پٹنہ:بہار میں اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کے بیچ، ریاستی الیکشن آفس نے 26 جون کو ایک کل جماعتی اجلاس طلب کیا ہے۔ اس اجلاس میں تمام منظور شدہ پارٹیوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ کمیشن بہار میں انتخابات کرانے کے لئے سیاسی جماعتوں سے تجاویز طلب کرے گا۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈیجیٹل تیاریوں پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ الیکشن میں رونما ہونے والی نئی تبدیلیوں کے بارے میں معلومات شیئر کریں گے۔ریاستی ڈپٹی چیف انتخابی افسر بیجوناتھ کمار سنگھ نے کہا کہ بہار میں انتخابات کی تیاریوں کو سیاسی جماعتوں کی رائے کی بنیاد پر حتمی شکل دی جائے گی۔ کل جماعتی اجلاس میں تمام منظور شدہ جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ ہر ایک سے تجاویز طلب کی جائیں گی۔
24 جون, 2020
نئی دہلی:دہلی میں ڈیزل کی قیمت پٹرول سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تقریباً18 دن سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ رفتار برقرار رہی تو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 100 روپے کو عبور کرسکتی ہیں۔ بدھ کے روز ڈیزل کی قیمت میں 48 پیسے کا اضافہ ہوا۔ اب دہلی میں ایک لیٹر ڈیزل کی قیمت بڑھ کر 79.88 روپے فی لیٹر کردی گئی ہے۔ یہ لگاتار 18 ویں دن ہے جب ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔انڈیا ٹوڈے ہندی کے ایڈیٹر انشومن تیواری کا کہنا ہے کہ تیل کمپنیوں نے ہندوستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ اس وقت شروع کیا جب خام تیل کافی نیچے 19 ڈالر فی بیرل تھا۔ تو اب خام تیل کی شرح بڑھ رہی ہے۔ برینٹ کروڈ 40 ڈالر فی بیرل کے قریب پہنچ گیا ہے۔تیل کمپنیوں کے پاس جو انوینٹری ہے اس میں بھی انہیں نقصان ہورہا ہے۔ مطالبہ کم ہوگیا ہے اس لیے وہ اپنے مارجن میں اضافہ کرکے اس نقصان کی تلافی کریں گے۔ حکومت نے ایکسائز ڈیوٹی میں تقریبا 13 روپے کا اضافہ کیا ہے۔ اس کا بھی سارا بوجھ صارفین پر نہیں ڈالا گیا ہے۔ ایسی صورت میں یہ فطری بات ہے کہ مزید شرحوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ اگر یہ رفتار برقرار رہی تو حیرت کی کوئی بات نہیں ہوگی کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت 100 روپے فی لیٹر کو عبور کرجائے گی۔
نئی دہلی:کورونا کی دوا کورونل بنانے کا دعویٰ کرنے والی پتنجلی کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہیں۔ راجستھان حکومت نے بابا رام دیو کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بات کی ہے، لہذا اب اتراکھنڈ حکومت بھی پتنجلی کو نوٹس بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اتراکھنڈ کا آیوروید محکمہ نوٹس جاری کرے گا تاکہ یہ پوچھے کہ دوائی شروع کرنے کی اجازت کہاں سے آئی ہے؟اتراکھنڈ آیوروید محکمہ کے لائسنس افسر کا کہنا ہے کہ ہم نے پتنجلی کی درخواست پر لائسنس جاری کیا۔ اس درخواست میں کہیں بھی کورونا وائرس کا ذکر نہیں تھا۔ اس میںکہا گیا کہ ہم امیونٹی بڑھانے، بلغم اور بخار کی دوائی بنانے کا لائسنس لے رہے ہیں۔ محکمہ کی جانب سے پتنجلی کو نوٹس بھجوایا گیا ہے۔اس سے قبل راجستھان حکومت بابا رام دیو کے کورونا کی دوا کورونیل کی تلاش کرنے کے دعوے کو دھوکہ دہی قرار دے چکی ہے۔ راجستھان حکومت کے وزیر صحت رگھو شرما کا کہنا ہے کہ وبائی مرض کے وقت بابا رام دیو نے اس طرح کورونا دوائیں بیچنے کی کوشش کی ہے، جو اچھی بات نہیں ہے۔وزیر صحت رگھو شرما نے کہا کہ آیوش وزارت کی گزٹ کے نوٹیفکیشن کے مطابق بابا رام دیو کو کسی بھی کورونا آیور وید دوا کے ٹرائل کے لئے آئی سی ایم آر اور حکومت راجستھان سے اجازت لینا چاہئے تھا، لیکن بغیر کسی اجازت اور کسی معیار کے ٹرائل کا دعوی کیا گیا جو غلط ہے۔
حج سے متعلق سعودی حکومت کا فیصلہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے: مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی :
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے خادم حرمین شریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز کے ذریعہ حج 2020 کو موقوف نہیں بلکہ مختصر کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے جوقابل ستائش ہے، انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اس بات کو لے کر لوگوں کے ذہنوں میں یہ خدشات مسلسل پیدا ہورہے تھے کہ خدا نخواستہ کورونا جیسی مہلک وبا کے پیش نظر کہیں اس سال حج کو موقوف نہ کردیا جائے، لیکن اب جو یہ فیصلہ آیا ہے اس سے ہمیں بے انتہا خوشی ہوئی ہے کہ چند قیود کے ساتھ اس سال بھی حج ہوگا اور سعودی عرب میں پہلے سے مقیم مسلمانوں کو بھی یہ سعادت حاصل ہوسکتی ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات میں جب پوری دنیا اورخودسعودی عرب کورونا جیسی مہلک وبا میں مبتلا ہے اس سے بہتر کوئی دوسرا فیصلہ نہیں ہوسکتا تھا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ کورونا کے مہلک ہونے اور اس بیماری کے عالمی وباء کی شکل اختیارکرنے کے بعد سوشل ڈسٹینسنگ کے قواعد نے بہت ساری چیزوں کو محدودکردیا ہے۔ماہرین صحت نے لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے روک دیا ہے، جس کے بعد سعودی حکومت کو اس طرح کا فیصلہ کرنا پڑا،جوقابل قدرہے اور سعودی حکومت کے اس فیصلہ نے لوگوں کے دلوں میں اس سال کے حج کولیکر پائے جانے والے خدشات کو بھی دورکردیا ہے۔ خود سعودی عرب اس مہلک وباء سے محفوظ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق 22جون تک سعودی عرب میں،جس کی آبادی2018کی مردم شماری کے مطابق 3 کڑوڑ 37 لاکھ ہے، اب تک ایک لاکھ ایکسٹھ ہزار افراد کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں، جن میں سے 1307لوگوں کی موت ہوچکی ہے اور دن بدن متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔مولانامدنی نے کہا کہ اسلام کا یہ واضح پیغام ہے کہ بیماری سے نہ صرف خود بچیں بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بچائیں۔اورآپ ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر آپ کسی وباء والی بیماری کی جگہ پر ہیں تو وہاں سے نہ نکلیں اور بیماری والی جگہ سے دور ہیں تو وہاں ہرگز نہ جائیں۔اور چوں کہ کورونا ایک عالمی وباء ہے اور اب تک اس کا کوئی علاج سامنے نہیں آیا ہے، احتیاطی تدبیر ہی اس کا واحد علاج ہے۔ ایسے میں سعودی حکومت کا یہ فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ پوری دنیا کورونا جیسی وباکے آگے بے بس دکھائی دیتی ہے ایسے میں ہم دعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پوری دنیا اورخاص طورپر حرمین شریفین کو اس مہلک وباسے جلد ازجلد راحت دے اور اس وباکا خاتمہ کرے۔آمین:
نئی دہلی:مرکزی حکومت نے اس سال ہندوستان سے عازمین حج کے لئے نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکزی اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے کہا کہ ایسا فیصلہ کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے کیا گیا ہے۔نقوی نے بتایاکہ گذشتہ رات سعودی عرب کی حکومت کے وزیر حج کا فون آیا تھا۔ انہوں نے پوری دنیا میں کورونا کی وبا کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس بار عازمین حج کو ہندوستان سے نہیں بھیجا جانا چاہئے۔اس لیے ہم نے سعودی عرب کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس بار ہندوستانی حاجیوں کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمام 2 لاکھ 30 ہزار حجاج کرام کی رقم واپس کردی جائے گی۔ ہندوستانی حج کمیٹی نے گزشتہ ہفتہ حج پر نہ جانے کے خواہشمند افراد کو رقم واپس لینے کا اختیار بھی دیا تھا۔اہم بات یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے قیاس آرائوں کے بعد سعودی حکومت نے حج پر کچھ پابندیوں کی اجازت دی ہے۔ اس سال صرف سعودی شہری اور تارکین وطن حج کر سکتے ہیں۔ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ لوگوں کی حفاظت کے پیش نظر محدود تعداد میں لوگوں کو حج کی اجازت ہے۔ سعودی عرب میں مسلسل کورونا وائرس کے معاملے سامنے آرہے ہیں۔
یہ جائز سوالوں کے جواب دینے کا وقت ہے تو تو میں میں اور آپسی تکرار کا وقت نہیں ہے ۔
ہندوستان اور چین کے درمیان جو ‘جھڑپ’ ہوئی اس میں بیس بھارتی جوان شہید ہوئے، گیارہ جوان چینی قبضے میں چلے گئے تھے جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا، وادی گلوان پر چین کا مکمل دعویٰ ہے، اور خبر ہے کہ وہ گلوان سے بہنے والی ندی کے دھارے کو موڑنے کے لیے کوشاں ہے، چینی فوج بلندی پر بیٹھی ہوئی ہے لہذا اسے ایک طرح سے تزویری برتری حاصل ہے، ایسے میں تو تو میں میں کی بجائے مرکزی حکومت اور اپوزیشن کو مل کر ایک دوسرے کے جائز سوالوں کے جواب دینے کی اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ چین سے کیسے اس طرح نمٹا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی چین وادی گلوان پر سے اپنا دعویٰ بھی چھوڑ دے اور اس علاقے میں اس ‘جھڑپ’ سے پہلے والی پوزیشن میں واپس آ جائے ۔ یہ کام آسان نہیں ہے کیونکہ چین کے استعماری عزائم کسی سے بھی ڈھکے اور چھپے ہوئے نہیں ہیں ۔بات صرف وادی گلوان ہی کی نہیں ہے بلکہ چین کی نظریں پورے لداخ پر گڑی ہوئی ہیں ۔ہندوستان اور چین کے بیچ ایک لمبی سرحد ہے جہاں سال بھر حالات تقریباً کشیدہ ہی رہتے ہیں ۔ کانگریسی لیڈر پی چدمبرم کا دعویٰ ہے کہ 2015 سے لے کر اب تک مودی راج میں چین سرحد پار سے 2264 بار گھس پیٹھ کر چکا ہے ۔یہ اعداد و شمار چدمبرم نے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پیش کیے کہ 2010 سے 2013 کے بیچ یعنی جب کانگریس کی حکومت تھی اور منموہن سنگھ وزیراعظم تھے چین نے 600 بار گھس پیٹھ کی تھی۔نڈا نے تو یہ دعویٰ تک کردیا کہ اس وقت کی کانگریسی حکومت نے 43000 کلو میٹر کا ہندوستانی علاقہ چین کو سرنڈر کر دیا تھا۔چدمبرم نے اپنے بیان میں نڈا کے دعوے کو خارج کرتے ہوئے بی جے پی پر سخت وار کیا کہ کانگریس کے دور میں نہ تو کسی ہندوستانی علاقے پر چین قبضہ کر سکا اور نہ ہی کسی پر تشدد ‘جھڑپ’ میں بھارتی جوان مارے گئے ۔دونوں ہی جانب سے الزام در الزام کا سلسلہ جاری ہے ۔ کانگریس بالخصوص سونیا گاندھی اور راہل گاندھی روزانہ ہی مودی سرکار پر چین کے معاملے میں سوال کھڑے کر رہے ہیں ۔سوالات کا اٹھانا ایک جمہوری عمل ہے اور ایسے میں سوالات ضروری بھی ہو جاتے ہیں جب سوال کرنے والے یا والوں کو قوم دشمنوں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔بی جے پی نے جائز سوالوں کو بھی قوم دشمنی سے جوڑ دیا ہے، گویا یہ کہ اس ملک میں بی جے پی کی نظر میں قوم پرستی صرف اسی کی جاگیر ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایسا رویہ ہے جو اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو مزید سوالوں پر اکسا رہا ہے ۔جب سوال حالیہ جھڑپ پر اٹھایا جاتا ہے تو بی جے پی 1962 اور ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی بات کرنے لگتی ہے نتیجے میں کانگریس کا رویہ مزید سخت ہو جاتا ہے ۔ماضی کو فراموش کر کے حال پر نظر رکھنی ہو گی، ماضی پر بس اتنی نظر ضروری ہے کہ تب کی غلطیاں دوہرائی نہ جا سکیں۔1962 میں ہندوستان، چین کے مقابلے بہت کمزور تھا لیکن بھارتی جوانوں نے مقابلہ تو کیا تھا، یہ کہہ کر ان کی بہادری پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جانا چاہئے کہ ہندوستان نے چین کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔اگر ماضی کے گڑے مردے اکھاڑے جاتے رہے تو حال نظروں سے غائب ہو جائے گا اور چین کو من مانی کرنے کے لیے مانگی مراد مل جائے گی ۔بہتر یہ ہوگا کہ مرکزی سرکار اس معاملے میں شفافیت برتے، اپوزیشن کے جائز سوالوں کے جواب دے ۔اور اپوزیشن مرکزی حکومت کو صرف سیاسی برتری کے لیے کٹگھرے میں کھڑا کرنے کی کوشش نہ کرے، بلکہ حالات کی بہتری کے لیے حکومت سے پورا تعاون کرے۔
ملک کے لیے یہ ایک کٹھن گھڑی ہے، چین نے نیپال کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور وہ آنکھیں دکھانے لگا ہے ۔بنگلہ دیش پوری طرح سے چین کی گود میں جا کر بیٹھ گیا ہے، اور پاکستان سے کشیدگی چلی ہی آ رہی ہے ۔سری لنکا بھی روٹھا روٹھا ہے، ایسے میں ہندوستان کو ایسا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے جو پڑوسی ممالک کو چین کے دامن سے نکال بھی لائے اور اس کی سالمیت اور اقتدار پر بھی کوئی فرق نہ پڑے۔آج جبکہ کورونا کی وباء نے ملک کے معاشی حالات دگرگوں کر دیئے ہیں ملک کسی بھی طرح کی اور کسی کے بھی ساتھ لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا سیدھا مطلب تباہی ہوگا۔حکومت اور اپوزیشن دونوں کومتحد ہوکر اس سمت میں کام کرنا ہو گا ۔فوج اور سفارت کاری کی سطح پر مذاکرات کی جو کوششیں جاری ہیں ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔لیکن حقیقی حل تو سیاست دانوں کے ہی ہاتھ میں ہے اور اس کے لیے سب کا ایک رائے ہونا ضروری ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
آگرہ:کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کے ٹویٹ پر ہنگامہ ہوگیا ہے۔ آگرہ میں کورونا کی وجہ سے اموات سے متعلق ان کے ٹویٹ نے ریاستی حکومت میں ہلچل مچا دی۔ صرف یہی نہیں آگرہ کے ضلعی مجسٹریٹ نے یہ ٹویٹ گمراہ کن قرار دیتے ہوئے انہیں نوٹس بھیجا ہے۔ کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے ایک اخباری رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ آگرہ میں گزشتہ 48 گھنٹوں میں 28 اموات ہوچکی ہیں۔ صرف یہی نہیں اس نے آگرہ کا رول ماڈل ہونے پر بھی طنز کیا ۔اس ٹویٹ پر ریاستی حکومت کی سطح پر سنسنی پھیل گئی۔ ادھر پیر کے روز آگرہ کے ڈی ایم نے کہا کہ مارچ کے بعد سے آگرہ سے 79 اموات ہوچکی ہیں۔ اخبار میں شائع ہونے والی خبریں غلط ہیں۔ معاملہ یہیں نہیں رکا۔ سرخیوں میں آتے ہی پرینکا کا ٹویٹ اخباروں میں چھا گیا۔ ڈی ایم آگرہ نے منگل کی صبح پرینکا گاندھی کو نوٹس جاری کیا ہے۔ نوٹس میں کانگریس کے جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹویٹ کے ذریعے پوسٹ کی گئی خبروں کی تردید کریں۔ ڈی ایم نے لکھا ہے کہ کورونا سے لڑنے والی ٹیم کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کانگریس کی جنرل سکریٹری نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ آگرہ میں داخل 28 کورونا مریضوں کی 48 گھنٹوں میں موت ہوگئی۔ یوپی حکومت کے لئے کتنی شرم کی بات ہے کہ اس ماڈل کے جھوٹے پروپیگنڈے سے حقیقت کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ حکومت کی ’نو ٹیسٹ، نوکورونا‘پر سوالات تھے لیکن حکومت نے اس کا جواب نہیں دیا۔
لکھنو:ہندوستان اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک مستقل آواز اٹھ رہی ہے۔ اترپردیش میں اس سلسلے میں ایک بڑا فیصلہ لیا گیا ہے۔ اب یوپی میں چین میں بنائے گئے بجلی کے میٹر نہیں ہوں گے۔ یہ فیصلہ ریاستی صارف کونسل کی شکایت کے بعد لیا گیا ہے۔میٹر کے علاوہ چینی آلات پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یوپی کے گورکھپور میں لگائے گئے 15 ہزار چینی میٹروں کو نکال دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی میٹر اور آلات کو استعمال نہ کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ وزیر توانائی نے جائزہ اجلاس میں ہدایات جاری کئے۔ ابھی تک مرکزی حکومت کے معاہدے کے تحت یوپی میں چین کے بجلی کے آلات استعمال ہورہے تھے، لیکن ریاستی حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی ہے۔ہریانہ حکومت نے چینی کمپنیوں کے معاہدوں کو منسوخ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ہریانہ میں چینی کمپنیوں کو دیئے گئے 2 تھرمل پاور اسٹیشنوں کے معاہدے منسوخ کردیئے گئے ہیں۔ یمنا نگر اور حسار تھرمل پلانٹوں کے لئے بیڈنگ ہوئی تھی۔ اس میں 2 کمپنیوں کو 2 تھرمل پاور اسٹیشنوں کے معاہدے ہوئے۔ دونوں کمپنیاں چینی تھیں۔ لیکن اس کے بعد ہریانہ حکومت نے اب ان معاہدوں کو منسوخ کردیا ہے۔ہریانہ کے علاوہ ہندوستانی ریلوے نے بھی چینی کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم کردیا۔ 2016 میں چینی کمپنی سے ہندوستانی کمپنی کے ساتھ 471 کروڑ روپے کا معاہدہ ہوا تھا، جس میں اسے 417 کلومیٹر لمبے ریلوے ٹریک پر سگنل سسٹم لگانا تھا۔
اقتصادی بحران اور چین کے ساتھ تعطل کی بنیادی وجہ حکومت کی بدانتظامی:سونیاگاندھی
نئی دہلی:منگل کو کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے الزام لگایا کہ بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کی بدانتظامی اور پالیسیاں معاشی بحران، کورونا وائرس کی وبا اور چین کی سرحد کے ساتھ تناؤ سے متعلق بحران کی بنیادی وجوہات ہیں۔ پارٹی کی سونیا نے کہا کہ ہندوستان ایک خوفناک معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے، اسے وسیع پیمانے پر وبا کا سامنا ہے اور اب چین کے ساتھ سرحدی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ان میں سے ہر بحران کی بڑی وجہ بد انتظامی اور بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی پالیسیاں ہیں۔ سونیا نے یہ بھی دعوی کیا کہ حکومت پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے۔کانگریس صدر کے مطابق وقت کی ضرورت ایک بڑا ترغیبی پیکیج مہیا کرنا، غریبوں کے ہاتھوں میں براہ راست رقم دینا اور ایم ایس ایم ای کی حفاظت کرنا ہے۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اجلاس میں کہا کہ اگر سرحد پر بحران کے ساتھ مضبوطی سے نمٹا نہیں گیا تو سنگین حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کورونا کی وبا کا مقابلہ اس ہمت اور بہادری سے نہیں کررہی ہے جس کی ضرورت ہے۔