صدرجمعیۃ علماء ہند و ناظم عمومی کا تعزیتی پیغام
نئی دہلی: جمعیۃ علماء اڈیشہ کے صدرو امیر شریعت حضرت علامہ مولانا محمد جابر قاسمی کا آج ان کے وطن مالوف بھنِجار پور ضلع جاجپور (اڈیشہ) میں انتقال ہوگیا۔ وہ 77/سال کے تھے اورگزشتہ ایک سال سے بیمار تھے۔پسماندگان میں ایک بیوہ،سات لڑکے اورتین لڑکیاں ہیں۔
ان کی وفات حسرت آیات پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے قلبی رنج والم کا اظہارکرتے ہوئے اسے جمعیۃ علماء ہند کے لیے بالخصو ص اور دینی وملی حلقے کے لیے بالعموم نقصانِ عظیم قرار دیا ہے۔مولانا مرحوم، دارالعلوم دیوبند سے 1964ء میں فارغ ہوئے،آپ مدرسہ مشکوۃ العلوم بھنجار پور کے مہتمم اور خطہ میں بہت ہی مقبول و معروف عالم، مرشداور مرجع خلائق تھے، بیعت وارشاد کی نسبت سے حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی ؒ کے مجاز تھے،عرفاں کے اسی فیض سے انھوں نے مسلمانوں کی قلیل آبادی والی ریاست کو ہمیشہ معمور رکھا اور حق و صداقت کے چشمہ سے تشنگان کو فیضیاب کیا۔مولانا مرحوم ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند کے بے لوث خادم اور ہر محاذ پر ڈٹے رہنے والے سپاہی تھے۔2008ء سے مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند کے لگاتار مدعو خصوصی تھے۔2007ء میں آپ باضابطہ جمعیۃ علماء اڈیشہ کے صدر منتخب ہوئے جس پر تادم واپسیں فائز رہے۔آپ ریاست اڈیشہ کے امیر شریعت بھی تھے، نیز رابطہ مدارس ا سلامیہ دارالعلوم دیوبند کی شاخ اڈیشہ کے صدر تھے۔ آپ نہایت سادہ لوح، منکسرالمزاج نیک طبیعت اور انتظامی صلاحیتیوں کے حامل تھے۔ جمعیۃ علماء ہند سے ان کو اتنا گہرا تعلق تھا کہ شدید بیماری اور ضعف کے باوجود بھی 2/جنوری 2020ء کو منعقد اجلاس مجلس عاملہ میں شریک ہونے کے لیے دہلی تشریف لائے۔ 22/اکتوبر 2020ء کو منعقد جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس مجلس عاملہ میں بھی بذریعہ زوم شریک ہوئے۔
مولانا مرحوم کے جملہ پسماندگان کی خدمت میں دلی ہمدردی و تعزیت مسنونہ پیش ہے اوردعاہے کہ اللہ تعالی مولانا مرحوم کو جنات عدن میں مقام اعلی عطا فرمائے او رپسماندگان کو اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اس موقع پر جماعتی احباب و متعلقین و ائمہ مساجد سے پرخلوص اپیل کی جاتی ہے کہ مولانا مرحوم کے لیے دعائے مغفرت و ایصال ثواب کا اہتمام کریں۔
17 نومبر, 2020
سپریم کورٹ آف انڈیا میں گزشتہ دنوں دو صحافیوں کے مقدمات پر شنوائی ہوئی، جس میں سپریم کورٹ نے دو الگ الگ فیصلے جاری کیے جن کے ذریعے ایسا لگتاہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان خود عدالتِ عظمیٰ کی توہین کا تاثر دے رہےہیں ـ
پہلا مقدمہ ارنب گوسوامی کا تھا ارنب گوسوامی ایک الکٹرانک نیوز چینل ری پبلک کے اینکر ہیں انہیں مہاراشٹر پولیس نے خودکشی کے ایک مجرمانہ معاملے میں گرفتار کیا تھا، انہیں سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ سے ضمانت نہیں ملی کیونکہ ان کی گرفتاری ایک مجرمانہ معاملے کے تحت ہوئی تھی ناکہ کسی صحافتی سرگرمی کی بنیاد پر، گرچہ ارنب گوسوامی اور ان کے چینل کی صحافت درحقیقت ایک پروپیگنڈہ مشین ہے، وہ صحافت کے نام پر سرکاری چاپلوسی کا لاؤڈ اسپیکر بنے ہوئے ہیں، اور ملک میں نفرت و زہر پھیلانے کا کام کرتےہیں، چونکہ وہ بھارتی گودی میڈیا کی صحافتی بھیڑ میں گھسے ہوئے ہیں اس لیے انہیں صحافی مجبوراً لکھا جارہاہے وگرنہ ان کا غیررسمی نام ” سَنگھی سرکاری لاؤڈ اسپیکر ” ہی ہےـ
ایسے نفرت انگیز اور بدتمیز انسان کو خودکشی کے ایک مجرمانہ معاملے میں گرفتار کیا جاتاہے اور ریاستی ہائی کورٹ تک اسے ضمانت نہیں دیتی، نیز مہاراشٹر اسمبلی کی طرف سے ارنب کو نوٹس کے معاملے میں سپریم کورٹ ارنب کے لیے آئین کی دفعہ ۳۲ کا حوالہ دیتی ہے اور گرفتاری والے معاملے میں اسے شخصی آزادی Personal Liberty کے نام پر ضمانت دیتے ہوئے رہا کرنے کا فیصلہ سناتی ہے ـ
دوسرا مقدمہ ہے کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کا، جوکہ درحقیقت Practical Journalist عملی صحافی ہیں، انہیں صحافتی سرگرمی کے دوران ہی گرفتار بھی کیاگیاہے، وہ ۵ اکتوبر کو اجتماعی عصمت دری کے معاملے میں رپورٹنگ کرنے جب ہاتھرس جا رہے تھے تب یوگی آدتیہ ناتھ کی فاشسٹ اترپردیش سرکار نے انہیں گرفتار کرلیا اور ان پر UAPA جیسی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرکے انہیں جیل میں ڈال دیا، صدیق ۵ اکتوبر سے جیل میں بند ہیں مگر انہیں آئین کی دفعہ 32 کا فائدہ بھی نہیں ملا، اور 16 نومبر کو سپریم کورٹ نے ان کی کے معاملے پر سماعت کرتےہوئے انہیں ضمانت دینے سے بھی انکار کردیا صدیق کے مقدمے کو ہائیکورٹ سے حل کرانے کی نصیحت بھی دی اور خانہ پری کرنے کے لیے ایک نوٹس اترپردیش کی فاشسٹ سرکار کو بھیجا ہے، سپریم کورٹ میں صدیق کی طرف سے معروف سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے اچھی پیروی کی ـ
صدیق کپن کی گرفتاری پر ریاست کیرالہ کی صحافتی تنظیم Union of Working Journalist قانونی لڑائی لڑ رہی ہے، ساتھ ہی اس نے اسے صحافتی آزادی پر حملہ بھی قرار دیاہے، صدیق کی گرفتاری کو اکثریتی میڈیا کمیونٹی آزادانہ صحافت پر سرکاری ظلم مانتی ہے، لیکن ۱ مہینہ گزر جانے کے باوجود یہ صحافی سپریم کورٹ تک سے انصاف حاصل کرنے سے محروم ہے ـ
انصاف کا یہ Selective معیار کیوں ہے؟ ارنب گوسوامی جیسے سرکاری بھونپو کی گرفتاری کو وزیرداخلہ امیت شاہ نے صحافت پر حملہ اور ایمرجنسی کے مظالم سے تعبیر کیا تھا، مگر امیت شاہ صاحب سمیت تمام ہندوستانی وزیروں اور سرکاری نوکروں کی زبانیں صدیق کی صحافتی آزادی پر حملے کے خلاف گنگ ہے ـ
وہ تمام سرکاری وزرا، جو پروفیسر آنند تیلتمبڑے، گوتم نولکھا، شرجیل امام، خالد سیفی، ورورا راؤ،سٹین سوامی، اکھل گوگوئی، نتاشا، دیوانگنا، عشرت جہاں، آصف اقبال، گل فشاں، سدھا بھاردواج جیسے انصاف پسند، نظریاتی شخصیات اور حقوق انسانیت کے لیے محنت کرنے والوں کی گرفتاری پر خوشی مناتے رہے وہ ارنب کی گرفتاری پر حق آزادی کی دہائی دے رہےتھے وہ لوگ جو ہندوستان میں اپوزیشن پارٹیوں کی سرگرمیوں اور غلط سرکاری پالیسیوں سمیت سرکاری ظلم و زیادتیوں کے خلاف عوامی مظاہروں کو ملک سے غداری، دیش دروہ کی سرگرمیوں سے تعبیر کرتے نہیں تھکتے وہی بھاجپائی لوگ ارنب کی گرفتاری پر سڑکوں میں احتجاج کی کوشش کررہے تھے، لیکن ان کے احتجاج بھی آندولن کے انقلابی آہنگ اور صدائے احتجاج کی فطری اسپرٹ سے محروم بڑے ہی پھیکے پھیکے فلاپ شو تھے ـ
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بوبڈے صاحب کو بھی صدیق کی شخصی آزادی پر حملہ نظر نہیں آیا، وہی سپریم کورٹ جسے ابھی چند روز پہلے تک ارنب گوسوامی کی گرفتاری سے آزادی کی توہین نظر آرہی تھی اسی سپریم کورٹ نے صدیق کی حقِ آزادی پر آنکھیں موند لی ہیں، سپریم صاحب ! آپ کے یہ مختلف معیار آپکا وقر طے کر رہے ہیں ملک کے نوجوان انہیں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ریٹائرڈ ہونے والے جج کو پارلیمنٹ کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے دیکھ رہےہیں، ہم یقینًا سپریم کورٹ سے جاری فیصلوں کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ آئینی حق کے تحت ان سے اختلاف کرتےہیں کیونکہ ہمیں احترام کا کلچر بچائے رکھناہے، سپریم صاحب آپ کو غور کرنا چاہیے کہ کنال کامرا جیسے اعلیٰ تعلیمیافتہ فکری جوان آپ سے کیوں خفا ہیں؟ ہم تو جس دن دیپک مشرا صاحب چیف جسٹس بن آئےتھے اسی دن سے افسوسناک ہورہےہیں، ڈیئر محترم سپریم کورٹ صاحب ! پرشانت بھوشن اور راجیو دھون آپکی عدالت میں سچ بولتے ہیں اور ان جیسے دیگر سینئر وکلاء، توجہ دیجیے کہ اب ملک میں قانون کے طلباء ججمنٹ سے زیادہ ان وکیلوں کی دلیلوں کو پڑھتے ہیں، مت بھولیے کہ وہ فیصلے جو انصاف کے ایوانوں سے ملاوٹ کے ساتھ باہر آتےہیں انہیں وقتی طورپر طاقت کے زور پر تو نافذ کیا جاسکتا ہے وہ تاریخ کی عدالت میں منصفانہ درج ہوتےہیں، آج آپ سپریم کورٹ کے جن عظیم مناصب پر بیٹھے ہیں کل پڑھی جانے والی تاریخ میں آپ کا ریکارڈ زیربحث آئےگا، کل کی تعلیم گاہوں میں قانون کی کتابوں میں آپکے فیصلوں پر آنے والی نسلیں تجزیہ اور تکرار کریں گی، کل وکالت اور ججز کی پڑھائی کرنے والے طلباء و طالبات آپ کی ان ریکارڈ فائلوں کو پڑھیں گے یہ آپ بھی جانتے ہوں گے شاید، جیسے عدالت و انصاف کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس کے صرف اصول ہوتےہیں ویسے ہی "تاریخ” کا کوئی دھرم نہیں ہوتا، فاشسٹ طاقت کے سہارے لکھی جانے والی بے اصولیاں غیرفطری ہوتی ہیں انہیں ان کی اصل جگہ تاریخ میں مل جاتی ہے، گاندھی کے قاتل گوڈسے کی عدالتی کارروائی میں سَنگھ کے سربراہ "ساورکر ” ناتھورام گوڈسے کی پشت پر تھے اور چند سالوں پہلے طاقتور امریکی صدر اوباما نیلسن منڈیلا کے جنازے میں قطار باندھے کھڑے تھے امید ہیکہ یہ حقائق آپکی نظروں میں ہوں گے، تاریخ کی عدالت میں بھاجپائی استعمار کی عدالتی تاریخ کا عنوان ہوگا ” دو صحافی ،ایک سپریم کورٹ، دو فیصلے "ـ
ہم لکھتے ہیں کیونکہ کیفی اعظمی کہتےہیں :
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے
حقانی القاسمی ادب و صحافت کا وہ استعارہ ہیں جن کی تحریروں کے رنگ و آہنگ نے اپنے تو اپنے ،غیروں کو بھی متوجہ کیاہے۔ نئی نسل کے ممتاز قلم کاروں کا ادبی و صحافتی منظرنامہ حقانی کے تذکرے کے بغیر اپنی بے بصیرتی پر آٹھ آٹھ آنسو روئے گا۔ انھوں نے اپنی تحریروں سے ادب و صحافت کو جو وقار بخشا ہے، اس کے لیے اردو برادری ان کے احسان سے دست کش نہیں ہوسکتی۔ اب وہ نئی نسل کے پڑاؤ کو عبور کرکے قلم کاروں کے اس قافلے میں شامل ہوچکے ہیں، جن کی تحریروں سے نہ صرف روشنی حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ وہ ادب و صحافت کے ایک خاص رجحان کے فروغ کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں۔
حقانی القاسمی سے میرے تعلقات کم و بیش ربع صدی پر محیط ہیں۔ وہ ’اخبارِنو‘ سے ہوتے ہوئے جب ’نئی دنیا‘ کے شعبۂ ادارت میں آئے تو میں ان دنوں ’نئی دنیا‘ اور روزنامہ ’عوام‘ سے وابستہ تھا۔روزنامہ ’عوام‘ کے ادبی صفحات کی ایڈیٹنگ میرے ذمے تھی اور نئی دنیا کا تبصراتی کالم ’کتاب نما‘ پابندی سے لکھا کرتا تھا۔ یوں تو ’سرِراہے‘ حقانی سے ملاقات روزکا معمول تھا،لیکن نئی دنیا کے دفتر میں خوب ملاقاتیں ہونے لگیں، وہیںایک روز مجھ پر یہ انکشاف بھی ہواکہ حقانی بہت اچھی نظمیں بھی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں ان کی ایک نظم روزنامہ ’عوام‘ کے ادبی صفحہ پر شائع کی تو اس کی خوب پذیرائی ہوئی، حالانکہ انھوں نے اپنے اس شوق کو خود ہی پروان نہیںچڑھایا یا ادبی اور صحافتی تحریروں نے انھیں اس کاموقع نہیں دیا، اس بارے میں راوی اور شاعر دونوں خاموش ہیں۔
حقانی کی صحافتی زبان میں جو تازگی، بلند حوصلگی اور جولانیِ فکر ہے، وہ ان کے ہم عصروں میں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اس لیے کہ ان کی ہر ہر سطر میں تخلیقی آہنگ کے جو نمونے ملتے ہیں اور ادبی و تنقیدی مزاج میں جو مماثلتیں پائی جاتی ہیں ان سے اردو ادب و صحافت کے وقارمیں بیش از بیش اضافہ ہوتا ہے۔ نئی دنیا میں جب وہ ’تکلف بر طرف‘ اور ’لا تخف‘ میں شامل مضامین قلم بند کررہے تھے، اسی وقت سے ادب و صحافت کی دنیا میں وہ اپنا الگ مقام بنا رہے تھے۔ پھر صلاح الدین پرویز کے سہ ماہی ’استعارہ‘ سے وابستگی کے بعد ان کے مقام و مرتبہ کو پنکھ سے لگ گئے اور وہ ادب و صحافت کی دنیا میں اعتبار کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ یہ بات تو اسی وقت مشہور ہوگئی تھی کہ سہ ماہی ’استعارہ‘ کے ہر صفحہ کی ہر ہر سطر پرحقانی کے دستخط ثبت ہیں۔اس کے مالک و مدیر صلاح الدین پرویز بے پناہ مصروفیتوں کی وجہ سے استعارہ کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے اور حقانی القاسمی ’استعارہ‘ کے با اختیار مدیر تھے۔
حقانی القاسمی کے ادب و صحافت کے اس سنہرے سفرمیں تنقید کے جوہر بھی کھل کر سامنے آنے لگے، اس لیے کہ اب ان کے پاس ایک مضبوط پلیٹ فارم ’استعارہ‘ کی شکل میں موجود تھا۔ علی الخصوص ان کے مقبول عام کالم ’حقانی تبصرے‘ نے ادبی جرائد کی دنیا کو ورطۂ حیرت میںڈال دیا۔ جو تنقیدی روش ان کے مزاج کا آہنگ تھی، اس پر انھوں نے کتابوں کے ایسے گل بوٹے سجائے کہ آج بھی تبصراتی دنیا میں اردو کتابوں کے تبصروں پر اگر کہیں گفتگو ہوتی ہے تو ’حقانی تبصرے‘ کے عنوان کے بغیر وہ گفتگو ادھوری ہی قرار دی جائے گی۔ انھوں نے اپنے جادو نگار قلم سے ایسی کرشمہ سازیاں کیں اور اپنی غیرمعمولی صحافتی بصیرت سے تبصروں کو ایسی تخلیقی روحانیت عطا کی کہ وہ تحریریں تنقیدی تبصرے نہ ہوکر ایک مکمل تخلیق کے لباس میں نظر آئے۔
استعارہ کا ایک مستقل عنوان ’بدن کی جمالیات‘ بھی تھا جس میں حقانی نے ایسے ایسے جمالیاتی پہلوؤں کی نشاندہی کی، جن پر انگلیاں اٹھنا فطری تھا، لیکن انھوں نے ہار نہیں مانی اور ’بدن کی جمالیات‘ کی روشن تعبیریں ان کے تخلیقی سفر میں چار چاند لگاتی رہیں۔ انھوں نے صرف اپنے تجربات اور مشاہدات سے اپنی تخلیقی جمالیات کو اساطیری جمالیات کے مماثل کرنے کی ممکنہ کوششیں کی ہیں۔ کہیں کہیں ان کی جمالیات پر ماہر جمالیات شکیل الرحمن کی جمالیات کا عکس بھی نظر آتا ہے اور کیوں نہ نظر آئے تخلیق جب متن سے مکالمہ کرتی ہے تو اس کے تمام جمالیاتی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے؟ تبھی تخلیق ناقدوں کی نظر میں قابلِ اعتنا ٹھہرتی ہے ورنہ کتنی تخلیقات ایسی ہیں جو اپنے متن کی جمالیات کے باوجود ناقدوں کی نگاہ میں کسی قابل نہیں ٹھہرتیں اور اپنے بہترین اسلوب نگارش کے باوجود کاغذی ثابت ہوتی ہیں۔
’استعارہ‘ نے ادبی صحافت کو جو رنگینی اور اسلوب عطا کیا، اس نے نئی دہلی اور ہندوستان کی ادبی صحافت کو نئی راہ دکھائی اور اس کا ہر شمارہ ایک تاریخ بنتا چلا گیا۔ صلاح الدین پرویز، حقانی القاسمی اور ’استعارہ‘ کی پوری ٹیم کی پذیرائی کی جاتی رہی ہے اور یہ ضروری بھی ہے، ورنہ پوری اردو برادری اس ٹیم کی قرض دار ہوتی۔
حقانی القاسمی کی اگلی منزل راشٹریہ سہارا نئی دہلی تھی۔ ان کا تقرر سہارا کے ادبی و ثقافتی ترجمان ماہنامہ ’بزمِ سہارا‘ کے شعبۂ ادارت میں ہوا۔ ’بزمِ سہارا‘ اپنے پہلے شمارے سے ہی اردو دنیا کو اپنا گرویدہ بنا چکا تھا۔ اس وقت کے راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر عزیزبرنی نے ’راشٹریہ سہارا‘ کے مینجمنٹ ایڈیٹر سے ’بزمِ سہارا‘ کے اخراجات کے لیے خصوصی فنڈ کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔ ورنہ سفید گلیزڈ کاغذ پر ملٹی کلر نفیس طباعت اور دیدہ زیب جاذب نظر سرورق کے بغیر شاید ’بزمِ سہارا‘ وہ مقبولیت حاصل نہ کرپاتا، جس کے لیے اسے یاد کیا جاتا ہے۔
حقانی نے اپنی منفرد اور بے باکانہ صلاحیتوں سے ’بزمِ سہارا‘ کی مقبولیت کو مزید جلا بخشی اور یہ رسالہ کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچتا چلا گیا۔ ’بزمِ سہارا‘ اردو کا وہ واحد رسالہ ہے، جسے ہندوستان کی ایئرلائن میں پہنچنے کا شرف حاصل ہے۔ اپنی کامیابیوں کے دور میں کیا اس کے بعد بھی اتنا خوب صورت، جامع اور وقیع ادبی اور ثقافتی رسالہ اردو برادری پیش نہیں کرسکی ہے۔ اس میں تخلیقات کے نئے نئے عنوان بھی قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرتے تھے۔ حقانی نے ’شہر سخن‘، ’جہانِ دانش‘، ’گہوارۂ دانش‘، ’بادۂ کہن‘، اور ’مباحثہ‘ عناوین کے تحت ’بزمِ سہارا‘ کو ترقی کی نئی منزلوں سے آشنا کیا۔ پانچ برس میں ’بزمِ سہارا‘ نے قارئین کے ذہنوں میں ایسی شمعیں روشن کیں کہ آج بھی اپنے رنگ و نور سے وہ اردو دنیا کا ایک منفرد ’شناخت نامہ‘ ہے۔ ادب و صحافت کے فروغ میں جو سنگ میل اس رسالے نے قائم کیے اس میں بزم سہارا کی ایڈیٹوریل ٹیم کے ساتھ حقانی القاسمی کی چھاپ نمایاں نظر آتی ہے۔
’بزمِ سہارا‘ کی اشاعت بند ہونے کے بعد حقانی القاسمی ہفت روزہ ’عالمی سہارا‘ سے وابستہ ہوگئے۔ اور اس کا ادبی حصہ ’باب ادب‘ ترتیب دینے لگے۔ یہاں بھی ان کی ادبی صحافت نکھری نکھری لگتی ہے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ ’بزمِ سہارا‘ کی اشاعت بند ہونے کے بعد ’باب ادب‘ سہارا کو قارئین کے لیے ایک تنکے کے سہارے کی طرح تھا جس میںان کی وارفتگیِ شوق کو معمولی سا سہارا مل جاتا تھا۔
حقانی القاسمی ادیب بھی ہیں اور صحافی بھی لیکن وہ اپنے نام کے ساتھ کسی ٹیگ کو پسند نہیں کرتے۔ انھوں نے خود اس بات کاا عتراف کیا ہے کہ میری حالت تو بالکل خواجہ احمد عباس کی طرح ہے کہ صحافی انھیں کہانی کار سمجھتے تھے اور ادیب انھیں صحافی….. ان کا بھی اسی طرح کا معاملہ ہے۔ ادبی حلقہ انھیں صحافی سمجھتا ہے اور صحافی برادری ادیب گردانتی ہے۔ انھوں نے یہ بات بالکل صحیح کہی ہے کہ صحافت ہو یا ادب اس کابنیادی کام سوتے ہوئے معاشرے کو بیدار کرنا ہے….. اور ادب اور صحافت دونوں ایک دوسرے سے باہم پیوست ہیں۔ دونوں میں ایک داخلی ربط ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ صحافت میں خبر پر ارتکاز ہوتا ہے اور ادب میں نظر پر….. اسی طرح یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بغیر ادبی شعور کے اچھی صحافت ممکن نہیں ہے اور بغیر صحافتی بصیرت کے اچھے ادب کی تخلیق دشوار ہے۔ انگریزی اور اردو صحافت سے متعلق حقانی کا خیال ہے کہ انگریزی صحافت قاری کو اپنی سطح پر لانے کی کوشش کرتی ہے اور اردو صحافت قاری کی سطح پرا تر جاتی ہے جس کی وجہ سے اردو صحافت کا معیار مجروح ہوتا ہے۔
شاہدالاسلام کی صحافت پر کتاب ہم عصر صحافت… پر گفتگو کرتے ہوئے حقانی القاسمی لکھتے ہیں:
’’شاہد الاسلام نے ’جذباتی معروضیت‘ کے ساتھ صحافت کے جملہ عناصر و عوامل کا تجزیہ کیا ہے۔ جذباتیت اور معروضیت کے متضاد رشتوں کو بڑی خوب صورتی سے مربوط کیا ہے۔ مسائل کے تجزیے میں جتنی معروضیت ہے بیان میں اتنی ہی جذباتیت۔ یہ ہنر بہت لوگوں کو نصیب ہے۔ ورنہ صحافت سے جڑے ہوئے بیشتر افراد جذباتیت میں الجھ کر معروضیت کادامن چھوڑ دیتے ہیں۔ صحافت کا سماجیات، لسانی مذہبی تعصبات، مالکوں کے منفعت پسندانہ مزاج، ملازمین کا استحصال، اخبارات کے مذہبی جنون، فرقہ وارانہ خطوط پر صحافت کی تقسیم، قاری کی کمی اور صحافت کی اشتعال انگیزی، سرکولیشن اور نظام تقسیم کے حوالے سے لکھتے ہوئے بھی معروضی اور منطقی انداز اختیار کیا ہے اور ہر ایک بات دلائل و شواہد کے ساتھ کہی ہے۔‘‘
اس تبصراتی مضمون میں حقانی نے ’جذباتیت اور معروضیت‘ جیسے الفاظ سے شاہد الاسلام کی جس انداز میں توصیف کی ہے، اس کو سمجھنے والے بہت دور کی کوڑی سے تعبیر کرتے ہیں۔
حقانی القاسمی اردو زبان کی خوش بختی کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اردو زبان معاش سے مکمل طور پر مربوط نہیں ہے۔ پھر بھی اس دشت میں بہت سے قیس اور کوہ میں بہت سے فرہاد ہیں جو نفع و ضرر اور سود و زیاں کی پروا کیے بغیر اردو زبان و ادب کے وجود کو استحکام بخش رہے ہیں اور اردو کوعالمی ادبیات کے مقابل لارہے ہیں۔
انھوں نے معروف ناقد و ادیب ڈاکٹر انور سدید (پاکستان) کے حوالے سے ادبی رسائل کے مقاصد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اس کا بڑا مقصد علوم نو کا تعارف اور علوم قدیم کی بازیافت، نظریات، ادب کی اشاعت، فکری رجحانات کی افزائش ادبی تحریکوں کا فروغ اور فنی تخلیقات کی پیش کش ہے۔ ادبی رسالے کا مقصد ادبا کی تخلیقی اور ذہنی کروٹوں کو فن پاروں کی صورت میں پیش کرنا اور مستقبل کے ادوار کے لیے محفوظ کرنا بھی ہوتا ہے۔ ادبی رسالہ نئے لکھنے والوں کی ذہنی تربیت کرتا ہے اور پرانے لکھنے والوں کے ذہن کو جلا اور مزید غور و فکر کی دعوت دیتا ہے— ادبی صحافت کے اثر و عمل کا دائرہ وسیع ہے اور ادبی رسائل وجرائد میں مختلف ادوار کی ذہنی اور فکری تاریخ ہی محفوظ نہیں ہوجاتی، بلکہ مختلف ادوار میں پروان چڑھنے والی تحریکوں اوررجحانات کاا حوال بھی رقم ہوتا چلا جاتا ہے اور اسے مستقبل میں سماجی تجزیہ اور تہذیبی تحلیل میں بھی معاونت ملتی ہے۔ اس لحاظ سے ادبی رسالے کو ایک ایسا اہرام سمجھیے جس کے باطن میں ایک دور کی سماجی، معاشرتی، فکری اور تخلیقی کروٹیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ (معاصر ادبی صحافت: حقانی القاسمی بہ حوالہ مخزن، لندن 5)
حاصل کلام یہ ہے کہ اردو کی ادبی صحافت اپنی کم مائیگی اور وسائل کی کسی نہ کسی سطح پر عدم دستیابی کے باوجود برابر پروان چڑھ رہی ہے۔ ملک کے بہت سے بڑے شہروں سے معیاری ادبی رسائل شائع ہورہے ہیں اور اپنی اپنی سطح پر اردو کی ادبی صحافت کے بہترین مستقبل کی کلید بھی ہیں جس سے اردو کی ادبی صحافت کے وقار میں اضافہ ہورہا ہے اور معیار و مزاج بھی اپنے نئے نئے زاویوں کے باوصف قبول عام کی سند سے سرفراز ہورہا ہے۔ اس کو اردو کی صحافت کے لیے خوش آئند علامت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
حقانی القاسمی نے ادبی صحافت کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے ہیں اور بہت سے اہم نکات کی طرف اشارے بھی کیے ہیں ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے!
اسلام کو براہِ راست سمجھنے کا شوق، اسلامک اسٹڈیز کے انٹرنس ایگزام میں ہندو طالب علم نے ٹاپ کیا
الور: الور میں مقیم شوبھم یادونامی طالب علم سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے اسلامک اسٹڈیز کے انٹرنس ایگزام میں ٹاپ کرنے والا پہلا ہندو طالب علم بن گیا ہے ۔شوبھم جس نے کشمیر یونیورسٹی کے داخلے میں سرفہرست مقام حاصل کیا ہے، وہ نہ صرف ہندو طالب علم ہے ،بلکہ وہ بیرونی کشمیر سے تعلق رکھنے والا پہلا غیر کشمیری طالب علم بھی ہے۔ عمومی طور پر کشمیری اور مسلم طلباء یونیورسٹی کے اس امتحان میں سرفہرست رہے ہیں۔ کشمیر سنٹرل یونیورسٹی کے داخلے کے نتائج زیربحث ہیں۔ شوبھم کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر اور اسلام کو قریب سے سمجھنا چاہتا ہے ، اس کے لئے وہ اس انٹرنس امتحان میں شریک ہوا۔ وہ دہلی یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کے بعد وہ سول سروس میں جانا چاہتا ہے۔ شوبھم کا کہنا ہے کہ دہلی میں گریجویشن کے دوران اس کااسلامک اسٹڈیز کی طرف جھکاؤ تھا، صرف اسی وجہ سے کہ وہ اسلام کو سمجھنا چاہتا ہے۔مذکورہ طالب علم کی والدہ اندو بالا الور کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول میں لیکچرار ہیں،وہ تاریخ پڑھاتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شوبھم شروع ہی سے ان موضوعات کیلئے متجسس تھا، اسے نئی معلومات حاصل کرنے کا شوق ہے۔ دہلی میںدورانِ تعلیم اس کا ایک کشمیر ی دوست بھی رہا ہے۔ حال ہی میں جب وہ کشمیر گھومنے گیا تھا،تو اسے وہاں کا ماحول پسند آیا تھا۔ اس کے بعد شوبھم نے اسلامک اسٹڈیز میں داخلے کے لئے انٹرنس امتحان دینے کا فیصلہ کیا۔
نئی دہلی:نائب صدرجمہوریہ ہندایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ پریس کی آزادی پر کوئی بھی حملہ قومی مفادات کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی ہرایک کے ذریعہ مخالفت کی جانی چاہیے۔پریس کے قومی دن کے موقع پر پریس کونسل آف انڈیا کے ذریعہ منعقدہ کووڈ-19 عالمی وباکے دوران میڈیا کے رول اور میڈیا پر اس کے اثرات کے موضوع پر ایک ویبینار کے لیے اپنے ایک پہلے سے ریکارڈ کیے گئے ویڈیو پیغام میں نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ایک آزاد اور بے خوف پریس کے بغیر جمہوریت برقرار نہیں رہ سکتی۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں پریس ہمیشہ جمہوریت کے تحفظ اور اسے مستحکم کرنے کا ذریعہ رہی ہے۔نائب صدر جمہوریہ نے زور دے کر کہا کہ ایک آزاد اور فعال میڈیا بہت اہم ہیجب کہ ایک آزاد عدلیہ جمہوریت کو مستحکم اور قانون کی بالادستی کومضبوط کرتا ہے۔صحافت کو ایک مقدس مشن قرار دیتے ہوئے انہوں نے عوام کو بااختیار بنانے اور قومی مفادات کو فروغ دینے میں پریس کے اہم کردار کی ستائش کی۔اس کے ساتھ ہی وینکیانائیڈو نے مشورہ دیاہے کہ میڈیا کو اپنی جانب سے انصاف پسند، بامقصد اور اپنی رپورٹنگ میں درست ہونا چاہیے۔انہوں نے مزیدکہا کہ سنسنی خیزی سے گریز کرنا چاہیے اور خبروں میں نظریات کی ملاوٹ کے رجحان سے بچنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری رپورٹنگ میں ترقیاتی خبروں کے لیے زیادہ سے زیادہ جگہ دی جانی چاہیے۔نائب صدر جمہوریہ نے کووڈ-19عالمی وبا کے پیش نظر صف اول کے جنگجوکی طرح کام کرنے اور تمام واقعات کی بلارکاوٹ اطلاعات دینے کے لیے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کی ستائش کی۔انہوں نے کہا کہ ان صحافیوں نے وبا سے متاثرہونے کے خوف کے بغیر پوری محنت سے کام کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ میں ہر اس صحافی اور کیمرہ مین اور دیگر افراد کی زبردست ستائش کرتا ہوں جو خبروں اور معلومات کی فراہمی کے لیے مسلسل کوششیں کرتے رہے ہیں۔نائب صدرجمہوریہ نے عالمی وبا کے دوران، خاص طور پر ایسے میں جب کہ فرضی خبروں کی بھرمار ہے، درست وقت پر درست معلومات فراہم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔غیر مصدقہ اور بے بنیاد دعوؤں کے خلاف تحفظ کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ اس سلسلے میں عوام میں بیداری پیدا کرنے میں میڈیا کا بہت بڑا رول ہے۔
نئی دہلی:شاہین باغ کے تاریخی احتجاج پرسپریم کورٹ نے کہاتھا کہ عوامی مقامات پر احتجاج کرنے کا حق مطلق نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہاتھاکہ اس طرح کے مظاہروں کے لیے عوامی مقامات پر غیر معینہ مدت کے لیے قبضہ نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ احتجاج نامزد مقامات پر ہوناچاہیے۔جب کہ میڈیارپورٹ کے مطابق راستہ پولیس نے بند کر رکھا تھا، مظاہرین سڑک کے ایک طرف تھے،جب کہ دورسے ہی راستے بندتھے۔جس سے مسافروں کوپریشانی کاسامناتھا،اسے بہانہ بناکرطرح طرح کے پیروپیگنڈے کیے گئے ۔شاہین باغ کے تاریخی احتجاج کی آوازپوری دنیامیں سنی گئی اورپورے ملک میں سینکڑوں شاہین باغ بن گئے۔کارکنوں نے اب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کردی ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر نظرثانی درخواست میں درخواست گزارکی جانب سے کہاگیا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ پولیس کوکسی بھی پابندی کے بغیر پرامن مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حق دیتا ہے۔ اس سے انتظامیہ مظاہرین سے بات کرنے اور مسئلہ حل کرنے کی بجائے غلط استعمال کرے گی۔درخواست گزار نے کہا ہے کہ پرامن مظاہرہ ہی لوگوں کے لیے جمہوریت میں احتجاج کا واحد راستہ ہے۔ یہ فیصلہ احتجاج کے حق کی خلاف ورزی ہے۔معاشرے کے کمزور طبقوں سے آنے والوں کو احتجاج کے حق سے انکار کیا جائے گا۔ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ احتجاج کے لیے کسی خاص علاقے کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ دہلی پولیس کو لوگوں کو ہٹانے کے لیے کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ حکام کو خود کارروائی کرنی چاہیے ، عدالتوں کے پیچھے چھپے نہیں رہ سکتے۔
بہار میں کانگریس کی ناقص کارکردگی پر کپل سبل کا تبصرہ،اشوک گہلوت بولے:داخلی معاملات کومنظرعام پرلانے کی ضرورت نہیں تھی
نئی دہلی:بہار اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی ناقص کارکردگی کے بعدپارٹی کی اندرونی کشمکش ایک بار پھر عام ہوگئی ہے۔ اس معاملے پر پارٹی کے دو تجربہ کار لیڈراشوک گہلوت اور کپل سبل آمنے سامنے ہیں۔ کپل سبل پرحملہ کرتے ہوئے اشوک گہلوت نے کہاہے کہ میڈیا کو اندرونی معاملات میںلانے کی ضرورت نہیں ہے۔اپنے ٹویٹ میں اشوک گہلوت نے لکھا ہے کہ کپل سبل کو میڈیا کے سامنے ہمارے اندرونی معاملے کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ، اس سے ملک بھر میں پارٹی کارکنوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ایک اور ٹویٹ میں اشوک گہلوت نے لکھا ہے کہ کانگریس کو 1969 ، 1977 ، 1989 اور بعد میں سال 1996 میں مختلف بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن ہر بار ہم اپنے نظریے ، پروگراموں ، پالیسیوں اورپارٹی قیادت پریقین کی وجہ سے مضبوط ہوئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات کے دوران پارٹی کے اعلیٰ لیڈر کپل سبل نے حزب اختلاف کے عظیم اتحاد میں سب سے کمزور کڑی کے طور پر سامنے آنے والی کانگریس پر سرعام رد عمل کا اظہار کیا تھا۔
نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی نے بہار کے وزیر اعلی کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد پیر کو نتیش کمار کو مبارکباد پیش کی اور مرکز سے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کاخاندان ریاست کی ترقی کے لئے مل کر کام کریں گے۔ مودی نے ٹویٹ کیاکہ بہار کے وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف اٹھانے پر نتیش کمار کو بہت ساری مبارکباد، بہار حکومت میں بطور وزیر حلف اٹھانے والوں کو مبارکباد۔ این ڈی اے کنبہ بہار کی ترقی کے لئے مل کر کام کرے گا۔ مرکز کی جانب سے بہار کی فلاح و بہبود کی میں آپ کو ہر ممکن مدد کا یقین دلاتا ہوں۔بہار کی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے نتیش کمار نے دو دہائیوں میں ساتویں بار بہار کے وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف لیا۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے قومی صدر جگت پرکاش نڈا جیسے این ڈی اے کے اعلی لیڈران کی موجودگی میں گورنر فاگو چوہان نے راج بھون میں منعقدہ ایک تقریب میں کمار کو عہدے اور رازداری کا حلف دلایا۔ بہار میں حالیہ اختتام پذیر اسمبلی انتخابات میں، این ڈی اے کو 125 نشستیں ملی تھیں، جس میں نتیش کمار کی جے ڈی (یو) کو 43 نشستیں ملی تھیں، جبکہ بی جے پی کو جے ڈی (یو) کے مقابلے میں 31 نشستیں (74 نشستیں) زیادہ ملیں۔
تیجسوی نے وزیراعلی نتیش پرسادھا نشانہ،کہاامید ہے اس بار عوامی توقعات کوبنائیں گے ترجیح
پٹنہ:جے ڈی یو کے قومی صدر نتیش کمار نے گورنر فاگو چوہان کی موجودگی میں آج ساتویں بار بہار کے وزیر اعلی کا حلف لیا۔ ان کے ساتھ ہی دونوں نائب وزیر اعلی اور تمام وزراء نے بھی حلف لیا۔ یہاں نتیش کمار کے وزیر اعلی کے عہدے کا حلف اٹھانے کے فورا بعد ہی حزب اختلاف کے لیڈر تیجسوی یادو نے ان پر حملہ کردیا۔تیجسوی یادو نے ٹویٹ کیاکہ نتیش کمار جی کو وزیر اعلی نامزد کرنے پر نیک خواہشات، میں امید کرتا ہوں کہ کرسی کے عزائم کے بجائے وہ بہار کی عوامی فلاح و بہبود اور این ڈی اے کی 19 لاکھ ملازمتیں ، تعلیم، دوائی،کمائی، آب پاشی، سماعت جیسے مثبت امور کو حکومت کی ترجیح دی جائے گی۔ واضح رہے کہ حزب اختلاف کے لیڈر تیجسوی یادو نے حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی۔ آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے حلف برداری کا بائیکاٹ کیا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ این ڈی اے نے مینڈیٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے حکومت تشکیل دی ہے، اس لئے حلف برداری کی تقریب میں شامل ہونا مینڈیٹ کی توہین ہوگی۔
پانچ سال سے زیادہ سزایافتہ ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ کرنے سے سپریم کورٹ کا انکار،کہا قانون بنانا ہمارا کام نہیں
نئی دہلی:5 سال سے زیادہ کی سزاوالے جرائم کے ملزم ایم ایل اے اورایم پی کی رکنیت منسوخ کرنے سے متعلق سماعت سے سپریم کورٹ نے انکار کردیا۔ عدالت نے اعتراف کیا ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ قانون سازی مقننہ کا کام ہے، جس میں عدالت مداخلت نہیں کرسکتی ہے۔اس معاملے پر درخواست این جی او لوک پرہاری کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ اس میں سپریم کورٹ کے پرانے تبصرے کا حوالہ دیا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جن لوگوں کے خلاف سنگین جرائم کے لئے چارج شیٹ دائر کی گئی ہے، انہیں الیکشن لڑنے سے روکنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کو اس ضمن میں قانون بنانا چاہئے۔ اس معاملے کو لاء کمیشن کو بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا کہ جن لوگوں پر 5 سال سے زائد کی سزا کے کسی جرم میں عدالت میں فرد جرم عائد کی گئی ہے، انھیں انتخابات لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے لیکن پارلیمنٹ نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی قانون نہیں بنایا ہے۔جو جسٹس ناگیشورا راؤ کی سربراہی میں بنچ کے سامنے پیش ہو ئے این جی او کے سکریٹری ایس این شکلانے کہاکہ مقننہ مجرمانہ پس منظر والے لوگوں سے ناراض ہے، وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اس طرح کا قانون نافذ کیا جائے، اب تک عدالت اور لاء کمیشن کی سفارشات کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسی اثنا میں متعدد انتخابات ہوئے، ان میں ایک بار پھر سنگین جرائم کے ملزم پارلیمنٹ اور اسمبلی تک پہنچے۔ ان تمام انتخابات کو عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 100 کے تحت کالعدم قرار دیا جانا چاہئے۔درخواست گزار کی اس درخواست پر عدالت نے کہاکہ ہم قبول کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے ابھی تک اس اہم موضوع پر کوئی قانون نہیں بنایا ہے لیکن اقتدار کو آئین کے تحت اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ مقننہ کوہی اس قانون کا دائرہ اختیار حاصل ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم اپنی طرف سے کوئی قانون نہیں بناسکتے،قانون کی عدم موجودگی میں آپ جو مطالبہ ہمارے سامنے رکھے ہیں، وہ بھی پورا نہیں کیا جاسکتا۔شکلا نے ججوں سے اپیل کی کہ وہ درخواست خارج نہ کریں۔ کہاکہ سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت بے حد طاقت حاصل ہے، آپ اس کا استعمال کریں،قانون میںجو کمیاں ہیں،انہیں دورکریں۔ 2018 میں پبلک انٹریسٹ فاؤنڈیشن بمقابلہ حکومت ہند کیس میں سپریم کورٹ نے خود ہی سیاست میں مجرمین کورونکنے کولے کر بہت سے تبصرے کئے تھے، میں عدالت سے التجا کر رہا ہوں کہ انہیں جذبات پر عمل کیا جائے۔لیکن جج نے کوئی حکم جاری کرنے پر اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے درخواست گزار سے کہاکہ ہم نے معاملہ کو اہم سمجھا، اس لئے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت تک اسے سنا لیکن ہم کوئی حکم جاری نہیں کرنا چاہتے، اگر کوئی پرانا فیصلہ آیا ہے جس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے، تو اس میں آپ ایک علیحدہ پٹیشن دائر کرسکتے ہیں۔
علی گڑھ:’’سرسید اکیڈمی اور دارا شکوہ مرکز تفاہم بین المذاہب و ڈائیلاگ ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دو اہم ادارے ہیں جو کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ عوام تک براہ راست ربط پر بھی توجہ مرکوز کریں تاکہ سماج کو مجموعی طور سے فائدہ ہو ۔ کتابوں کو دیگرہندوستانی زبانوں میں بھی ترجمہ کرکے شائع کیا جائے تاکہ سرسید اور علی گڑھ تحریک کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے‘‘۔ان خیالات کا اظہار اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام ’مقالات سرسید‘ سمیت دیگر کتابوں اور مونوگراف کی آن لائن رسم اجراء تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔وائس چانسلر کے بدست ’مقالات سرسید‘ (مولانا محمد اسماعیل پانی پتی)، جلد اوّل،’ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیلنڈر-1932‘ ، ’ تفہیم سرسید (الطاف احمد اعظمی)، ’شیخ محمد عبداللہ (پاپا میاں)‘ از ڈاکٹر محمد فرقان،’ جسٹس سرشاہ محمد سلیمان ‘از ڈاکٹر اسد فیصل فاروقی اور ’مولوی چراغ علی‘ از ڈاکٹر رضا عباس کا اجراء عمل میں آیا۔ پروفیسر منصور نے کہاکہ اے ایم یو کے صدی سال میں سرسید اور علی گڑھ تحریک سے متعلق قدیم کتابوں کی اشاعت باعث مسرت ہے۔ انھوں نے کہاکہ اشاعتوں کا معیار بلند ہونا چاہئے ، ساتھ ہی کتابوں کا ہندوستانی اور انگریزی سمیت دیگر غیرملکی زبانوں میں ترجمہ بھی ہونا چاہئے تاکہ سرسید اور علی گڑھ تحریک کا پیغام دور دراز تک پہنچے۔ ملٹی ڈسپلنری یونیورسٹی ہونے کے باعث اے ایم یو میں یہ کام آسان ہے ۔ پروفیسر منصور نے کہاہے کہ سرسید اکیڈمی میں ریسرچ کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے۔ انھوں نے کہاکہ شیخ محمد عبداللہ پاپا میاں کو ہندوستان میں خواتین کی جدید تعلیم کا بابائے آدم کہا جاسکتا ہے۔ جسٹس سر شاہ محمد سلیمان اور مولوی چراغ علی، علی گڑھ تحریک کا اہم باب ہیں۔ ان کتابوں کی اشاعت کے لئے اکیڈمی کے ذمہ داران مبارکباد کے مستحق ہیں۔اس سے قبل ’مقالات سرسید‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر شافع قدوائی (صدر، شعبۂ ترسیل عامہ، اے ایم یو) نے کہاکہ مولانا اسماعیل پانی پتی کی مرتب کردہ ’مقالات سرسید‘ ۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی تھی جس میں نقل نویسوں کی غلطیوں کے باعث کئی کمیاں رہ گئی تھیں۔ سرسید اکیڈمی نے یونیورسٹی کے صدی سال میں اس کتاب کے اغلاط کو درست کرکے اسے شائع کیا ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے کہاکہ اس اشاعت کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں کئی مضامین جو سرسید کے نام سے شائع نہیں ہوئے تھے انھیں سرسید کے مضامین میں شامل کردیا گیا۔ مشہور انگریزی انشائیہ نویس جوزف ایڈیسن اور رچرڈ اسٹیل کے انشائیوں کے تراجم جس کی صراحت خود سرسید نے کی ہے، انھیں مولانا اسماعیل پانی پتی نے ’مقالات سرسید‘ میں شامل کرلیا تھا۔ اس خلط مبحث کوسرسیداکیڈمی نے اپنی تازہ اشاعت میں دور کردیا ہے۔
بہار:ساتویں بارسجانتیش کمار کے سروزیراعلی کاتاج، امت شاہ اور جے پی نڈا رہے موجود
پٹنہ: بہار کو آج ایک نئی حکومت ملی۔ نتیش کمار اس حکومت کے سربراہ بن گئے۔ این ڈی اے نے متفقہ طور پر انہیں قانون ساز پارٹی کا لیڈر منتخب کیا اور آج نتیش کمار نے ساتویں بار وزیر اعلی کے عہدے کا حلف لیا۔ جے ڈی یو کے قومی صدر نتیش کمار بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کی 125 نشستوں پر کامیابی کے بعد لیڈر منتخب ہوئے تھے۔ آج راج بھون بہار میں منعقدہ تقریب حلف برداری میں نتیش کمار کو ایک بار پھر وزیراعلی بہار کا تاج پہنایا گیا۔ اس تقریب میں شرکت کے لئے آج وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا دہلی سے پٹنہ پہنچے ۔ نتیش کمار کے دور میں آج بننے والی این ڈی اے حکومت میں وزیر اعلی سمیت کل 15 وزراء نے حلف لیا ہے۔ تارکشور پرساد اور رینو دیوی نے حکومت میں نائب وزیر اعلی کی حیثیت سے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ جے ڈی یو کی جانب سے حکومت میں پہلی بار ایم ایل اے بننے والے وجے کمار چودھری، اشوک چودھری، میولال چودھری اور شیلا کماری کو شامل کیا گیا ہے۔ بہار کے سابق وزیر اعلی جیتن رام مانجھی کے بیٹے سنتوش سمن نے بھی بطور وزیر حلف لیا، وہ جے ڈی یو کوٹہ سے وزیر بنے ہیں۔ اس کے علاوہ وی آئی پی پارٹی کے مکیش ساہنی نے بھی بطور وزیر حلف لیا ہے،وہ بی جے پی کوٹہ سے وزیر بنے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی بہار کے بی جے پی کے سینئر لیڈر نندکشور یادو کو اسمبلی کا اسپیکر بنایا گیاہے۔
اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سہ رکنی بنچ نے کیرالہ کے ماخوذ صحافی صدیق کپن کوراحت نہیں دی۔ چیف جسٹس نے وکیل دفاع کو زیادہ سنا بھی نہیں۔ بہت مختصر سی سماعت اور کپن کے وکیل کپل سبل کے اصرار کے بعد حکومت اتر پردیش کو نوٹس جاری کردیا اور اگلی سماعت کی تاریخ 20 نومبر طے کردی۔اس تاریخ پر یوپی حکومت کو بھی موجود رہنے کو کہا گیا ہے۔
صدیق کپن دراصل کیرالہ کے ایک صحافی ہیں جو گزشتہ نو سال سے دہلی میں رہتے ہیں۔ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کے بعد اعلی ذات کے ملزموں نے اس پر اتنا تشدد کیا تھا کہ وہ دہلی میں دوران علاج دم توڑ گئی تھی۔اس کے بعد ہاتھرس انتظامیہ اور پولیس نے رات کے اندھیرے میں اس کی لاش کو چتا کے حوالہ کردیا تھا اور اس کے اہل خانہ تک کو اس کی شکل نہیں دکھائی تھی۔اس واقعہ پر پورے ملک میں بے چینی پھیلی۔ہاتھرس میں اپوزیشن پارٹیوں کا تانتا لگ گیا لیکن حکومت یوپی نے متاثرہ خاندان پر پہرہ بٹھادیا۔ایسے میں میڈیا سے وابستہ بعض لوگوں نے متاثرہ کے احوال کو عام کیا اور اس کے بعد بہت سے صحافی دور دراز کا سفر کرکے اس کے گاؤں تک پہنچنے لگے۔
انہی میں کیرالہ کے صحافی صدیق کپن بھی تھے جو 5 اکتوبر کو تین نوجوانوں کے ساتھ ہاتھرس جارہے تھے۔ان نوجوانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دہلی میں اسٹوڈنٹس ہیں اور پی ایف آئی کی طلبہ شاخ کے ذمہ دار ہیں۔ابھی یہ چاروں ہاتھرس پہنچے بھی نہیں تھے اور متھرا ٹول پلازا پر ہی تھے کہ یوپی پولیس نے انہیں متعدد سخت دفعات کے تحت گرفتار کرلیا۔ان میں UAPA کے تحت ملک سے غداری تک کی دفعات بھی شامل ہیں۔اس وقت سے کپن جیل میں ہیں اور ان کے اہل خانہ یا وکیلوں تک کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔
انڈین ایکسپریس کی 16نومبر کی اشاعت میں صدیق کپن کی پریشان حال اہلیہ ریحانہ کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ ان کے شوہر کے پاس تو ہاتھرس جانے کا کرایہ تک نہیں تھا اور وہ ان نوجوانوں کے ساتھ اسی لئے سفر کر رہے تھے کہ کار کا انتظام انہوں نے ہی کیا تھا۔وہ متاثرہ کے اہل خانہ سے مل کر اسٹوری کرنا چاہتے تھے۔ریحانہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ یہاں سے وہاں تک لوگوں سے مدد مانگتی پھر رہی ہیں لیکن ان کی کسی نے مدد نہیں کی۔
آخر لوگوں کو کیوں امید تھی کہ صدیق کپن کو سپریم کورٹ سے راحت مل جائے گی؟ کیا اس لئے کہ سپریم کورٹ نے ایک مجرمانہ معاملہ میں عدالتی حراست میں بند ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ارنب گوسوامی کو 11نومبر کو ایک غیر معمولی سماعت کے بعد(عارضی) ضمانت دیدی تھی؟ بلاشبہ امید کی بنیاد یہی تھی۔لیکن قانونی صورتحال یہ ہے کہ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے ارنب کو جو راحت دی تھی اس کا اسے اختیار ہی نہیں تھا۔۔وہ غلط بنیادوں پر دی گئی تھی۔جسٹس چندر چوڑ نے سماعت کے دوران جو پانچ سخت تبصرے کئے تھے ان کا الگ سے جائزہ لیا جائے گا لیکن انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس کے بعد پورے ملک میں ہزاروں نہ سہی تو سینکڑوں لوگوں کو تو راحت مل جانی چاہئے تھی۔لیکن ایسا ہوا نہیں۔جسٹس چندر چوڑ نے جو کچھ کہا تھا اس سے نہ صرف ملک بھر کی مقامی (ٹرائل) عدالتوں بلکہ خود ہائی کورٹوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوئی تھی۔لیکن اندازہ یہی ہوا کہ وہ سب کچھ محض ایک فرد (ارنب) کے لئے کہا اور کیا گیا تھااور اس کا کسی اور معاملہ پر کوئی اثر حقیقی معنوں میں پڑنے والا تھا ہی نہیں۔
میں ابھی پوری طرح صحت مند نہیں ہوا ہوں۔اس لئے آج بہت مختصر جائزہ ہی لے پاؤں گا۔ یہاں چند نکات ذہن میں رکھنے ضروری ہیں۔کسی جرم کے الزام میں تفتیش کے دوران اگر کوئی پکڑا جاتا ہے تو ضلع عدالت کو سی آر پی سی کی دفعہ 439 کے تحت ضمانت دینے کا اختیار ہے۔قانون اس انتظام کو اس لئے ترجیح دیتا ہے کہ مقدمہ سے متعلق تمام دستاویزات ضلع جج کے سامنے ہوتے ہیں۔اس لئے اسے معاملہ کی سنگینی کے تحت ضمانت پر فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔عام طوپر ہائی کورٹس بھی اسی کو ترجیح دیتی ہیں کہ ضمانت کیلئے پہلے ضلع جج سے رجوع کیا جائے۔اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہائی کورٹ جانے کا ہر شخص متحمل نہیں ہوسکتا۔لہذا غریبوں کے ساتھ مساوی سلوک کرنے کی غرض سے بھی یہ کیا جاتا ہے۔
ہائی کورٹ کو دفعہ 226 کے تحت اپیل سننے اور اس پر فیصلہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ارنب گوسوامی نے(خودکشی پر مجبورکرنے کے معاملہ میں ماخوذ ہونے کے بعد) اسی دفعہ کے تحت ممبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔اس کے نامی گرامی وکیلوں کو امید تھی کہ ہائی کورٹ فوراً ضمانت دے دیگی۔لیکن ممبئی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس ایس شنڈے کی دو رکنی بنچ نے اس معاملہ کو چار دنوں تک بہت تفصیل کے ساتھ سنا اور آخر کار راحت دینے سے انکار کرتے ہوئے ایک بہت شاندار اور دور رس فیصلہ بھی لکھا۔ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ دفعہ 439 کے تحت ضلع جج سے رجوع کریں اور ضلع جج کو پابند کردیا کہ چار دنوں کے اندر اندر ضمانت پر فیصلہ کردیا جائے۔عدالت کی یہ ہدایت بھی غیر معمولی تھی۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم ضمانت دے دیں گے تو اس سے مقامی عدالت کے اختیارات اور حوصلہ پر ضرب پڑے گی۔
واقعہ یہ ہے کہ یہی صحیح قانونی پوزیشن تھی۔لیکن جس طرح سے اگلے ہی دن سپریم کورٹ میں ارنب کے معاملہ پر ہنگامی سماعت ہوئی اور پھر راحت دی گئی اس نے بہت سے سوال کھڑے کردئے۔سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر دشینت دوے نے سپریم کورٹ کو بہت سخت خط لکھ کر ارنب گوسوامی کو خصوصی اہمیت اور رعایت دینے پر سوالات اٹھائے اور چیف جسٹس تک کی غیر جانبداری پر شبہات ظاہر کئے۔اسی دوران کامیڈین کنال کامرا نے دوانتہائی سخت قسم کے ٹویٹ کردئے جن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ دراصل سپریم جوک (سب سے بڑا مذاق) بن گیا ہے۔انہوں نے سپریم کورٹ کی عمارت پر لگا ترنگا (کمپیوٹر کے ذریعہ)ہٹاکر بی جے پی کا جھنڈا لگادیا۔اس پر بی جے پی والے سرگرم ہوگئے اور اٹارنی جنرل نے ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کی اجازت دیدی۔کنال کامرا نے اپنے ٹویٹ پر معافی مانگنے یا انہیں واپس لینے سے صاف انکار کردیا اور سپریم کورٹ پر مزید کئی زبانی حملے کئے۔انہوں نے جموں کشمیر‘سی اے اے اور دوسرے اسی طرح کے اشوز کو بھی اٹھادیا اور سپریم کورٹ سے کہا کہ جو سزا دینی ہو دیدو لیکن میرے معاملہ پر سنوائی کرکے وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ مذکورہ بالا اشوز پر سنوائی کی جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی فعالیت اور کنال کامرا کے ٹویٹس اور بیانات نے سپریم کورٹ کے سامنے ایک بہت مشکل صورت حال پیدا کردی۔بہت سے مبصرین نے تو صاف کہا کہ کنال کامرا نے سپریم کورٹ کو پھنسادیا ہے۔لیکن میرا موقف اس سے بھی آگے تھا کہ سپریم کورٹ کو ارنب کے معاملہ میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے فیصلہ اور تبصروں نے پھنسا دیا ہے۔سپریم کورٹ کو دفعہ 32 کے تحت معاملات سننے کا اختیار ہے لیکن یہ اختیارات بہت محدود ہیں۔ اس دفعہ کے تحت براہ راست سپریم کورٹ تک آنے کی حوصلہ شکنی اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہر شخص اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔پھر یہی ہوگا کہ ارنب گوسوامی جیسا پھنسا ہوا شخص بھاگ کر سپریم کورٹ آجائے گا اور ضلع عدالت اور ہائی کورٹ کو عبور کرکے راحت لے جائے گا۔جبکہ صدیق کپن جیسے سینکڑوں غریب لوگ جیلوں میں سڑتے رہیں گے۔
آپ لکھ لیجئے آج نہیں تو کل سپریم کورٹ یا الہ آباد ہائی کورٹ صدیق کپن کو راحت ہی نہیں دے گا بلکہ حکومت یوپی کو سخت سست بھی سنائے گا۔لیکن آج صدیق کپن کی درخواست کامسترد ہونا ضروری تھا۔ میں جانتا ہوں کہ صدیق کپن پر یہ کھلا ظلم ہورہا ہے۔خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے چار ہفتوں قبل ان کی درخواست کو نہیں سنا تھا اور الہ آباد ہائی کورٹ جانے کو کہا تھا۔آج بھی انہوں نے یہی پوچھا کہ آپ الہ آباد ہائی کورٹ کیوں نہیں گئے؟کپن کے وکیل کپل سبل نے کہا کہ صدیق کپن سے نہ اس کے اہل خانہ کو ملنے دیا جارہا ہے اور نہ ہی اس کے وکیلوں کو۔ایسے میں کیسے ہائی کورٹ جائیں؟ اسی پر چیف جسٹس نے یوپی حکومت کو نوٹس جاری کیا اور اب اس پر جمعہ کو سنوائی ہوگی۔
آج چیف جسٹس کی بنچ نے مہاراشٹر کے بدزبان اور شرپسند سمت ٹھکر کو بھی راحت نہیں دی اور مقامی عدالت سے رجوع کرنے کو کہا۔ سمت ٹھکر نے پے درپے کئی ٹویٹ کرکے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کی بے عزتی کی تھی اور مسلمانوں کو بھی لپیٹ لیا تھا۔ اس نے اودھو ٹھاکرے کو اورنگزیب سے بھی تشبیه دی تھی۔وہ بی جے پی اور سنگھ پریوار سے خاص تعلق رکھتا ہے۔ اس کے فرقہ پرست وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے چیف جسٹس سے کہا کہ اگر آپ کو سمت ٹھکر پر عاید معاملات سے جھٹکا نہیں لگا تو پھر آپ کو کسی بھی بات سے جھٹکا نہیں لگے گا۔۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو جھٹکوں کے عادی ہیں ۔
مجھے اس موضوع پر اور تفصیل سے لکھنا تھا لیکن اب بیٹھنے کی سکت نہیں ہے۔لیکن اتنا جان لینا ضروری ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں جس حال کو پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں ایک صدیق کپن کی مشکلات سے زیادہ ارنب گوسوامی جیسوں سے نپٹنا ضروری ہوگیا ہے۔اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ سپریم کورٹ وہی رویہ اختیار کرے جو اس نے آج کپن اور ٹھکر کے معاملے میں کیا۔۔۔ مجھے قانون کی جو تھوڑی بہت واقفیت ہے اس کی روشنی میں پورے وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سہ رکنی بنچ نے یہ جو کہا ہے کہ ہم آرٹیکل 32 کے تحت سپریم کورٹ آنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتے‘ یہ دراصل جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی دو رکنی بنچ کے فیصلہ پر ان کی سخت ناگواری کا ہی مظہر ہے۔ اور یہ صدیق کپن کی قیمت پر ہی سہی بہت ضروری تھا۔
نیویارک:امریکہ میں ہونے والے انتخابات کے بعد ٹرمپ کے حامی اپنی ممکنہ شکست پر سیخ پا ہیں اور جیسا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا، ویسا ہی نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔مختلف امریکی ریاستوں میں ٹرمپ حامیوں اور مخالفین کے درمیان پرتشدد جھڑپیں شروع ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گزشتہ شب سے واشنگٹن سمیت کئی امریکی ریاستوں میں ٹرمپ کے حامیوں ںے بڑی تعداد میں جمع ہوکر انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کیا جس میں چوری بند کرو اور ہر ووٹ گنتی کرو کے نعرے لگائے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان واشنگٹن میں تلخ تصادم ہوا، پولس حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتی رہی تاہم حالات مکمل طور پر قابو میں نہیں آرہے۔ امریکی میڈیا میں شائع ایک خبر کے مطابق گزشتہ شب شہر میں کئی مقامات پر پرتشدد تصادم کے واقعات پیش آئے۔ واشنگٹن پوسٹ نے کئی ویڈیو کا حوالہ بھی پیش کیا ہے جس میں ٹرمپ حامی اور مخالفین کے درمیان ہاتھا پائی اور تشدد کے مناظر واضھ دکھائی دے رہے ہیں۔ ویڈیو میں دونوں اطراف سے سامان اٹھا کر پھینکا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کئی مقامات پر مظاہرین اور پولس کے درمیان بھی جھڑپ ہوئی، حکام کے مطابق ان جھڑپوں میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں، اس دوران وہائٹ ہاؤس کے باہر کچھ مظاہرین کی جانب سے آتشزدگی بھی کی گئی جس کے بعد نقاب پوش سیکورٹی افسروں نے مشتعل افراد کو قابو کرکے پیچھے ہٹا دیا۔واضح رہے کہ امریکی انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج سامنے آچکے ہیں جس کے بعد جو بائیڈن کو 306 الیکٹرول ووٹ حاصل ہوئے ہیں، جو کہ صدارت کے لیے واضح برتری ہے ،تاہم صدر ٹرمپ اول دن سے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں اور ان کی کمپین ٹیم کئی مقامات پر نتائج کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرچکی ہے۔
بھوپال:بھوپال کے اقبال میدان میں احتجاج اور مبینہ طو رپر نقض امن اورنام نہاد طور پر مذہبی جذبات بھڑکانے کے الزام میں کانگریس کے ایم ایل اے عارف مسعود کے تین دیگر ساتھیوں کو پیر کی سہ پہر تلیہ پولیس نے گرفتار کیا۔ اس میں سابق کونسلر شاور منصوری بھی شامل ہیں۔ اس معاملہ میں یہ پولیس کی دوسری کارروائی ہے۔ اس سے قبل تین ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں۔ٹی آئی تلیہ ڈی پی سنگھ نے بتایا کہ سابق کونسلرز شاور منصوری ، عقیل رحمان اور محمد سالار کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تینوں کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے قبل پولیس نے وافنا کالونی بیرسیا روڈ کے رہائشی 42 سالہ نعیم خان ، 40 سالہ عبدالنعیم اور 41 سالہ محمد اکرام ہاشمی کو گرفتار کرچکی ہے، تینوں ہی جیل میں ہیں۔ تاہم اس کیس کا مبینہ مرکزی کردار ایم ایل اے عارف مسعود ابھی تک مفرور ہے۔ عدالت مسعود کی پیشگی ضمانت کی درخواست کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہے،جو گرفتاری سے بچنے کے لیے ضلع عدالت میں دی گئی تھی۔ اس معاملے میں 7 میں سے مجموعی طور پر 6 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔پولیس نے پہلے اس معاملہ میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کیا تھا ، لیکن بعد میں مسعود سمیت 7 افراد کےخلاف مذہبی جذبات بھڑکانے پر ایف آئی آر درج کیا گیا۔ یہ بتایا جارہا ہے کہ ایم ایل اے انڈر گراؤنڈچلے گئے ہیں۔ جیسے ہی وہ بھوپال آئیں گے ،ان پر گرفتاری کی تلوار لٹک جائے گی۔خیال رہے کہ مظاہرے کے بعد ممبرا سمبلی کے کالج پر انتظامیہ نے کاروائی کرتے ہوئے بڑے تالاب کے کیچ مینٹ ایریا میں بلڈوزر چلوادیا۔خیال رہے کہ بھوپال سنٹرل کے ایم ایل اے عارف مسعود پر فرانس میںگستاخانہ خاکہ کے خلاف احتجاج کے لیے اقبال میدان میں بھیڑ جمع کرنے اور نام نہاد مذہبی جذبات بھڑکانے کا الزام ہے۔ اس دوران انہوں نے فرانس کا جھنڈا اوروہاں کے صدرکا پتلا نذرِ آتش کیا تھا ۔تقریر میں مسعود نے کہا تھا کہ مرکز ی اور ریاستی حکومت کے وزراء بھی فرانس کے اس گستاخانہ عمل کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگر حکومت فرانس کی مخالفت نہیں کرتی ہے ، تو ہم اس کے خلاف احتجاج کریں گے ۔غور طلب ہے کہ پیرس میں ایک خبطی استاد نے گذشتہ ماہ جماعت میں حضرت محمدﷺکا کارٹون دکھایاتھا، جس سے دل برداشتہ ہو کر ایک چیچن نژاد طالب علم نے اُس استاد کو ہلاک کردیا تھا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اس واقعہ کو بچکانہ طریقہ سے’اسلامی دہشت گردی‘ سے جوڑ کر مضحکہ خیز بھی بیان بھی دیا تھا، جس پر ترک صدر نے دماغی علاج کا مشورہ دیا تھا، جس کے بعد فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی عالمگیر مہم چھڑ گئی۔
دبئی:شام کے وزیر خارجہ اور شامی حکومت کی جانب سے پرامن مظاہرین پر کریک ڈاؤن کی پالیسی کے پرُزور حامی ولید المعلم انتقال کر گئے ۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے شام کے سرکاری ٹی وی کے حوالے سے بتایا کہ ولید کی عمر 79 سال تھی۔ خیال رہے ولید طویل عرصے سے شام کے وزیر خارجہ چلے آرہے تھے۔ ان کی موت کی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم ان کی صحت گذشتہ کئی سالوں سے ابتر تھی اور وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ولید المعلم کو پہلی مرتبہ 2006 میں وزیر خارجہ مقرر کیا گیا تھا اور وہ نائب وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔ولید کی وزارت کے دوران شام کا جھکاؤ ایران اور روس کی جانب مزید بڑھ گیا جنہوں نے بشار الاسد کی حکومت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیے۔ ایران اور روس کی مدد سے بشار حکومت نے ملک کا بیشر حصہ جو شدت پسند گروپوں کے قیضے میں گیا تھا چھڑایا۔ تقریبا ایک دہائی قبل شام اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہوا جب اسد کی حکومت نے ان مظاہرین پر ظالمانہ کریک ڈاؤن شروع کیا جو بشار الاسد کی شخصی حکومت کے خاتمے کے لیے مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس وقت ولید المعلم نے امریکہ اور مغربی ممالک پر ملک میں بے چینی کو ہوا دینے کا الزام لگایا تھا اور مظاہرین کو دہشت گرد قرا دیا تھا۔