علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے اقامتی ہالوں کے چار پرووسٹوں کو اے ایم یو کورٹ کا ممبر مقرر کیا گیا ہے۔ ان میں بیگم عزیز النساء ہال کی پرووسٹ پروفیسر صبوحی خاں ،سرسید ہال نارتھ کے پرووسٹ پروفیسر کے اے ایس ایم عشرت عالم، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ہال کے پرووسٹ ڈاکٹر حشمت علی خاں اور سرسید ہال ساؤتھ کے پرووسٹ پروفیسر بدرالدجیٰ خاں شامل ہیں ۔ ان کی مدت کار تین برس یا پرووسٹ کے عہدے پر برقرار رہنے تک ہوگی۔ اس کے علاوہ اے ایم یو سنٹر ملاپورم کی لاء یونٹ کے کوآرڈنیٹر مسٹر غالب نشتر اور اے ایم یو مرشدآباد سنٹر کی لاء یونٹ کے کوآرڈنیٹر ڈاکٹر محمد عارف کو سینیارٹی کی بنیاد پر تعلیمی سال 2020-21 کے لئے یا کوآرڈنیٹر کے عہدے پر برقرار رہنے تک یونیورسٹی اکیڈمک کونسل کا ممبر مقرر کیا گیا ہے۔
17 اگست, 2020
علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے شعبۂ لسانیات کے زیر اہتمام 21؍اگست کو شام 6بجے ایک ویب ٹاک منعقدکیاجارہا ہے جس میں پروفیسر ای انّاملائی (وزیٹنگ پروفیسر، جنوب ایشیائی زبانوں و ثقافتوں کے مطالعہ کا شعبہ، شکاگویونیورسٹی، امریکہ) ’’مابعد لبرل دنیا میں زبانوں کا تنوع‘‘ موضوع پر خطاب کریں گے۔ شعبۂ لسانیات کے چیئرمین پروفیسر ایم جہانگیر وارثی کے مطابق پروفیسر انّاملائی لسانی تنوع،زبان کے ارتقاء اور اس سے متعلق دیگرپہلوؤں پرگفتگوکریں گے۔
ملک میں کورونا مریضوں کی تعداد 26.47 لاکھ،اموات کی تعداد 50 ہزار سے متجاوز
نئی دہلی:ملک میں کورونا کے ایک دن میں 57981 نئے کیسز آنے کے بعد پیر کے روز متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 2647663 ہوگئی۔ وہیں مزید 941 افراد کی موت کے بعد اموات کی تعداد 50 ہزار کو عبور کرگئی۔ مرکزی وزارت صحت کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک 1919842 افراد اس بیمار سے صحت یاب ہوچکے ہیں، جس سے ملک میں کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کی شرح 72.51 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اب تک تین کروڑ سے زائد نمونوں کی جانچ ہوچکی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کی وجہ سے مزید 941 افراد کی ہلاکت کے بعد ملک میں اموات کی تعداد بڑھ کر 50921 ہوگئی۔تاہم اموات کی شرح کم ہوئی ہے اور یہ 1.92 فیصد ہوگئی ہے۔ ملک میں ابھی 676900 مریض زیر علاج ہیں۔ آئی سی ایم آر کے مطابق ملک میں 16 اگست تک 30041400 نمونوں کی جانچ کی گئی تھی، جن میں 731697 نمونوں کا اتوار کو ہی ٹیسٹ کیا گیا تھا۔
پٹنہ،
بہارمیں اسمبلی انتخابات کی دستک کے ساتھ ہی پارٹی بدلنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اب شیام رجک آر جے ڈی میں شامل ہوچکے ہیں۔ شیام رجک کو کل جے ڈی یو سے نکال دیا گیا تھا۔ پٹنہ میں انہیں تیجسوی یادو کی موجودگی میں راشٹریہ جنتا دل میں شامل کیا گیا۔ واضح رہے کہ اتوار کی شام چیف منسٹر نتیش کمار نے کابینہ میں سینئر دلت رہنما اور وزیر صنعت شیام رجک کو پارٹی سے معطل کردیا تھا اور اس کے بعد ان کی سفارش پر گورنر نے انہیں وزرا کی کونسل سے باہر کا راستہ دکھادیا تھا۔ واضح رہے کہ شیام رجک نے اتوار کے روز یہ بات واضح کردی تھی کہ پیر کو وہ پارٹی سے استعفیٰ دیں گے۔ لیکن نتیش کمار نے استعفی دینے سے پہلے ہی انہیں پارٹی سے باہر کا راستہ دکھایا۔ اگر دونوں فریق کے لوگوں پر یقین کیا جائے توشیام رجک سے نتیش جہاں حالیہ دنوں میں دلت برادری کے امور پر مسلسل اجلاس اور میڈیا میں اس کی تشہیر پر زیادہ خوش نہیں تھے۔ وہیں دوسری طرف جس پھلواری شریف سیٹ پر شیام رجک 1995 سے نمائندگی کررہے ہیں وہاں ارون مانجھی کوانتخابات کی تیاری کے لئے گرین سگنل دینے کے بعد سے ہی شیام رجک ناراض دکھائی دے رہے تھے۔
ترکی کی طرف سے یو اے ای (متحدہ عرب امارات) کے حالیہ ناروا اقدام پر تنقید کیا سامنے آئی کہ یار دوستوں نے ترکی اسرائیل تعلقات کا شوشہ چھوڑدیا۔
ترکی کے اسلام پسندانہ اقدامات کی وجہ سے ہر پرامید مسلمان کی طرح میں بھی ترکی سیاست اور اس کے موجودہ بین الاقوامی تعلقات کا ایک خاموش اور پرامید قاری ہوں۔ اور اس وجہ سے ترکی کے اسلامی کاز سے متعلق چھوٹی بڑی خبروں کو دلچسپی سے پڑھتا ہوں ۔ لیکن حیرت اس وقت ہوئی جب بہت سے سنجیدہ صحافیوں اور بعض دانشور قسم کے لوگوں نے بھی یہ "جذباتی” سوال اٹھایا کہ ترکی یو اے ای پر تنقید کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے سے پہلے اسرائیل سے اپنا سفیر بلالے۔!
میں نے عرب دنیا میں ترکی کے ایک سیاسی صحافی اور مبصر کے سامنے جب یہ سوال رکھا تو اس کا جواب حسب توقع بڑا دلچسپ تھا، کہنے لگے :
"سوال کرنے والوں کا احترام کرتا ہوں، لیکن یہ سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو ترکی کی بین الاقوامی سیاست کی الف بے سے بھی ناواقف ہو۔”
ان کے ساتھ کی گئی پر مغز گفتگو کا خلاصہ اور اپنا تجزیہ میں قارئین کے سامنے رکھتا ہوں، جس میں اس سوال کا جواب بھی ان شاءاللہ مل جائے گا۔
ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات صدر رجب اردگان کی حکومت سے پہلے، بلکہ بہت پہلے سے چلے آرہے ہیں ۔اُس وقت کے سیکولر (بلکہ لادین اور ملحد) ترکی کا خمیر یہودیت پسندی سے اٹھایا گیا تھا۔
اب سے تقریبا دو دہائی قبل جب صدر رجب اردگان حکومت میں آئے، تو اس کی پوزیشن بہت کمزور تھی، اس لئے اگر وہ یک مشت ترکی اور اسرائیل کے سابقہ معاہدات پر خط تنسیخ پھیرتے، تو یہ بادئ النظر میں ممکن تھا، لیکن اس کا انجام صدر اردگان کی معزولی یا قتل کی صورت میں ظاہر ہوتا، اس سے پہلے "عدنان میندریس” کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا، اس لئے یہ جذباتی اقدام کم ازکم صدر اردگان جیسے مدبر سیاستدان سے متوقع نہ تھا۔
چنانچہ انہوں نے کمال فراست سے کام لیتے ہوئے پہلے ترکی کی ترقیاتی اور فلاحی خدمت پر توجہ مرکوز رکھی، عوام کا اعتماد حاصل کیا، ترکی معیشت کو اپنے پاوں پر کھڑا کیا۔ یوں جب ان کی پوزیشن مضبوط ہوئی، تو انہوں نے اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی، پھر اس کو آنکھیں دکھانا شروع کیں، لیکن یہاں بھی حسب عادت "جذباتیت” کی رو میں بہنے کی بجائے حکمت عملی سے آگے بڑھے۔
اس پس منظر میں ترکی کی مثال دلدل میں پھنسے اس ہاتھی کی سی تھی، جو دلدل سے نکلنے کے لئے ظاہر ہے کہ ہوا میں نہیں اڑ سکتا تھا؛ بلکہ دلدل سے نکلنے کی یہی سبیل تھی کہ رفتہ رفتہ اسی دلدل میں واپس آکر باہر نکلے۔
چنانچہ گذشتہ دس سالوں کے دوران ترکی نے اسرائیل سے اپنے تعلقات کو بتدریج کم کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کیے ہیں :
1۔پہلے ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقوں کا سلسلہ ختم کیا۔
2۔ جب امریکہ نے بڑھی ڈھٹائی سے القدس کو فلسطین کے بجائے اسرائیل کا دارالحکومت ڈیکلیئر کیا، تو ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو بھگایا، جو آج تک "راندہ
درگاہ ” ہے۔ اور آج تک ترکی "القدس” کو فلسطین کا کیپٹل قرار دینے کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔
3۔ترکی اور اسرائیل کے فوجی تعلقات کا گراف صفر پر ہے ۔
4۔ڈیپلومیٹک تعلقات تاریخ کے سب سے نچلے لیول پر آگئے ہیں۔
5۔فلسطینیوں کے امدادی سامان پر مشتمل ترکی بحری بیڑا” فریڈم فورٹیلا” پر اسرائیل کا حملہ سب کے سامنے ہے۔
6۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں صدر رجب ارگان نے نقشہ لیکر دنیا کو اسرائیلی مظالم اور ناجائز قبضہ سے روشناس کرایا۔
7۔صدر اردگان اور اسرائیلی صدر کے درمیان ٹوئٹر وغیرہ پر لفظی جھگڑا دونوں کے درمیان کس رویہ کی نشاندہی کرتا ہے؟
ان اقدامات سے ترکی کا مجموعی طور پر کیا رویہ سامنے آتا ہے؟یہی نا کہ ترکی اسرائیل کو سائیڈ پر لگانے کی پالیسی پر گامزن ہے اور بتدریج اس سے اپنا ہاتھ کھینچ رہا ہے؛ چنانچہ ترکی فلسطین پر اسرائیلی ظلم کے خلاف سب سے توانا آواز ہے۔ اب آیا صوفیا کے افتتاح کے موقع پر صدر اردگان نے ایک اور سگنل بھی دے دیا آیا کہ صوفیا کی آزادی "القدس” کی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے۔
لے دے کر اب ترکی اور اسرائیل کے درمیان صرف تجارتی اور اقتصادی قسم کے تعلقات رہ گئے ہیں۔ لیکن فلسطین اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں ہی کی مصلحت کی خاطر یہ تعلقات بھی ترکی کی مجبوری ہے، ترکی نے آخری آپشن کے طور پر ان تعلقات کو باقی رکھا ہوا ہے،اور وہ اس طرح کہ اگر ترکی یہ تعلقات بھی ختم کرلے تو ترکی سے فلسطین اور فلسطین سے ترکی آمد و رفت کے راستے مسدود ہوجائیں گے، ترکی کی طرف سے فلسطین کی ساحلی پٹی اور غزہ امدادی سامان نہیں جاسکے گا، اس لئے کہ یہ سامان اسرائیلی ائیرپورٹس کے ذریعے جاتا ہے۔
اس مقصد کے لئے برائے نام سفارتی تعلقات باقی رکھنے کے سوا ترکی کے پاس کوئی کوئی چارہ کار نہیں۔ آپ کے پاس اگر اس مسئلہ کا کوئی ایسا حل ہو جو ترکی کی مدبر اور دلیر قیادت کے سامنے نہ آیا ہو تو ضرور ریکمنڈ کیجئے گا۔
یو اے ای کے خلاف ترکی کا یہ سخت رویہ خود بتارہا ہے کہ ترکی اسرائیل کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ یو اے ای کے خلاف ترکی کے اس موقف کی ایک وجہ یہ بھی بتلائی جاتی ہے کہ آج اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے، تو کل کلاں یہ بھی بعید نہیں کہ القدس کو لگے ہاتھوں فروخت کردیں۔
ترکی نے ماضی میں شرق اوسط کے نام سے آباد جدید عرب دنیا (جس میں فلسطین بھی شامل ہے) پر حکومت کی ہے، ترکی آج بھی اپنے زیر نگین رہنے والے اس عرب خطہ میں کسی بڑے فیصلہ سے لاتعلق نہیں رہنا چاہتا، بالخصوص جب اس فیصلہ کا اس کی دینی اور مذہبی اقدار وروایات کے ساتھ بھی تعلق ہو۔
بہرحال ترکی کی موجودہ مدبرانہ سیاست جس خاردار راستے سے آگے بڑھ رہی ہے، اس کے زمینی حقائق، مضمرات اور چلینجز کو سامنے رکھے بغیر اس قسم کے جذباتی شوشے چھوڑنا بہت کچی ذہنیت کی عکاسی کررہا ہے ۔
آج کل ترکی کے خلاف مغربی میڈیا کی طرح عرب میڈیا کا بھی ایک بڑا حصہ یک آواز ہوگیا ہے، ترکی سے متعلق رائے قائم کرنے کے لئے صرف ان میڈیائی تبصروں کا یک رخا مطالعہ ہی ایسی منفی آراکو جنم دیتا ہے ۔
آخر سیلکولر آئین اور پچاس فیصد کے قریب سیکولر عوام کے باوجود، ترکی اسلام اور اسلامی شعائر و مقدسات کو جس اسٹریٹجی کے ساتھ پروموٹ کررہا ہے، اگر آپ کو یہ سب گوارا نہیں، تو پھر آپ کے لئے کوئی ایسی مشین ایجاد کریں گے جس سے راتوں رات ایک بٹن دباتے ہی "خلافت راشدہ” کا آئیڈیل سسٹم بر آمد ہو۔ کیا خیال ہے؟!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
مشرف عالم ذوقی
کسی زمانے میں خراسان ادب و تصوف کا مرکز تھا۔ شیخ فرید الدین عطار کا تعلق عظیم خراسان کے نیشا پور سے تھا۔ شیخ فرید الدین جو پیشے سے عطار بھی تھے ، ایک دن اپنا مطب بند کر دیا اور دور دراز کے مقامات بغداد، بصرہ، کوفہ، مکہ، مدینہ، دمشق، خوارزم، ترکستان اور ہندوستان کی سیر کو نکل گئے۔ اب وہ نظریاتی طور پر صوفیائے کرام کے انداز میں ڈھل چکے تھے، وجد کی کیفیت تھی،نور کا گہوارہ تھا ۔ ایک روایت مشہور ہے کہ حضرت خواجہ شیخ فرید الدین عطار کسی کام میں مصروف تھے- ایک درویش آیا،حضرت مصروف رہے،درویش کی طرف توجہ نہ دی-درویش نے سوال کیا’’اے شیخ تم مرو گے کیسے؟جواب ملا،جس انداز میں تم مرو گے، درویش مسکرایا،زور سے الله کہا۔ حضرت نے دیکھا ، درویش اپنی جان الله کے سپرد کر چکا تھا۔ اس واقعہ کا اثر ہوا اور یاد الله میں سفر کو نکل گئے،ہائے ، کیا لوگ تھے کیسے کیسے کرشمے اور معجزے ہوا کرتے تھے۔ تاریخ میں کچھ بادشاہوں کے نام ہفت اقلیم کی دولت رہی۔ تارڑ کو شیخ فرید الدین کے فیض کی دولت نصیب ہوئی،تارڑ اپنے مرشد کی بات پر عمل کیسے نہیں کرتے ،سفر کو نکلے ،ساری دنیا کی سیر کی، اردو زبان کو سفر ناموں کا بیش قیمت تحفہ دیا،ان کے ناول کشف سے نکلے ، افق تک پھیل گئے ،وہ لکھتے گئے ، لکھتے گئے ، لیکن وہ مقام باقی تھا ، جہاں سے مرشد کی یادوں نے فیض کا چشمہ جاری کیا تھا،منطق الطیر جدید اسی چشمہ کا نام تھا، جس کے بارے میں تارڑ نے لکھا’’پرندوں کی بولیاں میرے کانوں میں پھونکنے والے مرشد عطار کے نام”-
کہ جسم و جاں میں ابال آئے نہ خواب زاروں میں روشنی تھی
مجھے کس کی تلاش ہے ، نہیں معلوم،مگر یہ ایک خوف زدہ کرنے والا خواب تھا، پانچویں جنگ عظیم اور دنیا ختم ۔ زمین کے اندر پگھلی چٹانوں کا سیال اور سطح زمین پرابلتا لاوا سرد ہو کر ٹھوس شکل اختیار کرچکا تھا،آتشیں چٹانیں زمین کے اندرونی حصے میں پائے جانے والے مادوں سے تیار ہورہی تھیں۔ نہ درخت ، نہ چرند پرند ، نہ ندیاں ، نہ انسان۔ ایک دھماکہ اور سب کچھ ختم ۔ میری بے چین روح کچھ تلاش کر رہی ہے،کہیں کچھ نہیں،مگر دور ایک ہیولیٰ،روح رقص کرتی ہوئی قریب آتی ہے۔ پشت سے صاف ہے کہ کوئی انسانی سایہ ہے،سر پرہیٹ،دنیا ختم ہو گئی مگر یہ کون ہے؟ کون ہے ؟
میں ،آہ ۔۔۔ وہ ایک آتشیں پتھر پر اسٹائل سے بیٹھا تھا،غول بیابانی، ایک دھیمی آواز ابھری ، روح الجھ گئی،خضر سمجھے ہو جسے غول بیابانی ہے،غلط امید کے جنگل میں تھکا مارے گا،روح نے پھر تعاقب کیا ،اب کچھ آوازیں صاف تھیں،اندلس ، خانہ بدوش، نانگا پربت، نیپال نگری، سنولیک، کالاش، سنہری اُلو کا شہر، ماسکو، نیو یارک، ہالینڈ،الاسکا ہائی وے، لاہور، یارقند، سندھ، آسٹریلیا،استنبول،وہ بولتا جا رہا تھا۔
اس نے ہاف پینٹ سے پاؤں باہر نکالے، پہلی بار محسوس ہوا ، کوئی بدنصیب ہے جو دنیا کے تباہ ہونے پر حیران ہے، روح اب سامنے تھی اور حیرت زدہ ،اوہ،یہاں بھی؟ اس ویرانے کو بھی نہیں بھولا، یہاں بھی سفر نامہ لکھنے آ گیا،پچاس سے زاید سفر نامہ لکھنے کے بعد بھی اس کی تلاش ختم نہیں ہوئی۔ مستنصر حسین تارڑ،وہ چٹانوں کے گرم سیال سے دنیا کی تباہی کا سفر نامہ لکھنے آیا تھا۔
کچھ برس گزر گئے ،رات آٹھ بجے فون کی گھنٹی بجی، ایک کھنکھناتی ہوئی آواز طلسم کدے سے نکلی، میرے حواس پر چھا گئی،میں کچھ بولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر میری آواز الجھ گئی تھی۔
تبسم نے پوچھا،کون تھے؟ اور تم کن لفظوں میں بات کر رہے تھے ۔ آہ..مجھے یاد ہے، ٹھہرو،مجھے سوچنے دو،ہاں میں کچھ کہہ رہا تھا،اونچے اونچے درخت،جزیرہ کا دودھیا رنگ،مورتیاں،وادیِ سندھ،روح کے بھید،غزال شب،ڈاکیہ،شاید جلاہا بھی،سفید رنگ کے پکھیرو،مامن ماسا، سرسوتی، گھاگرا، پکلی،سمرو،چولستان کا دریا ، سرسوتی ، آریا، دراوڑین، ہڑپہ کی تہذیب، مہر گڑھ اور موہن جودڑو۔
کیا بک رہے ہو؟
ہاں اورمنطق الطیر جدید،ان کی آواز صاف تھی اور میں سب کچھ سن رہا تھا،نیشاپور کا فریدالدین،سیمرغ کی تلاش،وادیِ تلاش، وادیِ الفت،ہدہد اور چارچیزیں تھیں جو ہر دسمبر میں بلاتی تھیں۔
کس کو؟
میں خواب سے نکلا،تارڑصاحب کو اور کس کو دو تین بار ان سے گفتگو ہوئی،مگر وجدان کی تلاش میں ، میں ٹلہ جوگیاں کی طرف نکل جاتا، جہاں دنیا کی مختلف سمتوں سے سات پرندے آ چکے تھے،آٹھواں پرندہ میں تھا،کیا بولتا، کیسے بولتا،پاکستانی ادیب اور میرے دوست یونس خان نے شکایت کی ، تارڑ صاحب سے آپ بات کیوں نہیں کرتے ؟ان سے کیا کہتا کہ جب وہ بولتے ہیں ، میں نیشا پور ، سات پرندوں کی تلاش میں نکل جاتا ہوں اور ان کی آواز مجھے سنائی نہیں دیتی۔
احمد شاہ ابدالی فارسی میں کئی نظموں کے مصنف بھی تھے۔ ان کی ایک نظم ہے ، قوم کی محبت جس میں انہوں نے لکھا: خون کے ذریعہ ، ہم آپ کی محبت میں غرق ہیں۔ نوجوان آپ کی خاطر اپنے سر کھو دیتے ہیں۔ میں آپ کے پاس آیا ہوں اور میرے دل کو سکون ملا ہے۔ تجھ سے دور ، غم میرے دل سے سانپ کی طرح لپٹ گیا۔ میں دہلی کا تخت بھول جاتا ہوں جب مجھے اپنی خوبصورت پختون خوا کی پہاڑی چوٹی یاد آتی ہے۔ اگر مجھے دنیا اور آپ کے درمیان انتخاب کرنا ہوگا ، میں تمہارے بنجر صحراؤں کو اپنا دعوی کرنے میں دریغ نہیں کروں گا۔ میں خوبصورت پختون خوا کی پہاڑی چوٹی کی جگہ اس مقام کو دیکھتا ہوں جہاں تارڑ رہتے ہیں۔ جہاں آٹھواں پرندہ عشق کی خاک سے پیدا ہوکر محوِ پرواز ہے۔ مشہور فکشن نگار اقبال خورشید سے باتیں کرتے ہوئے تارڑ صاحب نے بتایا ،عطار میرے مرشد ہیں،میں پچاس سال سے اُن کے پرندوں کے عشق میں مبتلا ہوں، تو ان کا ایک تازہ ترجمہ انگریزی میں ہوا، اور انگریزی میں ترجمے ہوتے رہے ہیں۔ جیسے رومی کا پہلے بھی ترجمہ ہوا تھا، مگر بعد میں جو ترجمہ ہوا، اس کی وجہ سے اُنھیں دنیا کا سب سے بڑا صوفی قرار دیا گیا۔ تو ’منطق الطیر‘ کے پہلے بھی تراجم ہوئے، مگر جو تازہ ہوا، وہ میں نے پڑھا، تو میرے ذہن میں آیا کہ جیسے پرانی داستانوں کو بار بار لکھا جاتا ہے، ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں کو بار بار لکھا گیا، تو یہ بھی ایک کلاسیک ہے، اس کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔ گو فریدالدین عطار کے نقش قدم پر چلنا اپنے پیروں کو جلانے کے مترادف ہے۔
مستنصر حسین تارڑ ماضی ، حال ، مستقبل کا مصور ۔ ہمارا ماضی کیا تھا؟کیا ہے؟ کیا ہمارا مستقبل تابناک نہیں ہے؟ تاریکی کی حیرانیاں اور غول بیابانی، ٹلہ جوگیاں سے نکلا ایک قافلہ اور مشہور فلسفی بھرتری ہری کے عشق میں سما گیا،گرو نانک کے نغمے سنے ،بدھ کی حیرانیوں کو چکھا، رانجھے کے چھدے ہوئے کان دیکھیے،ہیر کی آنکھوں کے موتی چنے ،ایک پرندہ کوہ طُور سے برآمد ہوا ،ایک غار حرا کی روشنی سے نکلا ، ایک مسیح کی صلیب سے پیدا ہوا، زرتشت کے آتش کدے کی آگ ٹھنڈی ہو کر بجھ گئی تو ایک پرندہ اس راکھ سے نکلا ،فرات کے پانی اور قرۃ العین طاہرہ کے بدن سے سرخ آگ نکلی اور ایک پرندہ یہاں بھی جنما،اس نے کرشن کی موسیقی کو گلے لگایا ، رومی ، حافظ ، رسول حمزہ توف ، خلیل جبران ، شمس تبریز سے عشق کیا اور اس کا ہر ناول تلہ جوگیاں کے کھل جا سم سم سے عشق کے مکالمے کے ساتھ وجود میں آیا، ساری مستی شراب کی سی ہے۔’خس وخاشاک زمانے‘ کو ہی لیجئے، تارڑ کا ایک ایسا شاہکار جس کے بغیر اردو ناولوں پر گفتگو ممکن ہی نہیں ہے۔
مستنصر حسین تارڑ کو پڑھتے ہوئے ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ کیا ایسی کردارنگاری وہ لوگ کرسکتے ہیں جو صرف تجربے کا دم بھرتے ہیں؟ میرا جواب ہے نہیں کیونکہ یہاں ہوایا خلا میں معلق تحریر نہیں ہے۔ یہاں زندگی کو پیش کرنے کی جرا ت کی گئی ہے۔ جو زیادہ مشکل کام ہے اور جنہیں یہ ہنر نہیں آتا وہ تجربے سے کام چلاتے ہیں۔ چونکا دینے والی کہانیاں اب ماضی کا افسانہ بن چکی ہیں۔ ادب محض لفظوں کی بھول بھلیاں کانام نہیں،یہاں منہ میں چھالے اگانے ہوتے ہیں۔ لہو تھوکنا پڑتا ہے،زندگی قربان کرنی ہوتی ہے،اور مستنصر حسین کی طرح زندہ کرداروں سے نئے فلسفوں کی دھوپ چرانی ہوتی ہے۔ وہ داستانوں کا تعاقب کرتا ہے ،اس کی انگلیاں حسین ، نا آفریدہ مکالموں سے کھیلتی ہیں ،جب وہ بہاؤلکھتا ہے ، تو تخیل اور مرشد کا سایہ اسے سندھ کی تہذیب میں لے جاتا ہے، کیا اس زمانے کے مکالموں کو زندگی دینا آسان ہے؟ کون سا درخت کیسا ہوتا ہے ؟ درختوں کی کھالیں ، شاخیں ، پتے ، وہ جزئیات کو اپنے تخیل سے آسان بنا دیتا ہے ،وہ اس وقت کے گھروں کے حال لکھتا ہے ، عشق کے فسانے سے گزرتا ہے ، اور وادی سندھ کا ہر زرہ روشن ہو جاتا ہے ،ناول نہیں معجزہ کہئے،وہ لکھتا نہیں ، معجزہ کرتا ہے ۔
وہ جو میز کے پیچھے بیٹھے تھے ، حیرت ہے کہ انہوں نے سامنے کچھ دھیان نہ کیا ، اپنے سامنے کھڑے گھڑ سوار کی جانب کچھ دھیان نہ کیا کہ یہ وہ لمحہ تھا جب اُس اروڑے نے ایک دستاویز پر دستخط کرکے اُسے سرکا کر اپنے برابر بیٹھے بونے کے آگے کیا اور قلم اُس جانب بڑھا دیا اور اُس قلم کو تھامتے نہ تو اُس بونے کی انگلیاں لرزیں ، نہ ہی ان انگلیوں کی پوروں میں سے غیرت اور حیا کی کوئی سرخی پھوٹی ، اگر کوئی دیکھ سکتا تو اس قلم کے اندر جو سیاہی تھی اُس کا کلیجہ بھی کٹ گیا اور وہ خون میں بدل گئی ۔(خس و خاشاک زمانے)
کیا ہم ان اندھی بستیوں میں رہتے ہیں ، جہاں چھوٹے چھوٹے نہ دکھائی دینے والے بونوں کی حکومت ہے ، جو خس و خاشاک زمانے میں برق رفتاری سے کود پھاند کرتے ہوئے ہماری تہذیب کا نقش بن جاتے ہیں، تہذیبی تصادم کا صدیوں پرانا کھیل اس ناول میں نئے زاویے سے آیا ہے،پہلے ہندوستان تقسیم ہوا،پھر پاکستان کے دو حصّے ہوئے۔ نفرت کی داستانوں نے خس و خاشاک کے ڈھیر پر کھرے ملکوں کی تقدیر لکھی اور اس سے پہلے تارڑ نے وادی سندھ کے بہاؤ کو دیکھا ،بجھی ہوئی راکھ کو دیکھا ،پیار کے پہلے شہر کو آواز دی ،محبتوں کے سفیر نے سفر ناموں کے بھی ڈھیر لگا دیے،اردو تو کجا دوسری زبانوں میں بھی شاید اتنے عمدہ سفر نامے مشکل سے ملیں۔ اردو میں سفر ناموں کی تاریخ میں تارڑ کے بعد مجھے صرف لالی چودھری کا نام نظر آتا ہے لیکن لالی کے پاس کچھ مضامین اور ایک کتاب سے زیادہ سرمایہ نہیں۔
خلیل جبران کی ایک مشہور کہانی ہے جنگ اور امن۔ تین کتے دھوپ میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ پہلے کتے نے آنکھیں بند کیں ، وہ خواب میں بولنے لگا "یہ واقعتا خوشی کی بات ہے کہ کتاراج میں رہنا ہے۔ سوچو کہ ہم کتنی آسانی سے سمندر کے نیچے ، زمین اور آسمان کے اوپر گھومتے ہیں۔ کتوں کی سہولت کے لئے ہم ایجاد کرتے ہیں۔ ہم صرف اپنی آنکھوں پر ہی نہیں ، اپنی آنکھوں ، کانوں اور ناک پر بھی فوکس کرتے ہیں۔
دوسرے کتے نے کہا ، "ہم فنون لطیفہ کے بارے میں زیادہ حساس ہوچکے ہیں۔ ہم اپنے باپ دادا سے زیادہ سر اور تال سے چاند کی طرف دیکھ کر بھونکنا چاہتے ہیں۔ پانی میں ہمارا سایہ ہمیں پہلے کی نسبت زیادہ واضح دکھائی دیتا ہے۔
تیسرے کتے نے کہا "مجھےجو چیز زیادہ پسند ہے وہ یہ ہے کہ لڑے بغیر ہم خاموشی سے بات کرتے ہیں ۔ اسی دوران ، کتوں نے دیکھا کہ کتا پکڑنے والا ان کی طرف آرہا ہے۔
تینوں کتے اچھل کر گلی میں آگئے۔ بھاگتے ہوئے ، تیسرے کتے نے کہا "خدا کا نام لو اور کسی طرح اپنی جان بچاؤ۔ تہذیب ہمارے پیچھے ہے۔
وہ تہذیبوں کا محافظ ہے۔ تصادم سے نہیں گھبراتا۔ اس نے صدیوں کی آگ ، دھوپ اور تمازت کو شدت سے محسوس کیا ہے ،وہ تاریخ ، ماضی ، سسٹم سے بھی دو دو ہاتھ کرتا ہے ،اس کے ایک ہاتھ میں ناول کی کائنات اور دوسرے میں سفر کا خزانہ ہے۔
صدیوں پر محیط ناول خس وخاشاک زمانے میں تارڑ آزادی اور غلام فضا دونوں ایام میں اسی روشنی کو تلاش کرتے رہے۔ وہ بونے تو نظر آئے۔ جو کنواں کی گہرائیوں سے نکل کر بختے کو تقسیم کا خوف دکھا رہے تھے۔ لیکن ایک تقسیم کے بعد بھی تقسیم کا سلسلہ بند کہاں ہوا۔ ہندو پاک کے ڈراﺅنے خواب سے نکل کر یہ داستان سقوط بنگلہ دیش، ایران، افغانستان، عراق کے پس منظر میں جب اپنے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں دکھاتی ہے، تو ارتقا، سائنس اور تیزی سے بھاگتی نئی دنیا کا خوف ذہن ودل پر طاری ہوتا ہے۔ تارڑ کے پاس لفظیات کا خزانہ ہے ۔ ہزاروں مثالیں، تشبیہیں ایسی ہیں جو اس سے پہلے مغرب کے کسی ناول کا حصہ بھی نہیں بنیں۔ یہاں کچھ بھی مغرب سے مستعار نہیں، یہاں داستانی رنگ ہے۔ اور ذلیل ہونے کے لیے ہماری، آپ کی خوفناک دنیا منتظر۔ اس میں صدیاں قید ہیں۔ اور صدیوں کو قلمبند کرنے کے لیے جس غیر معمولی زبان، اسلوب اور لہجے کی ضرورت تھی، تارڑ کے پاس یہ خزانہ موجود تھا۔ وہ آتش پرستی سے حجاب پیدا کرتا ہے -اسے بلخ کے کھنڈروں سے گونجتی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ ان آوازوں کا تعاقب کرتا ہے ۔ وہ کوہ طور کی تلاش میں نکلتا ہے ، افسانوں کے بھید پاتا ہے ۔ وہ بدھ کے آٹھویں نروان سے موکش چراتا ہے، عیسی کی صلیب میں صدیوں پہلے کی چیخوں کو یکجا کرتا ہے ۔غار حرا کے شگافوں سے بے چین روح کا سراغ پاتا ہے، وہ سات سمندر ، سات افلاک اور سات پرندوں میں سما جاتا ہے، یہاں عطار کا چشمہ جاری ہے .وہ وجدان اور تخلیقی ویژن سے کولاز تیار کرتا ہے۔
وہ برسوں سے ، مدتوں سے یہی کر رہا ہے ۔ میں خود سے پوچھتا ہوں،کیا تم اسے جانتے ہو ؟جواب ملتا ہے ’ زندگی کا بھید‘۔ وہ آہستہ آہستہ بھید کی گرہیں کھول رہا ہے۔
شبلی اکیڈمی کی ایک صدی کی خدمات قابل فخر،دارالمصنفین کی سو سالہ خدمات پر ویبینار منعقد
دہلی:علامہ شبلی عارف بھی تھے اور دائرۃ المعارف بھی ۔المامون کے لکھنے والے نے بیت الحکمت کی طرز پر دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کو قائم کیا ۔جس نے علمی ہمہ جہتی کو اردو میں درجہ کمال کو پہنچا دیا ۔پروفیسر اخترالواسع نے ان خیالات کا اظہار اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ’دارالمصنفین شبلی اکیڈمی :ایک صدی کا قصہ‘ کے عنوان سے منعقدہ بین الاقوامی ویب نارمیں مجلس صدارت کے ایک رکن کی حیثیت سے کیا ۔مجلس صدارت کے اراکین میں پروفیسرخالد محمود اورمولانا محمد طاہر مدنی کے نام نامی شامل ہیں ۔بین الاقوامی ویب نار میں ڈاکٹر انوار غنی(نیوزی لینڈ) بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے جبکہ جناب شکیل احمد صبرحدی نے مہمان اعزازی کے طور پر شرکت کی ۔ پروگرام کے آغاز میںقرآن پاک کی تلاوت ڈاکٹر شاہ نواز فیاص نے کی ۔نظامت کا فریضہ ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دیا ۔تکنیکی امور کی دیکھ بھال راحیل مرزانے کی ۔آرگنائزنگ صدر حکیم نازش احتشام اعظمی نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ۔
سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ آج کے ویب نار میں مصراور ایران کے دانشوروں کی شمولیت ان پر چلے آرہے شبلی کے علمی قرض کی ادائیگی کی صورت میں بھی دیکھنا چاہیے ۔ کیونکہ انھو ںنے اسکندریہ کے کتب خانے کے جلائے جانے پر جو مسکت ،مبسوط اور مدلل جواب دیا آج تک مستشرقین اس کا جواب نہیں دے سکے ۔پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ اسی طرح شعرالعجم اور موازنہ انیس و دبیر نے ایران اور فارسی زبان کو مقبول عام بنایا ۔اس موقع پر انھوں نے اکیڈمی کے مالی استحکام کے سلسلے میں جاری کوششوں کی ستائش کی اور اس کے لیے اپنے بھر پور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ۔مجلس صدارت کے رکن اور شبلی اکیڈمی کے مجلس انتظامیہ کے رکن پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ اکیڈمی سے وابستگی میرے لیے سعادت کی بات ہے ۔انھوں نے اس موقع پر کہاکہ شبلی اکیڈمی کی ایک صدی کی خدمات قابل فخر ہے اور آج ضرورت ہے کہ اکیڈمی کو مضبوط و مستحکم کیا جائے تاکہ اس کی خدمات کا سلسلہ جاری رہے ۔پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب کے فروغ و استحکام کا کوئی ذکر شبلی اکیڈمی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ۔یہ ہمارے لیے فخر اور سعادت کی بات ہوگی کہ ایک ایسے تاریخ ساز ادارے کو ہم قائم و دائم رکھیں ۔مجلس صدارت کے فاضل رکن مولانا محمد طاہر مدنی نے کہا کہ نئی نسل کو اکیڈمی کے لٹریچر سے متعارف کرانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا دیگر زبانوں خصوصاً ہندی میں ترجمہ کیا جائے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ آج کل کے حالات کے لحاظ سے ہماری کیا ضروریات اور ترجیحات ہیں اس پر بھی کام ہونا چاہیے ۔اس موقع پر انھوں نے اکیڈمی کی مالی حالت کو مستحکم کرنے کے لیے بعض عملی منصوبہ بھی پیش کیا ۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر انوار غنی نے کہاکہ اکیڈمی کی مہتم بالشان تاریخ کو قائم و دائم رکھنے کے لیے اسے معاشی طور پر مستحکم کرنا ہماری اولین ترجیح میں شامل ہونا چاہیے۔مہمان اعزازی جناب شکیل احمد صبرحدی نے کہا کہ ایک وسیع انسانی اخوت و ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہوکر اس نوع کے کام کرنے کی ضرورت ہے ،جس میں کسی طرح کی تفریق کا گذر نہ ہو ۔
بین الاقوامی ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے حکیم وسیم احمد اعظمی نے کہا کہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی سے اہم شخصیات کا والہانہ تعلق رہا ۔انھوں نے بتایا کہ طب یونانی کے حوالے سے بھی اکیڈمی کی اہم خدمات رہی ہیں،جس کا سلسلہ جاری ہے ۔ایک طرف جہاں شبلی کا تعلق طب کے دونوں خاندانوں سے رہا ہے ماہنامہ معارف نے طب یونانی کی تاریخ و تنقید اور اس کے فروغ و استحکام میں نمایاںکردار ادا کیا ۔
پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ روز اول سے معارف نے ادبیات کو اپنے یہاں خاص جگہ دی ہے ۔ ابتدا سے آج تک کے شماروں کواگر ملاحظہ کریں تو شعرو ادب کی ایک کہکشاں معلوم ہوتی ہے ۔انھوں نے اس موقع پر شبلی کی شعری عظمتوں اور لفظی و معنی رعایتوں کا خاص طور پر ذکر کیا ۔او رکہا کہ اس میں شبلی کی جسارت اور کمال دونوں پنہاں ہے ۔پروفیسر احمد القاضی (صدر شعبہ اردو ۔جامع ازہر مصر )نے عرب دنیا میں علامہ شبلی کی اہمیت اور ان کی مقبولیت کے ساتھ وہاں کی علمی دنیا سے شبلی کے روابط کا بطور خاص ذکر کیا ۔اس موقع سے انھوں نے کہا کہ جرجی زیدان کے خیالات کاعلامہ نے جس طرح جواب دیا تھا وہ علمی دنیا کا ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔اس موقع پر پروفیسر احمد القاضی نے کتب خانہ اسکندریہ سے متعلق شبلی کی تحقیق کابھی ذکر کیا اور کہا کہ شبلی نے سچ کو جس طرح اجاگر کیا ہے اس سے ان کی علم دوستی اور تحقیق سے غیر معمولی شغف کا اندازہ ہوتا ہے ۔ پروفیسر احمد محفوظ نے کہاکہ ارد تنقید کی ترویج و ترقی میں شبلی کا کارنامہ تو ہے لیکن اسی کے زیر اثر شبلی اکیڈمی اور ماہنامہ معارف میں جو بہت سے مضامین اردو تنقیدسے متعلق شائع ہوئے اردو ادب میںوہ غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔اس ضمن میں پروفیسر احمد محفوظ نے خاص طور پر کلاسیکی شعرا کے سلسلے میں جو مضامین شائع ہوئے ان کا ذکر کیا ۔انھوں نے مولانا سید سلیمان ندوی ،عبدالسلام ندوی اور مولوی عبدالحئی کی ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی تنقیدی تحریرو ں کو اردو دنیا کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
ڈ اکٹر وفا یزداں منش(شعبۂ اردو ۔یونی ورسٹی آف تہران )نے ایران میں شبلی شناسی کا ذکر تے ہوئے فارسی ادبیات میں ان کی خدمات کا احاطہ کیا ۔اس موقع پر انھوں نے شبلی کی فارسی شاعری کا بطور خاص تعارف کرایا اور کہاکہ علامہ کی فارسی شاعری نہ صرف زبان وبیان کا اعلی نمونہ ہے بلکہ مضامین اور خیال کے اعتبار سے بھی جدید فارسی شاعری کے وہ بنیاد گذار کہے جاسکتے ہیں ۔
ڈاکٹر اشہد جمال ندوی نے کہا کہ شبلی کی ایک بڑی آرزو خطہ اعظم گڑھ میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی تھی وہ اسے علم و ادب کا گہوار ہ بنانا چاہتے تھے ۔انھوں نے کہا کہ شبلی کی زندگی کاایک تابناک باب اشاعت اسلام اور حفاظت اسلام کے لیے ان کی تڑپ ہے ۔انھوں نے کہا کہ افرادی قوت،بے لوث قربانی اور ایک نئی تحریک کے ذریعے ہم شبلی کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں ۔
ڈ اکٹر سلمان فیصل نے دارالمصنفین اور متحدہ ہندوستانی قومیت کے موضوع پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک کثیراللسان اور کثیر المذاہب ملک ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوے دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کی حصولیابیوں کا جائزہ لیا جائے تو متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کو اپنانے اور اس کو باقی رکھنے میں یہ ادارہ سرفہرست ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی نے صرف اسلامی لٹریچرہی نہیں تیار کیا بلکہ ہندوستان اور ہندوستانیت کے موضوع پر بھی ایک وقیع لٹریچر علمی دنیا کے سامنے پیش کیا۔
موقع پر ڈاکٹر محمد اکرم السلام اور ڈ اکٹر جمشید احمد ندوی نے عربی زبان وادب میں علامہ شبلی اور شبلی اکیڈمی کے اختصاص کو واضح کیا اور بتایا کہ علوم اسلامیہ کا ایک بے حد وقیع خزانہ اردو زبان میں شبلی اکیڈمی کی رہین منت ہے ۔
ابتدا میں ڈاکٹر عمیر منظر نے اکیڈمی کی ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارے بزرگوں کی بے لوث خدمت نے برصغیر کو ایک ایسا ادارہ فراہم کیا جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ انھوں نے کہا بزرگوں کے اسی خلوص اور جدوجہد کو ہمیں رہنما بنا نا ہوگا ۔
ڈاکٹر فخر الاسلام اعظمی ،ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی ،پرو فیسر فہیم اختر ندوی ،(صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز مانو )پروفیسر خالد ندیم ،ڈ اکٹر امتیاز وحید(کولکتہ)،جناب ابو اسامہ(حیدر آباد ،ڈاکٹر فیصل اقبال (حیدرآباد)،جناب حسان احمد،جناب زبیر احمد فاروقی (کان پور)اویس سنبھلی ،(لکھنؤ)ڈاکٹر ابو ذر متین (علی گڑھ)،ڈ اکٹر انصار احمد (کشمیر)ساجد ذکی ،ڈ اکٹر مقیم احمد (دلی )،ڈاکٹر محمد صفوان صفوی (بہار)،ڈاکٹر شاداب عالم(اڑیسہ) ،ڈکٹر انتظار احمد (بھوپال )ڈ اکٹر بلال اصلاحی ،نوشاد انصاری (نجیب آباد )ڈاکٹر شاہ نواز عالم خاں،مولانا عبید اللہ طاہر مدنی ،جناب طاہر جمال ،ڈاکٹر عبید الرحمن وغیرہ نے شرکت کی ۔
ڈاکٹر صادقہ ذکی نے یکسوئی کے ساتھ علم و ادب اور جامعہ سے اپنا رشتہ قائم رکھا:پروفیسر شہزاد انجم
شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام تعزیتی نشست کا انعقاد
دہلی:شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سابق استاد ڈاکٹر صادقہ ذکی کے سانحۂ ارتحال پر صدرِ شعبہ پروفیسر شہزاد انجم کی صدارت میں آن لائن تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ انھوں نے مرحومہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے ان کی علمی و ادبی تصانیف کے حوالے سے کہا کہ پروفیسر محمد مجیب پر انھوں نے نہایت عمدہ تحقیقی کتاب لکھی ہے۔ وہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی شاگرد تھیں اور انھوں نے نہایت یکسوئی اور دیانت کے ساتھ علم و ادب اور جامعہ سے اپنا قلبی و ذہنی رشتہ وابستہ رکھا۔ جلسے کو خطاب کرتے ہوئے پروفیسر قاضی عبید الرحمٰن ہاشمی نے کہا کہ ڈاکٹر صادقہ ذکی ایک مثالی استاد، خوش سلیقہ منتظم، عمدہ ادیب و مصنف اور اعلیٰ سیرت کی مالک خاتون تھیں۔ پروفیسر شہناز انجم نے کہا کہ مرحومہ نہایت نرم مزاج، مشفق، شائستہ اور خورد نواز تھیں۔ پروفیسر خالد محمود نے بتایا کہ صادقہ ذکی کی سات کتابیں شائع ہوئیں۔ وہ بہت مذہب پسند اور اعلیٰ علمی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔ پروفیسر وہاج الدین علوی نے کہا کہ ان کی فیاضی اور کشادہ قلبی ناقابلِ فراموش ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے صادقہ ذکی کی سیرت و اخلاق، سنجیدگی اور ذمہ دارانہ رویوں کے حوالے سے انھیں یاد کیا۔ پروفیسر شہپر رسول نے انھیں نہایت نفیس طبع، خوش شکل، خوش لباس، خوش خلق اور خوش اسلوبی سے طلبا کی تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کو انجام دینے والی خاتون قرار دیا۔ پروفیسر احمد محفوظ نے ان کے حوالے سے اپنی خوشگوار یادوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موجودگی سے محفلوں میں ایک خاص قسم کی مہذب فضا برقرار رہتی تھی۔ پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ ڈاکٹر صادقہ ذکی ایک ایسی باوقار خاتون تھیں جن کی وجہ سے شعبے میں ایک اعتدال قائم ہوا۔ ایسی خواتین کا کسی بھی تعلیمی شعبے میں ہونا بہت ضروری ہے۔ پروفیسر عبدالرشید نے ان کی نیکیوں کا ذکر کرتے ہوئے بہترین اخروی زندگی کی دعا کی۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے بحیثیت طالب علم اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈم بہت شفیق تھیں، طلبا کی سچی ہمدرد تھیں اور تدریسی و تربیتی سرگرمیوں میں منہمک رہتی تھیں۔
اس کے علاوہ شعبے کے دیگر اساتذہ نے بھی ڈاکٹر صادقہ ذکی کی شخصیت، سیرت اور علمی و ادبی خدمات کو یاد کرتے ہوئے ان کے سانحۂ ارتحال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور خراجِ عقیدت پیش کیا۔ نشست کا آغاز ڈاکٹر شاہنواز فیاض کی تلاوت اوراختتام ڈاکٹر صادقہ ذکی کے لیے دعائے مغفرت پر ہوا۔
پروفیسر انوار الحق تبسم،اورینٹل کالج پٹنہ،پاٹلی پتر یونیورسٹی پٹنہ سے بحیثیت پروفیسر ریٹائرڈ ہیں، آپ تقریبا نصف صدی تک تاریخ کے کامیاب استاد رہ کر پروفیسر اور شعبہ تواریخ کی کے صدر کی حیثیت سے ۲۰۱۸ میں سبکدوش ہوئے ہیں۔
سیمانچل کے مختلف دبے کچلے طبقوں کو سر بلند کرنے میں بھی آپ کے قلم و زبان کا بہت اہم رول رہا ہے ۔ کلہیا ، سرجاپوری، سیکھڑا، شیر شاہ بادی جیسی برادریوں کو ریزرویشن دلانے میں یہاں کے مختلف سیاسی لیڈروں اور سماجی کارکنوں کے ساتھ آپ نے بھی کافی تگ و دو کی ، اور ایک لمبے عرصے تک آپ کلہیا تحریک کے رہنما بھی رہے ہیں ۔
پروفیسر انوارالحق تبسم اگرچہ تاریخ کے پروفیسر کی حیثیت ہمیشہ پہچانے جاتے رہے ہیں،مگر
آپ نے ادب، سیاست، سماج، مذہب اور لسانیات پر بھی اچھا خاصہ کام کیا ہے ۔
انہیں اردو ، ہندی ، انگریزی ، فارسی چار زبانوں پر قدرت ہے، اظہار بیان کا ذریعہ بھی چاروں زبانیں ہیں اور ان کے مضامین و مقالات بھی تقریبا چاروں زبانوں میں موجود ہیں۔
پروفیسر تبسم صاحب چونکہ شعبہ تاریخ سے وابستہ رہے ہیں اس لیے آپ کی طبیعت پر تحقیق و جستجو اور بحث و تمحیص کا عنصر غالب ہے۔
"اوراق پارینہ” ان کے گیارہ تحقیقی، تبصراتی اور تجزیاتی مقالات کا دستاویزی مجموعہ ہے ۔
کتاب میں شامل پہلا مقالہ ” پورنیہ صدیوں کی تاریخ کے آئینے میں” کے نام سے ہے ، اس مقالے میں موجودہ پورنیہ (پورنیہ، ارریہ ، کشن گنج ) اور سابقہ لکھنوتی کی سیاسی ، سماجی، ادبی، ثقافتی، لسانی اور جغرافیائی حقائق اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پورنیہ کمشنری کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے، اس سرزمین کو بہت سی مذہبی شخصیات کی مہمان نوازی کا شرف حاصل رہاہے، پانڈؤوں کو بن باس کے زمانے میں یہیں پناہ ملی اورمہاتما گوتم بدھ نے تین مہینے تک یہاں قیام کیا، اس سرزمین کو یہ بھی امتیاز حاصل ہے کہ دہلی سلطنت سے پہلے یہاں مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہوچکی تھی، کسی زمانے میں پورنیہ 6340 مربع میل پر پھیلا ہوا تھا اب کٹنے چھٹنے اور گھٹنے کے بعد 795 مربع میل پر محیط ہے، اس کے حالات و واقعات کا احاطہ چند صفحات میں مالہ وماعلیہ ناممکن ہے ، تاہم انہوں نے ایک حد تک سمندر کو کوزے میں سمونے کی کوشش کی ہے ۔
کتاب کا دوسرا مقالہ مشہور ماہر ہندوستانیات ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی کی ” کتاب الہند” کے تجزیہ اور تعارف پر مبنی ہے ، یہ مقالہ خاصی معلوماتی اور تحقیقی ہے ،ہندوستان کے عوام کے مزاج ، مذاق ، مذاہب ، عقائد، رسومات ، رواج، تہوار، میلے ، حدود ، قیود ، خوش فہمی، کج روی ، دوسروں کو دیکھنے کا نظریہ ، دوسری ذات برادری کے بارے میں سوچ و فکر ، علمی سطح ، اور ریاضی و سائنس سے لگاؤ وغیرہ ان تمام چیزوں کو سمجھنے کے لیے البیرونی کا سفرنامہ ہند موسوم بہ” کتاب الہند یا تحقیق ماللہند” کا مطالعہ ضروری ہے، چونکہ ہندوستانیات میں بیرونی کو امام کا درجہ حاصل ہے، اور البیرونی کو سمجھنے اور پڑھنے کے لیے پروفیسر انوارالحق تبسم کا یہ مقالہ کافی حد تک معاون ثابت ہو گا ۔
کتاب کا تیسرا مقالہ "امیر خسرو کثیر الجہت ہندوستانی ثقافت کا استعارہ” کے عنوان سے ہے ، اس مقالے میں امیر خسرو کا خاندانی پس منظر، درباروں سے ان کی وابستگی، خواجہ نطام الدین اولیاء سے عقیدت و وارفتگی، بنگالہ، دہلی اور ملتان میں قیام کا دورانیہ ، دہلی سے محبت ، حب الوطنی ، فن موسیقی میں کمال درک ، فارسی ، برج بھاشا، سنسکرت اور اردو میں شاعری، اور تصانیف پر مبنی ہے ۔ یہ مضمون بھی کافی دلچسپی لیے ہوئے ہےـ
مغلوں کی آمد سے ہندوستان نے جہاں دوسرے شعبوں میں ترقی کی ، وہیں تعمیرات کے شعبے میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا ، آج آگرہ کے تاج کو دنیا کا ساتواں عجوبہ کہلانے کا شرف حاصل ہے ، اور ہندوستان میں موجودہ وقت جتنی یادگار عمارتیں موجود ہیں ، اکثر مغلوں کی تعمیر کردہ ہیں ، اس کتاب میں ایک مضمون ” ہندوستان میں عہد مغلیہ کی تعمیرات کا جائزہ ” کے عنوان سے بھی ہے ، اس مضمون کے مطالعے سے اجمالی طور پر مغل حکمرانوں کی مشغولیتوں،دلچسپیوں ، تعمیراتی ذوق اور ان کے سنین حکومت سے آگہی ہوتی ہے ۔
جنگ آزادی کی جدوجہد کے باب میں خاندان صادق پور اور سرزمین عظیم آباد کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں،جنگ آزادی کی تحریک سے پہلے ہی اس خاندان نے سید احمد شہید بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کی تحریک میں شمولیت اختیار کر کئی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا تھا، بالاکوٹ کی جنگ کے بعد اس خاندان نے تقریبا پچاس سالوں تک ملک کی آزادی کے لیے جان توڑ محنت کی جس کے نتیجے میں اس خاندان کے کئی مجاہدین کو کالے پانی کی سزا دی گئی، جائیدادیں قرقی کی گئیں ،دار پر چڑھایا گیا اور گھروں کو بلڈوزروں سے منہدم کردیا گیا ، کتاب کا پانچواں مقالہ انہی مجاہدین کے نام ہے ،اس مقالے میں یہ بھی خلاصہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان کی وہابی تحریک اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کی وہابی تحریک میں کتنا فرق ہے ؟ اور دونوں ایک ہیں یا الگ الگ ؟
اس تحریک کو محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک سے جوڑنے کے پیچھے انگریزوں کی کیا چال کارفرما تھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ آزادی کے کئی ہیرو گمنامی کی نذر ہوگئے اور کئی مجاہدین کو دیدہ و دانستہ نظر انداز کردیا گیا ، جن کے نام تک لوگوں کو یاد نہیں ، ان کے کارناموں کو یاد رکھنا تو دور کی بات ہے ، انہی گمنام مجاہدین میں سے ایک پیر علی خان بھی ہیں ، جو نسلا لکھنوی تھے تجارت کی غرض سے پٹنہ آئے ، علمائے صادق پور کے ساتھ جدو جہد آزادی میں شریک ہوگئے اور اپنا سب کچھ قربان کرکے خود بھی بھی دیس پر قربان ہوگئے،ایک گوشہ ان پر بھی ہے ـ
پروفیسر حسن عسکری ، پروفیسر یوگیندرمشرا اور پروفیسر قیام الدین تینوں ان کے استاد ہیں ، تینوں تاریخ کے ماہر بھی ہیں اور تینوں کی تاریخی خدمات ناقابل فراموش ہیں ، اور کمال یہ ہے کہ تینوں کو جیتے جی ہی ہردلعزیزی حاصل ہوگئی تھی، چناں چہ!! تینوں پر درجنوں تحقیقی مقالے لکھے گئےاور اب بھی لکھے جارہے ہیں، تاہم پروفیسر یوگیندر مشرا کثیر الکتب اور شویت پور کی کھوج کی وجہ سے ایک اہم مقام رکھتے ہیں ۔ کتاب میں ایک ایک مقالہ تینوں پر ہے،یہ تینوں مقالات زیادہ تر تبصراتی اور تأثراتی ہیں مگر خاصہ معلوماتی بھی ہیں۔
کتاب کا آخری مقالہ ان کے دادا حیدر علی رحمانی کے احوال و آثار ، خوشنما یادوں، کارناموں، خوبیوں اور کوششوں اور قوم و ملت کے تئیں ان کی سوچ و فکر پر مبنی ہے ، ۔
مضمون نگاروں ، قلم کاروں اور ریسرچ اسکالروں کا عام رویہ یہ ہے کہ وہ حکمرانوں اور حاکموں کے حالات و واقعات، پسند و ناپسند، کامیابیاں و ناکامیاں، حصولیابیاں اور نقصانات ، حکمرانی کے مثبت و منفی پہلو وغیرہ پر تو خوب لکھتے ، پڑھتے، بولتے سنتے اور تبادلہ خیال کرتے ہیں مگر ان کے عوام اور رعایا کی زندگیوں کے حالات ، مسائل ، واقعات ، دلچسپیاں، محصولات و محرومیاں اور سماج و معاشرہ اور قوم و ملک کے تئیں ان کی سوچ و فکر وغیرہ کو بہت کم موضوع بحث بناتے ہیں ،انوار الحق تبسم کا امتیاز یہ ہے کہ وہ عوام کے مزاج و مذاق ، حالات و واقعات کو تحریر کا حصہ بناتے ہیں ، ان کے بہت سے مضامین ہندی اور انگریزی میں اس پر ملتے ہیں ۔
آخر الذکر مضمون اگرچہ اپنے دادا کی زندگی پر مبنی ہے ، مگر اس سے یہ اندازہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے کہ ہوتی کہ ایک دور افتاد گاؤں کا ایک بوڑھا کسان سماج کے لیے کیا کیا سوچتا ہے ، اور کیا کیا کرتا ہے،۔
کتاب ۲۲۸ صفحات پر مشتمل ہے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہوئی ہے، کتاب کا ٹائٹل واجبی اور اوراق ٹھیک ٹھاک سے ہیں ۔ سرورق پر بطور اشارہ مضامین میں ذکر کردہ شخصیات و اشیاء کی تصویریں بھی درج ہیں ۔
کتاب میں خوبیوں کے ساتھ کچھ خامیاں بھی ڈر آئی ہیں ، دونوں جگہ مذکر کو مونث استعمال کردیا گیا، کچھ جگہوں پر جملوں کی ترکیبیں غلط ہوگئی ہیں اگرچہ یہ بہت کم ہیں مگر پھر بھی ہیں۔
کتاب کئی اعتبار سے قابل استفادہ ہے کہ مصنف ضخامت کے چکر میں نہیں پڑتے ، بلکہ مفید مشمولات کے ذریعے قارئین کو اپنی جانب متوجہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر تاریخی مضامین ہونے کے باوجود قاری اوبتا نہیں بلکہ معلومات کی تہوں میں ڈوب جاتا ہے ،غیر ضروری مباحث سے حتی الامکان گریز کی وجہ سے یہ کتاب قابل مطالعہ ہے ۔
این ڈی ٹی وی انڈیا کے اینکر اور سینئر صحافی رویش کمار نے بہت پہلے اپنے ایک پروگرام میں ناظرین سے اپیل کی تھی کہ وہ ٹی وی دیکھنا بند کر دیں ورنہ وہ ان کو اور ان کے بچوں کو قاتل بنا دے گا۔ انھوں نے یہ اپیل نیوز چینلوں پر ہونے والی ہندو مسلم ڈبیٹ کے تناظر میں کہی تھی جس کے توسط سے پورے ملک میں مذہبی انتہاپسندی پیدا کی جا رہی ہے اور عدم برداشت کو ہوا دی جا رہی ہے۔ ان کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی۔ اس ٹی وی ڈبیٹ نے کانگریس پارٹی کے ایک ہونہار اور سنجیدہ ترجمان راجیو تیاگی کی جان لے لی۔ اگلی باری کس کی ہے بس اس کا انتظار کیجیے۔
راجیو تیاگی کی موت نیوز چینل آج تک کے ایک پروگرام ”دنگل“ کے دوران ہوئی۔ ڈبیٹ کے دوران بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا راجیو تیاگی پر بار بار مصنوعی ہندو ہونے کا الزام لگا رہے تھے اور ان کی پیشانی پر لگے ٹیکے کا مذاق اڑا رہے تھے اور انھیں جے چند سے تشبیہ دے رہے تھے۔ ڈبیٹ کے دوران ہی ان پر دل کا دورہ پڑا۔ انھوں نے سینے پر ایک بار اپنا ہاتھ رکھا اور پھر کیمرے کے فریم سے ذرا آگے آگئے۔ ڈبیٹ ختم ہوتے ہی انھوں نے اپنی بیوی کو آواز دی اور کہا کہ ان لوگوں نے مجھے مار دیا۔ اس کے بعد وہ گر گئے۔ اسپتال لے جائے گئے جہاں انھیں مردہ قرار دے دیا گیا۔
میں اس مضمون میں ٹی وی ڈبیٹس کی شکل و صورت اور اس کے خطرناک عواقب و نتائج پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ جب ہندوستان میں پرائیویٹ نیوز چینلوں کا دور نہیں آیا تھا اور صرف سرکاری دور درشن ہی واحد چینل تھا تو اس وقت عوام میں اتنی نفرت نہیں تھی اور نہ ہی لوگوں میں عدم برداشت یا عدم رواداری کا کوئی برا جذبہ پیدا ہوا تھا۔
اس کے بعد جب پرائیویٹ نیوز چینلوں کا دور شروع ہوا تو کئی برسوں تک ان چینلوں نے انتہائی مثبت رول ادا کیا۔ پورے ملک میں ہر چینل کے رپورٹر ہوتے تھے جو حالات و واقعات کی رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ وہ ملک کی زمینی سچائیوں سے اپنے ناظرین کو باخبر کرتے اور اس کے ساتھ ہی ملک کی سیاسی فضا اور سیاسی واقعات کے بارے میں انتہائی معروضی انداز میں پروگرام پیش کرتے تھے۔ کم از کم 2014 تک تو کم و بیش یہی صورت حال رہی۔ لیکن 2014 میں جب مرکزی اقتدار کی تبدیلی ہوئی تو صرف حکومت ہی نہیں بدلی بلکہ بہت کچھ بدل گیا۔
آر ایس ایس کے نظریات کو فروغ دینے اور حکومت کی خوشامد کا ایک نیا کلچر شروع ہو گیا جس کے تحت نیوز چینلوں کی رپورٹنگ کا انداز بدل گیا۔ بیشتر چینلوں نے فیلڈ سے اپنے بیشتر رپورٹر ہٹا لیے۔ صرف ضروری واقعات کی رپورٹنگ کے لیے رپورٹروں کی خدمات حاصل کی جانے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی اسٹوڈیو میں مباحثے یا ڈبیٹ کی ایک نئی روایت شروع ہو گئی۔ مباحثے پہلے بھی ہوتے تھے لیکن انتہائی معیاری اور سنجیدہ ہوتے تھے۔ بد کلامی، گالی گلوج اور بد تہذیبی کا مظاہرہ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ایک تو حکومت کی ہر چیز پر اپنا کنٹرول رکھنے کی پالیسی اور دوسرے میڈیا اداروں کی بوجوہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کی روش نے سب کچھ تلپٹ کر دیا۔
رفتہ رفتہ ان مباحثوں کو ایک خاص رنگ دیا جانے لگا۔ ایسا رنگ جو برسراقتدار طبقے کو سوٹ اور اپوزیشن کو بدنام کرے۔ اس کے لیے حکومت کی جانب سے چینلوں کے مالکوں کو ہدایات دی جانے لگیں اور ایک خاص رنگ کی ڈبیٹ کو پروان چڑھانے کا حکم دیا جانے لگا۔ بتایا جاتا ہے کہ صبح کے وقت ہی یہ طے ہو جاتا ہے کہ شام کے پرائم ٹائم میں کس موضوع پر بحث کرانی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی طے ہو جاتا ہے کہ کس کس کو اس بحث میں بلانا ہے اور ان سے کیا کیا بلوانا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کے کارندوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
اس قبیح روایت کے شروع ہوتے ہی نیوز چینلوں میں مقابلہ آرائی بھی شروع ہو گئی اور اینکروں میں اس کا مقابلہ ہونے لگا کہ کون کتنی بد تمیزی کر سکتا ہے اور کون کس کی دستار اتار سکتا ہے اور پگڑی اچھال سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک خاص طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ کل چار پانچ افراد کو بحث میں بلایا جاتا ہے۔ جن میں ایک برسراقتدار جماعت کا ترجمان یا نمائندہ ہوتا ہے۔ ایک آر ایس ایس کا نمائندہ یا اس کا وچارک یا نظریہ ساز ہوتا ہے۔ ایک اپوزیشن کا کوئی آدمی ہوتا ہے اور ایک نام نہاد غیر جانبدار تجزیہ کار ہوتا ہے۔
بحث شروع ہوتے ہی چیخم دھاڑ کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔ حکومت اور آر ایس ایس کے نمائندے اپوزیشن کے نمائندے پر چڑھ بیٹھتے ہیں۔ وہ سارے لوگ اسی سے سوال کرتے ہیں مگر اسے جواب نہیں دینے دیتے۔ جب وہ اپنے جواب سے مخالفین کو قائل کرنے لگتا ہے تو اینکر بیچ میں کود پڑتا ہے اور حکومت کی نمائندگی کا فریضہ ادا کرنے لگتا ہے۔ اگر اس پر بھی اپوزیشن کی آواز بند نہیں ہوتی تو اس کے مائک کا وولیوم کم کر دیا جاتا ہے اور اس پر بھی بس نہیں کیا جاتا بلکہ اچانک اینکر کو یاد آتا ہے کہ اسے تو بریک لینا ہے۔ اور پھر وہ بریک لے لیتا ہے اور اس طرح اپوزیشن کی آواز کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
دراصل اینکر کے کان میں ایک لیڈ لگی ہوتی ہے جس کے ذریعے اسے ہدایات ملتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب اپوزیشن کا نمائندہ حاوی ہونے لگتا ہے تو اینکر کے کان میں کہا جاتا ہے کہ اسے ٹھونک دو ورنہ تمھیں ٹھونک دیا جائے گا۔ پھر کیا؟ اینکر اپنی نوکری بچانے کے لیے تہذیب و شائستگی کی تمام حدود پھلانگ جاتا ہے اور اس طرح حکومت کا موقف حاوی ہو جاتا ہے یا حکومت کی پالیسیوں کو بحث میں برتری حاصل ہو جاتی ہے۔ اینکر چیختا چلاتا ہے اور اپنے حریف سے جواب مانگتا ہے مگر اسے جواب نہیں دینے دیتا۔ وہ اپنی بات کو ملک کی بات کہنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ ملک جاننا چاہتا ہے، نیشن جاننا چاہتا ہے۔ گویا اینکر کا سوال نیشن یا پورے ملک کا سوال بن جاتا ہے۔ اس طرح اس بحث کو جو کہ سنجیدگی کے ساتھ ہو سکتی تھی اکھاڑے کی کشتی میں بدل دیا جاتا ہے۔
ڈبیٹ کے عنوان سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ بحث کو کس رخ پر لے جانا ہے۔ مثال کے طور پر جس ڈبیٹ کے دوران راجیو تیاگی پر دل کا دورہ پڑا اس کا نام ہی ”دنگل“ ہے۔ دنگل اکھاڑے میں ہوتا ہے لیکن ان نیوز چینلوں نے اپنے اسٹوڈیو کو ہی اکھاڑہ بنا دیا ہے۔ ہاں جو نام نہاد غیر جانبدار تجزیہ کار ہوتا ہے اسے بھی اسی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بحث میں جانے سے قبل اس کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اسے کیا بولنا ہے اور کیسے بولنا ہے اور کس کی حمایت یا کس کی مخالفت کرنی ہے۔ گویا کہنے کو تو وہ غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن حقیقتاً اسے بھی حکومت یا چینل کا نمائندہ بنا دیا جاتا ہے۔
بحث کے دوران بدکلامی تو دور رہی گالی گلوج تک کی جاتی ہے اور مار پیٹ بھی ہو جاتی ہے۔ ایک سابق فوجی افسر ہیں جو کہ ڈبیٹ میں بڑے جوش خروش سے شرکت کرتے ہیں اور خود کو ایسا پکا دیش بھکت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑا دیش بھکت کوئی نہیں ہے۔ انھوں نے ایک ڈبیٹ کے دوران ایک پینلسٹ کو ماں کی گالی تک دے دی لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اینکر پینلسٹ کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے تک کے لیے اکساتے ہیں اور اسٹوڈیو میں مار پیٹ تک کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔
ان چینلوں پر زیادہ تر جذباتی ایشوز پر بحث کرائی جاتی ہے اور ان میں اقلیتوں کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف ایک ایسا ماحول بنایا جاتا ہے جس کا اثر عوام پر پڑنا لازمی ہوتا ہے۔ ان پروگراموں میں جھوٹ کی رسی بٹی جاتی ہے اور بے بنیاد الزامات کے طومار باندھے جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پاکستان یا چین کے موضوع پر بحث کے دوران تو اینکر فوجی بن جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بس اب جنگ ہونے والی ہے۔ ان لوگوں کا بس چلے تو ابھی جنگ کروا دیں۔
ان ٹی وی ڈبیٹس کے نتیجے میں سماج میں فرقہ واریت کا زہر پھیل گیا ہے اور آدمی آدمی سے نفرت کرنے لگا ہے۔ موب لنچنگ ہو یا فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات، یہ ڈبیٹس ایسی خطرناک اور تباہ کن چیزوں کی حوصلہ افزائی اور یہاں تک کہ ان کی عزت افزائی بھی کرتی ہیں۔ ان مباحثوں نے سماج کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان کا اثر بھولے بھالے عوام پر بھی پڑتا ہے اور ان کے دل و دماغ میں زہر پیوست کرتا جا رہا ہے۔ نیوز چینلوں پر دکھائی جانے والی رپورٹوں کا کتنا اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کے ایک بڑے طبقے نے یہ بات قبول کر لی تھی کہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کی وجہ سے ہندوستان میں کرونا وائرس پھیلا ہے۔ حالانکہ اب مندروں اور دوسری جگہوں پر بھی بڑی تعداد میں لوگ کرونا کے مریض ہو رہے ہیں لیکن ان کے خلاف پروپیگنڈہ نہیں کیا جاتا۔ اگر رام مندر ٹرسٹ کے صدر نرتیہ گوپال داس کے بجائے کسی مسجد کے ٹرسٹ کے صدر کو کرونا ہوا ہوتا تو اب تک آسمان سر پر اٹھا لیا گیا ہوتا اور اس کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کیا جاتا۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی رام مندر کی تقریب سنگ بنیاد میں شرکت کرنے والوں کے سلسلے میں کوئی جملہ ادا کرے۔
بہر حال یہ ٹی وی ڈبیٹس سماج کو تو بانٹ ہی رہی ہیں اب جان بھی لینے لگی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی قاتل ڈبیٹس پر مکمل طور پر پابندی عاید کی جائے۔ اظہار خیال اور میڈیا کی آزادی کے نام پر اس خطرناک کھیل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اگر ان پر پابندی لگانا ممکن نہ ہو تو جیسا کہ کانگریس کے ایک لیڈر شیر گل نے مطالبہ کیا ہے، ان کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے رہنما ہدایات جاری کی جائیں۔ جو نیوز چینل ان ہدایات کی خلاف ورزی کریں ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا ان ڈبیٹس کے نتیجے میں ملک میں آگ لگی رہے گی اور لوگوں کا چین و سکون غارت ہوتا رہے گا۔
ہمارے علاقے میں تعمیر شدہ زیر زمین حویلی کے بڑے چرچے تھے ، دور دور تک اس کی شہرت کے جھنڈے گڑے ہوئے تھے، جو سنتا دیکھنے کی آرزو کرتا ، جو دیکھتا اس میں داخلے کی کوشش کرتا اور یہ حویلی تھی کہ سب کے لئے ایک راز بنی ہوئی تھی ، میں بھی کئی بار جان ہتھیلی پر رکھ کر داخلے کی ناکام کوشش کر چکا تھا، پھر ایک روز اس خاموش طبع چیونٹی سے ہماری ملاقات ہوئی جو اس پراسرار حویلی کے درودیوار سے واقف تھی ، میری دیرینہ خواہش کی تکمیل سے پہلے وہ مجھ سے ایک وعدہ لینا چاہتی تھی ، میں نے حامی بھرتے ہوئے مدعا بیان کرنے کی درخواست کی تو وہ یوں لب کشا ہوئی ” تم ایک مصنف ہو اور ایرے غیرے نتھو خیرے اور نہ جانے کس کس پر اپنا قیمتی قلم آزماتے رہتے ہو ، کیا تم میری کہانی بھی کاغذ پر اتار سکتے ہو، میں گوشۂ گمنامی میں پڑی ہوئی غمزدہ قوم کی ایک ادنی فرد ہوں ، ہماری عزت تو درکنار سب ہمیں حقیر فقیر سراپا تقصیر تصور کرتے ہیں ۔”
میں نے اس کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا ، تم خاطر جمع رکھو میں بھی تمھاری طرح ایک چھوٹا سا انسان ہوں جیسا کہ میرے نام سے بھی ظاہر ہے، میں تمھاری روداد زندگی ضرور قلمبند کرونگا ، اس نے رخصت ہوتے ہوئے مجھ سے کہا ’ ٹھیک ہے تم صحیح وقت کا انتظار کرو ، جیسے ہی اندر جانے کا راستہ صاف ہوگا میں تمھیں مطلع کردوں گی‘۔
وہ ہمیشہ برق رفتار یوں مصروف کار نظر آتی گویا کہ اس کارخانۂ ہستی کا تمام بوجھ اسی کے کمزور کاندھوں پر رکھ دیا گیا ہو ، وہ حصول مقاصد کے لئے کبھی تنہا اور کبھی ہم جولیوں کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں نظر آتی ، وہ راستہ روکنے والے منچلوں سے الجھنا ضیاع وقت تصور کرتے ہوئے ہمیشہ اپنا راستہ بدل لیا کرتی تھی اور یوں اس کا یہ سفر بغیر کسی رکاوٹ کے کسی بہتے ہوئے دریا کی طرح جاری رہتا ۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ جس کے ہم منتظر تھے ، اشارہ ملتے ہی ہم اپنے رازدار کے ساتھ حویلی کی جانب چل پڑے۔ یونہی چلتے چلتے اس نے حویلی کے کچھ اصول اور ضابطے بھی ذہن نشیں کرائے:
” حویلی کے اندر کا ماحول حیرت انگیز طور پر بہت نازک ہے وہاں زبان تک ہلانا باعث ندامت ہوگی ، کسی بھی شے کو ہاتھ لگانا موت کو دعوت دینا جیسا ہوگا ، اندر کسی سے ملاقات کی اجازت نہیں ہے ، لہذا بہتر ہوگا کہ وہاں کی ہر چیز سے ایک فاصلہ رکھا جائے‘‘۔ تمام اصول میرے ہوش اڑانے کے لئے کافی تھے لیکن حویلی کے پراسرار ماحول کے دیدار کے لئے میں ہر اصول پر چلنے کے لئے تیار تھا۔
کچھ دیر کی مسافت کے بعد ہمیں قرینے اور سلیقے سے بنے ہوئے کچھ کمرے نظر آئے وہاں جو مخلوق تھی وہ گردو پیش کے ماحول سے بے خبر اپنے کام میں مصروف تھی، پھر کچھ بڑے ہالوں نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ، وہاں ایک ہال میں دائرہ نما کوئی چیز بڑی تعداد میں رکھی ہوئی تھی اور دوسرے ہالوں میں چینی چاول اور دوسرے غلے کا ذخیرہ رکھا گیا تھا لیکن زیادہ تر اناج کے دانے ٹوٹے ہوئے تھے۔ حویلی سے واپسی پر میں نے اس سے پوچھا، اے نیک باطن چیونٹی میں تمھاری سحر انگیز دنیا سے واقف ہوچکا ہوں اب اگر تمھاری اجازت ہو تو کچھ سوالات کے لئے اپنی زبان کھولوں ، اس نے کہا جی ضرور اب تمھیں اجازت ہے ، اچھا تو یہ بتاؤ کہ کمرے میں رکھی ہوئی وہ گول گول چیز کیا تھی،اس نے جواب دیا ، وہ ہمارے انڈے تھے یعنی ہمارا مستقبل اور ہم اپنے مستقبل کی حفاظت کرنا خوب جانتے ہیں ۔
تم اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت کن امور کا خاص خیال رکھتی ہو ، اس نے جواب دیا ” ہم انھیں متحد ہوکر اتفاق اور پیار محبت سے رہنا سکھاتے ہیں کیونکہ اتحاد میں طاقت ہے اور طاقت میں حفاظت ہے ، پھر ہم انھیں اپنے گھر کا راستہ یاد کراتے ہیں تاکہ باہر کا ماحول بگڑنے پر وہ جلد از جلد گھر پہنچ سکیں،پھر میں نے اس سے دریافت کیا ، وہ غلے کا انبار جو تم نے ہالوں میں لگا رکھا ہے وہ سب ٹوٹا ہوا کیوں ہے ؟ اس نے جواب دیا اگر ہم اسے توڑ کر نہ رکھیں تو اس میں کونپلیں پھوٹ کر پودے کی شکل اختیار کرلیں گے اور پودے ہمارے گھر کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں، اس کی بات سن کر میرا منہ حیرت و استعجاب سے کھلا کا کھلا رہ گیا ، کہاں یہ ننھی جان اور کہاں عقل و خرد کی اڑان ، اس کی دور اندیشی کا میں قائل ہوگیا ۔
مجھ پر خاموشی اور حیرت کے ملے جلے اثرات دیکھ کر اس نے مجھے اپنا وعدہ یاد دلایا، میں اپنا وعدہ وفا کرچکی ہوں اب تمھاری باری ہے۔
در اصل وہ علامہ اقبال کے دو شعروں سے بڑی بے چین تھی ، وہ شعر چیونٹی اور عقاب کے درمیان ہونے والے مکالمے پر مشتمل تھے ، جو کچھ اس طرح تھے:
چیونٹی نے کہا:
میں پائمال و خوار و پریشان و دردمند
تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند
عقاب نے کہا :
تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاک راہ میں
میں نہ سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں
اس نے گھٹی گھٹی آواز میں مجھے مخاطب کیا ، اے مصنف کچھ تو ہی فیصلہ کر مجھے پائمال یعنی روندا ہوا سمجھا گیا ، مجھے آوارہ ذلیل و خوار کہا گیا جبکہ ہماری پوری قوم بوقت ضرورت گھر سے نکلتی ہے اور آوارہ گردی کو گناہ تصور کرتی ہے ، کیا ہم اپنے رزق کے لئے صرف خاک چھانتے ہیں، اس نے قریب قریب روتے ہوئے کہا ہماری قوم پوری ایمانداری کے ساتھ تلاش رزق میں گھر سے نکل کر در در بھٹکتی ہے ، کبھی کبھی یہ رزق بغیر محنت کے ہمارے دروازے پر ہی عطا کردیتا ہے اور کبھی کبھی بڑی جدوجہد کے بعد حاصل ہوتا ہے ، ہم سائل بن کر لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے اور نہ ہی تلاش رزق میں محنت و مشقت سے گھبراتے ہیں ۔
پر اشک ننھے فریادی کو سمجھاتے ہوئے ہم نے اس سے کہا :
تم علامہ اقبال کی بات کر رہی ہو ، آہ ، وہ پوری زندگی تم جیسی چھوٹی چھوٹی مخلوق میں زندگی کے اصول تلاش کرتا رہا ، اس کا مقصد تمھاری اہانت بالکل نہیں ہے وہ تمھاری مثال دے کر اخلاق و کردار سے گرے ہوئے مغرب زدہ بے دین مسلمانوں کو ان کی عظمت یاد دلا کر انھیں صراط مستقیم پر لانا چاہتے ہیں، انھوں نے مکڑا اور مکھی ، ایک پہاڑ اور گلہری ، ایک گائے اور بکری جیسی نظموں کے توسط سے چاپلوسی ، خود غرضی، خود پرستی ، خود نمائی جیسی معاشرے میں پھیلی ہوئی بیماریوں کو اجاگر کیا ہے، اخلاق و آداب، ہمدردی ، خدمت خلق ، بزرگوں کا احترام ، اللہ کی مرضی و مشیت اور نہ جانے کون کون سے اصلاحی موضوعات کو اپنے کلام کا موضوع بنایا ہے ، رہی بات تمھاری عزت و احترام کی تو تم خاک نشیں ہوتے ہوئے بلند خیال ہو ، جسمانی طور سے تم صرف ایک چیونٹی ہو لیکن عقل و خردکی بات ہو تو تم پہاڑ کی ایک چوٹی ہو ، تم دیکھنے میں ضرور کمتر ہو لیکن ہمت اور حوصلے کا ذکر ہو تو تم پہاڑ سے برتر ہو ، تم اپنی ان خوبیوں کے سبب بڑے بڑے بادشاہوں کی رہنما نظر آتی ہو ، سلطان محمود غزنوی کے بارے میں کون نہیں جانتا ،ایک بار جب وہ ہندوستان پر سولہ حملوں کے بعد شکست خوردہ ، مضمحل ، مایوس ، نا امید کسی دیوار کے سائے میں آرام کر رہاتھا کہ اسے دیوار پر چڑھتی ہوئی ایک چیونٹی نظر آئی ، اس نے دیکھا کہ وہ چیونٹی جب چڑھتے چڑھتے دیوار کے آخری حصے تک پہنچ جاتی ہے تو گر جاتی ہے وہ پھر نیچے سے اپنا سفر شروع کرتی ہے اور اسی طرح اوپر جاکر ڈگمگاتی ہے اور گر جاتی ہے محمود غزنوی بغور اس کا مشاہدہ کرتا رہا ، کہتے ہیں کہ بلند ہمتی کے سبب اسے ننانویں بار میں دیوار عبور کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی ، یہ دیکھ کر مایوس محمود غزنوی کے اوسان درست ہوئے اس نے ایک بار پھر اپنے فوجیوں کو جمع کرکے ہندوستان پر حملہ کیا اور وہ کامیاب ہوا ۔
ایک معروف مفکر و ماہر ارضیات نے تمھاری شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے یہاں تک کہ ڈالا کہ تمھارا نظام انسانوں جیسا ہے ، تمھارے یہاں بھی سلطنت کا نظام سنبھالنے کے لئے سلطان ہوتے ہیں، دشمنوں سے مقابلے کے لئے فوجی ہوتے ہیں سازوسامان کی آمدورفت کے لئے ملازم ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ ہاتھی جیسا قوی الجثہ بھی تمھاری قوت کا لوہا مانتا ہے۔
تم بے حیثیت ہونے کے باوجود با حیثیت نظر آتی ہو ، تم صفحۂ ہستی پر ناقابل دید ہونے کے با وجود قابل ذکر نظر آتی ہو ، کتاب حدیث میں بھی تمھارا ذکر موجود ہے ، جس سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ تم ذاکرین میں سے ہو اور اللہ تعالی کی محبوب قوم میں شمار کی جاتی ہو ،حضرت ابو ہریرہ رضی علہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” انبیا میں سے ایک نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کی پوری بستی کو جلانے کا حکم دیدیا، اللہ تعالی نے وحی کے ذریعےانھیں تنبیہ فرمائی کہ ایک چیونٹی کے تجھے کاٹ لینے کے بدلے میں تونے اللہ کی تسبیح کرنے والی پوری ایک جماعت کو ہلاک کر ڈالا”-(متفق علیہ)
ارے تم بڑی خوش بخت ہو کہ رب دو جہاں نے تمھاری ہمدردی اور کنبہ پروری جیسی خوبیوں کو کتاب ہدایت کا حصہ بنا دیا ، اللہ نے قرآن میں تمھاری داستان کچھ اس طرح بیان کی کہ آج ہر مومن کی زبان پر ہے ، اللہ فرماتا ہے :
” جب سلیمان اپنے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں آئے تو ایک چیونٹی نے کہا ، اے چیونٹیوں اپنے بلوں میں گھس جاو کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بے خبری میں تم کو کچل نہ ڈالے "-( سورہ النمل ، آیت 18)
یہ تھی وہ چیونٹی کہ جس کی تعریف اللہ تعالی نے کی ، اور جس کی تعریف رب کائنات اپنی کتاب میں کرے اسے ذلیل و خوار کرنے والا آج تک دنیا و ما فیہا میں پیدا نہیں ہوا اور سنو! تمھارا ذکرِ خیر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی ہے لیکن عقاب کا ذکر نہ تو کتاب اللہ میں ہے اور نہ ہی مجموعۃ الاحادیث میں ہے ، یہ سن کر وہ مسکرائی اور اور تیز تیز قدموں کے ساتھ حویلی کی جانب بڑھ گئی ،اور میں دور تک اسے دیکھتا رہا ، شاید اسے کوئی ضروری کام یاد آگیا تھا ، شاید میرے الفاظ اس کی تسلی کا سامان بن گئے تھے ، شاید اس کے بیقرار دل کو قرار آگیا تھا ، شاید میں اسے سمجھانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
جس قوم کی ابتدا ہی اقرأُ سے ہوئی ہو وہی قوم آج تعلیم کے معاملے میں سب سے زیادہ پسماندگی کی شکار ہے ۔ قرآن میں سب سے پہلا لفظ اقرأُ کا استعمال ہی پڑھنے پڑھانے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ قرآن کے اس پہلے لفظ کی اہمیت سے مسلمان اب تک نا بلد ہیں ۔اقرأ کی معنویت سے پہلو تہی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمان ذلیل و خوار ہیں ۔ ظاہر ہے کہ قرآن نے جب ہدایت کی ابتدا پڑھنے پڑھانے سے کی ہو، تو یہ حکمت و مصلحت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ صرف تعلیم ہی کسی بھی قوم کی ترقی کی ضامن ہے ۔
قرآن کی اس لطیف ہدایت اور واضح پیغام اور نصیحت پر عمل درآمد میں کوتاہی اور بے توجہی نے آج مسلمانوں کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑا ۔ حالاںکہ موجودہ دور میں ایجوکیشن پر خاطر خواہ کوششیں کی جارہی ہیں، جن کایہ مثبت نتیجہ ہے که 2020 میں 42 مسلمانوں نے یو پی ایس سی کے مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ مسلمانوں کی یو پی ایس میں نمائندگی اس سال سب سے زیادہ 5.1 فیصد رکارڈ کی گئی ہے ۔
تعلیم کی اہمیت و افادیت پر آج بڑے بڑے سمینار منعقد کئے جا رہے ہیں، جس سے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کا رجحان پیدا ہورہاہے ۔ تعلیمی بیداری کے ضمن میں ایک خبر قابل تحریر ہے کہ دربھںگہ بہار کے ایک گاؤں قاضی بہیرہ کے باشندہ نوجوان اور فعال سیاسی و سماجی کارکن حبیب اللہ ہاشمی کی کاوشوں سے ایک چھوٹے سے قصبہ میں گورنمنٹ ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کالج کے قیام کی راہیں ہموار ہوئی ہیں ۔ واضح ہو کہ سابق ضلع پریشد حبیب اللہ ہاشمی اپنے دورانِ کار قاضی بہیرہ میں کافی جدو جہد کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول کا قیام عمل میں لا چکے تھے ، نیز مذکورہ گورمنٹ ہائ اسکول میں+2 کی بھی تعلیم کے لئے کوشاں تھے، جسے 2018 میں منظوری بھی مل گئی تھی لیکن 2020 میں باضابطہ داخلے کا آغاز ہو چکا ہے، جس سے جالے بلاک کے علاقے میں ایک خوشی کی لہر پائی جارہی ہے ۔ گورنمنٹ کالج کا قیام علاقے کے لئے تعلیم کی جانب ایک فعال قدم ہے ۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور سابق ایم پی اشرف علی فاطمی کی کاوشوں کو بھی سلام ہے اوردونوں داد و تحسین کے بھی مستحق ہیں، جن کی مدد سے آج دربھںگہ ضلع کے دور دراز گاؤں میں کالج کا قیام عمل میں آیا ہے ۔ دربھںگہ ضلع کے جالے بلاک میں ایک عرصے سے گورنمنٹ کالج کی اشد ضرورت تھی اور خاص کر مسلم لڑکیوں کے لئے مذکورہ کالج ان کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے میں معاون ثابت ہوگا؛ کیوںکہ میٹرک کرنے کے بعد گاؤں کی لڑکیاں کالج کی عدم سہولت کی وجہ سے ڈراپ آؤٹ ہونے پر مجبور جاتی تھیں ۔ حکومت بہار کے مذکورہ اقدام سے علاقے کی عوا م کافی خوش ہیں اور حکومت سے مزید اس بات کے متمنی ہیں کہ کالج کی اسی عمارت میں پروفیشنل اور ٹیکنکل شعبے قائم کئے جائیں تاکہ بیک وقت اکیڈمک تعلیم کے ساتھ پروفیشنل تعلیم میں بھی طلبا ماہر ہو سکیں ۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو طلبا کالج سے فراغت کے بعد فوری طور پر ٹیکنکل یا پروفیشنل تعلیم کی بنیاد پر روزگار حاصل کر سکتے ہیں ۔
دنیا کی جتنی زبانیں ہیں ان کے سلسلے میں عمومی اصول یہ ہے کہ نصف صدی کے دورانیہ سے ان کے الفاظ و معانی اور استعمالات بدل جاتے ہیں، دوسری اقوام سے خلط ملط اور دوسری ضرورتوں سے نئے الفاظ شامل ہوتے ہیں اور پرانے الفاظ متروک ہوجاتے ہیں۔
اس کی مثال میں آپ مولانا آزاد کے الہلال کو لیجئے، برصغیر کو جگانے اوراس کی نشات ثانیہ میں اس مجلہ کو سرخیل سمجھا جاتا ہے۔ اور مولانا آزاد کی نثر کو اعلی ترین نمونہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب الہلال کی فائلوں کو کھول کر دیکھئے اور سچے دل سے بتائیے کہ ان کی عبارتوں کا آپ پر کیا اثر پڑتا ہے، کیا وہی جس کے بارے میں آپ نے سن رکھا ہے؟
یہ صرف عربی زبان کا اختصاص ہے اوروہ بھی قرآن کے اعجاز وجہ سے ہے کہ آج سے پندرہ صدی پیشتر جن آیات قرآنی یا احادیث نبویہ سے دل گداز ہوتے تھے، آج بھی ہوتے ہیں، اب بھی خوش الحان قاری جب انہیں پڑھتا ہے تو آنکھوں سے آنسؤوں کی لڑی لگ جاتی ہے۔ یہ خاصہ کسی اور زبان میں نہیں ہے۔
جب دنیا میں قوم پرست تحریکیں اٹھیں اور سامراجی قوتوں کو اپنی زبان اور ثقافت زیردست اقوام پر مسلط کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی کوششیں ہوئیں کہ اپنے زبان وادب کو ماضی سے جوڑا جائے اور انہیں قدیم ثابت کرنے کی کوشش کی جائے، لہذا غٓالب اقوام کی اپنے زبان و ادب کو بچانے کے لئے منظم کوششیں ہوئیں اور اپنی زبانوں کو دوسری زبانوں کے الفاظ سے خالی کرنے کے لئے شعوری طور پر اور باقاعدہ کام ہوا ، اس کے لئے بڑے بڑے بجٹ مقرر کئے گئے۔
اپنی زبانوں کو ماضی سے جوڑنے کی کوششوں میں ایک اہم پروجکٹ تاریخی ترتیب پر کتب لغت کی تیاری کا کام ہے۔ انگریزی میں اس سلسلے میں بڑا کام ہوا ہے، جس میں آکسفورڈ، کیمبرج اور میریم ویبسٹر ڈکشنری معروف ہیں، ان ڈکشنریوں میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ زبان کے ہر ہر لفظ کے معنی اس زبان کے آغاز میں کیا تھے، کس مفہوم میں کس مصنف یا شاعر نے اپنی عبارت میں اس لفظ کو استعمال کیا ، انگریزوں نے مسلمانوں کی طرح اس بات کی کوشش کی کہ کتاب مقدس بائبل کی زبان معیاری بنائی جائے، لہذا جیمس کا انگریزی ترجمہ جہاں زبان وادب کا ایک مرجع بنا اردو میں بائبل کا ترجمہ بھی ایک معیار بنا۔اس سے یہ مشکل آسان ہوگئی کہ جب کسی قدیم مصنف کا کوئی استعمال غلط محسوس ہو تو پتہ لگایا جائے کہ اس نے اسے کس مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ بائیس جلدوں میں اردو لغت کبیر بھی اسی اصول پرتیار کی گئی ہے۔ اس کے ذریعہ اب وجہی ، نصرتی ، گیسو دراز وغیرہ دکن کی قدیم کتابوں کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے جو بادی النظر میں دلچسپ نہیں معلوم ہوتیں۔
لیکن عربی زبان میں الفاظ کے معنی اور استعمالات اس طرح نہیں بدلے۔ بہت معمولی تبدیلیوں کے ساتھ لکھی اور بولی جانے والی فصیح زبان اب تک یہی ہے لہذٓ اس میں اب بھی سات آٹھ سو سال قبل تیار کی جانے والی کتب لغت القاموس، لسان العرب وغیرہ سے کام چل رہا ہے، آکسفورڈ کے طرز پر عربی زبان کی بھی المعجم الکبیر سالہا سال سے تیار ہورہی ہے لیکن بات ابھی تک ابتدائی مرحلے میں رکی ہوئی ہے، کیونکہ عربی زبان میں تاریخ کی ترتیب پر لغت کی ضرورت دوسری زبانوں کی طرح محسوس نہیں ہورہی ہے اور پندرہ سو سال کے درمیان الفاظ کے معنی ومفہوم میں فرق طے کرنا بھی مشکل کام ہے۔اب یہی دیکھئے کہ مسلمانوں کی طرح قادیانیوں کا بھی خاتم النبیین پر ایمان ہے، لیکن چونکہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور گزشتہ پندرہ سو سال سے اس کے معنی و مفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی ہے ؛لہذا قادیانیوں کی جانب سے اس لفظ کا نیا معنی ومفہوم امت نے قبول نہیں کیا۔ اب یہ کسی اور زبان کا لفظ ہوتا تو کیس کی نوعیت مختلف ہوتی، کیونکہ بائیبل کا جیمس ورژن بھی اب آوٹ ڈیٹڈ ہوگیا ہے، چند سال قبل اس کا نیا سرکاری ترجمہ رائج ہوچکا ہے۔
آزادی کے بعد ہندی کو خالص کرنے کی شعوری کوشش کی گئی،جس سے آل انڈیا ریڈیو کی زبان ایک اضحوکہ بن گئی، لہذا بول چال میں وہی زبان رائج رہی جسے بمبئی کی فلم انڈسٹری نے رائج کیا تھا، کیونکہ عوام اس کو سمجھتی تھی اور اثر لیتی تھی۔
ایران میں شہنشاہیت کے دور میں فارسی کو عربی اور دوسری زبانوں کے اثر سے آزاد کرنے کی کوشش کی گئی، جس کا خاطر خواہ اثر ہوا، اب وہاں اقبال ، سعدی،جامی اور رومی کی زبان متروک ہے، فارسی شاعر کی حیثیت سے ان کا احترام ہے، لیکن ان کے شعروادب سے جو اثر برصغیر اور افغانستان میں لیا جاتا ہے وہ بات نہیں ہے۔
اس سلسلے میں سب سے مؤثر کام کمال اتاترک نے کیا، اس نے ترکی کا عربی رسم الخط ختم کرکے ترکوں کو اپنے سابقہ دینی لٹریچر سے ہی کاٹ دیا ، اب عربی رسم الخط میں لکھی جانے والی زبان عثمانی ترکی کہلاتی ہے اور اسے جاننے والے سنسکرت وغیرہ مردہ زبانوں کی طرح معدودے چند رہ گئے ہیں۔ اب ترکی کو اپنے ماضی سے جوڑنے کے لئے عبرانی زبان کو جس طرح اسرائیل نے چند افراد کی بنیاد پر کیا، اسی طرح عثمانی ترکی کو زندگی دینی ہوگی۔
بابری مسجد کیس اور کویتی وکیل:ہندوستانی مسلمان احتیاط سے کام لیں-ایم ودود ساجد
آج کل کویت کے ایک وکیل صاحب ہندوستانی مسلمانوں کے دکھ در میں ڈوبے ہوئے ٹویٹ خوب عام کر رہے ہیں ۔ کبھی آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف مہم چلاتے ہیں اور کبھی مجلس اتحاد المسلمین کے خلاف ہی شمشیر برہنہ ہوجاتے ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ابھی تک ان کے حقیقی ہونے پر یقین نہیں آیا ہے۔ وہ اگر حقیقی ہوں تب بھی ہمیں جوش میں آنے سے بچنا ضروری ہے۔ زیر نظر تازہ ٹویٹ میں انہوں نے جو ارشاد فرمایا ہے وہ قابلِ غور ہے۔
"…. ہندوستانی مسلمانوں کو بابری مسجد اور کشمیر پر عالمی تعاون کی سخت ضرورت ہے۔عرب ممالک بھی ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن کچھ سوداگر ہمارے راستے مسدود کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان مسلکی تفرقے سے اوپر اٹھ کر ہمارے ہاتھ سے ہاتھ ملائیں "۔
فی الحال مجھے ان مجبل صاحب کی اس احمقانہ دوستی پر کچھ تفصیل سے نہیں کہنا ہے۔ لیکن اتنا ضرور عرض کرنا ہے کہ اگر یہ فی الواقع کوئی حقیقی انسان ہے تو یہ بہت نادان ہے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ نادان کی دوستی سے دانا کی دشمنی بہتر ہے۔ یہ کوئی بڑی سازش بھی ہوسکتی ہے۔ کویت میں ہزاروں متمول غیر مسلم دہائیوں سے آباد ہیں۔ وہ کس کیلئے کام کر رہے ہیں، کسی سے مخفی نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ مجبل الشریکہ بھی انہی میں سے ایک ہو۔
احتیاط کی سخت ضرورت ہے۔بعض پُرجوش "ٹویٹر حضرات” نے انہیں ٹیگ اور فالو بھی کرنا شروع کردیا ہے۔ممکن ہے کہ اس بہانے کوئی اور انہیں "فالو” کر رہا ہو۔
محمد طلحہ بلال احمد منیار
ایک ویڈیو کلپ دیکھی ، جس میں ایک مدرسہ کے ذمے دار نے مسلمانوں کو اپنے وطن ہندوستان سے وفاداری اور اس سے محبت کرنے کی تاکیدکے سلسلے میں ایک حدیث اس طرح بیان کی: ’’احفظوا أرضکم فإنها أمكم‘‘ اور ترجمہ یوں کیا کہ: اپنی زمین کی حفاظت کرو اس لئے کہ وہ تمہاری ماں ہے ۔
مگر ذمے دار موصوف نے حدیث کے جو الفاظ بیان کئے، وہ درست نہیں ہیں اور تشریح بھی صحیح نہیں کی ، در حقیقت مذکورہ حدیث کا زمین ووطن کی حفاظت سے دور دورتک کوئی تعلق نہیں ہے ۔
صحیح الفاظ اور تشریح ملاحظہ فرمائیں :
أخرج الطبراني في (المعجم الكبير5/رقم 4596) ومن طريقه أبو نعيم في (معرفة الصحابة) برقم 2766 قال :
حدثنا يحيى بن أَيُّوبَ الْعَلَّافُ الْمِصْرِيُّ ، ثنا سَعِيدُ ابن أبي مَرْيَمَ ، ثنا ابن لَهِيعَةَ ، حدثني الْحَارِثُ بن يَزِيدَ ، أَنَّهُ سمع رَبِيعَةَ الْجُرَشِيَّ يقول : إِنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قال :
اسْتَقِيمُوا وَنِعِمَّا إِنِ اسْتَقَمْتُمْ ، وحَافِظُوا على الْوُضُوءِ ، فإن خَيْرَ عَمَلِكُمُ الصَّلاةُ ، وتَحَفَّظوا مِنَ الأَرْضِ فَإِنَّهَا أُمُّكُمْ، وَإِنَّهُ ليس من أَحَدٍ عَامِلٍ عليها خَيْرًا أو شَرًّا إِلا وَهِي مُخْبِرَةٌ .
ترجمہ : زمین پر گناہ کرنے سے احتراز کرو ، اس لئے کہ وہ تمہاری ماں ہے یعنی تمہارے اس سے پیدا ہونے کے لحاظ سے(منہا خلقناکم)لہذا جس طرح تم اپنی حقیقی ماں کی موجودگی میں گناہ کرنے سےشرم محسوس کرتے ہو،اسی طرح زمین کابھی پاس ولحاظ رکھو ، کیونکہ زمین پر جو بھی عمل انجام دیا جائے گاخواہ نیکی کا ہو یا برائی کا ، تو زمین قیامت کے دن اس کی اطلاع دے گی ۔
معلوم ہوا کہ حدیث کا تعلق اعمال سے ہے اور زمین مطلقا مذکور ہے(من الارض)نہ کے ( ارضکم ) اورانسان کے زمین سے پیدا ہونے کے اعتبار سے وہ اس کی ماں ہے ۔
حدیث میں حب الوطن ، حفاظت وطن ، وفاداری … وغیرہ ، اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ، لہذا احادیث کے باب میں احتیاط ضروری ہے۔
دوسری بات : مذکورہ بالا روایت بھی ضعیف ہے ، اس میں تین علتیں ہیں جو سبب ضعف ہیں :
۱۔ سند میں ابن لہیعہ مضطرب الروایہ ہے،اور اس روایت میں ابن لہیعہ سے اضطراب ہوا ہے ، چونکہ بغوی کی ( معجم الصحابۃ ۲/۴۰۰) میں اس حدیث کی اسناداس طرح ہے : … عن أبي الأسود النضر بن عبد الجبار ، عن ابن لهيعة ، (عن الحارث بن سعيد ، عن عطاء بن أبي رباح) ، عن ربيعة الجرشي۔ یعنی حارث بن یزید کے بدلے حارث بن سعید ہے، اور عطاء بھی سند میں زائد ہیں ۔
۲۔ مذکورہ بالا حدیث کے جملوں میں تیسرے نمبر کے جملے کے علاوہ ، دیگر جملوں کے احادیث میں شواھد ہیں، جن سے اس کی تقویت ہوسکتی ہے ۔ رہا تیسرا جملہ تو وہ صرف اسی روایت میں وارد ہے ، مگر مفہوم تو صحیح ہے اس لئے کہ تحفظ واحتراز کی علت : زمین کا قیامت کے دن گواہی دینا ہے جو ثابت ہے ۔ فیجوز بیانه لصحة معناه وإن كان في ثبوته عن النبي صلى الله عليه وسلم ضعف .
نیز یہی حدیث ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت ابو امامہ سے مروی ہے ،لیکن اس میں(وتحفظوا من الارض …) کے الفاظ نہیں ہیں ۔
۳۔ ربیعہ جرشی کا صحابی ہونا مختلف فیہ ہے ،راجح یہ ہے کہ وہ تابعی ہیں ۔
تنبیہ : البتہ جو روایت( لسان المیزان ۹/۴۴) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ہے ، اس کی سند باطل ہے،جیساکہ امام دارقطنی نے غرائب مالک میں لکھا ہے،کیونکہ اس کی سند میں ابو حبیب قراطیسی ہیں جو منکرات کی روایت کرتے ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ :
۱۔ حدیث کا تعلق زمین پر گناہوں سے احتیاط کرنے کے بارے میں ہے،حب وطن سے متعلق نہیں ہے۔
۲۔ حدیث میں (تحفظوا) کا لفظ ہے جو احتیاط اور اجتناب کے لئے بولا جاتا ہے ، (احفظوا) حفاظت کرنے کا لفظ نہیں ہے۔
۳۔ حدیث حضرت ابو امامہ حضرت عائشہ اور ربیعہ جرشی کی روایت سے منقول ہے ، اور اس کی اسانید ضعیف ہیں ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی صورت حال ایسے مردبیمارکی طرح ہے جو وینٹی لیٹر پر ہو،ایسے مرد بیمار کے لئے معالجین بہت سے نسخے تجویز کرتے ہیں لیکن عوام ہی نہیں خواص اور تعلیم یافتہ لوگ بھی انگشت بدنداں ہیں کہ کام کہاں سے شروع کیا جائے اور نقطہئ آغاز کیا ہو اورکس طرح ہوکہ ہندوستان کا مرد بیمار صحتیاب ہوجائے۔مسلمانوں کا مذہبی اور اخلاقی معیار بھی بلند کرنا ہے،انہیں متحد اور منظم بھی کرنا ہے، انہیں صحت مند اور تندرست بھی رکھنا ہے، مسلمانوں کی تعلیم کی طرف بھی توجہ کرنی ہے، مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی درست کرنی ہے،مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو نفرت کی دیوار کھڑی ہوچکی ہے، اسے گرانابھی ضروری ہے، برداران وطن کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس بھی کرنا ہے۔دشمنوں کو اپنی کامیابی سے مایوس بھی کرنا ہے۔ملت کے اطبا اور معالجین بار بار مردبیمار کی نبض ٹٹول رہے ہیں اور مختلف قسم کے نسخے تجویز کر رہے ہیں، لیکن علاج نہیں شروع ہوتا ہے۔یہ سارے نسخے اپنی اپنی جگہ درست ہیں، لیکن سوالیہ نشان یہ ہے کہ یہ سارے کام کیسے شروع ہوں۔ملک بہت بڑا ہے اور ملت اپنی تعداد اور افرادی قوت میں کئی ملکوں کے برابرہے۔اگر کام نہیں ہوا تو اندیشہ ہے کہ اسپین کی طرح یہاں بھی داستان ختم ہوجائے گی۔
مندرجہ بالا سارے کام بیک وقت پورے ملک میں شروع ہو سکتے ہیں اگر مسلمان اپنی مسجدوں کو اپنے تعمیری کا موں کا مرکز بنالیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنیۃ منورہ پہنچ کر جس مسجد نبوی کی تعمیر کی تھی، وہ صرف نماز کے لئے نہ تھی، وہ درسگا ہ بھی تھی، وہاں مسلمانوں کے اجتماعی معاملات طے کئے جاتے تھے، مشاورت ہوتی تھی،وہ دار القضا بھی تھا، وہ عدل وانصاف کا مرکز بھی تھا،باہر سے وفودبھی آتے تھے اوروہاں ٹھہر تے تھے،وہ مہمان خانہ بھی تھا،آپ وہاں غیر مسلموں سے ملاقات بھی کرتے تھے وہ مسجد مسلمانوں کی تمام سماجی سرگرمیوں کا مرکز تھی مسلمانوں کے تمام مسائل کے حل کے لئے مسجد میں مشاورت کی جاتی تھی، لوگ وہاں جمع ہوتے،شادی اور نکاح کی تقریبات منعقد ہو تی تھیں۔ مسجدیں مسلمانوں کی اجتماعیت کا نشان ہوتی تھیں،اصلامسجد وہ مقام ہے جہاں مسلمانوں کی اجتماعیت نشو نما پاتی ہے، ترقی اور نہضت کے راستے کھلتے ہیں، بد قسمتی سے مسجدوں کا اجتماعی کردار ختم ہوگیا ہے،نماز کے ختم ہوتے ہی مسجدوں میں تالا لگ جاتا ہے، جماعت سے نماز کے ختم ہونے کے بعد کوئی مسافر آئے اور نماز پڑھنا چاہے،تو اللہ کا گھر بند دیکھ کر واپس ہوجائے۔ سعودی عرب جیسے ملکوں میں تو حکومتیں عوام وخواص کے باہم ملنے سے خوفزدہ ہوتی ہیں کہ لوگ کہیں حکومت پر تبصرہ نہ کریں اور رائے عامہ حکومت کی مخالف نہ ہوجائے۔ ان تمام ملکوں میں جہاں استبدادی غیر جمہوری نظام قائم رہتا ہے،حاکم اپنی رعیت سے ڈرتے ہیں، ان ملکوں میں فرض نماز کے بعد تھوڑی دیر کے اندر مسجدوں کے دروازے مقفل ہوجاتے ہیں،کسی راہگیر اور مسافر کو نماز پڑھنی ہو، تو اسے ہر مسجد بند نظر آئے گی، وہ بیچارہ سڑک پر اور فٹ پاتھ پر نماز پڑھنے پر مجبور ہوگااور با وضو نہیں ہے،تو یہ بھی نہیں کرسکے گا۔مسجد میں تالا بندی اور لاک ڈاؤن کا طریقہئ کار قرآن کی آیت ومن أظلم ممن منع مساجد اللہ أن یذکر فیہ اسمہ وسعی فی خرابہا کی تہدید کے دائرہ میں آتا ہے،یہ عذر لنگ ہے کہ چوریاں ہو تی ہیں۔مسجد کے متولیوں کو اس آیت کی سنگینی اور کلام الہی کے جلال کا اندازہ ہی نہیں ہے،اگر وہ اس کا اندازہ کرتے توکم ازکم مسجد کا ایک حصہ اور طہارت خانہ ضرور کھلا رکھتے۔آیت کا ترجمہ یہ ہے ”اس شخص سے بڑھکر ظالم اور کون ہوگا جس نے اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے ذکر سے روکا اور مسجد کو ویران کرنے کی کوشش کی“۔مسجد صرف فرض نمازوں کے لئے نہیں ہوتی ہے،اس لئے ہوتی ہے کہ جوشخص جس وقت چاہے، اس میں نماز پڑھے۔جو متولی اس میں رکاوٹ ڈالے گا، اس کو خدمت نہیں بدخدمتی کی سزا ملے گی، اسی آیت میں ہے کہ اس کے لئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب کی وعید ہے۔
یادش بخیر مولانا عبد الکریم پاریکھ اس صورت حال سے کبیدہ خاطر ہوتے اور جب دیکھتے کہ مسجدوں کے امام اور متولی قرب وجوار کے غیر مسلموں کو مسجد کے احاطہ میں آنے سے اور اپنی ضرورت پو ری کرنے سے روکتے ہیں،تووہ ناراض ہوتے اور کہتے کہ غیر مسلم جب بھی اسلام قبول کرتا ہے، وہ پہلے مسلمانوں کے ماحول سے مانوس ہوتا ہے۔اب مسجد کے ذمہ دار اسے مسجد سے مانوس ہی نہیں ہونے دیتے ہیں،جب غیر مسلم مانوس نہیں ہوں گے، تو پھر مسلمان ضرور ان سے شکوہ سنج اور مایوس ہوں گے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ محلہ کے غیر مسلموں کو مسجدوں میں آنے اور جمعہ کا خطبہ سننے اور نمازکو دیکھنے کی دعوت دی جاتی۔ افسوس کہ مسجدیں بے فیض ہوگئی ہیں اور جمعہ کے خطبات مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے لئے کوئی افادیت نہیں رکھتے ہیں۔یہ سب غلط بینی ہے منبر کی اور واعظان پیشہ ور کی۔انہوں نے باہر کی دنیاکو اپنا حریف اور رقیب سمجھ لیا ہے۔مساجد کے امام اور متولیوں نے مسجد کے تعمیری کردار کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
لیکن اب ایک نئی تحریک سامنے آئی ہے۔ ایک نیا منظر نامہ ہے، ایک انقلابی تصور ہے،جس کا نام ہے Masjid as a community centre مسجدکمیونٹی سنٹر کے طور پر یعنی مسجد نبوی کے تاریخی کردار کی تجدید۔اس مسجد میں دینی اور دعوتی کام بھی ہوگا، درس قرآن اور درس حدیث بھی ہوگا،حالات حاضرہ کا تعارف بھی ہوگا،تعلیم کے فروغ کی کوششیں بھی کی جائیں گی، ہر طرح کی سماجی خدمات بھی انجام دی جائیں گی، صحت اور تندرستی کی طرف بھی توجہ دی جائے گی، بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنے کی طرف بھی توجہ دی جائے گی، مسجد کے گرد ونواح میں جتنے برادران وطن ہیں،ان سے روابط اور تعلقات قائم کئے جائیں گے، ان کو مسجد میں بلایا جائے گا، ان کو اسلام سے مانوس کرنے کا منظم کام کیا جائے گا،یعنی مذہبی سماجی اور دعوتی کاموں کے لئے کمیٹیاں بنائی جائیں گی۔
ابھی حیدرآباد شہر میں یہ کام چند افراد ایک عالم ربانی کی سرپرستی میں انجام دے رہے ہیں اور ابھی دائرہ محدود ہے،لیکن جب یہ کام پھیلے گا اور یہ پودا برگ وبار لائے گا اور تنا ور درخت بن جائے گا اور ہندوستان کے کونے کونے تک اس کی شاخیں پھیلیں گی، تو اسلام کا خزاں آلودہ درخت بہار آشنا ہوجائے گا۔اگر ایک طرف مساجد کو مسجد نبوی کے طرز پر تمام اجتماعی تعلیمی دینی دعوتی سماجی سرگرمیوں کا مرکزبنا لیا جائے، دوسری طرف دینی مدارس کا نصاب ایسا تیارکرلیا جائے کہ وہاں سے فارغین لسان قوم میں پوری قوم سے خطاب کرنے کے لائق بن جائیں اور برادران وطن کے عقیدہ اور مذہب سے آشنا ہوں توملک میں انقلاب انگیزتبدیلی آسکتی ہے،لیکن اگر مسلمان صرف حکومت کی زیادتیوں کا ماتم کرتے رہے اورمثبت کاموں سے جی چراتے رہے،تو ان کی قسمت میں ہمیشہ نوحہ گری آتی رہے گی اور وہ یہ شعر پڑھتے رہیں گے ؎
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کومیں
ایک اہم اور خاص الخاص بات جو اس تحریک کی ہے وہ یہ کہ اس کی قیادت ایک عارف باللہ روحانی شخصیت کے ہاتھ میں ہے۔عقل کے نقیب اور تصوف کے رقیب حضرات کے نزدیک یہ خصوصیت بے معنی ہوگی وہ سمجھتے ہوں گے کہ صرف عقل کو خطاب کرنے اور دلیلوں کا انبار لگا دینے سے ہواکا رخ بدل جائے گا اور شرک پر توحید غالب آجائے گا۔ یہ خیال درست نہیں اگر چہ کہ عقل اور دلائل کی بھی اہمیت ہے اور اس دور میں لٹریچر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ تاریخی پس منظر ذہن میں رہنا چاہئے کہ ہندوستان جیسے شرک کے بڑے قلعہ کو اسلام کی سرپرستی اور نگہبانی میں ڈالنے میں تصوف نے بڑاکردار اداکیا ہے، اگر مسلمان حکمرانوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا ہوتا اور اسلام کے لئے دلوں کی استمالت کی کوشش کی ہوتی تو آج اجودھیا میں رام مندر تعمیر نہ ہوتا اور نہ بابری مسجد گرائی جاتی۔آج بھی اپنی دعوت کو مؤثر اور دلنشین بنانے میں تزکیہئ نفس اور روحانی طاقت کا حصول ضروری ہے۔ اصل کام یہ ہے کہ دعوت مخاطب کے دل پر اثر انداز ہوجائے،ورنہ دماغ اکثر مضبوط دلائل کو بھی مسترد کردیتا ہے،لیکن دل اگر ایک بار مائل بہ اسلام ہوگیا،تو دماغ کو بھی اس کی بات ماننی پڑتی ہے۔
علامہ اقبال کا کہنا ہے کہ قبول اسلام کا تعلق جس قدر دل سے ہے دماغ سے نہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ اسلام کی کوئی ادا ہوتی ہے،جو کسی کے دل کو بھا جاتی ہے پھر اسکی زندگی میں انقلاب آجاتا ہے۔علامہ اقبال نے تفصیل اس طرح بیان کی ہے ”قبول اسلام میں اصل چیز دل ہے، جب دل ایک تبدیلی پر رضامند ہوجاتا ہے اورکسی بات پر قرار پکڑ لیتا ہے،تو پھر باقی جسم اس کے سواکچھ نہیں کرتا کہ وہ اسی تبدیلی کی تایید کے لئے وقف ہوجائے، ہمیں اسلام کے قدیم اور جدید مبلغوں میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے، قدیم مبلغوں کا وار غیر مسلموں کے دلوں پر ہوتا تھا،وہ اپنی للہیت،بے نفسی، خوش خلقی اور احسان ومروت کی جادو اثراداؤں سے دلوں کو گرویدہ کرلیتے تھے اور اس طرح ہزار ہا لوگ از خود بغیر کسی بحث وتکرار کے ان کے رنگ میں رنگ جاتے تھے،مگر جدید مبلغوں کا سارازور دماغ کی تبدیلی پر صرف ہوتا ہے،وہ صداقت اسلام پر ایک دلیل دیتے ہیں،مقابلہ میں دوسری حجت غیر مسلم پیش کردیتے ہیں۔ اس پر بحث وتکرار شروع ہوجاتی ہے اور ہدایت ختم ہوجاتی ہے۔مبلغین اسلام کو دلوں کومتاثر کرنے کے لئے نکلنا چاہئے یا دماغوں کو؟ڈ اکٹر اقبال نے مزید تفصیل کرتے ہوئے کہا کہ اس کے فیصلہ کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم فطرت کی روش کی پیروی کریں، غورکرنے سے معلوم ہوگا کہ فطرت اپنی فتوحات حاصل کرنے کے لئے اپنا تعلق ہمیشہ دلوں سے جوڑتی ہے، فطرت،کھانے میں لذت پیدا کرتی ہے،آپ اسے بے اختیار کھالیتے ہیں،اس وقت ایک بھی شخص دماغ سے نہیں پوچھتا کیا یہ کھانا طبی لحاظ سے مفید ہوگا؟آپ کہیں جارہے ہوں، ناگہاں پھولوں کی ایک خوشنما زمین اور لب جوکاایک حسین نظارہ سامنے آتا ہے،آپ وہاں بے اختیار بیٹھ جاتے ہیں، وہیں ٹھنڈی ہواکا اک دلنواز جھونکا آتا ہے اور آپ کو میٹھی نیند سلادیتا ہے،اس وقت کوئی بھی شخص دماغ سے نہیں پوچھتا کہ مجھے سوناچاہئے یا نہیں۔ مختصر یہ کہ فطرت اسی طرح ہر کام میں دلوں کوگرویدہ کرکے اپنا مطلب نکالتی ہے،وہ دماغوں کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتی۔اس لئے مبلغین اسلام کوچاہئے کہ اخلاق ومحبت کی گیرائیوں سے دلوں کواس طرح شکار کریں کہ ان میں سرکشی اور انکار کی سکت ہی باقی نہ رہے،اس لئے ضروری ہے کہ مبلغین اسلام اسلامی کیریکٹر کی عظمت سے واقف ہوں،تاکہ سرکش قسم کے لوگ بھی اپنی گردن جھکا دیں“۔
علامہ اقبال کا نقطہئ نظر قابل غور ہے،یہ ان ہی کا مصرعہ ہے ”جودلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ“ اسلامی اخلاق سے اور خدمت خلق کے کاموں سے اور اپنی روحانیت سے دلوں کو نرم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لٹریچر اور عقلی دلیلیں بے مصرف ہیں، بلکہ دونوں طریقوں پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:ملک کے سابق صدر پرنب مکھرجی کی حالت نازک ہے۔ اتوار کے روز دہلی کینٹ کے آرمی ریسرچ اینڈ ریفرل اسپتال نے سابق صدر کی صحت سے متعلق جاری کردہ ہیلتھ بلیٹن میں یہ معلومات دی۔ آرمی اسپتال نے اپنے بیان میں کہاکہ سابق صدر کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس کے تمام اہم پیرامیٹرز نازک ہیں اور وہ اب بھی وینٹی لیٹر سپورٹ پر ہیں۔ انہیںمتعدد دائمی بیماریاں لاحق ہیں، ماہرین کی ایک ٹیم کے ذریعہ ان کی صحت پر سخت نگرانی کی جارہی ہے۔واضح رہے کہ پرنب مکھرجی کو 10 اگست کو آرمی ریسرچ اینڈ ریفرل اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور دماغی سرجری کروائی گئی تھی۔ اس سے قبل کووڈ۔19 کی جانچ میں ان کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوگئی تھی۔
انقلاب اور محبت کے امتزاج سے اردو کی عالم گیر مقبولیت میں اضافہ ہوا:ارتضیٰ کریم
بزمِ صدف کاعالمی آن لائن مذاکرہ
پٹنہ/دوحہ،قطر:بر صغیر سے باہر یورپ کے مختلف ملکوں میں وہاں کی حکومت اور انتظامیہ بھی یہ بات قبول کرتی ہیں کہ اردو سے سماجی ہم آہنگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کو مختلف طبقوں اور اقوام کے درمیان ایشیائی زبانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا تو برطانیہ اور دوسرے یوروپی ممالک میں اردو کے لیے ماحول سازگار ہے۔ وہاں اسکولوں میں دوسری زبان کے بہ طور یورپ کی مختلف زبانوں کے ساتھ مساوی حیثیت سے اردو کا نام متعین ہے۔ برطانیہ کے مانچسٹر سے تشریف فرما ممتاز شاعر جناب باصر سلطان کاظمی نے بزم صدف انٹر نیشنل کی جانب سے منعقد آن لائن مذاکرہ بہ عنوان ’اردو: آزادی اور امن کی زبان _ایک عالمی تناظر‘میں خطبۂ صدارت پیش کرتے ہوئے مذکورہ باتیں کہیں۔ انھوں نے یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں اردو کو درس و تدریس کا حصہ بنائے جانے کے امور پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے بتایا کہ برطانیہ کی پولیس بھی اردو زبان سے واقف افراد کی اس وجہ سے قدر کرتی ہے کیوں کہ یہ طبقہ مختلف زبانوں کے بولنے والوں سے بہ آسانی رابطہ کرسکتا ہے۔
ممتاز ادیب اور دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے سربراہ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے امن اور آزادی کے امور پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انقلاب اور محبت کی صفات کی آمیزش سے اردو کی عالمی مقبولیت میں اضافہ ہوا ۔ انھوں نے اردو کے مزاج کے حوالے سے جگر مرادآبادی کا مصرعہ پیش کیا : اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ انھوں نے کہاکہ اردو محبت اور شرافت کی زبان ہے، اس لیے اس میں نفرت اور تنگ نظری کا شائبہ تک نہیں دیکھا جا سکتا ۔ انھوں نے اس پیغام سے اپنی گفتگو ختم کی کہ اردو کی تعلیم کو بڑھائیں اور اس کے پیغام کو ان لوگوں تک پہنچائیں جہاں اب تک یہ زبان کسی وجہ سے نہیں پہنچ سکی ہے۔
مذاکرے میں موضوع کا تعارف بزم صدف کے ڈائرکٹر کالج آف کامرس ، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ کے صدر شعبۂ اردو پروفیسر صفدر امام قادری نے کرایا۔ انھوں نے تاریخی تسلسل کے ساتھ مذاکرے کے موضوع امن اور آزادی کی زبان اردو کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کی۔ پروفیسر قادری نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی کہ اردو بادشاہوں کی گود اور درباروں میں پلی بڑھی۔ انھوں نے اردو کے پہلے شاعر حضرت ِ امیر خسرو کی مثال پیش کی کہ دربار سے وابستگی کے باوجود انھوں نے اپنی مثنویوں میں امن و امان اور رعایا کی فلاح کی باتیں کہیں۔ بادشاہ کی عظمت اس طور پر بتائی کہ اُس کی تلوار سوئی رہے۔ انھوں نے جعفر زٹلی، مرزا عبدالقادر بیدل، نظیر اکبر آبادی، مرزا رفیع سودا سے لے کرمرزا غالب تک کی مثالیں پیش کر کے یہ واضح کیا کہ اردو کے قدیم شعرا ایک طرف آزادیِ فکر کے امین رہے اور دوسری طرف انھوں نے سماج میں امن و امان اور خیرسگالی کے جذبات کو فروغ دینے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انھوں نے غدر کے بعد جنگِ آزادی کے دور کی نسل کے شعرا میں سے حالی، شبلی، اکبر الہ آبادی، اقبال، اور حسرت موہانی کو یاد کیا اور پھر ترقی پسند شعرا میں فیضاور مخدوم اور دوسرے رفقا کا تذکرہ کیا۔ بعد کے عہد میں حبیب جالب اور احمد فراز کی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے اردو کے مزاج کی انقلابیت اور امن پسندی کو عالمی سطح پر قائم و دائم ہونے کی صورت ِحال پر انھوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔
مذاکرے میں مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے بزم صدف کے چیرمین جناب شہاب الدین احمد نے بتا یا کہ وبائی صور ت حال سے پوری دنیا نبرد آزما ہے اور اس کی زد میں دنیا کے لاکھوں لوگ آتے جارہے ہیں۔ انھوں نے خاص طور سے ممتاز شاعر راحت اندوری کے انتقال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے مخصوص شاعرانہ مزاج کے پیشِ نظر اس مذاکرے کا عنوان رکھا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ راحت اندوری صرف شاعر نہیں تھے بلکہ امن و آزادی کے پیامبر بھی تھے۔ وہ بے امنی اور ظلم و ستم کے دشمن بھی تھے۔ انھوں نے کہا کہ جمہوری قدروں کی حفاظت کے لیے سینہ سپر رہنے والے اس شاعر کا جانا ہمارے لیے ایک مستقل نقصان ہے۔ انھوں نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا کہ پتا نہیں، ایسی انقلابی آواز ہمیں پھر میسر آئے گی یا نہیں۔
ڈاکٹر واحد نظیر(جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)نے مذاکرے میں اردو کے ابتدائی دور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے صوفیہ نے سماج کے مجبور ، مقہور اور مظلوم لوگوں کی تربیت اور اصلاح کے لیے اردو زبان کا ستعمال کیا اور امن ، انصاف، نجات اور آزادی کے پیغامات سے اس زبان کو مالامال کیا۔ انھوں نے اردو کی پوری تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ زبان محبت و اخوت اور امن و آشتی کی ترجمان رہی ہے۔
دوبئی سے تشریف فرما جناب ریحان خاںنے اردو کو ایک ایسی زبان کے طور پر پہچاننے کی کوشش کی جو حد بندیوں اور تنگ نظریوں کے حصار کو توڑتی ہے۔ یہ زبان کسی ایک علاقے اور قوم سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ اجتماعی قومیت کی زبان ہے، اس لیے اس میں خیر سگالی ، محبت اور رواداری کی خصوصیات ازلی طور پر شامل ہیں۔ امریکہ میں مقیم ممتاز شاعرہ محترمہ حمیرا رحمان نے کہا کہ یہ دنیا ایک عالمی گاؤں ہے، اس لیے ایک دوسرے کی زبان سیکھنے اور استعمال کرنے کی ایک عام ضرورت ہے ۔ انھوں نے اردو کے مزاج کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ہر زمانے میں اردو امن اور آزادی کی نقیب بن کر ابھری ہے۔ انھوں نے بہ طورِ مثال ہندستان میں شہریت قانون کے سلسلے سے احتجاجی جلسوں میں فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی نظموں کو نعروں کی طرح پیش کیے جانے کو ایک حقیقت قرار دیا اور کہا کہ اردو کے فن کاروں نے ہمیشہ اپنے قلم کا قرض اتارا ہے۔
کینیڈاسے ممتاز شاعرہ محترمہ شاہدہ حسن نے اپنے معروضات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی سطح پر اردو ہماری امید اور یقین واعتماد کی ترجمان ہے۔ اردو نے نظام زندگی کی فرسودگی کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی اور اپنے عہد کی سچائیوں کو پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو رنگارنگی اور تکثیریت کی زبان ہے اور عالمی سطح پر اس کے پیغام کو بے حد سنجیدگی سے قبول کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جدید مواصلاتی نظام کے شانے سے شانہ ملاکر اردو چل رہی ہے اور یہ نئی دنیا میں اپنے لیے جدید تر مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔
مذاکرے کی نظامت ڈاکٹرندیم ظفر جیلانی(برطانیہ) نے کی جنھوں نے ابتدائی لمحات میں موضوع کی مناسبت سے خاطر خواہ گفتگو کی۔ بزم صدف کے سرپرستِ اعلا جناب محمد صبیح بخاری نے مہمانوں کا استقبال کیا اور وبائی عہد کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو زبان کے انقلابی مزاج اور امن پسند انداز کو یاد کیا۔ پروگرام بزم صدف کی دوحہ قطر شاخ کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جس میں جناب عمران اسد، محمد عرفان اللہ، شفیع الرحمان، سید جاوید احمد زیدی، اے۔ ایم ۔یو۔المنائی ایسوسی ایشن، قطر کے صدرجاوید احمد، فیصل نسیم، فرمان خاں اور محمد بنگش نے سرگرم خدمات انجام دیں۔الماس احمد ، مصعب بن شہاب، ام سعدیہ، اور رمیسہ ندیم نے خصوصی طور سے تکنیکی امداد دے کر پراگرام کو کامیاب بنایا۔ ڈاکٹر محمد گوہر، جناب عابد انور اور شری کمار صاحبان نے اپنے اداروں کی طرف سے تعاون کیا۔
اترپردیش:گزشتہ تین سالوں میں انکاؤنٹر میں مارے گئے لوگوں میں تقریباً 37فیصد مسلم:رپورٹ
نئی دہلی:پچھلے تین سالوں میں اترپردیش پولیس کے ذریعہ کے گئے انکاؤنٹر میں مارے گئے لوگوں میں تقریباً 37فیصد مسلم تھے۔ ’اکنامک ٹائمس‘کی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس نے پچھلے تین سالوں میں 6،476انکاؤنٹر کئے ہیں۔ ان انکائونٹرز میں مارے گئے 37فیصد مسلم تھے۔اترپردیش میں اقلیتوں کی آبادی محض 19فیصد ہے۔
رپورٹ میں دیے گئے ڈیٹا کے مطابق 6،476سے زیادہ انکاونٹر میں مارے گئے 125لوگوں میں سے تقریباً 47لوگ مسلم ہیں۔ان انکاونٹرز میں اب تک 13پولیس والوں کی موت ہوچکی ہے اور تقریباً 941پولیس والے زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر انکاونٹر مغربی اترپردیش سے جڑے معاملوں میں ہوئی ہے۔ جن میں شاملی،علی گڑھ،مظفر نگر اور سہارن پور کے علاقے شامل ہیں۔
پولیس ریکارڈ سے بھی پتا چلا کہ ان انکاونٹرز میں 13،837لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں 2،419ملزمین زخمی بھی ہوئے ہیں۔
2020میں اترپردیش پولیس نے انکاونٹر میں 21لوگوں کو مارا ہے۔ گینگسٹر وکاس دوبے سے جڑے تین معاملوں کے علاوہ مرنے والے دوسرے ملزمین کا مظفر نگر،علی گڑھ، بہراچ،میرٹھ، بریلی، وارانسی اور بستی سے تعلق تھا۔
یوگی ادیتہ ناتھ کی حکومت کے آنے کے بعد پہلے سال میں 45لوگوں کو پولیس انکائونٹر میں مارا گیا،ان میں 16کا تعلق مسلم طبقے سے تھا۔ مارچ 2017کے بعد سب سے زیادہ انکوائری ان انکائونٹرز کی وجہ بنی۔ وہ میرٹھ،آگرہ اور بریلی میں درج مجرمانہ معاملے ہیں اس کے علاوہ کانپور،نویڈا،وارانسی اور پریگ راج شامل ہیں۔
دیگر میڈیا رپورٹس کے مطابق یوگی ادیتہ ناتھ کے دور میں سب سے زیادہ انکائونٹر میرٹھ اور آگرہ میں ہوئے ۔میرٹھ میں کل 2070انکائونٹر میں پولیس نے 3792مجرموں کو گرفتار کیا ۔ ان میں سے 1159گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔جب کہ 59کو پولیس نے موقع پر گولی ماری۔اس کے بعد آگرہ میں 1422انکاؤنٹر کئے گئے اس دوران 3693مجرم گرفتار ہوئے۔ جب کہ 134گولی لگنے سے زحمی ہوئے۔ پولیس نے آگرہ میں 11مجرموں کا انکاونٹر کیا ۔
بی جے پی حکومت فوجداری قوانین کو تبدیل کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف:ایس ڈی پی آئی
نئی دہلی:( پریس ریلیز) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ( ایس ڈی پی آئی) نے مرکزی حکومت کی طرف سے موجودہ قوانین میں تبدیلی کرنے کے ذمہ داری کے ساتھ پانچ ممبران کمیٹی تشکیل دئے جانے کی سخت مذمت کرتے ہوئے مودی حکومت کی طرف سے 4مئی 2020 کو تشکیل دی گئی 5رکنی اصلاحی کمیٹی جس کو تعزیرات ہند( آئی پی سی ) ، مجموعہ ضابطہ فوجداری( کریمنل پروسیجر کوڈ) اور قانون شہادت ہند(دی انڈین اویڈنس ایکٹ)میں تبدیلی کرنے کیلئے چھ ماہ میں رپورٹ طلب کی گئی ہے اس کمیٹی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ایس ڈی پی آئی کا ماننا ہے کہ کمیٹی میں زیادہ تر ممبر نیشنل لاء یونیورسٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں جس سے اس عمل میں وسیع اور منصفانہ نمائندگی نہیں ہوگی۔ اس ضمن میں ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اپنے اخباری بیان میں کہا ہے کہ ایس ڈی پی آئی بی جے پی حکومت کے مذموم کوششوں پر ملک کو متنبہ کرنا چاہتی ہے کہ بی جے پی حکومت تمام جمہوری اداروں کو کمزور اور نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کررہی۔ بی جے پی حکومت نے لاء کمیشن آف انڈیا کو اپنا تازہ ترین ہدف بنایا ہے ۔ خود مودی سرکار کے ذریعہ تشکیل دئے گئے 22ویں لاء کمیشن کو نظر انداز کرکے حکومت نے غیر ضروری طور پر الگ سے پانچ ممبروں کی کمیٹی تشکیل دی ہے ۔کمیٹی کے شرائط اور حوالہ جات شفاف نہیں ہیں اور ممبروں کے انتخاب کا طریقہ کار بھی مبہم ہے جہاں کسی بھی نامورماہر قانون یا ریٹائرڈ ججوں کو مذکورہ کمیٹی کا ممبر نہیں بنایا گیا ہے ۔ کمیٹی میں حکمران جماعت کے نظریے کے پیروکار ہیں اور ایس سی ، ایس ٹی ، اقلیتوں، ٹریڈ یونینوں ، کسانوں ، غیر منظم سیکٹر کے ورکرس، ٹرانسجینڈر گروپس، خواتین، معذوروں کے حقوق گروپس وغیرہ سے نہ ہی کو ئی رکن شامل ہے اور نہ ہی خاص طور پر ان کی رائے طلب کی گئی ہے۔ بارکونسل، بار اسوسی ایشنس وغیرہ کا بھی یہی حال ہے۔ کمیٹی کے قواعد و ضوابط کو طئئے کرنے کیلئے کوئی شفاف مشاورت نہیں کی گئی ہے اور حکومت جلد بازی میں آئی پی سی ، سی آر پی سی اور آئی ای اے میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ یہ قوانین دو صدیوں کے عرصہ میں طویل عمل کے بعد تیار ہوئے ہیں۔ حکومت تمام متعلقین سے مشورہ کئے بغیر اور لوگوں اور ان کے نمائندوں کیلئے موقع فراہم کئے بغیر جلد بازی میں قوانین کو تبدیل کرنا چاہتی ہے جو مجوزہ تبدیلیوں سے متاثر ہونگے۔ ایس ڈی پی آئی کا پختہ یقین ہے کہ تبدیلیوں کو محتاط اور وسیع پیمانے پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک عالمی وباء کے اثرمیں ہے جہاں عدالتیں بمشکل ہی کام کررہی ہیں، معمول سماعت معطل رکھی جارہی ہیں اور منتخب مقدمات میں مجازی سماعت جاری ہے ۔ اس صورتحال میں کمیٹی کے تشکیل کا وقت اور 6ماہ کے اندر کمیٹی کے کام کو ختم کرنے کی جلد بازی کو نیک نیتی سے دیکھا نہیں جاسکتا ہے۔ دہلی میں ہونے والے حالیہ تشدد کے واقعات کے پیش نظر قوانین میں تبدیلی کا حکومت کا ارادہ مشکوک ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت حراست میں ملزم شخص کے اعتراف کو قانونی اور سزا کی واحد بنیاد قرار دیکر موجودہ قوانین کے عمومی اصولوں کو الٹا پھیرنا چاہتی ہے اور اسی لئے اتنی جلد بازی کی جارہی ہے۔ جلد بازی، شفافیت اور عوام سے مشورہ کئے بغیر قانون میں اصلاحات لانے سے عدالتی نظام کی بنیادی اخلاقیات کو نقصان پہنچے گا۔ فوجداری قوانین کو تبدیل کرنے کا عمل مکمل طو پر غیرجمہوری ، غیر شفاف اور قائم شدہ طریقہ کار سے بالاتر ہے۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ قوانین کو ملک کے جمہوری نظام کے ساتھ زیادہ موافق ہونا چاہئے ، لیکن وبائی بیماری کے اس دور میں جلد بازی اس شبہے کو جنم دیتی ہے کہ اس عمل کے پیچھے ایک درپردہ مقصد ہے اور اس کا مقصد ہندوستانی معاشرے کو درپش مسائل کو دیانتداری سے سمجھنے اور حل کرنے کے بجائے قوانین میں کچھ پہلے سے طے شدہ تبدیلیاں انجام دینا ہے ۔ ایس ڈی پی آئی پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ فوجداری قوانین میں اصلاحات لانے کیلئے حکومت کی طرف سے 4مئی 2020کو نوٹیفائی کی گئی کمیٹی کو ختم کیا جائے اور موجودہ عمل کو فوری طور معطل کردیا جائے ۔ جب تک عدالتی نظام معمول کا کام شروع نہیں کرتا ہے اور عوامی جلسوں کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اس وقت تک وبائی مرض کے دوران قوانین میں کوئی اہم تبدیلیاں نہیں کی جانی چاہئے ۔ ایس ڈی پی آئی یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ لاء کمشین آف انڈیا کو طریقہ کار اور ملک کے رائج قانون کے مطابق فوجداری قوانین میں اصلاحات کی ذمہ داری سونپی جائے ، اور اس عمل کے دوران معاشرے کے مختلف طبقات خصوصا پسماندہ اور غیر مراعات یافتہ گروپوں کو مناسب نمائندگی فراہم کی جائے۔
نئی دہلی:سپریم کورٹ میں دائر ایک مفادعامہ کی عرضی نے ملک کے تمام شہریوں کے لیے آئین کی روح اور بین الاقوامی معاہدوں کی روح کے مطابق طلاق کی مساوی بنیادوں کی مانگ کی ہے۔یہ درخواست بی جے پی کے لیڈر اور ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے دائر کی ہے اور اس میں مرکز سے مطالبہ کیاگیاہے کہ وہ طلاق کے قوانین میں تضاد کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرے اور مذہب ، نسل ، ذات ، جنس یا پیدائش کی بنیاد پر تعصب کا شکار نہ ہو۔ اس سلسلے میںقوانین بنانے کی ہدایت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔درخواست میں کہاگیاہے کہ عدالت یہ اعلان کرسکتی ہے کہ طلاق کے لیے متعصبانہ بنیاد آرٹیکل 14 ، 15 ، 21 کی خلاف ورزی کرتی ہے اوروہ تمام شہریوں کے لیے طلاق کی مساوی بنیادوں کے لیے ہدایت نامہ بنائے گی۔اس میں مزیدکہاگیاہے کہ اس کے علاوہ ، عدالت قانون کمیشن سے آرٹیکل 14 ، 15، 21 کے مطابق اور بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کو برقرار رکھتے ہوئے تین ماہ کے اندر طلاق سے متعلق قوانین اور تمام شہریوں کا جائزہ لے۔ اسی طرح کی بنیادوں کو تجویز کرنے کے لیے ہدایات دی جاسکتی ہیں۔درخواست میں کہاگیاہے کہ ہندو ، بودھ ، سکھ اور جین برادری کے لوگوں کو ہندومیرج ایکٹ 1955 کے تحت طلاق کے لیے درخواست دیناہوگی۔مسلم ، عیسائی اور زرتشت برادری کے اپنے ذاتی قوانین ہیں۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے جوڑے خصوصی شادی ایکٹ 1956 کے تحت طلاق لے سکتے ہیں۔درخواست میں کہاگیا ہے کہ اگر میاں بیوی غیر ملکی شہری ہیں تو پھر انہیں غیر ملکی شادی ایکٹ ، 1969 کے تحت طلاق کے لیے درخواست دائرکرنا ہوگی۔
شمالی بہار کے ممتاز عالم مولانا قاسم مظفرپوری سخت علیل،مظفر پور میں زیر علاج،دعاے صحت کی اپیل
مظفرپور:(عبدالخالق قاسمی)شمالی بہار کے مقبول عالم دین، فقیہ العصر مولانا قاسم مظفرپوری قاضی شریعت دارالقضا امارت شرعیہ، بہار،اڑیسہ و جھارکھنڈ ان دنوں سخت علیل ہیں۔ گذشتہ رات تقریبا 12 بجے اچانک طبیعت زیادہ بگڑ گئی،جس کے بعد آنا فانا انہیں اوشا ہسپتال، جورن چھپرہ،ظفرپور کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرایا گیا ہے۔ کھانے کی نلی جام ہونے کی وجہ سے حالت مزید تشویشناک بن گئی ہے،ناک کی نلی سے پائپ کے ذریعہ لکویڈ دیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے مولانا پر فالج کا حملہ ہوا تھا،جس کے بعد بڑی تیزی سے مرض میں افاقہ بھی ہوا تھا،مگر یہ سلسلہ چند دن ہی باقی رہا اس کے بعد مسلسل ان کی طبیعت خراب چل رہی ہے۔ مولانا کا نام پورے مل؎ک خصوصاشمالی بہار کے علماے کبار میں آتا ہے،انھوں نے ایک لمبے عرصے تک درس و تدریس کی خدمت انجام دی،شیخ الحدیث رہے،امارت شرعیہ کے قاضی رہے اور کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں ۔ان کے متعلقین نے تمام برادران اسلام سے ان کی جلد صحتیابی کے لئے دعا کی درخواست کی ہے۔
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بی جے پی،آر ایس ایس بھارت میں فیس بک اور واٹس ایپ کو کنٹرول کرتی ہیں۔ انہوں نے جعلی خبریں پھیلائیں اور اس کے ذریعے نفرت پھیلارہی ہیں۔راہل گاندھی نے ایک اخباری رپورٹ کاحوالہ دیتے ہوئے بی جے پی اور آر ایس ایس کو نشانہ بنایاہے۔ راہل گاندھی نے ٹویٹ کیاہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے بھارت میں فیس بک اور واٹس ایپ پر قبضہ کیا ہے۔ وہ اس کے ذریعے جعلی خبریں اور نفرت پھیلانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ اس کااستعمال رائے دہندگان کو متاثر کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
احتجاج اور انصاف کے مطالبوں کا کوئی اثر نہیں،ڈاکٹر کفیل خان پراین ایس اے کی مدت میں تین ماہ کی توسیع
لکھنؤ:ڈاکٹر کفیل خان ،جومتھرا جیل میں ہیں ،گذشتہ 6 ماہ سے قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت گرفتارہیں۔اب راسوکاکی مدت میں تین ماہ کی توسیع کردی گئی ہے۔ 4 اگست کو محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل سکریٹری ونئے کمارکے دستخط کے تحت جاری کردہ ایک حکم میں کہاگیاہے کہ نیشنل سیکیورٹی ایکٹ 1980 کے سیکشن 3 (2) کے تحت کفیل خان کو علی گڑھ ضلع مجسٹریٹ کے حکم پر 13 فروری 2020 کو حراست میں لیاگیاہے۔ ایکٹ کی دفعہ 10 کے تحت ، یہ معاملہ کونسلنگ کمیٹی کو بھیجاگیاہے جس میں بتایاگیا ہے کہ کفیل کو جیل میں رکھنے کے لیے کافی وجوہات موجودہیں۔ لہٰذا6 مئی سے وہ راسوکا کے تحت تین ماہ کے لیے جیل میں بند تھے۔حکم نامے کے مطابق اتر پردیش کی مشاورتی کونسل کی رپورٹ اور علی گڑھ کے ضلعی آفیسر سے موصولہ رپورٹ پر غور کرنے کے بعد گورنرآنندی بین پٹیل نے ڈاکٹر کفیل کی گرفتاری کے لیے دفعہ 12 (1) کے تحت اپنے اختیارات استعمال کیے۔ انھوں نے مزید تین ماہ کی توسیع کی ہدایت کی ہے۔ یعنی وہ کم سے کم 13 نومبر تک جیل میں رہیں گے۔
پٹنہ:بہارمیں اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے اندازمیں تیاری شروع کردی ہے۔ ادھرراشٹریہ جنتادل(آر جے ڈی) نے اسمبلی انتخابات سے قبل اپنے تین ایم ایل اے کو پارٹی سے نکال دیاہے۔ اب یہ ایم ایل اے آر جے ڈی سے آئندہ اسمبلی انتخابات نہیں لڑ سکیں گے۔راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)نے پارٹی مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 3 ایم ایل اے کو 6 سال کے لیے پارٹی بدرکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ایم ایل اے میں پریما چودھری،مہیشور یادو اورعلی اشرف فاطمی کے فرزندفراز فاطمی شامل ہیں۔ آرجے ڈی سپریمولالوپرسادیادوکی ہدایت پر ان سب کو 6 سال کے لیے پارٹی سے نکال دیاگیاہے۔معلومات کے مطابق یہ تینوں ایم ایل اے بہار اسمبلی انتخابات سے قبل جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ تاہم اس سے پہلے آرجے ڈی نے ان اراکین اسمبلی پر ایکشن لیا ہے اور انہیں 6 سال سے پارٹی سے باہرکاراستہ دکھایا ہے۔
نئی دہلی:عام آدمی پارٹی (آپ) نے برسراقتدار بی جے پی حکومت پر پارٹی دفتربندکرنے کاالزام عائد کیا ہے۔ آپ کے راجیہ سبھاکے رکن پارلیمنٹ اور یوپی انچارج سنجے سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ یوپی پولیس نے حکومت کے کہنے پرلکھنؤمیں پارٹی کے دفتر کو لاک کردیا ہے۔ پولیس کے ذرائع نے بتایاہے کہ عام آدمی پارٹی کا دفتر جہاں واقع ہے ، اس میں کرایہ کا معاہدہ نہیں ہے۔آج تک سے بات کرتے ہوئے سنجے سنگھ نے کہاہے کہ یوپی میں حکومت صرف ٹھاکروں کے لیے چل رہی ہے اوربرہمنوں کونشانہ بنایاجارہا ہے۔ لکھیم پور میں ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور بے رحمی سے قتل کردیاگیا۔اعظم گڑھ میں گاؤں کا سربراہ ہلاک ہوگیا۔ ریاست میں جنگل راج جیسی صورت حال ہے اور حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پرمیرے خلاف 5 مقدمات کیے گئے۔
نئی دہلی:کوروناوباکے بارے میں مرکزی حکومت کے رہنما اصولوں کے بعداس بارمحرم کے جلوس پرپابندی ہوگی۔ حکومت دہلی کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی ایم اے) کے جاری کردہ حکم کے تحت گنیش چتروتی کے تہوارپربھی پابندی عائدکردی گئی ہے۔ڈی ڈی ایم اے نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کوویڈ۔19 کے انفیکشن کے خطرے کے پیش نظر اپنے گھرپریہ تہوارمنائیں۔ مزید برآں ڈی ڈی ایم اے نے تمام متعلقہ محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مرکزی حکومت کے جاری کردہ رہنماخطوط پرسختی سے عمل کریں۔ڈی ڈی ایم اے کے جاری کردہ رہنما خطوط کے مطابق ڈی ڈی ایم اے نے دہلی میں کوویڈ 19 وباکے پھیلنے کے خطرے سے آگاہ کیاہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کوویڈ 19 کو پہلے ہی ایک وباقرار دے چکاہے۔ لہٰذا دہلی حکومت کوویڈ 19کے پھیلاؤکو روکنے کے لیے تمام موثر اقدامات کررہی ہے۔لیکن بسیں ،بازارکھلے ہیں جن سے سوشل ڈسٹنسنگ کی دھجیاں اڑرہی ہیں۔ کوویڈ۔19کے پھیلائوکوروکنے کے لیے ڈی ڈی ایم اے وقتاََفوقتاََتمام متعلقہ محکموں کے افسران کو مختلف رہنما اصول جاری کرتارہاہے۔
آن لائن ادبی فورم ’’بازگشت‘‘ کا دوسرا ادبی اجلاس ،فیض احمد فیض کی نظموں کی پیش کش اور تجزیہ
حیدرآباد:’’فیض احمد فیض ترقی پسند شاعروں کے کارواں میں سب سے آگے ہیں۔ انھوں نے میر تقی میر، مرزا غالب اور علامہ اقبال کی شعری روایتوں کی توسیع کی۔ ان کی شاعری یا ترقی پسند شاعری روایت سے بغاوت نہیں ہے بلکہ انھوں نے ماضی کی روایات کو عصری حالات کے آئینے میں پیش کیا۔انھوں نے قدیم علامتوں کو نئے معنی دیے۔فیض کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نعرہ بازی کو بھی شعریت عطا کردی ہے۔ ان کی فکر میں تسلسل ملتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں آس پاس کے ماحول کو سمو لیتے ہیں۔وہ خود کو عوام اور محنت کش طبقے سے الگ کرکے نہیں دیکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری عوام کو اپیل کرتی ہے۔‘‘ان خیالات کا اظہارمعروف ترقی پسند نقاد،قومی اردو کونسل کے سابق ڈائرکٹر اور دہلی یونیورسٹی کے سبک دوش استاد پروفیسر علی جاویدنے ’’بازگشت‘‘ آن لائن ادبی فورم کی جانب سے مشہور ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی نظموں کی پیش کش اور تجزیے پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں بہ حیثیت صدر اجلاس کیا۔اس موقعے پر ممتازتھیئٹر اور ٹی وی فنکار جناب جاوید نسیم نے فیض کی نظمیں ’’مجھ سے پہلی سی محبت‘‘، ’’رقیب سے‘‘، ’’موضوع سخن‘‘ اور ’’تنہائی‘‘دلکش انداز میں پیش کیں۔جلسے میں بزرگ نقاد، شاعر اور مترجم پروفیسر رحمت یوسف زئی سابق استاد حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے’’موضوع سخن‘‘ اور ’’تنہائی‘‘ اورنئی نسل کے ادیب، شاعر اور مترجم ڈاکٹر سید محمود کاظمی استاد شعبہء ترجمہ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآبادنے’مجھ سے پہلی سی محبت‘‘اور ’’رقیب سے‘‘ نظموں کے بہترین تجزیے پیش کیے اور قابل غور نکات کی جانب اشارہ کیا۔پروفیسر محمدنسیم الدین فریس، صدر شعبہء اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد، ڈاکٹرسید امتیازالدین اور ڈاکٹر ریشماں پروین، لکھنئو نے نظموں سے متعلق مباحث میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر فیروز عالم رکن انتظامیہ کمیٹی نے مہمانوں کا تعارف پیش کیا جبکہ دوسری رکن ڈاکٹر حمیرہ سعید نے نظامت کی کارروائی بہ طریق احسن چلائی۔مجلس منتظمہ کی تیسری رکن ڈاکٹر گلِ رعنا نے اظہارتشکرکیا۔اس اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔’’بازگشت‘‘ کے سرپرست پروفیسر بیگ احساس کے مطابق’’صالح اور معیاری ادب کی قرات، تفہیم، تعبیر، ترویج اور فروغ کے لیے ’’بازگشت‘‘ آن لائن ادبی فورم کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس کی جانب سے اردوکے کلاسیکی ذخیرے سے ہر ہفتے شنبہ کی رات 8 بجے گوگل میٹ پر کوئی شاہکار تخلیق یا تحریر پیش کی جاتی ہے۔ اس فورم کے تحت افسانہ، خاکہ، انشائیہ، نظم، غزل یا کسی دیگر تخلیق/تحریر کی قرات کے بعد قلم کار کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں پیش کردہ تخلیق یا تحریر پر گفتگو ہو تی ہے۔ آن لائن ادبی فورم’’بازگشت‘‘کی مجلسِ انتظامیہ میں سرپرست پروفیسر بیگ احساس کے علاوہ ڈاکٹر فیروز عالم (استاد شعبہء اردو،مولاناآزادنیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد)، ڈاکٹر گل رعنا (استاد شعبہء اردو، تلنگانہ یونیورسٹی، نظام آباد) اور ڈاکٹر حمیرہ سعید (پرنسپل، گورنمنٹ ڈگری کالج فار ویمن، سنگاریڈی) شامل ہیں۔
ممبئی:شیوسیناکے لیڈر سنجے راوت نے نریندر مودی حکومت کو اپنی خودکفالت پر اصرار کرنے پر نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ روس نے کوویڈ 19 کی ویکسین تیار کرکے پوری دنیا کے سامنے خودکفالت کی پہلی مثال پیش کی ہے جب کہ بھارت بس اس کے بارے میں بات کر رہا ہے۔راوت نے پارٹی کے ترجمان ہفتہ وار کالم میں ویکسین تیار کرنے پر روس کی تعریف کی اور کہاہے کہ یہ ایک سپر پاور ہونے کی علامت ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ روس نے جو مثال قائم کی ہے ، ہندوستانی رہنما اسے ماڈل نہیں مانیں گے کیونکہ انہیں امریکہ سے پیارہے۔اہم بات یہ ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے منگل کے روز اعلان کیا کہ ان کے ملک نے کوروناوائرس کے انفیکشن کے علاج کے لیے دنیاکی پہلی ویکسین تیارکی ہے جو کافی موثر ہے اورانفیکشن کے خلاف مستقل طاقت پیدا کرتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی ایک بیٹی کو بھی قطرے پلائے گئے ہیں۔راوت نے کہاہے کہ جب پوری دنیا یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ روسی ویکسین غیر قانونی ہے ، اس وقت پوتن نے یہ بطور ٹیسٹ اپنی بیٹی کوپلایا اوراس طرح انھوں نے اپنے ملک میں اعتماد پیداکیا۔انہوں نے کہاہے کہ روس نے پوری دنیا میں خود کفالت کی پہلی مثال پیش کی ہے اور ہم صرف خود کفالت کی بات کرتے ہیں۔
شاہین باغ کا شہزاد علی بی جے پی میں شامل،ٹوئٹر پر ہنگامہ،’کیجریوال بریگیڈ‘ شاہین باغ پروٹیسٹ کو ’بی جے پی اسپانسپرڈ‘ قرار دینے میں جٹی
سماجی کارکن و آرٹی آئی ایکٹوسٹ ساکیت گوکھلے نے شہزاد علی کو بتایا راشٹریہ علما کونسل کے دہلی چیپٹر کا سکریٹری،ثبوت کے طورپر ٹوئٹر پر پارٹی کا تقرری لیٹر بھی شیئر کیا
نئی دہلی:(قندیل نیوز) نیوز ایجنسی اے این آئی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پرچار بج کر بیس منٹ پرچند تصویروں کے ساتھ ایک مختصر سی خبر پوسٹ کی جس میں لکھا تھا کہ’’شاہین باغ کے سوشل ایکٹوسٹ شہزاد علی نے دہلی بی جے پی صدر آدیش گپتا اور پارٹی لیڈر شیام جاجو کی موجودگی بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس موقعے پر انھوں نے کہا کہ میں نے بی جے پی میں اس لیے شمولیت اختیار کی ہے کہ اس تصور کو غلط ثابت کرسکوں کہ بی جے پی مسلمانوں کی دشمن ہے۔ ہم مل کر ان سے سی اے اے سے متعلق مسلمانوں کے خدشات پر بات کریں گے‘‘۔
یہ خبرٹوئٹر پر اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو گئی اور جہاں ایک طرف عام آدمی پارٹی اور کانگریس والے اسے اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے میں لگ گئے کہ شاہین باغ کا احتجاج بی جے پی کے ذریعے اسپانسرڈ تھا،وہیں دوسری طرف مختلف سماجی کارکنان اور شاہین باغ احتجاج کا حصہ رہنے والے افراد شہزاد علی کے متعلق سوالات اٹھانے لگے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہناہے کہ شہزاد علی شروع سے آخر تک شاہین باغ موومنٹ میں کہیں بھی نہیں تھا اور ہم نے کبھی اس کا نام بھی نہیں سنا،جبکہ کچھ لوگوں نے یہ کہاکہ شاہین باغ کا رہایشی ہونے اور شاہین باغ احتجاج کا حصہ رہنے میں فرق ہے اور ممکن ہے کہ یہ شخص شاہین باغ کا باشندہ ہو مگر اس کا این آرسی اور سی اے اے کے خلاف شاہین باغ میں تقریبا تین ماہ تک چلنے والے احتجاج سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
وہیں دوسری طرف معروف سماجی کارکن اور آرٹی آئی ایکٹوسٹ ساکیت گوکھلے نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر دو تصویریں شیئر کی ہیں،جن میں سے ایک راشٹریہ علماکونسل کے لیٹر پیڈ پر جاری ہونے والا تقرری نامہ ہے،جس میں یہ لکھا ہے کہ شہزاد علی کو دہلی پردیش کا سکریٹری بنایا جاتا ہے اور ساتھ ہی پارٹی کی توسیع و فروغ کی امید جتائی گئی ہے۔
اس خط کے اجرا کی تاریخ 11فروری 2019درج ہے۔ اور راشٹریہ علماکونسل دہلی کے صدر ایس ایم نوراللہ کے دستخط سے جاری ہوا ہے۔ ساکیت گوکھلے نے ایک دوسری تصویر انگریزی نیوز ویب سائٹ’’فرسٹ پوسٹ‘‘پرشائع شدہ علماکونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی کے ایک انٹرویوکی شیئر کی ہے،جس میں انھوں نے ملک کی مبینہ سیکولر پارٹیوں پر تنقید کی تھی اورعلما کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھاکہ انھوں نے مسلمانوں کو نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حمایت پر اکساکر انھیں بی جے پی کا دشمن بنادیا ہے۔ یہ انٹرویو مذکورہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ٹوئٹر پر شہزاد علی کی راشٹریہ علما کونسل کے لیڈروں کے ساتھ کئی تصویریں بھی گشت کر رہی ہیں۔ البتہ پارٹی کی طرف سے ابھی اس پر کوئی وضاحت نہیں آئی ہے۔
بہر کیف ٹوئٹر پر شام سے ہی یہ خبرٹرینڈ کررہی ہے اور مختلف قسم کے لوگ اپنی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق مختلف آرا کا اظہار کررہے ہیں۔