ترجمانی: محمد نوشاد نوری قاسمی
ایک وقت تھا کہ عربوں کی زبان، ان کی تهذيبي اور ثقافتي ضروريات كے ليے كافي تھي، كھانے، پينے، پهننے، سوچنے اور ديگر استعمال كي چيزوں كے انهوں نے نام مقرر كرركھے تھے، اگر ان كي زبان ميں كسي چيز كے ليے مناسب الفاظ نہ ملتے، تو وه دوسروں سے نقل كرتے، يا نئے الفاظ ايجاد كرتے، وه اپنے قوانين، اپنے علوم، اپني زبان اور اپنے نظم ونسق ميں، زمانے كے ساتھ چلتے رہے، اگر انهيں محسوس ہوتا كہ كوئي قوم كسي علم ميں ان سے فائق ہے، تو انهيں غيرت آتي کہ وه كيوں اس علم ميں پيچھے رہيں، چناں چہ ان علوم كا ترجمہ كرتے اور اپني كمي کی تلافی كرتے، اگر نئے معانی اور جديد ايجادات كا سامنا ہوتا تو نئے الفاظ وضع كرتے اور اپنے معاجم ميں انهيں جگہ ديتے اور علما اپني كتابوں ميں ان كا تذكره كرتے، اگر ان كےمعاشرتي احوال کی وجه سے نئے معاملات پيدا ہوتے يا نئے جرائم وجود ميں آتے تو حالات كے اعتبار سے نئے قوانين بناتے اور وہي بات كہتے جو حضرت عمر بن عبد العزيز رحمه الله كها كرتے تھے: ’’يحدث للناس من الأقضية بقدر ما يحدث لهم من الفجور‘‘ يعنی جتنے جرائم وجود ميں آئيں گے اتنے ہی فيصلے سامنے آئيں گے يا جيسا زياد كہا كرتے تھے کہ تم نے نئے جرائم پيدا كيے تو ہم نے ہرجرم كے ليے نئي سزا مقرر کی۔
اس دور ميں عرب اور زمانہ گھوڑ دوڑ كے دوگھوڑے كي طرح تھے، جو شانہ بشانہ دوڑ رہے تھے، ان كا يقين تھا کہ كوئی بھی قوم جب تک زمانے كے تقاضوں سے ہم آہنگ نہيں ہوگي وه كامياب نہيں ہوسكتی؛ ليكن اس كے بعد وه ٹھہر گئے اور زمانہ دوڑتا رہا، وه جتنا كھڑے رہے فاصلہ بڑھتا گيا اورزمانے سے بعد كي نسلوں كا فاصلہ اوربھی بڑھ گيا، وه سات آٹھ صديوں تک كھڑے رہے جن ميں كلمات كے مفاہيم بدل گئے، نئے معاني اور ايجادات كا انبار لگ گيا اور ان كے معاجم انهی الفاظ كے ارد گرد گھومتے رہے ،جن كے مفاہيم صديوں پهلے فيروزآبادی كي القاموس المحيط اور لسان العرب جيسی كتابوں ميں طے ہوئے تھے،جو بالكل مختلف زمانے اور حالات ميں لكھي گئی تھيں، زنده قوميں تو اسے بھی پسند نہيں كرتيں كہ آج سے پچاس سال پہلے لكھي گئی معجم پر ان كي لغوی اور علمي ضرورتوں كا مدار رہے اور بعد كے پچاس سالوں ميں كسي اہم معجم كي تصنيف نہ ہو۔
طرز زندگي بدلا، معاملات بدلے،مسائل اور تقاضے بدلے،تہذيبي انقلابات برپاہوئے، معيارحسن وقبح بدلا، اچھی چيزيں بری بن گئيں اور بری چيزيں اچھی بن گئيں؛ ليكن عرب وہيں كھڑے رہے،نئے علوم آئے، پرانے نظريات كا طلسم ٹوٹا، نئے قوانين، نئے خيالات اور نئے چيلنجوں نے جنم ليا ،زمانے نے كروٹ لي ،زندگی كا دھارا بدل گيا؛ ليكن عرب متقدمين كی كتابوں اور ان ہي كے نظريات پر قائم رہے ، ہميں بالكل قديم سے استفاده كرنا چاہيے ؛ ليكن اس ليے تاكہ جديد منہج تشكيل پاسكے اور اس كي روشني ميں جديد تقاضے پورا كرسكيں۔
واقعي ہميں ايسے انقلاب كي ضرورت ہے، جو ہميں خواب غفلت سے بيدار كرسكے، جو ہماری زندگي كا رخ بدل سكے، بحث وتحقيق كے ليے ہماری آنكھيں كھول سكے، فكر كے دريچے واكرسكے اور ہمارے نظريات اور اعمال صحت اور درستی كي بنياد پر قائم كرسكے۔
آج ضرورت ہے كہ ہم مغرب كی تحقيقات سے بھی استفاده كريں اوردنيا كی ترقي يافتہ قوموں كے علمی وعملی تجربات سے استفاده كركے، اپنے ماحول، اپنے مذہب ،اپنے معاشرتي نظم ونسق اور فكری وعقلي احوال سے ہم آہنگ ايک نيا نظام تشكيل ديں۔ ( مبادئ الفلسفه،ص8-9)