نئی دہلی:(پریس ریلیز) آل انڈیا ایسوسی ایشن آف عربک ٹیچرس اینڈ اسکالرس کے زیر اہتمام حسب سابق عالمی یوم عربی زبان کی مناسبت سے۱۸دسمبر کو ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیاجارہاہے۔تقریب کے مہمان خصوصی ہندوستان میں کویت کے سفیر عالی جناب جاسم ابراہیم الناجم ہوں گے۔تقریب کی صدارت سعودی کلچرل اتاشی کے علمی مشیر پروفیسر زبیر احمد فاروقی سابق صدر شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی کریں گے۔ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر حبیب اللہ خان سابق صدر شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی خطبۂ استقبالیہ پیش کریں گے اور ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری پروفیسر رضوان الرحمن چیئر پرسن سینٹر آف عربک اینڈ افریکن اسٹڈیز،جواہر لال نہرو یونیورسٹی نظامت کریں گے۔اس تقریب میں ملک بھر میں موجود ان جامعات کی نمائندگی ہوگی جہاں شعبۂ عربی قائم ہے۔پروگرام آن لائن بذریعہ زوم ہوگا۔اس کی اطلاع پروگرام کے کنوینر پروفیسر رضوان الرحمن جنرلسکریٹری آل انڈیا ایسوسی ایشن آف عربک ٹیچرس اینڈ اسکالرس نے دی ہے۔
17 دسمبر, 2020
1857ء کی پہلی جنگ آزادی جسے بغاوت ہند بھی کہا جاتا ہے، کی ناکامی کے بعد سب سے زیادہ متاثر مسلمان ہوئے۔چونکہ اس جنگ آزادی کی قیادت میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، انگریزوں نے ہر اعتبار سے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے ہر وہ گُر اپنائے جو وہ اپنا سکتے تھے۔بہادر اور صاحبِ سیف وقلم مسلمانوں کو پھانسی دے دی یا توپ کے دہانے سے باندھ کر اُڑا دیا۔ مسلمانوں کا جو تعلیمی نظام تھا اُسے ختم کرکے اپنا تعلیمی نظام تھوپا۔ حکومت کی زبان جو مسلمانوں کے زیر اثر فارسی تھی اُسے اردو سے بدل ڈالا۔ چونکہ اس جنگ میں ہندو اور مسلمان ایک صف میں کھڑے حکومت کو للکار رہے تھے اس بھائی چارے کو ختم کرنے کے لئے دونوں طرف اپنے کرائے کے پٹھو لگوائے، جنہوں نے جھوٹی تاریخ سنا کر، ایک دوسرے کے خلاف دونوں جانب نام نہاد ظلم و ستم کی کہانیاں پھیلا کر آپسی دشمنی کو ہوا دی اوران دونوں کے بیچ نفرت کی وہ آگ جلائی کہ آج تک اس کی تپش میں کوئی کمی نہیں آئی، برعکس زمانے کے ساتھ ساتھ اور تیز ہوتی چلی گئی۔ اتنا سب سہنے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلمان فورا خود احتسابی کی طرف متوجہ ہوتے، اپنے صفوں کو درست کرتے، دشمن کے خلاف متحدہ محاذ تیار کرتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔اس ناکام جنگ آزادی کے بعد جتنا انتشار اور آپسی تفرقہ بازی بر صغیر کے مسلمانوں میں پیدا ہوئی اس کی مثال انسانی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ ایک طرف شیعہ سنی کے نام پر گروہ بندی اور فساد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تو دوسری طرف سنیوں میں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کے نام دیڑھ اینٹ کی مسجدیں بننی لگیں اور وہ ہنگامہ برپا ہوا کہ الاماں الحفیظ، ایک دوسرے کے خلاف دھڑلے سے کفر کے فتوے داغے گئے، ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار دے دیا گیا، شای بیاہ کی ممانعت کردی گئی،سماج میں آپسی دشمنی کو قائم رکھنے اور بڑھانے کے لئے جتنا کچھ ہوسکتا تھا وہ کر دیا گیا اور یہ سب دین کے نام پر، اسلام کی خدمت کے نام پر، افسوس اس بات پر ہے کہ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اتنا ہی نہیں اس بیچ کئی گمراہ فرقے بھی وجود میں آگئے جو اسلام کے مسلمہ اصولوں کی غلط تعبیر پیش کر کے اپنے آپ کو حق کا داعی بتانے لگے، عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے جھانسے میں آگئی۔ ان فرقوں کو بڑھاوا دینے میں ہمارے نام نہاد مصلحین کا بڑا ہاتھ رہا ہے جنہوں نے رائی کو پربت بتا کر انہیں سچ مچ میں پربت بنا دیا۔ ایسا نہیں کہ کچھ عرصے بعد یہ سلسلہ تھم گیا، اس تفرقہ بازی کے خلاف جس نے بھی آواز اُٹھائی اس کو گمراہ قرار دے کر وہ ہنگامہ مچایا گیا کہ دانشور اور فکر مند لوگ ان اختلافات کو ختم کرنے لئے سنجیدہ کوششوں سے کترانے لگے۔اس بیچ تقسیم وطن کا عظیم سانحہ پیش آیا، اس میں بھی سب سے زیادہ متاثر مسلمان ہی ہوئے، جنہوں نے مذہب کے نام پر اپنے لئے ایک علیحدہ وطن حاصل کرلیا وہ بھی اپنے آپ کو متحد نہیں رکھ سکے، روحانی اعتبار سے کئی ٹکروں میں بٹے ہوئے توتھے ہی لیکن اپنی جغرافیائی اکائی بھی ثابت نہ رکھ سکے،چند صدیوں میں ہی دو لخت ہو کر جس اصول کی بنیاد پر علیحدہ وطن کی مانگ رکھی تھی اسی کو ختم کردیا۔ جو مسلمان وطن عزیز میں ہی رہ گئے وہ اس سانحے کے بعد اگر سنبھل جاتے تو بہت کچھ بہتری آسکتی تھی، لیکن اس بار بھی ایسا نہیں ہوا، جو تفرقات پیدا ہوگئے تھے انہیں اور ہوا دی جانے لگی، فرقوں کے اندر فرقے، مسجدوں کے بیچ دیواریں، مدرسوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو نصاب کا حصہ بنا کر آپسی فساد کا زہر اتنا سرایت کر دیا گیا ہے کہ فطرت ِ سلیم بھی ان کی اصلاح کرنے سے عاجز نظر آرہی ہے۔
آزادی کے ان ستر سالوں میں ہمارے آس پاس جو قومیں بستی ہیں ان کا جائزہ لیں اور پھر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں تو چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کو جی کرتا ہے۔ وہ لوگ علم کے میدان میں معاشرت کے میدان میں اصول و ضوابط کے میدان میں کہیں سے کہیں بڑھ گئے اور ہم آ ج بھی،”تو کافر، میں جنتی“، کے گردان میں پھنسے رذیل سے رذیل ہوتے جارہے ہیں۔ ان ستر سالوں میں فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہم پر مسلط کیا گیا، ہماری تمام معاشی اکائیاں منصوبہ بندی کے ساتھ ختم کردی گئی، ہمارے تعلیمی اداروں پر ہمارے اختیارت صفر کے برابر کردئے گئے، لیکن پھر بھی ہمارے او پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ایسا لگتا ہے ہمارے دلوں سے کھونے کا احساس ہی ختم ہوگیا، بقول علامہ اقبالؒ ”کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔“ ابھی حال میں ایک فرقے کے عالم دین کی موت پر دوسرے فرقے کے نام نہاد علماء دین کے سوشیل میڈیا پر تبصروں سے ہماری ذہنیت کا بھر پور اندازہ ہوتاہے۔ پتہ نہیں ہم کس مٹی سے بنے ہیں،”تو کافر میں مومن“ کا یہ کھیل نہ جانے کب ختم ہوگا، ختم ہوگا بھی کہ نہیں،افسوس صد افسوس!! ہمارے ترجیحات کبھی بھی تعلیم اور معاشی استحکام نہیں بنے، اگر کسی نے اس طرف توجہ دلائی تو اسے دنیا پرست کہہ کر خاموش کر دیا گیا، جنت اور آخرت کی زندگی کو اصل کہہ کر دنیا کوہیچ بتا کر ایسا بیانیہ تیار کیا گیا کہ عوام غور و فکر سے ہی فارغ ہوجائے۔ حالانکہ آخرت کی جس لامتناہی زندگی کا فیصلہ دنیا کی جس مختصر زندگی پر رکھا گیا ہے وہ زندگی اور اس سے منسلک نظام ہیچ کیسے ہوسکتا ہے۔
وطن عزیز میں آنے والا دور ہمارے لئے کتنا سخت ہوگا اس کا بھر پور اندازہ ہوتے ہوئے بھی ہم جس غفلت میں مبتلا ہیں، جس لاپرواہی کے ساتھ حالات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور اپنے دیڑھ اینٹ کے مسجدوں اور مدرسوں میں مشغول ہیں اس کا خمیازہ یقینا اور زیادہ بھگتنا ہوگا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ واپسی کے تمام راستے مسدود ہونگے۔ ہم چاہ کر بھی اپنی صفیں سیدھی نہیں رکھ سکیں گے، اس وقت اتحاد ایک ایسا خواب ہوجائے گا جس کی تعبیر ناممکن ہو گی۔ ابھی بھی وقت ہے، اگر ہم سنبھلنا چاہے تو وقت ہمیں موقع دینے کے لئے تیار ہے۔ حالات بدل سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہوگی، ترجیحات کو بدلنا ہوگا، تعلیم، معاشی استحکام اور سیاست پر منصوبہ بند طریقے سے لائحہ عمل مرتب کرکے ایک ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو یقین جانئے ہماری قسمت بدلتے دیر نہیں لگے گی۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
نیویارک:سابق امریکی صدر باراک اوباما کی کتاب ’اے پرومسڈ لینڈ‘ کی اشاعت ایک ماہ قبل ہوئی تھی اور اب تک اس کتاب کی تین اعشاریہ تین ملین سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ یہ کتاب دو جلدوںمیں شائع ہونی ہے اور نومبر سے اس کا پہلا حصہ فروخت کے لیے دستیاب ہے۔ اس کتاب میں اوباما نے اپنی پہلی مدت صدارت کے سالوں کے واقعات بیان کیے ہیں۔ بالخصوص پاکستان میں اسامہ بن لادن کے قتل کے حوالے سے ان کے انکشافات کئی دنوں تک میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں۔
بھارت کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں بین مذہبی شادیوں ، جس کو’’ لو جہاد‘‘ کا نام دیا گیا ہے، کے خلاف قانون سازی کے بس 48گھنٹوں کے اندر ہی جس طرح پولیس نے ایک مسلم جوڑے کو نکاح کی تقریب کے دوران حراست میں لیکر ان کو پولیس اسٹیشن میں مبینہ طور پر اذیتیں دیں، اس سے ہلکا سا اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس قانون کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کو کس طرح ہراساں کیا جائے گا۔ لگتا ہے کہ مسلمانوں کو شادی یا نکاح کی تقریب منعقد کرنے سے قبل اب پولیس سے باضابطہ اجازت لینی پڑے گی اور یہ یقین بھی دلانا پڑے گا کہ دلہن کسی دوسرے مذہب کی نہیں بلکہ مسلمان ہی ہے۔ جہاں ایک طرف اب حکومتی اداروں نے مسلمان لڑکوں کی دیگر مذاہب کی لڑکیوں کے ساتھ شادی پر سخت موقف اختیار کرکے قانون سازی تک کر ڈالی، وہیں دوسری طرف ہندو تنظیموں کی طرف سے باضابط مسلم لڑکیوں کے اغوا اور ہندو نوجوانوں کے ساتھ ان کی شادیاں کرنے کے واقعات کو صرف نظر کرتی آئی ہیں۔
2017میں جب اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کیلئے انتخابات کا بگل بج گیا، تو موجودہ وزیرا علیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے انتخابی حلقہ گھورکھپور اور کشی نگر کے دورے کے دوران مسلم خواتین کے اغوا اور پھر ان کو ہندو مذہب قبول کروانے کے کئی واقعات میری نوٹس میں آئے۔اس سے دو سال قبل لوک سبھا کے انتخابات کے موقع پر آدتیہ ناتھ نے واضح طور پر دھمکی دی تھی کہ ”اگر وہ (مسلمان) ہماری (ہندو) ایک لڑکی لے جائیں گے، تو ہم ان کی 100 لڑکیاں لے جائیں گے‘‘۔ ان کا اشارہ اس پراپیگنڈہ کی طرف تھا، جس میں مسلمان نوجوانوں پر الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو اپنے دام محبت میں پھنسا کر ان کے ساتھ شادیاں رچاتے ہیں اور اس کو ”لو جہاد‘‘ کا نام دیا گیاہے۔ مقامی افراد نے بتایا کہ صوبہ کے اس مشرقی حصے میں ایک طرح سے ”ریورس لو جہاد‘‘ جاری ہے۔
ایک خاتون ساتھی رپورٹر شوئیتا ڈیسائی کے ساتھ اس علاقے کے کئی دیہی علاقوں کی خاک چھاننے کے بعد معلوم ہوا کہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کر دیے جانے کی سیکڑوں واردادتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ معلوم ہوا کہ کہ ان لڑکیوں کا ”شْدھی کرن‘‘ کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرا دی جاتی ہیں۔بنگالی پٹی بنجاریہ گاوں کی 17 سالہ عاصمہ نے بتایا کہ اغوا کرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کیلئے دباو ڈالا گیا،مگر وہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگ گئی۔ صرف اس ایک گاوں میں نو ایسے خاندان تھے، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرکے بعد میں زبردستی شادیاں کر وائی گئی تھیں۔ چوپیہ رام پور گاوں میں زبیدہ اب امیشا ٹھاکر کے نام سے ایک ہندو خاندان میں اروند ٹھاکر کی بیوی بن کر زندگی گزار رہی تھی۔آسمانی اور گلابی رنگ کی ساڑھی زیب تن کئے، ماتھے پر تلک اور مانگ میں سندور کو دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکی کبھی زبیدہ رہی ہوگی۔ اس کو بس 13سال کی ہی عمر میں اغوا کیا گیا تھا۔ سڑک کی دوسری طرف ہی اس کی ننہال ہے، جس کیلئے زبیدہ مر چکی ہے۔ اس کے ماموں عبداللہ کا کہنا تھا کہ اغوا کے کئی ہفتوں بعد ان کی بیٹی کو بھری پنچایت میں پیش کرکے زبردستی ہندو بنایا گیا۔
پولیس نے تو پہلے رامیشور ٹھاکر اور اس کے دو بیٹوں کے خلاف نابالغ لڑکی کو اغوکرنے کے الزام میں رپورٹ درج کی تھی۔ مگر بعد میں اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ عبداللہ کا کہنا تھا کہ طاقتور ٹھاکر خاندان کے خلاف لڑنے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔ پنچایت میں ٹھاکر خاندان نے جعلی دستاویزات پیش کرکے بتایا کہ لڑکی کی عمر 21سال ہے اور اس نے برضا و رغبت ہندو دھرم قبول کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا اس کے بعد ڈھول باجے کے ساتھ پورے گاوں اور پاس کے قصبہ میں جلوس نکال کر زبیدہ کی تبدیل مذہب کا جشن منایا گیا۔ اپنے تین سالہ بیٹے کو گود میں لئے زبیدہ یا امیشہ نے میری ساتھی رپورٹر کو بتایا کہ وہ اب زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کر چکی ہے، کیونکہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اس کا کہنا تھا کہ وہ اب ہندو ریتی رواج اپنانے اور سیکھنے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ اس کی ازدواجی زندگی اب کسی طرح ٹھیک طرح سے چلے۔
پولیس ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ اس علاقہ میں 389 نابالغ مسلمان لڑکیوں کے غائب ہونے کی وارداتیں ہوئی تھیں۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ بھارت کمار یادو نے بھی تسلیم کیا کہ کوئی بھی فیملی بہ رضا و رغبت لڑکی دوسرے مذہب میں بیاہ کیلئے نہیں دے سکتی، مگر کیس درج ہونے کے بعد اور لڑکی کی بازیابی کے بعد اس کی جو حالت ہوتی ہے، وہ اکثر اغوا کاروں کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتی ہے برعکس اس کے کہ وہ اپنی فیملی میں جا کر الگ تھلگ یا تنہائی کا شکار ہو کر مزید عذاب جھیلے۔یاد رہے کہ مشرقی اتر پردیش کا یہ علاقہ کافی پسماندہ اور بدحالی کا شکار ہے۔پریشان حالی کا یہ عالم ہے کہ اکتوبر 2016ء میں حبیب انصاری نے اپنی بیٹی نوری کے اغوا میں ملوث چار ہندو لڑکوں کے خلاف کیس واپس لینے کی عرضی کورٹ میں دائر کی تھی۔ دو سال قبل نوری کو گوری سری رام گاوں سے اغوا کرکے اجتماعی زیادتی کا شکار بنایا گیا تھا۔ نوری نے مجسٹریٹ کے سامنے ہندو واہنی تنظیم سے وابستہ چار افراد کی شناخت بھی کی، جن میں ایک نابالغ لڑکا بھی تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ خود آدتیہ ناتھ کے کارکنوں نے ہی انصاری پر کیس واپس لینے کیلئے دباو ڈالا، جس کے بعد اس کو گاوں میں دوبارہ رہنے اور کھیتی کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس سے قبل پولیس نے صرف نابالغ لڑکے کو ملزم بنا کر دیگر افراد کے نام ایف آئی آر سے خارج کردیے تھے۔اس گاوں میں مسلم بستی کے ارد گرد دیوارکھڑی کرکے ان کو دیگر مکینوں سے الگ تھلگ کردیا گیا تھا۔
دہلی واپس آکر ایک دن پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران میں نے آدتیہ ناتھ کو جو، ممبر پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ گھورکھپور کے سب سے بڑے مندر کے مہنت بھی تھے ، سینٹرل ہال کے ایک کونے میں اکیلے سوپ اور ٹوسٹ نوش فرماتے دیکھا۔ میں نے بیٹھنے کی اجازت طلب کی ان سے اس ریورس لو جہاد کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ تو تسلیم کیا کہ ہندو واہنی ان کی قیادت میں کام کرتی ہے، مگر اغوا اور دیگر وارداتوں میں اس کے ملوث ہونے سے انکار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ آئے روز مسلمانوں کے خلاف بیانات داغتے رہتے ہیں،بھارت میں تقریباً 17کروڑ مسلمان بستے ہیں اور ان سبھی کو ختم کیا جا سکتا ہے، نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہندو بنایا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پْرامن زندگی گزار سکیں؟ تو انہو ں نے کہا، ”ہندو کبھی متشدد نہیں ہوتا ہے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلمان آبادی جہاں بھی پانچ فیصد سے اوپر ہوتی ہے، پریشان کن ہوتی ہے۔ تاریخی حوالے دے کر وہ کہنے لگے ”ہندو حکمرانوں کے کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں، مگر اب وہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں،کیونکہ ان کا مذہب، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ‘ ہندووں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں‘‘۔ ٹوسٹ کا آخری لقمہ حلق میں اتارتے ہوئے آدتیہ ناتھ جی نے کہا ”مسلمان ہندو دھرم کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور ہماری رسوم پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ دوسری طرف ہر روز پانچ وقت مساجد سے اذان کی آوازیں آتی ہیں، مگر جب ہندو کے کسی جلوس میں بھجن یا اشلوک ڈی جے پر گائے جا رہے ہوں تو وہ تشدد پر اتر آتے ہیں، وہ ہندووں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں‘‘۔ لوک سبھا کی کارروائی شروع ہونے جا رہی تھی۔ مسلسل کورم کی گھنٹی بجائی جا رہی تھی۔ وہ ایوان میں جانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے، مگر جاتے جاتے کہا”مسلمانوں کو دیگر اقلیتوں سکھوں، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے چین سے رہنا سیکھنا چاہئے "۔
مجھے یا د آیا کہ کئی برس قبل ہندو انتہا پسندوں کے ایک اور اہم لیڈر پروین بھائی توگڑیا نے بھی کچھ یہی الفاظ ایک انٹرویو کے دوران میرے گوش گذار کئے تھے۔ آدتیہ ناتھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے حلقے میں مسلمان پرامن زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے گئو شالا (گایوں کا فارم ہاؤس) میں کئی درجن مسلمان ملازم گایوں کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ اس ملاقات کے چند روز بعد ہی وہ بھارت کے سب سے بڑے صوبہ کے وزیرا علیٰ مقرر ہوئے اور فی الوقت وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے تیسرے بڑے لیڈر ہیں، جو وزارتِ اعظمیٰ کی کرسی حاصل کرسکتے ہیں۔
مائی ڈیئر قاری! وہ ناول آ گیا جس کا انتظار تھا،ایک سو پچاس برس کے عرصے میں یہ پہلا ناول ہے جو مغرب کے شاہکار ناولوں پر حاوی ہے،اردو میں ناول کہاں لکھا گیا، عینی آپا ، تارڑصاحب ، سب بھاڑ ہی جھونکا کئے، ناول تو یہ ہےـ
آج کل فیس بک پر کچھ اسی انداز سے ناولوں کی پبلیسٹی کی جا رہی ہے، اشتہار بازی کی اس مہم سے میں حیران ہوں ـ پکے پکائے ناسٹیلجیا کو لیا ، تہذیب کے اوراق کا قیمہ بنایا ، زوال کا نوحہ لکھا اور پھر جمعہ جمعہ چار دن کے لکھنے والے دعویٰ کرنے نکلے کہ صاحب جو کچھ ہیں ، ہم ہیں ـ پھر ہم سب بھاڑ جھونک رہے ہیں صاحب! میں بھی اعلان کر سکتا ہوں کہ ذوقی کو نہیں پڑھا تو آپ جان ہی نہیں سکتے کہ اردو ناول میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں، ناول ناسٹلجیا ، تقسیم کے بوسیدہ اوراق سے دور اب مستقبل سے آنکھیں چار کر رہا ہےـ مرگ انبوہ یا لے سانس بھی آہستہ یا مردہ خانے میں عورت کا مطالعہ نہیں کیا تو آپ تمیز نہیں کر سکتے کہ اردو ناول کس مقام تک پہنچ چکا ہےـ اصل میں ہوا یہ کہ ایک خیمے سے چند پولیس والے نکلے، ان کی شکلیں نقادوں جیسی تھیں، سب اپنی اپنی بانسری بجانے لگے، میری ترکی ٹوپی سب سے عمدہ ـ میں بیس برس کی عمر میں مغرب کے بیشتر شاہکار ناولوں کا مطالعہ کر چکا تھاـ ایک گلوبل دنیا سامنے تھی، جس کی چمک میں پرانی دنیا گم ہوچکی تھی۔سائنس، کائنات اور انسان کو ادب کی مضبوط بنیاد کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ ہرمن ہیسے نے’ڈیمیان‘ میں کہا ’ایک چڑیا انڈے سے جنم لینے والی ہے۔ جو جنم لینا چاہتا ہے،اسے ایک دنیا کو تباہ وبرباد کرنا پڑے گا۔ پرانی دنیا کا زوال نزدیک آرہا ہے۔ یہ دنیا نئی شکل لے گی۔‘مارخیز کو کہنا پڑا’ایک ایسی حقیقت بھی ہے جو کاغذی نہیں، ہمارے اندر رہتی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ایسے پابند اظہار یا ذریعے کی تلاش کا رہا ہے، جو ہماری زندگیوں کی حقیقت کو قابل یقین بنانے میں ہماری مدد کرسکے، یہی تنہائی کا عقیدہ ہے’۔ ا ن سے الگ ایک فکر میری بھی تھی۔ میں ہندوستانی سطح پر ایک نوآبادیاتی نظام کا گواہ تھا۔ مسلمانوں کی آمد، مغلوں کی حکومت، انگریزوں کی غلامی کے بعد تیزی سے تبدیل ہوتا ہوا ہندوستان میرے سامنے تھا۔نئی صدی کےبیس برسوں میں فرقہ پرستی، دہشت گردی کے ساتھ سوپر انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا کے نعرے بھی تھے۔ حقیقت سے زیادہ فنتاسی حاوی تھی۔عالمی سطح پر مارخیز کے سوسال کی اداسیوں کاپہرہ تھا۔اس کو بھی نظر انداز کرنا مشکل تھا،پھر ایک بات سمجھ میں آئی،نیا ناول انتشار اور طلسمی حقیقت نگاری سے نکلےگاـ نیا ناول گلوبل وارمنگ ، عالمی دہشت گردی ، ابہام ، مضحکہ خیزی، تجرید اور بکواس موسم کا تعاقب کرے گا- نئی دنیا شاطروں کے پاس ہے،مضحکہ خیز شیطانیت کے ٹوٹے ہوئے پل پر سوار ہو کر ہم محض تہذیبوں کا نوحہ لکھنے کے لئے نہیں پیدا ہوئے ہیں،یہاں دوستوفسکی کا احمق بھی ہے، سر وانٹس کا ڈان کیہوت بھی ـ
غور کریں تو 600 برس قبل ناولوں کا دور شروع ہو چکا تھا،ڈنیل ڈیفو کا ناول رابنسن کروسو یوں تو ایک جہازی کی کہانی ہے جہاں پر اسراریت اور تحیرات کی فضا بھی ہے اور لا شعوری طور پر علامتوں کا استعمال بھی،ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو سمندری جہاز کے تباہ ہونے کے بعد بہتے ہوئے ایک ویران جزیرے تک پہنچ جاتا ہے۔ رابنسن کروسو وہاں زندہ رہنے کے لئے راستہ تلاش کرتا ہے۔ جزیرے پر اس نے دو فہرستیں بنائیں۔ ایک فہرست کو اس نے بہتر کے نام کیا اور دوسرے کو ‘برا’ کہا، اس نے اپنی حالت کے بارے میں سوچا اور دوسری فہرست میں اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے لکھنا شروع کردیا۔اس نے لکھا’میں اس ویران جزیرے پر پھنس گیا ہوں، جو برا ہے۔ لیکن میں زندہ ہوں، جو اچھا ہے۔ جہاز میں سوار تمام دوسرے افراد ہلاک ہوچکے ہیں.لیکن میں فرار ہوگیا۔میں بالکل تنہا ہوں، جو برا ہے۔ لیکن میں بھوک سے نہیں مر رہا ہوں، جو اچھا ہے۔میرے پاس کپڑا نہیں ہے، جو برا ہے۔ لیکن موسم ایسا ہے کہ مجھے کپڑوں کی ضرورت نہیں ہے، لہذا یہ اچھی بات ہے’۔ انسان آغاز سے ہی کہانیوں کا موجد تھاـ تخلیقی ذہن تھا اس کے پاس،نیکی کا عمل اور بدی کا عمل،رابنسن کروسو دونوں پہلوؤں سے گزرتا ہےـ ممکن ہے کہ ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈ لکھتے ہوئے روبرٹ لوئس سٹونسن کے شعور میں یہ ناول رہا ہو. تالستائی ہوں، ترگنیف ہوں، دوستووسکی ہوں،پشکن یاگوگول ہوں یا الکزنڈر سولنسٹین ہوں۔ ان کے ناول اٹھائیے اورپڑھیے۔ وہاں کے سیاسی، سماجی ہر طرح کے حالات کا اندازہ آپ کو ہوجائے گا۔ انقلاب اورعام رجحان کی تفصیل آپ کو معلوم ہوجائے گی۔ پشکن نے سپاہی کی بیٹی لکھا۔ تالستائی نے جنگ اورامن لکھا۔ دوستوفسکی نے بڑھتے ہوئے جرائم کو محسوس کیا تو اس کا حل (Crime and punishment)میں ڈھونڈھا۔ یہی نہیں اس نے اپنے ملک کے اخلاق، جرائم اور سیاسی وسماجی تبدیلیوں کو محسوس کیا تو ایک سے بڑھ کر ایک ناول لکھ ڈالے. ایڈیٹ، برادر کرامازوف،پوزینرڈ۔ سیاسی وسماجی حالات پر طنز کے لیے دوستوفسکی نے احمق کے کردار کو سامنے رکھا۔ یہ احمق ان کے طویل افسانے داسٹوری آف اے ریڈیو کلس مین میں بھی موجود تھا۔ دوستوفسکی نے ایک احمق کردار کا سہارا لیا۔ یہ احمق جو ہوشمندوں اور عقلمندوں کی دنیا میں سب سے بہتر ہے۔ محض اس احمق کردار کے ذریعہ دوستوفسکی اپنے موضوع اور اپنے کینوس کو وسعت عطا کرتا ہے اور پھر اس دائرہ کور وسعت عطا کرتے ہوئے وہ مذہب، سیاست سے سماج کے تمام مسائل پرجامع تبصرہ کرتا ہے۔اب چاہے (Crime and punishment) کا ر سکولینکو ہو یا وہ ایڈیٹ جو شرفاء کی محفل میں عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔ مگر اس کی یہ حرکتیں اس کے مضبوط وجود کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ وہ محض تصور کی وادی میں نہیں بلکہ اپنے وجود کے سہارے جیتا ہے۔ محفل میں لوگوں کی آنکھوں سے بچتا ہوا خوفزدہ ہوکر جب اس کے ہاتھوں سے شراب کا جام چھوٹ کر زمین پر گر پڑتا ہے تو پرنسز اس کی اس حرکت کا بھی لطف لیتی ہے۔ اور اسے کہنا پڑتا ہے کہ ہم لوگوں کے درمیان بظاہر احمق نظر آنے والا یہ شخص سب سے عقلمند ہے۔ آج ہر شعبے میں دوستوفسکی کا احمق داخل ہے۔ دوستوفسکی معمولی آدمی کے درد کو اٹھاتا ہے اوراتنی بلندی تک لے جاتا ہے کہ اس کی ہر تخلیق شاہکار ہوجاتی ہے۔ سولنسٹین نے کینسروارڈ اور گلاگ آرکیپلاگو لکھا۔ یہ ایسے روس کی تصویر تھی جس سے تمام لوگوں نے نفرت اورکراہیت محسوس کی۔ اور بالآخر سولنسٹین کو روس سے بھاگنا پڑا۔ گلاگ آرکیپلاگومیں اسٹالن عہد کی شاندار عکاسی تھی۔
گابرئیل گارسیا مارکیز نے اپنے ایک ناول میں لکھا کہ ہم یہاں فطرت کو شکست دینے آئے ہیں لیکن آپ جانئے، اس کادوسرا پہلو ہے کہ آپ فطرت کو شکست نہیں دے سکتے۔ فطرت لگاتار آپ کو Dehumanise کررہا ہے۔ آپ ترقی اور ایجادات کے نئے راستے تلاش کرتے ہیں اور قدرت سکنڈ میں آپ کو تباہ وبرباد کردیتی ہے۔ تعمیر کے ہر شعبے میں تخریب کی پیوندلگی ہے۔ Theory of deconstractionآپ ہتھیار بناتے ہیں، امن کے لیے، ملک کی سلامتی کے لئے اور ڈر جاتے ہیں کہ دوسرے ممالک نے بھی ایسے ہتھیار تیار کر لیے ہیں۔ کہیں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ برسوں پہلے ایچ جی و پلس نے ایک ناول لکھا تھا۔ انسان نے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیےبھی روبوٹ تیار کر لیے ہیں اور ایک دن یہ روبوٹ انسان کے خلاف جنگ کا اعلان کردیتے ہیں _ میں اس دور کے ناولوں کو دیکھتا ہوں تنگ دامنی کے باوجود احتجاج کی آواز وہاں بھی سنایی دیتی ہے. آپ فطرت کو شکست نہیں دے سکتےـ
یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں؟ کیونکہ یہ سب بونسائی تھے، ناول تو اردو میں اب لکھا گیا،ناول تو ایک مخصوص خیمے کی پیداوار ہے، ناول کے چھ سو برس کے طویل سفر میں اردو نے پہلا ناول نگار پیدا کر لیا ہے جو عظیم ہے،نہ اس سے پہلے کوئی تھا ، نہ اس کے بعد کوئی ہوگاـ
اے ایم یو کا جشنِ صد سالہ : وزیر اعظم کو دعوت،مودی 1964 کے بعد یونیورسٹی کے پروگرام میں شرکت کرنے والے پہلے وزیر اعظم ہوں گے
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ہندی سے ترجمہ : محمد اسعد فلاحی
گزشتہ برسوں میں مسلمان لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ ہندی ہفت روزہ کانتی نئی دہلی نے اپنے شمارے مؤرخہ 6 دسمبر تا 12 دسمبر 2020 میں اس موضوع کا سماجی ، شرعی اور دیگر پہلوؤں سے جائزہ لیا ہے _ اس موقع پر ماہ نامہ کے مدیر جناب مشرف علی نے شعبۂ اسلامی معاشرہ جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی سے گفتگو کی ۔ پیش ہیں اس کے اہم نکات :
*سوال 1:جدید معاشرے میں ، مذہب کو الگ رکھتے ہوئے شادی کے بعض واقعات سامنے آئے ہیں ۔ کیا کسی مسلمان لڑکے کی کسی غیر مسلم لڑکی سے ، یا کسی مسلمان لڑکی کی کسی غیر مسلم لڑکے سے شادی ہوسکتی ہے ، جب کہ ان دونوں میں سے کسی نے اپنا مذہب تبدیل نہ کیا ہو؟*
جواب :
اسلام ایک نظریاتی مذہب ہے ۔ کسی بھی مرد یا عورت کے مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کچھ خاص عقیدے رکھتا ہو ۔ بنیادی طور پر تین چیزیں ایسی ہیں جن کو ماننا ہر مسلمان پر لازم ہے : اللہ پر ایمان ، اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ پر ایمان اور آخرت پر ایمان ۔ اسلام نے رشتوں کو بہت اہمیت دی ہے اور یہ لازم کیا ہے کہ دو الگ الگ مذہب کے ماننے والے نکاح کے رشتے میں نہیں بندھ سکتے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاہے:
وَلاَ تَنکِحُواْ الْمُشْرِکٰتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ وَلأَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکَۃٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْکُمْ وَلاَ تُنکِحُواْ الْمُشِرِکِیْنَ حَتَّی یُؤْمِنُواْ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکٍ وَّلَوْ أَعْجَبَکُمْ أُوْلَئِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ وَاللّہُ یَدْعُوْآ إِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِإِذْنِہِ وَیُبَیِّنُ آیٰتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ (البقرۃ: 221)
(تم مشرک عورتوں سے ہر گز نکاح نہ کرنا ، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ ایک مومن لونڈی ، مشرک شریف زادی سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمھیں پسند ہو ۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مُشرک مَردوں سے کبھی نہ کرنا ، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ ایک مومن غلام ، مشرک شریف سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو ۔ یہ لوگ تمھیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے _ توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے ۔)
قرآن کے اس صریح حکم کے بعد ، کسی مسلمان لڑکے کی کسی غیر مسلم لڑکی سے ، یا کسی مسلمان لڑکی کے کسی غیر مسلم لڑکے سے نکاح کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
*سوال 2 :جو مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے کورٹ میرج کرلیتی ہیں ، اگر وہ غیر مسلم شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے خود کو مسلمان کہتی ہیں ، تو اس دعوے میں وہ کتنی صحیح ہیں؟*
جواب :
اسلام میں اس طرح کی شادی کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے _ لیکن اگر ایک مسلمان لڑکا ، غیر مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے ، یا مسلمان لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے تو صرف اس شادی کی بنیاد پر انہیں اسلام سے خارج قرار دینا درست نہیں ہوگا ۔ ان کا ایمان باقی ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ ان بنیادی عقائد کی بنیاد پر ہوگا جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے ۔ ان عقائد کو نکاح کے ساتھ مشروط نہیں کیا گیا ہے ۔ اسلام نے نکاح کے لیے جو شرائط رکھی ہیں ، ان کو پورا کیے بغیر کوئی شادی کرتا ہے تو وہ ایک غلط کام کرتا ہے ۔ اسلام میں بتائے گئے نکاح کے طریقہ کے علاوہ ، کسی اور طریقے سے جنسی خواہش پوری کرنا ایک حرام کام ہے اور لگاتار اس حرام کام کو کرتے رہنا بہت بڑا گناہ ہے ، لیکن اس بنا پر کسی کو اسلام سے خارج نہیں کیا جاسکتا ۔ کوئی مسلمان لڑکا یا لڑکی غیر مسلم سے شادی کے باوجود ، اگر اسلام کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہو ، شرک و بت پرستی سے بچے اور اپنے آپ کو مسلمان کہے تو اسے مسلمان سمجھنا چاہیے ۔
عام طور پر بین مذاہب شادیوں میں ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے عقیدے اور اپنی عبادتوں پر قائم رہتے ہیں اور غیر مسلم اپنے عقیدے اور عبادتوں پر _ دونوں ایک دوسرے پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ آزاد خیال ہوتے ہیں ، مذہب کی ان کے یہاں کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔
*سوال 3 :غیر مسلموں کے ساتھ شادیوں کو روکنے کے لیے مسلم والدین کی کیا ذمہ داری ہے؟ انہیں کس حد تک جانا چاہیے؟*
جواب:
والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ، ان کے بچپن ہی سے اخلاقی اور دینی تربیت کریں ، انہیں جائز و ناجائز اور حلال و حرام سمجھائیں ، معاشرتی زندگی کے اصول اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کے حدود بیان کریں ۔
مخلوط تعلیم کے نتیجے میں لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک دوسرے کے قریب آنا فطری بات ہے ۔ اگر وہ پہلے سے تربیت یافتہ ہوں گے تو ان حدود کو پہچانیں گے اور اگر انھیں دینی تربیت نہیں ملی ہوگی تو اس کا پورا امکان ہے کہ وہ حدود کو عبور کرجائیں ۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ شادی سے پہلے ہی لڑکی اور لڑکے کے درمیان جنسی تعلقات قائم ہوچکے ہوتے ہیں ۔ اگر والدین کو اطلاع ملنے تک معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہو تو پھر ان پر پابندی لگانا بے کار ہوگا ۔ جوانی کے جوش میں لڑکے اور لڑکیاں اپنے والدین کی بات کو اہمیت نہیں دیتی ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ اگر انھوں نے کورٹ میرج کر لی ہے تو پھر ملکی قانون انہیں تحفظ فراہم کرے گا _ ایسی صورت میں انہیں زبردستی اپنے پاس روکنا خلافِ قانون ہوگا ۔ ایسے حالات پیدا نہ ہوں ، اس کے لیے والدین کو شروع سے ہی کوشش کرنی چاہیے ۔
*سوال 4 :ایسی شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو کیا سمجھا جائے گا؟*
جواب:
ظاہر ہے ، جب نکاح ہی جائز نہیں ہے تو شریعت کے مطابق اولاد بھی جائز نہیں مانی جائے گی ۔ لیکن یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ اس میں بچوں کا کوئی قصور نہیں ہے _ انھیں ان کے والدین کی غلطیوں کی سزا نہیں دی جا سکتی ۔ وہ اگر بڑے ہوکر اسلام کو سمجھیں اور شعوری طور پر اسے قبول کرلیں تو انہیں مسلمان سمجھا جائے گا _
*سوال 5 : کچھ مسلمان لڑکیاں جذبات میں آکر گھر اور سماج سے بغاوت کرکے غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرلیتی ہیں ، پھر کچھ عرصہ بعد انھیں پچھتاوا ہونے لگتا ہے ، لیکن تب ان کے لیے گھر واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں ہوتا _ ایسی لڑکیوں کے لیے کیا رہ نمائی ہے؟*
جواب:
اگر یہ افسوس اور پچھتاوا ابتدائی دنوں ہی میں ہو تو انہیں فوراً اپنے گھر والوں کو بتانا چاہیے ۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ ان کی مکمل حمایت کریں ، انہیں سہارا دیں اور اگر ضرورت پڑے تو قانونی مدد بھی فراہم کریں ۔ مسلم معاشرے کو بھی آگے بڑھ کر ایسے معاملات کو حکمت کے ساتھ سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
لیکن اگر ایسی شادی کو طویل عرصہ گزر گیا ہے ، اب والدین بھی ایسی لڑکی کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں ، یا وہ لڑکی خود اتنی شرمندہ ہے کہ مسلم معاشرے میں واپس آنے کی ہمت نہیں کرپارہی ہے ، یا بچے ہوگئے ہیں، جو اس کے پیر کی زنجیر بن رہے ہیں تو ایسی صورت میں مسلم معاشرہ بھی کچھ نہیں کرسکتا ۔ اگر کوئی لڑکی کسی مرحلے میں مسلم معاشرے میں واپس آنے کی ہمت کرلے تو مسلم معاشرے کو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے ۔ جن خواتین کو زندگی بھر اس کاموقع نہ ملے ، ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے _ وہ جیسا چاہے گا ، فیصلہ کرے گا ۔
ظاہر ہے کہ ان کا یہ کام تو حرام ہے اور زندگی بھر وہ اس حرام کام میں ملوث رہی ہیں ۔ لیکن جب انھیں اس کا احساس ہوگیا اور انھوں نے اپنے ایمان کو بچا لیا ، نماز روزہ شروع کر دیا اور اللہ سے معافی مانگ لی تو امید کی جاتی ہے کہ اللہ انھیں معاف کردے گا ۔ دوسری طرف یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ دنیا کے فیصلے ظاہر کو دیکھ کر ہوتے ہیں اور ظاہر میں وہ مسلسل ایک غلط اور حرام کام میں ملوث رہی ہیں ۔
*سوال 6 : شریعت کی بیڑیوں کو توڑ کر غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنے والی لڑکیوں کا آخرت میں کیا معاملہ ہوگا؟*
جواب:
آخرت میں فیصلہ اللہ خود کرے گا ۔ سورہ النساء کی آیات 48 اور 116 اور دیگر آیتوں میں کہا گیا ہے ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو ہرگز معاف نہیں کرے گا ، ہاں شرک کے سوا کسی نے جتنے بھی گناہ کیے ہوں گے وہ اپنی شانِ کریمی سے انہیں معاف کر سکتا ہے ۔ اگر غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنے والی لڑکیاں شرک اور بت پرستی سے بچتی رہیں اور توبہ کرلیں تو اللہ سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ انھیں معاف کردے گا ۔
دعا کے جیسی بہت با اثر رہی ہوں میں
کسی منڈیر پہ اچھی خبر رہی ہوں میں
دھڑک رہی ہوں تمہارے بدن کی خلوت میں
تمہاری سانس سے دل میں اتر رہی ہوں میں
خود اپنے ہاتھ پہ مہندی لگا رہی ہوں مگر
گگن پہ بن کے شفق کیوں بکھر رہی ہوں میں
ملی ہوں آج بہت دن کے بعد درپن سے
تمہارے سامنے آکر سنور رہی ہوں میں
کسی کے بخت کے سب رنگ سبز ہیں مجھ سے
کسی کے واسطے پیلا شجر رہی ہوں میں
شدید تیز حرارت ہے برف ہاتھوں کی
تمام آگ ہوں پھر بھی ٹھٹھر رہی ہوں میں
اب ایک خاص تناسب سے سانس لیتی ہوں
گئے دنوں میں بہت بے ہنر رہی ہوں میں
صلیبِ وقت پہ لکھی ہوئی تھی میں انجیل
جہاں پہ کوئی نہیں تھا اُدھر رہی ہوں میں
ہیں آنسو بدگماں ہم سے ہمارے
اداسی مسئلے سمجھے ہمارے
دیا ہے لمس کا تحفہ بدن کو
کسی نے کاڑھ کے کرتے ہمارے
ہیں کم اس دکھ کو دو آنکھوں کے آنسو
کوئی روئے گلے لگ کے ہمارے
ہوائیں بند کرتی کھولتی ہیں
اسی پر خوش ہیں دروازے ہمارے
نہ دیکھا اک نظر اس خوش نظر نے
دیے رسوا ہوے جل کے ہمارے
بدن کی فائلیں دیمک کی سمجھو
یہ دفتر گر نہیں کھلتے ہمارے
یونہی نکلی نہیں ہے آہ دل سے
لگا ہے ہجر سینے سے ہمارے
وہ چہرہ آج بھی روشن ہے اتنا
ہوئے ہیں آئنے دھندلے ہمارے
نئی دہلی: ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے سابق بلے باز وی وی ایس لکشمن نے وراٹ کوہلی کی کپتانی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وراٹ کوہلی اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے لیے ایک مثالی رول ماڈل ہیں، لیکن ان کی کپتانی میں اب بھی اصلاح کی گنجائش باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وراٹ کوہلی اپنے کام کے لیے کافی حساس رہتے ہیں اور انہوں نے مثال بن کر ٹیم کی قیادت کی ہے، لیکن وہ فیلڈنگ لگاتے وقت ہوشیار رہتے ہیں اور ٹیم میں مسلسل تبدیلیاں بھی کرتے ہیں۔ وی وی ایس لکشمن نے کہاکہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے کہ جب وراٹ کوہلی میدان میں ہوتے ہیں تو وہ کھیل میں مکمل طور پر غرق ہوجاتے ہیں اور یہ بات ان کے عمل سے واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے وہ چاہے بلے بازی کریں یا فیلڈنگ اس کی لگن دیکھنے کے قابل ہے۔ جس طرح سے وہ ٹیم کی قیادت کرتے ہیں اس کا دوسرے کھلاڑیوں پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے تمام ساتھی کھلاڑیوں کو متاثر کرتا ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک کپتان کی حیثیت سے مثالی رول ماڈل ہیں۔ جہاں تک کپتانی کا تعلق ہے تو اس میں ابھی بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وراٹ کوہلی میں بہتری آسکتی ہے۔ لکشمن نے کہا کہ کوہلی کے کپتان بننے کے بعد متعدد تجربات کیے گئے ہیں جس سے کھلاڑیوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ کوہلی نے 2014 میں ٹیسٹ کی کپتانی سنبھالی تھی اور 2017 کے بعد سے وہ محدود اوورز ٹیم کے کپتان بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کچھ مواقع پر میرے خیال میں وہ فیلڈنگ لگاتے وقت تھوڑا دفاعی انداز میںہوجاتے ہیں۔ لکشمن نے کہا کہ دوسری چیز یہ ہے کہ مسلسل آخری الیون میں تبدیلی کرنا ہے۔ اپنے تجربے سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی کھلاڑی چاہے نیا ہو یا تجربہ کار استحکام اور سلامتی چاہتا ہے تاکہ وہ ٹیم کے لیے اپنی پوری کوشش کرنے پر توجہ دے سکے۔ وراٹ کو یقینی طور پر اس شعبے میں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور اس سے وہ مزید بہترکپتان بن جائیں گے۔
کسان تحریک:سپریم کورٹ نے مرکز،پنجاب اور ہریانہ کو جاری کیا نوٹس،جواب طلب،کل ہوگی سماعت
نئی دہلی:کسانوں کی تحریک سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی سماعت بدھ کوہوئی۔ عدالت عظمی نے بھارتی کسان یونین اور کئی دیگر کسان یونینوں کو اس معاملے میں فریق بنانے کی اجازت دی ہے۔ عدالت نے مرکز، پنجاب، ہریانہ کو نوٹس جاری کیا اور انہیں کل تک جواب دینا ہوگا۔ کل اس معاملے میں سماعت ہوگی۔سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران کہا کہ ہم اس معاملے میں ایک کمیٹی تشکیل دیں گے، جو معاملے کو حل کرے گی۔ اس میں کسان تنظیم، مرکزی حکومت اور دیگر لوگ ہوں گے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ فی الحال حکومت اور کسانوں کے مابین حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہاہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومت کی بات چیت ناکام ہوجائے گی اور یہ جلد ہی ایک قومی مسئلہ بن جائے گا۔ ہم کمیٹی تشکیل دے کر اس مسئلے کو حل کریں گے۔درخواستوں پر غور کرنے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے کہ درخواست میں صرف ایک ہی بنیاد ہے کہ یہ مسئلہ آزاد تحریک کا ہے، جس کی وجہ سے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ انہوں نے سالیسٹر جنرل تاشرمہتا سے کہا کہ ہمارے سامنے وہ لوگ نہیں ہیںآپ کے سوا جنہوں نے راستہ روکا ہے ۔ ایس جی نے کہا کہ ہم نے راستہ نہیں روکا۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ راستہ تو آپ نے روکا کسانوں کو دہلی آنے سے ؟ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کون کون سے کسان یونین ہیں؟ ایس جی نے کہا کہ حکومت بات چیت کررہی ہے۔ایس جی نے بتایا کہ کسانوں کے ساتھ متعدد دور کی بات چیت ہوچکی ہے، لیکن کسان قانون کو منسوخ کرنے پر بضدہیں، وہ حکومت سے ہاں یا نہیں میں جواب چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ کسانوں کی تحریک سے متعلق سپریم کورٹ میں تین درخواستیں دائر کی گئیں ہیں۔ ان درخواستوں پر چیف جسٹس جے ایس اے بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی رام سبرامنیم کی بنچ سماعت کررہی ہے۔ پہلی درخواست میں دہلی کے رہائشی رشبھ شرما نے دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے کسانوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس مظاہرے سے کورونا کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور لوگوں کو آمدورفت کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکام کو فوری طور پر بارڈر کھولنے کا حکم دیا جائے۔ نیز احتجاج کو معاشرتی فاصلے اور ماسک وغیرہ کے ساتھ کسی خاص جگہ پر منتقل کرنا چاہیے۔
کسانوں پر سیاست ملک مفاد میں نہیں،کچھ طاقتیںاحتجاج کافائدہ اٹھانا چاہتی ہیں:گڈکری
نئی دہلی:مرکزی وزیر نتن گڈکری نے بدھ کے روز کہا کہ کسانوں کوگمراہ کرنے اور ان کی تحریک سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کسانوں کی تنظیموں سے بھی اپیل کی کہ وہ حکومت سے بامقصد بات چیت کرتے ہوئے تعطل کو ختم کریں۔ بی جے پی کے سینئر رہنما اور سابق صدر نے کہا کہ اس معاملے پر بیرونی ممالک کی طرف سے آنے والے بیانات غیر منصفانہ اور بلا وجہ ہیں کیوں کہ ہندوستان نے کبھی کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی ہے۔ نتن گڈکری نے کہاکہ کچھ طاقتیں کسانوں کو گمراہ کرنے اور مظاہرے کا استحصال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس طرح کی سیاست ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ جمہوریت میں حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہے،ہم ان کے حقیقی مطالبات کو ماننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں آگے آکر بات کرنا چاہیے۔ مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہوے گڈکری نے کہا کہ جب حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہے تو کسانوں کو بھی آگے آنا چاہیے کیونکہ جہاں بات چیت نہیں ہوگی، وہاں مسائل اور غلط فہمیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیر نے کہا کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ نکسلیوں کی حمایت کرنے والے لوگوں کی تصاویر جن کا کسانوں سے کوئی رشتہ نہیں رہا ہے وہ کسانوں کے احتجاج کے دوران کیوں نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ایسے عناصر کی کوششوں کو ناکام بنانا چاہیے اور حکومت کے ساتھ تینوں زرعی قوانین پر بات چیت کرنی چاہیے۔ یہ پوچھے جانے سے کہ تعطل ختم کیوں نہیں ہورہا ہے توگڈکری نے کہا کہ کسان تنظیموں کو سمجھنا چاہیے کہ کچھ عناصر ان کو گمراہ کرناچاہتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ لوگ جو صرف منڈی میں سامان فروخت کرنے کی بات کررہے ہیں دراصل وہ ہیں جو کسانوں کے ساتھ ناانصافی کررہے ہیں۔ زرعی قوانین کارپوریٹس اور صنعتکاروں کو فائدہ پہنچانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوے گڈکری نے کہا کہ یہ صرف کسانوں کے مفاد کے لیے ہیں اور بہت سوچ سمجھ کر بنائے گئے ہیں۔
لکھنؤ:اترپردیش اسمبلی انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی جوڑ توڑ شروع کردی ہے۔ بہار کی طرز پر اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی چھوٹی جماعتوں میں شامل ہوکر ایک بڑا اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اسد الدین اویسی اور سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے صدر اوم پرکاش راج بھر نے لکھنؤ میں ملاقات کی اور اویسی نے شیوپال یادو کی تعریف بھی کی، جنہوںنے اپنی پارٹی کو ایس پی سے الگ کرلیاہے ۔ ایسی صورتحال میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اویسی یوپی میں ایک نئے اتحاد کے ساتھ انتخابی میدان میں داخل ہوسکتے ہیں۔اسدالدین اویسی نے پرگتی شیل پارٹی کے صدر شیو پال کی تعریف کی اور کہاکہ وہ بڑے رہنما ہیں اور ان سے بات کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ شیو پال یادو نے بھی حال ہی میں اسدالدین اویسی کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ وہ سیکولر لیڈر ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اسد الدین اویسی 2022 کے انتخابات میں چھوٹی جماعتوں کا مضبوط اتحاد تشکیل دے کر انتخابی میدان میں اترسکتے ہیں۔در اصل بہار میں 5 نشستیں جیتنے کے بعد اسدالدین اویسی اترپردیش میں اپنی پارٹی کی گرفت کو بڑھانے کے لیے متعدد علاقائی پارٹیوں سے بات کر رہے ہیں، اسی سلسلے میں اوم پرکاش راج بھر سے آج ملاقات کی۔ اویسی نے کہا کہ وہ چھوٹی جماعتوں میں شامل ہوکر صوبے میں ایک نیا سیاسی متبادل تیار کررہے ہیں۔
حکومت دیگر کسان تنظیموں کے ساتھ متوازی مذاکرات بند کرے،کسان یونین نے مرکزکوخط لکھا
نئی دہلی:نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والی 40کسان یونینوں نے بدھ کے روز مرکز کو ایک خط میں متنازعہ قانون پردیگرکسان تنظیموں کے ساتھ متوازی بات چیت نہ کرنے کوکہاہے ۔کسان مورچہ نے ایک ایسے وقت میں حکومت کو خط لکھاہے جب وہ مختلف ریاستوں کی کسانوں کی متعدد تنظیموں سے بات چیت کر رہی ہے اور مرکز نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ ان تنظیموں نے نئے زرعی قوانین کی حمایت کی ہے۔مشترکہ کسان مورچہ متعددکسان تنظیموں کی نمائندگی کرتا ہے (جن میں بیشتر کا تعلق پنجاب سے ہے)۔مرکزی وزارت زراعت اور کسان بہبود کے جوائنٹ سکریٹری ، ویویک اگروال کو لکھے گئے ایک خط میں مورچہ نے کہاہے کہ مرکز کو دہلی کی سرحدوں پر تینوں زرعی قوانین کے خلاف ہونے والے احتجاج کوبدنام کرنابھی چھوڑنا چاہیے۔متحدہ کسان مورچہ کے ممبر ، درشن پال نے ہندی میں لکھے گئے ایک خط میں کہاہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت کسانوں کی تحریک کو بدنام نہ کرے اور دیگر کسان تنظیموں کے ساتھ متوازی بات چیت بند کرے۔اپنے خط میں پال نے کسانوں کی یونین کے نئے قوانین میں ترمیم کرنے کی حکومت کی تجویز کو مسترد کرنے کے فیصلے کو تحریری طور پر بھی دیا۔انہوں نے کہا ہے کہ (9 دسمبر کو) بھیجی گئی تجویز اور آپ (اگروال )کے خط کے تناظر میں ہم حکومت کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کسانوں نے اسی دن اس تجویز پر بات کرنے اور اسے مسترد کرنے کے لیے مشترکہ میٹنگ کی تھی۔پال نے کہا ہے کہ ہم نے(حکومت کے ساتھ) صرف آخری گفتگو میں ہی اپنا موقف واضح کیا تھا لہٰذاہم نے خط کا تحریری جواب بھیجا۔اترپردیش کی بھارتیہ کسان یونین (کسان) کے نمائندوں نے منگل کو وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر سے ملاقات کی اور قوانین اور کم سے کم سپورٹ قیمت سے متعلق تجاویز کا ایک میمورنڈم پیش کیا۔بھارتیہ کسان یونین (کسان) نے اس وقت تک اپنا احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، جو اتر پردیش میں ضلعی سطح پر مظاہرہ کررہے تھے۔اہم بات یہ ہے کہ دہلی کی سرحدوں پر ہزاروں کسان 21 دن سے نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کے مطالبے پر ہیں۔
تمام مذاہب میں طلاق کے لیے ایک ہی قانون بنایا جائے،سپریم کورٹ میں بی جے پی لیڈر کی عرضی
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے تمام مذاہب میں طلاق اور خواتین کے تحفظ اورقانون کی مساوات کی درخواست پرسماعت کی ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے کہاہے کہ وہ اس معاملے میں انتہائی احتیاط کے ساتھ نوٹس جاری کررہی ہے۔ سماعت کے دوران ، چیف جسٹس ایس اے بوبڑے نے کہاہے کہ ہم پرسنل لا میں کس طرح تجاوزات کرسکتے ہیں۔ درخواست میں خواتین سے کسی بھی مذہبی وابستگی سے قطع نظر طلاق دینے کے لیے یکساں اصول کامطالبہ کیاگیاتھا۔دراصل اسے یونیفارم سول کوڈکی طرف آہستہ آہستہ بڑھتاقدم سمجھاجارہاہے ۔سینئروکیل پنکی آنند اور میناکشی اروڑا نے اس استدعاکی دلیل دی۔ جس کے بعد سپریم کورٹ درخواست کی جانچ کرنے پر راضی ہوگیا۔ آئین اور بین الاقوامی معاہدوں کی روح کے مطابق سپریم کورٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کے لیے کسی مذہب ، طبقے ، ذات پات کی تفریق کے بغیرخواتین کو طلاق کے مساوی اصولوں اور مساوی الاؤنس کی فراہمی کا مطالبہ کیا جائے۔ بی جے پی رہنما اور وکیل اشونی کمار اپادھیائے نے اس سلسلے میں ایک پی آئی ایل دائرکی ہے۔درخواست میں سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مرکزی حکومت کو طلاق سے متعلق قوانین میں موجود تضاد کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کرے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کوچاہیے کہ وہ مذہب ، نسل ، ذات ، جنس یا پیدائش کی جگہ پر طلاق کے معاملے پر تعصب کے بغیر تمام شہریوں کے لیے مساوی قوانین بنانے کے لیے مرکزی حکومت کو ہدایات جاری کرے۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدالت یہ اعلان کرے کہ طلاق کے متعصبانہ ضابطوں سے آرٹیکل 14 ، 15 ، 21 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں تمام شہریوں کے لیے طلاق کی ایک ہی بنیاد پر رہنما اصول جاری کیے جائیں۔
کانگریس کا پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ،راہل گاندھی نے کہا،وقت ضائع ہوا
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدرراہل گاندھی اور پارٹی کے دیگر ممبران دفاعی امور سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے۔ ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ پارلیمانی کمیٹی نے مسلح افواج کی وردیوں پر بات چیت کرکے اس وقت کو خراب کیا ہے جب کہ یہ بحث اس بات پر ہونی چاہیے تھی کہ کس طرح افواج کوبہترسہولیات سے لیس کیا جائے۔اس سے قبل کانگریس کے لیڈرراہل گاندھی نے ٹویٹ کیاتھاکہ1971 میں پاکستان پرہندوستان کی تاریخی فتح کا جشن منانے پر وطن عزیز کو مبارکباد اور فوج کی بہادری کو سلام۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان کے پڑوسی ممالک ہندوستان کے وزیر اعظم کا لوہا مانتے تھے اور ہمارے ملک کی سرحد کی خلاف ورزی کرنے سے ڈرتے تھے۔اپنے ٹویٹ میں راہل گاندھی نے اشاروں میں وزیر اعظم نریندر مودی پر طنز کیا۔ دراصل راہل گاندھی چین کے ساتھ لداخ بارڈر پر تنازعہ کو مستقل طور پر اٹھا رہے ہیں اور وہ وزیر اعظم نریندر مودی پر جارحانہ انداز میں حملہ کرتے رہے ہیں۔
شادی کے لیے تبدیلی مذہب:الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں مداخلت کی ضرورت نہیں:سپریم کورٹ
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلینج کرنے والی درخواست کو مسترد کردیا کہ شادی کے لیے تبدیلی مذہب کوبرقرار رکھا جاناچاہیے۔ اس سے متعلق ایک درخواست عدالت میں دائر کی گئی تھی ، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر عدالت کسی شخص کو آزادانہ طور پر اپنے مذہب کا انتخاب کرنے کی آزادی نہیں دیتی ہے تویہ آئین کے تحت اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے کہاہے کہ پہلے ہی الہ آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سنگل بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیاہے۔ ایسی صورتحال میں ہمیں مداخلت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے درخواست گزار نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو غلط مثال قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک رٹ پٹیشن میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔دراصل سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے شادی کے مقصد سے مذہب کی تبدیلی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ مختلف مذہب والے شادی شدہ جوڑے کو پولیس تحفظ نہ دے کر انہوں نے ایک غلط مثال قائم کردی ہے۔
آنکھوں میں سب بٹھائیں ،گودی میں سب کھلائیں
ہنستا ہوا جو دیکھیں ، تو وہ بھی مسکرائیں
صبح و مسا کسی پل ، گر سن لیں میری آہیں
میری خوشی کی خاطر , گھوڑا بھی بن دکھائیں
بن جاؤں میں دوبارا ، آنکھوں کی سب کا تارہ
اے کاش لوٹ آئے ، بچپن مرا دوبارا
ہر شب پری کے قصے ، امی مجھے سنائیں
” میرے جگر کا ٹکڑا ” ، کہہ کر مجھے بلائیں
اَبّا کی چھٹیوں کے ، جب دن کبھی بھی آئیں
تو سائیکل سے مجھکو ، تڑکے صبح گھمائیں
بہنے لگے زمانے کی کاش الٹی دھارا
اے کاش لوٹ آئے ، بچپن مرا دوبارا
نہ فکرِ زندگی تھی ، نہ اس پے جاں نثاری
درد و الم کے سارے احساس سے تھا عاری
سارا جہان میرا ، بس تھی وہ ایک ناری
آواز جسکی مجھکو , لگتی تھی سب سے پیاری
وہ دن گزر گئے ، اب ہوں مشکلوں کا مارا
اے کاش لوٹ آئے ، بچپن مرا دوبارا
یاروں کے ساتھ مل کر بارش میں وہ نہانا
ساحل پے بیٹھ کر وہ ، بالو میں گھر بنانا
کتنے حسین پل تھے ، کتنا حسیں زمانہ
سب کچھ بدل گیا اب ، سب ہو گیا فسانہ
آخر ہوا کیوں ایسا ، کیا جرم تھا ہمارا ؟
اے کاش لوٹ آئے ، بچپن مرا دوبارا
بچپن کے سارے ساتھی ، روپوش ہو گئے ہیں
موجود ہیں جو وہ بھی خاموش ہو گئے ہیں
لگتا ہے جیسے گویا بے ہوش ہو گئے ہیں
دنیا کے پیچھے ایسے ، مدہوش ہو گئے ہیں
اس سے تو اچھا اسعد ، بچپن ہی تھا ہمارا
اے کاش لوٹ آئے ، بچپن مرا دوبارا
(ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق کی رحلت پر لکھا گیا مضمون)
مشتاق بھیّا! آپ ہم سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ تو ابھی اچھّے بچھّے تھے، ابھی ملازمت میں تھے۔ اس سال بھی اکتوبر نومبر میں آپ سے ملاقات کرنے مَیں دو تین بار آپ کے گھر گیا تھا۔ آپ بہت خوش ہوئے تھے۔ آپ نے اپنی تازہ کتاب ’’برگ ہائے ادب‘‘ کا ٹائپ شدہ مسودہ ہمیں دکھایا تھا۔ میں نے آپ کو پاپا کے ساتھ بٹھاکر آپ کی دو تین بہت خوبصورت تصویریں اُتاری تھیں۔ ایک تصویر میں آپ اپنی کتاب اُٹھاکر سرورق دِکھا رہے ہیں۔ اردو زبان و ادب آپ کا شوق تھا۔ آپ کالج میں اردو پڑھاتے تھے، کالج سے باہر آتے تو اردو کا اخبار، رسالہ اور کتابیں پڑھتے تھے۔ اردو کے شاعروں اور ادیبوں کی محفلوں میں بیٹھنا، مشاعروں میں اشعار سننا اور سمیناروں میں اپنے مضامین پڑھنا، اخبار کے لیے اردو کے شاعروں ادیبوں پر مضامین اور ان کی کتابوں پر تبصرے لکھ کر چھپوانا آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ اردو آپ کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ آپ اپنے ذاتی کمرے میں الماریوں کے ریکس پر اردو کی کتابیں اور رسالے سجاکر رکھتے تھے۔ باہر دروازے پر ٹیبل پر تازہ اخبارات اور رسالے رکھتے تھے۔ سادگی اور صفائی، تہذیب و شائستگی، شرافت اور عمدہ اخلاق آپ کی شخصیت کے عناصرِ ترکیبی تھے۔ آپ اپنے استاد یعنی میرے پاپا کا بہت احترام کرتے تھے۔ میں نے آپ کو ہمیشہ میز پر پاپا کے روبرو بیٹھا ہوا دیکھا۔ لکھنے پڑھنے میں آپ اُن کے معاون تھے اور وہ آپ کے مربّی و محسن تھے۔ آپ نے بہت محنت سے ایم-اے اور پی ایچ-ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ آپ لکھتے لکھتے پانچ کتابوں کے مرتب و مصنف ہوگئے۔ آپ زندہ رہتے تو ابھی اور لکھتے کیونکہ آپ کو لکھنے کی عادت تھی۔ یہی آپ کی ہمہ وقت کی مصروفیت تھی، یہی آپ کا شوق تھا۔
مشتاق بھیّا ہم سب بھائی بہن نفیس، شمیم، سنبل اور لالہ رُخ خانم آپ کی رحلت کی خبر سن کر غم و اندوہ میں ڈوب گئے ہیں۔ ہم اب آپ کو کبھی نہیں دیکھ سکیں گے، یہ سوچ کر اپنی بے بسی بہت تڑپاتی ہے اور آپ سے جدائی کا غم اور بڑھ جاتا ہے۔
مشتاق بھیّا! جب آپ کا کوئی مضمون مکمل ہوتا یا اخبار میں شائع ہوتا تو سب سے پہلے آپ میرے یہاں آتے تھے۔ آپ اپنے استاد ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کو لاکر دکھاتے۔ آپ کتنے خوش ہوتے جب پاپا آپ کی تحریر کی نوک پلک درست کردیتے تھے، آپ کو لکھنے کی ترغیب دیتے اور اخبار و رسائل میں چھپنے پر آپ کو مبارک باد دیتے تھے۔
مشتاق بھیّا! آپ کتنے مہذّب، ملنسار اور شریف تھے۔ ہم سب بھائی بہنوں کو بہت پیار کرتے تھے۔ میرے گھر کی تمام تقریبات میں خوشی خوشی شرکت کرتے۔ میرا نیا گھر محلہ باغملی میں بنا، کار خریدی گئی، میں نے اپنی موٹر سائیکل خریدی، پھر میری بیٹی پیدا ہوئی، ہر خوشی کے موقع پر آپ نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ میں تحقیقی مقالہ لکھ رہا تھا، اُس وقت بھی آپ نے اپنے قیمتی اوقات کی قربانی دے کر مقالے کی صفائی میں میرا ساتھ دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آپ کبھی شرٹ پینٹ میں ہوتے اور کبھی کرتا پاجامہ میں نظر آتے۔ خاص موقعوں پر آپ سوٹ ٹائی اور بوٹ میں آتے تھے۔ شیروانی پاجامہ میں بھی آپ کو میں نے بہت دنوں تک دیکھا ہے۔ علی گڑھ سے کالی شیروانی سِلوا کر لائے تو جمعہ، عیدین اور خصوصی محفلوں میں وہی پہن کر جاتے تھے۔ خوبصورت اور صاف ستھرے کپڑے اور پالش کیے ہوئے جوتوں میں رہنا آپ کو پسند تھا۔
ہمہ وقت کی مسکراہٹ آپ کی پہچان تھی۔ ہر چھوٹے بڑے سے جھک کر ملتے تھے۔ آپ کے تمام احباب، دوست اور ساتھی آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ کے جنازے میں، پھر تعزیتی نشست میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور آپ کی خوبیاں بیان ہوئیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اللہ کے نیک بندے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی آپ آرام سے ہوںگے اور مسکرا رہے ہوںگے۔
آپ کا دروازہ تو ویران ہی ہوگیا۔ میرا دروازہ بھی اب اُداس سا لگتا ہے۔ وہ میز اور وہ کرسی جس پر آپ آکر لکھتے تھے، اب خالی ہیں۔ پاپا تنہا وہاں بیٹھ کر اداسی اور رنج و اندوہ میں ڈوب جاتے ہیں۔ مشتاق بھیّا! ہم آپ کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ یہاں کی ادبی محفلوں میں ہمیشہ آپ کی کمی محسوس ہوگی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور وہاں بھی آپ مسکراتے رہیں۔
مشکل یہ ہے کہ آپ اپنا کوئی موقف سامنے رکھیے تو جو آپ کے موقف کے حامی نہیں وہ جذباتی فقرے کسنے لگتے ہیں ۔ ان کے اندر غصہ پنپنے لگتا ہے۔دلائل ہیں تو دلائل سے بحث کیجیے۔نہ میں آپ پر اپنا موقف تھوپ سکتا ہوں نہ آپ مجھ پر۔۔ پھر کیوں جارحانہ’ احمقانہ اور جاہلانہ بحث کی جائے۔دوسروں کو دکھانے کیلئے ہی سہی اخلاق کے دائرہ میں رہ کر بات کی جائے ۔
میں صحافت کا ادنی طالب علم ہوں۔تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ اسی دشت میں گزار دیا ہے۔میں کسی سیاسی پارٹی کا نہ دوست ہوں اور نہ دشمن۔نہ موافق اور نہ مخالف۔فرقہ پرور طاقتوں کی حمایت کبھی نہیں کرسکتا۔سیکولر فورسز کو مطلق حمایت دے نہیں سکتا۔میں کسی سیاسی پارٹی کا ممبر بھی نہیں ہوں ۔میں نے ایک استثنیٰ کو چھوڑ کر اس پورے عرصہ میں کبھی نہیں کہا کہ فلاں پارٹی کو ووٹ دیا جانا چاہیے۔
بعض اوقات اچھے اقدام اور اچھے بیانات پر فرقہ پرستوں کی تائید کی ہے۔بسا اوقات سیکولر طاقتوں کی گرفت کی ہے۔میری مستقل پوزيشن یہی ہے۔مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت کے دونوں دھڑے مجھے اپنا نہیں سمجھتے۔ لیکن جب دونوں میں سے کوئی اچھا کام کرتا ہے تو آنکھ بند کرکے دونوں کی غیر مشروط ستائش کرتا ہوں ۔اس لیےکہ نہ ستائش کی تمنا ہے اور نہ صلہ کی آرزو،لیکن اس کے باوجود خدا کا شکر ہے کہ مسلمانوں کی تمام بڑی جماعتوں کے قائدین مجھ سے نفرت نہیں کرتے۔مجھ سے شفقت کا سلوک کرتے ہیں ۔ہر مکتب فکر میں میرے مداح اور خیر خواہ موجود ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ گزارش کی تھی کہ مجلس اتحاد المسلمین کا نام اگر مجلس اتحاد کردیا جائے تو ممکن ہے اس کا کوئی اچھا نتیجہ برآمد ہو۔ لیکن مجلسی احباب نے خوب کھری کھوٹی سنائیں۔
اس تمہید کے بعد اپنے احباب سے اور خاص طور پر مجلس اتحاد المسلمین سے وابستہ افراد سے ایک سوال ہے:
کیا مجلس ‘ حکومت سازی کےلیےمطلوب لوک سبھا کی 272 سیٹیں جیت سکتی ہے؟
1- بی جے پی سے اتحاد کا کوئی سوال نہیں ۔
2- کا نگریس سے وہ سمجھوتہ کرے گی نہیں ۔
3- بہار میں مہا گٹھبندھن والے اسے ساتھ لیتے نہیں ۔
4- بنگال میں ممتا ساتھ لیں گی نہیں ۔
5- یوپی میں وہ سماجوادی کے ساتھ جاتے نہیں ۔
6- تلنگانہ میں ساتھ ہوکر بھی ایک ہی سیٹ (جو وہ ہمیشہ جیتتے رہے ہیں) جیت سکے ۔
7- آندھرا میں جگن ریڈی انہیں لیں گے نہیں ۔
8- مہاراشٹر’ گجرات’ اڑیسہ’ کرناٹک’ راجستھان’ مدھیہ پردیش’ پنجاب’ تامل ناڈو میں انہیں کوئی لے گا نہیں ۔
9- پھر کتنی سیٹیں وہ اپنے دم پر لاسکیں گے ؟ دو ؟
10- پارلیمنٹ میں ان کی دو سیٹیں ہیں ۔مودی کو کس ظلم سے وہ باز رکھ سکے اور مسلمانوں کا کون سا مجموعی فائدہ کرسکے ؟
اب ذرا یہ بتائیے:
بنگال میں ترنمول کی ممتا’ بہار میں لالو کی آر جے ڈی اور یوپی میں ملایم/ اکھلیش کی سماجوادی نے مجموعی طور پر مسلمانوں کا کیا نقصان کیا؟ اور پچھلے 6 برسوں میں مودی حکومت نے مسلمانوں کو کون سا نقصان نہیں پہنچایا؟