ریاض:کنگ سلمان ہیومنیٹرین ایڈ اینڈ ریلیف سنٹر نے سوڈان کے صوبہ دارفور میں 21 ٹن سے زیادہ خوراک اور راشن کے تھیلے تقسیم کیے ہیں۔عرب نیوز کے مطابق سرکاری خبررساں ایجنسی واس نے بتایا ہے کہ راشن کے ہر تھیلے میں ایک کنبے کے لیے کھانے پینے کا ضروری سامان موجود ہے۔ کنگ سلمان امدادی مرکز کی جانب سے یمن اور اردن کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں بھی امدادی سامان کی ترسیل کا کام جاری ہے۔اردن میں کنگ سلمان امدادی مرکز نے 1565خاندانوں میں مختلف بیگ تقسیم کیے ہیں جن میں سرد موسم سے محفوظ رہنے کے لیے 3130 کمبل بھی ہیں۔کنگ سلمان امدادی مرکز کی جانب سے یمن کے شہریوں کے انفرادی طور پر کام کے حوالے سے مختلف منصوبے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح یتیم بچوں اور بیوہ خواتین کے لیے روزگار کے مواقع کی تلاش میں مدد کے لیے مختلف شعبوں کے متعدد تربیتی کورسز کی سہولت بھی دی گئی ہے۔
13 جنوری, 2021
اگر رشبھ پنت سڈنی ٹیسٹ میں آؤٹ نہیں ہوتے تو ہندوستان کو ایک تاریخی جیت ملتی:گمبھیر
نئی دہلی:ہندوستانی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف سڈنی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 131 اوورز بیٹنگ کی اور میچ ڈرا کیا۔ آخری روز رشبھ پنت نے 97 رنز کی اننگز کھیلی اور میچ کا رخ بدل دیا ۔ پنت کے بیٹنگ کرتے وقت ایسا لگ رہا تھا کہ ہندوستان میچ آسانی سے جیت جائے گا لیکن وہ آؤٹ ہوگئے۔ سابق ہندوستانی اوپنر گوتم گمبھیر نے پنت کی اننگز کی تعریف کی اور ان کے آؤٹ ہونے پر دفاع کیا۔رشبھ پنت نے واقعی عمدہ بیٹنگ کی۔ انہوں نے اسی طرح کی بیٹنگ کی جس طرح ان کو کرنی چاہیے تھی، انہوں نے اپنی طاقت پر بھروسہ کیا۔ وہ تلوار کی دھار پر چل رہے تھے ، لوگ ضرور کہیں گے کہ انہیں اس وقت ایسا شاٹ نہیں کھیلنا چاہئے تھا لیکن وہ کھیلتے گئے اور ہندوستان کو میچ میں برقرار رکھا ۔ اگر انہوں نے کچھ دیر اور بیٹنگ کی ہوتی تو شاید ہندوستانی ٹیم ٹیسٹ میچ جیت جاتی ، جو اب تک کی سب سے تاریخی جیت ہوتی۔
مولانا سیدارشدمدنی نے 2021-2022 تعلیمی سال کے لیےتعلیمی وظائف کا اعلان کیا
نئی دہلی:ہر سال کی طرح سال 2021-2022کے لیے بھی جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آج تعلیمی وظائف کا اعلان کیا اس موقع پر ایک مختصرسے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ان وظائف کا اعلان کرتے ہوئے ہمیں انتہائی مسرت کا احساس ہورہا ہے کہ ہماری اس ادنی سی کوشش سے بہت سے ایسے ذہین اور محنتی بچوں کا مستقبل کسی حدتک سنورسکتاہے جنہیں اپنی مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے ، مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی جنگ اب شروع ہوئی ہے اس کامقابلہ کسی ہتھیار یاٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتابلکہ اس جنگ میں سرخروئی حاصل کرنے کاواحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیارسے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کوشکست سے دوچارکرکے کامیابی اورکامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طورپر محدوداورمشکل سے مشکل تربنادی گئی ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا ، سچرکمیٹی کی رپورٹ اس کی شہادت دیتی ہے جس میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ مسلمان تعلیم کے شعبہ میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں ، مولانامدنی نے سوال کیا کہ کیا یہ خودبخودہوگیا یا مسلمانوں نے جان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیارکی ؟ ایساکچھ بھی نہیں ہوا بلکہ اقتدارمیں آنے والی تمام سرکاروں نے ہمیں تعلیمی پسماندگی کاشکار بنائے رکھا انہوں نے شاید یہ بات محسوس کرلی تھی کہ اگر مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے تو اپنی صلاحیتوں اورلیاقت سے وہ تمام اہم اعلیٰ عہدوں پر فائزہوجائیں گے ، چنانچہ تمام طرح کے حیلوں اور روکاوٹوں کے ذریعہ مسلمانوں کو تعلیم کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی کوششیں ہوتی رہیں ، انہوں نے زوردیکر کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان پیٹ پر پتھرباندھ کر اپنے بچوںکو اعلیٰ تعلیم دلوائیں ، ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشدضرورت ہے جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیازکے بغیر حاصل کرسکیں ، جو حالات ہیں ان میں مسلمانوں کو قیادت کی نہیں بلکہ ان کے اندرتعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیداکرنے کی اشدضرورت ہے ۔انہوں نے قوم کے بااثرافرادسے یہ اپیل بھی کی کہ، جن کو اللہ نے دولت دی ہے وہ ایسے اسکول قائم کریں ،جہاں بچے اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں ، ہر شہر میں چند مسلمان مل کر کالج قائم کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ، بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے اس جانب ہندوستانی مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں ، آج مسلمانوںکودوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے ، یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگاکہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جاسکتاہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ انھیں حالات کے پیش نظر ہم نے دیوبند میں اعلیٰ عصری تعلیم گاہیں جیسے کہ بی ایڈکالج ، ڈگری کالج ،لڑکے اورلڑکیوں کے لیے اسکولس اور مختلف صوبوں میں آئی ٹی آئی قائم کیے ہیں جن کا ابتدائی فائدہ بھی اب سامنے آنے لگاہے ۔مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہندکا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور وہ ہر محاذ پر کامیابی سے کام کررہی ہے،چنانچہ ایک طرف جہاں یہ مکاتیب ومدارس قائم کررہی ہے وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زوردینا شروع کردیا ہے جو روزگارفراہم کرتاہے ، روزگارفراہم کرنے والی تعلیم سے مراد تکنیکی اورمسابقتی تعلیم سے ہے تاکہ جو بچے اس طرح کی تعلیم حاصل کرکے باہر نکلیں انہیں فوراروزگاراور ملازمت مل سکے ، اور وہ خودکو احساس کمتری سے بھی محفوظ رکھ سکیں ، انہوں نے کہا کہ اسی مقصدکے تحت جمعیۃعلماء ہند ضرورت مندطلبہ کو کئی برس سے تعلیمی وظائف دینے کا اہتمام کررہی ہے تاکہ وسائل کی کمی یا غربت کی وجہ سے ذہین اور ہونہاربچے تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں ،انہوں نے وضاحت کی کہ رواں سال 2021-2022کے وظیفے کے لیے فارم پرکرنے کی تاریخ 30جنوری 2021، فارم ویب سائٹ www.jamiatulamaihind.comسے اپلوڈکیا جاسکتاہے ، انہوں نے مزید وضاحت کی کہ وہ طلباء جو کسی سرکاری یامعروف ادارے سے انجینئرنگ ، میڈیگل ، ایجوکیشن ، جرنلزم سے متعلق یا کوئی بھی ٹیکنکل یا پروفیشنل کورس کررہے ہوں اور گزشتہ امتحان میں جنہوں نے کم سے کم 70فیصدنمبرحاصل کیے ہوں ، وظیفے کے اہل ہوںگے ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعیۃعلماء ہند یہ کام بھی مذہب سے اوپر اٹھ کررہی ہے ، لیکن اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعیۃعلماء ہند اپنے پلیٹ فارم سے مسلمانوں میں تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے ملک گیر سطح پر ایک مؤثرمہم شروع کرے گی اور جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوئی تعلیمی ادارے بھی قائم کرے گی اورقوم کے تمام ذمہ اداران کو اس طرف راغب کرانے کی ہر ممکن کوشش بھی اس لیے کہ آج کے حالات میں ہمیں اچھے مدرسوں کی بھی ضرورت ہے اور اچھے اعلیٰ دنیاوی تعلیمی اداروں کی بھی جن میں قوم کے ان غریب مگر ذہین بچوں کو بھی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوسکے جن کے والدین تعلیم کا خرچ اٹھاپانے سے قاصرہیں انہوں نے آگے کہاں کہ قوموں کی زندگی میں گھر بیٹھے انقلاب نہیں آتے بلکہ اس کے لئے عملی طورپر کوشش کی جاتی ہے اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔
مجلس اتحاد المسلمین ایک سیاسی پارٹی ہے دستور ہند نے اویسی صاحب کو یہ حق دیا ہے کہ کسی بھی شہری اور پارٹی کی طرح وہ اور ان کی پارٹی بھی کہیں سے انتخاب لڑ سکتی ہے۔ شرائط پوری کرنے کے بعد ہی الیکشن کمیشن آف انڈیا نے مجلس اتحاد المسلمین کو اہل سیاسی پارٹی کی حیثیت سے اعتراف کیا ہے اس لیے مخصوص طبقہ کی طرف سے پروسی ہوئی "دوسری مسلم لیگ”، "مذہبی خطوط پر تشکیل شدہ پارٹی” اور "فرقہ پرست پارٹی” جیسے فضول کی بحث میں الجھنے اور ان کو کسی ریاست میں انتخابات لڑنے سے روکنے کی بات کرنے کی بجائے ملک و ملت کے مفاد میں ہماری روش کیا ہونی چاہیے اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
مہذب دنیا کے تقریباً سبھی کثیر المذاھب اور مختلف تہذیبوں والے ملکوں میں جمہوری نظام اور سیکولرازم سب سے زیادہ کامیاب تجربہ رہا ہے۔۔۔۔۔ سیکولرازم کا واضح مفہوم یہی ہے کہ ریاست (ملک) کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ریاست، ریاست کی مشینریاں اور ریاست کے کارکنندگان ، صدر جمہوریہ، وزیر اعظم تمام وزراء ، نوکرشاہی(بیوروکریٹس) سے لے کر ادنیٰ درجے کا ملازم تک اور سبھی سیاسی پارٹیاں کسی مذہب کے فروغ کے لئے یا کسی مذہب کے خلاف کام نہیں کریں گے۔ ہاں ذاتی زندگی میں دوسرے شہریوں کی طرح یہ افراد بھی اپنے اپنے مذہب کی اتباع کرنے کے لیےآزاد ہیں۔
مذکورہ بالا توضیح کی روشنی میں اویسی صاحب اور تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کا سیاسی استحصال کرنے سے گریز کریں۔ بدقسمتی سے پچھلے کئی سالوں سے مذہبی خطوط پر صف بندی انتخابی مہم کی جزء لا یتجزاء بن چکی ہے۔ مذہبی استحصال کی خاطر ہی سیاسی جماعتوں کے سربراہان مندروں مسجدوں درگاہوں اور چرچوں کی زیارت کرتے ہیں۔
دوسری جانب مساجد اور مدارس کے ذمے داروں کو چاہیے کہ وہ سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کے استقبال میں بہت محتاط رہیں۔ وہ ان پارٹیوں اور ان کے امیدواروں کے لیے نیک خواہشات کا عمومی کلمات کہ اللہ ملک و ملت کی خدمت کا موقع دے کہ کر آشیرواد دے دے ۔ ان کی باتوں سے ادارے کی طرف سے کسی قسم کی تائید کی یقین دہانی کا تاثر پیدا نہ ہو۔ اس لئے کہ کوئ متعین پارٹی یا مخصوص امیدوار مہتمم مدرسہ اور متولی مسجد کی ذاتی پسند ہو سکتی ہے لیکن ان اداروں سے منتسبین مختلف سیاسی نظریات کے حامل ہوتے ہیں ضروری نہیں وہ مہتمم اور متولی کے سیاسی رجحان سے متفق ہوں۔ اس لئے ایسا کوئی تاثر دینا کہ ” یہاں کے تمام مسلمان آپ کے ساتھ ہیں” نہ صرف غلط بیانی ہوگی بلکہ لوگوں کا الزام درست ٹھہراۓ گا کہ ” مولانا نے سودا کر دیا” !
مذہبی خطوط پر ہندوؤں کی صف بندی کی جس روش کے لیے ہم بی جے پی کو نشانہ بناتے ہیں اگر اویسی صاحب بھی اپنی تقریر و تحریر اور مسجد مدرسہ درگاہ کی سیاسی زیارت کرکے مسلمانوں کی مذہبی خطوط پر صف بندی کرنے کی کوشش کریں گے اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ریاست کے تمام مسلم ووٹروں کا ووٹ مجلس اتحاد المسلمین کو بھلے نہ ملے ، غیروں کی نظر میں ‘ مذہبی اداروں کے فرمان کی وجہ سے مسلمانوں نے متحد ہو کر اویسی پارٹی کو ووٹ دیا ہے’ کی افواہ پھیلائی جاۓ گی، مسلمانوں پر مذہبی صف بندی کا الزام لگے گا اور مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دینے کے لیےدوسری سیاسی پارٹیوں کو عذر ملے گا۔
دستور ہند کے متعدد بنود سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی مراعات کسی مذہب کے ماننے والوں کے لیے نہیں ہے۔ ہاں ذات برادری اور پسماندگی کے نام پر ریزرویشن جیسی کئی مراعات کا حق دستور دیتا ہے۔ اس لیے اکالی دل (سکھوں کی پارٹی)، بہوجن سماج (دلتوں کی پارٹی) سماجوادی (یادو کی پارٹی) ڈی ایم کے (ڈراوڑ کی پارٹی) پر مجلس کو قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین یا کسی بھی سیاسی پارٹی کا خالص مسلمانوں کی پارٹی بن کر وجود میں آنا ملک و ملت کے مفاد میں نہیں ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
افضال اختر قاسمی جمال پوری
استاذ:جامعہ عربیہ شمس العلوم شاہدرہ،دہلی
چند دن قبل واٹس ایپ کی نئی پالیسی منظرِعام پر آئی،جس سے بچنے کے حوالے سے لوگوں کے مختلف آرا آنے لگے؛گویاایک بحث چِھڑ گئی،عام انسان کی پریشانی مزید بڑھ گئی۔کریں تو کیا کریں؟ گروپ "عالمی تحریکِ اصلاح” میں ایک صاحب نے پوچھ ڈالا: "ستیاناس ہو کنفرم کر دیجئے” دل نے اس سوال کی موافقت کی: "ہاں،کوئی فیصلہ ہونا چاہیے”۔
ناچیز اس پر غور کرنے لگا،مختلف تحریریروں کو پڑھا۔ایک فیصلہ کن نتیجہ ذہن میں ابھر کر آیا۔سوچا ایک مختصر تحریر لکھ دی جائے۔پھر خیال آیا ہر طرح کی باتیں سامنے آچکی ہیں۔کیوں نا اہلِ رائے قلم کاروں کے مختلف آرا یکجا کر دیے جائیں۔جس سے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔
ذیل میں چند اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔جو اہم ہیں اور ایک مضبوط قابلِ اطمینان رائے قائم کرنے کے لیے معین و مددگار ہیں:
مولانا فضیل احمد ناصری
بیپ پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔کچھ لوگ بلا وجہ پریشان ہو رہے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ موبائل کا استعمال ہی بڑا حساس ہے۔ہماری ہر بات ریکارڈ ہوتی ہے۔ہر لکھی اور پڑھی ہوئی بات پر ایجنسیوں کی نظر ہے۔ ہم واٹس ایپ پر رہیں یا دوسرے ایپ پر جائیں سب کا حال ایک جیسا ہے۔ احتیاط کے ساتھ لکھیں پڑھیں، نیٹ کا استعمال کریں، کوئی خطرے کی بات نہیں، ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
میں نے ایک دفعہ بیپ جاری کیا تھا، مگر واٹس ایپ جیسی سہولت نہیں، مجبوراً اسے ان اسٹال کر دیا۔
کسی(ایپ) پر (جانے کی ضرورت) نہیں۔ اگر بہت ضروری ہوا تو ٹیلی گرام پر۔
مولانا یاسر ندیم الواجدی
جب آپ انٹرنیٹ پر ہیں تو پرائیویسی بھول جائیں، یہاں تک کہ سگنل ایپ بھی بعض معلومات تھرڈ پارٹی کے ساتھ شیر کرتی ہے۔ اس لیے اسمارٹ فون ہاتھ میں لیکر آپ یہ سوچیں کہ آپ بند کمرے میں نگاہوں سے اوجھل ہے یہ خام خیال ہے۔ جس کو یقین نہ آئے جاکر ان کی پالیسی پڑھ لے۔
جب تک آپ کوئی غیر قانونی کام نہیں کرتے، تو آپ کو پرائویسی سے خدشہ کیا ہے۔
مولانا توقیر بدر قاسمی
مسئلہ ملکی تعاملات کے مستقبل اور ملک میں برادران وطن سے اس کے واسطے آپسی تبادلہ خیال یا کچھ شییر کرتے وقت "اسلامی ایپ” کے نام سے آگاہ کرنے کے پیش نظر کا ہے، جبکہ مزاج بدلتے ہیں چاینہ سے بگڑنے پر ٹک ٹاک پر قدغن سے ان ایپوں کا ماضی سامنے ہے، اس ان سبکو یہاں دھیان میں رکھنا بہتر ہے.
مولانا سمیع اللّٰہ خان
ہمیں ناہی سگنل اور ٹیلی گرام ایپلیکیشن سے کچھ فائدہ ملنے والا ہے، ناہی بیپ ۔ Bip سے ہماری کوئی دشمنی ہے، ہم وہاں بھی آجاتے ہیں، چنانچہ ہم بیپ پر آگئے،
لیکن آنے کےبعد یہی لگتاہے کہ یہ والا ایپلیکیشن زیادہ غیرمحفوظ ہے اور وہی کچھ کرےگا جو واٹس ایپ کرنے والا تھا
لہٰذا جس کو جہاں مناسب لگے وہ اپنے طورپر وہی ایپلیکیشن استعمال کرے، ہماری اولین رائے، سِگنل Signal کی ہے ہمارے دوسرے اکاؤنٹ ایڈمن پینل کے ذریعے دیگر ایپلیکیشن میں بھی ہوسکتےہیں، لیکن ہر حساس انسان اپنے لیے وہی ایپلیکیشن اختیار کرنا پسند کریگا جو اس کی ذاتی زندگی اور پرائویسی کی کم از کم رسمی ہی سہی ضمانت دے، اسے یوں کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ سوشل میڈیا پر آنا ہے تو ذاتی زندگی میں جھانکنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہم جب کوئی پروڈکٹ انٹرنیٹ کے بازار میں خریدیں تو ایک بیدار مغز گاہک کی طرح موجودہ ایپلیکیشنز میں سے خوب سے خوب تر کا انتخاب کریں_
ناچیز کا خیال
ناچیز کا خیال ہے کہ وہاٹس ایپ ہی استعمال کیا جائے۔البتہ اپنی حفاظت خود کی جائے۔یعنی غیر قانونی قابلِ گرفت باتوں سے مکمل بچا جائے۔
جس کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ شریعت کے مطابق موبائل انٹر نیٹ وغیرہ استعمال کیا جائے۔غیر ضروری تصاویر ہرگز شیئر نہ کیے جائیں۔تمام لایعنی باتوں سے بچا جائے۔ اللہ تعالی کا ارشادِ پاک سامنے رکھا جائے کہ: "مَا يَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَيۡهِ رَقِيۡبٌ عَتِيۡدٌ.(ق:١٨)
کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔”
جب احکم الحاکمین اللہ رب العزت کے دربار میں ہمارا ڈیٹا درست پہنچے گا تو انشاء اللہ دنیا میں بھی ہمارا معاملہ درست رہےگا۔اللہ تعالی بڑے محافظ ہیں۔
جمعیۃکی قانونی چارہ جوئی:دہلی فساد سے متعلق ڈیرھ سو سے زائد مقدمات میں ضمانت ملی
نئی دہلی:شمال مشرقی دہلی فساد کے الزام میں دس ماہ سے قیدِ ناحق کے شکارافراد کی ضمانت کا سلسلہ جاری ہے ۔ کل گزشتہ مصطفی باد کے شاہ رخ (ایف آئی آرنمبر 113/2020گوکل پوری تھانہ ) اسی طرح محمد طاہر ( ایف آئی آر نمبر 138/2020گوکل پوری تھانہ)کو کرکر ڈوما کورٹ میں جسٹس ونود یادو نے ضمانت پر رہاہونے کا حکم دیا ۔عدالت نے صاف لفظوں میں کہا کہ ان کے خلاف بادی النظر میں کوئی بھی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی بھی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آرہے ہیں ۔ واضح ہو کہ دہلی کورٹ نے اسی ہفتے متعد د بے قصور لوگوں کو ضمانت پر رہانے کرنے کاحکم دیا ہے جس میں خالد مصطفی ، اشرف علی ، محمد سلمان سمیت بڑی تعداد میں بے قصور لوگ ہیں ۔یہ سارے افراد جمعیۃ علماء ہند کی قا نونی چارہ جوئی کی وجہ سے ضمانت پر رہا ہوئے ہیں ۔دریں اثناء جمعیۃ علماء ہند کے مقررکردہ وکلاء ایڈوکیٹ محمد نوراللہ ، ایڈوکیٹ شمیم اختراور ایڈوکیٹ سلیم ملک کی پیروی سے مختلف عدالتوں سے تاحال 161مقدمات میں ضمانت ملی ہے ، ان میںوہ لوگ شامل ہیں جن کے بارے میں عدالتوں نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ان کے خلاف پولس کوئی قابل توجہ ثبوت جمع کرنے میں کامیاب نہیں رہی ہے ، ان لوگوں کو خانہ پری کے لیے فساد کے دو دوماہ بعد ان کے گھروں سے جبریہ ا ٹھا یا گیااور جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔دہلی فساد سے متعلق جمعیۃ علماء ہند کے قا نونی معاملات کے نگراں ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی نے بتایا کہ پچھلے ماہ کردم پوری کے رہنے والے ۲۸؍سالہ شاہ رخ کو ضمانت ملی ، وہ رکشہ چلا کر اپنے گھر کا خرچ اٹھاتاہے، دہلی فساد کے بعد ۳؍اپریل کو اسے کردم پوری پلیہ سے پولس نے اٹھا لیا تھا اور اس پر قتل سمیت متعدد مقدمات عائد کردیے تھے،و ہ دس ماہ تک بند رہا ، اس کے اہل خانہ جمعیۃ علماء کے دفتر آتے تھے ،ان کے پاس یہاں آنے تک کا کرایہ نہیں ہو تا تھا ۔ شاہ رخ کو ۳۱؍دسمبر ۲۰۲۰ء کو دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس سریش کیٹ نے اپنے فیصلہ میں ضمانت دیتے ہوئے کہا وہ نہ تو وہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آرہا ہے اور نہ ہی اس کی کال ڈیٹیل ریکارڈ جائے واردات میں ہونے کو بتلار ہا ہے ، اسے محض ایک شخص کی گواہی پر پکڑ لیا گیا ۔ایڈوکیٹ نیاز فاروقی نے بتایا کہ ہمارے پاس جتنے بھی مقدمات ہیں ان میں زیاد ہ تر افراد نہ صرف بے قصور ہیں بلکہ انتہائی غریب اور حالات کے مارے ہیں،آج ان کے گھروںمیں چراغ جلانے جیسے حالات نہیں ہیں ، انکے گھر کا تنہا کمانے والا دہلی پولس کی غلط سوچ کی بنیادپرمہینوں سے بندہیں جس نے مزید حالات ابتر کردیے ۔جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کا عزم ہے کہ ضمانت حتمی منزل نہیں ہے بلکہ ان کو مقدمات کے چنگل سے آزاد کرانے تک جد وجہد جاری رہے گی ۔
اویسی کا یوپی دورہ،مسجداورمدرسے میں حاضری،اکھلیش یادوپرتنقید،کہا- 12 بار مجھے یوپی جانے سے روکا
وارانسی:منگل کے روزآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم)کے صدر اسدالدین اویسی بابت پور ایئرپورٹ پہنچے۔یہاں ان کا خیرمقدم ہندوستانی سماج پارٹی کے رہنما سابق وزیر اوم پرکاش راج بھرنے کیا۔ یہاں اویسی نے سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایس پی کے اقتدار میں 12 بار یوپی آنے سے روکاگیا۔ اس کے بعد اتحادکو مضبوط بنانے اور پوروانچل میں سیاسی زمین تلاش کرنے کے لیے دونوں رہنما جونپور اور اعظم گڑھ روانہ ہوگئے۔اویسی نے اکھلیش یادوکے مضبوط گڑھ میں دستک دی ، مسجد میں نماز پڑھی ،مدرسے میں ناشتہ کیا۔آئندہ اسمبلی انتخابات میں ذات پات کے حساب کتاب ٹھیک کیے جارہے ہیں۔ذات پات کے علاوہ اب سیاست مذہب کی بنیاد پرہونے لگی ہے ۔بی جے پی کی مذہبی سیاست پرتنقیدیں ہوتی رہی ہیں لیکن یہی کام اویسی بھی کرنے لگے توفرق کیارہ جاتاہے۔بی جے پی مندرسے مہم کی شروعات کرتی ہے تواویسی مسجداورمدرسہ سے انتخابی کھیل کھیل رہے ہیں۔مذہب پرمبنی یہ سیاست ملک کوکس طرف لے جائے گی اورمذہبی سیاست سے کسے فائدہ ہوگا،یہ واضح ہے۔مندرمیں پوجاسے سیاسی پیغام دیاجاتاہے تودوسری طرف اویسی مسجدمیں نمازکوبھی سیاسی بنانے کی کوشش میں ہیں اورمذہبی سیاست سے ریاست کاانتخابی منظرنامہ بدلناچاہتے ہیں۔وارانسی سے جون پور ، اعظم گڑھ جانے کا راستہ مکمل طور پر یادو اور مسلم اکثریت سمجھا جاتا ہے۔ اویسی یوپی دورے پرپہنچے ۔
ہندو بھی مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے ترقیاتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں:اندریش کمار
نئی دہلی:رانی جھانسی روڈپر واقع کٹرا آتما رام کے اناج منڈی میں واقع پراچین شیو مندر کے تعمیری کام کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی ،جس میں مہمان خصوصی کے طور پرآر ایس ایس لیڈر ڈاکٹر اندریش کمار نے شر کت کی ۔بتادیں کہ قریش نگربلاک کے اقلیتی مورچہ کے صدر معاذ گلفام قریشی نے ہی مندر میں تمام طرح کے ترقیاتی کام کرائے ہیں ۔ اس موقع پر ڈاکٹر اندریش کمار نے اپنی گفتگو میں کہاکہ یہ بیحد خوشی کی بات ہے کہ مندر کی تعمیری کام میں مسلمان حصہ لے رہے ہیں ،جو لوگ ہندوؤں اورمسلمانوں میں نفرت پھیلا نے کاکام کررہے ہیں ،ایسے لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے ۔اندریش کمار نے ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ بھی مسجدوں کی تعمیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور مسلمانوں کی عبادتگاہوں کو مکمل طریقے سے تحفظ فراہم کریں اوراس اہم ذمہ داری کو بخوبی انجام دیکر قومی اتحاد ، بقائے باہم آہم ہنگی اور انسانیت کا ثبوت پیش کریں ۔ ان کا یہ بھی کہناتھا کہ یقینی طور پر آج حالات کافی خراب ہیں ، لیکن ایسا قطعی نہیں ہے کہ حالات کو درست نہیںکیا جا سکتا ہے ،البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سبھی مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے تہواروںوتقاریب میں شریک ہوں، تبھی دلوں میںپیدا کی گئی دوریوںکاخاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔اس موقع پر معاذ گلفام قریشی نے بتایاہے کہ مجھے فخر حاصل ہے کہ مندر جو کہ ہندوؤں کی عبادتگاہ ہے ،اسکی ترقیاتی کاموں میں حصہ لینے کا موقع ملا ، میں یقین دلاتا ہوں کہ جو بھی میری سے خدمت ہوگی ،میں اس کو مکمل طور سے انجام دینے کی کوشش کروں گا۔معاذ قریشی نے مزید کہاکہ مذہب اسلام میں کسی بھی دھرم کو بُرا یا ان کو غلط کہنے کی کسی بھی طرح سے تعلیمات نہیںدیتا ہے اور سبھی مذاہب کے عقیدت کا احترام کا حکم دیتا ہے ،ساتھ ہی عبادتگاہوںکا تحفظ کی بھی تاکیدکرتا ہے ،نیز یہ انسانیت بھی ہے، لہذاایسے میںموجودہ وقت کا بھی تقاضا ہے کہ ہم سبھی مذاہب کے لوگ پیار ومحبت کے ساتھ ہنسی خوشی رہیں ،کیو نکہ ہماری ہزاروں سال پرانی گنگا جمنی تہذیب بھی ہے ،جس کو بچائے رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔اس سے قبل مندر کے پُجاری پنڈت جی نے سبھی مہمانوں کاپھولوں کے ہار سے استقبا ل کیا ۔اہم شرکا میں مسلم راشٹریہ منچ کے سربراہ حافظ محمد صابرین، ڈاکٹر عمران چودھری ،شیراز قریشی،خورشید راجاکہ ، دیپک اٹھوال ، رام شرن چوہان ، رتن دیپ سمیت دیگر قابل ذکر ہیں۔
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے تینوں زرعی قوانین پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس پر سوراج انڈیا کے سربراہ یوگیندر یادو نے کہا ہے کہ متحدہ کسان مورچہ پہلے ہی ایک بیان جاری کرچکا ہے کہ ہم اس کمیٹی کے عمل میں حصہ نہیں لیں گے۔ عدالت میں ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی ، جس میں ایک کمیٹی بنانے کوکہاگیا ہے۔ یوگیندر یادو نے کہاہے کہ کمیٹی کا نام جاری ہونے کے ساتھ ہی ہمارے خدشات واضح ہوگئے ہیں۔ ان میں سے تین ممبران زرعی قوانین کے حمایتی ہیں۔ یہ ایک سرکاری کمیٹی ہے۔یادونے کہا ہے کہ زرعی قانون پر عارضی پابندی عائد کردی گئی ہے ، جسے کسی بھی وقت اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس بنیاد پر ، تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کمیٹی میں شامل اشوک گلاوٹی ، زرعی قوانین لانے میں معاون رہے ہیں۔ یہ تمام افراد کسان مخالف قوانین کے حامی ہیں۔ ان چاروں کا تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر حکومت اور سپریم کورٹ اس کمیٹی سے بات کرنا چاہتی ہے توکسان ان سے بات نہیں کریں گے۔ حکومت نے بھی مظاہرین کو ہٹانے سے متعلق درخواستوں کا نوٹ نہیں لیاہے۔
نئی دہلی :کسانوں کی تنظیمیں عدالت کے فیصلے پرراضی نہیں ہیں۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہاہے کہ ملک کے کسان عدالت کے فیصلے سے مایوس ہیں۔ اشوک گلائوٹی کی سربراہی میں کمیٹی کی سفارش کی گئی ہے۔گلائوٹی نے زرعی قوانین کی حمایت کی تھی۔راکیش ٹکیت نے ٹویٹ کیا ہے کہ معززسپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی کے تمام ممبران اوپن مارکیٹ کے نظام یا قانون کے حامی ہیں۔ اشوک گلائوٹی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے ان قوانین کو لانے کی سفارش کی تھی۔ اس فیصلے سے ملک کا کسان مایوس ہے۔ راکیش ٹکیت نے کہاہے کہ کسانوں کا مطالبہ قانون کو منسوخ کرنے اور کم سے کم قیمت کی قیمت کو ایک قانون بنانا ہے۔ جب تک اس مطالبے کی تکمیل نہیں ہوتی تحریک کا سلسلہ جاری رہے گا۔ متحدہ محاذ معزز سپریم کورٹ کے حکم کاجائزہ لینے کے بعد مزید حکمت عملی کا اعلان کرے گا۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر کسان لیڈرراکیش ٹکیت نے کہاہے کہ جب تک قانون واپس نہیں ہوتا ، اس وقت تک کسان گھر نہیں لوٹیں گے۔ انہوں نے کہاہے کہ ہم اپنا نقطہ نظر رکھیں گے ، ہم ان سب کو بتائیں گے جن کو پریشانی ہے۔سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اب اکالی دل نے ایک اہم میٹنگ طلب کی ہے۔ سکھبیر سنگھ بادل بھی اس میٹنگ میں شریک ہوں گے ، جو آگے کی حکمت عملی پرکام کریں گے۔ ملک کے مختلف حصوں سے کسان آرہے ہیں۔متحدہ کسان مورچہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آندھرا پردیش ، اڈیشہ اور مغربی بنگال کے کسان آچکے ہیں ، کیرالہ کے کسان بھی آئے دن آ رہے ہیں۔کسانوں نے سپریم کورٹ میں دو تین ریاستوں تک تحریک کے محدودہونے کی بات کہنے پرحکومت کی مذمت کی اوراسے تحریک کمزورکرنے کی کوشش کہاہے۔
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ سے ساڑھے تین ماہ قبل منظور شدہ تینوں زرعی قوانین پر عمل درآمدکو روک دیا۔ زرعی قوانین کوچیلنج کرنے والی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی۔سرکارکمیٹی کی تشکیل کرکے معاملہ لٹکاناچاہتی تھی۔ کسانوں کاکہناہے کہ اس طرح حکومت نے سپریم کورٹ کے ذریعہ احتجاج ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ ارکان بی جے پی کے قریبی ہیں اورمتنازعہ قوانین کے حامی رہے ہیں اس لیے ان سے انصاف کی امیدنہیں کی جاسکتی۔سرکاربھی چاہتی تھی کہ کمیٹی بناکرمعاملہ لٹکادیاجائے۔جب کہ کسان التواء نہیں بلکہ قانون کاردچاہتے ہیں۔سپریم کورٹ کی تشکیل شدہ کمیٹی جس کے ارکان پہلے ہی زرعی قوانین کی حمایت کرچکے ہیں۔وہ کسانوں سے بات کریں گے۔لیکن کسانوں کاصاف کہناہے کہ وہ صرف سرکارسے بات کریں گے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ تو کسانوں کی جیت ہے اور نہ ہی حکومت کی شکست۔گذشتہ سال ستمبر میں حکومت نے پارلیمنٹ سے تین زرعی قوانین منظور کیے تھے۔ ان قوانین کو صدر نے 22 سے 24 ستمبر تک منظور کیا تھا۔ کسان ان قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کچھ وکیلوں نے سپریم کورٹ میں بھی ان قوانین کوچیلنج کیاہے۔ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے 4 ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے ، اس میں کوئی ریٹائرڈجج شامل نہیں ہے۔اس کمیٹی میں بھوپندر سنگھ مان ، ہندوستانی کسان یونین،ڈاکٹر پرمود کمار جوشی ، بین الاقوامی پالیسی کے سربراہ،اشوک گلاوٹی،زرعی ماہر معاشیات انیل شیخاوت مہاراشٹرشامل ہیں۔کسانوں کا مطالبہ ہے کہ تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قوانین کو منسوخ کرنے کی بات نہیں کی ہے۔ بس کچھ وقت کے لیے اس پر عمل درآمد روک دیاگیاہے۔ کسان کوئی کمیٹی نہیں چاہتے تھے ، لیکن سپریم کورٹ نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس سے مذاکرات میں مددملے گی۔دوسری طرف یہ حکومت کے لیے کوئی شکست نہیں ہے ، کیونکہ وہ خود ہی ایک کمیٹی تشکیل دے کرمعاملہ طول دیناچاہتی تھی تاکہ کسان تھک جائیں۔ حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کا آئینی جواز بھی برقرار ہے ، کیوں کہ سپریم کورٹ نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ کمیٹی کسانوں سے بات کرے گی۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کو بھی اپنا معاملہ پیش کرنے کا موقع ملے۔یہ کمیٹی کوئی فیصلہ یا حکم نہیں دے گی۔ وہ اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔ 40 تنظیموں کے مشترکہ کسان مورچہ کا کہنا ہے کہ ہم کسی کمیٹی کے سامنے نہیں جانا چاہتے ہیں۔
دہلی:(سمیعہ ناز ملک)9 جنوری 2021 کو بزم صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم آف ویمن کے زیر اہتمام نساٸی حسیئت اور جدید اردو افسانہ کے موضوع پر ایک آن لاٸن مذاکرہ کااہتمام کیا گیا۔جس کی صدارت صدر شعبہ اردو انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ممتاز دانشور محترمہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کی۔ مذاکرہ میں ممتاز افسانہ نگار خالدہ حسین کے افسانہ ”دادی آج چھٹی پر ہیں“ اور ذکیہ مشہدی کے افسانہ ”شکستہ پروں کی اڑان“ پر تنقیدی اور مطالعاتی گفتگو کی گٸی۔ اظہار خیال کرنے والوں میں محترمہ شاہدہ حسن صدر بزم صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم آف ویمن، شہلا نقوی نیو یارک، ناٸب صدر بزم صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم حمیرا رحمان امریکہ، مجلس مشیران بزم صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم ڈاکٹر عشرت معین سیما جرمنی اور ڈاکٹر عنبرین صلاح ألدین پاکستان، ڈاکٹر بی بی آمنہ پاکستان، اور دیگرشامل تھے۔
صدر شعبہ اردو انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ممتاز دانشور محترمہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے صدارتی خطاب میں گفتگو کو سمیٹتے ہوۓ کہا کہ محترم شہاب الدین محترمہ شاہدہ حسن صدر بزم صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم آف ویمن کے منتظمین اور اراکین و عہدہ دار حقیقی معنوں میں علم و ادب کے فروغ کے لیے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں، آج کے تاریخی تحقیقی اور تعمیری تنقیدی مذاکرہ میں شرکت ہر لحاظ سےوجہ انبساط و اعزاز ہے کہ آج ہمیں دنیا کی بہترین افسانہ نگار خواتین کے فکر و فن اور ان کی شخصیات کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرہ میں بہت پرمغز تحقیقی کام سامنے آیا ہے اور سب سے زیادہ متاثر کن ”سسٹر ہڈ“ کا عملی مظاہرہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرہ میں کی جانے والی گفتگو یعنی تنقید تجزیہ اور انداز بیاں کسی طرح سے بھی عالمی ادبی تنقیدی معیارات سے کم تر نہیں ہے بلکہ یہ اس میں اضافہ کا بھی سبب ہے۔ ان کہنا تھا کہ ادب آپس میں انسانی روابط اور رشتے استوار کرتا ہے آج کی فکری نشست میں جس طرح سے مرصع جملوں محاورات اور زبان و بیان کی خوبصورتی سامنے آٸی ہے اس سے نوآموز افسانہ نگاروں کی عملی تربیت کے نٸے راستے کھلیں گے۔ ممتاز دانشور انگریزی ادبیات کی استاد محترمہ شاہدہ حسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس موضوع پر مختلف زاویوں سے گفتگو ہو سکتی ہے۔ دونوں افسانہ نگار خواتین نے عالمی سطح کا ادب تخلیق کیا ہے۔ ستر کی دہاٸی میں خواتین اپنی تحاریر مردوں کے نام سے شاٸع کرواتی تھیں۔پھر رشیدہ جہاں نے انگارہ روشن کیا جس کے بعد ممتاز افسانہ نگار خواتین سامنے آٸیں۔ اکیسویں صدی میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں اردو کی بستیاں آباد ہو چکی ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مزکورہ افسانہ نگار خواتین کی تخلیقات کا نہ صرف اعتراف کیا جاۓ بلکہ دیگر زبانوں میں ان کے تراجم بھی کیۓ جاٸیں۔ یہ امر باعث خوشی ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں نے عورت کے ذہنی وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ ممتاز درسگاہوں اور دانشگاہوں میں نساٸی شعور کی نوعیت، اہمیت اور ارتقإ کا جاٸزہ لیا جا رہا ہے جبکہ ڈیجیٹل معاشرہ میں فکری لحاظ سے مرد و زن کی تخصیص نہیں رہی۔ انھوں نے کہا کہ عورت کے وجود میں تخلیق کا وصف رکھا گیا ہے جو نٸی معاشرتی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عورت نٸی کیفیات کا شکار رہتی ہے۔ مزکورہ افسانہ نگار خواتین معاشرہ کی خواتین کا تعارف ہیں۔انھوں نے ممتاز دانشوروں شہاب الدین احمد، صفدر امام قادری اور دیگر شخصیات کا شکریہ ادا کیا۔ شہلا نقوی نے اظہار خیال کرتے ہوۓ کہا کہ ذکیہ مشہدی کا افسانہ ” شکستہ پروں کی اُڑان“ دلوں پر براہ راست اثر انداز ہو کر دلوں کوچھو لیتا ہے۔ان کے افسانہ کی ابتدا ہی دھماکہ خیز جملہ سے ہوٸی ہے جو کہ افسانہ کی خاص صفت ہے۔ ابتداٸی دو جملوں میں ہی دو عورتوں کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے جو کہ افسانہ نگار کا کمال ہے۔ زکیہ مشہدی اپنے افسانوں کے کرداروں نفسیاتی و سماجی صورتحال سے پوری طرح سے آگاہ ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ افسانہ الفاظ کا نہیں جزبات کا کھیل ہوتا ہے۔ جبکہ زکیہ مشہدی کے افسانوں کی خاص بات زبان وبیان کی خوبصورتی، محاورات، تشبیہات اور استعاراتی نظام سے منسلک ہے۔
غزال ضیغم نے زکیہ مشہدی کے فکر و فن پر روشنی ڈالتے ہوۓ کہا کہ وہ ستر کی دہاٸی کے بعد افسانہ کے افق پرنمودار ہوٸی۔ بلا شبہ وہ موجودہ عہد کی قد آور افسانہ نگار تھیں۔ ”شکستہ پروں کی اڑان“ کا بنیادی عنصر کہانی پن ہے۔ جو افسانے کو دھیرے دھیرے کھولتا ہے۔ یہ افسانہ مدھم آنچ پر سلگنے کا احساس دلاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک نفسیاتی افسانہ ہے جس میں عورت کی محرومیوں اور جزباتی ناآسودگیوں کا ذکر بار بار ہوتا ہے۔ افسانہ کبھی اکہرے تاثرات کا مجموعہ نہیں ہوتا اس میں حالات و واقعات، زمانہ، وقت، منظر، پس منظر، احساس کی کیفیت اور رشتوں کے تعلقات کی نزاکت کا مرکب بن کر تخلیقی اکاٸی بن کر فن پارے میں ڈھل جاتا ہے۔جزیات نگاری میں ذکیہ مشہدی کو ملکہ حاصل ہے۔ ان کے ہاں یہ فن عروج پر ہے۔ نساٸی جزبات کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں جب ان کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تو پھر نکاسی ٕ جزبات کے لیۓ ایسے رستوں کا انتخاب کرتا ہے جو مشرقی روایات پر سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے۔ اس افسانہ میں خواب جھٹکے سے پاش پاش ہو جاتے ہیں اور سنگین حقیقت سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ وہ فکشن کی اصلیت سے آگاہ اور اظہار بیان اور جمالیات کی رمز آشنا تھیں ان کے افسانے میں نفسیاتی تصورات اجتماعی اثر اور تہزیبی زوال کے ذرے نمایاں ہیں جنھیں پڑھ کر قاری لرزہ بر انداں ہو جاتا ہے۔ افسانے کا اختتام بھی کچھ ایسے ہی ہے کہ ” پڑوس کی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوٸی تو ناصرہ بیگم اٹھیں اور انھوں نے کپڑوں کی الماری سے جإنماز تلاش کرنا شروع کر دی ہے جسے عرصہ پہلے وہ کہیں رکھ کر بھول چکی تھیں“۔
انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں درس و تدریس سے وابستہ ممتاز دانشور بی بی آمنہ نے اظہار خیال کرتے ہوۓ کہا کہ شدت پسند معاشرہ اور گھریلو ماحول میں لکھاری خاتون کی الجھن دراصل انحطاط پزیر معاشرہ کی تصویر ہے۔ عورت کو مکمل فرد تسلیم نہیں کیا جاتا۔ افسانہ میں ”دادی“ پسماندہ طبقہ کا کردار ہے جس سے ہر ایک نے اپنی توقعات وابستہ کر رکھی ہوتی ہیں۔وہ ان توقعات پر پورا اترنے میں مصروف رہتی ہیں۔ مگر وہ کسی کو مطمٸن کر پا رہی ہیں اور نہ ہی کوٸی ان کے نفسیاتی وجود کو تسلیم کرنے پر تیار ہے۔ وہ محض اپنے تخلیقی سفر کے لیۓ ایک لمحہ کی کھوج میں ہے تاکہ تخلیق کے نٸے امکانات تلاش کر سکے اور خود کو فنا کے خوف سے نکال سکے۔ معاشرہ ان کی ایک دن کی چھٹی کا بھی روادار نہیں۔ نتیجتاً ان کے اندر کی عورت ”داخل“میں ہی رہ جاتی ہے۔ وہ زینب کے ذریعہ اپنا کتھارسس کرنے کی کوشش کرتی ہے۔افسانے کے لفظوں کی آڑ میں اپنے دکھ کا اظہار کرتی ہیں۔ وہ آشوب ذات سے اپنے افسانے کا آمیزہ تیار کر کے خود کو اجتماعیت عطا کر رہی ہے۔
امبرین صلاح الدین نے کہا کہ خالدہ حسین کا افسانہ دیگر تخلیقات کی طرح علامتی طرز میں نہیں لکھا گیا ہے۔ اس کا طرز بیان سادہ ہے تا کہ دادی کی کہانی آسانی سے عام آدمی تک پہنچے۔ انھوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں جبکہ عالمی شہرت یافتہ فکشن مشہور زمانہ ”ہیری پوٹر“ کی خالقہ اگر اپنی تخلیق کو مردانہ نام سے شاٸع نہ کرتی تو اسے کوٸی شاٸع بھی نہ کرتا۔ ان کا یہ افسانہ اسی کرب سے لکھا گیا۔
اس سے قبل تقریب کی ناظمہ اور بزم صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم کی جنرل سیکرٹری محترمہ ڈاکٹر افشاں بانو نے اپنے منفرد اور خوبصورت انداز سے تقریب کا آغاز کیا اور افسانہ نگاروں کے فن پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ذکیہ مشہدی نے دیہی کرداروں کے گرد کہانیاں بنی ہیں جبکہ خالدہ حسین نے جدیدیت کے ساتھ علامتی و تجریدی ادب تخلیق کیا۔ اس سے قبل تقریب کا باقاٸدہ آغاز راقم الحروف سمیعہ ناز ملک میڈیا سیکرٹری بزم صدف انٹرنیشنل نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ تقریب میں موجود جناب شہاب الدین ڈاکٹر تسلیم عارف اور دیگر علمی ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ اس تقریب کی خاص بات ممتاز دانشور حمیرا رحمان نے امریکہ سے انتہاٸی دلکش لب و لہجہ، تلفظ اور انداز بیاں سے افسانہ پڑھ کر شرکا ٕ محفل کے دل موہ لیۓ ۔ جبکہ تقریب کے اختتام پر ممتاز شاعرہ اور بزم صدف انٹرنیشنل کی پروگرام کوآرڈینیٹرمحترمہ عاٸشہ شیخ عاشی نے تمام حاضرین محفل و نا ظرین کا شکریہ ادا کیا اور خو بصورت و کامیاب محفل کے انعقاد پر محترم شہاب الدین اور صدر بزم صدف انٹرنیشنل خواتین محترمہ شاہدہ حسن کو مبارکباد پیش کی۔
و اشنگٹن:وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ مْنگل کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگلے ہفتے صدر کی حلف برداری اور انتخابی مراحل کی تکمیل تک 24 جنوری تک واشنگٹن میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرپ نے منگل کے روز 24 جنوری تک واشنگٹن ڈی سی کے لیے ہنگامی صورتحال کا اعلان کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ایک امریکی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پینس نے پیر کی شام وہائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ملاقات کی۔عہدیدار نے کہا کہ دونوں رہ نمائوں نے بدھ کے روز کانگریس میں ہونے والے تشدد کے بعد سے ملاقات نہیں کی تھی۔ دونوں میں مثبت گفتگو ہوئی۔ ڈیموکریٹس آئین میں 25 ویں ترمیم کے تحت ٹرمپ کے مواخذہ کے لیے پینس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جن لوگوں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور دارالحکومت میں گذشتہ ہفتے طوفان برپا کیا وہ 75 ملین امریکیوں کی حمایت والی امریکہ فرسٹ تحریک کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اقتدار کے آخری دن تک ملک کے لیے کام جاری رکھیں گے۔
قاہرہ:مصر میں میوزیم آف اسلامک آرٹ دُنیا کے اسلامی فن کا سب سے بڑے عجائب گھر قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں 100 ہزار سے زائد شاہکار نوادرات شامل ہیں جن کسی نا کسی شکل میں اسلامی تاریخی، ثقافت اور اسلامی تہذیب کی عکاسی کرتی ہیں۔مصرمیں واقع اس اسلامی عجائب گھر میں فن کی تمام شاخوں کو مختلف ادوار میں شامل کیا گیا ہے۔عجائب گھر میں موجود نوادرات کو علوم کے مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں جیسے اسلامی تہذیب کی تاریخ کے بارے میں جانکاری جیسے اہم سیکشن شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انجینیرنگ، طب، فلکیات جیسے سیکشن بھی اس میوزیم کا حصہ ہیں۔جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے یہ میوزیم قاہرہ کے تاریخی باب الخلق اسکوائر میں واقع ہے۔میوزیم کے ذخیرے میں طب ، سرجری ، جڑی بوٹیاں ، فلکیاتی آلات جیسے آسٹرو لیبز ، کمپاسس اور فلکیاتی گیندیں ،دھاتوں میں شیشہ اور سیرامک برتن ، زیورات ، اسلحہ ، لکڑی کی اشیا ، ہاتھی کے دانت ، ٹیکسٹائل ، قالینیں اور گئے وقتوں کی روز مرہ زندگی کی ضروریات کی نمائندگی کرنے والی اشیا، مسودات اور مخطوطے اور گذرے بادشاہوں اور حکمرانوں کے مکتوبات اور ان کے استعمال کی چیزیں بھی اس میوزیم کا حصہ ہیں۔میوزیم کو پہلی مرتبہ 1903 میں کھولا گیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد دنیا کے بہت سے حصوں مثلا مصر ، شمالی افریقہ ، لیونٹ ، ہندوستان ، چین ، ایران ، جزیرۃ العرب اور اندلس میں سے اسلامی نوادرات اور دستاویزات جمع کرنا تھا اور دنیا کے خطوں میں موجود مختلف اسلامی فنون کا اظہار کرنے والی نوادرات کو ایک چھت تلے جمع کرنا تھا۔سابق مصری صدر محمد حسنی مبارک نے 14 اگست 2010 کو میوزیم کی جامع ترقی اور بحالی کے عمل کی تکمیل کے بعد میوزیم آف اسلامک آرٹ کا افتتاح کیا۔ میوزیم کی بحالی کا کام سنہ 2002 سے 2010تک مسلسل 8 سال جاری رہا۔ بحالی اور تعمیر کے عمل میں فرانس کے ماہرین کی مدد لی گئی۔میوزیم میں تقریبا 12 صدیوں پر محیط ایک لاکھ سے زائد شاہکاروں نوادرات شامل ہیں۔ اس میں ہندوستان ، چین ، ایران اور سمرقند، عرب دنیا ، لیونٹ ، مصر ، شمالی افریقہ ، اندلس اور دوسرے ممالک لائے گئے ہزاروں فن پارے شامل ہیں۔میوزیم میں بالائی منزل پر ایک لائبریری بھی شامل ہے جس میں قدیم مشرقی زبانوں جیسے فارسی اور ترکی میں نایاب کتابیں اور مخطوطات کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ ہے۔ جدید یورپی زبانوں انگریزی ، فرانسیسی ، جرمن اور اطالوی لٹریچر بھی اس لائبریری کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی اور تاریخی نوادرات پر کتابوں کا مجموعہ ہے۔مجموعی طور پر اس لائبریری میں 13،000 سے زیادہ کتب ہیں۔ اسلامی میوزیم کو اموی ، عباسی ، ایوبی ، مملوک اور عثمانی ادوار کے دور فن پاروں کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے۔ 10 اقسام کے فن پاروں میں دھات ، سکے ، لکڑی ، ٹیکسٹائل ، قالین ، شیشے ، سجاوٹ کی اشیا، زیورات ، اسلحہ ، سنگ مرمر ہیں۔ میوزیم میں نایاب نسخوں کی تعداد 1170 مخطوطات پر مشتمل ہے جن کا تعلق ایران ، مصر ، مراکش ، ہندوستان ، اسپین اور دیگر ممالک سے ہے۔
ترک ٹی وی مبلغ ہارون یحی کو جنسی ہراسانی اور فراڈ کے الزامات میں ایک ہزار سال کی قید
استنبول:ترکی کی ایک عدالت نے ٹی وی مبلغ اور مصنف عدنان اَوطار کو ایک جرائم پیشہ گینگ بنانے ، فراڈ اور جنسی الزامات میں قصور وار قرار دے کر ایک ہزار سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی ہے۔عدنان اَو طار(ہارون یحییٰ) ماضی میں اپنا ملکیتی ٹیلی ویژن چینل اے 9 چلاتے رہے ہیں۔وہ اس چینل پر اسلامی اقدار کے بارے میں ایک ٹاک شو کی میزبانی کیا کرتے تھے۔اس پروگرام میں بعض مواقع پر وہ اپنے ساتھ نوجوان لڑکیوں کے ساتھ رقص کیاکرتے تھے اور نوجوانوں کے ساتھ بھی رقص کیا کرتے تھے۔انھیں وہ شیر اور شیرنیاں قرار دیتے تھے۔استنبول پولیس نے اَوطارکو جولائی 2018 میں گرفتار کیا تھا۔انھیں اور ان کے ساتھ 77 افراد کو ٹرائل کے دوران میں حراست میں رکھا گیا ہے۔ ترکی کی سرکاری خبررساں ایجنسی اناطولو کے مطابق عدنان اَوطار اور ان کے گروپ کے 13 سرکردہ ارکان کو مجموعی طور پر 9803 سال اورچھ ماہ قیدکی سزا سنائی گئی ہے۔خود اَوطارکو عدالت نے دس جرائم میں قصوروار قراردے کر 1075 سال اور تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔انھیں مسلسل یہ سزا بھگتنا ہوگی۔اناطولو کا کہنا ہے کہ عدالت میں 236 مدعاعلیہم کیخلاف مقدمہ چلایا گیا ہے۔ان میں سے بیشتر نے بے قصور ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور اپنی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔عدنان اَوطارنے اپنے خلاف عاید کردہ تمام الزامات کی تردید کی تھی اور اپنی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔واضح رہے کہ اَوطار نے 1970 کے عشرے کے آخر میں اپنے گروپوں کی تشکیل کا آغاز کیا تھا۔ پہلے پہل ان پر ایک جرائم پیشہ گینگ کی تشکیل کا الزام عاید کیا گیا تھا لیکن بعد میں انھیں اس مقدمے میں بری کردیا گیا تھا۔ عدنان اَو طار کی ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے 300 سو سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔ان کے 73 زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی اردو ہی نہیں، پورے بھارتی ادب کے ایک مہان لیکھک تھے: اشوک واجپائی
شمس الرحمن فاروقی کے نام ایک آن لائن جلسہ و مشاعرہ
بحرین:(احمد امیر پاشا)مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اردو کے زیر اہتمام شمس الرحمن فاروقی کے نام ایک آن لائن یادگاری جلسہ و مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔اس جلسے کی صدارت بھارت کے معروف ہندی شاعر و نقاد، سابق وائس چانسلر مہاتما گاندھی انٹرنیشنل ہندی یونیورسٹی محترم اشوک واجپائی صاحب نے فرمائی۔جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر سابق قائم مقام وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی و معروف نقاد محترم پروفیسر قاضی افضال حسین تھے۔ خانوا دہ شمس الرحمن فاروقی سے اظہارخیال کے لیے پروفیسر باراں فاروقی اور معروف تھیٹر پرسنالٹی محمود فاروقی موجود تھے ۔اجلاس کی ابتداء میں ناظم جلسہ معروف شاعر و مشیر اعلٰی، مجلس فخر بحرین محترم عزیز نبیل نے حاضرین محفل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی ایک عالمی شہرت یا فتہ قلمکار تھے انہوں نے اردو ادب کو جدید فکر وآہنگ اور جدیدطرز تحریر سے ہم آہنگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔چیر مین، دی پین فاونڈیشن محترم آصف اعظمی صاحب نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ شمس الرحمن فاروقی نے اپنی فن تجزیہ نگاری اور تنقید کو علمی دلائل سے انفرادیت عطا کی۔ ان کے تنقیدی مضامین اور ترکیب کاری نے ان کے نظریاتی حریفوں کو بھی ان کی علمی عظمت کا معترف کیا۔ اپنے ادبی رسالے ’’ شب خون‘‘ کے ذریعے انہوں نے اْردو ادب و صحافت اور تنقید نگاری کے میدان میں دو نسلوں کی تربیت کے فرائض سر انجام دیئے۔ ان کا بحر علمی آئندہ کئی نسلوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
محترم شمس الرحمن فاروقی کے صاحبزادے محترم محمود فاروقی (فلم و تھیٹر پرسنالٹی) اور صاحبزادی پروفیسر باراں فاروقی (پروفیسر، جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے اپنے والد کی ساتھ گزارے ہوئے لمحوں سے یادوں کے چراغ روشن کئے۔محترم پروفیسر قاضی افضال حسین صاحب نے شمس الرحمن فاروقی کو ایک عظیم قلمکار اور ہمہ جہت فن کار قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے ہم عصر نقادان ادب کے درمیان انفرادیت رکھتے تھے۔شمس الرحمن فاروقی کے مضامین اور کتابیں ادبی حلقوں میں نہ صرف شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ موضوع بحث بھی بن جاتی تھیں۔1960میں انہوں نے ایک رحجان ساز رسالہ شب خون جاری کرکے ادبی دْنیا میں ایک انقلاب برپا کیا ۔ خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے محترم اشوک واجپائی صاحب نے فرمایا کہ شمس الرحمن فاروقی صرف اردو کے ہی نہیں ہندوستانی ادب کے عظیم قلم کار تھے، انہوں نے اردو میں داستان گوئی کی روایت کو زندہ کیا،بانی و سرپرست، مجلس فخر بحرین محترم شکیل احمد صبرحدی نے اظہارِ تشکّر کرتے ہوئے فرمایا کہ مجلس فخر بحرین کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ فاروقی صاحب نے مجلس کی دو تقریبات میں شرکت فرمائی۔
الہ آباد یو نیورٹی کے چکبست سیمینار میں اور دوسرے علی گڑھ خلیل الرحمن اعظمی صاحب پر مجلس کی جانب سے شائع شدہ کتاب کے اجرا میں شکیل صاحب نے مزید فرمایا کہ مجلس کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ک مجلس کی سرگرمیوں کو ہندوستان کی قومی یکجہتی او مشترکہ تہذیبی روایت کا نمونہ بنایا جائے۔مجلس نے سن۲۰۱۳ ء سے اب تک شہر یار ،فراق گورکھپوری ، عرفان صدیقی ، پنڈت آنند نرائن ملا، خلیل الرحمن اعظی ، پنڈت برج نرائن چکبست ، مجروح سلطان پوری اور ہری چند اختر کے نام سیمینار اور مشاعرے منعقد کیے ہیں اور کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ مزید برآں شکیل احمد صبرحدی نے یہ اعلان کیا کہ مجلس فخر بحرین کی 2021 ، کی اپنی تمام تر سرگرمیاں فاروقی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں معنون کی جائیں گی۔ ان سرگرمیوں میں ہندوستان کے کسی شہر میں میں فاروقی صاحب پر ایک عالمی سیمنار ، ان کی شخصیت پر اردو اور ہندی میں ایک ضخیم کتاب کی اشاعت ، بحرین میں ایک عالمی سیمنار اور فاروقی صاحب کی یاد میں ہر تین ماہ پر ایک مقامی سطح کا مشاعرہ شامل ہو گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی آپ نے، تقریب میں شامل ممانان کرام، سامعین عظام اور فاروقی صاحب کے اہل خانہ کا فردا فردا شکریہ ادا کیا ۔اجلاس کے بعد عالمی مشاعرہ ،اردو کے نامور شاعرمحترم اظہر عنایتی کی زیر صدارت منعقد کیا گیا ، جس میں معروف شعراء کرام محترم پرتاپ سوم ونشی،محترم منصور عثمانی، محترم سعود عثمانی ،محترم عتیق انظر،محترم عزیز نبیل ،محترم خالد صبرحدی اور محترم ریاض شاہد نے کلام نذرِ حاضرین کیا۔مشاعرے کی نظامت خرّم عباسی کر رہے تھے ۔
ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی کے لیے سوامی وویکانند کے نظریات پر عمل کرنا ضروری:شیخ عقیل احمد
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں یومِ نوجوانان کی مناسبت سے تقریب منعقد
نئی دہلی:سوامی وویکانند ایک وسیع الجہات مفکر اور سماجی مْصلح تھے۔ وہ بھارت کے ’اتیتھی دیو بھوا ‘ اور ’واسو دیو کٹمبکم‘کے نظریے کواس ملک کی طاقت سمجھتے تھے ، ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں ہر دور میں دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب کا استقبال کیا گیا اور اسے دل سے اپنایا گیا ہے۔اس ملک کی یہ خصوصیت ہے کہ یہاں رہنے والے ہر مذہب کے لوگ سماجی ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور اختلافی امور پر باہمی مذاکرہ و ڈائیلاگ میں یقین رکھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر شیخ عقیل احمد نے سوامی وویکانند کے یومِ پیدایش کے موقعے پر کونسل کے صدر دفتر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے بتایا کہ سوامی وویکانند انسانی اخوت اور بطور انسان ایک دوسرے کی عزت و تعظیم پر زور دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر تم اپنے بھائی کی جوخدا کی قدرت کا مظہر ہے عزت نہیں کرو گے تو بھلا تم خدا کی عبادت کیسے کر پاؤگے جو مادی اعتبار سے یکتا اور ہر جلوے سے بے نیاز ہے۔‘‘ سوامی جی کو اس بات کا یقین تھا کہ مستقبل بھارت کا ہے،جس کا اظہار انھوں نے مِشی گن یونیورسٹی میں کچھ لوگوں سے مذاکرے کے دوران کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھاکہ ’’موجودہ حالات بھلے ہی آپ کے حق میں ہیں لیکن اکیسوی صدی بھارت کی ہوگی۔‘‘
ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ سوامی وویکانند ایسی اخلاقی قدروں سے متصف ہونے پر زور دیتے تھے جو انسانیت نوازی کی نمائندگی کرتی ہیں اور جن کواختیار کرنے کے بعد ایک انسان دنیا کے ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھتا ہے، چاہے وہ کسی بھی دھرم اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ سوامی جی نے طبقاتی تفریق اور ذات پات کے نظام کی سختی سے تردید کی ۔ انھوں نے کہا کہ ذات پات کا دھرم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،ہر انسان پیدایشی طورپر برابر ہے،کوئی کسی سے اعلی یا ادنی نہیں ہے۔مذہب یا ذات برادری کی بنیاد پر باہمی کشمکش اور فتنہ و فساد سے انھوں نے سختی سے روکا اور اسے بھارت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ سوامی جی نے خواتین کی تعلیم اور انھیں بااختیار بنانے پر بھی زور دیا،انھوں نے کہا تھا کہ بھارتی ثقافت میں خواتین کا خاص مقام ہے اور انھیں دیوی مانا جاتا ہے ایسے میں ان کی تعلیم کا نظم کرنا اور انھیں با اختیار بنانا ہماری سماجی اور مذہبی ذمے داری ہے۔عمومی تعلیم کے سلسلے میں بھی ان کا نظریہ واضح تھا،وہ سماجی و انسانی اخلاقیات سے لیس کرنے والی مذہبی تعلیم کے ساتھ نئی دنیا میں رائج تعلیم کے حصول پر بھی زور دیتے تھے۔ وہ تعلیم کے ماڈرنائزیشن کے خلاف نہیں تھے،البتہ اس کے ویسٹرنائزیشن کو ملک کے حق میں مفید نہیں سمجھتے تھے۔مرکزی حکومت کے ذریعے تشکیل دی گئی نئی قومی تعلیمی پالیسی سوامی جی کے نظریات کے مطابق ہی مرتب کی گئی ہے اور نئی نسل کو انہی نظریات کے سانچے میں ڈھالنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو کہ قابل تحسین اور خوش آیند ہے۔
انھوں نے کہا کہ سوامی وویکانند کے عزم اور خواہشات کی تکمیل کا احساس پیدا کرنے کے لیے ہر سال سوامی جی کے یومِ پیدایش 12جنوری کو نوجوانوں کے قومی دن کے طورپر منایا جاتا ہے۔اس کا مقصد یہی ہے کہ سوامی جی کے پیغامات کو اپنی عملی زندگی میں اتارا جائے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں ضروری کردار ادا کیا جائے۔سوامی جی کے خوابوں میں جو بھارت بستا تھا،اسے بنانے کی ذمے داری تمام شہریوں کی ہے۔ شیخ عقیل نے کہا کہ سوامی وویکانند کے یومِ پیدایش کے موقعے پرہم سب انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ عہد کرتے ہیں کہ روحانی و مادی ہر اعتبار سے ترقی یافتہ،خوشحال،پرامن اور بقائے باہمی کے اصولوں پر یقین رکھنے والا سماج بنانے میں ہم سب اپنا مطلوبہ کردار ادا کریں گے۔