میڈیا کی سحر انگیزی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت جب وہ کسی بیانیہ کو چلاتا ہے تو نہ صرف بھکت بلکہ قارئین و ناظرین کی ایک بڑی تعداد بھی دانستہ یا غیر دانستہ اس کی ترویج میں لگ جاتی ہے۔ خواندہ نا خواندہ ہر شخص اپنی بات چیت اور بحث کے دوران اسے ایک معتبر روایت کی طرح پیش کرتے ہیں۔
جمہوری اقدار کے انحطاط کے اس گئے گزرے دور میں مرکز میں اگر اپوزیشن کا کسی بھی درجے میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے تو وہ ہیں راہل گاندھی۔ ان کے ایشوز خواہ رافائل جیسے چنیدہ سلیکٹیو ہوں مگر معلومات سے بھرپور مدلل اور جارحانہ انداز میں انہوں نے ہی موجودہ حکومت کو گھیرا ہے۔ ظاہر ہے اکثریت کے زعم میں برسراقتدار پارٹی کو کسی جانب سے ادنیٰ مخالفت برداشت نہیں اس لئے اس سے وابستہ افراد اور متعدد اقسام کے ذرائع ابلاغ نے راہل گاندھی کی شبیہ خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اتنے گر گئے کہ نہ صرف ان کی اور ان کی والدہ مسز سونیا گاندھی کی ذاتیات پر حملے کۓ بلکہ ان کے گزرے باپ راجیو گاندھی دادی مسز اندرا گاندھی اور پردادا ماڈرن ہندوستان کے معمار نہرو جی کو بھی نہیں بخشا۔
یہ مخصوص جماعت اور عناصر اپنے مقاصد کی برآوری کے لئے اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں لیکن ہم اس بیانیہ کی ترویج و اشاعت میں معاون کیوں بنتے ہیں ؟ سیاسی راۓ رکھنے اور نظریاتی اختلاف کرنے کا حق ہر ایک شہری کو ہے لیکن ہم گمراہ کن باتوں کو پھیلانے کو اختلاف رائے کا درجہ نہیں دے سکتے۔ واٹس ایپ یونیورسٹی کی پھیلائی گئی یہ بات کہ ہند پاک جنگ کے دوران مسلم ریجمنٹ نے پاکستان کے خلاف لڑنے سے منع کر دیا تھا ۔۔۔ مسلم ریجمنٹ کا الگ سے کوئی وجود ہی نہیں تو منع کرنے کی بات کہاں سے آگئی؟ یہ بات اتنی ہی جھوٹ ہے جتنا یہ کہ سنجے گاندھی اور راجیو گاندھی فیروز خان کے بیٹے تھے کہ یعنی راہل کے دادا مسلمان تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فیروز گاندھی ایک پارسی تھے جس سے اندرا گاندھی نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ #فیروز نہ مسلمان تھا اور #گاندھی نہ مہاتما گاندھی کی نسل کی طرف نسبت تھی۔ جواہر لعل نہرو ، جو کہ ایک کشمیری پنڈت تھے، کو بھی ان کے زمانے میں نیم مسلمان کہ کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
پچھلے دنوں راہل گاندھی نے آن کیمرہ مندروں کی زیارت کی جنیو پہنا اور ٹیکہ لگایا کلائی پر دھاگے باندھے اس سے ان لوگوں کو جو ہندو مذہب پر مونوپولی رکھتے ہیں تکلیف سمجھ میں آتی ہے لیکن ہمیں کیوں اعتراض ہے یا ہم کیوں ان باتوں کو موضوع بناکر راہل گاندھی کا تمسخر اڑاتے ہیں؟
ہم سیکولرازم کو مانتے ہیں اور سیکولرازم کا تقاضا ہےکہ ہر شخص کو اس کی اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے اور مذہبی شعائر اپنانے کی آزادی ہو۔۔۔ دوسروں کے مذاہب اور مذہبی شعائر کا احترام کے ساتھ۔۔۔۔۔ اس لئے ہمیں ہندو مذہب کے ماننے والوں کے مندر جانے، تلک لگانے، جنیو پہننے ہنومان چلیسہ پڑھنے اور سننے اور ہون کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اس لئے کہ یہ فرد کی آزادی کے حصے ہیں ۔ ہاں حکومت کی سطح پر سرکاری دفاتر میں سرکاری طور پر کسی مذہب کے شعائر ادا کرنا آویزاں کرنا دستور کے منافی ہے۔ اگر رام جی کے معتقدین ذاتی طور پر جے سری رام کا نعرہ لگاتے ہیں ہنومان جی کے معتقدین جے ہنومان کا نعرہ لگاتے ہیں تو ہمیں اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ کیجریوال ذاتی طور پر ہنومان مندر گۓ بعض مسلمانوں کو اس پر اعتراض ہے، ممتا بنرجی ذاتی طور پر دسہرہ کے پنڈال گئی اور مالا ارپت کیا اس پر اعتراض ! اعتراض کسی غیر مسلم لیڈر کے ٹوپی پہننے پر کریں۔ وہ ٹوپی عقیدت اور سدبھاونا میں نہیں پہنتے وہ ہمیں ٹوپی پہناتے ہیں۔ سیکولرازم اور مذاہب کا احترام دل میں ہونا چاہیے رومال ٹوپی اور افطار سے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اعتراض ان مسلم لیڈروں پر کریں جو اپنے آپ کو ” سیکولر” ثابت کرنے کے لئے غیرمسلموں کے مذہبی شعائر اپناتے ہیں۔ مسلمان اپنے مذہب پر رہتے ہوئے دوسرے مذاہب کا احترام کرے اور غیر مسلم اپنے دھرم اور ریتی رواج کا پالن کرتے ہوۓ دوسروں کے مذاہب کا احترام کرے یہی حقیقی سیکولر ہونے کی دلیل ہے۔
اس لیے میری رائے میں کانگریس سے اختلاف اور اس کی غلط پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے وقت حد اعتدال تجاوز کرنا درست نہیں ہے۔
22 دسمبر, 2020
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کا بیان :اگر ایم ایس پی پر ہوگاکسی قسم کا خطرہ تو سیاست چھوڑ دوں گا
چندی گڑھ:
ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر نے مرکزی حکومت کے نئے زرعی قوانین کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ سیاسی وجوہات کی بناء پر ان بلوںکی مخالفت کر رہے ہیں۔ کھٹر نے کہا کہ جمہوری نظام میں ہر ایک کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے لیکن سڑک بند کرکے دباؤ ڈالنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جنوبی ہریانہ کے نارناول میں خطاب کرتے ہوئے کھٹر نے کہا کہ مرکزی حکومت 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ اس ریلی میں بی جے پی کے سینئر قائدین شریک ہوئے۔ وزیر اعلی نے کہا کہ کسانوں کی آمدنی کئی مراحل میں دوگنی ہوجائے گی ، ان میں سے ایک زرعی اصلاحات ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ سیاسی وجوہات کی بناء پر ان قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں ، جن کو میں کسانوں کا نمائندہ نہیں کہوںگا۔کھٹر نے کہا کہ احتجاج کرنے کے بہت سے راستے ہیں۔ یہ اسمبلی میں کیا جاسکتا ہے ، میڈیا کے ذریعہ بھی کیا جاسکتا ہے ، لوگوں میں کیا جاسکتا ہے اور بڑے یا چھوٹے جلسوں کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے ، لیکن 50-70 ہزار لوگ جمع ہوجائیں سڑکیں جام کردیں اوردباؤ بنائیں۔جمہوریت ایسی چیزوں کے لیے نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر حکومت اس کے آگے جھک جاتی ہے توملک غلط سمت میں گامزن ہوگا۔ بڑی مشکلات سے ہم نے یہ جمہوریت قائم کی ہے۔دہلی کی سرحدوں پر پنجاب اور ہریانہ سمیت ملک کے مختلف ریاستوں کے کسان گذشتہ چار ہفتوں سے زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ وہ ان زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکمران جماعت کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد کے لئے ہیں۔
ممبئی:
ممبئی کانگریس کے نومنتخب چیف اشوک عرف بھائی جگتاپ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ پارٹی 2022 ممبئی میونسپل انتخابات میں تمام 227 سیٹوں پر مقابلہ کرے گی۔ کانگریس مہاراشٹر میں شیوسینا اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ جگتاپ نے کہاکہ نشستوں کو تقسیم کرنا ایک مشکل کام ہے ، لہٰذا پارٹی کی حیثیت سے ہمیں ان لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جو پارٹی کے جھنڈے کو اپنے کندھوں پر رکھتے ہیں اور ممبئی کی تمام 227 نشستوں پر میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کے آئندہ انتخابات میں لڑنا چاہئے۔جب ممبئی ریجنل کانگریس کمیٹی (ایم آر سی سی) کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کی ترجیحات کے بارے میں پوچھا گیا تو جگتاپ نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں کانگریس کی نشستوں کی تعداد کم ہوگئی ہے اور وہ نشستوں کی تعداد بڑھانے کے لئے تمام تجربہ کار رہنماؤں کو متحد کرنے کی کوشش کریں گے۔ کانگریس نے ہفتہ کو چرن سنگھ سپرا کو ممبئی کانگریس کا نیا قائم مقام صدر مقرر کیا۔اس سے قبل اے آئی سی سی کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال کے بیان کے مطابق کانگریس کے صدر نے اشوک ارجن راؤ جگتاپ کو ممبئی ریجنل کانگریس کمیٹی کا نیا چیئرمین مقرر کرنے کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔ چرن سنگھ سپرا ایم آر سی سی کے ایگزیکٹو چیئرمین ہوں گے۔
’’فورم فار انٹلکچول ڈسکورس ‘‘اور’’ دی وِنگس فاؤنڈیشن‘‘ کے زیر اہتمام ماسٹرجاوید اقبال کی رحلت پر تعزیتی نشست کا انعقاد
حضرت الحاج ماسٹر جاوید اقبال علیہ الرحمہ ایک مثالی استاد، لائق منتظم، آٹھ کتابوں کے مصنف، درجنوں مساجد کے بانی، مشہور و معروف بزرگ حضرت حکیم تجمل حسین کے مرید خاص اور حضرت مولانا غلام محمد یحییٰ علیہ الرحمہ، خانقاہ صوفیہ ، بیگنا کے خلیفہ تھے۔ ان کے سانحۂ ارتحال سے سیمانچل نے ایک عظیم الشان شخصیت کو کھو دیا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد مبشر نے فورم فار انٹلکچول ڈسکورس اور دی وِنگس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ڈائنامک انگلش انسٹی ٹیوٹ ،بٹلہ ہاؤس ، نئی دہلی میں منعقدہ تعزیتی جلسے میں کیا ۔
فورم فار انٹلکچول ڈسکورس کے جنرل سکریٹری منظر امام نے جاوید اقبال کی علمی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی آٹھ کتابیں ’’نگارشات جاوید (۲۰۱۲)، لمحات جاوید (۲۰۱۴)، بیگنا کے دو ولی (۲۰۱۵)، ارض مقدس (۲۰۱۵)، نقوش جاوید (۲۰۱۷) ، جنگ آزادی کے دو گمنام مستان (۲۰۱۸) خواب اور تعبیر (۲۰۲۰) اور زیارت (۲۰۲۰) شائع ہو چکی ہیں اور ایک کتاب غیر مطبوعہ ہے ۔
مشہور ادیب و نقاد حقانی القاسمی نے کہا کہ جاوید اقبال کی رحلت سے سیمانچل کی حاشیائی بستی نے ایک علمی اور روحانی شخصیت کو کھو دیا ہے۔ یہ اگلی نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرحوم کے مشن کو آگے بڑھائیں ۔
سینیئر صحافی اور ماہنامہ یوجنا کے مدیر عبد المنان نے گہرے رنج و ملال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جاوید اقبال کی شخصیت میں عظمت کے تمام عناصر موجود تھے۔ وہ سراپا خلوص و محبت تھے۔ جنون اور اولوالعزمی کا یہ عالم تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آٹھ کتابیں تصنیف کر لیں ۔
تعزیتی جلسے کی صدارت کرتے ہوئے مشہور عالم اور شاعر مولانا اسحاق عادل نے کہا کہ جاوید اقبال صاحب حد درجہ خوش خلق، منکسرالمزاج ، سادہ طبیعت اور نیک آدمی تھے۔ انھیں بزرگان دین سے والہانہ تعلق تھا ۔مشہور سماجی رہنما فیاض عالم نے کہا کہ جاوید اقبال صاحب کی زندگی ،شخصیت اور خدمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ ہمدرد یونیورسٹی کے ڈپٹی رجسٹرار سرفراز احسن نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جاوید اقبال جیسی عظیم شخصیات کے نقش قدم پر چل کر ہی ملک و قوم کی فلاح و بہبود ممکن ہے۔ دی وِنگس فائونڈیشن کے بانی صدر اور ڈائنامک انگلش انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انوا رالحق نے ڈاکٹر جاوید اقبال کو تعلیم و تربیت کا حسین سنگم قرار دیا۔ ڈاکٹر نعمان قیصر نے کہا کہ جاوید اقبال کی شخصیت نہایت متاثر کن تھی ، ان سے جو ایک بار ملتا ہمیشہ کے لیے انھیں کا ہو جاتا ۔ اس موقع پر توقیر عالم جامعی ، مجاہد اختر ناز، پرنسپل نسیم حیدر، ماسٹر انوارالٰہی ، قمر الحسن ، عمار احمد جامی ، غفران اختر، ماسٹر مظہر عالم، افتخار الزماں اور سبحان کے علاوہ دیگر معززین بھی موجود تھے ۔ تعزیتی جلسے کا اختتام دعائے مغفرت پر ہوا۔
ممتازشاعر تسنیم انصاری مرحوم کی یاد میں بزمِ صدف کویت شاخ کا آن لائن بین الاقوامی جلسہ
علمی مراکز سے دوٗر کے شعرا و ادبا کی خدمات سے لوگوں کو واقف کرانا ہمارا فریضہ ہے: صفدرامام قادریڈ
کویت :(اکٹر عابدہ پروین)
اردو کی عالم گیٖر حیثیت حقیقتاً برِّصغیر اور دنیا کے چھوٹے چھوٹے مراکز میںخدمات انجام دینے والے ادبی جاں نثاروں کے ذریعہ قایم ہوئی جن میں سے سیکڑوں تاریخ کی گرد ہو کر رہ گئے مگر اپنی محنت و مشقّت سے انھوں نے ایک ایسا ماحول قایم کیا جس نے ہماری زبان کے لیے خوش گوارنتائج عطا کیے۔ بزمِ صدف انٹرنیشنل کویت شاخ کی جانب سے منعقد تسنیم انصاری یادگاری پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صفدر امام قادری نے مذکورہ باتیں کہیں۔ کورونا وبا اور لاک ڈائون کے ابتدائی دور میں ہی ۳۰؍ اپریل ۲۰۲۰ء کو برہان پور میں تسنیم انصاری راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ پروفیسر قادری نے ان کی وفات کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ روزانہ اخبار یا کسی نشریے کو صبح سویرے دیکھنے سے اب ہمیںخوف آتا ہے۔ کیوںکہ کسی نہ کسی ادیب اور شاعر یا عزیز کے ارتحال کی خبر آنکھوں کے سامنے تیرنے لگتی ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ آپ نہ تجہیز و تکفین میں شامل ہو پاتے ہیں اور نہ عزیز و اقارب کا غم بانٹ سکتے ہیں۔
معروف شاعر اور ادیب ڈاکٹر مجاز آشنا نے اس یاد گاری تقریب کا کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ چھٹی جماعت سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہوئے اور باون (۵۲) برس کی اس دوستی کا اختتا م تسنیم انصاری کی بے وقت موت سے ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ اسکول میں بیت بازی کے دوران تسنیم انصاری فی البدیہہ اشعار کہہ کر رفتہ رفتہ یہ ثابت کر چکے تھے کہ ان میں شعر گوئی کے جراثیم موجود ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تسنیم انصاری کے والد کا مریڈ حبیب اللہ ایک سُلجھے ہوئے کمیونسٹ لیڈر تھے جس کی وجہ سے تسنیم انصاری کی شخصیت پر ترقّی پسند ادب اور تصوّرِ حیات کی پرچھائیاں پڑیں۔ کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی اور دوسرے ترقی پسند شعرا کی مشہورنظموں کو وہ نِجی محفلوں میں پڑھتے رہتے تھے۔ مجاز آشنا نے ان کی شخصیت اور انسان دوستی کے بارے میں کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے بہ طور خاص ان کی شادی کا تذکرہ کیا کہ وہ مختلف رشتوں کو درکنا رکرتے ہوئے ایک پانوسے معذورخاتون سے شادی کے لیے بہ خوشی اس لیے تیّار ہو گئے کیوں کہ وہ ان کی برادری کی پہلی گریجویٹ خاتون تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہر چند ملازمت کے سلسلے سے وہ برہان پور کوکن کے علاقے میں مقیم ہو گئے مگر چھیٹوں میں برہان پور آتے اور اپنے پُرانے دوستوں اور ان کے اہلِ خاندان سے ملتے جلتے رہتے۔ بزرگ ادبا و شعرا انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور نوجوانوں کو وہ اپنے علم سے ہمیشہ فیض پہنچاتے رہتے۔ انھوں نے کہا کہ اپنے وطن سے محبّت کا ثبوت انھوں نے اس طور پر دیا کہ لاک ڈائون سے ٹھیک پہلے اپنے وطن برہان پور پہنچے اور پھر ۳۰؍ اپریل کو وہیں کی خاک میں ہمیشہ کے لیے پیوست ہو گئے۔
کویت میں مقیم بزرگ شاعرہ و ادیبہ محترمہ شاہ جہاں جعفری حجاب نے اپنا مضمون ’دیا جلایا مگر روشنی میں آیا نہیں‘ عنوان سے پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ امانت حسین انصاری تسنیم شہرت سے بے نیاز شاعر تھے۔انھوں نے بتایا کہ وہ ایسے سنگ تراش تھے جن کے قدموں میں دنیا پڑی ہوئی تھی۔ شاعری کے فرسودہ اصول توڑ کر انھوں نے خود اپنی راہیں بنائیں۔ ان کی موت نے شاعری کے وہ دروازے بند کر دیے جس سے وہ نئے جہانِ معنیٰ پیدا کر رہے تھے۔ محترمہ شاہ جہاں جعفری نے ان کے متعدّد اشعاربہ طور مثال پیش کرتے ہوئے اپنے خیالات کے ثبوت فراہم کیے۔
تسنیم انصاری کے شاگردِ رشید جناب ظہیر راشد نے اپنے تاثّرات کے دوران بتایا کہ تسنیم انصاری ۱۹۸۱ء میںان کے گانو راج واڑی میں اسکول کے استاد کے طَورپر آئے۔ اس زمانے میں وہ اسکول کے طالبِ علم تھے۔ان کے والدسے تسنیم انصاری کی دوستی ہوئی اور پھر یہ سلسلہ آخرتک قایم رہا۔ اسکول میں تسنیم انصاری نے تمثیلی مشاعرہ منعقد کیااور ہم طلبا کو غالب، میر اور اقبال بنا کر پیش کرکے ادبی تربیت کا ایک ٹھوس سلسلہ قایم کردیا۔ انھوں نے کہا کہ رفتہ رفتہ استاد سے میرا ایک روٗحانی رشتہ قایم ہو گیا۔ یہ رشتہ ان کی موت کے بعد بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹرعارف انصاری نے اپنے مضمون بہ عنوان ’میں لکھ رہا ہوں کہ تسنیم کون تھا، کیاتھا‘ میں ان کی زندگی کے نشیب و فراز واضح کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے پندرہ سولہ برس کی عمر سے ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ پچیس برس میں تو انھیں سب شاعرکی حیثیت سے جاننے لگے تھے۔انھوںنے بتایا کہ طنزیہ عناصر اور عصری آگہی ان کی شاعری کا معیار متعیّن کرتے ہیں۔
جناب ابو شاہد نے اپنے تاثرات کے اظہار میں یہ واضح کیا کہ ان کی شاعری عصرِ نَو کا نوحہ ہے۔ جذبے کی صداقت اور دل کش طرزِ ادا نے انھیں مقبولیت عطا کی۔ انھوںنے اس بات پر بھی زور دیا کہ تسنیم انصاری صرف شاعر نہیں تھے بلکہ ان کی نثر بھی لایقِ اعتنا ہے اور صحافت و ادب کے حوالے سے ان کے مضامین ہمارے لیے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر شبانہ نکہت نے اپنے مقالے میں اپنے والدین اور بزرگوں کے حوالے سے تسنیم انصاری کی شخصیت سے متعلّق معلومات کومختصر لفظوں میں پیش کیا۔ انھوںنے بتایا کہ برہان پور کی ادب پرور فضا میں ان کی تربیت ہوئی تھی اور ان کے اساتذہ نے اسکول کے زمانے میں ہی جو پیشین گوئی کی تھی ،اسے انھوں نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیا۔ انھوں نے نئے شعرا و ادبا کی تربیت کرنے کی ان کی ادا کو قابلِ توجّہ امتیاز تسلیم کیا۔
کویت میں مقیم جناب نسیم زاہد نے تسنیم انصاری کی مختلف غزلوں کے منتخب اشعار کے فنّی اور ادبی محاسن پر روشنی ڈالی۔ تشبیہات اور پیکر تراشی کے نمونوں پر اپنے تاثّرات کا اظہار کرتے ہوئے انھوںبتایا کہ تسنیم انصاری ایک قادر الکلام اور پُرگوشاعر تھے۔ ڈاکٹر محمد دانش غنی نے علاقۂ کو کن میں ان کی ادبی سرگرمیوں کو بہ طَورخاص واضح کیا اور بتایا کہ تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ وہ ادبی صحافت اور کتب خانوں کے قیام اور ترقّی کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ انھوں نے تسنیم انصاری کے سلسلے سے یادگاری لکچر منعقد کرنے کا مشورہ دیا۔
قطر میں مقیم ممتاز شاعر احمد اشفاق بہ طور مہمانِ خصوصی شریک ِ بزم تھے۔ انھوںنے بزمِ صدف کی کویت شاخ کو مبارک باد دی اور یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ تسنیم انصاری جیسے سچّے انسان اور بہترین شاعر کو یاد کرنا کیوں ضروری تھا۔ حیدر آباد سے ڈاکٹر مختار احمد فردین نے مہمانِ اعزازی کے طَورپر تسنیم انصاری کو عقیدت کا خراج پیش کرتے ہوئے اس بات کا خاص طَور سے ذکرکیا کہ آج پوری ادبی دنیا اور دور دراز کے علاقوں میں ایک ربط پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ تسنیم انصاری کو شایانِ شان خراج ادا کرنے کے لیے ہمیں پورے ملک میں اردو کے نونہالوں کو بنانے اور سنوارنے کی ذمّہ داری ادا کرنی چاہیے۔ تنویر رضا برکاتی، اظہارالتسنیم اور کمال انصاری نے تسنیم انصاری کے منتخب کلام کو نشست میں مناسب مواقع سے پیش کیا۔ بزمِ صدف کویت شاخ کے صدر مسعود حسّاس نے اس مذاکرے کی بہترین نظامت کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ شُرکا ے محفل کا تعارف پیش کیا بلکہ گفتگوٗ کے دوران وہ تسنیم انصاری کے شاعرانہ مقام و مر تبے پر بھی حسبِ ضرورت روشنی ڈالتے رہے۔
اس بین الاقوامی مذاکرے کی صدارت بزمِ صدف انٹرنیشنل کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں تمام مقالہ خواں حضرات کے پیش کردہ اہم نکات کی وضاحت کی اور تسنیم انصاری مرحوم کے شاعرانہ خد و خال متعیّن کرنے کی کوشش کی۔ صفدرامام قادری نے انھیں مابعدِ جدیدعہد کے ایسے شاعر کے طَور پر پہچاننے کی سفارش کی جو ادبی رویّوں کے معاملے میں ایک حرکی تصوّر رکھتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ تسنیم انصاری کبھی جمود کا شکار نہیں رہے۔ انھوں نے ترقی پسندوں سے بھی سیکھا اور جدیدیوں سے بھی۔ ان کے کلام کو پڑھتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ کس طرح ایک امتزاجی راہ نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ اگرچہ تسنیم انصاری کی علاقائی پہچان ہی قایم ہو سکی مگر ان کے شعری مجموعوں کے مطالعے سے یہ بات درجۂ یقین کو پہنچ جاتی ہے کہ وہ اردو کے قابلِ اعتبار شاعر تھے اور ان کا ادبی سرمایہ بے حد سنجیدگی سے ہمیں اپنے علمی وقار کے ساتھ متوجّہ کرتا ہے۔ انھوں نے بہ طور نمونہ تسنیم انصاری کے چند اشعار پیش کیے جن سے شاعر کی اہمیت ثابت ہو جاتی ہے۔
چلو کہ آبِ رواں سے یہ درس لے آئیں
کہاں سکون سے بہنا کہاں اچھلنا ہے
مرے خلاف ہوا تھی، پر ایسا لگتا ہے
چراغِ رہ گزر نے بھی کچھ شرارت کی
میرے اندر بھی بہت بھیڑ ہے باہر کی طرح
کس سے کترائوں، کہاں جائوں، کدھر سے نکلوں
کون سمجھائے کہ ا ب ضد پہ اڑی ہے دنیا
خود کشی کے لیے تیار کھڑی ہے دنیا
جام و مینا ہو کہ پھولوں کے کٹورے کہ وہ آنکھ
سب خطاکار ہیں سب نے مجھے پیاسا رکھا
بزمِ صدف انٹرنیشنل کے چیرمین جناب شہاب الدین احمد اور ان کی نگرانی میں کام کررہی تکنیکی ٹیم نے اس پروگرام کو کامیابی سے ہم کنار کیا۔ مذاکرے میں شکریے کی رسم تسنیم انصاری کے فرزند اور بزمِ صدف کویت شاخ کے سکریٹری جناب اظہارالتسنیم نے ادا کی۔انھوںنے اپنے والد کا ایک خیالی خط اپنے نام پڑھ کر سُنایا ۔ اس خونِ جگر سے لکھی ہوئی تحریر سے تسنیم انصاری کی شخصیت کے خدو خال بھی واضح ہو گئے اور تمام شرکا کا انھوں نے فرداً فرداً شکریہ بھی ادا کر دیا۔ تین گھنٹے تک چلی اس نشست کاآغاز جناب مسعودحسّاس نے تلاوتِ قرآن پاک سے کیا۔ اس آن لائن تقریب میں دنیا کے مختلف ملکوں کے نمایندہ اصحاب بھی شریک تھے۔
نئی دہلی:
زرعی قوانین کیخلاف کسانوں کے احتجاج کا آج 26 واں دن ہے۔ کسانوں نے آج سے بھوک ہڑتال شروع کردی ہے۔ یہاں 11-11 کسان دہلی ، ہریانہ اور اتر پردیش کی سرحدوں پر بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ 24 گھنٹوں کے بعد 11 دوسرے کسان اس عمل کو آگے بڑھیں گے۔اسی کے ساتھ ہی ہریانہ کو 25 سے 27 دسمبر تک ٹول فری بنایا جائے گا۔جس کا اعلان کسانوں نے اتوار کے روز کیا۔ اس کے محض 5 گھنٹے بعد ہی حکومت نے ایک خط بھیجا ،جس میں مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی۔ اس میں کسانوں سے تاریخ طے کرنے کو کہا گیا ہے۔ کسان آج اس پر فیصلہ کرسکتے ہیں۔وہیں فیس بک پر کسانوں کے پیج بلاک کرنے کے الزامات کو پیر کے روز فیس بک نے واضح کیا ہے۔ فیس بک کے ترجمان نے کہا کہ کسان یکتا مورچہ کے فیس بک پیج پر اچانک بڑھتی ہوئی سرگرمی کی وجہ سے ہمارے خودکار نظام نے اسے اسپام کردیا ہے ،کیونکہ یہ ہمارے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے، تاہم معاملہ کو سمجھنے کے بعدہم نے 3 گھنٹوں میں پیج بحال کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسپام کے خلاف ہمارا بنیادی کام خود کار نظاموں کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اگر کسی اکاؤنٹ میں تھوڑی دیر کے لئے بہت زیادہ سرگرمی ریکارڈ کی جاتی ہے تو ، اس سے ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ یہاں کچھ غلط ہوسکتا ہے۔اس سے قبل اتوار کے روز ’کسان ایکتا مورچہ‘ نے فیس بک پر مرکزی حکومت کے دباؤ میں اپنا پیج بلاک کا الزام لگایا تھا۔خیال رہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اتوار کے روز بنگال میں کہا کہ وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر اور کسانوں کے درمیان ایک یا دو دن میں میٹنگ ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف کسان رہنماؤں نے اتوار کو کنڈلی بارڈرپر میٹنگ کے بعد اعلان کیا کہ27دسمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی جتنی دیر ’ من کی بات‘کریں گے ، اتنی دیر ہم تالیاں اور تھالیاں بجائیں گے۔ہندوستانی کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹیکیت نے کہا ہے کہ حکومت کی حمایت کرنے والے کسان تنظیموں سے ملاقات کریں گے۔ ہم ان سے یہ سیکھیں گے کہ وہ نئے زرعی قوانین میں کیا دیکھ رہے ہیں ، نیز یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ ان کی فصلوں کو بیچنے کے لئے کون سی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہیں۔واضح ہوکہ23 دسمبر یوم کسان ہے ،کسان تنظیموں نے اپیل کی ہے کہ اس دن ملک بھر کے لوگ ایک دن کا ’اپواس ‘رکھیں۔ 26 اور 27 دسمبر کو کسان این ڈی اے میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے اور ان سے اپیل کریں گے کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈالیں اور تینوں قوانین کو واپس لے،بصورت دیگر ان کے خلاف بھی مظاہرے شروع کردیئے جائیں گے۔ اڈانی- امبانی کا بائیکاٹ جاری رہے گا
نئی دہلی:
کانگریس کے تجربہ کارلیڈر موتی لال ووہرا (93) کا پیر کو انتقال ہوگیا۔ انہوں نے دہلی کے فورٹنس اسپتال میں آخری سانس لی۔ وہ دو بار مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔ وہ 2000 سے 2018 (18 سال) پارٹی کے خزانچی بھی رہے۔ کل (20 دسمبر) ووورا نے اپنی 93 ویں سالگرہ بھی منائی تھی، وورا کے بعد مرحوم احمد پٹیل کی جگہ خزانچی بنا دیا گیا تھا۔ اس سال 25 نومبر کو پٹیل کا بھی انتقال ہوگیاتھا۔راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پر اایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ وورا جی ایک سچے کانگریسی لیڈر اور ایک عظیم انسان تھے،ان کی کمی بہت محسوس کی جائے گی۔ ان کے اہل خانہ سے میری طرف سے تعزیت پیش ہے۔وورا جو 1968 میں سماج پارٹی کے ممبر تھے ، غیر منقسم مدھیہ پردیش کی درگ میونسپل کمیٹی کے ممبر بنے، 1970 میں کانگریس پارٹی میں شامل ہوئے۔ 1972 میں کانگریس کے ٹکٹ پر ایم ایل اے بنے۔ اس کے بعد 1977 اور 1980 میں وہ ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ ارجن سنگھ کی کابینہ میں وہ محکمہ اعلی تعلیم میں پہلے وزیر مملکت تھے۔ 1983 میں کابینہ کے وزیر بنائے گئے ۔ انہوں نے 1981-84 کے دوران مدھیہ پردیش اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔13 فروری 1985کو وورا کو مدھیہ پردیش کا وزیر اعلی بنا دیا گیا۔ 13 فروری 1988 کو وزیر اعلی کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور 14 فروری 1988 کو مرکز کی بہبود ِ خاندان اور شہری ہوا بازی کی وزارت کا چارج سنبھالا۔ اپریل 1988 میں وورا مدھیہ پردیش سے راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوئے ۔ وہ 26 مئی 1993 سے 3 مئی 1996 تک یوپی کے گورنر بھی رہے۔ووورا کو 22 مارچ 2002 کو ایسوسی ایٹ جرنلز لمیٹڈ (اے جے ایل) کا چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ نیشنل ہیرالڈاخبار کی جائیداد کے تنازعہ میں ووورا بھی شامل تھے ۔ فی الحال عدالت اب بھی اس معاملہ کی سماعت کر رہی ہے، کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔موتی لال ووہرا 20 دسمبر 1928 کو ناگور (اس وقت ریاست جودھ پور کی ریاست) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام موہن لال ووہرا اور والدہ کا نام امبا بائی تھا۔ پسماندگان میں چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ بیٹا ارون وورا درگ سے ایم ایل اے ہیں ، وہ تین بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔