ممبئی:مالیگائوں 2008 بم دھماکہ معاملہ کے کلیدی ملزم کرنل شریکانت پروہیت نے ممبئی ہائی کورٹ میں اسے مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی عرضداشت داخل کی ہے جس میں اس نے عدالت کو بتایا کہ اسے گرفتار کرنے سے قبل کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ (2 19کے تحت ضروری خصوصی اجازت نامہ یعنی کے سینکشن آرڈر حاصل نہیں کیا گیا تھا لہذا اس کے خلا ف قائم مقدمہ غیر قانونی ہے جسے ختم کیاجائے ۔ اس سے قبل بھی ملزم کرنل پروہیت نے ممبئی ہائی کورٹ میں دو پٹیشن داخل کرکے یو اے پی اے قانون کے اطلاق کے لیےضروری اجازت نامہ میںخامی ہونے کا دعوی کرتے ہوئے اس کے اور دیگر ملزمین کے خلاف قائم مقدمہ ختم کرنے کی گذارش کی تھی ، یو اے پی اے قانون کو چیلنج کرنے والی پٹیشن زیر سماعت ہونے کے باوجود لاک ڈائون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرنل پروہیت نے نہایت خاموشی سے تازہ پٹیشن ممبئی ہائی کورٹ میں داخل کرکے عدالت سے اسے مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی گذارش کی جس پر ہائی کورٹ نے استغاثہ (قومی تفتیشی ایجنسی NIA ) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا ہے ۔
ملزم کرنل پروہیت کی جانب سے داخل پٹیشن کا علم ہونے پر جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی ہدایت پر ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے سینئر ایڈوکیٹ بی اے دیسائی سے کانفرنس کرکے مداخلت کار کی عرضداشت ممبئی ہائی کورٹ میں داخل کردی اور عدالت سے گذارش کی کہ کرنل پروہیت کی پٹیشن پر سماعت کے وقت بم دھماکہ متاثرین کو بھی اپنے دلائل پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔کرنل پروہیت کی جانب سے داخل پٹیشن پر سماعت ممبئی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس ایس ایس شندے اور جسٹس کارنک کے روبرو 24 ستمبر کو متوقع ہے ، کرنل پروہت کی پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیئے بم دھماکہ متاثرین کی جانب سے مداخلت کار کی درخواست داخل کی جاچکی ہے ، اس معاملے میں اگر ممبئی ہائی کورٹ نے بم دھماکہ متاثرین کو بحث کرنے کی اجازت دے گی تو بم دھماکہ متاثرین کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ بی اے دیسائی بحث کریں گے اور کرنل پروہیت کی پٹیشن کی مخالفت کریں گے۔واضح رہے کہ کسی بھی پبلک سرونٹ کو گرفتار کرنے سے قبل کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ(2) 197 کے تحت اعلی افسر سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے لیکن کرنل پروہیت کا دعوی ہیکہ اسے گرفتار کرنے سے قبل انسداد دہشت گرد دستہ (ATS) نے اعلی افسر سے خصوصی اجازت حاصل نہیں کی تھی جس کی وجہ سے اس کے خلاف قائم مقدمہ ہی غیر قانونی ہے لہذا س پر قائم مقدمہ ختم کیا جائے۔ اس مقدمہ میں ٹرائل کورٹ میں ابتک 140 گواہوں کی گواہی عمل میں آچکی ہے لیکن کرونا وباء کی وجہ سے عدالتی کارروائی التواء کا شکا ر ہے ۔
3 نومبر, 2020
امریکی صدارتی انتخابات:صرف سات میڈیا اداروں کو نتائج کا اعلان کرنے کی اجازت
واشنگٹن:سماجی رابطے کی معروف ویب سائٹ ٹویٹر نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات 2020ء کے نتائج کے حوالے سے جیتنے والے امیدوار کا نام سرکاری طور پر اعلان کرنے کے سلسلے میں صرف 7 میڈیا پلیٹ فارمز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ اس فہرست میں چھ چینلز ABC News،CNN ،CBS News ،Decision Desk HQ ،Fox News اور NBC News کے علاوہ ایک نیوز ایجنسیAP شامل ہے۔
ٹویٹر نے اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ اس بات کا مطالبہ کرے گا کہ یا تو ریاست میں انتخابی ذمے داران یا پھر ذرائع ابلاغ کے جن سرکاری قومی اداروں کو نتائج کے اعلان کی اجازت دی گئی ہے، وہ ٹویٹس پر نتائج جاری ہونے سے قبل جیتنے والے امیدوار کا اعلان کریں۔اگر ٹویٹر پر کسی رپورٹر یا صارف نے منتخب ذرائع میں سے کسی کا حوالہ دیے بغیر نتائج کے حوالے سے ٹویٹ کی تو اس ٹویٹ کو بلاک کر دیا جائے گا۔
انگریزی ویب سائٹ ایکسیوس نے اتوار کے روز بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے مقرب لوگوں کو آگاہ کیا ہے کہ اگر ابتدائی گنتی کے دوران ان کی "برتری” ظاہر ہو گئی تو وہ منگل کی شب ہی اپنی جیت کا اعلان کر دیں گے۔ رواں برس صدارتی انتخابات کی غیر معمولی نوعیت کے پیش نظر ٹکنالوجی کے پلیٹ فارمز نے انتخابات کی رات جیت کے جلد اعلانات کے حوالے سے قواعد و ضوابط کا ایک مجموعہ لاگو کیا ہے۔
(العربیہ ڈاٹ نیٹ)
افغانستان میں دس دن کے اندر دوسرا دہشت گردانہ حملہ،کابل یونیورسٹی میں کتاب میلے کے دوران طلبہ و طالبات کو نشانہ بنایا گیا،19جاں بحق،40زخمی
کابل:افغان دارالحکومت میں واقع جامعہ کابل میں مسلح حملہ آوروں نے سوموار کے روز فائرنگ کرکے انیس افراد کو ہلاک کردیا ہے۔ مہلوکین میں طلبہ اور طالبات بھی شامل ہیں۔افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ مسلح حملہ آوروں کی فائرنگ سے 22 افراد زخمی ہوئے ہیں۔البتہ بعض آزاد ذرائع نے حملے میں کم سے کم 40 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔ ترجمان کے مطابق سکیورٹی فورسز نے چند گھنٹے کے بعد جوابی کارروائی میں تین حملہ آوروں کو ہلاک کردیا ہے۔ایک عینی شاہد فتح اللہ مرادی نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے جامعہ کے کیمپس میں طلبہ کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنایا ہے۔وہ جانیں بچانے کے لیے بھاگنے والے طلبہ پر بھی فائرنگ کرتے رہے تھے۔اس نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ حملہ آورنظر آنے والے ہرطالب علم پر گولیاں چلا رہے تھے لیکن مرادی اپنے بعض دوستوں کے ساتھ جامعہ کے ایک گیٹ سے جانیں بچاکر بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔افغان طالبان نے اس حملے میں ملوّث ہونے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے یہ حملہ نہیں کیا ہے۔فوری طور پر کسی اور گروپ نے بھی اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔مسلح افراد کے حملے کے وقت یونیورسٹی میں کتاب میلہ جاری تھا اور آج اس کو دیکھنے کے لیے ایرانی سفیر بھی آنے والے تھے۔ بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جامعہ کابل میں فائرنگ کے بعد علاقے میں ایک دھماکے کی آواز بھی سنی گئی ہے۔
افغان حکام نے یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے کتاب میلے کے بارے میں کوئی بیان جاری کرنے سے گریز کیا ہے جبکہ ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی ایسنا نے اتوار کو یہ اطلاع دی تھی کہ کابل میں متعیّن ایرانی سفیر بہادر امینیان اور ثقافتی اتاشی مجتبیٰ نوروزی اس میلے کا افتتاح کریں گے۔اس میلے میں قریباً 40 ایرانی ناشران وتاجران کتب شریک ہونے والے تھے۔ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بھی جامعہ کابل میں حملے کی اطلاع دی ہے لیکن اس نے اپنے سفارتی عہدے داروں کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔
افغانستان میں معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کے سینیر سول ایلچی اسٹیفانو پونٹے کورفو نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’گذشتہ 10 روز میں کابل میں تعلیمی اداروں پر یہ دوسرا حملہ ہے۔افغان بچوں اور نوجوانوں کو اسکول جاتے ہوئے تحفظ مہیا کرنے کی ضرورت ہے اور انھیں اس تحفظ کا احساس ہونا چاہیے۔‘پاکستان نے بھی کابل یونیورسٹی میں اس سفاکانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔گذشتہ ہفتے کابل میں ایک اور تعلیمی ادارے پر حملے میں 24 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ان میں بھی زیادہ تر طلبہ تھے۔ادھر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے نمایندوں کے درمیان وقفے وقفے سے امن بات چیت جاری ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان میں تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔طالبان مزاحمت کاروں کو افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں کا مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے جبکہ داعش کو کابل اور دوسرے علاقوں میں شہریوں اور تعلیمی اداروں پر حملوں کا ذمے دار قرار دیا جارہا ہے۔داعش نے خود بھی ان میں سے بعض حملوں کی ذمے داری قبول کرنے کے دعوے کیے ہیں۔
(العربیہ ڈاٹ نیٹ)
انقرہ:ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ یورپ میں بسے مسلمانوں کو منظم طریقے سے مذہبی منافرت کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں۔ ترک صدر نے یکم نومبر سن 1995 میں بوسنیا کی جنگ اور نسل کشی کے خاتمے پر مبنی ڈیٹن امن معاہدے کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر ”نسل کشی: سربرینتسا کا سبق آموز سانحہ“نامی سربراہی اجلاس سے بذریعہ ویڈیو کانفرنس خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ سربرینتسا یعنی یورپ کے عین وسط مین ہوئی نسل کشی انسانی تاریخ کے دامن پر ایک سیاہ داغ ہے،اس سانحہ کو پچیس سال گزر چکے ہیں، مگر آج بھی 8372بوسنیائی بردارعوام کی وحشیانہ نسل کشی کا منظر ہمارے دلوں میں تازہ ہے، ہم تمام شہداوں کے لیے دعائے مغفرت اور ان کے اہل خانہ اور بوسنیائی برادر عوام سے ایک بار پھر تعزیت پیش کرتاہوں۔ ترک صدر نے کہا کہ حقوق انسانی اور جمہوریت کے بلنگ بانگ نعرے لگاتے ہوئے دنیا کو نصیحت کی پوٹلی تھمانے والے ممالک آج اسلام دشمنی اور غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کے چمپئن بنے ہوئے ہیں۔آج نسل پرستی کاناسور مغربی ممالک کی رگوں میں پھیل چکا ہے،جس میں اب بعض سربراہان مملکت جیسے اشخاص بھی شامل ہو چکے ہیں۔ایردوان نے مزید کہا کہ یورپ میں بالخصوص مسلمانوں کے عبادت خانوں،کاروباری مراکز،مساجد اور سماجی تنظیموں پر حملے معمول کا حصہ بن چکے ہیں،جنہیں منظم طریقے سے مذہبی منافرت اور جائز حقوق سے محروم رکھے جانے کا سامنا ہے،مگر اب وقت آ گیاہے کہ بنی نوع انسانیت کے مستقبل، مختلف ادیان اور معاشروں پر حملوں کے اس سیلاب کو روکا جائے۔
ویانا:آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں سوموار کی شام دیر گے ایک یہودی عبادت گاہ کے قریب ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں متعدد افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ مقامی میڈیا نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ رات گئے ہونےوالے اس حملے میں کم سے کم ایک شخص اور حملہ آور ہلاک ہوگئے ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 15 بتائی جا رہی ہے۔ ویانا بلدیہ کے میئر نے حملہ آور کی کارورائی میں ایک شہری کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔آسٹریا کے چانسلر سیباسٹیئن کرز نے اس حملے کو ‘قابلِ مذمت’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک حملہ آور بھی ہلاک ہوا ہے۔ وزیر داخلہ کارل نیہامر کے مطابق حملے میں دو افراد ملوث ہیں۔ ایک ہلاک ہوگیا جب کہ دوسرا فرار ہوگیا ہے۔ اس کی تلاش جاری ہے۔ آسٹریا ک پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے کم سے کم 6 مقامات پر حملہ کیا ہے۔
ویانا کے میئر مائیکل لدویگ نے کہا ہے کہ 15 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے سات کی حالت تشویش ناک ہے۔آسٹریا کے چانسلر سیباسٹیئن کرز نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘ہم اپنی جمہوریہ میں مشکل گھڑی سے گزر رہے ہیں۔ ہماری پولیس اس قابلِ مذمت دہشتگرد حملے کے منصوبہ سازوں کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی کرے گی۔’انھوں نے مزید لکھا کہ ‘ہم کبھی بھی دہشتگردی سے گھبرائیں گے نہیں، اور اس حملے کا اپنے تمام وسائل سے مقابلہ کریں گے۔’یہ واقعہ شہر کے مرکزی شویڈینپلاٹس سکوائر کے قریب پیش آیا ہے۔ پولیس نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس علاقے سے دور رہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال نہ کریں۔ وزیر داخلہ کارل نیہامر نے آسٹرین ادارے او آر ایف کو بتایا کاہ ’میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ یہ بظاہر ایک دہشتگرد حملہ ہے‘۔ ابھی تک اس واقعے میںملوث مجرموںکی شناخت نہیں ہوسکی اوراس کی اصل وجہ بھی سامنے نہیں آسکی ہے۔ یہودی برادری کے مقامی رہ نما نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ حملے کا نشانہ عبادت گاہ تھی۔ حملے کے وقت عبادت گاہ بند تھی۔ ایک مقامی اخبار کے مطابق عبادت گاہ کی حفاظت پر مامور سکیورٹی گارڈ اس حملے میں زخمی ہوا ہے۔
(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)
لفظ ’’لبرل ازم‘‘کا استعمال سب سے پہلے ۱۸۱۸ء میں فرانسیسی فلسفی مین دی بیران Maine de Biran نے کیا تھا۔ اس نے اس لفظ کا تعارف ’’ایک ایسے عقیدے کے طو ر پر کرایا تھا جو حریت وآزادی کا علم بردار‘‘ ہے۔ اس دن سے آج تک اس مفہوم کی تعریف و تشریح کے سلسلے میں اختلافات کا سلسلہ تھما نہیں ہے اور نہ یہ اختلاف ختم ہو سکا ہے کہ اس لفظ کے استعمال کو نظریاتی وسیاسی میدان تک وسعت دے دی جائے یا صرف اقتصادیات تک اس لفظ کے استعمال کو محدود رکھا جائے۔
اس طرح ’’لبرل ازم‘‘ مصر کے دانشوروں اور سیاست دانوں کے نزدیک تقریباً جمہوریت کا مترادف لفظ بن گیا، جب کہ امریکی نوجوان اسے تقریباً اس مفہوم میں لیتے ہیں جسے اسکینڈے نیوین ممالک میں اشتراکی جمہوریت کہا جاتا ہے، حالاں کہ دائیں بازو کے لوگ اس لفظ کو گالی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے۔ ہمارے نزدیک تولبرل ازم سے مراد ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، یعنی:
٭ وہ نظریہ جو یہ کہتا ہے کہ بہترین اقتصادیات کی تعمیر اس راہ سے ہو کر گزرتی ہے، جہاں حقِ ملکیت اور آزاد اقتصادی اقدامات دونوں کو تقدس کا مقام حاصل ہو۔ اقتصادی تعمیر کا عمل مقابلہ آرائی اور مارکیٹ کے وسائل (مارکیٹ میکانزم) کے زیرسایہ چلتا ہو اور حکومت کا دخل کم سے کم رہتا ہو۔
٭ سرمایہ دارانہ نظام ان تمام ’’مسلمات‘‘ کو بے شمار و لاتعداد پرائیویٹ کمپنیوں کے توسط سے زیرعمل لاتا ہے اور پانچ سو کمپنیوں کے اس پیرامڈ کی چوٹی پر وہ کمپنی براجمان ہے جس کی حکمرانی عالمی اقتصادیات پر ہے۔ جہاں تک اس نظام کے بنیادی ہدف کا تعلق ہے، تو وہ یہ ہے کہ صنعت کے کسی میدان میں اور صنعت سے متعلق کیسے بھی حالات میں انسانی اور ماحولیاتی قیمت کی ادنیٰ سی پروا کیے بغیر زیادہ سے زیادہ ممکنہ منافع حاصل ہو جائے۔ اس کے بعد اس منافع کے ایک حصے کو واپس استعمال میں لا کر مزید صنعت اور مزید منافع کے مواقع حاصل کیے جائیں اور یہ سلسلہ بلا انقطاع چلتا رہے۔
لبرل ازم کے بارے میں ہر طرح کی باتیں کہی گئی ہیں۔ اس نے کروڑوں لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنا دیا ہے، اس پر اس کی ستائش بھی کی گئی ہے اور اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے، اس پر اس کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک لاحاصل موضوع ہے، اس لیے ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے۔ ہمارے لیے تو وہ واحد سوال اہمیت کا حامل ہے جسے کسی بھی سیاسی یا اقتصادی نظام کا جائزہ لیتے وقت اٹھانا ضروری ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ اس سسٹم کا موجودہ حالات کے اندر اپنی موجودہ حالت میں برقرار رہنا ممکن ہے یا دیر سویر اسے زوال کا شکار ہونا ہے؟
سویڈن کے سیاسی نظام میں پارلیمانی جمہوریت کے جو بھی عیوب ہیں ان کے ساتھ اس پر نظر ڈالیے، لیکن تبدیلی کے جو وسائل اس کے پاس ہیں ان پر بھی نظر ڈالیے اور اقتدار کی منتقلی کے طریقے پر باہمی مفاہمت کے نتیجے میں جو استقرار اس نظام کو حاصل ہوا ہے اسے بھی سامنے رکھیے۔ عوام کی طرف سے جو قبول عام اسے حاصل ہوا ہے اسے بھی نظر انداز نہ کیجیے تو آپ یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ یہ نظام اس قابل ہے کہ طویل عرصے تک جاری رہ سکے۔
اب آپ مصر کے موجودہ نظام کو اس کے اندر پوشیدہ تمام ٹائم بموں کے ساتھ لیں۔ اس کے اندر داخلی اصلاح و تدارک کا جو فقدان ہے اسے بھی دیکھیں۔ اس کی معمولی سے بھی کم کارکردگی پر نظر ڈالنا آپ کے لیے کافی ہے۔ اس کو بھی نگاہ میں رکھیں کہ مصرکے سماجی طبقات کی جانب سے بڑے پیمانے پر اس نظام کو مسترد کیا جا رہا ہے اور اس کا دائرہ روز بروز وسیع ہو تا رہا ہے۔ آپ کو پیشگوئی کے لیے کسی منتر کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ تاریخ آپ کے اس دعوے کو جھٹلائے گی کہ مذکورہ نظام کے تعلق سے سوال یہ نہیں ہے کہ آیا یہ نظام زمین بوس ہوجائے گا؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ کب تک زمین بوس ہو جائے گا؟
آپ جب سرمایہ دارانہ نظام کا جائزہ لیں گے اور اِس وبا (کووڈ ۱۹) کی روشنی میں جائزہ لیں گے، جس نے اس پر ویسی ہی مار لگائی ہے جس طرح زلزلہ کسی پرشوکت عمارت کو برباد کر دیتا ہے تو آپ کے ذہن میں چند سوالات ابھر کر آئیں گے:
کیا لبرل ازم کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے پیداوار (Production) کے اس سلسلے کو جاری رکھ سکے، جس کے حلقے ٹوٹے ہوئے ہیں اور جسے انتہائی سَستی مزدوری پر پوری دنیا میں پھیلا دیا گیا ہے؟ چنانچہ جب دنیا پر ایک وبا (کورونا) نازل ہوئی تو پروڈکشن کا سلسلہ معطل ہو گیا اور لاکھوں مزدور بے روزگاری کے منہ میں ڈال دیے گئے؟
کیا لبرل ازم کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے وجود کو جاری رکھ سکے، جب کہ تمباکو، سوڈا (سافٹ) ڈرنک اور ڈبہ بند کھانوں کے میدان میں کام کرنے والی بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں پر صحت عامہ کے ماہرین کی جانب سے یہ الزام لگا ہوا ہے کہ یہ کمپنیاں کینسر، شوگر (ذیابیطس) اور امراضِ قلب پھیلا کر پیسہ کما رہی ہیں اور ان کے یہ پروڈکٹ لاکھوں انسانوں کی موت کا سبب بن رہے ہیں۔ آپ دوائیں اور اسلحے بنانے والی کمپنیوں کے سلسلے میں بھی یہی بات بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں۔
لبرل ازم کی علم بردار کمپنیوں نے زمین، آسمان اور سمندر کو زہر آلود کردینے والا جو کیمیاوی مواد تیار کیا ہے، اس کے ذریعے ماحولیات کو تباہ کر دینے کے باوجود بھی کیا لبرل ازم کے لیے یہ ممکن ہے کہ خود کو برقرار رکھ سکے؟
بین الممالک اور ہر ملک کے اندر طبقاتی خلیج کو اس طرح وسیع کر دینے کے بعد کہ دنیا کی ایک فی صد آبادی پچاس فی صد دولت پر قابض ہے، کیا لبرل ازم کے لیے اپنے وجود کو جاری رکھ پانا ممکن ہے؟ جب کہ اس تقسیم کو اس اعتبارسے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ نہ جانے کتنی ایسی جنگوں اور انقلابات کا بیج بو دیا گیا ہے جو کہیں بھی برپا ہو سکتے ہیں؟
کیا صنعت میں لگائے جانے والے سرمایے، اور اسٹاک ایکسچینج میں لگائے جانے والے سرمایے کے درمیان تفریق کردینے کے بعد بھی لبرل ازم کے لیے زندہ رہ پانا ممکن ہے؟ خیالی رفتار سے فائدے حاصل کرنے کے لیے سٹے بازی کرنے والے مٹھی بھر لوگوں کے لیے — جن میں اکثریت چوروں اور فریب سازوں پر مشتمل ہے— ایسی کون سی اقتصادی تدبیر ہے، جو کروڑوں انسانوں کے مصالح ومفادات سے اوپر ہوسکتی ہے کہ پلک جھپکتے ہی وہ اپنی جمع پونجی سے محروم ہوجائیں؟
کیا چین اور امریکا کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے ماحول اور کسٹم بارڈر کی واپسی کے خوف تلے لبرل ازم کے لیے جاری رہ پانا ممکن ہے؟ یہ کسٹم حدود بین الاقوامی کمپنیوں کے سامنے پابندیوں اور رکاوٹوں کا انبار لگانے والے ہیں جو واحد اوپن مارکیٹ کے لیے رکاوٹ پیدا کردیں گے۔
دنیا کی موجودہ صورت حال اور لبرل ازم کی معلوم تاریخ کے تناظر میں ان تمام سوالات کا ایک ممکنہ معروضی جواب یہ ہو سکتا ہے کہ کیوں نہیں؟ اس لیے کہ اگر اس کے زوال کے لیے وہ جرائم کافی ہوتے جو ماحولیات کے تعلق سے اس نے انجام دیے ہیں تو یہ نظریہ انیسویں صدی ہی میں اپنی آخری سانس لے چکا ہوتا۔ مغرب کے بڑے بڑے شہروں میں جدید صنعتوں سے پیدا ہونے والی آلودگی اس حد تک خطرناک ہوچکی تھی کہ طب (میڈیکل سائنس ) کی ایک نئی شاخ ’’پیشہ ورانہ طب‘‘ (occupational health) کو جنم لینا پڑا۔ حالانکہ یہ پیشے کے اثراتِ بد کی طب ہے، جس نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں تباہ کیں اور کررہی ہے۔
دوسری طرف اگر انسانیت کے تئیں اس کے جرائم ہی اس کے زوال و خاتمے کے لیے کافی ہوتے تو انتہائی اندازے کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں یہ لبرل ازم کا نظریہ دم توڑ چکا ہوتا۔ آج ہم ظلم کی اس انتہا کا اندازہ نہیں کر سکتے جو انیسویں صدی میں ان کروڑوں کسانوں پر روا رکھا گیا تھا جن سے ان کی زمینیں چھین لی گئی تھیں، جیسا کہ اسکاٹ لینڈ میں کیا گیا تھا، یا فرانس اور جرمنی کی مثالوں میں فقر وغربت نے ان کسانوں کو بارہ بارہ گھنٹوں سے زیادہ فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کر دیا تھا، جس کے عوض انھیں اتنی اجرت ملتی تھی کہ وہ اجرت زندگی کی رمق کو بمشکل باقی رکھ پاتی تھی۔
اسی لیے ۱۹۳۳ میں جب برطانیہ نے اپنی نوآبادیوں میں غلامی کو کالعدم قرار دیا تو یہ آواز بلند ہوئی کہ حکومت سفید فام غلاموں، یعنی برطانوی عوام کو بھی غلامی کے طوق سے آزادی دلانے کا آغاز کرے۔ اس مطالبے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں تھی، اس لیے کہ لبرل ازم مقامی مزدور طبقے کا اسی انداز سے استحصال کرتا تھا جس طرح کالونیوں کے غلاموں کا کرتا تھا اور جب سفید فام غلاموں کا یہ طبقہ کوئلے کی کانوں میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو کام پر لگانے کے خلاف آواز اٹھاتا تھا تو حکومت اس کے خلاف پُر امن مظاہرین کا قتلِ عام کرنے کے لیے خاص طور سے گھڑ سوار فوج روانہ کرتی تھی۔ اس قسم کا ایک واقعہ ۷۱۸۱ میں مانچسٹر کے سان پیٹرز فیلڈ میں پیش آیا تھا۔
اس صورت حال کے ساتھ اور انسانیت وماحول کے حق میں اپنے تمام تر جرائم کے باوجود بھی لبرل ازم حکومتوں کے خلاف بغاوت کی لہر کو عام کرنے اور گزشتہ دو صدیوں کے دوران مزدور طبقے کی قوت تدبیر وحکمت کے اظہار کے ذریعے باقی رہا۔ اس سلسلے میں خاص طور سے اس نے سیاسی وتہذیبی فیصلہ سازی کے مراکز سے مقابلہ آرائی میں مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اور مزدور طبقے کے قانونی وغیر قانونی مفادات کی حمایت میں ان مراکز پر اپنے اثرات کونمایاں کیا ہے۔
کیا لبرل ازم ۲۰۰۸ء کے بحران اور اس سے پہلے ۱۹۲۹ء کے بحران کے بعد صحیح وسالم بچ کر نہیں نکل آیا؟ لیکن اب ایسی کون سی بات ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ ’کورونا‘ وبا کے بعد جو محض وباؤں میں سے ایک وبا ہے، خواہ سب سے سنگین ہی سہی— لبرل ازم کا انجام مختلف ہوجائے گا؟
رسمی طور پر سوویت یونین کا خاتمہ ۲۶ دسمبر ۱۹۹۱ کو ہوا جب پہلی بار کریملین کی عمارت سے سوویتی جھنڈا اتار کر وہاں روسی جھنڈا لہرا دیا گیا۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اب بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ لبرل ازم کے شدید ترین دشمن کا یہ زوال لبرل ازم کے لیے ایک شاہی تحفہ تھا۔ لیکن عنقریب یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ ایک زہر آلود تحفہ تھا، اس لیے کہ توازن کو برقرار رکھنے والی کسی مزاحم قوت کے بغیر کوئی بھی نظام اس سبزی خور جانور کی طرح ہے جس کے آس پاس کے جانور غائب ہوچکے ہوں اور وہ اس تمام گھاس کو کھا جائے جو دوبارہ نہ اگتی ہو، اور آخر میں وہ جانور بھوک سے مرجائے۔
یہی معاملہ سیاسی واقتصادی نظاموں کا ہوتا ہے کہ جب کوئی ایسی قوت موجود نہ ہو جو انھیں توازن برقرار رکھنے پر مجبور کرے تو ان کے اندر غلو آجاتا ہے اور وہ نظام خود اپنی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں۔ کیا آج ہم بھی اسی صورت حال سے دوچار ہیں؟ ظاہر ہے نہیں، لیکن کافی سارے مسائل ایسے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ گھمنڈ اور خود پسندی کا زمانہ لد چکا ہے۔ اب تو مندر کے ذہین ترین پجاریوں نے زمین کو اپنے قدموں تلے محسوس کرنا شروع کردیا ہے۔
گزشتہ اگست کے مہینے میں امریکا کی ۱۸۱ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کا ایک ایسے عریضے پر دستخط کرنا کیا معنی رکھتا ہے جس میں انھوں نے یہ عہد کیا کہ وہ نہ صرف بانڈز کے مالکوں کے مفادات بلکہ مزدوروں اور سماج کے مفادات کو بھی اہمیت کی نگاہ سے دیکھیں گے؟ آج ہمیں امریکی رسالوں میں اس قسم کے مضامین پڑھنے کو کیوں مل رہے ہیں، جن میں مختلف انداز سے وہی سوال پیش کیا جا رہا جو ایک سال پہلے کیا جا رہا تھا کہ ہم سرمایہ داری کو مختلف انداز سے کیسے برتیں؟
گویا اس وقت لبرل ازم پر حد سے زیادہ یقین رکھنے والے طبقے کے اندر انتہائی تکلیف دہ جائزے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ شاید اس لیے کہ قوم کے سنجیدہ ترین لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کی خطرناکی — جو ہمارے درپے ہے اور جس کے ذمے دار کافی حد تک وہ خود ہیں — شاید زمین کو ہماری آئندہ نسل، بلکہ ہمارے بچوں کے لیے بھی رہنے کے لائق نہ چھوڑے۔
البتہ اس جائزے کے لیے ان کی تیاری کس معیار کی ہے اور اس جائزے کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ میں جو کچھ بین السطور پڑھ رہا ہوں وہ انتہائی تکلیف دہ اور دردناک ہے۔ وہ یہ ہے کہ حکومت کا کچھ نہ کچھ کردار تسلیم کیاجائے۔ یہ وہ ڈھانچہ ہے جس کے بارے میں ان کے مقدس قوانین یہ کہتے ہیں کہ اس ڈھانچے کو اقتصادی امور سے دور رہنا چاہیے۔ شاید اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہ ہو جو لبرل ازم نے پھیلایا ہے۔ اس نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ حکومت سے اس کا جو کچھ بھی مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ مثبت طور پر غیر جانبدار رہے اور اقتصادی اداروں کو اس دولت کی پیداوار کے لیے (آزاد) چھوڑ دے، جس کے ثمرات سماج کو حاصل ہونے والے ہیں۔
چنانچہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران جب آپ (حکومت اور اقتصادی معاملات کے درمیان) حقیقی تعلق کا جائزہ لیں گے تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ لبرل ازم نے حکومت سے ہر چیز طلب کی اور اس سے ہر چیز حاصل کرلی لیکن اس کے مقابل جو کچھ دیا وہ بہت کم ہے۔ حالاں کہ لبرل ازم کی عیش و پرورش، عزت مآب، بازار (مارکیٹ) یا انٹرپرینر شپ کے خفیہ دست شفقت کے طفیل نہیں ہوئی ہے بلکہ اسی حکومت کی حمایت کے طفیل ہوئی ہے جس سے اسے نفرت ہے۔ اسی لیے انیسویں صدی کے پورے دورانیے میں، جب کہ امریکا اور یورپ میں عالمی احتجاجوں کا سلسلہ نہیں رک رہا تھا، کمپنیاں حکومت سے فریاد کررہی تھیں اور حکومت انھیں اس دلدل سے نکالنے کے لیے اپنے سپاہی اور بعض اوقات فوج بھیج رہی تھی۔ بیسویں صدی کے مکمل عرصے میں بھی ہم نے یہ مشاہدہ کیا کہ کس طرح تیسری دنیا میں قائم مغربی کمپنیاں اپنے ممالک سے یہ فریاد کر رہی تھیں کہ غریب ممالک کے وسائل چوری کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔
اس طرح ایران کے اندر ۱۹۵۳ء کا انقلاب آیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ سستے پیٹرول کے خزانوں کو محفوظ رکھ سکیں۔ ۱۹۵۴ء میں گوئٹے مالا انقلاب کا سبب کیلے کی زراعت پر اجارہ داری کو برقرار رکھنا تھا۔ مصر کا ۱۹۵۶ء کا انقلاب اس لیے آیا تھا کہ نہرِ سوئس نام کی دودھیل گائے کو واپس حاصل کر لیا جائے۔ اور آخر میں چلّی کا انقلاب آیا، لیکن یہ آخری انقلاب نہیں ہے۔ وہاں کے منتخب صدر کو اس لیے قتل کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ملک کے وسائل کو بڑی کمپنیوں کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے عوام کے لیے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔
اکیسویں صدی ۲۰۰۸ء میں بھی ہم نے بینک کاری کا حماقت آمیز نظام دیکھا جو مکر وفریب کے ذریعے لوگوں کے مال پر ٹوٹا پڑا رہا اور آخر کارحکومت کے علاوہ اسے دیوالیے سے نجات دینے والا کوئی نہیں ملا۔ کم ازکم چین کے سلسلے میں یہ اعتراف کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس نفاق سے کام نہیں لیتا جو مغرب میں عام ہے۔ کیو ں کہ اس ملک کے اندر، بہت واضح انداز میں نہ سہی، حکومت اور لبرل ازم کے درمیان یہ رشتہ موجود ہے کہ حکومت لبرل ازم کی مکمل طور پر خدمت کرے گی اور لبرل ازم مکمل طور پر حکومت کا تابع دار رہے گا۔
لہٰذا حکومت کی ’’واپسی‘‘ پر گفتگو کا کوئی مطلب نہیں ہے، اس لیے کہ حکومت اس کھیل سے ایک دن کے لیے بھی غائب نہیں رہی ہے، بلکہ زیادہ تر ممالک میں— ان ممالک میں جو لبرل ازم کے پیروکار ہیں — حکومت کی حیثیت رکھوالی کرنے والے کتے کی سی ہے کہ جیسے ہی سیٹی بجائی خطرہ بننے والے کے خلاف حملے اور (مالک کے) دفاع کے لیے حاضر ہوجاتا ہے، یا اس کی مثال ایسی ہے جیسے آنتوں سے چپکے ہوئے کیڑوں کے لیے جسم کی ہوتی ہے کہ وہ کیڑے آنتوں کی طاقت کو چوستے رہتے ہیں لیکن بدلے میں کسی قوت و طاقت کا اضافہ نہیں کرتے۔
گفتگو کو مزید جاری رکھنے سے پہلے بطور یاددہانی یہ بتا دوں کہ حکومت — اپنے خاص تکنیکی مفہوم کے اعتبار سے — چند ڈھانچوں (اسٹرکچرز) اور اداروں کا نام ہے۔اس کے پاس انسانی، مادی اور معلوماتی وسائل ہوتے ہیں۔ اس کا محرک سیاسی نظام ہوتا ہے اور بنیادی ہدف مفاد عامہ کا حصول ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف لبرل ازم ان کمپنیوں کا مجموعہ ہے جن کے پاس انسانی، مادی اور معلوماتی وسائل ہوتے ہیں۔ ان کی باگ چند اشخاص اور مجالس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ان کا بنیادی ہدف مخصوص مفادات کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ شاید یہ کہنا ناانصافی ہوگی کہ ان دونوں مفادات کے درمیان ہمیشہ تصادم رہا ہے، لیکن میں اس نعرے کو ہر گز نہیں جھٹلاؤں گا کہ ’’جو جنرل موٹرز کے مفاد میں ہے وہ امریکا کے مفاد میں ہے‘‘۔
جو چیز دنیا اور انسانیت کے مفاد میں ہے اس سے آج ہر شخص واقف ہے: کوئلے اور گیس کی کانوں کو بند کر دیا جائے، تباہ کن کیمیاوی مادوں کو ممنوع کر دیا جائے، دوا ساز کمپنیوں کو قومی تحویل میں دے دیا (قومیا دیا) جائے تاکہ وہ وہی دوائیں بنائیں جن کی دنیا کو ضرورت ہے نہ کہ وہ دوائیں جو بینکوں کے حساب سے بنائی جاتی ہیں، بانڈز سے متعلق معاملات پر سخت قیود اور پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ ۲۰۰۸ء کا مالی بحران نئے سرے سے جنم نہ لے سکے، سوڈا مشروبات (سافٹ ڈرنک)، ڈبہ بند کھانوں اور تمباکو کو ممنوع کیا جائے یا ان پر کمر توڑ ٹیکس عائد کردیا جائے، گلوبل وارمنگ کو کم کرنے میں برازیل، کونگو اور انڈونیشیا کے جنگلات کی اہمیت کے پیش نظر انھیں بین الاقوامی حفاظت میں دے دیا جائے، اوراس سے ان ممالک ومقامی باشندوں کو لکڑی کی صنعت میں ہونے والے خسارے کا معاوضہ دیا جائے۔
اسی طرح پورے قطب شمالی کو ان بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائے، جو اس علاقے میں گیس یا پیٹرول سے متعلق کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کو ممنوع قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ جب وہاں گلوبل وارمنگ آلودگی کے راستے کھول دے تو جہازرانی کو بھی ممنوع قرار دیا جائے اور ان اقدامات سے پیدا ہونے والی بے روزگاری کو مالی تعاون فراہم کیا جائے، ایسا مستحکم اقتصادی نظام قائم کیا جائے جو صاف ستھری توانائی پر مرکوز ہو، یعنی ایک حد سے بڑھ جانے والی دولت پر ٹیکس عائد ہو، بڑی بڑی کمپنیوں مثلاً گوگل، امازون، فیس بْک اور ایپل پر ٹیکس عائد کیا جائے اور دنیا بھر میں ٹیکس سے بچنے والی ان پناہ گاہوں کو بند کر دیا جائے، جو چوری کیے ہوئے ٹیکس کا سب سے بڑا خزانہ ہیں اور بڑے بڑے ممالک تک جس کا شکار ہیں۔
آپ جب اس فہرست پر نظر ڈالیں گے تو اس کے نفاذ کا عدمِ امکان آپ پر واضح ہو جائے گا، کیو ں کہ لبرل ازم اس قسم کے اقدامات اور کارروائیوں کے ذریعے اپنے خاتمے کے مقابلے میں دنیا کے خاتمے کو پسند کرے گا۔ لیکن کم از کم کیا یہ ممکن ہے کہ اس میں بعض بہتریاں لے آئی جائیں؟ اس لیے کہ اگر کسی چیز کا کوئی ایک جز قابل اخذ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پورے حکم کو ہی چھوڑ دیا جائے۔
بلکہ لبرل ازم کی اس جونک کا مقابلہ کرنے کے لیے وسیع بین الاقوامی اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے کسی بھی کام سے کس چیز نے روکا ہے جب کہ ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ یورپی اتحاد خود اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے۔ آج کون سی حکومت ہے جو — مقامی سطح پر ہی سہی — اپنے باشندوں کی صحت اور وسائل صحت کی حفاظت کے سلسلے میں اقدامات کرنے کی ہمت رکھتی ہے؟ اس کا یہ اقدام اسے فوراً ان بڑی کمپنیوں کے بالمقابل لاکھڑا کرے گا، جو ماحولیات اور انسان کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔
فطری طور پر اسی طرح کی ایک وطن پرست اور جمہوری حکومت کا ہونا ضروری ہے، جو مفاد عامہ کو ہر چیز پر فوقیت دے، لیکن آج جمہوریت کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اسی لبرل ازم کا مقابلہ کرے جسے اکثر مواقع وحالات میں خود اسی نے گھڑا اور اسے اپنے تابع وفرماں بردار بنا کررکھا ہے؟ دراصل یہ وہ تکلیف دہ جائزے ہیں جن کا سامنا عنقریب جمہوریت کو کرنا ہوگا اگر وہ یہ نہیں چاہتی کہ اسی طرح غرق ہو جائے جس طرح ایک دن لبرل ازم کوغرق ہونا ہے اور، خدا نہ کرے، اسی کے ساتھ ہم سب بھی غرق ہوجائیں۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ اکتوبر ۲۰۲۰ء)
دبئی:سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دنیا میں امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے کیے گئے نئے گیلپ پول میں دنیا کے دس محفوظ ترین ممالک میں شامل قرار پائے ہیں۔گیلپ کے 2020ء کے امن وامان کے اشاریئے میں دنیا کے 144 ممالک کے لوگوں سے ان کے خود کو محفوظ سمجھنے کے بارے میں ادراک واحساس کی جانچ کی گئی ہے۔ان سے مقامی پولیس پر اعتماد ، رات کے وقت تنہائی میں پیدل چلنے کے دوران میں احساسِ تحفظ ،حملوں، ڈکیتی اورچوری کی وارداتوں کے بارے میں رائے پوچھی گئی تھی۔اس سروے میں شریک لوگوں سے درج ذیل سوال پوچھے گئے تھے:کیا آپ شہر میں یا جہاں آپ رہتے ہیں، رات کے وقت اکیلے چلتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں؟ گذشتہ 12 ماہ کے دوران میں آپ پر کوئی حملہ کیا گیا ہے یا آپ کے ساتھ ڈکیتی کی کوئی واردات ہوئی ہے؟آپ جس شہر یا علاقے میں رہتے ہیں،کیاآپ کو وہاں کی مقامی پولیس پراعتماد ہے۔اس مجموعی اشاریے میں سنگاپور گذشتہ برسوں کی طرح پہلے نمبر پررہا ہے لیکن اس مرتبہ اس کے ساتھ ترکمانستان بھی پہلے نمبر پر ہے۔چین دوسرے نمبر پر رہا ہے۔دنیا کے محفوظ ترین ممالک کی اس فہرست میں آئس لینڈ اور کویت تیسرے نمبر پر رہے ہیں۔متحدہ عرب امارات ، آسٹریا ، ناروے ، سوئٹزرلینڈ اور ازبکستان اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ ان ممالک کی 92 فی صد آبادی نے خود کو محفوظ قرار دیا ہے۔ سعودی عرب دو اور اسلامی ممالک مصر اورانڈونیشیا کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہے۔ان تینوں ملکوں کے 89 فی صد شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔امریکا کے 85 فی صد اور برطانیہ کے 83 فی صد شہریوں نے اپنے اپنے ملک میں خود کو محفوظ قرار دیا ہے۔اس سروے میں شامل ممالک میں سے وینزویلا ، وسطی افریقہ میں واقع گیبون اور جنگ زدہ افغانستان کے شہریوں نے خود کو سب سے زیادہ غیر محفوظ قرار دیا ہے۔
میڈرڈ:اسپین میں کرونا روک تھام کے لیے عائد پابندیوں کے خلاف پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے ہیں، جن میں 10 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے، جب کہ 50 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسپین کے مختلف شہروں میں کرونا پابندیوں کے خلاف مظاہرے ہونے لگے ہیں، جن میں سیکڑوں افراد شریک ہوئے،بارسلونا میں مظاہرین نے سرکاری دفتر پر پتھراو بھی کیا جس سے دفتر کے شیشے ٹوٹ گئے، صوبہ ویٹوریا میں بھی باسکی پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کیا گیا۔حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز سخت کوارنٹین اقدامات کے خلاف ہنگامے کرنے پر مختلف شہروں میں 50 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، پولیس کے ساتھ جن شہروں میں جھڑپیں ہوئیں ان میں میڈرڈ، لوگرونو، بِلباو، سانٹینڈر، ملاگا اور دیگر شہر شامل ہیں۔میڈرڈ میں مظاہرین نے ایک مرکزی شاہراہ کو بند کرنے کی کوشش کی اور ایک کچرا اٹھانے والی ایک گاڑی کو نذر آتش کر دیا، میونسپل حکام نے بتایا کہ میڈرڈ میں 30 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، پرتشدد مظاہروں کے دوران 3 پولیس اہل کار بھی زخمی ہوئے۔ شہر لوگرونو میں بھی تصادم میں 7 پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے شہریوں سے اتحاد اور ذمہ داری کی اپیل کر دی ہے، ان کا کہنا تھا کہ چند شرپسند عناصر کا یہ رویہ ناقابل برداشت ہے۔واضح رہے کہ کرونا وائرس کیسز کی تعداد کے لحاظ سے اسپین دنیا کے 216 ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے، جہاں وائرس سے اب تک 35 ہزار 800 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ کیسز کی تعداد 12 لاکھ 64 ہزار سے زائد ہے۔
نیویارک:امریکہ میں صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ تین نومبر کو ہو گی جس کے لیے صدارتی اُمیدواروں کی انتخابی مہم بھی آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن صدارتی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی ریاستوں میں ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔اتوار کو صدر ٹرمپ نے ریاست مشی گن جب کہ جو بائیڈن نے ریاست پینسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں اپنے حامیوں سے خطاب کیا۔مشی گن میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یورپ میں کرونا وائرس کے باعث دوبارہ لاک ڈاؤن لگانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی معیشت کو کسی صورت بند نہیں کریں گے۔جو بائیڈن نے فلاڈیلفیا میں ریلی سے خطاب میں صدر ٹرمپ کی کرونا سے نمٹنے کی حکمت عملی کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لیا۔جو بائیڈن نے امریکی نیوز ویب سائٹ ایگزیوس کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ وہ الیکٹورل کالج کے نتائج سے قبل ہی الیکشن کی رات اپنی کامیابی کا اعلان کر دیں گے۔انہوں نے کہا کہ صدر یہ الیکشن چوری کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ’ایگزیوس‘ کی رپورٹ کو مسترد کیا۔ تاہم ساتھ ہی اْنہوں نے الیکشن کے بعد ووٹوں کی گنتی کو ایک خوف ناک عمل قرار دیا ہے۔صدر ٹرمپ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ اور اس کی گنتی کے عمل میں فراڈ سمیت دیگر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔دونوں اْمیدوار متعدد بار ان ریاستوں کے دورے کر چکے ہیں۔ ٹرمپ نے ہفتے کو پینسلوینیا میں ریلی سے خطاب کیا جب کہ بائیڈن نئے اتوار کو ریاست کے دو مقامات پر انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ ریاست کے چھوٹے شہروں، قصبوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔قومی سطح پر کیے جانے والے رائے عامہ کے جائزوں میں جو بائیڈن اب بھی صدر ٹرمپ سے آٹھ پوائنٹس آگے ہیں۔
پیرس:ہر حملے کے ساتھ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، پانچ ہفتوں میں تین حملوں کے بعد فرانس میں مسلمان برادری خود کو دباؤ میں محسوس کر رہی ہے۔خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق دو افراد کے سر قلم کیے جانے سمیت انتہا پسندی کے حالیہ واقعات سے قبل ہی مسلم برادری شک کے دائرے میں آ گئی تھی جبکہ دوسری جانب فرانسیسی صدر نے اپنے بیانیے پر قائم رہتے ہوئے ملک میں انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات اٹھالیے ہیں۔جمعرات کو نیس کے کیتھولک چرچ میں تین افراد کے قتل سمیت ان تازہ حملوں کے بعد خوف و ہراس میں اضافہ ہوا ہے جس کے بعد فرانس میں موجود مسلمان آبادی خود کو دباؤ اور تناؤ میں محسوس کر رہی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ کہیں نہ کہیں پوری مسلمان برادری کو ان حملوں کا ذمے دار تصور کیا جا رہا ہے۔کام کی جگہوں پر اسلام کے حوالے سے خصوصی مہارت حاصل کرنے والے ماہر عمرانیات ہشام بنیسا نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے لیے پریشان کن ہے، صرف ان کے حلقہ احباب میں موجود کچھ مسلمانوں نے فرانس چھوڑنے پر غور شروع کردیا ہے، یہ صورتحال انتہائی تناؤ اور خوف کی حامل ہے۔یورپ میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والے ملک فرانس میں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے، البتہ 50 لاکھ مسلمان آبادی والے اس ملک میں مسلمانوں کو ان کے آبائی ملک کے تناظر میں دیکھا جا تا ہے جس کی وجہ سے انہیں عمومی طور پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سکولر اقدار کے حامل فرانس میں آزادی اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں جس کے تحت ہر کوئی اپنے مذہب کے حوالے سے آزاد ہے البتہ حالیہ عرصے کے دوران حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی بنیادوں پر لگام ڈالنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں 1905 میں بنائے گئے سیکولر قانون میں ترمیم کی کوشش کی جا رہی ہے۔فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے حالیہ اسلام مخالف بیان اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کا خاکہ بنانے والے شخص کا دفاع کیے جانے پر مسلم دنیا میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور اکثر ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا گیا ہے۔فرانس میں مسلمان ابتدائی طور پر جنگ عظیم دوئم کے بعد روزگار کے حصول میں 1970 کی دہائی میں آئے اور پھر مختلف نوکریوں میں اپنی مہارت کی بدولت فرانسیسی معاشرے کا لازمی جزو بن گئے اور ان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کمپنیوں نے انہیں سہولیات بھی فراہم کیں جیسے کارساز کمپنی رینالٹ نے مسلمان عملے کے لیے نماز کے کمرے کا انتظام کیا۔بنیسا نے کہا کہ اب نجانے اس معاشرے کو ایسا کیا ہو گیا ہے کہ جب ایک پردہ دار خاتون کسی کمپنی میں آتی ہے تو بغاوت کی بو آنے لگتی ہے لیکن یہ طے ہے کہ ملک میں معاشرت کی بہتری کے لیے ہمیں لازمی طور پر اہم اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ تمام مذاہب کے لوگ خود کو یکساں محفوظ تصور کر سکیں۔
لندن:یورپ میں کرونا کیسز کی مجموعی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔یورپ میں گزشتہ پانچ ہفتوں کے دوران کیسز کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 12 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ صرف امریکہ میں دو لاکھ 30 ہزار 972 اموات ہوئی ہیں۔پاکستان میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 12 اموات اور 1123 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں اب تک چار کروڑ 65 لاکھ سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔یورپ میں گزشتہ پانچ ہفتوں کے دوران کرونا کیسز میں دو گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس کے بعد وہاں کیسز کی مجموعی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ میں تقریباً نو ماہ کے دوران پچاس لاکھ کیسز ریکارڈ کیے گئے جب کہ گزشتہ ایک ماہ میں مزید پچاس لاکھ کیسز سامنے آئے ہیں۔رائٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق ایک ہفتے کے دوران یورپ میں 16 لاکھ سے زیادہ کیسز اور 16 ہزار 100 سے زیادہ اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔یورپ میں رپورٹ ہونے والے کیسز دنیا بھر میں رپورٹ ہونے والے کیسز کا 22 فی صد بنتے ہیں۔وبائی مرض سے دنیا بھر میں تقریباً 12 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں سے صرف یورپ میں اب تک دو لاکھ 69 ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔کیسز میں مسلسل اضافیکے بعد فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ملک بھر میں ایک ماہ کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے جب کہ پرتگال نے جزوی لاک ڈاؤن اور اسپین اور اٹلی نے پابندیوں میں مزید سختی کی ہے۔
”جب اللہ تمہارے ساتھ ہے تو تم کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے تو تم کوکوئی ہرا نہیں سکتا۔ میں کچھ بھی نہیں۔ جو کچھ ہے سب اس ایک کی دین ہے۔“یہ کسی مدرسہ میں طلبہ کے سامنے پیش کردہ درس حدیث نہیں ہے، نہ کسی دینی اجتماع میں مسلمان مجمع کومخاطب کر کے کی جانے والی تقریر کے جملے ہیں، نہ ہی کسی جامع مسجد کے خطبۂ جمعہ کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ ہیں خبیب نورمحمدوف کے(Khabib Nurmagomedov)۔ دی ایگل(The Eagle)۔ شاہین۔ چیمپین خبیب۔ لائٹ ویٹ فائٹر۔ مکس مارشل آرٹ (MMS) کی دنیا کے نا قابل شکست ہیروکے،جس نے اپنے کیرئیر کی انتیس کی انتیس لڑائیوں میں ریکارڈ توڑ فتح حاصل کی۔ پچھلے12 سال کے کیرئیر میں کوئی ایک فائٹ ایسی نہیں رہی جس میں خبیب کو ہار ماننی پڑی ہو۔ 25 اکتوبر2020 ء ابو ظبی میں جسٹن گیتجے (Justin Gaethje) سے فائٹ جیت کرجان جونس (Jon Jones)کی جگہ لیتے ہوئے یو ایف سی(UFC) میں پہلی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
خبیب نے ایک ایسی جگہ جہاں ’شریف‘ لوگ جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے، ایک ایسے میدان میں جہاں خدا کا تصور ذہنوں سے بالکل محو ہو چکا ہے، ایسے لوگوں کے درمیان جن کی کئی نسلیں الحاد کے سائے میں زندگی گزار چکی ہیں اور اب انہوں نے خدا کا لفظ بھی شاید بھلا دیا ہے۔ اس قدر اعتماد اور وقار کے ساتھ اپنے اخلاق وکردار اور مذہب کو سنبھالے رکھا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ جہاں پوری کوشش اپنی پہچان بنانے اور خود کو نا قابل شکست ثابت کرنے میں صرف کی جاتی ہو،جہاں مداح صرف یہ دیکھتے ہوں کہ کون کتنا جری اور بد زبان ہے وہاں صاف لفظوں میں یہ اقرار کرنا کہ ”میں کچھ بھی نہیں،جو کچھ ہے بس خدا تعالیٰ کی دین ہے“ یقینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے خبیب جیسا طاقتور،نڈر اور بے باک انسان ہی مطلوب ہے۔
خبیب داغستان کا رہنے والا ہے۔ داغستان قوقاز کا ایک حصہ ہے جو کسی وقت چیچینیا کا حصہ تھا۔ ایک ایسی جگہ جہاں پچھلے دو سو سال سے روس اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ سن1801ء میں روس نے استعمار کے نشہ میں قوقاز کے علاقہ پر پہلا حملہ کیا تھا وہ دن ہے اور آج کا دن, روس بہرحال ان پر مسلط ہے۔ کبھی آزادی کی کوششیں تیز ہو جاتی ہیں تو روس کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے پھر روس سفاکیت و بربریت پر اتر آتا ہے اور اس طرح دوبارہ مسلط ہو جاتا ہے۔کبھی امن و امان ہوتا ہے تو بیشتر ہنگامہ اور فساد۔ خلاصہ یہ کہ داغستان پچھلی دو صدیوں سے آزاد نہ ہو سکا۔ اس کے با وجود داغستان والے اپنے دین و ایمان پر مضبوطی سے جمے رہے۔ اسی ایمان ویقین کا جلوہ ہم کو خبیب میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
موجودہ دنیا نام و نمود کی دنیا ہے۔ جو رائج ہے وہی خوب ہے۔ جسے مشہور لوگ صحیح جانیں وہی صحیح ہے۔ اشتہارات کا پورا کاروبار اسی ایک خیال پر مبنی ہے۔ ایک اچھا کھلاڑی، کوئی ہر دل عزیز فلم ایکٹر، مشہور اداکارہ یا ملکہ حسن جو طور طریق اختیار کرے دنیا اسی کو ’مہذب‘ گردانتی ہے اور اسی کے نقش قدم پر چل کھڑی ہوتی ہے۔ تہذیب اور ثقافت کا معیار ہی دراصل یہ مشہور ہستیاں (Celebrities) متعین کرتی ہیں۔ ہمارے سماج اور معاشرہ کے بگاڑ میں سب سے بڑا ہاتھ ان لوگوں کا ہی ہے۔انہوں نے کبھی اچھے اخلاق و کردار کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اخلاقی بے راہ روی کی ذمہ دار بھی یہی مشہور ہستیاں ہیں۔ شرم و حیا کا سماج سے ختم ہوجانا، فحاشیوں کا رواج پانا، گالم گلوچ کا چلن عام ہو جانادراصل اسی وجہ سے ہے کہ جن کو سماج نے ہیرو مانا وہ ہرگز اس لائق نہیں تھے کہ ان کو ہیرو یا قابل تقلید سمجھا جائے۔
یہاں ایک حقیقت اور ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ یہ کہ ایسے وقت میں اخلاق و کردار کے علبردار کہاں تھے؟ مذہب کی قید نہیں لگائی گئی تھی۔ اچھے اخلاق و کردار والوں کو کھیل کے مختلف میدانوں میں جانے سے کس نے روکا تھا؟ آسمانی مذہب کے پیروکار ’سلیبریٹی‘ کیوں نہیں بن سکے؟ کیوں کہ جو با اخلاق اور عملی مسلمان تھے انہوں نے ان سب میدانوں کو اپنے لیے شجر ممنوعہ بنائے رکھا۔ اپنے بچوں یا گھر والوں کو اس کے قریب بھی پھٹکنے کی اجازت نہیں دی۔ مزید یہ کہ جو مسلمان نام رکھنے والے ان میدانوں میں گئے بھی انہوں نے دین و اخلاق کو اپنے پیرو ں کی بیڑی سمجھا اور ان سے پیچھا چھڑانے کے درپے رہے۔نتیجہ یہ کہ ان میں اور غیروں میں سرے سے کوئی فرق ہی نہیں رہ گیا۔
ایسے حالات میں جب ایک با عمل مسلمان مکس مارشل آرٹ (MMS)کی رِنگ میں دکھائی دیتا ہے۔خاص بات یہ کہ وہ رِنگ میں داخل ہونے سے پہلے اپنی طرف اشارہ کر کے اپنے کچھ نہ ہونے کا اقرار کرتا ہے اور پھر شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر ایک خدائے واحد کے معاون و مدگار ہونے کا اعلان کرتا ہے تو دنیا سکتہ میں رہ جاتی ہے۔ مائک ہاتھ میں آتا ہے تو گفتگو کا لب ولہجہ دیگر باکسرس کے بر خلاف نرم اور شائستہ رکھتا ہے۔ ملحدوں کے درمیان کھڑا ہو کر بھی بار بارہر ایک جملہ میں اللہ کا نام لے رہا ہوتا ہے۔ مد مخالف اسلام دشمنی میں یہ کلمات برداشت نہیں کر پاتا اور گالم گلوچ پر اتر آتا ہے۔ خبیب کے والد کی توہین کرتا ہے۔ طنزیہ انداز میں اسلام مخالف باتیں کرتا ہے۔جواب میں خبیب نہ اس کے والد کو برا بھلا کہتا ہے نہ ہی اس کے دین کو ملامت کا نشانہ بناتا ہے۔ صرف رِنگ میں ملنے کی بات کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ رِنگ میں وہ کسی بھی ’مہذب‘ فائٹر سے کم نہیں کیونکہ آج تک وہ اپنی تمام فائٹس جیتتا ہی آیا ہے۔ جیتنے کے بعد سجدہ کرتا ہے۔ اٹھتا ہے اور دوبارہ شہادت کی انگلی اٹھا کر رب ذوالجلال کا شکر ادا کرتا ہے۔ مائک ہاتھ میں آتا ہے تو گفتگو کا آغاز ’الحمد للہ‘ (تمام شکر و تعریف اللہ کے لیے ہے) اور ’ما شاء اللہ‘ (جیسا اللہ نے چاہا) سے کرتا ہے۔ گفتگو کے دوران اپنا نام جپنے کے بجائے اپنے والد اور دیگر ٹیم میں شامل افراد کی تعریف وتوصیف کرتا ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ کسی خاتون نے اس کو انعام و اکرام سے نوازنے کے بعد مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور اس نے بھرے اسٹیج پر دھیرے سے معذرت کرلی۔
والدین کے ساتھ اس کا حسن سلوک پہلے دن سے ہی گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس کے والد ہی اس کے کوچ بھی ہیں، اس کے دوست بھی ہیں اور اس کے مربی بھی ہیں۔ بلکہ اس کے والد ہی اس کی کل دنیا ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں والدین کی جگہ گھر نہیں بلکہ اولڈ ایج ہوم ہوں (Old Age Home) ، وہاں یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی سلیبریٹی اپنے والد کی مرضی اور ان کے فیصلوں کو اتنی اہمیت دے گا۔ 25 اکتوبر2020ء اس کی آخری فائٹ دیکھنے والے جیت کے بعد اس کا یہ اعلان سن کر دنگ رہ گئے کہ ”والد کی وفات کے بعدوالدہ فائٹ کے لیے رِنگ میں جانے سے منع کر رہی تھیں۔ اپنی والدہ کو منانے میں مجھے تین دن لگ گئے۔ لیکن اب بس۔ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اب رِنگ میں کبھی دکھائی نہیں دوں گا۔“ ذرا تصور کیجیے، والدہ کی خواہش کے احترام میں شاندار کیرئیر کو تیاگ دینا!!! کیا آج کسی بھی دوسرے سلیبرٹی سے ایسی امید کی جا سکتی ہے؟رٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد بھی اس کے منہ سے بڑے بول یا اپنی تعریفیں نہیں سنائی دیں بلکہ اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، والد مرحوم کو یاد کیا، والدہ کا ذکر کیا، ساتھ میں آنے والے ٹیم کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا اور حد یہ ہے کہ جس سے فائٹ ہوئی تھی اس کی تعریف کی اور اس کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے مائک واپس کر دیا۔ اس دن بھی اس نے اپنے تعلق سے صرف اتنا کہا کہ”مجھے امید ہے یو ایف سی (UFC) مجھے پہلے مقام پر رکھے گی کیونکہ میں اس کا حقدار ہوں۔“
دیگر مشہورلوگ (Celebrities) بھی اے کاش! خبیب جیسے ہی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرنے والے ہوتے تو آج ہم ایک بہتر سماج میں زندگی گزار رہے ہوتے۔ آج ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں اور بھائیوں کے معصوم ذہن بے حیائی،فحاشی، الحاد اور مادیت پرستی کے پروردہ نہ ہوتے۔یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بچے کتابوں اور اساتذہ سے کہیں زیادہ ان سلیبرٹیز کا اثر قبول ہیں۔ بچوں کو موبائل فون اور سوشل میڈیا سے یکسر دور رکھنا نا ممکن ہے اور سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا بلکہ اب تو پرنٹ میڈیا پر بھی انہی سلیبریٹیزاور ان کے اشتہارات کاتسلط ہے۔ لہذا وہی اخلاق و کردار سے عاری سلیبریٹیز بچوں کے سوچنے سمجھنے پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اوربچوں کے اخلاق و کردار بھی انہی کے رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بر خلاف خبیب کا لوگوں کے اخلاق پر کتنا مثبت اثر پڑا اس کا اندازہ کرنے کے لیے آپ یو ٹیوب پر جائیں اور اس کی کسی بھی ویڈیو کے نیچے کمینٹ باکس پر نظر ڈالیں۔ آپ کو شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس ہو گی کہ اے کاش! ہماری دیگر مشہور ہستیاں بھی کچھ ایسے ہی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرنے والی ہوتیں۔
ایک قابل غور نکتہ اور بھی ہے۔علماء کرام اور داعی حضرات کا اثر کیوں بہت محدود ہوتا ہے؟ وہ بڑے پیمانہ پر عوام کو متاثر کرنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں؟ اس کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں، وہیں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا دائرہ کار بہت محدود ہوتا ہے۔ان کے حلقہ احباب میں صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو خود بھی عالم ِدین ہوں یا کارِ دعوت سے جڑے ہوئے ہوں۔وہ اپنے حلقہ سے باہر اپنا تعارف نہیں بناتے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھئے۔ ایک عالم کی ملاقات یا اس کا اٹھنا بیٹھنا بھی عموماً دیگر علماء کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ عوام سے اس کا تعارف کسی عوامی پروگرام میں ہوتا ہے جس میں وہ دور بیٹھے اس عالم کو اسٹیج سے تقریر کرتا ہوا دیکھتے اور سنتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے پاس جو علم ہے اس کی ضرورت کس کو زیادہ ہے دیگر علماء کو یا ان لوگوں کو جو اس علم سے محروم ہیں؟ اسی میں اس سوال کا جواب بھی مضمر ہے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا عام لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے یا خود علماء ہی کے ساتھ۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جو شخص دین کی تعلیم حاصل کرتا ہے یا جس کے اندر دین سے کچھ رغبت پیدا ہوتی ہے وہ پھر اپنا میدان چھوڑ چھاڑ کر ہمہ وقت داعیوں کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے۔ اس کا اپنے میدان کے لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا، ان کے ساتھ رہنا سہنا دھیرے دھیرے ختم ہوتا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے ہی میدان کے دوسرے لوگوں پر اپنا اثر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا ہے۔ خبیب ایک اچھا مسلمان ہوتے ہوئے بھی اس میدان سے جڑا رہا جس میں اس کو مہارت حاصل تھی اورجہاں لوگ ان اخلاق و کردار سے بالکل عاری تھے جن سے وہ متصف تھا۔ اسی لیے شاید اس کی سب سے زیادہ ضرورت اسی میدان میں تھی۔یہی وجہ ہے کہ بڑے پیمانے پر لوگوں نے اسے دیکھا بھی سنا بھی بلکہ اس کے اخلاق و کردار کو اپنانا باعث شرف سمجھااور خبیب کو اپنا رول ماڈل بنا لیا۔
خبیب نورمحمدوف داغستانی کے نام کے ساتھ دو نام اور بھی ذہن میں آتے ہیں۔ ایک امام شمویل داغستانیؒقوقاز کی پہاڑیوں کے شیر(The Lion of Caucasia)۔ دوسرا محمد علی کلے ؒ عظیم ترین باکسر(The Greatest Boxer)۔ امام شمویل ؒ اور خبیب کا وطن ایک ہے۔ محمد علی کلےؒ اور خبیب کی وجہ شہرت یکساں ہے۔ام شمویلؒ اسلامی تاریخ کا ایک عظیم نام ہے۔ امام شمویلؒ بیک وقت نقشبندی سلسلہ کے امام بھی تھے اور جہادِ روس میں امیر المجاہدین بھی۔ اخلاق و کردار ایسے کہ دشمن بھی معترف۔ بہادری ایسی کہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک مثال قائم کر گئے۔ چند ہزار قبائلی لوگوں کو ساتھ لے کر ’زار‘ کی لاکھوں کی فوج سے ٹکرا گئے اور تین دہائیوں تک زار کے استعماری مقاصد کی راہ میں سدِ سکندری کی طرح حائل رہے۔ پہلے شخص جنہوں نے گوریلا جنگ کو باقاعدہ ایک طرزِ جنگ کے طور پر اختیار کیا۔ انتہائی منظم، موثر اور دلیرانہ جنگ۔
محمد علی کلےؒ ایک زبردست باکسرتھے۔ اپنی61 فائٹس میں سے صرف5 ہارے تھے اس کے علاوہ56 فائٹس میں جیت ان کا مقدر بنی تھی۔محمد علیؒ امریکہ میں اسلام کے سفیر تھے۔ اسلام کی تعلیمات کو امریکہ والوں تک پہنچانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ محمد علیؒ مختلف ٹی وی شوز پر آتے، اسلام اور مسلمانوں کو لے کر چل رہی ڈبیٹ میں حصہ لیتے اوربہترین انداز میں اسلام کا پیغام دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے۔ ان کا انداز بالکل دو ٹوک اور غیر معذرت خواہانہ تھا۔ محمد علی کلےؒ اور املکوم ایکسؒ کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں اتنے اعتماد اور دو ٹوک انداز میں شاید ہی کسی نے اسلام کی نمائندگی کی ہو۔ محمد علیؒ کی شہرت کا اندازہ آپ اس سے لگایئے کہ ُاس وقت ان کی فائٹس کے ٹی وی پر ناظرین (Television Viewership) ایک بلین سے زیادہ لوگ ہوتے تھے۔ اسی لیے جب وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں ٹی وی پر گفتگو کرتے تو بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان سے متاثر ہوتی اور اس طرح ان کو اسلام کا صحیح فہم حاصل ہوتا۔
ایک مرتبہ ٹی وی اینکر نے شو کے دوران ان سے سوال کیا ”کیا آپ کے ساتھ آپ کی حفاظت کے لیے محافظ رہتے ہیں؟“محمد علیؒ نے جواب دیا ”ہاں، ایک محافظ ہے۔ اس کے پاس آنکھیں نہیں ہیں،لیکن وہ دیکھتا ہے۔ اس کے پاس کان نہیں ہیں، لیکن وہ سنتا ہے۔ وہ ایک ایک بات یاد رکھتا ہے۔ وہ جب کسی چیز کو تخلیق کرنا چاہتا ہے تو صرف ایک حکم دیتا ہے اور وہ عدم سے وجود میں آجاتی ہے۔ اس کو حکم دینے کے لیے الفاظ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کہ زبان کو کہنا پڑے اور کانوں کو سننا پڑے۔ وہ انسان کے خیالات میں چھپے رازوں کو بھی جانتا ہے۔ اندازہ کرو وہ کون ہو سکتا ہے؟ وہ خدا ئے بزرگ و برترہے۔ وہ اللہ ہے سبحانہ و تعالیٰ۔ وہ میرا محافظ ہے۔ وہی درحقیقت تمہارا بھی محافظ ہے۔“
اخیر میں ایک بار پھر خبیب کو سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ وہ ایک اچھا نمونہ ہے۔ قابل تقلید رول ماڈل ہے۔ اس نے اپنی صلاحیت اور قابلیت کا بھر پور حق ادا کیا۔بے شمار لوگوں کو اپنے اخلاق و کردار سے متاثر کیا۔ ان کو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے قریب کیا۔ فجزاہ اللہ خیر الجزاء۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم کو بھی اچھے اور نیک اخلاق و کردار کا مالک بنائے۔ ہمیں اسلام کی تعلیمات کا سفیر اور ملک و ملت کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔
لکھنو:راجیہ سبھاکے لیے اتر پردیش کی 10 نشستوں کے لیے تمام امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوگئے ہیں۔ پیرکے روزالیکشن آفیسرنے اعلان کیاہے کہ نام واپسی کی مدت ختم ہوتے ہی امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی تاریخ میں پہلی بار راجیہ سبھا میں بہترین اورکانگریس اپنی تاریخ کی بدترین حالت میں پہنچ گئی ہے۔اترپردیش کی ان نشستوں سے راجیہ سبھا پہنچنے والوں میں بی جے پی کی جانب سے مرکزی وزیرہردیپ سنگھ پوری ، ارون سنگھ ، سابق ڈی جی پی برج لال ، نیرج شیکھر ، ہریدوار دبے ، گیتا شکیہ ، بی ایل شرما اور سیما دویدی شامل ہیں۔ اسی دوران ایک نشست سماج وادی پارٹی کے رام گوپال یادو اور ایک سیٹ بہوجن سماج پارٹی کے رام جی گوتم کے پاس چلی گئی ہے۔25 نومبرکوراجیہ سبھا کے 10 ممبران پارلیمنٹ کا دورختم ہورہا ہے۔ ان میں بی جے پی کے تین ، سماج وادی پارٹی کے چار ، بی ایس پی کے دو اورکانگریس کے ایک رکن پارلیمنٹ شامل ہیں۔ راجیہ سبھا انتخابات میں بی جے پی یوپی میں 9 امیدواروں کو جیتنے کی پوزیشن میں تھی لیکن اس نے ایک نشست خالی چھوڑدی اور صرف 8 امیدواراتارے ۔ بی جے پی کے اس قدم نے سب کو حیران کردیا ، کانگریس اور ایس پی نے بی جے پی اور بی ایس پی پر اتحاد کا الزام لگایا۔اترپردیش اور اتراکھنڈ کی راجیہ سبھا کی 11 نشستوں کے نتائج صاف کرنے کے بعد ، راجیہ سبھا میں بی جے پی بلندی پرہے جبکہ کانگریس کی سیٹیں تاریخ کی سب سے کم ہوگئی ہیں۔ اب بی جے پی کے پاس کل 92 سیٹیں ہوں گی جبکہ کانگریس کے پاس صرف 38 سیٹیں ہوں گی۔ اگر ہم این ڈی اے کے بارے میں بات کریں تو راجیہ سبھا میں این ڈی اے کی کل تعداد 112 ہوگی۔ یہ تعداد اکثریت کے اعداد و شمار سے صرف 10 نشستوں کی دوری پر ہے۔ راجیہ سبھا کی کل نشستیں 245 ہیں جن میں سے 12 نشستوں پر صدر ممبران نامزد کرتے ہیں۔ باقی نشستوں پرانتخابات ہوتے ہیں۔
بہار الیکشن:دوسرے مرحلے کی 94سیٹوں پرووٹنگ کل،راجداورجدیوکے سامنے اپنی نشستیں بچانے کاچیلنج
پٹنہ:کل بہارمیں یعنی 3 نومبر کو ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے دوسرے مرحلے کی پولنگ کے لیے انتخابی مہم اتوارکوبندہوگئی ہے۔ اس سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی پوری طاقت لگادی ہے۔ لیکن دوسرے مرحلے کے انتخابات میں عظیم اتحادمیں آر جے ڈی اور جے ڈی یوکے لیے اپنی نشستیں بچانابہت بڑاچیلنج ہے۔بہار انتخابات کے دوسرے مرحلے کی 94 نشستوں میں سے ، آر جے ڈی نے گذشتہ انتخابات میں تقریباََایک تہائی حصے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی مرحلے میں وزرائے اعلیٰ کے امیدوار اور آر جے ڈی صدر لالو پرساد کے بیٹے تیجسوی یادو ، ان کے بھائی اور سابق وزیرتیج پرتاپ یادوسمیت متعدد لیڈروں کی انتخابی قسمت کا فیصلہ ہوناہے۔ دوسرے مرحلے کی 94 نشستوں میں سے ، پچھلے انتخابات میں آرجے ڈی نے 33 ، جے ڈی یونے 30 اور کانگریس کے 7 ارکان اسمبلی نے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ این ڈی اے کو صرف 22 نشستوں پر ہی مطمئن ہونا پڑاتھا۔اس الیکشن میں آر جے ڈی نے 56 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں ، جبکہ اس کے دیگر اتحادی میدان میں ہیں۔ ان میں سے 27 نشستوں پر آر جے ڈی کی براہ راست لڑائی بی جے پی سے ہے جبکہ 25 نشستوں پر جے ڈی یوکے ساتھ مقابلہ ہے۔ بی جے پی اس مرحلے کے انتخابات میں46 نشستوں پرمقابلہ کررہی ہے جبکہ اس کی حلیف جماعت جے ڈی یو43 نشستوں پرمقابلہ کررہی ہے۔ویسے پچھلے انتخابات کے بعد سے اس انتخابات میں حالات بدل چکے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں جے ڈی یو نے آر جے ڈی اور کانگریس کے ساتھ مقابلہ کیا تھا جبکہ این ڈی اے نے بی جے پی کے ساتھ لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) اورراشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی)کے ساتھ مقابلہ کیا تھا۔ اس انتخاب میں جے ڈی یواین ڈی اے میںہے جبکہ ایل جے پی تنہا ہے اور آر ایل ایس پی الگ اتحادکے ساتھ ہے۔
نئی دہلی:فرانس میں اساتذہ کے قتل اور پھر چرچ پر حملہ جیسے واقعات ہوئے۔یہ واقعات حضرت محمدﷺ پر کارٹون بنانے پرہوئے۔گرچہ خبریہ بھی ہے کہ چرچ پرحملہ کرنے والامسلمان نہیں تھا۔دنیابھرکے تمام اسلامی ممالک نے فرانس میں مسلسل مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑپرتنقیدکی ہے۔جب کہ بھارت میں فرقہ پرست عناصرخوش ہیں ۔ہاں چرچ اوراستاذکے واقعے پرحقوق انسانی کی دہائی دینے والے ہنگامہ کررہے ہیں ۔یہاں تک کہ کل انڈیااسلامک کلچرل سنٹرکونشانہ بنایا گیا اوراس کے سائن بورڈ پر اشتعال انگیزپوسٹر چسپاں کردیا گیا۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسدالدین اویسی نے فرانس میں دہشت گردی کے واقعات کو غلط قرار دیا ہے۔پیر کو نجی نیوز چینل سے گفتگومیں اویسی نے کہاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کارٹون بنائے جانے کی وجہ سے انہیں بہت تکلیف ہوئی ہے ، لیکن تشددکے واقعات سراسر غلط ہیں۔اویسی نے کہا کہ جو لوگ جہاد کے نام پر بے گناہوں کو مارتے ہیں وہ صرف قاتل ہیں۔ اسلام اس کی تائیدنہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ آپ جہاں رہتے ہیں وہاں کے قوانین کو ماننا ہے۔ آپ کسی کو نہیں مار سکتے۔اویسی نے یوپی میں مبینہ لوجہادپرقانون سازی پرکہاہے کہ بہارمیں بی جے پی کی دال نہیں گل رہی ہے ۔اس لیے ایسے مدعے اٹھاکروہ نفرت پھیلارہی ہے۔
فرانس کے خلاف احتجاج:اے ایم یوکے اسٹوڈنٹ لیڈرفرحان زبیری کے خلاف ایف آئی آر،گرفتاری کاحکم
علی گڑھ:فرانس میں دہشت گردوں نے نبی کریم ﷺکاکارٹون بناکراورپھراسے اسکولوں میں دکھاکرپوری دنیاکے مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑکیاہے،اس پرعالم اسلام نے متحدہوکرفرانس کے اقدام کی مذمت کی ہے اورفرانسیسی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جارہی ہے جس کے بعدفرانس کے صدرکووضاحت پیش کرنی پڑی ،لیکن میڈیااورفرقہ پرست عناصرکارٹون کی بات ہضم کرکے چرچ حملے پرباتوں کوگھمارہے ہیں،بھارت میں بھی فرقہ پرست عناصرنے اسے ہوادیناشروع کردیاہے ۔بلکہ ایک طبقہ خوش ہے۔دوسر ی طرف ناموس رسالت کی حفاظت پرمسلسل احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی طلبہ نے مظاہرہ کیا۔ اس دوران اسٹوڈنٹ لیڈر فرحان زبیری نے تقریرکی۔ پیر کو ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعدفرحان کے خلاف سول لائن پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ویڈیو میں فرحان زبیری نے مبینہ طورپر قتل کے جوازکو پیش کیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اے ایم یوکے اسٹوڈنٹ لیڈراوراے آئی ایم آئی ایم لیڈر فرحان زبیری نے کہا کہ اگر کوئی حضرت محمدصاحب کی طرف انگلی بھی اٹھائے تو ہم اس کی انگلی توڑ دیں گے اور اگر کوئی نظر اٹھا کردیکھے گاتو آنکھیں نکال لیں گے اور اگر کوئی اگر آپ ان کی توہین کرتاہے تو اس کا سر کاٹ ڈالیں گے۔ کیونکہ ہماری بنیاد کلمے سے ہے،لا الہ الا اللہ محمداررسول اللہ۔ان مظاہروں سے فرقہ پرست عناصرکوکافی تکلیف ہے۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس سول لائن اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ایس پی سٹی ابھیشیک نے بتایا کہ فرحان زبیری کے خلاف 29 اکتوبرکومظاہرے کے سلسلے میں مبینہ اشتعال انگیز بیانات دینے پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ان پردفعہ 153 اے اور506 آئی ٹی ایکٹ نافذ کیا گیا ہے۔ وہ فرارہیں۔انھیںجلدہی گرفتار کرلیا جائے گا۔
بی جے پی کی حمایت والے بیان پر مایاوتی کی وضاحت،سیاست سے کنارہ کشی منظور مگر بی جے پی سے اتحاد نہیں کر سکتی!
لکھنؤ:بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی سربراہ مایاوتی جنہوں نے سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے امیدواروں کوشکست دینے کے لیے بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالنے سے پرہیزنہ کرنے کی بات کی تھی ، انھوںنے اب ایک نیابیان دیاہے۔ بہارمیںاویسی اتحاداوریوپی ضمنی الیکشن میں پارٹی کوکافی نقصان ہورہاتھا،اس لیے یہ وضاحت پیش کی گئی ۔ بی ایس پی سربراہ نے کہا ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ کوئی اتحاد کرنے کی بجائے سیاست سے سبکدوش ہونے کوترجیح دیں گی۔ بی ایس پی سپریمو نے پیر کو میڈیا بریفنگ میں کہا کہ کسی بھی الیکشن میں بی جے پی کے ساتھ بی ایس پی کا کوئی اتحاد مستقبل میں ممکن نہیں ہوگا۔ بی ایس پی فرقہ پرست پارٹی کے ساتھ الیکشن نہیں لڑ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا نظریہ سارے مذاہب کااحترام ہے اور یہ بی جے پی کے نظریہ کے منافی ہے۔ بی ایس پی ان لوگوں کے ساتھ اتحاد نہیں کر سکتی جوفرقہ وارانہ ، ذات پات اور سرمایہ دارانہ نظریہ کے حامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مایاوتی نے گذشتہ ہفتے کہاتھاکہ ان کی پارٹی قانون ساز کونسل اور راجیہ سبھا سمیت آئندہ انتخابات میں سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کی شکست کویقینی بنانے کے لیے بی جے پی یا کسی اور پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے سے گریزنہیں کرے گی۔ یوپی کی سات اسمبلی نشستوں پرمنگل کوووٹنگ سے ایک روزقبل بی ایس پی صدر اور سابق وزیراعلیٰ مایاوتی نے بی جے پی کے ساتھ سازبازکے الزامات پروضاحت پیش کی ہے۔
نئی دہلی:فیصل خان جومتھرا مندر میں نماز پڑھنے کے معاملے میں تنازعہ میں آئے ہیں۔ان کویوپی پولیس نے دہلی کے جامعہ نگر سے گرفتار کیا ہے۔ اس معاملے میں چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کیاگیا ہے۔29 اکتوبر کو چار افرادمتھراکے نند بابا مندر آئے تھے۔ ان میں سے دوافرادنے مندرکے احاطے میں ہی نماز پڑھی۔ اس معاملے میں جم کرسیاست ہورہی ہے اوربہارالیکشن کے تناظرمیں میڈیاکوبھی اس کے مطابق اچھامدعاہاتھ آگیاہے ۔دفعہ 153 اے ، 295 ، 505 کے تحت بارسانہ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔یہ شکایت مندرانتظامیہ نے درج کرائی ہے۔ ایف آئی آرمیں کہا گیاتھا کہ ہندو برادری کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور آستھاکوگہری چوٹ پہنچی ہے۔میڈیاسے گفتگومیں فیصل خان نے کہاہے کہ نمازکو دھوکہ دہی سے نہیں پڑھاجاتا ہے۔ سب کے سامنے نماز پڑھی ہے۔ بہت سارے لوگ وہاں موجودتھے۔ کسی نے منع نہیں کیا ۔ فیصل خان نے ایف آئی آر کے سوال پر کہا ہے کہ یہ مقدمہ سیاسی وجوہات کی بناء پر درج کیا گیا ہے۔فیصل خان نے بتایا کہ مندرکے صحن میں ہم نے پوچھ کر نمازادا کی تھی۔ لوگ وہاں موجودتھے ، اگر کوئی ڈانٹتا تو ہم وہاں کیوں نماز پڑھتے؟ نمازکو خیر سگالی کے لیے پڑھاگیاتھا۔
لکھنؤ:سماج وادی پارٹی کے صدراورسابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادونے پیرکوکہاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی واحدخواہش سماج وادی پارٹی کو شکست دینا ہے۔ انہوں نے یوگی آدتیہ ناتھ کی سربراہی میں ریاستی حکومت اور بی ایس پی پرحملہ کیا۔ اکھلیش یادونے اعظم خان اورمنورراناکادفاع کرتے ہوئے کہاہے کہ ان دونوں پرکارروائی غیرمنصفانہ ہے۔پیرکو اناؤکے سابق رکن اسمبلی انو ٹنڈن کو ایس پی میں شامل کرنے کے بعد اکھلیش یادو نے صحافیوں کوبتایا کہ فرقہ پرستوں کوروکنے کے لیے 2019 میں بی ایس پی کے ساتھ اتحاد ضروری تھا۔ اکھلیش یادونے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا نظریہ رتھ کے دوپہیوں کی طرح ہے ، اسی لیے میں نے بی ایس پی کے ساتھ اتحادکیاتھا۔ریاست کی سات اسمبلی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کوپریکٹس ٹیسٹ قرار دیتے ہوئے اکھلیش یادونے کہاہے کہ بی جے پی کو سبق سکھانے کے لیے عوام وقت کی منتظرہے۔ مایاوتی نے پیر کی صبح میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ایس پی اور کانگریس ضمنی انتخاب میں ہماری پارٹی کے خلاف سازش کر رہی ہیں اور غیر منصفانہ طور پر مہم چلارہی ہیں تاکہ مسلم معاشرے کے لوگ بی ایس پی سے الگ ہوجائیں۔مایاوتی نے یہ بھی کہا کہ بی ایس پی کبھی بھی بی جے پی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔سابق رکن پارلیمنٹ انو ٹنڈن نے حال ہی میں ریاستی قیادت پر الزام عائد کرتے ہوئے کانگریس سے استعفیٰ دے دیاہے۔ اس سے قبل سابق مرکزی وزیر سلیم شیروانی اور بی ایس پی کے سابق ممبر پارلیمنٹ تریھوون دت سمیت متعدد سرکردہ رہنماؤں نے سماج وادی پارٹی کی رکنیت لی ہے۔اکھلیش نے کہا کہ پولیس نے حکومت کی ہدایت پر ایس پی لیڈراعظم خان اور منور رانا کے خلاف کارروائی کی ہے ، جو غیر منصفانہ ہے۔
پٹنہ (شاہد وصی) سہ سالہ تبدیلی صدور ضابطے کے تحت پیر کے روز اردو کے مشہور ادیب، فکشن ناقد، درجنوں کتابوں کے مصنف ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ کا عہدہ سنبھالا۔ سابق صدر پروفیسر جاوید حیات نے گلدستہ کے ساتھ کرسی صدارت پر ان کا استقبال کیا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ واضح ہو کہ پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی ایک تاریخ رہی ہے۔ ڈاکٹر عظیم الدین سے لے کے اختر اورینوی، پروفیسر اسلم آزاد، پروفیسر اعجاز علی ارشد، پروفیسر اسرائیل رضا جیسے ممتاز اہل قلم ودانش صدور شعبہ رہ چکے ہیں۔ دبستان عظیم آباد کی ترویج میں اس شعبے کا کلیدی کردار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر اعظمی کی صدارت کی خبر مشتہر ہوتے ہی اردو آبادی میں تحسین وآفریں کا ماحول دیکھنے کو ملا۔ فکشن نگار ڈاکٹر قاسم خورشید نے المنائی ایسوسی ایشن واٹس ایپ گروپ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس دن کا شدت سے انتظار تھا آخر وہ دن آہی گیا۔ شعبہ اردو اور اس کے متعلقین کیلئے ساتھ ہی جہان علم وادب کیلئے اچھی خبر، روز اول سے آپ بہت ہی فعال اور متحرک رہے ہیں۔ ان شاء اللہ آنے والے دنوں میں بھی علم وادب کی آبیاری کرتے رہیں گے۔ ڈاکٹر واحد نظیر نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی صدارت میں شعبہ اردو کی تاریخی شبیہ نئے رنگ وروغن سے مزید پرکشش ہوگی۔ شہاب صاحب کی تدریسی وانصرامی صلاحیت اور علمی روشنی سے شعبے کا چہرہ اور بھی تابناک ہوگا، اللہ ان کا حامی وناصر ہو۔ ڈیپارٹمنٹ آف اردو واٹس ایپ گروپ میں سابق صدر شعبہ پروفیسر اسرائیل رضا نے مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ ڈاکٹر اعظمی کے دور صدارت میں شعبہ اردو کے شاندار روایتی وقار میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر شعبہ میں ڈاکٹر صفدر امام قادری، ڈاکٹر اکبر علی، پروفیسر اسرائیل رضا، ڈاکٹر سرور عالم ندوی، ڈاکٹر منہاج الدین، ڈاکٹر نجم الحسن عارض، ڈاکٹر نعمت شمع، ڈاکٹر عندلیب عمر، عارف حسین وغیرہم کے علاوہ طلبا وطالبات اور ریسرچ اسکالر موجود تھے۔