ریاض:سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں فلم اتھارٹی نے فلموں کی سپورٹ کے لیے ’ضوء‘ مقابلے میں جیتنے والے 28 افراد کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ رواں ماہ 20 جنوری کی شام دستخط ہونے والے اس سمجھوتے کا مقصد مملکت میں سنیما کی صنعت کے لیے 28 پڑوڈکشنز کی تیاری ہے۔ ان میں اسکرپٹ اور طویل و مختصر فلمیں شامل ہیں۔ ان منصوبوں کے لیے 4 کروڑ ریال تک کی فنڈنگ کی جائے گی۔ دستخط کی تقریب میں وزارت ثقافت کے متعدد ذمے داران، میڈیا اور صحافت سے تعلق رکھنے شخصیات اور مملکت میں فلموں کی تیاری میں دلچسپی رکھنے والے افراد بھی موجود تھے۔دوسری جانب سعودی عرب میں فلم اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ آل عیاف القحطانی نے ثقافتی منصوبوں کے لیے مستقل سپورٹ پر وزیر ثقافت اور فلم اتھارٹی کے مینجمنٹ بورڈ کے سربراہ شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان آل سعود کا شکریہ ادا کیا۔ ان منصوبوں میں فلموں کی سپورٹ کے لیے منعقد ہونے والا ضوء مقابلہ شامل ہے۔یاد رہے کہ سعودی وزارت ثقافت کے زیر انتظام فلم اتھارٹی نے ضوء مقابلے کا آغاز ستمبر 2019ء میں معیارِ زندگی پروگرام کے ضمن میں کیا تھا۔ یہ پروگرام سعودی وژن 2030کی تکمیل کا حصہ ہے۔ اس مقابلے کے 5 مرحلے گزر چکے ہیں۔
29 جنوری, 2021
نئی دہلی:پروفیسر حنیف کیفی نے نظم معرا، آزاد نظم اور سانیٹ کے حوالے سے نہایت عمدہ کام کیا ہے۔ شاید ہی ان کے ہم عصروں میں کوئی بڑا ادیب و ناقد ہوگا جس نے حنیف کیفی کے فن اور خدمات پر نہ لکھا ہو۔ ان خیالات کا اظہار صدر شعبۂ اردو پروفیسر شہزاد انجم نے پروفیسر حنیف کیفی کی رحلت پر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں منعقدہ تعزیتی جلسے میں کیا۔
پروفیسر شہپر رسول نے حنیف کیفی کی زندگی، شخصیت اور کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بحیثیت استاد، اسکالر اور شاعر بہت اہم تھے۔ پروفیسر احمد محفوظ نے مشفقانہ اور سرپرستانہ رویہ، خاموش مزاجی اور گہرے علمی شغف کے حوالے سے حنیف کیفی کو یاد کیا۔ پروفیسر کوثر مظہری نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ حنیف کیفی کا علمی انہماک ان کی ہرکتاب سے نمایاں ہوتا ہے۔ وہ سرسری کبھی نہیں لکھتے تھے۔ انھوں نے جو کچھ لکھا بہت ٹھوس لکھا۔ پروفیسر خالد جاوید نے ان سے اپنی ہم وطنی، محبت و شفقت اور خوش خلقی کا تذکرہ کرتے ہوئے تعزیت کی۔ پروفیسر ندیم احمد نے بتایا کہ انھوں نے حنیف کیفی سے پی ایچ ڈی کے دوران استفادہ کیا تھا۔ ڈاکٹر عمران احمد عندلیب نے کہا کہ علی گڑھ میں جامعہ کے جن اساتذہ کا ذکر احترام سے کیا جاتا تھا ان میں حنیف کیفی بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے ان کی تصانیف کو تحقیق کا اعلا نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ایک مضمون ’’غالب اور یگانہ‘‘ کا نقش آج تک میرے ذہن پر قائم ہے۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے کہا کہ جدید نظم کے حوالے سے ان کا گراں قدر کارنامہ شعبۂ اردو کے لیے قابلِ فخر ہے۔ ڈاکٹر عادل حیات نے شعبے کی جانب سے تعزیتی قرارداد پیش کرتے ہوئے حنیف کیفی کی سوانحی سرگزشت اور علمی و ادبی خدمات کا ذکر کیا۔ حاضرین میں پروفیسر عبدالرشید، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ثاقب عمران اور ڈاکٹر روبینہ شاہین زبیری نے بھی حنیف کیفی کے سانحۂ ارتحال پر گہرے رنج و ملال کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مغفرت اور پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔
نئی دہلی:واٹس ایپ اپنے ڈیسک ٹاپ اور ویب ایپس میں سیکیورٹی کے لیے نئے فیچرز شامل کررہا ہے۔ واٹس ایپ صارفین کو اب اپنے اکاؤنٹ کو ویب یا ڈیسک ٹاپ پر لنک کرنے سے پہلے اس اکاؤنٹ کی تصدیق کرنی ہوگی۔ واٹس ایپ کے نئے فیچرزآنے والے ہفتوں میں عالمی سطح پر استعمال کی جائیں گے۔اینڈرائیڈ فون پر واٹس ایپ صارفین واٹس ایپ ویب یا ڈیسک ٹاپ کی توثیق کرنے کے لیے فیس یا فنگر پرنٹ انلاک کا استعمال کرسکتے ہیں۔ آئی فون صارفین کو اپنے اکاؤنٹ کی تصدیق کیلیے فیس آئی ڈی استعمال کرنا ہوگی۔ جب بھی صارفین اپنے واٹس ایپ اکاؤنٹ کو کسی نئے لیپ ٹاپ یا پی سی سے لنک کریں گے سیکیورٹی تصدیق ہوجائے گی۔ فون سے کیو آر کوڈ اسکین کرنے سے پہلے ہی یہ عمل نظر آئے گا۔
واشنگٹن : سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے جعلی معلومات کیخلاف ایک نیا فیچر متعارف کرایا ہے جس کا نام ‘برڈ واچ‘ ہے اور نئے فیچر سے ٹوئٹس میں گمراہ کن اطلاعات کی نشاندہی کرنے میں صارفین کو مدد ملے گی۔ ٹوئٹر استعمال کرنے والے اب جھوٹی خبروں سے متعلق نوٹ بھی لکھ سکیں گے۔تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں جعلی خبروں کی وباء روز بروز بڑھتی جارہی ہیں جس کے باعث دنیا کے متعدد ممالک اس پر قابو پانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں، اسی حوالے سے سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹس فیس بک، انسٹا گرام، یویٹوب اور ٹویٹر بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ٹوئٹر کے ’برڈ واچ‘ نامی اس نئے فیچر سے ٹوئٹس میں گمراہ کن اطلاعات کی نشاندہی کرنے میں صارفین کو مدد ملے گی۔ ٹوئٹر استعمال کرنے والے اب جھوٹی خبروں سے متعلق نوٹ بھی لکھ سکیں گے۔ٹوئٹر نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جھوٹی اور گمراہ کن اطلاعات کے مسئلے پر قابو پانے کی کوششوں کے تحت پیر کے روز ایک نیا فیچر متعارف کرایا ہے۔ برڈ واچ نامی اس فیچر کے ذریعے ٹوئٹس میں غلط اطلاعات کی نشاندہی کرنے میں مدد ملے گی۔ ساتھ ہی صارفین ایسی اطلاعات کے سیاق و سباق کے بارے میں اپنی رائے لکھ سکیں گے۔ سوشل میڈیا کمپنی نے کہا کہ یہ رائے یا نوٹ عالمی ناظرین کے لیے دستیاب ہو گا اور ٹوئٹس پر نمایاں طور پر نظر بھی آئے گا۔ ٹوئٹر نے اس کے تجرباتی پروجیکٹ کے لیے امریکا میں بعض شرکاء کا اندراج کیا ہے۔وہ ایک علیحدہ ویب سائٹ پر اپنے نوٹ شیئر کریں گے، جہاں ٹوئٹر کے مین انٹر فیس کے ساتھ منسلک ایک ڈراپ ڈاؤن مینو سے وہ اس طرح کے ٹوئٹس کو فلیگ کر سکیں گے۔ٹوئٹر کے پروڈکٹس کے نائب صدر کیتھ کولمین نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب جھوٹی خبریں پھیل رہی ہوں تو ان کا تیزی سے جواب دینے کے لیے یہ طریقہ کارگر ثابت ہو گا۔ کمپنی غلط اطلاعات کی روک تھام کے لیے ایک موثر اور کمیونٹی پر مبنی حل‘ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ ایسی معلومات کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق برڈ واچ کو ایک ایسے وقت لانچ کیا گیا ہے جب ٹوئٹر کو اپنے پلیٹ فارم کے ذریعہ گمراہ کن اطلاعات میں مسلسل اضافہ کے لیے نکتہ چینی کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔کمپنی نے ایسی اطلاعات پر قابو پانے کے لیے متعدد فیچر لانچ کیے ہیں۔ ان میں ٹوئٹس پر مینی پولیٹیڈ میڈیا‘ کے نام سے لیبل اور ری ٹوئٹ کے متعلق ایک اضافی فیچر بھی شامل ہے۔ ٹوئٹر نے اس ماہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر پابندی عائد کرتے ہوئے گمراہ کن اطلاعات کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنے کا اشارہ دیا تھا۔
کسان ریلی پر چیف جسٹس کا اظہارِ ناراضگی،کہا:حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں
نئی دہلی:جمعرات کو تبلیغی جماعت مرکز کیس میں سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے 26 جنوری کوکسان ریلی کا معاملہ اٹھایا ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت اس معاملے پر اپنی آنکھیں کیوں بند کررکھی ہے ، وہ کچھ کیوں نہیں کررہی ہے؟واضح رہے کہ یوم جمہوریہ کے موقع پرکسان تحریک کے تحت کسانوں نے ٹریکٹر ریلی نکالی ، جو مشتعل ہوگئی اور کئی جگہوں پر توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔جمعرات کو سپریم کورٹ نے تبلیغی جماعت کی میڈیا رپورٹس کے خلاف جمعیت علمائے ہند اور پیس پارٹی سمیت دیگر لوگوںکی درخواستوں کی سماعت کے دوران 26 جنوری کے اس واقعے پر بھی تبصرہ کیا۔ عدالت نے کہا کہ کچھ خبروں پر قابو رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کچھ حفاظتی اقدامات اپنانا اور امن و امان کی صورتحال کو جانچنا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے اس کے لئے آنکھیں کیوں بندکر رکھی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فرضی خبروں کی وجہ سے تشدد ہوتا ہے۔ کسی کی موت ہوجائے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ایسی صورتحال نہیں پیدا ہونی چاہئے۔ درخواست گزار نے کہا کہ حکومت کے پاس ایسے پروگرام کو روکنے کا اختیار ہے۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا تھا کہ وہ میڈیا کو جماعت کے معاملے پر رپورٹنگ کرنے سے نہیں روک سکتے ۔ یہ صحافت کی آزادی کا معاملہ ہے۔ مرکز کے بارے میں زیادہ تر رپورٹ غلط نہیں تھی۔سالیسٹر جنرل تشارمہتا نے کہا کہ کیبل ٹی وی ، ڈی ٹی ایچ اور او ٹی ٹی کے تکنیکی پہلو کیا ہیں،ان کو باقاعدہ بنانے کے طریقوں پر حکومت مکمل خاکہ پیش کرے گی ۔ اس کے لیے انہوں نے عدالت سے وقت مانگا ، جس پر چیف جسٹس نے حکومت کو تین ہفتے کا وقت دیا ہے کہ ٹی وی کی خبریں ، پروگرام کو باقاعدہ بنانے ٹیکنالوجی سسٹم کیا ہے ،ان سب پہلوئوں پر حکومت اور تمام فریقوں کے جواب داخل کریں۔واضح رہے کہ جمعیت علمائے ہند نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی ، جس میں مرکزکیس کے میڈیا کوریج کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ میڈیا غیر ذمہ دارانہ سلوک کررہا ہے۔ میڈیا ایسا دکھارہا ہے جیسے مسلمان کورونا پھیلانے کی مہم چلا رہے ہیں اور عدالتوں کو اس پر پابندی عائد کرنی چاہئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیں ، جس پر سماعت ہوئی ۔
اندور : گجرات کے اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کو ایک بار پھر جھٹکا لگا۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے بھی ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی ہے۔ فاروقی اور اس کے ساتھی نلن یادو کو 2 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے شو کے دوران ہندو دیوتاؤں کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کیے اور ہندووں کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا۔ بی جے پی کے مقامی ایم ایل اے کے بیٹے نے منور فاروقی کے خلاف شکایت درج کرائی تھی کہ انہوں نے اپنے شو میں ہندو دیوتاؤں اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف توہین آمیز تبصرے کئے تھے۔ اس سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ان کی شکایت پر اندور پولیس نے فاروقی اور شو کے منتظم نلن یادو کو گرفتار کیا۔ بعد میں اندور کی مقامی عدالت نے عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔جمعرات کوکیس ڈائری پیش کرنے میں پولیس کے ناکام ہونے کے بعد ہائیکورٹ کی اندور بنچ نے سماعت ملتوی کردی۔ اس معاملے میں گرفتار فاروقی اور چار دیگر گرفتار اسٹینڈ اپ کامیڈین کی ضمانت کی درخواستیں زیریں عدالتوں نے پہلے ہی مسترد کردی تھیں جس کے خلاف ملزمین نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کو برباد کیسے کرنا ہے ، مودی سرکار سے سیکھیں:راہل گاندھی
نئی دہلی :کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بجٹ اجلاس سے قبل نریندر مودی حکومت پر بڑا حملہ کیا ہے۔ کانگریس کے سابق صدر نے معیشت کے بارے میں ٹویٹ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کو کیسے خراب کیا جائے یہ مودی حکومت سے سیکھیں۔ انہوں نے لکھا کہ مودی حکومت سب کے سامنے سبق کی طرح ہے کہ دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کو کیسے برباد کیا جائے۔ واضح رہے کہ بجٹ یکم فروری کو پیش کیا جائے گا۔ راہل گاندھی نے ایک بار پھر مرکزی حکومت سے اپیل کی کہ وہ تینوں زرعی مخالف قوانین کو واپس لیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کسانوں کے گروپوں کی ٹریکٹر پریڈ کے دوران کئی مقامات پر پولیس سے جھڑپ ہوئی۔ اس کے بعد پولیس نے آنسو گیس کے گولے پھینکے اور کسان گروپوں پر لاٹھی چارج کیا۔ مظاہرین نے دہلی بارڈر کے ساتھ متعدد مقامات پر ناکہ بندی توڑ دی۔ واضح رہے کہ منگل کے روز کسان تنظیموں کے زیر اہتمام ٹریکٹر ریلی نے یوم جمہوریہ کے موقع پر تصادم کی شکل اختیار کرلی۔ اس میں 300 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔ آج کسانوں کے رہنما سنگھو بارڈر پر جمع ہوئے اور کسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پر امن طریقے سے احتجاج کرتے رہیں گے۔
نئی دہلی:اردواکادمی،دہلی کے زیراہتمام مشاعرہ جش جمہوریت کاانعقادکرونامرض کی وباکی وجہ سے لال قلعے میں منعقد نہ ہوسکا۔اس بار تاریخی مشاعرے کاانعقادمحکمہ صحت کی گائیڈلائن کی پیروی کے ساتھ ہندی بھون،آئی ٹی اومیںہوا۔ مشاعرے کی صدارت اردواکادمی کے وائس چیرمین معروف وممتازشاعرپروفیسرشہپررسول نے کی ۔اس کی ابتدائی نظامت اطہرسعیدنے جب کہ مشاعرے کی نظامت اورمعین شاداب نے کی ۔
اس موقع پرشعرااورسامعین کااستقبال کرتے ہوئے پروفیسرشہپررسول نے کہاکہ کروناکی وجہ سے پوری دنیاجس طرح کے حالات سے گزررہی ہے ۔اس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔ایسے میں تاریخی مشاعرہ جشن جمہوریت کاانعقادہم سب کے لیے خوشی کامقام ہے ۔دہلی حکومت ثقافت والسنہ کی بقاکے لیے ہمیشہ عہدبستہ رہتی ہے۔ایسے حالات میں اس مشاعرے کاانعقاددہلی حکومت کی اردوسے دلچسپی کابین ثبوت ہے ۔وزیراعلی اورنائب وزیراعلی کواس تاریخی مشاعرے کے انعقادکی فکرہمیشہ لاحق رہتی ہے ۔اس باربھی ان کی توجہ اورخصوصی دلچسپی کی ہی وجہ سے آج کادن ہمیں میسرآیا۔میں تمام شعرااورسامعین ،جنھیں حکومتی گائیڈلائن کوپیش نظررکھ کرمدعوکیاگیاہے ، اس لیے آج سامعین کی تعداد اس مشاعرے کی روایت کے مطابق نہیں ہے۔لیکن جتنی تعدادہے ۔میںاپنی جانب سے اپنی اکادمی کی جانب سے آپ سب کابصمیم قلب شکریہ اداکرتاہوں ۔ ہماری دعوت پرآج بہت منتخب شعرایہاں تشریف لائے ہیں ۔اس مشاعرے کاانسلاک لال قلعے سے قدیم زمانے سے ہے ۔یہ مشاعرہ بہادرشاہ ظفرکے عہدمیں دیوان خاص میں منعقدہوتاتھا۔یہ تاریخی مشاعرہ اردواکادمی کے زیراہتمام بھی دہائیوں سے منعقدہورہاہے ۔یہ مشاعرہ گنگاجمنی تہذیب کانمائندہ مشاعرہ ہے۔مشاعرہ ہماری تہذیب کاایک غیرمعمولی ادارہ ہے ۔مشاعرہ ہمیں ہماری تہذیب کی راہ نمائی بھی کرتاہے ۔مشاعرے سے ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔اردواکادمی کے مشاعرے ہمیشہ پسندکیے جاتے رہے ہیں۔گزشتہ برس اردواکادمی کی جانب سے33پروگرام منعقد کیے گئے ،جن میں متعددمشاعروں کے ساتھ قومی سمیناربھی ہیں ۔
مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک وزیربرائے خوراک ورسد،حکومت دہلی عمران حسین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ اردواکادمی ملک کی سب سے متحرک وفعال اردواکادمی ہے ۔ایسے حالات میں بھی وزیراعلی اورنائب وزیراعلی نے مشاعرے کے انعقادمیں دلچسپی لی میں دونوں معززحضرات کاشکریہ اداکرتاہوں۔مجھے امیدہے کہ حالات جلد ازجلدبہترہوں گے اورآئندہ ہم اس مشاعرے کالطف لال قلعے کے سبزہ زارپرلے سکیں گے ۔اردواکادمی توہرطرح کے پروگراموں کاانعقادکراتی ہے۔ مشاعرے،سمینار،کمپٹیشن،کتابوں پرانعام دیتی ہے ،مسودوں کی طباعت کابھی اہتمام کرتی ہے ۔حالات کے معمول پرآتے ہی سارے امورسابقہ روایت کے مطابق انجام دیے جائیں گے ۔
اردواکادمی،دہلی کے سکریٹری محمداحسن عابد نے کہاکہ اس مشاعرے کی ایک عظیم تاریخ اورروایت ہے ۔اس روشن وتابناک تاریخ کا تسلسل آج بھی جاری ہے ۔یہ تاریخی مشاعرہ آخری تاجدارہندبہادرشاہ ظفرکے عہدسے ہورہاہے۔آزادی کے بعد اس مشاعرے کی نشاۃ ثانیہ ملک کے پہلے وزیراعظم جواہرلعل نہرونے کیاتھا ۔اس وجہ سے اس مشاعرے کی تاریخ ہم سب کے لیے مزیداہم ہوجاتی ہے ۔کروناکی وجہ سے یہ مشاعرہ یہاں منعقدہورہاہے ۔اگرحالات معمول کے مطابق ہوتے تویہ مشاعرہ لال قلعے کے سبزہ زار پر منعقد ہوتا۔یہ تاریخی مشاعرہ پورے ہندوستان میں جاناجاتاہے ۔لوگ اسے ٹی۔ وی اورسوشل میڈیاپرسنتے ہیں ۔مجھے پوری امیدہے کہ حالات جلدازجلد بہترہوں گے اوریہ تاریخی مشاعرہ اپنی روایت کے مطابق آئندہ لال قلعے کے سبزہ زارپرہی منعقدہوگا۔اس تاریخی مشاعرے کے تسلسل کوبرقراررکھنے کے لیے حکومت دہلی کابھی شکریہ۔تمام شعرا اور سامعین کامیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے استقبال اورشکریہ اداکرتاہوں ۔
اکادمی سابق اسسٹنٹ سکریٹری مستحسن احمد نے اس موقع پر تمام شعرا اور سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اردو اکادمی دہلی کا یہ تاریخی اور روایتی مشاعرہ ہے جس کی مقبولیت ہر خاص و عام میں ہے، اس مرتبہ کورونا کی وجہ سے شعرا اور سامعین کی تعداد کم ہے لیکن جو شعرا اور سامعین یہاں موجود ہیں وہ سب منتخب ہیں میں آپ سب کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ آپ نے اکادمی کی آواز پر لبیک کہا اور مشاعرے میں شرکت کی۔
تاریخی مشاعرے میں بالخصوص دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ذاکرخان،اردواکادمی کے اراکین ڈاکٹروسیم راشد،فریدالحق وارثی،فرحان بیگ،ارتضی قریشی،صابرعلی ، فیروزاحمد،محمدنوشادعلی اورعرس کمیٹی کے چیئرمین اوراکادمی کی گورننگ کونسل کے رکن ایف آئی اسماعیلی اوراکادمی کے اسٹاف شریک ہوئے ۔
رابطہ: 9936205756
میرے ذاتی کتب خانے میں یونانی علاج و معالجہ سے متعلق الحمدللہ ڈھیروں کتابیں ہیں ان کتب کے علاوہ مخصوص موضوعات پر مطالعہ کیلئے Net سے بھی استفادہ کرتا ہوں۔ investigation ماڈرن انداز میں اور علاج خالص یونانی انداز سے کرتا ہوں۔ مطالعہ کیلئے Topics مجھے مریض دیتے ہیں مریضوں کی باتیں سنتا ہوں، غور کرتا ہوں۔ کتابوں سے رجوع کرتا ہوں۔ Net سے مدد لیتا ہوں۔ رفقاء سے مشورہ کرتا ہوں۔اللہ سے دعا کرتا ہوں۔ تجربات کی ٹھوکریں مجھے راستہ بتاتی ہیں اور یوں یہ سفر جاری ہے۔
میرے پاس موجود یونانی کتب کے ذخائر میں مجھے کہیں پر بھی Fatty liver کے عنوان سے کوئی بحث نہیں ملی۔ یہ میری کوتاہ نظری اور کم فہمی بھی ہو سکتی ہے اگر قارئین میں سے کسی کی بھی نظر سے یہ بحث گزری ہو تو مجھے ضرور آگاہ کریں۔ البتہ مطب میں بکثرت ایسے مریضوں سے سابقہ پڑا ہے جن کی USG رپورٹ میں Fatty liver دیکھنے کو ملا ہے اور الحمدللہ علاج سے ایسے مریض مکمل ٹھیک ہوئے ہیں۔
اپنے تجربے اور مطالعہ سے جتنا کچھ بھی اس موضوع سے متعلق میں سمجھ سکا اسے پیش کررہا ہوں۔ جسم انسانی میں قلب۔ قوت حیوانی کا مبد و محل ہے۔ دماغ قوت نفسانی کا محل ہے۔ جگر قوت طبعی کا محل ہے۔ انثیین سے حفاظت نسل قائم ہے۔ جگر جسم انسانی کا ایک نہایت اہم اعضو ہے۔ جس کی صحت پر تمام بدن کی صحت کا دارو مدار ہے۔ اعضا کی غذا اور بدن کی پرورش کا دارو مدار جگر ہی پر ہے کیونکہ جو بھی غذا ہم لیتے ہیں اس غذا کا اصل جوہر اور خلاصہ "کیلوس” جگر ہی میں پہنچ کر خون میں متغیر ہوتا ہے۔
قوت ہاضمہ، قوت جاذبہ، قوت ماسکہ، قوت دافع۔ چاروں قوتیں اگرچہ ہر عضو میں موجود ہیں مگر معدہ اور جگر میں زیادہ ہیں جگر کی قوت ہاضمہ اسکے گوشت میں ہے اور باقی تینوں قوتیں ان عروق میں ہوتی ہیں جو اسکے گوشت میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جگر کی ساخت میں سرخ گوشت، وریدیں، اور شریانیں پائی جاتی ہیں۔ جگر کی بالائی سطح محدب اور زیر سطح مقعر ہے۔ اگر جگر میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے یا اسکے ہضم یا اخلاص کی تقسیم میں خلل پڑ جائے تو اسکا ضرر تمام بدن کو پہنچتا ہے۔
افعال جگر:
جب غذا معدہ میں ہضم ہوکر آنتوں میں آتی ہے تو وہ محلول بن چکی ہوتی ہے اس محلول کو "کیلوس” کہتے ہیں۔ یہی کیلوس آنتوں سے عروق مصّاصہ کے ذریعہ جذب ہوکر عروق ماساریقا اور پھر باب الکبد کے ذریعہ جگر میں داخل ہوتا ہے۔ جگر میں جب یہ خلاصہ غذا۔ کیلوس پہنچتا ہے تو وہاں مزید تغیرات پیدا ہوتے ہیں حتی کی یہ غذائی مواد "اخلاط” کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جگر کا مقعر حصہ انکو پکا کر خون بناکر محدب حصے کی طرف سے سارے بدن کیطرف روانہ کردیتا ہے۔
جگر میں اجزاے غذائی کس طرح متغیر ہوتے ہیں ان سے کیا کیا بنتا ہے یہ اب تک غیر واضح ہے تاہم جس قدر معلوم ہے وہ بیان کیا جاتا ہے۔
• تولید دم : جگر خون پیدا کرتا ہے اور پورے بدن کی طرف روانہ کرتا ہے۔
• تولید صفرا: جگر صفرا پیدا کرتا ہے یہ پیلے ہرے رنگ کا ایک سیال مادہ ہے جگر سے اسکا مسلسل ترشح ہوتا رہتا ہے اور گال بلیڈر میں اسٹور ہوت رہتا ہے اور گال بلیڈر سے آنت ۔ Duodenum میں حسب ضرورت شامل ہوتا رہتا ہے۔ جگر سے روزانہ ایک لیٹر سے زیادہ صفرا کا ترشح ہوتا ہے یہ صفرا آنتوں میں Fat کے ہضم میں مدد کرتا ہے۔ یہ آنتوں کے اندر موجود نقصاندہ بیکٹریا کو ختم کرتا ہے یہ آنتوں کی دھلائی و صفائی کرتا ہے۔ یہ آنتوں میں حرکت دودیہ کو جنم دیتا ہے جسکی وجہ سے وقت سے پاخانہ کا اخراج ہوتا ہے ۔ یہ خون کو پتلا کرتا ہے تاکہ خون تنگ عروق میں نفوذ کر سکے یہ غذا کے ہضم وجذب میں معاون ہے۔
• تولید سودا: جگر سودا بناتا ہے جسے جگر کا خادم عضو( طحال ) جذب کرتا ہے۔
سودا خون صالح کے ساتھ شامل ہوکر اعضا کو غذا پہنچاتا ہے مثلاً بال اور آنکھ کا طبقہ شبکیہ ۔ ہڈی غضرف رباط میں صلابت سودا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
• تولید اخلاط بولیہ: جگر کی قوت مغیرہ کے عمل سے اخلاط بولیہ بنتے ہیں جنہیں گردہ چھان کر مثانہ کی طرف روانہ کرتے ہیں۔ خون میں بلغم، صفرا، سودہ باہم ملے ہوئے ہوتے ہیں اس مجموعہ کو "اخلاط” کہا جاتا ہے ۔ اخلاط سے ہی عضا بنتے ہیں۔ اعضاے مفردہ یعنی عظم ،عصب،شحم،لحم، وغیرہ۔
اسی کے ساتھ ساتھ جگر کے کچھ خاص افعال اور بھی ہیں۔
• نشاستہ کا استحالہ۔ carbohydrate Metabolism
یہ لیور کا ایک خاص فعل ہے۔ لیور گلوکوز کو گلائی کوجن کی شکل میں اسٹور کیے رہتا ہے۔جب انسان روزہ یا فاقے کی حالت میں ہوتا ہے تو لیور کے اندر یہی جمع شدہ انرجی خون میں شامل ہوکر جسم کی صحت کو باقی رکھتی ہے۔
•Proteins Metabolism
•Lipid Metabolism
•Bilirubin
A red pigment occurring in human bile greatly increased injundice
یہ دو سو پچاس سے لے کر تین سو ملی گرام تک لیور روزانہ بناتا ہے۔
• Vitamin and mineral
Vitamin A Or D اور ویٹامن B12 کا لیور ہی زخیرہ کیے رہتا ہے ۔
• ہارمونس Hormones
کچھ ہارمونس جیسے Growth hormone , gluco corticoids , estrogens , insulin
Are Catabolised mainly in the liver
•Drug Metabolism
اخلاط سے اعضا بنتے ہیں۔شحم (چربی (fat اعضاء مفردہ میں سے ہے۔ چربی کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ اعضا کو نرم اور صحت مند رکھتی ہے۔ شکل و صورت اور حسن وجمال کو برقرار رکھتی ہے۔ ازدیادہ حرارت سے چربی پگھل کر تحلیل ہو جاتی ہے اسلئے کہ چربی کے اندر حرارت کو قبول کرنے کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔
جگر میں Fat کی بہت کم مقدار ہوتی ہے جب جگر میں fat کی مقدار 5% سے بڑھ جاتی ہے تو ایسی صورت کو fatty liver کہتے ہیں۔ جیسے جیسے liver میں fat بڑھنے لگتی ہے تو اسے ہم Grade 1 fatty liver
Grade 2 fatty liver
Grade 3 fatty liver
کہتے ہیں۔
fatty liver ایک خاموش بیماری ہے بالعموم ابتداً اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ اور یہ مرض اندر ہی اندر پروان چڑھتا رہتا ہے جب یہ حالت مزید ڈیولپ کر جاتی ہے اور سائز بڑھنے لگتا ہے لیور میں سوجن آجاتی ہے۔Hepatomegally & fatty liver کہتے ہیں۔اسکو steato hepatitis بھی کہتے ہیں۔ اس صورت میں لیوراپنا فعل معمول کے مطابق نہیں انجام دے پاتا یہ ڈیولپ کرکے fibrosis of the liver کی شکل اختیار کر کیتا ہے۔ اسstage میں آکر علامات کا ظہور ہوتا ہے یعنی لیور کے مقام پر سوجن، ہلکا ہلکا درد۔ مریض بے آرامی کی شکایت کرتا ہے۔
لیور کا اس حالت میں اگر سہی علاج نہیں ہوا یہ مرض مزید آگے بڑھ کر cirrhosis of the liver کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور cirrhosis can cause liver failure
یعنی fatty liver آگے ترقی کرکے لیور کو مکمل خراب کر دینے کا باعث ہوتا ہے۔ گو کہ یہ ایک خاموش مرض ہے لیکن کثیر الوقع مرض ہے اس مرض کی بالعموم علامت نہیں ہوتیں لیکن کچھ خاموش علامات پائی جاتی ہیں۔
• علامات: ابتدائی مرحلہ میں بالکل بھی علامات نہیں پائی جاتی لیکن اسکے بعد جب مرض آگے بڑھتا ہے تو مریض لیور کے مقام پر ہلکے درد کی شکایت کرتا ہے۔ مریض کو بے آرامی محسوس ہوتی ہے۔ غذا کے ہضم و جذب میں وقت لگتا ہے۔ تیل میں تکے ہوئی چیزیں کھا لینے کے بعد زیادہ ہی پریشانی محسوس ہوتی ہے۔ مریض کو بھوک کم لگتی ہے۔ صبح اٹھنے پر طبیعت چاق و چوبند نہیں رہتی سستی و کاہلی کا غلبہ رہتا ہے۔ مریض کی USG کرانے پر فوراً سے معلوم ہو جاتاہے۔ یہ مرض اکثر ان لوگوں کو ہوتا ہے جو کثرت سے شراب پیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس بیماری کو Alcoholic fatty liver disease (A F LD) کہتے ہیں دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو شراب تو نہیں پیتے لیکن یہ مرض انکو ہوتا ہے اسے ۔Non Alcoholic fatty liver disease (N A F LD) کہتے ہیں۔
Fatty Liver کے اسباب:
حسب ذیل اسباب اس میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
• موٹاپا۔ Obesity
کثرت شراب نوشی •
• High blood sugar
• insulin resistance
High Level of fat •
مرغن غذاؤں کا کثرت استعمال جیسے گہی مکہن وغیرہ
•Red meet کا کثرت سے استعمال۔ کچھ دواؤں کا سائڈ ایفیکٹ جیسے methotrexate اور Paracetamol کا کثرت استعمال بھی لیور کو نقصان پہنچاتا ہے۔
بہت زیادہ ٹھنڈے مشروبات کا کثرت استعمال۔
•غذائی بے اعتدالی ۔
• رفائن تیل کا کثرت استعمال۔
• بہت زیادہ آرام و آسائش کی زندگی۔ کرسیوں کا زیادہ استعمال پیدل چلنے سےگریز۔
Treatment of the fatty liver
ایک خطرناک بیماری جس کا آغاز بہت ہی خاموشی سے ہوتا ہے۔ اور انجام liver failure تک جا پہنچتا ہے۔ اس مرض کے علاج کے تعلق سے حکماء یہ نوشت دیوار پڑھ لیں۔ طب جدید کا یہ اعتراف پڑھ لیں۔ (Currently, no medications have been approved to treat fatty liver disease. More research is needed to develop and test medications to treat this condition.)
ایلوپیتھ میں یہ مرض لاعلاج ہے مذکورہ بالا عبارت ہم تمام حکما کو ابھارنے کیلئے کافی ہے۔
•مضرات جگرِ:
اس مرض لاعلاج کے علاج سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کی مضرات جگر کیا ہے۔
• غذا میں بے ترتیبی۔ جگر کیلئے نہایت مضر ہے یعنی ایک غذا کے ہضم ہونے سے پہلے اس کے اوپر دوسری غذا کا کھالینا۔
• نہار منہ یا غسل کرنے کے بعد یا ورزش کے بعد دفعتاً سرد پانی پی لینا۔ یہ عمل بسا اوقات جگر میں شدید برودت پیدا کردیتا ہے۔ ہلکا گرم پانی یا محض نارمل پانی ہی پیئں اور اگر یہ میسر نہ ہو تو یکبارگی نہ ہوکر گھونٹ گھونٹ کر کے پئیں۔
جو غذائیں لزوجت اور لیس رکھنے والی ہیں ایسی تمام غذائیں جگر کیلئے مضر ہیں۔ گیہوں کی روٹی، خمیری روٹی، چاول، روغنی روٹی، بکری کا کلہ پائچہ، غلیظ گوشت یہ تمام غذائیں جگر کیلئے نقصاندہ ہیں۔
• کباب: بالخصوص کچا یا جلا ہوا کباب کھانا جگر کیلئے نقصاندہ ہے ۔
• اطباء کا یہ بھی کہنا ہے کہ دودھ اور شہد ایک ساتھ کھانا جگر کیلئے نقصاندہ ہے۔(اکسیر اعظم ص ۵۰۸)
•اصول علاج:
جگر کے تمام امراض کے علاج میں اس کی چاروں قوتوں کو ملحوض رکھنا ضروری ہے۔ جگر کے علاج کیلئے ایسی دوائیں برتنی چاہئے جو خوشبو دار لذیذ مفتح اور مدر ہوں۔
طحال و مرارہ جگر کی خادم عضو ہیں ان کی اصلاح سے بھی جگر کی اصلاح ہوتی ہے۔ امراض جگر میں دوا کھانے کا بہترین وقت وہ ہے جب غذا معدہ سے جگر کی طرف نفوذکرکے اسمیں ہضم ہو چکی ہو اور اس کے فضلات جدا ہو گئے ہوں۔
"کاسنی” جگر کی سب بیماریوں کو فائدہ بخشتی ہے۔ کاسنی خواہ جنگلی ہو یا بستانی۔ جگر کیلئے نہایت مفید و موافق ہے۔ جو تلخ زیادہ ہوگی سود مند زیادہ ہوگی اس لئے کہ وہ جگر کے سدوں کو کھولتی ہے۔”( ذخیرہ خوارزم شاہی ج ششم ص 370)
"افسنتین” جگر کیلئے نہایت مفید ہے میں نے اپنے تجربہ میں اس کو جگر کے بیشتر امراض کے علاج میں ازحد مفید پایا۔
غذاؤں میں سریع النفوذ غذائیں جگر کے موافق ہیں۔ مغز فندق۔ جگر کے ہر مرض میں مفید غذا ہے۔ اور ایسے ہی۔ ماءالشعیر بھی جگر کیلئے نہایت مناسب ہے ۔
علاج:
ایلو پیتھ میں یہ مرض لا علاج ہے وہاں ان الفاظ میں اعتراف ہے۔
Currently, no medications have been approved to treat fatty liver disease.
اس کا شافی علاج یونانی میں ہے مریض اگر شراب پیتا ہے تو اس کو فوراً سے ترک کرائیں۔ موٹاپا زیادہ ہے تو وزن کم کریں۔ سادہ غذائیں استعمال کریں پیدل چلنے اور ہلکی ایکسر سائز کو معمول کا حصہ بنائیں۔ سفید شکر کا استعمال ترک کریں۔ نیم گرم پانی ہی پیئں/ پلائیں، ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈے مشروبات سے پرہیز کریں۔ اس سلسلے میں ہمارے کیرلا کے اطباء خوش نصیب ہیں کیونکہ وہاں گرم پانی ہی پیا جاتا ہے۔ Antibiotic دواؤں کے کثرت استعمال سے بچیں خواہ مخواہ paracetamol کے استعمال سے گریز کریں۔ میرے دواخانہ پر fatty liver کے مریض آتے ہیں۔ میں ان تمام مریضوں کو پورے اطمنیان کے ساتھ حسب ذیل نسخہ استعمال کراتا ہوں۔ بحمدللہ دو ماہ کے علاج سے یا تین ماہ کے علاج سے وہ ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
ھوالشافی
افسنتین ( کوٹی ہوئی) دس گرام ۔اس کا جوشاندہ تیار کرکے اسی جوشاندہ میں شربت کاسنی بیس ملی لیٹر ملاکر صبح خالی پیٹ اور افسنتین کی وہی پڑیا دوبارہ پانی ڈال کر پکاکر چھان کر دوبارہ سے اسی میں شربت کاسنی بیس ملی لیٹر ملاکر پلائیں شام چار بجے۔
معجون دیبدالورد دس گرام رات کے کھانے کے دو گھنٹہ بعد سوتے وقت ہلکے گرم پانی کے ساتھ اس کے ساتھ ساتھ غالب علامت کا لحاظ کرکے دوائیں جوڑتا ہوں۔ جیسے بعض مریضوں میں خون کی کمی اور نظام ہضم و جذب متاثر پاتا ہوں تو جوارش جالینوس پانچ پانچ گرام ہمراہ قرص کشتہ خبث الحدید ایک ایک ٹکیہ بعد غذائیں۔
جوان العمر حکماء و اطباء سے میری گزارش ہے کہ وہ طب یونانی سے عملی تعلق پیدا کریں اور اس سستی اور عوامی پیتھی کے علمبردار بن کر خلق خدا کی خدمت کریں۔اس نسخے کو پورے اعتماد سے استعمال کریں اور جو کچھ بھی ریزلٹ ملے اس سے ہمیں باخبر کریں۔
اپریل 1985کو جموں و کشمیر کے گورنر جگموہن اور ریاستی کانگریسی لیڈروں نے وزیر اعلیٰ غلام محمد شاہ کو گدی سے اتارنے کی پوری تیاری کی تھی۔ شاہ نے ایک سال قبل وزیراعظم اندرا گاندھی کی مددسے نیشنل کانفرنس کے 15 اراکین اسمبلی کو توڑ کر اپنے سالے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو تخت سے اتارا تھا۔ گورنر نے شکایتوں کا ایک پلندہ نئے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بھیجا تھا اور نئی حکومت بنانے کی سفارش کی تھی۔ مقامی کانگریسی لیڈروں کی رال ٹپک رہی تھی۔ 1975کے بعد پہلی بار وہ اقتدار کے قریب آرہے تھے۔ ان سبھی پیش رفتوں کے درمیان معمر اور جہاندیدہ وزیر اعلیٰ شاہ نے سرینگرکے بہترین باورچیوں اور تین صحافیوں کومنتخب کرکے جہاز میں دہلی کا رخ کیا۔چانکیہ پوری کے جموں و کشمیر گیسٹ ہاوٗس میں انہوں نے نوجوان وزیر اعظم اور ان کے قریبی رفقا کی دعوت کرکے ان کو پر لطف کشمیری پکوان کھلائے۔ کھانے کے فوراً بعد شاہ نے صحافیوں کو اشارہ کیا ۔ انہوں نے وزیر اعظم سے کشمیر میں حکومت کے مستقبل کے بارے میں استفسار کیا۔ چونکہ گاندھی اس وقت کھانے کے بعد ابھی تک انگلیاں ہی چاٹ رہے تھے،سو انہوں نے کہا کہ’’ فی الحال ریاست میں حکومت تبدیل کرنے یا نئے انتخابات منعقد کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کی کانگریس پارٹی غلام محمد شاہ حکومت کی حمایت جاری رکھے گی۔‘‘ یہ بیان گورنر جگموہن اور مقامی کانگریسی لیڈروں کیلئے دھماکہ سے کم نہیں تھا۔ اس کشمیری پکوان یعنی وازوان کی بدولت شاہ صاحب کی حکومت کو ایک سال کی زندگی ملی۔ اگلے سال 1986 میں راجیو گاندھی نے فاروق عبداللہ کے ساتھ صلح کرکے حکومت ان کے حوالے کردی۔
کہتے ہیں کہ اسی وازوان کی و جہ سے ہی پنڈت جواہر لال نہرو اپنے رائے شماری کے وعدے سے مکر گئے۔ وہ اس پکوان کے گرویدہ تھے اور اکثر سرینگر سے منگواتے تھے۔ اگر کشمیر ہاتھ سے چلا جاتا ، تو وازوان بھی رخصت ہوجاتا۔ دسمبر 1955میں جب روسی رہنما نکیتا خروشچیف سرینگر آئے، تو خاص طور پر ان کی تواضع وازوان کی ایک ڈش گوشتابہ سے کی گئی۔ شیخ عبداللہ کی معزولی اور گرفتاری کے بعد بخشی غلام محمد وزیر اعظم بنے تھے۔ نہرو کے نمائندے کے طور پر اندرا گاندھی اور بخشی کی ایک تصویر جس میں وہ خروشچیف کے منہ میں گوشتابہ ٹھونس رہے ہیں ، خاصی مشہور ہوئی۔ روسی راہنماوٗ ں کا یہ دورہ بقول شیخ محمد عبداللہ مسئلہ کشمیر کی ہی نہیں، بلکہ برصغیر کی سیاسیات میں ایک اہم موڑ کی حثیت رکھتا ہے، جس نے بعد میں چین کے خلاف ایک عالمی اتحاد کی میزان تیار کی ۔
موجودہ دور میں کشمیر اور بھارت۔پاکستان تعلقات پر حرف آخر سمجھے جانے والے دانشور اے ، جی ، نورانی سے جب میں نے ایک دن پوچھا کہ آخر کون سی چیز کشمیر پر ان کی دلچسپی کا محرک بنی، تو ان کا کہنا تھا کہ60ء کی دہائی میں سوشلسٹ لیڈر مردولا سارابائی نے بطور وکیل ان کو شیخ عبداللہ کا مقدمہ لڑنے کیلئے مقرر کیا۔ مگر ان کی مسلسل دلچسپی کی وجہ بعد میں وازوان بنا۔ 1975کے بعد جب شیخ عبداللہ اقتدار میں آئے ، نورانی کے ساتھ اختلافات کے باوجود وہ ان کو سرینگر سے پکا ہوا وازوان بذریعہ طیارہ ممبئی بھیجتے تھے۔ دہلی میں ایک کشمیری شیف احد وازاہ کے صاحبزاے بھی ان کو اکثر کورئیر سے پکا ہوا کھانا ممبئی بھیجتے ہیں۔
ٍ غالباً2011میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپوزیشن میں تھی، اور جموں میں اس کے لیڈران حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن کر رہے تھے۔ اس میں شمولیت کیلئے جب ان کے مرکزی رہنماوٗں کی ایک کھیپ بذریعہ طیار ہ جموں پہنچی تو ان کو گرفتار کرکے 100کلومیٹر دور کھٹوعہ ضلع کے کسی گیسٹ ہاوس میں رکھا گیا۔ اس وفد میں شامل کرناٹک کے ایک لیڈر اننت کمار نے فرمائش کی کہ و ہ ڈنر میں کشمیری وازوان کھانا چاہتے تھے۔ شاید وہ پہلی بار جموں و کشمیر وارد ہوئے تھے۔ بی جے پی کے مقامی لیڈروں نے گاڑی دوڑا کے جموں سے کسی کشمیری ریسٹورنٹ سے وازوان کے کئی پکوان منگوائے۔ کھانے کے وقت جب آنجہانی ارون جیٹلی ان کی پلیٹ پر رستہ اور گوشتابہ پروس کر ان ڈشوں کو متعارف کروارہے تھے، تو وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ان کو وازوان چاہئے ، جس کے بارے میں انہوں نے بہت کچھ سنا ہے، رستہ اور گوشتابہ نہیں۔ بعد میں ان کو بتایا گیا کہ وازوان کسی مخصوص ڈش کا نام نہیں ہے، بلکہ پکوانوں کے ایک تسلسل یا مجموعہ کو کہتے ہیں۔ اہم دعوتوں پر تو ان کی گنتی 36تک پہنچتی ہے۔
خیر 5اگست 2019کے بعد جس طرح کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص ،تہذیب و کلچر پر بھارتی حکومت اور اس کے کارندے کاری ضرب لگا رہے ہیں، اسی طرح فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں وازوان بھی شہتیر کی طرح بری طرح کھڑک رہا ہے۔ جہاں ریاست کی سرکاری اور قومی زبان اردو کا جنازہ نکال دیا گیا، کشمیری کا اسکرپٹ تبدیل کیا گیا، اسی طرح خطے کو وازوان کی انفرادیت سے بھی محروم کرنے کی سازش شروع ہو گئی ہے۔ پچھلے دنوں بالی ووڈ کے ایک پروڈیوسر اور بی جے پی کے حلیف وویک اگنی ہوتری نے کہا کہ انہوں نے کشمیری وازوان کو ہندوستانی رنگ دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ سرینگر کے ایک ہوٹل میں دی گئی دعوت کی تصویر سوشل میڈیا پر جاری کرتے ہوئے انہوں نے تحریر کیا کہ وہ کشمیر میں نیا پکوان متعارف کروانے آئے ہیں۔ ـ’’کشمیر میں کسی کو بھی ویجیٹیرین[سبزی] وازوان بنانا نہیں آتا ہے۔ میں یہ تبدیلی لانے کیلئے آیا ہوں۔‘‘ اگنی ہوتری کشمیری پنڈتوں کی ہجرت پر ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں سرینگر میں تھے۔ شاید ان کو معلوم ہی نہیں کہ وازوان کی اساس ہی تازہ بھیڑ کے گوشت پر منحصر ہے۔
جسٹس غلا م نبی گو ہر کے مطابق جب 1974 میں سرینگرکی اس وقت کی حکومت نے گیسٹ کنٹرول آرڈر جاری کرکے وازوان کی ڈشوں کو پانچ تک محدود کردیا تھا۔ بقول مرحوم جسٹس غلام نبی گوہر ، کسی نے اس آرڈر کوعدالت میں چلینج کیا ۔ جب ان کے پاس کیس پہنچا تو انہوں نے لکھا کہ وازوان کا مقصد ہے کہ بھیڑ کے تمام اعضا استعمال ہونے چاہئیں۔ اسی لئے اس کے الگ الگ پکوان بنتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر حکومت دعوت میں صرف پانچ پکوان پکانے کی اجازت دیتی ہے، تو میزبان باقی گوشت کا کیا کریگا؟ جہاں دیگر علاقوں میں بھیڑ کے اندرونی اعضا یعنی انتڑیاں، معدہ ، گردہ وغیرہ ضائع کئے جاتے ہیں، وازوان میں اس کی بھی ایک ڈش بنتی ہے۔ خیر تب تک شیخ عبداللہ برسر اقتدار آچکے تھے، اور انہوں نے گوہر کو سراہا اور کہا کہ کشمیریوں کے کھانے پر بھی قد غن لگ رہی تھی۔
کشمیری وازوان کے کباب بھی مختلف طریقے سے تیار کئے جاتے ہیں۔ دیگر ڈشوں میں میتھ ماز، روغن جوش، آب گوش، رستہ، یخنی، تبخ ماز، گوشتابہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ وازوان کھانے کے آداب بھی نرالے ہوتے ہیں۔ ایک پڑی پلیٹ یعنی ترامی میں چار افراد ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور ڈشوں کو سرو کرنے کی بھی مخصوص ترتیب ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ 14ویں صدی میں جب امیر تیمور کے خوف سے وسط ایشیا سے ہنر مند افراد ہجرت کرکے کشمیر وارد ہو رہے تھے، تو انہوں نے وازوان کو متعارف کروایا۔ مگر اس کو پروان چڑھانے اس کو مزید جلا بخشنے کا سہرا مقامی آبادی کے سر جاتا ہے۔ کیونکہ واز قدیم کشمیری اور سنسکرت واجا یعنی پکانے سے ماخذ ہے۔ اس کے پکانے والے کو وازہ کہا جاتا ہے ، جو فارسی لفظ آشپاز سے مستعار لیا گیا ہے۔ آشپاز خصوصی خانساماں یا باورچی کو کہتے ہیں۔ وازوان کا گوشت بلکل تازہ ہونا چاہئے۔ دعوتوں سے قبل اکثر قابل آشپاز پہلے زندہ بھیڑ کا خود تجزیہ اور معاینہ کرتے ہیں اور پھر اپنے سامنے کٹواکر کھانا بنانا شروع کردیتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے کشمیری وازوان کے ریسٹورنٹ مفقود ہیں یا کامیاب نہیں ہوپاتے ہیں۔ کیونکہ وازوان کی ضرورت کیلئے کچے گوشت کی شیلف لائف کم ہے اور پھر اس کو پکانے کیلئے خاصی لیبر بھی درکار ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی قیمت بھی کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔
وازوان صرف پکوانوں کا ہی نام نہیں ہے، بلکہ ایک ہی پلیٹ میں اس کا کھانا لازمی بنانا دراصل 700سال قبل کے کشمیر میں ذات پات اور برادری واد کے خلاف ایک بغاوت تھی۔اسلام کی آمد سے قبل دعوتوںمیں ایک ہی پلیٹ میں امیر اور غریب ، مہتر و شیخ و برہمن کا کھانا ناممکن تھا۔معروف صحافی مزمل جلیل کے مطابق دراصل وازوان کو نئی شکل دینے کی آڑ میں اس کلچر کی نفی کی جار رہی ہے۔ اور پچھلی سات صدیوں کو ایک تاریک دور کے بطور اجاگر کیا جا رہا ہے، تاکہ کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرکے خانقاہوں ،بزرگان دین، رشیوں کو ان کے ذہن سے نکالا جائے۔
ایک سال قبل کشمیر ی زبان کا رسم الخط تبدیل کیا گیا۔ اس سے قبل کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے کشمیری ثقافتی لباس پھیرن پر پابندی لگادی تھی۔ کسی قوم کو ختم کرنے کیلئے صدیوں سے قابض طاقتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ اس کو اس کی تاریخ و ثقافت سے دور کردو۔ کشمیریوں کی نسل کشی کیساتھ کشمیر کی ثقافت کو بھی ختم کرنا اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ کشمیر ی زبان اور اس کے ادب کے ساتھ وازوان بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے ۔ضروری ہے کہ یونیسکو کے ذمہ داروں کو باور کرایا جائے کہ ایک زندہ قوم سے اس کی ثقافت بزور طاقت چھینی جا رہی ہے۔
ایک سال پہلے کی بات ہے، سی اے اے کے خلاف احتجاج کیاگیا، احتجاجی شاہین باغ میں بیٹھے، اس احتجاج میں صرف مسلمان ہی شریک نہیں تھے؛ بل کہ سکھ، سادھو اوردلت قوم کے لوگ بھی شریک تھے، ہاں یہ ضرورہے کہ چوں کہ قانون مسلم قوم کے خلاف تھا؛ اس لئے ان کی تعداد زیادہ تھی، جس طرح آج کسانوں کے احتجاج میں ہے، سارے لوگ شریک ہیں؛ لیکن کسانوں کی تعداد زیادہ ہے اوروہ بھی اس جگہ کے کسان زیادہ ہیں، جہاں کھیتی باڑی زیادہ ہوتی ہے، شاہین باغ کے احتجاج کی شروعات جامعہ ملیہ کے ہنگامہ سے ہوئی، طلبہ نے اس قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا، جس کودبانے کے لئے دہلی پولیس نے ایسی کارروائی کی، جسے دیکھ کرجمہوریت شرم سارہوئی، نہتے طلبہ پر آنسو گیس ہی نہیں چھوڑے گئے؛ بل کہ بندوق کی نال سے گولیاں بھی داغی گئیں، بلااجازت جامعہ کے کیمپس میں پولیس گھسی اورلائبریری کوتہس نہس کردیا، ہاتھ گولے بھی داغے گئے، پولیس کی ان کارروائیوں کی وجہ سے طلبہ زخمی توہوئے ہی، کئی کی جانیں بھی گئیں، اس کے بعد باقاعدہ احتجاج کے لئے شاہین باغ وجود میں آیا۔
شاہین باغ سے لوگوں کوکافی تکلیفیں تھیں؛ لیکن صرف ان لوگوں کو، جوبرسراقتدارپارٹی کے ہم نواہیں، باقی لوگوں کوکوئی تکلیف نہیں تھی، شاہین باغ آنے جانے کے لئے راستہ بھی پورے طورپربند نہیں تھا، لوگ آجا رہے تھے، ایک طرف کاراستہ مکمل طورپرکھلاتھا، گاڑیوں پرپابندی پولیس کی طرف سے لگائے گئے بریگیڈس کی وجہ سے تھی اوروہ کئی کیلومیٹرپہلے سے ہی ان لوگوں نے ایساکیاتھا؛ تاکہ شاہین باغ کوبدنام کیاجائے، شاہین باغ کوختم کرانے کے لئے بہت سارے حربے استعمال کئے گئے، بم پھینکے گئے، گولیاں چلائی گئیں، دھمکیاں دی گئیں، ٹیوٹرٹرینڈ چلایاگیا، شوسل میڈ یاز کے ذریعہ سے دہشت گرد اورنہ جانے کیاکیانہ کہاگیا؛ لیکن شاہین باغ کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہیں ہوئی، اس کے باوجود اس کا آڑلے کردہلی کوفساد میں جھونک دیاگیا اورکروڑوں کی املاک تباہ کردی گئی، جانیں بھی گئیں، پھراس کے خلاف جوکارروائی ہوئی، وہ بھی ناانصافی پرمبنی تھی، جس کے تعلق سے قومی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ بھی آچکی ہے۔
شاہین باغ کے ٹھیک ایک سال بعد کسان آندولن شروع ہوا، حکومت نے ان کے ساتھ روابط قائم کئے اوراس تعلق سے گیارہ دورمیں تبادلۂ خیال ہوا، کل یوم جمہوریہ کو کسانوں کی طرف سے ٹریکٹرپریڈ کی بھی اجازت دی گئی ؛ حالاں کے اس سے قبل سی اے اے کے خلاف مارچ کے لئے بھی اجازت مانگی گئی تھی؛ لیکن دہلی پولیس نے اجازت نہیں دی تھی، کسانوں کواجازت دی گئی ، کسانوں کا ٹریکٹرپریڈ ہوا، اترپردیش بارڈر پرپولیس کے ساتھ کسانوں کی جھڑپ بھی ہوئی، کئی لوگ زخمی بھی ہوئے اورایک کی موت کی بھی خبر ہے، ایک سال قبل سی اے اے کے خلاف احتجاجیوں پرپولیس کی بے رحمی ؛ بل کہ ان کی غنڈہ گردی صاف دکھ رہی تھی ، جس کی وجہ سے نہتے طلبہ کی شہادت ہوئی، آج پولیس والوں کے اندروہ جوش نہیں نظرآرہاتھا؛ بل کہ اگریہ کہاجائے توبے جانہیں ہوگاکہ ان کے اندروہ دم خم تھاہی نہیں، وجہ صاف ہے کہ وہ لوگ کپڑے دیکھ کارروائی کرتے ہیں۔
کل 26؍جنوری کولال قلعہ میں جوکچھ ہوا، اس کی مذمت جتنی بھی کی جائے ، کم ہے، ایسابالکل بھی نہیں ہونا چاہئے تھا؛ لیکن اس کی وجہ سے کئی قسم کے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ایک تودہلی پولیس کادورخاپن صاف نظرآیا، ورنہ کیامجال کہ پولیس کا گھیراتوڑکرکوئی لال قلعہ میں جھنڈا لہرائے؟ اس کی وجہ سے جمہوریت بھی شرم سارہوئی ہے اوردیش واسیوں کوتکلیف بھی ہوئی ہے کہ لال قلعہ جیسی جگہ پر، جہاں بھارت کاپرچم لہراتاہے، وہاں دوسراپرچم لہرایاگیا، یہ کیسے ہوا؟ دہلی پولیس اس کے لئے جواب دہ ہے، یہ کس نے کیا؟ اس سے زیادہ سوال اس پراٹھناچاہئے کہ یہ کیسے ہوا؟بتایاجاتاہے کہ ہمارے ملک کاسب سے زیادہ صرفہ حفاظتی دستوں پرہوتاہے، توکیایہی وہ حفاظتی دستے ہیں، جو جھنڈے کولہرانے سے بھیڑکوقابومیں نہیں لاسکے؟ توپھران سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ چین کے مقابلہ میں کھڑے ہوسکیں گے؟ یوں بھی خبروں کے مطابق چین نے پوری کالونی آباد کرلی ہے بھارت کی سرزمین پر اوریہ صرف عوام کوبے وقوف بنانے کے لئے روزانہ ایک دھمکی آمیز جملہ پریس کی نذرکردیتے ہیں، باقی اندرسے یہ ڈھول کے پول ہیں۔
کل کے واقعہ سے یہ سوال بھی پیداہوتاہے کہ جس پولیس نے جے این یو، جامعہ ملیہ ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اوربنارس یونیورسٹی میں بربریت کامظاہرہ کیاتھا، وہ کیاتھا؟ طلبہ پرتوجم کرلاٹھی چارج ہوئی اورکل خود دم دباکربھاگنے لگے، مطلب صاف ہے کہ طاقت کے آگے یہ ٹھہرنے والے نہیں، کسانوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے پولیس بھاگ کھڑی ہوئی توچین کے سامنے ڈٹنے کی ان کے اندرہمت ہے؟ پھریہ سوال بھی اہم ہے کہ جب معلوم تھا کہ ٹریکٹرپریڈ ہوگا اوراتنے بڑے پیمانہ پرپریڈ ہونے میں کچھ کھلبلی بھی مچ سکتی ہے توپھرپولیس نے اس کے لئے کیا تیاری کی تھی؟ اورکتنی؟ یہ تووہ ہیں، جونیشنل ہائی ویز پربھی گڑھے کھوددیتے ہیں؛ تاکہ لوگوں کوآگے نہ بڑھنے دیں، واٹرکین سے حملے کرتے ہیں؛ لیکن عجیب بات ہے کہ کل کہیں بھی واٹرکین سے حملے کی خبرنہیں آئی، اس سے یہ سوال پیداہوتاہے کہ یہ ساراڈرامہ کہیں باقاعدہ طور پر کروا یاتونہیں گیاہے؟ جیسا کہ دودن پہلے ایک شخص کی گرفتاری بھی ہوئی تھی اوراس نے میڈیاکے سامنے بیان بھی دیاتھا۔
اس ملک میں کچھ لوگ ہیں، جوجمہوریت کونیست ونابودکرناچاہتے ہیں؛ بل کہ کافی حدتک کربھی چکے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں، جنھوں نے مہاتماگاندھی کوقتل کیاتھا، جنھوں نے بابری مسجد کوشہید کیاتھا، جنھوں نے مالی گاؤں میں بم بلاسٹ کیاتھا اوروہاں نقلی داڑھی اورٹوپیاں بھی دستیاب ہوئی تھیں، جنھوں نے مکہ مسجد میں دھماکہ کیاتھا، جنھوں نے پلوامہ میں حملہ کرایاتھا، یہ وہ لوگ ہیں، جنھیں ملک سے ذرابھی محبت نہیں ہے، اگرملک سے انھیں محبت ہوتی توملک کی ترقی کے لئے ہمیشہ سوچتے، ایسے فیصلے لیتے، جوملک کو جوڑ کر رکھے، یہاں توخانہ جنگی کی کیفیت پیداہوگئی ہے، ترنگاکے سامنے دوسراپرچم لہرایا جارہاہے؛ لیکن یہ کیوں ہورہاہے؟ اس پرغورکرنے کی ضرورت ہے۔
جمہوریت زخمی ہوچکی ہے، اس کے پورے جسم سے لہوٹپک رہاہے اورمرہم لگانے والاکوئی نہیں ہے؛ لیکن جمہوریت کوزخمی کس نے کیا؟ اوپرسے لے کرنیچے تک ہرعہدہ دارکرپشن کاشکارہے(سوائے چندکے)، ہرکام کے لئے رشوت ضروری ہے، جس کے پاس دولت ہے، وہ کچھ بھی کرسکتاہے، تازہ خبرہے کہ کوروناکی مہاماری میں پورے ملک کی معیشت تباہ ہوگئی، ہرشخص پریشان ہے؛ لیکن امبانی گروپ فائدے میں رہا اورہرگھنٹے 90کروڑکمائی کی، یعنی دن بھرمیں2160کروڑروپے کی کمائی، یہ کیسے اورکیوں کر؟ ملکی معیشت ڈانواڈول اوراڈانی وامبانی کے فائدے ہی فائدے، کتنی کمپنیاں بندہوگئیں، کتنے اسکول بندہوگئے، سیکڑوں لوگوں نے خوکشی کرلی، لاکھوں لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں، اس پرمہنگائی کی مار، یہ ہے زخمی جمہوریت کی صورت حال ۔
کل کے واقعہ نے زخمی جمہوریت پرایک اورزخم لگایا، یہ زخم تیروتفنگ کے زخم سے زیادہ گہراہے؛ لیکن ایساہونے کیوں دیاگیا؟ کسان دومہینے سے سڑکوں پراترے ہوئے ہیں، معاملہ کوحل کیوں نہیں کیاگیا؟ لگتا ایساہے کہ کل کا واقعہ بھی کسی پلاننگ کاحصہ تھا، اوراسی پلاننگ کوانجام دینے کے لئے ٹریکٹرپریڈ کی اجازت بھی دی گئی، اور پھر اس کا فائدہ اٹھاکر کسان آندولن کوبدنام کردیاگیا، ظاہرہے کہ ملک کاکوئی باشندہ اس بات کوگوارہ نہیں کرے گا کہ کوئی بھی شخص ترنگاکے مقابلہ میں اپنا جھنڈا لہرائے؟ یہ ملک کے لئے ایک بدنما داغ ہے، جسے دھلانہیں جاسکے گا، ہاں! لیکن اس کی وجہ سے گرفتاریاں ہوں گی اورایسے ایسے لوگوں کی ہوں گی، جن کے تصور میں ایسانہیں ہوگا کہ وہ ایساکچھ کرے گا، واقعی اس ملک کی سیاست اتنی گندی ہوچکی ہے کہ اس کی صفائی ممکن نہیں، جس نے صاف کرنے کی کوشش کی، اسے ہی صاف کردیاگیا۔
یہ ایک ظاہر و باہر حقیقت ہے کہ ہمارا زمانہ علم وعمل،تقوی و تدین اوراخلاص و للہیت ہر اعتبار سے قحط و افلاس کا زمانہ ہے،حرف علم سے آشنائی رکھنے والے تو بہت ہیں؛مگر نسبت علم کی لاج رکھنے والے،حق تعالی سے تعلق خاص رکھنے والے اور امت کے تئیں نصح و خیرخواہی کا جذبہ رکھنے والے معدودے چند ہیں۔شاید ایسے ہی زمانے کی پیشین گوئی کرتے ہوئے نبی پاکﷺنے ارشاد فرمایا تھا: اللہ علم کو چھین کر نہیں اٹھائے گا۔یعنی لوگوں سے علم کو یوں نہیں ختم کرے گا کہ ان کے درمیان سے علم کو آسمان پر اٹھا لے؛ بل کہ علم علماء ربانیین کی وفات سے اٹھتا چلاجائے گا۔یہاں تک کہ جب اللہ کسی بھی عالم کو نہیں چھوڑے گا یعنی ہر عالم کی روح قبض کر لے گا تو لوگ ایسے افراد کو اپنا خلیفہ، قاضی، مفتی، امام اورسردار بنا لیں گے جو جاہل ہوں گے،ایسے لوگوں سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جائے گا تو وہ بغیر کسی علم کے فتوی دیں گے اور بلا علم فیصلہ کر دیا کریں گے ، یوں خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس طرح سے جہالت عام ہو جائے گی۔(بخاری ومسلم) ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پر یہ (دین کا) علم (حاصل کرنا) لازم ہے اس سے پہلے کہ اسے اٹھا لیا جائے اور اس کا قبض ہونا(علماء کی موت کے سبب) اس کا اٹھا لیا جانا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو ملا کر فرمایا: عالم اور متعلم اجر میں برابر کے شریک ہیں اور (ان کے علاوہ) باقی لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(ابن ماجہ)
علم و عمل کے اعتبار سے اس گئے گزرے دور میں بھی جہاں کہیں فکرمند علماء موجود ہیں،وہاں کی عوام بڑی حد تک فتنوں سے محفوظ و مامون ہے اور جہاں علماء موجود نہیں یا متفکرو فعال نہیں وہاں باطل فرقے اور گم راہ جماعتیں سرگرم عمل ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنا جال پھیلانے اور حلقۂ اثر بڑھانے میں مصروف ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم سماج میں علماء ربانیین کی کیا اہمیت و حیثیت ہے۔حدیث پاک میں نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء دینار و درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں، وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں، جس نے دین کا علم حاصل کرلیا اس نے پورا حصہ پالیا۔(ابو داؤد)
حدیث پاک میں نبی اکرمﷺنے علماء کو انبیاء کا نائب و خلیفہ قراردیاہے اور یہ نیابت ان تمام کاموں میں ہے جنہیں دے کر انبیاء کرام ؑکومبعوث کیا گیا۔اورنبیوں کے مقاصد بعثت میں اصلاح و تزکیہ بھی شامل ہے۔محترم مفتی تنظیم عالم قاسمی زید مجدہ ارقام فرماتے ہیں: اہل علم کی زندگی کا بڑا مقصد مسلمانوں کی رہنمائی اور ان کی اصلاح و تزکیہ ہے اور اس کے لیے ان سے رابطہ ضروری ہے۔رابطہ جتنا مضبوط ہوگا اتناہی ان کو نفع حاصل ہوگا اور اسی قدر عوام ان سے فیض یاب ہوں گے۔ تعلق کے بغیر علم کا نفع عوام کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ان کی اصلاح کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ رسول اکرم نے کبھی اپنے لئے خطِ امتیاز قائم نہیں کیا۔آپ صحابۂ کرام سے اس طرح گھلے ملے رہتے تھے کہ نئے آنے والوں کو پہچاننا مشکل ہو جاتا کہ ان میں کون امام اور کون مقتدی ہیں،کون تابع اور کون متبوع ہیں۔آپ جب لوگوں کے ساتھ بیٹھتے تو بالکل تمام کے برابر،زانوئے مبارک کبھی ہم نشینوں سے نکلے ہوے نہ ہوتے،مہمانوں کی خاطر تواضع خودآپ کرتے اور ان کی تمام ضروریات کی تکمیل کیا کرتے تھے۔صحابۂ کرام دل وجان سے آپ پر قربان تھے،آپ کے ایک اشارے پر سیکڑوں افراد تعاون کے لئے کھڑے ہو جاتے؛ مگر آپ نے انہیں سونپ کر کبھی یکسوئی اختیار نہیں کی۔
ایک مرتبہ نجاشی کے دربار سے چند سفراء آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوے۔آپ نے ان سب کو اپنے ہاں مہمان رکھا اور بہ نفس نفیس مہمان داری کے تمام فرائض انجام دیئے۔صحابۂ کرام ؓنے عرض کیا کہ یہ خدمت ہم لوگ انجام دیں گے، آپ یہ خدمت ہمارے حوالے کر دیجئے۔آپ نے یہ کہتے ہوے اس سے انکار کردیا کہ ان لوگوں نے میرے دوستوں کی خدمت گزاری کی ہے ؛لہذا میں خود ان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں (بیہقی)۔ حضرت جابر بن سمرۃ ؓبیان فرماتے ہیں کہ نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک آپ اپنی جگہ ذکر میں مشغول رہتے تھے۔سورج نکلنے کے بعد آپ اپنی جگہ سے اٹھتے پھر صحابۂ کرام کے ساتھ بیٹھ جاتے۔وہ لوگ زمانۂ جاہلیت کی باتیں کرتے اور اپنی مشرکانہ حرکتوں کو یاد کرکے آپس میں ہنسا کرتے تو آپ بھی ان کے تذکروں میں شامل رہتے، لطف اندوز ہوتے اور بعض باتوں پر مسکرایا کرتے تھے۔ (ملخص از؛علماء اور عوام کے مابین بڑھتی دوریاں)
اس وقت کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان ‘علماء کرام سے نہ صرف دور ہوچکے ہیں ؛بل کہ انٹرنیٹ سے دین سیکھنے کے عادی بن چکے ہیں،گوگل سرچ اور یوٹیوب کے ذریعہ اپنے سارے مسائل حل کررہے ہیں؛حالانکہ امام مالک ؒ نے اپنے زمانے کے حالات کو پیش نظر رکھ کر فرمایا تھا:یہ علم، دین ہے لہذا دیکھ لیا کرو کہ تم کس سے اپنا دین لے رہے ہو، میں نے ستّر لوگوں کو اللہ کے نبی ﷺ کی مسجد میں ستون کے پاس یہ کہتے ہوئے پایا کہ فلاں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ لیکن میں نے ان سے کچھ نہ لیا، جبکہ وہ سب سب اس قدر امین تھے کہ اگر انہیں مال پر نگراں مقرر کر دیا جاتا تو وہ امانت دار نکلتے؛ لیکن وہ اس فن کے اہل نہ تھے۔ (ان کے بالمقابل) محمد بن شہاب الزہری رحمہ اللہ جب ہمارے پاس تشریف لاتے تو ان کے دروازے پر ہجوم لگ جایا کرتا۔(الفقیہ والمتفقہ علیہ)
آج لوگ چند کتابوں کا مطالعہ کر کے علماء کا لبادہ پہن کر سادہ لوح مسلمانوں کو غلط سلط باتیں بتا کر راہ حق اور صراط مستقیم سے برگشتہ کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ عوام بھی ان کا خوب ساتھ دے رہی ہے اور ان کو سراہتے ہوئے انہیں علماء سے زیادہ اہمیت دینے لگی ہے۔ ان کی شہرت اور چمک دمک کو دیکھتے ہوئے نوجوانان ملت بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں، اسی لیے آج آپ کو سوشل میڈیا پر خاص طور سے نام نہاد مبلغین و دعاۃ اور محققین و برادرس کے القاب کے مصداق بہت سے افراد مل جائیں گے جو بزعم خویش دین کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جس نے بھی ایک دو کتابیں پڑھ لیں یا ایک دو لکچر سن لئے وہ گروپس، پیجز، بلاگس، ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز بنارہا ہے اور قرآن و حدیث کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے دین اسلام کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کررہا ہے۔اور ان سب کا واحدمقصد یہ ہے کہ عوام کا رابطہ علماء سے منقطع ہوجائے اور وہ بڑی حدتک اپنے مقصد میں کام یاب ہوچکے ہیں ۔
ان پر آشوب حالات میں جہاں عوام الناس کی ذمہ داری ہے کہ وہ علماء سے مربوط رہیں،چھوٹے بڑے تمام مسائل میں انہی سے رجوع کریں،ان کی صحبت کو اپنے لیے نعمت و غنیمت سمجھیں،وہیں ائمہ و خطباء کی ذمہ داری ہے کہ وہ منبر و محراب کے امین ہونے کی حیثیت سے عوام الناس سے اپنا رابطہ مضبوط کریں،ان کی خوشی اور غم کے موقعوں پر برابر کے شریک رہیں،ان کی اصلاح و تربیت کے لیے باضابطہ وقت فارغ کریں اور اپنی ذمہ داری سمجھ کر ان کو شریعت سے جوڑے رکھیں۔اس سے ان شاء اللہ ہمارا مستقبل ماضی کی طرح تاب ناک اور روشن ہوسکتا ہے اور ہم تاریخ میں ایک سنہرے باب کا اضافہ کرسکتے ہیں۔
اخیر میں مفکر اسلام علی میاں ندویؒ کے پرسوز خطاب سے ایک چشم کشا اقتباس نقل کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں،مولانا نے طلباء اور علماء کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
حضرات!آپ علماء کرام ہیں، آپ زعماء قوم ہیں، آپ میں بڑے بڑے خطیب ومقرر ہیں، آپ انجمنوں کے بانی اور اس کے ستون ہیں،پہلی بات یہ ہے (یعنی آپ کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اس کی فکر اور کوشش کریں )کہ اس سرزمین کی اسلامیت باقی رہے، یہ آپ کے ذمہ واجب ہے، کل حشر کا میدان ہوگااور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہوں گے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ عدالت کی کرسی پر ہوگا، اور رسول صلی اللہ علیہ کا ہاتھ ہوگا، اور آپ کا گریبان یا دامن ہوگا، آپ سے سوال ہوگا کہ اللہ نے اس سرزمین کو دولت اسلام سے مشرف کیا، اولیاء کرام کو وہاں بھیجا وہ اپنے کو خطرے میں ڈال کر اس وادی میں پہونچے انہوں نے خدا کا کلام اور پیغام وہاں کے باشندوں کو پہونچایا، پھر ہم نے اسلام کے پودے کو تن آور اور بار آور اور پر ثمر درخت بنایا اوروہ درخت سینکڑوں برس تک سرسبز شاداب اور پر ثمر وسایہ دار رہا، ہزاروں مسجدیں بنیں، سینکڑوں مدرسے خانقاہیں قائم ہوئیں، جلیل القدر علماء ومحدثین وفقہاء پیدا ہوئے؛ لیکن تمہاری ذرا سی غفلت وسستی یا اختلاف وانتشار یا کوتاہ نظری وکم نگاہی سے اسلام کا یہ باغ خزاں کی نذر ہوگیا۔ (خطبات علی میاں ص۴۰۲ج۵)