اورنگ آباد:بابائے اردو مولوی عبدالحق کو ان کے یومِ وفات 16 اگست پر یاد کیا گیا، ریڈ اینڈ لیڈ فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقدہ مختصر تقریب میں ڈاکٹر یوسف صابر (مدیر عکس ادب اورنگ آباد) کی خاکوں پر مشتمل کتاب ” میرے ہم سفر” کا اجرا قاضی نوید صدیقی (صدر شعبہ اردو مولانا ابوالکلام آزاد کالج اورنگ آباد) کے ہاتھوں عمل میں آیا. نشست کی صدارت سید عطاء اللہ شاہ (مؤظف، اکاؤنٹ آفیسر) نے فرمائی۔ کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے قاضی نوید نے کہا کہ اردو زبان کے حوالے سے پوری دنیا میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا نام بڑی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی مشہور زمانہ کتاب "چند ہم عصر” جو خاکوں کا مجموعہ ہے اس میں ایک عام انسان کو بھی جگہ دی گئی ہے ،جیسے "نام دیو مالی” پر ان کا خاکہ بہت مشہور ہے۔ حسن اتفاق کہ آج ان کی وفات پر جس کتاب کا اجرا عمل میں آیا وہ بھی خاکوں کی ہی کتاب ہے۔ ریڈ اینڈ لیڈ فاؤنڈیشن کے صدر مرزاعبدالقیوم ندوی نے کہا کہ موجودہ دور میں اردو کتابوں، رسائل و جرائد کی نکاسی بڑا مشکل کام ہے۔ خصوصاً کتابوں کے طباعت و اشاعت کے مسائل، کتاب شائع ہونے کے بعد ان کی تشہیر و ترسیل کے ساتھ کتابوں کا اجرا بڑا دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔ اس لیے ریڈ اینڈ لیڈ فاؤنڈیشن نے مرزا ورلڈ بک ہاؤس پر ایک گوشہ و سلسلہ ” مصنف سے ملیے” کا شروع کیا ہے،جہاں نئے لکھنے والوں کو پلیٹ فارم مہیا کرایا جاتا ہے۔ صدارتی خطاب میں عطاء اللہ شاہ نے مصنف کو ان کی کتاب پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر یوسف صابراردو زبان و ادب کے فروغ کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں انہوں اردو زبان و ادب کے فروغ میں غیر مسلم شعرا کی خدمات پر کتابیں لکھی ہیں۔
کتاب کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہوئے یوسف صابر نے کہا کہ اس کتاب میں کل27 شخصیتوں پر خاکے ہیں، جن میں کچھ وفات پا چکے ہیں اور کچھ ابھی بقید حیات ہیں۔ انہوں یہ بھی کہا کہ یہ کتاب ان شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ہے جو میرے ہم سفر رہے۔
پروگرام کی نظامت پربھنی کے مشہور و معروف شاعر شفیع احمد شفیع نے کی اور کتاب میں ان پر خاکہ لکھنے پر مصنف کا شکریہ بھی ادا کیا۔ مہمان خصوصی میں مشہور شاعر احمد خان (بی اے) بھی موجود تھے۔ تقریب کے انعقاد کا اہتمام مرزا طالب بیگ مینیجر مرزا ورلڈ بک ہاؤس نے کیا،یوسف صابر کے شکریے پر تقریب کا اختتام عمل میں آیا۔
16 اگست, 2020
انصاف منچ و سی پی آئی ایم ایل نے 74/واں جشن آزادی تزک و احتشام کے ساتھ منایا
یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مینا تیواری نے کفیل خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا
مظفرپور:یوم آزادی کے موقع پر مظفرپور میں انصاف منچ، سی پی آئی ایم ،آل انڈیا پروگریسو ویمن ایسوسی ایشن (اپوا) اور ساوتری بائی پھولے بریگیڈ نے پولیس لائن کنہولی واقع سی پی آئی ایم ایل ٹاؤن دفتر میں پرچم کشائی اور ‘آزادی کو بچائیں – آئین کو بچائیں’ یوم عہد اجلاس کا انعقاد کیا۔ پرچم کشائی سکیوشوری دیوی اور منجو دیوی نے مشترکہ طور پر کیا۔ پروگرام میں سیکڑوں خواتین ، طلبا اور سی پی آئی ایم ایل کارکنان نے قومی ترانے کے ساتھ مل کر ملک کی آزادی ، آئین ، جمہوریت اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے کا عہد کیا۔ 1857 ء سے 1947 ء تک آزادی کی جدوجہد میں شہید ہونے والے مجاہدین آزادی کودو منٹ خاموش رہ کر خراج عقیدت پیش کیاگیا، ساتھ ہی جمہوریت اور آزادی کے بعد شہری تحریکوں میں شہد شہدا کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔
اس موقع پر ایپوا نیشنل جنرل سکریٹری سی پی آئی ایم ایل مرکزی کمیٹی ممبر مینا تیواری مہمان خصوصی کے طور پر موجود تھیں۔ اس کے ساتھ ہی سی پی آئی ایم ایل کے ضلعی سکریٹری کرشن موہن ، مزدور سبھا کےضلع صدر رامانندن پاسوان اور سکریٹری شترودھن سہنی ، کسان مہاسبھا ضلع سکریٹری جتیندر یادو ، اپپوا ضلع صدر شاردا دیوی ، پرمیلا دیوی ، رانی پرساد سمیت لڑکیوں ، خواتین اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ، انصاف منچ کے ضلعی صدر فہد زماں ، اسلم رحمانی ، کامران رحمانی ، مطلوب الرحمن ،سی پی آئی ایم ایل ضلعی کمیٹی کے ممبران رامبالک سہنی ، ہوریل رائے ، ویویک کمار شامل تھے۔اپوا جنرل سکریٹری مینا تیواری نے کہا کہ آج یوم آزادی کے موقع پر۔ ہم وطن عزیز کی آزادی ، آئین ، جمہوریت اور آئین کے اظہار کی آزادی اور عوامی حقوق کے لئے عہد لے رہے ہیں۔ آج ، ملک یوم آزادی منانے والے کورونا کی وبا کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے۔لیکن کرونا لاک ڈاؤن کی آڑ میں ، بی جے پی کی مرکزی حکومت آج آئینی ، اظہار رائے اور رہنے کے حق پر حملہ کر رہی ہے۔ سیکولر آئین کے بنیادی اصولوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ ہر آئینی ادارہ آج حکومت کا ہدف ہے۔ پارلیمنٹ ، عدالتیں ، الیکشن کمیشن سے سی بی آئی اور ای ڈی سمیت تمام اداروں کی خود مختاری پر حملہ کیاجارہاہے۔ جمہوری اور شہری حقوق پر حملہ آور ہے۔ حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی ہر آواز کو دبانے کے لئے تحریک کاروں پر ہی ، غداری کا مقدمہ درج کرنے کے بعد سیکڑوں افراد کو جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ انہوں نے سیکڑوں سیاسی سماجی کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ، جن میں معروف ماہر اطفال ڈاکٹر کفیل خان ، شاعر ورورا راؤ ، صحافی گوتم نولکھا ، سماجی کارکن اور معروف ایڈووکیٹ سدھا بھاردواج شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ لیکن حکومت کے اشارے پر خواتین اور طالبات پر بھی حملہ ہورہا ہے،جو کہ ناقابل برداشت ہے ۔
سی ایم کالج دربھنگہ کے زیر اہتمام’’ اردو زبان وادب کا عصری منظرنامہ اور سوشل میڈیا ‘‘کے موضوع پر یک روزہ قومی ویبینار
دربھنگہ:سوشل میڈیا کے مثبت او ر منفی دونوں پہلو ہیں۔سوشل میڈیا نے جہاں کچھ لوگوں کو مقبول کردیا ہے وہیں کچھ غیر معیاری چیزیں بھی مختلف گروپوں میں گردش کرتی رہتی ہیں۔کسی کے اشعار کسی دوسر ے کے نام سے لوگ بھیجتے رہتے ہیں۔یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کیا آج سوشل میڈیا واقعتا اتنا مضبوط ہوچکا ہے۔کیا آج غالب اور ٹیگور کو سوشل میڈیا کی ضرورت ہے؟بلکہ یوں کہا جائے کہ آج سوشل میڈیا کو ان کی ضرورت ہے۔یہ باتیں صدر شعبہ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر شہزاد انجم نے سی ایم کالج دربھنگہ کے زیر اہتمام ’’ اردو زبان وادب کا عصری منظرنامہ اور سوشل میڈیا ‘‘کے موضوع پر منعقدہ یک روزہ قومی ویبینار کے افتتاحی سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ادب اور میڈیا کا دائرہ الگ الگ ہے۔ہمیں اچھے ادب کی تخلیق پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ ادب تخلیق کرنا ہی سب سے بنیادی کام ہے اور اس کے بعد اس کی تشہیر کی ضرورت ہوتی ہے۔اچھا ادب جب منظرعام پر آئے گا تو اس کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے بھی اچھا لگے گا۔
ویبینار کے مہمان خصوصی ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ اردو زبان جدید ٹکنالوجی کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوارہی ہے۔آج اردو زبان دنیا کے کونے کونے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور سوشل میڈیا میں بھی اردو زبان و ادب نے ممتاز مقام حاصل کرلیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ کرونا جیسی وبا نے ہمارے جینے کا انداز تبدیل کردیا ہے اور ہمیں ایک راہ دکھائی کہ ہم ایک دوسرے سے جڑ سکیں اور سوشل میڈیا کی مدد سے اردو زبان و ادب کی خدمت کرسکیں۔ویبینار میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف ادیب و ناقد پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا ڈیجیٹل ٹکنالوجی نے ہماری زندگی میں انقلاب برپا کردیا ہے اور مجازی علائم ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔یہ صدی امکانات کی صدی ہے اور ہمیں اردو زبان کے حوالے سے کام کرنے کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ ہم سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا میں اپنی قابل ذکر موجودگی درج کرسکیں۔اردو زبان میں گزشتہ ہزار سال کا اعلیٰ ادب موجود ہے۔ریئل اور ورچوئل دنیا کے فرق کو دور کرنے میں ادب ہی ایک سہارا بن سکتا ہے۔انھوں نے اردو رسم الخط کے استعمال پر بھی زور دیا۔
اس سے قبل سی ایم کالج کے پرنسپل اور معروف شاعر و ادیب ڈاکٹر مشتاق احمد نے سبھی مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل ٹکنالوجی کی دنیا میں اردو کو مزید فروغ دینے کے لیے اس ویبینار کا اہتمام کیا گیا ہے۔انھوں نے سی ایم کالج کا مختصر تعارف کراے ہوئے کہا کہ یہ کالج 1938 میں قائم ہوا تھا اور یہ شمالی ہند کے آکسفورڈ کے طور پر مقبول رہا ہے۔ آزادی ہند کے متوالوں کا بھی یہ مرکز رہا ہے۔آنجہانی کرپوری ٹھاکر،للت نارائن مشرا، یوگیندر جھا جیسے لوگ اس کالج کے طالب علم رہے تھے۔اردو زبان و ادب کے حوالے سے اگر دیکھیں تو مظہر امام، علقمہ شبلی، منظر شہاب، منظر کاظمی، پروفیسر لطف الرحمان،قمر اعظم ہاشمی جیسے نامور ادیبوں و شاعروں نے کالج کا نام روشن کیا ہے۔کالج کے 27 طالب علموں کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ مل چکا ہے اور17 لوگوں کو پدم شری جیسا باوقار اعزاز حاصل کیا ہے۔شعبہ اردو،سی ایم کالج، دربھنگہ کے پروفیسر سید محمد احتشام الدین نے افتتاحی سیشن میںکلمات تشکر ادا کیے۔
ویبینار کے تکنیکی سیشن کی صدارت کرتے ہوئے ایل این متھلا یونیورسٹی ،دربھنگہ کے صدر شعبہ اردو پروفیسر آفتاب اشرف نے کہا کہ اردو دنیا کی ممتاز زبانوں میں سے ایک ہے۔جدید برقی وسائل کا استعمال اردو کو مزید فروغ دینے میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے تمام مقالوں پر بھی اظہارخیال کیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ندیم احمد نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج سوشل میڈیا ایک برانڈ سازی ہے اور اس میں بہت زیادہ امکانات ہیں اور ہمیں اس کے مثبت پہلوئوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔دہلی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر محمد کاظم نے اردو زبان و ادب پر سوشل میڈیاکے اثرات کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔انھوں نے یہ بھی جانکاری دی کہ تقریبا 194 ممالک میں سوشل میڈیا کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔معروف ادیب و شاعرڈاکٹر نسیم احمد نسیم نے اپنے مقالے میں کہا کہ سوشل میڈیا نے ایک شخص کو دوسرے سے جوڑا ہے اور رشتوں کو مضبوطی دی ہے۔سوشل میڈیا میں صاف ستھری چیزیں پیش کرنی چاہئے اور اردو رسم الخط کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے تب ہی اردو زبان و ادب کو نئی جہت ملے گی۔ڈاکٹر نشاں زیدی نے سوشل میڈیا اور اردو افسانہ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ڈاکٹر شاہانہ مریم شان نے اردو زبان کی ترقی اور سوشل میڈیا کے موضوع پر اظہارخیال کیا۔ڈاکٹر محمد ارشد حسین نے بھی ڈیجیٹل ٹکنالوجی اور اردو کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ویبینار کے افتتاحی اجلاس کی نظامت عبدالحی نے کی جبکہ تکنیکی اجلاس کی نظامت کی فرائض ڈاکٹر مسرور صغریٰ نے بحسن و خوبی انجام دیے۔سی ایم کالج دربھنگہ ک شعبہ اردو میں استاد ڈاکٹر نفاست کمالی کے کلمات تشکر سے یہ ویبینار اپنے اختتا م کو پہنچا۔ ویبینار میں گوگل میٹ کے ذریعہ ملک کے مختلف مقامات سے پروفیسر عطاء اللہ سنجری،پروفیسر فیض،ڈاکٹر مطیع الرحمان،ڈاکٹر نور نبی،ڈاکٹر عبدالرافع،ڈاکٹر وسیم رضا،ڈاکٹر جاوید عالم، ڈاکٹر محمدی بیگم،جناب خلیق الزماں خاں،تمیم احمد، ڈاکٹر امان اللہ ایم بی،محترمہ صوفیہ محمود،ڈاکٹر عبدالودود قاسمی، ڈاکٹر عبدالباسط حمیدی،کامران غنی صبا،ڈاکٹر ابرار اجراوی،عبدالواحد علیگ،فرح معید وغیرہ بھی جڑے رہے ۔ سمینار گوگل میٹ کے توسط سے منعقد ہوا اور تکنیکی تعاون جناب عمران عراقی صاحب نے فراہم کیا۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات:ہنگامہ ہے کیوں برپا ؟-مسعود جاوید
ملکی مفادات کی دنیا میں دینی اخوت یا عرب قومی یک جہتی کی توقع کرنا کہاں تک معقول ہے ؟
دنیا ایک عالمی گاؤں، گلوبل ویلیج بن چکی ہے، آج کے گلوبلائزیشن اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دور میں اسرائیل اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا اسرائیل کی معیشت پر کس قدراثر انداز ہوسکتا ہے؟
اسرائیل کا بائیکاٹ در اصل ایک علامتی احتجاج ہے اور اسرائیل نے فلسطینی اراضی کو غصب کر کے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ کر مسلمانوں، عرب اور دنیا بھر کے انصاف پسند لوگوں کو پچھلے ستر سے زائد سالوں سے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس لئے مہذب دنیا میں الگ تھلگ ہو جائے یہ بائیکاٹ اسی الگ تھلگ کرنے کی ایک کوشش تھی اور ہے۔
ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات قائم کرنا ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ سفارتی تعلقات قائم کرنا، کم کرنا اور ختم کرنا اسی کی ایک کڑی ہے۔ مثال کے طور پر جنگجو آمریت اور ظلم و بربریت کے لئے جانے جانے والے ملک اور اپنے دشمن ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے جاتے ہیں۔ جب کوئی ملک کسی ملک کے ساتھ معاہدوں کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے تو احتجاجاً سفیر کو واپس بلا لیا جاتا ہے، سفارتی درجہ سفیر سے گھٹا کر اس سے کم درجہ کے ڈپلومیٹ کو انچارج سفارت خانہ بنا دیا جاتا ہے۔ کسی مخصوص مسئلے پر تعلقات بہت خراب ہو جاتے ہیں تو سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن ان تمام صورتوں میں بہت حد تک قونصلیٹ کا کام چلتا رہتا ہے، سفارت خانہ بند ہونے کی صورت میں اس کے کسی دوست ملک کا سفارتخانہ یہ کام انجام دیتا رہتا ہے۔
مصر نے 1978 میں امریکی صدر جمی کارٹر کی وساطت سے مصر کے صدر انور سادات نے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ ایگریمنٹ "امن معاہدہ” کر کے سفارتی تعلقات استوار کیا تھا تو تمام عرب ممالک نے مصر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے بعد میں رفتہ رفتہ سب نے تعلقات استوار کر لیے ۔
ترکی اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم ملک ہےـ 1949 میں تسلیم کیا اور 1950 میں سفارتی تعلقات قائم کیے۔ یوروپین کونسل کے باضابطہ ممبر رہنے کی امید میں بعد میں آنے والے حکمرانوں نے تعلقات قائم رکھا۔
اردن نے 1994 میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔
سفارتی تعلقات قائم ہونے کے فوائد یہ ہوتے ہیں کہ دونوں ممالک سیاسی ، عسکری، تجارتی ، ثقافتی زراعتی، تعلیمی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے اپنے اختصاصات کا تبادلہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے معاون ہوتے ہیں۔
ہندوستان نے اسرائیل کے وجود کو گرچہ ١٩٥٠ میں تسلیم کر لیا تھا تاہم عربوں اور دیگر مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات کی خاطر سفارتی تعلقات استوار نہیں کیے تھے۔1992 میں سفارت خانے کھلے اور آج ہندوستان کو روس کے بعد سب سے زیادہ اسلحہ سپلائی کرنے والا ملک اسرائیل ہے۔ 92 سے قبل پاسپورٹ میں ایک مہر لگتی تھی ” تمام ممالک میں سفر کرنے کے لئے ویلڈ ہے سوائے ساؤتھ افریقہ اور اسرائیل کے”۔ ان دنوں ساؤتھ افریقہ میں نسل پرست سفید فام حکومت ہوا کرتی تھی۔
سعودی عرب گرچہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا مگر اس طرح کی خبریں ـ غیر مصدقہ – آتی رہتی ہیں کہ ” اپنے بڑے حریف” ایران کو مات دینے کے لئے پس پردہ انٹلیجنس اور بعض دیگر میدانوں میں اسرائیل کی خدمات لیتا رہا ہے۔
قطر نے اسرائیل کو تسلیم تو نہیں کیا تاہم 1996 میں تجارتی تعلقات استوار کیا تھا،جسے 2000 میں ختم کر دیا۔
22 میں سے 19 عرب ممالک کے سفارتی تعلقات اسرائیل کے ساتھ نہیں ہیں۔
سفارتی تعلقات قائم نہیں ہونے کا اسرائیل کو ایک نقصان یہ ہو رہا تھا کہ امپورٹ ایکسپورٹ کے لئے چیمبر آف کامرس سے سرٹیفکیٹ لینا ہوتا ہے، جس میں یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ مذکورہ مصنوعات اسرائیل میں بنی ہوئی نہیں ہیں۔ لیکن ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس دور میں اس کی بہت زیادہ اہمیت نہیں رہ گئی،اس لئے کہ اسرائیل نے یا کئی دوسرے ممالک کے سرمایہ کاروں نے دنیا کے مختلف حصوں میں پروڈکشن شروع کر دیا۔ آج پیپسی کولا یا برانڈیڈ ملبوسات و دیگر مصنوعات عرب ممالک کی منڈیوں میں بسہولت میسر ہیں خواہ ان کے مالکان اسرائیلی ہوں۔
ایک طویل عرصے تک عربوں کا قضیہ اولی فلسطین-اسرائیل تنازع تھا۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی پلیٹ فارم پر اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کے خلاف آواز اٹھاتے تھے اور ہیں۔ مگر باستثناے چند تمام عرب و مسلم ممالک امریکہ کے حلیف ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا محبوب ترین حلیف اسرائیل ہے۔ ان ممالک کی اکثریت میں غیر جمہوری نظام ہے،عوام کو ملکی سیاست خواہ عظیم اسلامی و عربی مفاد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اولا آواز اٹھانے کی اجازت نہیں اور اگر اٹھانے کی جرات کریں تو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کا ملکی مفاد امریکہ سے بایں معنی بھی وابستہ ہے کہ اس کے تین جزیرے طنب الکبریٰ طنب الصغری اور ابو موسیٰ کا ایران کے ساتھ تنازع ہے۔
سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات تینوں ہی ایرانی خطرہ کی بات دہراتے رہتے ہیں۔ اسی تناظر میں وہ بر وقت امریکی مدد کی امید کرتے ہیں۔ اور امریکہ اس کے مقابل اسرائیل- عرب ” امن معاہدہ” کرا کر عرب ممالک سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کی امید کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین حالیہ معاہدہ کی رو سے اسرائیل ویسٹ بینک مغربی کنارے پر اپنا توسیعی کام روک دیا ہے لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے رعونت بھرے لہجے میں کہا کہ یہ معاہدہ ہمیشہ میری میز پر رہے گا۔ جس سے یہ معنی بھی نکالا جاسکتا ہے کہ موۓ انحراف اور وہ توسیعی کام شروع کرنے کا حکم دے دے گا۔
اللہ رحم فرمائے فلسطینیوں پر نہ جانے کتنے معاہدے اور پچاسوں اقوام متحدہ کے قرارداد کے بعد بھی ان کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
تمل ناڈو میں مسلمانوں نے ہی امام مسجد کا گلا ریت کرقتل کر دیا، وجہ غیر واضح، پولیس کی تفتیش جاری
چنئی:(منصور عالم عرفانی)
ریاست تمل ناڈو کے ضلع کڈلور کے Panrutti میں مینارے والی مسجد کے امام محمد صدام حسین عمر 30 کا کل جمعہ کے دن گلاریت کر بہمانہ قتل کردیا گیاـ
تفصیلات کے مطابق امام صدام حسین بہار کے ضلع بانکا کے سنگار پور کے رہنے والے تھے جو کہ گزشتہ آٹھ سالوں سے Panrutti کے مینارے والی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھےـ
ذرائع سے ملی خبروں کے مطابق امام مسجد طلسمات وغیرہ کے لئے دور دور تک جایا کرتے تھے اور راتوں رات قیام کر کے کچھ عملیات کے ذریعے لوگوں کو پریشانیوں سے نجات دلایا کرتے تھے، جمعہ کی شب کا واقعہ ہے کہ تین افراد انکے گھر ماسک لگاکر پہونچے اور کچھ دعاء تعویذ کے لئے اپنے گھر ساتھ چلنے کی درخواست کی. بعد ازاں امام صدام حسین انکے ساتھ جانے کو راضی ہوگئےـ
کل صبح تک جب امام صدام حسین کی واپسی نہیں ہوئی تو اہل خانہ نے گاوں کے کچھ ذمہ داران کے ساتھ پولیس میں شکایت درج کرائی جسکے بعد پولیس تفشیش میں جٹ گئی ـ
بعد جمعہ عصر تک جب کچھ سراغ نہی ملا تو اس کے بعد پی ایف آئی اور دوسری مسلم تنظیموں نے اسٹیٹ ہائی وے جام کردیا جسے پولیس نے کافی محنت و مشقت کے بعد خالی کرایاـ کلا کرچی ہیڈ آف دی پولیس ضیاءالحق نے ملزموں کی گرفتاری کے لئے تین چار ٹیمیں بنائی اور 24 گھنٹے کے اندر ملزمین کی گرفتاری کا حکم دیاـ
تفشیش کے دوران پولیس کو ایک انجان لاش کسی تالاب میں ملنے کی اطلاع ملی جس کے بعد پولیس نے فوری طور پر اس لاش کو اپنے قبضے میں لیکر اہل خانہ سے پہچان کرائی تو معلوم ہوا کہ یہ صدام حسین کی ہی لاش ہےـ
مرحوم صدام حسین کے بھائی مولانا زبیر نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی کا بڑی بے رحمی سے گلا ریت کر قتل کردیا گیاـ جسم پر جگہ جگہ چاقو کے نشانات ہیں ـ
پولیس نے اس سلسلے میں دو لوگوں کو گرفتار کیا ہے باقی ملزمین کی گرفتاری جلد ہی عمل میں لانے کا دعوی کیا ہےـ کلا کرچی پولیس نے بتایا کہ ملزمین ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہی ہیں جنھوں نے سازش کے طور پر امام صاحب کو اپنے ہاں بلاکر اس گھٹنا کو انجام دیاـ
کل سے سوشل میڈیا پر یہ بات خوب گردش کررہی تھی کہ ہندووں نے مسجد کے امام کا قتل کیاہے یہ بات غلط ثابت ہوئی ہے ـ
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ دوسرے اینگل سے بھی اسکی جانچ کررہی ہے کہ کسی غلط رشتے کی وجہ سے ان لوگوں نے ایسا قدم تو نہیں اٹھایا کیوں کہ قتل کے بعد سے ہی یہ چرچا زوروں پر تھی کہ غلط تعلقات کی بناپر مقامی لوگوں نے یہ قدم اٹھایاہےـ
پوسٹ مارٹم کے بعد لاش کو منڈیم باکم ہسپتال میں رکھا گیاہے، مرحوم کے بھائی مولانا زبیر سے ابھی فون پر بات چیت سے پتہ چلا کہ جنازے کی نماز آج بروز اتوار بعد نماز عصر ادا کی جارہی ہےـ
اس قتل کے بعد تمل ناڈو کی مسلم تنظیمیں اور ائمہ مساجد کی تنظیم جماعت علما نے ملزمین کی جلد گرفتاری اور کیفرکردار تک پہونچانے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیاہے، پولیس کا دعوی ہیکہ تمام ملزمین کو اگلے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر گرفتار کرلیا جائیگا. بہرحال یہ تفشیش کا موضوع کہ قتل کی وجہ کیا تھی، کیوں کہ جس جگہ مقتول صدام حسین امامت کرتے تھے اس سے تقریبا پچاس سے ساٹھ کیلو میٹر دور ایک تالاب میں انکی لاش ملی ہے جو الوندر پیٹ کا علاقہ کہلاتاہےـ
مسعود جاوید
انگریزی استعماریت کے خلاف سب سے پہلے مسلمانوں نے پہلی جنگ ١٨٥٧ میں لڑی اس لئے کہ انگریزوں کی استعماریت کو ہندوستان، مسلمان اور اسلام کے لئے خطرے کو علما نے محسوس کر لیا تھا۔ ظاہر ہے متعدد اسباب کی بنا پر اس جنگ میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ انگریز اور انگریز کے پروردہ مورخین نے اسے غدر، بغاوت اور mutiny کہا۔ بدقسمتی سے مسلمان بھی اس جنگ کو غدر یا بغاوت کہتے ہیں بعض مصنفین نے بھی اپنی کتابوں کا عنوان اسی محرک کے تحت ‘اسباب بغاوت ہند’ رکھا۔ ہمارے پاس 1857 سے 1947 تک کی جنگ آزادی کی طویل جد وجہد کی تاریخ ہے، ہمارے پاس مسلمانوں اور بالخصوص علما کی قربانیوں کی قابل فخر روداد ہے، ان حقائق کو پڑھنے اور نئی نسل کو پڑھانے اور سنانے کے لیے متعدد معتبر کتابیں ہیں لیکن افسوس ہم نے اس طرف کبھی توجہ نہیں دی ۔ اس کی بجائے ہم بعض لوگوں کے ذریعے پھیلاۓ بھرم ، فیک نیوز/پوسٹ کا سہارا لیتے ہیں۔
سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ اس کے لئے کچھ تو حکومت ذمہ دار ہےاور کچھ خود ہم ۔ دلتوں سے ابتر کی ایک چھوٹی سی مثال : امبیڈکر جینتی جس ہرش و اتساہ کے ساتھ منائی جاتی ہے کیا آزاد جینتی بھی کسی کو یاد رہتی ہے ؟ ہم نے خود اس معمارِہند کو بھلا دیا تو حکومت کی سردمہری کے تو کئی اسباب ہیں اس سے کیا شکوہ۔
بعض شعلہ بیان مقررین اور خود فریبی کے شکار لکھاری حضرات اس طرح کی غلط بیانی سے لوگوں کے اندر جوش بھرتے رہتے ہیں اور وقفہ وقفہ سے ایسی باتیں پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے بہت سے واعظین جلسہ گاہوں اور منبروں سے من گھڑت احادیث، روایات اور بزرگوں کے کشف و کرامات بیان کرتے ہیں یا ایسی من گھڑت اور ضعیف حدیثوں پر مشتمل کتابوں کو پڑھتے پڑھاتے ہیں، سوال کرنے پر جواب دیا جاتا ہے کہ ترغیب و ترہیب کے لئے اس طرح کے باتیں سنائی جاتی ہیں۔ بعض مساجد میں نماز کے بعد اس کے پڑھنے کا اہتمام اتنی شدت سے ہوتا ہے کہ ناغہ کرنے والے امام صاحب کی چھٹی کر دی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھا، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ "انڈیا گیٹ کی دیواروں پر کل 95,300 مجاہدین آزادی کے نام کندہ ہیں جن میں 61350 مسلمان، 8050 سکھ، 14480 پسماندہ، 10777 دلت اور 598 اونچی ذات کے تھے سنگھی صفر”ـ
جبکہ ویکیپیڈیا کے مطابق :
١- انڈیا گیٹ کی تعمیر کا کام 1921 میں شروع ہوا تھا اور 1931 میں اس کی نقاب کشائی کرکے افتتاح ہوا تھا ۔ یعنی جنگ آزادی 1947 سے 16 سال قبل۔
٢- کل 13,300 نام کندہ ہیں۔
٣- انڈیا گیٹ عالمی جنگ اول میں برطانوی-ہندوستانی فوج کے تحت فرانس اور دیگر ممالک میں 1914 سے 1921 کے درمیان 70،000 جان گنوانے والے فوجیوں کی یاد میں بنایا گیا تھا۔
٤- انڈیا گیٹ کی دیواروں پر کل 13,300 فوجیوں بشمول انگریز فوج، کے نام کندہ ہیں نہ کہ 95,300
اقلیتوں پر ظلم و زیادتی مودی سرکار کی پبلک پالیسی بن گئی ہے: اروندھتی رائے
مشہور مصنفہ اروندھتی رائے نے یوم آزادی کے موقع پر ایک انٹرویو میں نریندر مودی حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت اکثریت اوڑھے ہوئے ایک ظالم اقلیت ہے۔ مودی سرکار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ حکومت آئین کو بالاے طاق رکھ کر آزادی کا جشن منا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جب نفرت انگیز نظریے کا غلبہ ہے۔ یہ نازی نظریہ سے متاثر ہے اور یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ اب یہ موجودہ حکومت کی عوامی پالیسی بن چکی ہے۔ اس حکومت میں ہجوم کے ذریعے قانون کو ہاتھ میں لینے کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک مشین کی طرح کام کر رہی ہے جس میں بڑے اداروں کو اپنے حق میں رکھنا اور مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کو اپنے لیے استعمال کرنا شامل ہے ۔ میڈیا کے ذریعے حکومت اپنی پالیسی عوام پر مسلط کر رہی ہے۔
انٹرویو کے دوران صحافی نے سوال کیا کہ اس حکومت کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمرجنسی کے دوران جیل گئے تھے اور موجودہ ماحول ایمرجنسی سے مختلف ہے۔ اس پر رائے نے کہا کہ ایمرجنسی کے دوران لوگوں کو قانون کی بنیاد پر گرفتار کیا جارہا تھا اور اس وقت کسی خاص فرقہ کے بارے میں کوئی پرتشدد احساس نہیں تھا، لیکن موجودہ حکومت میں بعض مخصوص کمیونٹیز کے نفرت پائی جاتی ہے۔ یہ ایمرجنسی کے دور سے بالکل مختلف ہے ،تب ایسا نہیں تھا۔ اس وقت مسلمانوں کو تنگ نہیں کیا جارہا تھا۔ ایمرجنسی کسی نظریے سے متاثر نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی اکثریت پسندی میں یہاں کا ذات پات کا نظام شامل ہے اور اس میں بھی اعلی برادریوں کے ایک اقلیتی طبقے نے ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ چاہے وہ میڈیا ہو ، عدلیہ ہو یا انڈسٹری۔ اس طرح سے یہ ایک اکثریت پوش ظالم اقلیت ہے۔اکثریت اوڑھے ہوئے یہ حکومت لوگوں میں خوف پھیلا رہی ہے اور بڑے اداروں پر قبضہ کر رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ موجودہ حکومت باقاعدہ طور پر دوبارہ آئین تحریر نہ کر رہی ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس حکومت نے آئین کوبالائے طاق رکھ دیا ہے۔
(جنستا ڈاٹ کام)
(اسرائیل امارات معاہدہ کے تناظر میں)
ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
امت کی تاریخ میں پستی و ذلت اور بے بسی و خیانت کا یہ منظر بھی دیکھنا مقدر ہوگا ایسا کبھی سوچا بھی نہ تھا، واقعہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے فلسطین کے غاصب اور مسلمانوں کے سب سے بدترین دشمن سے معاہدہ امن کرکے فلسطینی شہیدوں کے ساتھ ایک ایسی بدترین تاریخی خیانت کی ہے جس کی مثال امت کی تاریخ میں نہیں ملتی، اگر اس بدترین خیانت پر کوئی چپ رہتا ہے یا اپنی مصلحتوں کے تقاضے سے چپ رہنے کی تلقین کرتا ہے تو شاید وہ عند اللہ مواخذہ سے بچ نہ سکے۔
جمعرات ۱۳؍ اگست کو جب یہ خبر آئی کہ امریکی صدر کی ثالثی سے امارات و اسرائیل کے مابین اب معاہدہ امن ہوگیا ہے، اب مکمل سفارتی تعلقات ہوں گے، مختلف شعبوں میں مثلاً طب و صحت، صنعت و تجارت اور امن و سلامتی میں باہمی تعاون ہوگا تو راقم کو بالکل بھی حیرت نہ ہوئی بلکہ یہ محسوس ہوا کہ ایک معاشقہ چل رہا تھا، چھپ چھپ کے ملاقاتیں ہو رہی تھیں اب نکاح کا اعلان ہوگیا، راقم کو اسرائیل کے ساتھ مل کر عربوں کی خطہ میں تخریبی کارروائیوں کا علم تھا، یہ بھی معلوم تھا کہ اماراتی ہی فلسطینیوں سے القدس میں زمینیں اور مکانات خرید کر یہود کے ہاتھوں فروخت کرتے ہیں اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ فلسطین و اقصی کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی عرب ریاستیں ہیں۔
مصر و اردن پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں، بحرین کے تعلقات بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں، بلکہ اس معاہدہ کے بعد سب سے پہلے مصر و بحرین نے مبارکبادیاں پیش کیں، امت کے باحمیت لوگوں نے اسے بدترین تاریخی خیانت قرار دیا، الاتحاد العالمی کے ذمہ داروں نے کہا کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ کھلا ہوا دھوکہ ہے، اس سے فلسطین کا قضیہ کمزور ہوگا، مفتی عمان کا جرأت مندانہ بیان سامنے آیا کہ مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی آزادی اس امت پر واجب ہے، اگر کوئی اس واجب کو نہیں پورا کرسکتا تو اسے خاموش رہ کر اللہ سے دعا کرنا چاہیے، اللہ کا کوئی بندہ اٹھے گا اور اس ذمہ داری کو پورا کرے گا مگر کسی حال میں بھی کسی کو اس واجب کو کمزور کرنے والے کسی اقدام یا مسجد اقصیٰ کی سودے بازی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، واقعہ یہ ہے کہ اس فیصلے سے قضیۂ فلسطین بہت کمزور ہوجائے گا، اس کے بعد عرب و مسلم ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سلسلہ چل پڑے گا، پھر وہی اسرائیل بڑھتے بڑھتے اپنے منصوبہ کی تکمیل کرے گا، فکری وسیاسی و صنعتی برتری کے ساتھ ان ہی عرب ریاستوں کے سرپر سوار ہو کر گریٹر اسرائیل کا خواب مکمل کرے گا، یہودی پروٹوکول کے مطابق یہودی ریاست اپنے سفارتی تعلقات میں پابند عہد نہیں رہ سکتی، مگر اگر دوسرے عہد کے خلاف ورزی کریں تو وہ سزا دے سکتی ہے، بلکہ یہودی ریاست اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق اپنے مفادات کی راہ میں آنے والے تمام پڑوسی ممالک پر جنگ بھی مسلط کرسکتی ہے۔
ان عربوں نے دراصل خلافت عثمانیہ کی تقسیم میں معاونت کے بد لہ یہ جاگیریں پائی تھیں، پھر اللہ نے وسائل سے نوازا تو بھی غافل ہی رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر چیز کے لیے دوسروں کے محتاج بن کے رہ گئے، حتی کہ اپنی حفاظت کے لیے بھی دوسروں کے دست نگر بن گئے، پھر دشمن نے تحفظ کی ضمانت دینے کے ساتھ ان کے وسائل پر قبضہ کیا اور ان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا، جس فکرو نظام سے امریکہ و اسرائیل کو خطرہ ہوا اس کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ان ہی عربوں کو اور ان کی دولت کو استعمال کیا، مصر میں ہم ان کی کارستانی دیکھ چکے ہیں، یمن و شام کو کھنڈر بنانے میں ان کا کردار گھناونا ہے، لیبیا میں ان کی گھناونی سازشیں جاری ہیں، مقصد صرف ایک ہے کہ اخوان یا اخوانی ذہن کے لوگ اقتدار تک نہ پہنچیں، بالآخر عاجز ہو کر ترکی نے کچھ دنوں قبل ایک سخت اور دھمکی آمیز بیان جاری کیا جس کے نتیجہ میں بیچارے ابال کھا کر اسرائیل کی چوکھٹ پر جاگرے چونکہ امارات کا ہر قدم سعودیہ کے اشارے پر ہوتا ہے اور ترکی کو کمزور کرنا اس کی راہ روکنا اولین مقصد ہوتا ہے، اس لیے کہ دونوں اپنی خارجی سیاست میں بالکل مختلف ہیں، ترکی نے عرب بہاریہ کا مکمل تعاون کیا اور سعودیہ و امارات نے اس کو ناکام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، اس طرح اصل اختلاف نظریاتی اور خارجی ہے اور خطہ میں نظام حکمرانی و بالادستی سے متعلق ہے، ورنہ تجارتی معاملات دیکھیے تو اس پر بڑی حد تک سیاست کا اثر نظر نہیں آتا وہ قطر و سعودیہ سے کچھ یکساں ہی معلوم ہوتے ہیں، مصر میں ملعون زمانہ سیسی کو مسلط کرنے کے لیے سعودیہ و امارات نے ہر ممکن اقدام کیا جبکہ ترکی منتخب حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے کوشاں تھا، پھر ترکی کے ۲۰۱۶ء کے ناکام فوجی انقلاب میں بھی اسرائیل و امریکہ کی منصوبہ بندی کے ساتھ سعودیہ و امارات کا نام سامنے آیا تھا، یہی رویہ امارات نے لیبیا و شام میں اپنا رکھا ہے چنانچہ چند دنوں قبل الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے *ترک وزیر دفاع خلوصی آکار نے کہا کہ یوں بھی امارات کے اقدامات ترکی کے لیے مضرت رساں ہوتے ہیں، لیبیا اور شام میں جس طرح وہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے ہم مناسب وقت اور مناسب مقام پر اس سے حساب کریں گے، چونکہ یہ بیان وزیر دفاع کی طرف سے تھا اس لیے اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
اس معاہدہ کو امت کے غیور لوگوں نے عربوں کے لیے عار بتایا ہے، اس کے نقصانات و نتائج کے پیش نظر ترکی نے امارات سے اپنے سفارتی تعلقات موقوف کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے، اس نے صاف کہا ہے کہ فلسطین نہ کسی کو ہضم کرنے دیا ہے، نہ ہضم کرنے دیں گے، ترکی نے یہ سخت موقف اس لیے اختیار کیا کیونکہ سعودیہ و امارات مسلسل ترکی کے خلاف اقدام کر رہے ہیں، ۲۰۱۶ء کی فوجی بغاوت سے لے کر اردوغان کے الیکشن میں ان کی شکست کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا، دولت اور میڈیا کا بدترین استعمال کرنا، سنچری ڈیل پر ترکی کا سخت موقف اختیار کرنا اور ان کی طرف سے اس کے موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کرنا، ترکی میں یورش کی کوششیں کرنا اور حکومت مخالف لوگوں کو مدد دینا، شام و لیبیا اور یمن میں اس کو الجھانے کی کوشش کرنے تک مسلسل یہ لوگ ایک ابھرتی ہوئی مسلم طاقت کو کمزور کرنے کے درپے ہیں، اس کے پیچھے سعودیہ کا کردار سب سے زیادہ داغدار ہے جس نے ترکی میں موجود اپنی ایمبیسی میں اپنے ہی شہری کو موت کے گھاٹ اتارا، *امارات کی طرف سے اٹھایا جانے والا ہر قدم سعودیہ کا اشارہ ہوتا ہے، خطہ میں اپنی چودھراہٹ اور عالمی منظرنامہ پر مسلمانوں کا مسیحا بنے رہنے کے لیے یہ سارے گھناؤنے کام انجام دینے میں انھیں کوئی عار نہیں،* یہی وجہ ہے کہ اردوغان نے ان کے خلاف سخت ترین موقف اختیار کیا، کیونکہ یہ لوگ کٹھ پتلی بن کر راہ کا روڑا بنے ہوئے ہیں، ان کے منہ میں ان کی زبان ہے ہی نہیں، چونکہ ان بے حیثیت لوگوں کے واسطے سے امریکہ ترکی کو کمزور کرنا اور پیچھے ڈھکیلنا چاہتا ہے تو *ترکی نے بھی اب بے حیثیت لوگوں کو ہی یکسر مسترد کرنے کی ٹھانی، ترکی کے مطابق امارات محض ایک ایسی ریاست ہے جو دوسروں کے ہاتھ میں کھیلتی ہے اور دوسروں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
یہاں سطحی ذہن کے لوگ سوال کرسکتے ہیں بلکہ کرتے ہیں کہ اردوغان یہ موقف اسرائیل کے خلاف بھی تو اپنا سکتا تھا؟ ان سے کائونٹر سوال کیا جاسکتا ہے کہ سعودیہ و امارات اگر قرآن کے مخالف جاکر یہود و نصاریٰ کو اپنے تحفظ کا ضامن بنا سکتے ہیں تو ابھرتی ہوئی عسکری و اقتصادی طاقت کے ساتھ مل کر ایک مضبوط بلاک کیوں نہیں تیار کرسکتے؟ خیر ایسے سطحی لوگ یہ سب کہاں سوچیں گے، البتہ ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ترکی کا حکمراں مملکت توحید کا بادشاہ نہیں، ایک لا دین سیکولر ملک کا منتخب صدر ہے، جس کی حیثیت ہنوز ۳۲ دانتوں کے درمیان تنہا زبان کی ہے، اس میں بھی اپنوں کے دانت زیادہ دھاردار ہیں اور غیر تو دانت پھاڑے کھڑے ہی ہیں، آج بھی وہاں سیکولرزم کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ تمام تر ثبوت و شواہد و اختیارات کے باوجود اسے ایا صوفیا کو دوبارہ آباد کرنے میں اتنی طویل مدت لگ گئی، اسرائیل سے تعلقات اردوغان کو وراثت میں ملے، اس میں ایک تلخی تب آئی جب ڈیووس کانفرنس میں ایریل شیرون کو ڈانٹ کر اردوغان کانفرنس چھوڑ کے باہر آگئے، دوسری تلخی تب آئی جب انھوں نے حماس کے گرفتار پارلیمانی ممبران کی حمایت میں سخت موقف اختیار کیا، یہ تعلقات اسٹراٹیجک شراکت داری پر مشتمل تھے، رفتہ رفتہ موجودہ حکمران انھیں برابری کی سطح تک لائے اور تعلقات کو رسمی حیثیت تک باقی رکھا، یک لخت اسرائیل سے تعلقات ختم کرنا ترکی کے لیے ہنوز ممکن نہیں، یہ کہنے والے کے لیے تو بہت آسان ہے مگر کرنے والے کے سامنے ہزار مسائل ہیں، اس کی اندرونی سیاست اور اس میں موجود لادینی عناصر، یورپین یونین، نیٹو کی رکنیت اور بے شمار مجبوریاں ہیں جن کے سبب متعدد بار تلخیوں کے باوجود یہ تعلقات انقطاع پر منتج نہ ہوسکے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان رسمی تعلقات کے باوجود موجودہ ترکی نے کبھی بھی فلسطین کے قضیہ میں لچکدار موقف نہیں اختیار کیا، حالیہ اقدامات یہ کہہ رہے ہیں کہ بہت جلد وہ دن بھی آئے گا جب مکمل انقطاع ہوگا، ترکی اسرائیل تعلقات کی بقا کا ایک بڑا سبب عربوں کے خفیہ تعلقات بھی ہیں جو اب ظاہر ہو رہے ہیں، اگر سعودیہ و امارات نے مصر و شام کے انقلاب کو کامیاب ہونے دیا ہوتا تو نہ صرف یہ تعلقات بھی منقطع ہوچکے ہوتے بلکہ منظرنامہ ہی کچھ اور ہوتا، تجزیہ کرتے ہوئے صرف ایک پہلو یا محض فکری و مسلکی ہم آہنگی ہی پیش نظر نہیںہونا چاہیے بلکہ ہر پہلو سے جائزہ لینا چاہیے، ہمارے لیے مہبط وحی اور مرکز اسلام اور وہاں کے لوگوں سے زیادہ محبوب کون ہوسکتا ہے، ہمیں نہ ان سے دشمنی ہے اور نہ ترکی سے دوستی، بات تو صرف یہ ہے کہ کون اسلام اور مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں اقدام کر رہا ہے اور کون ملمع سازی کے ساتھ اغیار کا دست و بازو بنا ہوا ہے، ہمارے سلفی بھائی اندھا دھند عرب نوازی میں مبتلا ہیں، حتی کہ اب اسرائیل یعنی غاصب و ظالم سے دوستی کے لیے بھی قرآن و سنت کا استعمال شروع کردیا، مفتی امارات کا تائیدی بیان دیکھ کر شاہ صاحبؒ کی وہ بات ذہن میں آئی کہ اگر اس زمانے میں عملی نفاق کے مظاہر دیکھنے ہیں تو امراء ان کے ہم نشیں اور ان کے حاشیہ برداروں کی مجلس میں بیٹھے اور دیکھیے کہ وہ کس طرح رضائے حاکم کو رضائے الٰہی پر ترجیح دیتے ہیں، شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ براہِ راست نبی سے حدیث سن کر منافقت کرنے والوں اور آج کے ان لوگوں میں قطعی کوئی فرق نہیں ہے جن تک احکام شریعت قطعی و یقینی ذرائع سے پہنچے، دوسری طرف اسی طرح کل ایک معروف اور بڑے دیوبندی عالم کا آڈیو سنا تو حیرت کی انتہا نہ رہی، انھوں نے شاید کسی کو جواب دیا ہے کہ اردوغان بریلوی مکتب فکر سے زیادہ قریب ہے، یا دیوبندی مکت فکر سے، اس ضمن میں انھوں نے سلاسل تصوف اور تعارف دارالعلوم وغیرہ ذکر کرکے یہ ثابت کردیا کہ بظاہر عقائد و افکار میں ہم سے قریب تر ہیں، میں سوچنے لگا کہ جب حق و باطل بر سر پیکار ہیں، مشرق وسطی تقریباً ایک اور جنگ عظیم کا اسٹیج بننے کو ہے، ملت کے انگ انگ سے خون رس رہا ہے، اس وقت بھی ہمارے لوگ اپنے خول سے باہر نکل کر نہیں سوچ رہے ہیں، ایک مسلمان کے بجائے مسلک و مکتب فکر کے رکن کی حیثیت سوچنے کا بھیانک نتائج دیکھنے کے بعد بھی ہوش نہ آ سکا ہے۔
اس معاہدہ سے بظاہر مغربی کنارے کو اسرائیل ضم نہیں کرے گا لیکن ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک تھپکی اور میٹھی گولی کے سوا کچھ نہیں، اگر اس کی جگہ یہ بات ہوتی کہ اسرائیل ۱۹۶۷ء سے قبل کے حدود میں واپس جائے گا تو شاید آنسو پوچھنے کا کچھ سامان ہوجاتا، ورنہ تو فی الحقیقت یہ معاہدہ صدی ڈیل کی تکمیل کے لیے ہے، اب دیگر خلیجی ممالک بھی علانیہ سفارتی تعلقات قائم کریں گے، سب سے آخر میں سعودیہ کرے گا، یہ الگ بات ہے کہ موجودہ سعودی حکمراں کے سب سے گہرے تعلقات ہیں لیکن اسے قانونی شکل دینا باقی ہے، بہت ممکن ہے کہ سعودیہ پاکستان پر دباؤ بنا کر اسے بھی راضی کرلے، سعودی پاکستان تعلقات میں کشیدگی کی خبریں تو آ رہی ہیں، ایک خبر یہ بھی نظر سے گذری کہ سعودیہ نے تیل کی سپلائی روک دی ہے، پاکستان کے آرمی چیف دورہ کرنے والے ہیں، ممکن ہے کہ یہ سب اسی تگ و دو کی ابتدا ہو جس کا راز بعد میں کھلے، یوں بھی سعودیہ کی ناراضگی بجا ہے کیونکہ پاکستان ترکی تعلقات دن بہ دن مضبوط ہو رہے ہیں، کئی شعبوں میں باہمی تعاون اور سرمایہ کاری کا ترکی نے معاہدہ کیا ہے، سعودیہ کب چاہے گا کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہوکر بھی اپنے پیروں کھڑا ہو اور اس کے تلوے چاٹنا بند کرے۔بہر حال اس معاہدہ کا راست اثر پوری دنیاکے مسلمانوں بشمول بھارتی مسلمانوں اور بالخصوص فلسطینیوں پر پڑنا طے ہے، دیر سویر آپ یہاں بھی اسکے مظاہر دیکھیں گے اور اگر سعودیہ بھی رسمی تعلقات کا اعلان کرتا ہے تو یہاں کی خارجہ پالیسی سے زیادہ داخلی پالیسی میں تبدیلی آئے گی، پھر جو کچھ ہو گا وہ نا قابل بیان ہے، صرف عربوں کے معاشقہ اور نرم پالیسی کے سبب یہاں کی خارجہ پالیسی میں جو تبدیلیاں آئیں ان پر ہم پہلے روشنی ڈال چکے ہیں۔
بہر حال یہ بات تقریباً طے ہوچکی ہے کہ دنیا اب دو بلاک میں تقسیم ہونے والی ہے، ایک طرف ظالم و غاصب اور وسائل سے مالامال اس کے حمایتی ہوں گے دوسری طرف ظالموں کے حریف اور کچھ مظلوم اور مظلوموں کے حمایتی ہوں گے، ایک طرف حق و انصاف کا دعوی ہوگا اور دوسری طرف حق و انصاف کو دنیا سے ختم کرنے والے، حق و ناحق کی لڑائی میں اب منافقوں کے رخ سے نقاب سرکنے لگی ہے اور یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ منافق کا چہرہ ایک نہ ایک دن سامنے آہی جاتا ہے، جب مصیبت و آزمائش سامنے نظر آتی ہے تو نفاق چھپ نہیں پاتا، پہلے ہی مرحلہ میں ظاہر ہوجاتا ہے، یہی ہو رہا ہے کہ اب پوری دنیا میں دو ہی موقف ہیں صحیح یا غلط، نفاق کے لیے گویا کوئی جگہ بچی ہی نہیں، قصہ مختصر یہ کہ مشرق وسطیٰ تقریباً بارود کے ڈھیر پر پہنچ چکا ہے، لگتا ہے کہ پیشین گوئیاں صحیح ثابت ہونے کو ہیں اور مشرق وسطیٰ جنگ کا میدان بننے کو ہے، (لا قدر اللہ) مگر ایسا اگر ہوا تو اس کی ذمہ داری خود عربوں پر ہوگی کسی اور پر نہیں۔
پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس موقع پر ایسا متحدہ موقف اختیار کرنا چاہیے جس سے فلسطین کے لیے ان کی سنجیدگی و حمایت کا بھرپور اظہار ہو، قضیہ فلسطین کے سلسلہ میں ادنیٰ ترین سمجھوتہ ہمارے ہاتھوں سے ہمارے مقدسات چھین لے گا، اس معاہدہ میں موجود یہ بات انتہائی خطرناک ہے کہ پرامن مسلمانوں کے لیے مسجد اقصیٰ کے دروازے کھلے رہیں گے، یہ ایک طرح کی سودے بازی ہے، فلسطینی جیالوں پر مسجد اقصیٰ کے دروازے بند کرنے کی سازش ہے، یہ کون طے کرے گا اور کیوں طے کرے گا کہ پر امن کون ہے اور کون نہیں؟ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ شہر القدس سرخ لکیر ہے جو اسے عبور کرگیا وہ پوری امت اسلامیہ کی گردن دبوچ لینے میں کامیاب ہوگا، رہی سہی آزادی و عزت بھی اس کی مرہونِ منت ہو کر رہ جائے گی، اس لیے تمام مصالح و مفادات کو بالائے طاق رکھ کر یہ طے کیجئے کہ ہم کسی بھی ایسے اقدام کی تائید نہیں کریں گے جو فلسطین کے قضیہ کو کمزور کرنے کا سبب بنے، خواہ وہ اقدام کرنے والا دنیا کا کوئی برگزیدہ ترین شخص ہی کیوں نہ ہو۔
نئی دہلی: دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کی سو سالہ خدمات پر 16 اگست بروز اتوار کو "دارالمصنفین شبلی اکیڈمی: ایک صدی کا قصہ” کے عنوان پر اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن، نئی دہلی کی جانب سے ایک روزہ بین الاقوامی ویبینار منعقد کیاجارہا ہے۔ جس میں ملک و بیرون ملک کے دانشور اور علما شرکت کریں گے۔
پروگرام آرگنائزر حکیم نازش احتشام اعظمی کے مطابق اس ویبینار کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان نسل زیادہ سے دارالمصنفین کے بارے میں جانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ اس کے مشن کو آگے بڑھائے۔
ویبینار کا افتتاح سابق چیئر مین دہلی اقلیتی کمیشن ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کریں گے۔ مجلس صدارت میں پروفیسر اشتیاق احمد ظلی، پروفیسر خالد محمود، مولانا طاہر مدنی اور پروفیسر اختر الواسع ہوں گے. مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر انور غنی اور مہمان اعزازی شکیل صبرحدی ہوں گے۔ اس کے علاوہ پروفیسر یوسف عامر شیخ الازہر مصر، پروفیسر احمد القاضی صدر شعبہ اردو جامعہ ازہر مصر اور ڈاکٹر وفا یزداں منش شعبہ اردو تہران یونیورسٹی بھی بطور مہمان اعزازی ویبینار میں شریک ہوں گے۔
پروگرام زوم ایپ پر ہوگا۔ لنک درج ذیل ہے:
Join Zoom Meeting
https://us02web.zoom.us/j/84956820892
Meeting ID: 849 5682 0892
آج صبح جب میں نے اپنا لیپ ٹاپ دیکھا، جسے میں رات کو بند کرنا بھول گیا تھا تو وہ عجیب طرح سے کام کر رہا تھا۔ مائکروسافٹ نے میرے سسٹم کو اپ ڈیٹ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ان کا براؤزر زبردستی جم کر سامنے کھڑا ہوگیا تھا اور دھونس جما کر کہہ رہا تھا کہ ْمجھے اپنا براؤزر بناؤ، کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا۔ میں چوں کہ گوگل کروم سے مطمئن ہوں، لہٰذا کوئی دوسرا براؤزر انسٹال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، وہ بھی انٹرنیٹ ایکسپلورر جیسا تھکا ہوا براؤزر۔۔۔۔۔تو میں نے جان چھڑانے کی کوشش کی،مگر یہ ڈھیٹ براؤزر اسکرین سے ہٹ کر ہی نہیں دے رہا تھا۔ کوئی دوسرا راستہ نہ پا کر میں نے لیپ ٹاپ ری اسٹارٹ کیا تو جان چھوٹی۔ پھر میں نے ونڈوز کا ٹول MSConfig کھولا تا کہ اگر یہ "آٹو رن” پہ رکھا ہے تو اسے ْڈس ایبلْ کروں لیکن یہ کمینہ وہاں بھی موجود نہیں تھا، چھپ کر وار کر رہا تھا۔ پھر میں نے چاہا کہ پروگرام سیٹنگز میں جا کر اسے اَن انسٹال ہی کر دوں، تو پتہ چلا کہ یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ ان انسٹال کا آپشن ہی موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد میرے پاس سوائے ونڈوز کو Restore کرنے کے کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔ لہٰذا کمپیوٹر کو ریسٹور پر لگا دیا، قریباَ ایک گھنٹہ برباد ہونے کے بعداس مصیبت سے جان چھوٹی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے میرے اینٹی وائرس کو بھی متاثر کیا تھا۔
آج کی دنیا میں جہاں انسانی حقوق اور کنزیومر رائٹس کے خوشنما نعرے عام ہیں، خریدے گئے کمپیوٹرز اور موبائل فونز کو زبردستی اَپ ڈیٹ کر دینا سمجھ سے باہر ہے۔ کمپیوٹر اور موبائل کمپنیاں اپنی چیز بیچ کر، پیسے وصول کرکے بھی اپنے پراڈکٹ سے دستبردار نہیں ہوتیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اکثر پرابلمز ونڈوز اپ ڈیٹ کے بعد آتی ہیں اور آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ آپ کا موبائل فون ہر چند دن بعد کچھ نہ کچھ سست ہو جاتا ہے۔ لیکن شاید آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ موبائل اور کمپیوٹر کو اس طرح رفتہ رفتہ سست کرنے والا کوئی اور نہیں خود سسٹم مینوفیکچرر ہوتا ہے۔ جی ہاں۔ ہے نا عجیب بات؟ اگر جھٹکا لگا ہو تو پھر اگلی سطور پڑھیں۔
دو تین سال پہلے، امریکہ میں ایپل آئی فون بنانے والی کمپنی پر امریکہ میں دو مقدمے، کیلیفورنیا اور شکاگو میں علیحدہ علیحدہ دائر ہوئے، جن میں ایپل پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ جان بوجھ کر اپنے پرانے موبائل فونز کو سست کرتا ہے تاکہ لوگ پرانے موبائل پھینک کر نئے خرید لیں۔ مزے کی بات یہ کہ ایپل نے یہ بات تسلیم بھی کر لی لیکن اس کی توجیہ یہ بیان کی کہ ایسا ہم اس لیے کرتے ہیں تاکہ بیٹری کی لائف بڑھے اور ڈیوائس صحیح کام کرے۔ ایپل کی یہ چوری ایک امریکی کمپنی نے ہی پکڑی تھی جس کا کام ہی کمپیوٹرز اور موبائل فونز کے پراسسرز کی کارکردگی کو جانچنا اور پرکھنا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں نیوز میں آیا تھا کہ ایپل نے یہ مقدمہ واپس لینے کے لیے اس کمپنی کو کئی ملین ڈالر ادا کرنے کی پیشکس کی ہے۔ ابھی تک تو یہ مقدمہ چل رہا ہے، دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
اتنی لمبی بات کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جب ایپل اور مائکروسوفٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ان پروڈکٹس سے دستبردار نہیں ہوتے جنہیں وہ بیچ چکے ہیں، زبردستی ان کے سسٹم کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرتے رہتے ہیں، اسے اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں، پورے ڈیٹا پہ نظر رکھتے ہیں، تو ہم انسان، جو کہ اللہ کی تخلیقات میں نہایت اہم پراڈکٹ ہیں، وہ ہم سے کیسے دستبردار ہو سکتا ہے۔ حالانکہ اس نے تو چیز کسی کو بیچی بھی نہیں، نہ کوئی منفعت اپنے لیے چاہتا ہے۔ اگر وہ پہلے اپنے انبیا اور رسولوں کے ذریعے انسانوں کے سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ کرتا تھا یا اب اپنے کلام، قرآن مجید کے ذریعے ہمارے ہمارے سسٹم کو اپ ڈیٹ رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس میں اعتراض کیسا؟ پھر اللہ نے حضرتِ آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو معاف کرنے کے بعد جب زمین کی طرف بھیجنا چاہا تو بوقتِ روانگی صاف صاف فرما دیا: ہم نے کہا کہ”تم سب یہاں سے اُتر جاوٴ۔پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیر وی کریں گے،ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبو ل کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔“ (البقرۃ: آیات 38 و 39) یاد رکھیں، آپ کا سسٹم تو لازماَ اپ ڈیٹ ہونا ہے، کیوں کہ یہ طے ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ وہ اپ ڈیٹ آپ اپنے اصل خالق سے کروانا چاہتے ہیں یا شیطان مردود سے، جو آپ کے سسٹم میں چھپ کر بیٹھ گیا ہے اور ہر روز خود بخود "آٹو لوڈ” ہو کر آپ کے ایمان و اعمال کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے۔ پتے کی بات یہ ہے کہ اللہ کا ذکر، قرآن کی تلاوت اور اچھی صحبت ایسے "ینٹی وائرس” ہیں جوکسی "میل ویئر”، وائرس یا "اسپیم ویئر” کو آپ کے سسٹم کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیں گے۔
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
ڈاکٹر پروفیسر سید محمد مظہر الحق منظر اعجاز سابق صدر شعبہ اردو اے ان کالج پٹنہ،شاعر، ادیب اور نقاد کی حیثیت سے مشہور عام وخاص ہیں،ان کی تحریریں شوق سے پڑھی جاتی ہیں اور ان کی تنقید سے ادیب وشاعر کے مقام ومرتبہ کی تعیین ہوتی ہے، شخصیات وانتقادیات ان کی تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جسے انہوں نے تین باب میں تقسیم کیا ہے، پہلا باب شخصیات وکارنامے، دوسرا باب کچھ یادیں، کچھ باتیں، اور تیسرا باب مشاہیر بنام مشاہیر کے عنوان سے ہے، پہلے باب میں گیارہ مضامین سر سید احمد خان اور مدرسۃ العلوم، آگہی بردار بصیرت کے شاعر حالی، سید افضل الدین احمد اور فسانہ خورشیدی، شاد عظیم آبادی کے بعد شعری تثلیث، رضا نقوی واہی اور شعرستان، احمد یوسف اور آگ کے ہمسائے، قیصر صدیقی اور زنبیل سحر تاب کے نغمات، پروفیسر نجم الہدیٰ: شخصیت اور فن، محمد حسن اور غزل کی نکتہ چینیاں، خورشید سمیع کے تنقیدی معاملے کا معاملہ، اسد خستہ جاں، کا پہلا باب: ایک تجزیاتی مطالعہ کے عنوان سے ہے، دوسرے باب میں کچھ یادیں، کچھ باتیں کے عنوان سے وہاب اشرفی، اختر الایمان، لطف الرحمن اور ندا فاضلی کی شخصیت اور ان کے ساتھ بیتے لمحات کے یادوں کی برات نکالی گئی ہے، جن کو پڑھ کر ان حضرات کی افتاد طبع اور ذاتی زندگی کے بارے میں بہت سی معلومات ہمیں ملتی ہیں، جو عموماً ان کی سوانح اور ان کے فکر وفن پر گفتگو کرنے والوں کی نگاہوں سے اب تک اوجھل تھیں۔ تیسرا باب مشاہیر بنام مشاہیر، اقبال بنام صغرا ہمایوں مرزا، سردار بنام سلطانہ، مجروح بنام منظر اعجاز لکھے ہوئے خطوط پر مشتمل ہے، جس میں ان خطوط کی اہمیت پر ان کے اقتباس اور صاحب مکتوب کے شناخت نامہ کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے، ان مضامین میں ڈاکٹر منظر اعجاز نے اپنے مطالعہ اور مکتوب نگار سے اپنی واقفیت کا ذکر اچھے انداز اور عمدہ پیرایہ میں کیا ہے، تین سو بیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت چار سو نوے روپے ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے ذریعہ چھپی اس کتاب کی طباعت روشن پرنٹرس دہلی میں ہوئی ہے، بک امپوریم اور پرویز ہاؤس سبزی باغ پٹنہ سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے، کتاب کا انتساب سید حسیب الرحمن ریٹائڑ جوائنٹ ڈائرکٹر ایگری کلچر، بہار کی نیک اطوار اورپُروقار شخصیت اور ان کی اہلیہ عشرت باجی مرحومہ کی نرم گداز یادوں کے نام ہے، کتاب کے شروع میں پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب کا مقدمہ ”میری نظر میں پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز شخصیات وانتقادیات کے خصوصی حوالہ سے“ ہے، پیش لفظ پروفیسر خورشید سمیع نے لکھا ہے اور حرفے چند خود ڈاکٹر منظر اعجاز کا ہے۔
ڈاکٹر منظر اعجاز جب کسی موضوع پر لکھتے ہیں تو اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خلوص کے ساتھ تمام اہم فنی وادبی پہلوؤں سے بحث کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کی تحریر طویل ہوجاتی ہے اور شاید ہی کبھی کسی سمینار میں پوری تحریر پڑھنے کی نوبت آتی ہے، ڈاکٹر منظر اعجاز کو خود اس کا احساس ہے، وہاب اشرفی کے حوالہ سے انہوں نے خود ہی لکھا کہ”وہ میری تحریر وتقریر کی طوالت سے اکثر الجھن محسوس کرنے لگتے تھے… کئی بار تو ایسا ہوا کہ میری طوالت پر مجھے ٹوکا بھی اور روکا بھی، اور بعض دفعہ مجلس یاراں اور بزم ادب نگاراں میں شفقت ومحبت کے ساتھ میری سر زنش بھی کی“۔لیکن وہ علامہ شبلی کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ”مجھے مختصر لکھنے کی فرصت نہیں ملی“۔
ڈاکٹر منظر اعجاز جو کچھ لکھتے ہیں اس میں تحقیق وتنقید کا عنصر غالب ہوتا ہے، البتہ وہ اس کو فلسفیانہ رنگ وآہنگ دینے کے بجائے سادہ، سلیس اور رواں رکھنا پسند کرتے ہیں، حالانکہ ان کے چہرے کو دیکھیے اور پڑھیے تو وہ پورے فلسفی نظر آتے ہیں، لیکن تحریر میں کہیں بھی یہ عنصر غالب نہیں ہوتا، ادب وشاعری پر بحث کرتے ہوئے وہ ادب کے مروجہ خانوں جدیدیت، ما بعد جدیدیت، ترقی پسندی وغیرہ اصطلاح سے بھی گریز کرتے ہیں،گو بعض الفاظ کے اردو بنانے کے چکر میں ان کی اصطلاح بوجھل بھی ہوجاتی ہے، جیسے موبائل جیسے چھوٹے لفظ کے لیے فارسی نما ترکیب ”آلہ سماعت اصوات بعیدہ“جب لکھتے ہیں تو قاری کے ذہن ودماغ پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے۔
کتاب کا نام شخصیات وانتقادیات دو جزء پر مبنی ہے، شخص کی جمع شخصیات عام طور پر مستعمل ہے، البتہ انتقادیات تنقید اور نقد کے معنی میں عربی زبان وادب کے واقفین کے لیے گراں بار ہے، کیوں کہ عربی میں مصدر کی جمع نہیں آتی ہے، انتقادباب افتعال کا مصدر ہے، اور اس کی جمع لائی گئی ہے، جو غیر مستعمل ہے، مجھے معلوم ہے کہ انتقادیات کے نام سے پہلے بھی کئی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں نیاز فتح پوری، مقصودحنفی کی تنقیدی ولسانیاتی انتقادیات انہیں کی ادبی انتقادیات، سید تالیف حیدر کی خواجہ میر درد حیات وانتقادیات، احمد سہیل کی تاریخ کاری کا ساختیاتی مخاطبہ اور انتقادیات، ڈاکٹر ہلال نقوی کی انتقادیاتِ جوش، خاص طور پر قابل ذکر ہیں، یہ معاملہ خالص لسانیات کا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ الفاظ کی تشکیل وترتیب نیز ساخت میں خاندان السنہ کی رعایت ضروری ہے ورنہ الفاظ کا روٹ (Rout)ہی کہیں گم ہو کر رہ جائے گا۔
ڈاکٹر منظر اعجاز بڑے ادیب، شاعر اور نقاد ہیں، ان کا مطالعہ وسیع ہے، انتقادیات پر بات چل پڑی تو یہ چند جملے لکھا گئے، اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ یہ لفظ بہت پہلے سے رائج ہے اور ادباء وشعراء اس کا استعمال کرتے ہوئے آئے ہیں۔
ڈاکٹر منظر اعجاز کی یہ کتاب شخصیات اور ان کے ادبی شہ پاروں کوجانچنے اور پرکھنے کے سلسلے میں انتہائی مفید ہے، کیوں کہ بقول پروفیسر نجم الہدیٰ ”وہ لکھنے کے لیے جب کسی موضوع کا انتخاب کرتے ہیں تو پہلے اس کے متعلق ممکنہ حد تک تمام دستیاب مواد تک رسائی کی کوشش ضرور کرتے ہیں، گہرے مطالعہ اور اپنے حاصل کردہ مفصل معلومات کے بعد ہی قلم اٹھاتے ہیں، انتقادیات میں انصاف سے کام لیتے ہیں اور راست بازی کو مشعل راہ بناتے ہیں، ان کی تنقید کبھی تقابلی ہوتی ہے اور کبھی تجزیاتی، تقابل میں وہ کسی کو گھٹاتے بڑھاتے نہیں ہیں، مختصر یہ کہ مختلف اوقات میں لکھے گئے ان کے تاثراتی، تنقیدی اور تجزیاتی مضامین کا یہ مجموعہ اس لائق ہے کہ لائبریریوں کی زینت بنے اور اردو کا ہر قاری بقدر ظرف اس سے استفادہ کرے، خورشید سمیع صاحب کی رائے ہے کہ اسے نصاب میں شامل کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے۔
شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
مبارک ہو !
آزادی کا 74 واں سال شروع ہوگیا ہے 75 سال پورے ہونے میں ایک سال کم ۔ یہ مدت ایک آزاد ملک ، وہ بھی بھارت جیسے جمہوری اور سیکولر ملک کے لیے ، اپنے قدموں پر مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہونے ، ملک میں انصاف کے حصول کو ممکن بنانے ، قانون کی بالادستی قائم کرنے ، اور ملک بھر کے لوگوں میں ، بلا لحاظ مذہب اور ذات پات ، احساس تحفظ کو تقویت دینے کے لیے کافی ہے ۔ لیکن بھارت میں یقیناً بہت سارے ایسے لوگ بھی ہوں گے جو رات میں عدم تحفظ کے احساس کو ایک چادر کی طرح اوڑھ کر سوئے ہوں گے اور 15 اگست کی صبح اسی احساس کے ساتھ پھر جاگے ہوں گے ۔ بھلا کیوں آزادی کے اتنے برسوں کے بعد بھی بہت سارے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کا خوف سمایا ہوا ہے اور بھارت کی جمہوری اور سیکولر بنیادیں کمزور اور قانون کا سارا نظام ، سارا لاء اینڈ آرڈر اور قانون نافذ کرنے والی ساری ایجنسیاں تقریباً غیر جمہوری اور غیر سیکولر بنیادوں پر چل رہی ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب بنگلورو کے تشدد میں تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس تشدد پر بات کرنے سے قبل گزرے ہوئے 73 سالوں پر اگر ایک نظر ڈال لی جائے تو مذکورہ سوال کا جواب تلاش کرنے میں مزید آسانی ہو سکتی ہے ۔
آزادی کے بعد تقسیم اور قیام پاکستان کا عمل ملک کی تاریخ میں ایک زخم کی طرح شائد ہمیشہ تروتازہ رہے گا، اس لیے نہیں کہ یہ زخم بھرا نہیں جا سکتا ، بلکہ اس لیے کہ کچھ لوگ اس زخم کو بھرنے دینا ہی نہیں چاہتے ۔ بٹوارہ سے بہت سارے لوگوں کو مسلمانوں پر انگلیاں اٹھانے اور اسی بہانے اپنے مفادات ___ سیاسی ، تہذیبی اور مذہبی ___ حاصل کرنے کا موقع مل گیا ہے ۔ آزادی کے ابتدائی سالوں میں مسلمان ایک طرح کے احاس شرمندگی کا شکار تھا اور کیوں نہ ہوتا کہ بٹوارے کا سارا الزام اسی کے سر دھر دیا گیا تھا ، آزادی کے لیے اس کی ساری قربانیاں فراموش کر دی گئی تھیں ، محمد علی جناح مسلمان تھے اس لیے ان کا عمل سارے مسلمانوں کا عمل قرار پایا تھا ، ان مسلمانوں کا بھی جو بھارت چھوڑنے کو تیار نہیں ہوئے تھے، بٹوارے کے فسادات نے لوگوں سے بہت کچھ چھین لیا تھا، محبت کی جگہ نفرت نے لے لی تھی ۔ لیکن اس وقت کی سیاسی اور مذہبی قیادت آج جیسی مطلبی نہیں تھی بلکہ مخلص تھی اس قیادت نے حوصلے بڑھائے اور نئے سرے سے زندگی گزارنے کی امنگ پیدا کی اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے بھارت میں اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کامیاب کوشش کی اور سیاست، تعلیم اور تجارت تینوں ہی میدانوں میں کامیاب رہے اور اپنی کامیابیوں سے ملک کو ترقی کی راہ پر آگے بھی بڑھایا ۔ مگر جب قیادت بدلی اور سیاست میں فرقہ پرستی کچھ یوں در آئی کہ سیکولر سیاست داں بھی اقتدار کے حصول کے لیے مذہب اور ذات پات کا کھیل کھیلنے کو درست سمجھنے لگے ، فرقہ وارانہ فسادات عام ہوگیے اور مسلم قیادت مایا جال میں پھنس گئی تب سیاست ، تعلیم و تجارت ان تینوں ہی میدانوں میں مسلمانوں کو ناکامیاں ملنے لگیں ۔ لیکن اس کا ایک سبب کچھ ان کی نااہلی اور حالات کو نا سمجھنے کی روش بھی تھی اور کچھ مسلم قیادت کا اپنے سیاسی آقاؤں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے قوم کو نظر انداز کرنے کا چلن بھی ۔ میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ بھارت کو مضبوط جمہوری اور سیکولر بنیادوں پر کھڑا کرنے اور اقلیتوں میں ، بشمول مسلم اقلیت ، تحفظ کا احساس جگانے میں ناکامی کی سب سے بڑی مجرم سیکولر فورس یا باالفاظ دیگر سیکولر سیاسی جماعتیں اور ان جماعتوں میں شامل مسلم لیڈران ہیں ، ان میں مذہبی لیڈران بھی شامل ہیں ۔ آج بھارت کا مسلمان اپنے وجود کی لڑائی لڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے ۔ 1980ء کے بعد سے سیکولر قیادت نے اپنا چہرہ ایسا پھیرا ہے کہ سیکولر اور غیر سیکولر کا فرق ہی مٹ گیا ہے ۔ بھلا یہ کون سی سیاست ہے کہ اقتدار میں رہنے کے لیے رام ولاس پاسوان ، جارج فرنانڈیز، نتیش کمار، شرد یادو جیسے لوگ ، جن کی زبانیں خود کو سیکولر کہتے نہیں تھکتیں ، بی جے پی کو حکومت سازی میں مدد دیں ! این ڈی اے کے سیکولرسٹوں نے فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں کو مضبوط کرنے کا ہی کام کیا ہے اور آج بھی یہی کام کر رہے ہیں ، انہوں نے جمہوری اور سیکولر بھارت کو کمزور کیا ہے ، اقلیتوں کے مسائل نظرانداز کیے بلکہ اقلیتوں کے مسائل کو پیچیدہ بنانے میں فرقہ پرستوں کا ساتھ دیا ہے ۔ این آر سی ، این پی آر کو ان سب کی حمایت حاصل رہی ثبوت ان کی مدد سے سی اے اے کی منظوری ہے ۔ کانگریس بھی اسی صف میں شامل ہے کہ اس نے بڑے ہی منظم انداز میں اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کی معاشی، تعلیمی اور سماجی کمر توڑنے کا کام کیا ہے ۔ تعلیمی اداروں کے دروازے بند کرنا ، سرکاری نوکریوں میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو جگہ دینا ، بابری مسجد اور یکساں سول کوڈ جیسے مسائل زندہ رکھنا ، اردو زبان کو اس کے جائز حق سے محروم رکھنا ، اور سیاست میں مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنا ، کیا یہ کانگریسی قیادت کے وہ سیاہ کارنامے نہیں ہیں جو اس ملک کے مسلمانوں میں مایوسی کے پھیلنے اور ملک کو کمزور کرنے کا سبب بنے ہیں؟ جب مسلمانوں کو سیکولر سیاسی قیادت کی سب سے زیادہ ضرورت تھی ، ایودھیا آندولن کے وقت ، جب سب کچھ کیا مذہب اور کیا وجود داؤ پر لگا تھا ، جب فسادات کرائے اسی لیے جاتے تھے کہ مسلمان خوف کی نفسیات سے باہر نکل کر تجارت ، تعلیم اور سیاست وغیرہ پر توجہ دے ہی نہ سکیں ، تب جب سہارا مطلوب تھا بے سہارا کر دیا گیا تھا ، اور آج تک مسلمان بے سہارا ہی ہیں ۔ بھلا ان سیکولرسٹوں سے جو بابری مسجد کی جگہ تمام ثبوتوں کے باوجود بھی مندر کو دینے پر خاموش رہے بلکہ بھومی پوجن پر اڈوانی ، اوما بھارتی اور آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت سے بھی زیادہ پرجوش اور
خوش تھے ، کیا بھروسہ کیا جا سکتا ہے!
آج ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہو گیا ہے جس
کے دونوں ہی طرف کھائی ہے ۔ اگر ایک جانب ملک سے سیکولر اور جمہوری آئین ختم کرکے بھارت کو ہندو راشٹر کی طرف تیزی کے ساتھ ڈھکیلنے والے بھگوادھاری ہیں تو دوسری جانب سیکولرسٹوں کی وہ ٹولی ہے جو دھوکہ دیتی رہی ہے اور اب کھل کر ، ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ دھوکہ دے رہی ہے ۔ اس دو راہے پر کھڑا ہوا مسلمان یہ سوچ رہا ہے کہ کیا کیا جائے؟ کئی تجربے کیے جا چکے ہیں ، کہا جاتا تھا کہ ایک بار اسے آزما لیا جائے جسے اب تک آزمایا نہیں گیا ہے ، جب آزمایا تو وجود کے ساتھ مذہبی اور تہذیبی شناخت بھی داؤ پر لگ گئی ۔ آج بی جے پی تقریباً سارے ملک پر چھائی ہوئی ہے ، اسی لیے سنگھ پریوار کے سارے ایجنڈے لاگو ہو رہے ہیں ۔ آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک گرو گولوالکر نے مسلمانوں کو ، اور ان کے ساتھ عیسائیوں اور یہودیوں کو ، بھارت کے اصلی باشندے کبھی نہیں قرار دیا تھا ، یہی آر ایس ایس کا نظریہ اور فلسفہ ہے ، بھارت ہندوؤں کے لیے ۔ عیسائی اور یہودی تو محفوظ رہ سکتے ہیں کہ ان کے پیچھے سارا یوروپ اور امریکہ اور اسرائیل کھڑا ہوا
ہے ، لیکن مسلمان کہاں جائیں گے کہ مسلم دنیا تو خود فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ کر اسرائیل سے دوستی کررہی ہے ۔ اکا دکا اٹھنے والی آوازیں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوسرے دور میں بڑی تیزی کے ساتھ سنگھ کے ایجنڈے پر عمل شروع ہو گیا ہے ۔ آئینی ادارے حکومت کے اشارے پر آنکھیں بند کیے عمل پیرا ہیں ۔ بابری مسجد کی جگہ کو یہ ثابت ہونے کے باوجود کہ کسی مندر کی بنیاد پر مسجد کی تعمیر نہیں ہوئی ہے اور اس کی شہادت غیر قانونی تھی ، رام مندر کی تعمیر کے لیے عدالت ہی نے سونپی ہے ، اسی عدالت نے جس نے سینئر وکیل اکٹیوسٹ پرشانت بھوشن کی حق بیانی کے لیے انہیں توہین عدالت کا مجرم قرار دیا ہے، اس طرح سب کو تنبیہ دی ہے کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب ہم جو نکالیں گے وہ ہوگا نہ کہ تم جو سوچو گے وہ ۔ اب عام انسانوں کی زبان بندی کے دن قریب آ گیے ہیں ۔ بلکہ دن آہی گیے ہیں ۔ اب بھلے یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت اور ان کی دیکھا دیکھی دوسری ریاستی سرکاریں حقوق انسانی کے رضاکاروں کو زندان میں ڈالتی رہیں ، جمہوری اور آئینی احتجاج کے حق کا استعمال کرنے والوں کو ملزم مان کر ان کی املاک قرق کرتی رہیں ، اور عدالت فریادیں نہ سنیں تو زبان پر حرف شکایت لانا آسان نہیں ہو گا کیونکہ یہ عمل عدلیہ کی توہین کا باعث قرار پا سکتا ہے ۔ لوگ کہاں جائیں ، کس سے فریاد کریں؟
ملک کو اس حالت میں پہنچانے کے جو ذمہ دار ہیں وہ کوئی جواب نہیں دیں گے لوگوں کو خود ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہوں گے ۔ خیر ہم یہ تو جان گیے ہیں کہ ملک میں فرقہ پرستی کے عروج کی وجہ سیکولر قیادت کی دھوکہ دھڑی رہی ہے ، اس میں مسلمانوں کی سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعتوں سے جڑے سیاسی اور مذہبی قائدین بھی شامل ہیں ، جی ہاں یہ بھی دھوکے باز ہیں ۔
اگر ہم بنگلور کے تشدد پر نظر ڈالیں تو یہ سچ بہت ہی واضح ہو کر سامنے آتا ہے کہ کانگریسی ایم ایل اے اکھنڈا سری نواس مورتھی کے بھتیجے پی نوین کے ذریعے فیس بک پر پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ اور اماں حضرت عائشہؓکی شان میں گستاخانہ پوسٹ کی خبر عام ہونے کے بعد جب مسلمانوں میں غصے کی لہر دوڑی اور انہوں نے پولیس اور کانگریسی ایم ایل اے سے انصاف کی گہار لگائی تب پولیس ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ، پی نوین کو حراست میں لینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ، مسلمانوں کے مجروح مذہبی جذبات کی تسکین کے لیے اقدامات کرنے میں پولیس ہچکچاتی رہی یہاں تک کہ رپورٹ بھی فوری طور پر درج کرنے کی بجائے یہ کوشش کرتی رہی کہ فریقین آپس میں بیٹھ کر معاملے کو نمٹا لیں ۔ ایک سچ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جو بھیڑ جمع ہوئی اور بتدریج جس میں اضافہ ہوتا رہا اسے تتر بتر کرنے کے لیے پولس فورس کو آنے میں تقریباً دو گھنٹے کی تاخیر ہوئی ۔ مذکورہ حقائق سے کئی سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جیسے یہ کہ پی نوین کو فوری طور پر حراست میں کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا کانگریسی رکن اسمبلی کا پولیس پر دباؤ تھا؟ پولیس کیا کسی کے اشارے پر پی نوین کے خلاف رپورٹ لکھنے سے ہچکچا رہی تھی؟ کیا پولیس فورس اس لیے جلد نہیں بھیجی گئی کہ بھیڑ بڑھتی رہے اور لوگوں کا غصہ تشدد میں بدل جائے؟ یہ بات بہت صاف ہے کہ اگر بھیڑ بڑھنے نہ دی جاتی اور فوراً رپورٹ لکھ کر پی نوین کے خلاف کارروائی شروع کردی جاتی تو تشدد نہ ہوتا ۔ یہ ممکن ہے کہ بھیڑ میں شرپسند عناصر شامل کر دیے گیے ہوں ، سیاسی حریفوں نے ایک دوسرے کو چت کرنے کے لیے تشدد پھیلا دیا ہو ۔ کانگریس اور بی جے پی کی رسہ کشی کی خبر ہے ۔ یہ بھی خبر ہے کہ ایس ڈی پی آئی کے مزمل پاشا اور مورتھی و پی نوین بھی ایک دوسرے کے سیاسی حریف ہیں ۔ مسلمانوں کے جذبات کو جوش دے کر پہلے بھی سیاستدان سیاست کے توے پر روٹیاں سینکتے رہے ہیں ۔ اور اب بھی سینک رہے ہیں ۔ بنگلورو کے ان ہی مسلمانوں نے جن پر تشدد کا الزام ہے انسانی زنجیر بنا کر مندر کی حفاظت کی اور پی نوین کی والدہ کو محفوظ مقام پر پہنچایا بھلا وہ کیسے اس قدر متشدد ہو گیے کہ ساٹھ سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو گیے اور رکن اسمبلی کے ساتھ پی نوین کے مکان میں توڑ پھوڑ اور آگ زنی ہوئی اورمتعدد گاڑیاں پھونک دی گئیں؟ ان سوالوں کا جواب سامنے ہے ، مسلمانوں کے غصے کو بھڑکنے دیا گیا ، مسلم قیادت سوتی رہی ، سوائے ایس ڈی پی آئی کے مزمل پاشا کے کوئی بھیڑ کو سنبھالنے والا نہیں تھا ، سیکولر قیادت لاپتہ رہی اور پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی گئی اس نے گولی باری کی ، تین افراد شہید ہوئے دوسو سے زائد گرفتار اور مسلمانوں و دلتوں میں پھوٹ پڑ گئی ۔ پی نوین واضح رہے کہ دلت ہے ۔ یہ آزادی کے 74 ویں سال میں وہ جمہوری اور سیکولر بھارت ہے جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے ۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی پر احتجاج بنیادی حق ہے لیکن اس حق کے مظاہرے کو تشدد میں تبدیل کرکے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کر دیا جاتا ہے اور لوگوں کی ان سے نفرت مزید گہری کر دی جاتی ہے ۔ مسلمان احتجاج کریں لیکن کسی کو تشدد پھیلانے کا موقع نہ دیں۔ نہ گولی کھائیں نہ جیل جائیں ۔ اس کے لیے انہیں اپنی صفوں میں موجود شر پسند عناصر کو چھانٹنا ہوگا ، فرقہ پرستوں کی سازشوں کو سمجھنا ہو گا اور اپنی صف میں جو مفادپرست قائدین ہیں انہیں پہچان کر باہر کرنا ہو گا ۔ ایک چیز اور ہے ، اتحاد ۔ جب تک مسلمان متحد نہیں ہوگا نئے بھارت میں رہنا اس کے لیے عذاب بنا رہے گا ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
مظفرپور: مصراولیا میں پھرشر انگیزی کی کوشش،آئی جی،ڈی ایم اور ایس ایس پی کی فریقین کے ساتھ میٹنگ،پانچ فسادی گرفتار، حالات پر امن
اعلی افسران نے افواہوں پر دھیان نہ دینے کی اپیل کی، لوگوں کا مقامی تھانہ صدر راجیش کمار پر جانبداری برتنے کا الزام، قانونی کارروائی کا مطالبہ
مظفرپور:(عبدالخالق قاسمی)ضلع کے اورائی اسمبلی حلقہ میں واقع مصراولیا اور جگولیا میں فرقہ پرست عناصر کے ذریعہ باربار ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہےـ 15/ اگست بروز سنیچرکو بھی دن کے 2 بجے کے قریب قرب و جوار سے بڑی تعداد میں دنگائی بھگوا جھنڈا لیکر جے شری رام اور جذبات کو بر انگیختہ کرنے والے نعرے لگاتے ہوئے مصراولیا اور جگولیا پہنچے، جس کی وجہ سے ایک بار پھر ماحول تشویشناک بن گیا تھا،مگر مقامی لوگوں نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر انتظامیہ کو خبردی جس کے بعد شام 5 بجے آئی جی،ڈی ایم اور ایس ایس پی مصراولیا پہنچے اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد فریقین کے ساتھ کی مٹینگ کی اورلوگوں سے آپس میں بھائی چارہ اورہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی اپیل کرتے ہوئے آئندہ اس طرح کی فرقہ واریت کو ہوا دینے پر سخت کاروائی کا انتباہ دیاہے ـ انتظامی افسران کے ساتھ دونوں فرقوں کے نمایندوں کی مٹینگ کے بعد حالات پوری طرح معمول پر آگئے ہیں ـ اس میں علاقے کے سنجیدہ و باشعور افراد ،سماجی کارکنان اور صحافتی برادری کی بیداری کا بھی دخل رہا ہے،ان کے بروقت توجہ دلانے کی وجہ سے ہی مقامی انتظامیہ سے لے کر اعلی حکام تک یہاں کی صورتِ حال پہنچ سکی اور انھوں نے فوری طورپر علاقے میں امن و امان کے قیام کے لیے قدم اٹھایا۔ میٹنگ کے بعد ڈی ایم نے لوگوں کو افواہوں پر دھیان نہ دینے کی بھی تلقین کی ہےـ قابل ذکر ہے کہ مقامی لوگوں میں اورائی تھانہ صدر راجیش کمار کے خلاف زبردست غم و غصہ پایا جا رہا ہے،ان کا الزام ہے کہ انھوں نے شروع سے ہی معاملے کو غیر سنجیدگی سے ہینڈل کیا جس کی وجہ سے فسادی عناصر کا حوصلہ بڑھ گیا اور وہ بار بار گاؤں کے امن و امان کو مخدوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ـ انھوں نے اعلی حکام سے تھانہ صدر کی برطرفی اور غیر سنجیدہ و جانبدارانہ رویہ کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ان کے خلاف قانونی کارروائی کا بھی مطالبہ کیا ہےـ
نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی نے 74 ویں یوم آزادی کے موقع پر ہندوستان کوخودکفیل بنانے پر زور دیا اور اس کے لیے ایک فریم ورک پیش کرتے ہوئے متعدد اعلانات کیے ہیں۔انہوں نے خود کفیل ہندوستان کو دنیا کی فلاح وبہبودکے لیے ضروری قراردیتے ہوئے کہاہے کہ کورونا وائرس کی وبا بھی ملک کواس عہد سے باز نہیں رکھ سکتی۔تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے یوم آزادی کے ساتویں خطاب میں مودی نے کہاہے کہ ہندوستان کی خودمختاری کا احترام سب سے اہم ہے اور جس نے بھی اس پر نگاہ ڈالی ، ملک اور ملک کی فوج نے اپنی زبان میں اس کا جواب دیاہے۔وزیر اعظم نے میک ان انڈیاکے ساتھ مل کرمیک فار ورلڈ نعرہ لگایااور نیشنل ڈیجیٹل ہیلتھ اسکیم کا اعلان کیا۔روایتی کرتہ ،پاجاما اور عمامہ پہن کروزیر اعظم نے اپنے 86 منٹ کے خطاب میں کہاہے کہ خود کفیل ہندوستان کا مطلب نہ صرف درآمدات کو کم کرنا ہے بلکہ اس کی صلاحیت ، اس کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرناہے۔انہوں نے کہاہے کہ صرف چند ماہ قبل تک ، N-95 ماسک ، پی پی ای کٹس ، وینٹیلیٹر سبھی بیرون ملک سے درآمد کیے جاتے تھے ، لیکن آج ہندوستان نہ صرف اپنی ضروریات کو پورا کررہا ہے ، بلکہ دوسرے ممالک کی مددکے لیے بھی آگے آیاہے۔انہوں نے کہاہے کہ گذشتہ سال ہندوستان میں ایف ڈی آئی نے اب تک کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ہندوستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 18 فیصداضافہ ہواہے۔آج دنیا کی بہت سی بڑی کمپنیاں ہندوستان کا رخ کررہی ہیں۔ ہمیں میک ان انڈیاکے ساتھ ساتھ میک فار ورلڈ کی مہم کے ساتھ آگے بڑھناہے۔وزیر اعظم نے کہاہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے درمیان ہندوستانیوں نے خود انحصاری کا وعدہ کیا ہے اور یہ صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ تمام لوگوں کے لیے عہدہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کب تک خام مال برآمد کرے گا اور تیار شدہ مصنوعات کی درآمد کرے گا ، بھارت کو خود انحصار کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاہے کہ عالمی معیشت میں ہندوستان کا حصہ بڑھنا چاہیے اور اس کے لیے ہمیں خودکفیل ہوناہوگا۔انھوں نے کہاہے کہ جب ہم معاشی نمو اور ترقی پر توجہ دیتے ہیں تو انسانیت کو اس عمل میں مرکزی کردار ادا کرناچاہیے۔اس موقع پروزیر اعظم نے کہاہے کہ ہمارا ذہن پوری طرح سے ووکل فار لوکل (مقامی مصنوعات پر زور دینا)ہوناچاہیے۔اس موقع پروزیر اعظم نے لداخ میں چین کے ساتھ سرحد پر جاری کشیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاہے کہ ہندوستان کی خودمختاری کا احترام سب سے اہم ہے اور جس نے بھی آنکھیں اٹھائیں ، ملک اور ملکی فوج نے اپنی زبان میں اس کا جواب دیا۔ چین کانام لیے بغیرمودی نے کہاہے کہ دنیا نے حال ہی میں لداخ میں دیکھا ہے کہ ملک اور اس کے جوان خودمختاری کااحترام کرنے کے لیے کیاکرسکتے ہیں۔انھوں نے کہاہے کہ جس نے بھی ملک کی خودمختاری پر لائن آف کنٹرول (ایل اوسی) سے لے کرلائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) تک دیکھاہے ، اس ملک کی فوج نے اسی زبان میں جواب دیاہے۔مودی نے کہا ہے کہ ہندوستان کی خودمختاری کا احترام کرناہمارے لیے اہم ہے۔ ہمارے بہادر فوجی اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں ، ملک کیاکرسکتا ہے ، لداخ میں دنیانے دیکھا ہے۔وزیر اعظم نے وادی گلوان میں چینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ میں شہید فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ دہشت گردی یا توسیع پسندی،ہندوستان آج اس کا مضبوطی سے مقابلہ کر رہا ہے۔حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے عارضی رکن کی حیثیت سے 192 میں سے 184 ممالک کی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہاہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج ہندوستان پر دنیا کا اعتماد مضبوط تر ہوا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ دنیاکے 192 ممالک میں سے 184 میں بھارت کی حمایت ہر ہندوستانی کے لیے فخر کی بات ہے۔ یہ اس کی مثال ہے کہ ہم دنیامیں کیسے پہنچے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہندوستان خود مضبوط ہو ، بھارت مضبوط ہو ، بھارت محفوظ ہو۔مودی نے کہاہے کہ ہمارے پڑوسی ممالک کے ساتھ چاہے وہ ہم سے زمین کے ذریعے جڑے ہوں یا سمندر سے ، ہم اپنے تعلقات کو زیادہ اعتماد کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہاہے کہ ہندوستان کی مستقل کوشش ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے صدیوں پرانے ثقافتی،معاشی اورمعاشرتی تعلقات کومضبوط کریں۔انہوں نے جنوبی ایشیاء کے ممالک پرکہاہے کہ خطے میں امن اور ہم آہنگی انسانیت کے لیے بہترہوگی۔انہوں نے کہاہے کہ ساری دنیاکی دلچسپی اس میں شامل ہے۔میک ان ورلڈ (دنیاکے لیے مینوفیکچرنگ) کے نعرے کومیک ان انڈیاکے ساتھ مربوط کرتے ہوئے ، مودی نے ہندوستان کو اقتصادی پالیسیوں اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں بہتری کے ساتھ دنیا کی سپلائی چین میں مینوفیکچرنگ کے ایک بڑے مرکزکے طور پر پیش کیا۔انھوں نے کہاہے کہ ہندوستان اپنے 130 کروڑ عوام کی حمایت سے میک فار ورلڈکی طرف ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔خود انحصاری کو کورونا وائرس کے وبا سے سبق حاصل ہونے والا سب سے بڑا سبق قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نے نیشنل ڈیجیٹل ہیلتھ کمپین کا اعلان کیا اور کہا کہ اس سے ملک کے صحت کے شعبے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کی مشکلات میں ایک نیا انقلاب آئے گا۔انہوں نے کہاہے کہ آج سے ملک میں ایک اور بڑی مہم شروع ہونے جارہی ہے اور یہ ہے نیشنل ڈیجیٹل ہیلتھ مشن۔انھوں نے کہاہے کہ نیشنل ڈیجیٹل ہیلتھ مشن ہندوستان کے صحت کے شعبے میں ایک نیاانقلاب لائے گا۔ٹکنالوجی کے ذریعہ لوگوں کے مسائل کم ہوجائیں گے۔انہوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ ملک کی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے نیشنل انفراسٹریکچرپائپ لائن پروجیکٹ میں 100 لاکھ کروڑ سے زائد خرچ کیے گئے ہیں، انھوں نے کہاہے کہ اس کے لیے لگ بھگ سات ہزار منصوبوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔انہوں نے کہاہے کہ ہندوستان کو جدیدیت کی طرف بڑھنے کے لیے ملک کی ہمہ جہت بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ایک نئی سمت دینے کی ضرورت ہے۔کوروناوائرس کے خلاف جنگ کے بارے میں تفصیل دیتے ہوئے مودی نے اعتمادکااظہارکیاہے کہ ہندوستان اس جنگ کو 130 کروڑ شہریوں کی طاقت کے ساتھ جیت جائے گا۔وزیر اعظم نے کوروناجنگجوؤں ، تحریک آزادی میں قربانی دینے والے تمام مجاہدین اورملک کے دفاع میں شہید ہونے والے فوجیوں کوبھی یادکیا اور انہیں سلام کیا۔اس سے قبل لال قلعہ پہنچنے پر وزیر اعظم نے ترنگالہرایا اور یوم آزادی کی مناسبت سے شہریوں کومبارکباد پیش کی۔ وہ راج گھاٹ گئے اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کی سمادھی پر خراج عقیدت پیش کیا۔
یومِ آزادی پر سونیاگاندھی کاسوال،کیالکھنے،بولنے اورحکومت کے احتساب کی آزادی ہے؟
نئی دہلی:ملک اپنا 74 واں یوم آزادی منا رہاہے۔ ادھر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے یوم آزادی کے موقع پر وطن عزیزکومبارکبادپیش کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مودی سرکار پر شدید حملہ کیا۔ سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ حکومت جمہوری نظام ، آئینی اقدار اور قائم روایات کے خلاف کھڑی ہے۔یوم آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے سونیا گاندھی نے کہاہے کہ ہمارے ہندوستان کی شہرت نہ صرف جمہوری اقدار اور پوری دنیا میں مختلف زبانوں ، مذاہب ، فرقوں کی تکثیریت کی وجہ سے ہے ، بلکہ ہندوستان کی یکجہتی بھی ہے۔ سونیا گاندھی نے کہاہے کہ آج چونکہ پوری دنیا کورونا وباکے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے،لہٰذاہندوستان کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اور اس وباکوشکست دینے کے لیے ایک نمونہ طے کرنے کی ضرورت ہے۔ میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ ہم سب اس وبائی اور شدید معاشی بحران کی حالت سے نکل آئیں گے۔انہوں نے کہاہے کہ آزادی کے 74 سالوں میں ہم نے وقتاََفوقتاََاپنی جمہوری اقدار کا تجربہ کیا ہے اور انھیں مستقل طور پر پختہ کیا ہے۔ آج ایسالگتا ہے کہ حکومت جمہوری نظام ، آئینی اقدار اور قائم روایات کے خلاف ہے۔ یہ ہندوستانی جمہوریت کے لیے بھی ایک امتحان ہے۔چین اورہندوستانی فوج کے تصادم پرسونیاگاندھی نے کہاہے کہ وادی گلوان میں کرنل سنتوش بابو اور ہمارے 20 فوجیوں کو ساٹھ دن گزر چکے ہیں۔ میں ان کی یاد دلاتے ہوئے ان کی بہادری کو بھی سلام پیش کرتی ہوں اور حکومت سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ ان کی بہادری کو یاد رکھیں اور ان کا احترام کریں۔ مادر وطن ہندوستان کی حفاظت اورچینی دراندازی کو ناکام بنانا ان کا سب سے بڑا خراج ہوگا۔سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ آج ہر ملک کے باشندے کوضمیرکودیکھنے کی ضرورت ہے اور سوچنا ہے کہ آزادی کامطلب کیاہے؟ کیا آج ملک میں آزادی سے لکھنے ، بولنے ، سوال پوچھنے ، اختلاف کرنے ، رائے رکھنے ، احتساب کامطالبہ کرنے کی آزادی ہے؟ ایک ذمہ دار حزب اختلاف کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہندوستان کی جمہوری آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ہرممکن کوشش اور جدوجہد کریں۔
نئی دہلی:وزیراعلیٰ اروندکیجریوال نے ہفتے کے روزکہاہے کہ دہلی حکومت اس وقت تک اسکول نہیں کھولے گی جب تک کہ شہرمیں کوروناکی بہتر حالت کے بارے میں مکمل طور پر یقین نہیں ہوجاتا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بدعنوانی ، ماحولیات اور صفائی ستھرائی کے سلسلے میں تین اپیلیں کیں۔ہفتے کے روزدہلی سیکریٹریٹ میں یوم آزادی کے اپنی تقریر میں سی ایم کیجریوال نے کہاہے کہ قومی دارالحکومت میں دومہینے پہلے کی نسبت کوویڈ 19 کی صورتحال اب قابومیں ہے۔ وزیراعلیٰ نے کورونا سے نمٹنے کے لیے مرکزی حکومت کورونا واریرس اورمختلف تنظیموں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرزکاشکریہ اداکیاہے۔ وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ عام آدمی پارٹی (آپ) کی حکومت کے لیے اسکول کے بچوں کی حفاظت اورصحت بہت ضروری ہے۔وزیراعلیٰ کیجریوال نے کہاہے کہ میں لوگوں سے ملتارہتاہوں۔لوگوں کاکہنا ہے کہ ابھی اسکول نہیں کھولے جائیں۔ میں انہیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم ان کے بچوں کی اتنی ہی پرواہ کرتے ہیں جتنا وہ کرتے ہیں۔ ہم اس وقت تک اسکول نہیں کھولیں گے جب تک کہ ہمیں پوری طرح سے یقین نہ آجائے۔کجریوال نے کہاہے کہ دہلی نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں آئسولیشن اور پلازما تھراپی کے لیے ایک ماڈل متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ دہلی کی معیشت کوپٹری پرلانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ بتادیں کہ اس سال کوروناوائرس کے وبا کی وجہ سے دہلی حکومت نے دہلی سیکرٹریٹ میں یوم آزادی کے پروگرام کا انعقاد کیا۔ اس سے قبل یہ چھترسال اسٹیڈیم میں منعقدہواتھا۔
نئی دہلی:ایل اے سی یا ایل او سی کے وزیر اعظم مودی کے بیان پر کانگریس نے کہا ہے کہ صرف یہ کہناکافی نہیں ہے ۔ وزیراعظم مودی کے ایل اے سی یا ایل او سی کے بیان پر کانگریس نے کہاہے کہ صرف بولناکافی نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 74 ویں یوم آزادی کے موقع پر چین اورپاکستان کانام لیے بغیر اپنے خطاب میں کہاہے کہ ایل اے سی سے لے کر ایل او سی تک کسی کوبھی ، ملک کی خودمختاری پر نگاہ رکھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ملک کی فوج نے اورہمارے بہادر فوجیوں نے اسی زبان میں اس کاجواب دیاہے۔ وزیر اعظم کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کانگریس نے کہا ہے کہ صرف بولناہی کافی نہیں ہے۔نیوزایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کانگریس کے لیڈراحمدپٹیل نے کہاہے کہ صرف بولنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے ، اگر انہوں نے جواب دیاتوہم خوش ہوں گے۔ ہمیں وزیر اعظم کے کہنے پر اعتماد کرناچاہیے۔ لیکن وزیر اعظم اور ان کی حکومت حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔ حقیقت اچھی نہیں ہے۔ اگر وہ (چینی فوجی) ہمارے علاقے میں داخل ہوجائیں تووزیر دفاع کچھ کہتے ہیں اور وزیر اعظم کچھ اورکہتے ہیں۔
الہ آباد:اجودھیامیں مندرکی تعمیرکے لیے تحریک کی قیادت کرنے والے وشو ہندو پریشد کے سابق سربراہ اشوک سنگھل کوبھارت رتن دینے کا مطالبہ زورپکڑنے لگاہے۔ یوپی کے نائب وزیراعلیٰ کیشیو پرساد موریہ کی حمایت کے بعد اب سنتوں اوراکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد نے نہ صرف اس مطالبے کاجوازپیش کیا ہے ، بلکہ اشوک سنگھل کودوسرابابائے قوم قرار دینے کی وکالت کی ہے۔اکھاڑا پریشد کے صدر مہنت نریندر گِری نریندر مودی اور ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر اشوک سنگھل کوبھارت رتن دینے کے ساتھ ساتھ بابائے قوم کالقب دینے کامطالبہ کریں گے ۔جب کہ یہ اعزازصرف مہاتماگاندھی کوہے۔ ان کے مطابق اشوک سنگھل کو ایسا اعزاز ملناچاہیے تاکہ ان کی حیثیت بابائے قوم مہاتما گاندھی کے برابر ہوسکے۔مہنت نریندر گیری کہتے ہیں کہ اشوک سنگھل ایسے گھریلوسنت تھے جنہوں نے رام مندر کے ساتھ مل کر ان کو متحدکرنے کے لیے سناتن مذہب میں شعور پیدا کیاتھالہٰذا جلد ہی انہیں سنت سماج اور اکھاڑا پریشد کی طرف سے ایک اعزازسے نوازاجائے گا۔
نئی دہلی:سرحدی تناؤکے درمیان نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے ہفتے کے روز یوم آزادی کے موقعے پروزیر اعظم نریندرمودی سے بات کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ دونوں ممالک کے لیڈروں کے مابین تقریباََ 10 منٹ کی بات چیت ہوئی۔ ہندوستان اور نیپال کے مابین کشیدگی سامنے آنے کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان یہ پہلاموقع ہے۔کے پی اولی نے فون پردیگرموضوعات پر بھی بات چیت کی۔ ذرائع کے مطابق اولی کا مطالبہ ہے کہ اس مکالمے کو کسی کی فتح یا شکست کے طور پر نہیں لیا جاناچاہیے۔ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ دونوں طرف سے کوششیں کی جارہی ہیں۔اس سے پہلے رام اوراجودھیاپربھی انھوں نے بیان دیاتھا۔
علی گڑھ:ہندوستان کثرت میں وحدت اور رواداری کی علامت ہے اور مذہبی و ثقافتی تنوع کے باوجود ہمارا ملک دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں لوگ امن و آشتی کے ساتھ رہتے ہیں۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ہندوستان کو سبھی کے لئے ایک کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی، کثیر لسانی، کثیر نسلی سماج بنانے کی خاطر جس میں کثرت میں وحدت واضح طور سے نظر آئے اور سماج کے مختلف حلقوں کی امنگوں کا عکس ہو، ہندوستان کا جو تصور پیش کیا اسے آئین ہند میں شامل کیا گیا جس سے ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک بن سکا۔ ان خیالات کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے 74ویں جشن یوم آزادی کے موقع پر کیا۔ یونیورسٹی کے تاریخی اسٹریچی ہال پر قومی پرچم لہرانے کے بعد پروفیسر منصور نے مجاہدین آزادی بشمول پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد ، سبھاش چندر بوس اور دیگر کو بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کرنے کا دن ہے۔ انھوں نے کہا ’’مجاہدین آزادی کی جدوجہد اور مسلسل کوششوں کی بدولت ہی ہم آج آزاد ہندوستان میں سانس لے رہے ہیں۔ ہماری قوم شہید بھگت سنگھ، اشفاق اللہ خاں، خودی رام بوس، چندر شیکھر آزاد اور دیگر مجاہدین کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرسکتی‘‘۔کووِیڈ-19کے پیش نظر چنندہ اساتذہ اور طلبہ کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر نے تعلیم، بنیادی ڈھانچہ، ٹکنالوجی، معاشی ترقی، خلائی تحقیق، غربت کے خاتمہ، غذائی تحفظ اور جمہوری اداروں کے استحکام میں ملک کی حصولیابیوں پر فخر و مسرت کا اظہارکیا۔ بانیٔ درسگاہ سرسید احمد خاں علیہ الرحمہ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر منصور نے کہا ’’سرسید کا وِژن سیکولرزم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تصور پر مبنی تھا اور ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کی بھرپور نمائندگی کرتا تھا۔ وہ پوری طرح ایک قوم پرست اور سیکولر رہنما تھے اور بہت پہلے ہی انھوں نے محسوس کرلیا تھا کہ ہندوستان کا مستقبل مختلف مذاہب کے پرامن بقائے باہم میں پنہاں ہے۔ ان کی دور اندیش آنکھوں نے یہ بھی دیکھ لیا تھاکہ ایسے سماج کی بقا ء اور ترقی سبھی طبقات کے لئے یکساں انصاف پر منحصر ہوگی‘‘۔ وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے اساتذہ اور موجودہ و سابق طلبہ سمیت سبھی سے اپیل کی کہ وہ ملک اور ادارے کی ہمہ جہت ترقی کے لئے سنجیدہ کوششیں کریں۔ یوم آزادی کی تقریب کے بعد وائس چانسلر نے سرسید ہال کے احاطہ میں پودے لگائے ۔ پرچم کشائی کی تقریب یونیورسٹی کے سبھی کالجوں اور اسکولوں میں اور اقامتی ہالوں میں بھی جوش و خروش کے ماحول میں ہوئی۔
مجھے بی جے پی نے ٹکٹ کی پیش کش کی تھی،مگر میں نے کبھی سیاست کے بارے میں نہیں سوچا:کنگنا رناوت
نئی دہلی:کنگنا رناوت پچھلے کچھ دنوں سے سوشانت سنگھ راجپوت کیس میں اپنے بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ صرف یہی نہیں،کئی بار کنگناوزیر اعظم نریندر مودی کی کھلی حمایت کی وجہ سے بھی خبروں میں رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں کنگنا نے اپنے ٹرولز کو جواب بھی دیا ہے۔ کنگنا نے دو ٹویٹس کیے۔ پہلے ٹویٹ میں کنگنا نے لکھا’ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ میں مودی جی کی حمایت کرتی ہوں کیونکہ میں سیاست میں حصہ لینا چاہتی ہوں۔تو میں انھیں بتادوں کہ میرے دادا 15 سال تک کانگریس کے ایم ایل اے رہے ہیں۔ میرے گھر والے ہمیشہ سے سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔ فلم گینگسٹر کے بعد سے مجھے تقریبا ہر سال کانگریس کی جانب سے آفرز مل رہی ہیں‘۔اس کے بعد کنگنا نے ایک اور ٹویٹ کیا’فلم منی کرنیکا کے بعد مجھے بی جے پی نے بھی ٹکٹ کی پیش کش کی تھی۔ مجھے اپنا کام پسند ہے اور میں نے کبھی سیاست میں جانے کا نہیں سوچا۔ لہذا جو لوگ مجھے ٹرول کررہے ہیں انہیں اپنی اس حرکت سے باز رہنا چاہئے‘۔
نئی دہلی:ٹیم انڈیا کے سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی نے انٹرنیشنل کرکٹ کو الوداع کہہ دیا ہے۔ دھونی نے سوشل میڈیا کے ذریعے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے۔ دھونی پہلے ہی ٹیسٹ کرکٹ کو الوداع کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے ایک ویڈیو شیئر کی ، جس میں ان کے پسندیدہ گلوکار کشور کمار کا گایا ہوا گانا ‘مین پل دو پل کا شاعر ہوں.’۔بج رہا تھا۔ اس گانے سے دھونی نے بین الاقوامی کرکٹ کو الوداع کہا ہے۔ انہوں نے اپنا آخری بین الاقوامی میچ پچھلے سال جولائی میں کھیلا تھا۔ 2019 کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بھارت کو نیوزی لینڈ کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہی دھونی کا آخری بین الاقوامی میچ تھا۔ دھونی ٹیم انڈیا کے سب سے کامیاب کپتان رہے ہیں۔ وہ دنیا کے واحد کپتان ہیں، جس نے اپنی کپتانی میں ٹیم کو تین تین آئی سی سی ٹرافیز دی ہیں۔ دھونی کی کپتانی میں ہندوستان نے 2007 کا ٹی 20 ورلڈ کپ ، 2011 ورلڈ کپ اور 2013 میں چیمپئنز ٹرافی ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔ دھونی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انڈین پریمیر لیگ میں کھیلیں گے۔ دھونی چنئی سپر کنگز کے کپتان ہیں اور آئی پی ایل کے 13 ویں سیزن کے ٹریننگ کیمپ میں شرکت کے لئے چنئی پہنچ گئے ہیں۔