کابل:افغان طالبان نے پنٹاگون کی جانب سے تقریباً 2 ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلانے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک اچھا قدم ہے جس سے ملک میں جاری طویل تنازع کے خاتمے میں مدد ملے گی۔خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیرونی جنگوں کو ختم کرنے کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان اور عراق سے اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم کریں گے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھا قدم ہے اور دونوں ممالک کے شہریوں کے مفاد میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘جتنی جلدی بیرونی فورسز واپس چلی جائیں گی اس قدر ہی جلد جنگ کا خاتمہ ہوگا۔دوسری جانب ناقدین نے امریکا کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے طالبان کی حوصلہ افزائی ہوگی اور 2001 سے حاصل کی گئیں کامیابیوں کا خاتمہ ہوگا۔پنٹاگون کے اس فیصلے کے تحت 15 جنوری تک افغانستان سے 2 ہزار فوجیوں کا انخلا ہوگا جبکہ اس کے ایک ہفتے بعد نومنتخب صدر جو بائیڈن ممکنہ طور پر اپنا منصب سنبھال لیں گے۔افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان سرزمین پر فوجی مداخلت کو ختم کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے اور رواں برس 29 فروری کو طالبان کے ساتھ معاہدے میں اس پر اتفاق کیا گیا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ نے مئی 2021 تک افغانستان سے تمام غیر ملکی فورسز کے انخلا کا معاہدہ کیا تھا۔معاہدے کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی فورسز پر حملہ نہیں کریں گے اور القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو دوبارہ ابھرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔جرمنی نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے تیزی سے انخلا کے فیصلے پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے امن کی کوششوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔واضح رہے کہ شمالی افغانستان میں جرمنی کے سیکڑوں فوجی موجود ہیں۔ جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس کا کہنا تھا کہ ہمیں تشویش اس بات پر ہے کہ امریکا کے اعلان سے افغانستان میں ہونے والے امن مذاکرات پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسی اضافی رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنی چاہیے، جو خاص طور پر افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کے باعث ہوں گی۔افغان حکومت کے عہدیداروں نے امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے کو جلد بازی قرار دیا جس کے تحت 15 جنوری کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2 ہزار 500 تک محدود ہو جائے گی۔
19 نومبر, 2020
حافظ سعیدکے گرد گھیرا تنگ:پاکستانی عدالت سے دہشت گردی کے دو واقعات میں 10 سال قید کی سزا
لاہور:اطلاع کے مطابق نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 26/11 ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ حافظ سعید کو پاکستانی عدالت نے دہشت گردی کے دو مقدمات میں 10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب دہشت گرد گروہ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃکے سربراہ حافظ سعید کو پاکستانی عدالت نے دہشت گردی کے ایک مقدمے میں سزا سنائی ہے۔ فروری میں حافظ سعید اور اس کے دیگر ہم کاروں کوبھی دہشت گردی سے متعلق مالی اعانت کیس میں 11 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔حافظ سعید نے ممبئی میں 2008 میں ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی ، جب 10 دہشت گردوں کے ذریعہ 166 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوے تھے۔ حافظ سعید جسے اقوام متحدہ اور امریکہ کے ذریعہ ’عالمی دہشت گرد‘ بھی کہا جاتا ہے ، کے سر پر 10 ملین ڈالر کا انعام ہے ۔ حافظ سعید کو گزشتہ سال جولائی میں بین الاقوامی دباؤ سے دہشت گردی کی مالی اعانت کے معاملے میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستان اپنی شبیہ صاف کرنے کے لیے یہ کام کر رہا ہے۔سعید کو لاہور کی اعلیٰ سکیورٹی کوٹ لکھپت جیل میں رکھا جارہا ہے۔ عالمی دہشت گردی کی مالی معاونت کے معاملات پر نظر رکھنے والی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دباؤ میں پاکستان نے آزادانہ طور پر گھومنے والے دہشت گردوں کے خلاف یہ اقدام اٹھایا ہے۔ پاکستان کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے جماعت الدعو ۃ کے رہنماؤں کیخلاف 41 مقدمات درج کیے ہیں اور حافظ سعید کیخلاف چار مقدمات کا فیصلہ کیا گیا ہے، باقی کیس متعدد عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
شیوسینا لیڈر کا مٹھائی فروش کو حکم:دکان کے نام سے لفظ ’کراچی‘مٹایا جائے،سنجے راوت نے کہا:شیوسینااس حرکت کی حمایت نہیں کرتی
ممبئی:مہاراشٹرا میں نام نہاد طو ر پر مراٹھی اعزاز کے نام پر مذہبی یا لسانی طور پر اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعہ میں شیوسینا رہنما ایک مٹھائی فروش کو دھمکی دیتے ہوے دیکھے گئے ہیں ،جس میں وہ مٹھائی فروش کو دکان کے نام سے لفظ’ کراچی‘ کو مٹانے کیلئے دباؤ ڈالا ہے۔ویڈیو میں مٹھائی فروش شیوسینا کے نیتا کے سامنے ہاتھ جوڑے نظر آرہا ہے،اپنے آپ کو سماجی کارکن بتانے والے شیوسینا کے رہنما نتن نندگاؤنکر کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ، جس کے بعد انہیں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اس دو منٹ کی ویڈیو میں شیوسینا رہنمامٹھائی کی دکان کے مالک کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ ویڈیو کب کا ہے اور کس نے اسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔شیوسینا لیڈر اور سامنا کے ایڈیٹر سنجے راوت اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ٹوئٹ کرکے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ یہ دکان گزشتہ ساٹھ سال سے ممبئی میں ہے اور اس کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،لہذا اسے نام بدلنے پر مجبور کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور شیوسینا اس کی حمایت نہیں کرتی ہے۔
بہار کے سابق نائب وزیراعلیٰ سوشیل مودی کو دی گئی نئی ذمہ داری،قانون ساز کونسل کے ممبران کو اخلاقیات کا’درس دیں گے‘
پٹنہ:بہار کے سابق نائب وزیر اعلی اوربی جے پی کے سینئر رہنما سشیل مودی کو ایک نئی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ سشیل مودی کو قانون ساز کونسل میں اخلاقی کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا ہے۔ سنجے جھا کو پٹیشن کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ اب سشیل مودی قانون ساز کونسل کے ممبروں کو اخلاقیات سے آگاہ کریں گے ۔ بی جے پی کے رہنما اس بات پر نگاہ رکھیں گے کہ ممبران اسمبلی کا طرزِ عمل کیسا ہے۔ پہلے وزیر اعلی نتیش کمار اس کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ نتیش کمار نے اخلاقیات کمیٹی کا عہدہ تشکیل دیا تھا۔ سشیل مودی نے جمعرات کو ٹوئٹ کرکے اس کے بارے میں جانکاری دی۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ بہار قانون ساز کونسل کے اخلاقیات کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد چیئرمین سے ملاقات کی اور اپنے دفتر کے کمرے کا معائنہ کیا۔ کہا جارہا تھا کہ اس بار ڈپٹی سی ایم کا عہدہ نہ ملنے پر سشیل مودی نالاں ہیں۔ لیکن بہار انتخابات کے انچارج رہنے والے مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے اس برہمی کو مسترد کردیاتھا۔ دیویندر فڑنویس نے سشیل مودی کو پارٹی کا ورثہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سشیل مودی ناراض نہیں ہیں، اور پارٹی ان کے لیے کچھ سوچے گی اور نئی ذمہ داری دے گی۔
اب بہار الیکشن میں کانگریس کے انچارج رہنےوالے اکھلیش پرسادبولے:کانگریس میں بڑی تبدیلی کی ضرورت
نئی دہلی:بہار اسمبلی الیکشن میں کانگریس کے انتخابی مہم انچارج اکھلیش پرساد سنگھ نے پارٹی کی مایوس کن کارکردگی کے بارے میں اپنی چپی توڑ ی ہے۔ بہار انتخابات میں شکست کی ذمہ داری لیتے ہوے کانگریس رہنما نے کہا ہے کہ انہوں نے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی سے ملنے کے لیے وقت مانگا ہے ، تاکہ مستقبل پرکسی مثبت لائحہ عمل پر بات کی جائے۔ کانگریس رہنما نے کہا کہ پارٹی کو کسی بھی ریاست میں انتخابات جیتنے کے لئے تنظیمی سطح پر بڑی تبدیلیوںکی ضرورت ہے۔ اکھلیش پرساد نے کہا کہ کانگریس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے انتخابات لڑنے کے لئے غلط نشستوں کا انتخاب کیا۔ اس صورتحال میں وہ جلد ہی راہل گاندھی سے انتخاب میں ناقص کارکردگی کے موضوع پر بات کرنے کے لیے ملاقات کریں گے۔ اکھلیش پرساد سنگھ نے بتایا کہ کانگریس کی طرف سے نشستوں کا انتخاب غلط تھا ، فیصلہ سے قبل غور و فکر کرنا ضروری تھا ، لیکن پارٹی نے جلد بازی سے فیصلہ کیا۔ میں بہار کے انتخابات کو ہارنے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں ، میں راہل گاندھی سے ملنے کے لیے وقت مانگا ہے، ان سے کہوں گا کہ پارٹی کی کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں مزید نکھارلانے کی بھی ضرورت ہے ۔کانگریس کے رہنما نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی ریاست میں انتخابات جیتنے کے لیے کانگریس کو پارٹی سطح میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ پارٹی کے اندر خاص طور پر ضلع اور بلاک سطح پر خامیاں ہیں، ان خامیوں کو رفع کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکی ووٹروں نے صدارتی انتخابات میں کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی، ابتر معیشت اور سیاہ فاموں کے خلاف نسلی تشدد کیلئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو وا ئٹ ہاوس سے باہر کا راستہ تو دکھا دیا، مگر ہزاروں میل دور بھارت کی مشرقی ریاست بہار کے حالیہ انتخابات میں جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کے زیر قیادت اتحاد نے اقتدار میں واپسی کی، اس سے لگتا ہے کہ دہلی میں ہوئے مسلم کش فسادات ،کورونا وائرس سے نپٹنے میں ناکامی یا لاک ڈاون کی وجہ سے مہاجر مزدوروں کی حالت زار بھارتی ووٹروں کو پسیج نہیں پائی۔ تمام تر ناکامیو ں کے باوجود ، وہ مودی کی گفتار اور ہندو تواکی سیاست کے اسیر ہیں۔ مگر باریک بینی سے انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کرنے سے یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ مودی کے رتھ کو روکنے میں ناکامی کی ذمے داری اپوزیشن کانگریس کے سر جاتی ہے، جس کی من مانی اور زیادہ سے زیادہ سیوں پر الیکشن لڑنے کی ضد نے سیکولر اتحاد کی کامیابی میں روڑے اٹکائے۔ اب اس کے لیڈر مع چند بندھوا مسلم لیڈران و علما سیکولر اتحاد کی ہار کا پورا ٹھیکرا حیدر آباد کے ممبر پارلیمان اسدالدین اویسی کے سر پر پھوڑکر یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ ان کی وجہ سے مسلم ووٹ بکھر گیا اور ہندو ووٹ یکجا ہوگیا۔ اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم) دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی جنتا دل کے ساتھ مل کر 20 نشستوں پر قسمت آزمائی کر رہی تھی اور پانچ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ کانگریس نے پچھلی بارکل 243 نشستوں میں سے 40نشستوں پر انتخاب لڑا اور20جیت گئی تھی۔ اس بار اس نے 70سیٹوں پر لڑنے کی ضد کی، مگر بس 19میں کامیابی حاصل کی۔اگر یہ سیٹیں بائیں بازو یا راشٹریہ جنتا دل کے کھاتے میں چلی جاتی، تو نتائج کچھ مختلف ہوتے۔
مجھے یاد ہے کہ کانگریس پارٹی کے صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے ایک ماہ بعد دہلی کے سری فورٹ آڈیٹوریم میں سونیا گاندھی کی تقرری پر مہر لگانے کیلئے اپریل 1998میں کانگریس کمیٹی کا سیشن منعقد ہوا۔ لوک سبھا میں پارٹی کے لیڈر شرد پوار نے میٹنگ میں یاد دلانے کی کوشش کی کہ اب یہ عہد رفتہ کی کانگریس نہیں ہے۔ انہوں نے کانگریس کو تشبیہ کسی زمیندار سے دی، جس کی زمینیں بک چکی ہیں، حویلی خستہ حال ہو چکی ہے۔ وہ خود مقروض ہوکر زندگی کھنچ تو رہا ہے، مگر زمینداری کا نشہ برقرار ہے۔ ملک بھر سے آئے کانگریس کے اراکین کو یہ تشبیہ سخت ناگوار گذری اور انہوں نے پوار کی اس قدر ہوٹنگ کی کہ بڑی مشکل سے انہوں نے اپنی تقریر ختم کی۔ اس سیشن میں جو سیاسی قرار داد پاس ہوئی ، اس کا لب لباب تھا کہ گاندھی فیملی نے اب چونکہ دوبارہ کانگریس کی قیادت سنبھالی ہے ، اس لئے ا ب پارٹی عروج کی طرح گامزن ہو جائے گی اور اپنے دم پر اتحادیوں کے بغیر انتخابات لڑے گی۔مگر متواتر انتخابات ہارنے کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہر کشن سنگھ سرجیت کی ایما پر 2004کے انتخابات میں کانگریس نے سیٹوں کی تقسیم میں دریا دلی دکھا کر متحدہ ترقی پسند اتحاد تشکیل دیکر دیگر پارٹیوں کی مدد سے بی جے پی کی زیر قیادت اٹل بہاری واجپائی حکومت کو اکھاڑ پھینکا۔ مگر جلد ہی انا عود کر آئی۔ چند برسوں کے بعد جب 2009کے پارلیمانی انتخاب کی تیاریاں ہو رہی تھیں، تو بہار کی سب سے بڑی پارٹی لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل( آر جے ڈی) نے کانگریس کو 40میں سے پانچ نشستیں لڑنے کی پیشکش کی۔ مگر کانگریس نے اس کو حقارت سے ٹھکرا کر اعلان کیا کہ وہ سبھی نشتوں پر امیدوار کھڑا کرےگی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس خود کوئی سیٹ لینے میں کامیاب تو نہیں ہوئی، دوسری طرف ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے آر جے ڈی بس چار سیٹیں جیت پائی۔
پارٹی اسٹریکچر کو مضبوط بنانے کے بجائے کانگریس ابھی بھی گاندھی فیملی کو ہی انتخابات میں بھنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیڈران ابھی تک اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ موجودہ دور کا عام ووٹر پریوں اور راجے مہاراجوں کی کہانیاں سن کر پروان نہیں چڑھا ہے۔ بلکہ وہ اب اسی لیڈر کو ترجیح دیتا ہے جو قابل رسائی ہو یا ماضی میں اسکی ہی جیسی زندگی گذار چکا ہو۔ کانگریس اب ایسا بوجھ بن گئی جسے کوئی اتحادی اب شاید ہی اپنے ساتھ رکھنا چاہےگا۔پڑوسی ریاست اترپردیش میں تو سونیا گاندھی کی صاحبزادی پرینکا گاندھی نے ضمنی انتخابات میں کمان سنبھالی تھی، مگر پھر بھی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔
ان انتخابات کے بعد ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر بھارت میں بسنے والے 200ملین مسلمان کیا کریں؟ سیکولر پارٹیوں کا حال یہ ہے کہ پچھلے سال ماہ رمضان سے دو ماہ قبل اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی کے سربراہ نے ضلعی صدور کو پیغام بھیجا تھا کہ تزک و احتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ کیا جائے۔ اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی لیڈر افطار کا اہتمام کرتا ہے تو وہاں ملائم سنگھ یادو یاان کے صاحبزادے اکھلیش سنگھ کی تصویر یا پارٹی کا بینیر آویزاں نہیں ہونا چاہئے۔مزید ہدایت تھی کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سیلفی یا تصویریں نہ کھنچیں یا کم از کم ان کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔اس پارٹی کے ایک مقتدر مسلم لیڈر اعظم خان فی الوقت اپنے اہل و عیال کے ساتھ جیل میں بند ہیں۔ ان کی رہائی کیلئے سماج وادی پارٹی کے کسی لیڈر نے کوئی مہم چلانا تو دور کی بات ، زبانی جمع خرچ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ چند برس قبل کانگریس کے مقتدر لیڈر اور ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد کو شکوہ کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی کے ہندو اراکین اب ان کو اپنے حلقوں میں جلسے جلوس میں مدعوکرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا 1973میں کانگریس میں شمولیت کے بعد سے لیکر آج تک انہوں نے ہر انتخابی مہم میں شرکت کی ہے اورہندو لیڈر، ان کو اپنے انتخابی حلقوں میں لےجانے کیلئے بے تاب ہوتے تھے۔ پہلے جہاں جلسے جلوس میں ان کو مدعوکرنے کیلئے 95فیصد درخواستیں ہندو لیڈروں کی آتی تھیں، اب پچھلے چار سالوں میں سکڑ کر محض 20فیصد رہ گئی ہیں۔
2017میں گجرات کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر کانگریس نے کارکنوں کو باضابط ہدایت دی تھی کہ اسٹیج پر کوئی مسلم لیڈر براجمان نہ ہو۔ حتیٰ کہ گجرات سے کانگریس کے مقتدر لیڈر اور سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو پس پردہ رہنا پڑا۔ امیدوارں کو بتایا گیا تھا کہ وہ مسلم محلوں میں ووٹ مانگنے نہ جائیں اور جلسے ، جلوسوں میں لمبی داڑھی و ٹوپی والوں کو اگلی صفوں میں نہ بٹھائیں۔ اسی طرح کی حکمت عملی بعد میں 2019 کے عام انتخابات میں بھی اپنائی گئی۔ ہندو ووٹروں کو لبھانے کیلئے راہل گاندھی نے مندروں اور مٹھوں میں جاکر آشیر واد بھی لی تاکہ خود کو مودی سے زیادہ ہندو ثابت کرسکیں۔
پارٹی نے مسلم لیڈروں کو یہ بھی بتایا تھا کہ انتخابات میں وہ ٹکٹ یا مینڈیٹ کے حصول کیلئے تگ و دو نہ کریں اور حلقہ کیلئے کسی مضبوط سیکولر ہندو امیدوار کر ترجیح دیکر اس کو کامیاب بنائیں۔انتخابات کے دوران اتر پردیش کا دورہ کرتے ہوئے دیوبند شہر میں معروف وکیل ندیم اختر نے راقم کو بتایا تھاکہ بی جے پی کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا ہے اس لئے ا ن کا امیدوار ووٹ مانگنے ہی نہیں آتا ہے۔ اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔ ادھر سیکولر پارٹیوں کو معلوم ہے کہ مسلمان کہاں جائے گا، ووٹ تو بہرحال انہی کو ملنا ہے، اس لئے وہ بھی ان کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل نہیں کرتے ہیں۔ اتر پردیش کے ہی کوسی کلاں قصبہ میں مسلمان محلوں کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ تھی کہ چند لمحے وہاں گذارنا محال تھا۔ٹوٹی سڑکوں اور گندے نالے کے کنارے واقع اس محلے میں بدبو کے بھبھکے اڑ رہے تھے۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ کیا بلدیہ اس علاقے میں صفائی نہیں کرواتی ہے، تو لوگوں کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں پچھلے کئی سالوں سے بی جے پی کا کونسلر انتخاب جیت رہا ہے، اسلئے اس علاقے میں خاکروب وغیرہ آتے ہی نہیں ہیں۔
بریلی کے مسلم اکثریتی علاقہ شامت گنج کی تقریباً چار لاکھ آبادی کے لیے صرف ایک بینک اور چار اے ٹی ایم تھے۔ یہ علاقہ زردوزی کے لئے مشہور ہے۔ علی گڑھ کے جو علاقے تالے بنانے کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں ان میں کوئی بینک نہ پوسٹ آفس تھے۔ البتہ ان دونوں علاقوں میں تین چار پولیس اسٹیشن اورکئی درجن پولیس پوسٹیں قائم تھیں ۔
کئی برس قبل تک میں بی جے پی کے مسلم لیڈروں جیسے شاہنواز حسین اور علما میں مولانا وحید الدین خان کی اس دلیل کا کسی حد تک قائل ہوگیا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کو منفی ووٹ دینے کے بجائے بی جے پی اور دائیں بازوکی دیگر جماعتوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہئے، تاکہ ان کی موجودگی سے ان پارٹیوں کا رویہ مسلمانوں کے تئیں نرم ہو اور سیکولر پارٹیا ں بھی ان کو بس ترنوالہ نہ سمجھیں۔ مگر اس میں اب سب سے بڑی رکاوٹ بی جے پی خود ہے جس نے شدت پسند ہندو نظریات کو اپنا محور بنایا ہوا ہے اور اس میں اقلیتوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے۔2014میں کئی کشمیر ی مسلمانوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان میں حنا بھٹ اور شیخ خالد جہانگیر بی جے پی کا خوف دور کرنے کیلئے وعدے کر رہے تھے کہ پارٹی کشمیر کے خصوصی تشخص اور اختیارات سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرےگی۔ حنا بھٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ایسی کوئی کوشش ہوتی ہے، تو آگے آکر سب سے پہلے اس کی مخالفت کرے گی۔ پتہ نہیں وہ اب اپنے اس ویڈیو کو دوبارہ دیکھتی ہیں کہ نہیں اور کس طرح یہ لیڈران اپنے ضمیر کو کچل کر بی جے پی کے ا یجنڈے کا حصہ بن کر اپنے ہم وطنوں کا قافیہ تنگ کر رہے ہیں؟ کشمیر کے بعد تو اب آسام میں بھی مسلم اکثر یتی علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بی جے پی کا پچھلا اوتار یعنی بھارتیہ جن سنگھ، بھارتی سیاست میں 50 کی دہائی سے لے کر 80 تک دائیں بازو کی اہم جماعت تھی۔ مگر اس کے اعلیٰ عہدوں پر کئی مسلمان بھی براجمان تھے۔ اندرا گاندھی کے خلاف 1977ء کے انتخابات میں مسلمانوں اور دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام سید عبداللہ بخاری نے جن سنگھ کے امیداروں کے حق میں مہم چلاکر جتوا بھی دیا تھا۔مگر بی جے پی جس طرح اب ہندو شدت پسندی کو گلے لگا کر مسلمانوں کو معتوب و مغضوب بناکر ووٹ بٹوررہی ہے، اس کے مد نظر کسی باضمیر مسلمان کا بی جے پی کو ووٹ دینا یا اس کی صفوں میں شامل ہونا نا ممکن ہے۔
حکومت گجرات کے ایک سابق افسر ہرش مندر کے مطابق مسلمانوں کیلئے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کی تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جو آبادی ہے اس کا دسواں حصہ بھارت میں ہے، مگر اس کے باوجود وہ سیاسی یتیم بنائے گئے ہیں۔ ان میں اب تعلیم و ترقی کے بجائے سکیورٹی کا احساس زیادہ ہے جوایک خطرناک علامت ہے۔ اب یہ اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں یا جنوبی صوبہ کیرالا کا ماڈل اپنا لیں؟ کیرالا میں مسلمانوں کی اپنی سیاسی جماعت ہے اور چونکہ اس صوبہ میں مخلوط حکومت ہی اقتدار میں آتی ہے، اس لئے یہ حکومت میں شریک بھی رہتی ہے۔ سیاسی نمائندگی کی وجہ سے اس صوبہ میں مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی صورت حال خاصی بہتر ہے۔مبصرین کے مطابق شمالی بھارت یا کسی دوسرے صوبے میں ایسی سیاسی جماعت بنانا ناممکن ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہندو خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوکر فرقہ پرست جماعتوں کا دامن تھام کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔
معروف مصنفہ ارون دھتی رائے نے ایک بار مشورہ دیا تھا کہ بھارت میں ”مظلوموں کا اتحاد‘‘ قائم کرنے کے وافر مواقع ہیں کیونکہ مسلمانوں کی طرح دلت اور قبائلی بھی موجودہ نظام کا شکار ہیں۔ اس طرح کا ہی کوئی اتحاد بھارت میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اویسی اس راہ پر گامزن ہیں۔ مہاراشٹرا میں بھی انہوں نے دلت پارٹیوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر انتخابات میں شرکت کی تھی۔ مگر سیکولر پارٹیوں نیز چند علماء ان کے خلاف ایسی تیر اندازی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ ان کے عقائد پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں، لگتا ہے کہ انتخابات میں شرکت کرکے وہ گناہ عظیم کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ معروف صحافی معصوم مراد آبادی کے مطابق سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو ایک ریوڑ کی طرح ہانکتی رہی ہیں۔ اگر مسلمان ان استحصالی پارٹیوں سے دامن چھڑا کر اپنی سیاست اور اپنی قیادت کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور کوئی خود اعتمادی اور خدا اعتمادی کے بل پر سیاست میں کامیابی حاصل کرتا ہے ،تو اسکو بی جے پی کا ایجنٹ بتاکر معتوب کرایا جاتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ مسلمان لیڈران اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کریں کہ کیا سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر وہ قوم کا بھلا کرسکے ہیں؟کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ ایک متبادل حکمت عملی تیار کرنے پر سنجیدہ غور و خوض کیا جائے؟ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈران بھی اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا 20کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ بھارت کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا کر سکیں گے؟
شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی تحریک، پھر کرونا اور لاک ڈاؤن کے بعد ہونے والے بہار انتخابات بڑی اہمیت کے حامل تھے، بہار کے اس اسمبلی انتخاب سے مستقبل کا مطلع تقریباً صاف ہوگیا ہے، ذرا غور کیجئے ایک طرف CAA اور NRC کی مخالفت میں طوفان برپا تھا، پھر جب لاک ڈاؤن ہوا تو شاید سب سے زیادہ بہار ہی کے لوگ پریشان ہوے، ہزاروں کلومیٹر کا پیدل سفر کرنے والوں کی اکثریت بہار کی تھی، گود میں بچے کی لاش دبائے اور شوہر کی موت پر ماتم کرتے ہوے دوڑنے والی عورتیں بہار کی ہی تھیں، بھوک سے راستوں میں دم توڑ دینے والے بھی بہار کے تھے، بہار کے ہی وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ کسی کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں جو جہاں ہے وہیں رہے، بی جے پی حکومت کی ناعاقبت اندیشی سے کہا جاتا ہے کہ پورا ملک پریشان ہے، مہنگائی اور اس پر لاک ڈاؤن کے بعد بڑھی بے روزگاری نے گویا کمر توڑ کر رکھ دی ہے لیکن بہار کے الیکشن میں دوسری بڑی پارٹی کے طور پر ۷۴ سیٹوں کے ساتھ بی جے پی سامنے آئی ہے، پہلی بڑی پارٹی راسٹریہ جتنا دل ہے جس نے ۷۵ سیٹیں حاصل کی ہیں، مصائب کا انبار تھا، حکومت کی غلط پالیسیاںتھیں، آر ایس ایس کا آتنک تھا، بھوک مری تھی، سیلاب کی مار تھی، نتیش کا دوغلاپن تھا، ناکام پالیسیاں تھیں لیکن پھر بھی این ڈی اے کی سرکار بنی اور اس طرح بنی کہ نتیش کمار وزیر اعلیٰ ضرور بنے مگر بی جے پی کے رحم و کرم پر، اب دو باتوں میں سے کوئی ایک بات صاف ہے، یا تو یہ سارا کھیل ای وی ایم کا ہے یا پھر فرقہ پرستی کا زہر گھر گھر پہنچ چکا ہے، لالو پرساد یادو اور ممتا بنرجی وغیرہ کا شمار ایسے لیڈران میں ہوتا ہے جن کو آر ایس ایس نہ اب تک جھکا سکی ہے نہ خرید سکی ہے، یہ خوش آئند ہے کہ لالو کی پارٹی کو اب بھی ۷۵ سیٹیں ملی ہیں، جب عوام کو تبدیلی چاہیے تھی تو ۱۵ سال حکومت کرنے کے بعد بھی عوام نے لالو کو کرسی سے اتار دیا، اب یہ ۷۵؍ سیٹیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام میں تبدیلی کا عزم تھا مگر یا تو ایک بڑی تعداد فرقہ پرستی کے ساتھ ہوگئی اس لیے تبدیلی نہ آسکی یا پھر یہ سارا کھیل ای وی ایم کا رہا۔
اترپردیش کے انتخابات میں بی جے پی نے سب کا صفایا کر دیا تھا ایسے ہی جیسے لوک سبھا الیکشن میں کیا تھا اور تقریباً یک طرفہ جہت درج کی تھی، نتیجہ میں لوگوں نے شدت کے ساتھ ای وی ایم کو موضوع تنقید بنایا تھا، اس کے بعد چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش و گجرات کے انتخابات ہوئے اور اب بہار کے الیکشن ہوئے نتائج پر غور کیجئے تو تقریباً سب ایک جیسے اور بہت قریب قریب، 2015 میں بہار میں بی جے پی کو صرف ۵۳؍ سیٹ ملی تھیں، اب ۷۴ اور اس کی شریک پارٹی جنتا دَل یونائیٹیڈ تیسرے نمبر پر، فائنل رزلٹ دیکھیے تو فاصلے بہت کم، اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں بقیہ تمام ریاستیں رفتہ رفتہ بی جے پی کی گود میںہوں گی، پورے بھارت پر اس کی حکمرانی ہوگی، 2024 کا الیکشن اگر ای وی ایم سے ہوا تو مکمل اکثریت کے ساتھ بی جے پی ہی براجمان ہوگی، وقتاً فوقتاً کانگریس زندگی کا ثبوت دیتی ہے لیکن بظاہر لگتا ہے کہ اس نے یا تو مصالحت کرلی ہے یا پھر اس کے لیے اب شکست و ریخت سے نکلنا ممکن ہی نہیں، اترپردیش میں سپا بھی تقریباً شکست خوردگی کے ساتھ آخری سانسیں لے رہی ہے۔
ہماری قوم کے پاس جذباتی بحثوں کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں، منٹوں سکنڈوں خلافت قائم ہوتی ہے، حصہ داری کے نعرے لگتے ہیں، الزامات کی بارش ہوتی ہے اور پھر اچانک ماتم بپا ہوجاتا ہے، وجہ صاف ہے کہ ہمارے پاس نہ کوئی متحدہ پریشر گروپ ہے نہ دور رس متحدہ قومی پالیسی، یہ جذباتی بحثیں بھی زیادہ تر وہی لوگ کرتے ہیں جنھوں نے اب تک نہ کچھ بنایا ہے اور نہ ان کا کچھ بگڑا ہے، گویا وہ ابھی زمین پر گھٹنوں کے بل بھی نہیں چلے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں نے ہمیشہ ہماری قوم کا استحصال کیا ہے اور اس کے ووٹ کا استعمال کیا ہے، ان میں سرفہرست کانگریس ہے، لیکن اس پہلو پر بھی توجہ ہونی چاہیے کہ آپ جس ملک میں رہ رہے ہیں اس ملک میں زندگی گذارنے کے لیے اور ہاتھ پائوں پھیلانے کے لیے ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہے، بجائے اس کے کہ اس ماحول کی تشکیل کی منصوبہ بندی کی جاتی عین اس وقت جبکہ وجود و تشخص کی بقا کا مسئلہ درپیش ہے ہم پھر دوسری بھیانک غلطیاں کرنے میں لگے ہیں، یقینا کانگریس کے لیے ہماری خود سپردگی ایک غلطی تھی، ایک کو سیکولر اور ایک کو کمیونل قرار دے کر اپنا دوست اور دشمن متعین کردینا ہماری دوسری غلطی تھی، ایسے ملک میں اقلیتوں کی سیاست معاہدوں سے مشروط اور موقع پرستی پر مبنی ہونا چاہیے، لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا، ملت کے سروں پر قابض لوگوں نے جب جس سے محبت رچائی اس کی جھولی میں ملت کا ووٹ ڈال دیا نتیجہ آج سامنے ہے کہ سیاسی اعتبار سے مسلم ووٹ اس ملک میں تقریباً بے حیثیت ہوچکا ہے، خودسپردگی کے وکیلوں نے نہ کبھی کوئی پریشر گروپ بنایا، نہ شرائط رکھیں، نہ معاہدے کیے نہ اپنے اثر و رسوخ کا صحیح استعمال کیا، بلکہ اگر کبھی کسی نے اپنی حیثیت بنائی اور منوانے پر آمادہ ہوا تو موروثیت کے علمبرداروں نے اس کو ہر طرح سے ناکام کیا، تاریخ بڑی کربناک ہے، بڑے نشیب و فراز ہیں، بڑی تلخیاں اور سچائیاں ہیں، جن کے بیان کا یہ موقع نہیں، اس وقت اہم بات یہ ہے کہ اس ملک کے دستور کو کیسے بچایا جائے، پورے ملک کو فرقہ پرست طاقتوں کے قبضہ میں جانے سے کیسے بچایا جائے، کسی بھی ملک سے اپوزیشن کا خاتمہ ڈکٹیٹرشپ کی ابتدا ہوتی ہے، جبکہ اس ملک میں ڈکٹیٹرشپ کا آغاز ہوچکا ہے، دوچار لوگوں کی چیخ پکار کو بڑی کامیابی تصور کرنے والے کیا یہ بھول گئے کہ دور بدل چکا ہے، راجیہ سبھا میں بی جے پی ابھی اکثریت میں نہیں ہے، پھر بھی اس نے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر زرعی بل پاس کرالیا، جب صورت حال یہ ہے تو ایسے میں دوچار زبانوں کے چلنے سے کوئی حاصل نہیں۔
ہم بھی اپنی مسلَّم سیاسی حیثیت کے قائل ہیں، حصہ داری ہمارا بھی دیرینہ خواب ہے، برابری کا سودا ہمارے لیے بھی باعث فخر ہے، حکمتِ عملی سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن مرکزی نقطۂ نظر اور بنیادی احساس یکساں ہے، میرا ماننا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی سیاست کا حل مسلم پارٹی میں نہیںہے، بلکہ مسلمانوں کی قیادت والی سیکولر پارٹی اور دیگر پارٹیوں سے ان کا پروفیشنل اتحاد مسئلہ کا حل ہے، ایسی پارٹیاں بے مقصد و بے سود بلکہ مسلمانوں کے لیے نقصاندہ ہیں جن کی زمین نہ ہو، جن کا کیڈر نہ ہو، جن کا منصوبہ نہ ہو، جن کے یہاں ’’ون مین شو‘‘ ہو، ایسی پارٹیوں کا خود ہی کوئی مستقبل نہیں چہ جائیکہ قوم کا مستقبل ان سے وابستہ ہو، اگر تمام مسلم دھڑے ایک نقطہ پر متحد ہوں اور پھر وہ سب مل کر اپنے اپنے علاقہ کی پارٹیوں کی ناک میں نکیل ڈال سکیں اور ان کے ساتھ حصہ داری کرسکیں تب تو کچھ بات بن سکتی ہے، بہار میں ایم آئی ایم کی کامیابی پر سب مبارکباد دے رہے ہیں لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ آخر حاصل کیا ہوگا ان ۵؍ ایم ایل ایز کے آنے سے، آندھرا اور اب تلنگانہ میں اب تک کیا حاصل ہوا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایم آئی ایم کی پالیسی، اس کے طرز گفتگو، انداز بیان نے دوسروں کو شعوری نہیں تو غیر شعوری طور پر فائدہ ضرور پہنچایا ہے، ۵۳؍ سے ۷۴ سیٹوں تک پہنچے کا راز معلوم کیجیے تو پتہ چلے گا کہ صرف پانچ سیٹوں پر مسلمانوں کے یک طرفہ ووٹ کرنے نے سبب یادو /کُرمی اور دیگر ذاتوں کو اکسایا کہ اپنی پارٹی نہیں بلکہ ہندتوا کے چہرے کو ووٹ کیا جائے، کبھی غور کیجئے کہ آخر جس صوبہ میں ایم آئی ایم پیدا ہوئی اس صوبہ میں اس کی کیا حیثیت ہے، اس پورے صوبہ میں وہ الیکشن کیوں نہیں لڑتی، کیا وہاں تمام مسلم مسائل حل ہوچکے، کبھی وہاں کے مسلمانوں سے مل کر ایک جرنل سروے کیجیے صرف چند اپنے جاننے والوں کی رائے کا اعتبار نہیں، یوٹیوب اور پارلیمنٹ میں کہی گئی زوردار تقریریں بے سود ہیں، صرف تقریروں سے مسائل حل نہیں ہوتے، یاد ہوگا کہ پارلیمنٹ میں ایم آئی ایم کے سربراہ نے سرِ عام بِل پھاڑ دیا تھا، اپنے اس عمل سے انھوں نے یوٹیوب کے متوالوں کے دل جیت لیے تھے اور جذبات کے تار چھیٹ دیے تھے، مگر ہم جیسے دیوانے کہہ رہے تھے کہ انھوں نے مسئلہ کو اپنی طرف سے مزید الجھا دیا، ان کا کام بل پھاڑنا نہیں تھا بلکہ ان کی کامیابی اس میں تھی کہ وہ ٹی آر ایس کے ممبران کو اس کی مخالفت کے لیے حیدرآباد سے تیار کرکے آتے، مگر انھوں نے کرنے کا کام نہ کرکے محض جذبات کو جیتنے والا عمل کیا، مسئلہ جذبات کا نہیں، مسئلہ عقل و مستقبل کا ہے، تصور کیجیے کہ ایم آئی ایم کے نام کے ساتھ ہم کتنی دور چل سکتے ہیں، اس کے طرز گفتگو کے ساتھ کتنے غیر مسلموں کو یکجا کرسکتے ہیں، ہم کسی بحث میں نہیں الجھنا چاہتے مگر آج شعوری طور پر یہ جملہ لکھ رہے ہیں کہ موجودہ پسِ منظر میں مختلف جگہوں پر ایم آئی ایم کی ہلکی پھلکی کامیابی میں مسلمانوں کی مزید سیاسی ابتری کا راز پوشیدہ ہے، اس جملہ کی معنویت آپ آئندہ چند برسوں میں دیکھیں گے، جو لوگ ایم آئی ایم میں ملت کے مسائل کا حل دیکھتے ہیں، ان سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اس کے سربراہ سے براہ راست ملیں، ان کو آمادہ کریں کہ وہ تقریروں سے باہر نکل کر زمین پر مظلوموں کے مسیحا بن جائیں، اتحاد المسلمین کو مجلس اتحاد مظلومین میں تبدیل کردیں، وہ اس زبان کا استعمال چھوڑ دیں جو لاشعوری طور پر ڈبیٹ کا رخ موڑ دیتی ہے جو غیر شعوری طور پر ہندو پولرائیزیشن کا سبب بنتی، یہ پولرائیزیشن کا خوف نہیں ۲۰۱۴ء سے اب تک کی سب سے بڑی حقیقت ہے، غیر مسلموں کو متحد کر دیتی ہے، انھیں سیاسی موضوعات پر ہی بات کرنا چاہیے، ان کے مسلم آئی کون اور مفتی و مبلغ بننے میں ملت کا نقصان ہی نقصان ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا نے ان کے اندر صلاحیتیں رکھی ہیں اور وہ ملت کی قیادت کرسکتے ہیں، اگر وہ مطلوبہ تبدیلیوں کے ساتھ زمینی سیاست پر آمادہ ہوجائیں تو ملت کی اکثریت ان کے پیچھے چلنے کو تیار ہوگی، ہم بھی اس موقع پر جذباتی مضمون لکھ سکتے تھے اور جذباتی رائے دے کر حصہ داری کی اندھا دھند و کالت کرسکتے تھے، مگر نہ اس کی عادت ہے او رنہ کسی کے زیر اثر یا بعض بڑے قلم کاروں کی طرح کسی کے مطالبہ پر لکھنے کی عادت ہے، نہ ہی کسی کی واہ واہی کی خاطر یا کسی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے لکھنا پسند ہے۔
فی الحال ہم سے پوچھیے تو ہم یہی کہیں گے کہ اگر آپ ملک میں جمہوریت کے خاتمہ کا ذمہ دار ای وی ایم کو مانتے ہیں تو پھر اپنی اپنی پارٹیوں کو اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کے لیے تیار کیجیے، ہمارا ماننا ہے کہ جب تک ای وی ایم ہے تب تک بی جے پی رہے گی، دہلی کی مثال مت دیجیے، دہلی یونین ٹیریٹری ہے، وہ بہرحال مرکزی حکومت کے ہاتھ میں رہتی ہے، اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ فرقہ پرستی کا جادو چل نکلا ہے تو فکر کیجیے کہ ملک مکمل طور پر آر ایس ایس کی گود میں نہ جائے، کئی دہائیوں کا احتساب اس وقت نہیں بعد میں کیجئے گا مناسب وقت پر، احتساب کا موقع اور وقت مناسب نہ ہو تو فائدے سے زیادہ نقصان کا امکان رہتا ہے، انھوں نے بھی آپ ہی کو تختۂ مشق بنایا، یہ بھی آپ کو ہی بناتے ہیں، مگر اِن کا قبضہ مکمل ہوا تو یہ وجود مٹائیں گے نہیں بلکہ تشخص کے ساتھ کھلواڑ کریں گے اور قہقہے لگائیں گے، ابھی ابھی وقت ہے مگر افسوس ہے وقت رہتے ہوئے نہ ہم یکجا ہوپاتے ہیں اور نہ کوئی لائحہ عمل تیار کر پاتے ہیں، ہمارا رد عمل بھی جذباتی ہوتا ہے اور ہماری پالیسیاں بھی جذباتیت کے ہی زیر اثر وجود میں آتی ہیں، کچھ دن ہم لکیریں پیٹتے ہیں، پھر حالات کے رحم و کرم پر جینے کے سہارے خاموش ہوجاتے ہیں، ملک بھر کے سنجیدہ لوگوں کے لیے غور و فکر اور منصوبہ سازی اور منصوبوں پر آزادانہ عمل در آمد کے لیے شاید دو تین سال کا وقفہ اور ہے، اس کے بعد کے حالات ممکن ہے سخت آزما کشی ہوں، ورنہ کم از کم آج کے جیسے تو نہیں ہوں گے۔ (ولا قدر اللہ)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ریاض:سعودی عرب میں کھیلوں کی فیڈریشن ’’اسپورٹس فار آل‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ مملکت کی سطح پر خواتین کی پہلی فٹ بال لیگ کا آغاز بدھ سے دارالحکومت ریاض میں ہو رہا ہے۔ ایونٹ کا مقصد خواتین کو موقع فراہم کرنے کے ذریعے کھیلوں کی سرگرمیوں کو مضبوط بنانا ہے۔الشرقیہ صوبے میں خواتین ٹیم کی کپتان منیرہ حمدان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں منعقد ہونے والی فرسٹ ویمن فٹبال لیگ میں تین ٹیمیں شریک ہو رہی ہیں۔ ان کا تعلق ریاض، دمام اور جدہ سے ہے۔منیرہ کے مطابق ان کی ٹیم نے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور اب ان کی توجہ چمپئن شپ پر مرکوز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر کھلاڑی نے بھرپور جسمانی مشقوں اور تربیت میں حصہ لیا ہے ،تا کہ وہ اس سیزن میں اپنی ٹیم کی نمائندگی کر سکے۔چمپئن شپ کا پہلا راؤنڈ گروپ میچوں پر مشتمل ہو گا۔ دوسرا راؤنڈ ناک آؤٹ بنیاد پر ہو گا۔ چمپئن شپ میں 17 برس اور اس سے زیادہ عمر کی خواتین کھلاڑی شریک ہو سکیں گی۔ چمپئن شپ جیتنے والی ٹیم کے لیے 5 لاکھ سعودی ریال کا انعام رکھا گیا ہے۔
شدید اتنا رہا تیرا انتظار مجھے
کہ وقت مِنّتیں کرتا رہا ” گزار مجھے”
اب اپنا اپنا مقدّر شکایتیں کیسی
تجھے بہار نے گُل دے دیے تو خار مجھے
میں تیرا میرا تعلّق بچاتے جاں سے گیا
تُو پھر بھی اپنوں میں کرتا نہیں شمار مجھے
چلا میں روٹھ کر آواز تک نہ دی اس نے
میں دل میں چیخ کے کہتا رہا ” پکار مجھے”
بچھڑ کے تجھ سے میں اک سانس تک نہیں لوں گا
خدا نے گر دیا دھڑکن پہ اختیار مجھے
وفا کے نام پہ جو قتلِ اعتبار کریں
خدایا ایسوں کی بستی میں مت اتار مجھے
نصیب ہوتی نہیں منزلیں یہاں پہ اسیر
رہِ وفا کا یہ کہتا رہا غبار مجھے !
غزہ:حماس نے فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعلقات کی بحالی کے اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو’جرم عظیم ‘ قرار دیتے ہوئے خودکشی کے مترادف قرار دیا ہے ، نیز فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حماس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون بحال کرنے کا اعلان کر کے تمام قومی اصول و مبادی کو دیوار پر دے مارا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا یہ اقدام چند ماہ قبل بیروت میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں سے کھلا انحراف ہے۔حماس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحال کو فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے قوم کی پیٹھ میں خںجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا اور کہا ہے کہ رام اللہ انتظامیہ نے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب صہیونی دشمن غرب اردن کو ضم کرنے اور فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کا طوفان برپا کیے ہوئے ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے اقدام سے عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے اقدامات کو سند جواز فراہم کرنا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی فیصلے پر بلا تاخیر اور فوری نظر ثانی کرے۔حماس کا کہنا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون اور دیگر شعبوں تعلقات استوار کر کے اپنی آزادی کی منزل حاصل نہیں کرسکتے۔فلسطینی اتھارٹی اور تمام فلسطینی قوتوں کو قابض صہیونی دشمن کیخلاف مسلح اور عوامی مزحمت کے راستے پر مل کر چلنا ہوگا۔
رملہ:فلسطینی اتھارٹی نے کل منگل کے روز جاری ایک بیان میں اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون چھ ماہ کے تعطل کے بعد مکمل بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی تنظیم حماس نے فلسطینی اتھارٹی کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔رپورٹ مطابق تحرک فتح کے مرکزی کمیٹی کے رکن اور شہری امور کے وزیر حسین الشیخ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ صدر محمود عباس کے عالمی رہ نمائوں کے ساتھ ہونے والے رابطوں میں اسرائیل کے ساتھ طے پائے معاہدوں کی تل ابیب کی جانب سے پاسداری کو یقینی بنانے کے زبانی اور تحریری پیغامات کے بعد صہیونی ریاست کے ساتھ 19 مئی 2020سے پہلے والی پوزیشن بحال کی جائے گی۔ سول اور سکیورٹی کوآرڈینیشن کی واپسی کا مطلب اسرائیل کے ذریعہ واجب الادا ٹیکس محصولات کی پریشانی کو حل کرنا اور انہیں اتھارٹی کے خزانے میں واپس کرنا ہے تاکہ ملازمین کی تنخواہوں کے مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔حسین الشیخ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون بڑھانے سے صحت کے شعبے میں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین تعاون کو فروغ ملے گا اور دونوں فریق کووڈ- 19 کی وبا کو قابو کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔کلیئرنس فنڈز وہ ٹیکس ہیں جو اسرائیلی وزارت خزانہ ماہانہ آنے والی اشیا سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں جمع کرکے فلسطینی وزارت خزانہ کو منتقل کرنے کی پابند ہے، تاہم اسرائیل نے کچھ عرصے سے فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکسوں کی ادائی روک رکھی ہے۔ ان ٹیکسوں کی مالیت 180 ملین ڈالر ماہانہ ہے۔دوسری طرف حماس نے فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار کے اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون کی بحالی کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے یہ فیصلہ فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
کانگریس میں سر پھٹول جاری،سابق وزیر ورما کی نظرمیں سبل اور چدمبرم ہیں پارٹی کی زبوں حالی کے ذمہ دار
اندور:کانگریس میں داخلی کشمکش ایک بار پھر تیز ہوگئی ہے۔ عوامی سطح پر کچھ نہ کہنے کے وعدہ کے بعد بھی بیانات جاری ہیں۔ سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے بہار انتخابات میں شکست کے بعد پارٹی قیادت پر سوال اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ پارٹی فورم میں بات کرنے سے قاصر ہیں۔ اس وجہ سے عوامی طور پر بات کررہے ہیں۔ اس بیان کے بعد سابق وزیر سجن ورما نے پارٹی کی موجودہ حالت کا سبل اور پی چدمبرم کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی نے ان لوگوں کو کئی سارے عہدے دیئے ، اور اب وہ پارٹی سے ہی الٹا سوال کررہے ہیں ۔سابق وزیر ورما نے انہیں پارٹی چھوڑنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔سجن سنگھ ورما نے کہا کہ میری زبان بند کردی گئی ہے،میں کانگریس کے ہر کارکن سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ان دونوں کا جواب دیں۔ ورما نے کہا کہ پارٹی کے ہر کارکن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کپل سبل اور پی چدمبرم سے پوچھیں کہ آپ نے زندگی میں کانگریس کارکنوں کو کتنا وقت دیا ہے۔ جب سے کانگریس کی حکومت گئی ہے ، کارکنوں کے لئے ایک منٹ بھی نہیں دیا۔ اب وہ کانگریس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ آپ کی وجہ سے ، کانگریس ڈوبی ہے اور لاغری کے ایام میں چل رہی ہے ۔ خیال رہے کہ کپل سبل نے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بہار کے انتخابات اور دیگر ریاستوں میں ضمنی انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی کے متعلق ہائی کمان کی رائے ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ شاید وہ سب ٹھیک محسوس کررہے ہیں۔یہ عام بات نہیں، اس پر غور کیا جارہا ہے۔ کپل سبل کا کہنا تھا کہ بہار اور ضمنی انتخابات کے نتائج سے ایسا لگتا ہے کہ عوام کانگریس کو ایک موثر آپشن تسلیم نہیں کررہے ہیں ۔ہمیں گجرات کے ضمنی انتخاب میں ایک بھی نشست نہیں ملی۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی تھی۔ یوپی کے ضمنی انتخاب میں کچھ سیٹوں پر کانگریس امیدواروں کو 2 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے۔ گجرات میں ہمارے 3 امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی۔سبل نے کہا کہ پارٹی 6 سالوں میں خود کو نہیں ٹھیک کر سکی ، تو اب ہم اس کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم کمزوریاں جانتے ہیں ، یہ بھی جانتے ہیں کہ تنظیمی سطح پر کیا مسئلہ ہے۔ شاید سبھی اس کا حل بھی جانتے ہیں ، لیکن اس کو اپنانا نہیں چاہتے ہیں۔
نکیتاتومر قتل معاملہ:ہندو تنظیموں کی طرف سے ملزمان توصیف اور ریحان کو جان کا خطرہ:وکیل استغاثہ
نئی دہلی:نکیتا تومر قتل کیس کے مرکزی ملزم توصیف اور ریحان کے وکیل انیس خان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں۔ انیس خان نے پولیس کمشنر او پی سنگھ کو شکایت دے کر سکیورٹی کی درخواست کی ہے۔ دوسری طرف انیس خان نے توصیف اور ریحان کی حفاظت کے پیش نظر دوسری جیل منتقلی کے لیے عدالت میں نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی ، جسے دوبارہ مسترد کردیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ ہی جج نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ ملزم کو ہر ممکن حفاظت کو یقینی بنائے ۔دفاعی وکیل انیس خان نے بتایا کہ بلبھ گڑھ میں ہونے والے تشدد کیس میں جن ہندو تنظیموں کے جن سرگرم کارکنان نے پولیس نے جیل بھیجا ہے ، اُن سے ، ان کے مؤکل کی جان خطرے میں ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر انیس خان کی جانب سے دوسری جیل منتقلی کے لئے عدالت میں نظرثانی درخواست دائر کی گئی۔ منگل کے روز فاسٹ ٹریک عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج سرتاج باس وانا نے سماعت کی۔ انہوں نے جیل منتقلی پر نظرثانی منسوخ کردی ہے اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ ملزم کی حفاظت کو یقینی بنائے۔خیال رہے کہ مبینہ ملزم تو صیف اور ریحان نے مبینہ طور پر گروگرام کے سوہنا کی رہائشی بی کام کی تھرڈ ایئر طالبہ نیکیتا کو 26 اکتوبر کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی، مبینہ طور پر جب دونوں کامیاب نہیں ہوسکے تو توصیف نے نکیتا کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ پولیس نے توصیف اس کے ساتھی ریحان اور اسلحہ فراہم کرنے والے کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے اور چارج شیٹ بھی دائر کردی ہے۔اب فاسٹ ٹریک عدالت میں کیس کی سماعت جاری ہے۔ توصیف اور ریحان کی جانب سے وکیل انیس خان اس کیس کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ کچھ لوگوں نے مذہب اور ذات پات پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر گولی مارنے کی کھلی دھمکی دی ہے۔ اس پر اس نے پولیس کو شکایت دے کر سکیورٹی فراہم کئے جانے کی اپیل کی ہے
ڈاکٹر ریحان غنی کی رہائش گاہ پر جلسۂ سیرت النبی اور نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد
پٹنہ:سیرت رسول اور نعت پاک کی محفل میں شریک ہونا بڑی سعادت ہے۔ایسی پاکیزہ، بابرکت اور معیاری محفل میں شریک ہو کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کیا۔ وہ مشہور صحافی ڈاکٹر ریحان غنی کی رہائش گاہ، عالم گنج میں نعتیہ مشاعرہ کی محفل کی صدارت فرما رہے تھے۔ نعتیہ مشاعرہ سے قبل جلسہ سیرت البنی ﷺ سے خطاب فرماتے ہوئے خانقاہ بلخیہ فردوسیہ کے سید شاہ نصر الدین بلخی فردوسی نے سیرت رسولﷺ کے عملی پہلوئوں پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اطاعت کے بغیر محبت ادھوری ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنا لینا ہی اصل محبت رسول ہے۔ جلسہ سیرت النبی کا آغاز نوجوان عالم دین مولانا نظر الہدی قاسمی کی تلاوت اور اُسامہ غنی کے سلام سے ہوا۔ نظامت کا فریضہ دوردرشن، پٹنہ کے نیوز اینکر سلمان غنی نے انجام دیا۔ جلسۂ سیرت کے بعد نعتیہ مشاعرہ کی محفل آراستہ کی گئی۔ اس کی صدارت پروفیسر اعجاز علی ارشد اور ناشاد اورنگ آبادی نے فرمائی جبکہ نظامت کا فریضہ ڈاکٹر ریحان غنی نے انجام دیا۔کامران غنی صبا کے اظہار تشکر اور مولانا فضل کریم قاسمی کی دعا کے ساتھ مشاعرہ کا اختتام ہوا۔ پروگرام میں خانقاہ حضرت دیوان شاہ ارزانی کے سجادہ نشیں سید شاہ حسین احمد،الحرا پبلک اسکول شریف کالونی کے ڈائرکٹر محمد انور،بزم کیف کے ڈائرکٹر آصف نواز، اختر عادل گیلانی ،مظہر عالم مخدومی، محمد شعبان، مولانا حامد حسین ندوی،شیث احمد، محمد کریم، فضل کریم ندوی، سرفراز احمد، احمد رضا ہاشمی، مظفر زاہدی،انظار احمد صادق، شمشاد احمد، ریاض الدین فردوسی،محمد منہاج الدین، تابش نقی، خرم ملک، ہدایت قادری،عمران احمد،نوازش الرحمن، صبغۃ اللہ رحمانی سمیت کثیر تعداد میں دانشوران علم و ادب اور خواتین بھی موجود تھیں۔ نعتیہ مشاعرہ میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ پیش خدمت ہے:
پروفیسر اعجاز علی ارشد
تیرا مقام عرش الٰہی کے سائے میں
رتبہ ترا خدا کی قسم بس خدا کے بعد
ناشاد اورنگ آ بادی
یا نبی لب پہ آیا ہے نام آپ کا
نعت خواں آج ہے یہ غلام آپ کا
پروفیسر اسرائیل رضا
مدینہ کیسی بستی ہے بلا لو یا رسول اللہ
مری آنکھیں ترستی ہیں بلا لو یا رسول اللہ
اثر فریدی
معاف کرنا جسے تھا ناممکن
معاف اس کو بھی کر گئی خوشبو
مشتاق سیوانی
وہ خیر البشر وجہ تکمیل دیں ہے
نبی کا سراپا کتاب مبیں ہے
کاظم رضا
دہن غنچہ، گہر دنداں، لب و رخسار لاثانی
مہکتے پھول برساتی ہوئی گفتار لاثانی
مولانا مکرم حسین ندوی
اگر نعرہ لگاتے ہو بہت عشق محمد کا
تمہاری زندگی میں ان کی سیرت بھی ضروری ہے
معین گریڈیہوی
مصیبت دور ہو جاتی ہے راحت جگمگاتی ہے
نبی کا نام لیتا ہوں تو قسمت جگمگاتی ہے
نصر بلخی
عذاب فرقت میں جل رہے ہیں، تمہارے روضے پہ آ گئے ہیں
محبتوں میں حجاب کیسا تم اپنے جلوے کو عام کر دو
کامران غنی صبا
مرے غم گسارو! مرے چارہ سازو! مجھے لے چلو شہر طیبہ دکھا دو
زمیں پر نہیں ہو تو زیر زمیں ہو، مدینے میں میرا بھی اک گھر بنا دو
افتخار عاکف
غلام نبی ہوں مقدر جگا دے
خدایا مجھے بھی مدینہ دکھا دے
احمد غیور اقطاب
وہ ہو چاندنی یا شعاع شمس کی ہو
در مصطفی کے قدم چومتی ہے
ضیاء العظیم
مرے اللہ مجھے ایسا تو جینا لکھ دے
آخری سانس کی خاطر تو مدینہ لکھ دے
شارق خاں
آمد مصطفی ہو گئی
نور کی ابتدا ہو گئی
متھرا:بابری مسجدمعاملے پرطویل مدتی تنازعہ ختم ہونے کے بعدفرقہ پرست عناصرنے نیاتنازعہ کھڑاکرنے کی کوشش کی ہے۔بابری مسجدمعاملے کے وقت بھی یہی خدشہ ظاہرکیاجارہاتھاکہ اگرمصالحت ہوبھی گئی تووہ عناصرماننے والے نہیں ہیں جنھیں ہروقت مذہبی مدعے کی سیاسی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ جیسے ہی بابری مسجدکاقضیہ حل ہوا،یہ عناصرنیاتنازعہ کھڑاکرنے لگے اورمتھراعید گاہ معاملے میں تنازعہ شروع کردیا۔اس معاملے پرآج سماعت ہونی تھی۔13.37 ایکڑ اراضی کی ملکیت کے تنازعہ میں ڈسٹرکٹ جج سدھانا رانی ٹھاکر کی عدالت میں سماعت کے 5 منٹ بعد ہی سماعت کی اگلی تاریخ دی گئی۔ دراصل ، آج چارفریق عدالت میں پیش ہونے تھے۔ لیکن کرشنا ٹرسٹ کے ممبران عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ سنی سنٹرل وقف بورڈ،شاہی عیدگاہ مسجد ٹرسٹ اور سری کرشنا جنم بھومی سنستھان کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے ، انھوں نے ان اعتراضات کوداخل کرنے کے لیے عدالت سے وقت مانگے۔عدالت نے اس پرسماعت کے لیے نئی تاریخ دی ہے۔یہ مقدمہ 12 اکتوبر کو ضلعی جج کی عدالت میں دائر کیا گیا تھا۔ تاہم اس سے قبل عدالت نے سماعت کومستردکرتے ہوئے کہاتھاکہ عقیدت مندوں کو مقدمہ دائر کرنے کا حق نہیں ہے۔ مدعیوں نے اس حکم کو چیلنج کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ جج کی عدالت منتقل کردی۔ جسے قبول کرلیا گیا۔
ارنب گوسوامی کو10لاکھ مچلکہ کے لیے نوٹس جاری،باندرہ اسٹیشن پرہجوم اورپال گھرمعاملے پرغلط رپورٹنگ کاالزام
ممبئی:ممبئی پولیس نے ریپبلک ٹی وی کے متنازعہ ایڈیٹر ارنب گوسوامی کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے پر نوٹس جاری کیا ہے۔ گوسوامی پریہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے باندرہ اسٹیشن پرہجوم اور سادھوقتل کیس پرغلط بیانی کی ہے ۔اسسٹنٹ کمشنر پولیس نے ارنب گوسوامی کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وہ سماجی ہم آہنگی میں خلل ڈال رہے ہیں۔ اس نوٹس میں ارنب کو 10 لاکھ روپے کا بانڈ بھر نے کو بھی کہا گیا ہے۔ ارنب کو نوٹس سی آر پی سی کی دفعہ 108 (1) (اے) کے تحت بھیجا گیا ہے۔ یہ سیکشن باب پراسیسنگ سے متعلق ہے۔ باب کی کارروائی میں اے سی پی رینک کے افسر کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہیں۔پولیس کا الزام ہے کہ ارنب نے پال گھرمیں سادھووں کے قتل اور باندرہ میں جمع ہجوم کے بارے میں مذہبی جذبات بھڑکانے والی بات کی تھی۔اس سے قبل ارنب گوسوامی کو رائے ونڈ پولیس نے ہوم ڈیزائنرنائک اوران کی والدہ کی مبینہ خود کشی کے معاملے میں گرفتار کیا تھا۔ 8 دن تک جیل میں رہنے کے بعد ارنب نے سپریم کورٹ سے ضمانت حاصل کی۔ ارنب اور دو دیگر افراد پر رقم نہیں دینے کا الزام ہے۔
نئی دہلی:سی ایم اروند کیجریوال نے دہلی میں کورونا کے بڑھتے ہوئے معاملات پر کل جماعتی میٹنگ طلب کی ہے ۔ دہلی کانگریس کے صدر انیل چودھری اور دہلی بی جے پی صدر آدیش گپتا کو میٹنگ میں مدعو کیا گیا ہے۔ انہیں میٹنگ میں شرکت کے لیے ایک خط لکھا گیا ہے۔کانگریس نے کل جماعتی میٹنگ کاخیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں ضرور شرکت کی جائے گی۔ دہلی کانگریس کے صدر انیل چودھری نے ٹویٹ کیا ہے کہ آج اروند کیجریوال جی کو پارٹی کی کل میٹنگ کے لیے دعوت نامہ ملا۔کانگریس کچھ عرصے سے اس کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہ بہت دیرسے ایک مثبت قدم ہے۔ وبائی مرض کے اس دورمیں ہم سب کو دہلی کے عوام کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ کانگریس اس کل جماعتی اجلاس میں شرکت کرے گی اور اپنی مثبت تجاویز پیش کرے گی تاکہ دہلی کورونا کے پھیلاؤ سے نجات پائے۔دہلی ہائی کورٹ نے کوویڈ 19 کے پیش نظر تالابوں اور ندی کنارے جیسی عوامی جگہوں پرچھٹ پوجاکے انعقاد پر دہلی حکومت کی طرف سے عائد پابندی میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا۔ ہائی کورٹ نے کہاہے کہ تیسری لہر قومی دارالحکومت میں جاری ہے اور ایسی صورتحال میں لوگوں کی بڑی تعداد کو جمع کرنے کی اجازت دینے کا نتیجہ لوگوں کو ایک سپر اسپریڈربنادے گا۔عام آدمی پارٹی کی حکومت نے بدھ کے روز دہلی ہائی کورٹ کوبتایاکہ اپریل میں گاڑی چلاتے ہوئے ماسک پہننالازمی قرار دے دیا گیا تھا اور اب بھی یہ قانون نافذ العمل ہے۔حکومت نے یہ معلومات جسٹس نول چاولا کے سامنے دائر حلف نامے میں دی۔ دہلی حکومت نے یہ حلف نامہ ایک وکیل کے ذریعہ دائر درخواست کے حوالے سے دائر کیا ہے۔
مدارس کے طلبہ کو با اختیار بنانے کے لیے اردو یونیورسٹی،اقوام متحدہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور بہار مدرسہ بورڈ کی مشترکہ کاوشیں
حیدرآباد:’’یہ ایک مثالی پروگرام ہے جس کے ذریعہ نوبالغان میں تنقیدی فکر پیدا کرنے اورانہیں ذمہ دار شہری بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔‘‘ ان خیالات کا اظہار بہار اسٹیٹ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین جناب عبدالقیوم انصاری نے بہار کے مدارس میں تعلیمی پروگرام برائے نو بالغان کے تحت ایک ریاستی سطح کی ٹریننگ کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔پروگرام میں بہار کے 12 اضلاع سے تقریباً 84سے زیادہ ماسٹر ٹرینرس اور فیسلٹیٹرس(سہولت کنندگان) نے شرکت کی۔ واضح رہے کہ یہ تعلیمی پروگرام برائے نو بالغان ، پچھلے سال 2019 میں اقوام متحدہ آبادی فنڈ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور بہار اسٹیٹ مدرسہ بورڈ کی مشترکہ کاوشوں سے سیمانچل کے دو اضلاع پورنیہ اور کٹیہار میں شروع کیا گیا تھا۔ ابتدائی کامیابی اور اس پروگرام کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت بہار نے اس پروگرام کو پوری ریاست میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ تربیتی نصاب پر مبنی اس پروگرام کا بنیادی مقصد مدرسے کے نو بالغان میں تجزیاتی اورتنقیدی شعورو تخلیقی سوچ کو جلا بخشنا ہے تاکہ ان کے اندر زندگی کی موثر مہارتوں کو فروغ دیا جا سکے۔اس مقصد کو یقینی بنانے کے لیے ایک تربیتی نصاب تیار کیا گیا ہے جس میں پانچ اہم پہلو – خود شناسی، تعلقات، صحت اور تندرستی، صنف ، ذمہ داراور سرگرم شہری شامل ہیں۔ اس پروگرام کے تمام ماڈیولس سرگرمی مرکوز ہیں۔اس سمت میں نئے ماسٹر ٹرینرس اور فیسلٹیٹرس کا انتخاب کیا گیا ہے جن کی ٹریننگ 18 تا 24 نومبر 2020تک پٹنہ میں واقع یوتھ ہوسٹل میں ہورہی ہے۔ پروگرام ڈائریکٹر، پروفیسر محمد شاہد نے بتایا کی اس تربیتی پروگرام کی مدد سے طلباء نہ صرف خود کو موجودہ تقاضوں کے لیے تیار کرسکیں گے بلکہ سائنسی، تکنیکی اور معاشرتی تقاضوں سے لیس ہوکر کامیاب زندگی گزار سکیں گے۔اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچاننے کی اہلیت پیدا ہوگی اور زندگی کی مہارتوں کی خاطر خواہ فروغ ہوگا۔اقوام متحدہ آبادی فنڈ (یو این ایف پی اے) کے سربراہ ڈاکٹر ندیم نور نے کہا کی دور اندیشی کا تقاضا یہ ہے کی ہم آنے والی تبدیلی کا حصہ بنیں۔ اس کے لیے پہلے ہمیں خود کو تیار کرنا ہوگا تاکہ ایک روشن اور تابناک مستقبل کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے۔ بہار مدرسہ بورڈ کے سکریٹری جناب سعید انصاری نے طلباء کا تعارف کروایا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ سی ٹی ای، مانو دربھنگا کے پرنسپل پروفیسر فیض احمد جو اس پروجیکٹ کے پروگرام کوآرڈینیٹر بھی ہیں نے افتتاحی اجلاس کی نظامت کی اور تمام شرکاء کا استقبال کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال حوصلہ افزا تجربے کی مدد سے مدرسوں میں درس و تدریس کے ماحول میں خوش آئند تبدیلیاں آئی ہیں۔ اسی تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے صوبے میں یہ پروجیکٹ شروع کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر شفاعت احمد، اسسٹنٹ پروجیکٹ کوارڈینیٹر نے شکریہ ادا کیا۔
پٹنہ:بہار میں اسمبلی انتخابات کے بعد قانون ساز کونسل کی خالی نشستوں کو پر کرنے کا عمل شروع ہونا ہے۔ اس بار انتخابات میں کامیابی کے ساتھ چار ایم ایل سی ممبر ایم ایل اے بن گئے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کی ایم ایل سی سیٹیں خالی ہوگئی ہیں۔ریاست میں گورنر کوٹا کے ذریعہ نامزد کردہ 12 قانون ساز کونسل کی نشستیں پہلے ہی خالی ہیں۔ اس طرح ریاست میں قانون سازی کونسل کی کل 75 میں سے 17 نشستیں خالی ہوگئی ہیں۔بہار کے چار ایم ایل سی ممبران اسمبلی میں جو ایم ایل سی بن چکے ہیں ، ان میں ایم ایل سی کوٹا سے ایم ایل سی ونود نارائن جھا نے بی جے پی کے ٹکٹ پر مدھوبنی ضلع کی بینی پٹی سیٹ سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ لوکل باڈی کوٹے سے ایم ایل سی رہنے والے ریت لال یادو اس بار آر جے ڈی کے ٹکٹ پردانا پور اسمبلی سیٹ سے جیت کر ممبراسمبلی بن گئے ہیں۔ اس بلدیاتی کوٹے سے ایم ایل سی دلیپ رائے سرسند سیٹ پرجے ڈی یو ایم ایل اے منتخب ہوئے ہیں۔ اسی طرح منوج یادوبھی جے ڈی یوکے ٹکٹ پر بیلہار اسمبلی سیٹ جیت چکے ہیں۔ اس کے علاوہ قانون ساز کونسل کی بلدیاتی تنظیم کے دربھنگہ ضلع کی ایک ایم ایل سی سیٹ سنیل کمار سنگھ کی موت کے سبب پہلے ہی خالی ہے۔بہارمیں قانون ساز کونسل کی کل 75نشستیں ہیں ۔ ان میں سے ، ایم ایل سی کی 27 نشستوں کا انتخاب ممبران اسمبلی یعنی ایم ایل اے کے ذریعہ ہوتا ہے ، جبکہ 24 ایم ایل سی نشستیں بلدیاتی ادارے کے ذریعہ منتخب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ 6 ایم ایل سی نشستیں اساتذہ کوٹہ سے بھری گئی ہیں جبکہ 6 نشستیں گریجویشن کوٹے سے بھری جاتی ہیں۔ بقیہ 12 نشستوں کوگورنرنامزدکرتے ہیں۔بہار میں گورنر کے ذریعہ 12 نشستوں کی نامزدگی بھی کی جانی ہے۔ ان میں سے دو سیٹیں راجیو رنجن عرف للن سنگھ اورپشوپتی کمار پارس کو لوک سبھاممبرمنتخب ہونے سے قبل خالی تھیں۔ اس کے علاوہ 10 نشستیں نامزدگی کے کوٹہ میں ہیں اور جاوید اقبال انصاری ، للن کمار، رام چندر بھارتی ، رام لکھن ، رام رامن ، رام بچن رائے ، رانا گنگیشور سنگھ ، رنویرنندن ، سنجے کمار سنگھ ، شیو پرسنا یادو اوروجے کمارمشراکی مدت پوری ہونے کی وجہ سے خالی ہیں۔ تاہم انتخابات سے قبل ان نشستوں پر نامزدگی کی جانی تھی ، لیکن این ڈی اے میں باہمی معاہدے کے فقدان کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔بہارمیں نتیش کمار کی نئی حکومت میں دو وزرا ابھی کسی ایوان کے ممبر نہیں ہیں۔ ان میں جے ڈی یو کے ایگزیکٹو چیئرمین اشوک چودھری اوروی آئی پی صدر مکیش ساہنی شامل ہیں۔ ان دونوں وزراء کوچھ ماہ کے اندر مقننہ کے ایک یا دوسرے ایوان کے ممبربنناہوگا۔ایسی صورتحال میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نتیش کمار جلد ہی گورنر کوٹا کی 12 نشستوں پر گورنر فاگو چوہان کوتجویزبھیج سکتے ہیں۔
رانچی:آرجے ڈی کے صدر لالو یادو نے بہار کے وزیر تعلیم کے بدعنوانی کے الزامات پر نتیش کمار اور بی جے پی کی قیادت پرسخت حملہ کیا ہے۔ لالو یادو نے ٹویٹ کیا ہے کہ جب تیجسوی کابینہ کی پہلی میٹنگ میں 10 لاکھ افراد کو ملازمت دینے جارہے تھے ، نتیش نے بدعنوانی کے الزام میں وزیر بنا دیا ہے۔ سابق آئی پی ایس امیتابھ داس نے بہارپولیس کوخط لکھ کرمیوہ لال کی اہلیہ کی موت کی تحقیقات کامطالبہ کیاہے۔بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے لالو یادو نے کہاہے کہ کل تک بی جے پی لیڈران میوہ لال کی تلاش کررہے تھے ، لیکن آج وہ میوہ ملنے پرخاموشی اختیار کررہے ہیں۔بتادیں کہ نتیش کمار نے جے ڈی یولیڈرمیوہ لال کووزیرتعلیم بنایا ہے لیکن میوہ لال کی تقرری تنازعے کی زد میں ہے۔ دراصل میوہ لال پرزرعی یونیورسٹی ، بھاگل پورکاوی سی ہوتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسرز کی تقرری میں دھاندلی کا الزام ہے۔نتیش کمارصرف بدعنوانی کادعویٰ کرتے رہے ہیں اور اسی کابہانہ بناکرانھوں نے آرجے ڈی کوچھوڑکربی جے پی کادامن تھاماتھا۔سوال اسی پرہے کہ بدعنوانی کے ملزم جس پر خودکورٹ میں کیس چل رہاہے،انھیں وزیربناناصرف بدعنوانی پرجملہ تونہیں ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ جدیونے مظفرپور شیلٹر کیس کی ملزمہ کوبھی ٹکٹ دیاتھا۔
میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا
دُکھی تھے وہ بھی، سو میں اپنے دکھ بھلا بیٹھا
سنی جو شہرتِ آسودہ خاطری میری
وہ اپنے درد لیے، میرے دِل میں آ بیٹھا
بس ایک بار غرورِ اَنا کو ٹھیس لگی
میں تیرے ہجر میں دستِ دُعا اٹھا بیٹھا
خدا گواہ کہ لٹ جاؤں گا، اگر میں کبھی
تجھے گنوا کے ترا درد بھی گنوا بیٹھا
ترا خیال جب آیا تو یوں ہوا محسوس
قفس سے اُڑ کے پرندہ شجر پہ جا بیٹھا
سزا ملی ہے مجھے گردِ راہ بننے کی
گناہ یہ ہے کہ میں کیوں راستہ دِکھا بیٹھا
کٹے گی کیسی اس انجامِ نا شناس کی رات
ہوا کے شوق میں جو شمع ہی بُجھا بیٹھا
مجھے خدا کی خدائی میں یہ ہوا محسوس
کہ جیسے عرش پہ ہو کوئی دوسرا بیٹھا !
دہلی اس وقت کورونا کیپٹل بن گیا ہے۔گزشتہ روز ہی 94 اموات ہوئی ہیں۔نومبر کے مہینے میں اب تک ہر روز سات ہزار سے زیادہ معاملات کورونا کے آتے رہے ہیں۔۔ ملک میں سب سے زیادہ متاثر ریاست مہاراشٹر تھی۔ممبئی کا حال بہت خراب تھا۔لیکن اب وہاں حالات ٹھیک ہورہے ہیں اور دہلی اس سے آگے نکل رہا ہے۔یہ تمہید اس لیے باندھنی پڑی کہ اپریل اور مئی کے مہینوں میں‘جب ہر روز ایک ہزار سے نیچے کورونا کے معاملات آرہے تھے‘ دہلی کے وزیر اعلی اور وزیر صحت اور خود مرکزی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے جوائنٹ سیکریٹری ہر شام کو پریس بریفنگ میں بتاتے تھے کہ 30 فیصد کورونا کے معاملات تبلیغی جماعت کی وجہ سے پھیلے ہیں۔
اروند کجریوال کے ہر روز یہ بتانے کا اثر یہ ہوا کہ ریپبلک ٹی وی‘زی ٹی وی اور انڈیا ٹی وی جیسے شرانگیز چینلوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف عموماً اور تبلیغی جماعت کے خلاف خصوصاً ایک انتہائی زہریلی مہم چلائی اور دو مہینوں تک انہیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا۔میں تبلیغی جماعت کا دفاع اس لئے کر رہا تھا کہ شرپسندوں کے لیے تبلیغی جماعت والے کچھ اور نہیں صرف مسلمان ہیں۔اور یہ چینل جس طرح سے مہم چلارہے تھے اس کا نقصان بلا امتیاز ملک بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ہونا تھا۔شاید اسی لیے مسلمانوں کے ہر مکتب فکر اور ہر مسلکی تنظیم نے تبلیغی جماعت کے خلاف چلنے والی اس مہم کے خلاف آواز بلند کی تھی اور ہر مکتب فکر کے قائدین نے ساتھ دیا تھا۔
اس دوران ارنب گوسوامی کے چینل ریپبلک اور خود ارنب گوسوامی نے سب سے زیادہ غلیظ‘بھیانک اور خوفناک کردار ادا کیا تھا۔اس کی ہر روز ہونے والی ڈبیٹ دیکھ کر جب خود ہمارا ہی خون کھولتا تھا تو دوسرے طبقات کا تو اور زیادہ کھولتا ہوگا۔ان تمام چینلوں نے کوروناجہاد‘کورونا بم‘کورونا آتنک واد اور اسی جیسی خطرناک اصطلاحات کو بنیاد بناکر لمبے لمبے پروگرام بنائے۔خدا کی اس سیدھی سادی مخلوق کو کورونا بانٹنے والی انتہائی خوفناک مخلوق بناکر پیش کیا۔ارنب جیسے شیطان نے تو یہاں تک کہا کہ جماعت ایک آفت ہے اور وہ ہندوستان کو اٹلی بنانے کے لیے کورونا بانٹنے کیلئے ملک بھر میں پھیل گئی ہے۔اس نے بداخلاقی کی تمام حدود کو پار کرتے ہوئے پروگرام کا ٹائٹل رکھا: کہاں چھپا ہے ماسٹر مائنڈ مولانا سعد؟
اس کے بعد پورے ملک میں مسلمانوں کو جس طرح پریشان کیا گیا وہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔خاص طور پر کمزور اور مزدور قسم کے مسلمانوں کو پریشان کیا گیا۔ملی جلی آبادی میں پڑوسی ہندؤں نے مسلمانوں سے رابطہ منقطع کرلیا۔اچھے خاصے پڑھے لکھے ہندو بھی ہم جیسوں کو دیکھ کر آنکھوں سے نفرت کا اظہار کرنے لگے۔ایسے میں ضروری تھا کہ ان شرپسند چینلوں کے خلاف کوئی موثر قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔اس وقت ملک بھر کی پولیس بھی بطور خاص مسلمانوں کے خلاف ایک خاص ذہن سے کام کر رہی تھی‘ اس لئے پولیس میں شکایت درج کرانے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا۔۔ آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں ایک معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے ماخوذ افراد میں مسلمانوں کی زیادہ تعداد دیکھ کرججوں نے پولیس سے پوچھا تھا کہ کیا لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی صرف مسلمانوں نے ہی کی ہے۔ایسے میں چینلوں کے خلاف سپریم کورٹ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔
میں نے جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے سیکریٹری مولانا فضل الرحمن سے اس سلسلہ میں بات کی تھی اور انہوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ قانونی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔آخر کار اپریل 2020 میں جمعیت علماء نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کردی۔بعد میں پیس پارٹی‘ڈی جے ایچ فیڈریشن آف مساجد‘مدارس اینڈ اوقاف انسٹی ٹیوٹ اور ایک شہری عبدالقدوس لسکرنے بھی رٹ دائر کیں۔ان تمام رٹس پرچیف جسٹس کی بنچ نے حکومت کو نوٹس جاری کیا اور 8 اکتوبر 2020 کو مرکزی حکومت کے ذریعہ دئے گئے جواب کی روشنی میں سماعت شروع ہوئی۔
اس سلسلہ میں حکومت نے جو حلف نامہ داخل کیا اس میں پٹیشن دائر کرنے والوں کے کلیدی اعتراض پر کوئی بات ہی نہیں کی گئی تھی اور چینلوں کو شرارتاً بچانے کی کوشش کی گئی تھی۔اندازہ لگائیے کہ مرکزی حکومت سپریم کورٹ کے سامنے کھڑی ہے لیکن کیسی بے دلی اور بے احترامی کے ساتھ جواب دے رہی ہے اور کس طرح سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔
8 اکتوبر کو چیف جسٹس آف انڈیا نے مرکزی حکومت کے حلف نامہ پر سخت ناگواری کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ حلف نامہ کسی جونئر قسم کے افسر نے تیار کیا ہے اور یہ نامکمل‘ ناقص‘ بے حیائی سے بھر پوراور فرار اختیار کرنے سے عبارت ہے۔۔ چیف جسٹس نے حکومت سے کہا کہ اس عدالت کے ساتھ آپ اس طرح سلوک نہیں کرسکتے۔۔ عدالت نے پوچھا کہ پٹیشن دائر نے والوں نے جو الزامات میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں) پر لگائے ہیں ان کاجواب کہاں ہے؟ عدالت نے کہا کہ سیکریٹری سطح کا افسر دوسرا جواب تیار کرکے عدالت میں پیش کرے۔اس وقت مرکزی حکومت کے وکیل سالسٹر جنرل تشار مہتا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ خود نئے حلف نامہ کی تیاری کی نگرانی کریں گے۔لیکن جب گزشتہ روز عدالت نے سنوائی کی اور نئے حلف نامہ کو دیکھا تو پھر عدالت کو غصہ آگیا۔آپ حکومت کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ دوبارہ جو جواب داخل کیا وہ بھی اسی طرح کا مبہم‘ بے ہودہ‘ ناقص اورنامکمل داخل کیا۔ عدالت نے اس پر بھی سخت ناگواری کا اظہار کیا۔
ان دونوں حلف ناموں میں حکومت نے عدالت سے یہی کہا کہ ان چینلوں نے بہت معتدل اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی۔اس سے آگے بڑھ کر دوسرے حلف نامہ میں حکومت نے کارروائی کے جو اعداد و شمار پیش کیے ان سے صاف ظاہر ہوگیا کہ حکومت ان شر انگیز چینلوں کو بچانا چاہتی ہے اور ٹویٹر‘ فیس بک اور دوسرے پلیٹ فارموں پر عوامی طورپرجو آواز اٹھائی جاتی ہے اسے دبانا چاہتی ہے۔اسی لیے اس نے بتایا کہ ٹویٹر کے خلاف 800 سے زیادہ نوٹس جاری کیے گئے۔
اب یہاں ایک بات سمجھنی بہت ضروری ہے کہ عدالتوں میں قانون کی زبان میں بات ہوتی ہے۔عدالت کو قانون کے ہی دائرہ میں یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ متاثرین کے ساتھ ملزمین نے ناانصافی کی ہے اور یہ کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کا جواز موجود ہے۔۔ قانون میں میڈیا کی آزادی کا الگ سے کوئی تصور نہیں ہے۔لیکن اظہار رائے کی آزادی کے زمرہ میں میڈیا کو بڑی آزادی دی گئی ہے۔یہ آزادی اسے آئین کی دفعہ 19- 19A-اور 19Bکے تحت حاصل ہے۔۔ لہذا جب بھی میڈیا کے خلاف عدالت میں سماعت ہوگی تو آئین کی ان دفعات کو سامنے رکھا جائے گا۔۔۔ یہ اشو بہت حساس بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔
حکومت نے بڑی چالاکی اور مکاری سے انہی دفعات کے تحت یہ کہنے کی کوشش کی کہ جمعیت علماء وغیرہ آئین کی دفعہ 19 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میڈیا کا گلا گھونٹنا چاہتی ہے۔۔۔یہی وہ ترپ کا پتہ ہے کہ جس پر اگر عدالت پھسل جائے تو پھر کارروائی آگے نہیں بڑھتی۔لیکن اس وقت ملک کی بعض ہائی کورٹوں اور خود سپریم کورٹ میں میڈیا کے حوالہ سے نصف درجن کے آس پاس معاملات چل رہے ہیں۔اور ان تمام معاملات میں جتنی بھی سنوائی ہوئی ہے اور اس کے دوران ججوں کے جو تبصرے آئے ہیں ا ن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب شرانگیز میڈیا کی ناک میں نکیل ضرور ڈالی جائے گی۔
مثال کے طور پر 8 اکتوبر کو ہی جب سپریم کورٹ حلف نامہ پر اظہار ناگواری کر رہا تھا تو حکومت نے اظہار رائے کی آزادی کا سوال اٹھایا۔ لیکن چیف جسٹس نے پلٹ کر کہا کہ ان دنوں اس آزادی کا کچھ زیادہ ہی ناجائز استعمال ہو رہا ہے۔۔ 17نومبر کی سماعت میں چیف جسٹس نے اس پر مزید وضاحت سے ناگواری ظاہر کی۔انہوں نے آخر کار وہی سوال کرلیا جو آج تک سپریم کورٹ نے دوسرے اسی طرح کے معاملات میں نہیں کیا تھا اور جو بہت ضروری تھا۔۔ چیف جسٹس نے پوچھ ہی لیا کہ آخر پروگرام کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے آپ کے پاس کیا انتظام ہے۔ یہ کوئی کم اہمیت کا سوال نہیں ہے۔
یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت خود چینل والوں نے ہی ایک پرائیویٹ اتھارٹی NBSA کے نام سے بنا رکھی ہے۔اس اتھارٹی میں شکایتیں بھی کی جاتی ہیں۔ان پر ایکشن بھی ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ وہ ایکشن کتنا غیر موثر ہوتا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔اس اتھارٹی کی غیر مضبوطی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو چینل شرانگیزی پھیلاتے ہیں ان کے سردار ارنب گوسوامی کا چینل اس اتھارٹی کا ممبر ہی نہیں ہے۔لہذا اس پر کوئی بھی ایکشن لاگو ہی نہیں ہوتا۔اس نے کچھ علاقائی چینلوں کو ملاکر خود ہی ایک اتھارٹی بنا رکھی ہے۔لہذا چیف جسٹس نے 17نومبر کی سماعت میں اس پر بھی ناگواری ظاہر کی کہ حکومت کے پاس ایسا کوئی میکانزم نہیں ہے کہ ان شرانگیز چینلوں کو کنٹرول کیاجائے۔اسی لیے انہوں نے کہا کہ اگر ایسی کوئی سرکاری اتھارٹی موجود نہیں ہے تو حکومت اس کی تشکیل کرے۔ اور اگر نہیں کرسکتی تو ہمیں بتائے۔ہم کسی باہری ایجنسی کو یہ ذمہ داری سونپ دیں گے۔یہ بھی کوئی چھوٹا تبصرہ نہیں ہے۔
میں نے انہی کالموں میں پہلے بھی عرض کیا ہے کہ عدالتوں اور خاص طور پر سپریم کورٹ میں جب کسی قانونی نکتہ پر بحث ہوتی ہے تو اس کا طرز عام گفتگو سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔قانون پر باریکی سے نظر رکھنے والوں کو اس کی حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ 17نومبر کو سپریم کورٹ میں جو کچھ کہا گیا اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔عدالت نے حکومت کو تین ہفتوں کا وقت دیا ہے۔اب تیسرا حلف نامہ کس طرح کا آتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔دیر ضرور ہو رہی ہے لیکن نتیجہ کچھ اچھا ہی ہوگا۔
اب ایک بات جمعیت علماء سے عرض کرنی ہے۔ سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑنا آسان نہیں ہے۔بہت موٹی موٹی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔جمعیت علماء نے بہت سینئر وکیل کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔دشینت دوے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں۔انہوں نے حال ہی میں ارنب گوسوامی کو ضمانت دئے جانے کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کو ایک سخت خط بھی لکھا تھا جس میں خود چیف جسٹس پر بھی انہوں نے سوال کھڑا کردیا تھا۔ظاہر ہے کہ حلف نامہ آجائے تو بحث کا وقت بھی آئے گا۔یقین ہے کہ دشینت دوے بحث کے دوران ارنب گوسوامی کی زہر افشانی کی مثالیں دیں گے بھی اور کچھ کلپ دکھائیں گے بھی۔
بس عرض یہ ہے کہ ہر سماعت کے بعد آپ جس طرح سے خصوصی طور پر ایک لمبا چوڑا بیان جاری کرکے سپریم کورٹ کی ستائش فرماتے ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔نہ سپریم کورٹ آپ سے یہ چاہتی ہے اور نہ آپ کویہ کرنا چاہئے۔کچھ باتیں اشاروں میں سمجھنے کی ہوتی ہیں۔۔ تفصیل سے لکھنا بھی مصلحت کے خلاف ہوتا ہے۔وقت ملے تو غور ضرور کیجیے۔۔
نئی دہلی:وزیرخارجہ ایس جے شنکرکے راجیہ سبھا الیکشن کوچیلنج کرنے والی درخواست پرسپریم کورٹ نے جے شنکرکونوٹس جاری کیاہے۔ہریش سالوے نے جے شنکرکی طرف سے نوٹس قبول کیا۔جے شنکراس معاملے میں جواب داخل کریں گے۔ ایسی دوسری درخواستوں پر بھی بیک وقت سماعت ہوگی۔ در حقیقت پچھلے سال گجرات ہائی کورٹ نے کانگریسی لیڈرگوراو پانڈیا کی درخواست مسترد کردی تھی۔ کانگریس لیڈر نے جے شنکرکے انتخاب کو چیلنج کیا۔ عدالت نے کانگریسی لیڈرچندریکا چوڑ اورپریش دھنانی کی جانب سے بی جے پی امیدوار جوگل جی ٹھاکر کے انتخاب کے خلاف دائر دو دیگر درخواستوں کو بھی خارج کردیا۔جے شنکر اور ٹھاکرنے ضمنی انتخابات میں بالترتیب کانگریس کے امیدوار پانڈیا اور چڈسامہ کو شکست دی۔ کانگریس قائدین نے ان کے انتخاب کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ درخواست میں دعویٰ کیاگیاہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دوخالی نشستوں کو الگ الگ زمرے کے طور پر غور کرتے ہوئے علیحدہ ضمنی انتخابات کے بارے میں نوٹیفیکیشن جاری کرناغیرقانونی ہے اور آئین ،عوامی نمائندگی قانون1951 اور انتخابی ضابطہ انتخاب 1961کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
نئی دہلی:وزیراعظم سوندھی پردھان منتری خوانچہ فروشوں کی آتم نربھر ندھی کے تحت25لاکھ سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔یہ چھوٹے پیمانوں کی قرضوں کی سہولت کی ایک خصوصی اسکیم ہے۔ موصولہ مجموعی درخواستوں میں سے 12 لاکھ سے زیادہ درخواستوں کو منظوری دی جاچکی ہیں اورتقریبا 5 لاکھ 35 ہزارقرضے فراہم کیے جاسکے ہیں۔ اترپردیش میں ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں جس میں تقریبا 27 ہزار درخواستوں کو منظوری دی جاچکی ہیں اور ایک لاکھ 87 ہزارقرضے فراہم کیے جاچکے ہیں۔اترپردیش میں سوندھی یوجنا کی قرضے کے سمجھوتے کے لیے اسٹامپ ڈیوٹی کو مستثنی قرار دے دیا گیا ہے۔کوویڈ-19لاک ڈاؤن کے باعث جو خوانچہ فروش اپنے آبائی وطن چلے گئے تھے، وہ اپنی واپسی پر اس قرضے کے لیے اہل ہیں۔قرضوں کی فراہمی کو جھنجھٹ سے پاک بنایا گیا ہیکیوں کہ کوئی بھی شخص کسی عام خدمات مرکز اور میونسپل دفتر اور خود بینک جاکر اپنے طور پر درخواست کوآن لائن اپلوڈ کرسکتاہے۔ادھر بینک بھی لوگوں کے گھر گھر جارہے ہیں تاکہ انہیں قرضے فراہم کریں اور انہیں اپنے کاروبار شروع کرنے میں مدد دیں۔ وزیراعظم نریندرمودی نے بینک عملے کے ذریعہ کیے گئے مشقتی کام کی ستائش کی ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسا وقت بھی تھا جب خوانچہ فروش بینک کے اندر ہی نہیں جاسکتے تھے لیکن آج ایسا ہے کہ بینک ان کے گھر جارہے ہیں۔شفافیت، احتساب اور پائیداری کے ساتھ اسکیم کے تیز تر نفاذ کے لیے ویب پورٹل نیز موبائل ایپ کے ساتھ ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم تیار کیا گیاہے جس کا مقصد شروع سے آخر تک اسکیم کا انتظام کرتے ہوئیحل فراہم کرنا ہے۔آئی ٹی پلیٹ فارم ،ویب پورٹل نیز موبائل ایپ کو ایس آئی ڈی ڈی آئی کے اڈیامی مترا پورٹل کے ساتھ مربوط کرتا ہے جو کہ قرضے کے انتظامیہ کے لیے ہے۔ یہ ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت کے پورٹل ‘پیسہ’ سے بھی اسے مربوط کرتا ہے جو خودکار طور پر سود کی مراعات کا انتظام کرتاہے۔اسکیم کی ترغیبات کے ڈیجیٹل لین دین یعنی یوپی آئی، ادائیگی کے تسہیل کاروں کے کیو آر کوڈ، روپئے، ڈیبٹ کارڈ وغیرہ جیسے ڈیجیٹل طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے رسیدیں/ادائیگیوں کی سہولت دستیاب کی گئی ہے جو کہ خوانچہ فروشوں کو ماہانہ کیش بیک کی صورت میں حاصل ہوتی ہیں۔ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت کے سکریٹری درگا شنکر مشرا نے پہلے ٹوئٹ کیا تھا ان کی وزارت اس عمل کو آسان اور بلا جدوجہد والا بنانے کے لیے تمام متعلقہ ساجھیداروں کے ساتھ کام کررہی ہے تاکہ آتم نربھر بھارت کے مقصد کو حاصل کیاجاسکے۔کووڈ-19 کی وبا کے دوران لاک ڈاؤن میں مقامی تاجروں کے لچکدار رویے سامنے آئے اور سرکار کی مدد سے وہ اپنا کاروباردوبارہ شروع کرسکتے ہیں اوراپنی زندگیوں کو بہتر بناسکتے ہیں۔ان خوانچہ فروشوں میں سے اکثر جنہیں سوندھی اسکیم کیذریعہ قرضہ فراہم کیا گیا، وہ اپنے قرضوں کی بروقت واپس ادائیگی کررہے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹی مدت کے قرض دار اپنی ایمانداراور بردباری کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ہاؤسنگ اورشہری امور کے وزیرمملکت(آزادانہ چارج)جناب ہردیپ سنگھ پوری نے نفاذ کی صورت حال اورپی ایم سوندھی اسکیم کی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے ٹوئٹ کیا تھا کہ یہ آتم نربھر بھارت بنانے کی جانب ایک مثبت قدم ہے جس میں ہرایک ہندوستانی قوم کی ترقی اور پیش رفت کی رفتار میں ایک ساجھیدارہے۔اس اسکیم کے نفاذ میں شہری مقامی اداریانتہائی اہم کردارادا کررہے ہیں۔وہ تمام ساجھیداروں کا ایک نیٹ ورک بنارہے ہیں جن میں خوانچہ فروشوں کی ایسوسی ایشن ،کاوروباری کروسپوڈنٹ(بی سیز)، بینکوں کے ایجنٹ، چھوٹے مالیاتی ادارے( ایم ایف آئی)، ذاتی مدد کے گروپ (ایس ایس جی) اور ان کی فیڈریشن، بھیم،پے ٹی ایم، گوگل پے،بھارت پے، ایمازون پے، فون پے وغیرہ جیسے ڈیجیٹل ادائیگی کے تسہیل کارشامل ہیں جو اسکیم کو کامیابی کے ساتھ منظم کرنے کا قدم ہے۔