اسلام آباد:طالبان نے حال ہی میں خواتین کے سفر کے حوالے سے پابندیاں عائد کی تھی۔ اب مردوں پر بھی نئی پابندیاں لگتی نظر آ رہی ہیں۔طالبان کی حکومت نے ایک نئے حکم نامے میں حجاموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ داڑھی مونڈنے یا تراشنے سے گریز کریں کیوں کہ یہ عمل اسلام میں ممنوع ہے۔افغانستان میں طالبان کی وزارتِ ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ کا ایک حکم نامہ سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہے جس کی کاپی موصول ہوئی ہے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ داڑھی بڑھنا ایک فطری عمل اور تمام پیغمبروں کی شریعت میں بھی اس پر بارہا زور دیا گیا ہے۔حکم نامے پر طالبان حکومت کے وزیرِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر شیخ محمد خالد حقانی کے دستخط بھی موجود ہیں۔حکم نامے میں درج ہے کہ تمام علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ داڑھی منڈوانا یا تراشنا منع ہے۔ تمام صحابہ، تابعین، مجاہدین اور دیگر تمام عالم دین شیو کرنے یا داڑھی تراشنے سے منع کرتے رہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عمل انسانی فطرت کے ساتھ شریعت کے بھی خلاف ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان تمام حقائق کی روشنی میں حجاموں کی دکانوں پر کام کرنے والے تمام افراد کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ حجامت کے دوران اسلامی احکامات اور شریعت کو ذہن میں رکھیں۔ پشتو میں لکھا گیا یہ حکم نامہ ایک طالبان عہدے دار کی جانب سے شیئر کیا گیا ہے لیکن طالبان کی اعلیٰ قیادت نے عوامی سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی۔مذکورہ حکم نامے میں قر آن و حدیث کے یہ حوالے بھی دیئے گئے ہیں۔جب اس حکم نامے کی تصدیق کے لیے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے رابطہ کیا تو انہوں نے حکم نامے کو مسترد یا اس کی صداقت سے انکار نہیں کیا۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں مزید تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔حکم نامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ وزارت کے زیرِ انتظام تمام صوبائی محکموں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ داڑھی رکھنا پیغمبراؐسلام کی سنت ہے اور تمام مسلمانوں کو سنت پر عمل کرنا چاہیے۔ صوبوں میں تمام حجاموں کو بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ جب وہ کسی شخص کی داڑھی تراش رہے ہوں تو ان ہدایات کو اپنے ذہن میں رکھیں۔حکم نامے میں حکام کو کہا گیا ہے کہ ان احکامات کو نرمی کے ساتھ عوام سے بات کر کے نافذ کرنے کی کوشش کریں تاکہ شہری اپنی زندگیوں کو مذہب، اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اسلام ؐکی سنت کے تابع بنا سکیں۔دوسری جانب کابل میں حجاموں کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ طالبان کی جانب سے اس حکم نامہ کے جاری ہونے سے پہلے بھی اپنی داڑھیاں نہیں منڈواتے تھے۔ رواں ماہ کے اوائل میں کابل کے ایک حجام نے بتایا تھا کہ جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے، ان کا کام صرف 20 فیصد رہ گیا ہے، لوگ داڑھی ترشوانے یا منڈوانے نہیں آتے ہیں۔
2021
ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ڈاکٹر تقی عابدی کی کتاب ’گلستان ہند‘ کا اجرا
مرزا غالب کے شاگرد بال مکند بے صبرؔ کا نایاب نسخہ ڈیڑھ سو سال بعد تقی عابدی کی محنت سے منظر عام پر آیا
نئی دہلی:ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ڈاکٹر تقی عابدی کی تدوین کردہ کتاب ’گلستان ہند بال مکند بے صبر کا اساتذہ اوردانشوران کے ہاتھوں اجرا عمل میں آیا۔ واضح رہے کہ گلستان ہند منشی بال مکند بے صبر کی تصنیف ہے جو پہلی بار1871 میں شائع ہوئی تھی۔ تاہم اس کا آج ایک بھی نسخہ دستیاب نہیں ہے سوائے اس ایک نسخے کے جو ڈاکٹر تقی عابدی کی ذاتی لائبریری کنیڈا میں موجود ہے۔ لہٰذا ڈیڑھ سوسال بعد ڈاکٹر تقی عابدی نے تحقیق و تدوین کے بعد اس نسخے کی اشاعت کی۔ منشی بال مکند بے صبر غالب کے شاگرد اور ہرگوپال تفتہ کے بھانجےتھے۔ اردو فارسی کے بہترین شاعر اور علم عروض و قوافی کے ماہر تھے۔اس کتاب کے محقق کے بقول یہ اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو سعدی شیرازی کی گلستان کے طرز پر لکھی گئی ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ کتاب حسن یوسف کی طرح ہے جو اب تک کنویں میں بند تھی لیکن اب یہ دنیا کے سامنے پیش کردی گئ ہے جس کی روشنی ادبی دنیا کو یقینا منور کرے گی۔
ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے چیئرمین پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور تقی عابدی کی اس کتاب کوایک بازیافت اور اردو تحقیق کے باب میں ایک اہم اضافہ قرار دیا۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے عرصہ دراز سے اس نسخہ کو سنبھال کر رکھا اور آج تدوین و تحقیق کے بعد ہمارے سامنے پیش کیا۔اس پروگرام کی مہمان خصوصی کامناپرساد نے اپنی گفتگو میں کہا کہ روزمرہ کی زبان ادب کی زبان سے مختلف ہوتی ہے ، بے صبرؔ کی اردو اگرچہ آج نہیں بولی جاتی لیکن اس کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت بہرحال ضرور ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر تقی عابدی نے اس کتاب کا انتساب کامناپرساد کے نام کیا ہے جو اردو کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہیں۔اس پروگرام میں صدارت کے فرائض ڈاکٹر اطہر فاروقی نے انجام دیے۔اس موقع پر خلیل الرحمن سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، روی کانت مشرا نہرو میموریل لائبریری، ہندی کے نامور ادیب و شاعر پروفیسر جتیندر کمار اگنو نے بہت اہم گفتگو کی اور پروفیسر رضوان الرحمن،اکٹر توحید خان، ڈاکٹر سمیع الرحمن، ڈاکٹر محسن، ڈاکٹر شفیع ایوب اور ڈاکٹر لیاقت کے علاوہ ریسرچ اسکالروں نے بھی شرکت کی۔ جب کہ تالیف حیدر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
ظفر اقبال ظفرکا تخلیقی سفر نصف صدی سے ذرا کم ہے۔وہ اپنے اس سفر میں بہت سے مشاہدات، محسوسات اور تجربات کے عمل سے گزرے ہیں اور اُن ہی تجربات و حوادث کو انھوں نے شعری پیکر عطا کیاہے۔ ان کے سامنے کلاسیکیت، ترقی پسندی، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے بہت سے شعری رویے اور نمونے تھے، راہیں بھی بہت سی تھیں مگر انھوں نے عمومی راستے سے اجتناب برتا اسی لیے ان کی شعری صوت و صدا، طرز احساس و اظہاراپنے اقران سے ذرا الگ ہے۔
ظفر اقبال ظفر کو شعر کہنے کا سلیقہ آتا ہے اور احساس،اسلوب کی شائستگی کا ہنر بھی ہے۔ موضوعات کی عمومیت بھی ان کے انفرادی اظہار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔مطالعاتی وسعت،طویل تخلیقی ممارست اور ریاضت نے ان کے اندر فکری اور فنی پختگی پیدا کر دی ہے۔ ان کے شعروں میں کوئی سقم اور شکستگی نہیں ہے۔ وہ شاعری کے جمالیاتی معیارات اور فنی لوازمات کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں جہاں خیال و الفاظ کی خوب صورتی، قوت اور روشنی ہے وہیں تکنیکی عمدگی، موسیقیت اور اصلیت جیسی خوبیاں بھی ان کی شاعری میں موجود ہیں مگر ان تمام خوبیوں کے باوجود بابِ شاعری میں ظفر اقبال ظفر کو وہ ظفریابی نہیں ملی جس کے وہ واقعی مستحق ہیں۔ یہی وہ المیہ ہے جس سے بہت سے جینوئن تخلیق کاروں کو گزرنا پڑا ہے۔ زندگی میں بہت سے تخلیق کار نظر انداز کیے گئے اور بہتوں کو ناقدری کا شکوہ بھی رہا مگر ان شکایتوں پر اربابِ نقد نے توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے فن کاروں کے تخلیقی احساس میں اضمحلال بھی آیا اور ان کے تخلیقی جذبے پر پژمردگی بھی چھائی رہی۔ ہاں کچھ خوش نصیب تخلیق کار ایسے ضرور ہوئے جنھیں زندگی میں اتنی پذیرائی تو نہیں ملی مگر موت کے بعد انھیں قدرے شہرت اور شناخت ضرور ملی اور تنقیدی حوالوں میں بھی شامل کیے گئے۔ فرانز کافکا، سیلویا پلاتھ، ڈکنسن، ایڈگر ایلن پو، جان کیٹس یہ وہ بڑے نام ہیں جنھیں عالمی ادب میں امتیاز حاصل ہے مگران کی زندگی میں انھیں بھی نظر انداز کیا گیا اور ان کے فکری اور تخلیقی انتاجات کے حوالے سے تنقیدی گفتگو نہ ہو سکی۔ظفر اقبال ظفر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ معاصر غزلیہ شاعری کے حوالے سے جو تنقیدی مطالعات سامنے آئے ہیں ان میں ان کا ذکر نہ کے برابر ہے خاص طور پر اتر پردیش کے شعری منظر نامے پر گفتگو کرنے والے بھی ظفر اقبال کو پیش منظر میں نہیں رکھتے۔ یہ بہت بڑی نا انصافی ہے جو ظفر اقبال ظفر اور ان کے جیسے کئی شاعروں کے ساتھ کی جاتی رہی ہے جب کہ ان کی شاعری میں وہ تمام خوبیاں اور خصائص ہیں جو ان کی عظمت کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔
ظفر اقبال ظفر کی غزلیہ شاعری کا کسی بھی تنقیدی زاویے سے مطالعہ کیا جائے تو وہ ان تمام معیارات پر کھری اتر ے گی جو اچھی اورعمدہ شاعری کے لیے متعین کیے گئے ہیں۔ موضوع کی معنویت، اسلوب کی تخلیقیت اور زبان کی صفائی اور سلاست کے اعتبار سے بھی ظفر اقبال ظفر کی شاعری پختہ نظر آتی ہے۔ ان کے یہاں کلاسیکی شعریات کی پاس داری کے ساتھ ساتھ نئی شعریات اور نئے شعور کا اظہار بھی ہے۔ انھوں نے بہت سی تحریکوں کے عروج و زوال کو بھی دیکھا ہے مگر ان کی شاعری کسی تحریک کے زیر اثر نہیں ہے۔ جدیدیت کے پیش کردہ وجودی مسائل کا اثر ضرور ہے مگر جدیدیت کی اسیری نہیں ہے۔ ان کی پوری شاعری فطرت اور مظاہر کائنات کے ارد گرد طواف کرتی ہے۔ان کا شعری مجموعہ ’نمودِ سبز‘ نقوشِ فطرت کا تخلیقی مظہر ہے۔ ان کی شاعری میں وہی رموز و علائم،تشبیہات و استعارات اور لفظیات ہیں جن کا فطرت سے گہرا رشتہ ہے۔ عشرت ظفر مرحوم نے فطرت سے ظفر اقبال کی شاعری کے ارتباط و انسلاک کی طرف لطیف اشارے کیے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
”طفر اقبال ظفر نے اپنی غزل میں فطرت کے حوالے سے بہت گفتگو کی ہے ان کی غزلوں میں بہت کم ایسے اشعارہیں جن میں مظاہر فطرت کا حوالہ نہ ہو“
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ظفر اقبال کے یہاں فطرت کے مظاہر و مناظرکا بہت عمدہ عکس و نقش ملتا ہے۔ فطرت سے متعلق جن لفظیات کا عمومی طور پر ذکر کیا جاتا ہے ان میں آسمان، زمین،چاند، سورج،ستارہ، صحرا، پھول، سمندر، پرند، پانی، آگ ہوا اوربادل شامل ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے اپنی شاعری میں فطرت کی ان لفظیات کے ذریعے اپنی ذہنی اور جذباتی کیفیات کی بہت عمدہ عکاسی کی ہے۔ ان لفظیات کے حوالے سے ظفر اقبال ظفرکے چند اشعارملاحظہ فرمائیں جن سے ان لفظیات کی قوت، توانائی، تازگی کے ساتھ معنیاتی ابعاد اورکثرتِ مفاہیم کا اندازہ ہوگا۔
آسمان فطرت کی ایک نا قابل تسخیر قوت ہے اور خدائی احساس کا مظہر بھی۔یہ لافانیت، وسعت اور بے کرانی کی ایک علامت ہے۔ مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں آسمان کے تعلق سے مختلف علامتی تصورات ہیں۔ یہ بلندی رفعت اور نا رسائی کابھی ایک اشاریہ ہے۔ ظفر اقبال ظفر کے یہاں آسمان کا استعمال اسی فطری مظہر کی وسعت اور نا رسائی کے حوالے سے ملتا ہے کہ اگر یقین ہو تو گمان کو چھونا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ آسمان تک رسائی دراصل ایک گمان ہی تو ہے مگر یقین سے آسمان کی بلندیوں کو بھی چھوا جا سکتا ہے۔ زمین و آسمان دونوں ہم رشتہ ہیں اور انسانی وجود سے ان دونوں کا بہت گہرا رشتہ ہے اور شاید اسی رشتے کی طرف شاعر نے بہت خوب صور ت انداز میں اشارہ کیا ہے:
تھک کے بیٹھوں تو آسماں چھو لوں
گر یقیں ہو تو میں گماں چھو لوں
زمیں بچھائے ہوئے آسمان اوڑھے ہوئے
میں چل رہا ہوں سفر کی تکان اوڑھے ہوئے
زمین بھی زرخیزی اور لامحدود تخلیقیت کی ایک علامت ہے۔ نسائیت سے اس کی ایک خاص نسبت ہے۔ قدیم وجدید شاعروں نے بھی زمین کا علامتی اور استعاراتی استعمال کیا ہے۔ میر، آتش، یگانہ، فانی کے یہاں بھی زمین کی علامتی معنویتیں ملتی ہیں۔ جدید شاعروں میں منیر نیازی اور بانی کے یہاں زمین بطور علامت و استعارہ موجود ہے۔ میر کا ایک شعر ہے:
خاکِ آدم ہی ہے تمام زمین
پاؤں کو ہم سنبھال رکھتے ہیں
تو جدید شاعروں میں رؤف خیر کا ایک اچھا شعر ہے:
میں زمیں ہوں مگر میرے اندر
کوئی تو ہے جو آسمان سا ہے
ظفر اقبال نے اپنی شاعری میں زمین کے حوالے سے کئی شعر کہے ہیں جن میں اس کے علامتی اور عمومی تصورات سامنے آتے ہیں۔ یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ جن میں زمین بطور علا مت بھی ہے اور بطور عمومی استعمال بھی۔
زمیں پر پاؤں دنیا کے کہاں ہیں
خلا میں پر کوئی لٹکا ہوا ہے
زمین پیروں کے نیچے سرک رہی تھی ظفر
لہو اگلتا ہوا سر پہ آسماں تھا بہت
تمہارے پاؤں کے نیچے کوئی زمین نہیں
ہم اپنے سر پہ کئی آسمان رکھتے ہیں
چاند محبت، روشنی، تنہائی، حیرت، خوبصورتی، داخلی آگہی کی علامت ہے۔ شعور،لاشعور کے درمیان کی ایک کیفیت، مرد عورت کے رشتوں میں وحدت بھی اس میں شامل ہے۔ چاند معشوق اور محبوب کا استعارہ ہے۔ مہتاب، قمر، چاند، ہلال جیسے لفظوں کا استعمال شاعری میں کثرت سے ملتا ہے اور اسی سے جڑی ہوئی ماہ پارہ، ماہ رُخ اور مہ جبیں جیسی ترکیبیں بھی ہیں۔ ظفر اقبال ظفرنے چاند کو اسی علامتی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔اس تعلق سے چند شعر ملاحظہ ہوں۔
چاند اپنی چاندنی کے ساتھ رخصت ہو گیا
اور میرے احساس سے ایک روشنی لپٹی رہی
زندگی بھر تو رہا خواب ہی آنکھوں میں مری
پھر مرے پہلو میں یہ چاند کہاں سے آیا
سورج زندگی، توانائی،اعتماد، طاقت اور مثبت توانائی کے ساتھ ساتھ منفی علامات سے بھی تحفظ کی علامت ہے۔ طاقت اور امن کا مظہر ہے۔ اس کے کئی علامتی اور استعاراتی مفاہیم ہیں۔ قدیم شاعروں میں آرزو، سودا،مصحفی، شاہ نصیر، غالب، ثاقب لکھنوی، جلیل مانکپوری وغیرہ نے سورج کو بطور علامت استعمال کیا ہے۔ جدید شاعروں کے یہاں بھی بطور علامتی اور اسطوری کردار کے اس کا استعمال ملتا ہے۔ وزیر آغا، احسان دانش، زیب غوری، بانی، عبید اللہ علیم، اطہر نفیس، پرکاش فکری اور شہاب جعفری وغیرہ کے یہاں سورج کے استعمال کی کئی اہم مثالیں ملتی ہیں۔ قدیم شاعروں میں اصغر گونڈوی نے سورج کی معنویت کو اپنے شعر میں یوں روشن کیا ہے:
کیا فیض بخشیاں ہیں رخ بے نقاب کی
ذرّوں میں روح دوڑ گئی آفتاب کی
تو وہیں جدید شاعروں میں احسان دانش نے بہت اچھا شعر کہا ہے:
فصیل شب سے کوئی ہاتھ بڑھنے والا ہے
فضا کی جیب سے سورج نکالنے کے لیے
ظفر اقبال ظفر نے بھی سورج کے تعلق سے بہت با معنی شعر کہے ہیں:
ہر اک نگاہ کو حیرت میں ڈال دیتا ہوں
زمیں کی تہ سے میں سورج نکال دیتا ہوں
اندھیرا ہے مری بستی میں ہر سو
میں سورج بن کے رہنا چاہتا ہوں
بہت اندھیرا تری بستیوں میں پھیلا ہے
دعا کو ہاتھ اُٹھا آفتاب اترے گا
مقید کر لیا سورج کو کس نے
اندھیرا ہر طرف پھیلا ہوا ہے
ستارہ بھی فطرت کا ایک خوب صورت مظہر ہے۔ اس کا تعلق بھی روشنی اور تحرک سے ہے۔ قدیم و جدید دونوں شاعروں کے یہاں ستارہ بطور علامت موجود ہے۔ ظفر اقبال ظفرنے بھی اپنی شاعری میں ستارے کو اس کی علامتی معنویت کے ساتھ استعمال کیا ہے:
جگنو دیکھا نہ ستارہ میں نے
شب کو اس طرح گزارا میں نے
کوئی صورت نہیں آنے کی اس کے
ستاروں کو بھی نیند آنے لگی ہے
طلوع جب سے ہوا ہے نہیں ہوا وہ غروب
ستارہ میرا وہیں حسب حال ٹھہرا ہے
پھول مسرت اور تازگی کی ایک علامت ہے۔ ظفر اقبال ظفر نے اپنی شاعری میں پھول کی معنویت کو یوں واضح کیا ہے اور انسانی زندگی سے اس کے گہرے رشتے کو بھی بیان کیا ہے:
بنایا پھول تو پتھر بنا ہے
عجب انداز سے منظر بنا ہے
نہ پھول ہی کوئی رکھا نہ آرزو نہ چراغ
تمام گھر کو بیابان کر دیا میں نے
ہر پھول سے ٹپکنے لگا ہے لہو ظفر
مجھ کو جراحتوں کا شجر دے گیا ہے وہ
درخت بنیادی طور پر ذاتی ارتقا، وحدت اور زرخیزی، طبعی اور روحانی غذائیت کی علامت ہے۔ اس کا انسانی زندگی اور اس کے ارتقا سے گہرا رشتہ ہے۔ شجر اور درخت کا شاعری میں استعمال عام ہے اور اس کی کئی معنویتیں ہیں۔ قدیم شاعروں میں حاتم، میر، آتش، غالب، داغ، فانی، ثاقب تو جدید شاعروں میں ضیا جالندھری، طہور نظر، شکیب جلالی، شہزاد احمد، کمار پاشی، شہریار، ظفر اقبال کے یہاں درخت کا استعمال ملتا ہے۔ حاتم نے جہاں یہ شعر کہا ہے:
پیری میں حاتم اب نہ جوانی کو یاد کر
سوکھے درخت بھی کہیں ہوتے ہیں پھر ہرے
تو وہیں سلیم شاہد کا ایک شعر ہے:
جن درختوں کی گھنی چھاؤں تھی وہ سب کٹ گئے
یوں لگا شاید مجھے جیسے میں بے گھرہو گیا
ظفر اقبال ظفرنے بھی درخت کا رشتہ شادابی، تازگی اور ارتقا سے جوڑا ہے:
دل میں شاداب جو شجر تھا ظفر
خشک ہو کر بکھر گیا مجھ میں
دعائیں سایہ بن کر چل رہی تھیں
درختوں کا کہیں سایہ نہیں تھا
وہ شجر سب کی نگاہوں میں کھٹکتا ہے بہت
راہ میں جس نے ہر اک کے واسطے سایہ کیا
سمندر بنیادی طور پر زندگی، طاقت اور فطرت کی ایک مضبوط قوت ہے۔ یہ انسانیت کا الوہی سرچشمہ ہے۔ انسانی زندگی سے سمندر کا ایک گہرا لگاؤ ہے۔ یہ ارتعاش اور تحرک کی بھی ایک علامت ہے۔ قدیم شاعروں میں سودا، میر، غالب، فانی، یگانہ اور جدید شاعروں میں ظفر اقبال، بانی، ناصر کاظمی، شہریار، عادل منصوری، بشیر بدر، آشفتہ چنگیزی کے یہاں مختلف مفاہیم میں سمندر کا استعمال ملتا ہے اور اس کی مختلف معنویتیں سامنے آتی ہیں۔ سودا کا ایک شعر ہے:
وہ سمندر ہے جس کا نہ کوئی پاٹ لگے
کشتی عمر مری دیکھیے کس گھاٹ لگے
ظفر اقبال ظفر نے بھی سمندر کو مختلف معنیاتی سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے:
صحرا کی طرف ہے نہ سمندر کی طرف ہے
رخ ساری بلاؤں کا میرے گھر کی طرف ہے
سمندر سے بجھی ہے پیاس کس کی
سرابوں سے گزرنا چاہتا ہوں
ہے دشت میں سراب بھی چاروں طرف مرے
سیراب کرنے والا سمندر چلا گیا
کیا کھلے آنکھ میں منظر کوئی
چاند سبزہ نہ سمندر کوئی
عمر بھر موجوں میں الجھا ہوں میں
پھر سمندر میں اترنا سیکھا
ہماری پیاس نہ بجھ پائی جب سمندر سے
لہو کشید کیا ہم نے اپنے خنجر سے
موجوں سے الجھنے کا سلیقہ بھی ہے ہم کو
ساحل سے سمندر کا نظارہ نہیں کرتے
ناؤ کاغذ کی سمندر سے نکل آئی ہے
ایک کہانی اسی منظر سے نکل آئی ہے
پتھر صلابت، استقامت اور استحکام کی علامت ہے۔ یہ طاقت کا بھی مظہر ہے۔ قدیم شاعروں میں میر، درد، مصحفی، آتش، غالب، داغ، ریاض تو جدید شاعروں میں شکیب جلالی، ناصر کاظمی، مصحف اقبال توصیفی، زیب غوری اور شہریار کے یہاں پتھر کا بہت ہی خوب صورت معنی خیز استعمال ملتا ہے۔ مصحفی کا ایک شعر ہے:
جس سنگ پہ خون کوہ کن تھا
وہ سنگ بھی تختہ چمن تھا
تو شکیب جلالی کا ایک شعر ہے
اور دنیا سے بھلائی کا صلہ کیا ملتا
آئینہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر برسے
ظفر اقبال ظفر نے بھی پتھر کو اس کی مختلف معنویتوں کے ساتھ اپنے شعروں میں استعمال کیا ہے:
انگلیاں زخمی ہیں اور پتھر سے ہے رشتہ میرا
نقش ہر دیوار پر ہے خون سے لکھا میرا
لوگ کہتے ہیں بستیئ انساں
آدمی ہیں یہاں تو پتھر کے
پانی تبدیلی، تحرک، حرکت اور بہاؤ کی علامت ہے۔ تزکیہ و تطہیر سے بھی اس کی مناسبت ہے۔ قدیم شاعروں میں میر، سودا، آتش، مصحفی، اور ثاقب لکھنوی کے یہاں اس کا استعمال ملتا ہے۔ جدید شاعروں نے نئے تلازمے کے ساتھ پانی پر شعر کہے ہیں۔ شکیب جلالی، ساقی فاروقی، شہزاد احمد، عزیز قیسی، عدیم ہاشمی، اعجاز عبید نے بہت اچھے شعر کہے ہیں۔ میرتقی میر کا ایک شعر ہے:
نمود کر وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر اک بلبلہ تھا پانی کا
جدید شاعر شہزاداحمد نے پانی کو دوسرے مفہوم و معنی میں استعمال کرتے ہوئے کہا:
میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
کانپ اٹھا ہوں گلی کوچو ں میں پانی دیکھ کر
ظفر اقبال ظفر نے بھی پانی کو اس کے حقیقی مفہوم میں استعمال کیا ہے:
چار جانب ہے پانی ہی پانی
کیسے پاؤں سراغ ساحل کا
آگ بقا اور زندگی کی علامت ہے۔ انسانی زندگی سے آگ کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں مفاہیم ہیں جو اردو شاعری میں استعمال ہوئے ہیں۔ قدیم شاعروں میں سراج اورنگ آبادی، میر، میر حسن، سودا، مصحفی، غالب، آتش، یگانہ، اصغر کے یہاں آگ کا مختلف معنیاتی سیاق و سباق میں استعمال ہوا ہے۔ جدید شاعروں میں ظفر اقبال، اطہر نفیس، بانی، محمود ایاز، لطف الرحمن، شمس الرحمن فاروقی، احمد مشتاق وغیرہ نے عمدہ شعر کہے ہیں۔ مصحفی کا شعر ہے:
لگ رہی ہے خانہئ دل کو ہمارے آگ ہائے
اور ہم چاروں طرف پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے
جدید شاعر احمد مشتاق کہتے ہیں:
دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر تو مجھے جلتا سا دکھائی دیتا ہے
ظفر اقبال ظفر نے آگ کو مختلف معنویتوں کے ساتھ اپنی شاعری میں جگہ دی ہے:
آگ ہی آگ ہے ہر سمت یہاں
زد سے اس کی نہیں باہر کوئی
آگ سی محسوس ہوتی ہے بدن میں
ذہن میں گویا کمانیں ٹوٹتی ہیں
ہوا تبدیلی اور تباہی کی ایک علامت ہے جو ایک غیر مرئی قوت ہے۔ یہ تعمیری بھی ہے اور تخریبی بھی۔ اردو شاعری میں منفی اور مثبت دونوں طور پر ہوا کا استعمال ملتا ہے۔ قدیم شاعروں میں سراج اورنگ آبادی، میر تقی میر، دوق، نسیم دہلوی، جلیل مانک پوری، انیس، یگانہ نے ہوا کو مختلف معنویتوں میں استعمال کیا ہے تو جدید شاعروں میں احمد ندیم قاسمی، اختر ہوشیار پوری، حمید الماس، مظہر امام، زیب غوری کے یہاں ہوا کے مختلف تصورات اور مفاہیم نظر آتے ہیں۔ نسیم دہلوی کا شعر ہے:
گر یہی ہے باغ عالم کی ہوا
شاخ گل اک روز جھونکا کھائے گی
تو زیب غوری کا شعر ہے:
ہوا کے شور میں صدائیں سنتا کون
پکارتا رہا گرتے مکان کے اندر
ظفر اقبال ظفر نے بھی ہوا کو اس کے مختلف سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے۔ یہ چند اشعار دیکھیں:
ہوا کا شور سننا چاہتا ہوں
خلا سے اپنا رشتہ چاہتا ہوں
زندگی میری ہواؤں کی ہے زد پر لیکن
فصل خوابوں کی ابھی آنکھ میں تیار نہیں
الزام دوں ہواؤں کو میں کس طرح ظفر
اپنے شکستہ جسم کی دیوار میں ہی تھا
فطرت اور اس کے مظاہر سے متعلق ان ہی لفظیات سے ظفر اقبال ظفر کی شعری تشکیل ہوئی ہے۔اس لیے ان کے یہاں فطرت اور کائنات کی کیفیات کا بہت ہی پر اثر بیانیہ نظر آتا ہے۔ ماں بھی فطرت کا ایک خوبصورت مظہر ہے۔ اس لئے ماں کے حوالے سے بھی ان کے یہاں بہت خوبصورت شعر ملتے ہیں۔
ساتھ میں ماں کی دعا اپنے ہمیشہ رکھو
یہ ہمیں غم سے نکلنے کا ہنر دیتی ہے
ماں کے قدموں تلے اللہ نے جنت رکھی
ماں کی ہر حال میں ہر طرح سے خدمت کی جائے
سکھایا اس نے ہے انگلی پکڑ کے چلنا ہمیں
ہم اپنی ماں کا کہاں پھر بھی دھیان رکھتے ہیں
ظفر اقبال ظفر کے یہاں فطرت کی جن لفظیات کا استعمال ہوا ہے ان کی کئی معنیاتی جہتیں ہیں۔ ایک ہی معنی یا مفہوم پر مرتکز نہیں ہیں بلکہ سیاق و سباق کے اعتبار سے ان کے مفاہیم بدلتے رہتے ہیں کہ در اصل فطرت بھی تغیر پذیر ہوتی رہتی ہے اور زمان و مکاں کے لحاظ سے اپنی صورت و کیفیت بدلتی رہتی ہے۔
7
موضوعات اور اسالیب دونوں زاویے سے ظفر اقبال ظفر کی شاعری کاجائزہ لیا جائے توبہت سے اہم نکتے سامنے آئیں گے۔ انھوں نے شعری کمپوزیشن کے عمومی موضوعات کے ساتھ ساتھ عوامی ترجیحات کے موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے اور بدلتے زمانے کے مسائل، واردات، مشکلات، مصائب، آلام و آزا ر، جدید انسان کے بحران اور بے چہرگی پر بھی شعر کہے ہیں۔ جدید غزل کے جو مخصوص موضوعات ہیں مثلاًمحرومی، مایوسی، نا امیدی، اداسی، انتشار، اضطراب، ٹوٹ پھوٹ، شکستگی، بے گھری، قنوطیت، یاسیت، بیگانگی، بے زاری، اجنبیت، تنہائی، تشکیک،بے تعلقی، خوف، عدم تحفظ، شکست وریخت، قدروں کا زوال وغیرہ یہ تمام ان کے موضوعاتی کینوس کا حصہ ہیں۔ آج کی متناقض اور متخالف زندگی کا منظر نامہ ان کی شاعری میں منقش ہے۔ ظفر اقبال ظفر کی شاعری میں یک رنگی ئ احساس نہیں بلکہ احساسات کی مختلف سطحیں ہیں جو وقت حالات یا سچویشن کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں اسی لیے کبھی روشنی، کبھی اندھیرا، کبھی مسرت، کبھی اذیت، کبھی امید، کبھی نا امیدی، کبھی شگفتگی، کبھی شکستگی، زمین و زماں کے موسم کے ساتھ ساتھ ذہنی موسموں میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ یہ شعری احساس کسی ایک نقطے پر مرکوز نہیں ہے بلکہ سیال پانی کی طرح اپنی کیفیت اور رنگ بدلتا رہتا ہے۔ خیال اور احساس کو کسی ایک مقام یا مرکز پر قرار نہیں بلکہ یہ اضطراب کی کئی موجوں سے گزر کر منزلوں تک پہنچنے کی سعی کرتا ہے۔ یہی اضطرابی لہریں ظفر اقبال کی شاعری کو ہمارے احساس کا حصہ بنا دیتی ہیں اور پڑھنے والا بھی ان ہی کیفیتوں سے ہم کنار ہوتا ہے جن سے ان کی شاعری گزرتی ہے۔ کہیں تلاطم، کہیں تصادم، کہیں تفاہم، کہیں تقسیم وتفریق، کہیں ترابط و توافق یہی ہے زندگی کا رنگ اور اسی رنگ کی آئینہ دار ہے ظفر اقبال ظفر کی شاعری۔ زندگی کے تضادات کو جس طور پر انہوں نے معاشرے میں محسوس کیا ہے اسی طور سے انھوں نے اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ صحرا، پہاڑ، ندی، سمندر سب ان ہی تضادات کے استعارے ہیں۔ ان سے جو تصویر بنائی جاتی ہے وہی کلی تصویر ہوتی ہے کیوں کہ صرف انسانی ذہن ہی نہیں زمین وزماں بھی ان ہی تضادات کے عمل سے گزرتے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے جہاں اپنے شعروں میں بے گھری کے کرب کا ذکر کیا ہے وہیں گھر کی عافیت و آسائش کا بھی بیان ہے، جہاں جڑوں سے جدائی کی بات ہے وہیں جڑوں سے پیوستگی کا بھی ذکر ہے۔ یعنی اپنی شاعری کے ذریعہ انھوں نے یہ بتایا ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، زمانے بدلتے ہیں تو ذہنیتیں تبدیل ہوتی ہیں۔ قدریں بدل جاتی ہیں۔ سالمیت شکستگی کا روپ لے لیتی ہے تو کبھی اجنبیت قربت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ تبدیلیوں کا یہی تدویری عمل حیات و کائنات کی حقیقت ہے اور اسی حقیقت کی عکاسی ظفر اقبال کی شاعری میں ہوئی ہے:
یہ شہر مرا ہے کہ آشوب کی بستی
انسانوں میں اب بوئے وفا تک نہیں آتی
یہاں تو آشنا ہیں سارے چہرے
سبھی کے ہاتھ میں خنجر کھلے ہیں
ظفر تنہائی اب ڈسنے لگی ہے
تری تصویر اب رکھنا چاہتا ہوں
کچھ تو ہوتا مری تنہائی بہلتی جس سے
میرے خوابوں کے گھروندے میں دریچہ ہی نہیں
اپنی تنہائی کہاں لے جاؤں
ہر طرف شہر میں ہنگامہ ہے
جانے کیا زہر ہے ہواؤں میں
سانس لینے میں سانس رکتی ہے
بم کی بارش ہو رہی ہے ہر طرف
آدمی ہے خود سے اب سہما ہوا
کٹ رہی ہے ڈور رشتوں کی ظفر
آج انسانوں کو آخر کیا ہوا
اے ظفر کون سی بستی میں میں آ پہنچا ہوں
موت ہی موت کا بازار نظر آتا ہے
سب ہی قاتل دکھائی دیتے ہیں
کس سے پوچھوں پتہ میں قاتل کا
یہ کس صدی کا سفر کر رہے ہیں ہم آخر
ہر ایک شخص ظفر خون میں نہایا ہے
ملا تھا دوست کی صورت جو مجھ سے
گرے خنجر اسی کی آستیں سے
نہ جانے کب سلگ اٹھے یہ بستی
گھروں میں بجلیاں ٹھہری ہوئی ہیں
سیاہی اس قدر پھیلی ہوئی ہے
نشاں ملتا نہیں ہے روشنی کا
جسے بھی دیکھوں وہ ٹوٹا ہوا ہے اندر سے
شکست و ریخت کا ہر سمت سلسلہ ہے یہاں
ہماری بستی میں ہر سمت ہو کا عالم ہے
کوئی تو چیخے کہیں سے تو کچھ صدا نکلے
اے خدا کس کرب سے دو چار ہے میرا وجود
ٹوٹتے لمحوں کی یہ کیسی صدا ہے ہر طرف
انسانی زندگی کے یہ شعری منظر نامے ہیں۔ انسان کی وجودی صورت حال کی یہ شاعرانہ تفہیم و تعبیر ہے جس میں اقدار کا زوال بھی ہے، بے چہرگی بھی،ماحول کی کثافت بھی ہے،بے وفائی و بے اعتباری بھی،خوف و دہشت بھی، ٹوٹتے، بکھرتے رشتوں کی کہانی بھی، شکستگی، افسردگی، آزردگی، آشفتگی، افتادگی، محزونی، لاحاصلی، بے رونقی بھی ہے اور انسانی کرب و اضطراب کا منظر بھی، انسانی معاشرے کے جو شب و روز، واردات، وقوعات، حادثات ہیں وہ سب موضوعاتی سطح پر ظفر اقبال کی شاعری کا حصہ ہیں۔
جدید غزل ان ہی طرح کے خیالات، جذبات اور محسوسات سے معمور ہے۔ جدید دور کا شاعر اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھ رہا ہے یا جو کچھ محسوس کر رہا ہے اسے وہ من و عن بیان کر دیتا ہے یہ ہمارے عہد کی وہ حقیقتیں ہیں جن کا ادراک معاشرے کے ہر حساس فرد کو ہے۔ آج کی غزل کے یہ حاوی اور غالب موضوعات ہیں جن کے حوالے سے زیادہ تر جدید غزل کے شعرا شعر کہتے رہے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر کا بھی موضوعاتی دائرہ عصری حسیت سے جڑا ہوا ہے اس لیے ان کے یہاں بھی آج کے زمینی اور زمانی مسائل سے جڑے ہوئے شعر مل جاتے ہیں۔
اسلوبیاتی لحاظ سے بھی ظفر اقبال ظفر کی شاعری جدید غزل کی لفظیات، علامات، اشارات سے ہم آہنگ ہے۔انھوں نے جدید لفظیاتی نظام سے اپنا رشتہ جوڑا ہے اور زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ علائم و رموز میں جو معنیاتی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ان کا انھوں نے بطور خاص خیال رکھا ہے۔ قدیم لفظیات اور اس کے تلازموں سے الگ انھوں نے جدید غزل کی لفظیات کو اپنی شاعری میں بہت ہی ہنرمندی کے ساتھ برتا ہے۔ جدید غزل میں عموماً جن لفظیات، علامات اور استعارات پر زیادہ زور ہے پروفیسر مغنی تبسم کے مطابق ان کی فہرست کچھ یوں ترتیب پاتی ہے:
”سمندر، دریا، ندی، پانی،لہر، موج، گرداب، بھنور، برف، ساحل، ریت، کشتی،ناؤ، بادل، بادبان،پتوار، جزیرہ،، بارش، برسات، ابر،بادل، تالاب، کنواں،دلدل،بارش، تشنگی، سراب، دشت، جنگل، صحرا، خرابہ، کھنڈر، سانپ، خوف، خطر، ڈر، دہشت، آسیب، عفریت، آہٹ، چاپ، پرچھائیں، زمین، خاک، مٹی، چاک، پتھر، سنگ، چٹان، کنکری، پہاڑ، درخت، شجر، پیڑ، ہتا، برگ، چھاؤں، پرند، اُڑان، آگ، خاکستر، چنگاری، شرر، دھواں، آسمان، چاند، چاندنی، ستارہ، تارہ، خلا، سورج، دھوپ، صبح، سحر، سویرا، دن، شام، رات، شب، تاریکی، اندھیرا، تیرگی، نیند، خواب، تعبیر، چراغ، روشنی، سکوت، خامشی، سناٹا، گونج، شور، ہوا، آندھی، غبار، گرد، ذرہ، گاؤں، کھیت، فصل، بستی، شہر، آبادی، بھیڑ، اجنبی، تنہائی، بے حسی، بے دلی، آئینہ، عکس، تصویر، چہرہ، فصیل، حصار، گھر، مکان، مکین، دیوار، چھت، دروازہ، دریچہ، کھڑکی، دہلیز، دستک، آنگن، صحن، عمارت، تعمیر، سیڑھی، سلسلہ، دشمن، فوج، لشکر، جنگ، لڑائی، زخم، لہو، تلوار، خنجر، حادثہ، سانحہ، قبر، تربت، زمانہ، صدی، لمحہ، وقت، سفر، مسافر، رستہ، رہ گزر، سرائے، مہمان، مہمان سرا، قافلہ، مسافت،تھکن،بدن، لباس،ملبوس،روح،گناہ، جرم، سزا، دعا، راز، زنجیر، قید، کاغذ، کتاب، لفظ، خرف، خبر، اشتہار، اخبار“(جدید اردو غزل کی لفظیات، مشمولہ زبان و ادب، ص190)
جدید غزل کے جو نمائندہ شعرا ہیں ان میں ناصر کاظمی، احمد مشتاق، منیر نیازی، ظفر اقبال، شہریار، بانی، زیب غوری، عرفان صدیقی وغیرہ بہت اہم ہیں۔ انھوں نے غزل میں بہت سے ایسے تجربے کیے جن کی بنیاد پر انھیں اعتبار اور امتیاز حاصل ہے۔ انھوں نے جن علامتوں کو اپنی شاعری میں وسیع تر معنیاتی تناظر میں استعمال کیا ہے ان میں شہر، جنگل، بستی، گھر، دشت، لہو، زہر، دھوپ، دریا، مکان، خواب، صحرا، ہوا، روشنی، سمندر، پیاس، ریت، سایہ، بیاناں، ندی،غبار، رات، شام وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ظفر اقبال ظفر نے بھی ان شاعروں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ اس لیے ان کے یہاں بھی یہی لفظیات اور علامتیں بکثرت ملتی ہیں۔ لیکن ظفر اقبال ظفر نے ان لفظیات اور علامتوں کو اپنے زاویے سے اپنی شاعری میں برتا ہے اور کچھ نئے مفاہیم اخذ کیے ہیں۔ ظفر اقبال ظفر کے پیش رو اور معاصر شعرا نے جن لفظیات اور علامات کو کثرت سے استعمال کیا ہے ان میں سے بہت سی لفظیات اور علامات ظفر اقبال ظفر کے یہاں بھی ہیں۔ ان میں گھر،سفر، سمندر، دشت، صحرا،دریاوغیرہ قابل ذکر ہیں۔گھر ایک ایسی علامت ہے جسے تحفظ، آسائش اور عافیت کے طو رپر استعمال کیا جاتا ہے۔ ظفر اقبال ظفر کے یہاں جو گھر ہے وہ کرب و اضطراب اور بے سکونی سے عبارت ہے۔پتھر کا گھر، بے درو دیوار کا گھرجو اضطراب و انتشار، آلام و آزارکا اشاریہ ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:
دے کے شیشے کا بدن پتھر کا گھر مجھ کو دیا
لمحہ لمحہ ٹوٹتے رہنے کا ڈر مجھ کو دیا
آندھیوں کے شہر میں رہنا تھا شاید اس لیے
بے در و ویوار کا رہنے کو گھر مجھ کو دیا
رہتا ہے روز و شب کسی آندھی کا ڈر مجھے
میرے بدن کو ریت کا گھر دے گیا ہے وہ
نئی ترکیب سے یہ گھر بنا ہے
دریچے ہیں نہ کوئی در بنا ہے
زندگی مجھ کو تھکا دیتی ہے گھر کے اندر
راہ دیتی ہے نہ یہ اذنِ سفر دیتی ہے
دشتِ امکاں کی طرح بے در و دیوار سہی
چھوڑ کر کیسے میں جاتا کہ مرا گھر ہی تو ہے
لگتا ہے مقدر میں میرے سایہ نہیں ہے
مدت سے سفر مَیں ہی ہوں گھر کیوں نہیں آیا
بکھری ہے ہر طرف یہاں اشیائے زندگی
لگتا ہے میرا گھر کوئی بازار ہو گیا
سفر بھی ان کے یہاں ایک علامت ہے اور اس کا استعمال ظفر اقبال ظفر کے یہاں مختلف زاویوں سے ملتا ہے۔قدیم شاعروں میں میر، سودا، درد، مصحفی، آتش، فانی، وحشت اور جدید شاعروں میں حفیظ ہشیار پوری، میرا جی، احسان دانش، شکیب جلالی، منیر نیازی، جمال احسانی، زبیر رضوی اور سلطان اختر کے یہاں سفر اور اس کے تلازمات کے متعلق بہت اچھے اشعار ملتے ہیں۔ درد کا شعر ہے:
اے بے خبر تو آپ سے غافل نہ بیٹھ رو
جوں شعلہ یاں سفر ہے ہمیشہ وطن کے بیچ
نئے شاعروں میں شکیب جلالی یوں کہتے ہیں:
اُتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں سے پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی
اسی طور کا ایک شعر ساقی فاروقی کا بھی ہے:
مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا
ظفر اقبال ظفر کے یہاں بھی سفر ان ہی معانی اور مفاہیم میں استعمال ہوا ہے گو کہ سفر وسیلہ ظفر ہے مگر ظفر کے یہاں یہ اذیتوں، صعوبتوں سے عبارت ہے۔ اس تعلق سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ کیسا سفر ہے کہ ہوا تک نہیں آتی
قدموں کی کہیں کوئی صدا تک نہیں آتی
مجھ کو تمازتوں کا سفر دے گیا ہے وہ
خوابوں کے پیرہن کو شرر دے گیا ہے وہ
گھوم پھر کر ہے اسی وادی غربت میں سفر
گردشِ وقت کا پیروں میں یہ چکر ہی تو ہے
سفر کا سلسلہ آخر کہاں تمام کروں
کہاں چراغ جلاؤں کہاں قیام کروں
کہاں سے نکلوں کہاں سے سفر تمام کروں
ہر ایک رہ میں جدال و قتال ٹھہرا ہے
عجب طلسم سفر ہے کہ پاؤں تھکتے ہیں
جو چل پڑے ہیں تو سائے میں بھی ٹھہرتے ہیں
اک عمر سرابوں کے سفر میں میری گزری
اک عمر سے آنکھوں نے سمندر نہیں دیکھا
ایڑیاں میری اگلتی ہیں لہو
کیسی راہوں کا سفر آیا ہے
زندگی بھر سفر میں رہنا ہے
کب ہمیں اپنے گھر میں رہنا ہے
سمندر دریا بھی ایک علامت ہے۔ جو قدیم اور جدید دونوں شاعروں کے یہاں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ بانی کا ایک شعر ہے:
عجب نظارہ تھا بستی کا اس کنارے پر
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے
ظفر اقبال ظفر نے سمندر اور دریا کو مختلف سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے جس سے سمندر اور دریا کی علامتی معنویت واضح ہوتی ہے:
دریا دریا میں پھرا تشنہ لبی لپٹی رہی
میرے قدموں سے ہمیشہ ریت ہی لپٹی رہی
صحرا کی طرف ہے نہ سمندر کی طرف ہے
رخ ساری بلاؤں کا میرے گھر کی طرف ہے
چلتے چلتے اس نے رستہ چھوڑ دیا
جانے کیسی پیاس تھی دریا چھوڑ دیا
اتنے سراب دیکھے ہیں آنکھوں نے عمر بھر
دریا بھی اب نگاہوں میں دریا نہیں رہا
ہر قدم پر ریت کا دریا بچھایا جائے گا
پھر ہماری پیاس سے پہرا اٹھایا جائے گا
ہے دشت میں سراب بھی چاروں طرف مرے
سیراب کرنے والا سمندر چلا گیا
دریا میں رہ کے میں نے گزاری تمام عمر
لیکن ہوا نہ دور میری تشنگی کا کرب
خود تو پیاسا رہوں اور پیاس بجھاؤں سب کی
زندگی کا میں وہ بہتا ہوا دریا ہو جاؤں
ناؤ کاغذ کی سمندر سے نکل آئی ہے
ایک کہانی اسی منظر سے نکل آئی ہے
آخری الذکر شعر پڑھ کر علی الدین نویدکا یہ شعر یاد آ جاتا ہے:
کاغذ کا ایک ناؤ بناتا ہوں شام تک
کالے سمندروں میں بہاتا ہوں رات بھر
دشت و صحرا بھی ایک ایسی علامت ہے۔ جس کا قدیم و جدید شاعری میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ آبرو، میر، میر سوز، آتش، غالب، فانی اور اصغر کے یہاں دشت و صحرا کی جو علامتی معنویت ہے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ شکیلب جلالی، منیر نیازی، زیب غوری، وقار خلیل، شاذ تمکنت کے یہاں بھی ملتی ہے۔ آتش کا ایک شعر ہے:
وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورتِ انساں پیدا
جدید شاعر وقار خلیل کہتے ہیں:
ساتھ ہے اک دشت تنہائی
گھر سے نکلو کہ اپنے گھر میں رہو
کچھ اسی طرح کی علامتی معنویتوں کے ساتھ دشت و صحرا اور اس کے تلازمات کا استعمال ظفر اقبال ظفر کے یہاں بھی ملتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ہم اپنی تشنگی کیسے بجھائیں
جو دریا تھا وہ اب صحرا ہوا ہے
ہر ایک سمت تھا تنہائیوں کا اک صحرا
کہ کس دیار میں لے آیا ہے سفر مجھ کو
راہ میں تھا کوئی سایہ نہ شجر تھا کوئی
ہم تو تپتے ہوئے صحرا کا سفر رکھتے تھے
صحرا کی مسافت میں شجر کیوں نہیں آیا
مانگی تھیں دعائیں تو اثر کیوں نہیں آیا
پس صحرا کوئی صحرا نہیں تھا
نشاں پھر بھی کوئی ملتا نہیں تھا
عمر گزری ہے مسائل کے گھنے جنگل میں
راستہ مجھ کو ملا ہی نہیں آسانی کا
ظفر اقبال ظفر کی شاعری میں وہی انسانی جذبات و احساسات ہیں جن سے شب و روز ہر فردِ بشر گزرتا ہے۔ ان کے الفاظ ان کے احساس سے مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آتے ہیں اور شاعری میں بھی انھوں نے جن استعارات کا استعمال کیا ہے وہ آج کی زندگی سے مربوط ہیں۔ در اصل یہ استعارے نہیں ان کی داخلی شکست و ریخت کا اشاریہ ہیں۔ ہر لمحہ ٹوٹتی بکھرتی زندگی کا عکس ہے۔ ان کی شاعری میں انسانی زندگی کے تمام تضادات اور تناقضات بھی در آئے ہیں۔
ظفر اقبال ظفر کی شاعری کا فطرت سے بہت گہرا رشتہ ہے ان کے بیشتر شعر ان کے وجودی، ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کا اظہار ہیں۔ ان کی زندگی جس شکل، جس کرب، جس المیے، جس اضطراب، جس انتشار اورجس درد سے گزری ہے وہی ساری کیفیتیں ان کی شاعری میں ڈھل گئی ہیں اس لیے ظفر اقبال ظفر کی شخصیت کی تفہیم کے لیے ان کی شاعری سے بڑا کوئی حوالہ نہیں ہے۔یہ پورے طور پر ان کے وجود کا انعکاس ہے۔یہ ان کی ذات اور ذہن کا تخلیقی مظہر ہے۔
ایک پوسٹ کے کمنٹس میں کئی دوستوں نے پوچھا ہے کہ مطالعہ کے دوران نوٹس کیسے بنائیں؟ نوٹس دراصل ذاتی یادداشت کے لئے تیار کئے جاتے ہیں، اس لیے ان کا کوئی ایک متعین طریقہ نہیں ہوتاـ
ایک عام اور سادہ طریقہ یہ ہے کہ اگر کتاب آپ کی ذاتی ہے تو مطالعہ کے دوران اس کے حاشیے پر مختصر سا نوٹ لکھ دیں، کتاب اللہ کی تلاوت کے دوران یہ طریقہ بہت مناسب ہوتا ہے کہ کسی لفظ کا مطلب نہ آتا ہو تو حاشیہ پر لکھ لیں، جب بھی تلاوت کریں گے تو یاد دہانی ہوتی رہے گی ـ
اگر کسی دوسری کتاب میں بھی یہی طریقہ اختیار کریں تو کوئی حرج نہیں ـ در حقیقت نوٹس میں یہ امر ملحوظ رہنا چاہیے کہ نوٹس کس مقصد کے لیے لے رہے ہیں ـ
اگر اس لیے ہیں کہ آپ بہ وقت ضرورت اس کی طرف دوبارہ مراجعت کر سکیں تو مختصر نوٹ، عنوان کے طور پر لکھ لیں ـ بعد میں ساری کتاب کے نوٹس کو موضوعات کے اعتبار سے تقسیم کر کے کمپیوٹر، موبائل یاکسی نوٹ بک میں جمع کر لیں ـ اصل کتاب کا نام، مؤلف، مطبع، سن طباعت اور جلد صفحہ وغیرہ لکھنا کبھی نہ بھولیں ـ
اگر نوٹس کو بعد میں کسی آرٹیکل میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو کتاب کے مکمل حوالہ کے ساتھ نسبتاً تفصیلی نوٹ لکھیں جس پر عنوان قائم کریں اور جس عبارت کے نوٹس لینا ہوں اس کا خلاصہ لکھ لیں ـ ایک عنوان پر اگر آپ کے پاس سو پچاس نوٹس ہو گئے تو آپ ان کو ترتیب دے کر ان کا تجزیہ اور تحلیل کر کے ایک عمدہ آرٹیکل لکھ سکیں گےـ
ایم فل، پی ایچ ڈی کے مقالات لکھنے والے یہی طریقہ اختیار کریں ـ کچھ عرصہ کی مشق کے بعد یہ کام بہت آسان ہو جاتا ہے اور اس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ پلیجرزم سے پاک، موضوع کے تمام جوانب کا احاطہ کرنے والی وقیع علمی تحریر سمجھی جاتی ہےـ
سمجھ دار لوگ ہر وقت ایک نوٹ بک یا نوٹس کیپر موبائل پاس رکھتے ہیں، جہاں کوئی کام کی بات ملی مع حوالہ لکھ لی اور بعد میں گھر جا کر اسے کسی دوسری جگہ مستقل طور پر منتقل کر دیاـ
الغرض نوٹس لینے کا کوئی متعین طریقہ نہیں ہےـ ہر فرد اپنی ضرورت اور آسانی کے مطابق کوئی طریقہ اختیار کر لیتا ہے البتہ نوٹس لیتے ہوئے اصل کتاب کا مکمل حوالہ لکھنا کبھی نہ بھولیےـ
حافظ شیرازی کا یہ مصرعہ:
"فراغتے وکتابے وگوشۂ چمنے‘‘
ہر اس شخص کے حافظے کا جز ہے جسے کتابوں سے تعلق ہےـ
مشہورعربی شاعر متنبی کے شعر کا مصرعہ ہے:
’’وخیر جلیس فی الزمان کتاب‘‘ یعنی زمانے میں سب سے بہتر ہم نشیں کتاب ہے۔ قلم اور کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ قرآن مجید میں قلم اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے:’’ن والقلم وما یسطرون‘‘ ۔ آخری پیغمبر پر سب سے پہلی وحی جو آسمان سے نازل ہوئی اس میں پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا، گویا یہ امت،امت اقراء ہے اور کتاب اور قلم سے اس کا رشتہ ناقابل انفکاک ہے۔ اسے ہر زمانے میں علم کی خردافروزی ، فکر کی تازہ کاری اور عالم ایجاد کی تحیرسامانیوں میں دوسروں کا امام اور پیشوا اور سب سے ممتاز اور فائق تر ہونا چاہیے تھا، اسے ’’قلم گوید کہ من شاہ جہانم‘‘ سے لاگ اور لگاؤ ہونا چاہیے تھا، صریر خامہ کو اس کے لیے نوائے سروش ہونا چاہیے تھا اور کتاب خانہ کو اس کے لیے دولت خانہ بننا چاہیے تھا، اس کی نظر میں ’’چیک بُک‘‘ سے زیادہ ’’بُک‘‘ کی اہمیت ہونی چاہیے تھی، ایک صاحب قلم کی عزت اس کے نزدیک بڑے بڑے صاحب جبروت بادشاہوں سے بڑھ کر ہونی چاہیے تھی، بساط ورق اور بساط قلم کے مقابلے میں مسند عیش وتجمل کو ہیچ ہونا چاہیے تھا، ایک شہنشاہ قلم کی عزت اورنگ نشیں صاحبِ کَروفر سلطان سے زیادہ ہونی چاہیے تھی، لیکن وائے حسرت ونامرادی کہ مسلمان اب علم سے دور اور تعلیم سے نفور ہیں۔ اب وہ اس زمانے میں علم میں دوسروں سے کوسوں پیچھے ہیں اور گرد کارواں بھی نہیں ہیں، اور دوسروں کے علم کا کارواں منزل بہ کنار ہے، یاران تیزگام نے محمل کو جالیا ہے اور ہم ابھی تک محو نالۂِ جرس ہیں‘‘۔
امت مسلمہ میں علم کے تنزل کا یہ مرثیہ ہندوستان کے نام ور صاحب قلم پروفیسر محسن عثمانی کے گہربار قلم سے ہے۔ آسمان علم پر چھائی گھنگور گھٹائوں کے ایسے لمحات میں امید کی کوئی ایک کرن بھی دلوں کو مسرت انگیزی کا احساس دلادیتی ہے، ان دنوں شہر کراچی میں ایک کتابی نمائش چرچا ہے، جو ہر سال دسمبر کے مہینے میں منعقد ہوا کرتی ہے، کتابوں کی یہ نمائشیں گرچہ فیشن کا ہی ایک حصہ بنتی جاتی ہیں،اس لیے خالص علمی ماحول بھی کتب بینی یا کتابوں کی خریداری کے بجائے لذت کام ودہن اورلباس وپوشاک کی نمائش سے شاد کامی کے متنوع مظاہر کی بھینٹ چڑھتا نظر آتا ہے، لیکن پھر بھی کتابی ذوق کے حامل عاشقان علم کی بھی ایک بڑی تعداد اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان نمائشوں کا رخ کرتی ہے، اور یوں یہ تقریب کسی درجے میں کتاب دوستی میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے۔
یہ تحریر ایسے کتاب دوستوں سے ہی مخاطب ہے، جنہیں کتاب شناسی کے آزمودہ اصولوں سے آشنا کرنا مقصود ہے، جو تجربے کی بھٹی میں پستے ہوئے یا کتابوں کی سیر کے دوران ہاتھ آئے ہیں۔
(۱) پروفیسر محسن عثمانی لکھتے ہیں:’’ مطالعے کے لیے صحیح کتابوں کا انتخاب ضروری ہے، کتابیں سمندر کی مانند ہیں، ضرورت اور ذوق کے مطابق کتابوں کا انتخاب کرنا چاہیے، اس میں کسی صاحب علم اور صاحب ذوق کی رہنمائی بھی اشد ضروری ہے، دل کے بارے میں جگر مرادآبادی کا شعر ہے:
کامل رہبر قاتل رہزن
دل سا دوست نہ دل سا دشمن
جگر مراد آبادی نے دل کے بارے میں جو بات کہی ہے، وہ کتاب پر اس سے زیادہ صادق آتی ہے۔کتابیں انسان کو ساحل ہدایت تک پہنچاتی ہیں، کتابیں انسان کو گمراہی کے بھنور میں ڈبوتی بھی ہیں، کتابیں انسان کو گم کردہ راہ بھی بناتی ہیں، وہ کامل رہبر بھی ہیں اور قاتل رہزن بھی ہیں‘۔
(۲)ہر علم وفن میں کچھ کتابیں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں، جنہیں حوالہ جاتی کتب (Reference books) کہا جاتا ہے، یہی کتابیں فن کے طالب علم کی اولین ضرورت ہوتی ہیں، اس لیے پہلے مرحلے میں ایسی کتب کے حصول کی تگ ودو کرنی چاہیے۔
(۳)کتاب کی خریداری سے قبل اہل علم اور ماہرین فن سے مشورہ کیجیے اور کتاب کے عمدہ ایڈیشن کے متعلق آگاہی حاصل کیجیے، ایک اچھا محقق کتاب کے حسن کو چار چاند لگادیتا ہے جبکہ خود غرض ناشر اسے ماند کردیتا ہے، تاجرانہ ذہن نے بہتیری کتابوں کے بخیے ادھیڑ کر انہیں مصنف کی مراد سے کوسوں دور پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ایسے ایڈیشن کے مطالعے سے مصنف کے فکر تک پہنچنا دشوار ہے، اس لیے کتاب کے کئی ایڈیشن ہوں تو تقابلی جائزہ لیجیے اور ایسے ایڈیشن خریدیے جو اہل علم کے ہاں معتبر ہوں اور جن کا حوالہ دیا جاتا ہو۔
(۴) ایسے مصنفین کی کتابیں قابل ترجیح ہواکرتی ہیں جو تحقیقی مزاج کے حامل ہوں ، فن پر دسترس رکھتے ہوں، صاحب مطالعہ ہوں اور قلم پر مضبوط گرفت بھی رکھتے ہوں،قلم کو ’’احد اللسانین‘‘(اظہار کا دوسرا ذریعہ) کہا گیا ہے، کتاب مصنف کی فکر کی عکاس ہوا کرتی ہے، اس لیے معتمد وممتاز مصنفین کو پڑھیے۔
(۵) خریدنے سے پہلے کتاب کی ورق گردانی کرلیجیے، تاکہ کتاب کے عیوب سامنے آجائیں، ممکن ہے کہیں بیاض رہ گئی ہو یا کوئی حصہ چھُوٹا ہوا ہو، جلد سالم نہ ہو، دیگر اشیا ئے ضرورت کی طرح کتاب کی خریداری بھی عمدہ ذوق اور مہارت چاہتی ہے۔
(۶)کتاب پر کسی صاحب فن کاتبصرہ (Book review )ہو تو اسے پڑھ ڈالیے، مقدمہ ، پیش لفظ ، عرض مولف وغیرہ دیکھیے، فہرست پر نگاہ ڈالیے، خاتمے سے نتائج فکر کا جائزہ لیجیے اور اہل فن سے اس کے مقام ومرتبہ کو جانیے، بہت سی کتابیں فن کی دسیوں کتب سے مستغنی کردیتی ہیں، آج کل کی نئی کتابوں میں عموما نئی معلومات کم ہوتی ہیں، اکثر وبیشتر معلومات کا تکرار ہوتا ہے، تاہم بعض کتابیں اس تکرار کے باوجود اسلوب کی سہل انگاری ،ترتیب کی عمدگی یا دیگر اضافی خصوصیات کی بنا پر خریداری کے لائق ہوتی ہیں۔
(۷) ایسے اشاعتی اداروں کی کتابیں خریدنے سے احتیاط برتیے جو بدمعاملگی یا علمی سرقے میں معروف ہوں، البتہ بعض اوقات ایسے اداروں کے ہاں بھی عمدہ ایڈیشن دستیاب ہوجاتے ہیں۔
(۸) کتابی نمائشوں سے فائدہ اٹھائیے، ان میں دسیوں ممتاز ادارے یکجا ہوجاتے ہیں، جن کتابوں کے لیے سفر کی ضرورت بھی پیش آسکتی تھی، وہ ایک ہی چھت تلے دستیاب ہوتی ہیں، ایسے میں اچھی کتابیں سستے داموں بھی مل جاتی ہیں، البتہ یہ پہلو ذہن میں رکھیے کہ بعض نمائشوں میں اداروں کو جگہ کے کرائے اوردیگر اخراجات کی بنا پر مجبوراً قیمتیں زیادہ کرنا پڑتی ہیں، ایسے ادارے اگر شہر میں ہی ہوں اور کوئی فوری ضرورت بھی درپیش نہ ہو تو نمائش کی بجائے ادارے سے کتاب کے حصول کو ترجیح دیجیے، جبکہ وہاں مناسب قیمت میں کتاب ملنے کا امکان ہو۔ (۹) نمائشوں میں بھی اپنی ضرورت کو دیکھیے، رواروی اور دیکھا دیکھی میں کتاب نہ خریدیے، بلکہ چھان پھٹک سے کام لے کر ہی انتخاب کیجیے۔
(۱۰) کتابوں پر صرف کی گئی رقم کو بیکار خیال نہ کیجیے،مفید علمی کتابوں پر لگایا گیا مال ’’ہم خرما وہم ثواب ‘‘ کا مصداق ہوتا ہے، قیمتوں میں کمی ضرور کرائیے لیکن:
جمادے چند دادم جاں خریدم
بحمد اللہ عجب ارزاں خریدم
( چند روپوں کے عوض عزیز از جاں شے حاصل کرلی ہے، شکر ہے کہ یہ سود ا ارزاں ہے، گھاٹے کا نہیں) پیش نگاہ رکھیے۔ تلک عشرۃ کاملۃ۔
نیویارک : نیویارک سٹی کونسل میں حلف برداری میں سرمئی رنگ کی ساڑھی میں ملبوس، قرآن ہاتھ میں تھامے 30 سالہ شاہانہ حنیف ہی تھیں جو اس کونسل کی تاریخ میں پہلی مسلمان رکن منتخب ہوئی ہیں۔شاہانہ حنیف نہ صرف نیو یارک سٹی کونسل کی پہلی مسلمان رکن ہیں بلکہ یہاں تک پہنچنے والی پہلی جنوبی ایشیائی نژاد خاتون بھی ہیں۔انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں اپنی تصویر شیئر کی جس کے ساتھ ہی انہوں نے قرآن کی آیات کا انگریزی ترجمہ بھی لکھا۔شاہانہ حنیف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنی مذہبی اور نسلی شناخت کو نظر انداز کرنے کے بجائے اسے مزید نکھارا۔ اپنی کیمپین ویڈیو اور انتخابی مہم کے دوران وہ نہ صرف ببانگ دہل کرتے پاجامے میں نظر آتی رہیں بلکہ امریکی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی بنگلہ دیشی شناخت کو بھی فخر سے متعارف کراتی رہیں۔امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے وقت شاہانہ حنیف صرف 10 برس کی تھیں جب انہیں اپنی بہن کے ساتھ مسجد جاتے ہوئے کسی شخص نے دہشت گرد پکارا۔اس واقعے سے وقتی طور پر سہم جانے والی بچی آج 20 برس بعد اسی شہر کی سٹی کونسل تک پہنچنے والی پہلی مسلمان خاتون ہے۔بروکلین میں پلی بڑھی شاہانہ حنیف کو وومن اینڈ جینڈر اسٹڈیز کی ڈگری نے ایسی قوت بخشی کہ وہ خواتین، نچلے طبقوں، مذہبی اقلیتوں اور تارکین وطن کی پرزور آواز بن گئیں۔شاہانہ حنیف کا نہ صرف ہمیشہ مقامی مسجد سے تعلق مضبوط رہا بلکہ وہ اپنی بنگلہ دیشی جڑوں سے بھی جڑی رہیں۔نیو یارک میں پہلی پیڑھی کی بنگلہ نژاد خواتین زیادہ تر گھروں تک محدود رہیں۔البتہ شاہانہ حنیف نے بنگلہ دیشی نژاد خواتین کی حالت زار بدلنے کے لیے نوجوانی ہی میں ناری شونگوتھوک یعنی بنگلہ دیشی نژاد خواتین کارکنوں کا گروہ تشکیل دیا جس کا کام خواتین کے حقوق پر آگاہی فراہم کرنا تھاشاہانہ حنیف کبھی زمانہ طالبِ علمی میں نیو یارک میں پولیس کی جانب سے مسلمانوں کی نگرانی پر احتجاج کرتی نظر آئیں تو کبھی ٹیکسی ڈرائیورز کی ہڑتال میں ان کے حقوق کی آواز بنیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے انتخاب پر جنوبی ایشیائی اور مذہبی اقلیتیں خاص طور پر خوشی کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہیں۔
نیویارک :عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی قسم اومیکرون اور ڈیلٹا کے واقعات کے سونامی کے سبب پہلے سے بحران سے دوچار نظام صحت پر مزید دباؤ پڑے گا۔خبر کے مطابق، عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ وائرس کی اقسام ڈیلٹا اور اومیکرون کی وجہ سے دوہرا خطرہ ہے جس سے واقعات کی تعداد میں ریکارڈ اضافے کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد اور اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات پر شدید تشویش ہے کہ سب سے زیادہ تیزی سے منتقل ہونے والا وائرس اومیکرون اور ڈیلٹا بیک وقت تیزی سے پھیل رہے ہیں جس سے واقعات کا نیا سونامی آنے کا اندیشہ ہے۔عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے مزید کہا کہ یہ پہلے سے ہلکان محکمہ صحت کے عملے اور مشکلات سے دوچار نظام صحت پر مزید دباؤ ڈالتے ہوئے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا دے گا۔انہوں نے کہا کہ نظام صحت پر دباؤ ناصرف نئے کورونا وائرس کے مریضوں بلکہ صحت کے عملے کے بیمار ہونے کی وجہ سے پڑا تھا۔ٹیڈروس ایڈہانوم نے مزید کہا کہ جن لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی ان کا وائرس کے کسی بھی ویریئنٹ سے ہلاک ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ادھر ماہرین نے بھی آنے والے مہینوں کو اس حوالے سے بہت اہم قرار دیا ہے۔جاپانی حکومت کے طبی ماہر ڈاکٹر شیگورو اومی نے کہا کہ ایک مرتبہ جب کیسز بڑھنا شروع ہوگئے تو ان کی تعداد بہت تیزی سے اوپر جائے گی۔واضح رہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اومیکرون کے بڑھتے ہوئے کیسز کے سبب نئی پابندیوں کے نفاذ کا سلسلہ جاری ہے۔رواں سال اپریل سے جون کے درمیان ڈیلٹا کی وجہ سے بدترین حالات سے دوچار ہونے والے ملک بھارت میں ایک مرتبہ پھر واقعات کی تعداد بڑھنا شروع ہو چکی ہے اور اومیکرون کے 700 سے زائد متاثرین رپورٹ ہونے کی وجہ وہاں پھر سے خوف کے ماحول نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ وائرس کی اس قسم سے بچاؤ میں فائزر، ایسٹرازینیکا اور موڈرنا ویکسین کے بوسٹر شاٹس کافی مؤثر ہیں البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی افادیت کم ہوتی رہے گی۔
چیرمین، فاران فائونڈیشن، انڈیا
مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندویؒ ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جن کی حیثیت علاقائی ، صوبائی ، قومی ہی نہیں بلکہ عالمی اور بین الاقوامی تھی ، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ رب کائنات نے انھیں بہت سی خصوصیات اور مختلف صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اور انھوں نے اللہ کی طرف سے عطا کی ہوئی تمام صلاحیتوں کا بجا اور بہترین استعمال بھی کیا، چناں چہ ایک طرف اگر وہ اخلاص کی دولت سے مالامال ، ملی تڑپ ان کے سینے میں موجزن اور علم و مطالعہ سے ان کی زندگی عبارت تھی تو دوسری طرف بیش قیمت تجربات ، وسیع نظری اور دینی غیرت و حمیت کا سرمایہ ان کے پاس تھا ، اور اظہار حق ان کا طرہ امتیاز ۔ مولانا کی پوری زندگی کا مطالعہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ مذہبی و ملی مفاد ، دین کی بالادستی اور حق گوئی کو اپنا شعار بنایا اور کبھی بھی اس میں کسی فرد ، ادارے،شہرت و جاہ طلبی، ادنی درجے کی مادیت پسندی یا کسی اور مصلحت کو حائل نہ ہونے دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہر عہد میں ان کی شخصیت اور ان کی عظمت و مقبولیت، ان کی گراں قدر علمی صلاحیت اور دیگر اعلی خصائل کی بنیاد پر تسلیم کی گئی۔
سید ابوالحسن علی ندوی کی شخصیت حد درجہ مقبول رہی ہے بقول سید سلیمان ندوی ’حجازومصرکی فضائیں ان کی دعوت کے نغموں سے مسحور ہیں‘، بقول عبد الماجد در یابادی ’علی میاں تاروں کی جھرمٹ کے درمیان آفتاب ہیں‘، رشید احمد صدیقی کے خیال میں ’مولانا کی تحریر اسلوب اوراظہار کے اعتبار سے جتنی سنجیدہ اور موئثر ہے اتنی ہی دلکش بھی ‘، آ ل احمد سر ور کہتے ہیں ’مو لا نا مفکر بھی ہیں ، مصنف بھی ، مورخ بھی ہیں معلم بھی ، اور ادب کا ایسا رچا ہوا ذوق رکھتے ہیں کہ ان کی تحریر و تقریر میں حکمت کے سا تھ شعر یت کی آ ب وتا ب جلوہ گر رہتی ہے ‘، ما ہر القا دری کی نگا ہ میں ’شبلی کا قلم ، غزالی کی فکر ، اور ابن تیمہ کا جو ش وا خلا ص علی میا ںکی تصنیف میں کا ر فر ما ہے ۔‘
مولانا نے اپنی خطابت کے ذریعے موثر انداز میں اسلام کی ترجمانی ، صالح قدروں کی تشکیل ،اسلامی طرزپر نوجوانوںکے مستقبل کی تعمیر کا مقدس فریضہ بھی انجام دیا ہے، وہ نوجوانوں کو ملت کا کار آمد اور مفید سرمایہ تصور کرتے ہیں ،وہ اپنی تقریروں میں ان کی توجہ اس جانب بھی مبذول کراتے ہیں کہ یورپ جا کروہ اعلی تعلیم حاصل تو کریں لیکن اس پر نظر رہے کہ مغربی تہذیب کے دلدادہ اور ذہنی مغلوبیت کے شکار نہ ہو جائیں، وہ قوم کے جیالوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس انتہائی موثر انداز میں اپنی ایک تقریر میں دلاتے ہیں: ’’عزیز نوجوانوں ! آپ مغرب اس لیے نہیں آئے کہ آپ موم کی طرح پگھل جائیں ۔ آپ اس لیے آئیں ہیں کہ ایک نیا عالم تعمیر کریں ۔ابراہیم کے فرزند اور ان کے پیرو ہی ایسا عالم تعمیر کر سکتے ہیں ۔جن پاک باز ،امانت دار ہاتھوں نے حرم کی تعمیر کی انھیں کے نام لیوا اور انھیں کے پیرو نئے عالم کی تعمیر کر سکتے ہیں ، آج دنیا زبان سے یہ کہہ رہی ہے: ’معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز ‘ ۔ آپ مغرب اس لیے ہر گز نہیں آئے ہیں کہ یہاں سے واپس جاکر اہل مشرق کو طوطوں کی طرح رٹا رٹایا سبق سنائیں، بندروں کی طرح نقلیں بنائیں ۔ مشرق کو ایسے صاحب ہمت اور صاحب دانش انسانوں کی ضرورت ہے جن میں ایسی جرأت ہو کہ وہ مغرب سے کہہ سکیں کہ تو نے یہاں یہاں غلطی کی ہے۔‘‘
مو لا نا علی میا ں ندوی کا نما یا ں کا ر نا مہ یہ ہے کہ انہوں نے مذہبی مو ضو عا ت میں ادب کا رنگ و لطف پیدا کیا اور تحقیق و تنقید کو گلے ملا دیا ۔ وہ مورخ ، نقاد ، محقق اور منفرد اسلو ب کے مصنف اور ادیب ہیں ۔ انہوں نے اسلا می تہذیب و تا ریخ کا احسا س ایک غا لب و پا ئیدا ر عنصر کی حیثیت سے کرا یا اور اپنی خا لص اسلا می فکر کی تصو را تی رنگ آ میزی سے دنیا کے سا منے ایک مثا لی نظا م حیا ت کا خا کہ پیش کیا ۔ اعلی نصب العین کی سو سا ئٹی کی تشکیل ان کی فکر کی سب سے اہم خصو صیت ہے ۔ اپنے گہر بار قلم سے صا لح قدیم و نا فع جدید کا ایسا حسین امتزاج پیش کیا ، جو قا بل رشک بھی ہے اور لا ئق تحسین و تقلید بھی، انہوںنے اپنے مو قف کا خو د اعلا ن کیا : ’’میں اس ادب اور پیغا م کی طرف بے اختیا را نہ بڑھتا ہوں ، جو بلند نظری ،اعلی حوصلگی اور احیا ئے اسلا م کی دعوت دیتا ہے اور تسخیر کا ئنا ت اور تسخیر انفس و آفاق کے لیے ابھا ر تا ہے اور جو محمد ﷺ کی عظمت اور ان کے پیغا م کی آفاقیت و ہدا یت پر ایما ن لا تا ہے۔‘‘
مو لا نا اپنے نظر یہ علم کی وضا حت کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں: ’’میرا عقیدہ ہے کہ علم ایک اکا ئی ہے جو بٹ نہیں سکتی ۔ اس کو قدیم و جدید، مشرقی و مغربی ، نظری و عملی میں تقسیم کر نا صحیح نہیں ،میں علم کو ایک صدا قت ما نتا ہوں ،جو خدا کی وہ دین ہے ،جو کسی ملک اور قو م کی مِلک نہیں اور نہ ہو نی چا ہئے، مجھے علم کی کثرت میں بھی وحدت نظر آ تی ہے ، وہ ’وحدت‘ سچا ئی ہے ، سچ کی تلا ش ہے ، علمی ذو ق ہے اور اس کو پانے کی خو شی ہے۔‘‘
حضرت مولا نا کی عا لمی مقبو لیت او رشہرت کا را ز صرف علم کی وسعت ، تصا نیف کی کثرت ، کئی زبا نو ں پر قد رت اور اسلوب کے جما ل میں پوشیدہ نہیں بلکہ وہ دا رالعلو م ند و ۃ العلما، مدا رس عر بیہ ، دینی تعلیمی کو نسل ، آ ل انڈیا مسلم پر سنل لا بو رڈ ، عا لمی را بطہ ادب اسلا می او ر بہت سے علمی اداروں کے روح روا ں ، سربراہ اور مشیر خا ص تھے ۔ ان کے فکر و عمل میں وسعت تھی اور شخصیت میں حد در جہ توا زن و اعتدا ل۔وہ اپنے اعلی اخلاق و کردار کی وجہ سے سبھوں میں مقبو ل اور مسلک و نظر یات کے اختلا ف کے با وجو د لو گ انہیں خرا ج تحسین و عقیدت پیش کر تے ہیں۔
تصنیف و تا لیف ، زبا ن و ادب ، فکر اسلا می کی بلندی ، عا لم اسلا م کے مسا ئل پر گہری نظر ، عا لمی دینی تحریکا ت کی سر پر ستی اور با طل رجحا نا ت پر نکیر ، اسلا می تشخص کا دفا ع ، حکو متوں کو جھکا دینے کی رو حا نی طا قت ، دو لت دنیا سے بے نیا زی ، اور شان ا ستغنا سے بہر ور ، مو لا نا نے اپنی شخصیت اور کر دار سے دعوت وعزیمت کی تا ریخ کا ایک جلی عنوان قا ئم کر دیا ۔ وطن عزیز کے لیے آپ کی فکرمندی اور دلسوزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوران علالت آپ کی عیادت کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جب ندوہ آئے تو اخلاقی ملاقات کے بعد حضرت نے ان سے کہا : ’’ اٹل جی ! خدا کے یہاں سیاست نہیں چلتی ،خلوص چلتا ہے ، سچائی چلتی ہے ، خلوص کے ساتھ کام کیجئے کامیابی قدم چومے گی ، ترقی کی راہیں کھلیں گی اور فتح و کامرانی آپ کے قدم سے قدم ملا کر چلے گی ۔ اوپر والے نے آپ کو اتنا بڑا ملک دیا ہے وہ اس ملک کے بارے میں آپ سے پوچھے گا بھی ، آپ کو یہ ایک موقع ملا ہے کہ آپ اس ملک کو اتنی ترقی دیں اور اس کو اتنا خوشحال اور پر امن بنائیں کہ لوگ دوسرے ملکوں میں جانے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔ ‘‘مزا ج کی نر می کے با وجو د قیا دت کے منصب کے تقا ضے کی ادائیگی میں مسلم پر سنل لا بو رڈ کے صدر کا جر اتمندا نہ اقدا م ہندوستا ن کی ملی تا ریخ کا قا بل فخر حصہ بن گیا ۔جب حکومت وقت کو متنبہ کر تے ہو ئے مو لا نا نے فر ما یا کہ’ اگر سر کا ری اسکو لوں سے پو جا کی لازمیت کو نہیں ہٹا یا گیا تو ہم مسلما نو ں سے کہیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکو ل سے نکا ل لیں‘ ۔حضرت کے اعلا ن کے دو سرے دن حکو مت نے اپنا فیصلہ وا پس لیا اور ان سے معذرت کی ۔ مفکر اسلا م نے اس اقدا م سے نہ صر ف حکو مت کی گو شما لی کی بلکہ ہند وستا ن کی ملی قیا دت کے سا رے قا ئدین کے لیے ایک اعلی نمو نہ پیش کیا۔مختلف مو قعوں پر اس طرح کے فیصلو ں کی ضرورت محسو س ہو تی ہے ۔
اعتدال اور توازن مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی کے فکر و عمل کا جوہری وصف تھا،وہ سارے معاملات میں اس کا خیال رکھتے ، یہ وہ خوبی تھی جس کی بنا پر وہ ہر حلقہ میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے، بلائے جاتے،مسند صدارت پر بٹھائے جاتے ، ادارے اور افراد نگاہ و نظر فرش ِراہ کرتے اور حددرجہ احترام کے ساتھ پیش آتے۔ان کا طرز عمل عزیزوں کے ساتھ شفقت اور بزرگوں کے ساتھ اکرام کا ہوتا۔ وہ مثبت طرز فکر کے آدمی تھے۔جہاں کوئی خوبی نظر آتی اس کی قدر کرتے ، کار آمد افراد اور طبقوں کو دعوت فکر و عمل دیتے۔دانشوراورمذہبی شخصیتوں کی ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ جب کسی دور میں اخلاقی گراوٹ کا ایسا دورہ پڑتا ہے تو اس وقت دو طبقے میدان میں آتے ہیں ، ایک مذہبی پیشوائوں کا طبقہ ، دوسرا دانشوروں کا طبقہ ، اس وقت بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی پیشوا اور مذہبی انسان اور دانشور میدان میں آئیں ، وہی اس وقت معاشرہ کو بچا سکتے ہیں۔‘‘
1997میں جب پٹنہ میں ’عالمی رابطہ ادب اسلامی ‘کا سمینار اور ’پیام انسانیت کانفرنس‘ کا ہم لوگوں نے انعقاد کیا تھا۔مجلس استقبالیہ کے صدر ڈاکٹر احمد عبدالحئی صاحب تھے،راقم الحروف (شکیل احمد قاسمی) سکریٹری کی حیثیت سے ذمہ داری ادا کر رہا تھا،حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب امارت شرعیہ، ڈاکٹر حبیب الرحمان چیغانی صاحب ڈائریکٹر خدابخش لائبریری ، جناب شفیع مشہدی صاحب، مولانا ابو الکلام قاسمی صاحب اور دوسرے حضرات،اراکین میں شامل تھے۔مفکر اسلام پٹنہ تشریف لائے، ڈاکٹر صاحب کے یہاں ان کا قیام تھا۔ ہم لوگوں نے ان سے عرض کیا : بینر کے اوپر ’’ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے‘‘ لکھا گیا ہے ، انہوں نے فوراََ پوچھا کیا اس کا پہلا مصرعہ بھی آپ لوگوں نے لکھا ہے ؟ ہم لوگوں نے جواب دیا نہیں تو انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔ پہلا مصرعہ’’ان کا جو فر ض ہے وہ اہل سیاست جانیں‘‘ اس سے جو پیغام نکلتا ہے اور طنز و تعریض کی جو صورت سامنے آتی ہے اس سے اہل علم واقف ہیں۔ مولاناحساس تھے اور اس قدر احتیاط پیش نظر رکھتے تھے۔ اس طرح ہم تمام لوگوں کی انہوں نے تربیت فرمائی۔ 31 ؍ دسمبر 1999کو عالم اسلام کی ایک عبقری شخصیت ،مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی اس دار فانی سے منتقل ہوگئے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
نگہ بلند، سخن د ل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
گاندھی جی پر دشنام طرازی کرنے والے کالی چرن کی گرفتاری،ایم پی کے وزیر داخلہ نے اعتراض جتایا
نئی دہلی : مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ ڈاکٹر نروتم مشرا نے رائے پور پولس کے ذریعہ کالی چرن مہاراج کی کھجوراہو سے گرفتاری پر اعتراض کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ یہ انٹر اسٹیٹ پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، وفاقی وقار اس کی اجازت نہیں دیتا۔ انہیں بالکل بھی اطلاع دینی چاہئے تھی، اگر چھتیس گڑھ حکومت چاہتی تو انہیں نوٹس دے کر بلوا سکتی تھی۔میں نے ایم پی کے ڈی جی پی سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر چھتیس گڑھ کے ڈی جی پی سے بات کریں کہ یہ ان کا کیا طریقہ ہے۔ گرفتاری کے اس طریقے پر اپنے اعتراضات کا اظہار کریں۔اپنا احتجاج درج کروائیں اور وضاحت بھی حاصل کریں۔وہیں چھتیس گڑھ کے سی ایم بھوپیش بگھیل نے مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ ڈاکٹر نروتم مشرا کے بیان پر اپنا ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے نروتم مشرا پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے نروتم مشرا کو بتانا چاہیے کہ وہ مہاتما گاندھی کو گالی دینے والوں کی گرفتاری سے خوش ہیں یا ناراض۔ دوسری بات ہے کہ کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔ وہاں موجود قانونی دفعات کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ مہاتما گاندھی جنہوں نے دنیا کو امن، بھائی چارہ، محبت، سچائی، عدم تشدد اور مساوات کا پیغام دیا، اگر کوئی ایسے لیجنڈ کے بارے میں گالی گلوچ کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور چھتیس گڑھ پولیس نے یہ کارروائی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے اہل خانہ اور ان کے وکیل کو مطلع کر دیا گیا ہے۔ اسے 24 گھنٹے میں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔واضح رہے کہ کالی چرن مہاراج کو چھتیس گڑھ کے رائے پور میں منعقد مذہب پارلیمنٹ میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے خلاف توہین آمیز‘تبصرہ کرنے اور ان کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی تعریف کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ تب سے بی جے پی اور کانگریس لیڈروں کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔
نئی دہلی :الیکشن کمیشن جمعرات کو اہم پریس کانفرنس کیا ۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ تمام پارٹیاں کووڈ پروٹوکول کے ساتھ اتر پردیش میں بروقت انتخابات چاہتی ہیں۔ انہوں نے بروقت انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ یوپی میں 15 کروڑ سے زیادہ ووٹر ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق یوپی میں 52.8 لاکھ نئے ووٹروں کا اضافہ ہوا ہے۔ حتمی فہرست 5 جنوری کو آئے گی۔ اس کے بعد بھی فہرست میں موجود کمی کو دور کیا جائے گا۔ تاہم کچھ سیاسی جماعتیں زیادہ ریلیوں کے خلاف ہیں۔ نیز سوشل میڈیا پر بھی مانیٹرنگ کی جائے گی۔ قابل اعتراض پوسٹ پر کسی بھی طرح سے کارروائی کی جائے گی۔ ریاستوں کی سرحدوں پر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے۔لکھنؤ میں ایک پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر سشیل چندرا نے بتایا کہ 18 سے 19 سال کی عمر کے نئے ووٹروں کی تعداد گزشتہ انتخابات سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس بار خواتین ووٹرز کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ اس بار الیکشن کمیشن کے اسمبلی انتخابات میں ہر قیمت پر کورونا پروٹوکول پر عمل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ چندرا نے کہا کہ یوپی حکام نے ہمیں بتایا ہے کہ 50 فیصد آبادی کو مکمل طور پر ٹیکہ لگایا گیا ہے۔ کورونا کے حوالے سے نئے بوتھ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ہم نے حکم دیا ہے کہ ہر کسی کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک دی جائے۔ ہر کسی کو جلد از جلد دوسری خوراک ملنی چاہیے۔ یوپی حکام کے مطابق یوپی میں اب تک صرف 4 اومیکرون معاملے ہیں۔ ہم یہاں آنے سے پہلے ہی مرکزی سیکرٹری صحت سے مل چکے ہیں، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ تمام پولنگ اسٹیشنوں پر کورونا پروٹوکول کی پیروی کی جائے۔
اومیکرون کا طوفانی پھیلاؤ ،دنیا میں نئی پابندیاں، حرمین شریفین میں سماجی فا صلہ نا فذ
ریاض :دنیا بھر میں کرونا وائرس کی اومیکرون قسم تیزی سے پھیل رہی ہے اور گذشتہ روز فرانس اور امریکہ میں وبا کے آغاز کے بعد سے یومیہ سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور دنیا کے بہت سے ممالک نے نئے سال کے آغاز پر کرونا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ادھر پاکستان میں اب تک اومیکرون کے کل 75 کیسز کی تشخیص ہو گئی ہے۔ مجموعی طور پر گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پاکستان میں کرونا وائرس کے 348 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ اسی دوران یہ میں چھ اموات بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔ امریکہ میں بیماریوں کی روک تھام کے مرکز (سی ڈی سی) نے بتایا ہے کہ ملک میں پیر کے روز چار لاکھ چالیس ہزار افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ دوسری جانب فرانس میں یورپ کے اب تک سب سے زیادہ یومیہ کرونا متاثرین رپورٹ ہوئے ہیں۔ منگل کے روز ملک میں لگ بھگ ایک لاکھ 80 ہزار افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی ہے۔ فرانس اور انگلینڈ کی جانب سے لوگوں سے اپنی عقل کے مطابق فیصلے کرنے کا کہا گیا ہے۔ جبکہ اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں نئے سال کے مرکزی اجتماع میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد محدود رکھی جائے گی۔ اٹلی کی جانب سے نائٹ کلبز اور کھلے آسمان تلے ہونے والے اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ چین اور جرمنی نے بھی دوبارہ سخت پابندیاں لگا دی ہیں۔ ادھر حرمین شریفین میں جمعرات سے ماسک اور سماجی فاصلے کی پابندی لازمی قرار دے دی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے پورے مطاف میں زمین پر نشانات کے اسٹیکر چسپاں کرنے کا عمل شرع ہوچکا ہے۔ انتظامیہ نے کہا ہے کہ اسی طرح مصلوں کی دوبارہ تقسیم ہو رہی ہے تاکہ نمازیوں کے درمیان ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھا جائے۔ سعودی وزارت داخلہ نے کہا کھلے مقامات اور بند جگہوں کے علاوہ تمام سوشل ایکٹیوٹیز میں ماسک اور سماجی فاصلے کی پابندی لازمی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے لاحق خطرہ بہت زیادہ ہے۔ اس سے نظام صحت متاثر ہوسکتا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے وبائی امراض کے بارے میں اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ شواہد سے پتہ چلا ہے کہ اومیکرون ڈیلٹا ویریئنٹ کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔کرونا وائرس کے اومیکرون ویریئنٹ کے خلاف ویکسین کی اضافی یعنی بوسٹر ڈوز کا اثر 10 ہفتے بعد کمزور پڑنے لگتا ہے۔ یہ انکشاف برطانوی سرکاری ادارے ’یو کے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی‘ (یو کے ایچ ایس اے) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کیا ہے۔ اس تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کووِڈ 19 ویکسین کا اثر، ڈیلٹا ویریئنٹ کے مقابلے میں اومیکرون ویریئنٹ کے خلاف زیادہ تیزی سے کم ہوتا ہے۔
ہر دور کی اپنی ایک پہچان اور شناخت ہوتی ہے، جسے لوگ اس زمانے کے بارے میں جانتے اور اس کی روشنی میں کسی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں خود نوشت، سر گزشت اور سوانح عمری بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جس کے ذریعے سیاسی و سماجی حالات ہی نہیں بلکہ اس عہد میں جینے والے لوگوں کے بود و باش، رہن سہن اور تعمیر و ترقی کے علاوہ اس کے پس منظر اور پیش منظر سے بھی آگاہی ملتی ہے۔ معروف صحافی اور قلم کار سعید نقوی کی کتاب ’’وطن میں غیر۔ ہندوستانی مسلمان‘‘ بھی ویسی ہی ایک سر گزشت ہے، جس سے ہمیں عہد حاضر بلکہ جدید ہندوستان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
سعید نقوی نے رائے بریلی کے قصبے مصطفیٰ آباد میں 1940 ء میں آنکھیں کھولیں۔ لکھنؤ کے لامارٹینئر کالج سے تعلیم حاصل کی اور اسٹیٹس مین اور انڈین ایکسپریس جیسے مقتدر اخبارات سے اپنے صحافتی کریر کا آغاز کیا اور پھر انھیں انڈین ایکسپریس، سٹیزن، بی بی سی، سنڈے آبزرور، سنڈے ٹائمز اور واشنگن پوسٹ جیسے معروف اور مقتدر صحافتی اداروں سے وابستگی کا موقع میسرہوا۔ یہ کتاب ایسے ہی جہاں دیدہ صحافی کا احوال نامہ ہے جو ہندوستان میں آزادی کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور واقعات کے ارد گرد گھومتی ہے۔
اس کتاب میں معاصر ہندوستان کی تاریخ میں رُونما ہونے والی اتھل پتھل، ہندو مسلم مخلوط کلچر کی تباہی،لکھنؤ کے قریب واقع مصطفیٰ آباد و دیگر خطوں کے باہمی پیار و محبت اور رواداری کے لٹ جانے کی کہانی بیان کی گئی ہے، ساتھ ہی ملک کی تقسیم کی وجہ سے ہونے والی انسانیت کی تاراجی و تباہی کا الم ناک نوحہ بھی شامل کتاب ہے۔ یوں یہ کتاب ایک صحافی کی صرف سر گزشت نہیں بلکہ قلم کار کے ذاتی مشاہدات و تجربات کی شمولیت،1947 سے عصر حاضر تک ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ صاحبانِ اقتدارکی جانب سے روا رکھے جانے والے ’ناروا سلوک‘ کی بہ اندازِ تحقیق عقدہ کشائی کرنے والے اہم دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
کتاب کی کہانی اودھ کے مصطفیٰ آباد کی حویلی کے احاطے والے دُہرے بر آمدے سے شروع ہوتی ہوئی تقسیم ہند کی ہول ناکی اور اس کے بعد ہندوستان میں شروع ہونے والی مسلمانوں کی تشخص اور بقا کی لڑائی کے ارد گرد گھومتی ہے، جو تب سے اب تک وطن عزیز میں مختلف آزمائشوں سے گذرتے ہوئے اپنے وجود کو سمیٹنے اور بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کئی جگہ آپ خود کو نہیں روک پائیں گے اور آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جائیں گی۔ ایک ایسا ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، کیسے لٹتا ہے؟ کیسے بکھرتا ہے؟ کیسے کیسے حربے اپنائے جاتے ہیں؟ قربانیاں کس نے دیں، فیض کس نے حاصل کیا؟ بلی کا بکرا کون بن رہا ہے؟ یہ سب اس کتاب میں نہایت خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
کتاب کو پڑھنے کے بعد ان بڑے قد آور لیڈر وں اور سیاست دانوں کی شخصیت کے دوسرے رُخ سے پردہ بھی اٹھتا ہے، جن کے نام پر لوگ پھول برساتے بلکہ پلکیں بچھاتے رہے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد کئی’عظیم المرتبت‘ شخصیتوں کی عظمت کا بھرم ٹوٹ جاتا ہے، علاوہ ازیں عوام کے بھولے پن اور شخصیتوں پر آنکھ بند کرکے اعتبار کرنے کے بھیانک نتیجے سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔ کتاب میں مصنف نے کانگریس کی منافقت اور اس میں شامل نہرو، گاندھی اور سردار پٹیل کے حالات کو بھی تاریخ کے دریچوں سے دکھانے کی کوشش کی ہے، جو آنکھیں کھول دینے والا ہے۔ غالب کی طرح مصنف کی آم سے دل چسپی اور اس کے تناظر میں مختلف ثقافتوں اور سماج کے رجحانات کو بیان کرنے کا انداز اور دیہی و شہری زندگی کو منعکس کرنے کی کوشش عمدہ ہے۔ کتاب میں مصنف کے صحافتی کریئر کی داستان بھی شامل ہے، جس کا مطالعہ صحافت کے طلبا اور اس میدان سے تعلق رکھنے والے افراد کےلیے دل چسپی سے خالی نہیں۔
آزادی کے بعد کے ہندوستانی حالات پر بہت لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں بہت کچھ لکھا ہے اور جب تک انسانیت اور لفظوں کی حرمت باقی رہے گی، اہل قلم لکھتے رہیں گے۔ میں جب کتاب پڑھ رہا تھا، تو بہت سی عبارتوں اور جملوں کو نشان زد کرتا گیا، تا کہ ان جملوں اور لفظوں کو قارئین کے لیے نقل کروں۔ لیکن جب کتاب کی روداد لکھنے بیٹھا تو سمجھ میں نہیں آ یا کہ کیا نقل کروں اور کیا چھوڑ دوں۔ پوری کتاب المیہ اور رزمیہ داستان ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’اپنی زندگی کے آخری دن تک نانی امی اس دستاویز کو سمجھنے سے قاصر رہیں، جسے پاسپورٹ کہا جا تا ہے۔ وہ تو صرف اتنا جانتی تھیں کہ ایک مقام سے دوسرے مقام کو سفر کرنے کے لیے بس ایک ریلوے ٹکٹ کی ضرورت ہے۔ یہ بات قابل فہم تھی کہ ساری زندگی ان کے سفر یوپی کے اودھ علاقے تک محدود رہے۔ ان کی پیدایش بارہ بنکی میں ہوئی، شادی بلگرام میں اور ہمارے والدین سے ملنے مصطفیٰ آباد لکھنو آتی رہتی تھیں۔ پھر بٹوارا ہوا، زمین داری ختم ہوئی، اور ان کے شوہر کی وفات ہو گئی، جو ایک معمولی زمین دار تھے۔ بارہ بنکی اور بلگرام کے مکانات کھنڈر ہو چکے تھے۔ نانی ہمارے یہاں منتقل ہو گئیں اور مصطفیٰ آباد اور لکھنؤ کے درمیان آتی جاتی رہیں‘‘۔ (صفحہ نمبر 32۔33)
’’ بد قسمتی سے ان کے (اودھ کے آخری حاکم نواب واجد علی شاہ) اور ان کی راجدھانی لکھنو کے بارے میں اب محض ایک فر سودہ نظریہ باقی رہ گیا ہے۔ اب نوابین کے شہر لکھنو کو پستی اور اخلاقی انحطاط کا نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ جس کے حقہ پینے والے روسا کو جانا جاتا تھا۔ چناں چہ وہ چلے گئے۔ لکھنو کی فحاشی اور عیاشی کا افسانہ انگریزوں نے اس لیے گڑھا تھا تا کہ وہ واجد علی کو نا اہل ثابت کر کے ہٹا سکیں اور اودھ کی زرخیز زمین کو ہتھیا سکیں۔ چناں چہ 1856ء میں ان (واجد علی شاہ) کو جلا وطن کر کے کلکتہ کے نزدیک مٹیا برج بھیج دیا گیا‘‘۔ (صفحہ 57)
’’ڈرائڈن کے مانند میرے دادا جان کا بھی خیال تھا کہ ’سبھی مذہبوں کے پروہت (پجاری) ایک ہی ہوتے ہیں‘۔ لیکن میرے دادا ان میں سے بعض کا احترام کرتے تھے بلکہ ان سے دوستی بھی رکھتے تھے۔ آئمہ مساجد اور علما کے درمیان فرق عیاں تھا۔ آئمہ کا کام مساجد میں صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنے کے ساتھ نمازیوں کی امامت کرنا تھا، جب کہ علما دینی علوم کے ماہر ہوتے تھے‘‘۔ (صفحہ نمبر 67)
’’ اور جب ہم دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں سر کاری دہشت گردی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ نہ بھولیں کہ کشمیر کے اہل طریقت خود کو’رشی‘ لکھتے ہیں۔ اس صوفی طریقت کے بانی نور االدین ولی تھے، جو عوام میں نند رشی کے نام سے معروف ہیں‘‘۔ (صفحہ 117)
’’ خیال کیجیے کہ اردو کے معروف شاعر کیفی اعظمی نے کتنا درد محسوس کیا ہو گا، جب 1993 کے بمبئی فسادات کے دوران اپنے مرشد و مخلص علی سردار جعفری کے فلیٹ تک پہنچنے کے لیے وہ تاریک سیڑھیاں پار کر رہے تھے۔ کیمپس کارنر اپارٹمنٹ بلاک، جس میں جعفری صاحب کا فلیٹ تھا، اس وقت آگ لگانے والوں کی زد میں تھا۔ یا میرے دوست جاوید لئیق کی کہانی سنیے۔ ان کے پدر بزرگوار پروفیسر نیر لئیق ایک وسیع المشرب مورخ تھے جو 1980 کی دہائی میں بمبئی کے ایلفنسٹن کالج کے پرنسپل رہے تھے۔ ان کی مادر بزرگوار کانگریس پارٹی کی ایم ایل اے تھیں، جنھوں نے جینوا کے ہیومن رائٹس کمیشن میں ہندوستان کے اولین مندوب کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ بمبئی فسادات کے دوران لئیق صاحب چرچ گیٹ میں واقع اپنے اپارٹمنٹ بلڈنگ کے داخلہ ہال میں ایک ہاتھ میں موم بتی اور دوسرے میں پیچ کش لیے، اس تختی کو ہٹا رہے تھے جس پر’ این۔ ایل۔ احمد‘ لکھا ہوا تھا، مبادا کوئی آگ لگانے والا یا کوئی قاتل اسے دیکھ کر اوپری منزل پر ان کی ماں کے فلیٹ تک پہنچ جائے‘‘۔ (صفحہ 126)
’’فی الواقع ہندی مسلمانوں کو اپنے ملاوں کی گرفت سے آزاد ہونا چاہیے اور اسی طرح ہندوؤں کو مسلم دشمن سیاست بازوں سے رخ موڑنا چاہیے۔ کیا ان میں سے کوئی بات میرے عرصہ حیات کے دوران وقوع پذیر ہو گی؟ آثار حوصلہ افزا نہیں ہیں، اصل مہا یدھ ہندوستانیوں کے ذہنوں کو فتح کرنے کا ہے۔ دو تصورات ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں: ایک ہندوستان کے عہد ماضی کی کتھا مالائی عظمت کا حامل ہے، تو دوسرا ماڈرن ہندوستان کا ہے جو عقلیت پسندی اور مساوات کا نقیب ہو گا۔ قدیم اور جدید کے مابین یہی کشمکش ہے جس کے درمیان مسلمان پس رہے ہیں۔ واضح ہے کہ ایک ماڈرن ہندوستان کے اندر ہی سبھی ہندوستانیوں اور سبھی اقلیتوں کو اپنی نجات تلاش کرنی ہو گی۔‘‘ (صفحہ 274)
یہاں درج کرنے کے لائق اقتباسات بہت ہیں، مگرسبھوں کونقل کرنے کی گنجایش نہیں ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ قاری خود کتاب کو پڑھے اور اس میں بیان کی جانے والی کہانی سے واقف ہو۔ مختصر یہ کہ سعید نقوی کی یہ کتاب بہت دل چسپ ہے۔ مترجم (محمود فیض آبادی) اور نظر ثانی کرنے والے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور عقیدت اللہ قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں، کہ انھوں نے کتاب کو حقیقی معنوں میں قابل مطالعہ بنانے کے لیے لا انتہا محنت کی ہے۔ اصل کتاب انگریزی میں لکھی گئی تھی، جس کا نام ’’بینگ دی ادرس‘‘ ہے۔ لیکن اردو میں جو کتاب تیار ہوئی ہے، اس سے کہیں بھی ترجمے کا احساس نہیں ہوتا۔ زبان و بیان میں روانی اور شستگی ایسی ہے جس سے گمان یہ گذرتا ہے کہ کتاب اردو ہی میں لکھی گئی ہے۔ چوں کہ میں کتاب کی اشاعت سے قبل کے پروسیس اور عمل کا گواہ ہوں، اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ اس کا سارا کریڈٹ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور عقیدت اللہ قاسمی کو جاتا ہے، جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت کے لیے ان تھک محنت کی ہے، اور یوں فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیویٹ لمیٹیڈ کی جانب سے اسے منظر عام پر لانا ممکن ہو سکا۔
سعید نقوی کی کتاب کے کل نو حصے ہیں۔ پہلا باب دیار اودھ میں پرورش۔ دوسرا مصطفیٰ آباد کے آم، تیسرا تقسیم ہند کا طویل سایہ۔ چوتھا میناکشی پورم کا خمیازہ۔ پانچواں بابری مسجد کی مسماری۔ چھٹا انسانیت کش فسادات (گجرات 1969 اور 2002، گوپال گڑھ کے فسادات ستمبر 2011ء، غازی آباد کا فساد ستمبر 2012، فیض آباد کا فساد نومبر 2012، دھولیہ کا فساد جنوری 2013، مظفر نگر کے فسادات اگست۔ ستمبر 2013)۔ ساتواں باب پردھان منتریوں کی قطار، آٹھواں کشمیر کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا؟ اور نواں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہے۔ آخری باب ’خاتمہ کلام‘ ہے، جسے آپ ’حاصل کلام‘ یا ’خلاصہ کلام‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کتاب میں مترجم کی جانب سے حاشیہ اور اخیر میں مراجع کی فہرست بھی، دی گئی ہے جس سے کتاب کی وقعت اور اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
کتاب میں کچھ معمولی فرو گذاشتوں کی جانب بھی اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، لکھنو کے کلچر کو اجاگر کرنے والی داستان ’فسانہ آزاد‘ جسے پنڈت ’رتن ناتھ سر شار‘ نے تصنیف کیا تھا۔ مصنف نے صفحہ 47 پر لکھا ہے کہ ’یہ کتاب بارہ جلدوں میں ہے‘، یہ بات غلط ہے۔ اصل کتاب ’چار جلدوں‘ میں ہے۔ صفحہ نمبر 69 میں مصنف نے لکھا ہے کہ ’’شیعہ فرقے کے کسی فرد نے کبھی جمعیۃ العلما، تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، اہل حدیث یا بریلی گروپ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ بیرونی ممالک میں مختلف عسکری گروہوں مثلا لشکر طیبہ، جیش محمد، القائدہ، تحریک طالبان، جماعۃ الدعوۃ، شامی جبہۃ النصرہ کا بلا تفریق تعلق سنیوں سے ہے‘۔ مصنف کی پہلی بات ٹھیک اسی طرح درست ہے جیسے آل انڈیا شیعہ آگنائزیشن، شیعہ پرسنل لا بورڈ، مجلس علمائے ہند، توحید المسلمین ٹرسٹ، تنظیم المکاتب، نجفی ہاوس وغیرہ میں سنیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی طرح سارے عسکری گروہوں کے تعلق کومصنف نے سنیوں سے جوڑ دیا ہے، اس پر بھی تحفظات کا اظہار کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے کہ ایرانی شیعہ تائید یافتہ گروپ مہدی ملیشیا (جس نے عراق کو فرقہ وارانہ جنگ کی طرف جھونکنے میں اہم ترین کردار ادا کیا) کے علاوہ جیش المہدی ملیشیا اور عراق میں محاذ آرا شیعہ ملیشیا تنظیمیں الحشد الشعبی، فیلق بدر، فیلق انصار بدر اور عصائب الحق، لبنان میں حزب اللہ اور شام میں بشار الاسد کی پروردہ ’سبیحہ ملیٹنٹ‘ جیسے عسکری گروہوں کی موجود گی تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہیں۔
کتاب 275 صفحات پر مشمل ہے۔ اس کا ہندی ترجمہ بھی اسی ادارے میں دست یاب ہے۔ کتاب کی قیمت 300 روپے ہے۔
ایک ہندوستانی مسلمان وائس چانسلر کا ٹوئیٹ اور مسلمانوں کا روشن مستقبل – ابو مصلح
پچھلے دنوں، نلسار یونیورسٹی آف لا حیدرآباد کے وائس چانسلر، پروفیسر فیضان مصطفے کا تین سال پرانا ٹوئیٹ اچانک پھر سے وائرل ہو گیا۔ اس ٹوئیٹ میں فیضان مصطفے صاحب نے ہندو رشی منو کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ میں نصب قد آدم مورتی کے قدموں میں کھڑے ہو کر ان کی تصویر بھی ہے۔
منو اسمرتی دوسری صدی قبل مسیح کی ایک قدیم سنسکرت ٹکسٹ مانی جاتی ہے۔ یہ، اونچی ذات کے ہندوؤں کے لئے ایک اخلاقی، مذہبی، قانونی کتاب مانی جاتی ہے۔ سنہ1776 میں ولیم جونس نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کروایا تھا، تاکہ ہندو معاشرے کو سمجھ کر حکمرانی کی جا سکے۔
عام طور سے اس کتاب کو دلتوں اور عورتوں کا شدید مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر امبیڈکر نے 25 دسمبر 1927 کو اس کتاب کو کھلے عام نذر آتش کیا تھا۔ اور اس تاریخ کو “منو اسمرتی دہن دیوس” کے طور پر منایا جاتا ہے۔
قانون کے پروفیسر فیضان مصطفے اور قانونی تعلٰیم کے لئے مختص نہایت ہی با وقار یونی ورسٹی، نلسار، حیدرآباد، کے وائس چانسلر کو منو کی اس تصنیف اور اس سے منسلک ایسی regressivism کی جانکاری نہ ہو، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
اب اپنے اس ٹوئیٹ کے لئےتنازعوں میں گھر جانے کے بعد انہوں نے ایک “وضاحتی” یا تردیدی ٹوئیٹ بھی کیا ہے۔ اس مبینہ تردیدی ٹوئیٹ میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ ان کے پرانے ٹوئیٹ کی غلط توضیح کی گئی ہے، انہوں نے تو منو کی مورتی کے ہائی کورٹ میں نصب ہونے پر حیرت و استعجاب کا اظہار کیا تھا۔
اب کوئی اس قانون داں پروفیسر، وائس چانسلر اور کالم نگار سے یہ پوچھے کہ اظہار عقیدت کے دفاع میں بھی انہیں کچھ کہنا ہے، یا نہیں؟ کیا ہم مسلمانوں کو یہ انگریزی کالم نگار نرے احمق اور کور مغز سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے؟ کیا لبرل سیکولر میڈیا کے ہیرو رویش کمار صاحب، چند سوالات کی فہرست لے کر فیضان صاحب کے ساتھ ایک پروگرام نہیں کر سکتے؟ کیا رویش کمار کا کام صرف مسلمانوں کو ہندوتو اور مودی کے خلاف اکسانا رہ گیا ہے؟ کیا رویش کمار خود فیضان مصطفے صاحب کے ساتھ گودی میڈیا والا برتاؤ نہیں کرتے؟ جہاں فیضان بولتے جائیں گے، لیکن رویش ان سے ایک بھی سوال ایسی نوعیت کا نہیں کریں گے جس میں فیضان صاحب کی ذمے داری طے ہو۔ کیا مسلم دانشوروں اور رہنماؤں کی ذمے داری نہیں طے کروانے والی صحافت ہی کو سیکولرزم کہتے ہیں؟ کیا سیکولرزم کا مفہوم و مقصد صرف یہ ہے کہ ہندوتو اور مودی کی مذمت کرو اور اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں؟
ابھی حال ہی میں کانگریس رہنما سلمان خورشید کی ایک کتاب ریلیز ہوئی۔ ایودھیا سے متعلق اس کتاب کے چند صفحات میں فیضان صاحب کی بابت اہم باتیں لکھی گئیں ہیں۔ ہم اردو حلقے کی محدود جانکاری کے مطابق فیضان صاحب نے اب تک کسی معیاری و معتبر پبلیکیشن ہاؤس سے کوئی معرکةالآرا کتاب تو نہیں لکھی ہے، لیکن کالم نگاری میں ید طولی رکھتے ہیں۔ ہزار صفحات پر مشتمل کوئی فیصلہ عدالت نے اپلوڈ کیا اور کچھ گھنٹوں کے اندر ان کی کمینٹری کسی معتبر انگریزی اخبار میں شائع ہو چکی ہوتی ہے۔ ایسی جناتی و خداداد صلاحیت پر انہیں الف مبروک۔ ایسے ہی ذہین لوگوں کو لازمی طور پر مسلم یونی ورسٹی کا وائس چانسلر ہونا چاہیے۔
جولائی 2021 کی 4 تاریخ کو آر ایس ایس کی تنظیم، راشٹریہ مسلم منچ کی جانب سے غازی آباد میں مسلمانوں سے ایک خطاب کیا گیا تھا۔ خطیب تھے عالی جناب موہن بھاگوت، جو آر ایس ایس کے سر براہ ہیں۔ اس محفل نے خواجہ افتخار کی ایک کتاب بھی ریلیز کی۔ خواجہ صاحب کبھی علی گڑھ کے سینئر سکنڈری اسکول کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں اور تبھی وہ "باجپائی حمایت کمیٹی” کے بھی رکن تھے اور لوک سبھا چناؤ 2004 میں بی جے پی کے لئے ووٹ مانگ چکے ہیں۔
بہر کیف، بھاگوت نے اس مجلس سے خطاب کرتے ہوئے دیگر باتوں کے علاوہ لنچنگ پر بھی کچھ فرمایا لیکن حکومت اور لنچنگ کا نیک کام انجام دینے والے ارکان کی کوئی بھی ذمے داری طے کرنے سے گریز اور پرہیز کیا۔ فیضان صاحب نے 6 جولائی 2021 کے انڈین ایکسپریس میں ایک کالم لکھا اور بھاگوت کی مدح سرائی کی۔ منصب براری کی اس مقابلہ جاتی کالم نگاری میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے بھی 13 جولائی کے دی ہندو میں ایک کالم دے مارا۔ پھر ان کے صاحب زادے محمد ناصر نے بھی 15 جولائی کے ہندوستان ٹائمز میں ایک کالم دے مارا۔ (اس ضمن میں فی الوقت ہم ولئ عہد محمد ناصرکے دیگر کالموں کا ذکر التوا میں رکھتے ہیں)
اس پر ہم جاہل مسلمان کیا کرتے؟ ہم نے بھی بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگایا ،کہ عافیت ساحل میں ہے!
فیضان صاحب نے 21 مارچ 2020 کے انڈین ایکسپریس میں ہندو راشٹر کے قیام کی تائید کی تھی۔ اس سے خوش ہو کر بھگوا پورٹل، سوراج ماگ، 22 اپریل2020 کو ایک تائیدی مضمون شائع کیا۔
اس سے قبل فیضان صاحب غیر قرآنی طلاق ثلاثہ کے سوال پر بھی مسلم پرسنل لا بورڈ کی حمایت کر چکے ہیں، لہذا منو اسمرتی کے مصنف کو خراج عقیدت پیش کرنا کون سی ایسی حیرت کی بات ہے!
جنوری 18، 2018 کو دی ٹریبون میں بھی فیضان صاحب نے ایک کالم لکھا تھا۔ اسرائیل کی تل ابیب یونیورسٹی میں ویزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کی کثیرالمذاہب پالیسی کی تعریف کی تھی۔ نتن یاہو کی انڈیا میں تشریف آوری کے اس موقعے سے انہوں نے لکھا تھا کہ اسرائیل میں شرعی عدالتیں قائم ہیں۔
فاضل کالم نگار نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اسرائیل کی شرعی عدالتوں کو کوئی اختیار نہیں ہے، طلاق ثلاثہ، حلالہ، کثیرالازدواج جیسے عوامل ممنوع ہیں۔ جب کہ ہندوستان کا مسلم پرسنل لا بورڈ ایسے عوامل کی اصلاح چاہتا ہی نہیں ہے۔
یعنی فاضل کالم نگار نے ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان صہیونی اسرائیل کی شبیہ کو قابل قبول بنانے کی کوشش کی تھی۔
انڈین ایکسپریس کے 28 مئی 2019 والے کالم میں بھی فاضل قانون داں و کالم نگار نے بی جے پی کی حکومت سے مسلمانوں کے بہتر مستقبل کی قوی امید کی تھی۔
مارچ 21، 2020 کے انڈین ایکسپریس میں بھی فیضان صاحب نے لکھا تھا کہ ہندو راشٹر بننے سے بھگوائیوں کو بہت مایوسی ہوگی، جب کہ مسلم اقلیت کو بہت خوشی ہوگی۔ بہت خوب!
چودھری خلیق الزماں نے اپنی کتاب’شاہراہِ پاکستان‘ میں لکھا تھا کہ ہندوستانی سیاست کا ہر طالب علم اتنی بات تو جانتا ہی ہے کہ پاکستان بنوانے میں اتر پردیش کے مسلمانوں کا اہم ترین رول ہے۔ اس سے قبل 1933ء میں مغربی اتر پردیش کے کچھ علاقوں میں مسلم خواص نے جمعہ کی نماز کے خطبوں میں کانگریس کے ہریجن اُتھان مہم کی مذمت کی تھی۔ بعد ازاں 1945ء میں یہی مسلم خواص نے ہریجنوں کی ناز برداری کرنا چاہا، تو ہریجنوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ پاکستان بنوانے کی اس مہم میں ہم مول نواسیوں کی مدد عیارانہ طور پر لینے کی کوشش نہ کریں۔
اگست اور ستمبر 1875 میں سر سید کے صاحب زادہ جسٹس سید محمود نے اتر پردیش کے مسلمانوں کو دیگر مسلمانوں کے مقابلے میں تاریخی و سیاسی اعتبار سے برتر تسلیم کرتے ہوئے انگریزی حکومت سے خصوصی مراعات کا مطالبہ کیا تھا۔ اس اعتبار سے مغربی اتر پردیش کے مسلم خواص اور دانشور کو یہ مکمل حق حاصل ہے کہ 2022، یا 2023، یا مستقبل میں جب بھی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کا پینل بنے تو کسی بھی دیگر خطے کے مسلمان یا اجلاف و ارذال یا خواتین کا نام پینل میں قطعی طور پر آنے نہ دیا جائے؛ کیوں کہ یہ حق صرف اور صرف مغربی اتر پردیش کے کالم نگار مدح سراؤں کا ہے!
ڈاکٹر تقی عابدی دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کے سفیر اور بے مثال محقق ہیں: شیخ عقیل احمد
قومی اردو کونسل میں ڈاکٹر تقی عابدی کی تین کتابوں’کلیاتِ فراق کامل‘ ،’مطالعۂ رباعیات فراق گورکھپوری‘،’بالمکند بے صبر‘ کا اجرا
نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں کنیڈا میں مقیم معروف ادیب و محقق ڈاکٹر تقی عابدی کی تین کتابوں’کلیاتِ فراق کامل‘، ’مطالعۂ رباعیات فراق گورکھپوری‘،’بالمکند بے صبر‘ کا کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد، معروف افسانہ نگار شموئل احمد اور مشہور شاعر ملک زادہ جاوید کے ہاتھوں اجرا عمل میں آیا۔ اس موقعے پر شیخ عقیل احمد نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر تقی عابدی کو مبارکباد پیش کی اور ان کی ادبی و تحقیقی خدمات کا تعارف کروایا اور کہا کہ ڈاکٹر تقی عابدی رات دن تحریر و تحقیق میں سرگرم رہتے ہیِ اور لگاتار ان کی کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اسی سلسلے کی ان کی یہ تین کتابیں ہیں ۔ وہ جس موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں اس پر ہر پہلو سے تحقیق کرتے ہیں،پھر لکھنا شروع کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر تقی عابدی نے ادب کے کسی موضوع کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے، ہر موضوع پر قابل قدر تحقیقی و تنقیدی کام کیا ہے۔ وہ جس موضوع پر کام کرتے ہیں اس کے ماہر بن جاتے ہیں، یہ ان کی بہت بڑی خوبی ہے۔ یہ دنیا بھر میں اردو ادب کے سفیر بھی ہیں،جہاں بھی اردو پر بات ہوتی ہے وہاں ان کا کسی نہ کسی حوالے سے تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ شیخ عقیل نے کہا کہ یہ میرے لیے شرف کی بات ہے کہ اردو کے اتنے بڑے ادیب و مصنف کی تین کتابوں کے اجرا کا موقع ملا ۔ شمویل احمد نے کہا کہ ڈاکٹر تقی عابدی کی تنقیدی بصیرت کا میں ایک عرصے سے قائل ہوں ۔ ان کے دل میں اردو کا درد ہے، وہ اسے پوری دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے شب و روز کوشاں رہتے ہیں ۔ میں ان کتابوں کی اشاعت پر انھیں مبارکباد دیتاہوں۔ ملک زادہ جاوید نے تقی عابدی کی ادبی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی نئی بستیوں میں کوئی بھی ادبی مجلس تقی عابدی کے ذکر سے خالی نہیں رہتی ۔ یہ میرے لیے خوشی کا مقام ہے کہ ان کی تین کتابوں کے اجرا کی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا ۔
ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے ڈائرکٹر قومی کونسل، دیگر مہمانان اور شرکا کا شکریہ ادا کیا اور تینوں کتابوں کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو کو اکیسویں صدی کے ترقیاتی دور میں محفوظ رکھنے اور فروغ دینے کے لیے بڑوں کے تجربات سے استفادہ ضروری ہے،اسی طرح نئے اسکالرز اور محققین کے لیے ضروری ہے قدیم ادبا و شعرا کی باقیات کی تحقیق و تجزیے پر خاص توجہ دیں اور انھیں منظر عام پر لانے کی فکر کریں۔ انھوں نے اپنی مرتبہ کلیاتِ فراق کامل سے سامعین کو منتخب اشعار بھی سنائے اور فراق کے شعری و ادبی امتیازات پر بھی روشنی ڈالی۔ اسی طرح غالب کے شاگرد بالمکند بے صبر کی ادبی خدمات پر بھی گفتگو کی۔
اس موقعے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ندیم احمد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر احمد امتیاز نے بھی ڈاکٹر عابدی کو مبارکباد پیش کی۔ تقریب میں کونسل کا عملہ بھی شریک رہا۔
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی اس خوش گمانی میں جی رہی ہے کہ چونکہ ان کے باپ دادا حکمران تھے لہذا انہیں بھی وہ حقوق چاہئیں جنہیں حکمراں طبقہ انجوائے کرتا ہے۔پدرم سلطان بود کا بھوت اس قدر سوار ہے کہ جب وہ اپنے حلقہ احباب میں ہوتےہیں تو اپنے آپ کو ظل الہی تصور کرتے ہیں اور اس خیال میں دیگیں پکواتے ہیں کہ ابھی بھی ان کی رعیت انہیں ہی بادشاہ سمجھتی ہے۔وہ کثیر آبادی رکھنے والوں کو ایسی صلواتیں سناتے ہیں کہ اگر ان کی اپنی انجمن میں کوئی اس پر تبصرہ کردے تو کفر لازم آجاتا ہے۔اپنی آبادیوں میں رہ کر وہ ایسی شیخی بگھارتے ہیں کہ گویا بہرام خان آج بھی سپہ سالار ہو اور اس کی غلطیوں پر صرف نظر کرنے کے لیے جلال الدین محمداکبر موجود ہو۔تصورات کی دنیا میں جینے کا اثر یہ ہے کہ آج بھی جیلوں میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو اپنے آپ کو طرم خاں سمجھا کرتے تھے۔ممکن ہے کہ بڑی تعداد بے گناہوں کی ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ’’ممبئی کے شانے‘‘ ہاتھ کی صفائی میں آج بھی مہارت رکھتے ہیں۔
ملک بدل گیا ہے۔تعبیرات و تشریحات بدل گئی ہیں لیکن ملّی قائدین آج بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ’’جمہوریت ‘‘کے ڈنڈے سے’’آمریت‘‘کا خاتمہ کردیں گے اور اس بڑی آبادی کو دوبارہ غلام بنالیں گے جو ہزارہا برس سے فرشی سلام مارتی چلی آرہی تھی۔
ہندو یواواہنی نے مسلمانوں کے قتل عام کے لیے جو’’ سنکلپ‘‘لیا ہےاس کے ویڈیوز اکثریتی آبادی کے درمیان اس طرح گھمائے جارہے ہیں کہ گویا ہندوستان پہلی بار ’’سورویروں‘‘ سے متعارف ہوا ہے۔’’گیروادھاری ‘‘تیرشول کی نوک کے ساتھ تلواروں کو صیقل کررہے ہیں اور مشہور صحافی رویش کمار کی رپورٹ کے مطابق ’’شاید عنقریب مینمار کی تاریخ ہندوستان میں دہرائی جائے‘‘۔ماب لنچنگ نے ایک ریہرسل تو کرواہی دیا ہے کہ کسی بڑی بھیڑ کے ساتھ لوگوں کو موت کےگھاٹ اتارا جاسکتا ہےاور قاتلین جو کہانیاں سنائیں وہی لائق اعتبارسمجھی جائے گی۔عدالتوں نے بھی مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ ’’آستھا‘‘کسی بھی قانون و انتظامیہ سے بڑا ہے اور ’’آستھا‘‘کے نام پر خلاف انسانیت کام کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں ہے۔
ہندو راشٹر کا بھوت اب اکثریتی طبقہ پر اس قدر سوار ہے کہ انہیں وہ تمام باتیں جو 2014سے پہلے ناگوار گذرتی تھیں ،بھلی لگنے لگی ہیں۔مہنگائی کی مار جھیل کر بھی وہ خوش اس بات پر ہیں کہ ’’مخصوص طبقہ‘‘کو ہزیمت دینے کے لیے ان مراحل سے گذرنا انتہائی ضروری ہے۔
کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا کہ آخر ہندوستان کے پولس اسٹیشنوں میں ’’ایک مخصوص طبقہ‘‘ کے عبادت خانے ہی کیوں تعمیر کیے جاتے ہیں؟
آخر کیا وجہ ہے کہ عدالتوں میں مسلم ملزمان غیر مسلم وکلاء کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کی شنوائی زیادہ ہوتی ہے اور کارروائی کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں؟
آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت کے وہ ادارے جنہیں حساس قرار دیا جاتا ہے وہاں مسلمانوں کی موجودگی حرام سمجھی جاتی ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ وہ مقامات جنہیں حساس سمجھا جاتا ہے وہاں مسلمان جاتے ہوئے بھی گھبراتا ہے؟
ایسے درجنوں سوالات قائم کیےجاسکتے ہیں لیکن ہم یہ سمجھانے سے قاصر ہیں کہ آخر’’سازش اور سازشی نظریات‘‘نے کیا کچھ بدل دیا ہے۔ہمارا باہوش طبقہ دبی زبان میں یہ ضرور کہتا ہے کہ حالات بہت خراب ہیں لیکن تفصیلات کے ساتھ تدارک پر گفتگو کریں تو عموماً چپّی سادھ لیتا ہے۔اسے یہ خوف ستائے رہتا ہے کہ ’’دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں‘‘اور وہ عموماً خاموش رہ کر ہر اس ستم کو جھیل جاتا ہے جسے کوئی مہذب معاشرہ برداشت نہیں کرتا۔
ہندو راشٹر کی تعبیر و تشریح میں اکثریتی طبقہ کے کچھ لوگوں کو اگر اختلاف ہے تو وہ طریقہ کار کا اختلاف ہے ورنہ دوسرے اور تیسرے درجہ کے شہری بنائے جانے پرتمام لوگ خوش ہیں۔آخر وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سیاسی طور پر نرم اور گرم ہندتوا کی اصطلاح رائج کی ہے؟ یہ اصطلاح کن معنوں میں رائج ہوئی ہے اب اس تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔دراصل ہمارا باشعور طبقہ جس قدر جلد اس حقیقت کو سمجھ جائے اسی سرعت کے ساتھ ہم مسائل کے حل کی طرف توجہ کرسکیں گے ورنہ اقبال تو بہت پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ:
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
حیدرآباد : معروف شاعر اور نقاد پروفیسر فاروق بخشی کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد میں صدر شعبہ اردو مقرر کیا گیا ہے ۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق پروفیسر فاروق بخشی کے عہدہ صدارت کی مدت دو برس ہوگی ۔ پروفیسر فاروق بخشی سابقہ چار دہائیوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں ۔ انہوں نے 1980 میں اپنے تدریسی کیریئر کا آغاز دہلی کے قدیم ادارے سے کیا تھا ۔ 1986میں وہ کوٹہ یونیورسٹی سے ملحقہ پوسٹ گریجویٹ کالج سے وابستہ ہوئے اور 26 برس تک وہاں اپنے فرائض منصبی ادا کیے ۔تدریس کے اس طویل سفرمیںدو مرتبہ وہاںصدر شعبہ بھی رہے ۔ بعد ازاں انہوں نے موہن لال سکھاڈیا یونیورسٹی ،اودے پور کے شعبہ اردو میں پروفیسر اور صدر شعبہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ 2017 میں پروفیسر فاروق بخشی نے مرکزی یونیورسٹی ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،حیدرآباد کے شعبہ اردو میں پروفیسر کی حیثیت سے جوائن کیا ۔ پروفیسر فاروق بخشی ایک اعلیٰ منتظم،ناظم،شاعراور کامیاب استاد ہیں ۔ان کا شمار ارود کے ان معدودے چند اساتذہ میں ہوتا ہے جو بے حد فعال و متحرک ہیں اور خود کو اردو تحریک کا ایک سپاہی سمجھتے ہیں ۔ پروفیسر فاروق بخشی بنیادی طور پر تخلیق کار ہیں ۔ایک شاعر کی حیثیت سے ان کی شناخت ہے ۔ ان کے تین شعری مجموعے ”پلکوں کے سائے (1979)“،”اداس لمحوں کے موسم (2004)“ ،”وہ چاند چہرہ سی ایک لڑکی (2012)“منظر عام پر آچکے ہیں ۔ دو درجن سے زائد کتابوں کی ترتیب و تدوین کی ہے ۔ ”ساغر نظامی حیات و کارنامے “،”ماضی ایک تنقیدی مطالعہ “،”اردو شاعری کا سرخ پھول کیفی اعظمی “ان کے تنقیدی مضامین کے دو مجموعے ”مفاہیم “،”معنی ومطالب“شائع ہو چکے ہیں۔ تنقیدی مضامین کا تیسرا مجموعہ”تفہیم و ترسیل “،”غالب اور ترقی پسند تنقید“ ،”لفظوں کا جادوگر :ساحر لدھیانوی “طباعت کی منزلوں سے گزر رہی ہیں ۔
درس و تدریس کے علاوہ پروفیسر فاروق بخشی مختلف تنظیموں اور اکادمیوں کے متعدد مرتبہ صدر اور رکن خاص بھی رہے ہیں ۔نیز انہیں ان کی ادبی خدمات پر مختلف اکادمیوں نے انعامات ، ایوارڈاور اعزازی تمغات سے بھی نوازا ہے۔فی الحال گزشتہ تین سال سے پروفیسر فاروق بخشی انجمن ترقی پسند مصنفین ،تلنگانہ کے فعال صدر کے عہدے پر فائز ہیں ۔
پروفیسر فاروق بخشی کو مانو کا صدر شعبہ منتخب کیے جانے پر علمی و ادبی حلقوں میں مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اربابِ حل و عقد کے علاوہ متعدد ادبی شخصیات نے ان کے تقرر پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مبارکباد کے پیغامات ارسال کیے ہیں ۔ جن میں پروفیسر رحمت یوسف زئی ، پروفیسر مجید بیدار ،پروفیسر ابن کنول ،ڈاکٹر اودھیش رانی باوا ، نکہت آرا شاہین ،پروفیسر غضنفر اور سابق ممبر پارلیمنٹ سید عزیز پاشا نے تہنیتی پیغامات ارسال کیے ۔ شعبہ اردو کے دیگر تمام اساتذہ نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے ۔
حضرت مولانا اور واحد متکلم ( مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒکی وفات کے بعدلکھا گیا امیرشریعت مولانا محمد ولی رحمانیؒ کا یادگار مضمون)
زندگی اس طرح گذری ہے کہ دن تاریخ تو دور کی بات ، سنہ وسال بھی یاد نہیں رہتے ، جو گذری گذرگئی ، وقت گذرجاتاہے اور گذر جانا وقت کا مقدر ہے۔ اپنا نامہ اعمال کبھی نہیں لکھا، جن لوگوں کو اپنے وقت اور اپنی قیمت واہمیت کا صحیح اندازہ ہوتاہے وہ ڈائری لکھتے ہیں، میرے پاس اہم واقعات کے نوٹس بھی نہیںہےں۔ اس لیے اللہ کی مدد اور حافظہ کا یاراہے ،ویسے اللہ کا کرم ہے کہ جو حافظہ کی گرفت میں آگیا، اس کی رہائی آسان نہیں ہوتی۔
یاد آتاہے، مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے پہلی ملاقات ۹۵۹۱ءمیں ہوئی تھی۔ برسوں برس پرپھیلے ہوئے حقائق، واقعات چھوٹے بڑے ، تلخ وشیریں، گفتنی ناگفتنی کو سمیٹنا بڑا مشکل کام ہے، کم وبیش چالیس برس کی واقفیت، تیس سال کے روابط ، بیس سال کا قرب اور کاموں میں میری عزیزانہ اور خادمانہ شرکت، پچھلے دس سال کا براہ راست عملی رابطہ اور دور قریب سے کاموں میں کچھ نہ کچھ ساتھ، نہ یہ مدت تھوڑی ہے نہ تجربے مختصر۔ س عرصہ میں بہت سے نرم گرم مرحلے آئے، قرب و بعد کی منزلیں بھی گذریں ، آج ماضی کے جھروکوں میں جھانکتاہوں، تو بہت سے نقوش مجسم ہوکر سامنے آجاتے ہیں ، انہیں لفظوں کا جامہ پہنادیا جائے تو خاصی کتاب تیار ہوجائے گی۔ چالیس سال کو کتنا ہی مختصر لکھئے چالیس صفحات تو چاہئیں، یہ تو داستان ہوگی۔ کچھ زیب داستان کو ملالیجیے ، تو پھر تحریر کی طوالت مخل بھی ہوگی، ممل بھی !
اسے جھیل بھی لیں تو بھی ان واقعات کا تذکرہ واحد متکلم کی شناخت بن جاتاہے ۔ جو واحد غائب کے پردے میں نمایا ہوتاہے۔ عقلمندوں کی پختہ رائے ہے کہ ”حصول کامیابی“ اور ”رفع درجات“ کا یہ عمدہ نسخہ ہے ۔ میرا احساس ہے کہ ”ذکر اپنا“ در حدیث دیگراں“ بات اچھی تو ہے لطیف نہیں !۔ ویسے کسی مرکزی شخصیت کے متعلق لکھنے والے کی ذاتی واقفیت، مشاہدات او رمحسوسات کو قلم کی گرفت میں لایا جائے تو ہوگی کام کی چیز۔ مگر سامعین اور قارئین کی چیں بجبینی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں ، ایسے مضامین مفید ہوتے ہیں، مگر ہر فائدہ مند چیز پسندیدہ بھی ہو یہ ضروری نہیں ہے۔اگر تھوڑی سی حکمت و تدبیر کو راہ دیجائے ، اور درد تنہا کو غم زمانہ جیسی چیز بنادیا جائے تو بھی دل سے دھواں اٹھے گا کہ
ہم نے بے فائدہ چھیڑی غم ایام کی بات
کون بیکار یہاں ہے کہ سنے کام کی بات
مگر بھائی سلمان کا حکم ہے کہ لکھا جائے، سمینار کا تقاضہ ہے کہ لمحوں کو لفظوں کی زبان دیجائے، یادوں کے چمن سے کچھ پھو ل چنے جائیں ، اور چھوٹا سا گلدستہ سجا دیا جائے ، تاکہ ”بوئے گل“ سے محروم”یادگل“ کو ترس نہ جائیں ، حضرت مولانا نہیں ہیں، ان کی یاد نہ جانے کتنوں کےلیے سہارا ہے ۔ یہ یاد زندہ رہنی چاہیے، یہ زندہ رہے گی نظر کی روشنی کےلیے دل کو گرمانے اور تڑپانے کےلیے، مشکل وقت میں راہ نماکے طور پر!
حضرت مولانا کا اصل مشن اسلام کو سمجھانا تھا۔ زبان کے ذریعہ،قلم کے ذریعہ، نشان قدم کے ذریعہ، ! وہ اسلام کے ترجمان او ربزرگوں کے طرز و انداز کے عملی شارح تھے، اسلا م کی تعلیم و تفہیم ، تشریح و تبلیغ کےلیے انہوں نے ہزاروں صفحات لکھے، ان گنت تقریریں کیں، مختصر مجلسوں میں لوگوں کو متوجہ کیا، انہوں نے اپنی زندگی کو بزرگوں کی صحبت میں تپا کر، گرما کر ایسے سانچہ میں ڈھال لیا جو دوسروں کے لیے نمونہ تھی،سادگی و پرکاری، بے خودی وہوشیاری ، آگہی و بے خبری، سیرابی و تشنہ لبی، چوکسی وسست روی، نہ ہر شخص میں برابر ہوتی ہے اور نہ ہر ایک مرحلہ میں یکساں ہواکرتی ہے ، الگ الگ موقعوں پر علیحدہ اوصاف کامناسب اور متوازن ظہور بزرگوں کی امتیازی خصوصیت ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے ان مرحلوں کے لیے شﺅن کا لفظ استعمال کیاہے، یہ شؤن دوسروں کےلیے قیمتی مواقع ہوتے ہیں ، بزرگوں سے جو چیزیں لینے کی ہوتی ہیں ، لینے والے کےلیے قیمتی ہیں، اسی لیے بزرگوں نے کسب فیض پر بڑا زوردیا ہے۔ فائدہ اٹھانے کا ارادہ اور اس کی صلاحیت ضروری ہے ۔ چاہے یہ فطری ہویا حاصل کرلی جائے ۔ سورج کی روشنی اور چاند کی ضیاءپاشی تو سب کے لیے ہے مگر آنکھیں کھولنی ہونگی ، اس کی ذمہ داری سورج اور چاند پر نہیں انسان پر ہے ، روشنی کا حصول اور فیضان کا قبول فرد کی اپنی ہمت اور صلاحیت پر موقوف ہے۔
بزرگوں کی زندگی کے بہت سے گوشے ان کے شؤن ہیں، لوگوں کےلیے ان میں اپنی اصلاح اور صلاح کا خزینہ ہوا کرتاہے۔ حضرت مولانا کی تحریر، تقریر اور ان کی زندگی کا مطالعہ اس جہت سے کیا جائے ، تو بڑا فائدہ ہوگا ۔ اس مطالعہ کی قریب تر مشاہدہ گاہ ذاتی زندگی کے واقعات و تجربات ہیں ، جن پر غور کیا جائے تو بڑے کام کے جوہر ملتے جائیں گے۔
حضرت مولانا علی میاں صاحب سے نیاز مندی کا شرف مجھے بھی حاصل رہا، بہت سی یادیں ہیں جو دل کی امانت ہیں ، جن کا دل میں ہی رہنا اچھا ہے ، بہت سی باتیں ہیں، جنہیں دوسروں تک پہونچایا جاسکتاہے، وضوءسے ملی ٹھنڈ ک صر ف اپنے لیے ہوتی ہے ، اس کے نتیجہ میں جو استعداد پیدا ہوتی ہے ، اس سے دوسروں کو فائدہ پہونچایا جاسکتاہے۔
یا دآتاہے 1959ءکی بات ہوگی، حضرت مولانا اچانک گرمی کی ایک دو پہر میں خانقاہ رحمانی مونگیر تشریف لائے ، ہم لوگ بے خبر تھے، والد ماجدؒ نے فرمایا، آپ نے خبر نہ کی، حضرت مولانا نے جواب دیا کہ جھاجھا کا پروگرام تھا، اتنا قریب آکر خانقاہ حاضری نہ دیتا تو اپنے آپ پرزیادتی ہوتی، یہ ہمارے بزرگوں کی جگہ ہے ، ندوة،خانقاہ رحمانی، جامعہ رحمانی سب حضرت مونگیری کے لگائے باغ ہیں ، یہاں ہم سبھوں کو عزیزانہ اور عقیدت مندانہ آنا چاہیے ، کوئی ڈیڑھ گھنٹے قیام رہا ہوگا، کھانا بھی کھایا ، خانقاہی دسترخوان پر کیا ملتا، مگر جو تھا، حاضر تھا، حضرت مولانا نے صبر و شکر کے ساتھ اسے جھیلا نہیں، ذوق وشوق کے ساتھ کھایا، پھر کتب خانہ رحمانیہ کی عمارت گھوم پھر کر دیکھی، اپنے والد ماجد کی بعض کتابوں کے بارے میں دریافت کیا، وہ کتب خانہ کی زینت تھیں، ان کے انبساط میں اضافہ ہوا، کتب خانہ رحمانیہ کوئی بہت بڑا کتب خانہ نہیں ہے، مگر عربی فارسی اسلامیات کا قابل لحاظ ذخیرہ اس میں موجود ہے، اوپر کتب خانہ کا جاذب نظر ہا ل ہے، اور نیچے حوض پانی سے بھرا، سامنے مسجد، علم بھی عمل بھی، وضوءبھی نماز بھی، اذان بھی، ایمان کی پہچان بھی ! حضرت علامہ مناظر احسن گیلانی نے یہ خاکہ سنا تھا تو بے ساختہ فرمایا تھا جنت تجری من تحتہا الانہار۔ حضرت مولانا علی میاں صاحب نے فرمایا: کتب خانے بہت دیکھے ہیں، کتب خانہ رحمانیہ کی وضع دیکھنے والی ہے ، لگتاہے کہ ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ہال کا نقشہ بنایا گیا ہے۔
یہ یادگار لمحہ گذر گیا، حضرت مولاناواپس ہوگئے ، مگر یادیں تازہ ہیں ۔ سادگی، بے تکلفی، اور بزرگوں سے تعلق او رعقیدت کا یہ نقش حضرت مولانا کی شخصیت کے ساتھ میرے دل میں گھر کرگیا۔
1961ءمیں ایک طالب علم دارالعلوم ندوة العلماءلکھنؤ میں داخل ہوا ۔ اس کی طالب علمی کے ذوق کو ندوہ میں جلاملی، اور اتنی خوشگوار طالب علمانہ یادیں ندوہ سے وابستہ ہوگئیں کہ جب وہ ندوہ کا رخ کر تا ہے ، احساس کا سفر شروع ہوجاتاہے ۔ یادوں کا کارواں ٹھہر ی نگاہوں کے سامنے گذرنے لگتاہے اور طالب علمانہ زندگی میں تازگی آنے لگتی ہے، اسے ایسا لگتا ہے کہ ندوہ کی عمارتوں کی اینٹیں کچھ بتار ہی ہیں، ندوہ کے ذرے کچھ کہہ رہے ہیں ۔ حضرت مولانا مہمان خانہ میں سامنے کرسی پر جلوہ افروز ہیں ۔
چالیس سال پرانا نقش اتنا تازہ ہے جیسے کل کاہو یہ نقش۔بالکل تازہ ، حافظہ کی سلوٹوں کی گہرائی میں اتر تا چلا جاتاہے اور وہ طالب علم محسوس کرتاہے کہ طالب علمی کی چہل پہل اورجوانی کی ہمک خواب گرا ںسے انگڑائی لے رہی ہے اور آج وہی طالب علم شام زندگی کا مسافر آپ کے سامنے واحد متکلم ہے۔ ہاں توچالیس سال قبل کا یہ طالب علم ندوہ پہنچا، حضر ت مولانا کو سلام کیا، انہوں نے دعائیں دیں، فرمایا: بڑاا چھا ہواآپ آگئے، ندوہ اور خانقاہ کے تعلقات اورمستحکم ہوںگے، یہ جگہ آپ کی ہے، آپ کے دادا جان کا چمن ہے، آپ کو اپنے دادا جان اور والد محترم کے کاموں کو آگے بڑھانا ہے، ابھی تیاری کا مرحلہ ہے ، وقت کا پورا مصرف لیجئے، اور ہم لوگوں کو خدمت کا موقع دیجئے۔
اس مہمان خانہ کے کھلے صحن میں نہ جانے کتنی بار حضرت مولانا سے شرف نیاز حاصل ہوا، اور آج جب ندوہ پہنچا، جانی پہچانی راہوں سے بہت آشنا قدم اسی صحن کی طرف بے تابانہ بڑھ گئے ، کرسیاں لگی تھیں ، مگر خالی خالی، میں کھڑا ہوگیا، کیا کہوں دل کی کیا کیفیت ہوئی ، لوگ آجارہے تھے ،مصافحہ معانقہ ہورہا تھا، لیکن ایک کسک دل میں تھی ، ہر چیز ادھوری ادھوری سی لگ رہی تھی ، ہر شئے میںکسی شئے کی کمی پارہا تھا ، احساس کو کیوں کر چھپاؤں؟ حضرت مولانا نہیں ہیں تو:
وہی میکدہ ہے مگر سونا سونا
وہی جام و مینا مگر خالی خالی
خدا ندوہ کو آباد رکھے ، بڑا مرکز ہے یہ، اس کی مرکزیت سدا بہار رہے۔ آج بے پنا ہ کمی کا احساس تھا، جو دل کو کچوٹے جارہا تھا ، ماضی کے نقو ش ابھر رہے تھے ، مٹ رہے تھے ، چالیس سال پہلے سنے ہوئے حضرت مولانا کے الفاظ دل و دماغ میں گونج رہے تھے ، ”کاموں کو آگے بڑھانا ہے وقت کا مصرف لیجیے، خدمت کا موقع دیجیے ، “ کتنا پیارا ہے یہ انداز، احساس ذمہ داری کو جگانے والا، کل یہ ہم عزیزوں کے لیے نصیحت تھی، آج وصیت ہے!
والد ماجد ؒ نے انہیں خط لکھا کہ آپ کو مونگیر آئے بہت دن ہوگئے ، زحمت فرمائے ، پروگرام بنا حضرت مولانا کے ہمراہ محترم مولانا رابع صاحب ندوی، مولاناابو العرفان صاحب ندوی بھی خانقاہ مونگیر تشریف لائے ، خانقاہ رحمانی میں استقبالیہ ہوا، ٹاؤن ہال میں مشترک مجمع سے خطاب فرمایا، مونگیر میں تین دن قیام رہا، اس زمانہ میں ”اذا ہبت ریح الایمان“ تیار ہورہی تھی، سفروں میں عقیدت مندوں، شاگردوں، مریدوں کی بھیڑ میں ”وقت کی حفاظت “ مشکل ہوتی ہے، مگر حضرت مولانا نے سفر میں بھی تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رکھا، مجھ سے فرمانے لگے کہ ” مولوی نثار نہیں ہیں، کسی کو بلا لیجیے میں لکھوادوں۔“ یہ لکھنے کا وقت ہے، اس لیے آمادگی رہتی ہے، لکھوادیتا ہوں تو وقت کا بہترین مصرف ہوجاتاہے، میں نے عرض کیا کہ یہ کام میں بھی اچھا کرسکتاہوں ، وہ لکھانے لگے اور اس کام کےلیے جو وقت تھا اتنی دیر حسب عادت حضرت مولانا لکھاتے رہے ،میں ڈکٹیشن لیتا رہا، سفروں میں بھی اپنے وقت کی پوری حفاظت فرماتے تھے، اور دوسروں کو متوجہ بھی کرتے تھے، ”وقت ہی زندگی ہے، زندگی پیاری ہے تو وقت کی حفاظت کرنی چاہیے “ املا سے فراغت ہوئی، تو فرمانے لگے، آپ اپنے اوقات کا خیال رکھتے ہیں، ؟ میں نے عرض کیا۔” اپنے اوقات بس گذر جاتے ہیں ۔ اپنی اوقات کا خیال رکھتاہوں “ حضرت مولانا نے جملہ کا لطف لیا، اور کل ان کے استقبال میں جو دس منٹ میں نے کہے تھے، اس کی بڑی تحسین فرمائی ، یہاں تک فرمادیا کہ آپ کو زبان پر اس درجہ قدرت ہے، مجھے اندازہ نہ تھا، پھر مجھے متوجہ کیا، آپ بڑے عظیم دادا کے پوتا ہیں، بہت عظیم والد کا سایہ آپ پر ہے ، آپ کے دادا نے قلم سے بڑا جہاد کیاہے، آپ کے والد نے زبان سے بڑی خدمت کی ہے اور دونوں بزرگوں نے دل کی امانت کو امت کےلیے وقف کردیا ہے ۔ آپ میں بڑی صلاحیتیں ہیں، آپ کو دونوں کا امین بننا ہے۔ تحسین کرکے ، تعریف کرکے، حوصلہ بڑھا کر احساس ذمہ داری پید اکرنے کا یہ انداز حضرت مولانا کا خاص طریقہ تھا، یہ ہے تربیتی مرحلہ میں لوہے کو گرم کرنا پھر چوٹ لگانا۔
ایک بار رائے بریلی حاضر ہوا۔ میں اوپر کی منزل میں ٹھہرا یا گیا، حضرت مولانا نچلی منزل میں رہا کرتے تھے، آخر شب کا سکون، ٹھہری فضاء،میں اٹھا اور اپنے کار وبار میں لگ گیا، کچھ کھٹ کھٹ ہوہی جاتی ہے، آواز نیچے تک پہنچ گئی ، ناشتہ پر حضرت مولانا سے نیاز حاصل ہوا، خلاف معمول فرمانے لگے ، مجھے آپ کی یہ عادت پسند آئی ، ان معمولات سے ہی زندگی زندگی بنتی ہے، پھر عجب انداز میں فرمایا: ”کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی“ تین چار بار اس مصرع کو دہرایا ، جیسے میرے دل کو اس مصرع کا امین بنانا چاہتے ہوں، پھر فرمانے لگے، آپ جانتے ہیں ، مجھے آخر شب کی چائے نہیں ملتی تو میں دن میں کچھ لکھ نہیں سکتا، چائے سے حضرت مولانا کی مراد تھی تہجد اور ذکر۔
حضرت مولانا کی زندگی میں جو سوز ودرد ہے ، تحریروں میں جو زندگی اور کشش ہے، تقریرمیں جو تاثیر ہے ، وہ اسی چائے کا نتیجہ ہے۔
خشک تاروخشک چوب وخشک پوست
ازکجا می آید ایں آوازِ دوست
زندگی بندگی کے سانچے میں ڈھلتی ہے ، تو بصارت میں بصیرت آجاتی ہے ذہانت فراست سے جاملتی ہے ، خون پھینکنے والا دل نور کو پھیلانے والا دل بن جاتا ہے اورتجلیات ربانی کا مرکز ہوجاتاہے،پھرتحریرو تقریر میں تاثیر اور شخصیت میں کشش پیدا ہوجاتی ہے ، اور قدم قدم پر اللہ کی مدد ملا کرتی ہے۔
پانچ سال قبل کی بات ہوگی دارالعلوم ندوة العلماءکے مہمان خانہ میں خلاف معمول بعد مغرب طلب فرمایا، کہنے لگے آپ نے بڑوں کا کام سنبھال لیاہے، مجھے علم ہے کہ یکسوئی کے ساتھ آپ خانقاہ کے کام میں لگ گئے ہیں، آ پ نے وہ مسند آباد کردی ،خدا آپ کو شاداب رکھے گا، مجھے آپ کے خانقاہی نظام کی بھی اطلاع ہے ، بڑی دلجمعی کے ساتھ کام ہورہا ہے ، مداومت میں بڑی برکت ہے، کاموں میں تسلسل اللہ کو بھی بہت پسند ہے ،جوکر رہے ہیں کئے جایئے ۔ نسبت میں بڑی طاقت ہے، بزرگوں کی نسبتیں منتقل ہوتی ہیں ، پھر حضرت مولانا نے حدیث کا وہ ٹکڑا دہرایا ”احب الاعمال عند اللہ ادومہا“
ندوہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی عاملہ کی میٹنگ ہورہی تھی، میں رکن نہ تھا مگر شریک اجلاس تھا، یہ شرکت میری زندگی کی روایت بن چکی تھی، کوئی قانونی بحث آئی ، کئی بڑے قانون داں موجود تھے ، بحث میں میں نے حصہ لیا، حضرت مولانا کو میری گفتگو پسند آئی، انہوں نے شام کو والد ماجد ؒ سے فرمائش کی کہ ولی میاں کو رکن عاملہ بنانا چاہیے، انہوں نے فرمایا کہ وہ منظور نہیں کرے گا۔ حضرت مولانا نے اصرار فرمایا کہ میرے کوٹے سے انہیں نامزد کردیجیے، مونگیر میں میرے نام عزیزی مولوی نیاز احمد رحمانی کا خط ملا، وہ بورڈ کے اس وقت آفس سکریٹری تھے، خط میں رکنیت کی اطلاع دی گئی تھی ، میں نے معذرت لکھ بھیجی، والد ماجد ؒ نے نہ مجھ سے کچھ کہا اور نہ میں نے اس سلسلہ میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت محسوس کی ، مہینوں کیا سال گذرگیا، ندوہ میں پھر عاملہ کی مجلس ہوئی ، کوئی بحث آئی، بات ذرا نازک تھی اور بحث کے دوران کچھ پرپیچ بھی ہوگئی تھی ، میں نے بحث میں حصہ لیا اور میری وہ گفتگو فیصلہ کن ثابت ہوئی، بعد عصرچائے پر حضرت مولانا نے والد ماجد سے فرمایا کہ دیکھیے رکنیت کےلیے ولی میاں کی نامزد گی کا میر افیصلہ کتنا درست ہے، آ ج کی بحث سے یہ بات اور صاف ہوگئی ، انہوں نے جواباً کہا کہ ولی نے عاملہ کی رکنیت سے معذرت کردی ہے ۔
حضرت مولانا ؒ نے بعد مغرب مجھے طلب فرمایا ،کہنے لگے آپ نے عاملہ کی رکنیت سے انکار کردیا؟ کیا مجھے اس کا حق نہیں کہ آپ کی رائے کے خلاف آپ کے بارے میں فیصلہ کروں؟ میں نے عرض کیا، کہ ”حضر ت کی نظر شفقت کا ممنون ہوں۔ والد صاحب بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں، میں عاملہ کا رکن ہونگا تو ان پر انگلی اٹھ سکتی ہے ، میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے ان پر حرف آئے ، لوگوں کی زبان چلے گی ، اس وقت کوئی جواب نہیں دے گا، کام میں کرتارہا ہوں، آپ لوگ جب تک چاہیں گے، کرتارہوں گا، مگر رکنیت سے مجھے معذور سمجھاجائے“ حضرت مولانا نے فرمایا کہ نسبی تعلق کوئی جرم یا کوئی عیب نہیں ہے، اس تعلق کا پاس ولحاظ اللہ تعالیٰ کے دربار میں بھی ہے والحقنا بہم ذریتہم “ خاندان میں کوئی کام کا فرد ہے تو اسے آگے بڑھانا چاہیے ، ویسے میں نے آپ کی نامزدگی اس تعلق کی بناءپر نہیں کی، آپ کی صلاحیت کے پیش نظر میں نے فیصلہ کیاہے، کسی صاحب نے اعتراض کیا تو میں جواب دوں گا، مگر آپ کو عاملہ کی رکنیت قبول کرنی چاہیے ، یہ میرا فیصلہ ہے ،اور انشاءاللہ اس میں خیر ہے ۔
اپنی بات پر جم جانے کا یہ انداز میں نے پہلی دفعہ دیکھا، اور حضرت مولانا کا یہ رخ بھی سامنے آیا،کہ کس کو کب، کہاں، کتنا جمنا ہے۔ یہ تو فرد واحد کا فیصلہ ہوتاہے، لوگ چاہتے ہیں کہ یہ بھی ووٹ سے طے ہو، ہمارا دل چاہتاہے اور بڑے بڑوں سے ہمارا خاموش مطالبہ ہوا کرتاہے، کہ کام آئے ان کی صلاحیت، ان کا وزن، ان کی شخصیت ، ان کا ماضی وحال، مگر یہ کام طے ہومیری رائے کے مطابق۔
6دسمبر 1992ءکو بابری مسجد شہید کردی گئی ، یہ کسی متنازعہ ڈھانچہ کا گرانا نہ تھا، ایک تاریخی مسجد کی تاریخی شہادت تھی، اگر جلیانوالہ باغ کا حادثہ برٹش امپائر کی بربریت کا سمبول ہے، توبابری مسجد کا حادثہ فرقہ پر ستوں کے نشہ طاقت کا اظہار جنون ہے، اور ظلم کی ایسی مثال ہے، جس کے دباؤ میں جمہوریت سسکتی ، بلکتی ، روتی نظر آتی ہے، اس حادثہ نے حضرت مولانا کو بڑا صدمہ پہنچایا، وہ انسانی قدروں پر بڑا یقین رکھتے تھے، اسی لیے ملک میں جب حیوانیت نے پرپکھنے نکالے، انہوں نے تحریک انسانیت چلائی ، جو شخص کسی گھر کی اینٹ کھسکتی ہوئی دیکھنا برداشت نہ کرے، اس کے سامنے خدا کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے تو سونچیے اس کے دل پہ کیا بیتے گی۔ حضرت مولاناکی کسک اور تڑپ محسوس کرنے والی تھی۔ اس حساس مرحلہ میں بھی حضرت مولانا جگر تھام کرانسانیت کے علمبردارر ہے۔
یاد ش بخیر ! بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کے مسلمانوں میں احساس شکست ، مایوسی ، ناامیدی اورجذبہ انتقام کی جو چنگاری دبی دبی سی تھی، وہ اتنی دبی ہوئی بھی نہ تھی کہ نہ دیکھا جاسکے ، نہ سمجھا جاسکے ۔بورڈ کی عاملہ کے ارکان اور کچھ شخصیتوں کو ہدایت دی گئی ، کہ 6دسمبر 1992ءسے قبل دہلی پہونچیں اور چند دنوں دہلی قیام کے ارادے سے آئیں، مرحلہ نازک، کان سب کے کھڑے، اکابر اصاغر سب پہنچ گئے، نشستیں ہوئیں ، 7 دسمبر کو نشست جناب ابراہیم سلیمان سیٹھ صاحب کی سرکاری قیام گاہ پر ہوئی ، یوم شہادت پر کسی نے راجدھانی ایکسپریس میں دھماکے کیے اور پانچ راجدھانیوں میں بڑی احتیاط کے ساتھ ایسے دھماکے ہوئے کہ اس عظیم الشان سازش کے نتیجہ میں پانچ آدمی بھی مرے نہیں ۔ آج کل آتش گیر مادے اور دھماکوں کے قسم کی چیزیں دیہات شہر میں اتنی عام ہیں، کہ کوئی بھی نوجوان پورے ڈبہ کو نہ سہی چوتھائی کو تو آسانی سے اڑا سکتاہے، مگر پانچ دھماکوں کا اتنا مایوس کن نتیجہ بتاتاہے کہ یہ دھماکے ”مصنوعی“ قسم کے تھے ، میری اس وقت بھی یہی رائے تھی، اور آج بھی یہی سمجھتاہوں کہ یہ دھماکے اس لیے کرائے گئے ، تاکہ مسلم ذہنیت کی غلط تصویر ملک کے سامنے پیش کی جاسکے ۔ہر حال دھماکے ہوئے ، آج تک پتہ نہ چلا کہ کس نے کیے۔ 7دسمبر کو بورڈ کی مخصوص میٹنگ میں لوگ اخباروں کے ساتھ پہونچے، اور ایک صاحب نے یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ دھماکے مسلمانوں نے کیے ہیں ، ان کی مذمت ہونی چاہیے ، معزز ارکان نے انسانیت کے حوالے دیے اور بتایاکہ مسافروں کو نقصان پہونچانا انسانی قدروں اور آداب سفر کے قطعاًمنافی ہے ۔ انسانی قدروں کی بات آگئی، تو حضرت مولانا نے اس تجویز کی تائید فرمادی ، میں اس تجویز کو قطعاً غیر ضروری سمجھ رہا تھا ، اور توبہ کی یہ قسم مجھے کبھی پسند نہیں آئی، میں نے اختلاف کیا اور کہا اولاً تو یہ دھماکے مسلمانوں نے کیے نہیں،دوسرے ریلوے حادثات پر تجویز پاس کرتے رہنا،بورڈ کا کام نہیں ہے۔فوراً تجاویز کا رجسٹر پلٹنے کی بات آئی ، کہا گیا کہ لاتور کے زلزلے پر تجویز پا س ہوئی تھی ،میں نے عرض کیا کہ پہلے یہ دیکھیے کہ کتنے فسادات پر تجویز منظور کی گئی ، مگر میری سار ی دلیل ناکام ہوتی نظرآئی ، اس وقت ارکان پر انسانی قدروں کا غلبہ تھا ۔ او رمیری رائے یہ تھی کہ جب حیوانیت کا ننگا ناچ ہورہا ہو، انسانی قدروں کے پیش نظر ایسی تجویز منظور کرنا بزدلی ہے، یوں بھی کمزوروں کی طرف سے معافی کا اعلان ”عذرگناہ بدتراز گناہ“ جیسی چیز سمجھی جاتی ہے، اسے طاقت والوں کے یہاں لگ بھگ وہی مقام دیا جاتاہے جو سکرات کی توبہ کا خدا کے دربار میں ہے!میں نے عرض کیا کہ اگر مان لیا جائے کہ یہ دھماکے مسلمانوں نے کیے ہیں، تو پھر یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ یہ دھماکے بورڈ کی تجویز کے پیش نظر ہوئے ہیں۔ حاضرین چونکے اور حضرت مولانا نے مجھے مخاطب کیا” ۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں “ میں نے ادب کے ساتھ عرض کیا یہ تجویز منظور کی جاچکی ہے کہ بابری مسجد کی شہاد ت پر ری ایکشن ظاہر کیا جائے ۔ ہم لوگوں نے اس کی تفصیل وتشریح تو نہیں کی تھی ، ہر شخص کو اپنے طورپر ری ایکشن ظاہر کرنے کااختیارہے، ہم لوگوں نے کل کمرے میں چائے پی کر باتیں کر کے ری ایکشن ظاہر کیا، کچھ لوگوں نے کالے بلے سے بازو سجائے، کسی نے جلسہ کیا، کسی نے کچھ ۔اور میری یہ گذارش راجدھانی اکسپریس کے دھماکو ں سے زیادہ اثر دار ثابت ہوئی ، اور تجویز مذمت میں آئی گئی ہوگئی ، میں نے جو کچھ کہا تھا اس میں ملت کا مفاد پیش نظر تھا، مگر میر ی گذارش دور تک پہونچی، درباروں تک بات چلی گئی میری الجھنوں میں اضافہ ہوا اور خود حضرت مولانا پر اس گفتگو کے اثرات اگلی ملاقات میں بھی میں نے محسوس کیے !
یہ مرحلہ تھا قیادت کا ۔ اور قیادت کے میدان میں ہر قائد کا اپنا طریقہ ، اپنا مزاج اور اپنا انداز ہوتاہے ، کسی بھی شخص کو کسی مرحلہ میںکوئی بات قابل قبول نہ ہو، تو اس سے نہ شان قیادت متاثر ہوتی ہے اور نہ قائدکا اخلاص و عمل مشتبہ ہوسکتاہے، اختلاف رائے کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے ، جہاں ”دماغ “ جمع ہوںگے وہاں اختلاف رائے ہونا فطری ہے ، چمن کا حسن ”یک رنگی“ میں نہیں” گلہائے رنگا رنگ“ میں ہے، اس لیے اختلاف کو حسن آغاز کی حسین تمہید سمجھنا چاہیے، جس کے بعد حسن انجام کی امید ہوتی ہے !
حضرت مولانا کا اصلی میدان دعوت وتبلیغ اور تقریر و تحریر تھا، یہ وہ راہ تھی جسے انہوں نے نوجوانی میں چن لیا تھا، اور بڑی استقامت کے ساتھ وہ پوری زندگی اسی راہ پر چلتے رہے ، انہوں نے تحقیق برائے تحقیق کبھی نہیں کی، ان کی زبان و قلم نے سوتے دلوں کو جگایا اورجاگتے دلوں کو گرمایا، اسی لیے انہوں نے بزرگوں کی سوانح لکھی، دعوت و عزیمت کے سدا بہار پھولوں کا گلدستہ سجایا، یہ منتشرتھے تونگاہوں سے دور تھے، گلدستہ بنے تو سبھوں کی نگاہوں میں آگئے۔
ان کی شفقت وعنایت میرے حصہ میں آتی رہتی تھی ، اور جب بھی ندوہ یارائے بریلی پہنچتا، ایسی شفقت و محبت، اکرام واعزاز کا معاملہ فرماتے کہ میں شرمندہ ہوجاتا، ایک بار انہوں نے تاریخ دعوت وعزیمت کی ایک جلد یا پورا سیٹ مرحمت فرمایا ، جوان کی دعاؤں اوردستخط سے مزین تھا، بزرگوں کی سیرت ایک نئے انداز پر سامنے آئی تھی ، ماضی کے واقعات اور بزرگوں کے حالات انہوں نے بڑی محبت سے جمع کئے تھے، اسے پڑھ جائیے دل پر جو اثر ہوگا وہ تو ہوگا ہی، مجموعی تاثر یہ ابھر تاہے کہ حضرت مولانا نے مقدس ماضی کو پر امید مستقبل کی خاطر سجادیا ہے ، ایک موقعہ پر انہوں نے ”سیرت بانی ندوة العلما مولانا محمد علی مونگیری “ عنایت فرمائی ، اور یوں گویا ہوئے یہ ہندوستان کی عظیم علمی تحریک کی سرگذشت کے ساتھ آپ کے دادا جان کی سوانح بھی ہے، ایک قرض تھا، جسے ہم لوگوں نے ادا کردیا، پھر ایک لطیف جملہ ان کی زبان سے نکلا”بضا عتکم ردت الیکم“
گذشتہ ستمبر 1999ءکی بات ہے ، مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس ممبئی سے پہلے ان کی خدمت میں لکھنؤ حاضر ہوا ،انہوں نے ، ”کاروان زندگی“ کی ایک جلد مرحمت فرمائی ، جو میرے لیے بالکل تازہ تحفہ تھا، اور فرمایا: ”یہ ہدیہ ہے “ عرض کیا :” یہ آپ کی طرف سے ہدیہ بھی ہے ہدایت بھی !“ یہ سن کر انہوں نے تبسم کیا، اور فرمایا ایسی تعریف آپ ہی کا حصہ ہے ، پھر فرمایا”اس جلد میں آپ کا بھی تذکرہ ہے ، میں نے عرض کیا کہ حضرت ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس دفتر میں ہے۔
حضرت مولانا علیل تھے ، بستر پر تکیہ کے سہارے جلوہ افروز تھے ،دوسرے دن میری ان سے آخری تفصیلی گفتگو ہوئی ، جس میںمسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخاب کے علاوہ مختلف امور پر مشورہ ہوا، میں نے اجازت چاہی ،عنایت وشفقت کے ساتھ اجازت دی، اس ناکارہ کےلیےبڑے بلندکلمات فرمائے، دعائیں دیں اور فرمایا یہ آپ کے دادا جان کا لگایا ہوا چمن ہے، یہاں آتے جاتے رہا کیجئے، دوچار دن قیام کی نیت سے آیا کیجیے ، آپ کا ندوہ پر حق ہے اور ندوہ کا آپ پر حق ہے ، اس لیے آپ کا مستحکم رشتہ باقی رہنا چاہے ۔مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی ، مجھے لگا جیسے وہ مجھ سے عہدلے رہے ہوں ، میری زبان صرف اتنا کہہ سکی، ”ان شاءاللہ “ دیر تک ان کی نگاہیں مجھ پر جمی رہیں، جیسے وہ آخری نگاہ ڈال رہے ہوں اور وہ آخری نگاہ ثابت ہوئی۔
استاذ و سابق ڈین، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
اسلام ایک مکمل اور جامع نظام حیات کا نام ہے۔ اس کی ہدایات و تعلیمات انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ خواہ وہ عقائد و نظریات سے متعلق ہو یا عبادات سے یا اخلاق و معاملات سے یا پھر معاشرت و معیشت اور کاروبار سے ، اسلامی شریعت میں اس کے حل کے لیے کامل رہنمائی موجود ہے۔ ایک مسلمان سے یہ توقع کی جاتی ہے وہ ان تمام شعبوںسے متعلق اسلامی احکام کو جانے اور ان کے مطابق ہی اپنی زندگی کا سفر طے کرے تاکہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں ہی کامیابی سے ہمکنار ہو۔ لیکن افسوس ! صد افسوس کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ شرعی علوم سے بالکل بے بہرہ بنا ہوا ہے، اس نے نہ ہی کبھی مکمل دین پر چلنے کا ارادہ کیا اور نہ ہی کبھی اسے سمجھنے کی کوشش کی۔یہ کام پوری امت نے ایک مخصوص طبقہ کے حوالے کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے اس طبقہ نے بھی شرعی علوم پر اپنی ایک اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ گو کہ ایک مخصوص دائرے میں ان کی علمی سرگرمیاں چلتی ہیں لیکن عام مسلمانوں میں شرعی علوم کی تشنگی پیدا کرنے میں وہ یکسر ناکام رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان کی قائم کردہ نہج سے ہٹ کر اگر کوئی شخص علوم شریعہ کو حاصل کرنے کی طرف راغب بھی ہوتا ہے تو بجائے حوصلہ افزائی کے اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور یہ تأثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تم دین کو سمجھ ہی نہیں سکتے اور اس کے حاصل کردہ علوم پر بھی سوالیہ نشان لگائے جاتے ہیں!
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں نے بھی یہ سمجھ لیا ہے کہ دین کو سمجھنا ان کے بس کی بات نہیںاور اسی لئے وہ اس کا رادہ بھی نہیں کرتے۔ حالانکہ دین تو بالکل آسان ہے اور یہ عام انسانوں کی ہی زندگی بدلنے کے لیے آیا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اسے سمجھنے کی کوشش کرے اور نہ سمجھ سکے۔ اہل علم حضرات کا کمال یہی تو ہے کہ وہ مشکل سے مشکل علوم کو اتنا آسان بناکر پیش کردیں کہ ہر کسی کے لئے اس کا سمجھنا ممکن ہوجائے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمی و تربیتی نہج پر اگر غور کریں تو یہ نکتہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ عرب کے بدوؤں کو کیسے انہوں نے زیور علم اور تفقہ فی الدین سے آراستہ کیا اور ان کی زندگیوں میںکیسا انقلاب برپا کردیا۔ شرعی علوم کو عمومیت دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ علماء اپنے انداز فکر اورنہج میں تبدیلی لائیں جو کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان میں ان کے لئے شاید ناگزیر ہوجائے گا۔
بہرحال احقر نے ہمیشہ علم دین کو عام کرنے کی وکالت کی ہے اور اس کے لئے راہیں بھی سجھائی ہیں بالخصوص پڑھے لکھے اور عصری علوم سے وابستہ نوجوانوں کو تحصیل علم دین کی طرف متوجہ کرنے کے لئے تقریری و تحریری کاوشیں بھی کی ہیں۔ احقر کے مضامین ـ’’اسلام میں علم کی اہمیت‘‘، ’’علم دین کے حصول سے غفلت کیوں؟ـ‘‘،’’ عصری تعلیم سے وابستہ افراد کے لئے علم دین کیوں ضروری ہے؟‘‘، ’’فضیلت علم: قرآن کریم کی روشنی میں‘‘، ’’قرآن حکیم کو سمجھ کر پڑھنا ہی مطلوب ہے‘‘ وغیرہ اس امر پر شاہد ہیں۔ بندہ اس بات کا داعی اور متمنی ہے کہ عصری تعلیم سے وابستہ یا فارغ نوجوان نسل تحصیل علم دین اور مطالعہ کتب کی طرف راغب ہو اور علماء ان کی اس سلسلے میں رہنمایٔ کریں۔ ظاہر ہے کہ آج کے دور میں ہر شخص سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مدرسہ میں جاکر علم حاصل کرے لیکن اتنی توقع تو کی ہی جاسکتی ہے کہ وہ کتب بینی اور علماء کی رہنمایٔ کے ذریعے دین کا بنیادی علم حاصل کرلے شرط یہ ہے کہ اس میں اس کی طلب پیدا کردی جائے اور معاشرے میں ایسا ماحول بھی بنایا جائے۔ جو افراد بھی اس کی طرف مائل ہوں ان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی جائے۔ الحمد للہ نوجوانوں کا ایک طبقہ دین کی طرف راغب بھی ہوا ہے ، اسے علم دین کے حصول کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں عربی زبان نہیں آتی تو وہ شرعی علوم کو کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ ایسا سوچنا کلی طو پر صحیح نہیں!عربی کا جاننا شرعی علوم کو سمجھنے میں یقینا مددگار ہے لیکن یہ اب بالکلیہ لازم نہیں۔ اصل چیز شرعی احکام کاجانناہے خواہ کسی بھی زبان میں جانے۔ الحمد للہ اب اردو، ہندی اور انگلش ہر زبان میں وافر اسلامی لٹریچر موجود ہے جس کی مدد سے شرعی احکام کو جانا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن بہت سے نوجوانوں کو ان کی طرف رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔راقم کا ارادہ یہ ہے کہ چند مضامین کے ذریعے ایسے افراد کی رہنمائی قرآن کے تراجم و تفسیر، حدیث ، فقہ ، سیرت، اسلامی تاریخ اور دیگر علوم کی غیر عربی کتابوں کی طرف کرے تاکہ لوگ اس سے مستفیض ہوں۔
زیر نظر مضمون اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے جس میں فقہ کی تین اہم کتابوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ فقہ وہ علم ہے جس میں احکام شرعیہ فرعیہ کو تفصیلی دلائل کی روشنی میںسمجھا جاتا ہے۔ اسے عام زبان میں مسائل کا علم کہہ سکتے ہیں جس کا سیکھنا اپنی زندگی کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے کے لئے بے حد ضروری ہے۔ عصری تعلیمی اداروں سے وابستہ نوجوانوں سے مکالمے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج کا نوجوان مسائل کو قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں سمجھنا چاہتا ہے جس میں مروجہ مدارس کے فارغین انہیں مطمئن نہیں کرپاتے کیوں کہ فقہ اور فتویٰ نویسی کی روش اس سے مختلف رہی ہے اور ائمہ کے اقوال سے تو وہ واقف ہوتے ہیں لیکن ان کے دلائل اور مآخذ سے وہ عام طور پر واقف نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ واقف بھی ہوتے ہیںتو اسے عوام کے سامنے لانا نہیں چاہتے ہیں کیوں کہ انہیں اپنا مسلک خطرے میں نظر آتا ہے۔ اس طرح کی تصانیف بھی جو کہ عام فہم ہوں اور جن میں ہر مسئلہ کی وضاحت قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں کی گئی ہوں، کم ہیں۔ یہی وہ صفت ہے جو ان تینوں کتابوں کو اہم اور ممتاز بناتی ہے۔ اس لئے ان کا تعارف اس نیت سے پیش کیا جارہا ہے کہ لوگ ان سے واقف ہوکر مستفیض ہوں۔
فِقْہُ السُّنّہ از محمد عاصم الحداد : یہ مشہور و معروف عالم دین جناب محمد عاصم الحدادؒ کی تالیف ہے۔ کتاب اردو میں ہے اور دو حصوں پر مشتمل ہے جسے عام طور پر یکجا ہی شائع کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ کتاب الطہارت، کتاب الصلوٰۃ اور کتاب الجنائز پر مشتمل ہے جب کہ دوسرا حصہ کتاب الزکوٰۃ، کتاب الصیام اور کتاب الحج و العمرۃ کے مسائل پر مشتمل ہے۔ مؤلف نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ ہر باب اور ذیلی باب کے متن میں وہ مسائل نقل کئے ہیں جن پر مسالک اربعہ اور جمہور اہل حدیث کا اتفاق ہے یا پھر کم از کم ان مذاہب خمسہ کی اکثریت کا اتفاق ہے۔ اس سلسلے میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ قرآن و حدیث سے یا ان دونوں میں نص نہ ہونے کی صورت میں اجماع سے اس کی بنیاد کا ذکر کیا جائے۔ اس بات کا بھی التزام کیا گیا ہے کہ جو حدیث بھی نقل کی جائے وہ سند اور کتب حدیث کے حوالہ کے ساتھ نقل کی جائے۔ بعض ایسے مسائل جن میں ان پانچ مذاہب کا تو اتفاق ہے لیکن صحابہ یا ائمہ سلف میں سے کسی کا اختلاف ہے تو اسے حاشیہ پر دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح جن مسائل میں حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنبلیہ اور اہل حدیث علماء کا موقف الگ الگ ہے، ان کا ذکر متن میں نمبرات دے کر حاشیہ میں کیا گیاہے اور اختلاف کی وجہ بھی بتایٔ گئی ہے۔ واضح ہو کہ مسائل فقہیہ کے یہ اختلافات ترجیحات (Preferences)، تعبیرات اور تاویلات (Interpretations)کے اختلافات ہیں اور بیش تر فروعی اور جزیٔ مسائل میں ہی ہیں۔ ہر مسلک کی بنیاد کسی نہ کسی قرآنی آیت یا حدیث پر ہے، مسائل کے استخراج (Deduction) و استدلال (Argumentation) میں کسی نے ایک آیت یا حدیث کو ترجیح دی ہے تو دوسرے نے کسی اور آیت یا حدیث کو۔
چنانچہ مؤلف نے ہر مسلک کی بنیاد کس آیت یا حدیث پر ہے اسے اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے اور اسے بھی کہ فریقین کی ان آیات و احادیث کے متعلق کیا رائے ہے۔ مؤلف کا مقصد یہ ہے کہ ہر مسلک والے کو اپنے مسلک کی بنیاد معلوم ہو تاکہ قرآن و سنت پر عمل کا جذبہ بنا رہے، ساتھ ہی دوسرے مسالک کے مآخذ و دلائل کا بھی علم ہو تاکہ فکروں میں رواداری پیدا ہو اور تعصب دور ہو جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص صرف اپنے مسلک کا علم رکھتا ہے اور اسے ہی صحیح سمجھتا ہے اور دوسرے مسالک کو بے بنیاد خیال کرتا ہے۔ اس کتاب کو پاکستان میں الفیصل ناشران و تاجران کتب، اردو بازار، لاہور نے پہلی بار 1960ء میں شائع کیا اور اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ سنہ 2016 ء میں اس کا سولہواں ایڈیشن شائع ہوا جو راقم کے پیش نظر ہے جس کا پہلا حصہ 404 اور دوسرا حصہ 348 صفحات پر مشتمل ہے۔ ہندوستان میں اسے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی نے کئی بار شائع کیا ہے، تازہ ترین ایڈیشن 2018 ء کا ہے جو 549 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کی زبان بھی سلیس ہے جسے اردو داں طبقہ بہ آسانی سمجھ سکتاہے۔
فقہ السّنّہ از سید سابق: یہ مصر کے معروف عالم سید سابق ؒ (1915-2000 ء) کی مشہور عربی تصنیف ’’فِقْہُ السُّنَّۃ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب کافی جامع ہے اور اسے اگر احکام و مسائل کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو مناسب ہے۔ اس میں عام فہم انداز میں زندگی کے تمام مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور سارے مسائل کتاب و سنت اور اجماع امت کے حوالوں کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں ۔ کتاب عوام الناس کے استفادہ کے لئے تحریر کی گئی ہے اس لئے اس میں دقیق بحثوں اور غیر ضروری فقہی اختلاف آراء کے بیان سے گریز کیا گیا ہے، ساتھ ہی دقیق فقہی اصطلاحات (Terminology) کے استعمال سے بھی پرہیز کیا گیا ہے۔یہ کتاب دراصل سید سابقؒ کی اجتہادی تحریر ہے جس پر انہیں 1994 میں شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا، انہوں نے کسی مسئلہ کو قرآن و سنت اور اجماع امت کی روشنی میں جس طرح سمجھا ہے اسے اسی طرح اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔ اختلافی مسائل میں عموماً اسی مسلک کا ذکر کیا ہے اور اسی کے دلائل نقل کئے ہیں جس کو انہوں نے اپنے نزدیک صحیح تر سمجھا ہے، دوسرے مسالک کو وہ نظرانداز کرگئے ہیں اور اگر کہیں دوسرے مسلک کا ذکر کیا بھی ہے تو اس کے دلائل کی طرف صرف اشارہ کردینے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ تاہم انہوں نے حضرات ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاء کی آراء کا احترام ملحوظ رکھا ہے اور ان پر تنقید سے گریز کیا ہے، کسی ایک فقہی مسلک کی تقلید نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی مسلک کے لئے تعصب کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ کھلے ذہن سے کتاب و سنت کی روشنی میں مسائل کا جائزہ لیا ہے اور جو رائے صائب و درست نظر آیٔ اس کی وکالت کی ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں (ترجمہ): ’’یہ کتاب اس فقہ اسلامی کا ایک صحیح اور جامع تصور پیش کرتی ہے جسے ہمارے نبی کریم ﷺ پر مبعوث کیا گیا، یہ لوگوں کے لئے دین کے فہم کا باب کھولے گی اور انہیں اندھی تقلید اور مسلکی تعصب سے بچاکر کتاب و سنت پر جمع کرے گی اور اس باطل نظریہ کا رد کرے گی کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔‘‘
احقر کے پیش نظر جو ترجمہ ہے ، وہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن صاحب کا ہے جو کہ عام فہم، سادہ اور محاوراتی ہے۔اس میں ہر روایت کی تخریج کی گئی ہے جسے حاشیہ پر نقل کیا گیا ہے اور ہر روایت پر حضرت علامہ ناصر الدین البانیؒ کی تحقیق کے مطابق صحیح یا ضعیف کا حکم بھی لگایا گیا ہے۔ جہاں علامہ البانیؒ کا حکم نہیں ملا وہاں محدث حافظ زبیر علی زئی کا تحقیقی حکم لگایا گیا ہے ۔ مکتبہ اسلامیہ، لاہور سے 2015 ء کا شائع شدہ یہ نسخہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد جو 687 صفحات پر مشتمل ہے ، اس میں طہارت کے مسائل، نماز کے مسائل، زکوٰۃ کے مسائل، روزوں کے مسائل، جنازے کے مسائل، ذکر کے مسائل ، اور حج و عمرۃ کے مسائل کی تفصیلات ہیں۔ دوسری جلد جو 848 صفحات پر مشتمل ہے، اس میں نکاح، طلاق، حدود و تعزیرات، جہاد ، غنائم و انفال، قسم، تجارت، زراعت، اجارت، لین دین، لقطہ، شکار، قربانی، عقیقہ، مشارکت، صلح، عدالتی معاملات، معاشرت، وقف و ہبہ، وصیت اور وراثت وغیرہ کے احکام و مسائل شامل ہیں۔
ہندوستان میں اس کتاب کا ترجمہ جناب ولی اللہ مجید قاسمی نے کیا ہے جسے المنار پبلشنگ ھاؤس، جامعہ نگر، نئی دہلی نے 2019 ء میں شائع کیا ہے۔ فاضل مترجم نے متن کتاب پر حواشی و تعلیقات کا اضافہ بھی کیا ہے جن میں بعض نکتوں کی وضاحت اور ان کی اپنی آراء شامل ہیں۔ یہ ترجمہ تین جلدوں اور کل 1700 صفحات پر مشتمل ہے۔ فقہ السنہ کا انگریزی ترجمہ بھی دستیاب ہے جسے امیریکن ٹرسٹ پبلی کیشن نے شائع کیا ہے۔ یہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہے؛ پہلی جلد 214 صفحات، دوسری 176، تیسری 166، چوتھی 155 اور پانچویں 141 صفحات پر مشتمل ہے لیکن ان پانچ جلدوں میں صرف عبادات سے متعلق مسائل ہی شامل ہوپائے ہیں، باقی حصوں کا ترجمہ ایسا لگتا ہے کہ کسی وجہ سے نہیں ہوپایا ہے۔ بہرحال انگریزی جاننے والوں کے لئے یہ ایک بہترین تحفہ ہے جس کے ذریعہ وہ روزمرہ کے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔ اس ترجمہ کو وِن سولیوشن (Win Solutions) نے ایپ کی شکل بھی دے دی ہے جو کہ iPhone, iPad, iPod touch, اور Mac سے ہم آہنگ ہے۔
فقہ الحدیث از حافظ عمران ایوب لاہوری : یہ کتاب دراصل امام محمد بن علی الشوکانیؒ کی فقہ کی مشہور کتاب ’’الدرر البھیۃ في المسائل الفقہیۃ‘‘ کی شرح ہے۔ترجمہ ، تشریح ، ترتیب و تخریج کا کام جناب حافظ عمران ایوب لاہوری نے انجام دیا ہے۔ ’’الدرر البھیہ‘‘ بہت سے سلفی مدارس کے نصاب میں شامل ہے لیکن بہت ہی مختصر ہے جس کی عربی زبان میں کئی شروحات لکھی گئی ہیں لیکن اردو زبان میں ’’فقہ الحدیث‘‘ اس کی واحد شرح ہے جو نہایت ہی محقق اور مدلل ہے۔ عبارت کے حل و تفہیم کے ساتھ فاضل مصنف نے احادیث کی تخریج و تحقیق پر پوری توجہ دی ہے، ساتھ ہی فقہی مذاہب کے اختیار کردہ موقف اور ائمہ اربعہ و دیگر ائمہ و فقہاء کے اقوال بھی مع حوالہ ہر مسئلہ کی وضاحت میں نقل کئے ہیں اور ان میں دلائل کی رو سے جو موقف راجح ہے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔ مسائل کے استنباط میں قرآن اور صحیح احادیث کو ہی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ہر حدیث کے حوالہ کی ابتداء میںاس کے صحیح، حسن یا ضعیف ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں علامہ ناصر الدین البانیؒ کی تحقیق پر اعتماد کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ جن دیگر محدثین و محققین سے استفادہ کیا گیا ہے ان میں امام نوویؒ، حافظ ابن حجرؒ، امام ہیثمیؒ، امام حاکمؒ، امام ذہبیؒ ، حافظ بوصیریؒ اور عصر حاضر کے محققین میں شیخ شعیب ارنؤط، شیخ عبد القادر ارنؤط، شیخ محمد صبحی حسن خلاق، شیخ علی محمدمعوض، شیخ عادل عبدالموجود اور شیخ حازم علی قاضی وغیرہ شامل ہیں۔
ائمہ اربعہ کے علاوہ جن دیگر ائمہ و فقہاء کے اقوال نقل کئے گئے ہیں ان میں امام ابن تیمیہؒ، امام ابن قیمؒ، امام نوویؒ، حافظ ابن حجرؒ، امام ابن قدامہؒ، امام ابن منذرؒ، علامہ ابن حزمؒ، امام صنعانیؒ، شمس الحق عظیم آبادیؒ، عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ، نواب صدیق حسن خاںؒ، سید سابقؒ، علامہ ناصر الدین البانیؒ، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ، شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ،شیخ ابن جبرین، شیخ ابن فوزان، شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ، شیخ عبدالرحمٰن سعدی، شیخ عبداللہ بن حمید اور سعودی مجلس افتاء کے علماء شامل ہیں۔ مذاہب اربعہ کے حوالہ جات کے لئے شیخ وھبۃ الزحیلیؒ کی معروف کتاب ’’الفقہ الاسلامی و أدلتہ‘‘ کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
فاضل مصنف نے بہت سے ایسے جزئی مسائل کو جو نہ اصل کتاب میں موجود ہیں نہ ہی اس کی عربی شروحات میں، دیگر کتب فقہ سے تلاش کرکے کبھی متفرقات کے زیر عنوان تو کبھی بغیر عنوان کے ایک سیریل نمبر کے ذریعے نشاندہی کرتے ہوئے نقل کردیا ہے جس نے اس کتاب کو فقہی طور پر اور بھی جامع بنا دیا ہے۔ ترجمہ میں اردو عبارت کو بھی عام فہم اور آسان رکھا گیا ہے تاکہ عام افراد بھی اس کتاب سے استفادہ کرسکیں۔ نیز قارئین کی سہولت کے پیش نظرعلم حدیث اور فقہ سے متعلق ضروری اصطلاحات (Terms) کی مختصر وضاحت کتاب کے شروع میں ہی کردی گئی ہے۔ مقدمۃ الکتاب بھی کافی معلوماتی ہے جس میں فقہ کی تعریف، علم فقہ کی اہمیت، اس کے مآخذ، مختلف ادوار میں فقہ اسلامی کے ارتقاء، مذاہب اربعہ کا تعارف ، اور اختلاف فقہاء کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے نیز اجتہاد و تقلید سے متعلق چند اصولی باتوں کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ ان کے علاوہ امام شوکانیؒ اور شیخ البانیؒ کی سوانح حیات اور علمی خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فاضل مصنف کے اضافات نے ’’الدرر البھیہ‘‘ کی اس شرح کو ایک مستقل کتاب کی حیثیت دے دی ہے جو کہ عوام الناس کے لئے انتہایٔ مفید ہے۔
پاکستان میں اس کتاب کو فقہ الحدیث پبلی کیشنز، لاہور نے 2004 ء میں اور ہندوستان میں مکتبہ الفہیم، مئوناتھ بھنجن، یوپی نے 2011 ء میںشائع کیا ہے۔ پہلی جلد 752 صفحات اور دوسری جلد 814 صفحات پر مشتمل ہے۔ ہندوستانی ایڈیشن میں تقدیم کتاب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری نے رقم کیا ہے۔پہلی جلد میں طہارت، نماز، جنازہ، زکوٰۃ اور روزے کے مسائل ہیںجبکہ دوسری جلد میں حج و عمرہ، نکاح، طلاق، تجارت، قسم و نذر، کھانے پینے، لباس، قربانی و عقیقہ، طب، وکالت، ضمانت، صلح، حوالہ، دیوالیہ ہونے، گمشدہ اشیاء، قضا و خصومت، حدود، قصاص، دیت، وصیت، وراثت، جہاد اور سیر کے مسائل شامل ہیں۔
آخر میں اردوداں طبقہ بالخصوص نوجوانوں سے یہ اپیل ہے کہ ان کتابوں کو اپنے گھروں میںضرور رکھیں اور ان کا مطالعہ بھی کریں۔ نیت اپنا جہل دور کرنے، علم کے ذریعہ اپنے اعمال کو درست کرنے اور اللہ کو راضی کرنے کی رکھیں، دوسروں سے بحث، مکالمہ، مناظرہ یا کسی کی تنقید یا تنقیص کرنے کی نیت سے علم حاصل نہ کریں۔ نیت اگر صحیح ہوگی تو اللہ رب العزت دین کی سمجھ ضرور عطا کریں گے۔یاد رہے کہ رسول پاک ؐ کا ارشاد ہے: ’’مَنْ یُرِدِ اﷲُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھْہُ فِي الدِّیْن‘‘یعنی اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔(صحیح بخاری،کتاب العلم، جزو من رقم الحدیث 71، بروایت معاویہ بن سفیانؓ)۔ اللہ پاک اپنی اس عنایت سے نوازے اس کے لیے ضروری ہے ہم لوگ اس رخ پر اپنی جدوجہد کو مرکوزکریں اور اس سے ہدایت کے طلبگار ہوں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نفع بخش علم کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کا جذبہ عطا کرے ۔ آمین!
’دہلی میں یلو الرٹ ہے، احتجاج نہیں کر سکتے‘، دہلی پولیس کی احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں سے اپیل
نئی دہلی: دہلی میں احتجاج کرنے والے ریزیڈنٹ ڈاکٹروں اور پولیس کے درمیان کشیدگی برقرار ہے۔ دہلی پولیس نے بدھ کو کووڈ پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے احتجاج واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ دہلی پولیس کے اے سی پی بی ایس یادو نے کہا کہ ڈاکٹر دہلی میں اپنا احتجاج جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ یہاں یلو الرٹ جاری کیا گیا ہے۔یادو نے کہا کہ ہم نے ڈاکٹروں سے کہا ہے کہ وہ ہڑتال جاری نہیں رکھ سکتے۔ دہلی میں کووڈ کو لے کر یلو الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ ڈی ڈی ایم اے ایکٹ کے تحت بھیڑ جمع نہیں ہو سکتی۔ ہم نے ڈاکٹروں سے کورونا کی وجہ سے ہڑتال ختم کرنے کی درخواست کی ہے۔تاہم احتجاج پر بیٹھے ڈاکٹروں کی تنظیم نے کہا ہے کہ ان کی ہڑتال بدستور جاری ہے۔ FORDA (فیڈریشن آف ریذیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن) کے صدر ڈاکٹر منیش نے کہا کہ ہمیں دہلی پولیس نے یلو الرٹ کا حوالہ دیا ہے۔ ہماری ہڑتال اب بھی جاری ہے۔ ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ دہلی پولیس تحریری معافی مانگے۔ ہم ایک میٹنگ کریں گے اور فیصلہ کریں گے کہ ہڑتال جاری رکھی جائے یا ختم کی جائے۔واضح رہے کہ 2021 NEET-PG کی کاؤنسلنگ میں تاخیر پر ریذیڈنٹ ڈاکٹروں نے اپنا احتجاج تیز کر دیا ہے۔ لیکن احتجاج نے اس وقت ڈرامائی رخ اختیار کر لیا جب ڈاکٹروں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان سڑکوں پر جھڑپیں ہوئیں اور دونوں فریقوں نے الزام لگایا کہ جھڑپ میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔پولیس نے پیر کو لاٹھی چارج یا اپنی طرف سے بدسلوکی کے استعمال کے کسی بھی الزام کی تردید کی اور کہا کہ 12 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا اور بعد میں چھوڑ دیا گیا۔
ہر طرف بھائیں بھائیں کرتا سناٹا،ہو کا عالم،ایسی گہری خموشی کہ اپنی سانسوں کی سائیں سائیں اور دل کی دھڑکنیں صاف صاف سنائی پڑ رہی تھیں۔میں اپنی ذات سے ملنے کے ان لمحوں میں کھوئی ہوئی دیوانِ غالب پڑھنے لگی۔شعور کے نہاں خانوں میں کہیں ایک سوال بار بار کچوکے لگا رہا تھا کہ آج کورونا جیسی آدم کُش وبا میں چھُٹ بھیّے اور تُک بند شعرا کے اشعار بھی کام آنے لگے ہیں،تو کیا غالب جیسے لازوال اور سرمدی شاعر کا دیوان اس آشوب میں صم بکم عمی ہوگا؟ اسی ڈپریشن زدہ کیفیت میں مَیں نے نجانے کب اور کیسے خود کو حویلی کالے خاں، گلی قاسم جان، محلہ بلی ماران، پرانی دلی میں پایا،جہاں مرزا غالب بنفسِ نفیس موجود تھے۔مجھے کچھ بھی خبر نہیں کہ یہ سب کیا تھا؟ میرا واہمہ، میرا خواب، میری وجدانی کیفیت، میرا مراقباتی لمحہ یا واقعی ایک حقیقت؟ خیر! میں اس الجھن میں ابھی پڑنا بھی نہیں چاہتی۔اصل بات یہ ہوئی کہ میں نے غالب سے فرطِ شوق میں ڈھیر ساری باتیں کرنا شروع کردیں۔اب وہ ساری باتیں تو یاد نہیں، لیکن جو کچھ دھندلا دھندلا یاد آرہا ہے، وہ آپ کو سناتی ہوں۔
لیکن پہلے آپ کو ایک بات اور بتاتی چلوں کہ دورانِ گفتگو میرے مختلف تیز، تند، دھاردار، معصوم اور جستجو آمیز سوالات پر مرزا غالب کی جو کیفیت ہوتی تھی، یہاں میں نے طوالت کے خوف سے انھیں حذف کردیا ہے۔ ورنہ وہ کبھی کسی سوال پر مسکراتے، کبھی قہقہے بلند کرتے، کبھی جھلا جاتے، کبھی چہکنے لگتے، کبھی اداس و ملول ہوجاتے، کبھی کھو سے جاتے، کبھی جوش میں آجاتے، کبھی جذبات میں ابل پڑتے اور کبھی نم دیدہ ہوجاتے، خیر! لیجیے یہاں صرف تلخیص ملاحظہ فرمائیے:
فوزیہ رباب: حضور! ساری دنیا ابھی قید میں ہے لیکن آپ تو اتنی بڑی حویلی کالے خاں میں خوب آزادی کا لطف اٹھا رہے ہیں؟
غالب: کیسا لطف؟ پہلے گوروں کی قید میں تھا اب ”کالے“ کی قید میں ہوں۔
فوزیہ رباب: آہاہاہاہ کیا کہنے! لفظ ”کالے“ کا لطف دوبالا ہوگیا۔لیکن یہ بتائیں کہ ابھی ہر طرف وبا پھیلی ہوئی ہے تو ایسے میں آپ کو کچھ جان کا خوف محسوس نہیں ہوتا؟
غالب: میں غالب ہوں غالب۔ جینے میں بھی منفرد اور مرنے میں بھی انفرادیت پسند۔مجھے وبائے عام میں موت نہیں آسکتی۔
فوزیہ رباب: واہ، سبحان اللہ! مریں آپ کے دشمن۔ لیکن مرزا صاحب! آپ تو ابھی تک نثر میں کلام فرما رہے ہیں۔ میری آرزو ہے کہ اب آپ میرے ہر سوال کا جواب اپنے کسی شعر سے عطا فرمائیں۔
غالب:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
فوزیہ رباب: حضور! آپ کو یہ بھیانک تنہائی کیسی محسوس ہورہی ہے؟
غالب:
کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
فوزیہ رباب: آج کل ہر طرف نصیحتوں کا ایک شور بپا ہے۔ واٹس ایپ اور فیس بک میں کورونا کے حوالے سیپند و نصائح کے انبار نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
غالب:
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے، تم نے کیا مزا پایا
فوزیہ رباب: ہر طرف احتیاط،احتیاط کا کہرام مچا ہوا ہے۔ہر پل موت کا کھٹکا لگا ہوا ہے۔
غالب:
تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
فوزیہ رباب: آپ ان دنوں حویلی میں بند ہیں۔لیکن اس زمانے میں موبائل ہے تو گویا مٹھی میں دنیا ہے۔ آپ کے احباب کے مسیجز آتے ہوں گے تو اس سے وحشت میں کچھ کمی تو آتی ہوگی؟
غالب:
احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کرسکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
فوزیہ رباب: غالب صاحب! لوگ کورونا کے خوف سے ایک دوسرے سے دور بھاگنے لگے ہیں۔آپ کیسا محسوس کررہے ہیں؟
غالب:
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں
فوزیہ رباب: اللہ کی پناہ! کورونا زدہ مریض اگر مر جائے تو کوئی اس کو ہاتھ تک نہیں لگاتا، نہ غسل، نہ کفن، نہ کاندھا،نہ جنازہ.ان بے کفن لاشوں کی ایسی ہولناکی پر کیا کہیں گے آپ؟
غالب:
یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
فوزیہ رباب: اب تو آپ صبح شام واکنگ کے لیے بھی نہیں نکلتے ہوں گے۔ ظاہر ہے ہر طرف انفکشن کا خطرہ ہے۔جب کہ آپ کو باغوں کی سیر بہت پسند تھی؟
غالب:
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا
فوزیہ رباب: جی بالکل! اب تو کوئی چھینک بھی دے تو اس کے اثر سے دوسرا شخص لقمہئ اجل ہوجاتا ہے۔
غالب:
صَرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا وگرنہ میں
طْعمہ ہوں ایک ہی نفسِ جاں گداز کا
(طْعمہ: لقمہ)
فوزیہ رباب: اب تو ہر طرف موت منڈلارہی ہے۔ جدھر دیکھیے موت ہی کی خبر آرہی ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں میں موت کی خبریں گویا لائیو چل رہی ہیں۔
غالب:
کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
فوزیہ رباب: لیکن مرزا صاحب کیا آپ ایسے حالات سے مایوس ہیں؟
غالب:
اس کی امت میں ہوں میں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالب گنبدِ بے در کھلا
فوزیہ رباب: دیکھیے حضور! آئسولیشن یا قرنطینہ سے امیروں کو تو کچھ خاص فرق نہیں پڑ رہا ہے، بلکہ ہمارے بڑے بڑے امرا کو تو گویا اور زیادہ عیش کا موقع فراہم ہوگیا ہے، لیکن بے چارے غریبوں کی حالت بہت ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے۔
غالب:
واں خودآرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا
جلوہئ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا
فوزیہ رباب: جی بالکل عوام و خواص کے درمیان بہت تضاد ہے۔ ابھی چند روز قبل ایسے ابتر حالات میں بھی پارلیمنٹ کی محفل سجتی رہی اور ایک گلو کارہ کنکا کپور کا جشن بڑے بڑے لیڈروں کے ساتھ جاری رہا۔
غالب:
یاں نفس کرتا تھا روشن شمعِ بزمِ بے خودی
جلوہئ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
فوزیہ رباب: جنابِ والا! آپ کے نزدیک کورونا کے اس قدر تیزی سے پھیلنے کی اصل وجہ کیا ہے؟
غالب:
ناگہاں اس رنگ سے خونابہ ٹپکانے لگا
دل کے ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا
فوزیہ رباب: حضور! ابھی صورتِ حال یہ ہے کہ جب لوگ آئسولیشن میں چلے گئے تو کسی کو کسی کی پروا نہیں رہی۔ جب کہ پہلے وہی لوگ مہر و وفا کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔
غالب:
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے
کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا
فوزیہ رباب: وبائی موت نہایت دردناک ہے۔لیکن اس میں کچھ ہماری بے احتیاطی اور آزادانہ گھومنے پھرنے کا بھی دخل ہے۔
غالب:
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادہ ئ ہوائے سرِ رہگزار تھا
فوزیہ رباب: ابھی صورتِ حال یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بہت بدنظمی کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ بغیر کسی منصوبے کے لاک ڈاؤن کے احکامات جاری کردیے گیے۔اب جب کہ بہت نقصان ہوچکا ہے تو کہیں جاکر وزیراعظم نے معافی طلب کی ہے اور کچھ حکومتی اعلانات ہوئے ہیں۔
غالب:
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
فوزیہ رباب: جتنی برق رفتاری کے ساتھ وبا پھیل رہی ہے،اتنی ہی سست رفتاری کے ساتھ اس کی روک تھام کی کوششیں ہورہی ہیں۔
غالب:
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
فوزیہ رباب: لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں۔ بھیڑ میں اندھادھند چلے جارہے ہیں۔ جیسے خود ہی موت کی ساری تیاری کرچکے ہوں۔
غالب:
آج واں تیغ وکفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
فوزیہ رباب: اچھا یہ بتائیں کہ آپ کو یہ آئسولیشن کیسا محسوس ہورہا ہے؟یہاں سے نکل بھاگنے کا جی نہیں چاہتا؟ گھبراہٹ نہیں ہوتی؟
غالب:
خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا
فوزیہ رباب: ابھی سب سے بڑا مسئلہ غذائی عدم دستیابی کا ہے۔ایسی صورتِ حال میں تو آدمی غمِ عشق بھی بھول جائے۔
غالب:
ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسد
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں، کھائیں گے کیا
فوزیہ رباب: لیکن کچھ حکومتی اعلانات اور یقین دہانیاں بھی کرائی جارہی ہیں۔
غالب:
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
فوزیہ رباب: سب سے زیادہ الرجی اس بات پر ہوتی ہے کہ اب ہر شخص ناصح بنا پھرتا ہے۔باہر مت جایا کرو، ہاتھ دھوتے رہو، ماسک لگایا کرو_____کوئی دوست ایسا نہیں جو غم گساری اور چارہ سازی کرے۔
غالب:
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
فوزیہ رباب: کورونا کی وبا تو اپنی جگہ۔اس کی سنگینی بھی اپنی جگہ۔لیکن اس کے تعلق سے جو سنسنی خیزی پیدا کی جارہی ہے اور جو خوف پھیلایا جارہا ہے،وہ تو آدمی کو ہرلمحے بے موت مار رہا ہے۔
غالب:
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
فوزیہ رباب: کچھ نادان لوگ سوشل ڈسٹینسنگ (Social Distancing) کا مذاق اڑا رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
غالب:
فائدہ کیا؟ سوچ آخر! تو بھی دانا ہے اسد
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہوجائے گا
فوزیہ رباب: اگر کوئی آپ کو ان حالات میں بھی سیر و تفریح کی دعوت دے تو آپ انھیں کیا کہیں گے؟
غالب:
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بیجا کا
فوزیہ رباب: حضور والا! چاروں طرف عجیب ہو کا عالم ہے۔آپ کیسا محسوس کررہے ہیں؟
غالب:
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
فوزیہ رباب: مرزا صاحب! یہ وبا بھی عجیب ہے۔امیر، غریب، ہندو، مسلمان کسی کا امتیاز نہیں کرتی ہے۔
غالب:
برروئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا
فوزیہ رباب: مجھے بار بار یہی خیال آتا ہے کہ آپ جیسا یار باش اور آزادہ رو شخص کیا ایک جگہ بند رہ کر گھٹن محسوس نہیں کرتا ہوگا؟
غالب:
میں اور اک آفت کا ٹکڑا، وہ دلِ وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
فوزیہ رباب: جب آپ کو گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے تو آپ کس طرح اس کیفیت کو جھٹکتے ہیں؟
غالب:
رات دن گردش میں ہے سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
فوزیہ رباب: عوام کو بار بار احتیاط برتنے کے لیے متنبہ کیا جارہا ہے، لیکن وہ سنی ان سنی کررہی ہے۔ ایسے میں انتظامیہ کو کیا کرنا چاہیے؟
غالب:
بہرا ہوں میں تو چاہیے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
فوزیہ رباب: آج کل سوشل میڈیا میں کورونا جیسی مہلک وبا کے حوالے سے مذہبی اور مسلکی بحثیں چل رہی ہیں۔اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
غالب:
نہ لڑ ناصح سے غالب کیا ہوا گر اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
یارب! نہ وہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
فوزیہ رباب: کیا آپ کو یہ طویل تنہائی ڈستی نہیں ہے؟اس احساس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟
غالب:
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں، خلوت ہی کیوں نہ ہو
فوزیہ رباب: سچ تو یہ ہے کہ ابھی اس وبا کے ہولناک انجام سے لوگ آگاہ نہیں ہیں۔ ابھی بھی وہ بے فکری کے ساتھ اپنے آپ میں مست ہیں۔
غالب:
تو اور آرائشِ خمِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
فوزیہ رباب: ان ناسازگار حالات میں ایک اچھی خبر یہ سننے کو مل رہی ہے کہ کچھ بڑے ڈاکٹروں نے علاج ڈھونڈ نکالنے اور دوا تیار کرلینے کی امید ظاہر کی ہے۔آپ کا کیا تاثر ہے؟
غالب:
آہ کو چاہے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دامِ ہر موج میں ہے حلقہئ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
فوزیہ رباب: ایک اچھی بات یہ ہے کہ کورونا ازخود کسی کو نہیں ہوتا بلکہ جب کوئی کورونا وائرس کو چھوئے گا تبھی وہ اس تک منتقل ہوگا۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟
غالب:
دھول دھپّہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کربیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
فوزیہ رباب: لیکن اس کے باوجود یہ کسی قیامت سے کم نہیں۔
غالب:
ترے سروِ قامت سے اک قدِّ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
فوزیہ رباب: مرزا صاحب! ایک پیچیدہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ کرونا کے بارے میں جتنے منہ،اتنی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔مثلاً کوئی کہتا ہے کہ کورونا وائرس قدرتی نہیں بلکہ لیباریٹری میں تیار کردہ ہے، جس کا تجربہ آبادی کم کرنے کے لیے خود چین نے کیا۔ کوئی کہتا ہے امریکہ نے چین کی معاشی کمر توڑنے کے لیے یہ سازش کی۔کوئی کہتا ہے کہ کورونا ہَوا میں نہیں ہوتا ہے، کسی چیز میں ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ ہَوا میں بھی ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ زیادہ تیز درجہئ حرارت میں مر جاتا ہے،کوئی کہتا ہے کہ درجہئ حرارت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔اب اتنی متضاد باتیں سن سن کر اچھا خاصا آدمی پاگل ہوجائے گا۔آخر کس کی بات تسلیم کرے اور کس کو قبول نہ کرے؟
غالب:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
فوزیہ رباب: کچھ دنوں قبل پورے ملک میں کورونا بھگانے کے لیے تالی، تھالی اور گھنٹی بجانے کی حماقت بھی کی گئی۔لیکن کورونا سے مقابلے کے لیے نہ وینٹیلیٹر،نہ ماسک، نہ شفاخانے،آخر یہ سب کیا ہے؟
غالب:
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
فوزیہ رباب: کیا اس مرض کی دوا ممکن ہے؟
غالب: پیدا ہوئی ہے کہتے ہیں ہر درد کی دوا
فوزیہ رباب: کچھ بے وقوف لوگ Social Distancing کے قائل نہیں ہیں۔آپ ان کو کیا کہیں گے؟
غالب:
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
فوزیہ رباب: اس وبائے عام سے محفوظ رہنے کے لیے آپ کی کیا تجویز ہے؟
غالب: (مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آج کل وبائی وائرس سے بچنے کی میری تجویز وائرل ہوگئی ہے)
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
فوزیہ رباب: جناب عالی! ایک افسوس ناک سانحہ یہ بھی ہے کہ اس وبا کے چلتے تمام محفلیں اجڑ گئی ہیں۔نہ مشاعرے، نہ سمینار، نہ جلسے،نہ جشنِ شادی، نہ جشنِ سال گرہ…
غالب: (ایک سرد آہ بھرتے ہوئے)
وہ بادہئ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھیے بس کہ لذتِ بادِ سحر گئی
فوزیہ رباب: آج کل تو اضطراب ایسا ہے کہ راتوں کو نیند بھی نہیں آتی۔
غالب:
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
فوزیہ رباب: کچھ دنوں قبل ایک گلو کارہ کنکا کپور نے درجنوں مشاہیر، وزرا اور اعلا پائے کی کارپوریٹ برادری کے ساتھ جشن بپا کیا تھا۔جب کہ وہ کورونا پازیٹو تھی۔اب ان مشاہیر کا کیا ہوگا؟
غالب:
اس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے غالب
ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے
فوزیہ رباب: کہا جاتا ہے دنیا بھر میں یہ مرض چین اور دیگر ممالک کی بے اعتدالیوں اور بد احتیاطیوں کے سبب اس قدر بحران کا سبب بنی. آپ کا کیا خیال ہے؟
غالب:
بے اعتدالیوں سے سْبْک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہوگئے، اتنے ہی کم ہوئے
فوزیہ رباب: چین بڑی تیزی سے سب سے بڑی عالمی طاقت بننے جارہا تھا،لیکن خود ان کے اپنے ہی ایک شہر او?ہان کے کورونا وائرس نے ان کو شکار کرلیا.
غالب:
پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوگئے
فوزیہ رباب: حضور! ایک المیہ یہ بھی ہے کہ شادیوں کی تاریخیں ملتوی کی جارہی ہیں.
غالب:
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہئ غم ہی سہی، نغمہئ شادی نہ سہی
فوزیہ رباب: بڑی حد تک بھیڑ قابو میں ہے۔لیکن عبادت گاہوں میں اب بھی کہیں کہیں لوگ بھیڑ جمع کرنے سے نہیں مان رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ لوگ مذہب کی اصل روح یعنی ”تحفظِ انسانیت“ سے نابلد ہیں۔
غالب:
نہیں کچھ سبحہ و زنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
فوزیہ رباب: ابھی ہندوستان میں کورونا کا تیسرا مرحلہ چل رہا ہے۔ آگے مزید آزمائش ہے۔
غالب:
رگ وپے میں جب اترے زہرِ غم تب دیکھیے کیا ہو
ابھی تو تلخیِ کام ودہن کی آزمائش ہے
فوزیہ رباب: خدا نخواستہ یہ وبا کمیونٹی لیول سے آگے بڑھ کر گھروں کے اندر نہ آجائے۔
غالب:
وہ آویں گے میرے گھر وعدہ کیسا دیکھنا غالب
نئے فتنوں میں اب چرخِ کہن کی آزمائش ہے
فوزیہ رباب: سوشل میڈیا میں چند جاہل ملاؤں نے اس وبا کے حوالے سے اتنی واہیات قسم کی کٹھ حجتیاں شروع کر رکھی ہیں کہ اللہ کی پناہ! ان سے تو بات بھی نہیں کی جاسکتی۔(واضح رہے کہ متبحر علمائے کرام اس سے مستثنیٰ ہیں۔میں ان کا دل سے احترام کرتی ہوں اور خود اسی خانوادے سے تعلق رکھتی ہوں۔)
غالب:
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی
فوزیہ رباب: مرزا صاحب! کیسی اندوہناک صورتِ حال ہے؟ایسی بیماری جو لادوا ہے۔ کاش حضرت مسیح ابھی ہی نازل ہوجاتے۔
غالب:
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
فوزیہ رباب: حضور آج ان حالات میں کیا مْلّا، کیا پنڈت، کیا نیتا، کیا قائدینِ ملت،ان کی اکثریت سے لوگوں میں ایک مایوسی ہی پیدا ہوگئی ہے۔اب آدمی کس پر بھروسہ کرے؟اور جائے تو کہاں جائے؟
غالب:
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
فوزیہ رباب: ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ابھی ہمارے ملک میں ماسک اور وینٹیلیٹر کی سخت قلت ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے یہ چیزیں کچھ دنوں قبل دوسرے ملکوں کو برآمد کردی ہیں۔اب کیا کہا جائے؟
غالب:
تمھاری طرزِ روش جانتے ہیں ہم کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
فوزیہ رباب: ہمارے ملک پر جب کوئی آفتِ ناگہانی آتی ہے تو ہم عالمی برادری کی طرف التفات طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں،لیکن آج بھلا کس سے توقع کی جائے کہ پوری دنیا ہی اس آشوب کی شکار ہے۔
غالب:
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہئ تیغِ ستم نکلے
فوزیہ رباب: لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک کے بڑے بڑے ارب پتی،کھرب پتی کاروباری طبقے کو اس آسیب کے چنگل سے ملک کو نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
غالب:
اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب ادھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے
فوزیہ رباب: لیکن اگر اس کے باوجود ان کی جانب سے بے حسی کا مظاہرہ ہو رہا ہو تو؟
غالب:
بے گانگیِ خلق سے بے دل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے
فوزیہ رباب: اچھا غالب صاحب! یہ بتائیے کہ آخر قرنطینہ اور لاک ڈاؤن کا فائدہ کیا ہے؟
غالب:
نے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
فوزیہ رباب: اچھا صاحب!ایک بات ذرا سچ بتائیے گا کہ کیا واقعی اس سخت بندش اور احتیاط میں آپ کا دم نہیں گھٹتا ہے؟
غالب:
پھر وضعِ احتیاط سے گُھٹنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
فوزیہ رباب: غالب صاحب! ہائے کیا دل دوز منظر ہے۔تمام محفلیں اجڑ گئیں، اب وہ رونقیں اور وہ رعنائیاں کہاں؟
غالب:
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے
فوزیہ رباب: ابھی لاک ڈاؤن کے سبب گھر سے باہر نکلتے ہوئے پولیس کا خوف طاری رہتا ہے۔نہ کوئی وہاں سے یہاں آتا ہے،نہ کوئی یہاں سے وہاں جاتا ہے۔
غالب:
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
کوئی واں سے نہ آسکے یاں تک
آدمی واں نہ جاسکے یاں کا
فوزیہ رباب: جب اگر کوئی شخص کسی بیرونی ملک سے آتا ہے تو سرکاری عملہ اور عام لوگوں میں دہشت پیدا ہوجاتی ہے۔
غالب:
پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
رنگ اڑتا ہے گلستاں کے ہوا داروں کا
فوزیہ رباب: مرزا صاحب! ابھی نفسی نفسی کا عالم ہے۔ ہر طرف دکانوں اور بازاروں میں تالا لگا ہوا ہے۔آدمی کھانے پینے تک کو محتاج ہوگیا ہے۔
غالب:
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں
فوزیہ رباب: آج کل وبا سے حفاظت کے لیے کہیں اذانیں بلند کی جارہی ہیں اور کہیں ناقوس پھونکنے کا اہتمام ہورہا ہے۔ ایسے میں آپ کون سی مذہبی رسم پسند کریں گے؟
غالب:
کعبے میں جابجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دَیر میں احرام
فوزیہ رباب: پولیس کی سختی اور رسوا کُن کاروائی کے باوجود کچھ لوگ باہر گھومنے اور ٹہلنے سے باز نہیں آرہے ہیں۔آپ کے نزدیک اس کی وجہ؟
غالب:
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
فوزیہ رباب: ابھی کورونا وائرس کا قہر یقینی طور پر بہت خطرناک ہے۔لیکن کچھ غیرضروری وہم اور نفسیاتی خوف بھی تو ہے لوگوں میں؟
غالب:
باغ پاکر خفقانی، یہ ڈراتا ہے مجھے
سایہئ شاخِ گل، اَفعی نظر آتا ہے مجھے
فوزیہ رباب: کورونا کے مریضوں کی حالت پر آپ کیا کہیں گے؟
غالب:
کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محوِ تغافل کیوں نہ ہو
یعنی اس بیمار کو نظّارے سے پرہیز ہے
فوزیہ رباب: ابھی تواس بلا سے نجات کے لیے بس یہی ایک حل دکھائی دیتا ہے کہ ہر حال میں شادی، جشن اور محفلوں سے گریز ہی بہتر ہے۔
غالب:
شادی سے گذر کہ غم نہ ہووے
اْردی جو نہ ہو تو دَے نہیں ہے
(اْردی: بہار کا مہینہ،دَے: خزاں کا مہینہ)
فوزیہ رباب: کورونا کے مریضوں کا اکا دکا واقعہ یہ بھی سننے کو ملا کہ انھوں نے مایوس ہوکر خودکشی کرلی۔
غالب:
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
فوزیہ رباب: لاک ڈاؤن کی شدت یہ ہے کہ پورے ملک میں ٹرانسپورٹ سسٹم بلاک کردیا گیا ہے۔نہ فلائٹ، نہ ریلوے اور نہ بسیں ____ وسائلِ نقل حمل کی اس بندش پر آپ کا کوئی شعر؟
غالب:
ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے
فوزیہ رباب: اچھا غالب صاحب! ذرا تصور کیجئے کہ خدا نخواستہ کسی کو کورونا کا سخت آتشیں بخار ہوجائے تو سوچیے کہ خود ان کے اپنے لوگ کس طرح اس سے بھاگیں گے؟
غالب:
سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسد
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
فوزیہ رباب: مرزا صاحب! بتایا جاتا ہے کہ بار بار ہاتھ دھوتے رہنے سے انفکشن کا اندیشہ کم ہوجاتا ہے۔کیا فرماتے ہیں آپ؟
غالب:
ہاتھ دھو دل سے، یہی گرمی گر اندیشے میں ہے
آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے
فوزیہ رباب: غالب صاحب! یہ سوچ سوچ کر کلیجے میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ اس بلائے ناگہانی نے کتنی جانوں کو لقمہئ تر بنالیا؟ آپ کا کیا احساس ہے؟
غالب:
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی مجھ سے تھی اسے ناسازگاری ہائے ہائے
فوزیہ رباب: اتنا بڑا فتنہ بپا ہے۔ لیکن کچھ نادان لوگ اس کے در سے اب بھی اٹھنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ایسے میں آپ کیا کہیں گے؟
غالب:
اس فتنہ جُو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسد
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
فوزیہ رباب: شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عوام الناس کو ابھی اس وبا کی شدت اور ہولناک انجام کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔کیا خیال ہے آپ کا؟
غالب:
ابھی ہم قتل گہہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
نہیں دیکھا شناور جُوئے خوں میں تیرے تَوسَن کو
(شناور:تیراک، توسن:گھوڑا)
فوزیہ رباب: ابھی احتیاطی تدبیر کے طور پر جب کوئی کورونا کا مریض دریافت ہوتا ہے تو پھر اس کے رابطے میں آنے والے تمام لوگوں کی تفتیش کی جاتی ہے۔اس صورت حال پر آپ کا کوئی شعر؟
غالب:
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
فوزیہ رباب: پوری دنیا کورونا کا علاج ڈھونڈ رہی ہے، لیکن ہنوز ناکام ہے۔بطور خاص اٹلی جیسے طبی میدان میں ترقی یافتہ ملک نے بھی مایوس ہوکر ہاتھ کھڑے کرلیے۔ اس کیفیت پر آپ کی کیا رائے ہے؟
غالب:
تھک تھک کے ہر مقام پر دوچار رہ گیے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
فوزیہ رباب: کچھ دنوں قبل ایک اڑتی سی خبر یہ آرہی تھی کہ چین کے بعض علاقوں میں کورونا کے مریضوں کو ہلاک بھی کیا گیا۔ لیکن ہندوستان میں ماشاء اللہ ایسی کوئی بری خبر نہیں ہے۔ یہاں کورونا کے مشکوک مریضوں کو ان کے گھروں میں ہی بند کیا جارہا ہے۔اس صورتِ حال پر آپ کیا فرماتے ہیں؟
غالب:
سبدِ گل کے تلے بند کرے ہے گلچیں
مژدہ اے مرغ کہ گلزار میں صیاد نہیں
(سبدِ گل: پھولوں کی ٹوکری)
فوزیہ رباب: آج کل کچھ واقعات ایسے بھی سوشل میڈیا میں گردش کررہے ہیں کہ کچھ لٹیرے سرکاری عملے کے بھیس میں سینیٹائزر کے بہانے گھروں میں گھس کر لوگوں کو بے ہوشی کی دوا دے دیتے ہیں اورلوٹ مچارہے ہیں۔وہ آتے ہیں مسیحا اور ہمدرد بن کر، لیکن دھوکا دے کر چوری کرتے ہیں۔ایک اور بات چل رہی ہے کہ یوپی کے بعض علاقوں میں سرکاری لوگ کورونا کے بہانے مسلم گھرانوں میں این پی آر رپورٹ بنارہے ہیں۔اس مکروفریب پر آپ کا تاثر؟
غالب:
مجھ تک کب اس کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
فوزیہ رباب: کورونا وائرس کے سبب مریض کی علامت اور کیفیت پر بھی کچھ روشنی ڈالیے۔
غالب:
مضمحل ہوگئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
ضعف سے گِریہ مُبَدّل بدمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہوجانا
غالب کے ساتھ میں محوِ گفتگو ہی تھی کہ ایک چیخ میرے کانوں سے ٹکرائی اور میں چونک اٹھی۔ دیکھا کہ میں گوا کے سحر آفریں جزیرے کے ایک گھر میں نیم دراز تھی اور میرے ہاتھوں میں دیوانِ غالب تھا۔سامنے ننھی شہزادی سارہ کھڑی چاکلیٹ کے لیے احتجاج کررہی تھی۔
آہ ! یہ میرا ملک کن راہوں پر گامزن ہو گیا ہے ؟ جن پر چل کر سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ہمارا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے اس ماحول میں، جہاں زمانہ طفل سے ہی” ہندو مسلم سکھ عیسائی ، آپس میں ہیں بھائی بھائی ” کے نعرے سنتے رہے تھے وہیں آج ہندستان کی فضا میں ہندو ،ہندوتو، اور ہندو ازم کے نعرے ہیں ۔ ہندستان جسے ہمیشہ رنگ برنگے پھولوں کے گلدستے سے تشبیہ دی جاتی رہی ہے اس گلدستے سے تمام رنگوں کے پھولوں کو نوچ کر صرف بھگوا پھولوں سے سجانے کی پرزور کوشش کی جا رہی ہے ،اس ملک میں روز ہی ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کو سن کر دل تڑپ اٹھتا ہے ۔
کس کس کو یاد کیجیے کس کس کو روئیے
دن رات لوٹ مار ہے مذہب کے نام پر
جو ملک ہمیشہ سے سیکولرزم کی مثال تھا آج اسی ملک میں سیکولرزم کی بات کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔اس خوف نے کہ کہیں لب کشائی کی سزا مہنگی نہ پڑ جائے آج نہ معلوم کتنے ہی لبوں پر قفل لگا دیے ہیں ۔لیکن موجودہ دور میں وطن عزیز میں روزانہ کچھ نہ کچھ ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر چپ رہنا مردہ ضمیر کی علامت ہے اور ایک ذی فہم طبقہ چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو اسے برداشت نہیں کر سکتا ۔یہ صرف چند مٹھی بھر افراد ہیں جو اپنی نا فہمی کے سبب سارے ملک کی فضا کو آلودہ کرنے پر آمادہ ہیں ۔ یہ فرقہ پرست طبقہ کہیں کھلے میں نماز ادا کرنے پر شور برپا کرتا ہے ، تو کہیں مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کے نعرے بلند کرتا ہے ، ہندو ازم کا کیڑا اس قدر اس کے دماغ میں بیٹھ گیا ہے کہ پارلیامینٹ کی ایک اسٹننگ کمیٹی نے اسکولی کتابوں کے نصاب میں اصلاح کے لیے سفارشات پیش کرتے ہوئے چاروں ویدوں اور بھگوت گیتا کو نصاب میں شامل کرنے کی تجویز دے ڈالی ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی ۔ یہ بھی کہا گیا کہ تاریخی شخصیات اور مجاہدین آزادی کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے اسی لیے این سی ای آر ٹی کی تاریخی کتابوں میں تبدیلیاں کی جائیں جبکہ انڈین ہسٹری کانگریس نے پہلے ہی ان سفارشات کی مخالفت کر دی ہے۔
ایک اور خبر یو ٹیوب اور سوشل میڈیا پر سننے اور دیکھنے میں آئی جسے سن کر روح تار تار ہو گئی اور ملک کا تاریک مستقبل نظروں کے سامنے رونما ہو گیا کچھ فرقہ پرست افراد جو اپنے آپ کو دھرم گرو کہتے ہیں انہوں نے ہری دوار میں تین دن کا اجلاس کیا اور اس اجلاس میں مسلمانوں کے لیے ایسی زہر میں بجھی ہوئی اور اشتعال انگیز تقریریں اور بیانات سننے میں آے جنہیں رقم کرنے سے ہمارے قلم نے انکار کر دیا ہے ۔ وہ نہ صرف خود نفرت کی آگ میں جھلس رہے ہیں؛ بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی تشددکے لیے اکسا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ملک سے مسلمانوں کا اسی طرح خاتمہ کر دو جس طرح روہنگیا مسلمانوں کا کیا گیا ہے ۔ یقیناً اس طرح کے بیانات ملک کی تباہی اور بربادی کا سگنل ہیں. کیونکہ ملک میں کسی بھی ایک طبقہ کو جس تناور درخت کی جڑیں اس مٹی میں دور تک پھیلی ہوئ ہیں اکھاڑ کر پھینکنا اتنا آسان نہیں ہے ۔یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ مٹھی بھر لوگ پورا ملک ہیں۔ تو یہ ان کی کم فہمی ہے کیونکہ یہ چند فرقہ پرستوں کی سوچ ہے ملک کی اکثریت اس سے متفق نہیں ، زمینی حقیقت یہی ہے کہ یہ صرف سیاست کے جال ہیں جو اقتدار میں بنے رہنے کے لئے ملک کی اکثریت پر پھینکے جا رہے ہیں تاکہ ان کے عقل و فہم پر مزہب کی چادر ڈال کر ان تمام موضوعات سے بھٹکا دیا جائے جن پر آج گفتگو کی سخت ضرورت ہے۔ظاہر ہے جب سیاست کی منڈی بازار میں صرف نفرت تعصب اور فرقہ پرستی فروخت کرے گی تو کون صحت ،تعلیم روزگار اور قومی سلامتی کی بات کرے گا ۔تاریخ شاہد ہے جس ملک اور معاشرے میں ظلم ،تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات عام ہو جاتے ہیں وہاں کی تمام ترقیاتی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر ملک تباہی اور بربادی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے ۔ایسے میں صحیح سوچ رکھنے والے تمام ہندوستانیوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ۔ وہ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کے لیے آگے آئیں اور ان فرقہ پرست طاقتوں کو منھ توڑ جواب دیں اگر اس کام کو وقت رہتے انجام نہیں دیا گیا تو ملک میں اس کے بہت منفی نتائج سامنے آئیں گے۔نفرت کی یہ آگ سارے ملک کو جلا کر بھسم کر دیگی ۔ہم اپنے ملک کے تمام باشندگان سے التماس کرتے ہیں خدایا ہوش کے ناخون لیں اور مزہب اور نفرت کی اس چادر سے باہر نکل کر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کریں اور قوم و ملک کے روشن مستقبل کی طرف اقدامات اٹھائیں۔
راہل گاندھی ہی ہوں گے کانگریس کے آئندہ صدر ، انتخاب کا عمل آئندہ سال ستمبر میں متوقع
نئی دہلی: کانگریس پارٹی میں گزشتہ کئی سالوں سے صدر اتی عہدہ کو لے کر چل رہی قیاس آرائی اب بہت جلد تھم جانے والی ہے۔کانگریس آرگنائزیشن الیکشن اتھارٹی کے صدر مدھوسودن مستری نے اشارے میں کہا ہے کہ راہل گاندھی اگلے سال ستمبر تک کانگریس صدر کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں ۔ سونیا گاندھی سے ملاقات کے بعد مستری نے کہا کہ آنے والے سال کے ماہِ ستمبر تک پارٹی صدر کے انتخاب کا عمل مکمل کر لیا جائے گا۔ کانگریس ذرائع کے مطابق راہل گاندھی صدر کے عہدہ کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ فی الحال سونیا گاندھی پارٹی کے صدر کے عہدے کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔ پارٹی نے اکتوبر میں ہی اعلان کیا تھا کہ صدر کے عہدے کے لیے انتخابات اگست اور ستمبر کے درمیان ہوں گے۔اطلاع کے مطابق اگلے سال ستمبر تک کانگریس پارٹی اپنے نئے صدر کا انتخاب کرے گی۔ پارٹی 2024 کے انتخابات میں نئے چہرے کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنا چاہتی ہے۔ پارٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ راہل گاندھی نے کانگریس کی باگ ڈور سنبھالنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس صدر کے طور پر راہل کی تاجپوشی محض ایک رسم ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق اگر راہل گاندھی صدر کے عہدے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کوئی بھی ان کیخلاف پرچہ نامزدگی داخل نہیں کرے گا۔ ذرائع کے مطابق صدر کے عہدے کے لیے انتخابات کا موقع ملنے کے باوجود راہل گاندھی کا صدر بننا یقینی ہے۔
تیسری لہر کا امکان، کورونا سے حالات تشویشناک ، 24 گھنٹوں میں 9 ہزار نئے کیسز
نئی دہلی :ملک میں ایک بار پھر کورونا وائرس کے نئے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے روزانہ 6 ہزار کے قریب آنے والے نئے کیسز آج 9 ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں 9,195 نئے کیسز درج ہوئے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 302 مریض ہلاک ہوئے ہیں۔ مہاراشٹر اور دہلی میں کورونا کے نئے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔دوسری جانب کورونا کے اومیکرون کے کیسز بھی بڑھ رہے ہیں۔ ملک میں اب تک اومیکرون کے 781 کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جبکہ 241 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔مرکزی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد نئے مریضوں سے کم رہی ہے جس کی وجہ سے ایکٹو کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں 77,002 مریض زیر علاج ہیں۔ جبکہ اس وقت صحت یابی کی شرح 98.40 فیصد ہے۔گزشتہ 24 گھنٹوں میں 7347 مریض صحت یاب ہوئے ہیں جبکہ اب تک کل 34251292 افراد کورونا سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔
نئی دہلی: دہلی میں مسلسل بڑھتے ہوئے مبینہ کرونا وائرس کے انفیکشن کو روکنے کے لیے منگل سے گریڈڈ ریسپانس ایکشن پلان (GRAP) نافذ کیا گیا ہے۔ گریپ کے فیز 1 کے نفاذ کے بعد پولیس اور انتظامیہ نے بھی اپنی سختی تیز کردی ہے۔دہلی پولیس کے ساتھ ضلع انتظامیہ بھی کرونا کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف کارروائی کر رہی ہے اور چالان بھی کاٹ رہی ہے۔ عوامی مقامات پر ماسک نہ لگانے، سماجی فاصلے پر عمل نہ کرنے اور عوامی مقامات پر تھوکنے وغیرہ پر ایک دن میں 4122 چالان جاری کیے گئے ہیں۔دہلی حکومت کی طرف سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق 27 دسمبر کو ایک دن میں 4122 لوگوں کے چالان کاٹے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر چالان یمناپار کے صرف تین اضلاع میں کاٹے گئے ہیں۔ نارتھ ایسٹ، ایسٹ اور شاہدرہ ضلع کی بات کریں تو ان میں کل 1177 چالان جاری کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تین اضلاع میں سے ضلع مشرقی میں 639 چالان جاری کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ شمالی ضلع میں 701، جنوب مغرب میں 501، شمال مغرب میں 355، نئی دہلی میں 346، جنوب مشرق میں 231 اور وسطی میں سب سے کم چالان کاٹے گئے ہیں۔ 4001 چالان صرف ماسک نہ پہننے پر جاری کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ اگر سماجی فاصلے کی خلاف ورزی پر چالان کی بات کی جائے تو کل 87 چالان کیے گئے ہیں۔ جس میں مغربی ضلع میں 54 اور شمالی ضلع میں 33 چالان کیے گئے ہیں۔ عوامی مقامات پر تھوکنے پر 34 چالان بھی جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 22 چالان جنوبی دہلی میں اور 12 شمالی دہلی میں کئے گئے ہیں۔ ان تمام چالانوں سمیت مجموعی طور پر 4122 افراد کے چالان کیے گئے ہیں۔معلومات کے مطابق چالان کاٹ کر 81,51,900 روپے وصول کیے گئے ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ چالان ضلع شمالی میں 14,02,000 روپے کے کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد ضلع مشرقی نے 12 لاکھ 78 ہزار اور تیسرے نمبر پر ضلع جنوبی نے 10 لاکھ 2 ہزار کا چالان کیا۔ سب سے کم چالان ضلع وسطی میں 1 لاکھ 88 ہزار روپے کے کاٹے گئے ہیں ۔
شعبہ اردو،سی سی ایس یو میں ’غالب:فکر و فن کے آئینے میں ‘ کے عنوان سے دوروزہ بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد
میرٹھ:غالبؔ ایک آ فاقی شاعر ہے۔نہ صرف اپنے زمانے کا بلکہ آج کے زمانے کا بھی۔ یقیناً غالبؔ کے فکر و فن کی کائنات بے حد حسین و لافانی ہے۔ جہاں احساس جمال بھی ہے، فلسفیانہ تصورات بھی، شگفتگیئ خیال بھی اور رعنائی فکر بھی، درد کی شدت بھی اور احساس زیاں بھی، سیاسی کرب بھی اور سماجی آگہی بھی اور وہ عصری حسیت جو ان کے فکر و فن کولازوال بنا دیتی ہے۔یہ الفاظ تھے معروف فکشن ناقد اور سابق صدر شعبہ اردو دہلی یو نیورسٹی پرو فیسر ارتضیٰ کریم کے جو شعبہ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور بین الاقوامی نوجوان اردو اسکالرز انجمن(آیوسا) کے زیر اہتمام منعقد دوروزہ بین الاقوامی آن لائن و آف لائن سیمینار ”غالب:فکرو فن کے آئینے میں“ موضوع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے اظہار خیال کے دوران آن لائن ادا کررہے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ غالبؔ پر ریسرچ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں لیکن آج بھی ذہین اور محنتی طلبا سے غالب کے تعلق سے نئے پہلوؤں کو منظر عام پر لایا جاسکتا ہے اور ایسے موضو عات پر ضرور کام کرایاجانا چاہئے جس سے نئے مو ضوعات سامنے آسکیں۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازسعید احمد سہارنپوری نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔اس ادب نما پروگرام کی سر پرستی صدر شعبہئ اردو،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی،میرٹھ پروفیسر اسلم جمشید پوری نے فرمائی اور صدارت کے فرائض آیوسا کے سر پرست محترم عارف نقوی،جرمنی نے فرمائی۔ مقالہ نگاران کے بطور ماریشس سے ڈاکٹر علی محمد آصف،کیرل سے ڈاکٹر کے پی شمس الدین،مہاراشٹرسیے ڈاکٹر سید ساجد قادری، کشمیر سے ڈاکٹر ریاض توحیدی اور گلبرگہ سے محترمہ رمیشا قمر نے آن لائن شرکت کی۔استقبالیہ کلمات سیدہ مریم الٰہی،نظامت اور شکریے کی رسم ڈاکٹر شاداب علیم نے انجام دی۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پرو فیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ غا لب پر ہم نے شعبہئ اردو اور آ یوسا کے مشترکہ اہتمام میں دوروزہ بین الا قوامی سیمینار(آف لائن و آن لائن) کا اہتمام کیا ہے۔غالب نے اپنے خطوط کے ذریعے نہ صرف خط بلکہ اردو زبان کو بھی عام فہم بنانے کا کار نامہ انجام دیا۔ غالب کی شاعری بھی خصوصاً غزلیہ شاعری لا جواب اور بے مثل ہے۔
آیو سا کے سر پرست محترم عارف نقوی نے کہا کہ غالبؔ ایک غیر معمولی انسان اور با شعور شاعر تھے۔ وہ فکرو فلسفہ اور شو خی و ظرافت ہی کے میدان میں اپنی انفرادیت نہیں رکھتے تھے، بلکہ انسان دوستی، وسیع المشربی، روا داری اور سماجی عنا صر کے بیان میں بھی اختصاص کے حامل تھے۔ان کی ذہنی جدت، فکر رسا طبیعت اور غیر معمو لی حساسیت نے انہیں اس میدان میں بھی روا یتوں کو توڑنے اور شعور کے اظہار کے لیے فن کی نئی سمتوں کی طرف مائل کیا تھا۔غالب ایک آ فاقی شاعر ہے۔ان کی شاعری کے تمام پہلو ؤں پر تراجم کی سخت ضرورت ہے اور بہترین ترجمے ان کی معنویت میں مزیداضافے کا سبب بنیں گے اور آج کی دنیا بھی اس آفاقی شاعر سے بہتر طور پر رو شناس ہو سکے گی۔بنگلہ دیش سے پروفیسر غلام ربانی نے بھی اظہار خیال کیا۔
اس مو قع پر ڈاکٹر ارشاد سیانوی، فیضان ظفر، محمد شمشاد،وغیرہ آن لائن موجود رہے۔28 دسمبر بروز منگل2021 افتتاحی اجلاس اور12:30 دوسرا اجلاس آف لائن شعبہ اردو کے پریم چند سیمینار ہال میں منعقد ہو ا۔جس میں ڈاکٹر تقی عابدی(کناڈا) پرو فیسر صغیر افراہیم،علی گڑھ،پروفیسر محمد کاظم، دہلی یونیورسٹی، پروفیسر احمد محفوظ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،ڈاکٹر سر ور ساجد،اے۔ایم یو،علی گڑھ،ڈاکٹر عابد حسین حیدری،سنبھل، پرو فیسر وائی وملا،پروفیسر وکاس شرما نے شرکت کی۔ساتھ ہی ہماری آواز کے غالب نمبر کا اجرا بھی عمل میں آیا۔
استاذ مدرسہ سیدنا بلال ؓ لکھنؤ
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کا شمار بیسوی صدی کی عالمی شخصیات میں ہوتا ہے ، وہ بیک وقت ایک مفکر ،مدبر ،مصلح ، قائد ،زمانہ کے نبض شناس اور عربی و اردو کے مایہ ناز ادیب وخطیب تھے ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی حکمت وبصیرت سے نوازا تھا کہ وقت کے تقاضوں کو وہ نہ صرف اچھی طرح سمجھتے تھےبلکہ انہوں نے وقت وحالات کے تقاضوں اور عین نفسیات کے مطابق ’’الی الاسلام من جدید ‘‘ جیسی فکر کے ساتھ دین وشریعت کو اپنی زبان وقلم سے پیش کرنے کا کام کیا وہ دنیا کے جس گوشہ میں گئے پوری حمیت کے ساتھ انہوں نے پیغامِ حق سنایا ، وہ صرف بر ِ صغیر ہی کے لیے نہیں بل کہ پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک رہنما تھے ۔
اگر چہ آج مولانا کی شخصیت ہمارے درمیان موجود نہیں اور انہیں اس دارِفانی سے گئے ہوئے اکیس سال ہو رہے ہیں لیکن ان کی تحریریں وتقریریں آج بھی ملتِ اسلامیہ کی رہنمائی اورکھیو ن ہا ری کر رہی ہیں۔مولانا نے قرآن وحدیث ، سیرت وسوانح ، تاریخ وفلسفہ ، تعلیم وتہذیب اور صحافت میں متعدد موضوعات پر جدید طرز کی فکری تصانیف ومضامین تحریر کیں جن سے ان کی شخصیت کے اندر تنوع کا ایک حیرت انگیز احساس ہوتا ہے ، مولانا کی قلمی تگ وتاز کا ایک گوشہ علامہ اقبال کی فکر وفن کا مطالعہ بھی ہے ، اقبالیات ایک مستقل موضوع ہے اور اس موضوع کے بہت سے ماہرین پیدا ہوئے لیکن مولانا ان سب سے کہیں بڑے اقبال شناس تھے ، اقبالیات کے ضمن میں ان کا اہم کارنامہـــــ ’’نقوشِ اقبال ‘‘ہے جو اقبالیات کے موضوع پر ایک لازوال حیثیت رکھتا ہے ، نقوشِ اقبال مولانا کی عربی کتاب روائع ِ اقبال کا اردو ترجمہ ہے ،جو اقبالیات کی منتخب اور معیاری کتابوں میں سے ایک ہے ،مولانا نے فکر اقبال کی روح کو اس کتاب کے اندر جس طریقے سے پیش کیا ہےاسے چوٹی کے ادیبوں ونقادوں نے دادو تحسین پیش کی ہے ، پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ:
’’ مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی ؒپہلے عالم ہیں جنہوں نے موجودہ صدی کی اردو شاعری کے سب سے بڑے نمائندہ اور عظیم شاعر علامہ اقبالؒ کی شاعری اور شخصیت کا مطالعہ غیر معمو لی شوق وبصیرت سے کیا ہے ۔مولانا کا ذہن جدید ذہن کے تقاضوں سے آشنا ہے ۔۔ اور وہ ان کے کلام میں درک وبصیرت رکھتے ہیں ‘‘ اسی طرح معروف شاعر وادیب ماہر القادری جو کہ ادبی نقد وانقاد میں کسی کے ساتھ رو رعایت نہیں کرتے انہوں نے ’’نقوشِ اقبال ‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’فاضل مصنف نے جس نزاکت اور دیدہ وری کے ساتھ اقبال کے اشعار کی تشریح وترجمانی کی ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کتاب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے کہ شبلی کا قلم ،غزالی کی فکر ، ابن تیمیہ کا جوش واخلاص اس تصنیف میں کار فرما ہے ، اقبال پر بڑی اچھی کتابیں آئیں مگر یہ کتاب اس مجاہد عالم کی لکھی ہوئی ہے جو اقبال کے مردِ مومن کا مصداق ہے ۔۔۔ ذخیرۂ اقبالیات میں معیاری کتابیں بہت کم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر اہل قلم نے جو کچھ لکھا ہے وہ محض روایت نبھانے کے لئے لکھا ہے ، اس کے بر عکس مولانا علی میاںؒ نے جو کچھ لکھا ہے وہ ایک خاص عقیدے کے ساتھ ایمانی وابستگی اور اقبال کے ساتھ ایک فکری و معنوی ،قلبی و ذہنی ہم آہنگی کی بنیاد پر لکھا ہے،، چنانچہ نقو ش ِاقبال کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کی فکر وروح اس طرح گھل مل گئی ہے جیسے پھول میں خوشبو اور ستاروں میں روشنی ‘‘۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کا اقبال کی فکر وفن سے بڑا گہرا تعلق ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اقبالؒ نے ملتِ اسلامیہ کو جو پیغام اپنے اشعار میںدیا ہے مولانانے وہی پیغام نثری پیرایہ میں دیا ہےیا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مولانا کی تحریریں علامہ اقبال ؒکے اشعار کی تفسیر ہیں۔
مولانانے شروع ہی سے اقبال ؒکو اپنا موضوع بنایا تھا جس کی طرف مولانانے خود اشارہ کیا ہے کہ’’ بچپن میں میں نے علامہ اقبال ؒکو پسند کیا اور سنِ تمیز کو پہونچ کر ان کو اپنا موضوع بنایا ‘‘ اسی طرح مولانا اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’میری پسند اور توجہ کا مرکز علامہ اقبالؒ اس لئے ہیں کہ وہ بلند نظری ، محبت اور ایمان کے شاعر ہیں ، ایک عقیدہ ، دعوت اور پیغام رکھتے ہیں اور مغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑے ناقد اور باغی ہیں ، وہ اسلام کی عظمتِ رفتہ اور مسلمانوں کے اقبال ِگذشتہ کے لئے سب سے زیادہ فکر مند ہیں ،تنگ نظری ،قومیت ووطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت و اسلامیت کے عظیم داعی ہیں ، مولانا کو ہمیشہ یہ بات کھٹکتی تھی کہ رویندر ناتھ ٹیگور اقبال کے مقابلے میں عرب ممالک میں زیادہ مشہور اور روشناس ہیں ، ممالکِ عربیہ کے ادباء ٹیگور کے گرویدہ ہیں ، مولانا عربی مجلات میں ٹیگور پر جب بھی کبھی تعریفی مقالات دیکھتے تو ان کےاندر ایک عزم پیدا ہو جاتا کہ اقبال کاتعارف بلادِ عربیہ میں کرایا جائے ، چنانچہ علامہ اقبال ؒکی وفات کے بعد یہ عزم اور پختہ ہو گیااور مولانا نے روائع اقبال اور اپنی دیگر تحریروں اور عربوں کے درمیان ہونے والے اپنے خطابات میںعربوں کو اقبال سے روشناس کرانے کا فرض ادا کیا اور خوب ادا کیا ، عربوں میں اقبال شناسی کے فروغ میں عبد الوہاب عزام کے بعد مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کا حصہ سب سے اہم ہے بقول ِ رشید احمد صدیقی:
’’ کیامبارک اتفاق ہے کہ عربی زبان میں عرب قوم کو اقبال کے پیغام سے آشنا کرانے کا امتیاز سید صاحب ( مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی )کے حصے میں آیا ‘‘ اقبال کی شاعری اور فکر سے اسی وابستگی کا نتیجہ ہے کہ موضوع کچھ بھی ہو اقبال کے اشعار مولانا کے محسوسات وجذبات کا روپ دھار کر ان کی دلی ترجمانی کا ذریعہ بنتے ، جب وہ ہسپانیہ جاتے اور وہاں سے دل پر چوٹ لے کر آتے تو بے ساختہ ان کادل اس مصرعہ کی طرف منتقل ہو جاتا’’صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں ‘‘ مسلمانوں کے عروج وزوال پر بحث کے ضمن میں امت مسلمہ کو وہ امید کی کرن قرار دیتے اور اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘کے بعض اشعار ان کے احساسات کے ترجمان بنتے ، کبھی وہ عالم اسلام کے حالات پر اقبالؒ کے الفاظ میں اس طرح شکوہ سنج ہوتے :
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب وگل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
اقبال ؒکی فکر سے ہم آہنگی کی وجہ سے اکثر اوقات اقبال کے اشعار کے مصرعے یا ٹکڑے مولانا کی تقاریر ومضامین کے عنوان یا ذیلی عنوان بنتے ، جیسے ’’پاجا سراغِ زندگی‘‘، ’’کسی جمشید کا ساغر نہیں میں‘‘،’’حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری ‘‘،’’محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے‘‘ ،’’خدا کی بستی دکاں نہیں ہے ‘‘ وغیرہ درحقیقت مولانا کی جملہ تصانیف میں علامہ اقبال ؒکی فکر اور پیغام کار فرما ہے ، حقیقت یہ ہے کہ علماء میںسے کسی نے بھی علامہ اقبالؒ سے اس قدر اعتناء نہیں کیا جتنا کہ مولانا ندویؒ نے کیا اور نہ ہی ان کی شاعری کو موضوع بنایا اور نہ ہی ان کی شاعری سے اس قدر استشہاد کیا جتنا کہ مولانا ندوی ؒنے کیا ۔
اردو اکادمی، دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد کی ٹی جی ٹی اردو امتحان میں شامل امیدوار وں سے ملاقات
نئی دہلی:اردو اکادمی، دہلی کے وائس چیئرمین حاجی تاج محمد نے ٹی جی اردو امتحان دینے والے امیدواروں کے وفد سے ملاقات کی ۔ وفد نے انھیں مطلع کیا کہ917 ٹی جی ٹی اردو اسامیوں کے لیے منعقدہ اس امتحان میںکل 1522 امیدواروں نے شرکت کی تھی جن میں سے صرف 177 امیدوار ہی کامیاب قرار دیے گئے ہیںکامیاب امیدواروں میں120 مرد اور 57 خواتین جب کہ مرد زمرے میں 346 اور خواتین کے زمرے میں 571 اسامیاں ہیں۔
دورانِ ملاقات امیدواروں نے امتحانات کے نمبرات اور کٹ آف پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا اور وائس چیئرمین سے مداخلت کی گزارش کرتے ہوئے دہلی کے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیراعلیٰ سے ملاقات کرکے صورتِ حال سے آگاہ کرنے اور باقی ماندہ نشستوں پرسوالنامے کے حصہ اے اور حصہ بی میںلازمی پاس کرنے کی شرط میں ایک مرتبہ چھوٹ دینے کی گزارش کی جیساکہ دیگر مضامین کے امیدواروں یعنی Miscellaneous Teacheres کی طرح دونوں حصوں کی مکمل ہی ایک میرٹ بنائی جائے، جس سے اسکول کو زیادہ سے زیادہ اساتذہ میسر ہوسکیں اور امیدواروں کی بھی حوصلہ افزائی ہو ساتھ ہی ساتھ طلبا کو اپنی مادری زبان میں پڑھنے کی سہولت مل سکے۔
وائس چیئرمین اکادمی حاجی تاج محمد نے وفد کو بھروسہ دلاتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی طور پر وزیراعلیٰ، دہلی اور نائب وزیراعلیٰ، دہلی سے ملاقات کرکے صورتِ حال سے آگاہ کروں گا اورکوشش ہوگی کہ آپ کے ساتھ اور زبان کے ساتھ مکمل انصاف کیا جائے۔
وفد میں شمس الدین، محمد جاوید انصاری، صابر حسین، محمد اظہر، محمد ہمدان، محمد عارف، شگفتہ خاتون، نسیم، شادماں، سمیہ اور آصف وغیرہ شامل تھے۔
مرزا غالب کے 224ویں یوم ولادت پر غالب انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے یوم غالب کاانعقاد کیاگیا۔ اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد، غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے پورے عملے نے مزار غالب پر حاضر ہوکر گل پوشی اور فاتحہ خوانی کی۔ دوپہر تین بجے غالب انسٹی ٹیوٹ میں تقریب اسناد کااہتمام کیاگیا۔اس موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ میں جاری چھ ماہی اردو،فارسی اور موسیقی لرننگ کورس میں کامیابی حاصل کرنے والے طلباکو سند پیش کی گئیں اور اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والے طلباکو سنداور مومنٹو پیش کیا گیا۔ جلسے کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے فرمائی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہاکہ کووڈ کا زمانہ چیلنجزسے بھراہواتھااور یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہواہے لیکن ہمیں خوشی ہے کہ اس ادارے نے جس حد تک ممکن تھااپنے کاموں کو آگے بڑھایا۔ بیچ میں ایسا لگتاتھاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ بالکل خاموش ہے لیکن اس زمانے میں ہم نے جوکام کیے وہ اب دھیرے دھیرے سامنے آرہے ہیں اور آئندہ دنوں میں اور بھی سامنے آئیں گے۔ امتحان میں کامیاب ہونے والے طلبا کو مبارکباد پیش کرتاہوں اور امیدکرتاہوں کہ آئندہ بھی وہ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھیں گے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمدنے کہاکہ آج کا دن ہمارے لیے یوں بھی یادگار ہے کہ آج اردو کے عظیم شاعر کایوم ولادت ہے۔ لیکن ہم اس دن کو رسمی طوپر نہیں منانا چاہتے بلکہ یہ کوشش رہتی ہے کہ کچھ ایسی کارکردگی ہوجس میں تعمیرکا پہلو ہومجھے خوشی ہے کہ چھ ماہ قبل ہم نے اردو، فارسی اور موسیقی کلاسز کی شروعات کی تھی اس میں امید سے زیادہ کامیابی ملی بیرون ملک سے بھی کئی طلبانے رجسٹریشن کرایااور امتحان میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر میں اردو فارسی کلاس کے استاد جناب طاہرالحسن صاحب اور موسیقی کے استاد جناب عبدالرحمن صاحب کا شکر گزار ہوں جن کی کوششوں سے یہ کورس کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔اس جلسے کے مہمان خصوصی اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اخترالواسع نے کہاکہ غالب کی صورت میں ہمیں ایسا شاعر ملاجس کی وجہ سے ہم عالمی ادب کے سامنے سرخ رو ہیں۔ مجھے آج اس لیے دہری خوشی ہورہی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے وباکے دنوں کو ضائع نہیں کیا بلکہ اسے ایک مثبت سمت میں استعمال کیا۔ میں طلباکویہ ہدایت کرنا چاہتاہوں کہ آپ نے چھ مہینے میں جوسیکھاہے اس کو برابر جاری رکھیے گاانشاء اللہ آپ اس زبان کو بھی جلدی سیکھ جائیں گے۔ میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ شعبہ اردودہلی یونیورسٹی کی صدراور اس تقریب کی مہمان ذی وقار پروفیسر نجمہ رحمانی نے کہاکہ غالب نے کہا تھاکہ ’’میں چمن میں کیاگیاگویا دبستان کھل گیا‘‘میں دیکھ رہی ہوں کہ غالب کی وجہ سے واقعی ایک دبستان کھل گیاہے اور طلبا اردو،فارسی اور موسیقی کے سبق پڑھ رہے ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں غالب کی روح کو خراج عقیدت ہے۔ میری خواہش ہے کہ مستقبل میں بھی ایسی کوششیں ہوتی رہیں۔میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران خصوصاً ڈاکٹر ادریس احمدصاحب کو مبارکباد دینا چاہتی ہوںجن کی کوششوں سے یہ کورس کامیابی کے ساتھ مکمل ہواساتھ ہی کامیاب ہونے والے طلبا کومبارکباد اورمستقبل کے لیے نیک خواہشات کہ کامیابی ان کا مقدر ہو۔دہلی اردو اکادمی کے سکریٹری جناب محمداحسن عابد نے کہاغالب انسٹی ٹیوٹ ایک علمی اور ثقافتی ادارہ ہے اس ادارے نے تحقیق، تنقید اور ثقافتی حلقے میںاپنی نمایاں شناخت قائم کی ہے۔ لیکن بنیادی تعلیم کے بغیر بڑے پیمانے پر کام کرنا ناممکن ہے مجھے خوشی ہے کہ اس ادارے نے بنیادی تعلیم کابھی معقول انتظام کیا ہے میں سبھی طلباکو مبارکباد پیش کرتاہوں اور امید کرتاہوں کہ غالب انسٹی ٹیوٹ مستقبل میں بھی ایسے منصوبوں پر عمل کرتارہے گا۔اس موقع پر اردو فارسی اورموسیقی کلاس کے استاد جناب طاہر الحسن صاحب اور عبدالرحمن صاحب اور تینوں کورسزکے کوآرڈیینیٹر جناب عبدالتوفیق، جناب مشتاق احمداور ڈاکٹر محضر رضاکومومنٹو پیش کیاگیا۔ اس تقریب کے بعد شام غزل کااہتمام کیاگیاجس میں محترمہ مدھومیتابوس نے اپنے مخصوص انداز میں غالب اور اردو کے مستند شعرا کاکلام پیش کیاجسے سامعین نے بہت پسند کیا۔
بڑا ذہن زمانے میں قید نہیں ہوتا۔وہ زمانی مکانی حدود کو توڑ تے ہوئے ایسے مقام پر پہنچ جاتاہے ،جسے مشخص کرنے کے لیے ایک نئی کائنات تخلیق کرنی پڑتی ہے۔ایسا ذہن رسم و رہ عام سے کوئی رشتہ نہیں رکھتا۔اس کے اپنے افکار واقدار ہوتے ہیں، مرزا اسد اللہ خاں غالب عندلیب گلشن ناآفریدہ تھے کہ انہیں اپنے زمانے کے احساس واظہار میں ایک طرح کی اجنبیت اور مغائرت محسوس ہوتی تھی، مگر ہر بڑے ذہن کے ساتھ کچھ ایسی مشکلات ، مسائل ، مصائب اور حوادث جڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ذہن کی خارجی اور داخلی پرواز تھم سی جاتی ہے۔غالب کے تخیل کی پرواز تو نہیں رکی اور وہ دشت امکان کو نقش پا سمجھتے رہے مگرغموں کے ساتھ غالب کی زندگی کا کچھ ایسا رشتہ جڑ گیا کہ وہ قید غم سے آخری سانس تک نجات حاصل نہ کرسکے :
قیدحیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
غالب کی جان سے بہت سے ایسے غم جڑ گئے تھے کہ انھیں اس طرح کے شعر کہنے پر مجبور ہونا پڑا:
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اورہے
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں رلائے کیوں
اور یہ غم فطری تھا کہ غالب دراصل بہت سی اذیتوں اور آزار سے گزررہے تھے ۔7سال کی عمر میں والدین کا انتقال ،13سال کی عمر میں شادی ،پھر کفالت کرنے والے چچا نصراللہ بیگ کا ارتحال اور اس کے بعد ایک اور ایسا مرحلہ آیا جس نے غالب کے پورے وجود کو ہی چکنا چور کردیا۔ جس کی وجہ سے غالب اپنی شکست کی آواز بن کر رہ گئے ۔غالب کی اصل ذہنی پریشانی کا آغاز اس ’’خفیہ شقہ‘‘ کی وجہ سے ہواجو نواب احمد بخش نے لارڈلیک سے حاصل کیاتھا جس کے نتیجے میں غالب کی سالانہ پنشن صرف ساڑھے 700روپے تک محدود ہوگئی تھی۔غالب کے تمام ذہنی اور معاشی مشکلوں کی جڑ یہی پنشن تھی جس کی واگزاری کے لیے وہ کلکتہ تک گئے، مقدمے لڑے ،مگر غالب کو کامیابی نہیں ملی۔یہی معاشی پریشانی غالب کی زندگی کے لیے عذاب بن گئی اور غدر نے غالب کے ذہنی سکون کو اور بھی غارت کردیا۔غالب کو احساس تھا کہ 1857کی مسلح مزاحمت سے معاشرت پر منفی اثرات پڑیں گے ۔انہوں نے اس مزاحمت کے منفی رخ کو محسوس کرلیاتھا اسی لیے انہوں نے حریت پسند سپاہیوں کو شہدے ، کمینے ، نمک حرام تک کہنے سے بھی گریز نہیں کیااور انگریزوں کو آزاداں ، نیک نہاداں ،شیر مرداں تک کہا۔ غالب کے آئینہ ادراک میں یہ بات روشن ہوگئی تھی کہ یہ مزاحمت مسلمانوں پر قیامت بن کر ٹوٹے گی۔معاشرتی آداب واطوار اور جینے کے سلیقے کو متاثرکرے گی۔چنانچہ وہی ہوا جو غالب نے سوچا تھا۔ پوری قوم معاشی تنگدستی کی شکار ہوگئی، اغنیااور امرا کے ازواج واولاد بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے،مزاحمت نے پورے معاشی نظام کو متاثر کیا ،تنگدستی اور مفلسی بڑے بڑے دروازوں پر دستک دینے لگی، حالات ایسے ہوگئے کہ روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لالے پڑگئے۔1857کی مزاحمت سے غالب کی زندگی بھی متاثر ہوئی ،انہوں نے عیش ونشاط کے جو خواب دیکھے تھے وہ سب چکنا چور ہوگئے۔ان کی آرزوئیں اور تمنائیں ملیا میٹ ہوگئیں:
دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنائیں اسد
جانتے ہیں سینہ پر خوں کو زنداںخانہ ہم
غالب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معاش کا تھا ۔ غدر نے معاش کی ساری راہیں مسدود کردی تھیں۔اسی لیے غالب اس مزاحمت اور بغاوت سے نہ صرف دور رہے بلکہ مزاحمت کرنے والوں کی شدید مخالفت بھی کی ۔
غالب غم روزگار کی حقیقت سے آشنا تھے، انہیں احساس تھا کہ معاشی تنگدستی انسان کو مجبور اور مصلحت پسند بنادیتی ہے ، انسان کی اڑان اور حوصلوں کو توڑ دیتی ہے اور اسے بے حیثیت بنادیتی ہے۔مفلسی صرف آدمی کا اعتبار نہیں کھوتی بلکہ بہاریں بھی چھین لیتی ہے۔اسی لیے غالب نے ایک عام آدمی کی طرح مادی اور معاشی کرب کو محسوس کیا اور اپنی شاعری میں غم روزگار کو اپنے خیال کا پیرہن عطا کیا:
جاتی نہیں خلش الم روزگار کی
اے آسماں ہواوہ تیرا انقلاب کیا
نذر درد دل غم دنیاکیا
اک مٹایا داغ اک پیدا کیا
اسیر بند دل ہوکر غم دنیا سے فارغ ہوں
میری آزادیوں کا راز ہے مہجور ہوجانا
پیداہوئے ہیں ہم اس الم آباد جہاں میں
فرسودن پائے ہوس ودست طلب کو
غالب مادیت پرست تھے کہ مادیت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ معاش اور معیشت سے ہی پورا نظام قائم ہے مادیت سے رشتہ توڑ کر زندہ رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔اسی لیے غالب نے انسان کی اس بنیادی ضرورت پر زور ڈالا اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس طرح کے شعر کہے :
ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسد
ہم نے یہ مانا کہ دہلی میں رہیں کھائیں گے کیا
مزہ جہاں کا اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خون جگر سوجگر میں خاک نہیں
معاشی مجبوری انسان کے نہ صرف ذہنی نظام کو بدل دیتی ہے بلکہ حساس وجود کو لخت لخت کردیتی ہے۔ غالب کی شاعری میں جو تضادات اور تناقضات ہیں اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ غالب ہمیشہ معاشی تنگدستی کے شکار رہے۔ ان کی پوری زندگی کرایہ کے کمرے میں گزری،انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے ’’اس ناداری کے زمانے میں جس قدر کپڑا اوڑھنا بچھونا گھر میں تھا بیچ کر کھاگیا،گویا اور لوگ روٹی کھاتے تھے اور میں کپڑا کھاتاتھا۔‘‘
بڑے فنکاروں کی زندگی میں درد کے پیوندلگتے ہی رہتے ہیں۔غالب کی زندگی بھی اسی درد سے گزررہی تھی۔اس لیے غالب نے خطوط میں اپنے اس درد کا بغیر کسی تکلف کے اظہار کیا ۔ایک خط میں لکھتے ہیں :
ایک پیسے کی آمدنہیں بیس آدمی روٹی کھانے والے موجود
مقام معلوم سے کچھ آئے جاتاہے جوبقدر سد رمق ہے
ایک اور خط میں اسی طرح اپنی معاشی تنگدستی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’پندرہ دن پہلے تک دن کو روٹی ،رات کو شراب ملتی تھی، اب صرف روٹی ملے جاتی ہے شراب نہیں۔‘‘ایک اور خط میں لکھا ہے کہ ’’روٹی کھانے کو نہیں ، شراب پینے کو نہیں ، جاڑے آتے ہیں لحاف توشک کی فکر ہے ۔‘‘
غالب کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ خواص کے شاعر تھے ،عوام سے ان کا رشتہ نہیں تھا ، مگر ایسا سوچنا غلط ہے کیونکہ غالب اپنی زندگی میں عام آدمیوں جیسے تجربوں سے گزرے تھے اور ان تجربوں کو انہوں نے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعہ شیئر کیا ۔ایک جگہ لکھاہے کہ ’’وہ عزت وربط وضبط جو ہم رئیس زادوں کا تھا اب کہاں ،روٹی کا ٹکڑا ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔‘‘
عام آدمی کی طرح غالب کے لیے بھی معاش کا مسئلہ ا ن کی زندگی میں بڑی اہمیت کاحامل تھا۔ اسی لیے جب غالب داخل حوالات ہوئے تو ایک شعر کہا:
شادم از بند کہ از بند معاش آزادم
از کف شحنہ رسد جامہ ونانم دربند
(قید سے خوش ہوں کہ قید معاش سے بری کردیا
اب مجھے روٹی ،کپڑا داروغۂ جیل پہنچاتاہے)
غالب نے اسی معاشی تنگدستی کی وجہ سے اپنے ممدوح بھی بدلے اور ممدوح سے معاوضہ طلبی میں بھی کسی تکلف سے کام نہیں لیا۔چنانچہ انہوں نے ایک قصیدے میں حسن طلب کااظہار کرہی دیا اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی قبیح عمل نہیں کہ انسان اپنے ہنر کا صلہ طلب کرے۔ذہنی ،توانائی جب خرچ ہو تو اس کے لیے اس طرح کے مطالبے کو خوشامد کہنا صحیح نہیں ہے۔ خاص طور پر غالب جیسے حالات سے دوچار لوگوں کے لیے یہ خوشامد نہیں حاجت ہے۔ غالب نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا :
’’زندہ ہوں مگر زندگی وبال ہے ،یہاں جان کے لالے پڑے ہیں‘‘۔ اسی طرح ایک اور خط میں لکھا ہے ’’جیوں تو کوئی غم خوار نہیں ،مروں توکوئی عزادار نہیں۔‘‘
اسی تناظر میںغالب کے یہ اشعار دیکھئے جو بادشاہ کے حضور میں ماہ تنخواہ کے تعلق سے کہے ہیں:
نہ کہوں آپ سے تو کس سے کہوں
مدعائے ضروری الاظہار
پیر و مرشد اگر چہ مجھ کو نہیں
ذوق آر ایش سرو، دستار
کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر
تانہ دے باد زمہر یر آزار
کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں ہے اگر چہ نزار
کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار
رات کو آگ اور دن کو دھوپ
بھاڑمیں جائیں ایسے لیل ونہار
آگ تاپے کہاں تلک انساں
دھوپ کھائے کہاں تلک جاندار
دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
ربنا وقنا عذاب النار
میری تنخواہ جو مقرر ہے
اس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار
بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض
اور رہتی ہے سود کی تکرار
میری تنخواہ میں تہائی کا
ہوگیا ہے شریک ساہوکار
آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
آپ کا نوکر اور کھائوں ادھار
میری تنخواہ کیجئے ماہ بہ ماہ
تانہ ہو مجھ کو زندگی دشوار
غالب کے ساتھ معاشی دشواریاں یوں بھی لاحق تھیں کہ وہ خاصے فراخ دل تھے ، کہتے ہیں کہ کوئی فقیر مرزا کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جاتاتھا، وہ اپنے عزا واقربا کا خاص خیال رکھتے تھے۔معاشی مجبوری کے باوجود نوکروں کو ملازمت سے برخاست نہیں کیا۔
غالب کی نجی زندگی سب کے لیے سبق آموزہے ۔غالب نے بڑی اچھی بات کہی تھی :
غم عشق اگر نہ ہوتا،غم روزگار ہوتا
اسی غم روزگار نے غالب کی شاعری کو ہمارے عہد کے احساس سے جوڑ دیاہے، کیونکہ عالم کاری، لامرکزیت کے اس عہد میں بہت کچھ تبدیلیوں کے باوجود انسان کے بنیادی مسائل وہی ہیں۔نیوکلیائی ٹیکنالوجی ، حیاتی ، مائیکروٹیکنالوجی سے بھی نہ تو انسان کی بنیادی تقدیر بدلی ہے اور نہ ہی بنیادی سروکار۔وسائل کے بڑھنے سے مسائل کم نہیں ہوتے۔21ویں صدی کے انسان کی زندگی سے وہی مسائل جڑے ہوئے ہیں، جو 18ویں ،19ویں اور 20ویں صدی کے انسانوں کے تھے۔غالب کے شعر وں میں آج کی صدی کا انسان بھی اپنے جذبے اور احساس کا چہرہ دیکھ سکتاہے۔غالب کی شاعری وہ کہانی ہے جسے ہم معاشرے کے شب وروز میں دیکھتے سنتے آئے ہیں۔ فکری سطح پر غالب کا رشتہ اشرافیہ طبقے سے ہے ، مگر معاشی سطح پر غالب کی حیثیت ہمارے آج کے عہد کے عام آدمی کی سی تھی۔وہی آدمی جو آج بھی حاشیے پر کھڑا ہے اور بہ زبان غالب کہہ رہاہے:
تیرا اقبال ترحم مرے جینے کی نوید
تیراانداز تغافل مرے مرنے کی دلیل
نیک ہوتی میری حالت تو نہ دیتا تکلیف
جمع ہوتی مری خاطر تو نہ کرتا تعجیل
قبلہ کونِ مکاں خستہ نوازی میں یہ دیر
کعبہ امن و اماں عقدہ کشائی میں یہ ڈھیل
غالب خاک نشیں کو خود بھی احساس تھا:
اور میں وہ ہوں کہ گر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا خود مجھے نفرت میری اوقات سے ہے
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیاہے
غالب وظیفہ خوار ہو دوشاہ کو دعا
وہ دن گئے کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
تمام اذیتوں اور معاشی مجبوریوں کے باوجود غالب انا پرست تھے اور ان کے اندر مسلمات پر کاری ضرب کی جرأت بھی تھی۔غالب جیسا شاعر ہی اس طرح کے جرأت مندانہ شعر کہہ سکتاتھا:
بندگی میں وہ آزاد وہ خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
طاعت میں تار ہے نہ مئے وانگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
غالب ایک بڑے تخلیقی ذہن کا نام تھا جس نے جبر اور ادعائیت کے خلاف آواز بھی بلند کی، ان کی شاعری میں زندگی کے بہت سارے رنگ ہیں جن میں ایک رنگ وہ بھی ہے جنہیں عام طور پر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں اور وہ ہے عوامی دردوکرب کا رنگ جسے غالب نے اپنی شخصی زندگی کے تجربوں کے حوالے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔اس طرح غالب نے خواص کے ساتھ عوام سے بھی خاصی گفتگو کی ہے۔ضرورت ہے کہ غالب کے اس پہلو پر بھی غور کیا جائے اور ان کی مجتہدانہ فکر کے ساتھ ساتھ ان کے شعروں میں عوامی جذبہ واحساس کی جستجو کی جائے ۔پروفیسر گوپی چند نارنگ نے غالب پر لکھتے ہوئے بہت ہی اہم بات لکھی ہے کہ ’’غالب کی جدلیاتی فکر 21ویں صدی کے مابعد جدید مزاج سے خاص مناسبت رکھتی ہے۔‘‘
نئی دہلی :دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے منگل کو اعلان کیا کہ شہر میں کورونا کے بڑھتے ہوئے معاملات کو دیکھتے ہوئے کورونا پابندیوں کو مزید سخت کیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ کیجریوال نے کہاکہ جولائی میں ہم نے GRAP بنایا تھا، تاکہ سائنٹیفک طریقے سے پابندیاں لگائی جا سکیں۔ دہلی میں GRAP کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یلوالرٹ نافذہوگا۔ پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دو دن سے زائد عرصے سے 0.5 فیصد کورونا پازیٹیوٹی ریٹ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ ہم گریڈڈ رسپانس ایکشن پلان کے لیول-I (یلو الرٹ) کو نافذ کر رہے ہیں۔ نافذپابندیوں کے بارے میں تفصیلی حکم نامہ جلد جاری کیا جائے گا۔نیز وزیر اعلیٰ کیجریوال نے کہا کہ کورونا سے ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، زیادہ تر معاملے ہلکے علامات کے ہوتے ہیں۔ اومیکرون کے مریضوں کو جو کہ کورونا کی نئی قسم ہے، ان کو آئی سی یو یا وینٹی لیٹرز یا آکسیجن بیڈز کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے فکر نہ کریں۔ اس بار ہم کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے 10 گنا زیادہ تیار ہیں۔ بازار اور مال میں بھیڑ کی تصویریں ہیں کہ لوگ ماسک نہیں پہنے ہوئے ہیں۔ اب ایسی تصویریں نہیں آنی چاہئیں کہ بازار بھرا ہوا ہو اور لوگ ماسک نہ پہنے ہوئے ہوں ورنہ بازار بند کرنا پڑے گا اور مالی مسائل پیدا ہوں گے۔’یلو‘ الرٹ اس وقت جاری کیا جاتا ہے جب کووڈ انفیکشن کی شرح مسلسل دو دنوں تک 0.5 فیصد سے زیادہ رہتی ہے۔ اس میں رات کا کرفیو نافذ کرنا، اسکولوں اور کالجوں پر پابندی ، غیر ضروری اشیاء کی دکانوں کو طاق اور جفت کی بنیاد پر کھولنا اور میٹرو ٹرینوں اور پبلک ٹرانسپورٹ بسوں میں مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش کو نصف کرنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔