اور عالمی دہشت گردی کے خلاف اکھٹے ہونے‘ کے عزم کا اعادہ کیا۔ نئی دہلی میں وزیراعظم کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان میں صدر جو بائیڈن کی جانب سے موسمیاتی مسئلے پر گفتگو اور پیرس معاہدے میں امریکہ کے واپس آنے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سدباب کے لیے کیے گئے پیرس معاہدے سے اپنے ملک کو الگ کر لیا تھا۔بیان کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اپریل میں بلائی گئی موسمیاتی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ انڈیا کو دنیا میں امریکہ اور چین کے بعد فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والی تیسرا بڑا ملک قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم انڈیا کا مؤقف رہا ہے اس کو اس معاملے میں ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ ایک جیسے قوانین پر عمل کے لیے مجبور کرنا ناانصافی ہوگی۔وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر بائیڈن نے وزیراعظم مودی سے گفتگو میں دنیا میں جمہوری اداروں اور اقدار کے تحفظ کی اپنی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ جمہوری قدریں ہی امریکہ اور انڈیا کے تعلقات کی بنیادوں میں شامل ہیں۔
مصنف: ڈاکٹر ناصر پرویز
صفحات: ۳۸۴
قیمت: ۴۲۵ روپے
مطبع: اسلامک ونڈرس بیورو،کوچہ چیلان ،دریا گنج، نئی دہلی
سن طباعت: ۲۰۱۶ء
تبصرہ: ڈاکٹر ثنا کوثر
’’ناصر ؔ کاظمی: حیات اور ادبی خدمات‘‘ڈاکٹر ناصر پرویز کا تحقیقی مقالہ ہے۔جو ۲۰۱۶ ء کے نصف آخر میں کتابی شکل میں منظر عام پر آیا۔اس کتاب کے مطالعے سے ڈاکٹر ناصر پرویز کے تحقیقی و تنقیدی رجحانات اور ان کے نظریات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔اگر چہ ناصر ؔکاظمی کی ادبی خدمات پر بہت سے مقالات شائع ہو چکے ہیں اور ان کی حیات کو بھی کافی حد تک اہل قلم حضرات نے اپنے اپنے مطالعات کے زیر اثر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ،لیکن ان کی حیات و خدمات پر جس نوع کاتحقیقی و تنقیدی کام تا حال ہونا چاہیے تھا ،اس کی تشنگی کا احساس اب تک باقی تھا۔اس کام کو ڈاکٹر ناصر پرویز نے اپنے ادبی ذہن اورتحقیقی و تنقیدی رویے سے بہت خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کیا ہے ، جسے ہمیشہ ادبی دنیا میں قدر و منزلت حاصل رہے گی۔یہ مقالہ اس نوعیت سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ناصر ؔ کاظمی کے نام سے مماثلت ہونے کے ساتھ ساتھ ناصر پرویز شعری صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔انھوں نے شاعری میں خاص طور پر غزل کو ہر اعتبار سے برتنے کی کوشش کی ہے۔اس طرح انھوں نے ناصر ؔکاظمی کی شاعری اور دیگر خدمات کو ایک شاعر، محقق اور نقاد کی نظر سے پڑھا اور سمجھا، جس کا خوبصورت جواز ہمارے سامنے موجود ہے۔
زیر تبصرہ مقالہ ناصر ؔ کاظمی کی تقریباً تمام خدمات کا احاطہ کرتا ہے۔یہ ۳۸۰ صفحات اور ابتدائیہ کے علاوہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔علاوہ از یں کتابیات، تصانیف ناصرؔ کاظمی اور مصنف کا تعارفی اورادبی خاکہ بھی شامل ہے۔
باب اول میں سوانحی و ادبی تعارف کے تین ذیلی عنوان ہیں:سوانح اور شخصیت، شاعری کا آغاز و ارتقا اور اہم معاصرین شعرا۔جس میں ناصر ؔ کاظمی کی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے لیے ناصر پرویز نے ناصرؔ کاظمی کی ڈائری کو بنیاد بنایا ہے اور دوسرے ادبی مقالات سے بھی مدد لی ہے۔ اس کے علاوہ شاعری کے آغاز و ارتقا پر مفصل گفتگو کی ہے۔جس میں ان کا مقصد صاف نظر آتا ہے کہ ناصرؔ کی غزلیہ شاعری یا دوسری اصناف پر تفصیلی بحث کرنے سے قبل ان کے شعری رجحانات کا مختصر خاکہ پیش کیا جا سکے۔اس باب میں ناصرؔ کاظمی کے معاصرین میں فراقؔ گورکھپوری، منیرؔ نیازی اور احمد فرازؔ کی شعری و ادبی خدمات کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس حد تک ان شاعروں نے ناصرؔ کو متاثر کیا اور انھوں نے کس حد تک ان شعرا حضرات کا اثر قبول کیا۔
باب دوم ’’ ناصر ؔ کی غزل گوئی ‘‘پر محیط ہے۔جس میں ان کی غزل گوئی کے فکری مطالعے ،فنی مطالعے اور اردو غزل گوئی میں ناصرؔ کے مرتبہ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔موصوف نے ناصرؔ کے فکری و فنی تجربات کی بنا پر ان کا مقام متعین کیا ہے جو قابل داد ہے۔ انھوں نے ان کی غزلوں کا تجزیہ اور تنقیدی جائزہ لیا ہے۔حتیٰ کہ فن کے اعتبار سے محض خوبیوں کا تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ ان خامیوں کی بھی نشان دہی کی ہے جو اعلیٰ شاعری اور معتبر شاعر کے لیے ناگزیں ہیں۔اس طرح کی بہت سی مثالیں کتاب میں موجود ہیں۔مثلاً:
’’ کلام میں ایسے الفاظ لاناجو عورتوں اور مردوں کے لیے خاص ہوں یا ان کے لوازمات میں سے ہوں ،معیوب ہیں۔کلام میں ایسا طرز بیان اختیار کرنا چاہیے کہ محبوب مبہم رہے اور اس کا مذکر یا مونث ہونا معلوم نہ دے۔بطور مثال:
آنچ آتی ہے تیرے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی
اس کے علاوہ انھوں نے ناصرؔ کی شاعری میں حشو اور نامانوس الفاظ کی بھی نشان دہی کی ہے، جو شاعری میں معیوب تصور کیے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں انھوں نے ناصر ؔ کی شاعری میں داخلیت کے عنصر کو بہت گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی اور ان سوالات پر توجہ مرکوز کی ہے کہ کیوں نا صرؔ کی شاعری میں نازکی اور ہجر کی کیفیت موجود ہے۔موصوف نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ ’’ ان کی شاعری میں صرف حسن و عشق اور دیوانگی و فریفتگی ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کی الجھنوں ، محرومیوں اور مجبوریوں کا نوحہ بھی ہے۔‘‘اس طرح ڈاکٹر ناصر پرویز نے اپنے محققانہ اور ناقدانہ صلاحیت کا بین ثبوت پیش کیا ہے۔
باب سوم کا عنوان ’’ ناصرؔ کاظمی اور دیگر اصناف سخن ‘‘ ہے۔جس میں نظم نگاری ،منظوم ڈرامہ نگاری، نعت، سلام، رباعیات و قطعات وغیرہ پر بہت معلوماتی گفتگو کی گئی ہے۔جس وجہ سے ناصر ؔ کاظمی کو محض غزل گو تصور کرنے کے بجائے دوسری اصناف سخن کا بھی شہ سوار تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ان کی تمام نظمیں ،نعت، سلام اور رباعیات ان کے مجموعہ کلام ’’ نشاط خواب‘‘ میں شامل ہیں۔مقالے کا باب چہارم ’’ ناصر کی نثری و علمی خدمات ‘‘ پر مشتمل ہے۔جس کے دو ذیلی عنوان نثر اور ترجمہ نگاری ہیں۔ان کے مضامین کا مجموعہ بعنوان ’’خشک چشمے کے کنارے‘‘ ہے۔جس میں ۲۶ مضامین شامل ہیں۔موصوف نے ان مضامین کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔جس سے ناصر ؔ کاظمی کی تنقیدی بصیرت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔موضوف نے اس باب میں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ ’’ ناصر کے اکثر مضامین ادبی اور علمی نوعیت کے ہیں۔ جو ادب ، شاعری، سماج اور قدیم و جدید روایات پر بڑی قیمتی معلومات مہیا کراتے ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ ڈاکٹر ناصر پرویز نے ان کے تراجم کو بھی مقالے میں شامل کیا ہے۔جو ان کے مجموعہ کلام ’’ نشاط خواب‘‘ میں شامل ہیں۔یہ ملکی اور غیر ملکی شعرا کی نظموں کے تراجم ہیں۔مثلاً گیت، جاڑے کی رات، پی۔فو۔جن اور انہد مرلی شور مچایا ہیں۔اس حصہ میں موصوف نے ترجمہ کی تعریف اور اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان نظموں پر بہت کار آمد گفتگو کی ہے۔
بام پنجم مقالے کا ماحصل ہے ۔اس میں ڈاکٹر ناصر پرویز نے تمام ابواب اور ذیلی عنوان پر فرداً فرداً گفتگو کی ہے۔اس طرح انھوں نے بہت ہی سادگی اور خوبصورتی کے ساتھ پورے مقالے کا نچوڑ پیش کیا ہے۔آخر میں ڈاکٹر صاحب نے علاّمہ اقبال ؔ کے اس شعر سے اپنی بات مکمل کی ،جس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ کوئی بھی کام حرف آخر نہیں ہوتا بلکہ آئندہ کے لیے نئی راہیں کھول دیتا ہے۔شعر ملاحظہ ہو:
فروزا ں ہیں سینے میں شمع نفس
مگر تاب گفتار کہتی ہے بس!
’’ ناصر ؔ کاظمی:حیات اور ادبی خدمات‘‘ کے مطالعہ کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر ناصرپرویز نے اولین مواد سے مراجعت کرکے بہت جانفشانی سے اس کام کو مکمل کیااور ناصرؔ سے متعلق بنیادی اور نئی باتوں کو منظر عام پر لائے ،جو قابل داد اور لائق تحسین ہے۔قوی امید ہے کہ موصوف کی یہ محنت رائگاں نہیں جائے گی اور انشاء ا ﷲ ناصرؔ کاظمی کے مطالعے میں سنگ بنیاد ثابت ہوگی۔
مشاعرہ اب تجارت ہے۔ مشاعرہ اب مداری کا کھیل ہے۔ اب ملک بھر میں زیادہ تر مشاعروں پر ناچنے گانے والوں کا قبضہ ہے۔ یہ میر و غالب کے زمانے کا مشاعرہ نہیں ہے بلکہ یہ فراق، جوش و جگر اور خمار کے زمانے کا مشاعرہ بھی نہیں ہے۔ یہ تال ٹھوک کر للکارنے والے کسی شوہر کانپوری کا مشاعرہ ہے۔ یہ کمر لچکا کر ناچنے گانے والے کسی جبران کرتاب گڑھی کا مشاعرہ ہے۔
یہ سیدھے بیوٹی پارلر سے نکل کر اسٹیج پر پہنچنے والی کسی’’ مانگے کا اُجالا‘‘ کا مشاعرہ ہے۔ نارتھ ایسٹ کی سات ریاستوں اور کیرل تمل ناڈو کو چھوڑ کر یہ مشاعرے ملک بھر میں برپا ہو رہے ہیں۔ سوائن فلو سے زیادہ خطرناک یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ شاعر اور کنوینر اس سے روٹی روزی نہیں فارم ہاؤس بنا رہے ہیں ـ
کچھ استاد شاعر نو عمر لڑکیوں کو سادھ رکھے ہیں ۔ مانگے کا اجالا لئے پھر رہی ہیں لڑکیاں ۔ مشاعرے کے اسٹیج پر جس قدر روشنی اور چکاچوندھ ہوتی ہے اس کے پیچھے کی دنیا اتنی ہی تاریک اور بد رنگ ہے۔ راقم السطور کئی ایسے ’’ استاد‘‘ شاعروں سے واقف ہے جو الگ الگ شہروں میں الگ الگ لڑکیوں کو راتوں رات ’’اسٹار ‘‘ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ کنوینر مشاعرہ اور نام نہاد استاد کے درمیان فٹ بال بنیں یہ لڑکیاں ہندی دیوناگری میں لکھی غزلیں لہک لہک کے اور لچک لچک کے گاتی ہیں۔ یہ منظر اب مشاعروں میں عام ہے۔ یہ منظر شرمناک ہے اور زبان اردو کے فروغ سے اس کا کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ لڑکیاں دیو ناگری میں کسی استاد کا دیا کلام پڑھ کے پیسے کما رہی ہیں۔ اور کرپشن کو فروغ مل رہا ہے۔
آج کے مشاعروں کی ایک اور لعنت ہے عوام کے جذبات سے کھیلنا۔ شاعری میں حقیقت بیانی اور چیز ہے اور جذبات بھڑکانا اور چیز ہے۔ آج جذبات سے کھیل رہے ہیں یہ مشاعرہ باز شاعر۔ راقم بھی ایک عرصے تک مشاعروں کی نظامت کے فرائض انجام دیتا رہا۔ اتر پردیش کے ایک قصبہ میں منعقد مشاعرے میں ایک خوش شکل اور خوش گلو شاعرہ نے گجرات فسادات پہ گیت پڑھ کے مشاعرہ لوٹ لیا۔ واہ واہ کی صدا بلند ہوئی تو اس شاعرہ نے ایک ایک کرکے، بھیونڈی، مالیگاؤں ، بھاگلپور، میرٹھ ، ملیانہ اور مظفر نگر فسادات پہ گیت پڑھ کے داد وصول کی۔ حد تو تب ہو گئی جب ناظم مشاعرہ نے فسادات سے متاثر تمام شہروں کے حوالے سے گیت پڑھنے پر شاعرہ پہ طنز کیا تو اس نے پلٹ کے کہا کہ اگلے برس پھر کہیں فسادات ہوئے تو اس پہ بھی تازہ گیت پیش کروں گی۔
آج کے مشاعرہ باز شاعروں کا پورا ایک ریکیٹ کام کرتا ہے۔ ان کے اپنے اپنے گروہ ہیں۔ یہ گینگ چلا رہے ہیں۔ ان کی مارکیٹنگ اور برانڈنگ کے الگ شعبے ہیں۔ ایک مشہور مشاعرہ باز شاعر سے میں نے بات کی تو انھوں نے اپنا ریٹ بتایا پچاس ہزار روپے۔ کہنے لگے چونکہ آپ بات کر رہے ہیں تو میں پانچ ہزار روپے کم کر دوں گا۔ میں نے دوسرے روز انھیں بتایا کہ کنوینر نے بتایا ہے کہ ان کا بجٹ کم ہے ۔ کہنے لگے کچھ اور کم کر دوں گا۔ آخر میں وہ صاحب پندرہ ہزار روپے پر مشاعرہ پڑھنے گئے۔ لیکن مجھ سے گزارش کی کہ سب کو بتایا جائے کہ وہ پچاس ہزار روپے میں آئے ہیں۔ میں نے کہا کہ بھائی جب آپ پندرہ ہزار میں آئے ہیں تو کیوں چاہتے ہیں کہ پچاس ہزار بتایا جائے؟
کہنے لگے بھائی آئندہ کے لئے مارکیٹ تو خراب نہ کیجئے۔ سچ بات یہ ہے کہ آج کے یہ مشاعرہ باز شاعر قوم کے جذبات سے کھلواڑ کر کے لاکھوں کی کمائی کر رہے ہیں۔یہ ملک و ملت دونوں کو چونا لگا رہے ہیں۔ ایک اسکول ٹیچر اگر بیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پاتا ہے تو وہ بھی دس فیصد ٹیکس دیتا ہے۔ یونیورسٹی اور کالج کے ٹیچر تیس فیصد انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ لیکن مشاعروں کی دنیا میں کوئی ٹیکس نہیں ہے۔
لاکھوں کی کمائی ٹیکس فری۔ لاکھوں کا یہ لین دین کیش میں ہوتا ہے نہ انکم ٹیکس نہ جی ایس ٹی کا چکر۔ آپ ہندوستان کے طول و عرض میں مشاعرے کے کسی بھی کنوینرسے معلوم کر لیجئے کہ کسی شاعر نے کبھی چیک سے کوئی پیمنٹ لی ہے ؟
ایک اوسط درجے کا مشاعرہ باز شاعر دس لاکھ روپے ماہانہ کی کمائی کرتا ہے۔ وہ بھی بغیر ٹیکس دئے ہوئے۔ ان مشاعرہ باز شاعروں نے باقائدہ فارم ہاؤس بنا رکھے ہیں۔ ان کے فارم ہاؤس بنانے پر کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ لیکن ان کے ٹیکس نہیں دینے پر اعتراض ضرور ہے۔
قوم کے جذبات سے کھلواڑ کر کے لاکھوں کی کمائی کرنے والے یہ شاعر مہنگی برانڈیڈ امپورٹیڈ شراب پیتے ہیں اور قوم کو یاد دلاتے ہیں کہ ان کے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں۔ دراصل شکست خوردہ قومیں ماضی میں جینا چاہتی ہیں۔وہ حال کی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنے سے بچنا چاہتی ہیں۔ انھیں ماضی میں پناہ لینے میں عافیت محسوس ہوتی ہے۔
حرکت و عمل سے بے گانہ یہ قوم رات بھر مشاعرہ سنے گی اور دن بھر اپنی بد قسمتی کا رونا روئے گی۔ اسی شکست خوردہ ذہنیت کو بھنانے کا کام آج کے یہ مشاعرہ باز شاعر کر رہے ہیں۔ زبان کی نز اکتوں سے یہ آج کے مشاعرہ باز شاعر خود واقف نہیں ، یہ بھلا اردو زبان و ادب کی کیا خدمت کریں گے۔ ایک وقت تھا کہ مشاعروں سے لوگ زبان بھی سیکھتے تھے اور ادب آداب بھی۔ لیکن آج کے زیادہ تر مشاعرے بے ادبی کا اڈّہ بن چکے ہیں۔ کرپشن کا ایک ادارہ بن چکے ہیں۔ ان سے نجات کا طریقہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں )
غازی پور: ( خاطر احمد)
جمعیۃ علماء یونٹ غازی پور شہر کی جانب سے قاسمی منزل سیدواڑہ جمعیۃ کے دفتر میں بعد نماز مغرب و کیل احناف حضرت مولانا محمد ابوبکر غازی پوریؒ کی یاد میں ایک علمی مذاکرہ منعقد ہوا جس کی سر پرستی مفتی عبد اللہ فاروق قاسمی نے اور نظامت کے فرائض مولانا محمد نعیم الدین غازی پوریؔ نے انجام دیا۔ پروگرام کا آغاز حافظ وقاری صاحب علی صدر مدرس مدرسہ اشاعت العلوم کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا اور مولانا عاصم قاسمی ؔنے مولانا ابوبکر غازی پوری ؒ کی لکھی ہوئی نعت البنی پڑھی۔
اس موقع پر مولانا محمد انس حبیب قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء غازی پور نے عظمت ِ صحابہ کرام ٘ؓ کۓ متعلق حضرت مولانا ابو بکر غازی پوری ؒ کی تحریر وں کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ابوبکر غازی پور ی ؒکو اللہ تعالیٰ نے دینی غیرت و حمیت سے بھر پور نوازا تھا، اسی دینی غیر ت و حمیت کی وجہ سے ان کو دین اسلام کے بنیادی اسا طین حضرات صحابہ ؓ سے بے پناہ عقیدت ومحبت تھی۔انھوں نے تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنے بارے میں لکھا اور بالکل سچ لکھا ہے :
اللہ کا میرے اوپر شروع سے یہ کرم رہا کہ میرے دل میں صحابہ کرامؓ کی عظمت و محبت ڈال دی ہے، میرے لیے قطعاً نا قابل برداشت بات ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی عظمت کو پامال ہوتے دیکھوں اور میں خاموش رہوں ۔ میں اس کا دفاع اپنی استطاعت بھر ہر طرح سے کرتا ہوں، مقام صحابہؓ اور مولانا مودودی نامی کتا ب میں زکر ہے۔
مولانا محمد نعیم الدین غازی پوری ؔ ناظم اعلیٰ مدرسہ اشاعت العلوم نے حضرت غازی پوری ؒاور غیرمقلدیت سے متعلق بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا محمد ابو بکر غازی پوری ؒ اس دور کے تحفظ سنت کے علم بردار ، مسلک سلف کے مبلغ اور فقہ حنفی کے عظیم رہبر تھے۔
مولانا ؒ مدرسہ اشاعت العلوم سٹی ریلوے اسٹیشن غازی پورکے سابق صدر تھے اورمولانا ؒ کا انتقال ۸/ فروری ۲۰۱۲ کو دہلی جمعیۃ علماء ہند کے دفتر ہوااور تدفین آبائی وطن کتھولیا غازی پور کے قبرستان ۹/ فروری کوعمل میں آئی، تقریباًنو,9/سال بعد غازی پور میں مولانا کی یاد میں یہ علمی مذاکرہ منعقد کیا جارہا ہے۔
مولانامحمد نسیم غازی پوری ؔ نے اپنے مختصر بیان میں کہا کہ مولانا محمد ابو بکر غازی پوریؒ کی ذات گرامی اس دورِ اخیر میں سنت رسول کی محا فظ و پاسبان اور مسلک سلف کی شارح وترجمان تھی، انھوں نے اپنے قلم اور زبان کے ذریعہ فتنۂ غیر مقلدیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا رخ پھیر دیا اور تن ِ تنہاوہ عظیم کارنامہ انجام دیا جو بڑی بڑی اکیڈمیوں اور اداروں کے لیے بھی مشکل تھا۔
مولانا اسرارالحق ثاقبی ؔنے کہا کہ مولانا کے اسلوب تحریر میں بڑی قوت ، پختگی ، بر جستگی اور روانی ہوتی ہے۔ بات بڑے آسان اور سہل انداز میں کرتے ہیں ، نیز دلائل کی قوت اور لب لہجہ کی جرأت قاری کو مکمل اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ مشکل مضامین و مسائل کو عام فہم
اسلوب و انداز میں اتنی سلاست سے پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں کھو جاتا ہے، اور متعلقہ موضوع سے متعلق اس کا دل مکمل مطمٔن اور منشرح ہوجاتا ہے۔
اس مذاکرے کے سرپرست مفتی عبد اللہ فاروق قاسمیؔ نے اپنے جامع بیان میں بتایاکہ حضرت مولانا ؒ میرے چچاتھے ، آپ کی ولادت 15/ مارچ 1945ء اور وفات 8/ فروری 2012ء کو ہوئی، آپ کی ابتدائی تعلیم غازی پور کے مدرسہ دینیہ میں اور پھر مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور اور مفتاح العلوم مئواس کے بعد دارالعلوم دیوبند سے 67-1966ء میں فارغ ہوئے اور ہندوستان کے مختلف مدارس میں کئی سال درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھنے کے بعد ہمیشہ کے لئےگھر آگئے اور اپنے آپ کو مستقل طور سے تصینف و تالیف کے لیے وقف کردیا۔ دو میگزین کا اجرا ایک عربی میں صوت الاسلام اور دوسرا اردو میں زمزم کیا ، پھر یکے بعد دیگرے آپ کی تصانیف بیس سے زیادہ آئیں،آپ ؒ ان باکمال اور عبقری ہستیوں میں سے تھے جو خداداد ذکاوت و ذہانت ، عرفانی حقیقتوں کا کلی ادراک رکھتے تھے، مولاناجمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کےخصوصی ممبر اورجمعیۃ علماء غازی پور کے سرپرست اعلیٰ بھی تھےـ اس مذاکرے کا اختتام کی دعا پر ہوا ۔
بہار اسمبلی میں مظفرپور کی نمائندگی کرنےوالے پہلے مسلم رکن اسمبلی اور عظیم مجاہد آزادی مہدی حسن – اسلم رحمانی
مجھولیا، پارو، ضلع مظفرپور
موبائل:8578980094
سوسال پہلے 1921 میں شمالی بہار کے مرکز مظفرپور سے پہلی مرتبہ منتخب ہوکر بہار اسمبلی پہنچنے والے عظیم مجاہد آزادی مہدی حسن تھے۔اسی بہار قانون سازیہ کی صد سالہ تقریب کا 7فروری کو وزیر اعلی نتیش کمار نے بہار اسمبلی کی توسیع شدہ عمارت کے سینٹرل ہال میں شمع روشن کرکے افتتاح کیا ۔قانون سازیہ کا صد سالہ جشن پورے سال چلے گا۔ پروگرام میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند،نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈواوروزیراعظم نریندر مودی اور لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کے علاوہ کئی ریاستوں کے اسمبلی اسپیکر شریک ہوں گے۔
قابل ذکر ہے کہ 7فروری 1921کو سر والٹمورے کی صدارت میں قانون سازیہ کی تشکیل ہوئی تھی جس میں بہار،اڈیشہ صوبہ کی پہلی بیٹھک ہوئی تھی۔قانون سازیہ کے ہال میں انہوں نے خطاب کیا تھا۔ پہلے گورنر لارڈ ستندر سنہا نے 7فروری 1921کو اجلاس سے خطاب کیا تھا۔ سال 2021بہار قانون سازیہ کا سال ہوگااسی سال 1921میں بہار قانون سازیہ کا قیام عمل میں آیاتھا۔
شمالی بہار مظفرپور ضلع پارو تھانہ حلقہ مجھولیا کے محقق صحافی آفاق اعظم نے اپنی غیر مطبوعہ کتاب”مظفرپور” میں 1921 میں مظفرپور سے منتخب ہونے والے پہلےرکن اسمبلی مہدی حسن کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیاہے۔انہوں نے یہ بھی لکھاہے کہ 1921 میں پہلی مرتبہ جو مسلم امیدوار کامیاب ہوکر اسمبلی پہنچے تھے ان میں پٹنہ مشرقی دیہات حلقہ سے سید محمد فخر الدین تو پٹنہ شہری حلقہ سے محمد یونس، پٹنہ مغربی دیہات حلقہ سے سید محمد حسین،گیا دیہات حلقہ سے ملک مختار احمد، شاہ آباد دیہات حلقہ سے مولوی حافظ نو ر الحق ، سارن دیہات سے سید مبارک حسین،چمپارن دیہات سے سید عباس علی، دربھنگہ دیہات سے مولوی لطافت حسین،بھاگلپور ڈیویزنل شہری حلقہ سے خان بہادر سید محمد طاہر،بھاگلپور دیہات سے خان بہادر سید محمد نعیم،مونگیر دیہات سے شاہ محمد یحییٰ،کشن گنج دیہات سے سید معین الدین مرزا، پورنیہ دیہات سے مولوی میر فیاض علی، سنتھال پرگنہ سے مولوی محمد امید علی،اڈیشہ دیویزنل حلقہ سے مولوی شیخ عبد المجید، چھوٹا ناگپور ڈیویزن سے خان بہادر خواجہ محمد نور، سرکار کے ذریعہ نامزد سید حسن امام، ترہت ڈیویزنل شہری حلقہ سے خان بہادر احمد حسین اور مظفرپور دیہات سے مہدی حسن پہلی مرتبہ منتخب ہوکر اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔انہوں نے کھا ہے کہ مہدی حسن مسلسل دو مرتبہ 1921 اور 1924 میں انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے مظفرپور کی نمائندگی کی۔ مہدی حسن برہمپورہ کے ایک زمیندار گھرانے میں سید ابو الحسن کے گھر پیدا ہوئے۔ مہدی حسن نے اعلی تعلیم حاص کی تھی اور وطن پرستی ان کو وراثت میں ملی تھی۔ مہدی حسن نے سماج کی خدمت میں پوری زندگی صرف کی اور ان کے دادا میر حسن نے زمینداری کے زمانے میں ہی میر حسن وقف کے نام سے اپنی جائداد وقف کردی تھی جس کے ذریعے مہدی حسن نے مختلف طرح کے فلاحی و رفاہی کام انجام دیے۔ مرحوم مہدی حسن کے نواسے پروفیسر سید منیر رضا کاظمی نے بتا یا تھا کہ ان کے نانا کے دیرینہ رشتے ضلع کے سبھی مجاہدین آزادی سے تھے اور خود مہدی حسن نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مسلسل میونسپل کارپوریشن کے انتخاب میں بھی انہوں نے کامیابی پائی تھی جس کی وجہ سے میونسپل کارپوریشن نے ان کی وفات کے بعد برہمپورہ کے ناکہ کے پہلے والے چوک کا نام مہدی حسن چوک رکھا۔ مہدی حسن مظفرپور کی نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے اور حکومت کے ذریعے وہ مظفرپور کے اعزازی مجسٹریٹ بھی نامزد کئے گئے تھے۔ عدلیہ احاطے کے علاوہ گھر پر بھی اجلاس لگایا کرتے تھے۔ مہدی حسن نے آزادی کے بعد سرگرم سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی لیکن 1952، 57اور 1964کے انتخاب مین کانگریس امیدوار کی مدد کرتے رہے۔ 1964میں چھوٹے بھائی عسکری حسن و داماد سید حسن رضا کاظمی کے انتقال کا ان کو قلبی اور ذہنی صدمہ پہنچا جس کی تاب نہ لا کر وہ 1965 میں انتقال کر گئے۔
یہ المیہ ہے کہ ایک ایک کر کے قومی رہنماؤں کو بھلایا جا رہا ہے۔ ایک طرف سنگھ پریوار کی اقلیت سوزی تحریک آزادی اور سیکرلرزم سے دشنمی کی وجہ سے نہ صرف اقلیتوں پر ملک دشمنی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے،دوسری طرف اقلیتوں کے کارناموں کو صفحہ تاریخ سے مٹایا جارہا ہے۔ ساتھ ساتھ سنگھ پریوار اپنے ارکان کومجاہدین آزادی کی فہرست میں بھی ڈالتا جا رہا ہے اور اس کے لئے بھگو ازدہ تاریخ نویسی کا سہارا لیا جا رہا ہے اور تاریخی تحقیق کی تمام تنظیموں کو ایسے ہی لوگوں سے بھرا جا رہا ہے ۔ نام نہاد سیکولر دانشور سیاستدان بھی کوئی قابل ستائش رول ادا نہیں کر رہے ہیں۔ان لوگوں نے بھی تمام جاں نثارانِ حریت کو ایک خاص فرقے کا سمجھ کرایسے افراد کوفراموش کر دیا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اپنے روشن ماضی کی طرح حال اور مستقبل کوروشن بنانے کے لیے ماضی کی روشنی میں منظم منصوبہ بندی کریں تاکہ ہم اپنے اسلاف کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر سکیں۔
وہ ایسا حسیں جس کا ثانی نہ ہمسر جو ہے خوب تر خوشتروں سے بھی خوشتر
جو شمس و قمر سے بھی زیادہ منور: وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
جہاں شاہ بھی بن کے آئے گداگر جہاں کی فقیری امیری سے بہتر
جہاں سرنگوں شان کسریٰ و قیصر :وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
جو فخر رسل سید الانبیا ہیں جو ہادی کل خاتم الانبیا ہیں
جو ساقی کوثر ہے شافع محشر وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
وہی جن پہ قرآن نازل ہوا ہے جو ہیں فخر کونین جان جہاں ہیں
جو بعد خدا خلق میں سب سے بہتر :وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
جو امت کی خاطر دکھ و غم اٹھائے جو دشمن کو سینے سے اپنے لگائے
دعائیں دے ان کو جو برسائے پتھر وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
تھا ہر سمت دنیا میں کفر و ضلالت نبی آئے آئی بہار ہدایت
چمک اٹھا جن سے جہاں کا مقدر وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
محمد محمد ہی ورد زباں ہے یہ غم کا مداوا ہے تسکین جاں ہے
لٹاڈالے جن پر ہر اک شی یہ انظر وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
بزم صدف انٹرنیشنل کویت چیپٹر کے زیر اہتمام ”خلیجی ممالک میں اردو کا دبستان“ کے عنوان سے کانفرنس کا انعقاد
دہلی:(سمیعہ ناز ملک)معروف بین الاقوامی علمی ادبی تنظیم ” بزمِ صدف انٹرنیشنل کے زیر اہتمام کویت چیپٹر کی جانب سے پانچ فروری دو ہزار اکیس کو یادگار اور تاریخی بین الا قوامی سیمینار ( خلیج اردو کانفرنس) کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان ” خلیج اردو کا نیا دبستان تھا “ ،کانفرنس میں پروفیسر صفدر امام قادری کی چار کتب ”روشن ہے ریگزار“، ”بنگلا دیش کو میں نے دیکھا“ ، ”میرے والدین“ اور”جانے پہچانے لوگ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔ کانفرنس کا افتتاح ممتاز دانشور اور بزم صدف کے روح رواں و چیٸر مین جناب شہاب الدین احمد نے کیا۔ صدارت ممتاز شاعر، ادیب، ماہر انتقادیات، ڈاٸرکٹر و دانشور پروفیسر صفدر امام قادری نے کی جب کہ مہمانِ خصوصی پروگرام ڈاٸرکٹر جناب احمد اشفاق تھے۔ مہمانانِ اعزازی میں جناب مہتاب قدر سعودی عرب، جناب عارف انوارالحق عمان اور جناب احمد عادل بحرین تھے۔ نظامت کے فراٸض محترمہ عاٸشہ شیخ عاشی متحدہ عرب امارات نے بہ حسن و خوبی انجام دیے۔ تلاوت کلام مجید کی سعادت جناب مسعود حساس صدر کویت چیپٹر نے حاصل کی۔ کانفرنس میں جناب ڈاکٹر وصی الحق وصی قطر، جناب وقار احمد قطر، جناب اطہر عباسی سعودی عرب، جناب نعیم جاوید سعودی عرب، جناب گوہر نقوی عمان، جناب طفیل احمد عمان، جناب اظہار الحق بحرین، جناب ریاض شاہد بحرین، جناب احیإ الاسلام بھوجپوری دوبٸی، محترمہ شاہ جہاں جعفری کویت اور جناب شاداب الفت دوبٸی نے عالمی سطح کے پرمغز مفصل تحقیقی مقالے پیش کر کے خوب داد سمیٹی۔
ممتاز دانشور اور بزم صدف کے روحِ رواں و چیٸر مین جناب شہاب الدین احمد نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوٸے کہا کہ آج کا دن اس لحاظ سےقیمتی اور اہم ہے کہ بزم صدف کے زیرِاہتمام ایک تاریخی پروگرام میں یک جا ہوۓ ہیں جس کے خواب کٸی نسلوں نے دیکھے مگر تعبیر منازل سے دور رہیں۔ ہم نے بھی عرصہ دراز مختلف انواع کی سرگرمیاں جاری رکھیں مگر اللہ کریم نے آج کی شام ہمارے لیے محفوظ رکھی۔اس سلسلہ میں ہم بارگاہِ الہی میں خصوصی طور پر ہدیہ تشکر پیش کرتے ہیں جس نے بزم صدف کےپلیٹ فارم پر اہم ادبی مراکز اور اردو سے محبت کرنے والے احباب کو مجتمع کر دیا۔ بزم صدف کی کارکرگی میں واقعتاّّ اس کانفرنس کو سنگ میل قرار دیا جاٸے گا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے اردو ادبی حلقوں میں مباحث ہوتی رہی ہیں کہ ہند و پاک کے بعد اردو کا سب سے روشن اور قابلِ اعتبار ادبی مرکز کون سا ہے؟ امریکہ اور یورپ کے مختلف ممالک میں گزشتہ دو دہاٸیوں سے اردو کٕی چھوٹی بڑی بستیاں آباد ہیں۔جہاں سے اخبارات و جراٸد تواتر سے شاٸع ہوتے رہے ہیں جب ک سیمنار اور مشاعروں سمیت دیگر تقریبات کا انعقاد بھی طویل مدت سے ایک تسلسل سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وہاں کی اعلیٰ درسگاہوں میں اردو کے طلبإ اور اساتذہ نظر آتے ہیں جب کہ وہاں نہ صرف تحقیقی ادب کی طرف توجہ رہی ہے بلکہ نقد و تحقیق کے لیے بھی لکھاریوں کی بڑی تعداد تخلیقی کام میں مشغول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ نصف صدی میں ہند و پاک سے خلیجی ممالک میں پہنچنے والے افراد شعرا و ادبا کی تعداد کم نہیں تھی۔ سعودی عرب، قطر، کویت، عمان، بحرین اور عرب امارات میں رفتہ رفتہ شاعروں ادیبوں کی جماعت اکٹھی ہوتی چلی گٸی یوں بہت سے اخبار و جراٸد اور گلف ایڈیشن شاٸع ہونے لگے۔سینکڑوں ادبی تنظیمیں منصہ شہود پر نمودار ہونے لگیں اور ہر ملک میں الگ الگ مختلف محافل مشاعرہ، ادبی تقریبات اور ادبی جشن منعقد ہونے لگے۔ ان تقریبات میں مقامی ادبا و شعرا کے با وصف تارکین وطن ہند و پاک کے قد آور شعرإ ادبا اور ماہر انتقادیات بھی شریک ہو کر خلیج کو ادبی وقار بخشنے لگے۔ مختلف خلیجی تنظیموں نے عالمی سطح پر شعرا و ادیبوں کو اعزازات دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا جس سے اردو آبادی میں دھوم مچ گٸی۔ خلیجی ممالک میں مقیم لکھاریوں کی کتب شاٸع ہونے لگیں جس میں اردو کی تقریباّّ تمام اصناف شامل ہیں۔ ہند و پاک سے آنے جانے کا جو سلسلہ جاری رہا اس کی وجہ سے بھی بھی یہاں کے لوگوں کی کتب آسانی سے منظر عام پر آٸیں۔ اب تو خلیج میں بھی اردو کی کتب و رساٸل کی باضابطہ اشاعت کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ جس سے خلیجی ممالک کے شعرا و ادبا کی سنجیدہ شناخت قاٸم ہوٸی۔ خلیج کے الگ الگ ملکوں میں اردو کی ادبی صورتحال پر توجہ دی جاٸے تو یہ جان کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے کہ ہند و پاک سے معاشی ضرورتوں کے پیش نظر خلیجی ممالک میں آباد ہونے والوں نے اردو ادب کی خدمت کی جس کے نتیجہ میں یہاں کے مقامی عربی نژاد باشندوں میں بھی اردو زبان و ادب سے محبت اور لگاو پیدا ہوگیا ہے۔ اب ہماری فہرست میں کٸی ایسے شعرا ٕ وادبا موجود ہیں اگرچہ ان کی مادری زبان عربی ہے مگر وہ اردو ادب کے تخلیقی چراغ کو روشن کر رہے ہیں۔ یہ ہماری بے انتہا پر خلوص ادبی سرگرمیوں کا ہی اثر ہے کہ پورے خلیجی خطہ میں اردو کے لیے خوش گوار ماحول پیدا ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ خلیج کے ہر ملک میں درجنوں ادارے اور تنظیمیں مصروف عمل ہیں ان میں اگر کچھ تنظیموں کے چراغوں کی لو مدہم ہونے لگتی ہے تو نٸی ادبی تنظیموں کے چراغ جل اٹھتے ہیں یوں یہ سلسلہ قاٸم رہتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ نٸے مساٸل بھی جنم لیتے ہیں۔ یہ امر بھی واقع ہوا ہے کہ ہم سب نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بھی بنا رکھی ہیں اور اکثر و بیشتر افراد یا ادارے اس حصار سے نکلنا بھی نہیں چاہتے جس کے باعث ہماری سرگرمیاں انہی دواٸر میں محدود ہو جاتی ہیں ہم یہ سر گرمیاں قاٸم تو رکھتے ہیں مگر ہم ربط باہمی اور اور باہمی مضبوطی اوراپنے کام کے داٸرے کو وسیع کرنے میں کام یاب نہیں ہو پاتے۔شاٸد یہی وجہ ہے کہ خلیج میں تخلیق کردہ ادب کے معیار اور مرتبہ کے بارے میں ابھی بھی ہند و پاک یا دیگر ممالک میں کوٸی خاص فکر مندی دکھاٸی نہیں دیتی۔ خلیج ادو کانفرنس منعقد کرنے کا اصل منتہا و مقصود بھی یہی ہے کہ خلیج کے الگ الگ ملکوں میں آباد ہمارے شعرا و ادبا کو ایک صفحہ پر لانا اشد ضروری ہے۔ بزم صدف نے یہ قدم اس لیے بڑھایا ہے کہ ہم تمام اداروں اور تنظیموں کے افراد اور مختلف اصناف میں خدمت سر انجام دینے وال فنکاروں کو مجمو عی شناخت دینے کے لیے ان کا دعویٰ پیش کر سکیں۔ ہمارے پاس سینکڑوں کتب کا سرمایہ اور نصف صدی سے زیادہ پر محیط ادبی سرگرمیاں دنیا میں پھیلے ہوۓ ادیبوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ ہند و پاک اور امریکہ و یوروپ میں مقیم اردو ادیب خلیج کی ادبی سرگرمیوں سے جڑنا چاہتے ہیں مگر ایسے میں ہمیں بھی ایک متحدہ آواز بن کر دنیا کے سامنے آنا چاہیٸے۔ آج کی اس عہد ساز کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوۓ میں آپ کو قبل از وقت مبارک باد دیتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے بعد خلیج کو بہت جلد اردو کا تیسرا بڑا مرکز تسلیم کر لیا جاۓ گا۔ ہم اپنے ادبی معیار اور سرگر میوں کے باعث اس کے حق دار ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ دنیا بھر کے ادیب شاعر خلیج کے ادب کی قدر شناسی کریں گے اور اسے بطور بڑے ادب کے پہچانیں گے۔ آج کے دن کرہ ارض پر پھلے ہوۓ بزم صدف کے اراکین اور خصوصاّ کویت چیپٹر کے سارے اراکین کو دل کی اتھاہ گہراٸیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے تاریخ رقم کر ڈالی ہے۔
کانفرنس کے صدر صفدر امام قادری نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ اردو سے ہماری نسبت ہمارے لیے باعث افتخار ہے آج کی یہ کانفرنس اردو ادب کی نٸ تاریخ رقم کرے گی۔ دیار غیر میں بسنے والے ہم سب اردو کے پاسبان ہیں۔ اردو ہماری مادری زبان ہے جس کی خدمت کرنا ہمارے لیے سعادت ہے میں بزم صدف کا ادنی سا کارکن ہوں اور آج کی اس یادگا محفل میں اپنی چار کتب کے اجرا پر بزم صدف کا متشکر و ممنون ہوں۔ آج کا موضوع مختصر، اہم اور اپنے اندر عظیم وسعت سمیٹے ہوۓ ہے۔ انھوں نے آج کی کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مقالہ جات کو اہم قرار دیتے ہوۓ کہا کہ تمام مقالہ خوانوں نے پر مغز تحقیقی مقالے پیش کیۓ۔ اس کانفرنس کی اہمیت اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ خلیجی ممالک کے ادبا و شعرا کے مقالوں سے موضوع کی نٸ جہتیں سامنے آٸی ہیں۔ ایک ایسے علاقے میں جو اردو کی بستی نہیں تھا کو اردو شعرا و ادبا نے نہ صرف آباد کیا بلکہ اس ریگزار میں شمعیں جلا کرخوشگوار ماحول پیدا کیا۔ جس کی بدولت آج یہاں تخلیق ہونے والے ادب کو ہندوستان اور پاکستان میں تخلیق ہونے والے ادب سے مماثل کیا جا سکتا ہے اور اسی فرق کو اس کانفرنس نے واضح کیا ہے۔ اردو زبان کے تارکین وطن نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ خلیجی ممالک صرف پٹرول ہی پیدا نہیں کرتے بلکہ یہاں ادب کے سوتے بھی پھوٹتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں یہ بات خوش آٸند ہے کہ ہندوپاک کے بعد خلیجی ممالک میں آباد اردو کی بستیاں زرخیز ہیں وہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں تخلیق ہونے والا ادب ان سے مختلف بھی ہے۔ انھوں نے بزم صدف کے چٸرمین جناب شہاب الدین اور کویت چیپٹر کے عہدیداران اور اراکین سمیت بزم صدف کے تمام کارکنوں کو تاریخی، خوبصورت، معیاری اور یادگار کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔
اس سے قبل ممتاز ادیب جناب ڈاکٹر عامر قدواٸی نے حروف سپاس پیش کرتے ہوۓ کہا کہ اردو ایک زبان نہیں ہے بلکہ ایک منور تہذیب کا نام ہے۔ اردو ہندوستان کی بیٹی ہے جو یہیں پلی بڑھی اور یہیں اس پر شباب آیا۔ اور حسن و اخلاق کی مالکہ بنی کہ جو اس کے قریب آیا اور پھر اسی کا ہو گیا۔ جب بہار میں رنگ برنگے پھول کھلتے ہیں تو اس پر انواع واقسام کے کیڑے شہد کی مکھی اور اڑنے والے پتنگے آ بیٹھتے ہیں۔ یہ ننھے عاشق ایک سے دوسرے پھول پر پہنچتے رہتے ہیں اوراپنے پیروں کے ذریعہ ” پولن گرینز“ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہتے ہیں جس کے سبب فرٹی لاٸی زیشن“ کا عمل وجود میں آتا ہے بالکل اسی طرح اردو پر بھی یہی مثال منطبق ہوٸی۔ حصول روزگار کے لیے نقل مکانی کرنے والے ہند و پاک سے ہجرت کر کے خلیج سمیت دیگر ممالک میں پہنچے اور اردو بھی اپنے ساتھ لے آٸے۔ اس طرح اردو کی نٸی بستیاں وجود میں آٸیں۔ ہجرت ہمیشہ فاٸدہ مند اور با برکت ثابت ہوتی ہے ۔اردو کے پرستاروں نے اس کا خیر مقدم کیا۔اردو نے دیار غیر میں بھی اپنے قدم جماۓ اور نشونما پاٸی۔ آج دنیا کا کوٸی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں اردو بولنے والے نہیں۔ اردو کی تنظیمیں اپنے داٸرہ میں رہتے ہوۓ مصروف عمل ہیں اور اردو کی خدمت میں مشغول ہیں۔جس کے باعث آج اُردو پاٸندہ و تابندہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم باہمی مشاورت اور اشتراک سے اردو کے فروغ کے لیے کام کریں۔
گلیشئر ٹوٹنے پر اومابھارتی کا اظہار افسوس،مودی سرکار کے پاور پروجیکٹ پر تنقید
نئی دہلی:بی جے پی لیڈر اوما بھارتی نے کہا کہ گلیشیر کے ٹوٹنے سے ہونے والا سانحہ تشویشناک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتباہی امر ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بطور وزیر وہ گنگا اور اس کی اہم ندیوں پر پاورپروجیکٹ بنانے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے آفت سے متاثرہ آس پاس کے اضلاع کی عوام کو بھی خدمت کے کاموں میں مشغول ہونے کی اپیل کی۔اوما بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) 1 حکومت میں آبی وسائل اور گنگا تحفظ کی وزیر تھیں۔ ہندی میں ٹویٹس کی ایک سیریز میں انہوں نے کہا کہ گلیشیر ٹوٹنے سے پن بجلی پروجیکٹ کو نقصان پہنچا ہے اور ایک خوفناک سانحہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمالیہ کی بابا سی گنگا ایک تشویش کے ساتھ ساتھ ایک المیہ بھی ہے۔انہوں نے لکھاکہ اس سلسلے میں ہمالیان اتراکھنڈ کے ڈیموں کولے کر میری وزارت کی طرف سے اپنے حلف نامے میں درخواست کی گئی تھی کہ ہمالیہ ایک بہت ہی حساس جگہ ہے، اس لیے گنگا اور اس کی اہم ندیوں پر پن بجلی منصوبہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ان کے فیصلے کے ساتھ ہی بجلی کی فراہمی میں کمی کو قومی گرڈ کے ذریعے بھی پورا کیا جاسکتا تھا۔بھارتی نے بتایا کہ وہ ہفتے کے روز اترکاشی میں تھی اور اب ہریدوار میں ہے۔ اتوار کے روز اتراکھنڈ کے چمولی ضلع کے جوشی مٹھ میں نندا دیوی گلیشیر ٹوٹنے کے سبب دھولی گنگا ندی میں سیلاب آگیا۔ انہوں نے کہاکہ مجھے اس حادثے سے شدید رنج ہے۔ اتراکھنڈ دیوکی زمین ہے۔ وہاں کے لوگ بہت مشکلات سے گذار رہے ہیں اور تبت کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت کے لئے محتاط ہیں، میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان سب کی حفاظت کرے۔ط
واشنگٹن :امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات میں کسی بھی واپسی سے قبل یورینیم افزودگی کے پروگرام کو روکنا ہوگا ۔ رپورٹ کے مطابق بائیڈن نے کہا کہ جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عائد سخت پابندیوں میں وہ کوئی نرمی نہیں کریں گے جبکہ ایران اپنے وعدوں پر قائم نہیں ہے‘۔ امریکی ٹیلی ویژن چینل سی بی ایس کے ساتھ انٹرویو کے دوران جب بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کو مذاکرات کے لیے راضی کرنے کے لیے پابندیاں اٹھائیں گے تو انہوں نے واضح جواب دیا کہ ’نہیں۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایران کو یورینیم کی افزودگی روکنا ہوگی، تو انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ دریں اثناء ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے سے علیحدگی پر ایران کو زر تلافی کی ادائیگی معاہدے کی بحالی کے لیے پیشگی شرط نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران جولائی 2015 میں چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم کو بیس فیصد تک افزودہ کرنا چاہتا ہے جبکہ اس وقت وہ چاراعشاریہ پانچ فیصد تک یورینیم کو افزودہ کررہا ہے۔
ریاض:سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل طلال الشلھوب نے کہا ہے کہ مملکت میں متعلقہ اتھارٹی کے ذریعے سخت اقدامات نافذ کیے جا سکتے ہیں جب تک عوام کرونا ایس او پیز کی پابندی کرتے رہیں گے تب تک کرفیو نہیں لگایا جائے گا۔ یہ فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔پریس بریفنگ کے دوران وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے مقرر حفاظتی تدابیر کی پابندی کی صورت میں کرفیو کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ طلال الشلھوب نے کہا کہ متعلقہ ادارے مملکت بھر میں کرونا کی بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے انتہائی چوکس ہیں۔ترجمان وزار ت داخلہ کا کہنا ہے کہ حفاظتی تدابیر کی خلاف ورزیوں کا تناسب 72 فیصد تک ہو چکا ہے اور یہ خطرے کی علامت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی فورس کے اہلکار کرونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ادھر وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر محمد العبد العالی نے اتوار کو کرونا وائرس کی تازہ صورتحال سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا
تھا کہ ان دنوں سعودی عرب میں کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے اوراس میں 286 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔وزارت صحت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کرونا وبا کے خاتمے کے لیے حفاظتی تدابیر کی پابندی ناگزیر ہے۔سعودی عرب میں کرونا کے نئے کیسز گزشتہ چند دنوں سے مسلسل 300 سے زیادہ سامنے آ رہے ہیں۔ ہفتے کے روز گذشتہ 24 گھنٹے میں کرونا کے 317 نئے مریض سامنے آئے ،جبکہ 278 افراد وائرس سے صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔
راجیہ سبھا میں پی ایم مودی کے نئے تیور،کہا:ملک میں آندولن جیویوں کی نئی پود نمودار ہوئی ہے
نئی دہلی:آج جب وزیر اعظم مودی راجیہ سبھا میں تقریر کررہے تھے تو ان کا انداز ’مختلف ‘تھا۔ اپنی تقریر میں مودی نے کچھ نئی اصطلاح کا بھی ذکر کیا ،’ جیسے کہ آندولن جیوی‘ ، فارن ڈسٹرکٹیوآئیڈیا لوجی، اورجی-23۔ اپنی تقریر میں مودی نے یہ بھی کہا کہ اگر قوم پرست میتھلی شرن زندہ ہوتے ،تو اپنی نظم کس طرح لکھتے۔ علاوہ ازیں پی ایم مودی نے کسانوں کے معاملہ پر حزب اختلاف کوہدفِ تنقید بناتے ہوئے 4 سابق وزرائے اعظم کا بھی حوالہ دیا۔ مودی نے اپنی تقریر میں کہا خود پر تنقید کی بابت کہا کہ ٖمجھے مزا آرہا ہے کہ میں کم از کم آپ کے کام تو آیا۔پی ایم مود ی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم کچھ الفاظ سے متعارف ہیں ، شرم جیو ی، بدھی جیوی ، وغیرہ ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس ملک میں کچھ عرصے سے ایک نیا گروہ بھی پیدا ہوا ہے۔ ایک نئی برادری سامنے آئی ہے’آندولن جیوی ‘ ۔ آپ دیکھیں گے کہ تحریک خواہ وکلا ، طلباء ، مزدوروں کا ہی کیوں نہ ہو ،ہر تحریک میں یہ طبقہ نظر آئے گا ،وہ تحریک کے بغیر نہیں رہ سکتے، ہمیں ان کی شناخت کرنی ہوگی ۔ مودی کے مطابق اس طرح کے لوگ افراد ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں اور نظریاتی موقف اختیار کرتے ہیں، اس سلسلے میں نئے نئے طریقے بتاتے ہیں، وہ اپنی تحریک خود پیدا کرنے سے قاصر ہیں، لیکن اگر کسی کی تحریک جاری ہے تو وہ وہاں جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ مودی نے کہا کہہ ٖملک ترقی کر رہا ہے اور ہم براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی بات کر رہے ہیں ، لیکن ہر بارباہر سے ایک نیا ایف ڈی آئی نظر آتا ہے۔ یہ نیا ایف ڈی آئی ہے ’فارن ڈسٹرکٹیو آئیڈیالوجی‘۔ ہمیں ملک کو اس ایف ڈی آئی سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ مودی کا اشارہ کلائمٹ کارکن گریٹا تھنبرگ سے لے کر پاپ گلوکارہ ریحانہ تک کی غیر ملکی مشہور شخصیات کی طرف تھا، جنہوں نے حالیہ دنوں سوشل میڈیا پوسٹوں کے ذریعہ کسان تحریک کی حمایت کی تھی۔مودی نے کہا کہ کچھ لوگ پنجاب کے ہمارے سکھ بھائیوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،یہ ملک ہر سکھ کے لیے باعث ِ فخر ہے۔انہوں نے ملک کے لیے کیا نہیں کیا؟ گروؤں کی بہت بڑی روایت ہے۔ کچھ لوگ سکھوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔وزیر اعظم نے راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد کی تعریف کی۔ مودی نے کہ شائستگی سے بولتے ہیں ، کبھی بھی سخت الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے جموں و کشمیر میں ہونے والے انتخابات کی تعریف کی، میں اس کے لیے آپ کا مشکور ہوں۔ لیکن مجھے خوف بھی ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کی پارٹی کے ممبران اسے مناسب جذبے سے لیں گے۔ غلطی سے جی 23 کی رائے کو الٹا مت دیں۔خیال رہے کہ یہاں مودی کا جی 23 کااشارہ 23کانگریس قائدین کی طرف تھا جنہوں نے اگست 2020 میں سونیا گاندھی کو ایک خط لکھا تھا ، جس میں کہا گیا تھا کہ پارٹی کو کل وقتی قیادت کی ضرورت ہے۔
وارانسی:بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے ایم ایل اے اور ڈان مختار انصاری کولے کر بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے مابین تنازعہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ بی جے پی پنجاب کی کانگریس حکومت پر انصاری کو بچانے کا الزام عائد کررہی ہے۔ اس تناظر میں بی جے پی کے ممبر اسمبلی ایلکا رائے نے پرینکا گاندھی واڈرا کو متعدد خطوط لکھے ہیں اور ان سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔اس تنازعہ نے اب ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ کانگریس کے لیڈر اجے رائے نے بی جے پی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ حکومت انہیں مناسب سکیورٹی فراہم نہیں کرکے ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہی ہے، کیونکہ مختار انصاری کی زندگی کو شدید خطرہ ہے۔ اجے رائے اپنے بھائی اودھیش رائے کے قتل کا مرکزی گواہ ہے۔ رائے کے مطابق، چونکہ میں قتل کیس میں اصل گواہ ہوں، اس لیے عدالت کے حکم کے مطابق میں نے ایک خط لکھ کر وزیر اعلی سے تحفظ کی درخواست کی لیکن عدالتی حکم کے باوجود میری سیکیورٹی، جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر واپس لی گئی تھی، بحال نہیں کی جاسکی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت مختار انصاری جیسے مافیا ڈان کو تحفظ فراہم کررہی ہے، ان کے خلاف جو بھی کاروائی ہو رہی ہے، یہ محض دکھاوے کی بات ہے۔ رائے نے بتایا کہ عدالت نے وارانسی کے ایس ایس پی کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جو خط وزیر اعلی کو لکھا ہے اس میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ان کی جان کو لاحق خطرے کے پیش نظر میں اس معاملے میں بلا خوف و خطر آگے نہیں بڑھ پایا ہوں۔تاہم رائے نے کانگریس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے ایم ایل اے الکا رائے پرینکا گاندھی کو خط لکھ رہی ہیں، لیکن انہیں یہ سمجھنا چاہیےکہ کانگریس کبھی بھی کسی مافیا کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ اگر مرکز اور ریاستی بی جے پی کی حکومت مختار انصاری کو پنجاب کی جیل سے نہیں لاسکتی ہے، تو یہ ان کی ناکامی ہے۔
ایودھیا:دھنی پور میں مسجد کے لیے مختص اراضی کے مالکانہ حق کولے کردائر درخواست خارج
لکھنؤ:الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے پیر کو ایودھیا کے دھنی پور میں مسجد کی تعمیر کے لیے مختص اراضی کی ملکیت کے لیے دائر درخواست کو خارج کردیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے درخواست واپس لینے کی درخواست کی تھی۔یہ حکم پیر کو جسٹس دیویندر کمار اپادھیائے اور جسٹس منیش کمار کی ڈویژن بنچ نے منظور کیا۔ سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رمیش کمار سنگھ نے اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھنی پور میں مسجد کے لیے مختص کی گئی کھاتہ نمبر (محکمہ آمدنی کے ذریعہ دی گئی) درخواست میں مذکور نمبر سے مختلف ہے اس لئے پٹیشن میں غلط حقائق ہیں اور یہ مسترد ہونے کے لائق ہے۔اس درخواست پر درخواست گزار کے وکیل ایچ جی ایس پریہار نے اپنی غلطی قبول کرتے ہوئے درخواست واپس لینے کی درخواست کی۔ اس پربنچ نے درخواست خارج کردی۔ قابل ذکر ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں دہلی کی دو خواتین، رانی کپور پنجابی اور راما رانی پنجابی نے ایک عرضی داخل کی تھی اور مسجد کے لیے دی گئی پانچ ایکڑ اراضی کو اپنی ملکیت قرار دیا تھا۔
سول سروسز امتحان:عمر کی حد سے متجاوز امیدواروں کوموقع دیاجائے،سپریم کورٹ کامشورہ
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے پیرکے روزیو پی ایس سی سول سروسز پی ٹی کے لیے کوشش کرنے والے امیدواروں کے لیے اضافی مواقع کی درخواست کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہاہے کہ وہ یوپی ایس سی امتحان میں عمر کی حد کو عبور کرنے والے امیدواروں کو موقع دینے پر غور کرے۔عدالت نے کہا ہے کہ وہ یو پی ایس سی کے تمام امیدواروں کو ایک اور موقع دینے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ کیا اس مسئلے کو سخت کرنے کی ضرورت ہے؟ سپریم کورٹ نے کہاہے کہ وبا کی صورتحال غیرمعمولی ہے اور ان امیدواروں میں سے کچھ ضروری خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کچھ اصل معاملات بھی ہیں۔ اس معاملے میں درخواست گزار ہر زمرے کے لیے وقت کی چھوٹ مانگ رہے ہیں۔ مرکز کو اس پر غور کرنا چاہیے کیونکہ اس بارصورتحال غیرمعمولی ہے۔ عدالت اس پالیسی معاملے میں حکومت کو حکم نہیں دینا چاہتی۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے منگل کو اس کے بارے میں بتانے کوکہاہے ۔
نئی دہلی:کیا کسانوں سے تحریک ختم کرنے کی اپیل وزیر اعظم نریندر مودی کے اثرات مرتب ہوں گے؟ اس وقت اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل ہے ، لیکن یہ بات یقینی طور پر ہے کہ جلد ہی گفتگو شروع کرنے کی توقع بڑھ گئی ہے۔ زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے والی کسان تنظیموں نے پیر کو حکومت سے مذاکرات کے اگلے دور کی تاریخ طے کرنے کا مطالبہ کیا۔کسانوں کولفظی یقین دہانی پربھروسہ نہیں ہے۔کیوں کہ ’اب نہ گی مہنگائی کی مار‘،’اب نہ ہوگاناری پروار‘،’جی ایس ٹی کے فوائد‘،’دوکروڑروزگار‘اور’نوٹ بندی کے فوائد‘کاحال ملک دیکھ چکاہے۔دوسری طرف کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت نے کہاہے کہ وزیر اعظم نے آج کہا ہے کہ ایم ایس پی ہے ، اور رہے گی لیکن انہوں نے یہ نہیں کہاہے کہ کم سے کم سپورٹ قیمت پر کوئی قانون بنایا جائے گا، ملک بھروسے پرنہیں چلتاہے۔ملک آئین اور قانون سے چلتاہے ۔
ٹوئیٹ دباؤمیں تونہیں کیاگیا؟مہاراشٹرحکومت سچن ، لتا منگیشکر ،وراٹ کوہلی سمیت اسٹارزکے ٹوئیٹ کی جانچ کرائے گی
ممبئی:مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انیل دیشمکھ نے سچن تندولکر، لتامنگیشکر،وراٹ کوہلی اور دیگر اسٹاروںکے ذریعہ کیے گئے ٹویٹس کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ مہاراشٹرا کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت اس بات کی تحقیقات کرنا چاہتی ہے کہ کیا ان اسٹارز نے مودی حکومت کے دباؤ میں یہ ٹویٹس کیے ہیں؟کانگریس کی شکایت کے بعد مہاراشٹر حکومت نے یہ کارروائی شروع کی ہے۔کانگریس کے وفدنے وزیر داخلہ انیل دیشمکھ سے آن لائن میٹنگ کی ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریحانہ کے ٹویٹ کے بعد سچن تندولکر ، لتا منگیشکر ، وراٹ کوہلی سمیت کئی بڑے ستاروں نے ٹویٹ کیا ۔ان میںبہت سارے الفاظ یکساں تھے۔لہٰذایہ جانچنا بہت ضروری ہے کہ آیا یہ تمام ٹویٹس کسی دباؤ کے تحت کیے گئے یانہیں۔کانگریس نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ ریحانہ کے اس ٹویٹ کے بعد سچن تندولکر ، لتا منگیشکر ، وراٹ کوہلی سمیت بڑے اسٹارزکے ٹویٹس ہیں۔ان میں سے بہت سے مشترک الفاظ ہیں جیسے ۔اسی کے ساتھ ہی ، سائنا نہوال اور اکشے کمار کی ٹویٹ بھی بہت ملتی جلتی ہے۔ ان تمام ٹویٹس کے اوقات اور طرز کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی حکومت کے دباؤ میں ان ستاروں نے ٹویٹ ضرورکیاہوگا۔
نئی دہلی:صدرجمہوریہ ہند رام ناتھ کووندنے سابق صدرجمہوریہ ہندڈاکٹرذاکرحسین کو ان کے یوم پیدائش پر آج راشٹر پتی بھون میں کو خراج عقیدت پیش کیاہے۔صدرجمہوریہ ہند اور راشٹر پتی بھون کے حکام نے ڈاکٹر ذاکر حسین کے پوٹریٹ پرگلہائے عقیدت چڑھاکر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ڈاکٹرذاکرحسین جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں تھے۔وہ علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی کے وائس چانسلراوربہارکے گورنربھی رہے ۔بعدمیں وہ صدرجمہوریہ بنے۔سنیئرکانگریسی لیڈرسلمان خورشیدان کے نواسے ہیں۔
ندا فاضلی ہمارے عہد کے ان شعرا میں ہیں جنھیں یقینا٘ منفرد لب و لہجے کا شاعر کہا جا سکتا ہے ۔ ان کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے ہندی شاعری کے اس آہنگ کو اردو میں کامیابی سے برتا جس کے نمونے ہمیں سنسکرت اور ہندی کے قدیم ادبی سرمایے سے لے کر امیر خسرو اور نظیر اکبرآبادی جیسے شعرا کے یہاں ملتے ہیں ۔ ان کا مطالعہ وسیع بھی تھا اور متنوع بھی ۔ انھوں نے ہندوستان کی مختلف زبانوں اور تہذیبوں کے شعری رویوں کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ اس حوالے سے اردو شعریات کو ایک نئی جہت بھی عطا کی۔ ان کی شاعری میں دیہاتوں کی سادہ زندگی کا عکس بھی ہے اور شہروں کے ناآسودہ اور مادہ پرست معاشرے کا کرب بھی، اسکول جاتے بچے بھی ہیں اور برہ کی ماری عورتیں بھی ۔ انھوں نے جو طرز نکالی ہے اس کی نقل کرنا آسان نہیں ہے کہ یہ ان کی برسہا برس کی ریاضت اور مطالعہ کا ثمرہ ہے ۔ دیکھا جائے تو،آج برصغیر میں ایسے شاعروں کی تعداد نہیں کے برابر ہے جنھوں نے لوک گیتوں ،کہہ مکرنیوں اورکلاسیکی اردو شاعری کے امتزاج سے ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا کیا ہو ۔ندا فاضلی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس میدان میں وہ اشعار کہے ہیں جن میں انفرادیت بھی ہے اور زندگی کی کھری سچائیاں بھی :
شیشے سے دھلا چوکا ، موتی سے چنے برتن
کھلتا ہوا،اک چہرا ، ہنستے ہوئے سو درپن
پیا نہیں جب گاؤں میں
آگ لگے سب گاؤں میں
ان کے جانے کی تاریخ
دنگل تھا تب گاؤں میں
ساجن جنگل پار گئے میں چپ چپ راہ تکوں
بچھیا بیٹھی تھان میں اونگھے کس سے بات کروں
جانے ان بن کیا ہوجاتا ہے میرے جی کو
چوکا باسن کر پاؤں نہ چکی پیس سکوں
نیل گگن میں تیر رہا ہے اجلا اجلا پوراچاند
ماں کی لوری سا ، بچے کے دودھ کٹورے جیسا چاند
پردیسی سونی آنکھوں میں شعلے سے لہراتے ہیں
بھابھی کی چھیڑوں سا بادل آپا کی چٹکی سا چاند
ندا فاضلی نے ان ترقی پسندوں کو بھی قریب سے دیکھا جو آزادی ہند کے بعد بدلے ماحول میں اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہے تھے اور جدیدیت کے ان گل نو شگفتہ کوبھی چھو کر دیکھا جن میں خوشبو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر ان کے تخلیقی ذہن نے ان سب کے درمیان رہ کر بھی اپنی ایک الگ راہ نکالی ۔ایک ایسی راہ جس پر مانوس مناظر تو ہیں ہی راہ بھی نا ہموار اور پرپیچ نہیں ہے:
اکثر پہاڑ سر پہ گرے اور چپ رہے
یوں بھی ہوا کہ پتہ ہلا دل سے ملاقات ہو گئی
گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا
ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا
اسی کا نام ہے نغمہ اسی کا نام غزل
وہ اک سکون جو ہے اضطراب میں شامل
میں نے پوچھا تھا سبب پیڑ کےگر جانے کا
اٹھ کے مالی نےکہا اس کی قلم باقی ہے
جو بھی چاہے وہ بنا لے اسے اپنا جیسا
کسی آئینہ کا ہوتا نہیں چہرا اپنا
دعا سلام ضروری ہے شہر والوں سے
مگر اکیلے میں اپنا بھی احترام کرو
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
ارادہ باندھنے تک میری اپنی ذمہ داری ہے
پھر اس کے بعد جو ہواس پہ پچھتانا نہیں آتا
ماں کی تصویر باپ کی تحریر
اپنی میراث میں لکھو صاحب
چمکتے چاند سے چہروں کے منظر سے نکل آئے
خدا حافظ کہا بوسہ لیا گھر سے نکل آئے
اگر سب سونے والے مرد عورت پاک طینت تھے
تو اتنے جانور کس طرح بستر سے نکل آئے
آنکھیں کہیں نگاہ کہیں دست و پا کہیں
کس سے کہیں کہ ڈھونڈو بہت کھو رہے ہیں ہم
آج ذرا فرصت پائی تھی آج اسے پھر یاد کیا
بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا
داناؤں کی بات نہ مانی کام آئی نادانی ہی
سنا ہوا کو ، پڑھا ندی کو ،موسم کو استاد کہا
باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اڑایا جائے
بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں
یاد آتی ہے چوکا باسن چمٹا پھکنی جیسی ماں
بانس کی کھری کھاٹ کے اوپر ہر آہٹ پر کان دھرے
آدھی سوئی آدھی جاگی تھکی دوپہری جیسی ماں
بانٹ کے اپنا چہرہ ماتھا آنکھیں جانے کہاں گئی
پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں
غزل کے ان اشعار میں جہاں عام فہم اور سادہ سی زبان استعمال کی گئی ہے وہیں جذبات و احساسات کا ایسا سیل بے پناہ بھی ہے جو پورے وجود کو جل تھل کر دے ۔ غزل کے علاوہ ندا نےجو نظمیں گیت اور دوہے لکھے ہیں وہ بھی انھیں کیفیات سے عبارت ہیں ۔ان کا یہ کلام معروف گلوکاروں کے لبوں کی زینت بھی بنا اور اردو اور ہندی رسم الخط کی صورت میں بھی ہمارے آنکھیں روشن کرتا ہے:
سودا لینے ہاٹ میں کیسے جائے نار
چاقو لے کر ہاتھ میں بیٹھا ہے بازار
سنا ہے اپنے گاؤں میں رہا نہ اب وہ نیم
جس کے آگے ماند تھے سارے وید حکیم
ساتوں دن بھگوان کے کیا منگل کیا پیر
جس دن سوئے دیر تک بھوکا رہے فقیر
دروازہ پابند ہے کھڑکی بھی اسہائے
میرے گھر میں دھوپ بھی پچھواڑے سے آئے
ندا فاضلی کی نجی زندگی یا خاندانی حالات پر یہاں گفتگو کا موقع نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ عمر بھر جس ناآسودگی کا شکار رہے اس کا عکس ان کی غزلوں کے اشعار سے بھی نمایاں ہے اور نظموں سے بھی ۔انھوں نے ماں کو موضوع بنا کر بھی بہت سے اشعار کہے ہیں ۔آج ماں کو موضوع سخن بنا کر خوب خوب شاعری ہو رہی ہے مگر اس شاعری میں جذبات کی شدت سے زیادہ مشاعرے کی ضرورت کا تماشا ہے جبکہ ندا کے یہاں ماں کا استعارہ اپنی پوری شدت کے ساتھ آتا ہے ۔ گاؤں دیہات کی وہ ماں جس کے دامن میں اپنا گھر آنگن بھی ہے اور سماج بھی ندا فاضلی کا مرتب کردہ غالباٗ آخری شعری انتخاب جو ” شہر میں گاؤں ” کے نام سے ۲۰۱۲ میں منظر عام پر آیا اس میں چھ شعری مجموعے شامل ہیں ۔ لفظوں کا پل ،مور چال ۔آنکھ اور خواب ،کھویا ہوا ساکچھ ،میرے ساتھ چل اور زندگی کی طرف ۔ ان مجموعوں میں وہ کلام بھی موجود ہے جو قدیم شعرا کے رنگ سے عبارت ہے ۔بلکہ یہاں وہ غزلیں بھی جو اساتذہ کی زمینوں میں کہی گئی ہیں اور وہ بھی جو ساتوں دہائی کی جدیدیت کی نمائندگی کرتی ہیں انھوں نے صوفی شعرا کی زمینوں میں جو غزلیں کہی ہیں ان میں اپنا مخصوص رنگ اس طرح شامل کرلیا ہے کہ لفظ لفظ ہندوستان کی مٹی کی بو باس اور یہاں کی فضا سے مہک رہا ہے ۔ان کی شاعری میں زمینی سچائیاں بھی ہیں اور بشر دوستی کے احساسات بھی اور جیسا کہ "زندگہ کی طرف” کے مبصر نے لکھا ہے کہ "غیر شعری زبان میں شعریت پیدا کرکے ندا نے اس وراثت کی بازیافت کی ہے جو لسانی ارتقا کی پر پیچ راہوں میں کہیں چھوٹ گئی تھی ۔”
ندا نے متذکرہ مجموعہ جسے اب کلیات کہنا ہی مناسب ہے اس کا مسودہ جب پبلشر نے ندا کو دکھایا تو ندا نے بقول سکندر مرزا اس میں سے اپنے گھر کا پتہ یہ کہہ کر کاٹ دیا کہ میرا پتہ میری شاعری ہی ہے ۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ ندا کا اینٹ گارے کا مکاں تو نہ جانے کس کے قبضہ میں ہو، لیکن ان کا کلام اہل ذوق کے ذہنوں اور دلوں میں گھر کئے ہوئے ہے، کہ یہی کسی شاعر کی بقا کا ضامن بھی ہے اور اس کا پتہ بھی:
تم یہ کیسے جدا ہو گئے
ہر طرف ہر جگہ ہو گئے
نکاح ایک سماجی عمل ہے ۔ نسلِ انسانی کے تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ مرد اور عورت کی یکجائی سے خاندان وجود میں آئے ۔ ان کے درمیان جنسی اتصال سے توالد وتناسل کا سلسلہ جاری رہے ، دونوں مل کر صحیح خطوط پر اولاد کی پرورش و پرداخت کریں اور اسے زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائیں ۔ اس طرح تمدن کی ترقی ہو اور صالح معاشرہ وجود میں آئے ۔ نکاح انسانوں کی بنیادی ضرورت اور فطری تقاضا ہے ۔ جس طرح بھوک مٹانے کے لیے کھانا پینا ، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے پہننا اور رہائش اختیار کرنے کے لیے گھر بنانا ہر انسان کا فطری داعیہ ہے ، اسی طرح بلوغ کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد نکاح کرنا بھی انسانی زندگی کا لازمہ ہے ۔ تاریخ میں ایسے ادوار بھی گزرے ہیں جب رہبانیت یعنی جنسی تعلق سے اجتناب کو انسانیت کو معراج اور اس کی نجات و فلاح کا ذریعہ قرار دیا گیا اور انسانیت کو وہ دن بھی دیکھنا پڑا جب اباحیت اور جنسی آزادی کی وکالت کی گئی ، یا بغیر نکاح کے مرد و عورت کے ایک ساتھ رہنے اور جنسی خواہش پوری کر لینے کے فوائد گنائے جانے لگے ، لیکن انسانوں کی اکثریت نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا اور ان کے درمیان نکاح کو ایک مستقل ادارہ (Institution) کی حیثیت حاصل رہی ۔
اسلام نے نکاح کو محض ایک سماجی ضرورت کی حیثیت نہیں دی ، بلکہ اسے عبادت کا درجہ دیا ہے ۔ اس کے نزدیک اس سے صرف جسمانی تسکین اور نفسانی خواہش کی تکمیل ہی نہیں ہوتی ، بلکہ انسان اللہ تعالیٰ کی خوش نودی سے بھی بہرہ ور ہوتا ہے ۔ نکاح کو وہ عفت و پاک دامنی کے حصول کا یقینی ذریعہ اور بے حیائی و بے راہ روی پر روک لگانے کا مؤثر ہتھیار قرار دیتا ہے ۔ اللہ کے رسو ل ﷺنے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا : ”اے نوجوانو کے گروہ ! تم میں سے جو نکاح کے مصارف برداشت کر سکتا اور اس کی ذمے داریاں اٹھا سکتا ہو اسے ضرور نکاح کر لینا چاہیے ۔ اس لیے کہ یہ نگاہوں کی پاکیزگی اور شرم گاہ کی حفاظت میں بہت کارگر ہے۔ (بخاری:1905، مسلم:1400)اسلام کی روٗ سے انسان نکاح کرکے دین کے اہم مطالبات پر عمل کرنے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے : ”جب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا نصف ایمان مکمل کر لیتا ہے ۔“ (بیہقی فی شعب الایمان: 5486)
اسلام نکاح کو رواج دینا اور اس کے لیے سہولیات فراہم کرنا پورے سماج کی ذمے داری قرار دیتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ سماج کا کوئی بھی فرد چاہے مرد ہو یا عورت ، اگر اسے نکاح کی ضرورت ہو اور وہ اس کی خواہش رکھتا ہو توجلد از جلد اس کی ضرورت پوری کی جائے اور اس راہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے ۔ قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے :” تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کرادو ۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا ۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔“ (النور: 23)
اس آیت میں ’ایامیٰ‘ کا لفظ آیا ہے ، جس کا واحد ’ایّم‘ ہے ۔ اس کا اطلاق ہر اس مرد یا عورت پر ہوتا ہے جو بغیر جوڑے کے ہو ۔ کوئی نوجوان ، جس کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو ، کوئی مرد جس کی بیوی کا انتقال ہو گیا ہو ، یا اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہو ، یا بیوی نے خلع کے ذریعے اس سے علیٰحدگی حاصل کرلی ہو ، کوئی لڑکی جس کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو ، کوئی عورت جو مطلقہ ہو یا بیوہ ہوگئی ہو ، سب اس میں شامل ہیں ۔ قرآن ان سب کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ انھیں بے جوڑے کے نہ رہنے دیا جائے ، بلکہ ان کے نکاح کا انتظام کیا جائے ۔ زمانۂ نزولِ قرآن میں غلام اور لونڈیاں بنیادی انسانی حقوق سے محروم تھے ، ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا اور ان کے فطرتی انسانی تقاضوں سے غفلت برتی جاتی تھی ۔ ان کے بارے میں بھی حکم دیا گیا کہ ان میں سے جن کے بارے میں توقع ہو کہ وہ نکاح کا بار اٹھا سکتے اور اس کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں ، انھیں نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جائے ۔ خانگی زندگی مصارف کا تقاضا کرتی ہے ، نکاح کے بعد بیوی کا نان و نفقہ ، رہائش کے انتظامات ، بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی پرورش کے اخراجات کا انتظام شوہر کے ذمے ہوتا ہے ۔ اس بنا پر لڑکوں یا ان کے سرپرستوں کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ جب تک انھیں مالی آسودگی نہ ہوجائے ، وہ کمانے نہ لگیں ، یا اچھی ملازمت نہ مل جائے اس وقت تک نکاح نہ کریں ۔ اسی طرح لڑکیوں کے سرپرست سوچ سکتے ہیں کہ جب تک کسی دولت مند گھرانے سے رشتہ نہ آئے وہ انھیں بٹھائے رکھیں اور ان کا نکاح نہ کریں ۔ اس لیے تنبیہ کی گئی کہ مالی آسودگی کے انتظارمیں نکاح میں تاخیر نہ کی جائے ، بلکہ وقت آجانے پر جلد نکاح سے فارغ ہوجائیں ۔
اسلام میں نکاح کو بہت آسان طریقے سے اور سادگی کے ساتھ انجام دینے کی تلقین کی گئی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے : ” بہترین نکاح وہ ہے جو بہت آسانی سے انجام پائے۔“ (صحیح الجامع:3300) آپؐ نے تلقین و ترغیب کے ساتھ ایسے عملی اقدامات بھی کیے جن سے آسان نکاح کو فروغ ملا ۔ کتبِ حدیث و سیرت میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن میں آپؐ نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا بہت سادگی سے نکاح کردیا ۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ آپؐ ایک مجلس میں موجود تھے ۔ ایک عورت آئی اور اس نے نکاح کی خواہش ظاہر کی ۔ اس مجلس میں موجود ایک نوجوان نے رضا مندی کا اظہار کیا کہ میں اس سے نکاح کر سکتا ہوں ۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: ”تمہارے پاس مہر دینے کے لیے کچھ ہے؟ اس نے جواب دیا : کچھ نہیں ہے ۔اس کے باوجود آپؐ نے دونوں کا نکاح کر دیا اور نوجوان سے فرمایا : تمھیں جو قرآن یاد ہے وہ اسے بھی یاد کرادو ۔ یہی اس کا مہر ہے۔ (بخاری: 5030، مسلم: 1425)
اسلام میں نکاح کے انعقاد کو بہت آسان رکھا گیا ہے ۔ دو گواہوں کی موجودگی میں کسی ایک طرف سے ایجاب یعنی نکاح کی پیش کش ہو اور دوسرا اسے قبول کرلے ، بس نکاح ہوگیا ۔ مہر عورت کی عزت افزائی کا اظہار ہے۔ اس لیے نکاح کے موقع پر مہر طے کرنے اور اسی وقت یا جلد از جلد ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ لیکن بہت زیادہ مہر طے کرنے کو پسند نہیں کیا گیا ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : ”لوگو ! خبردار ! عورتوں کے مہر بہت زیادہ نہ باندھو ۔ اس لیے کہ اگر مہر کی زیادتی کسی دنیاوی یا دینی فضیلت کی بات ہوتی تو نبی ﷺ ایسا ضرور کرتے ، جب کہ آپؐ کی بیویوں اور آپؐ کی بیٹیوں میں سے کسی کا مہر بارہ (12) اوقیہ سے زیادہ نہ تھا ۔ (ابو داؤد: 2106، ترمذی:1114) نکاح کے بعد ولیمہ خوشی کا اظہار ہے ۔ اسے مسنون کہا گیا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے خود بھی اپنے ہر نکاح کے بعد ولیمہ کیا ہے اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی ترغیب دی ہے ، لیکن اس میں فضول خرچی ، نام ونمود اور دکھاوا سے منع کیا گیا ہے ۔ آپؐ کے بعض نکاح ایسے ہوئے کہ صحابہ اپنے اپنے گھر سے کھانے کی چیزیں لے آئے ، انھیں اجتماعی طور پر بیٹھ کر کھا لیا گیا ، بس ولیمہ ہوگیا ۔
ایک طرف نکاح کو سادہ بنانے اور آسانی سے منعقد کرنے کی یہ تعلیمات ہیں ، دوسری طرف مسلم معاشرہ میں اسے بہت مشکل بنا دیا گیا ہے اور اتنی مسرفانہ رسوم اس سے جوڑ دی گئی ہیں کہ ایک غریب اور متوسط آمدنی والا شخص جلد اس کی ہمّت نہیں کر پاتا ۔ لڑکی کی پیدائش پر اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے ۔ اس لیے کہ اسی وقت سے اسے اس کے لیے جہیز اکٹھا کرنے کی فکر ستانے لگتی ہے ۔ جہیز سراسر ہندوانہ رسم ہے ، اس لیے کہ ہندو مذہب میں لڑکیوں کو وراثت کا مستحق نہیں قرار دیا گیا ہے ۔ اس لیے شادی کے وقت ہی انھیں کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا جاتا ہے ۔ یہی چیز مسلم سماج میں بھی در آئی ہے ۔ چنانچہ مسلمانوں میں بھی عورتوں (لڑکیوں اور بہنوں)کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا ، اس کے بجائے جہیز کا لین دین بڑے پیمانے پر ہونے لگا ہے ۔ منگنی کی رسم بہت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے ۔ اس موقع پر بھی خوب لین دین ہوتاہے اور دعوتیں کی جاتی ہیں ۔ اسے ’چھوٹی شادی‘ کی حیثیت دے دی گئی ہے ۔ حالاں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے منگنی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ شادی دھوم دھام سے کرنے کے لیے ضروری سمجھ لیا گیا ہے کہ دولہا کے ساتھ بارات ہو ۔ چنانچہ سینکڑوں کی تعداد میں باراتی جلوس کی شکل میں لڑکی کے گھر جاتے ہیں اور لڑکی کے گھر والے ان کی ضیافت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اگر ان کی ضیافت میں ذرا بھی کوتاہی ہوجائے اور پکوانوں کے آئٹمس کچھ کم رہ جائیں تو سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہیں ، یہاں تک کہ بسا اوقات نوبت رشتہ ختم ہونے تک پہنچ جاتی ہے ۔
شادی کی ان مسرفانہ رسوم نے مسلم سماج میں بھی نکاح کو مشکل بنا دیا ہے ۔ اس بنا پر بہت سی لڑکیاں بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ان کے نکاح نہیں ہوپاتے ۔ اس چیز نے مسلم معاشرہ میں برائی کے دروازے کھول دیے ہیں ۔ مایوسی کا شکار ہوکر بعض لڑکیاں یا ان کے سرپرست خود کشی تک کر بیٹھتے ہیں ۔ بہت سی لڑکیاں ارتداد کی راہ پر چل پڑتی ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے لڑکے ان کے رابطے میں آتے ہیں تو ان سے شادی کر لیتی ہیں ۔
خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا ایک منصب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ”آپؐ لوگوں سے وہ بوجھ اتارتے ہیں جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتے ہیں جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ۔“(الأعراف :157)افسوس کہ مسلم سماج نے اپنی مرضی اور پسندسے نکاح کے سلسلے میں بہت سے بوجھ اپنے اوپر لاد لیے ہیں اور بہت سی بندشوں میں خود کو جکڑ رکھا ہے ۔ ضرورت ہے کہ ملّت کے باشعور اور سنجیدہ لوگ آگے بڑھیں اور ملّت کو ان مسرفانہ رسوم سے نجات دلانے کی کوشش کریں ۔
[ شائع شدہ : ہفت روزہ دعوت نئی دہلی ، خصوصی شمارہ ‘مضبوط خاندان ، مضبوط سماج’ ،فروری 2021 ]
ایک مسلمان خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مبارک کتاب قرآن مجید کے حوالے سے اس کی سب سے بڑی تمنا اور آرزو یہ ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس کتاب سے جڑ جائے اور اسے یاد کرنے اور سمجھنے والی ہو اور وہ اسے اپنے لئے بہت بڑا اعزاز تصور کرتا ہے۔
وہ جس قسم کی بھی پر مشقت زندگی گزار رہا ہو ،اس سے کئی گنابہتر اور شاندار زندگی کا تصور اپنی اولاد کے لئے سجاتا ہے ۔اسے اپنی ہر محرومی پر صبر آجاتا ہے ،کیونکہ اسے اپنی بے مائیگی ،بے سرو سامانی کی حقیقت سے زیادہ کتاب اللہ کے معجزات پر یقین ہوتا ہے ۔
یہ یقین اس کے اوپر اوپر نہیں بہہ رہا ہوتا ہے بلکہ اس کی ذات میں اپنی جڑوں سمیت پیوست ہوتا ہے یہ قول ’’علم ولدک القرآن سیعلمہ القرآن کل شیٔ‘‘( اپنی اولاد کو قرآن سیکھادو ،قرآن اسے بقیہ علوم سکھا دے گا ) اس کے لئے راہ کاسنگ میل ثابت ہوگا ۔وہ جانتا ہے کہ یہ واحد علم ان کے بچوں پر علوم و فنون کے اور بھی بہت سے دروازے کھول دے گا ۔
اور دنیا و آخرت کی زندگی میں فلاح کی راہ کو تلاش کرنے والے کے پاس یہی وہ علم ہے جو اسے فائزالمرامی تک پہنچائے گا۔
قرآن کریم دنیا کی Best Sellerکتابوں میں سے ہے،دنیا کے ہر خطہ میں جہاں کہیں بھی مسلمان اپنی اقلیت و اکثریت کے ساتھ موجود ہیں ،یہ کتاب وہاں نہ صرف پڑھی پڑھائی جاتی ہے بلکہ یاد بھی کی جاتی ہے ۔دنیا بھر میں 13ملین مسلمان یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ کم و بیش حافظ قرآن ہیں ،اور اس مقدس کتاب کو اپنے سینوں میں اٹھائے ہوئے ہیں ۔اللہ کا یہ کلام نبی کریم ﷺ کوعطا کئے گئے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ہے ۔اس کتاب کروڑوں سینوں میں محفوظ ہونا ہی اللہ کی قدرت کاملہ کا ایک عظیم الشان مظہر ہے ،اور کتاب الٰہی کے منزل من اللہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔
اتنے فیوض و برکات کے باوجود ساتھ ہی ایک کڑوی حقیقت یہ ہے کہ اس عظیم الشان کتاب کو کما حقہ اٹھایا نہیں گیا ۔اہل قرآن نے کماحقہ اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا۔جس کی وجہ سے آج قرآن کریم سیکھنے سکھانے جیسا بابرکت عمل اپنی اصل خوبصورتی اور برکات سے محروم ہوگیا ہے ۔اسی ضمن میں ایک اہم مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آخر بچے قرآن سیکھنے میں تردد کیوں کرتے ہیں ،اور اسے سیکھنے یا یاد کرنے کے بعد اس کے اثرات اس کی زندگی پر دکھائی کیوں نہیں پڑتے ؟والدین ،سرپرست یا اساتذہ کی طرف سے بار بار ایسی شکایتیں اور مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان شاء اللہ ہم آئندہ سطور میں ان اسباب و عوامل پر غور کریں گے ۔
(۱) والدین کی اپنی منصوبہ بندی : والدین اگر اپنے بچے کو قرآنی تعلیمات سے آراستہ کرنا چاہتے ہوں تو اس بات کی تیاری زوجین کو اسی وقت سے شروع کردینی چاہئے جب وہ ایک دوسرے کا انتخاب کر رہے ہوں ۔
جی ہاں !! کیونکہ اگر شریک سفر نیک ہوگا ؍ ہوگی تو یقینی طور پر وہ خود بحیثیت مومن اللہ اور اس کی کتاب مقدس سے جڑا ہوا ہوگا ؍ جڑی ہوئی ہوگی ۔اس کی زندگی کا نصب العین ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضامندی کا حصول ہوگا ۔اور نیک والدین یقیناًاپنی اولاد کا تعلق بھی اللہ اور اس کی کتاب حکیم سے ضرور جوڑیں گے ۔
پھر اولاد آجانے کے بعد اس کی پرورش کے آغاز ہی میں والدین اپنے عزم و ارادہ کو اس بات پر پختہ کرلیں کہ انہیں ہر صورت اپنی اولاد کو قرآن مجید کے لئے وقف کرنا ہے ،جس کی تکمیل کی خاطر وہ اپنا وقت مال اور توجہ سب کچھ وقف کرنے کو پوری طرح سے تیار ہیں قرآن مجید کا حفظ کرنا یا اس کی تفسیر کا سیکھنا ،یہ ایک لمبا اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ،جس کے لئے عزم محکم ،مضبوط قوت ارادی ،صبر و برداشت ،حکمت و تحمل اور جہد مسلسل کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔لہٰذا یہ امر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ خواہشمند والدین اپنے ارادہ میں استقلال رکھنے والے ہوں اور عجلت پسند اور جذباتی نہ ہوں ۔
والدین کی منصوبہ سازی میں کرنے کا دوسرا کام یہ ہے کہ ان کے سامنے ان کا مقصد صاف ہو یوں نہ ہو کہ بچے کے بڑے ہونے تک والدین اس کی کیریئر منصوبہ بندی کو ہر دو مہینے پر بناتے رہیں ۔والدین کے پاس ان کا اپنا ایک مضبوط و مطلوب اور مثالی ویژن ہو کہ وہ کیوں اپنے بچے کو قرآن سے جوڑنا چاہتے ہیں ؟اسے حافظ قرآن یا عالم دین کیوں بنانا چاہتے ہیں ؟اور جب یہ جواب آئے تو یہ جواب روایتی نہ ہو مثلاً والدین کہیں کہ !!!ہم مسلمان ہیں اور ہر مسلمان کو قرآن پڑھنا چاہئے،اس لئے ہم بھی قرآن پڑھانا چاہتے ہیں ۔
یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ کسی کو دیکھ کر اپنے بچے کو عالم یا حافظ بنانا خاندانی روایت کی وجہ سے یا پھر اولاد کی چاہت میں نذر ومنت کے طور پر بچے کو اللہ کی راہ قرآن سیکھنے کے لئے وقف کرنا،اپنے تعارف کو مزید وسعت دینے کی خاطر بچے کا استعمال کرنا تاکہ لوگ آپ کو حافظ قرآن کے والدین سمجھیں، یا پھرایسی کسی شرمناک وجہ کے ساتھ بچہ کو قرآن سے جوڑنا مثلاً ’’یہ کانوینٹ یا انگلش میڈیم میں نہیں چلا ،اس لئے حافظ جی کے پاس بٹھانا چاہتے ہیں ‘‘۔
ایسی ساری نیتوں کا شمار مخلصانہ عزم و ارادہ میں نہیں ہوتا ،لہٰذا اس کے اثرات بھی دیرپا اور نتائج بخش ثابت نہیں ہوسکتے ۔والدین خود کو جانچیں گر اوپر دی گئی وجوہات میں سے آپ کے پاس ایک بھی وجہ ہے تو یہ آپ کے مقاصد کی بنیادی اور سب سے بڑی غلطی ہوگی ،جیسے تیسے گر بچے نے قرآن مکمل کر بھی لیا تو بھی یہ ایسے ارادے سے ایک سچا جانشین قرآن کبھی تیار نہیں کیا جا سکتا ،والدین کے پاس ایسے کمزور اور سطحی ارادوں کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا عزائم موجود ہونے چاہئے۔مثلاً یہ کہ والدین کہیں کہ ’’ہم اپنے بچے کو قرآن مقدس سے اس طور جوڑنا چاہتے ہیں کہ بچہ کا قرآن مقدس سے لفظی ،معنوی اور روحانی رشتہ قائم ہوسکے۔اس کتاب کے معجزاتی اثرات نہ صرف بچے کے ظاہر کو متاثر کریں بلکہ قرآن کریم کی تاثیر اس پر اور اس کے ساتھ پوری دنیا کو متاثر کرنے والی ہو۔
(۲) اللہ کی معرفت : جس کام پر ہم اپنا وقت،پیسہ اور طاقت صرف کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ پہلے اس کام کو کرنے کے لئے ہمارے پاس بہت ٹھوس وجہ اور ویژن ہونا چاہئے ۔
قرآن کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس کتاب کو سیکھنے کے لئے وہ بڑی وجہ ہمارے پاس ضرور ہونی چاہئے ،جو ہمیں اس کام کی رغبت دلا تی ہو ۔لہٰذا والدین پر ضروری ہے کہ اس عظیم مشن میں بچے کو صرف یہ کہہ کر قرآن مجید نہیں تھما دینا ہے کہ اسے پڑھو اور پڑھتے جائو ،کیونکہ اس کے پڑھنے سے ثواب ملتا ہے ۔ نیکیاں ملتی ہیں ، بلکہ یہاں پہلا اسٹیپ یہ ہوگا کہ بچے کے دل و دماغ میں جس ہستی نے اس کتاب کو نازل کیا اور بنایا ہے یعنی اللہ رب العزت کی معرفت ،اس کی موجودگی اور قدرتوں کا یقین پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔جس کی خاطر اسے توحید کا مفہوم بہت ہی آسان لفظوں میں لیکن پورے وثوق کے ساتھ سمجھایا جائے ،پھر اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا تعارف بھی دیا جائے ،نفسیاتی طور پر بچے کو اندرسے مضبوط کیا جائے۔بچے کو ہمہ وقت یہ احساس ہو کہ اس کے والدین اور اساتذہ کی غیر موجودگی میں بھی کوئی ذات ہے جو مسلسل اس کے ساتھ ہے ،جو ان لوگوں سے کہیں زیادہ بڑی،طاقتور،باخبر اور بے انتہاء محبت کرنے والی ہے ۔
اوریہ ذہن سازی ان شاء اللہ بہت ہی مفید ثابت ہوگی۔ایک طرح سے یہ بچے کے دل و دماغ پر اللہ کی محبت اور اس کی سلطنت قائم کرنے جیسا ہے گر ایک بار بچہ اللہ کی معرفت سے سرفراز ہو جاتا ہے تو پھر ان شاء اللہ اس کے لئے اللہ کے کلام کو سیکھنا ،سکھانا اور اس پر عمل کرنا بھی بہت آسان ہو جائیگا ۔قرآن سیکھنے کے لئے ان شاء اللہ اس کے پاس سب سے بڑی وجہ اللہ کی محبت ہوگی جس کے حصول کی خاطر وہ بلا رکے،بلا تھکے اس راہ میں اپنی منزل کو بڑھتا چلا جائیگا ۔
یہ حدیث ہمارے لئے زبر دست گائیڈ لائن فراہم کرتی ہے جب اللہ کے رسول ﷺ نے سواری پر اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے دس سالہ عبد اللہ سے فرمایا کہ اے عبد اللہ
(یا غلام انی اعلمک کلمات: احفظ اللہ یحفظک،احفظ اللہ تجدہ تجاھک ،اذا سألت فاسأل اللہ ،و اذا استعنت فاستعن باللہ،واعلم ان الامۃ لو اجتمعت علی ان ینفعوک بشیٔ، لم ینفعوک الا بشیٔ قد کتبہ اللہ لک، و ان اجتمعواعلیٰ ان یضروک بشیٔ، لم یضروک الا بشی ٔ قد کتبہ اللہ علیک،رفعت الاقلام و جفت الصحف ( رواہ الترمذی ، و قال: حدیث حسن صحیح)
ترجمہ: ابو العباس عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں :میں ایک روز رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھا، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے لڑکے ! میں تجھے چند باتوں کی تعلیم دیتا ہوں :تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر ،اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا۔تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر ،ہمیشہ تو اسے اپنے سامنے پائے گا ۔جب بھی کچھ مانگنا ہو ،اللہ تعالیٰ سے مانگ،اور جب بھی مدد طلب کرنی ہو، اللہ تعالیٰ سے طلب کر۔اچھی طرح جان لے اگر ساری امت جمع ہوکر تجھے کوئی فائدہ پہونچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے کے سوا کوئی فائدہ نہیں پہونچا سکتا ۔اور اگر ساری امت اکٹھی ہو کر تیرا کوئی نقصان کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے نوشتہ ٔتقدیر کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتی ۔قلم اٹھا لئے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بچوں کو امور عقیدہ کی تعلیم دینی چاہئے۔بلکہ کہ عقیدہ کی جو اہمیت کتاب و سنت سے اجاگر ہوتی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تعلیم دین میں اسی سے آغاز کیا جائے ۔چونکہ ابتدائی تعلیم بچے کے دل و دماغ پر نقش ہوجاتی ہیں اور ہمیشہ یاد بھی رہتی ہیں ،لہٰذا صغر سنی ہی سے عقیدہ کی تعلیم دینا انتہائی نافع ثابت ہوگی ۔
یہ حدیث نصیحت کے ایک خیر خواہانہ اور ناصحانہ اسلوب کا شاہکار ہے ۔ آپ ﷺ نے فوراً نصیحت شروع کرنے کے بجائے پہلے (یا غلام انی اعلمک کلمات )کہہ کر ان کی توجہ اپنی جانب مبذول فرمائی ،پھر نصیحت شروع فرمائی۔
ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ بچوں کی ذہن سازی پہلے کی جائے،پھر انہیں کچھ سیکھنے پر آمادہ کیا جائے ۔
(۳) قرآن کی معرفت :بچے کو قرآن کریم کی عظمت سے واقفیت دلائی جائی ، جس کے لئے بچے کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے اسے نکیوں ،اجر و ثواب سے متعارف کروایا جائے۔اس کے معصوم دل و دماغ کو بھاری بھرکم جملوں کے بجائے آسان فہم زبان میں بات کی جائے ۔ایسی مثالوں کا انتخاب کیا جائے جس سے بچے اجر وثواب کے کانسیٹ کو سمجھ پائیں ۔
قرآن کریم پڑھنے پر آمادہ کرنے کے لئے جبر کی بجائے محبت اور شوق دلانے سے کام لینا چاہئے۔
امام ابن عثمین ؒ کہتے ہیں :ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو احکام سکھاتے ہوئے ساتھ ان کے دلائل بھی بتائے جائیں ۔آپ ایسا کریں گے تو اس کے دو فائدے ہوں گے۔
پہلا: بچے کو دلائل کے ساتھ بات کرنے اور ماننے کی عادت پڑ جائے گی ۔
دوسرا: اسے اللہ کی اور نبی ﷺ کی ذات سے محبت ہوگی ۔
کیوں کہ نبی کریم ﷺ ہی قابل اتباع امام ہیں ۔کہ جن کی ہر کام میں پیروی کرنی ضروری ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس بات سے غافل ہے ،لوگ اپنے بچوں کی احکام کی تعلیم دیتے ہیں،لیکن اس تعلیم کو دلائل کے مصدر سے مربوط نہیں کرتے جو کہ کتاب و سنت ہے ۔ القول الفید علیٰ کتاب التوحید 2/243
بچے کو قرآنی فضائل اور اس کی برکات سمجھانی چاہئے ،جس کے لئے صرف زبانی کام نہیں ہو بلکہ ان چیزوں کا ادراک کرایا جائے جسے رب اعلیٰ نے ہم پر بطور احسان عطا کیا ہے ۔
بچہ جب بھی سوال کرے کہ ہم اس کتاب کو کیوں پڑھتے ہیں اور اسے پڑھنے سے کیا ہوگا؟ تو آپ اسے بتلائیں کہ اس کے ہر حرف کے پڑھنے پر ایک نیکی ملتی ہے تو سوچو!!!!! جس نے مکمل قرآن اپنے سینے میں محفوظ کرلیا وہ انسان کتنا با سعادت ہوگا ۔اللہ عزو جل کے یہاں اس کا درجہ کس قدر بلند ہوگا۔
اسی طرح نیک کام کرنے پر اجر و ثواب پانے والی بات کو سمجھانے کے لئے پریکٹکلی یہ کیا جا سکتا ہے کہ بچے سے اس کی ذاتی کوئی بھی معمولی چیز کچھ سکنڈ کوعاریتاً مانگیں،اور جب بچہ اپنی چیز آپ کے حوالے کردے تب اس کے بدلے اسے چاکلیٹ؍بسکٹ یا کھلونے دیں ،پھر ساتھ ہی سمجھائیں کہ جس طرح تمہاری ایک معمولی چیز کے بدلے میں تمہیں یہ دس چاکلیٹ ملی ہیں ،اجر و ثواب کامعاملہ بھی اللہ کے پاس ایسا ہی ہے ۔قرآن پڑھنے کے عوض صرف ایک حرف کے بدلے وہ اپنی دس دس نیکیاں تمہارے نام لکھتا ہے۔
بچے یونہی خالی خولی اجر وثواب ،خیر و برکت کو نہیں سمجھ سکتے بحیثیت ذمہ دار والدین اور اساتذہ ہمیں انہیں سمجھانے کے لئے مختلف طریقوں
کااستعمال کرنا چاہئے ،اسی ضمن میں انہیں اجر و ثواب کی کیفیت اور اس کی صورت سمجھانے کو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ بیٹا !!!! تمہارے والدین ،تمہارا گھر ،کھلونے ، کپڑے سب اللہ کی طرف سے ہے ۔اور تمہارے لئے یہی اجر و ثواب ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ گاہے بگاہے خوش ہوکر تم کو اپنی نعمتیں دیتا رہتا ہے اور مزید بھی دے گا۔
بچوں کی طبیعت فطرتاً متجسس،متحرک اور دفاعی ہوتی ہے۔اس فطرت کے تحت بھی بچوں کو قرآن کریم کی تاثیر سمجھائی اور محسوس بھی کرائی جا سکتی ہے ۔چونکہ بچے غیر مرئی مخلوق جن و شیاطین کی باتوں میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں ،ان کی باتوں اور قصے ،کہانیوں کو بچے بڑے اشتیاق سے سنتے ہیں۔تخیلاتی طور پر ان سے لڑنا ،انہیں شکست دینا بچوں کے لئے بہت دلچسپ کھیل ہوتا ہے۔جس کی خاطر وہ اکثر الٹے سیدھے منتر پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،اور یہ کلمات مہمل ہونے کے ساتھ بسا اوقات شرکیہ بھی ہوتے ہیں ۔
کیا ہی خو ب ہو کہ بچوں کو آیت الکرسی کے فضائل سمجھائے جائیں کہ اس سورۃ کو پڑھنے کا فائدہ ا نکی دلچسپیوں سے خاصامتعلق ہے۔بچے بڑے ہی خوش ہو کر اس سورۃ کا اہتمام کرتے ہیں ،جب انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ سورت جن و شیاطین کو بھگانے والی ہے،اور آگ،چوری اور ڈکیتی سے محفوظ کرنے والی ہے۔
اسی طرح سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات کو یاد کرنے کی فضیلت بتلانا (فتنہ ٔ دجال سے حفاظت)اور بچوں کو اس کے حفظ پر ابھارنے کی ایک عمدہ کوشش ثابت ہوسکتی ہے ۔بچوں کے لئے دجال بھی ایک سسپنس ہے ۔وہ بہت پر جوش ہوکر اس کے متعلق احادیث سنتے ہیں ۔
معوذتین کی اہمیت بتلاتے ہوئے بچوں کو قرآنی آیات کی طاقت کا احساس دلانا چاہئے کہ یہ چھوٹی سی سورتیں اپنے اندر کیسی ناقابل تسخیر قوت رکھنے والی ہیں ،آپ نہ صرف اسے یاد کریں بلکہ صبح و شام اسے اپنے آپ پردم کرکے اپنی حفاظت کا اہتمام خود کریں ۔
خلاصہ کلام یہ کہ بچوں کو محض زبانی چیخ و پکار ،جبر و تشدد سے قرآن کریم کے سیکھنے کی طرف رغبت نہیں دلائی جا سکتی ،یہ طریقہ کار ہر گز بھی مفید اور مؤثر نہیں ہو سکتا ۔
قرآن کریم سے بچے کا مضبوط تعلق بنانے کی خاطر اسے قرآن سے محبت کا عادی بنانا شرط اول ہے ،وہ جو بھی سیکھے کم یا زیادہ کلام اللہ کے ہر ہر لفظ سے اس کا رشتہ رسمی نہ ہو بلکہ قلبی، روحانی اور جذباتی بھی ہو۔اسے سمجھایا جائے کہ اس کتاب کا نام قرآن کریم اس لئے ہے کہ یہ عزت و تکریم تقسیم کرنے والی کتاب ہے،جو اس کتاب کا ہوگیا یہ کتاب اس کے لئے کافی ہوگی ،جیسے (ان اللہ یرفع بہٰذا الکتاب اقواماً و یضع بہ آخرین ) ( صحیح مسلم ،صلاۃ المسافرین،باب فضل من یقوم بالقرآن و یعلمہ ۔۔۔۔الخ‘ح :817)
اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو سر بلند ی عطا کرتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے قوموں کو پستی میں بھی گراتا ہے ۔حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث کی شرح فتح الباری میں اس طرح فرماتے ہیں :(یرفع اللہ المومن العالم علی المؤمن غیر العالم )اللہ اس کتاب کے عالم مومن کو غیر عالم مومن پر فضیلت عطا کردیتا ہے ۔
بچوں کو بتایا جائے کہ دنیا سبھی علوم پراس علم کو سبقت ملی ہوئی ہے ۔اللہ رب العزت دنیا میں قرآن کے پڑھنے والے کو یوم جزاء کے روز بلائے گا اور کہے گا :’’اے صاحب قرآن !!!!(قرآن پڑھنے اوراسے حفظ کرنے والے) سے(قیامت کے دن) کہا جائے گا پڑھتا جا اور(درجے) چڑھتا جا ،اور اس طرح آہستہ آہستہ تلاوت کر جیسے تو دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا ۔پس تیرا مقام وہ ہوگاجہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی ‘‘۔(سنن ابی دائود۔الوتر،باب کیف یستحب الترتیل فی القراٗۃ ح:1464)
بچے کو سمجھایا جائے کہ بیٹا !!!!’’جس روز ساری دنیا کے انسان ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہوں گے ،اللہ رب العزت ایک باعمل قرآن پڑھنے والے کو بلا کر کہے گا کہ تو جنت کی سیڑھیاں چلتا چلا جا ،اور جہاں تیری تلاوت ختم ہو جائے وہی تیری منزل ہے۔ یہ یقینا بہت بڑا شرف ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنی حقیقی کوشش سے اس اعزاز کے قابل بنو ‘‘۔
(۴)کثرت دعا کا اہتمام:بلا شبہ یہ ایک نہایت ہی عظیم اور بلند و بر تر کام ہے جسے انسان کا صرف اپنی کوششوں کے بل بوتے پر پایہ تکمیل تک پہچانا تقریباً ناممکن ہے۔لہٰذا اس کام کے لئے ہمہ وقت اللہ رب العزت کی مدد طلب کرنی چاہئے،عموماًہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کی اچھی تربیت کے حوالے سے مادی ذرائع کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن جس چیز پر توجہ نہیں دیتے وہ ہے اولاد کے لئے کثرت سے دعا کرنا ،یہ انبیاء کا شیوہ ہے ۔دعاء ابراہیم دیکھیں :’’رب اجعلنی مقیم الصلاۃ و من ذریتی ربنا وتقبل دعاء ‘‘ اے میرے پالنے والے ! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولادکو بھی ، اے ہمارے رب میری دعاء قبول فرما(سورۃ ابراہیم) ’’واصلح لی فی ذریتی انی تبت الیک و انی من المسلمین رب اجعلنی مقیم الصلاۃ و من ذریتی ربنا و تقبل دعاء ‘‘
بچوں کی فوز و فلاح کے لئے اللہ سے دست بہ دعا ہونا ضروری ہوتا ہے ،ساتھ ہی ایک بات اور سمجھ لیںکہ ماں باپ اور اساتذہ کی عبادت و ریاضت بچوں کی فلاح و کامرانی میں کلیدی کردار انجام دیتی ہیں ۔اس ضمن میں حضرت سعید بن المسیب ؒ کے عمل سے ہم کو رہنمائی و ہدایت حاصل ہوتی ہے ،آپ اپنے بیٹے سے فرماتے ہیں ’’میں اپنی نماز میں تیری وجہ سے اضافہ کرتا ہوں ،ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری وجہ سے تیری رعایت کردے ،پھر آپ نے یہ آیت کریمہ ’’وکان ابوھما صالحا‘‘(سورۃ کہف82) تلاوت فرمائی ۔علامہ حافظ ابن کثیر ؒنے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نیک آدمی کے سبب اس کی اولاد کے ساتھ رعایت کی جاتی ہے اور والدکی عبادات کی برکات اسے دنیا و آخرت دونوں میں حاصل ہوتی ہیں ‘‘۔
لہٰذا سمجھ میں یہ آیا کہ والدین کا اللہ کے اوامر کی بجا وری اور اس کی منہیات سے پر ہیز اور ہمہ وقت بچے کے علم و عمل کے لئے اللہ کے حضور سوال کرتے ہی رہنا کامیابی کی ضمانت ہے۔
(۵) سازگار گھریلو عوامل : ایک بچے کے کچھ سیکھنے سکھانے میں اس کا گھریلو ماحول سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے ،اس لئے ہمیشہ کوشش ہونی چاہئے کہ گھر کا ماحول پاکیزہ،آسودہ اور اطمینان بخش ہو ۔بچہ اس ماحول میں جب اپنی آنکھیں کھولے ،سانس لے تو وہ خود اسلامی تعلیم وتربیت کا تیار کردہ ،بولتا ہوا آئینہ ثابت ہو ۔
اس لئے ضروری ہے کہ گھر میں اہل خٓنہ کا باہمی تعلق اس قدر ملاطفت آمیز ہو کہ بچے کی طبیعت پر اس کے خوشگوار اثر نظر آئیں،بچہ گھر والوں کی صحبت میں خود ہشاش و بشاش محسوس کرے،دوران تدریس اس کی تھکی ماندی طبیعت گھر والوں کی صحبت میںپھر سے تر و تازہ ہوجائے۔
قرآن کریم سیکھنے والا بچہ جب اپنے گھر میں داخل ہو تو نہ صرف اس کی عزت و تکریم کی جائے بلکہ شفقت و محبت کا اظہار بھی کیا جائے ،حسب استطاعت اس کی خاطر مدارات کا انتظام بھی کیا جائے ،تاکہ بچہ اہل خانہ کی نظر میں اپنے آپ کو محترم اور اہم تصور کرے ،اس سے اس کا اعتماد پروان چڑھے گا۔
عموماً گھروں میں جن اخلاقی برائیوں کی کثرت دیکھی جاتی ہے ان برائیوں کے جر ثومے بچے کے اندر غیر محسوس طریقے سے داخؒ ہوجاتے ہیں ،اور یہ اپنے اثرات چھوڑنے میں نہایت مستعد ہوتے ہیں ۔ایک بار کوئی ان کے زیر اثر آگیا تو پھر بچوں پر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم اور وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیںہوتا،اس لئے لازم ہے کہ گھروں کو صوتی،سمعی اور بصری آلودگی سے پھیلنے والے جراثیم سے بچایا جائے۔اور غیبت ،جھوٹ،چغلی،بد کلامی جیسی خطرناک اخلاقی بیماریوں سے پاک رکھا جائے ،کیونکہ ان کے غیر معمولی اثراتبچوں کے اندر ہمیشہ کے لئے کنڈلی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔
گھروں کی صوتی آلودگی سے پاک ہونے سے مراد گھر کو شور شرابہ سے محفوظ رکھا جائے،خواہ وہ گھر کے کسی الیکٹرانک کا شور ہو یا افراد خانہ کا آپسی بات چیت اور لڑائی جھگڑے کا شور ہو ۔یہ شور بچے کے تخیل میں ایک شدید قسم کا دخل ہوتا ہے اور تحقیق شدہ بات ہے کہ اضافی شور ذہن کو تھکادیتے ہیں ۔
اسی طرح بصری آلودگی سے بھی ایک طالب قرآن کو بچایا جائے ،اسکرین سے بچے کوجنتا ممکن ہو بچائیں کیونکہ ٹی وی ،میڈیا ایمان و اخلاق کے علاوہ ذہن کے ان ترقی پذیر حصوں کو بھی نقصان پہونچاتے ہیں ،جہاں پر انسان کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے،یا کسی چیز پر اپنا ارتکاز کررہا ہوتا ہے ،ٹی وی میڈیا کا اضافی اور بے جا استعمال سیدھے ذہن پر حملہ کرتا ہے جس سے قوت حافظہ و مطالعہ پر گہرا اثر پڑتا ہے ۔اور بچے کی قوت ارتکاز انتشار میں تبدیل ہوتے ہوتے ناکارہ ہوجاتی ہے۔ساتھ ہی سمعی آلودگی سے بھی بچے کے دل ودماغ کوبچانے کا اہتمام کرنا چاہئے،اور ہمارے پاس سمعی آلودگی کی سب سے واضح مثال ہے ایل خانہ غیبت،چغلی جیسے رذیل افعال میں شریک ہونا ۔
غرضیکہ قرآن سیکھنے والے بچے کو ہر طرح کے ڈسٹریکشنز سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ اس کے نقصانات کو ایک دوسرے زاویے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک بچہ قرآں کریم سیکھنے پر مامور کا جاتا ہے اور یہی بچہ جب اپنے گھر میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو میوزک اور فلم بینی میںغرق پاتاہے تو بچے کاذہن ایک قسم کے تضاد کا شکار ہوجاتا ہے کہ یہ کیسی کتاب ہے ؟اور کیسی ذمہ داری ہے جو صرف مجھ پر عائد ہے ؟کیونکہ ہمارے یہاں بچے کو بتلایا جاتا ہے ’’بھئی اس خاندان کی دینی حمیت و غیرت اور اجر و ثواب کا سارا بار اب تمہارے کندھوں پر ہے میرے بچے !!!! لہٰذا تمہارے قدم لڑ کھڑانے نہ پائیں ۔اب پورے خاندان کی جانب سے تمہی قرآں پڑھو ،اور سب کی بخشش اللہ سے کرواو،تقویٰ شعار بنو اور سب کے فرائض و نوافل بھی تم ہی ادا کرو ،اور گناہوں سے باز رہو ‘‘
اندازہ لگائیے اس بچے کی ذہنی حالے کا ،بچہ یہاں گھر والوں کے رویے سے جس قسم کے تضٓد کا شکار ہوتا ہے وہاں بچہ صرف سوچتا نہیں اندر سے روتا ہے و بے چین ہو اٹھتا ہے،پھر وہ کتاب اور اس کے سیکھنے سکھانے کے عمل سے ہی متنفر ہوجاتا ہے ۔لہٰذا بچے کو صرف نیک و پارسا بننے کی تاکید نہ کریں ،بلکہ کرنے سے پہلے بچے کے سامنے عملی نمونہ بن کر دکھائیں ۔
گھروں سے قرآں کی صدا گونجتی ہو ،گھر کا ہر فرد قرآن کریم سے جڑا ہوا ہو ۔قرآن سیکھنے کے لئے جس بچے کا انتخا ب کیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی اسکے دیگر بھائی بہن کو بھی قرآن سیکھنے پر اتنا ہی زور دیا جائے جتنا اس بچے پر دیا جاتا ہے ۔
تاکہ بچے کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوسکے کہ یقیناً یہ کتاب کوئی عظیم کتاب ہے ،جسے سب نے اپنے لئے لازمی کیا ہوا ہے۔
(۶)نظر بنائیں رکھیں :
قرآن سیکھنے والے بچے کے ساتھ پوری مستعدی دکھائیں، بچے کے اسباق اور ان کی دہرئی پر پوری طرح نگاہ بنائی جائے ،اگر کئی دنوں تک بچہ اپنے سبق میں آگے نہ بڑھ سکے تو استا دسے جاکر معاملہ کا پتہ کریں،ممکن ہے کہ کچھ مشکلات بچے کے سبق میں آڑے آرہی ہوں ،یا پھر بچہ ہی اپنی تساہلی کے باعث یومیہ سبق کو سنانے سے جی چراتا ہو۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو وقت پر اس مسئلہ کا پتہ چل جائے گا اور آپ اس کا مناسب حل بھی نکال سکتے ہیں۔ورنہ عموماً تو یہی ہوتا ہے کہ دو دو سال ہوجاتے ہیں اور بچوں کا نورانی قاعدہ مکمل نہیں ہوپاتا،استاد سے مسلسل رابطہ بنائے رکھیں ،اور ساتھ ہی اپنی نگاہیں بچے کی کار کردگی پر بنائے رکھیں،تاکہ واقعتاً تپہ چل سکے کہ بچے کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے یا یہ سب محض کاہلی اور بے دلی کا کارنامہ ہے۔
ہمیشہ کوشش یہی ہو کہ بچے کی تعلیم کے لئے نت نئی تکنیک تلاش کی جائے ،بچے کی ذہنی استعداد اور اس کی صلاحیتوں کے اعتبار سے اس کے اسباق کی تقسیم کی جائے ،اور جس طریقے سے بھی اسے قرآن پڑھنا،سمجھنا اوریاد کرنا آسان لگتا ہو ہر اس طریقہ سے بچے کی مدد کی جائے ،ایک ہی طریقہ سب پر لاگو نہ کیا جائے ۔
(۷)مسجد سے تعلق بڑھائیں :بہت سے بچے قرآن کریم پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مسجد کے ماحول سے گھبراتے ہیں ۔مسجد جاکر قاری صاحب سے نہیں پڑھنا چاہتے ہیں ،بلکہ گھر میں پڑھنا چاہتے ہیں ۔اس صورت حال میں والدین کا فرض بنتا ہے کہ بچوں کی مسجد سے دوری کی وجہ جو بھی ہو وہ اپنے طور پر بچوں کو مساجد کی فضیلت سے آگاہ کریں ،انہیں حدیث سء سمجھئائیں کہ باوضو ہوکر مسجد کی طرف جانے والے ہر قدم پر ایک گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اور ایک نیکی ملتی ہے (صحیح مسلم جلد اول :حدیث نمبر 1516)مسجد جانے کا شوق اس کے دل میں پیدا کرنا چاہئے ،اللہ کے گھر میں جاکر قرآن سیکھنے سکھانے والوں پر اللہ کی جانب سے مقرب فرشتوں کے ذریعے رحمتوں کے نزول والی بشارت سناکر بچے کو مسجد جاکر تلاوت اور عبادت کرنے پر حاصل ہونے والے ثواب کے حصول پر ابھارنا چاہئے،تاکہ بچے کے دل میںمسجد جانے کا شغف پیدا ہو اور اللہ کے گھر سے اس کا تعلق استوار ہو۔۔۔۔۔
اسی طر ح قرآن کو حسن صوت اور تجوید وترتیل کے ساتھ پڑھنے پر ملنے والی سعادت کا حریص بنانا چاہئے۔
جس عرصے میں بچہ قرآن کریم سیکھ رہا ہو اس دوران بچے کی غیر ضروری مصروفیات ترک کروا دیں ،پورا انہماک قرآن سیکھنے کی جانب ہو،اور اس کے لئے ایسا ماحول بھی بنایا جائے۔جس کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہیکہ گھر میں کثرت تلاوت کا اہتمام کیا جائے ،گھر کا ماحول تلاوت کے ذریعے روحانی اور نورانی بنایا جائے ،بچے کو صرف فضیلتیں نہ گنائی جائیں ،بلکہ ان پر خود عمل کرکے دکھایا جائے۔
(۸)اعادہ کی پابندی : بچہ فطرتاً اورطبیعتاً بے حد متجسس ہوتا ہے،اسے ہر نئی چیز سیکھنے کا بے حد شوق ہوتا ہے ۔اور وہ مسلسل ،بلا رکے سیکھتا رہتا ہے ،بڑوں کے مقابلے میں بے حد تیزی سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے،اور اپنے اندر اتارتا ہوا چلا جاتا ہے۔
تویہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب اتنا سارا مواد بچے کے دل و دماغ میں موجود ہو ،اور ان میں سے وہ کچھ کا استعمال کرتا ہو اور کسی کا نہ کرتا ہو ، تو ظاہر ہے جس چیز کا استعمال بچہ نہیں کریگا وہ مواد اس کے ذہن سے ضرور خارج ہو جائے گا ۔
لہٰذا اگر قرآنی اسباق کا اعادہ کروانے پر پابندی نہیں کی گئی تو نئی چیزیں سیکھنے کا شوقین بچہ جوں جوں نئی باتیں سیکھے گا پچھلا علم اس کے ذہن سے محو ہوتا جائے گا ،اور یہ ’’علم قرآن ‘‘ ہو تو زیادہ فکرمندی کی بات ہے ۔اس کی تائید خو د نبی کریم ﷺ سے ملتی ہے ،
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :(تعاھدواالقرآن فو الذین نفسی بیدہ لھو اشدتفصیا من الابل فی عقلھا(متفق علیہ)قرآن کی خبر گیری کرو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اونٹ اپنی رسی سے باندھا گیا ہے ،اگر اس کی خبر گیری رکھتا ہے تو وہ بندھا رہتا ہے اگر اس کو چھوڑ دیتا ہے تو جاتا رہتا ہے ۔
اونٹ میں یہ صفت ہے کہ جب یہ چلتا ہے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا بنسبت دوسرے جانوروں کے جب وہ چلتے ہیں تو پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں ۔
اسی طرح بچہ اگر مسلسل قرآن کی تلاوت کرتا رہے تو قرآن اس کے سینہ میں محفوظ رہے گا ورنہ اونٹ کی طرح چلا جائے گا اور اس کے سینے سے محو ہو جائے گا۔
لہٰذا یہ سر پرستوں پر ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے اعادہ کا نظم و ضبط پابندی کے ساتھ قائم رکھیں۔
قرآن مجید کی پابندی سے تلاوت نہ کی جائے اور قرآن مجید کو چھوڑ دیا جائے تو انسان اسے بھول جاتا ہے ،اگر چہ ہر کسی کے چھوڑدینے کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے ،جیسے کہ ابن القیم رحمۃ اللہ ـ’’الفوائد ‘‘(صفحہ 82)میں کہتے ہیں :’’قرآن مجید انسان اسی وقت بھولتا ہے جب قرآن کریم سے رو گردانی کرتے ہوئے اور چیز میں مشغول ہوجائے،یقینایہ ایک بڑی مصیبت ہے، اور اس کی وجہ سے مزید مصیبتیں کھڑی ہو سکتی ہیں ،اور اجر و ثواب سے محرومی بھی یقینی ہے ‘‘
علامہ محمدابن صالح العثمین رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ افسوس کا مقام ہے کہ بعض طلبہ قرآن مجید یاد نہیں کرتے ہیں ،بلکہ کچھ تو قرآن پاک صحیح سے پڑھ بھی نہیں پاتے ہیں ،واقعی یہ بہت بڑا خلل ہے دینی علوم کے سیکھنے کے منہج میں ،اسی لئے میں سختی کے ساتھ کہتا ہوں کہ طلبہ پر قرآن کا حفظ کرنا ،اس پر عمل کرنا ،اس کی دعوت دینا اور اس کو منہج سلف صالحین کے مطابق سمجھنا واجب اورضروری ہے ۔کتاب العلم (35/1)
(۹) بچے اور مربیان کے مابین تعلق :
بچے کا اپنے والدین اور اساتذہ سے باہمی تعلق مضبوط ہو اور خوشگوار ہو ۔بچہ اپنے بڑوں پر آنکھ بند کرکے یہ یقین رکھنے والا ہو کہ اس کی راہ میں مشکلیں اور حالات جتنے بھی نامساعدہوں اس کے والدین ہر قدم اس کے ساتھ کھڑے ہیں،اسی طرح اساتذہ سے بھی یہی امید رکھتا ہو کہ اس کی زندگی میں والدین کے بعد اگر کوئی خیر اندیش رہنما اور مشفق و مہربان ہے تو اس کا استادہے بچہ قرآن کریم کو سیکھتے ہوئے کسی قسم کے سوال یا افہام و تفہیم میں تردد محسوس نہ کرے۔
خشیت استاد یا خشیت والدین اگر حفظ قرآن کا وسیلہ بن رہے ہوں تو یہ بڑی خطر ناک بات ہے ،کیونکہ بچے کے دل میں خشیت صرف اس کتاب کے بنانے والے کی ہونی چاہئے نہ کہ پڑھانے والوں کی ،انسانوں کا ادب و احترام اپنی جگہ مسلم لیکن نے جا خوف اور پریشر یہ نفسیات پر بری طرح حاوی ہوجاتی ہیں ،اور انسان اور اس کی صلاحیتیں زندگی بھر کے لئے ناکارہ ہوجاتی ہیں ،اس لئے ان سے گریز لازمی ہے۔اور یہ بھی بات سمجھ لینی چاہئے کہ غیر اللہ کا خوف ایمان کا سب سے بڑا دشمن ہے، جسے خود نبی نے ابن عباس رضی اللہ عنھما کو اپنے پیچھے سواری پربٹھا کر سمجھایا :(’’اے لڑکے یہ بات اچھی طرح جان لو !!!! اگر ساری امت جمع ہوکر تجھے کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے کے سوا کوئی پہنچا نہیں سکتا اور اگر ساری امت اکٹھی ہو کر تیرا کوئی نقصان کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے نوشتۂ تقدیر کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتی ‘‘)
تشدد اور خوف کے طریقہ کارسے بچہ جو کچھ بھی سیکھے گا وہ علم نتیجہ خیز اور دیرپا نہیں ہوگا۔آج مار پیٹ کے خوف سے وہ قرآن سیکھ تو لے گا ،لیکن اس کا کوئی قلبی تعلق اس مقدس کتاب سے نہ بن پائے گا ۔اور یہ قرآن کریم کے سیکھنے سکھانے کی بہت ہی بے ڈھنگی شکل ہوگی جس کے مثبت اثرات کبھی بچے کی زندگی پر نظر نہیں آسکتے،جونہی بچہ آپ کی دسترس سے آزاد ہوگا،سب سے پہلے اس کتاب سے خود کو دور کرے گا ،جس کی وجہ سے وہ اپنے بچپن کی چھڑیا کھایا کرتا تھا اور ہمہ وقت خوف میں مبتلاء رہتا تھا
مشاہدہ کی ایسی بہت سی مثالیں ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں ،جہاں لوگ حافظ قرآن یا عالم دین تو کثیر تعداد میں ہوتے ہیں ،لیکن اتنی عملی دنیا میں کتاب و سنت کی ایک ہلکی سی جھلک بھی دکھائی نہیں پڑتی ۔اساتذہ اور والدین بچوں کا اعتماد جیتنے کی کوشش کریں ،بلا شبہ یہ بڑی طویل اور صبرا ٓزما مدت ہوتی ہے ۔
خود پر کنٹرول کرنا سیکھیں ،بچے کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں ۔ٹائم،لمٹ اور رفتار پر قابو رکھیں،عجلت پسندی اور جلد بازی سے پر ہیز کریں ۔بچہ جتنا کچھ سیکھ رہا ہو اس پر اس کی حوصلہ افزائی کریں ،انعامات بھی دیتے رہیں،ساتھ اسے اگر کچھ مشکلات آتی ہوں تو بھی ایسا ماحول بنا کر رکھیں کہ بچہ بے جھجھک آپ سے اپنے سبق کی مشکلات بتا سکے اور آپ اس کی پریشانیوں کا حل نکال سکیں ۔
(۱۰) حفظان صحت،متوازن غذا:
قرآن سیکھنے والے بچے کے لئے اس کی صحت کا غیر معمولی طور پر عمدہ ہونا ضروری ہے ،ہم اگر بچے کے غذائی دائرہ کو درست کرلیں تو ان شاء اللہ ہمارے بچے کی تعلیم اور اخلاق درست ہوجائیں گے۔
ایک دور ہوا کرتا تھا جب ایک طالب علم کے ساتھ شرعی علوم سیکھنے والا طالب علم بھی علم بدن اور علم غذا جیسے علوم پر دسترس رکھتا تھا ۔وقت بدلا ،نصاب بدلا ………اب یہ سارا کام مغرب نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔خلاصہ کلام یہ کہ ََََََََ………..سلف نے اس پر بہت روشنی ڈالی ہے کہ حلال اور صاف ستھری غذا کا کیا معیار ہونا چاہئے ،کیونکہ اطباء اور مصلحین نے ماضی بعید میں روح کے بگڑنے کو جسم کے بگڑنے سے جوڑ کر دیکھا ہے ۔پہلے انسان کو اس کی خوارک کو متوازن کرنے پر ابھارا ہے ،پھر ان کی روحانی کمزوریوں پر کام کیا ہے۔
بچے کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ اگر بچہ اچھی صحت کا مالک ہے تو لازما وہ مستقبل میں ایک اچھی کارکردگی کا مالک بن سکتا ہے۔جس کی خاطر اسے اچھی ،متوازن خوراک دینی چاہئے ۔موسمی پھل ،دودھ،سبزیاں ،گوشت،انڈے،سوکھے میوے لازماًاس کی غذامیں شامل کرنا چاہئے ۔بہت زیادہ کھٹی ،میٹھی اورٹھنڈے مشروبات او رماکولات سے پر ہیز کرنا چاہئے۔کیونکہ ایسی غذائیں جسم میں کاہلی کا سبب بنتی ہیں ،اور مزاج میں ترشی لاتی ہیں ،اور گلا خراب کرنے کی وجہ بھی بنتی ہیں ۔
ایسی غذائوں کا انتخا ب کیا جائے جو ذہانت اور حافظہ کو قوی بنانے والی ہوں،پھلوں اور سبزیوں کے تازہ جوسکا استعمال کرنا چاہئے،پیک شدہ پھلوں کے رس صحت کے لئے مضر ثابت ہو سکتے ہیں ،بچے کے ناشتہ کے لئے مقوی چیزوں کو بازاری اشیاء کا متبادل بنانا چاہئے۔
(۱۱)ورزش : بچے کو یومیہ کسی ورزش کا عادی بنانا ایک بہت اچھا عمل ثابت ہو سکتا ہے ،اس سے بچے کے اعصاب ،حافظہ اور اس کی طبیعت کی سر شاری کے اسباب پیدا ہوں گے ۔اس کے علاوہ اس کے پٹھے اگرمضبوط ہوں گے تو اس کا سیدھا اثر اس کی قوت بصارت اور قوت سماعت پر ہوگا،وہ عام لوگوں کی بہ نسبت بہت تیز ہوگی،لہٰذا ایک طالب علم کے لئے یہ بہت بڑی نعمت ہے ۔اس لئے بھی یومیہ چہل قدمی یا جسمانی سرگرمی بچے کے لئے بھی لازمی ہے۔اس سے بچے کا نظام تنفس بھی بہتر ہوگا ۔
بچے کو STRETCH BREAK بھی دینی چاہئے ،درا صل دوران تدریس ایک میانہ درجہ کے طالب علم کی ذہنی یکسوئی 45منٹ سے لے کر 60منٹ تک ہو سکتی ہے اس کے بعد بچے کی یکسوئی ختم ہونے لگتی ہے یا کمزور پڑنے لگتی ہے۔
اسٹریچ بریک سے مراد یہ کہ بچے کے پینتالیس سے پچاس منٹ کی مسلسل پڑھائی کے بعد اسے ایک منٹ کا وقفہ دیں ،اسے دس منٹ کی چہل قدمی کروائیں اور دوبارہ اس کی جگہ پر واپس بلالیں ،اس ایک منٹ کی قربانی دے کر بچے کو پھر سے فریش کیا جا سکتا ہے۔
(۱۲) کھیل کود : اس کے کھیل کے اوقات لازمی طور پر مقرر کئے جائیں ،کیونکہ کھیل نہ صرف صحت کا معاون ہے بلکہ بچے کی نفسیات اور مضبوط اعصاب کا بھی معاون ہے،بچے کے ذہنی تنائو اور بے دلی جیسی کیفیت کو دور کرنے کا ایک آسان اور صحتمند ذریعہ ہے ،بلکہ بچے کو اس کے امتحانات کے دوران بھی کھیلنے کے لئے بھیجنا چاہئے۔
محترم والدین اور اساتذہ !!!!!مانا کہ ڈگر دور،راہ طویل اور قدم قدم مایوسیاں ،مشکلات استقبال کو کھڑی ہیں ،لیکن سوچیں تو !!!………..جیت یونہی تو حاصل نہیں ہوگی ،آپ کے سر پر تاج یونہی تو نہیں رکھا جائے گا ،یوم جزاء کے روز آپ کی سفارش یونہی تو اللہ رب العزت کے سامنے نہیں کی جائے گی،یونہی تو نہیں اللہ کے رسول نے آپ کو یہ اعزاز دے دیا کہ :خیر کم من تعلم القرآن و علمہ
تو آئیے محترم والدین و اساتذہ !!!! ایک بڑے عزم و ارادہ کے ساتھ،خالص نیتوں کے ساتھ اس عظیم مشن کے فعال کارکن بن جائیں ،تاکہ یہ سر زمین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام سے گونج اٹھے ۔