اردو ادب کو نوبل انعام کیوں نہیں ملتا؟ اس سوال پر گفتگو کرنے سے پہلے 2020 کے ادب نوبل پرائز کے بارے میں گفتگو کرلیں جو محترمہ لوئس گُلوک کو دیا گیا ہے۔ لوئس گُلوک( Louise Gluk) نے درونِ ذات کے ان تمام نا خوشگوار معاملات کو موضوعی، مزاحمتی اور احتجاجی انداز کے ساتھ جزوِ شاعری بنایا جو افقی سطح پر تو محسوس کئے جا سکتے تھے، آفاقی سطح پر ایک حساس فنکارانہ ڈکشن کے تعین کے انتظار میں تھے۔ ان کے موضوعات گھریلو زندگی، ٹوٹتے رشتے، طلاق، ذہنی علاج اور موت کے گرد گھومتے ہیں اور ان سب کی بنیاد میں ان کا افسانوی اور رومن اساطیری مطالعہ ہے جو انہوں نے اپنے والد سے حاصل کیا۔ وہ امریکی سفید فام یہودی باپ کی اولاد ہیں جن کے دادا ہنگرین یہودی تھے۔
ان کے غیر متوقع طور پر اعزاز پانے کے مندرجہ ذیل ممکنہ اسباب میں سے سب یا کچھ ہوسکتے ہیں:
ہنگری نژاد یہودی امریکی سفید فام ہونا۔ (ابھی امریکہ میں رنگ بھید کے تنازعات خوب ابھر کر آئے ہیں)
نسلی اجتماعی احتجاج بنام ذاتی و نجی خانگی رشتوں اور ٹوٹ پھوٹ کو لے کر احتجاج۔
کثیر الاشاعت ہونا۔ 25 سال کی عمر سے شاعری و افسانوی کتابوں کا سلسلہ رواں دواں ہے۔ 1968 میں پہلی کتاب نے لوگوں کو تعجب میں ڈال دیا تھا کہ اس طرح بھی ذاتی رشتوں پر لکھا جا سکتا ہے۔ رواں سال ہی 11 کتابوں کی اشاعت، یعنی 50 سال کی ریاضت۔
ان کے ادبی کارناموں کا نامور ادبی شخصیات کے کارناموں سے تقابل۔
زندگی کے تاریک پہلوؤں کی فنکارانہ عکاسی۔
کل ملا کر ایک سفید فام یہودی کی کئی دہائیوں پر محیط شعری و ادبی مجموعی نمایاں خدمات کو اور نمایاں کرنا۔
امریکی انگریزی زبان کا وسیع دائرۂ کار اور عالمی اپروچ۔
اب اس مندرجہ بالا تناظر میں ہم چھان پھٹک کر سکتے ہیں کہ کیوں ایشیائی زبانوں میں بالخصوص بر صغیر کی زبانوں میں اور ان میں سے بھی اردو زبان میں نوبل انعام پانا کیوں اتنا مشکل ہے؟
سہولت کے لئے چند معروضات پیش ہیں :
بر صغیر کی نمایاں زبانوں یعنی اردو، ہندی، بنگالی، ملیالی وغیرہ کی تصنیفات کا ایک دوسرے کی زبان میں اور دیگر عالمی زبانوں انگریزی، فرنچ، ہسپانوی، جرمن زبانوں میں ترجمہ نہ ہونا۔
یہاں کی ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ کتب کا بھی ترجمہ نہ ہونا اور ان کے فروغ کی ناکافی کوشش۔
ساہتیہ اکادمی اور اس سے کمتر درجے کی سرکاری اکادمیوں کی صحیح کتاب کی ‘ناتلاش’ ۔ یہ ‘ناتلاش’ بھی ایک بڑی وجہ ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں نیٹ ورکنگ، اثر و رسوخ اور اپنوں کو نوازنے والے معاملات شامل ہیں۔
کتاب کی ترسیل و ابلاغ کا ناکافی اور کمزور نظام۔ ضروری نیٹ ورکنگ کی کمی۔
عالمی سطح کی نیٹ ورکنگ جیسے رابندر ناتھ ٹیگور کے معاملے میں ان کے انگلش اور یورپین دوستوں نے کی تھی۔
کُل ملاکر برصغیر کی زبانوں کا نامزدگی تک ہی معاملہ نہیں پہنچتا تو آگے کے معاملات کی بات ہی کیا کی جائے۔
خالص سائنسی اور معاشیات کے معاملات کے لئے نوبل انعام کے معاملے کو چھوڑ دیا جائے تو ادب اور امن کے انعامات زیادہ تر متنازعہ رہے ہیں۔ جیسے الگ الگ وقت پر امریکی اور اسرائیلی سربراہوں کو امن انعام دے دینا۔
ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ مشترکہ نوبل انعام برائے امن جو کچھ سال پہلے پاکستان اور ہندوستان کو گیا اس کی سیاسی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ستیارتھی کو یہ انعام تب ہی ملا جب وہ برسوں پہلے مدھیہ پردیش کے چھوٹے شہر ودیشا سے دلّی اپنے این جی او ‘ بچبن بچاؤ’ کے ساتھ شفٹ ہوئے۔ انہوں نے نے بھی نوکری چھوڑ کر بچپن بچاؤ آندولن 34 سال کی عمر میں شروع کر دیا تھا۔ ان کا بھی ایک لمبا سفر رہا۔ ملالہ یوسف زئی ان کی شریک انعام یافتہ ضرور اپنے آپ میں ایک استثنا ہے۔
سماجی خدمات کے لئے ہندوستان اور پاکستان میں کئی فلاحی ادارے اور شخصیات کا کام قابلِ قدر ہے۔ جیسے پاکستان میں مرحوم ایدھی کے فلاحی ادارے کے کام اور انڈیا میں عظیم پریم جی کے فاونڈیشن کے تعلیم، روزگار، صحتِ عامہ کے تعلق سے اور انسداد غربت کے کام۔
اردو کی بعض شخصیات بجا طور پر اس انعام کے لیے نامزد ہو سکتی تھیں اور انعام پا بھی سکتی تھیں جیسے فکشن میں قرۃ العین حیدر اور جیلانی بانو۔
موجودہ منظر نامے میں مزاحمتی، معاشرتی اور ثقافتی ادب کو نئے ڈکشن اور عالمی اثر مرتب کرنے والی قوت کے طور پر پیش کرنے میں مشرف عالم ذوقی صاحب کا نام ان کے ضخیم تازہ ناول ‘مرگِ انبوہ’ کے لئے لیا جا سکتا ہے،مگر موجودہ سیاسی صورتحال میں اس کی سرکاری پزیرائی ملکی سطح پر تو تقریباً ناممکن ہے۔ اس راہ میں اڑچنیں تو خوب ہیں، کچھ ریاستی اکادمیاں ضرور کچھ کر سکتی ہیں۔
کوئی کتاب پہلے اچھی خاصی ریڈرشپ پیدا کرلے یہ بھی اس معاملے میں از بس ضروری ہے لیکن دیگر ملکی زبانوں کی طرح اردو میں بھی کتابوں کی ریڈرشپ کم سے کم ہے بلکہ دوسری ہم پلہ زبانوں جیسے ہندی، ملیالم، بنگلہ، مراٹھی سے تو اور بھی کم ہے بلکہ نہیں کے برابر ہے۔ اس کے اسباب و علل الگ چرچا کا موضوع بن سکتے ہیں۔
پس نوشت :
میں نے کہیں بھی ایسا نہیں کہا کہ ہمارے یہاں یعنی بھارت میں نوبل انعام کے لائق فن پارے وجود میں نہیں آ رہے ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور اردو کی مہجری بستیوں کے لکھاری اس ضمن میں کیا سوچتے ہیں، وہ بہتر بتا سکتے ہیں۔
9 اکتوبر, 2020
فن لینڈ کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں صنف کی بنیاد پر تفریق سب سے کم برتی جاتی ہے اور اب یہاں کی وزیرِ اعظم سنا مرین صنف کی بنیاد پر تفریق کے خلاف جدوجہد کو ایک قدم اور آگے لے گئی ہیں۔ فن لینڈ کی وزیر اعظم نے اس ضمن میں ایک 16 سال کی لڑکی کو اپنی جگہ ایک دن کے لیے ملک کا وزیراعظم بننے کا موقع فراہم کیا ہے۔
16 برس کی ایوا مورتو نے کوئی نئی قانون سازی تو نہیں کی لیکن بدھ کے روز انھوں نے سارا دن مخلتف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تاکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں خواتین کے حقوق کو اجاگر کر سکیں۔
فن لینڈ کی وزیراعظم سنا مرین کی جانب سے اس نوعمر لڑکی کے ساتھ اپنے عہدے کا تبادلہ اقوام متحدہ کے ’لڑکیوں کے عالمی دن‘ کی مناسبت سے کیا گیا اور یہ بچوں کی ایک عالمی فلاحی مہم کا حصہ تھا۔
یہ چوتھا سال ہے کہ فن لینڈ نے بین الاقوامی ادارے پلان انٹرنیشنل کے ’نوجوان لڑکیوں کی خودمختاری‘ کے بارے میں پروگرام ’گرلز ٹیک اوور‘ کے تحت حصہ لیا۔
اس پروگرام کے تحت دنیا بھر میں کم عمر نوجوان لڑکیوں کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اہم عہدوں سمیت سیاستدانوں کے ساتھ ایک دن کے لیے کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ رواں برس اس پروگرام کے تحت کم عمر لڑکیوں کے لیے ڈیجیٹل ہنر اور ٹیکنالوجی کے مواقع مہیا کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے اور کینیا، پیرو، ویتنام سمیت متعدد ممالک نے اس میں حصہ لیتے ہوئے اپنے ملکوں میں کم عمر نوجوان لڑکیوں کو ایک دن کے لیے اہم عہدوں پر کام کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
16 سالہ ایوا مورتو نے بدھ کو اپنی تقریر میں کہا کہ ’آج یہاں آپ کے سامنے بات کرنا میرے لیے خوشی کی بات ہے اگرچہ ایک طرح سے میری خواہش ہے کہ مجھے یہاں کھڑا نہ ہونا پڑے لیکن ’گرلز ٹیک اوور‘ جیسی مہم کی اب ضرورت نہیں رہی۔‘ ان کا کہنا تھا ’البتہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اب تک صنف کی بنیاد پر برابری دنیا میں کہیں بھی حاصل نہیں کی تاہم ہم نے اس ضمن میں بہت اچھا کام ضرور کیا ہے لیکن ابھی بھی اس حوالے سے بہت کام کرنا باقی ہے۔‘
ایسے کم عمر نوجوان جو متحرک انداز میں موسمیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق کے مسائل پر مہم چلاتے ہیں وہ اس سکیم کے تحت اس میں شریک ہوتے ہیں۔ ایوا اپنے دن کا اختتام وزیراعظم سے ملاقات میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں صنف کی برابری کے مسائل پر تبادلہ خیال کریں گی۔
اس تقریب سے قبل فن لینڈ کی وزیراعظم مرین نے اس بات پر زور دیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہم ٹیکنالوجی کے شعبے میں سب کو مواقع فراہم کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا ’ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کو ملکوں اور معاشرے میں مزید تقسیم پیدا نہیں کرنی چاہیے۔‘
گذشہ برس فن لینڈ ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی جینڈر گیپ رپورٹ میں تیسرے نمبر پر تھا تاہم پھر بھی ملک میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کو کم نمائندگی حاصل تھی۔
گذشتہ برس مس مرین نے جب 34 برس کی عمر میں فن لینڈ کی وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا تو وہ دنیا کی سب سے کم عمر وزیراعظم تھی۔
وہ فن لینڈ کی تیسری خاتون وزیراعظم ہیں اور ان کی جماعت دیگر چار بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی اتحادی ہے۔ ان تمام سیاسی پارٹیوں کی سربراہ خواتین ہیں اور جن میں سے تین کی عمریں 35 برس سے بھی کم ہیں۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)
یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب میں قریب سات آٹھ سال کا تھا اور اپنی نانی کے یہاں گرمیوں کی چھٹیاں منانے لال پور گیا ہوا تھا۔ایک دن میں اپنے شرارتی دوستوں کے ساتھ، جنھوں نے کسی حد تک مجھے بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا، اپنے کھیت گیا۔
کھیت کے پاس ایک کنواں تھا۔ ہم لوگ گرمی سے بچنے کے لئے اکثر وہیں بیٹھا کرتے تھے۔ روزانہ کی طرح، اس دن بھی ہم لوگ کنویں کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اس دن کسی دوسرے گائوں کے ایک آدمی کا اُدھر سے گزر ہوا۔ ہم لوگوں کو ایک شرارت سوجھی اور اس پر عمل کرڈالا۔
میں چلّا چلّا کر رونے لگا۔
ایں۔۔۔ایں۔۔۔۔ایں !
وہ آدمی مجھے روتا دیکھ کر وہیں ٹھِٹک گیا۔ پھر میرے پاس آکر میرے رونے کی وجہ پوچھی۔میں نے منہ بسور کر روتے ہوئے بتایا۔’ایں ایں۔ میری ٹوپی اس کنویں میں گرگئی ہے۔ ایں ایں ایں۔ اگر ٹوپی مجھے نہیں ملی تو میری نانی مجھے بہت ڈانٹیں گی۔ہو سکتا ہے پٹائی بھی کریں !
پہلے اس آدمی نے بڑے غور سے میرا معصوم چہرا دیکھا۔ کچھ سوچا۔پھر اپنی قمیص اتاری اور کنویں میں سیڑھی سے نیچے اُتر کر میری ٹوپی تلاش کرنے لگا۔
ادھر ہم لوگوں نے اس کے کپڑے اٹھائے اور بھاگ کر ایک قریب کی جگہ چھپا دئے۔جب تھوڑی دیر کے بعد ہم واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ آدمی کنویں سے اپنا آدھا دھڑ باہر نکالے بڑی حیرت سے ہم لوگوں کو تک رہا ہے۔ پھر وہ کنویں سے باہر آیا اور بولا — بیٹا، ہمارے کپڑے کہاں ہیں؟— اور ہاں، تمھاری ٹوپی مجھے نہیں ملی۔ اچھا ایسا کرو کہ تم مجھ سے اس کی پیسے لے لو اور بازار سے خرید لو تاکہ تم اپنی نانی کے غصہ سے بچ جائو۔یہ سننا تھا کہ مجھے کچھ عجیب سا لگا۔میں اسے دیکھتا رہ گیا ۔بجائے ہم لوگوں پر بر ہم ہونے کے ، وہ صرف میرے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میرا ضمیر مجھ پر ملامت کرنے لگا۔ میں جلدی سے دوڑ کر اس نیک آدمی کے کپڑے واپس لایا اور اس کو دیتے ہوئے شرمندگی سے بھری مدھم آواز میں بولا۔
میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے معاف کر دیجئے۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اب ــ میں، کبھی بھی، اسطرح کی کوئی بھی شرارت نہیں کرونگا !
انقرہ:ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فرانسیسی صدر کا اسلام کے بارے میں حالیہ بیان خطرناک اشتعال انگیزی کے مترادف ہے۔اردگان نے ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں مسجد اور مذہبی کارکنوں کے ایک اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے یہ کہا۔انھوں نے کہاکہ فرانسیسی صدر کا اسلام کی ’’تشکیل نو‘‘ والا بیان ہتک آمیز اور گستاخانہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ گذشتہ جمعہ کو میکرون نے نام نہاد "اسلامی علیحدگی پسندی” کے خلاف متنازعہ منصوبے کا اعلان کیا تھا۔مغربی پیرس کے نواحی علاقے لیس ایموروکس(ایک بڑی مسلم آبادی والے علاقے ) میں ایک تقریر میں میکرون نے دعویٰ کیا کہ ’’اسلام کو پوری دنیا میں بحران کا سامنا ہے”۔اس بیان سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے انھیں تنقیدوں کا سامنا ہے ۔ اردگان نے زور دے کر کہا کہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنانا یورپی سیاست دانوں کا خاص حربہ بن گیا ہے۔ اردگان نے میکرون پر زور دیا کہ وہ نوآبادیاتی گورنر ہونے کی بجائے ایک ذمے دار سیاست دان کی طرح کام کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے مغربی ممالک میں خود ریاست کی جانب سے نسل پرستی اور اسلامو فوبیا کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔
اوسلو:اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو اس سال کا نوبل پرائز برائے امن دیا گیا ہے۔اس کا انتخاب بھوک کے مقابلہ کے لیے کی جانے والی کوششوں ، تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں قیام امن اور بھوک کو جنگ اور تنازعہ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کو روکنے کی جدوجہد میں ایک محرک قوت کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے کیا گیا ہے ۔
ورلڈ فوڈ پروگرام اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جس کا ارتکاز خوراک کی حفاظت اوربھوک کے خاتمے پر ہے۔ دنیا بھر کی ہنگامی صورتحال میں اس کا کام یہ یقینی بنانا ہے کہ اشیائے خورد و نوش ضرورت مندوں تک پہنچیں۔ خاص طور پر خانہ جنگی اور قدرتی آفات میں اس کی خدمات زیادہ مؤثر ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں ورلڈ فوڈ پروگرام اب براہ راست غذائی امداد فراہم کرنے کی بجائے حکومت ہند کو تکنیکی مدد اور صلاحیت پیدا کرنے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام اب اس بات پر توجہ دے رہا ہے کہ ملک کے غذا پر مبنی سماجی تحفظ کے ڈھانچے کو اتنا مضبوط بنایا جائے کہ مطلوبہ انسانوں تک غذائی اجناس کو زیادہ سے زیادہ بہتراور مؤثر طریقے سے پہنچا سکے۔
یہ تنظیم نوبل ایوارڈ برائے امن کے سابقہ فاتحین کی صف میں شامل ہو گئی ہے، جن میں نیلسن منڈیلا ، جمی کارٹر، میخائل گورباچوف،کیلاش ستیارتھی اور ملالہ یوسف زئی وغیرہ شامل ہیں۔1901 کے بعد سے 100 نوبل پرائز برائے امن مختلف افراد ،جبکہ 24 مختلف تنظیموں کو دیے گئے ہیں۔ دوسرے نوبل انعامات کا اعلان اسٹاک ہوم میں کیا گیا تھا ، جبکہ امن کے نوبل انعام کا اعلان ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں کیا گیا ہے۔ سویڈش صنعت کار اور بارود کے موجد الفریڈ نوبل نے اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ امن کا نوبل انعام اوسلو میں دیا جانا چاہیے۔
مجھے وہ رام ولاس پاسوان یاد تھا ، جو ٨٠ – ٩٠ کے درمیاں اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں کے حق کے لئے آواز اٹھایا کرتا تھاـ مجھے اس کی چیخ پسند تھی اور میں سوچتا تھا ، جب تک ایسے لوگ ہمارے درمیان ہیں ، مسلمانوں کا کوئی بھی کچھ بگاڑ نہیں سکتا، مگر وہ موسم کا سائنس داں نکلا، مجھے اس کے چہرے سے وحشت ہونے لگی اور میں نہیں بھولا ، کہ جو رسم اس نے شروع کی ، پھر سیکڑوں اس رسم میں شامل ہو گئے،اس نے سیاست کی اخلاقیات کو ذبح کیا پھر مذبح گھر میں ہزاروں شکاری آ گئے، آج چراغ اسی راستے پر ہیں، میں رام ولاس کے نام سے اس قدر زخمی تھا کہ مردہ خانہ میں عورت لکھتے ہوئے بھی ، میں اس کے خیالوں سے دور نہیں جا سکا، وہ ایک کمزور ، مفاد پرست ، خود غرض شکاری ثابت ہوا اور اسکا مجھے افسوس ہے ـ
مردہ خانہ میں عورت سے یہ اقتباس دیکھئے:
پارلیمانی اجلاس کے ساتویں دن گاڑی سے اترتے ہی کلاّ پاسبان سے دوبارہ ملاقات ہوگئی۔اس کی داڑھی بڑھی تھی۔ رنگ کالا تھا۔ لمبا تھا اور زیادہ تر سفاری سوٹ میں ہوتا تھا۔ وہ ان لیڈروں میں سے ایک تھا جو وقت کے ساتھ بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ وہ اقلیتوں کے حقوق کی باتیں کرتا تھا۔ ملک کی سا لمیت اور جمہوریت کی باتیں کرتا تھا اور ایک خاص طبقہ کے درمیان وہ مقبول ترین لیڈروں میں سے ایک تھا۔مسیح سپرا نے پاسبان کے ہاتھوں کو گرمجوشی سے اپنے ہاتھ میں لیا۔
’ آپ نے کمال کردیا۔‘
’ کیسا کمال۔‘
’ اس دن جوآپ نے تقریر کی۔‘
’ ارے یار‘ پاسبان مسکرایا۔’قیدیوں کی تکلیف سننے کے لیے کہاں جاؤگے، ظاہر ہے جیل میں؟ وہاں ان کے پسینے کی بدبو بھی سونگھوگے۔ یہ اقلیت بھی قید میں ہیں اور صدیوں سے سسٹم انہیں قید کرتا رہا ہے۔ انہیں روشنی سے زیادہ پیار کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے اپنے ہیں۔ پرانی عمارت ڈھادی گئی؟ بنیاد کیا تھی؟ محافظ ہی دشمن بن جائیں تو…..‘
’ آپ اتنا سوچتے ہیں۔‘
’ سوچنا پڑتا ہے اور بولنا توآپ کو بھی چاہیے۔ ایک سسٹم لگاتار ان کوصاف کرنے پر مجبور ہے اور یہ سہارا چاہتے ہیں۔ سیاست میں آنے کا مطلب کیا ہے؟ سیاست میں ہمارے کون ہیں۔ یہی محدود اقلیت والے۔ ان کے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔ اتنی زحمت تو اٹھانی ہوگی۔‘
’ لیکن اقلیتوں کے بارے میں کون سوچتا ہے۔‘
’ سوچنا تو ہوگا۔ اقلیتیں محض ووٹ بینک بن کر رہ گئی ہیں۔ ان کو اپنی مضبوطی کا احساس کرانا ہوگا۔مسیح سپرا کے لیے یہ ایک بے حد خاص دن تھا۔کلّا پاسبان کی باتوں نے اس پر اثر کیا تھا۔ مگر مجبوری تھی کہ پارٹی لائن کو دیکھتے ہوئے وہ زبان بندی کے لیے مجبور تھا۔ اس رات سیاسی مرڈر کے لیے اس نے ایک اور منظر لکھا۔ ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ہائی کورٹ کے ایک جج نے پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدلیہ اور حکمراں طبقہ میں میل جول نہیں ہوسکتا۔ پھر اسی جج نے ناظم پورہ کے ان پولیس والوں کی رہائی کا حکم دیا تھا، جن کے قتل کے شواہد موجود تھے۔ یہ ایک دلچسپ منظر تھا اور مسیح سپرا نے اس منظر کو اسی طرح لکھا جس طرح یہ پیش آیا تھا۔ناظم پورہ پولیس والوں کی رہائی کے بعد جب دوبارہ پریس کانفرنس ہوئی تو جج بھٹا چاریہ سے پریس والوں نے کئی طرح کے سوال پوچھے، لیکن بھٹا چاریہ کے پاس ہرسوال کا جواب موجود تھا۔
’ جب پولیس والے بے گناہوں کو لیے جارہے تھے…..؟‘
’ میں وہاں نہیں تھا۔‘
’ وہ اقلیت تھے اور خوفزدہ اور اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے…..‘
’ میں وہاں نہیں تھا۔‘
’ کچھ دن پہلے آپ نے ایک پریس کانفرنس کی تھی….‘
’ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اور آپ بھی یاد رکھیے کہ آئین اور عدلیہ پر سوال اٹھانا بھی جرم ہے۔آپ کو اس کی سزا مل سکتی ہے۔‘
’ کیا پولیس والوں کا کوئی قصور نہیں تھا۔‘
’ پولیس مجرموں کو پکڑنے کے لیے ہوتی ہے۔‘
’ کیا وہ بے قصور تھے یا بے گناہ؟‘
’ وہ مجرم تھے۔‘
’ کیا اقلیت میں ہونا مجرم ہونا ہے۔؟‘
’ مجرم کوئی بھی ہوسکتا ہے۔‘
’ لیکن شواہد موجود ہیں۔۔ فوٹیج موجو د ہے۔ تصاویر موجود ہیں۔‘
’ ثبوت کوئی بھی نہیں۔‘
’ ثبوت تو تصویریں ہیں۔‘
’ تصویروں کوثبوت نہیں مانا جاسکتا۔‘
’ اچھا، ایک سوال اور……جو مجرم جیت کر پارلیمنٹ پہنچ جاتے ہیں۔‘
’ پھر وہ مجرم نہیں رہتے۔‘
’ سیاست بدل رہی ہے یا دنیا؟‘
—-
وہ دیر تک ان وحشیوں کو دیکھتا رہا جو نعرے لگاتے ہوئے سڑک سے گزر رہے تھے۔سپرا کو خبر ملی تھی کہ رجنی سنگھ نے پارٹی چھوڑدی اور خاموشی سے بی مشن کو جوائن کرلیا۔ جوائن کرتے ہوئے اس نے بیان دیا کہ پارٹی اپنے اصولوں سے الگ ہوکر کمزور پڑ گئی ہے اور آہستہ آہستہ پارٹی کمزور ہوجائے گی۔کلا پاسبان نے بیان دیا تھا کہ ملک کی جمہوریت اور ملت کو قائم رکھنے کے لیے سب کو ایک ساتھ ہوکر چلنا ضروری ہے۔سپرا ان بیانوں کی حقیقت جانتا تھا۔ مگر اس وقت اس کے ذہن میں وحشی ناچ رہے تھے۔ کچھ دیر کی آوارہ گردی کے بعد وہ گھر آگیا۔ریحانہ نے خاموشی سے پوچھا۔
’ تمھارے چہرے پر تین طرح کے تاثرات ملتے ہیں۔‘
سپرا ایکدم سے چونک گیا۔’وہ کیا۔؟‘
’ پہلا تاثر۔بغیر ہتھیار کے خود سے جنگ کررہے ہو۔
’ دوسرا؟‘
’ خرگوش اور لومڑی میں فرق کرنا بھول گئے ہو۔‘
’ مطلب۔؟‘
’ کنفیوز ہو۔‘
’ اور تیسرا۔؟‘
’ ٹھگ بننے جارہے ہو۔‘
’ ٹھگ… امیر علی جیسا…..‘ سپرا نے چونک کر دیکھا۔
’ امیر علی کیوں۔ دنیا میں صرف ایک ہی ٹھگ ہے کیا…..؟‘
’ میں ٹھگ کیسے ہوگیا؟‘
ریحانہ زور سے ہنسی…..’تمھارے اندر جو کشمکش چل رہی ہے، اس کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا….. اور کشمکش یہ ہے کہ سیاست سے الگ ہوتے ہو توپبلشر کو ٹھگوگے…..‘
’ مائی گاڈ۔‘
ایک اور بغاوت ہوئی تھی۔ کلا پاسبان نے اپنی الگ پارٹی بنالی تھی۔
۱۹۹۱ کے بعد آنے والی ہر تبدیلی پر سپرا کی نگاہ تھی۔ وہ سیاست کا کوئی ماہر کھلاڑی نہیں تھا، مگر آہستہ آہستہ سیاسی چہروں کو قریب سے شناخت کرنے لگا تھا۔ پارٹی دفتر میں اس کی طلبی ہوئی تھی اور سپرا جانتا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ سنایا جاسکتا ہے۔ سپرا کو میجر جو جو کی یاد آئی جو کہا کرتے تھے کہ زندگی کے ہر فیصلے کو قبول کرنا چاہیے۔ شروع میں لگتا ہے کہ یہ فیصلہ زندگی کو ناکام بنا دے گا۔ پھرہزار نئے راستے کامیابی کے کھل جاتے ہیں۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ وہاں اسے میجر جوجو کا چہرہ نظر آیا،یہ کون لوگ ہیں۔ کہاں سے آتے ہیں اورپھر کہاں چلے جاتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا عزم،سوشل میڈیا پر اردو و انگریزی میں نوٹ لکھ کر دی اطلاع
ممبئی:بگ باس 6 سے شہرت حاصل کرنے والی ۳۳سالہ اداکارہ ثنا خان ، جو بہت سی فلموں اور ٹی وی شوز کا حصہ رہی ہیں انھوں نے انٹرٹینمنٹ صنعت چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اداکارہ نے یہ اعلان سوشل میڈیا پر کیا۔ ثنا نے اردو اور انگریزی میں ایک لمبا نوٹ لکھا۔ انہوں نے لکھا "میں آج سے شوبز طرز زندگی کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہتی ہوں اور آیندہ انسانیت کی خدمت اور اپنے خالق کے احکامات پر عمل کرنے کا عزم کیا ہے۔ تمام بہن بھائیوں سے التجا ہے کہ وہ میرے لئے اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری توبہ قبول فرمائے اور مجھے اپنے خالق کے احکام اور انسانیت کی خدمت کے اپنے عزم کے مطابق زندگی گزارنے کی حقیقی صلاحیت عطا فرمائے اور مجھے استقامت عطا کرے۔ آخر میں تمام بھائیوں اور بہنوں سے گزارش ہے کہ وہ شوبز کے کسی بھی کام کے سلسلے میں مجھ سے مشورہ نہ کریں’’۔
اس نوٹ کے کیپشن کے طورپرانھوں نے لکھا ہے "میری زندگی کا خوشگوار ترین لمحہ۔ اللہ اس سفر میں میری رہنمائی کرے۔ آپ سب مجھے دعا میں شامل رکھیں۔ ”
قابل ذکر ہے کہ ثنا خان وجہ تم ہو ، جے ہو اور بہت ساری دیگر علاقائی فلموں کے علاوہ جھلک دکھلا جا 7 ، کامیڈی نائٹس بچاؤ ، انٹرٹینمنٹ کی رات اور کچن چیمپیئن جیسے ٹی وی رئیلٹی شوز کا حصہ رہی ہیں۔ ثنا کو بگ باس کے کئی سیزن میں بطور مہمان بھی دیکھا جاتا رہا ہے۔اس سال فروری میں بوائے فرینڈ میلون لوئس کے ساتھ رشتے منقطع ہوگئے تھے ،انھوں نے اس پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا تھا۔اس کے بعد وہ کچھ عرصے تک ڈپریشن سے بھی دوچار رہیں،مگر غالباً انھوں نے اس دوران مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کیا یا کسی مذہبی شخصیت سے ان کا رابطہ ہوا اور ان کے ذہن میں ایک خوشگوار تبدیلی واقع ہوگئی۔ بہر حال اللہ انھیں استقامت عطا کرے اور زندگی میں ہر قسم کا سکون عطا کرے۔
"پاپا” اس لفظ کے ذہن میں آتے ہی ذہن کے دریچے میں ایک عنبری خوشبو کا احساس ہوتا ہے اور دل چاہتا کہ یہ لفظ بار بار کہوں "پاپا پاپا میرے پاپا کہاں ہیں آپ ،لوٹ آئیں ۔لیکن یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے ،پاپا تو چلے گئے بہت دور کبھی نہ واپس آنے کے لئے ایک نئے جہان میں جاکر بس گئے۔جانے سے تقریباً ایک ہفتہ قبل پاپا نے ہم سے کہا بیٹا ہم نے ایک خواب دیکھا ہے،ہم نے دریافت کیا ، کیا خواب دیکھا ہمارے پاپا نے ؟ پاپا نے کہا "ایک بہت بڑی سی سفید چادر ہے تم نے اس چادر پر مضمون لکھا ہے اور وہ مضمون بہت مقبول ہوا ہے "اس وقت ہمارے ذہن و فہم کی لاکھ کوشش کے باوجود خواب کا مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے صرف اتنا ضرور سمجھ میں آیا کہ سفید کپڑے پر تو عموماً اشتہارات لکھے جاتے ہیں ۔پھر یہ کس اشتہار کی طرف اشارہ ہے۔ آج پاپا کے انتقال کو 26 دن گزر جانے کے بعد قلم ہاتھ میں پکڑا تو چشمِ گریاں سے ڈھلک کر کاغز پر جذب ہوتے ہوے اشک اور لرزتے ہوئے ہاتھوں نے خواب کی تعبیر پیش کر دی۔
موت کی جانب سفر کا عمل زندگی کے آغاز سے پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اللہ کریم نے ہر جاندار کے لیے موت کا وقت اور جگہ متعین کر دی ہے ۔اس زمین پر پیدا ہونے والی ہر جاندار چیز کو فنا ہونا ہے سوائے اللہ کی ذات کے۔ اور اس رب کریم ہی کی ساری کائنات پر حکومت ہے اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ جانا ہے، موت کے ان حقائق کا ہمیں اچھی طرح علم ہے لیکن انسانی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کے سارے علوم و فنون دم توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کی تمام تر صلاحیتیں سسکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور انسان صرف خالی خالی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتا ہے ،ہمیں اللہ کریم کے نظام سے نہ کوی انکار ہے نہ اس کے فیصلے پر کوئی سوال اس کا مال تھا اس نے واپس لے لیا۔ تاہم لاکھ کوشش کے باوجود باپ کی جدائی کے اس صدمے کو برداشت کرنا مشکل ہو رہا ۔زندگی کی کتاب کے ہر ورق پر ان کی محبت ،شفقت ،سرپرستی ،اور رہنمائی کی روشنائی سے تحاریر رقم ہیں ، ان کے جانے سے یوں محسوس ہو رہا ہے مانوں ہم گھنے سایہ دار درخت کے نیچے سے جھلستی ہوئ دھوپ میں لاکر کھڑے کر دیے گئے ہیں ،پاپا ہمیشہ ہم سے معلوم کرتے تھے بیٹے کس موضوع پر لکھ رہی ہو ؟ ،ہر دو چار روز بعد سوال ہو جاتا تھا کہ نیا کیا لکھا؟ آج 26 دن گزر جانے کے بعد بھی ہم سے کسی نے معلوم نہیں کیا نیا کیا لکھا ؟ اب کسے بتائیں کہ آج ہم سفید چادر پر مضمون لکھ رہے ہیں اس نا اہل کا قلم اس عظیم شخصیت کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے ۔ جس کی تپتی ہوئی دھوپ میں گزاری ہوئ ایک دوپہر کا حق بھی ہم ادا نہ کر سکے ۔ جس نے ہمارے دکھ ،درد ،پریشانیوں کو اپنے لہو سے سینچ کر خوشیوں کی فصل لہلہانے کی کوشش میں عمر گزار دی ، بچہ ماں کے پیٹ میں 9 مہنے پلتا ہے لیکن باپ کی سوچوں میں عمر بھر۔ہم بھی پاپا کی سوچوں میں عمر بھر پلتے رہے ہیں پاپا اپنا خون پسینہ بہا کر ہم پر مہربانیاں کرتے رہے ۔ہمارے منھ سے نکلنے سے پہلے ہماری خواہش کی تکمیل اپنا فریضہ اول تصور کرتے رہے۔موسم کے ناروا سلوک سے تحفظ کے لیے آندھی طوفان سے لڑ کر بھی ہماری حفاظت کی ذمے داری قبول کرتے رہے ،ہمارے آرام و چین کی خاطر اپنی نیند آرام و سکون کی قربانی دیتےرہے پاپا ہمارے لئے اللہ رب العزت کی عطا کردہ نعمت تھے آج ہم سب بہن بھائ اس نعمت سے محروم ہو گئے آج ہمارا سایہ عافیت ہمارے سر سے اٹھ گیا۔
دادا محترم سید شمشاد علی سنبھل کی معزز شخصیات میں شمار کئے جاتےتھےچار بیٹے اور چار بیٹیوں میرے پاپا سید مسعود علی چوتھے نمبر پر تھے ،آپ سرزمین سنبھل پر ہی پیدا ہوئے اور اسی شہر سے تعلیم و تربیت حاصل کی درجہ 1 سے درجہ 5 تک کی ابتدائی تعلیم پاس ہی کے پرائمری اسکول سے حاصل کی ۔چھٹی جماعت میں ہند انٹر کالج میں داخلہ لیا بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے میں ہوشیار تھے جس کی وجہ سے ذہین طلباء میں شمار ہوتا تھا درجہ 6,7,8, امتیازی نمبروں سے پاس کرکے نویں جماعت میں پہنچے ، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کالج میں استاد محترم خلیل الرحمٰن صاحب کی اردو کی کلاس چل رہی تھی استاد محترم غزلیات کی تشریح کرکے طلباء کو سمجھا رہے تھے کہ اچانک محکمہ تعلیم سے چانچ دستہ آ پہنچا ۔دستہ اس خاموشی سے داخل ہوا کہ اساتذہ کو طلباء کو کچھ بھی سمجھانے کا موقع نہ مل سکا اساتذہ نہ کوئ تیاری کر سکے نہ طلباء کو کچھ سمجھا سکے ، دستہ درجہ 9 میں داخل ہوا اور خلیل الرحمٰن صاحب سے سوال کیا کہ کون سا مضمون پڑھایا جا رہا ہے ؟ خلیل صاحب نے جواب دیا ، اردو غزلیات خلیل الرحمٰن صاحب جو غزل پڑھا رہے تھے اس میں محبوب کے لب و رخسار اور عشق و محبت کا ذکر تھا ۔جانچ دستہ سے انیس صاحب نے خلیل الرحمٰن صاحب سے پھر سوال کیا اس نوعمری میں لڑکوں کو عشق و محبت سمجھائ جائے گی تو کیا ان کے کمسن ذہنوں پر برا اثر نہیں پڑےگا ؟ خلیل الرحمٰن صاحب سے کوئی جواب نہ بن سکا اور خاموش ہو گئے ۔ اب اگلا سوال طلباء سے تھا ۔ آپ کے استاد محترم عشق محبت کی غزل پڑھا رہے ہیں کیا آپ میں سے کوئ لڑکا محبت کرتا ہے ؟ کیا آپ میں سے کسی کی کوئ محبوبہ ہے ؟ جماعت پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا ،خلیل الرحمٰن صاحب بھی خاموش تھے کہ مسعود علی نے ہاتھ اوپر کیا اور کھڑے ہو کر جواب دیا جی سر میری محبوبہ ہے، اور میں ان سے والہانہ عشق کرتا ہوں ،خلیل الرحمن صاحب کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں ، ہم جماعت میں بھی سرگوشیاں ہونے لگیں کہ آج تو مسعود کی خیر نہیں اس کا نام کٹ جائے گا ، انیس صاحب نے کہا اچھا آپ کی محبوبہ کا نام کیا ہے ؟ مسعود علی نے جواب دیا محترمہ رضیہ فاطمہ میری ماں جن سے میں والہانہ عشق کرتا ہوں اور ان کے بنا ایک دن بھی جینے کا تصور نہیں کر سکتا مسعود کے جوابات سنتے ہی خلیل الرحمٰن صاحب کا سر فخر سے اونچا ہو گیا اور لبوں پر تبسم رقص کرنے لگی چونکہ نویں جماعت کے کم سن طالب علم سے ایسے معیاری جواب اور عشق کی ایسی تشریح کی امید نہ خلیل الرحمٰن صاحب کو تھی اور نہ جانچ دستہ کو ،تاہم جانچ دستہ نے مسعود علی کو شاباشی پیش کرتے ہوے بطور تحفہ ایک قلم عنایت کیا ۔ اس کے بعد سارے کالج کے اساتذہ اور طلباء میں جانچ دستہ کے سوالات اور مسعود کے جوابات کی چرچا تھی ،مسعود علی کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس وقت انہوں نے ہائ اسکول پاس کیا پورے سنبھل سے صرف تین طالب علم پاس ہوے تھے ،جس میں اردو ادب کی معروف شخصیت ڈاکٹر خوشحال زیدی ،سید مسعود علی ، اور تیسری سعیدی بیگم ۔سعیدی آنٹی کی کامیابی بھی ایک سبق آموز اور عبرت ناک قصہ ہے جس کے ذریعہ پاپا نے اپنے بچوں کو درس دیا کہ جب تک کامیابی حاصل نہ ہو جائے کوشش جاری رکھی جائے "کوشش ہی کامیابی کی کنجی ہے” سعیدی آنٹی کی شادی کم سنی میں ہی ہو گئ تھی لیکن شوہر سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہو سکی اور ایک سال کے بعد ہی طلاق لے لی ایک بیٹی کو گود میں لیکر میکے واپس آ گئیں واپس آکر تعلیم جاری کرنے کا ارادہ کیا اور ہائ اسکول کا پرائیویٹ فارم بھر دیا لیکن کامیاب نہ سکیں ،سعیدی آنٹی نے ہمت نہیں ہاری اور اگلے سال امتحان میں بیٹھیں اس سال بھی کامیابی نصیب میں نہ تھی اسی طرح سعیدی آنٹی لگاتار 9 سال تک امتحان میں بیٹھتی رہیں اور دسویں سال جب کامیاب ہوئیں تو تاریخ رقم کر دی اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور یکے بعد دیگر کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ڈبل ایم اے بی ایڈ کیا اور جونیئر ہای اسکول میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئیں سعیدی آنٹی نے کوشش اور کامیابی کی ایسی مثال پیش کی جس کی نظیر مشکل سے ہی ملتی ہے ۔ سید مسعود علی نے سنبھل سے انٹر میڈیٹ پاس کر کے آگرہ کے آئ ٹی آئ کالج میں سول انجینئرنگ کے ڈپلومہ میں داخلہ لے لیا ،رہائش سے کالج کا فاصلہ اتنا تھا کہ دو گھنٹہ متواتر پیدل چل کر کالج پہنچنا ہوتا ہے اقتصادی حالات بھی اتنے بہتر نہ تھے کہ سائیکل کا انتظام کر پاتے چنانچہ موسم ںسرما کی سرد فضاؤں میں صبح صادق سے پہلے رات کی تاریکیوں میں ہی گھر سے نکلنا ہوتا ہے تھا ، کمرے پر بجلی کا معقول انتظام نہ ہونے کے سبب سڑک پر کھمبوں کے نیچے بیٹھ کر فائل تیار کرتے تھے غرض یہ کہ آگرہ میں گزرا وقت بہت مشکل تھا ، خیر یہ وقت بھی گزر گیا تین سال کا سول ڈپلومہ فرسٹ ڈویژن سے حاصل کیا ۔
اقتصادی حالات بہتر نہیں تھے تاہم پڑھائی سے فارغ ہو کر اب فوری طور پر نوکری کی ضرورت تھی لیکن اتنی جلدی معقول نوکری ملنا بہت مشکل تھا چنانچہ اگرہ میں ہی ایک لوہے کی فیکٹری میں نوکری کر لی وہاں کیا کام کرنا ہوتا تھا یہ تو ہمیں علم نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ آگ میں تپا کر سریا تیار کیا جاتا تھا ایک مرتبہ لوہے کی جلتی ہوئی راڈ اچھل کر ان کی ٹانگ میں لگ گئی اور ٹانگ بری طرح جل کر زخمی ہو گئ ۔ لیکن وقت کی جبیں پر اپنا نام لکھ دینے کی جسارت جس شخص میں ہوتی ہے وہی انسان زندگی کی تمام پریشانیوں اور تلخیوں کا سامنا مسکراتے ہوئے کرتا چلا جاتا ہے اور زندگی کے تمام کنکریلے پتھریلے راستوں پر چل کر اپنی منزل تلاش کرتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ اپنی منزل کو پانے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے آگرہ سے واپس آکر مرادآباد کی کسی پیتل فیکٹری میں پرائیویٹ نوکری کر رہے تھے کہ معلوم ہو کہ پی ڈبلیو ڈی (public work department) کچھ بیلداروں کلرک اور سروییر کی نوکریاں نکلی ہیں ، کلرک اور بیلدارو کے لئے تھوڑی زیادہ تھیں لیکن سروئئر کی صرف ایک ہی سیٹ تھی پاپا نے سروئیر کی پوسٹ کے لیے اپلائ کر دیا پہلے تحریری امتحان ہوا اس کے بعد پریکٹیکل اور انٹریو تینوں میں کامیابی حاصل کرکے مرادآباد میں سروئیر کے عہدے پر فائز ہو گے ،اس سے پہلے تایا ابا کا تقرر سہارن پور جیل پر جیلر کے عہدے پر چھوٹے چچا کا تقرر لکسر ریلوے ڈیپارٹمنٹ میں سیکشن انجینئر کے عہدے پر ہوا پھوپھیوں کی شادیاں ہو گئیں اور اس طرح سنبھل کو خیرا باد کہ کر مرادآباد میں سکونت اختیار کر لی۔۔۔۔
آپ(پاپا کے) کے ماموں جان پیر سید ذاکر حسین کی دختر سے پچپن ہی ہی میں رشتہ طے ہو گیا تھا ملازمت کے بعد دادا ( سید شمشاد علی) نے شادی کی بات آگے بڑھائی اور میری امی (جعفری بیگم ) دلہن بن کر گھر آ گئیں شادی کے پانچ سال بعد بہت منتوں اور دعاؤں کے بعد بیٹی صبیحہ مسعود دنیا میں آئیں پہلی بیٹی کی آمد پر پاپا بہت خوش تھے کہتے تھے پہلی بیٹی حضور کا سلام ہوتی ہے کہ میرے نبی کو بھی بیٹیاں بہت عزیز تھیں ان کے چار سال بعد بھائ مشکور بھائی کے چار سال بعد راقم التحریر عارفہ مسعود ، پھر آصفہ، فیصل ،نیہا اور فراز ، پاپا ہم سب کو بے پناہ محبت کرتے تھے لیکن بیٹیوں پر خاص شفقت ،ہمیشہ کہتے تھے بیٹیاں اللہ کریم کی عطاء کردہ نعمت ،انعام ، اور رحمت ہیں حقیقتاً پاپا ہمارے حقیقی دوست تھے ہمیں پاپا سے کوئ بھی بات شیئر کرنے میں کوئ ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی ۔پاپا کی تربیت کا انداز عموماً روایتی باپوں سے بالکل منفرد تھا انہوں نے کبھی ہم پر زیادہ روک ٹوک اور پابندیاں عائد نہیں کیں لیکن اتنی تاکید ہمیشہ کرتے رہے کہ ہماری طرف سے تم لوگوں کو پوری آزادی ہے لیکن کبھی کوئی عمل ایسا سرزد نہ ہو جائے جس سے باپ کی گردن جھک جاے اور ماں کی تربیت پر حرف آ جائے ، لباس کو لیکر بھی کبھی کوئ پابندی عائد نہیں کی ان کا کہنا تھا لباس چاہے جیسا زیب تن کرو لیکن شرم و حیا کی ردا سر سے نہ سرک جاے ہمیشہ اتنا خیال رکھنا ۔پاپا نے ہمیں دین کی حکایات بھی سمجھائیں اور زمانے کے ساتھ قدم سے قدم سے ملا کر چلنے کا حوصلہ بھی دیا ، انٹرمیڈیٹ پاس کرکے جب ہم نے بی اے میں داخلہ لیا ہماری این سی سی میں بہت دلچسپی تھی پاپا سے اجازت لے کر این سی سی جوائن کر لی ہفتہ میں تین دن پریڈ ہوتی تھی اور تین دن تحریری جماعت پریڈ کے بعد کالج میں ہی وردی تبدیل کرکے گھر آ جاتے تھے ایک سال گزر جانے کے بعد بی سرٹیفیکیٹ کے لیے دو کیمپ کرنا لازمی تھے تاہم ہمیں دس دن کی ٹریننگ پر کیمپ جانا تھا لیکن ذہن کشمکش میں تھا کہ وردی پہن کر گھر سے کیسے نکلیں گے لوگ کیا کہیں گے اس لیے کبھی سوچتے کہ رکشہ میں بڑی سا چادر باندھ لیں گے۔ کبھی دماغ میں خیال آتا وردی پہن کر اوپر سے امی کا برقع پہن لیں گے مثلا پاپا کے سامنے آیا پاپا نے ہم سے سوال کیا این سی سی کیمپ کر کے تم کوئ بہت بڑا گناہ کر رہی ہو جسے دنیا سے چھپانے کی ضرورت ہے ؟ ہم نے کہا نہیں تو ، پاپا نے جواب دیا کہ پھر دنیا سے کس بات کا خوف اگر تم اپنی نظر میں صحیح ہو تو دنیا سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،ضروری نہیں کہ دنیا میں سب ہمارے ہم خیال ہوں یا ہم سے متفق ہوں ، بس زندگی میں اتنا خیال رکھنا کہ کوئ عمل ایسا سرزد نہ ہو جس سے تم اپنی نظر میں گر جاؤ اور اللہ کریم کے حضور میں اپنے آپ کو پیش کرنے کے لائق نہ سمجھو ۔کیمپ پر جانے کے لئے ہم فل وردی میں تیار ہوے اور پاپا ہمیں بس تک چھوڑ کر آے، کردار میں خود اعتمادی ،عزم اور اعتدال ان کی شخصیت کا خاصہ تھا اور یہی خود اعتمادی اور عزم اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے تھے
تمام تر مصروفیات کے باوجود پاپا کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اس کے لیے وہ وقت نکال ہی لیتے تھے نیز قوت حافظہ بہت قوی تھا تاریخ کے نہ معلوم کتنے قصے زبانی یاد تھے بچپن میں بادشاہ شہزادی ، دیو پری ،گل بکاؤلی ا الف لیلیٰ اور حاتم طائی کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ مولانا محمد علی جوہر کی لیاقت ،بی اما کی شجاعت ،مولانا عبد الکلام آزاد کی علمیت مسٹر جناح کا پاکستان مطالبہ اور تحریک آزادی کی نہ معلوم کتنی کہانیا پاپا کی ہی زبانی سنیں ۔ پاپا کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ گفتگو کا کؤی بھی موضوع سیاسی ہو یا سماجی ،دینی ہو یا دنیاوی کتابوں کے حوالے سے اپنی بات کو تسلیم کروا لیتے تھے کبھی کبھی تو عقل حیران ہوتی تھی کہ انہیں اتنا سب کیسے یاد رہ جاتا ہے اتنا تو مطالعہ بھی نہیں کرتے ۔انداز گفتگو ایسا شگفتہ کہ جو ایک بار مل لے ان کی محبت کا گرویدہ ہو جاتا، عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کی ملکیت تھی, غریب ہو یا امیر سب کی برابر عزت تھی ، پاپا کا کہنا تھا کہ کبھی نالی کے کیڑے کو بھی خود سے کمتر نہ سمجھنا ، پاپا اور ہم میں ذہنی ہم آہنگی تھی مزاج میں یکسانیت کے سبب کبھی کبھی گھنٹوں دونوں باتوں ںمیں منہمک رہتے۔ پاپا ہمیں اپنا عکس کہتے تھے حالانکہ یہ صرف ان کی محبت تھی ورنہ علم کے اس ذخیرے کا ہم خود کو ایک ذرہ بھی نہیں سمجھتے ہاں اتنا ضرور ہے چھ بہن بھائیوں میں صرف ہم کو ہی پاپا کی طرح ادب سے محبت ،اردو سے شغف، تاریخ سے دلچسپی ،مطالعہ کا شوق اور پودوں سے انس تھا ۔ ہم ان کی ایک ایک بات کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے ۔پاپا ہماری قلم کاری سے نہ صرف خوش ہوتے تھے بلکہ اپنی رائے بھی پیش کرتے تھے ان کا کہنا تھا بے لوث حق اور ایمانداری سے قلم چلاؤ، بے خوف ہو کر ایسے ادب کی تخلیق کرو جس سے دنیا میں اپنی قوم کے کام آ سکو اور آخرت میں سرخروئی حاصل کرو۔ انہیں ہمارے غزل کہنے پر کوئ اعتراض تو نہیں تھا لیکن دور حاضر کے مشاعروں کے مد نظر محفل میں پڑھنا پسند نہ تھا ۔
مرحوم کی شخصیت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انہیں پودوں سے بے پناہ لگاؤ تھا اپنے بچوں کے بعد اگر کسی سے محبت کرتے تھے تو وہ ان کے آنگن میں لگے پودے تھے چار سو گز کے بڑے مکان میں خاصہ حصہ پودوں کے لیے مقرر کر دیا تھا جس میں اتنی اقسام کے پودے موجود تھے کہ ایک چھوٹی سی نرسری معلوم ہوتی ،گلاب بیلا جوہی ،چمپا ،رات کی رانی کے الاوہ مختلف قسم کے کیکٹس ،کروٹن ، ایرو کیریا ، انکی نرسری کی۔زینت بنے ہوے تھے ۔ آفس جانے سے پہلے صبح دو گھنٹے اپنے پودوں میں صرف کرتے تھے کسی کو کھاد لگانی ہے تو کسی کی چھٹائ ، سب کچھ اپنے ہاتھوں سے کرتے کبھی کبھی تو چاے کا کپ لیکر مٹی میں ہی بیٹھ جاتے تھے امی کے ٹوکنے پر کہتے بیگم مٹی میں ہی جانا اس سے کیا گریز یہاں بیٹھ کر قلب کو سکون ملتا ہے
خوش لباسی آپ کے مزاج میں شامل تھی،ہمشہ عمدہ اور اچھا لباس ہی پسند کرتے تھے گھر میں عموماً تیبند بنیان یا کرتا پاجامہ میں ہی رہتے تھے لیکن جب آفس جانے کے لیے تیار ہوتے تو موسم سرما میں سوٹ بوٹ میں ملبوس باوقار شخصیت کے مالک نظر آتے تھے ،دراز قد ، گندمی رنگ ،اونچی ناک چوڑی پیشانی اور ہلکی سی سرخی مائل نشیلی آنکھوں نے انہیں مزید پرکشش بنا دیا تھا ،موسم گرما میں پینٹ اور آدھی آستین کی شرٹ پہنتے جمہ کے روز آفس کرتا پاجامہ پہن کر جنت الفردوس (عطر) کی خوشبو میں معطر ہو کر ہی گھر سے نکلتے، کہتے تھے کچھ لوگ جلتے ہیں آفس میں کرتا پجامہ پہننے سے طنز کرتے ہیں لیکن مسعود علی کسی سے نہیں ڈرتا ٹوپی اور کرتا پاجامہ مسلمان کی شان ہے، مسعود علی کو خدا کے علاؤہ کسی کا خوف نہیں ، کبھی کبھی ہم شکوا کرتے ہم آپ کی طرح پر کشش کیوں نہیں ہیں؟ نہ امی کی جیسے گورے چٹے؟ ۔اور وہ محبت سے کہتے اور کتنا پرکشش ہونا تھا لباس میری بیٹی کو خوبصورت نہیں بناتا بلکہ میری بیٹی کے پہننے سے خوبصورت ہو جاتا ہے, پدمنی ہے میری لاکھوں میں ایک ۔ یہاں یہ بات واضح کر دیں کہ اللہ کریم نے صرف والدین کو ہی یہ حسن نظر بخشی ہے کہ اپنی اولاد کالی پیلی، بھونڈی ، نکٹی، چپٹی ،نا اہل جیسی بھی ہو پدمنی اور پکھراج ہی نظر آتی ہے یہ پاپا کی نظر شفق ہی تھی کہ انہی ہم ناہل میں صلاحیتیں نظر آتی تھیں ۔دورانے نوکری ہی حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد پینٹ شرٹ چھوڑ کرتا پاجامہ اور شیروانی اور بنڈی پہننے لگے تھے آدھی کالی آدھی سفید داڑھی نے اس پر کشش چہرے کو مزید نورانی بنا دیا تھا
پاپا پی ڈبلیو ڈی میں سروئیر تھے محکمہ کی طرف پڑنے والی سڑکوں کا سروے کرکے اس کی ناپ تول پیمائش کرکے ڈیزائن تیار کرنا ان کی زمہ داری تھی جو سڑکیں کسانوں کے کھیتوں یا زمینوں سے ہوکر نکلتی تھیں انہیں محمکہ معاوضہ دیتا تھا اور اس معاوضہ کی فائل پاپا کے دستخط کے بنا پاس نہ سکتی تھی فائل پاس کرانے کے لیے بہت لوگ رشوت کی کوشش کرتے تھے چاہتے تو موٹی رقم وصول کر سکتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا بچوں کو حرام روزی کھلا کر نیکی ،دینداری ،ایمانداری اور فرمابرداری کی امید کیسے کی جا سکتی ہے اس وقت سرکاری تنخواہیں اتنی نہ تھیں جس سے خوشحالی سے گزارا ہو سکے اس لیے صبح چار بجے سے اٹھ کر پرائیویٹ فیکٹریز اور مکانات کے ڈیزائن تیار کرتے تھے ( اس رقم کو اپنے لیے جائز تصور کرتے تھے) فجر کی اذان ان کے اٹھنے کے بہت دیر بعد ہوتی تھی چاے بھی خود ہی بنا کر پی لیتے تھے امی کو نہیں جگاتے تھے اور کبھی کبھی جب امی بیمار ہوتیں تو انڈے ٹوسٹ اور چاے تیار کرکے ہم لوگوں کو بالکل اس انداز میں آواز لگاتے جیسے اسٹیشن پر چاے والے لگاتے ہیں” چاے چاے چاے گرممممم ” بچوں جلدی اٹھو ٹرین چھوٹ جائے گی
پاپا کے اس سراے فانی سے چوتھے دن وقت سحر دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائ دروازہ کھولنے پر معلوم ہوا کہ سامنے صمد چچا بوجھل سے چہرے پر آنکھوں میں آنسو لیے کھڑے تھے ،کہنے لگے رات بھر بیچین رہا مسعود بھائ کی یادیں سونے نہیں دے رہیں تھیں ،ان کے ساتھ گزارا ہر لمحہ بیچین کر رہا ہے ،ان کی مہربانیاں ذہن میں گھوم رہی ہیں ،تمہاری چچی بولیں صبح ہوتے ہی وہیں جاؤ وہاں جاکر سکون ملےگا صمد چچا کو بچپن سے ہی گھر میں بے تکلفی سے آتے دیکھ رہے ہیں دروازے سے ہی شور مچاتے ہوئے داخل ہوتے تھے بھابھی یہ پکا لیں وہ پکا لیں ،کہا جاتا ہے اگر کسی کی دین داری دیکھنی ہے تو مساجد میں نہیں دنیاداری میں دیکھو ، آج پہلی مرتبہ چچا سے معلوم کیا کہ پاپا سے آپ کی ملاقات کب اور کیسے ہوئی تھی کچھ آفس کے بارے میں بتائیے ، چچا نے ایک لمبی سانس کھینچی اور کہنے لگے خدمت خلق کا ایسا جزبہ میں نے آج تک کسی میں نہیں دیکھا جیسا مسعود بھائ میں آج میں صرف ان کی وجہ سے مرادآباد میں ہوں ان سے میری پہلی ملاقات مسجد میں نماز کے بعد ہوئ تھی دوران گفتگو میں نے بتایا پی ڈبلیو ڈی میں کلرک کی نوکری لگی ہے لیکن رہائش کی جگہ نہ مل پانے سے پریشان ہوں ،میرے پاس رہنے کو گھر نہیں تھا نہ کوئ کراے پر مل رہا تھا بچے نگینہ تھے اور میں یہاں جب انہیں معلوم ہوا کہ میں رہائش کی وجہ سے پریشان ہوں۔ انہوں نے فورن کہا بچوں کو کل ہی بلا لو ۔ انہوں نے بچوں کو بلوا لیا اور نہ صرف اپنے گھر میں کمرا دیا بلکہ کمرے کا سامان بھی ہمیں سونپ دیا ہم صرف ایک فولڈنگ پلنگ لیکر اےتھے وہ بھی مسیریوں کے نیچے رکھ دیا،یہ بھابھی (امی) کی عالی ظرفی تھی کہ انہوں نے مسعود بھائ سے کوئ سوال پوچھے بنا نہ صرف کمرا بلکہ کمرے کا سامان بھی ہمیں سونپ دیا ،۔افس میں نہ معلوم کتنے لوگوں کی مسعود بھائ نے بے لوث مدد کی کتنے ہی بےلدارو کی نوکری پکی کرائ کسی کو پرمیشن دلوائی کتنوں کو معاوضہ دلوانے میں مدد کی غرض یہ کہ عالی افسران بھی ان کی محنت اور ایمانداری کی قدر کرتے تھے جس کی وجہ سے کچھ لوگ حسد رکھتے تھے چوہان سنگھ، اشوک واجپئی وغیرہ کو ہمیشہ خلش رہتی کہ مسعود علی کی محکمہ میں طوطی بولتی ہے ۔ اسٹاف اسوسئشن کے انتخابات میں ملازمین نے زبردستی کھڑا کروا دیا اور پورے اتر پردیش سے اسٹاف ایسوسیشن کے صوبہ صدر منتخب ہوئے وہ ایک بہترین مقرر تھے ان کی تقاریر دلوں پر اثر چھوڑ جاتی تھیں ،ویسے تو مسعود صاحب اپنے عالی افسران کی بے پناہ عزت و احترام کرتے تھے لیکن جب بات ملازمین کے حقوق کی ہوتی تو وکیلوں کی مانند بحث و مباحثہ کرتے اور ایسے دلائل پیش کرتے کہ اپنی بات منوا کر ہی چھوڑتے وہ دوسروں کی مدد کو اپنا فریضہ سمجھتے انہونے ایک باوقار زندگی جی اور عزت و احترام کے ساتھ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔۔
دیانت داری اور امانت داری کے عناصر ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرے تھے جس علاقے میں پاپا نے گھر بنایا تھا وہ نیا بسا ہوا علاقہ تھا جس میں مسلمانوں کی تعداد نہ کے برابر تھی غیر مسلموں کی اکثریت تھی اس لیے زمینوں کی خرید و فروخت میں تعصب برتا جاتا اور لب سڑک کوئ بھی زمین مسلمان کو فروخت نہیں کرتے تھے لیکن یہ غیر مسلم بھی مسعود صاحب کی بہت عزت و احترام کرتے تھے پاپا کے ایک تعلق دار فہمود صاحب اے اور کہا انسپیکٹر صاحب یہ گلی کے نکڑ کا پلاٹ مجھے دلوا دیجیے میں نے بات کی تھی لیکن زمین مالک نے مجھے صاف انکار کر دیا ،پاپا نے زمین مالک کھیالی رام کو بلا کر معلوم کیا کہ نکڑ والا پلاٹ بک رہا ہے کہنے لگے انسپیکٹر صاحب سارے لوگوں نے میٹینگ کر لی کہ مسلمان کو روڈ کی زمین نہیں دینی ہے ، پاپا نے کہا چاچا میرے لیے بھی نہیں ہے ؟ کھیالی چاچا نے جواب دیا ” انسپیکٹر صاحب آپ کے لیے تو میرا گھر بھی حاضر ہے ، تو ٹھیک ہے چاچا زمین مجھے چاہیے چاچا راضی ہو گئے زمین فہمود صاحب نے خریدی لیکن رجسٹری سید مسعود علی کے نام ہوئ فہمود صاحب کے ادا کرنے کے لیے پوری رقم نہ تھی کھیالی چاچا یہی سمجھ رہے تھے کہ زمین انسپکٹر صاحب نے خریدی ہے اس لیے کچھ نہ کہا فہمود صاحب تھوڑی تھوڑی رقم ادا کر رہے تھے بیچ میں فہمود صاحب کو کچھ پریشانی پیش آئ تو رقم پاپا نے ادا کی امی نے کہا بھی کہ چاچا بیچارے ہماری وجہ سے چپ ہیں فہمود رقم بھی ادا نہیں کر پا رہے آپ ان کی رقم لوٹا دیجے لیکن پاپا نے صاف انکار کر دیا کہ یہ امانت میں خیانت نہیں کر سکتا پورے تیرہ سال زمین کی رجسٹری پاپا کے نام رہی ، ایک روز فہمود صاحب کا بلا کر کہا کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں وہ یہ سمجھیں گے کہ زمین ہمارے پاپا کے نام ہے تو ہماری ہے اس لیے اب تمہاری امانت تمہیں سونپ دوں فہمود صاحب کے نام رجسٹری دوبارہ کرنے میں لاکھوں روپیہ کا خرچ تھا پاپا سارے قانونی داؤ پیچ سے علم رکھتے تھے اس لیے بطور تحفہ رجسٹری فہمود صاحب کے نام کر دی بنا ایک روپیہ خرچ کراے آج اس پروپرٹی کی قیمت کئ کروڑ روپیہ ہے جسے پاپا نے نہایت سمجھداری اور دیانت داری کے ساتھ فہمود صاحب کو سونپ دی ۔۔
کچھ سالوں سے طبیعت علیل رہنے لگی تھی لیکن صرف اتنی دیر ہی آرام فرماتے جتنی دیر زیادہ خراب ہوتی پھر اپنے کاموں میں لگ جاتے تقریباً تین ماہ پہلے ہرپیس نام کی ایلرجی ہو گئ تھی بھائ نے فورن ہی کھال کے ڈاکٹر سے علاج شروع کر دیا ایلرجی میں تو شفاء ہو گئ لیکن اسی دوران لیور انفیکشن ہو گیا جس کی وجہ سے کھانا تو دور کی بات پانی تک حضم نہ ہوپا رہا تھا کمزوری بڑھتی جا رہی تھی پندرہ دن میں اٹھنا بیٹھنا تک دشوار ہو گیا ہم بہن بھائ ایک پل کو بھی اکیلا نہیں رہنے دیتے تھے ، رات رات بھر پاپا کے سرہانے بیٹھے رہتے یہاں تک کہ پاپا کا کوئ کام امی کو بھی نہیں کرنے دیا جاتا کہ آپ بس بیٹھی دعاء کرتی رہیں پاپا کہتے تھے اللہ کریم نے مجھے ایسی نیک اور فرمابردار اولاد عطا کرکے دنیا میں ہی جنت بخش دی ۔7 محرم ایام آشورہ میں 12بج کر 45 منٹ پر پاپا اس سراے فانی سے رخصت ہو گے راقم التحریر خود کو ادیبہ، مصنفہ یا شاعرہ کی صف میں شمار نہیں کرتی ہماری اس تحریر کا دائرہ ایک بیٹی کا اپنے باپ کی محبت ،جذبات ، محسوسات اور خراج عقیدت تک محدود ہے۔ہمیں یقین ہے سفید چادر پر لکھی اس تحریر کے شائع ہونے پر ہمارے پاپا بہت خوش ہوں گے اور خلد سے ہی ہمیں اپنی دعاؤں سے نوازیں گے ۔۔۔
6دسمبر1992کی رات ، بی بی سی نے اپنی نشریات روک کر اعلان کیاکہ اتر پردیش کے شہر فیض آباد سے سنڈے آبزرور کے نمائندے قربان علی لائن پر ہیں اور وہ ابھی ابھی ایودھیا سے وہاں پہنچے ہیں۔ اگلی پاٹ دار آواز قربان علی کی تھی۔ جس میں انہوں نے دنیا کو بتایا کہ مغل فرمانروا ظہیر الدین بابر کی ایما پر تعمیر کی گئی بابری مسجد اب نہیں رہی۔ جس وقت و ہ ایودھیا سے روانہ ہوئے، وہ ملبہ کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوچکی تھی۔اس دن 12 بجے کے بعد سے کسی بھی میڈیا ادارے کا ایودھیا میںموجود اپنے رپورٹروں سے رابط نہیں ہو پا رہا تھا۔ حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ایک ہجوم نے مسجد پر حملہ کرکے اس کو معمولی نقصان پہنچایا اور سکیورٹی دستوں نے ان کو کافی پیچھے دھکیل دیا ہے۔
ہندو قوم پرست تنظیموں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ویشو ہندو پریشد (وی ایچ پی)نے جب رام مندر تحریک شروع کی، تو میں بھی تقریباً اسی وقت دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کر رہا تھا۔ ایل کے ایڈوانی کی رتھ یاترا جب چاندنی چوک سے گزر رہی تھی، تو میںسڑک کے کنارے ہوا میں تلواریں اوربھالے لہراتے ہجوم کو جے شری رام ، مندو وہی بنائیں گے اور بابر کی اولادوں کے نام انکی دشنام طرازی کے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔گو کہ آنجہانی پرمود مہاجن اس یاترا کے چیف آرگنائزر تھے، مگر دہلی میں بی جے پی کے دفتر میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اس کے متعلق پروگرام وغیرہ کی بریفنگ دیتے تھے۔
خیر پچھلے سال نومبر میں سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلہ کے بعد تو مسجد ایک قصہ پارینہ بن ہی گئی تھی، اب پچھلے ہفتے اس کو مسمار کرنے والوں کو بھی اتر پردیش صوبہ کے شہر لکھنوٗ کی خصوصی عدالت نے بری کرکے انصاف کو دفن کر نے کا مزید سامان مہیا کروادیا۔ پچھلے 28 سالوں سے جس طرح اس مقدمہ کی ٹرائل ہو رہی تھی، اس سے کچھ زیادہ امید یں تو نہیں بندھی تھیں، مگر سپریم کورٹ نے جب مسجد کی زمین ہندو بھگوان رام للا کے سپرد کی، تو مسلم فریق کے تین اہم دلائل کو بھی تسلیم کرکے فیصلہ میں شامل کردیا۔ عدالت اعظمیٰ نے یہ تسلیم کیا کہ 1949ء کو رات کے اندھیرے میں مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی مورتی رکھنا اور پھر دسمبر 1992ء کو مسجد کی مسماری مجرمانہ فعل تھے۔ اس کے علاوہ عدالت نے آثار قدیمہ کی تحقیق کا بھی حوالہ دیکر صاف کردیا کہ 1528ء میں جس وقت مسجد کی تعمیر شروع ہوئی، اس وقت کی کسی عبادت گاہ کے آثار نہیں ملے۔ ہاں، کھدائی کے دوران ، جو اشیاء پائے گئے، ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ، کہ اس جگہ پر 11ویں صدی میں کوئی عمارت موجودہ تھی، جو تباہ ہوچکی تھی۔ یعنی 500سالوں تک اس جگہ پر کوئی عمارت موجود نہیں تھی۔
ان دلائل سے ایک موہوم سی امید جاگ اٹھی تھی، کہ چاہے مسجد کی زمین پر ا یک پرشکوہ مندر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے، مگر اس عبادت گاہ کو مسمار کرنے والوں کو قرا ر واقعی سزا دیکر ایک مثال قائم کی جائیگی۔ مگر 2000صفحات سے بھی زائد اپنے فیصلہ میںخصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے سپریم کورٹ کی ہدایت اور تمام ثبوتوں کو درکنا ر کرتے ہوئے تمام 32ملزمان کو بری کر دیا۔ جس طرح اس کیس کی ٹرائل ہو رہی تھی، اس کا میں خود گواہ ہوں۔
استغاثہ نے جن 351گواہوں کی فہرست کورٹ میں دی تھی، اس میں سے تین شخص میر ے قریبی رفیق تھے، ان سے متواتر معلومات ملتی رہتی تھیں۔ نریندر مودی کی آمد تو 2014میں ہوئی، اس سے قبل سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہوئی تھیں، بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجراء نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔اور جب نوٹیفکیشن جاری کی تو اسمیں تکنیکی خامیاں تھیں، جن کو خدا کرکے 2010میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کہنے پر دور کیا گیا اور سبھی مقدمو ں کو یکجا کرکے لکھنوٗ کی خصوصی عدالت میں سماعت شروع ہوئی۔
معروف فوٹو جرنلسٹ پروین جین نے نہ صرف 6دسمبر کے دن بابری مسجد کی مسماری کی تصاویر لیں تھیں، بلکہ اس سے کئی روز قبل ایودھیا کے نواح میں کارسیوکوں کے گروپ میں شام ہوکر ریہر سہل میں حصہ لیکر اس کو تصویریں بھی کیمرہ میں محفوظ کر دی تھیں۔ ان کے اخبار دی پائینیر نے مسجد کے مسمار ہونے کے بعد ان کو شائع کیا تھا۔ استغاثہ نے ان کو بطور گواہ بنایا تھا۔ اس دوران انکو کس طرح ہراساں و پریشان کیا جاتا تھااور کورٹ میں حاضری کے دن ان کو وکیلوں و عدالتی اسٹاف کے معاندانہ رویہ کا کس طرح سامنا کرنا پڑتا تھا، یہ خود ایک درد بھری داستان ہے۔
سمن آنے پر مقررہ تاریخ سے ایک روز قبل وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین لکھنوٗ کیلئے روانہ ہوتے تھے۔ دن بھر عدالت کے باہر اردلی کی آوا ز کا انتظار کرنے کے بعد بتایا جاتا تھاکہ آج گواہی نہیں ہوگی، کیونکہ یا تو جج موجود نہیں ہے، یا استغاثہ یا وکیل دفاع موجود نہیں ہے۔ جین کے بقول کئی سالوں تک اس طرح کی گردشوں کے بعد جب ایک دن ان کو گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا، اوران کا بیان ریکارڈ ہونے ہی والا تھا، کہ ایک معمر وکیل نے کٹہرے کے پاس آکر اپنا منہ ان کے کان کے پاس لاکر ماں ، بہن کی گالی دیکر دھمکی بھی دے ڈالی۔ جین نے بلند آواز میں جج کو متوجہ کرتے ہوئے شکایت کی، کہ ان کو بھری عدالت میں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ جج نے حکم دیا کہ ان کو ایک سفید کاغذ دیا جائے، تاکہ یہ اپنی شکایت تحریری طور پر دیں۔ شکایت جج کے پاس پہنچتے ہی ، وکیل دفاع نے دلیل دی،کہ اب پہلے اس کیس کا نپٹارہ ہونا چاہئے کہ گواہ کو کس نے گالی اور دھمکی دے دی۔ اس دوران کورٹ میں ہنگامہ مچ گیا اور گواہی اگلی تاریخ تک ٹل گئی اور بتایا گیا کہ وہ اپنا وکیل مقرر کریں ، کیونکہ اب پہلے انکو عدالت میں دھمکانے کا کیس طے ہوگا۔ تنگ آکر جین نے یہ کیس واپس لیا اور اصل کیس یعنی بابری مسجد کی مسماری سے متعلق اپنا بیان درج کروانے کی درخواست کی۔
اس طرح دوبارہ کئی تاریخوں کے بعد جب گواہی درج ہوگئی تو ان کو بتایا گیا ، کہ بس تصویریں کافی نہیں ہیں، 6دسمبر کے دن ایودھیا میں اپنی موجودگی ثابت کریں۔ خیر کسی طرح کئی ماہ کی تگ ودو کے بعد انہوں نے ایودھیا کے ضلعی صدر مقام فیض آباد کے ایک ہوٹل سے پرانا ریکارڈ نکالا اور اپنے پرانے ادارے پائینیر کا ایک سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔ مگر اب کورٹ میں ان کو بتایا گیا کہ یہ کاغذات بھی ناکافی ہیں۔ آخرکئی دہائی قبل کا ٹرین ٹکٹ ان کو مل گیا اور اب کئی سالوں کے بعد یہ طے ہو گیا کہ وہ اس دن ایودھیا میں تھے مگر اب ان کو بتایا گیا کہ ان کی تصویریں قابل اعتبار نہیں ہیں، اس لئے ا ن کے نگیٹو پرنٹ کورٹ میں پیش کرنے ہونگے۔
اس دوران دہلی میں ان کی عدم موجودگی میں ان کے فلیٹ پر چوروں نے دھاوا بھول دیا اور پورے گھر کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ گھر کی جو حالت تھی، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ درانداز کسی چیز کو تلاش کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نقدی، زیورات اور دیگر قیمتی سامان غائب تھا، مگر تصویروں کے نگیٹو بچ گئے تھے، کیونکہ وہ انہوں نے کسی دوسری جگہ حفاظت سے رکھے ہوئے تھے۔ کورٹ میں مسجد کی شہادت کی تیاری اور باضابط ریہر سہل کرنے کی تصویریں پیش کی گئیں۔ معلوم ہوا کہ دو سول انجینیر اور ایک آرکیٹیکٹ مسجد کی عمارت گرانے کیلئے کارسیوکوں کو باضابط ٹریننگ دے رہے تھے۔ ان سبھی کے چہرے تصویروں میں واضح تھے۔
اسی طرح میرے کشمیری پنڈت دوست سنجے کاوٗ بھی ایک گواہ تھے۔ انہوں نے مسجد کی شہادت سے قبل باضابط ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے انکشاف کیا تھا کہ 6دسمبر کو بابری مسجد کو مسمار کر دیا جائیگا۔ ان دنوں خفیہ کیمرہ سے اسٹنگ کا رواج نہیں تھا۔ کاوٗ کے مطابق اخبار اسٹیٹسمین کے دفتر سے رات گئے جب وہ آفس کی گاڑی میں گھر جا رہے تھے، تو ڈرائیور نے ان کو بتایا کہ ایودھیا میں اس بار کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔ ایڈیٹر نے اگلے دن ان کو ایودھیا جانے کی اجازت دے دی۔ مگر کاوٗ نے صحافی کے بجائے ایک کارسیوک کے طور پر جانے کی ٹھانی اور دہلی میں بی جے پی کے دفترمیں سنجے کول کے نام سے اندراج کرواکے کار سیوک کا کارڈ حاصل کیا۔ ہندو اور کشمیری پنڈت ہونے کے باوجود نہ صرف ٹرین میں بلکہ فیض آباد میں اس کا کئی بار انٹروگیشن کیا گیا۔ ’’ شاید میں نیا چہرہ تھا، و ہ بار بار شک کی نگاہ سے مجھے دیکھتے تھے۔ میں نے اپنے آپ کو ایک انجینرنگ اسٹوڈنٹ بتایا ، جس کو کشمیر میں حالات کی خرابی کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی ہے۔‘‘ ایودھیا پہنچنے پر ایک بار پھر چھ سات افراد نے انٹروگیشن کیا۔ کشمیری پنڈت ہونے کی دہائی دیکر آخر کار اسکو کارسیوکوں کے ایک گروپ میں شامل کرکے خیمہ میں رہنے کےلیے کہا گیا۔
واکی ٹاکی ہاتھ میں لئے ایک سادھو اس گروپ کا سربراہ تھا، جس نے اگلے دن ایک قبرستان میں لے جاکر ان کو قبریں منہدم کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ بار بار انکو تاکید کر رہا تھا کہ ہاتھ چلانا سیکھو۔ کارسیوک آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اسی طرح مسجد کو بھی توڑنا ہے۔ سادھو نے اسکو خبردار کیا تھا کہ صحافی یا خفیہ محکمہ کا کوئی فرد ان کے آس پاس نہ پھٹکنے پائے ۔ بار بار کے انٹروگیشن ، ریہر سہل اور صحافیوں کے تئیں کارسیوکوں کے رویہ نے کاوٗ کو کافی ڈرا دیا۔ رات کے اندھیرے میں وہ خیمہ سے بھاگ کر پہلے فیض آباد اور پھر دہلی روانہ ہوگیا، جہاں اس نے اسٹیٹسمیں میں کئی قسطوں میں چھپی رپورٹوں میں بتایا کہ مسجدکی مسماری کی تیاریاں پوری طرح مکمل ہیں۔
دنیا کو مسجد کی شہادت کی خبر دینے والے صحافی قربان علی کے مطابق شام چھ بجے تک تاریخی شاہی مسجد کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ وہ بی بی سی کے جنوبی ایشیاء کے بیورو چیف مارک ٹلی کے ساتھ کئی روز سے ایودھیا میں مقیم تھے۔ ان کا کہنا ہے گو کہ افواہوں کا بازار گرم تھا، مگر مسجد کی مسماری کا اندازہ نہیں تھا۔ بھارتی وقت کے مطابق 11:30بجے صبح کارسیوکوں نے مسجد پر دھاوا بول دیا۔ اس کے ساتھ ایک اور گروپ صحافیوں کو ڈھونڈکر ان کو پیٹ پیٹ کر کمروں میں بند کر رہا تھا۔مارک ٹلی اور علی ان کو جل دیکر کسی طرح ایودھیا سے نکل کر فیض آباد پہنچے ، اور وہاں کے ٹیلیگراف آفس سے دہلی خبر بھیجی۔ اس وقت فیض آباد میں مقیم سینٹرل ریزور پولیس فورس کے دستوں نے ایودھیا کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہی آخری خبر تھی، جو دہلی تک پہنچ سکی تھی۔
واپسی پر ان دونوں صحافیوں نے دیکھا کہ سینٹرل فورس کو ایودھیا کے باہر ہی روک لیا گیا ہے۔ خیر وہ دوسرے راستے سے وہ ایودھیا شہر میں داخل ہوئے اور ایک ہجوم نے مارک ٹلی کو پہچان کر ان دونوں کو ایک بوسیدہ مندر کے کمرے میں بند کردیا۔ ’’وہ پہلے ہمارے قتل کیلئے آپس میں مشورہ کررہے تھے ۔ پھر ان کے سربراہ نے ان کو بتایا کہ پہلے مسجد کا قضیہ نپٹے، یعنی پوری طرح مسمار ہو، پھر انکی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔‘‘ شام کو کسی دوسرے گروپ نے تالا کھولا اور انکو وی ایچ پی کے سربراہ اشوک سنگھل کے دربار میں حاضر کروایا، جو قربان علی اور مارک ٹلی سے واقف تھے۔ انہوں نے ان کو رہا کرادیا۔ مگر شہر سے جانا ابھی بھی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ علی کا کہنا ہے کہ ایودھیا سے فیض آباد کی محض دس کلومیٹر کی دوری اس دن کئی سو کلومیٹر کا ٖفاصلہ لگ رہا تھا اور جب وہ فیض آباد کے ہوٹل میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت بی بی سی اردو کی رات کی نشریات جاری تھیں، جس نے ان سے فون پر بات کرکے دنیا تک خبر پہنچائی۔
معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی نے اس موضوع پر اپنی کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour کی تیسری جلد میں بابری مسجد کی ڈھانے کی سازش پر خوب بحث کی ہے۔ ان کے بقول مسجد کی شہادت میں بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھر پور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کی پول کھول دی ہے۔نہ صرف نچلی عدالتوں کے لیت و لعل سے بلکہ اس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وینکٹ چلیا کے طریقہ کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموار کردی۔نورانی نے انکشاف کیا کہ جسٹس چلیا مسجد کو بچانے اور آئین اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوںکی صحت سے متعلق فکر مند تھے۔غالباً یہی وجہ تھی کہ 1998ء میں بی جے پی کی قیادت والی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ان کو شاید انہی خدمات کے بدلے ایک اعلیٰ اختیاری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
سابق سیکرٹری داخلہ مادھو گوڈبولے کے مطابق ان کو بھی مسجدکی شہادت کی تیاری کی اطلاع تھی، اسی لیے ان کے محکمہ نے ریاست اتر پردیش میں مرکزی راج نافذ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔مگر وزیراعظم نرسمہا رائو نے اس کو نامنظور کر دیا۔ نورانی کا کہنا ہے کہ راوٗ خود، مسجد کی شہادت میں بلا واسطہ ملوث تھے۔ ان کے مطابق کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لئے ویشو ہندو پریشد کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔گوکہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیاتاہم ، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کیلئے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لاء میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔مصنف کے بقول انہوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی بیوقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔
بابری مسجد کو مسمار کرنے ، اس کے قصور واروں کو سزا سے بچانے میں ہندو قوم پرستوں سیمیت سیکولر جماعتیں کے دامن بھی خون سے آلودہ ہیں۔ اس حمام میں سب ننگے تھے۔ بابری مسجد نے شہادت کے بعد ان سبھی چہروں سے نقاب اتار کر پھینک دئے ہیں اور اگر ابھی بھی کسی کو یہ چہرے اصل روپ میں نظر نہ آتے ہوں، تو یقیناً ان کی دماغی حالت پر شبہ کے علاوہ اور کیا ہی کیا جاسکتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
چہرے پڑھتا، آنکھیں لکھتا رہتا ہوں
میں بھی کیسی باتیں لکھتا رہتا ہوں؟
سارے جسم درختوں جیسے لگتے ہیں
اور بانہوں کو شاخیں لکھتا رہتا ہوں
مجھ کو خط لکھنے کے تیور بھول گئے
آڑی ترچھی سطریں لکھتا رہتا ہوں
تیرے ہجر میں اور مجھے کیا کرنا ہے ؟
تیرے نام کتابیں لکھتا رہتا ہوں
تیری زلف کے سائے دھیان میں رہتے ہیں
میں صبحوں کو شامیں لکھتا رہتا ہوں
اپنے پیار کی پھول مہکتی راہوں میں
لوگوں کو دیواریں لکھتا رہتا ہوں
تجھ سے مل کر سارے دکھ دہراؤں گا
ہجر کی ساری باتیں لکھتا رہتا ہوں
سوکھے پھول، کتابیں، زخم جدائی کے
تیری سب سوغاتیں لکھتا رہتا ہوں
اس کی بھیگی پلکیں ہنستی رہتی ہیں
محسن جب تک غزلیں لکھتا رہتا ہوں
پیسہ ملے اور خوب ملے، اصول، ضوابط اور اخلاق کا بھلے جنازہ نکل جائے ۔ ان دنوں اکثر ٹی وی نیوز چینل مذکورہ کلیہ پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنے کو جائز سمجھنے لگے ہیں ۔ ایسے چینلوں میں بی جے پی کے بھونپو ارنب گوسوامی کا چینل ریپبلک بھارت سب سے آگے ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ چینل ٹی آر پی کے لیے لاشوں پر بھی کھیل جاتا ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا ۔ جب سے ممبئی پولیس نے ارنب گوسوامی کے چینل کی، اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے کی جارہی غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں کا پردہ فاش کیا ہے، ارنب گوسوامی بوکھلائے بوکھلائے پھر رہے ہیں ۔ کبھی وہ ممبئی کے پولیس کمشنر پرم بیر سنگھ کو عدالت میں گھسیٹ لینے کی دھمکی دیتے ہیں اور کبھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ سشانت سنگھ راجپوت معاملہ میں انہوں نے ممبئی کے پولیس کمشنر سے سوالات پوچھے تھے اس لیے یہ ٹی آر پی کے نام پر فراڈ کا معاملہ ان کے نیوز چینل ریپبلک بھارت کے سر منڈھا جا رہا ہے ۔ یہ فراڈ کس طرح کیا گیا اور پورا معاملہ کیا ہے اس پر بات کرنے سے پہلے ارنب گوسوامی کے ردعمل پر کچھ غور کرلیں ۔ ارنب نے ممبئی کے پولیس کمشنر کے ذریعے لگائے گئے الزامات کے بعد جو بیان جاری کیا ہے، اس میں، جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ گوسوامی کا دعویٰ ہے کہ ممبئی کے پولیس کمشنر پرم بیر سنگھ نے اس معاملے کی جو تفتیش کی ہے وہ شک و شبہ کے گھیرے میں ہے، اور ان کے سوالات کی وجہ سے پولیس کمشنر نے یہ قدم اٹھایا ہے ۔ ارنب نے پالگھر مآب لنچنگ کا بھی ذکر کیا ہے ۔ ارنب کا کہنا ہے کہ یہ جو ریپلک نیوز چینل کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے اسے سچائی کو اور زوردار انداز میں پیش کرنے کا حوصلہ ملے گا ۔ خیر ارنب جو بھی کہیں سچ یہ ہے کہ انہیں ان ہی کے انداز میں جواب دیا گیا ہے ۔ سشانت معاملہ میں انہوں نے جھوٹ کا پرچار کیا تھا، خودکشی کو قتل بنا کر پیش کیا تھا، اداکارہ رہا چکرورتی کو ملزم بنا کر کٹگھڑے میں کھڑا کر دیا تھا، ساری فلمی دنیا کو سشانت کا دشمن قرار دیا تھا اور فلمی دنیا کو منشیات کا گڑھ ثابت کرنے کے لیے نہ جانے کہاں کہاں سے آدھے ادھورے اور فیک ثبوت گڑھ کر پیش کیے تھے ۔ لیکن ایمس کی رپورٹ اور ریا چکرورتی کی ضمانت پر رہائی، بمبے ہائی کورٹ کا رہا کو کسی ڈرگ سنڈیکیٹ کا حصہ ماننے سے انکار اور سی بی آئی کا سشانت کے بینک کھاتے میں کسی طرح کے خورد برد کے بارے میں کسی ثبوت کا نہ پانا ، یہ وہ حقائق ہیں جو ارنب کے سارے دعوؤں کی قلعی کھول دیتے ہیں ۔ پتہ چلا کہ سب فیک تھا اور سارا کھیل ٹی آر پی کا تھا ۔ پالگھر معاملہ میں سونیا گاندھی کا نام لینا یقیناً زعفرانیوں کے اشارے پر تھا، یہ بھی ٹی آر پی کا ہی کھیل تھا ۔ ممبئی کے باندرہ علاقہ میں مہاجر مزدوروں کے ہجوم کو تبلیغی جماعت سے جوڑنا فرقہ وارانہ بھی تھا اور مسلمانوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف بھی، یہ بھی بلا شک و شبہ بی جے پی کو خوش کرنے کے لیے تھا اور ٹی آر پی بٹورنے کے لیے بھی ۔ دہلی فسادات اور حالیہ ہاتھرس گینگ ریپ معاملے میں بھی ریپبلک چینل کے جھوٹ سامنے آتے رہے ہیں ۔ یہ چینل لوگوں کو جھوٹ پروستا رہا ہے بھلے اس کے جھوٹ کی بنیاد پر ملک کے غریب، پچھڑے اور اقلیتیں بشمول مسلم اقلیت نشانہ بنائی جائے ۔ نشانہ بننے دو، ٹی آر پی بڑھے گی اور سیاسی آقا خوش ہوں گے اور دولت کی ریل پیل ہوگی ۔یہی ارنب اور ریپبلک چینل کا مطلوب تھا اور ہے ۔ اب سارا کیا دھرا سامنے آ گیا ہے ۔ پتہ چلا ہے کہ ٹی آر پی بڑھانے کے لیے یہ ناظرین کی خریداری کرتے تھے ۔ ہوا یہ کہ ٹی آر پی کا اندازہ کرنے کے لیے بی اے آر سی (بارک) نے ملک بھر میں 30 ہزار گھروں میں میٹر لگائے ہیں، ممبئی میں دس ہزار میٹر لگائے گئے ہیں، یہ میٹر ہنسا نامی ایک کمپنی کے ذریعے لگوائے گئے تھے ۔ میٹر کن کن گھروں میں لگے ہوئے ہیں اس کی جانکاری خفیہ رکھی گئی ہے لیکن چند چینلوں نے، جن میں ریپبلک بھارت شامل ہے، ہنسا کے پرانے ملازموں سے میٹر لگے بہت سے گھروں کا پتہ پیسے کے زور پر حاصل کیا پھر ان میٹر لگے گھروں کو اپنے چینل دن بھر چلاتے رہنے کے لیے پیسے دیئے، اس طرح ان کی ٹی آر پی میں اضافہ ہوا ۔ یہ عمل غیر قانونی اور غیر اخلاقی تھا، اس کی بدولت یہ چینل اپنی حیثیت سے زیادہ ریٹ میں اشتہار حاصل کرتے رہے یا بالفاظ دیگر کالے دھن سے اپنی تجوری بھرتے رہے ۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں اشتہارات سے جینلوں کو 30,000 کروڑ روپے کی کمائی ہوتی ہے یعنی اتنی بڑی رقم کہ نسلیں بیٹھ کر کھائیں، اس رقم کو حاصل کرنے کے لیے بہت سے لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں بلکہ کرتے ہیں ۔ تو یہ تھا وہ کھیل جو بقول ممبئی پولیس کمشنر ارنب گوسوامی کھیل رہے تھے ۔ خیر ابھی ارنب سے صرف پوچھ گچھ کرنے کا اشارہ ہی دیا گیا ہے جبکہ دو چینلوں کے مالکان گرفتار کر لیے گئے ہیں ۔ یعنی یہ ٹریلر ہے ۔ ویسے ٹریلر ہی سے ارنب کے ہوش آڑے نظر آ رہے ہیں، آگے تو پوری پکچر ابھی باقی ہے ۔ ویسے جھوٹ اور فراڈ چھپتا نہیں ہے کبھی نہ کبھی سامنے آ ہی جاتا ہے، جیسے کہ آ رہا ہے ۔
مودی حکومت کے وضع کردہ شہریت کے قانون CAA کے خلاف دسمبر 2019 سے مارچ 2020 تک دہلی کے شاہین باغ میں منعقد ہونے والے تاریخی احتجاج کے تعلق سے سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ نیا نہیں ہے۔اس سے پہلے 2018 میں مزدور کسان شکتی سنگٹھن بنام حکومت ہند کے مقدمہ میں بھی وہ ایسا ہی ایک فیصلہ سناچکی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ 2018 کا فیصلہ ایک خاص واقعہ کو محیط تھا اور اس میں مظاہرین کی تعداد اور دائرہ کو محدود کردیا گیا تھا جبکہ شاہین باغ والے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کے اثرات اور پولیس کے اختیارات کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔
2018 میں کاشتکاری سے وابستہ مزدوروں کی جماعتوں نے جو دھرنا دیا تھا وہ جنتر منتر پر تھا۔۔ عدالت نے مظاہرین کی تعداد محدود کرنے اور احتجاج کے جمہوری حق کے ساتھ دوسرے شہریوں کے چلنے پھرنے کی آزادی کے حق کا بھی احترام کرنے کی تلقین کی تھی۔جبکہ شاہین باغ کے فیصلہ میں یہ دائرہ بڑھا دیا گیا ہے۔اس میں پولیس اور انتظامیہ کو ایک طرح سے کھلی چھوٹ کا واضح اشارہ دیدیا گیا ہے کہ آئندہ ملک میں جب بھی کوئی ”شاہین باغ“رونما ہو تو عدالت میں آنے کی بجائے اس سے خود نپٹا جانا چاہئے۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں شاہین باغ کے احتجاج کے Leaderless یا بے قائد ہونے کا بھی بطور خاص ذکر کیا ہے۔اس سلسلہ میں عدالت نے ان مذاکرات کاروں کی دو رپورٹوں سے استفادہ کیا ہے جن کو خود سپریم کورٹ نے ہی مقرر کیا تھا اور جن کو شاہین باغ اس امید میں بھیجا گیا تھا کہ وہ مظاہرین سے بات کرکے انہیں اس پر آمادہ کریں گے کہ وہ آنے جانے کا راستہ کھول دیں یا کسی دوسری جگہ بیٹھ کر اپنا احتجاج جاری رکھیں۔
مذاکرات کاروں نے اپنی رپورٹ میںAbsence of leadership (قیادت کے فقدان)اور Presence of influencers(اثر ورسوخ والوں کی موجودگی)کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہی دو عناصر کے سبب یہ مظاہرہ محض خواتین کی آواز اور ان کی طاقت کا محور نہیں رہ گیاتھا۔سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ نے کہا کہ عدالت نے دو سینئر مذاکرات کاروں (سنجے ہیگڑے اور سادھنا راما چندرن) کو اس کوشش کے تحت مقرر کیا تھا کہ خول سے باہر آکر مظاہرین سے بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کا حل نکل آئے۔عدالت نے کہا کہ ہمیں اس بات کا افسوس نہیں ہے کہ مذاکرات کاروں کی کوششیں بار آور نہ ہوسکیں۔اس لئے کہ کوشش کرکے نا کام ہوجانا اس سے بہتر ہے کہ کوشش بالکل ہی نہ کی جائے۔
عدالت نے پہلی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”۔مطالبات بہت وسیع تھے اور کم سے کم آمد و رفت کا مسدود راستہ کھولے جانے کے لئے کسی درمیانے راستہ تک پہنچنا مشکل نظر آیا۔“ دوسری رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ مذاکرات کاروں نے اپنی سی بھر پور کوشش کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔عدالت نے اس رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کے مقام پر لوگوں کی تعداد میں بھی آخر کارکمی آگئی تھی۔“
عدالت نے ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نجی گفتگو میں مظاہرین (کی طرف سے مذاکرات کرنے والے) جو کچھ کہتے تھے عوامی بیانات اور احتجاج کو خطاب کرتے وقت وہ اس سے بالکل مختلف بولتے تھے۔ اس کے علاوہ خواتین تو جہاں ٹینٹ کے اندر بیٹھتی تھیں باہر مرد رضا کاروں اور راہ گیروں کی بڑی بھاری تعداد موجود رہتی تھی جسے آمد و رفت کے راستہ کو مسلسل مسدود رکھنے میں دلچسپی تھی۔ایک مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ کورونا کی وبا کے آنے کے بعد 20 مارچ 2020 کو جب مظاہرہ گاہ کا دورہ کیا گیا توٹینٹ کے اندر کوئی 35-40 تخت رکھے تھے جن میں سے ہر تخت پر دو تین خواتین بیٹھی تھیں۔یعنی کل 75-100 خواتین تھیں جبکہ باہر 200 یا اس سے زیادہ تعداد میں مرد موجود تھے جن کا مظاہرہ سے تعلق تھا۔
عدالت نے رپورٹ کے حوالہ سے کہا کہ آنے کا جانے کا ایک طرف کا راستہ ٹینٹ نے مسدود کر رکھا تھا جبکہ دوسری طرف کا آدھا راستہ لائبریری‘انڈیا گیٹ کا بہت بڑا ماڈل اور لوہے کا بنا ہوا ہندوستان کا سہ رخی نقشہ نصب کرکے روک دیا گیا تھا۔لوہے کے اس نقشہ کو بہت مضبوط لوہے کے سہاروں پر رکھا گیا تھا اور لوہے کے ان سہاروں کو بہت بڑے پتھروں سے روک کر رکھا گیا تھا جن کو ہلانا بہت مشکل تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا: ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مظاہرین کی رہ نمائی کیلئے قیادت کے فقدان اور مظاہرین کے بہت سے گروپوں کی موجودگی ایسے اثر ڈالنے والے افراد کی موجودگی کا سبب بنی کہ جن کے ایک دوسرے سے مختلف مقاصد تھے۔۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مظاہرہ محض خواتین کی طاقتور آواز نہیں رہ گیا تھا اور خود یہ خواتین بھی مظاہرہ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کھوچکی تھیں۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید لکھا کہ ممکنہ طور پر مظاہرین کو وبا کے بڑھنے کا بھی احساس نہیں تھا اور اسی لئے وہ دوسری جگہ منتقل ہونے کو تیار نہ ہوئے۔ آخر کار یہ احتجاج ”اللہ کی مداخلت“ (Hand of God) کے سبب ختم ہوا۔. عدالت نے یہ بھی لکھا کہ ”یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف ظاہر کئے جانے والے اختلاف کے طور طریقوں کا موازنہ خود اپنی جمہوریت میں کئے جانے والے اختلاف سے نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ آئین اختلاف رائے کے حق کی ضمانت دیتا ہے لیکن کچھ فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کے ساتھ۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں ایک اہم بات یہ بھی لکھی: آئین کا آرٹیکل 19 (1) (A) اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے اور آرٹیکل 19(1) (B) حکومت کے کسی ایکشن یا عدم ایکشن کے خلاف کسی جگہ بغیر ہتھیار جمع ہوکر مظاہرہ کا حق دیتا ہے اور اس حق کا ریاست (حکومت) کو بھی احترام کرنا چاہئےـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
لکھنؤ:ہاتھرس کیس میں راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی)کے لیڈرجینت چودھری پر لاٹھی چارج کے خلاف آج ایک جاٹ مہاپنچایت طلب کی گئی ۔جینت چودھری پر حملہ کوکسانوں کے وقار سے جوڑاگیا اور مہاپنچایت میں لاٹھی لہرائی گئی۔ مہاپنچایت میں موجود بہت سے لوگوں نے لاٹھی لہرائی۔اس دوران ابھے چوٹالہ نے کہا کہ ملک کے کسان لیڈران اور ملک کے کسانوں کومتحد ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ یوپی کے کسان متحد ہوں ،جن ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں ہے ، وہاں حکومت کسانوں کی آواز دبا رہی ہے۔ابھے چوٹالہ نے کہا کہ چودھری دیوی لال اور چودھری چرن سنگھ نے ملک میں کسانوں کے لیے جدوجہد کی اور انہیں متحدکیاتھا۔یہ حکومت کسانوں کی آوازکوکمزور کرنا چاہتی ہے۔ تمام رہنماؤں کو پارٹی لائن سے آگے آکر متحدہوناچاہیے۔ہاتھرس کے ملزموں کو پھانسی دی جانی چاہئے ، لیکن حکومت ان کی حفاظت کر رہی ہے۔سابق ایس پی رکن اسمبلی دھرمیندر یادو نے کہاکہ ہاتھرس کا حملہ جینت چودھری پرنہیں بلکہ چرن سنگھ کی میراث پرتھا۔ یہ کسانوں اور نوجوانوں پر حملہ ہے۔ اکھلیش یادو کا پیغام ہے کہ سماج وادی پارٹی اور آر ایل ڈی الیکشن لڑیں گے۔
بی جے پی نے ہمارے سوال کے ڈرسے گپتیشورکوٹکٹ نہیں دیا،مہاراشٹرکے وزیرداخلہ کاطنز
نئی دہلی:بہارکے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس (ڈی جی پی) گپتیشور پانڈے کوجب بہار اسمبلی انتخابات میں ٹکٹ سے انکارکیاگیاتومہاراشٹر کے وزیر داخلہ انیل دیشمکھ نے اس پرطنزکیاہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بی جے پی شاید ان کے سوالوں سے خوفزدہ ہوگئی ہے ،اس لیے ان کا ٹکٹ کاٹا گیاہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیشمکھ نے کہاہے کہ ہم نے بی جے پی لیڈران سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ گپتیشور پانڈے کی تشہیرکے لیے جائیں گے؟ شاید ٹکٹ اسی سوال کے خوف سے نہیں دیاہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ کس کو ٹکٹ دینا ہے اور کس کو نہیں ، یہ ان کی پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے۔
نئی دہلی:مرکزی وزیرتعلیم ڈاکٹر رمیش پوکھریال نشنک نے کہاہے کہ قومی اہلیت مقابلہ جاتی داخلہ امتحان NEET UG کے نتائج وقت پر جاری کردیئے جائیں گے۔ وزیر تعلیم نے کہاہے کہ نئے سیشن کے تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے نتائج طے شدہ تاریخ کو جاری کردیئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں قومی جانچ ایجنسی (این ٹی اے) 12 اکتوبر کو یا اس سے پہلے نتائج جاری کرے گی۔ میڈیکل انڈرگریجویٹ کورسز میں داخلہ کے لیے ntaneet.nic.in میں امیدوار اپنے نتائج ، اسکور کارڈ اوررینک کی جانچ پڑتال کرسکتے ہیں۔اس سال ، 15.97 لاکھ امیدواروں نے NEET UG امتحان 2020 کے لیے اندراج کیاتھا۔ این ٹی اے نے 13 ستمبر کو ملک بھر میں یہ امتحان کرایا تھا۔ تاہم امتحان سے قبل بہت سارے طلباء اورسیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی تھیں۔ اسی تسلسل میں 7 ریاستوں کی حکومتوں نے بھی امتحان ملتوی کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی ، جسے بعد میں عدالت نے مسترد کردیا۔ کوروناکے مابین ہونے والے NEET-UG امتحان میں %85-90 امیدوار شریک ہوئے۔
پٹنہ:بہار اسمبلی انتخابات سے قبل سیاست میں آنے والے سابق ڈی جی پی اور جے ڈی یو لیڈر گپتیشور پانڈے ٹکٹ نہ ملنے کے بعد پہلی بار میڈیا میں آئے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گپتیشور پانڈے نے اس قیاس آرائی پر ایک بڑا بیان دیا کہ انہیں بہار قانون ساز اسمبلی میں بکسر سے ٹکٹ نہیں مل رہا ہے اور کہا کہ سیاست میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے جو آپ کے خیال میں نہیں ہوتا ، میں پارٹی کا الرٹ سپاہی ہوں۔ نیز وزیر اعلی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دھوکہ نہیں دیا کیونکہ بہار کے وزیراعلی نتیش کمار کسی کو دھوکہ نہیں دیتے ۔گپتیشور پانڈے سامنے آئے اور کہا کہ ہاں سیاست میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے جو آپ کے خیال میں نہیں ہوتا۔ سیاست میں بہت سی مجبوریاں ہیں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں پارٹی کا ایک سپاہی ہوں۔
ایودھیا:رام مندر کی تعمیر کے لیے اب تک ملے تقریباََ 1 ارب روپے،دو کونٹل چاندی
ایودھیا:مندر کی تعمیر کے کام میں کسی بھی قسم کی مالی پریشانی سے بچنے کے لئے، رام بھکتوں نے اپنے خزانے بھی کھول رکھے ہیں۔ رام جنم بھومی تیرتھ چھتر ٹرسٹ کے قیام کے بعد سے اب تک قریب ایک ارب روپے رام للا کے کھاتے میں جمع ہوچکے ہیں۔ نیزرام للا کو عطیات کی شکل میں 2 کونٹل سے زیادہ چاندی بھی ملی ہے۔ رام جنم بھومی کے مندر کی تعمیر کیلئے جلد ہی بیرون ملک بیٹھے رام بھکت بھی عطیہ کرسکیں گے، منصوبہ بھی مکمل طور پر تیار کرلیا گیا ہے۔آپ کو بتادیں کہ رام جنم بھومی کمپلیکس میں رام مندر کی تعمیر کے کام کو تیز کردیا گیا ہے۔ جدید ترین مشینوں کے ذریعہ مندر کی تعمیر جاری ہے۔ ٹرسٹ کے قیام کے بعدرام کے عقیدت مندوں نے اپنا خزانہ کھول دیا ہے اور ٹرسٹ کے قیام کے بعد سے اگر ذرائع پر یقین کیا جائے تو رام للا کے کھاتے میں قریب ایک ارب روپے کا چندہ آچکا ہے۔ رام جنم بھومی تیرتھ چھتریا ٹرسٹ کے کیمپ آفس کے انچارج پرکاش کمار گپتا نے بتایا کہ رام للا کے مندر کی تعمیر کے لئے ہر دن عطیات دئے جارہے ہیں۔ پہلے ہی قریب ایک ارب روپے کا عطیہ آچکا ہے۔ فی الحال رام بھکتوں سے چاندی کا عطیہ نہیں لیا جارہا ہے کیونکہ پہلے ہی 2 کونٹل سے زیادہ چاندی کا عطیہ کیا جا چکا ہے۔ رام بھکت چاندی کے بدلے نقد رقم دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رام مندر کی تعمیر میں رقم کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔
لکھنؤ:ہاتھرس واقعے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ملیشیا کے نسلی تنازعہ کو بھڑکانے کے سلسلے کی تحقیقات کے بعد اب میانمار کا حوالہ کاروبار بھی ای ڈی کے رڈار پر آگیا ہے۔ لکھنؤ اور مغل سرائے سے ڈی آر آئی کی گرفتاریوں کے بعدمیانمار سے سونے کی اسمگلنگ کا حوالہ کاروبار اور لکھنؤ سے کروڑوں کی نقد رقم کی وصولی کے بعد ای ڈی نے اس پہلو کی بھی چھان بین شروع کردی ہے۔ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹلیجنس یعنی ڈی آر آئی نے سلطان پور کے دو کاروباریوں کو 2 دن قبل پنڈت دین دیال اپادھیائے ریلوے اسٹیشن سے 1.5 کروڑ کی سونے کی اینٹوں کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ جب ان سے پوچھ گچھ کی گئی تو پتہ چلا کہ سونے کی اسمگلنگ کا میانمار کنکشن ہے اور لکھنؤ میں اس پوری اسمگلنگ کا ماسٹر مائنڈ ٹریول ایجنسی کا آپریٹر ہے۔ تفتیش کے بعد ڈی آر آئی کی ٹیم نے لکھنؤ اور پٹنہ میں چھاپے مارے۔ یہ حوالہ کاروبار لکھنؤ کے علاقے حسین گنج چوراہے پر واقع دلکش پلازہ کے ٹریول ایجنسی الطارق کی آڑ میں ہوا تھا۔ ڈی آر آئی نے ٹریول ایجنسی کے ڈائریکٹر راجیش نامی شخص کے خرم نگر میں واقع فلیٹ پر چھاپہ مارا۔ فلیٹ سے 1.01 کروڑ کیش اور 5.50 لاکھ غیر ملکی کرنسی برآمد ہوئی۔ برآمد شدہ غیر ملکی کرنسی کی ایک بڑی رقم ریال اور درہم کی تھی۔انکوائری میں انکشاف ہوا ہے کہ میانمار سے سونے کی اسمگلنگ کی رقم کولکاتہ کے حوالہ کے ذریعے پہنچا دی گئی تھی۔ کولکاتہ میں رقم کی فراہمی کے بعد سونا پٹنہ یا کسی اور جگہ پٹنہ کے راستے پہنچایا جاتا تھا۔ حوالہ کے کاروبار میں 10، 20 اور 50 کے نوٹ بہت اہمیت کے حامل تھے۔ ایک حوالہ کے تاجر سے دوسرے حوالہ کے تاجر کو واٹس ایپ کے ذریعے 10، 20 اور 50 کے نوٹ بھیجے گئے تھے اور جب وہی نوٹ لے کر حوالہ کے تاجر کے حوالے کیا جائے گا تو نمبر ملنے پر نقد اور سونے کی فراہمی ہوگی۔ای ڈی نے بھی ڈی آر آئی کی اس کارروائی پر تفتیش شروع کردی ہے۔ در اصل ای ڈی پہلے ہی ہاتھرس اسکینڈل میں تشدد پھیلانے کے لئے خلیجی ممالک سے ملائیشیا سے سے ملنے والی رقم کی تحقیقات کر رہا تھا اور اب لکھنؤ سے کروڑوں کے سونے کی اسمگلنگ کا انکشاف ہواہے، ای ڈی نے نقد رقم برآمد کرلی اور اب ای ڈی محتاط ہوگئی ہے اور اس نے ہاتھرس واقعے میں ملائیشیا کے ساتھ ساتھ میانمار کے کنکشن کی بھی تحقیق شروع کردی ہے۔
نئی دہلی:مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ آج شام ان کے بیٹے اور لوک جن شکتی پارٹی کے صدر چراغ پاسوان نے ٹویٹ کرکے ان کی موت کی اطلاع دی۔ چراغ نے اپنے بچپن کی ایک تصویر ٹویٹ کی ، جس میں وہ پاسوان کی گود میں بیٹھے ہیں اور لکھا ہے: "پاپا … اب آپ اس دنیا میں نہیں ہیں ، لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے "۔ 74 سالہ رام ولاس پاسوان گذشتہ چند ہفتوں سے علیل تھے اور انہیں دہلی کے فورٹس اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ان کے پاس مرکزی وزارت برائے خوراک و رسد تھی۔ رام ولاس پاسوان پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے سیاست میں سرگرم تھے اور انہیں ملک کے سب سے بڑے دلت قائد کے طورپر جانا جاتا تھا۔رام ولاس پاسوان کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ’ ان کے جانے سے جو خسارہ ہوا ہے اسے لفظوں میں نہیں بیان کیا جاسکتا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے ، جسے کبھی بھی پُر نہیں کیا جا سکتا۔ رام ولاس جی کی رخصتی میرا ذاتی نقصان ہے۔ میں نے اپنے دوست اور مضبوط ساتھی کو کھو دیا‘۔ رام ولاس پاسوان کے انتقال پر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے غم کا اظہار کیا ہے۔ صدر رام ناتھ کووند نے کہا کہ’ ملک نے ایک بصیرت مند رہنما کھو دیا ہے‘۔ صدر نے کہاکہ ’وہ پارلیمنٹ کے ایک انتہائی متحرک اور دیرینہ ممبر تھے۔ وہ دبے کچلے طبقوں کی آواز تھے‘۔
غور طلب ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے رام ولاس پاسوان کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے پارٹی کے تمام فیصلے صدر ہونے کی حیثیت سے چراغ خود لے رہے تھے۔ حال ہی میں چراغ نے لوک جن شکتی پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی این ڈی اے کے ساتھ جانے کے بجائے بہار میں تنہا الیکشن لڑے گی۔ رام ولاس پاسوان کی وفات سے لوک جن شکتی پارٹی پر کافی اثر پڑ سکتا ہے۔
ہاتھرس معاملہ:ملزموں نے خط لکھ کر خود کو بتایا بے قصور، متاثرہ کے اہل خانہ نے کہا:ہمارے خلاف سازش ہورہی ہے
ہاتھرس:اترپردیش میں ہاتھرس واقعہ ابھی سرد ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ چاروں ملزمان نے خطوط ارسال کئے ہیں اور خود کو بے قصور قرار دیا ہے۔ اس کے بعد متاثرہ کے اہل خانہ نے اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے (متاثرہ) چپکے سے جلایا گیا تھا، اب آپ ہمیں زہردے دو۔ ہاتھرس ملزمین کا خط وائرل ہونے کے بعد متاثرہ کے اہل خانہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمارے خلاف سازشوں کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے،یہ سب سنانے سے بہتر ہے کہ انھیں زہر دے دیاجائے۔ متاثرہ لڑکی کے بھائی، والدہ اور والد نے بتایا کہ ہمارے خلاف سازش کی جارہی ہے،بھابھی نے بتایا کہ اسے (متاثرہ) ضلع اور پولیس انتظامیہ نے خفیہ طور پر جلایا تھا، اب ہمیں زہردے دو۔متاثرہ لڑکی کے والد نے کہا کہ ہمارے خلاف مستقل سازش کی جارہی ہے، اب ایک اور بڑا جھوٹ خط کی شکل میں سامنے آیا ہے، ہم پر ہر روز الزام تراشی اور جوابی حملہ کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس نے چاروں ملزموں میں سے کسی سے کبھی بات نہیں کی۔ ان میں سے کسی کی بھی ہماری لڑکی سے دوستی نہیں تھی۔ یہ چاروں دہشت گرد قسم کے ہیں، ان سے دوستی کون کرے گا؟
ہاتھرس کیس:510 قانون کے طلبہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کوخط لکھا،مجرم افسران کے خلاف کاروائی کا مطالبہ
نئی دہلی:یوپی کے گینگ ریپ کے مبینہ کیس میں لاء (قانون) کے 510 طلبہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کو خط لکھا ہے۔ قانون کے طلبہ نے سپریم کورٹ سے معاملے میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مجرم افسران کے خلاف کاروائی کی اپیل کی ہے۔ نوئیڈا کے دو قانون کے طلبہ نے اس خط پر دستخط کئے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں کے لاء طلباء کا نام درج ہے۔ خاص طور پر رات گئے متاثرہ بچی کی لاش کوجلانے پر طلبہ نے اعتراض کیا ہے۔خط میں لکھا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر حکومت ہند نے حکومت پاکستان سے ایک دہشت گرد اجمل قصاب کی لاش لے جانے کی درخواست کی، یہ الگ بات ہے کہ حکومت پاکستان نے اسے قبول نہیں کیالیکن ہاتھرس میں یہ انسانیت پسندی اس خاندان کے ساتھ نہیں دکھائی گئی جس نے پوری زندگی ہندوستان میں بسر کی۔ وہ گھریلو لڑکی جس نے انتہائی گھناؤنے جرم میں اپنی جان گنوا دی۔اس خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ پولیس نے مبینہ طور پر ایک بیان دیا ہے کہ فیملی سے مردہ بچی کی لاش کو جلا دینے کی اجازت لی گئی تھی، جبکہ متعدد مواقع پر متاثرہ کے اہل خانہ نے کہاہے کہ آخری رسومات ان کی مرضی کے خلاف انجام دی گئیں۔ پولیس کے پاس اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے ایسے دستاویزات موجود نہیں ہیں۔